Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

قفس . . کی . . چڑیا

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • Classic Story قفس . . کی . . چڑیا

    قفس کی چڑیا.۔
    پیش لفظ۔

    پرانے گندھے غلیظ فرسودہ رسم ورواج کو
    اجا گر کرنے کی اک سبق آموز کاوش ۔
    قفس کی چڑیا۔
    دو دن سے لگاتار دن رات زور و شورسے کالےسیاہ گھنے گھنگور طوفانی گرجتےبادلون سے مینہ برس رہا تھا۔۔۔
    ایئسے طوفانی موسم مین صوبہ سرحد کے ایک دور دراز کے گاؤن کوٹ ہاشم خان کے باہر بنےجدید طرز کے بنگلے کی دوسری منزل کی کھڑکی کے دونوں پٹ کھولے ساکت و جامد کھڑا وہ تہناوجود برستی بوندوں کو اپنی گہری سوچون مین گم دیکھے جا رہا تھا۔ ۔
    برستی تیز بارش نے ہر شے دھو ڈالی تھی۔اور اس کاوجود بھی اندر ہی اندر سے بھیگا جا رہا تھا۔ ۔ ۔ ۔
    چھاجوں مینہ برس کر تھم گیا تھا۔۔مگر اس کے اندر ابھی بھی کہیں بہت دور اودھم مچا ہوا تھا۔۔۔۔۔
    کہتے ہین دل بڑا منہ زور ہوتا ہے۔۔۔ہمیشہ ہی اپنی من مانی کرتا ہے اور اس میں انگڑائی لیتی محبت اپنا آپ منوا کر ہی دم لیتی ہے۔مگر یہی محبت یک طرفہ ہو تو پھر تکلیف ناقابلِ برداشت ہو جاتی ہے۔ ۔ ۔۔
    اس کا دل جس کا اسیر ہو چکا تھا اسے اس کے وجود میں زرا دلچسپی نہ تھی۔اوریہ احساس ہی اس کی روح چھلنی کرنے کے لیے کافی تھا۔ ۔۔۔
    اس کا دل چاندکی تمنا کر بیٹھا تھا۔مگر چاند کب کسی کا مقدر بنتا ہے۔۔۔اس کی چمک دھمک بس آنکوں کو خیرہ کرنے اور دل لبھانے کے لیے ہوتی ہے۔۔ مانگ میں بھرنے کے لیے نہیں۔۔۔ مگر دل یہ سارے حساب کتاب کی پرواہ ہی کب کرتا ہے۔۔۔ اپنی اسی ازلی بے پرواہی سے وہ روح تک کو گھائل کر دیتا ہے۔۔۔
    اور یہی سب اس کے ساتھ ہوا تھا۔۔۔ اس کی یک طرفہ محبت نے اس کی روح تک کو چھلنی کر دیا تھا مگر مجال ہے جو وہ مجسمہ حسن اس کی بے غرض اور پاکیزہ محبت کی گرمائش سےپگھل کر موم ہوا ہو۔
    اپنی زندگی کے اُس المیہ رونما ہونے والے واقعہ کو سوچ کر ہی اس کی سانسیں تھمنے لگیں تھیں۔۔سارے قبیلے کے سامنے جب خان جی نے اپنے فیصلے کا اظہار کیا تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ ایئسی کوئی ڈیمانڈ بھی کر سکتا ہے
    اس کے دل کو جیسے کسی نے اپنی مٹھی میں لے لیا تھا۔۔۔ دروازے کے پیچھے چھپی اپنا دل اس کی راہوں میں بچھاۓ کھڑی وہ ساکت رہ گی تھی۔۔۔ وہ اس کی بے لوث محبت اور اس کے جذبات کی پرواہ کے بغیر اسےاس کی نظروں میں گرا کر دو کوڑی کا کر چکا تھا۔۔ وہ خان جی کے سب گھر والون سے نظریں چراتی اپنا مفلوج جسم گھسیٹتی کمرے میں بند ہو گی تھی۔۔۔۔
