Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

آنگن کا دیپ

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • Love Story آنگن کا دیپ

    میرے آنگن کا دیپ۔
    اپنی یادین اپنی روح اور جان کے نام۔
    میرے آنگن کا دیپ (افسانہ)۔
    از ۔صنم ساقی۔
    قسمت بدلنے کاکوئی وقت مقرر نہیں ہے۔۔ پر جب بدلتی ہے تو انسان کو بھنک تک نہیں لگنے دیتی۔ میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔۔۔ اس رات ای میلز کرتے جانے کب میری آںکھ لگی اور میں ٹیبل پہ بایاں گال ٹکائے سوگیا۔۔۔ فون کی بیل پہ میری آنکھ کھلی۔۔۔ انجان نمبر دیکھ کے میں پریشان ہوا کہ اس وقت کون فون کررہا ہے۔ فون اٹھانے کو دل نہیں کررہا تھا۔۔ لیکن یہ سوچ کے اٹھا لیا جو بھی ہے ضرور کوئی جاننے والا ہی ہوگا۔۔ کہیں کسی مصیبت میں نہ ہو۔۔۔۔ میں نے کال اٹنڈ کی۔۔۔
    ارےے"ساقی! کیا تم سو رہے ہو۔۔۔۔"
    کوئل سی کھنکتی اس آواز کو میں لمحون مین ھی پہچان گیا تھا۔۔۔۔
    "غزل۔۔۔۔! تم ۔۔۔۔اور وہ بھی اس وقت۔۔۔۔ خیریت۔۔۔۔ " تو ھے نا اس طرح۔۔۔۔
    "ہاں ۔۔۔۔ صنم !بلکل خیریت ہے یار۔۔۔بس مجھے یہ بتاؤ کہ سو رہے ہو یا جاگ رہے ہو۔۔۔۔"
    اسکی آواز میں نہجانے کیون مجھے قدرے کچھ تو اداسی محسوس ہوئی تھی
    ارے"پگلی!جاگ رہا ہوں تو فون اٹھایا نا۔۔۔۔"
    "ساقی۔۔! صبح کے چار بج رہے ہیں۔۔۔۔ تم ابھی تک کیوں جاگ رہے ہو۔۔۔۔۔ ؟"
    اسکے ایسے سوال اور یکدم سے اتنی زیادہ بے تکلفی برتنے پر میں حیران تھا
    وہ" کچھ ضرروی ای میلز کرنی تھیں اس لیے ابھی تک جاگ رہا ہوں۔۔ ویسے بھی صبح سنڈے ہے۔۔۔۔ دن میں نیند پوری کرلوں گا۔۔۔۔"
    صنم"کہیں۔۔۔ تمہاری کوئی گرل فرینڈ تو نہیں ہے۔۔۔۔ جس سے تم باتین کررہے تھے۔۔۔۔ "اور ٹائم گذرنے کا احساس نہین ہوا۔
    غزل کے اس عجیب سے شکی انداز پر میری ہنسی چھوٹنے لگئی۔۔۔اور ساتھ مین دل ہی دل مین سوچنےلگاکہ ہمارےدرمیان میں تو ایئسا کچھ ہے ہی نہین تو غزل ایئسے سوال کیون کر رہی ہے۔
    "بتاؤ نا۔۔ مجھے صنم۔۔۔۔! تمہاری کوئی گرل فرینڈ ہے کیا؟"دیکھو ساقی مجھے سب سچ سچ بتانا تم۔؟؟؟
    "نہیں۔۔غزل یار۔۔۔۔ میرے جیسے نارملی شکل و صورت کے عام سے لڑکوں کو آجکل کی تیز فیشن زدہ ماڈرن لڑکیاں کہاں لفٹ کراتی ہیں۔۔۔۔ یہاں تو شادی کے لیے ہمین لڑکی نہیں ملتی۔۔۔ گرل فرینڈ تو دور کی بات ہے۔۔۔۔۔ "غزل کوبتاتے صنم لگا تار ہنس رہا تھا۔۔۔۔
    غزل: صنم تم"مجھ سے شادی کرو گے۔۔۔۔۔۔ ؟"
    صنم"ارے غزل اب تم بھی کیا میرا مذاق اڑاو گی۔۔۔۔۔"میری بے اختیار ہنسی اچانک سے قہقہے میں بدلی۔۔۔۔
    غزل:"نہی ساقی میںتم سے سچ کہہ رہی ہو۔۔۔مجھ سے شادی کرلو تم۔۔۔۔ "
    پھر ہنستے ہنستے میری انتڑیاں دکھنے لگیں۔اب"بس بھی کرو نا۔۔غزل۔۔!تم اور کتنا ہنساؤ گی یار۔۔۔۔میرے گھر والے اٹھ جائیں گے۔۔"میں نے بہت زیادہ ہنسنے کے باعث اچانک سے ساتھ أتی کھانسی مین کھانستے ہوئے جواب دیا۔۔۔۔
    "صنم۔۔۔یار۔۔۔۔میری بات کا یقین کرو۔۔۔۔۔میں مذاق نہیں کررہی ہوں "تمہین سچ مچ کہ ر ہی ہون۔
    غزل کی آواز میں اب گہری سنجیدگی تھی۔۔۔۔ میں نے خود پر بمشکل کنٹرول کیا۔۔۔ ارےے
    "کیا ہوگیا۔۔تمہین غزل۔۔۔؟ سب ٹھیک ہے نا۔۔۔۔ ؟ "۔
    غزل:"ساقی یار مین تمہین سب کچھ بتاؤں گی۔۔مگر پہلے تم یہ بتاؤ کہ کیا مجھ سے شادی کرو گے تم۔۔۔۔ ؟"
    یونیورسٹی کے شروع کے دنوں میں جب پہلی بار میں نے غزل کو دیکھا تھا تو ایک عجیب سا احساس دل میں اترا۔۔ گلاب کی پنکھڑی جیسی نازک سی لڑکی پہلی نظر میں ہی دل میں گھر کرگئی۔اپنی شکلو صورت اور حیثیت کچھ ایسی تھی کہ اس سے بات کرنا تو دور اسے جی بھر کے دیکھنا بھی محال تھا ،جب ہلکی سی بات چیت شروع ہوئی تو پتا چلا کہ غزل کا ایک کزن عاصم بھی اس کے ساتھ ساتھ ہی کالج مین داخل ہوا ہے۔اور وہ غزل کے معاملے مین نہایت کنزٹو سوچ اور معمولی سے باتون پر بھی ہاتھ چٹھ اورجگڑے کے لئے تیار رہتا ہے۔۔اور اس بات سے پھر سبھی ہی دوست واقف ہو گئے تھے۔۔میں نے بھی چپ چپ اپنے اُٹھے جذبات کا وہین پر گلہ گھونٹا مناسب سمجھا۔
    غزل جیسی بیمثال حسین لڑکی کے ساتھ خود کا سوچنا بھی جرم لگنے لگبا تھا۔
    عاصم اور غزل دونوں کااس شہر لاہور کے چند امیر ترین ریئس گھرانوں سے تعلق تھا۔میرے جیسے گندمی سانولی رنگت کے عام نوجوان جو متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہوں وہ غزل جیسی لڑکیوں کے خواب نہیں دیکھ سکتے۔بس کن انکھیوں سے دیدار کرکے ہی دل کی پیاس بجھا لیتے ہیں۔ عاصم ہمارے فرینڈز کےگروپ میں شامل ہوا تو غزل سے بھی پھر کبھی ہیلو ہائے ہونے لگی۔۔یہ شوخ وچنچل الڑمٹیار سی لڑکی بنا سوچے کچھ بھی بول دیتی۔۔۔اور ہم لڑکے اپنی مردانہ سوچ کے مطابق اسکی معصوم سی باتوں کا الگ ہی مطلب نکال کے پھر سارا دن ہنستے رہتے۔۔۔
    یونیورسٹی کے بعد سبھی اپنی اپنی زندگیوں میں مگن ہوگئے۔ جن کو موقع ملا وہ باہر چلے گئے اور کچھ میری طرح یہیں نوکریاں ڈھونڈنے لگے۔۔۔ پڑھائی سے فارغ ہوتے ہی ابا جی نے دونوں بہنوں کی شادی کی ذمہ داری میرے کندھوں پہ ڈال دی تھی۔۔نوکری ملی تو کولہو کے بیل کی طرح مین اپنے کام پہ لگ گیا۔۔۔ گزرتے دنوں کے ساتھ یونیورسٹی کے سبھی دوستوں سے رابطہ ٹوٹنے لگا۔۔۔
    لیکن عاصم کےساتھ بات چیت جاری رہی اور اکثر اوقات ملاقات بھی ہوجاتی۔وجہ کوئی اتنی خاص بھی نہین تھی بس مجھ جیسے عام سے شکل و صورت والے لڑکے کی شعر و شاعری اور غزلین عاصم کو بہت اچھی لگا کرتین تھین ۔ اسکی وجہ سے غزل سے بھی رابطہ قائم تھا۔۔
    غزل سے میری جب بھی کبھی بات ہوئی صرف دوستی کے حوالےسےہی ہوئی۔ہان اگرکبھی ان دونوں کی لڑائی ہوجاتی تو صلح میں کرایا کرتا تھا۔۔ مہینے میں ایک آدھ بارڈنر یا لنچ بھی ساتھ میں ہوجاتا۔غزل کی امی ایک عرصے سے غریب اور نادار بچوں کے لیے ایک"این جی او" چلا رہی تھیں۔۔ پڑھائی سے فارغ ہوکر غزل بھی انکے ساتھ ہی جت گئی لیکن عاصم نے نہ تو کوئی نوکری کی اور نہ ہی باپ کے بزنس میں شمولیت اختیار کی۔جب بھی اس بارے میں اس سے بات ہوتی تو وہی یہی کہتا کہ یار میں یہاں نہیں رہنا چاہتا۔۔
    میں "یو ایس" مین جانا چاہتا ہوں۔غزل اور عاصم کی لڑائیاں اکثر اسی مدعے پہ ظہور پزیر ہوتی تھیں۔
    کیونکہ مین شروع سے ہی یہ سمجھتا تھا کہ وہ دونون ایک دوسرے مین انٹرسٹ ہین۔مگر ان دونون نے آپسی کسی رلیشن کے ٹاپک پر کبھی کوئی نہین کی تھی۔
    میں جب بھی کبھی ان سے شادی کا پوچھتا تو وہ ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھ کر قہقہ لگا کر ہنسنے لگتے۔اور پھر ہمیشہ عاصم ہی بول اٹھٹا تھا "ارےے مجھے کوئی جلدی نہین ہے ؟۔۔میں پہلے کچھ بن جاؤں۔۔۔کچھ کرلوں پھر ہی شادی کرون گا"۔
    عاصم کے جواب پہ غزل کے چہرے پہ پھیلی اداسی بہت سے سوال کھڑے کردیتی۔ میں نے کبھی کریدنے کی کوشش نہیں کی۔ کچھ مہینوں بعد عاصم "یو ایس" چلا گیا۔ اور غزل سے میرا رابطہ مکمل طور پر ختم ہوگیا ۔۔۔ کیوں کہ اس کے ساتھ جو بھی تعلق تھا وہ عاصم کی وجہ سے تھا۔پھر اس نےبھی توکبھی مجھ سے رابطہ نہیں کیا۔۔۔۔
    پھرچند ماہ مزید گزرے۔۔۔ میں اپنی دونون ہی بڑی بہنوں کے فرائض سے سبکدوش ہو گیا۔۔ مین نے بہت دھوم دھام سے ان کی شادییان کراوئین۔۔اور ماں باپ کی ڈھیروں دعائیں حاصل کر لیں۔۔۔۔۔ لیکن اب امّی چاہتی تھیں کہ وہ جھٹ پٹ میری شادی کرادیں۔۔۔ لیکن میں خود کو دماغی طور پہ شادی کے لیے تیار نہیں کرپایا تھا۔۔۔ لیکن وہ بھی باز نہ آتیں۔۔۔ خالہ، چچی، تائی، پھھپو کی بیٹیوں کی ایک لمبی لائن میرے سامنے تھی۔۔۔ اگر مجھے ان میں سے کوئی پسند نہیں تھی تو دور کے رشتہ دار عزیز و اقارب کی نئی لسٹ تیار ہونے لگتی۔۔پھر وہاں سے بھی منع کرتا تو اس کے محلے پڑوسیوں کی باری آجاتی۔۔۔ رشیدہ آنٹی کی ایم انگلش بیٹی میمونہ نشانے پہ ہوتی۔۔ اس سے نظر چراتا تو حاجی صاحب کی فاخرہ اور نادیہ مسکراتی ہوئی ملتیں، ان سے جان نہیں چھوٹی ہوتی تو میری بہنوں کے سسرالیوں میں لڑکیاں کھوجی جاتیں۔۔۔۔ امّی میرے ہاتھ میں آدھے شہر کی لڑکیوں کی "سی وی" تھماتیں۔۔ اور میں مسکرا کے انہیں گلے لگا لیتا تھا۔۔۔۔ "بیٹا۔۔! میں اپنی آںکھوں سے تمہاری خوشی دیکھنا چاہتی ہوں۔۔۔۔کیوں نہیں مانتا تو۔۔۔۔؟ " وہ آبدیدہ ہوجاتیں۔۔۔۔
