Welcome!

اُردو دنیا کا نمبر ون اردو اسٹوری فورم آج ہی اس کے ممبر بنیں اور بہترین کہانیوں سے لطف اندوز ہوں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

جگ تجھ پہ وار دیا

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • Classic Story جگ تجھ پہ وار دیا

    شاہ سائیں کی حویلی کے مردان خانے میں اس وقت الگ الگ صوفوں پہ دو نفوس آمنے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔عورت کے چہرے پہ دکھ ، اذیت، اور پریشانی کے واضح آثار موجود تھے جبکہ سامنے بیٹھا اٹھائیس سالہ وجیہہ مرد بھی کسی گہری سوچ میں غرق تھا۔
    اسکے سامنے بیٹھی عورت کب سے آنکھوں میں آنسو لیے اک اذیت کے جہاں سے گزرتے ہوئے اسکی ایک ہاں کے لیے منتظر بیٹھی تھی۔

    "میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں بیٹا میری بیٹی کو بچا لو۔اس وقت پورے گاؤں میں تمہارے سوا میری کوئی امید کوئی آسرا نہیں اور نہ تمہارے سوا کسی اور پہ میں بھروسہ کر سکتی ہوں۔"

    "میں یہ بھی خوب جانتی ہوں کہ تم خود بھی مصیبت میں پڑ جاؤ گے۔مگر تم ہی میری پہلی اور آخری امید بھی ہو۔اگر کہتے ہو تو تمہارے پاؤں پڑ جاتی ہوں۔"

    کہتے ساتھ ہی وہ عورت اسکے پاؤں کی طرف جھکی تھی۔
    "الّٰلہ کا واسطہ ہے خالہ مجھے گنہگار مت کرو۔"

    کہتے ساتھ ہی وہ نہ صرف تیزی سے پیچھے ہوا تھا بلکہ اسکو کندھوں سے تھام کر واپس صوفے پہ بٹھایا تھا۔

    "خالہ یہ سب ٹھیک نہیں ہے۔"

    خود بھی واپس صوفے کے ساتھ ٹیک لگاتے ہوئے وہ بس اتنا ہی بول سکا۔وہ خود نہیں سمجھ پا ریا تھا کہ اسکو کیا کرنا چاہیے۔ یا کیا کہنا چاہیے؟

    سامنے جو عورت بیٹھی تھی اسکی وہ دل سے عزت کرتا تھا۔اگر کوئی اور موقع ہوتا تو یہ بات سن کر وہ شاداں و فرحاں ہو جاتا۔اسکو اپنی پرواہ نہیں تھی۔
    مگر اس لڑکی کی عزت اسکو بے حد عزیز تھی اور اسکو یہ گوارہ نہیں تھا کہ اسکی عزت پہ کوئی حرف آئے۔
    یا لوگوں کی نظر میں اسکا کردار مشکوک ہو۔
    مگر اسکے ساتھ جو ہونے جا ریا تھا وہ بھی اسکو کسی صورت قبول نہیں تھا۔

    "ٹھیک ہے خالہ تم جو کہو گی ۔جیسے کہو گی ،ویسے ہی ہوگا۔"

    آج شام 4 بجے گاؤں میں پھر پنچایت رکھی گئ تھی۔ جسکا سارا انتظام شاہ سائیں کی حویلی میں کیا گیا تھا۔ عام طور پہ تو پنچایت ڈیڑے پہ ہوتی تھی۔ مگر جب بھی کوئی عزت غیرت کا معاملہ ہوتا تو حویلی میں ہی پنچایت بیٹھتی تھی۔ اور اس میں کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے شاہ سائیں اپنی بیوی ہائمہ خاتون سے مشورہ ضرور کرتے تھے۔ بعض دفعہ کچھ ایسی باتیں ہوتی تھیں۔ جو سب کے سامنے پوچھنا یا کرنا شاہ سائیں کو ہرگز پسند نہیں تھا۔
    اور کچھ اس وجہ سے بھی کہ بنا کسی ڈر اور خوف کے لڑکی اصل بات بتا سکے۔ اسکا مشورہ انکا ہائمہ خاتوں نے ہی دیا تھا۔ جو انکو کافی معقول لگا۔
    شاہ سائیں کا فیصلہ آخری فیصلہ ہوتا تھا۔ اور یہ بات پورا گاؤں جانتا تھا کہ باقی معاملات میں تو شاہ سائیں لچک رکھ لیا کرتے ہیں۔ مگر جہاں بات عزت وناموس کی ہوتی وہ کسی کی پرواہ کیے بنا صرف حق پر فیصلہ کیا کرتے ہیں۔
    پنچایت والے دن فیصلہ ہونے تک وہ دونوں پارٹیوں میں سے کسی فریق سے نہیں ملتے تھے۔
    آج صبح سے حویلی میں ہلچل مچی ہوئی تھی۔ ہائمہ خاتون پنچایت کا سارا انتظام اپنی نگرانی میں کرواتی تھیں۔
    " سارا انتظام ہوگیا کیا ہائم"
    شاہ سائیں نے اخبار لپیٹ کر ایک سائیڈ پہ رکھتے ہائمہ خاتون سے پوچھا۔
    "جی سائیں سب ہو گیا ہے۔ لنگر کا انتظام دین محمد دیکھ رہا ہے۔"
    ہائمہ خاتون نے شاہ سائیں کی پگ کی تہہ بٹھاتے جواب دیا۔
    "کیا بات ہے ہائم۔ آپ اتنی خاموش کیوں ہیں۔ ؟
    "ہم صبح سے دیکھ رہے آپ ہم سے بھی بات نہیں کر رہیں۔"
    شاہ سائیں نے ہائمہ خاتون کے پاس آکر انکے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر پوچھا پوچھا۔
    " شاہ سمجھ میں نہیں آتا لوگ اپنی عزت کو اپنے ہاتھوں کیسے اچھال سکتے ہیں۔ بیٹی کے ہاس سے ہلکی سی گرم ہوا بھی گزر جائے تو اسکا ذکر نہیں کرتے۔ اسکو چھپا جاتے ہیں۔
    نوازے کی بیوی نے یہ اچھا نہیں کیا۔ "
    "ٹھیک کہ رہی ہیں آپ۔ اس طرح سے پورے گاؤں میں اسکا واویلا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ ان لوگوں کو ہم کبھی نہیں سمجھا سکتے۔ نہ انکی جہالت دور کر سکتے ہیں۔
    بعض دفعہ انسان اپنے جزباتی پن میں وہ قدم اٹھا لیتا ہے جسکی گونج ساری عمر کان کے پردے پھاڑتی رہتی ہے پھر۔"
    "خیر ہم پہ بھروسہ ہے ناں آپکو"؟
    "ایک آپ پہ ہی تو بھروسہ ہے شاہ۔ گاؤں والے بہت خوش قسمت ہیں جو انکو آپ کے جیسا سردار ملا۔"
    " اسی لیے ہم اداس تو ہوتے ہیں مگر فکر مند نہیں۔"
    یائمہ خاتون نے مسکراتے ہوئے شاہ کی طرف دیکھ کر کہا۔
    ہم خدا سے ہمیشہ یہی دعا کرتے ہیں ہائم کہ وہ آپکا اور گاؤں والوں کا یقین ہم پہ ہمیشہ سلامت رکھے۔ شاہ نے ہائمہ خاتون کو گلے لگاتے ہوئے کہا۔
    "اور یہ آپکے دونوں سپوت کدھر ہیں۔"؟
    "پتہ ہے ناں آج پنچایت ہے۔ "؟
    "ہم ذرا مردان خانے کا چکر لگا لیں۔ آپ دونوں کو ہمارے پاس بھیج دیں ادھر۔"
    شاہ سائیں نے باہر نکلتے ہوئے کہا۔
    مردان خانے میں قدم رکھتے انکی نظراپنے چھوٹے بیٹے پہ پڑی جو دینے کے ساتھ کسی بات پہ محو گفتگو تھا۔
    ٹھیک ہے دینے اس سے پہلے کہ بابا جاں کو پتہ چلے ہم جاکر دیکھ لیتے ہیں خود۔ صارم کی آواز شاہ سائیں کے کانوں میں پڑی تھی۔
    "کیا بات ہے پتر۔ کہاں جانے کی بات ہو رہی ہے۔"؟
    " اور یہ احتشام کدھر ہے۔ ۔"؟
    شاہ سائیں کے دماغ میں فوراً اسکا خیال آیا تھا۔ کہ جو بات بھی ہے اسی سکے متعلق ہو سکتی ہے۔ اس لیے ذرا رعب سے ہوچھا۔
    "سائیں وہ….وہ۔۔۔."
    دینا سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ کیا کہے۔ اس نے بےبسی سے صارم شاہ کی طرف دیکھا۔
    "وہ۔۔۔وہ کیا لگا رکھی ہے۔ جو بات ہے وہ پھوٹو منہ سے"
    اس بار شاہ سائیں نے دھاڑنے والے انداز میں کہا۔
    " سائیں ، احتشام شاہ سائیں رات کے ڈیرے پہ ہیں۔ انکے کچھ دوست شہر سے آئے ہیں انکے ساتھ۔"
    دینے نے ڈر کے مارے جلدی جلدی جواب دیا۔
    "تم یہ بات مجھے رات کو نہیں بتا سکتے تھے۔"؟
    شاہ سائیں اسکی بات سن کر شدید غصہ آیا تھا۔
    گاڑی میں بیٹھو اور ڈیرے پہ چلو جلدی۔"
    شاہ سائیں نے اپنا غصہ دباتے دونوں کی طرف دیکھ کر کہا۔
    دینے نے جلدی سے آگے بڑھ کر دونوں کے لیے پچھلا دروازہ کھولا۔ اور خود آگے بیٹھ کر گاڑی سٹارٹ کی۔
    دینا دل میں بہت پریشان تھا کہ وہ شاہ سائیں کے یاتھوں تو بچ گیا۔ مگر احتشام شاہ سائیں کو جب پتہ چلا کہ شاہ سائیں کو یہ میں نے بتایا تو۔۔۔۔۔۔
    سوچ کر ہی دینے کو جھرری آئی تھی۔
    صارم بھی دل ہی دل میں بیٹھا دعا کر رہا تھا کہ وہاں سب " ٹھیک" ہو۔
    ڈیرے پہنچ کر تینوں گاڑی سے اترے اور اندر کی
    طرف چل دئیے۔
    اندر پہنچ کر شاہ سائیں نے غصے سے بڑے کمرے کا دروازہ کھولا۔ مگر اندر کے منظر پہ نظر پڑتے ہی شاہ سائیں کو زور کا جھٹکا لگا۔
    شدید غصے اور طیش میں آ کر انھوں نے سامنے ہڑی میز کو زوردار لات ماری تھی۔۔


    " بیٹا تم نے دروازہ تو نہیں کھولا تھا"؟
    مہرالنساء نے پریشان لہجے میں عائلہ سے پوچھا تھا۔
    " ماں وہ۔۔۔۔"
    عائلہ نظریں جھکائے بس اتنا ہی بول سکی۔
    " بیٹا پوچھے بنا دروازہ مت کھولا کرو۔ پہلے تسلی کر لیا کرو کہ کون ہے۔
    اپنی بیٹی کے پریشان چہرے کو دیکھتے مہرالنساء نے مزید کچھ کہنے سے خود کو روکا۔ اور دونوں اندر کی طرف چل دیں.
    14 مرلے پہ محیط یہ گھر انکی واحد جائے پناہ تھا۔ جو کہ رشید احمد کے ماں باپ اپنے بیٹے کی آوارگی کی وجہ سے اپنی زندگی میں ہی عائلہ اور اسکی بچیوں کے نام کر گئے تھے۔ 8 کلے زمین بچیوں کو انکے 18 سال ہونے پہ ملنی تھی۔ جبکہ اس زمین سے ہونے والی آمدن کی نگران عائلہ ہی تھی۔
    اور اسی آمدن سے انکی گزر اوقات ہوتی تھی
    عائلہ کی بس چار بیٹیاں ، عائلہ ، عینا، ایمن ، اجالا ہیں۔
    "عائلہ بیٹا یہ دالیں اور چینی پہلے اٹھا کر بڑے ڈبے میں رکھ دو۔ ایسا نہ ہو کہ کیڑیاں آ جائیں ان پہ۔"
    مہرالنساء نے اپنی چادر اتار کر بیڈ پہ رکھتے ہوئے کہا۔
    " اور یہ بچیاں کدھر ہیں آئیں نہیں ابھی سکول سے کیا۔"؟
    نہیں ماں۔ بس آنے والی ہیں۔"
    سامان اٹھا کر کچن کی طرف جاتے عائلہ نے جواب دیا۔
    کچن میں سامان رکھتے عائلہ کا دھیان دلاور کی طرف ہی لگا ہوا تھا کہ وہ کون تھا۔
    کمرے میں لیٹی چھت کو گھورتی مہرالنساء بھی یہی سوچ رہی تھی۔
    باہر دروازہ کب سے بج رہا تھا اپنی سوچوں میں گم دونوں کو اسکا احساس نہ ہوا۔
    تھوڑی دیر بعد دروازہ زور زور سے پیٹے جانے کی آواز پہ وہ اپنے دھیان کی دنیا سے باہر آئی اور دروازہ کھولنے چل دیں
    " کہاں مری ہوئی تھی۔"؟
    " کب سے بایر کھڑا دروازہ پیٹ رہا ہوں میں۔ "
    آنے وال نے انتہائی غصے سے اندر آتے ہوئے کہا۔دروازہ کھلنے کی آواز پہ اس نے زور سے دروازے کو پش کیا تھا۔ جو مہرالنساء کے منہ پہ لگتے لگتے بچا تھا۔
    " کاش کہ مر گئ ہوتی۔ تم سے زیادہ افسوس ہے مجھے اپنے زندہ ہونے پہ۔"
    مہرالنساء نے تلخی سے جواب دیا۔
    "ہزار دفعہ کہا ہے کہ زیادہ بکواس مت کیا کر میرے سامنے۔ ایسا نہ ہو کہ کسی دن میں تیری یہ خوایش سچ میں پوری کردوں۔"
    غصے سے کہتے شیدا مہرالنساء کو مارنے کے لیے آگے بڑھا۔
    " ابا نہیں ی ی ی ی ی ۔۔۔" اپنی ماں کو بچانے
    عائلہ تیزی سے آگے ہوئی تھی۔ اور اسی لمحے بچیاں گھر میں داخل ہوئی تھیں۔
    گھر کے اندر کا منظر دیکھتے غصے سے انھوں نے اپنے باپ کی طرف دیکھا تھا۔
    " لو آگئیں۔ تم منحوسوں کی کمی تھی بس۔ سمجھاؤ اسے کہ میرے سامنے بک بک مت کیا کرے۔ زندگی اجیرن کر کے رکھ دی ہے منحوسوں نے۔
    شیدا واہی تباہی بکتا اندر جا چکا تھا۔
    بایر ماں بیٹیاں ایک دوسرے کے ساتھ لگی ایک دوسرے کو تسلی دے رہی تھیں۔


    1 کنال پہ محیط ڈیفینس میں یہ عالشان کوٹھی کہنے کو تو کوٹھی تھی۔ مگر لاہور کا سب سے بڑا کوٹھا تھا۔
    نیلم بائی سالوں سے یہاں قیام پزیر تھی۔ جسکی بڑی وجہ بڑے ہاتھوں کی پشت پناہی تھی۔ شروع شروع میں یہاں کے لوگوں نے اعتراض اٹھائے تھے۔ مگر انکو اس طریقے سے چپ کروایا گیا کہ پھر کسی کی بولنے کی ہمت نہیں ہوئی تھی۔
    جیسے جیسے رات اپنے پر پھیلاتی ویسے ویسے ہی یہاں پہ گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگنا شروع ہو جاتیں۔
    آج دلاور بہت دنوں بعد ادھر آیا تھا۔
    دلبر دلبر
    ہاں دلبر
    ہوش نہ خبر ہے
    یہ کیسا اثر ہے
    تم سے ملنے کے بعد دلبر
    بڑے سے ہال میں رقاصہ اپنے جسم کو توڑتے مرورڑتےگانے کے بولوں پہ مختلف سٹیپ کرتے گھومتے گھماتے دلاور کے پاس آکر جھکی تھی۔ اور ایک آنکھ ونک کی تھی۔
    دلاور بیٹھا برانڈی کا تیسرا پیگ چڑھا رہا تھا مگرنجانے کیوں آج اسکو نشہ نہیں چڑھ رہا تھا
    نہ اسکی آنکھوں میں وہ خمار تھا آج جو اس رقاصہ کو ناچتے دیکھ کر اسکی آنکھوں میں اتر آتا تھا۔
    چین کھو گیا ہے
    کچھ تو ہو گیا ہے
    تم سے ملنے کے بعد دلبر
    دلبر دلبر
    ہاں دلبر
    اچانک سے دلاور کی آنکھوں میں کسی کا چہرہ اترا تھا۔
    تو میرا خواب ہے
    تو میرے دل کا قرار
    دیکھ لے جان من
    دیکھ لے بس ایک بار
    چوم لے جسم کو
    ہمنشیں پاس آ آ آ
    دلاور اپنے ہوش کھو رہا تھا۔ اسکو ہر طرف اب بس وہی نظر آرہی تھی۔ اسکو بس اب وہی چاہیے تھی۔
    یکدم وہ اٹھا تھا اور رقاصہ کو اپنے بازووں میں اٹھا کر اس پہ اپنی شدتیں لٹانے لگا۔
    ساری محفل میں سناٹا چھا گیا تھا۔ آج سے پہلے محفل کے دوران کسی نے موہنی کے ساتھ یہ حرکت نہیں کی تھی۔ وہ صرف ناچتی تھی۔ اسکا ناچ نہیں تھا ۔ کوئی جادو تھا ۔ جو بن پئیے سبکو بہکا دیتا تھا۔ مگر آج دلاور تو خود اپنے بس میں نہیں تھا۔ اس کے اندر وہ آگ لگی تھی جو اسکو اندر سے جلا رہی تھی۔ اس آگ کی تپش نے آج موہنی کو بھی اپنے لپیٹے میں لے لیا تھا۔
    دلاور۔۔۔چھوڑو مجھے۔۔۔۔دلاور۔۔۔۔۔۔موہنی نے غصے سے خود کو اس سے چھڑواتے ہوئے کہا۔
    نیلم بائی بھی یکدم ہوش میں آئی تھی۔ اور فوراً اپنے بندوں کو آواز دی۔