    ساری رات اس نے سوچوں کی گرداب میں الجھ کر گزاری تھی ۔ ۔ ۔ کچھ پل میں وہ ہوش و حواس سے بیگانہ ہو کر زمیں بوس ہو چکی تھی۔ ۔
    طوفان اندر کا ہو یا باہر کا ہمیشہ تباہی ہی پھیلاتا ہے۔ اور اب ایسی ہی ایک تباہی” خان ولا پیلس“ کی منڑیروں پر منڈلا رہی تھی۔وہ اپنی سوچون کے گرداب مین جکڑی چند سال پہلے گزری یادون کی بھل بھلیون مین اترنے لگی۔
    جب وہ گھٹنوں میں سر دیے بیٹھی تھی۔۔۔اور تب
    چرڑ۔۔۔رڑ۔۔۔۔رڑ۔۔۔۔ڑ کی تیز آواز کیساتھ بیسمنٹ( تہہ خانے ) کا دروازہ کھلا۔
    اس نے قدموں کی ابھرتی چاپ سن کر بھی سر نہ اٹھایا۔۔۔۔۔
    تمہیں۔۔۔۔۔چھوٹے خان جی بلا رہے ہیں اپنے کمرے میں۔۔۔۔۔آنے والی ملازمہ نے پیغام دیا
    اس پیغام پر پلوشہ نے جھٹکے سے سر اٹھایا۔اور غصے سے چنگاڑی۔
    کہہ دو اپنے خان جی سے۔۔۔۔۔میں نہیں آؤں گی جو بھی کہنا ہے یہاں آ کر کہہ سن لیں۔
    دیکھو تم چھوٹے خان جی کا غصہ دیکھ چکی ہو اس لیے ضد مت کرو اور چلو میرے ساتھ۔۔۔۔۔
    پلوشہ:میں کہیں نہیں جا رہی میری بات تمہاری سمجھ میں نہیں آئی کیا۔
    تم اپنی زبان کو ہتھیار بنا کر اپنے لیے مشکلات کھڑی کر رہی ہو...
    پلوشہ:تمہیں میری فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔۔۔۔دو ٹوک انداز مین جواب آیا۔جا کر کہ دو ان سے۔
    ٹھیک ہے جیسے تمہاری مرضی میں چھوٹے خان جی کو جا کر تمہارا انکار۔۔۔۔۔۔
    سکینہ تم جاؤ۔۔۔۔۔زریاب آفریدی کی آواز نے نہ۔صرف سکینہ پر کپکی طاری کی بلکہ پلوشہ بھی اس آواز پر خوفزدہ ہو گئی۔۔۔
    جج۔۔۔۔جی۔۔۔۔چھوٹے خان جی۔۔۔۔۔سکینہ گھبراتی ہوئی جلدی سے سیڑھیوں کی جانب بڑھی۔
    پلوشہ ہلکا ہلکا لزرتی ہوئی جھکے سر سے زریاب آفریدی کی خون چھلکاتی نظریں کو خود پر گڑے ہوئے محسوس کر رہی تھی
    ……………………………………………………………….
    دونوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد پنچائیت اس فیصلے پر پہنچی ہے کہ۔۔۔۔
    ہمیں خون بہا چاہیے۔۔۔۔نہ خون کے بدلے خون اور نہ ہی خون معاف۔۔۔۔۔۔زریاب خان آفریدی کی دھاڑ سے ہر طرف سکوت چھا گیا وہ پنچائیت کے سربراہ کے بولنے سے پہلے ہی بول پڑا
    خاقان آفریدی نے پرشکوہ نگاہ بیٹے پر ڈالی جسے دیکھ کر وہ نظریں جھکا گیا۔
    پنچائیت کے سربراہ نے دلاور خان کو دیکھا انہوں نے ہاں میں سر ہلاتے ہوئے پاس بیٹھے غصہ ضبط کرتے شمس دلاور خان کو مخاطب کیا۔
    جاؤ پلوشہ کو لے آؤ۔۔۔۔۔وہ مدھم شکستہ آواز میں بولے