    "امّی۔۔! تھوڑا وقت دیں نا مجھے۔۔۔ میں نے کب انکار کیا ہے شادی سے۔۔۔۔ "
    امی :صنم بیٹا"اگر تجھے کوئی پسند ہے تو بتا۔۔۔۔"نا مجھے مین اپنے بیٹے کیلیے اسے لے أؤن اپنے اس سونے أنگن مین۔
    "اف ہو۔۔۔امی ! کتنی بار بتاؤں۔۔ اگر کوئی پسند آئی تو سب سے پہلے آپکو بتاؤں گا۔۔۔ بلکہ آپ سب کو اسکے گھر لے کر جاؤں گا۔۔۔۔ "اورمیں ساتھ ان کے ہاتھ چومنے لگتا۔۔۔۔ ہان یہ ضرور ہے کہ اس دوران غزل ضرور میرے ذہن کے دریچون سے نکل کر جھلملانے لگتی۔
    پھر امی توچپ ہو جاتیں۔۔۔ اور میں اس سوچ میں پڑ جاتا کہ بھلا مجھے کیون وہ پسند کرے گی۔۔۔۔
    **
    "صنم۔۔۔ یار! تم ایئسے چپ کیوں ہوگئے ہو۔۔۔۔ َ؟ میں تمہیں پسند نہیں ہوں۔۔۔ ؟" کیا مین تمہین اچھی نہین لگتی ہون کیا۔؟؟؟
    غزل کی دلکش سریلی آواز پھر سے میرے کان میں گونجی۔
    "غزل۔۔یار ! ہوا کیا ہے۔۔۔کیا گھر مین تمہاری لڑائی ہوئی ہے کیا بتاو نا مجھے۔۔۔۔ ؟"
    "میرے گھر والون کو چھوڑو تم۔۔۔ بس مجھے ہاں یا نہ میں جواب دو۔۔۔ تم مجھ سے شادی کرو گے یا نہیں۔۔۔۔ ؟"
    میں یقین اور بے یقینی کے بیچ میں اٹک سا گیا تھا۔۔۔۔
    غزل"تم جانتی ہو۔۔ یہ ناممکن ہے۔۔ تمہارے ماں باپ میرے لیے کیوں مانیں گے۔۔۔؟"اور ویئسے بھی وہ تمہارے کزن عاصم مین انٹریسٹ تھے تمہارے حوالے سے۔(اب مین ڈائریکٹ غزل سے کیئسے کہتا کہ تم خود پہلے عاصم مین ہی انوال تھی)
    غزل:"شادی میں نے کرنی ہے انھوں نے نہیں ۔۔ تم بس اپنی مرضی بتاؤ۔۔۔"
    صنم:"لیکن۔۔۔غزل تم نے میرا ہی انتخاب کیوں کیا۔۔۔۔ ؟ اور جب تک تم عاصم کے بارے میں مجھے کچھ نہیں بتاؤ گی میں ایسے کیسے فیصلہ کرلوں"میں نے بہت سنجیدگی سے اس سے سوال کیا۔
    غزل::"عاصم۔۔! سے ہمارے گھر کا ہر تعلق ختم ہوچکا ہے"غزل نےافسردگی سے اس نے جواب دیا۔"وہ "یو ایس" جا کے بدل گیا۔۔۔ اسے کوئی اور وہان پر پسند آگئی۔۔۔۔۔صنم۔۔۔! اس نے ہم سب کو دھوکہ دیا۔۔۔۔ "غزل
    کی آواز میں بہت ہی لرزش تھی۔۔۔
    میرے دل میں ایک درد سا اٹھا تھا۔۔۔ پل بھر میں اپنی اوقات سمجھ آگئی۔۔۔ وہ مجھے مرہم کے طور پہ استعمال کرنا چاہتی تھی۔ "کیوں۔۔ غزل۔۔! آخر اس طرح سے کیوں۔۔۔۔ ؟ میری بس اتنی سی اوقات ہے تمہارے سامنے۔۔۔۔ ؟" میں چیخ چیخ کے کہنا چاہتا تھا۔۔۔ لیکن زبان پہ تالے لگ گئے۔۔۔۔ بھلا کیسے میں سوچ لوں کہ اس کے دل میں میرے لیے محبت جاگی ہے۔ میں تو شائد مرہم بننے کے قابل بھی نہیں ہوں۔
    غزل پھر سے"بتاؤ نا۔۔۔صنم! تم مجھ سے شادی کرو گے یا نہیں۔۔۔پلیزز۔۔!"ساقی مان جاؤ نا۔
    صنم :غزل"تم اپنے طبقے میں کسی خوبصورت شکل لڑکے کا انتخاب کرو۔۔۔میں تمہارے قابل نہیں ہوں۔۔۔۔ "مین سچ کہ رہا ہون۔میں نے اپنے دل پہ پتھر رکھ لیا
    غزل"نہیں۔۔۔۔ساقی میں تم سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔۔۔۔ مجھے کوئی اور نہیں چاہیے۔۔۔ "
    شائد وہ مجھ سے شادی کرکے خود کو ایک سزا دینا چاہتی تھی۔۔(عاصم کے دھوکے نے اسے توڑ دیا تھا)۔۔ اور وہ مجھے توڑ رہی تھی۔میں نےاندر سے اُٹھتی ہوئی سسکی اپنے اندر ھی دفن کردی۔۔۔۔
    غزل"کیوں کہ ساقی تم لاکھوں لڑکوں سے اچھے ہو۔۔ سمجھدار ہو۔۔اور مجھے یقین ہے تم میرا دل نہیں توڑو گے۔۔۔"
    "اور میرے دل کا کیا۔۔۔ ؟ جسے تم کرچیاں کرچیاں کررہی ہو۔۔۔۔ " میں کہتے کہتے رکا۔۔پھر کچھ دیر دونوں طرف ہی خاموشی چھائی رہی۔۔۔۔
    صنم ::غزل "تم ابھی جذباتی ہورہی ہو۔۔۔ تھوڑا تو وقت دو خود کو۔۔اور پھر دانشمندی سے کوئی فیصلہ کرنا۔۔۔۔ "
    غزل:"میرے پاس وقت نہیں ہے۔۔صنم جو کرنا ہے ابھی کرنا ہے۔۔اور میں جذباتی بھی نہیں ہورہی ہوں۔۔۔مین نے یہ سب بہت سوچ سمجھ کے فیصلہ کیا ہے۔۔۔"
    میں فورا سمجھ گیاتھا کہ میں عاصم کا دوست ہوں، وہ مجھ سے شادی کرکے اسے تکلیف دینا چاہتی تھی۔جس سے میں اپنی ہی نظروں میں گرتا چلا جا رہا تھا۔۔۔۔غزل"وقت کیوں نہیں ہے تمہارے پاس۔۔۔ "
    "میں عاصم سے پہلے شادی کرنا چاہتی ہوں۔۔۔۔ اسکی شادی کی تاریخ طے ہوچکی ہے۔۔"
    کتنی صاف گو تھی وہ۔۔۔۔ سب سچ سچ بتا رہی تھی۔۔۔ میں نے پل بھر کے لیے سوچا یہ چاہتی تو جھوٹ بول سکتی تھی۔۔ میرا دل رکھنے کے لیے کچھ بھی کہہ دیتی۔۔مگر اس نے جھوٹ کا سہارا نہیں لیا۔۔۔۔ میرا دماغ بار بار کہہ رہا تھا کہ میں اسے جھٹک دوں۔۔۔ انکار کردوں۔۔ اور کہہ دوں کہ میں خود کو مار کر تمہارا مرہم نہیں بن سکتا۔۔۔۔۔ پر دل تھا جو خود کشی کرنے کو مچل رہا تھا۔۔۔۔
    صنم:"تمہاری فیملی کیئسےمانے گی۔۔۔۔ ؟"اور یہ سب"تم کیسے خود کہہ سکتی ہو۔۔۔۔ ؟"
    غزل"میرے گھر والے مجھے بس خوش دیکھنا چاہتے ہیں۔۔۔ "
    صنم:غزل کیا"تم میرے ساتھ خوش رہو گی۔۔۔۔؟"
    غزل:"ہاں۔۔۔۔ مجھے یقین ہے میں تمہارے ساتھ ہمیشہ خوش رہوں گی۔۔۔۔"
    صنم غزل"کیسے۔۔۔۔ ؟کیسے کہہ سکتی ہو تم۔۔میرے اور تمہارے گھر کے ماحول میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔۔۔۔ میرے پاس تمہارے لائق نہ شکل وصورت ہے نہ سٹیٹس۔۔۔۔ "
    اب کھل کے بات کرنا ضروری ہوگیا تھا
    غزل:"صنم ساقی۔۔۔! خوش شکل اور سٹیٹس والے لوگ خوشیوں کی ضمانت نہیں ہوتے۔۔۔یہ سب ایک دکھاوا ہے۔۔۔ جس کی حقیقت بہت بھیانک ہے۔۔۔"
    صنم:"توغزل تم اپنی زندگی کے ساتھ ایک اور تجربہ کرنا چاہ رہ ہو۔۔۔۔؟"
    غزل:"نہیں۔صنم میں تجربوں سے نکل کے حقیقت میں داخل ہونا چاہتی ہوں۔۔۔۔ "مین "نہیں جانتی کہ تم کیوں؟؟۔۔۔۔ مگر تم ہی اب میری ڑمزندگی مین بس ہو۔۔۔۔ "۔"کیا تم تیار ہو۔۔۔اس کے لئے۔صنم ۔۔!"
    بتاؤ نا مجھے
    میں نہیں جانتا تھا کہ میری ہاں مجھے کسی وادی میں لے جائے گی یا پھر اندھے کنوئیں میں دھکیل دے گی۔۔ پھر بھی اس دل نشیں تجربے سے گزرنا ضروری تھا۔۔۔
    صنم"ٹھیک ہے غزل۔۔۔ اگر تو تمہاری یہی منشا ہے تو میں راضی ہوں۔۔۔۔۔ "
    غزل:"لیکن میری کچھ شرطیں ہیں۔۔۔۔""تم آج ہی اپنے گھر والوں کو میرے رشتے کے لیے بھیجو۔۔۔ میں اگلے دو ہفتوں کے اندر اندر تم سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔۔۔۔ "
    صنم"اتنی جلدی۔۔۔۔۔ ؟ اتنی جلدی کیسے۔۔۔۔ مجھے تھوڑا تو وقت دو۔۔۔۔۔ "
    غزل:"تم سمجھ کیوں نہیں رہے ہو صنم۔۔میرے پاس وقت بہت کم ہے۔۔۔۔"مین سب کچھ"جانتی ہوں۔۔۔ بس تمہارا ساتھ چاہیے مجھے اس بے وقوفی میں۔۔۔۔ "
    میں کش مکش میں تھا کہ کیا کروں۔۔۔۔ اس پہ یہ پاگل پن سوار کیوں ہے۔۔۔ گر کچھ دن بعد بھوت اتر گیا تو۔۔۔؟ لیکن اس بار بھی میں دل سے ہار گیا۔۔۔ "صنم ساقی۔۔! جو ہوگا دیکھا جائے گا۔۔۔۔"
    "ٹھیک ہے۔۔۔ میں کل ہی اپنے گھر والوں کو بھجواتا ہوں۔۔۔۔ "
    "میری ایک اور شرط بھی ہے۔۔۔۔ "
    "مجھے شادی کے پہلے سال ہی بچہ چاہیے۔۔۔۔ "
    اسکی بے تکی شرط پہ میں ششدر تھا۔
    "غزل۔۔! یہ کیسی شرط ہے۔۔۔ ؟"
    "ایسے کیسے ہاں کر دوں۔۔۔۔۔ ؟ یہ انسان کے ہاتھ میں تھوڑی ہوتا ہے۔۔۔۔ "
    "جانتی ہوں۔۔۔ پر اگر تم ہاں کردو گے تو میری یہ خواہش پوری ہوجائے گی۔۔۔۔۔ "
    ایک پل کے لیےمجھے یہی لگا کہ شائد وہ اپنے حواس میں نہیں ہے۔ اس لیے عجیب و غریب باتیں کررہی ہے۔
    "یہ مت سمجھنا کہ میں عاصم کے دھوکے سے حواس کھو بیٹھی ہوں۔۔۔۔ "
    اس نے میرے دماغ میں الجھے سوالوں کو پڑھ لیا تھا۔۔۔
    "تو پھر یہ سب کیا ہے۔۔۔۔۔ ؟"
    "وقت پہ چھوڑ دو۔۔۔۔۔ اور اپنے دل سے ہر وہم نکال دو۔۔۔۔۔ "
    کیسے ہر وہم دل سے نکال دوں۔۔۔ ایک طرف قسمت بے یقین کھڑی تھی اور دوسری طرف دماغ خدشات کے جالے بن رہا تھا۔۔۔۔
    "صنم! بیٹا۔۔۔! صبح ہوگئی۔۔۔ اٹھ جا ۔۔۔ کب تک سوتا رہے گا۔۔۔۔ "
    امّی کی آواز میرے کان میں پڑی۔۔۔ میں کرسی سی اٹھ کر بستر پہ جا لیٹا۔۔۔۔۔
    "صنم۔۔۔! یاد سے بھیج دینا اپنے گھر والوں کو۔۔۔ میں انتظار کروں گی۔۔۔۔۔ "
    غزل کی آخری سرگوشی سنائی دی۔۔۔۔ ایک خمار سا تھا۔۔۔ میری آنکھیں بند ہونے لگیں۔۔۔
    شائد میں کسی خواب میں ہوں۔۔۔ نیم مدہوشی میں مَیں بڑ بڑایا۔
    ۔جاری ہے۔
    Vist My Thread View My Posts
    you will never a disappointed