    ​​

  • #2
    بھائی بہت ہی زبردست اسٹوری ہے سابقہ فارم میں بھی اسکی کافی اپڈیٹس تھی آپ سے التماس ہے اسکو مزید پوسٹ کریں شکریہ
    اور بھی کافی سارے سلسلے تھے میری درخواست پر بظرثانی کیجیئے گا
    شکریہ

    Comment


    • #3
      Episode، 2

      آج شام 4 بجے گاؤں میں پھر پنچایت رکھی گئ تھی۔ جسکا سارا انتظام شاہ سائیں کی حویلی میں کیا گیا تھا۔ عام طور پہ تو پنچایت ڈیڑے پہ ہوتی تھی۔ مگر جب بھی کوئی عزت غیرت کا معاملہ ہوتا تو حویلی میں ہی پنچایت بیٹھتی تھی۔ اور اس میں کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے شاہ سائیں اپنی بیوی ہائمہ خاتون سے مشورہ ضرور کرتے تھے۔ بعض دفعہ کچھ ایسی باتیں ہوتی تھیں۔ جو سب کے سامنے پوچھنا یا کرنا شاہ سائیں کو ہرگز پسند نہیں تھا۔
      اور کچھ اس وجہ سے بھی کہ بنا کسی ڈر اور خوف کے لڑکی اصل بات بتا سکے۔ اسکا مشورہ انکا ہائمہ خاتوں نے ہی دیا تھا۔ جو انکو کافی معقول لگا۔
      شاہ سائیں کا فیصلہ آخری فیصلہ ہوتا تھا۔ اور یہ بات پورا گاؤں جانتا تھا کہ باقی معاملات میں تو شاہ سائیں لچک رکھ لیا کرتے ہیں۔ مگر جہاں بات عزت وناموس کی ہوتی وہ کسی کی پرواہ کیے بنا صرف حق پر فیصلہ کیا کرتے ہیں۔
      پنچایت والے دن فیصلہ ہونے تک وہ دونوں پارٹیوں میں سے کسی فریق سے نہیں ملتے تھے۔
      آج صبح سے حویلی میں ہلچل مچی ہوئی تھی۔ ہائمہ خاتون پنچایت کا سارا انتظام اپنی نگرانی میں کرواتی تھیں۔
      " سارا انتظام ہوگیا کیا ہائم"
      شاہ سائیں نے اخبار لپیٹ کر ایک سائیڈ پہ رکھتے ہائمہ خاتون سے پوچھا۔
      "جی سائیں سب ہو گیا ہے۔ لنگر کا انتظام دین محمد دیکھ رہا ہے۔"
      ہائمہ خاتون نے شاہ سائیں کی پگ کی تہہ بٹھاتے جواب دیا۔
      "کیا بات ہے ہائم۔ آپ اتنی خاموش کیوں ہیں۔ ؟
      "ہم صبح سے دیکھ رہے آپ ہم سے بھی بات نہیں کر رہیں۔"
      شاہ سائیں نے ہائمہ خاتون کے پاس آکر انکے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر پوچھا پوچھا۔
      " شاہ سمجھ میں نہیں آتا لوگ اپنی عزت کو اپنے ہاتھوں کیسے اچھال سکتے ہیں۔ بیٹی کے ہاس سے ہلکی سی گرم ہوا بھی گزر جائے تو اسکا ذکر نہیں کرتے۔ اسکو چھپا جاتے ہیں۔
      نوازے کی بیوی نے یہ اچھا نہیں کیا۔ "
      "ٹھیک کہ رہی ہیں آپ۔ اس طرح سے پورے گاؤں میں اسکا واویلا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ ان لوگوں کو ہم کبھی نہیں سمجھا سکتے۔ نہ انکی جہالت دور کر سکتے ہیں۔
      بعض دفعہ انسان اپنے جزباتی پن میں وہ قدم اٹھا لیتا ہے جسکی گونج ساری عمر کان کے پردے پھاڑتی رہتی ہے پھر۔"
      "خیر ہم پہ بھروسہ ہے ناں آپکو"؟
      "ایک آپ پہ ہی تو بھروسہ ہے شاہ۔ گاؤں والے بہت خوش قسمت ہیں جو انکو آپ کے جیسا سردار ملا۔"
      " اسی لیے ہم اداس تو ہوتے ہیں مگر فکر مند نہیں۔"
      یائمہ خاتون نے مسکراتے ہوئے شاہ کی طرف دیکھ کر کہا۔
      ہم خدا سے ہمیشہ یہی دعا کرتے ہیں ہائم کہ وہ آپکا اور گاؤں والوں کا یقین ہم پہ ہمیشہ سلامت رکھے۔ شاہ نے ہائمہ خاتون کو گلے لگاتے ہوئے کہا۔
      "اور یہ آپکے دونوں سپوت کدھر ہیں۔"؟
      "پتہ ہے ناں آج پنچایت ہے۔ "؟
      "ہم ذرا مردان خانے کا چکر لگا لیں۔ آپ دونوں کو ہمارے پاس بھیج دیں ادھر۔"
      شاہ سائیں نے باہر نکلتے ہوئے کہا۔
      مردان خانے میں قدم رکھتے انکی نظراپنے چھوٹے بیٹے پہ پڑی جو دینے کے ساتھ کسی بات پہ محو گفتگو تھا۔
      ٹھیک ہے دینے اس سے پہلے کہ بابا جاں کو پتہ چلے ہم جاکر دیکھ لیتے ہیں خود۔ صارم کی آواز شاہ سائیں کے کانوں میں پڑی تھی۔
      "کیا بات ہے پتر۔ کہاں جانے کی بات ہو رہی ہے۔"؟
      " اور یہ احتشام کدھر ہے۔ ۔"؟
      شاہ سائیں کے دماغ میں فوراً اسکا خیال آیا تھا۔ کہ جو بات بھی ہے اسی سکے متعلق ہو سکتی ہے۔ اس لیے ذرا رعب سے ہوچھا۔
      "سائیں وہ….وہ۔۔۔."
      دینا سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ کیا کہے۔ اس نے بےبسی سے صارم شاہ کی طرف دیکھا۔
      "وہ۔۔۔وہ کیا لگا رکھی ہے۔ جو بات ہے وہ پھوٹو منہ سے"
      اس بار شاہ سائیں نے دھاڑنے والے انداز میں کہا۔
      " سائیں ، احتشام شاہ سائیں رات کے ڈیرے پہ ہیں۔ انکے کچھ دوست شہر سے آئے ہیں انکے ساتھ۔"
      دینے نے ڈر کے مارے جلدی جلدی جواب دیا۔
      "تم یہ بات مجھے رات کو نہیں بتا سکتے تھے۔"؟
      شاہ سائیں اسکی بات سن کر شدید غصہ آیا تھا۔
      گاڑی میں بیٹھو اور ڈیرے پہ چلو جلدی۔"
      شاہ سائیں نے اپنا غصہ دباتے دونوں کی طرف دیکھ کر کہا۔
      دینے نے جلدی سے آگے بڑھ کر دونوں کے لیے پچھلا دروازہ کھولا۔ اور خود آگے بیٹھ کر گاڑی سٹارٹ کی۔
      دینا دل میں بہت پریشان تھا کہ وہ شاہ سائیں کے یاتھوں تو بچ گیا۔ مگر احتشام شاہ سائیں کو جب پتہ چلا کہ شاہ سائیں کو یہ میں نے بتایا تو۔۔۔۔۔۔
      سوچ کر ہی دینے کو جھرری آئی تھی۔
      صارم بھی دل ہی دل میں بیٹھا دعا کر رہا تھا کہ وہاں سب " ٹھیک" ہو۔
      ڈیرے پہنچ کر تینوں گاڑی سے اترے اور اندر کی
      طرف چل دئیے۔
      اندر پہنچ کر شاہ سائیں نے غصے سے بڑے کمرے کا دروازہ کھولا۔ مگر اندر کے منظر پہ نظر پڑتے ہی شاہ سائیں کو زور کا جھٹکا لگا۔
      شدید غصے اور طیش میں آ کر انھوں نے سامنے ہڑی میز کو زوردار لات ماری تھی۔۔


      " بیٹا تم نے دروازہ تو نہیں کھولا تھا"؟
      مہرالنساء نے پریشان لہجے میں عائلہ سے پوچھا تھا۔
      " ماں وہ۔۔۔۔"
      عائلہ نظریں جھکائے بس اتنا ہی بول سکی۔
      " بیٹا پوچھے بنا دروازہ مت کھولا کرو۔ پہلے تسلی کر لیا کرو کہ کون ہے۔
      اپنی بیٹی کے پریشان چہرے کو دیکھتے مہرالنساء نے مزید کچھ کہنے سے خود کو روکا۔ اور دونوں اندر کی طرف چل دیں.
      14 مرلے پہ محیط یہ گھر انکی واحد جائے پناہ تھا۔ جو کہ رشید احمد کے ماں باپ اپنے بیٹے کی آوارگی کی وجہ سے اپنی زندگی میں ہی عائلہ اور اسکی بچیوں کے نام کر گئے تھے۔ 8 کلے زمین بچیوں کو انکے 18 سال ہونے پہ ملنی تھی۔ جبکہ اس زمین سے ہونے والی آمدن کی نگران عائلہ ہی تھی۔
      اور اسی آمدن سے انکی گزر اوقات ہوتی تھی
      عائلہ کی بس چار بیٹیاں ، عائلہ ، عینا، ایمن ، اجالا ہیں۔
      "عائلہ بیٹا یہ دالیں اور چینی پہلے اٹھا کر بڑے ڈبے میں رکھ دو۔ ایسا نہ ہو کہ کیڑیاں آ جائیں ان پہ۔"
      مہرالنساء نے اپنی چادر اتار کر بیڈ پہ رکھتے ہوئے کہا۔
      " اور یہ بچیاں کدھر ہیں آئیں نہیں ابھی سکول سے کیا۔"؟
      نہیں ماں۔ بس آنے والی ہیں۔"
      سامان اٹھا کر کچن کی طرف جاتے عائلہ نے جواب دیا۔
      کچن میں سامان رکھتے عائلہ کا دھیان دلاور کی طرف ہی لگا ہوا تھا کہ وہ کون تھا۔
      کمرے میں لیٹی چھت کو گھورتی مہرالنساء بھی یہی سوچ رہی تھی۔
      باہر دروازہ کب سے بج رہا تھا اپنی سوچوں میں گم دونوں کو اسکا احساس نہ ہوا۔
      تھوڑی دیر بعد دروازہ زور زور سے پیٹے جانے کی آواز پہ وہ اپنے دھیان کی دنیا سے باہر آئی اور دروازہ کھولنے چل دیں
      " کہاں مری ہوئی تھی۔"؟
      " کب سے بایر کھڑا دروازہ پیٹ رہا ہوں میں۔ "
      آنے وال نے انتہائی غصے سے اندر آتے ہوئے کہا۔دروازہ کھلنے کی آواز پہ اس نے زور سے دروازے کو پش کیا تھا۔ جو مہرالنساء کے منہ پہ لگتے لگتے بچا تھا۔
      " کاش کہ مر گئ ہوتی۔ تم سے زیادہ افسوس ہے مجھے اپنے زندہ ہونے پہ۔"
      مہرالنساء نے تلخی سے جواب دیا۔
      "ہزار دفعہ کہا ہے کہ زیادہ بکواس مت کیا کر میرے سامنے۔ ایسا نہ ہو کہ کسی دن میں تیری یہ خوایش سچ میں پوری کردوں۔"
      غصے سے کہتے شیدا مہرالنساء کو مارنے کے لیے آگے بڑھا۔
      " ابا نہیں ی ی ی ی ی ۔۔۔" اپنی ماں کو بچانے
      عائلہ تیزی سے آگے ہوئی تھی۔ اور اسی لمحے بچیاں گھر میں داخل ہوئی تھیں۔
      گھر کے اندر کا منظر دیکھتے غصے سے انھوں نے اپنے باپ کی طرف دیکھا تھا۔
      " لو آگئیں۔ تم منحوسوں کی کمی تھی بس۔ سمجھاؤ اسے کہ میرے سامنے بک بک مت کیا کرے۔ زندگی اجیرن کر کے رکھ دی ہے منحوسوں نے۔
      شیدا واہی تباہی بکتا اندر جا چکا تھا۔
      بایر ماں بیٹیاں ایک دوسرے کے ساتھ لگی ایک دوسرے کو تسلی دے رہی تھیں۔


      1 کنال پہ محیط ڈیفینس میں یہ عالشان کوٹھی کہنے کو تو کوٹھی تھی۔ مگر لاہور کا سب سے بڑا کوٹھا تھا۔
      نیلم بائی سالوں سے یہاں قیام پزیر تھی۔ جسکی بڑی وجہ بڑے ہاتھوں کی پشت پناہی تھی۔ شروع شروع میں یہاں کے لوگوں نے اعتراض اٹھائے تھے۔ مگر انکو اس طریقے سے چپ کروایا گیا کہ پھر کسی کی بولنے کی ہمت نہیں ہوئی تھی۔
      جیسے جیسے رات اپنے پر پھیلاتی ویسے ویسے ہی یہاں پہ گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگنا شروع ہو جاتیں۔
      آج دلاور بہت دنوں بعد ادھر آیا تھا۔
      دلبر دلبر
      ہاں دلبر
      ہوش نہ خبر ہے
      یہ کیسا اثر ہے
      تم سے ملنے کے بعد دلبر
      بڑے سے ہال میں رقاصہ اپنے جسم کو توڑتے مرورڑتےگانے کے بولوں پہ مختلف سٹیپ کرتے گھومتے گھماتے دلاور کے پاس آکر جھکی تھی۔ اور ایک آنکھ ونک کی تھی۔
      دلاور بیٹھا برانڈی کا تیسرا پیگ چڑھا رہا تھا مگرنجانے کیوں آج اسکو نشہ نہیں چڑھ رہا تھا
      نہ اسکی آنکھوں میں وہ خمار تھا آج جو اس رقاصہ کو ناچتے دیکھ کر اسکی آنکھوں میں اتر آتا تھا۔
      چین کھو گیا ہے
      کچھ تو ہو گیا ہے
      تم سے ملنے کے بعد دلبر
      دلبر دلبر
      ہاں دلبر
      اچانک سے دلاور کی آنکھوں میں کسی کا چہرہ اترا تھا۔
      تو میرا خواب ہے
      تو میرے دل کا قرار
      دیکھ لے جان من
      دیکھ لے بس ایک بار
      چوم لے جسم کو
      ہمنشیں پاس آ آ آ
      دلاور اپنے ہوش کھو رہا تھا۔ اسکو ہر طرف اب بس وہی نظر آرہی تھی۔ اسکو بس اب وہی چاہیے تھی۔
      یکدم وہ اٹھا تھا اور رقاصہ کو اپنے بازووں میں اٹھا کر اس پہ اپنی شدتیں لٹانے لگا۔
      ساری محفل میں سناٹا چھا گیا تھا۔ آج سے پہلے محفل کے دوران کسی نے موہنی کے ساتھ یہ حرکت نہیں کی تھی۔ وہ صرف ناچتی تھی۔ اسکا ناچ نہیں تھا ۔ کوئی جادو تھا ۔ جو بن پئیے سبکو بہکا دیتا تھا۔ مگر آج دلاور تو خود اپنے بس میں نہیں تھا۔ اس کے اندر وہ آگ لگی تھی جو اسکو اندر سے جلا رہی تھی۔ اس آگ کی تپش نے آج موہنی کو بھی اپنے لپیٹے میں لے لیا تھا۔
      دلاور۔۔۔چھوڑو مجھے۔۔۔۔دلاور۔۔۔۔۔۔موہنی نے غصے سے خود کو اس سے چھڑواتے ہوئے کہا۔
      نیلم بائی بھی یکدم ہوش میں آئی تھی۔ اور فوراً اپنے بندوں کو آواز دی۔