    شمس خاموشی سے اٹھ کر گاڑی کیطرف چل پڑا
    دلاور خان نے شمس کے جانے کے بعد ایک دکھ بھری نظر خاقان آفریدی پر ڈالی۔۔۔۔۔۔
    یہ فیصلہ صرف اور صرف زریاب کا تھا مگر اس وقت وہ اتنے لوگوں میں بیٹے کے فیصلے سے اختلاف کرنے کی پوزیشن میں نہ تھے
    ……………….…..…………………...……….….……
    میں ہر گز ایسا نہیں ہونے دوں گا بابا جان۔۔۔۔زریاب ،خاقان آفریدی کی بات پر آپے سے باہر ہوا
    میں نے تمہیں اسلام آباد اس لیے نہیں بھیجا تھا کہ واپس آ کر تم بھی ہم پرانے پٹھانون کی طرح قتل و غارت شروع کر دو۔۔۔۔
    قتل انہوں نے کیا ہے بابا جان اور میں ہر گز اس خون کو معاف نہیں ہونے دوں گا۔
    ان لوگوں کو اپنے کیے کا بدلہ چکانا ہو گا۔۔۔۔وہ بضد تھا۔
    زریاب بچے تیرے باباجان ٹھیک کہہ رہے ہیں معاف کر دینے میں ہی بڑائی ہے۔۔۔۔
    بی بی جان پلیز۔۔۔۔۔آپ سب شاید بھول چکے ہیں کہ محض بیس دن پہلے اس حویلی کے بڑے وارث کا جنازہ اٹھا تھا۔۔۔۔۔مگر میں نہیں بھولا ہوں اور نہ ہی آخری دم تک بھولوں گا۔۔۔۔اگر آپ لوگوں نے معافی نامہ بھیج دیا تو میں یہ حویلی چھوڑ کر چلا جاؤں گا۔۔۔۔۔دیٹس اٹ۔۔۔۔۔۔۔وہ اپنا فیصلہ سناتا سیڑھیاں پھلانگ گیا۔
    باباجان نے پاس کھڑی مہرو کو اشارہ کیا وہ سر ہلاتی زریاب کے پیچھے ہی سیڑھیاں چڑھ گئی۔
    زریاب چیزوں کی اٹھا پٹھک کر کے غصہ نکال رہا تھا جب مہرو کمرے میں داخل ہوئی۔
    زریاب بیٹا۔۔۔۔۔۔وہ اس پکار پر ایک لمحے کو رکا اور مڑے بغیر پھر سے چیزیں الٹنے لگا
    زریاب چندا۔۔۔۔
    بھابھی اگر آپ یہاں اس لیے آئیں ہیں کہ میں اپنا فیصلہ بدل لوں تو ایسا بلکل نہیں ہو گا۔۔۔میں لالہ کا خون کبھی معاف نہیں کرنے والا۔۔۔۔۔
    بیٹا۔ایسا کرنے سے تمہیں کیا ملے گا۔۔۔۔؟؟؟
    زیادہ نہ سہی کچھ تو اس اذیت کا مداوا ہو گا جو لالہ کے خون سے لت پت وجود کو دیکھ کر مجھے ہوئی تھی۔
    تو کیا اس خاندان کے بیٹے کا خون کرو گے جا کر۔۔۔۔۔؟؟؟
    نہین۔۔۔۔۔
    تو ۔۔۔۔۔۔۔تو خون بہا میں کیا لو گے پیسے یا پھر عورت۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟ مہرو نے اسکے سرخ چہرے پر نظریں فوکس کرتے ہوئے غصے سے پوچھا
    بھابھی أپ۔۔۔۔۔
    کیا میں۔۔۔۔بولو زریاب کیا میں۔۔۔۔تم ایک مرد کا بدلہ مظلوم عورت سے لو گے جس کا کوئی قصور بھی نہیں۔۔۔۔۔
    بھابھی آپ اس ایموشنل تقریر سے میرا فیصلہ نہیں بدل سکتیں۔۔۔۔وہ ڈٹا رہا