  • #2
    "دوپہر ہورہی ہے صنم بیٹا۔۔۔! اب اٹھ جاؤ۔" ۔
    امی نے میرا گال تھپتھپایا۔ میں آنکھیں مسلنے لگا۔۔
    بیٹا"مجھےلگتا ہےبہت دیر تک جاگتے رہے ہو۔۔ "
    امی بستر پہ میرے ساتھ بیٹھیں۔۔ میرے الجھے ہوئے بالوں میں اپنی انگلیاں پھیرنے لگیں۔۔۔
    یکایک مجھے غزل یاد آئی۔۔ پل بھر کے لیے لگا کہ میں نے شائد خواب دیکھا تھا۔۔۔ اپنے اس وہم کو دور کرنے کے لیے میں بسترپہ ہاتھ مارتے ہوئے اپنا فون ڈھونڈنے لگا۔۔۔۔
    "کیا ہوا۔بیٹا۔۔ ؟ کچھ ڈھونڈرہے ہو کیا تم۔۔۔۔ "
    "فون۔۔۔۔ فون ڈھونڈرہا ہوں۔۔۔ یہیں پہ تھا۔۔۔۔ "
    "یہ لو۔۔۔۔ یہ پڑا ہے۔۔۔۔۔ "
    فون کھسکتے ہوئے میرے پاؤں کی طرف آگیا۔۔۔۔ امّی کی نظر پڑی تو انھوں نے اٹھا کے مجھے دیا۔۔۔
    میں نے سکرین ان لاک کی اور جلدی سے کال ریکارڈ چیک کرنے لگا۔۔۔
    نہیں۔۔۔ یہ میرا وہم نہیں ہے۔۔۔۔ غزل نے سچ مچ مجھ سے بات کی تھی۔۔۔۔ شادی کی بات۔ "
    بے دھیانی میں مّیں تھوڑا اونچی آواز سے بڑابڑایا۔۔
    کون غزل ؟۔بیٹا تم کیا کہ رے ھو۔
    امّی میرے منہ سے لڑکی کا نام سن کے چونکیں۔۔۔
    "وہ۔۔۔ اصل میں۔۔۔۔۔ امّی۔۔۔۔ پلیز مجھے جلدی سے ناشتہ بنا دیں۔۔۔ بھوک لگی ہے۔۔۔۔ "
    "لیکن یہ غزل کون ہے۔۔۔۔ بتاؤ تو سہی۔۔۔۔ "
    "بتاتا ہوں۔۔۔ بتاتا ہوں۔۔۔ آپ پہلے ناشتہ بنا دیں۔۔۔۔ "
    میں بستر سے اٹھ کے واش روم کی طرف چل پڑا۔۔۔
    امی بھی سراسیمگی میں وہاں سے اٹھ کے کیچن کی طرف چل پڑیں۔۔۔۔
    میں نہا کے واش روم سے نکلا تو موبائل کی سکرین بلنک کررہی تھی۔ میں نے جلدی سے فون اٹھایا۔۔ غزل کے نمبر سے کال آرہی تھی۔۔۔ میں سوچوں میں ڈوب گیا۔۔۔ "یہ سب ہو کیا رہا ہے۔۔۔۔ غزل میرے ساتھ کہیں کوئی مذاق تو نہیں کررہی۔۔۔ " میں خود سے سوال جواب کرنے لگا۔۔۔ کال بند ہوئی۔۔۔ لیکن میں نے اٹنڈ نہیں کی۔۔۔ سکرین پہ غزل کے نمبر سے 6 مسڈ کالز ہوچکی تھیں۔۔۔ میں نے گیلے بالوں کو تولیے سے خشک کیا۔۔۔ اور ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے جا کے کھڑا ہوگیا۔۔۔۔ پہلی بار اپنے آپ کو اچھی طرح سے دیکھنے کی ہمت کی۔۔۔ امّی کہتی ہیں میرا رنگ ضررو گندمی سانولا سا ہے لیکن نین نقش پر کشش ہیں۔۔ میں نے سب سے پہلی اپنی ہلکی بھوری آنکھوں کو آئینے میں غور سے دیکھا۔۔۔ نبیلہ باجی کہتی ہیں کہ سانولے رنگ پہ بھوری آنکھیں خوب جچتی ہیں۔۔ ناک۔۔۔ تھوڑی سی پھیلی ہوئی ہے۔۔ لیکن مردانہ ناک ایسی ہی ہوتی ہے ذرا سی پھیلی ہوئی۔۔۔ میرے ہونٹوں کی کٹنگ تو اچھی ہے لیکن سگریٹ پینے کی وجہ سے سیاہ ہوگئے ہیں۔۔ اور دانت۔۔ میرے دانتوں کی سبھی تعریف کرتے ہیں۔۔ موتیوں کی طرح جگمگ کرتے ہیں۔۔ بال گھنے ہیں۔۔ لیکن اچھے ہیں۔۔۔۔ چہرے پہ نظر گھماتے ہوئے گردن پہ آیا۔۔۔ گردن تھوڑی سے بھاری ہے۔۔۔ اب بھلا لڑکیوں کی طرح سراہی جیسی گردن تو نہیں ہوسکتی میری۔۔۔۔ چھاتی پہ بالوں کی تعداد قدرے زیادہ ہے۔۔۔ لیکن سنا ہے لڑکیوں کو مرد کی چھاتی کے بال پسند ہوتے ہیں۔۔۔۔ قد کاٹھ بھی ٹھیک ہے۔۔۔ ذرا سی توند نکل رہی ہے۔۔۔ کچھ دن ورزش کروں کا تو پیٹ اندر چلا جائے گا۔۔۔۔ اپنے آپ کا سر سے پاؤں تک جائزہ لیتے ہوئے مجھے تسلی ہوئی کہ میں اتنا بھی برا نہیں ہوں۔۔ آئینے کے سامنے خود کو دیکھتے ہوئے میں نے خیالوں میں غزل کی تصویر بنائی اور تصور کیا کہ وہ میرے ساتھ کھڑی ہوئی کیسے لگے گی۔۔۔۔ دودھ جیسی رنگت۔۔ لمبے گھنے بال۔۔۔ بڑی بڑی آنکھیں۔۔۔ پنکھڑیوں جیسے ہونٹ۔۔۔ میں اس کے ساتھ کبھی نہیں جچوں گا۔۔۔ اپنا آپ پھیکا لگنے لگا۔۔۔۔ ڈریسنگ ٹیبل پہ رکھا فون پھر سے بلنک کرنے لگا۔۔۔ غزل دوبارہ کال کررہی تھی۔۔ میں فون کو ہاتھ میں پکڑے کافی دیر کھڑا رہا کہ کال اٹنڈکروں یا نہ کروں۔۔۔۔
    "صنم بیٹا۔۔۔۔! ناشتہ ٹھنڈا ہورہا ہے۔۔۔ جلدی آجا۔۔۔۔ "
    "آیا امّی۔۔۔۔!" میں نے فون دوبارہ ڈریسنگ ٹیبل پہ رکھا اور جلدی سے شرٹ میں بازو گھسا کے بٹن بند کرتے ہوئے باہر آگیا۔۔۔۔
    صحن میں چارپائی پہ امّی نے ناشتے کی طشتری رکھی تھی۔۔۔ میں نے پہلا نوالہ توڑا تو امْی کیچن سے نکلتے ہوئے بولیں۔
    پھر بتایا نہین تو نے بیٹا۔؟
    میں چونک کے ان کی طرف دیکھنے لگا
    کیا نہین بتایا اس نے۔
    ابّاجی گھر میں داخل ہوئے۔۔۔۔
    غزل کا وہ مسکرائین۔
    سیڑھیاں اترتے ہوئے چھوٹی انیلہ نے سوال داغا۔۔۔
    غزل کون۔؟
    میں باری باری سبھی چہروں کو دیکھنے لگا۔۔۔۔
    دیکھتے ہی دیکھتے سب نے میرے گرد گھیرا ڈال دیا۔۔۔
    ہاتھ میں نوالہ پکڑے میں شش وپنج میں تھا کہ اب کیا جواب دوں۔۔۔ سب کی ںظریں مجھ پہ تھیں۔۔۔ اور میں دل ہی دل میں بہانے گھڑنے لگا۔۔۔۔
    "بھائی۔۔! آپکے موبائل پہ بار بار کال آرہی ہے۔۔۔ یہ لیں۔۔۔۔ بات کریں ۔۔۔"
    نبیلہ نے فون مجھے تھمایا۔۔۔
    "تم۔۔۔ تم میرے کمرے میں کیا کررہی تھی۔۔۔۔ ؟"
    میں خونخوار نظروں سے اسے دیکھنے لگا
    "میں تو آپکے کمرے کی صفائی کررہی تھی۔۔۔۔ اچانک ہی فون پہ نظر پڑی۔۔۔ بار بار ایک نمبر سے کال آرہی تھی۔۔ میں سمجھی ضروری فون ہوگا۔۔۔۔ "
    میری نظریں موبائل کی سکرین پہ تھیں۔۔ جس پہ غزل کا نمبر بلنک کررہا تھا۔
    غزل فون کر رہی ہے کیا۔؟
    امّی نے سرگوشی کی۔۔۔۔ میں نے نظریں چرائیں
    "بیٹا۔۔۔۔! فون اٹھاؤ۔۔۔ ہو سکتا کسی نے ضروری بات کرنی ہو۔۔۔۔۔ "
    ابّا جی بولے۔۔۔۔ میں نے چور نظروں سے سب کے چہروں کو دیکھا اور کال اٹنڈ کی۔۔۔۔
    ہیلو۔؟
    صنم"۔۔۔۔! کہاں رہ گئے ہو تم یار۔۔۔ صبح سے کالز کررہی ہوں۔۔۔۔۔ "
    ایک گہری سانس لے کے وہ بولی۔۔۔۔
    غزل۔۔۔وہ ۔۔مین۔۔
    غزل کا نام سنتے ہی میرے گھر والوں کے کان کھڑے ہوئے۔۔۔
    غزل کا فون۔امی کی سرگوشی۔