      Comment


      • #4
        شکریہ جناب ِرائٹر

        Comment


        • #5
          قسط نمبر 2 میں پہلے والی دوبارہ پوست ہو گی ہے

          Comment


          • #6

            Episode, 3

            احتشام شاہ اوندھے منہ بیڈ پہ آڑھا ترچھا مدہوش پڑا ہوا تھا۔ بیڈ کے اوپر دوسری سائیڈ پہ اور نیچے کارپٹ پہ اس کے دو دوست اسی کی طرح پڑے سو رہے تھے
            میز اچھل کر سامنے کی دیوار کے ساتھ جا کر لگی تھی۔ اور اس پہ پڑی برانڈی کی بوتلیں اور گلاس نیچے گر کر چکنا چور ہو چکے تھے۔ جن کے ٹکڑے پورے کمرے میں ادھر ادھر بکھر چکے تھے۔ کمرے میں پھیلی سیگریٹ کی بو کی وجہ سے وہاں کھڑا ہونا مشکل ہو رہا تھا۔
            اتنے شدید شور پر بھی تینوں میں سے کوئی ٹس سے مس نہیں ہوا تھا۔
            اپنے باپ کو اتنے غصے میں دیکھ کر صارم کی ہمت نہیں ہوئی تھی آگے بڑھ کر انھیں اٹھانے کی۔ اور نہ دینے کی ہوئی تھی
            "دینےےےےےے۔۔۔۔۔ ". شاہ سائیں نے غصے سے دینے کو پکارا۔
            جج۔۔۔۔۔جی سائیں"
            "پانی والا پائپ لے کر آؤ۔ اور پیچھے سے پانی کھول دو۔
            " سائیں میں ابھی اٹھا دیتا ہوں سب کو۔ "
            " جو کہا ہے وہ کرو۔ ایسا نہ ہو کہ تمہارا بھی انکے ساتھ حشر بگاڑ کر رکھ دوں میں۔"
            شاہ سائیں نے قہرطور نظروں سے اسکی طرف دیکھ کر کہا۔
            " جج۔۔۔۔جی سائیں میں ابھی کھولتا ہوں پانی۔"
            دینا کہتے ہوئے تیزی سے کمرے سے باہر نکل گیا۔
            "کک۔۔۔کون ہے۔ "
            سب نے ہڑبڑا کر اٹھتے ہوئے کہا۔ پانی کی تیز بوچھاڑ نے سب کو نہلا دیا تھا۔
            "بب۔۔۔بابا جان آپ"
            احتشام شاہ بیڈ سے اتر کر سے تیزی سے کھڑا ہوتا ہوا بولا۔
            "کیوں نشہ اتر گیا یا ابھی کوئی کمی رہ گئی ہے"
            "شرم آنی چاہیے احتشام شاہ آپکو۔ "
            شاہ سائیں تاسف سے ایک نظر سب پہ ڈالتے لیکن احتشام شاہ کو کہتے کمرے سے باہر نکل گئے۔
            " کمینو مروا دیا تم لوگوں نے مجھے آج۔"
            " یار اس میں اتنا غصہ کرنے والی کیا بات تھی۔ ہم کونسا کوئی مجرا کروا رہے تھے۔ یا کسی لڑکی کو بغل میں لے کر بیٹھے تھے۔۔۔
            تمہارے بابا بھی نہ جانے کس زمانے میں رہتے ہیں۔"
            قاسم نخوت سے منہ بنا کر بولا۔
            " قاسمممم۔"۔۔۔
            " بابا کے لیے ایک لفظ نہیں۔ تم جانتے ہو میں برداشت نہیں کروں گا"۔
            احتشام شاہ نے وارن کرتے لہجے میں قاسم سے کہا۔
            "اچھا یار چھوڑو یہ سب۔ یہ بتاؤ کیا کرنا ہے اب.؟"
            طلحہ نے آگے بڑھ کر احتشام کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
            " کرنا کیا ہے۔ تم لوگ اپنا سامان پیک کرو۔ اور نکلو یہاں سے۔ بعد میں ملتے ہیں۔ میں بابا کے پاس جا رہا ہوں۔ "
            احتشام نے کمرے سے نکلتے ہوئے کہا۔
            باہر آیا تو صحن میں بچھے تخت پر صارم اور بابا بیٹھے ہوئے تھے۔
            " بابا سائیں۔"
            احتشام شاہ نے شاہ سائیں کو آواز دی جو سر جھکائے بیٹھے ہوئے تھے۔
            کوئی جواب نہ پا کر وہ آگے بڑھ کر شاہ سائیں کی ٹانگوں کے پاس نیچے زمین پر ہی بیٹھ گیا۔
            " بابا معاف کردیں۔"
            وہ انکے گھٹنوں پہ ہاتھ رکھ کر بولا۔
            "احتشام شاہ کیوں کرتے ہو ایسا جسکی وجہ سے تمہیں پاؤں میں بیٹھ کر معافی مانگنی پڑے۔"؟…..
            "انسان کو کبھی کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہیے جس سے وہ لوگوں کی اور اپنوں کی نظروں سے گر جائے۔۔
            مجھے ڈر لگتا ہے احتشام کہ کسی دن تمہارا یہ شوق تمہیں ایسے راستے پہ نہ لے جائے جہاں پہ صرف بربادی ہے۔۔
            مجھے ڈر لگتا ہےاس دن سے جب لوگ مجھ سے کہیں کہ شاہ کا بیٹا آوارہ ہے۔۔
            میں سہ نہیں پاؤں گا اس دن۔ اور ہو سکتا ہے تم اپنے باپ کو بھی کھو دو۔۔
            کبھی سوچا ہے اگر تمہاری ماں کو یا تمہاری بہن کو پتہ چلا کہ تم پیتے ہو اس دن ان پہ کیا گزرے گی۔۔
            جنکی نظروں میں تم سب سے اچھے بیٹے اور بھائی ہو۔تمہاری ماں مر جائے گی یہ سوچ کر کہ وہ تمہاری تربیت ٹھیک نہیں کر پائی۔ آخر کب تک ان سے یہ سب چھپا رہ سکتا ہے۔۔
            شاہ سائیں نے ٹوٹے ہوئے لہجے میں احتشام سے کہا۔
            شاہ سائیں کی بات سن کر صارم اور احتشام نے تڑپ کر باپ کی طرف دیکھا تھا۔.
            " بابا آپکو آئندہ میری طرف سے شکایت نہیں ہوگی۔ بس آخری بار معاف کردیں۔ احتشام شاہ نے شرمندگی سے سر جھکائے کہا۔
            " ہونی بھی نہیں چاہیے" شاہ سائیں نے ناراضگی لیے لہجے میں کہا۔ "
            "اپنا حلیہ ٹھیک کرو۔ اور چلو اب۔تھوڑی دیر میں پنچایت کے لیے سب لوگ آتے ہوں گے۔"
            حویلی کے کھلے دالان میں لوگوں کے بیٹھنے کا انتظام کیا گیا تھا۔ جس میں تقریباً 800 لوگ آسانی سے بیٹھ سکتے تھے۔
            سامنے 3 کرساں شاہ سائیں اور انکے بیٹوں کے بیٹھنے کے لیے لگائی گئ تھیں۔۔
            صارم شاہ اور اور احتشام شاہ سفید کرتے شلوار میں بیٹھے ہوئے تھے۔ شاہ سائیں نے کیمل براؤن رنگ کے کپڑوں میں سر پہ پگ رکھے اپنے پورے جاہ جلال کے ساتھ مجمع پہ ایک نظر ڈالی۔.
            "پہلے تو بول رفیق تجھے کیا کہنا ہے۔" شاہ سائیں نے رفیق سے کہا۔.
            " سائیں نوازے کے بیٹے صادق نے ہمارے منہ پہ کالک مل دی ہے۔ ہم کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے۔"۔۔
            سارا پنڈ حانتا ہے کہ آج تک میری دھی کا چہرہ کسی نے نہیں دیکھا۔ صادق نے میری دھی کے ماتھے پہ بدنامی کا ٹیکہ سجا دیا ہے۔.
            ہم کمی کمین ہیں تو اسکا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ جسکا دل چاہے ہماری عزت کو داغ دار کردے۔"
            رفیق نے رقت آمیز لہجے میں کہا۔.
            " سائیں یہ جھوٹ بولتا ہے۔" نوازے نے اسکے چپ ہوتے ہی کہا۔.
            " نوزےےےےے۔۔۔۔۔۔میں تیری زبان گدی سے کھینچ ڈالوں گا اگر ایک لفظ اور کہا تو۔.
            کوئی بھی عزت دار لڑکی اور نہ ہی اسکے گھر والے خود کو رسوا کرنے کے لیے ایسا جھوٹ کبھی نہیں بول سکتے۔۔
            اگر کوئی لڑکی کہتی ہے کہ اسکے ساتھ زیادتی ہوئی ہے تو مطلب ہوئی ہے۔" شاہ سائیں نے غصے سے ایک ایک لفظ پر زور دے کر کہا۔.
            " تو بول صادق تو کیا کہتا ہے۔"؟ شاہ سائیں نے اب اپنا رخ صادق کی طرف کیا۔.
            "شاہ سائیں میں زرینہ سے محبت کرتا ہوں۔ اس سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ مگر میرے باپ نے انکار کر دیا۔
            یہ کہ کر کہ وہ برادری سے باہر شادی نہیں کریں گے میری۔" صادق نے سر جھکائے جواب دیا۔.
            اس دن جو بھی ہوا اماں بختاں ( لڑکی کی ماں) نے بہت غلط رنگ دے دیا بات کو۔ ہم سے غلطی ضرور ہوئی ہے۔ ہمیں ایسے چھپ چھپ کر نہیں ملنا چاہیے تھا۔ مگر ہمارا دامن صاف ہے۔ اس پہ کوئی داغ نہیں ہے۔ صادق نے سر جھکائے سب کہ ڈالا۔.
            نواز نے قہربرساتی نظروں سے اپنے بیٹے کی طرف دیکھا۔ جس نے اسکی کہی کسی ایک بات کا بھی مان نہیں رکھا تھا۔.
            "شرم آنی چاہیے بختاں تجھے.اگر صادق اور زرینہ کو اکٹھا دیکھ بھی لیا تھا تو اس میں واویلا مچانے کی کیا ضرورت تھی۔۔
            اپنی دھی کو اپنے ہاتھوں ننگا کر کے رکھ دیا تو نے۔ مان لیتے ہیں کہ اسکا دامن پاک ہے۔ لیکن کیا لوگ مانیں گے۔ کس کس کو تو یا تیری دھی صفائی دوگے۔ موقع کی نزاکت کو دیکھ کر چپ کر جاتی۔ ہمارے پاس آتی۔ ہمیں بتاتی۔ پھر شاہ سائیں خود نبڑ لیتے۔۔
            اپنی دھی کے منہ پہ کالک تو نے خود ملی ہے۔ صادق نے نہیں۔" ہائمہ خاتون نے اماں بختاں کو لتاڑتے ہوئے کہا۔.
            "اور زرینہ تو… تیری شرم و حیا کہاں گئ تھی۔ تجھے ایک لمحے کو بھی الّٰلہ کا خوف نہ آیا۔اگر صادق کمینی فطرت کا ہوتا اور تیرے ساتھ کچھ اونچ نیچ کر دیتا۔ تو کیسے نظر ملاتی خود سے ساری عمر۔.
            کوئی ولی الّٰلہ بھی ہو تو عورت کو تنہائی میں اس سے ملنے سے منع کیا گیا یے۔.
            سگے باپ، بھائی کو تنہائی میں بیٹی بہن کے ساتھ بیٹھنے سے الّٰلہ نے منع کیا ہے۔ پھر تونے کیسے جرات کر لی یہ۔ ہائمہ خاتون نے اب زرینہ کو لتاڑتے ہوئے تھوڑا تلخی سے کہا۔.
            " بی بی جی غلطی ہو گئ ہم سے۔ مگر قسم کھاتی ہوں۔ ہم نے کبھی حد پار نہیں کی۔" زرینہ نے روتے ہوئے کہا۔.
            "خدا کو مانو لڑکی."
            " تم اور صادق جو تنہائیوں میں ملتے رہے ہو کیا وہ حد پار کرنا نہیں تھا۔ زرینہ کی بات سن کر ہائمہ خاتون کو اس بار شدید غصہ آیا تھا۔.
            شکر کرو کہ اس گاؤں کے سردار شاہ سائیں ہیں۔ ورنہ تم دونوں اب تک مارے جا چکے ہوتے۔.
            "خیر ہم نے جو فیصلہ کیا ہے۔ اس پہ کوئی اعتراض تم میں سے کسی کو۔"
            "نہیں بی بی جی جو آپ کا اور شاہ سائیں کا فیصلہ۔ وہی ہمارا۔"
            "دین محمد شاہ سائیں سے کہو بسم الّٰلہ کریں۔"
            ہائمہ خاتوںن نے دینے سے کہا جو کب سے انکے جواب کے انتظار میں کھڑا تھا۔.
            اس قسم کے معاملات میں باہر مردانے میں لڑکے سے باز پرس شاہ سائیں کرتے تھے اور لڑکی سے ہائمہ خاتون۔ تاکہ بنا کسی ڈر جھجک کے لڑکی بات کر سکے۔.
            " تو ٹھیک ہے بھائیو۔ دونوں طرف کی بات سننے کے بعد ہم فیصلہ کرتے ہیں کہ ایک سال تک صادق گاؤں میں قدم نہیں رکھےگا ۔ نہ اپنے ماں باپ سے ملے گا۔ اور نہ کسی اور سے۔.
            صادق نے دکھ اور پریشانی سے شاہ سائیں کی طرف دیکھا۔.
            مگر چونکہ غلطی بڑوں کی بھی تھی اس میں اس لیے ٹھیک 1 سال بعد ان دونوں کی شادی کر دی جائے گی۔.
            اگر گاؤں میں کسی نے بھی بھاگ کر شادی کی۔ یا بھاگتے ہوئے پکڑے گئے۔ ان کے ساتھ بہت برا ہوگا۔ان کو کسی صورت بخشا نہیں جائے گا۔.ہر کوئی کان کھول کر یہ سن لے۔
            کسی کو کوئی بھی مسلہ ہو تو وہ ہم سے بات کرے آکے۔ ہم کسی کو بھی اجازت نہیں دیں گے کہ وہ گاؤں کی عزت کو خراب کرے۔.
            صادق 1 سال تک ہماری شہر والی حویلی پہ کام کرے گا۔ اسکو روٹی کپڑا سب ملے گا۔ مگر کوئی تنخواہ نہیں۔ یہ اسکی سزا ہے۔"
            صادق کے باپ کو یہ فیصلہ ہرگز پسند نہیں آیا تھا۔
            مگر خاموشی سے سر جھکا کر کھڑا رہا۔
            شاہ سائیں کے اس فیصلے پہ وقت مسکرا رہا تھا۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ اسی جگہ اسی وقت آنے والے وقت میں ایسا ہی ایک فیصلہ انکو اپنی اولاد کے لیے بھی کرنا پڑے گا۔ کہ جس سے انکی روح چھلنی ہوگی۔

            جیسے ہی نیلم بائی نے اپنے بندوں کو آواز دی۔ سائیڈ پہ بیٹھے دلاور کے دونوں آدمی بھی ہاتھوں میں پسٹل پکڑے کھڑے ہوگئے۔.
            "ہمت بھی مت کرنا نیلم بائی۔"
            دلاور کے آدمیوں نے نیلم بائی کو وارن کرتے اسکے بندوں کی طرف دیکھتے ہوئے غصے سے کہا۔.
            موہنی لگاتار خود کو چھروانے کی سعی کر رہی تھی۔۔
            مجرا دیکھنے وہاں آئے لوگوں نے حالات کو دیکھتے وہاں سے کھسکنے میں ہی عافیت سمجھی۔.
            نیلم بائی کے آدمی اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔ جیسے اشارے کے منتظر تھے۔۔
            نیلم بائی نے آنکھوں ہی آنکھوں میں سب کو رکے رہنے کا اشارہ کیا۔ وہ تو خود چاہتی تھی کہ موہنی
            " کام" پہ لگے۔ مگر دلاور کی محبت دل میں بسائے وہ آج تک اسکو ہری جھنڈی دکھاتی آئی تھی۔ لوگ اسکے ناچ کے دیوانے تھے۔ اور دل کھول کے پیسہ لٹاتے۔ موہنی کے ساتھ رات گزارنے کی ہر دل میں خواہش تھی۔ بہت سوں نے منہ مانگی قیمت دینے کا بھی کہا۔ مگر موہنی کی ضد کی وجہ سے وہ اسکے ساتھ کبھی زبردستی نہ کرسکی۔ وہ اس ہیرے کو کھونا نہیں چاہتی تھی۔۔
            آج تو اس کے دل کی مراد بر آئی تھی۔ اگر ایک بار موہنی کی نتھ اتر جاتی تو پھر اسکو دھندے پہ لگانا مشکل نہیں تھا۔ وہ اب بھی یہی سوچ رہی تھی۔ اور بظاہر ایسے ظاہر کر رہی تھی جیسے وہ بے بس کر دی گئ ہے۔۔
            " دلاور۔ ۔۔۔ہوش میں آؤ دلاور۔۔۔چھوڑو ہمیں۔ نیلم بائی بچائیں ہمیں۔"
            موہنی دلاور کی کمر پہ کبھی مکے مارتی۔ اور کبھی اسکے بال کھنچتی ہوئی خود کو بچانے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہی تھی۔۔
            موہنی کا واویلا نظر انداز کرتے دلاور موہنی کو کندھے پہ ڈال کر اندر کی طرف چل دیا۔۔
            کمرے میں لاکر دلاور نے موہنی کو بیڈ پہ پٹخا۔ اور پلٹ کر دروازہ بند کر دیا۔۔
            موہنی نے بھاگ کر باہر نکلنا چاہا۔ مگر دلاور نے بیچ راستے میں ہی اسکو کمر سے پکڑ کر دوبارہ بیڈ پہ پٹخ دیا۔۔
            " کیا بکواس ہے جان۔ کیوں اتنا شور مچا رہی ہو۔ تمہاری ایک جھلک نے میرا سکون چھین لیا ہے۔ مت تڑپاؤ مجھے اب۔ " دلاور نے مدہوش ہوتے ہوئے موہنی کے جسم پہ اپنی گرفت مضبوط کرتے ہوئے کہا۔اور ایک جھٹکے سے اسکے بلاؤز کو گلے سے پھاڑ ڈالا۔۔
            مارے شرم کے موہنی نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ اسکی آنکھوں سے آنسو بہ نکلے۔۔
            دلاور اسکے جسم پر جگہ جگہ اپنی شدتیں لٹانے لگا۔
            دلاور کے ساتھ ہاتھا پائی کرتے۔ خود کو اس سے بچانے کی تگ و دو میں موہنی کا نازک وجود اب نڈھال ہو چکا تھا۔۔
            "تمہیں الّٰلہ کا واسطہ ہے دلاور ہوش میں آؤ۔ مت کرو ایسا۔۔ موہنی نے روتے ہوئے اس سے فریاد کی۔۔
            مگر دلاور اس وقت اندھا، بہرہ ، اور گونگا بنا ہوا تھا۔۔
            دوسرے ہی لمحے دلاور نے اسکے لہنگے کی ڈوری کھینچ ڈالی تھی۔ اسکی قبا زمین بوس ہو چکی تھی۔ یہ موہنی کا دلاور تو نہیں تھا۔جسکے ساتھ کے سہانے خواب آنکھوں میں وہ سجانے لگی تھی۔۔جسکے لیے آج تک اس نے خود کو اسکی امانت سمجھ کر بچائے رکھا تھا۔۔
            یہ تو کوئی جانور تھا جو اسکو نوچنے کے در پہ تھا۔۔اسکو بچانے والا ہی اسکو لوٹ رہا تھا۔۔
            اسکے جسم میں درد کی ایک تیز لہر اٹھی تھی۔۔ خود کو بچانے کی تگ و دو وہ اب چھوڑ چکی تھی۔کمرے میں اب صرف اسکی سسکیاں گونج رہی تھیں۔۔پورے جسم میں درد کے سوا اسکا اب ہر احساس مر چکا تھا۔۔
            سب کے ساتھ لڑ کر خود کو بچانے والی موہنی آج اپنی ہی چاہ کے ہاتھوں لٹ گئ تھی۔ ہار گئ تھی۔۔ بے حس و حرکت بیڈ پہ لیٹی وہ اب صرف اس درد کے ختم ہونے کا انتظار کر رہی تھی۔۔
            کچھ دیر بعد وہ جانور اپنی بھوک مٹا کر ، اسکے وجود سے سیراب ہو کر بے سدھ پڑا ہوا تھا۔۔
            بیڈ سے اٹھ کر اپنے درماندہ وجود کے ٹکڑے سمیٹ کر وہ ایک کونے میں بیٹھ کر اسکے ہوش میں آنے کا انتظار کرنے لگی۔۔
            صبح کا نور آہستہ آہستہ رات کی سیاہی پر حاوی ہو رہا تھا۔۔
            " تم۔۔۔۔"
            دلاور کی آنکھ کھلی تو اس نے حیرت سے ایک طرف گٹھری بنی بیٹھی موہنی کی طرف دیکھا۔اور اچھل کر بیڈ سے نیچے اتر کرکھڑا ہو گیا۔
            موہنی نے جلدی سے نیچے بیٹھے بیٹھے بیڈ کی چادر کو کھینچ کر خود کو ڈھانپا۔
            " مجھ سے نکاح کرو دلاور۔ ابھی اسی وقت۔اور آج ہی۔" موہنی نے ٹھہر ٹھہر کر مظبوط لہجے میں دلاور کی طرف دیکھتے ہوئے غصے سے کہا۔۔
            " کیا بکواس کر رہی ہو۔" دلاور اسکی بات سن کر اچھل ہی تو پڑا۔
            "دیکھو مانتا ہوں میں نے غلط کیا۔ اور اس کے بدلے میں اگر تم چاہو تو، میں تمہارے ساری عمر عزت سے رہنے کے لیے بندوبست کردوں گا۔ مگر تم سے شادی نہیں کرسکتا۔"
            دلاور نے دو ٹوک لہجے میں کہا۔
            "عزت ۔"!
            " کس عزت کی بات کر رہے ہو تم۔ وہ عزت جس کی تم رات دھجیاں اڑا چکے ہو۔۔
            موہنی بپھر کر دلاور کی طرف بڑھی تھی۔ غصے اور طیش میں بولتے اسکو پیچھے کی طرف زور سے دھکا دیا تھا۔