    ٹھیک ہے جو جی میں آئے کرو مگر ایک بات یاد رکھنا کہ میں خون بہا میں آنے والی لڑکی سے تمہیں کسی قسم کی کوئی زیادتی نہیں کرنے دوں گی سمجھے۔۔۔۔۔مہرو غصے سے بات مکمل کرتی کمرے سے نکل گئی
    بھابھی خون بہا میں آنے والی لڑکی سے مجھے کوئی سروکار نہیں۔۔۔۔۔۔۔میں صرف اور صرف شمس خان کو اسی تکلیف سے گزارنا چاہتا ہوں جو میں نے جھیلی تھی۔۔۔
    اسے بھی تو پتہ چلے کہ جب جان سے پیاری چیز ہمیشہ کے لیے جدا ہوتی ہے تو کس قدر اذیت سہنی پڑتی ہے۔۔۔۔۔۔یشب نے ہمکلامی کرتے ہوئے پوری قوت سے ایش ٹرے دیوار پر دے ماری۔
    _________________. . . ___
    اسے چادر اوڑھاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔شمس نے ہال کمرے میں موجود خواتین سے کہا
    مم۔۔۔۔۔میں۔۔۔۔۔میں کہیں نہیں جاؤں گی لالہ۔۔۔۔میں کہیں نہیں جا رہی۔۔۔۔۔آپ۔۔۔۔آپ ایسا کیسے کر سکتے ہیں۔۔۔۔بابا۔۔۔۔بابا مجھے ونی نہیں کر سکتے لالہ میں کہیں نہیں جاؤں گی۔۔۔۔۔پلوشہ پنچائیت اور آفریدی خاندان کا فیصلہ سن کر پاگل سی ہو گئی تھی۔۔۔۔
    پپ پلوشہ۔۔۔
    نن۔۔۔۔نہیں۔۔۔نہیں لالہ آپ۔۔۔۔آپ اپنی پلوشہ اپنی گڑیا کو کیسے کسی کے حوالے کر دیں گے نہیں لالہ آپ مجھے چھپا لیں نا کہیں ۔۔۔۔۔۔میں پنچائیت میں نہیں جاؤں گی لالہ چھپا لیں مجھے۔۔۔۔۔۔وہ روتی ہوئی شمس کے سینے سے لگ گئی
    شمس نے بہت ضبط سے پلوشہ کے ہچکیاں لیتے وجود کو خود سے الگ کیا اور پاس کھڑی پروشہ سے چادر پکڑ کر ہیر کو اوڑھائی اور اسکا بازو پکڑ کر باہر کیجانب بڑھا
    لالہ آپ ان کو بتاتے کے آپ نے جان بھوج کر سہراب خان کا خون نہیں کیا یہ۔۔۔۔یہ سب اچانک غلطی سے ہوا۔۔۔۔۔۔پلیز لالہ میں نہیں جاؤں گی۔۔۔پلوشہ روتی ہوئی گھسیٹتی جا رہی تھی
    وہاں موجود حویلی کی عورتوں اور ملازموں نے افسردگی سے وہاں کی لاڈلی کو ہمیشہ کے لیے جاتے دیکھا مگر اسے روکنے کی ہمت کسی میں بھی نہ تھی
    ……………………………………………………………….
    پنچائیت سے چند فرلانگ کے فاصلے پر شمس نے گاڑی کو بریک لگائی
    پلوشہ نے خوفزدہ نظروں سے چند گز دور بیٹھے مردوں کے ہجوم کو دیکھا اور کپکپاتے ہوئے شمس کا بازو پکڑا
    لالہ مجھے بچا لیں۔۔۔۔۔میں آپ سب کے بغیر مر جاؤں گی لالہ۔۔۔۔۔۔وہ پھر سے ملتجی ہوئی
    شمس اس کے ہاتھ ہٹا کر گاڑی سے نکل گیا
    دوسری سائیڈ سے اس کا دروازہ کھول کر اسے بھی باہر نکالا۔۔۔۔۔
    اگر تمہارا لالہ تمہیں بچا سکتا تو کبھی بھی اپنی لاڈلی کو اپنی عزت کو اس پنچائیت کی زینت نہ بننے دیتا۔۔۔۔۔وہ بہت سنجیدگی سے کہتا اسے لیے آگے بڑھ گیا
    ……………………………….…...….…………………..……