    غزل کون ہے ابا جی نے پوچھا۔
    انیلہ اور نبیلہ ایکدوسرے کو اشارے کرنے لگیں
    میری زبان پہ تالہ لگ گیا۔۔۔۔ بے بسی میں نظریں جھکا لیں
    "کیا ہوا صنم۔۔یار۔۔؟ تم چپ کیوں ہو۔۔۔؟ کہیں تم نے ارادہ تو نہیں بدل دیا۔۔۔۔۔ "
    اسکی پریشانی لہجے سے نمایاں تھی۔۔۔
    میں جلدی سے چارپائی سے اٹھا اور الٹی سیدھی چپل پاؤں میں ڈالے اپنے کمرے کی طرف لپکا۔۔۔ کان کے ساتھ موبائل ویسے ہی لگا تھا۔۔۔۔
    ارے"۔غزل ۔۔! تمہیں کیا ہوگیا ہے۔۔۔۔ ؟"
    کمرے کا دروازہ آہستہ سے بند کرکے میں کھڑکی کے پاس کھڑا ہو گیا۔۔۔۔
    "تم کہنا کیا چاہتے ہوئے صنم م۔۔۔۔۔ ! کیا تمہیں اب بھی یہ سب مذاق لگ رہا ہے میرا۔۔۔ ؟"
    "تو اور کیا سمجھوں میں اسے۔۔۔۔۔شادیاں ایسے تھوڑی ہوتی ہیں۔۔۔۔ "
    "تو کیسے ہوتی ہیں۔۔۔۔ میں نے اپنے پیرنٹس کو بتا دیا ہے ۔۔ یہاں سب تمہارے گھر والوں کا انتظار کررہے ہیں۔۔ اور تمہیں یہ سب دھوکہ لگ رہا ہے۔۔۔۔؟ "
    اسکی آواز سے صاف لگ رہا تھا یا تو وہ رو رہی تھی یا رونے کے قریب تھی۔۔۔۔
    "میری بات سمجھنے کی کوشش کرو غزل۔۔یار۔۔۔ ! یہ سب کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔۔۔۔ "
    میں دل پہ پتھر رکھ کے بولا
    "ٹھیک ہے صنم۔۔! میں سمجھ گئی۔۔۔ میری ہی غلطی تھی۔۔ بلاوجہ مجھے تمہارے سر پہ سوار نہیں ہونا چاہیے تھا۔۔۔ تم پریشان نہ ہو۔۔۔ میں اپنے گھر والوں کو سنبھال لوں گی۔۔۔۔ "
    اس نے کال بند کردی اور میں پتھر بنا کان کے ساتھ فون لگائے دیر تک کھڑا رہا۔۔
    "کیا یہ میں نے ٹھیک کیا۔۔۔۔ ؟"
    میں نے کئی بار یہ سوال اپنے آپ سے کیا لیکن کوئی تسلی بخش جواب نہیں مل پایا۔۔۔ دل کی بے چینی بڑھی۔۔۔
    "صنم۔۔! یہ موقع دوبارہ نہیں ملے گا۔۔۔۔ دل سے تمام شکوک و شبہات نکال دو۔۔۔۔ "
    بلآخر میں ایک نتیجے پہ پہنچ چکا تھا۔۔۔۔ میں صحن میں واپس لوٹا
    "امّی۔۔۔! بابا۔۔۔! آپ لوگوں کو ابھی میرے ساتھ کہیں چلنا ہے۔۔۔۔"
    "کیا ہوا۔۔ ؟ کہاں چلنا ہے۔۔۔ سب خیریت تو ہے نا۔۔۔۔ ؟"
    امّی کے چہرے پہ ہمیشہ کی طرح پریشانی کے آثار تھے۔
    غزل کے گھر۔۔۔۔۔
    میں نے سر جھکا کے جواب دیا
    "یہ غزل ہے کون۔۔۔ صبح سے پوچھ پوچھ کے تھک گئی ہوں۔۔۔ اور اسکے گھر ہم کیوں جائیں۔۔۔؟"
    امی چارپائی سے اٹھ کے میرے سامنے آکے کھڑی ہوئیں
    "میرے رشتے کے لیے۔۔۔۔۔۔۔ "
    میں نے آہستگی سے جواب دیا۔۔۔۔
    "کیا۔۔۔۔ رشتے کے لیے۔۔۔۔ کیا کہہ رہا یہ لڑکا۔۔۔۔؟"
    ابا جی حیرانی سے کبھی میری طرف دیکھتے کبھی امی کی طرف.۔۔
    "بابا۔۔! غزل یونیورسٹی میں میرے ساتھ پڑھتی تھی۔۔۔ ہم دونوں کافی اچھے دوست ہیں۔۔۔ میں چاہتا ہوں آپ اسکے گھر چل کر میرے رشتے کی بات کریں۔۔۔"
    "لیکن ایسے۔۔۔ اچانک۔۔۔؟ تم نے پہلے ذکر نہیں کیا اسکا۔۔۔ بنا سوچے سمجھے ہم کیسے چلے جائیں۔۔۔۔ "
    امّی نے سوالوں کی بارش شروع کی
    "امّی۔۔۔! آپ خود ہی کہتی ہیں نا کہ اگر کوئی لڑکی پسند ہے تو بتاؤ۔۔۔ مجھے غزل پسند ہے۔۔۔ "
    "تمہاری پسند سرآنکھوں پہ بیٹا۔۔۔۔ لیکن اس کے خاندان کا ۔۔۔ آگے پیچھے کا کچھ تو پتا کرنا پڑے گا۔۔۔ یا ایسے ہی منہ اٹھا کے چلے جائیں۔۔۔۔"
    "میں غزل کو سالوں سے جانتا ہوں اسکی فیملی بہت سلجھی ہوئی ہے۔۔۔ اور اس نے اپنے گھر والوں سے آپکی آمد کے حوالے سے بات کرلی ہے۔۔۔ آپ چلیں۔۔۔"
    "ابھی کے ابھی کیسے چلے جائیں۔۔۔۔ "
    "امی۔۔۔! وقت نہیں ہے۔۔۔ پلیز۔۔۔ آپ چلیں۔۔۔ باقی ساری باتیں میں آپکو بعد میں سمجھا دوں گا۔۔۔۔ "
    "لو بھلا۔۔۔ یہ کیا بات ہوئی۔۔۔۔۔ اجی۔۔! آپ ہی کچھ کہیے اس سے۔۔۔ یہ لڑکا تو پگلا گیا ہے۔۔۔"
    امّی ابا جی کی طرف مڑیں۔۔۔۔
    "صنم سمجھدار ہے۔۔ اگر وہ کہہ رہا ہے تو ہمیں چلنا چاہیے۔۔۔۔ رشتے کی بات کرنے میں کیا حرج ہے۔۔۔"
    اباجی نے میری طرفداری کی۔۔۔
    کچھ ہی دیر میں مَیں اپنے والدین کے ہمراہ غزل کے گھر کے دروازے پہ تھا۔۔۔۔ ایک کنال پہ محیط کوٹھی کو دیکھ کر ابا جی پوچھنے لگے۔۔۔
    "بیٹا۔۔! یہ تو مالدار لوگ ہیں۔۔۔ تمہیں یقین ہے کہ وہ اپنی بیٹی کا رشتہ ہم جیسے غریبوں میں کریں گے۔۔۔۔ ؟"
    "اباجی۔۔۔! آپ فکر نہ کریں۔۔۔ غڑل نے اپنے گھر والوں سے پہلے بات کرلی ہے۔۔۔ "
    میں نے بائیک سائیڈ پہ لگائی۔۔ اور ڈور بیل پہ انگوٹھا رکھ دیا۔۔۔
    تھوڑی دیر میں ایک ملازمہ نے گیٹ کھول کے سر باہر نکالا۔
    جی بتائین۔
    "غزل۔۔۔! کو بتائیں کہ صنم اپنے والدین کے ساتھ آیا ہے۔۔۔"
    میں نے اسے جواب دیا۔۔۔۔۔
    "اوہ۔۔۔ اچھا اچھا۔۔۔۔ آئیں ۔۔ آئیں اندر آئیں۔۔۔۔ سب لوگ آپ کا ہی انتظار کررہے تھے۔۔۔۔ "
    اس نے پورا گیٹ کھول دیا۔۔۔ میں نے بائیک گھسیٹ کے اندر گھسائی۔۔۔ امی اور ابا میرے پیچھے پیچھے اندر داخل ہوئے۔۔۔ ملازمہ نے ہمیں ڈارئنگ روم میں بٹھایا۔۔۔ کچھ ہی دیر میں غزل کے والدین بھی آگئے۔۔۔ بڑے پر تپاک انداز میں انھوں نے ہمارا استقبال کیا۔۔۔ بڑوں میں بات چیت ہونے لگی۔۔۔۔ اتنے میں غزل اندر آئی۔۔۔۔ امی اور ابا جی کو سلام کیا اور میرے عین سامنے صوفہ پہ بیٹھ گئی۔۔۔ غزل کے والدین نے میری نوکری کے حوالہ سے چند ایک سوال کیے۔۔۔۔
    "پاپا۔۔۔۔! صنم کو میں کئی سال جانتی ہوں۔۔۔۔ نہ صرف بہت اچھا انسان ہے بلکہ دکھ سکھ میں ساتھ کھڑے رہنے والے دوستوں کی سبھی خوبیاں ہیں اس میں۔۔۔۔ "
    مجھے امید نہیں تھی کہ غزل میرا تعارف ایسے کرائے گی۔۔۔
    "آپ کو یقیناً علم ہوگا کہ ہم کس سلسلے میں حاضر ہوئے ہیں۔۔۔ "
    "ہاں۔۔ جی۔۔۔ غزل نے ہمیں آپکی آمد کے حوالے سے مطلع کیا تھا۔۔۔۔ "