            " اففففففف۔۔۔۔۔"!
            "بھیا جلدی کریں پلیز مجھے لیٹ ہو رہا ہے کالج سے۔۔
            " تیار تو ایسے ہو کر مجھے کالج چھوڑنے جاتے ہیں جیسے کسی پارٹی میں جانا ہوتا ہے۔۔
            آپ نے تو لڑکیوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے سچی۔"
            فجر چڑتی ہوئی صارم سے بولی جو کب سے شیشے کے سامنے کھڑا ہو کر تیار ہو ریا تھا۔
            " میں جو اتنی دیر لگاتا ہوں ناں صرف تمہاری وجہ سے لگاتا ہوں کہ کوئی تم سے یہ نہ کہے کہ فجر کا بھائی بس ایویں سا ہے۔"
            صارم نے مسکراتے ہوئے فجر کو آنکھ ونک کرتے کہا۔
            " یہ دیکھیں میرے جڑے ہوئے ہاتھ۔ آپ مجھ پہ یہ مہربانی مت کیا کریں۔ جب کوئی ایسا بولے گا ناں تو میں خود دیکھ لوں گی کہ مجھے اسکو کیا جواب دینا ہے۔ اسکی فکر آپ مت کریں۔
            فجر نے باقاعدہ ہاتھ جوڑ کر اب کی بار تھوڑا مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
            " یہ جو تیار ہوتے تم بار بار مجھے ڈسٹرب کرتی ہو ناں بول کر۔ ساری دیری اسی وجہ سے ہوتی ہے۔"
            صارم نے ایک آخری طائرانہ نظر شیشے میں خود پہ ڈالتے ہوئے مسکرا کر جواب دیا۔
            "ماشاء الّٰلہ."
            صارم کی طرف دیکھ کر بے اختیار فجر کے منہ سے نکلا تھا۔ سکائی بلیو شلوار قمیض میں نفاست سے بال بنائے۔ کندھوں پہ بلیک چادر ڈالے وہ سچ میں کوئی شہزادہ ہی لگ رہا تھا۔
            " لگ رہا ہوں ناں ہوٹ۔"
            صارم اسکے انداز پہ کھل کر مسکرایا تھا۔
            " ہاں بہت۔"
            بے شک میرا بھائی دنیا کے سب بھائیوں سے زیادہ پیارا ہے۔ چلیں اب،۔۔اگر آپکا ہو گیا ہو تو۔۔
            فجر نے اپنا کالج بیگ اٹھاتے ہنس کر کہا۔
            کچے پکے راستوں سے گزرتی گاڑی میں بیٹھی فجر نے اچانک صارم کو گاڑی روکنے کا کہا۔
            " اوہ،"
            "بھائی پلیز گاڑی روکیں زرا۔ "
            " اب کیا ہوا ہے۔؟"
            " اب کیا یاد آ گیا ہے۔"؟
            صارم نے گاڑی روک کر حیرانی سے پوچھا۔
            "عینا، عائلہ"
            " رکو پلیز۔۔۔آؤ جاؤ یار اکٹھے چلتے ہیں۔ بس تو نکل چکی ہو گی اب تک۔ میں بھی آج لیٹ ہو گئ ہوں۔۔
            فجر نے عینا اور عائلہ کی طرف دیکھ کر کہا۔ جو بس سٹاپ کی طرف تیز تیز قدم اٹھا رہی تھیں۔۔
            عائلہ اور عینا نے پہلے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ پھر گاڑی میں بیٹھے شخص کی طرف ۔۔
            " نہیں ہم چلے جائیں گے۔ تمہارا شکریہ۔" دونوں نے ایک ساتھ جواب دیا۔۔
            "جاؤ گی تو تب اگر بس ملے گی۔ ٹائم دیکھو زرا۔ پورے آٹھ بج چکے ہیں۔ اور بس پونے آٹھ نکل جاتی ہے۔ یہ تم بھی جانتی ہو۔۔
            عائلہ اور عینا نے ایک نظر صارم کی طرف دیکھا۔ جو انکی طرف ہی دیکھ رہا تھا۔
            " بھائی آپ بولو ناں ان سے کہ بیٹھ جائیں۔"
            " مم۔۔۔میں"
            صارم یکدم فجر کے مخاطب کرنے پہ گڑبڑایا تھا۔
            " آجائیں پلیز۔ مجھے کوئی مسلہ نہیں ہے۔ میں فجر کو بھی کالج چھوڑنے جارہا ہوں۔ آپکو بھی چھوڑ دوں گا۔ اور ویسے بھی ایسے کھڑا ہونا بیچ روڈ پہ مناسب نہیں ہے۔"
            صارم نے رسانیت سے دونوں کو مخاطب کر کے کہا۔
            "آپی چلتے ہیں ناں۔ بس تو سچ میں نکل گئ ہو گی۔ اور ڈرنے والی کیا بات ہے۔ فجر آپی ہیں ناں ساتھ۔ ہم کونسا انکے ساتھ اکیلی جا رہی ہیں۔"
            عینا نے آہستہ سے عائلہ کے کان میں کھسر پھسر کی۔۔
            عائلہ اور عینا نے ایک نظر اسکی طرف دیکھا اور پھر کچھ سوچ کر گاڑی میں پیچھے بیٹھ گئیں۔
            صارم نے بیک ویو مرر سے پیچھے بیٹھی دونوں پہ ایک نظر ڈالی۔ دونوں خاموشی سے گاڑی کے ساتھ بھاگتے دوڑتے مناظر دیکھنے میں مگن تھیں۔
            اچانک سے ایک کھڈا آنے کی وجہ سے گاڑی اچھلی تھی اور پیچھے بیٹھے دونوں کا سر گاڑی کی چھت سے زور سے لگا تھا۔ لگا تو فجر اور صارم کا بھی تھا مگر وہ دونوں خود کو سنبھال گئے تھے۔
            " آپ کے زیادہ چوٹ تو نہیں آئی۔ "
            صارم عائلہ اور عینا سے مخاطب ہوا تھا
            " جی نہیں۔۔ ہم ٹھیک ہیں۔"
            عائلہ نے با مشکل اپنی سسکی روک کر جواب دیا۔
            مگر صارم اسکی آنکھوں میں نمی دیکھ چکا تھا۔


            Comment


            • #7
              Episode, 4

              موہنی کے اچانک دھکا دینے سے دلاور دو قدم لڑکھڑا کر پیچھے کو ہوا تھا۔ مگر پھر فوراً خود کو سنبھال گیا تھا۔
              " میں نہیں جانتی تھی کہ باقی سب کی طرح تم بھی جسم کے بھوکے ہو۔ ایک راہزن ہو، ایک لٹیرے ہو۔۔۔جو ایک دن میرا سب کچھ لوٹ لے گا۔
              میں تو آج تک تمہیں اپنا محافظ سمجھتی آئی تھی۔ تم نے اگر یہی سب کرنا تھا تو کیوں بچایا تھا اس دن ان بھیڑیوں سے مجھے۔ انکے ساتھ بہتی گنگا میں تم بھی ہاتھ دھوتے۔۔
              تم سے اچھے تو اس کوٹھے کے دَلال ہیں دلاور۔۔جو کم از کم اچھائی کا ناٹک تو نہیں کرتے۔"
              کب سے خاموشی سے کھڑے اس کی باتیں سنتے دلاور نے موہنی کی آخری بات پہ غصے سے اسکی طرف دیکھا تھا۔ مگر چاہ کر بھی منہ سے ایک لفظ نہیں بول سکا۔
              " جس وجود کو میں نے آج تک تمہاری امانت سمجھ کر سینت سینت کر رکھا تھا۔ تم نے اسی کو داغدار کر دیا دلاور..
              " کان کھول کر سن لو۔۔ اب یہ داغ تمہارے ماتھے پر ہی سجے گا۔"
              موہنی نے دلاور کو گریبان سے پکڑ کر غصے سے کہا۔
              اور اسی وقت خود پہ لپیٹی موہنی کی چادر کھل کے زمین پہ آ گری تھی۔۔
              دلاور نے اسی وقت بے اختیاری میں اپنا منہ دوسری طرف موڑا تھا۔۔
              موہنی نے چادر اٹھا کر خود کو ڈھانپنے کی کوشش نہیں کی تھی۔۔
              " کیوں کیا ہوا۔؟ "
              " اب آنکھیں کیوں پھیر رہے ہو۔؟ دیکھو،۔۔ غور سے دیکھو۔. اب تو میں خود کہ رہی ہوں۔. رات اسی وجود کے لیے مرے جا رہے تھے ناں تم۔۔"
              موہنی نے کرب سے روتے ہوئے کہا۔
              " دیکھو موہنی میں نے کبھی تم سے شادی کا وعدہ نہیں کیا تھا۔ رات جو کچھ بھی ہوا میں اپنے یوش میں نہیں تھا۔"
              دلاور نے زمین سے چادر اٹھا کر اسکے وجود کے گرد لپیٹتے کر اسے بیڈ پہ بٹھاتے ہوئے کہا۔
              " خوب۔۔بہت خوب۔۔پھر تو تمہاری ماں کو تمہاری بہن کو بھی تم سے بچ کر رہنا چاہیے۔۔ جو شخص نشے میں ہوش کھو کر صیح غلط کی پہچان کرنا بھول جائے۔۔اسکے لیے کون اپنا کون پرایا۔ کون محرم کون نہ محرم۔۔سب ایک ہی ہوئے ناں۔؟"
              موہنی غصے اور تلخی سے کرخت لہجے میں بولی۔
              دلاور کے زناٹے دار تھپڑ نے اسکے گال پہ اپنے نشان چھوڑ دئے تھے۔ سالوں کے زخموں پہ آئے کھرنڈ انجانے میں وہ بھی ادھیڑ چکی تھی۔ دلاور کے دل میں موہنی کے ساتھ کیے اپنے سلوک پہ جو ہلکا سا افسوس تھا۔ موہنی کی کہی بات نے اسکے اندر وہ بھی ختم کردیا تھا۔ اسے یاد رہے تھے تو بس کچھ چہرے۔ جن کو بھول کر بھی وہ کبھی بھول نہیں پایا تھا۔
              وہ کون تھا۔ کہاں سے آیا تھا۔ وہ کیا تھا۔ وہ یہ سب بھول چکا تھا۔
              " رک جاؤ دلاور اگر تم مجھ سے نکاح کیے بنا اس دروازے سے باہر گئے تو میں اپنی جان دے دوں گی۔"
              موہنی نے دلاور کو روکتے ہوئے غصے سے کہا۔ جو کہ دروازہ کھول کر باہر جا رہا تھا۔
              " میری بلا سے۔۔"
              " اگر تمہیں میری آفر قبول نہیں تو مرضی تمہاری۔
              مگر میں کبھی ایک طوائف کو اپنے گلے کا ہار نہیں بنا سکتا۔"
              بنا پلٹے یہ کہتے ہوئے دلاور دروازہ کھول کر کمرے سے باہر نکلتا چلا گیا۔۔
              طوائف۔۔۔طوائف۔۔۔۔طوائف۔۔۔۔
              موہنی اپنی جگہ ساکت بیٹھی دروازےکو تکی جا رہی تھی۔ جہاں سے تھوڑی دیر پہلے دلاور نکل کر گیا تھا۔۔
              لفظ طوائف کی باز گشت اسکے کانوں کے پردے پھاڑے دے رہی تھی۔۔
              وہ بھول گئ تھی کہ وہ ایک ناچنے والی ہے۔ بے شک اس نے کبھی اپنے جسم کا سودا نہیں کیا تھا۔ اپنے وجود کو کبھی داغدار نہیں ہونے دیا تھا۔ اس غلاظت بھری زندگی میں دلاور اسکا آب زم زم تھا۔ جس کے پانی سے نہا کر وہ ایک دن پاک ہونے کے خواب دیکھتی تھی۔ وہ اسکے لیے اسکی روشنی تھا جو ایک دن اسکی زندگی کے سب اندھیرے دور کر دیتا۔
              مگر واہ ری قسمت۔۔ وہ تو دلاور کی نظروں میں صرف ایک طوائف تھی۔ صرف ایک طوائف
              طوائف۔۔۔طوائف
              " ہاہاہاہاہاہاہا ۔۔۔۔۔ میں ایک طوائف ہوں۔"
              " نیلم بائی تو نے سچ کہا تھا میں ایک طوائف ہوں۔ صرف ایک طوائف۔۔۔ہاہاہاہاہاہاہاہا."
              اونچی اونچی بولتے ، قہقہے لگاتے وہ ہوش و ہواس سے بیگانہ ہو رہی تھی
              پھر یکدم وہ چپ ہوئی تھی۔ آنسو لڑیوں کی صورت اسکی گال پہ بہ رہے تھے۔ اس نے سر اٹھا کر اوپر چھت کی طرف دیکھا۔ اسکی نگاہیں چھت کو پھاڑتی آسمان کو چیرتی ہوئی الّٰلہ سے شکوہ کناں تھیں۔ اسکی روح بین کر رہی تھی۔ ہوش وخرد سے بیگانہ ہونے سے پہلے اسکی زبان پہ آخری لفظ
              "الّٰلہ" تھا۔ اس نے اپنے الّٰلہ کو اپنے رب کو پکارا تھا۔
              الّٰلہ تو رحمٰن رحیم ہے۔ رَبُ الْعاَلَمِیْن ہے۔ وہ تو اپنے زمین کے بدترین گنہ گار کی بھی پکار سنتا ہے۔ جب جب وہ اسکو پکارتا ہے۔
              پھر موہنی کی کیسے نہ سنی جاتی۔ اسکی بھی سن لی گئ تھی۔ مگر اسکی جھولی میں ابھی کچھ آزمائشیں باقی تھی۔