    خاقان آفریدی نے دو شادیاں کی تھیں۔۔۔پہلی شادی بی بی جان (صوریہ خانم) سے کی مگر دس سال تک اولاد نہ ہونے کی صورت میں بی بی جان نے ان کی شادی خود ہی اپنی چچا زاد گل بانو سے کروا دی ۔۔۔گل بانو نےخاقان آفریدی سے شادی کے ڈیڑھ سال بعد حویلی کے پہلےوارث سہراب خان آفریدی کو جنم دیا۔۔۔جس پر پوری حویلی میں خوب جشن منایا گیا۔۔۔۔مگر بدقسمتی سے گل بانو سہراب کی پیدائش کے چھ سال بعد زریاب خان کو جنم دےکراس دنیا سے رخصت ہو گئی۔۔۔۔۔۔
    یوں سہراب اور زریاب کی ذمہ داری بی بی جان پرآ پڑی انہوں نے پورے دل سے یہ ذمہ داری نبھائی اور خوشدلی سے ان دونوں کو سینے سے لگا لیا۔۔۔۔۔وہ دن اور آج کا دن انہوں نے کبھی ان دونوں بھائیوں کو ماں کی کمی محسوس نہیں ہونے دی
    چھ سال پہلے وہ اپنی بھانجی مہرو کو سہراب آفریدی کی دلہن بنا لائیں تھیں۔۔۔۔مہرو اور سہراب کا چار سالہ بیٹا حدید آفریدی بھی تھا۔
    زریاب چند ماہ پہلے ہی اسلام آباد سے اپنی تعلیم مکمل کر کے لوٹا تھا جب قسمت نے ان پر بہت بھاری وار کیا
    سہراب آفریدی کو ان سب سے ہمیشہ کے لیے جدا کر کے۔۔۔۔۔
    …………………………………………………………………
    میں چاہتا ہوں کہ میں اپنی بیٹی کا نکاح ابھی پنچائیت میں کروا کر ہی آفریدی خاندان کیساتھ بھیجوں۔۔۔۔دلاور خان نے جھکے سر سے اپنا مدعا کہا
    مجھے کوئی اعتراض نہیں حاکم خان آپ نکاح شروع کریں۔۔زریاب اور دلاور خان کی بیٹی کا نکاح ابھی سب کی موجودگی میں ہی گا۔۔۔۔۔۔خاقان آفریدی نے ٹہرے ہوئے لہجے میں بات مکمل کی
    بابا جان یہ۔۔۔یہ کیا کہہ رہے ہیں۔۔۔زریاب انکی جانب جھک کر آہستگی سے بولا۔میں اس لڑکی کو اپنے نکاح میں نہیں لوں گا۔۔۔۔
    ایک فیصلہ تمہارا تھا تو دوسرا میرا ہو گا۔۔۔۔۔بابا جان نے بھی آہستگی سے اسے باور کروایا اور حاکم خان کی طرف متوجہ ہو گئے جو کلمات شروع کر چکے تھے
    زریاب کی بازی اسی پر الٹ چکی تھی۔۔۔۔اس نے خون بہا میں دلاور خان کی بیٹی اور شمس خان کی بہن کو ہی مانگا تھا تاکہ وہ اسکو ان سے جدا کر کے تکلیف دے
    سکے ۔۔وہ صرف اس لڑکی کو اپنی قید میں لانا چاہتا تھا نہ کے نکاح میں۔۔۔۔۔
    نکاح کے لیے تو وہ اپنے خاص ملازم حشمت خان کو سوچ چکا تھا۔۔۔۔۔مگر بابا جان نے بیچ میں آ کر سارا قصہ ہی پلٹ دیا تھا
    وہ نکاح کے بعد پنچائیت سے تو خاموشی سے اٹھ آیا تھا مگر حویلی آ کر اپنا غصہ نکالنا نہیں بھولا
    ہم وہاں خون بہا لینے گئے تھے ناکہ بیوی اور بہو۔۔۔۔۔۔وہ غرایا
    تو تمہیں کیا لگتا تھا ہم وہاں سے لڑکی ایسے ہی لے آتے بنا نکاح کہ۔۔۔۔۔بابا جان نے ٹہرے ہوئے لہجے میں طنز کیا