    " ہم حیثیت میں شائد آپکا مقابلہ نہ کر سکیں لیکن اس بات کہ یقین دہانی ضرور کرا سکتے ہیں کہ آپکی بچی کو ہمارے گھر میں کسی طرح کی کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔۔۔۔ "
    "دیکھیں جی۔۔۔! ماں باپ تو بیٹیوں کے اچھے نصیب کی دعا ہی کر سکتے ہیں ۔۔ جو کہ تا حیات ہم کرتے رہیں گے۔۔۔ ہماری غزل بہت سمجھدار ہے۔۔۔ ہمیں امید ہے کہ آپکو بھی کبھی اس سے شکائیت نہیں ہوگی۔۔۔۔ "
    میں سر جھکائے بڑوں کی باتیں سن رہا تھا۔۔۔ دل و دماغ میں ایک عجیب طوفان برپا تھا۔۔۔۔ ایسا کہاں ہوتا ہے۔۔۔ سب کچھ ایک دم ریڈی میڈ۔۔۔۔۔۔ کسی کو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔۔۔ غربت اور امارت کا ایسا مثالی تعلق تو میں نے کبھی دیکھا نہ سنا۔ تو کیا لوگ جھوٹ کہتے ہیں۔۔۔۔ ؟ جو کہانیاں لکھی گئیں سب بے معنی تھیں۔۔۔۔ کتنے ہی سوال تھے جن کا جواب مجھے نہیں مل رہا تھا۔۔۔ نظر اٹھا کے میں نے غزل کی طرف دیکھا۔۔۔ جس کے چہرے پہ اطمینان تھا۔۔ گہرا اطمینان۔۔۔
    "میرے سامنے جو لڑکی بیٹھی ہے وہ غزل ہی ہے۔۔۔۔ یا کوئی اور ہے۔۔۔۔ "
    میری تو آنکھیں بے یقین تھیں۔۔۔۔ دل دماغ کو کیسے بھروسہ ہو۔۔۔
    "ہمیں اس رشتے سے کوئی اعتراض نہیں ہے۔۔ دونوں بچے سمجھدار ہیں۔۔ بس اللہ ان دونوں کا جوڑ سلامت رکھے۔۔۔"
    غزل کے پاپا کی نگاہیں میرے چہرے پہ تھیں۔۔۔
    "اس سے پہلے کہ آپ مجھے غزل کے جیون ساتھی کے روپ میں قبول کریں میں بس اتنا کہوں گا کہ شائد غزل کو میرے ساتھ وہ زندگی میسر نہ آئے جو زندگی وہ یہاں جی رہی ہے۔۔۔ میں گلی محلوں کا رہائیشی ہوں۔۔ چند مرلوں پہ محیط گھر کا مکین ہوں۔۔۔ گاڑیاں نہیں ہیں میرے پاس۔۔۔ موٹر سائیکل کی سواری کرتا ہوں۔۔۔ ۔ ماں باپ عمر رسیدہ ہیں۔۔۔ یہ میرے لیے سب کچھ ہیں اور میں ان کے لیے۔۔۔ ان حقائق کے بعد بھی اگر غزل میری زندگی کا حصہ بننا چاہتی ہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔۔۔ میں ہر ممکن کوشش کروں گا کہ اسے خوش رکھ سکوں۔۔۔"
    "تم غریب گھر میں پیدا ہوئے اس میں تمہارا کوئی بس نہیں تھا۔۔ میں امیر گھر میں پیدا ہوئی اس میں میری کوئی قابلیت نہیں ہے۔ زندگی تو چند پلوں کا نام ہے۔۔۔ جو محلوں میں کٹے یا پھرے کچے مکانوں میں کٹ ہی جاتی ہے۔۔۔ ضروری بس اسے جینا ہے۔۔۔ پھرپور طرح سے۔۔۔۔ ہر پل میں جینا۔۔۔۔ اور اس جیون میں بس ایک انمول ساتھ ضروری ہوتا ہے۔۔۔ اسی ساتھ کا نام خوشی ہے۔ اور میں تمہارے ساتھ خوش رہوں گی۔۔۔۔ "
    غزل نے میری بات کا جواب دیا۔۔۔۔
    "یہ حقیقت ہے یا خواب۔۔۔۔۔ ؟ تم سچ ہو یا دھوکہ۔۔۔۔۔ کوئی کڑی نہیں مل رہی جو مجھے سکون دے۔۔۔ مطمئن کرے۔۔۔۔ "
    میں نے دل ہی دل میں سرگوشی کی۔۔۔۔
    ہمارا رشتہ پکا ہوگیا۔۔۔۔۔ اور کچھ دنوں میں شادی کی تاریخ بھی طے ہوئی۔۔۔۔
    یہ دن میں نے اس انتظار میں گزارے کے یہ سپنا اب ٹوٹا کہ تب ٹوٹا۔۔۔ میری حالت "ونڈر لینڈ" کی "ایلس" جیسی تھی۔۔۔ میں ہر چیز سے محظوظ بھی ہورہا تھا اور خدشات بھی چین نہیں لینے دے رہے تھے۔۔۔۔ دوست یاروں کو شادی کی خبر دی۔۔۔ سبھی خوش تھے۔۔ میری بہنیں۔۔۔ اپنی ہونے والی بھابی کی خوبصورتی کے قصے آتے جاتے لوگوں کا سناتیں۔۔۔ اور جب کوئی آکے کہتا "صنم۔۔۔! تونے تو بڑا تیر مارا۔۔۔۔۔ حسین اور مالدار لڑکی پھنسا لی۔۔۔۔ " میں خود میں گھٹنے لگتا۔۔۔
    شادی کا دن بھی آگیا۔۔۔ شہر کے مشہور ترین شادی ہال سے غزل کو دلہن بنا کے میں اپنے چھوٹے سے گھر میں لے آیا۔۔۔
    "بیٹا۔۔۔! تیرا چہرہ کیوں اترا ہوا ہے۔۔۔۔ ؟"
    امّی نے ایک کونے میں لے جاکے مجھ سے سوال کیا
    "یقین نہیں ہورہا امّی ۔۔۔۔ کہ غزل سے میری شادی ہوگئی ہے۔۔۔۔ بھلا ایسا کیسے ممکن تھا۔۔۔۔ "
    میری بات انکی سمجھ سے باہر تھی
    "تو اتنا کیوں سوچ رہا ہے۔۔۔۔ ؟ سب ٹھیک ہوجائے گا۔۔۔۔ بس تم اپنی اس خوشی میں خوش رہو۔۔۔۔ باقی اللہ پاک پہ چھوڑو۔۔۔"
    انھوں نے گال تھپتھایا۔۔۔۔
    دیر رات تک مہمانوں کی گہما گہمی جاری رہی۔۔۔ میرے عزیزوں رشتہ داروں نے جی بھر کے میری پری جیسی بیوی کو دیکھا۔۔۔۔ خوب تعریفیں ہوں۔۔۔ ان تعریفوں میں کہیں یہ عنصر بھی نمایاں تھا کہ جہاں میں اسے پا کے خوش نصیبی کے تخت پہ براجمان ہوں وہیں اسکی بدنصیبی کے چرچے بھی تھے۔
    سب کے جانے کے بعد میں کمرے میں داخل ہوا۔۔۔ اور بوجھل انداز میں دروازہ بند کیا۔۔۔ صنم گھونگٹ میں بیٹھی اس انتظار میں تھی کہ میں اسکا گھونگٹ اٹھا کے دیدار کروں۔۔۔ اسکے حسن کے قصیدے پڑھوں۔۔ اپنی خوش قسمتی کے قہقہے لگاؤں۔۔۔۔ لیکن میں ایسا کچھ نہیں کر پا رہا تھا۔۔ میں اب تک نیم مدہوشی میں تھا۔۔۔ جس کے ٹوٹنے کے کئ اندیشے دل و دماغ کو بے سکون کیے ہوئے تھے۔۔۔ بستر پہ بیٹھ کے میں نے گہری سانس لی۔۔۔۔
    "گھونگٹ نہیں اٹھاؤ گے۔۔۔۔۔ "
    میں نے گھونگٹ اٹھایا۔۔۔ اس بار نگاہ کا مرکز کا اسکا حسن نہیں بلکہ وہ سچ تھا جسے میں کب سے ڈھونڈرہا تھا۔۔۔۔
    کیا تلاش کر رہے ہو۔؟
    "بہت پیاری لگ رہی ہو۔۔۔۔"
    میں نے ہلکی سی مسکراہٹ ہونٹوں پہ سجائی۔۔۔۔
    "جھوٹ بھی بولنا نہیں آتا تمہیں۔۔۔۔ "
    وہ ہنس پڑی۔۔۔
    میں اپنے خدشات اسکے سامنے نہیں رکھنا چاہتا تھا۔ اس لیے خود کو نارمل کرنے کی کوشش کی۔۔۔
    شادی میں یونیورسٹی کے ایک دوست کو بلایا تھا۔۔ جو غزل کیلئے میرے دل کےخیالات سے واقف تھا۔۔۔
    "بھائی۔۔! لڑکی تو تم نے خوب ماری ہے۔۔۔ لیکن افسوس۔۔۔ فرسٹ ہینڈ نہیں ہے۔۔۔۔ "
    تیر کی طرح اسکا یہ مذاق میرا سینہ چھلنی کر گیا تھا۔۔۔۔ حالانکہ میں چھوٹی سوچ کا مالک ہر گز نہیں تھا لیکن پھر بھی غزل کے گزشتہ رشتے کی وجہ سے دل میں کانٹا سا چبھنے لگا تھا۔
    جاری ہے۔۔۔
    Vist My Thread View My Posts
    you will never a disappointed