              ماضی۔۔!
              " نن۔۔نئیں۔۔ماما نئیں۔۔پلیز بابا۔۔بابا۔۔ماما ایسا مت کریں۔ مم۔۔مجھے آپکے ساتھ رہنا ہے ماما۔۔۔بابا۔۔مامااااااا"
              اسکا پورا جسم پسینے سے شرابور ہو چکا تھا۔چہرے پہ خوف ، کرب اور اذیت کے گہرے سائے تھے۔
              وہ کب سے ایک اذیت ناک جنگ لڑ رہا تھا۔ اور یہ جنگ پچھلے چار سال سے جاری تھی۔ کبھی سوتے میں اور کبھی جاگتے میں۔
              آج بھی وہ لڑ رہا تھا۔ چیخ رہا تھا۔ اپنوں کے ساتھ رہنے کی جنگ۔ انکا ہاتھ نہ چھوڑنے کی جنگ۔ مگر وہ یہ لڑائی ہار گیا تھا۔
              اسکے اپنوں کا ہاتھ اسکے ہاتھ سے چھوٹ گیا تھا۔
              " ہائے میں مر گئ۔ میرا بچہ۔۔ میرا دانی۔۔وہ ہڑبڑا کر اٹھی تھیں۔ اور ساتھ والے سنگل بیڈ کی طرف فوراً دیکھا جہاں ایک 15 سالہ نو عمر لڑکا سو رہا تھا۔
              جس پر نیند مہربان ہو کر اسے کسی اذیت بھرے جہاں میں لے گئی تھی شائد۔
              فاطمہ۔۔او فاطمہ۔۔۔جلدی سے اٹھ کے دیکھ بیٹا۔ لگتا دانی پھر ڈر گیا ہے سوتے میں۔
              رضوانہ خاتون نے اپنے ساتھ سوئی اپنی بیٹی کو جگاتے ہوئے کہا۔
              فاطمہ نے جلدی سے اپنے پاس پڑا دوپٹہ اٹھا کر اپنے سینے کے گرد اوڑھا اور تیزی سے اتر کر دانی کے بیڈ کی طرف آئی۔
              " دانی۔۔دانی۔۔اٹھو۔۔دانی اٹھو کیا ہوا ہے۔ دانی ہوش کرو۔ "
              فاطمہ دانی کو جنجھوڑ جنجھوڑ کر اٹھانے کی کوشش کرنے لگی۔
              "ماما۔۔ماما۔۔بابا۔۔آپی ماما کو روکو۔۔بابا کو روکو آپی۔ مجھے انکے ساتھ جانا۔۔
              دانی یکدم ایک چیخ مار کر اٹھا تھا اور پاس بیٹھی فاطمہ کے گرد اپنے دونوں بازو سختی سے لپیٹے اسکے سینے میں سر چھپانے لگا۔ جیسے کہیں چھپ جانا چاہ رہا ہو۔
              " دانی ادھر دیکھو میری طرف۔۔ کچھ نہیں ہوا۔۔ میں تمہارے پاس ہوں۔۔ادھر دیکھو دانی تمہاری ماسو ماں بھی تمہارے پاس ہیں۔"
              رضوانہ خاتون نے بےبسی سے اپنے لاچار وجود کی طرف دیکھا تھا۔۔انکا بس نہیں چل ریا تھا کہ آگے بڑھ کر دانی کو اپنی آغوش میں سمیٹ لیں۔۔
              فاطمہ دانی کو ساتھ لگائے آہستہ آہستہ اسکی کمر سہلانے لگی۔ وہ تھوڑا پرسکون ہوا تو ہلکا سا سر اٹھا کر اس نے فاطمہ کی طرف دیکھا۔۔
              " سوری آپی۔۔ میری وجہ سے آپکی اور ماسو ماں کی نیند خراب ہو گئی۔"
              وہ ایک خواب سے۔۔ایک نیند سے جاگا تھا۔ایک ایسی نیند جسکو سونے سے وہ ڈرتا تھا۔ ایک ایسا خواب جو وہ کبھی دیکھنا نہیں چاہتا تھا۔۔
              دانی نے اپنے آنسو چھپانے کی کوشش کرتے ہوئے فاطمہ سے کہا۔اور شرمندہ ہوتے ہوئے فوراً پیچھے کو ہوا۔۔
              " دانی ماسو کی جان۔۔میرا بچہ۔۔ادھر آ میرے پاس۔"
              رضوانہ خاتون نے دانی کی طرف اپنے بازو وا کرتے ہوئے کہا۔
              " ماسو ماں۔۔ کہتے دانی اپنے بیڈ سے اٹھا تھا اور اٹھ کر رضوانہ خاتوں کی گود میں سر رکھ کر اہنا ضبط کھو دیا تھا۔۔
              "ماسو ماں ماما۔۔بابا نے ایسا کیوں کیا۔ انکو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔۔میں انکے بنا کیسے جئیوں
              گا۔۔اس آگ کے شعلے مجھے جلا کر راکھ کر دیں گے ماسو ماں۔۔میں جل رہا ہوں۔مجھے وہ منظر سونے نہیں دیتا۔ماسو ماں میں کیا کروں۔"
              وہ رو ریا تھا اسکے آنسو رضوانہ اور فاطمہ کے دل پر گر رہے تھے۔ مہینوں بعد آج پھر اس گھر میں وہ تینوں نفوس رو رہے تھے۔ جو ایک دوسرے کا واحد سہارا تھے۔ زبان خاموش تھی۔ دل اور دماغ سوچنے سمجھنے سے قاصر تھے۔ ایسا لگتا تھا جیسے تسلی و تشفی کے سب الفاظ کہیں کھو گئے ہیں۔ بنا ایک لفظ بولے وہ ایک دوسرے کے درد سے واقف تھے۔
              " دانی میری جان کیا میں تمہاری ماں نہیں ہوں۔۔؟ کیا میرے پیار میں کہیں کوئی کمی رہ گئی ہے۔؟"
              " ایسے مت کہا کرو۔۔میری جان نکلتی ہے جب تم ایسا بولتے ہو۔"
              رضوانہ خاتون نے دانی کے ماتھے پہ بوسہ دیتے ہوئے اسکو زور سے اپنے سینے میں بھینچتے ہوئے کہا۔
              " الّٰلہ کے ہر کام میں اسکی حکمت چھپی ہوتی ہے. جو ہم انسانوں کی سمجھ سے باہر ہے۔ تمہاری ماما کا اور بابا کا جانا ایسے ہی تہ تھا بچے۔۔
              "ہر شخص کے آنے اور جانے کا ٹائم پہلے سے تہ شدہ ہوتا ہے۔ کس نے کب تک اس دنیا میں رہنا ہے اور کب چلے جانا ہے۔ سب الّٰلہ کے فیصلے ہیں اور ان فیصلوں میں ایک رتی بھر بھی کسی کی مداخلت نہیں ہوتی۔ اور نہ کوئی کر سکتا۔۔
              اپنوں سے بچھڑنے کا۔ انکو ہمیشہ کے لیے کھو دینے کا دکھ بے شک جان لیوا ہوتا ہے۔ دل چاہتا ہے کہ انکے ساتھ ہمیں بھی موت آ جاتی۔۔
              مگر ایسا نہیں ہوتا ماسو کی جان۔۔ہمیں جینا پڑتا ہے۔ الّٰلہ کی رضا پہ راضی ہونا پڑتا ہے۔۔
              ہمارے آنسو۔۔ہماری آہ و بکا مرنے والے کی روح کو اذیت میں مبتلا کیے رکھتی ہے۔ وہ مر کر بھی بے چین رہتے ہیں۔۔تکلیف میں رہتے ہیں۔"
              ماسو ماں کی باتیں دانی کے دل اور روح پہ بارش کی ٹھنڈی پھوار بن کر برس رہی تھیں۔ اسکے بے قرار دل کو قرار ملنے لگا تھا۔آہستہ آہستہ وہ پرسکون ہونے لگا تھا۔۔
              کیا تم چاہو گے کہ تمہارے بابا اور ماما کی روح بے سکون رہے۔ وہ اذیت میں رہیں۔۔"
              " نہیں ماسو ماں۔۔ہرگز نہیں۔"
              اس نے تیزی سے نفی میں سر ہلایا تھا۔
              " تو پھر اٹھو میرا بچہ۔۔ میری جان۔۔اٹھ کے وضو کرو اور نماز ادا کرو۔ انکے لیے الّٰلہ کی رحمت اور بخشش کی دعا مانگو۔"
              رضوانہ خاتوں نے شفقت سے اسکے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ اور اسکے ماتھے پہ بوسہ دیا۔
              " فاطمہ بیٹا مجھے واش روم جانا ہے بچے۔ پھر مجھے بھی وضو کروا دو۔۔ ٹائم تو ہو ہی گیا ہے فجر کا۔"
              رضوانہ خاتوں نے اپنی بیٹی سے کہا۔ جو یک ٹک بڑے دھیان اور توجہ سے پاس بیٹھی اہنی ماں کی باتیں سن رہی تھی۔۔
              " جی امی جان۔۔چلیں آئیں میں آپکو واش روم لے چلتی ہوں۔"
              فاطمہ نے آگے بڑھ کر جوتا سیدھا کر کے اپنی ماں کے پیروں میں پہناتے ہوئے کہا۔ اور سہارا دیکر انکو کھڑا کھڑا کیا۔


              " عائلہ ، عینا ٹھیک ہو ناں تم لوگ۔؟ فجر نے اپنا سر سہلاتے پیچھے مڑ کر دونوں سے پوچھا تھا۔
              " ہاں ہم ٹھیک ہیں۔" عائلہ نے جواب دیا۔۔
              "بھیا دھیان کدھر ہے آپکا۔۔ آپکو ہتہ بھی ہے کہ اس روڈ پہ کتنے جھٹکے لگتے ہیں۔ سارا روڈ اکھڑا پڑا ہے۔۔اگر زیادہ چوٹ لگ جاتی۔۔ یا گاڑی ان بیلنس ہو جاتی تو۔۔؟"
              فجر نے اب صارم شاہ سے خفگی سے کہا۔
              "سوری" صارم شاہ نے لب بھینچے یک لفظی جواب دیا۔
              " چلو اترو آ گیا کالج تمہارا۔" صارم شاہ نے انکے کالج کے سامنے گاڑی روکتے ہوئے کہا۔اور اتر کر بیک ڈور کھول کر کھڑا ہو گیا۔ عینا اور عائلہ اپنا حجاب درست کرتی گاڑی سے نیچے اتر کر فجر کے گاڑی سے باہر نکلنے کا انتظار کرنے لگیں۔جو نہ جانے نیچے جھکی کیا ڈونڈھ رہی تھی۔
              " آہہہہہہ"
              عائلہ کے منہ سے بے اختیار نکلا تھا۔اسکا رجسٹر اسکے ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے گرا تھا اور اسی کو اٹھانے کو وہ نیچے ہوئی۔ تبھی صارم بھی رجسٹر اٹھانے کو نیچے جھکا تھا۔ اور اسی دوران دونوں کے سر زور دار ایک دوسرے سے ٹکرائے تھے۔
              گاڑی میں سر لگنے سے عائلہ کا سر پہلے ہی دکھ رہا تھا۔اوپر سے دوبارہ لگنے والی چوٹ نے اسکو سہی معنوں میں دن میں تارے دکھا دئیے تھے اور وہ زمین پر ایک طرف کو لڑھک گئ تھی۔
              فجر بھی گاڑی سے تب تک باہر آ چکی تھی۔ عائلہ کو نیچے گرے دیکھ کر عینا، فجر ، صارم شاہ تینوں ایک ساتھ اسکو اٹھانے کو تیزی سے آگے بڑھے تھے۔
              عائلہ کی آنکھوں سے اب واضح طور پہ آنسو بہ رہے تھے۔۔
              " ایم سوری۔۔پلیز ایم سوری۔۔نہ جانے کیسے۔۔میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا۔"
              شرمندگی کے مارے صارم کا برا حال تھا۔ صارم شاہ بہت نرم طبیعت اور حساس قسم کا انسان تھا۔ دیکھنے میں بظاہر لاپرواہ مگر ہر چیز پہ اسکی نظر ہوتی تھی۔ یوں تو فجر کی دونوں بھائیوں میں جان تھی۔ مگر صارم اسکے دل کے بہت قریب تھا۔ اسکا دوست بھی اور اسکا بھائی بھی تھا وہ۔
              بی۔کام کے بعد صارم نے پڑھائی چھوڑ دی تھی۔ شاہ سائیں کے ساتھ وہ گاؤں کے اور زمینوں کے معاملات دیکھتا تھا۔۔
              جبکہ احتشام شاہ اپنی دنیا میں رہنے والا کچھ الگ طبیعت کا انسان تھا۔ طبیعت میں تھوڑی سختی اور رعب اسکی شخصیت کا خاصہ تھے۔
              ایم۔ بی۔ اے کرنے کے بعد شہر میں اس نے اپنا بزنس کرنے کو ترجیح دی۔ شہر میں رہتے ہوئے ہی اسکو اپنے دوستوں کی وجہ سے شراب کی لت لگ گئ۔ جس سے ہائمہ خاتوں اور فجر دونوں بے خبر تھے۔
              صارم اور احتشام دونوں ہی سلجھی ہوئی نیچر کے مالک تھے۔ یائمہ خاتون کی آغوش میں پروان چڑھ کر دونوں ہی نہ صرف اچھے بیٹے ثابت ہوئے بلکہ بہت اچھے بھائی بھی تھے۔ بس احتشام شاہ کی شراب پینے کی لت شاہ سائیں کو پریشان کرتی تھی۔ پھر یہ سوچ کر چپ کر جاتے کہ باقی وہ ہر قسم کی غلاظت سے دور تھا۔
              صارم کی وجہ سے عائلہ کو دو بار چوٹ لگ چکی تھی۔ جسکی وجہ سے وہ تھوڑا کنفیوز بھی ہو رہا تھا۔
              عینا اور فجر نے ہاتھ بڑھا کر عائلہ کو اٹھنے میں مدد دی۔ اٹھتے ہوئے اپنے ہی ہاتھ کے نیچے آ کر عائلہ کے حجاب کو کھینچ پڑی تھی۔ اسکا حجاب کھل کر اسکے سر سے سرک گیا تھا۔
              ایک لمحے کو اس پہ صارم کی نظر ٹھہر سی گئ تھی۔ صارم شاہ کو ایسا لگا تھا جیسے بادلوں کی اوٹ سے چاند نکل آیا ہو۔
              عائلہ نے گھبرا کر جلدی سے رخ موڑ کر اپنا حجاب ٹھیک کیا تھا۔ وہ تینوں کالج گیٹ کے اندر اوجھل ہو چکی تھیں۔ مگر صارم کی نظریں عائلہ کا تعاقب کرتی ابھی بھی گیٹ پر جمی ہوئی تھیں۔
              " یار میں نے تو بلکل بھی کلاس میں نہیں جانا۔
              میم نصرت کی ڈانٹ کھانے کا میرا کوئی ارادہ نہیں ہے۔۔عائلہ نے ایک نظر اپنی کلاس پہ ڈالتے ہوئے کہا۔
              " ہممممم ۔۔کہ تو تم ٹھیک رہی ہو۔ میم نصرت جس طرح سے بے عزتی کرتی ہیں۔دل کرتا بندہ کہیں چھپ جائے۔ " فجر نے بھی عائلہ کی بات کی تائید کرتے ہوئے کہا۔
              " بھئ میں تو جا رہی ہوں کلاس اٹینڈ کرنے۔ جو ہوگا دیکھا جائے گا۔" عینا نے کہتے ہوئے اپنی کلاس کی طرف قدم بڑھائے۔
              " کیا کرنا یے پھر اب۔"
              عائلہ نے فجر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
              " کرنا کیا ہے۔ ادھر گراؤنڈ میں بیٹھ جاتے ہیں۔عائشہ سے پوچھ لیں گے آج کے لیکچر کا۔ نو ٹینشن۔"
              فجر نے مسکراتے ہوئے عائلہ کو جواب دیا۔