    نکاح کرتے ضرور کرتے مگر میرے ساتھ نہیں۔۔۔۔۔۔۔حویلی کے ہزاروں وفادار ملازم موجود ہیں ان میں سے کسی سے بھی کر دیتے۔
    ہوش کرو زریاب۔
    ہوش میں ہی تو آ چکا ہوں۔۔۔۔۔اور ہوش میں ہی میں اس فساد کی جڑ کو جان سے مار کر حساب برابر کر دوں گا۔۔۔۔۔وہ چلاتا ہوا کچھ فاصلے پر کھڑی پلوشہ کیطرف بڑھا۔
    چھو۔۔۔۔چھوڑیں۔۔۔۔۔وہ گھٹی گھٹی آواز میں چیخی
    زریاب چھوڑو بچی کو۔۔۔ہوش کرو زریاب کیا پاگل پن ہے یہ۔۔۔۔۔۔۔بابا جان زریاب کے ہاتھ ہٹا رہے تھے جن میں وہ پلوشہ کی گردن دبوچ چکا تھا۔۔۔۔۔۔
    بابا جان ہٹ جائیں میں اس قصے کو یہیں ختم۔۔۔۔۔
    زریاب۔۔۔۔۔۔بابا جان کی دھاڑ پر اس نے ایک قہر آلود نگاہ پلوشہ کے لزرتے وجود پر ڈالی اور ایک جھٹکا دے کر اسکی گردن آزاد کی۔
    پلوشہ اس جھٹکے کے لیے ہر گز تیارنہ تھی اس لیےتوازن برقرار نہ رکھ پائی اور دائیں جانب لڑکھڑاتے ہوئے گری۔
    گرنے سے وہاں پڑے ٹیبل کی نوک اسکے ماتھے پر لگی جس سے خون ابل پڑا۔
    زریاب سر جھٹکتا ہال سے نکل گیا
    مہرو بیٹا دیکھو بچی کو۔۔۔۔۔بابا جان مہرو کو کہتے مردانے کی طرف چلے گئے۔
    مہرو نے پلوشہ کو صوفے پر بیٹھایا اور جلدی سے فسٹ ایڈ باکس لے آئی۔۔۔۔زخم صاف کر کے بینڈیج کی اور ہال سے نکل گئی
    اب ہال میں پلوشہ اور تخت پر بی بی جان موجود تھیں
    یہاں آؤ۔۔۔۔۔۔انہوں نے پلوشہ کو اپنے پاس بلایا
    وہ آہستگی سے چلتی ہوئی پاس آ کر کھڑی ہو گئی
    پلوشہ زمین پر بیٹھنے لگی تھی جب بی بی جان نے اسے صوفے پر بیٹھنے کو کہا
    وہ انکے سامنے صوفے پر ٹک گئی
    کیا نام ہے تمہارا۔۔۔۔۔؟؟؟
    پلوشہ خانم۔۔۔
    دلاور خان کی بیٹی ہو یا بھتیجی۔۔۔۔۔؟؟؟
    بیٹی ۔۔۔
    ہون ۔۔۔۔اکلوتی۔۔۔ ہو۔۔۔؟؟
    جج۔۔۔۔۔۔جی۔۔۔۔شم۔۔۔۔۔شمس لالہ بھی ہیں
    ہوں۔۔۔۔۔بی بی جان نے لمبی سی سانس خارج کی
    زریاب کا غصہ یہاں کے روایتی مردوں کے جیسا ہی ہے مگر دل کا برا نہیں وہ۔۔۔۔
    اصل میں سہراب نہ صرف اسکا بڑا بھائی تھا بلکہ بہت اچھا دوست بھی تھا۔۔۔اور وہ اسی صدمے کو برداشت نہیں کر پا رہا۔۔۔۔بی بی جان نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔
    بیگ۔۔۔۔بیگم صاحبہ۔۔۔۔شمس لالہ نے سہراب آفریدی کو جان بوجھ کر نہیں مارا وہ بس اچانک۔۔۔۔
    اب ان باتوں کا کوئی فائدہ نہیں بچے۔۔۔۔جانے والا تو چلا گیا۔۔۔۔وہ افسردگی سے بولیں
    مم۔۔۔۔میں معافی مانگتی ہوں۔۔۔۔پلوشہ نے اچانک ان کے سامنے ہاتھ جوڑے۔