    Comment


    • #3
      صنم کے آنگن کا دیپ​​​​​​۔
      لاسٹ اپڈیٹ۔

      ۔(دوستو اور ساتھیو اس سٹوری کو اگر مین چاہون بھی تو ختم نہین کر سکتا کیونکہ ہزارون لاکھون کرڑؤن یادین ہین جو ہر لمحے ہر گھڑی ایک نئے انداز سے سامنے چلی أتی ہین پھر مجھے بلکل سمجھ نہین ۔کہ اب چھپاؤن کیا۔؟؟۔
      اور بتلاؤ۔ کیا؟؟)۔
      مگر صنم کی تو عادت بن چکی ہے خوشیون کی برسات بانٹو نہ دکھوں۔؟؟؟
      تیری یادین ہین میری زندگی تجھے یاد کرتے کرتے عمر
      ہی گذر جائے گئی۔

      صنم ساقی کے افق کا چاند ہو آئے غزل تم بس گنگناتے
      تجھے یہ بسر جائے گئی​​​​​​​۔

      ۔ارےےتم"خاموش کیوں ہو گئے ہو۔ صنم۔۔۔؟"
      غزل کی نگاہیں میرے چہرے پہ مرکوز ہو چکی تھیں۔۔۔
      صنم:"بس۔۔ ویسے ہی۔۔۔۔ اپنی قسمت پہ یقین نہیں آرہا کہ تم سچ مچ میری بن چکی ہو۔۔۔۔"
      مین نے ایک بہت گہری سانس لی۔اور
      وہ اچانک سے کچھ جھینپ کر ہنس کر بولی۔
      غزل:"مگرمیں نے تو سنا تھا کہ شادی کی پہلی رات دولہا اور دلہن آنے والی اپنی زندگی کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔۔۔ کچھ نئے قانون بناتے ہیں۔۔ کچھ نئی باتیں کرتے ہیں۔۔۔ "مگر تم تو نہجانےکن سوچون پر عمل پیرا ہو۔۔وہ بولتی گئی اور میں دل ہی دل میں بولا
      یہ"کیسی باتیں۔۔۔ کیسی زندگی۔۔۔؟ یہ سب تو بس ایک خواب ہے۔۔۔
      جو کبھی بھی ٹوٹ سکتا ہے۔؟ "۔
      کبھی بھی مجھ سے روٹھ سکتا ہے۔؟
      بولتے بولتے غزل چپ ہوگئی۔۔۔ میں چاہ کر بھی اسکے چہرے سے اپنی نگاہیں ہٹا نہیں پا رہا تھا۔۔۔
      "کب تک ایسے دیکھتے رہو گے۔۔۔۔ ؟"
      "جب تک الجھے ہوئے سوالوں کا جواب مجھے مل نہیں جاتا۔۔۔ "
      دل چیخ چیخ کے یہ سب کہنا چاہتا تھا پر لب خاموش تھے۔۔۔۔
      اس نے اپنے دونوں ہاتھ میرے چہرے پہ رکھ دیے۔۔۔۔ اور آہستہ سے اپنی انگلیاں ۔۔ میری آنکھوں سے گالوں اور گالوں سے ہونٹوں پہ پھیرنے لگی۔۔۔۔
      میں پیچھے ہٹا۔۔۔۔ جیسے کچھ غلط ہورہا ہو۔۔۔۔ وہ میرے لیے اب بھی اجنبی تھی۔۔۔۔
      "صنم۔۔! تم اب مجھے پریشان کررہے ہو۔۔۔۔ "
      وہ سہم سی گئی۔۔۔ میں نے خود کو سنبھالا۔۔۔۔ "بی اے جینٹل مین صنم۔۔۔"
      میں کب سے اس غلط فہمی میں جی رہا تھا کہ میں باقی مردوں جیسا نہیں ہوں۔۔۔ میں ان سب سے مختلف ہوں۔۔ لیکن آج ثابت ہوا کہ میرے اندر بھی وہ خصلت پائی جاتی ہے۔۔ جسے غیرت بولتے ہیں۔۔۔ وہ غیرت جسکا سراسر تعلق عورت کے جسم سے ہوتا ہے۔۔۔ مرد اسی عورت کو دل و جاں سے قبول کرتا ہے۔۔ جس کے ہر انگ پہ بس اسی کا نام رقم ہو۔۔۔۔ کسی اور مرد کا سایہ بھی اس جسم پہ نہ پڑا ہو۔۔۔ ایسی عورت جس کے جسم پہ کسی اور کے نشان موجود ہوں وہ زندگی کا حصہ بن بھی جائے لیکن کبھی اپنی نہیں بن پاتی۔۔۔ ایک فاصلہ رہتا ہے۔۔۔ مرد اسے دل سے کبھی قبول نہیں کرتا۔۔۔۔ مجھے خود پہ افسوس ہونے لگا۔۔ اپنے جذبات قابو میں کرتے ہوئے میں اسکے قریب آیا۔۔۔
      اسکے مرمریں بدن کو اپنے ساتھ لگا کے میں نے ہر لحظ بڑے دھیان سے دیکھا۔۔کہ کہین عاصم کا نام کس کونے کھدرے پر رقم نہ ہو؟۔۔
      حق زوجیت کے سفر پر دونون بھٹکنے لگے مگر میں اپنی ہی ان خومخواہ کی کوشش میں ناکام ہوتا گیا۔۔۔۔ سر سے پاؤں تک میں نے نگاہوں اور ہونٹوں سے غزل کا ہر انگ چھان مارا پر کسی اور کا کہیں کوئی نشان نہ ملا۔۔ اسکی سسکیاں میری جیت کا اعلان کرتی رہیں۔۔ میں وہ پہلا مرد تھا جو اسکے جسم کی سلطنت پہ اپنے نام کا جھنڈا گاڑ چکا تھا۔۔۔۔ دل و دماغ کے طوفان یکسر تھم گئے۔۔۔ ایک دم سے اسکا دھند لایا حسن پھر سے اجاگر ہوا۔۔۔۔ مرادنگی کی جنگ فتح کرکے میں نے ایک ہی تکیے پہ اپنا سر رکھا۔۔۔ کروٹ لی اوراسکے ملائم بدن پہ اپنا ہاتھ پھیرنے لگا اسکے چہرے سے بال ہٹا کے کان کے پاس گردن پہ بوسہ دیا۔۔۔
      "غزل میری جان۔۔۔! تم تو بہت حسین ہو۔۔۔۔ "
      شکوک شبہات کے بادلوں میں اسکا حسن جو اب تک دھندلایا ہوا تھا۔۔ جگمگانے لگا اس کے ہونٹوں پہ ہلکی سی مسکراہٹ پھیل گئی۔۔۔ میں نے اسکے جسم کو مظبوطی سے اپنے بازؤں میں جکڑا۔۔۔۔ اور آنکھیں بند کرلیں۔۔۔
      پھر جب صبح ہوئی تو غزل مجھ سے پہلے اٹھ چکی تھی۔۔۔۔
      صنم میری جان اب اٹُھ جاؤ صبح ہو چکی ہے۔
      میں نے آنکھیں کھولیں۔۔۔ اسکا چہرے میرے چہرے کے عین اوپر تھا۔۔۔ اس سے زیادہ حسین صبح میں نے زندگی میں نہیں دیکھی تھی۔۔۔ اسکی گہری آنکھوں میں ایک شرارت بھری تھی۔۔۔ گیلے بالوں کی لٹ میرے چہرے پر پھیرتے ہوئے غزل مسکرا کے پیچھے ہٹی۔۔
      تو میں نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا۔۔۔۔
      اور آنکھ کے اشارے سے غزل نے مجھ سے سوال کیا۔۔۔۔کیا ہے میری جان۔
      "میں تو بس یہ دیکھ رہا ہوں۔۔۔ کہیں یہ خواب تو نہیں۔۔۔۔۔ ؟"
      "اف۔۔۔۔ صنم۔۔۔ تم بھی حد کرتے ہو۔۔۔۔۔ اب تو مان لو کہ میں تمہاری ہو چک ہون۔۔۔۔۔ "
      غزل چڑ گئی تھی۔
      "کاش۔۔۔ ! اس دل کو یقین آجائے۔۔۔۔ "
      "تم۔۔ اور تمہارا دل۔۔۔۔۔ "
      ہاتھ چھڑا کے وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی ہوگئی۔۔۔۔
      اٹھ کے نہا لو اب۔۔۔ باہر سب لوگ انتظار کررہے ہوں گے۔۔۔
      ٹائم کافی ہوچکا تھا۔۔ میں جلدی سے واش روم میں گھسا۔ نہا کے واپس نکلا تو غزل کو میری بہنوں اور کزن بہنون نے گھیرا ہوا تھا۔۔۔۔ مجھے دیکھ کے سب کے چہروں پہ ایک ذو معنی مسکراہٹ تھی۔۔۔ گزشتہ رات کا قصہ یاد آیا۔۔ میں نے شرما کے ںظریں جھکا لیں۔۔۔
      "چلو۔۔۔ لڑکیو!۔۔۔ اب بھائی کو تیار ہونے دو۔۔۔۔ "
      امی داخل ہوئیں۔۔۔ میرے مسکراتے چہرے کو دیکھ کے انھیں بھی تسلی ہوئی۔۔۔
      میں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ شادی کے بعد زندگی اتنی حسین ہوگی۔۔۔ آفس سے ایک مہینے کی چھٹیاں لی تھیں۔۔۔ چٹکی بجاتے مہینہ گزر گیا۔۔۔۔ دوبارہ سے زندگی انھی راہوں پہ چل نکلی لیکن اب ہم سفر ساتھ تھا تو رستے آسان ںظر لگنے لگے۔۔۔
      "سلام خالہ۔۔۔۔! " میں آفس کے لیے تیار ہوکے کمرے سے نکلا تو امی اور میری خالہ صحن میں چار پائی پہ بیٹھی تھیں۔۔۔
      آفس سے دیر ہورہی تھی۔۔۔ میں جلدی سے دروازے کی طرف بڑھا۔۔۔
      "صنم۔۔۔! بات سننا میری بیٹا۔۔۔ "خالہ نے آواز دی۔۔
      جی خالہ ۔۔۔۔مین واپس پلٹا۔۔
      "ادھر آ۔۔۔۔ دو منٹ بیٹھ جا۔۔۔۔ "
      انھوں نے اشارہ کیا اور میں ان کے پاس جا کے بیٹھ گیا۔۔۔۔
      "بیٹا۔۔۔ ایک ضروری بات کرنی ہے۔۔۔۔ "
      جی خالہ بولین۔۔
      بیٹا"ماشاء اللہ تمہاری بیوی بہت اچھی ہے۔۔ حسین ہے۔۔۔ خوش اخلاق ہے۔۔۔ لیکن یہ چیزیں کافی نہیں ہوتیں زندگی گزرنے کے لیے۔۔۔"
      مین کچھ سمجھا نہین ہون خالہ۔۔۔؟
      "دیکھو صنم بیٹا۔۔۔! اب تمہاری شادی کو ایک مہینہ گزر چکا ہے۔۔۔ لیکن تمہاری بیوی نے کسی کام کو ہاتھ نہیں لگایا۔۔۔۔ بوڑھی ماں سے کب تک نوکری کراؤ گے۔۔۔۔ ؟"
      انکی بات پہ میں حیران ہوا۔۔۔۔
      بیٹا"تم دبےلفظوں اشارہ کنایون میں غزل سے بات کرو وہ تمہاری ماں کا گھر کے کام کاج میں ہاتھ بٹایا کرے۔۔۔۔ "
      "جی۔۔۔ میں واپس آکے بات کرلوں گا۔۔۔۔ "
      پورا دن میں عجیب ہی کش مکش کا شکار رہا کہ غزل سے کیسے بات کروں گا۔۔۔ اسکو برا لگا تو۔۔۔ یا اس نے کہہ دیا کہ اس سے پہلے کبھی اس نے گھر کا کام نہیں کیا تو کیا کہوں گا میں۔ امی کو کیا جواب دوں گا۔۔۔ ؟ اور خالہ ٹھیک ہی تو کہہ رہی تھیں کہ امی کی عمر نہیں ہے کام کرنے کی۔۔۔۔ دل میں ہزاروں وہم تھے۔۔۔۔ گھر واپس آتے آتے میں منصوبہ بندی کرنے لگاکہ کس طرح غزل سے بات کروں گا۔۔۔ اسکو پیار سے سمجھاؤں گا تو وہ سمجھ جائے گی۔۔۔۔
      چھوٹی بہن نے دروازہ کھولا اور میں اندر داخل ہوا۔۔۔۔مگر سامنے والے منظر نے پل بھر کے لیے مجھ کو رکنے پہ مجبور کردیا۔۔۔۔
      امی چار پائی پہ بیٹھی تھیں۔۔۔ اور غزل فرش پہ بیٹھی انکے پاؤں کی أئل سے مالش کررہی تھی۔۔۔
      آ گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔میرا بچہ۔۔۔۔۔۔۔