              Comment


              • #8
                شکریہ جناب ماسٹر مائنڈ

                Comment


                • #9

                  Episode, 5#

                  " بیل بج گئ ہے۔ نیکسٹ لیکچر کا ٹائم ہوگیا ہے۔چلو چلتے ہیں۔
                  عائلہ نے بیل کی آواز سن کر اٹھتے ہوئے کہا۔ اور اسی وقت اسے بڑے زور کا چکر آیا تھا۔
                  " عائلہ کیا ہوا ہے۔ آر یو اوکے۔؟"
                  فجر نے جلدی سے آگے ہو کر اسکو پکڑتے ہوئے ہوچھا۔
                  " سر میں بہت درد ہے۔" عائلہ نے جواب دیا۔ اور سر پکڑ کر دوبارہ گھاس پہ بیٹھ گئ۔
                  " ادھر دکھاؤ ذرا مجھے۔ سر پہ چوٹ لگنے کی وجہ سے تو نہیں ایسا۔؟"
                  فجر نے فکرمندی سے پوچھا۔
                  " نہیں ٹھیک ہوں میں۔"
                  عائلہ نے اسکو منع کرتے ہوئے کہا۔ جو کہ اسکا حجاب ہٹا کر زبردستی اسکا سر دیکھ رہی تھی۔
                  " افففف۔۔۔ میرے الّٰلہ.۔۔تم اسکو ٹھیک کہ رہی ہو۔ اچھا خاصہ گومڑ بنا ہوا ہے سر پہ"…اور تم نے بتایا کیوں نہیں۔؟
                  " ٹھیک ہوں میں۔۔۔ٹھیک ہوں میں۔"
                  فجر فکرمندی اور غصے کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ عائلہ کی نقل اتارتے ہوئے بولی۔
                  " میرا خیال ہے کہ تم کلاس رہنے دو۔ میم جو لیکچر دیں گی۔ میں تمییں بتا دوں گی۔"
                  فجر اٹھتے ہوئے بولی۔
                  " کوئی بات نہیں یار میں مینج کر لوں گی۔ چلو چلتے ہیں۔ تم فکر مت کرو۔ اب ایسا بھی کوئی خاص درد نہیں ہے۔"
                  عائلہ اپنے کپڑے جھاڑتی اٹھتے ہوئے بولی۔
                  بہت مشکل سے عائلہ نے آج اپنے سبھی لیکچرز اٹینڈ کیے تھے۔سارا وقت کلاس میں بیٹھے اسکے سر میں درد کی شدید ٹیسیں اٹھتی رہی تھیں۔ اور اس وقت کو کوسنے لگی جب عینا کی بات مانتے ہوئے وہ گاڑی میں بیٹھی تھی۔
                  لاسٹ پیریڈ اٹینڈ کر کے وہ اور فجر کلاس کے باہر کھڑی ہو کر عینا کا انتظار کرنے لگیں ۔
                  عینا، عائلہ اور فجر تینوں ہی ایک ہی کالج میں پڑھتی ہیں۔ عائلہ اور فجر بی۔ایس ٹیکسٹائل ڈیزائینگ کے تیسرے سال کی، اور عینا سیکنڈ ائیر کی سٹوڈنٹس ہیں۔
                  گاؤں کے سکول سے دسویں کا امتحان اچھے نمبروں میں پاس کرکے دونوں بہنوں نے اپنی تعلیم جاری رکھتے ہوئے شہر کالج میں ایڈمیشن لے لیا۔
                  شاہ سائیِ کی مہربانی کی بدولت شہر پڑھنے کے لیے جانے والی پورے گاؤں کی بچیوں کو کالج لیجانے اور لانےکے لیے بس کا انتظام ہے۔ جو مخصوص سٹاپ پر آکر کھڑی ہو جاتی ہے۔ اور مخصوص ٹائم پہ بچیوں کوکالج لے کر چلی جاتی ہے۔
                  " یار صارم بھائی ابھی آتے ہوں گے۔اکٹھے چلتے ہیں۔ راستے میں کسی ڈاکٹر کو تمہاری چوٹ بھی دکھا لیں گے۔"
                  فجر نے عائلہ اور عینا کی طرف دیکھتے ہوئے فکر مندی سے کہا۔
                  " نہیں فجر شکریہ تمہارا۔ ہماری بس بھی آتی ہوگی۔
                  عائلہ نے سہولت سے منع کیا۔
                  " ویسے فجر آپی صبح عائلہ آپی کی کافی مہمان نوازی ہوگئ تھی۔ اب تو یہ۔۔۔۔۔"
                  عینا نے شرارت سے عائلہ کی طرف دیکھ کر باقی کا فقرہ منہ میں دبا کر ہنستے ہوئے فجر سے کہا۔
                  " نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ اسکی عادت ہے بڑ بڑ کرنے کی۔ تم پلیز فیل نہ کرنا۔ ہم چلے جائیں گے۔"
                  عائلہ نے عینا کو گھوری ڈال کر جلدی سے فجر سے کہا۔ جسکے چہرے پہ شرمندگی کے واضح اثرات تھے۔
                  باتیں کرتی ہوئی وہ تینوں گیٹ کی طرف چل دیں۔
                  باہر نکلیں تو گیٹ کے سامنے سفید کلف لگے شلوار قمیض میں آنکھوں پہ گلاسز لگائے صارم شاہ گاڑی سے ٹیک لگائے فجر کے انتظار میں کھڑا تھا۔
                  مگر دل میں کہیں عائلہ کو پھر سے دیکھنے کی خواہش بھی تھی۔
                  تینوں کو اپنی طرف آتا دیکھ کر وہ سیدھا ہو کر کھڑا ہو گیا۔صارم کی نظریں عائلہ کا طواف کر رہی تھیں۔ جسے واضح طور پہ سبھی نے فیل کیا۔
                  " سنیں آجائیں میں ڈراپ کر دیتا ہوں آپکو"
                  صارم نے عائلہ کو پاس سے گزرتے دیکھ کر جلدی سے اس سے کہا۔
                  " شکریہ آپکا چھوٹے شاہ۔ ہماری بس بھی آ گئ ہے ہم چلے جائیں گے۔ اور ویسے بھی ہم غریب لوگ ہیں۔ آپکی روز کی یہ نوازشیں بہت بھاری پڑیں گی ہمیں۔"
                  عائلہ روکھے لہجے میں کہ کر عینا کا ہاتھ پکڑ کر اپنی بس کی طرف بڑھ گئ۔
                  صارم کی بولتی نظروں نے اسکو کوفت میں مبتلا کیا تھا۔وہ اسکو یہیں روک دینا چاہتی تھی۔ جسکی وجہ سے اسکا لہجہ تھوڑا تلخ ہوا تھا۔
                  عائلہ ان لڑکیوں میں سے تھی جو لڑکوں سے فرینک ہونا پسند نہیں کرتیں۔ اور نہ انکا فرینک ہونا اسے پسند تھا۔
                  صارم کو عائلہ کا لہجہ عجیب لگا تھا۔ وہ حیران ہو کر فجر کی طرف دیکھنے لگا۔
                  " ہوگیا آپکا۔؟
                  " چلیں اب۔؟
                  فجر نے صارم کی مصنوعی گھوری سے نوازتے ہوئے کہا۔


                  " یاالّٰلہ مجھے بخش دے۔۔ مجھے معاف کردے۔۔یاالّٰلہ بخش دے۔۔یاالّٰلہ۔۔یاالّٰلہ میں نادم ہوں۔۔شرمسار ہوں۔۔
                  یا الّٰلہ میں تیرا گنہگار بندہ تیرے آگے سر جھکائے تجھ سے تیریے رحم کی بھیک مانگتا ہوں۔۔
                  یا الّٰلہ تیری رحمت کے وسیع سمندر کا صرف ایک قطرہ۔۔یاالّٰلہ صرف ایک قطرے کا طلبگار ہوں۔۔جو مجھے گنہگار کی لائن سے باہر کھڑا کر دے گا۔
                  یا الّٰلہ مجھے ظالموں میں شمار نہ کرنا۔ مجھے بخش دے میرے مولا۔
                  یاالّٰلہ رحم۔۔ یاالّٰلہ ۔۔یاالّٰلہ۔۔رحم۔۔۔۔"
                  رات کے پچھلے پہر جب ساری دنیا نیند کے گہرے سمندر میں غرق ہوتی ہے۔ تو 3 قسم کے لوگوں کو یہ ٹھنڈا سمندر ابلتا ہوا لاوا لگتا ہے۔ تب وہ ٹھنڈے سمندر کی بجائے رتجگے میں الّٰلہ کی بارگاہ میں سرگرائے سکون تلاش کرتے ہیں۔
                  ان میں سے ایک وہ لوگ ہوتے ہیں جو عشق مجازی یا عشق حقیقی کی راہ کے مسافر ہوتے ہیں۔
                  اور ایک وہ مظلوم جو کسی ظلم و جبر کا شکار ہوتے ہیں۔
                  اور تیسری قسم کے وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے گناہوں پہ نادم اور شرمندہ ہوتے۔ الّٰلہ کے سامنے جوابدہی کا خوف انکو سونے نہیں دیتا۔
                  ان سب کو یقین ہوتا ہے کہ رات کے وقت انکی سنی جائے گی۔ انکو سکون و قرار ضرور ملے گا۔ وہ خالی ہاتھ۔۔خالی جھولی لوٹائے نہیں جائیں گے۔ دن کے اجالے کے بادشاہ، رات کو فقیر بن جاتے ہیں۔ پھر یہ
                  سجدے میں سر گرائے اس وَحْدَہُ لَاشرِیْک کی واحدانیت کے آگے اپنی ناک خاک آلود کیے اسکی رحمت، بخشش اور رحم کے لیے فریاد کناں ہوتے ہیں۔
                  رات کے سناٹے میں حویلی کے اس کمرے میں بھی کوئی سسک رہا تھا۔ الّٰلہ سے فریاد کناں تھا۔ اپنی ناک خاک آلود کیے اُس مالک کائنات سے اسکی بخشش اور رحمت کا طلبگار تھا۔ اپنے لیے سکون مانگ رہا تھا۔
                  گڑگڑا کراپنے رب کو پکار رہا تھا۔ اس گناہ کی معافی مانگ رہا تھا جو اس نے کیا ہی نہیں تھا۔ اگر کوئی انکو اس حال میں دیکھ لیتا تو انگشت بدنداں رہ جاتا۔ دن کے اجالے میں ایک جاہ و جلال کے ساتھ پورے گاؤں کے فیصلے کرنے والا اس وقت رات کی تنہائی میں سجدے میں سر جھکائے کسی بچے کی طرح رو رہا تھا۔ ساری دنیا کو خوش باش اور مطمئین نظر آنے والا دل کا اطمینان مانگ رہا تھا۔
                  اسکی سسکیاں پورے کمرے میں گونج رہی تھیں۔
                  کسی کے رونے کی گھٹی گھٹی آواز اور سسکیوں سے ہائمہ خاتون کی نیند میں خلل پڑا تھا۔پہلے تو وہ کچھ سمجھ نہ ہائیں۔ پھر آواز کی طرف کی طرف دھیان کیا تو فرش پہ مصلہ بچھائے شاہ سائیں سجدے میں گرے آنسو بہا رہے تھے۔ وہ بے چین ہو کر جلدی سے بیڈ سے نیچے اتریں اور ننگے پاؤں شاہ سائیں کی طرف بڑھیں۔
                  " شاہ۔۔۔ شاہ اٹھیں۔۔ہائمہ خاتون نے پیار سے شاہ سائیں کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے انکو دھیرے سے مخاطب کیا۔
                  تھوڑی دیر بعد شاہ سائیں اہنا آنسوؤں سے تر بھیگا چہرہ لیے اوپر اٹھے۔ دعا مانگی اور گھٹنوں میں سر دئیے بیٹھ گئے۔ ہائمہ خاتوں بھی دوزانوں ہو کر انکے پاس بیٹھ گئیں۔
                  " شاہ آپ سے میں کتنی دفعہ کہ چکی ہوں پلیز خود کو مجرم سمجھنا چھوڑ دیں. آپکی یہ حالت، یہ رونا بلکنا مجھے بہت تکلیف دیتا ہے۔۔
                  آپ الّٰلہ کی عبادت اسکی رضا اور خوشنودی کے لیے راتوں کو جاگتے، اسکے سامنے سربسجود ہوتے تو یقین کریں مجھے سکون اور فخر ہوتا۔
                  مگر آپ جس ناکردہ گناہ پہ ندامت کے شرمندگی کے آنسو بہاتے ہیں۔۔مجھے وہ بات تکلیف دیتی ہے۔"
                  ہائمہ خاتون نے شاہ سائیں سے دکھی لہجے میں رسانیت سے کہا۔
                  " ہائم ہم کیا کریں۔؟
                  ہماری روح چھلنی ہوتی ہے یہ سوچ کر کہ وہ کہاں گئ ہوگی۔ کہاں پناہ لی ہوگی۔۔کس حال میں ہوگی۔۔ اسکا تو دنیا میں میرے سوا کوئی سہارا نہیں تھا۔ کاش کاش بابا ہم سے سچ نہ چھپاتے۔۔اور۔۔اور اتنا ظلم ہائم۔۔جب۔۔ جب وہ ماں بننے والی تھی..
                  کیوں ہائم۔۔کیوں۔۔بابا نے ایسا کیوں کیا ہائم۔۔؟"
                  " آپ گواہ رہنا ہائم کہ یم نے انکو ڈونڈھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔۔
                  ہائمہ خاتون کی گود میں سر رکھے وہ مظبوط اعصاب کا مالک شخص بلک بلک کر پھر رونے لگا۔
                  " شاہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ ظالم نہیں ہیں۔۔ آپ کسی پہ ظلم کر ہی نہیں سکتے۔۔جو کچھ بھی ہوا وہ اسی طرح ایسے ہی لکھا تھا۔۔الّٰلہ کی مصلحتیں الّٰلہ ہی جانے۔"
                  " ہائم۔۔وہ۔۔وہ زندہ تو ہوگی ناں۔۔وہ ہمیں ملے گی ناں۔"؟
                  .شاہ سائیں نے اچانکے روتے روتے سر اٹھا کر اج آس سے پوچھا تھا۔
                  " مایوسی گناہ ہے شاہ۔ آپ نا امید نہ ہوا کریں۔ مایوس ہونے کا مطلب ہے کہ نعوذ بالّٰلہ ہمیں الّٰلہ کی قدرت پہ، اسکے کُن پہ، اسکے قوی اور قادر ہونے پہ بھروسہ نہیں ہے۔ اور اگر رتی برابر بھی اس میں ہمارا ایمان کمزور ہے تو بے شک ہم ظالموں میں سے ہیں۔ گھاٹے میں رہ جانے والے لوگوں میں سے ہیں۔"
                  " کیا آپ ایسا چاہتے ہیں۔"؟
                  ہائمہ خاتون نے بہت دھیمے دھیمے انکو سمجھاتے ریلیکس کرتے محبت سے کہا۔
                  ہائمہ خاتون کی آخری بات پہ شاہ سائیں نے تڑپ کر انکی طرف دیکھا تھا۔
                  " شاہ آپ نے اپنا مقدمہ جب اسکی عدالت میں پیش کر دیا ہے تو، اب اسکے فیصلے کا انتظار کریں۔
                  وہ بہترین انصاف کرنے والا ہے۔
                  اور اسکی عدالت میں ہر کسی کو پورا پورا انصاف ملتا ہے۔ کسی کے ساتھ رتی بھر بھی نہ زیادتی ہوتی ہے۔ نہ حق رکھا جاتا ہے۔
                  بخشش مانگنے والے کو بخشش اور رحمت مانگنے والے پہ رحمت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں۔
                  کسی کی فریاد اور دعا بنا کسی دیری کے اسی وقت سن لی جاتی ہے۔ اور کسی کے لیے آزمائش کی بھٹی سے مزید گزرنے کا حکم صادر کر دیا جاتا ہے۔
                  وہ اَلْسَمِیْع ہے۔۔سب کی سنتا ہے۔۔ وہ الْرَّحِیْم ہے۔۔اسکا رحم سب کے لیے ہے۔
                  جس دن آپکی آزمائش ختم ہوگی۔ الّٰلہ انکو آپکے سامنے لا کر کھڑا کرے گا۔ اس دن آپکے اور انکے بیچ کے سب فاصلے اور سب پردے ہٹ جائیں گے۔
                  آپ بس اپنا یقین کبھی کمزور مت پڑنے دینا۔
                  " الّٰلہ تعالیٰ کا فرمان ہے میں ویسا ہی ہوں جیسا میرا بندہ میرے بارے میں گمان کرتا ہے۔"
                  ہائمہ خاتون کا بولا گیا ہر ہر لفظ شاہ سائیں کو درد و اذیت کے صحرا سے نکلنے میں مدد گار ثابت ہو رہا تھا۔ شاہ سائیں کے چہرے پہ اب صرف اطمینان اور سکون کے پھول کھل رہے تھے۔۔
                  " ہائم آپکو برا تو لگتا ہوگا کہ ہم آپکے سامنے ایک عورت کے لیے ایسے بے چین ہوتے ہیں۔"؟
                  شاہ سائیں نے اٹھ کر سیدھے ہو کر بیٹھتے ہوئے کہا۔
                  " بے شک برا لگتا شاہ۔ اور ضرور لگتا اگر آپ سچ میں کسی پرائی عورت کی بات کرتے تو۔ وہ آپکی بیوی ہے۔ اسکی فکر کرنا، اسکے بارے میں سوچنا اسکا حق اور آپ پہ فرض ہے۔ ۔میرا بس چلے تو میں اسکو ڈونڈھ کر آپکے سامنے کھڑا کر دوں۔"
                  ہائمہ خاتون نے رسانیت سے کہا۔
                  " ہائم آپ بہت اچھی ہیں۔ شائد میری کسی انجانے میں کی گئی نیکی کا صلہ ہیں آپ۔"
                  شاہ سائیں نے ہائمہ خاتون کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر ایک جزب کے عالم میں کہا۔
                  " شاہ آپ احتشام اور صارم کو کیوں نہیں بتا دیتے۔ وہ بھی اپنے طور پہ انکو تلاش کریں۔"
                  ہائمہ خاتون نے کسی خیال کے تحت کہا۔
                  " نہیں ہائم۔۔ہم ایسا نہیں کرسکتے۔ احتشام اور صارم کے سوالوں کے جواب ہم نہیں دے سکیں گے۔
                  اور فجر ہم اسکی نظروں سے گرنا نہیں چاہتے۔ اسکی نظر میں ہم دنیا کے بیسٹ بابا ہیں ہائم۔ ہم کیا کہیں گے کہ ہم دنیا کے بیسٹ بابا نہیں ہیں۔ ہم بھی راہ سے بھٹکے انسان تھے۔۔
                  ہم نے اپنے بندے لگائے ہوئے ہیں تلاش میں۔وہ دیکھ لیں گے سب۔"
                  شاہ سائیں نے صاف منع کرتے ہوئے کہا۔
                  " تو کیا جب وہ لوگ مل جائیں گے کیا تب بچوں کو پتہ نہیں چلے گا۔ کبھی کبار اچانک سامنے آنے والا سچ بہت تکلیف دیتا ہے شاہ۔۔بہتر ہے کہ بچوں سے سچ نہ چھپایا جائے۔"
                  ہائمہ خاتون نے اپنے تئیں پھر سمجھانے کی کوشش کی۔
                  " ہائم جب تک آپ میرے ساتھ ہیں۔ مجھے کسی بات کی کوئی فکر نہیں ہے۔"
                  اب کی بار شاہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
                  " میں ہر پل ہرجگہ آپکے ساتھ ہوں شاہ۔ آپ جانتے ہیں۔"


                  "ماسو ماں۔۔ میں ایک بات سوچ رہا تھا۔۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں ورکشاپ پہ کام کر لوں۔۔
                  دانی نے ناشتہ کرتے ہوئے کچھ جھجک کر کہا۔وہ جانتا تھا کہ ماسو ماں اسکی اجازت کبھی نہیں دے گی اسکو۔"
                  " ہرگز نہیں۔۔اپنی پڑھائی پہ توجہ دو۔۔سمجھے تم۔۔"
                  توقع کے عین مطابق اسکو ماسو ماں اور فاطمہ سے جواب ملا۔
                  " ماسو میں پڑھائی نہیں چھوڑوں گا۔ شام کے وقت پڑھ لیا کروں گا۔کچھ سکولز ہیں جو ایوننگ کلاسز بھی دیتے ہیں۔ میں سب پتہ کرچکا ہوں۔"
                  دانی نے سکون سے جواب دیا۔
                  " میں نے کہا ناں دانی تم بس اپنی پڑھائی پہ توجہ دو۔گھر کی فکر مت کیا کرو۔ فاطمہ کی اور میری سلائی کے اتنے پیسے ہو جاتے ہیں کہ گھر کی دال روٹی چل سکے۔
                  ادھر سے بھی سکون سے جواب آیا۔
                  " اچھا چلیں ٹھیک ہے۔ شام کی نہیں تو صبح کو کلاس لے لیا کروں گا۔ اور شام کو ورکشاپ۔ ایسے پڑھائی کا بھی ہرج نہیں ہوگا۔"
                  دانی نے ایک بار پھر منانے کی کوشش کی۔
                  " اگر تمہیں میری بات نہیں سننی تو ٹھیک ہے جو مرضی کرو پھر۔"
                  رضوانہ خاتون نے ناشتے کی ٹیبل سے اٹھتے ہوئے خفگی سے کہا۔
                  " پلیز ماسو ماں ایسا مت کہیں۔ میں تو بس آپی کا اور آپکا ہاتھ بٹانا چاہتا ہوں۔ مجھے اچھا نہیں لگتا جب آپ اور آپی رات کو جاگ جاگ کر کپڑے سلائی کرتے ہیں۔"
                  اب کے دانی نے منہ بسور کر کہا۔
                  " اوئے ہوئے ہمارا چاند اتنی بڑی بڑی باتیں سوچنے لگا ہے۔ اور ہمیں پتہ ہی نہیں ہے۔"
                  فاطمہ نے دانی کے نفاست سے سیٹ کیے بال خراب کرتے ہوئے کہا۔"
                  " کیا ہے آپی سارے بال خراب کردئیے۔ اب مجھے پھر سے کنگی کرنی پڑے گی۔"
                  دانی نے ٹیبل سے اٹھتے ہوئے مصنوعی ناراضگی سے کہا۔


                  Comment


                  • #10

                    Episode, 6

                    دلار کے جاتے ہی نیلم بائی تیزی سے موہنی کے کمرے میں داخل ہوئی تو کمرے کی حالت دیکھ کر استہزائیہ مسکراہٹ اسکے چہرے پہ نمودار ہوئی۔
                    بیڈ کی چادر اور تکیے زمین پہ ادھر اُدھر پڑے ہوئے تھے۔ایک سائیڈ پہ رکھی گئ میز پہ رکھا واس بھی چکنا چور زمین پہ پڑا تھا۔
                    ایسا لگتا تھا جیسے کمرے میں کوئی بھونچال آیا ہو۔
                    اور بھونچال تو آیا تھا۔
                    صرف کمرے میں ہی نہیں، موہنی کی زندگی میں بھی۔اور اس بھونچال نے اس کے شیشے جیسے وجود کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے تھے۔
                    اس کی پاکیزگی کو داغدار کر دیا تھا۔
                    وہ ہوش و خرد سے بیگانہ آڑھی ترچھی بیڈ کے پاس زمین پہ پڑی تھی۔
                    کمرے کا حشر نشر اور موہنی کا صرف چادر میں لپٹا زمین پہ پڑا بے خبر وجود چیخ چیخ کر گزری رات میں برپا ہونے والی قیامت کی چغلی کھا رہا تھا۔ اسے اس حال میں دیکھ کر ایک لمحے کو نیلم بائی کا دل دھلا تھا۔ اتنے قیمتی ہیرے کے کھو جانے کے تصور نے ہی انکو لرزا دیا تھا۔
                    وہ انکے لاکر کی چابی تھی۔ جسکے جسم کی ایک لہراتی بل کھاتی ادا پہ ہی لوگ پیسہ پانی کی طرح بہاتے تھے۔ ایک تو وہ حسن دلفریب کی مالک تھی۔اوپر سے رقص کا ایسا سماں باندھتی کہ لوگ بن پیئے ہی بہکنے لگتے۔
                    اسی وجہ سے آج تک نیلم بئی نے اسکے ساتھ زبردستی نہیں کی تھی کہ وہ رقص کے ساتھ ساتھ لوگوں کی راتوں کو بھی رنگین کرے۔ اسے بس پیسے سے مطلب تھا۔ ایسے ملے یا ویسے ملے۔
                    " آئے ہائے اسے کیا ہوگیا۔
                    کہیں مر مرا تو نہیں گئ۔"
                    نیلم بائی تیزی سے اسکی طرف بڑھی تھی۔ اور آگے ہو کر اسکے پاس زمین پہ گھٹنوں کے بل جھک کر اسکی نبض دیکھی تھی۔
                    نبض پہ ہاتھ رکھ کر نیلم بائی نے ایک پرسکون سانس خارج کی۔ وہ صرف بے ہوش تھی۔ اس نے اپنے ساتھ کچھ نہیں کیا تھا۔ جب تک دلاور کمرے میں رہا۔ نیلم بائی بے فکر رہی۔ مگر اسکے جاتے ہی وہ فوراً اسکے کمرے میں آئی تھی کہ کہیں وہ خود کو کوئی نقصان نہ پہنچا لے۔
                    " شوکت۔۔۔ رحمو بابا"
                    نیلم بائی نے اسکو زندہ محسوس کرتے ہی فوراً اپنے خاص آدمیوں کو آواز دی تھی۔ جو ہر وقت اسکے آس پاس ہی رہتے تھے۔
                    " یہ۔۔یہ کیا ہوا ہے"؟
                    " کس نے کیا ہے۔"؟
                    رحمو بابا کمرے میں داخل ہوتے ہی موہنی کی حالت دیکھ کر گنگ رہ گئے تھے۔ غصے اور دکھ کے ملے جلے تاثرات لیے انھوں نے نیلم بائی سے پوچھا تھا۔
                    رات کو موہنی پہ ٹوٹنے والی قیامت سے وہ اور شوکت دونوں ہی بے خبر تھے۔ رحمو بابا کی اچانک طبیعت کی خرابی کی وجہ سے شوکت انکو لے کر ہاسپٹل چلا گیا تھا۔ پھر رات گئے انکی واپسی ہوئی تھی اور آتے ہی اپنے کمرے میں سونے کو چلے گئے۔ اور اب یہ سب دیکھ کر انکے دل کو کچھ ہوا تھا۔
                    بچپن سے ہی موہنی کی دیکھ بھال اور اسکو رقص کے تمام گر سیکھانے کی تمام تر ذمہ داری رحمو بابا کے سپرد تھی۔ یہ واحد بچی تھی جو اس کوٹھے پہ بہت چھوٹی عمر میں آئی تھی۔
                    باقی اس کوٹھے کی سب لڑکیاں کچھ تو گھر سے بھاگی ہوئی تھیں۔ اور کچھ جانتے بوجھتے اپنے گھر اور بچوں کی خاطر خود آ کر اس غلاظت کا حصّٰہ بنی تھیں۔ اور کچھ کو انکے شوہروں کی شراب اور جوئے کی لت نے یہاں پہنچا دیا تھا۔
                    " شوکت جلدی سے گلشن کو بھیجو میرے پاس۔۔اور اس سے کہنا کہ کوئی لباس لیتی آئے۔۔ اور گاڑی نکالو جلدی۔۔
                    " اچھا رکو۔۔رہنے دو۔۔تم ایسا کرو کہ ڈاکٹر کو کال کرو، یہاں بلاؤ اسکو۔ ہم اسکو اس حالت میں ہاسپٹل نہیں لے جا سکتے۔ ہاسپٹل لیجاتے ہی یہ پولیس کیس بن جائے گا۔ اور ہم اس وقت ایک نئے مسلے میں نہیں پڑ سکتے۔۔"
                    نیلم بائی نے رحمو بابا کے سوال کو نظرانداز کرتے شوکت سے تیزی سے کہا۔
                    " آپ نے ہماری بات کا جواب نہیں دیا۔۔آپکو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ آپ نے وعدہ کیا تھا اس بچی سے۔
                    رحمو بابا نے نیلم بائی کی طرف تاَسُف بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
                    " دلاور"
                    نیلم بائی نے یک لفظی جواب دیا۔
                    " کیااااااا۔۔۔دلاور۔۔؟.۔یہ کیسے ممکن ہے۔؟. اس نے تو کبھی بھی موہنی کو چھونے کی کوشش نہیں کی آج تک۔۔ نہ کبھی اسکے کسی بھی انداز سے ایسا لگا کہ اسکی نظر تھی اس پہ۔۔اور اس نے تو خود ایک دفعہ موہنی کو بچایا تھا۔۔پھر وہ ایسا کیسے کر سکتا ہے۔
                    اور آپ نے بھی کچھ نہیں کیا۔۔آپکو اسکو روکنا چاہیے تھا۔۔سب آپکی آنکھوں کے سامنے ہوا۔۔اور آپ نے ہونے دیا۔۔کیوں۔؟
                    رحمو بابا نے پے در پہ کئ سوال کر ڈالے۔
                    " ہم کیا کرتے۔ وہ نشے میں تھا۔ہماری تو خود سمجھ میں نہیں آ رہا۔۔نشہ تو وہ پہلے بھی کرتا تھا۔ مگر کبھی اس نے ہوش نہیں کھوئے تھے۔
                    ہم نے روکا بھی تھا۔۔مگر اسکے آدمیوں نے گن نکال کر سبکو بے بس کر دیا۔.اب اپنی جان دے دیتے کیا ہم۔۔
                    نیلم بائی نے اپنی طرف سے صفائی دیتے ہوئے کہا۔
                    " ہم یہاں برسوں سے ہیں نیلم بائی اور خوب جانتے ہیں کہ آپ کیا کرسکتی ہیں اور کیا نہیں۔۔
                    رحمو بابا تلخی سے بولے۔۔
                    " خانم بلایا تھا آپ نے"
                    گلشن نے اندر آ کر کہا۔
                    نیلم بائی نے ایک نظر رحمو بابا کی طرف دیکھا۔
                    رحمو بابا نیلم بائی کی نظروں کا مفہوم سمجھ کر باہر نکل گئے۔ اور دروازہ بند کر دیا۔
                    " گلشن اسکو اٹھا کر بیڈ پہ ڈالنے میں میری مدد کرو۔پھر اسکے کپڑے بدلواؤ میرے ساتھ۔" نیلم بائی نے موہنی کو سیدھا کرتے ہوئے کہا۔.
                    اب جلدی سے کمرے کی حالت درست کرو۔ اور یہ گلدان کے ٹکڑے اٹھا کر باہر پھینک دو۔"
                    موہنی کے کپڑے بدلوانے کے بعد نیلم بائی نے گلشن کو دوسرا حکم دیا۔
                    سب اپنی جگہ واپس رکھنے کے بعد دونوں بیڈ پہ موہنی کے پاس بیٹھ کر ڈاکٹر کے آنے کا انتظار کرنے لگیں۔
                    " ڈاکٹر صاحب آ گئے ہیں خانم۔"
                    رحمو بابا نے باہر کھڑے ہو کر آواز دی۔
                    " ہاں۔۔ آنے دو۔"
                    " انکے ساتھ زبردستی کی ہے کسی نے کیا۔۔یہ تو پولیس کیس ہے۔"
                    ڈاکٹر نے مکمل چیک اپ کے بعد کہا۔
                    " یہ کوٹھا ہے ڈاکٹر صاحب۔آپکی دنیا نہیں۔
                    یہاں پہ نہ ریپ ہوتا ہے نہ زور زبردستی۔اس بازار میں بس گاہک ہوتا ہے اور خریدار ہوتا ہے۔۔
                    آپکا جو کام ہے۔ آپ وہ کریں بس۔ اور کسی چیز پہ دھیان مت دیں۔"
                    نیلم بائی نے انتہائی سنجیدہ اور بے لچک لہجے میں کہا۔


                    " ہم یہ بات بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں ہائم۔ یہ آپکا ساتھ ہی ہے جو ہر مشکل گھڑی میں ہمیں مظبوطی عطا کرتا ہے۔۔ہمیں ڈگمگانے نہیں دیتا۔ مگر آج کچھ الگ سا ہے ہائم۔۔ہمیں اس سے پہلے ایسی بے چینی کبھی نہیں ہوئی۔ایسا لگ رہا ہے جیسے ہماری روح کو انگاروں پہ گھسیٹا جا رہا ہے۔۔اک آگ ہے جو ہمارے چاروں طرف جل رہی ہے۔۔اور اس آگ کے شعلے ہمارے وجود کو جلا رہے ہیں۔۔
                    ایسا لگے رہا ہے جیسے ہماری روح ہمارے اندر بین کر رہی ہے۔۔ہم۔۔ہم خود اپنی کیفیت نہیں سمجھ پا رہے ہیں ہائم۔۔ہمارا دل چاہ رہا ہے ہم زور زور سے چیخیں مار مار کر روئیں۔۔
                    کچھ۔۔کچھ ہے ہائم۔۔کچھ ہوا ہے۔۔جو ہمیں بے چین کررہا ہے۔۔
                    کہیں۔۔کہیں اسے یا میرے بچے کو کچھ۔۔"
                    شاہ سائیں کی آنکھوں میں پھر سے نمی تیرنے لگی تھی۔
                    بولتے بولتے انکی آواز رقت آمیز ہوئی تھی۔ آگے ان سے کچھ بولا ہی نہیں گیا تھا۔۔
                    " الّٰلہ نہ کرے سائیں ایسا ہو۔ الّٰلہ انکو اپنی امان میں رکھے۔۔آپ نے کبھی کسی کے ساتھ کبھی برا نہیں کیا۔ہمیشہ سب کا بھلا ہی کیا۔ پھر آپکے ساتھ برا کیسے ہو سکتا ہے۔"
                    ہائمہ خاتون نے شاہ سائیں کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔
                    " ضروری نہیں ہوتا ہائم کہ ہماری زندگی کی پریشانیاں، دکھ، مصیبتیں ہمارے اپنے اعمال کا نتیجہ ہوں۔۔کبھی کبار ماں باپ کے کیے فیصلے، انکے اعمال اولاد کے آگے آ جاتے ہیں۔ اولاد کو بھگتنا پڑتے ہیں۔۔اور کبھی کبار اولاد کے اعمال، انکے گناہوں کے نتائج ماں باپ کو بھگتنا پڑتے ہیں۔ انکے آگے آتے ہیں۔"
                    شاہ سائیں نے ایک سرد آہ بھرتے ہوئے کہا۔
                    "مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا کہ آپ آج اتنے نا امید اور۔بے چین کیوں ہو رہے ہیں۔۔کیا کچھ پتہ چلا ہے۔۔
                    میرا مطلب کوئی کلیو ملا ہے ان لوگوں کا۔"؟
                    " نہیں کیوئی کلیو نہیں ملا۔۔ اور اس بے چینی کو ہم خود بھی نہیں سمجھ پا رہے۔۔پھر آپکو کیا بتائیں ہم.. ہم بس اتنا جانتے ہائم کہ یہ گھٹن ہمارا سانسوں کو تنگ کر رہی ہے۔۔ہمیں کانٹوں پہ گھسیٹ رہی ہے۔"
                    " آپ دعا کریں شاہ۔۔دعا میں اتنی طاقت ہے جو تہ شدہ موت کو بھی ٹال دیتی ہے۔۔آپ مایوس مت ہوں پلیز۔۔چلیں اٹھیں اب اور تھوڑا ریسٹ کر لیں۔"
                    ہائمہ خاتوں نے انکو بازو سے پکڑ کر اٹھانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
                    " نہیں ہائم ابھی تھوڑی دیر میں فجر کا وقت ہوا چاہتا ہے۔۔ہم اب فجر کی نماز ادا کر کے ہی لیٹیں گے۔۔آپ جائیں جا کے آرام کریں۔۔
                    شاہ سائیں نے منع کرتے ہوئے کہا۔
                    " شاہ نیند تو اب ہمیں بھی نہیں آ رہی۔۔ہم بھی وضو کر کے آتے ہیں پھر اکٹھے نماز ادا کرتے ہیں۔
                    ہائمہ خاتوں نے اٹھتے ہوئے کہا۔