      امی مسکرائیں۔۔۔غزل نے سلام کیا۔۔
      "جا غزل بیٹا اب۔۔۔۔! صنم کے لیے چائے پانی کا انتظام کر۔۔۔" امی نے غزل کو اشارہ کیا ۔۔ وہ رومال سے ہاتھوں پہ لگا تیل صاف کرتے ہوئے کیچن کی طرف چلی گئی۔۔۔۔ میں سوچوں میں ڈوبا اپنے کمرے میں آیا۔۔۔ اتنے میں غزل پانی کا گلاس لے کے اندر آئی۔۔۔
      میں نے اسکے ہاتھ سے گلاس پکڑا اور اسکے چہرے پہ شکوہ ڈھونڈنے لگا۔۔۔ شائد وہ یہ کہہ دے کہ "دیکھا صنم۔۔۔ تمہارے گھر والے کیسے کام کرا رہے ہیں مجھ سے۔۔۔۔ " پر اسکی مسکراہٹ کچھ اور ہی بتا رہی تھی۔۔ جیسے وہ دل سے خوش تھی۔۔۔۔
      "پتا ہے۔۔۔ آج میں نے تمہارے لیے چکن کریلے بنائے ہیں۔۔۔ امی بتا رہی تھیں تم شوق سے کھاتے ہو۔۔۔ "
      میرے شرٹ کے بٹن کھولتے ہوئے وہ بولی
      غزل۔۔۔۔۔
      میں نے اسکا ہاتھ پکڑا۔۔۔۔
      کیا۔۔۔۔ ہوا۔۔۔۔۔ غزل چونکی۔۔
      "تمہیں میرے گھر والوں نے کام کرنے کا کہا یا اپنی مرضی سے کررہی ہو۔۔۔ ؟"
      میں سنجیدگی سے پوچھنے لگا۔۔۔ غزل کھل کھلا کر ہنس پڑی ۔۔
      بتاؤ نا۔۔۔۔۔؟
      "ارے بابا۔۔۔ مجھے کسی نے نہیں کہا۔۔ میں تو اپنی خوشی اور رضا سے کررہی ہوں سب۔۔۔ اور ویسے بھی امی کی اب عمر نہیں ہے کہ وہ گھر کے کام کریں۔۔۔ "
      وہ میری آنکھوں میں دیکھ کے بولی۔۔۔
      اسکے معصوم انداز پہ مجھے انتہائی پیار آنے لگا۔۔ میں نے اسکے ہاتھ پہ بوسہ دیا۔۔۔
      "اچھا بس بس۔۔۔۔ پہلے فریش ہوجاؤ۔۔۔ کھانا کھاؤ۔۔۔ یہ سب بعد میں۔۔۔ "
      وہ مسکراتی ہوئی باہر چلی گئی۔۔۔
      "صنم ساقی۔۔۔۔! تم اتنے خوش قسمت کیسے بن گئے۔۔۔۔ ؟ "
      میری نگاہیں۔۔۔ دروازے پہ تھیں۔۔۔ جہاں سے وہ ابھی ابھی گزر کے گئی تھی۔۔۔
      میرے بنا کچھ بولے وہ سب کیسے سمجھ گئی۔۔۔۔ ؟ میں نے خود ے سوال کیا۔۔۔ لیکن ہر بار کی طرح غزل سے متعلق ہر سوال سوال ہی رہا ۔۔۔
      میرے دل میں کئی بار خیال آتا تھا کہ غزل عاصم کا ذکر کرے گی۔۔ کبھی اسکے چہرے پہ اداسی چھائے گی۔۔۔ اور میں اسکی آںکھوں میں دیکھ کے پڑھ لوں گا کہ وہ عاصم کو یاد کررہی ہے۔۔۔ لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا۔۔۔ یہاں تک کہ ہماری شادی کو چھ مہینے گزر گئے۔۔۔ شروع شروع کے دنوں میں لوگوں نے اس سے متعلق ہزار واہمے دل میں ڈالے تھے۔۔۔ بڑے گھر کی لڑکی ہے، نخرے والی ہوگی۔۔ اس ماحول میں رہ نہیں پائے گی۔۔۔۔ بہت ڈیمانڈنگ ہوگی۔۔۔ بلا بلا۔۔۔۔ لیکن غزل تو وہ غزل جیئسے تھی ہی نہیں۔۔۔ یہ سچ مچ کوئی اور لڑکی ہے جس کی شکل اس غزل سے ملتی ہے جو میرے ساتھ یونیورسٹی میں پڑھتی تھی۔۔۔ میرے گھر والے اسکی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے۔۔۔ تھوڑی ہی عرصے میں اس نے سب کو اپنا عادی بنا لیا تھا۔۔۔ دو چار ہفتوں بعد اپنی ماں کے گھر جاتی تو میری ماں اور بہنیں پیچھے پڑ جاتیں کہ غزل کو واپس لے آؤ۔۔۔ اور میرا اپنا دل بھی اسکے بنا کہاں لگتا تھا۔۔۔
      میں آفس میں تھا غزل کی طبیعت خراب ہوئی تو امی اسے ڈاکٹر کے پاس لے گئیں۔۔۔ میں گھر واپس لوٹا تو مجھے زندگی کی سب سے بڑی خوشخبری ملی۔۔غزل امید سے تھی۔۔۔۔ میرا بس نہیں چل رہا تھا کہ میں ہواؤں میں اڑنا شروع کردوں۔۔۔ میں نے اسے گلے سے لگایا۔۔۔۔
      "صنم۔۔۔! میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش پوری ہونے والی ہے۔۔۔ "
      وہ اتنی خوش تھی کے اسکی آںکھوں سے آنسو جاری ہوئے۔۔۔ میں نے اسکا ماتھا چوما۔۔۔۔
      ہم رات رات بھر جاگ کے بچے کا نام سوچتے رہیتے۔۔ کس سکول میں داخلہ کرائیں گے۔۔۔ کیسے پرورش ہوگی۔۔۔۔ ہر روز ایک نئی منصوبہ بندی۔۔۔۔ کہاں دن گزرنے کا نام نہیں لے رہے تھے اور کہاں مہینوں صبر کرنا تھا۔۔۔۔ حمل کی وجہ سے غزل کی طبیعت تھوڑی خراب رہنے لگی۔۔۔ میری ماں اور بہنیں اسکا بہت خیال رکھ رہی تھیں پھر بھی اسے اچھے ڈاکٹر اور ماحول کی ضرورت تھی۔غزل کی امی کی ضد پہ ہم نے اسے انکے گھر جانے دیا۔۔۔ لیکن میں ہر روز آفس سے سیدھا اسکے پاس جاتا۔۔۔ کئی گھنٹے اسکے ساتھ بتا کے پھر گھر لوٹتا تھا۔۔۔ امی بھی ہر دوسرے دن غزل کے پاس ہوتیں۔۔۔۔۔
      آٹھواں مہینہ شروع ہوا تو غزل نے ضد کی کہ مجھے گھر لے چلو۔۔۔ اسکی امی نے لاکھ سمجھایا لیکن اس نے کسی کی نہ سنی میں اسے گھر لے آیا۔۔۔۔
      اسکے ساتھ لیٹے لیٹے جانے کب میری آنکھ لگ گئی۔۔۔ فجر کے وقت آنکھ کھلی تو غزل جائے نماز پہ بیٹھی تھی۔۔۔ میں نے بھی وضو کیا اور نماز پڑھی۔۔۔ وہ بستر پہ بیٹھی وظیفہ پڑھ رہی تھی۔۔۔ میں اسکے پاس جا کے بیٹھ گیا۔۔۔ اس نے تسبیح روکی اور میری طرف دیکھ کے بولی۔
      صنم میری جان میری روح میری زندگی۔"میں تمہیں کچھ بتانا چاہتی ہوں۔۔۔۔ "
      میں اسکی بات بہت دھیان سے سننے لگا۔۔۔
      صنم"جانتے ہو میں نے تم سے شادی کیوں کی تھی۔۔۔ ؟"
      وہ بہت سنجیدگی سے بول رہی تھی۔
      مین خاموش تھا۔
      غزل: صنم مین"میں امر ہونا چاہتی تھی۔۔۔۔ "
      مین کچھ سمجھا نہین۔۔۔۔
      "میں بہت مغرور لڑکی تھی۔۔۔ کسی کو کچھ نہ سمجھنے والی۔۔۔ جسے خوش فہمی تھی کہ اسکی جگہ دنیا کی کوئی لڑکی نہیں لے سکتی۔۔۔ پر میں غلط تھی۔۔۔ ایک عام سی شکل صورت والی لڑکی نے مجھے ہرا دیا۔۔۔ایک گرین کارڈ ہولڈر کے لیے عاصم نے میرا حسن۔۔ میری ادائیں۔۔۔ سب کچھ اس عام سی لڑکی پہ قربان کردیا۔۔۔ شہزادیوں کی طرح رہنے والی لڑکی مات کھا گئی۔۔۔ نہ حسن کام آیا نہ دولت۔۔۔۔ میں ہار گئی۔۔۔ اس ہار نے مجھے یہ سکھا دیا تھا کہ شائد کچھ اور بھی ہے جو امر ہونے کے لیے بے حد ضروری ہے۔۔۔ اور وہ چیز عمل ہے ایسا عمل جسے کوئی بھول نہ پائے۔۔۔۔ جسے لوگ ہمیشہ یاد رکھیں۔۔۔ کمی محسوس کریں۔۔۔۔ میں اپنی زندگی بدلنا چاہتی تھی۔۔۔ ایک عام لڑکی بن کے جگہ بنانا چاہتی تھی۔۔ جسکی پہچان محض صورت نہ ہو بلکہ سیرت بھی ہو۔۔۔۔ میں نے تمہارا انتخاب کیا۔۔۔ بہت مشکل تھا تم میں ڈھلنا۔۔۔ پر میں نے خود کو تم میں ڈھال لیا۔۔۔۔"غزل کے أنکھین پرنم تھین۔
      میں نے اپنے ہاتھوں سے اسکے آںسو صاف کیے۔۔۔ اور گلے سے لگایا
      "پگلی۔۔! یہ سب تم مجھے اب کیوں بتا رہی ہو۔۔۔ میرے لیے اتنا ہی بہت ہے کہ تم نے مجھے چنا۔۔ "
      "یہی صحیح وقت تھا بتانے کا۔۔۔۔ پتا نہیں مجھے کبھی یہ موقع ملتا یا نہیں۔۔۔۔ "
      غزل کیون"کیوں کر رہی ہو تم ایسی باتیں۔۔۔۔؟"مت کرو ایئسے مجھ کچھ اچھا نہین لگ رہا۔
      "میں نہیں چاہتی اپنے پیچھے کوئی راز چھوڑ کے میں اس دنیا سے چلی جاؤں۔۔۔۔ "
      میں نے اسکے ہونٹوں پہ اپنی انگلی رکھ کے اسے چپ کرا دیا۔۔۔۔
      میں یہی سوچتا رہا کہ حاملہ عورتیں اس طرح کے واہموں کا شکار رہیتی ہیں۔۔۔۔ اس لیے اسے بھی وہم ہو رہا ہے۔ میں نے ہر طرح سے اسکا خیال رکھا۔۔۔ اسے اداس نہیں ہونے دیا۔۔۔۔ چند ہفتوں بعد غزل نے ایک نہایت خوبصورت بچے کو جنم دیا۔۔۔
      میرے دامن میں غزل نے أسمان سے ایک ستارہ بھر کے وہ خوڈ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چلی گئی۔۔۔
      میرے خدشات سچ ثابت ہوئے غزل سے ملن کا خواب ٹوٹنا تھا جو ٹوٹ گیا۔۔۔مگر جاتے جاتے وہ اپنے آپ کو امر کر گئی۔۔۔ میرے گھر کا ایسا ستون بن گئی تھی جس کے بنا سب کچھ ادھورا تھا۔۔مگر غزل بہت زیادہ سمجھدار تھی ۔۔مجھے اکیلا چھوڑ کے نہیں گئی۔۔۔وہ میرے لیے ایک بیساکھی میرے ہاتھوں میں تھما گئی۔۔جس کے سہارے مجھے زندگی بتانی تھی۔۔۔۔
      "جو بھی میرے چاند سے بیٹے کو دیکھتا ہے وہ یہی کہتا ۔
      ارےےے غزل تو کہیں نہیں گئی۔۔۔ بلکہ اپنے بیٹے میں اُتر کے اب بھی میرے ساتھ ہے"
      میرا بیٹا اب بیٹے ہونے کے ساتھ غزل کی. ہر حرکت اور ادا کے ساتھ مجھ سے ہمیشہ ملتا ہے۔
      غزل نے میری زندگی سے جا کرمجھے( صنم ساقی) کو پھر غزلیات
      ( شعرو شاعری) کی سوغات سے بھی نوازا ہے۔
      قلیل لحظ بھر ساعتون کاساتھ مگر امر کر گیا۔
      گزرا تو آنکھ جھپکنے سے مگر صنم کی عمر بھر گیا۔
      اختتام۔
      Vist My Thread View My Posts
      you will never a disappointed