                    " افففف میرے الّٰلہ اتنی دیر سوتی رہی میں۔بچیاں آتی ہوں گی تھوڑی دیر تک۔"
                    مہرالنساء صبح بچیوں کے سکول کالج جانے کے بعد کمرے میں آ کر لیٹی تو کب کس وقت آنکھ لگ گئی۔ پتہ ہی نہیں چلا۔ اور اب اچانک 2 بجے دوپہر کے آنکھ کھلی تو ہڑبڑا کر اٹھیں۔ اور جلدی سے منہ ہاتھ دھو کر کچن کا رخ کیا۔۔
                    " آئیں نہیں ابھی تمہاری نواب زادیاں."
                    تھوڑی دیر بعد رشید احمد کھانے کی میز پر آکر بیٹھتے ہوئے منہ بنا کر بولا۔
                    مہرالنساء سنی ان سنی کرتے کچن میں اپنے کام میں لگی رہی۔
                    " کچھ کھانے کو ملے گا یا ایسے ہی بھوکا مارنا ہے مجھے۔کب سے بیٹھا ہوں یہاں۔بندہ پوچھ ہی لیتا ہے کہ کچھ چاہیے تو نہیں۔"
                    " تم نے کبھی آج تک پوچھا ہے اپنی بچیوں سے کہ وہ کیسی ہیں۔ انکو کچھ چاہیے تو نہیں۔۔
                    پوچھنا تو بہت دور کی بات تم نے تو کبھی شفقت سے انکے سر پہ آج تک ہاتھ بھی نہیں رکھا۔ کبھی بیٹا کہ کر نہیں بلایا۔۔پھر تمہیں بھی شکوہ نہیں کرنا چاہیے ایسا کوئی بھی۔۔
                    مہرالنساء نے غصے سے کھانا رشید احمد کے سامنے رکھتے ہوئے کہا۔۔
                    " بیٹا کہنے سے بیٹیاں۔۔ ، بیٹا نہیں بن جاتیں۔ تم کیا جانو کہ چار چار منحوسوں کی شکل دیکھ کر میرا کتنا دل جلتا ہے۔ ہر وقت یہ احساس رہتا ہے کہ میں بے وارث رہوں گا۔ میرا کوئی نام لیوا نہیں ہوگا۔ ہمارا خاندان یہیں مجھ پہ ہی ختم ہو جائے گا۔اس کی آگے کوئی لڑی نہیں ہوگی۔ کاش کہ جہاں اتنی منحوسیں پیدا کی تھیں۔ ایک لعل بھی پیدا کر لیٹی تو وہ آج میرا بازو بنتا۔ میں فخر سے سر اٹھا کر چلتا کہ میرا بھی کوئی نام لیوا ہے۔
                    رشید احمد نے تلخی سے جواب دیا۔
                    "بیٹیاں کسی صورت بھی بیٹوں سے کمتر نہیں ہوتیں رشید احمد نہ جانے تمہیں یہ بات کب سمجھ میں آئے گی۔ الّٰلہ کے ہر کام میں اسکی مصلحت پوشیدا ہوتی ہے۔
                    اور بیٹی یا بیٹا پیدا کرنا عورت کے اختیار میں نہیں ہوتا۔ یہ رب کے فیصلے ہیں وہ جس کو چاہے بیٹیاں دے اور جسکو چاہے بیٹے دے۔ اور چاہے تو دونوں میں سے کچھ بھی نہ دے۔"
                    مہرالنساء نے اب کے بار تھکے لہجے میں کہا۔اور کچن کی طرف واپس پلٹ گئ۔
                    " ویسے ایک بات تو ماننے والی ہے کہ باتوں سے لاجواب خوب کرنا آتا ہے تمہیں۔ اور بگڑا تو ابھی بھی کچھ نہیں۔ ہر لحاظ سے اس عمر میں بھی فٹ ہو۔۔ہم ایک کوشش ابھی بھی کر سکتے ہیں۔
                    کوئی بھی تمہیں دیکھ کر دھوکا کھا سکتا ہے کہ تم جوان بچیوں کی ماں ہو۔"
                    رشید احمد نے اپنا کھانا ختم کر کے، کچن میں آکر مہرالنساء کو پیچھے سے بازوؤں کے گھیرے میں لیتے ہوئے کہا۔
                    " شرم کرو رشید احمد۔۔کچھ تو شرم کرو۔۔جوان بچیوں کے باپ ہو تم۔۔اس عمر میں نہ تو تمہیں یہ باتیں زیب دیتیں ہیں نہ یہ حرکتیں۔"
                    مہرالنساء نے زور سے رشید احمد کو پیچھے کو دھکا دیتے ہوئے کہا۔
                    " ویسے توبڑی باتیں کرنی آتی ہیں تمہیں۔ بڑے وعظ دینے آتے ہیں۔۔تو یہ بتاؤ کہ یہ کونسی حدیث میں لکھا ہے۔ یا کس آیت میں بیان کیا گیا ہے کہ شوہر 50 کا ہو جائے تو وہ بیوی کے پاس نہیں آ سکتا۔۔یا بچہ پیدا نہیں کر سکتا۔"
                    رشید احمد نے پھر سے مہرالنساء کو جکڑتے ہوئے کہا۔
                    " رشید احمد تم۔۔تم انتہائی گھٹ۔۔۔۔"
                    مہرالنساء کے فقرہ ابھی منہ میں ہی تھا کہ باہر دروازہ نوک ہوا۔اور اس نے سکھ کا سانس لیا۔یقیناً بچیاں آ گیئں تھیں۔
                    رشید برا سا منہ بناتا بڑ بڑ کرتا گھر سے باہر نکل گیا۔
                    " اسلام علیکم امی جان۔"
                    سب بچیوں نے اندر آکر مہرالنساء کو سلام کیا۔
                    " وعلیکم اسلام بیٹا۔"
                    مہرالنساء نے باری باری سب بچیوں کو گلے لگا کر جواب دیا۔
                    " یہ ابا کو کیا ہوا ہے ماں۔بہت غصے سے باہر نکلے ہیں۔۔پھر کوئی بات ہوئی ہے کیا۔"؟
                    عائلہ نے ماں سے فکر مندی سے پوچھا۔
                    " نہیں کچھ نہیں۔۔تم لوگ کپڑے چینج کر کے منہ ہاتھ دھو کر آ جاؤ۔۔میں تب تک کھانا لگا دیتی ہوں۔۔
                    " ماں آپ رہنے دیں۔میں لگا دوں گی۔ اور کتنی دفعہ میں نے آپ کو منع کیا ہے کہ آپ ہماری فکر مت کیا کریں۔۔ہم کونسا پیدل مارچ کرتے ہوئے کالج جاتیں ہیں۔۔میں آکر خود بنا لیا کروں گی۔۔
                    عائلہ نے مہرالنساء کے گلے میں پیار سے بازو ڈال کر اسکے گال پہ پیار کرتے ہوئے کہا۔

                    " واہ جی بڑی پڑھائیاں ہو رہی ہیں۔ اچھی بات ہے۔ بہت اچھی بات ہے۔ خوب دل لگا کر پڑھائی کیا کرو۔
                    میں نہیں چاہتا کہ میری کوئی بے عزتی کرے۔"
                    صارم شاہ نے فجر کے کمرے میں آکر دھپ سے اس کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا۔
                    " کیا۔۔۔کیا کہا آپ نے۔۔آپکی بے عزتی۔؟
                    " یہ بتائیں کہ میرے پڑھنے سے یا اچھے مارکس لینے کا آپکی بے عزتی سے کیا تعلق ہے۔۔"
                    عائلہ نے صارم کو گھورتے ہوئے پوچھا۔
                    " تعلق۔۔بہت گہرا تعلق ہے۔ اب دیکھو اگر تم فیل ہو جاتی ہو۔۔
                    " صارم بھائی۔۔۔۔عائلہ نے فیل ہونے کی بات سن کر چیخ مارنے کے انداز میں اسکو بیچ میں ہی ٹوکا۔
                    " اچھا۔۔اچھا۔۔چلو ٹھیک ہے فیل نہیں۔۔اگر اچھا رزلٹ نہ آیا اور مشکل سے پاس ہوئی تو لوگ کیا کہیں گے کہ صاررررم شاہہہہہ کی بہن اتنیییییی نالائق ہے۔ اور صرف میری ہی نہیں احتشام بھیا کی اماں سائیں کی اور بابا سائیں کی ہم سب کی کتنی بے عزتی ہے اس میں سوچو ذرا۔۔اففففف میں تو سوچ کر ہی دھل جاتا ہوں یارررررر۔۔۔۔"
                    صارم شاہ نے اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں میں لے کر انتہائی دکھی لہجے میں کہا۔
                    " نکلیں۔۔۔ابھی کے ابھی نکلیں میرے کمرے سے۔۔ورنہ میں اماں سائیں کو آواز دوں گی ابھی۔ اور احتشام بھیا کو بھی شکایت لگاؤں گی آپکی۔"
                    فجر نے غصے سے اپنے بیڈ سے نیچے اتر کر صارم شاہ کو بازو سے پکڑ کر اپنے بیڈ سے نیچے کو کیھنچتے ہوئے کہا۔
                    " کچھ شرم کر لو لڑکی۔۔ بڑا بھائی ہوں میں تمہارا۔۔لحاظ نام کی بھی کوئی چیز ہوتی ہے میرے خیال میں۔"
                    صارم شاہ نے اپنی بازو چھڑواتے ہوئے ۔مصنوعی خفگی سے کہا۔"
                    " بھائی۔۔آپکے جیسے ہوتے ہیں کیا بھائی۔۔جو اپنی ہی بہن کے لیے برا سوچیں۔"
                    فجر دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپا کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
                    " افففففف۔۔۔میرے خدا میں تو مزاق کر رہا تھا۔ اور تم سنجیدہ ہو کر بیٹھ گئ ہو۔۔چلو رونا بند کرو شاباش۔ میری جان۔۔میری پیاری گڑیا۔
                    اچھا یہ دیکھو۔۔میں کان پکڑ کے سوری کرتا ہوں۔۔
                    دیکھو ناں ادھر۔۔پلیز دیکھو ناں۔۔"
                    صارم شاہ نے سچ میں اپنے کان پکڑ کر فجر کو مناتے ہوئے کہا۔
                    " میں نے کب کہا کہ آپ کان پکڑیں۔۔مگر آپکو پتہ ہے بھیا کہ میرے ایگزیم ہونے والے ہیں۔ منہ سے نکلی بات کب کس وقت پوری ہو جائے پتہ تھوڑی چلتا ہے۔۔مجھے بس اسی لیے برا لگا۔"
                    فجر نے صارم شاہ کے ہاتھ کانوں سے ہٹاتے ہوئے نروٹھے پن سے کہا۔
                    " ہممممممم۔۔یہ تو ہے ویسے کہ نہ جانے کب کس وقت ہمارے منہ سے نکلی بات الّٰلہ کی پکڑ میں آجائے۔ ویسے یہ اتنی گہری باتیں تم کب سے کرنے لگی۔۔اتنا دماغ لگتا تو نہیں کہ تمہارا ہے۔۔"
                    صارم شاہ نے پھر سے شرارتی لہجے میں کہا۔
                    " بھائیییییی۔۔۔"
                    اوکے۔۔۔اوکے سوری۔۔ اب نہیں کرتا۔"
                    صارم شاہ نے اسکے دوبارہ رونے کا موڈ دیکھ کر جلدی سے کہا۔"
                    " ویسے ایک بات تو بتاؤ۔ کہ تمہاری وہ دوست بھی تمہاری طرح ہی لائق ہے یا بس ایویں ہے۔"
                    صارم شاہ نے فجر کو اصل موضوع کی طرف لاتے ہوئے پوچھا۔وہ عائلہ کے بارے میں سب جاننا چاہ رہا تھا۔
                    " بہت۔۔بہت لائق ہے بھیا وہ۔ ہماری کلاس میں وہ سب سے زیادہ زہین لڑکی ہے۔۔ اور آپکو پتہ ہے سب سے زیادہ خوبصورت بھی۔"
                    فجر سب بھول بھال کر بڑے اشتیاق سے صارم کو بتانے لگی۔
                    " ہممممم۔۔خوبصورت تو واقع بہت ہے۔"
                    صارم نے بےدھیانی میں کہا۔
                    " اوہ سچ یاد آیا بھائی۔۔اس دن آپ نے اتنی بری ڈرائیونگ کی تھی سچی۔ عائلہ کے سر پہ بہت چوٹ لگی تھی۔ کلاس میں سارا وقت اسکے پین ہوتی
                    رہی تھی۔ اتنا بڑا گومڑ پڑا ہوا تھا اسکے سر پہ"
                    فجر کو بات کرتے کرتے اچانکے سب یاد آیا تو افسوس بھرے لہجے میں بولی۔
                    " تو تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں۔ اسکو کسی ڈاکٹر کو دکھا لیتے۔"
                    صارم کو بھی افسوس ہوا۔ اور اسکی بھیگی آنکھیں یاد آئیں۔
                    " میں نے کہا تھا۔۔لیکن وہ نہیں مانی۔"
                    فجر کو بھی افسوس ہوا۔
                    اسکے بابا کیا کرتے ہیں۔"
                    صارم نے اگلا سوال کیا۔
                    " خیر تو ہے بھیا۔۔یہ اتنی انکوائری کیوں ہو رہی
                    ہے آج۔.پہلے تو آپ نے کبھی میری کسی فرینڈ کے بارے میں کوئی انٹرسٹ نہیں لیا۔"
                    فجر نے جانچتی نظروں سے صارم کی طرف دیکھتے ہوئے سوال کیا۔
                    " لو مجھے کیا ضرورت ہے انکوائری کرنے کی۔۔وی تو تم نے بات چھیڑی تھی کہ اسکے کافی چوٹ لگی تھی۔اس لیے بس ایسے ہی بات سے بات نکل آئی۔ چلو خیر تم پڑھو دھیان سے۔"
                    صارم شاہ اٹھ کر جاتے ہوئے بولا۔ فجر پھر سے اپنی بکس لے کر پیپرز کی تیاری کرنے لگے۔۔
                    " فجر ویسے ایک بات کہنی تھی یار."
                    صارم نے دروازے کے بیچ میں کھڑے ہو کر تھوڑا سا منہ بند دروازے کے اندر سے نکال کر کہا۔
                    " اب کیا بھائی"؟
                    فجر نے جھنجلا کر کہا۔
                    " وہ۔۔۔میں کہ رہا تھا کہ۔..۔۔"
                    " پلیز بھیا اب بول بھی دیں۔۔مجھے پڑھنا ہے بیٹھ کر۔۔آپ مجھے بار بار ڈسٹرب کر رہے ہیں۔.
                    " ہاں۔۔ہاں تم پڑھو دھیان سے۔۔مجھے بس اتنا کہنا تھا کہ پلیز یار فیل مت ہونا۔۔"
                    کہتے ہی قہقہ مارتے ہوئے صارم یک دم دروازے سے غائب ہوا تھا۔۔" آہہہہہہہہ۔۔۔۔بھیاااااااا۔۔۔۔"
                    فجر نے اب کے بار اپنے فل والیم سے چلائی تھی۔۔

                    ماضی۔۔!
                    یہ چھوٹا سا 3 مرلے کا رضوانہ خاتون کا گھر ہے۔ جس میں وہ اپنے شوہر اور ایک بیٹی فاطمہ اور دلاور عرف دانی کے ساتھ رہتی تھیں۔۔دلاور عرف دانی انکا بھانجہ تھا۔
                    انکی بہن عالیہ ایک خوشحال خاتون تھیں۔زمین گھر جائیداد الّٰلہ کا دیا سب کچھ تھا انکے پاس۔۔بزنس میں انکی بہن کے شوہر سلطان ملک کی اپنے پارٹنر کے ساتھ ان بن چل رہی تھی۔۔اور اس کے کیے گئے دھوکے کی وجہ سے اس پہ کیس کرنے کا سوچ رہے تھے۔۔
                    ایک دن انکے پارٹنر نے ان سے گھر آ کر معافی مانگی۔۔اور یہ بھی کہا کہ وہ سارا نقصان بھرنے کو تیار ہے۔
                    معافی تلافی کے بعد اس نے پوری فیملی کی اپنے گھر دعوت کی۔۔دعوت سے واپسی پر انکے پارٹنر نے سمطان ملک کی گاڑی کے بریک فیل کروا دئیے۔۔
                    راستے میں سامنے سے آتی گاڑی کی ٹکر سے اپنی گاڑی کو بچانے کے لیے جب اچانک موڑ کاٹ کر بریک لگانے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ گاڑی کے تو بریکس ہی کام نہیں کر رہے جب اس بات کا پتہ چلا تو تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔۔گاڑی تیزی سے کھائی کی طرف بڑھ رہی تھی۔۔سلطان صاحب نے اپنی بیوی اور بیٹے کو بچانے کے لیے عالیہ بیگم سے کود جانے کو کہا۔۔مگر عالیہ بیگم نے خود کودنے کی بجائے اپنے 11 سالہ بیٹے دلاور سلطان کو تیزی سے پکڑ کر باہر پھینک دیا۔۔
                    اسی وقت ایک زور دار دھماکے سے گاڑی کھائی میں جاگری۔ گاڑی سے اٹھتے شعلوں نے اپنے آس پاس کی ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔
                    اور ایک روتے بلکتے معصوم بچے کی نہ صرف معصومیت کو بلکہ اسکے روشن تابندہ مستقبل کو بھی نگل لیا تھا۔
                    اپنی بہن اور بہنوئی کی حادثاتی موت کے بعد دلاور اپنی خالہ کے زیر کفالت آ گیا۔ سلطان ملک کی وفات کے بعد سارے کروبار پر انکے پارٹنر نے قبضہ جما لیا۔
                    رضوانہ خاتون کے شوہر میں اتنی سکت نہیں تھی کہ وہ دلاور کے حق کے لیے عدالت سے رجوع کرتے۔
                    دن ایسے ہی گزرتے گئے۔۔اور ایک دن الّٰلہ کی رضا سے رضوانہ خاتون کے شوہر فیاض احمد بھی چار سال بعد خالقِ حقیقی سے جا ملے۔
                    اس اچانک ناگہانی موت نے رضوانہ خاتون پر بہت گہرا اثر چھوڑا۔ جسکی وجہ سے فالج کے مائنر اٹیک نے انکو چارپائی سے لگا دیا۔۔
                    دلاور اور فاطمہ انکی کل کائنات تھے۔۔پے در پہ بگڑتے اور تکلیف دے حالات نے دلاور کو وقت سے پہلے بڑا بنا دیا۔۔
                    " فاطمہ بیٹا رات ہونے کو آئی ہے۔ دانی ابھی تک نہیں آیا۔ پہلے تو کبھی اتنی دیر نہیں لگائی اس نے۔"
                    رضوانہ خاتون نے پریشان ہوتے ہوئے کہا۔
                    " ماں میں نے کال کی تھی۔ کہ رہا تھا کہ بس تھوڑی دیر تک آ رہا ہوں۔ آپ پریشان نہ ہوں۔"
                    فاطمہ نے روٹیاں بناتے ہوئے کچن میں سے ہی اونچی آواز میں جواب دیا۔۔


                    Comment

                    Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                    Working...
                    X