      Comment


      • #4
        bohat achi story thi

        Comment


        • #5
          بہت خوب ساقی بھائی لاجواب تحریر

          Comment


          • #6
            Originally posted by Micky View Post
            بہت خوب ساقی بھائی لاجواب تحریر
            ارےےے دوست۔
            ۔یہ تحریر نہین صنم کی آپ بیتی ہے۔اچھی لگی اس کے لئے شکریہ۔
            Vist My Thread View My Posts
            you will never a disappointed

            Comment


            • #7
              Originally posted by playboy123 View Post
              bohat achi story thi
              شکڑیہ دوست
              Vist My Thread View My Posts
              you will never a disappointed

              Comment


              • #8
                بہترین اسٹوری تھی شکریہ صنم ساقی

                Comment


                • #9
                  Originally posted by Sakht londa View Post
                  بہترین اسٹوری تھی شکریہ صنم ساقی
                  شکریہ۔دوست۔۔
                  دلرباء دلنشین پرستان سے اُتری ہوئی تھی میری غزل۔
                  بچھڑکرتحلیل ہوامین ہوئی ہمین پھر خبر وہ تھی بیمثل۔
                  انمول تھی ساتھ منفرد بھی' تھی کیا کیا سب بتلاؤن کیئسے۔
                  سانسون کےرستےدل وروح مین سمائی ساقی سمجھاؤ کیئسے۔
                  Vist My Thread View My Posts
                  you will never a disappointed

                  Comment


                  • #10
                    صنم ساقی بھائ
                    بہت بہترین تحریر
                    لفظوں کا چناؤ بہت شاندار کیا
                    کمال کر دیا

                    Comment

                    Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                    Working...
                    X