    ارےے تم کیوں معافی مانگ رہی ہو بچے۔۔۔۔اس سب میں تمہارا تو کوئی قصور نہیں۔۔۔۔
    اتنے میں مہرو دودھ کا گلاس لے کر وہاں آئی
    یہ لو یہ پین کلر لے کر یہ ہلدی ملا دودھ پی لو۔۔۔۔۔سکون ملے گا
    پلوشہ نے حیرت سے اسے دیکھا۔۔۔۔حویلی کا ایک فرد زخم دے رہا ہے تو دوسرا مرہم رکھ رہا ہے
    مہرو نے اسکی حیرت دیکھتے ہوئے آہستگی سے گلاس اسکے ہاتھ میں دے کر ہاتھ تھپتھپایا
    پی لو۔۔۔۔
    ہاں بچے لے لو آرام ملے گا۔۔۔۔۔۔اچھا مہر میں اپنے کمرے میں جا رہی ہوں۔۔۔تم کھانا کھلا دینا۔۔اسے۔۔۔ہوں۔۔۔۔۔۔۔
    جی بی بی جان۔۔۔۔۔۔مہرو نے ہاں میں سر ہلا دیا
    _______________
    زریاب آ گیا کیا۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟بی بی جان نے مہرو سے پوچھا جو انہیں گرم دودھ کا گلاس دینے آئی تھی۔
    ۔۔۔
    نہیں ابھی تک تو نہیں آیا۔۔۔۔۔
    پلوشہ کہان ہے۔۔۔؟؟
    گیسٹ روم مین۔۔۔
    اسےکھانا کھلا دیا کیا۔؟؟
    جی۔۔۔۔تھوڑا سا ہی کھلایا ہے وہ بھی زبردستی
    ہوں۔۔۔۔۔ایسا کرو اسے زریاب کے کمرے میں چھوڑ آؤ
    بی بی جان وہ زریاب کا غصہ وہ؟۔۔۔۔۔
    غصہ ٹھنڈا کر کے ہی واپس آئے گا۔۔۔۔پھر آ کر نیا ہنگامہ مچا دے گا اس لیے بہتر ہے پلوشہ کو چھوڑ آؤ۔۔۔۔وہی لانے والا ہے اسے۔۔۔۔۔اب رکھے بھی خود۔۔۔۔وہ دو ٹوک بولیں
    جی۔۔۔۔۔ آپ یہ دودھ پی کر لیٹ جائیں۔۔۔۔میں چھوڑ آتی ہوں
    ہوں۔۔۔۔سلامت رہو۔۔۔۔۔بی بی جان نے افسردہ سی نگاہ مہرو پر ڈالتے ہوئے دعا دی
    پہلے وہ اسے سدا سہاگن رہو کی دعا دیتی تھیں مگر اب حالات کے پیش نظر۔۔۔۔۔۔۔
    وہ بھی اپنی دعا بدل چکیں تھیں
    _____________
    رات ڈھائی ، تین کے قریب زریاب اپنے کمرے میں داخل ہوا
    مگر بیڈ پر سوئے وجود کو دیکھ کر اسکا دماغ بھک سے اڑا
    وہ غصے سے کھولتا بیڈ کے پاس آیا اور جھٹکے سے رضائی کھینچی
    پلوشہ کی آنکھ بمشکل اتنی دیر رونے کے بعد اب جا کر لگی تھی کہ یہ طوفان آ گیا۔
    وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔۔۔۔مگر جیسے ہی نظر سامنے کھڑے زریاب آفریدی کی لال انگارہ آنکھوں پر پڑی۔
    تو وہ جلدی سے لرزتی ،کانپتی بیڈ سے نیچے اتر کر کھڑی ہوئی
    کیا کر ہی ہو یہاں۔۔۔۔۔۔۔وہ بمشکل غصہ ضبط کرتا ٹہرے ہوئے لہجے میں بولا
    وہ ۔۔۔۔وہ۔۔۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔۔ وہ ۔۔۔۔
    کیا وہ۔۔۔۔وہ لگا رکھی ہے۔۔۔۔۔صاف اور سیدھی بات کرو۔۔۔۔۔۔وہ غراتا ہوا پاس آیا۔
    پلوشہ ڈو قدم پیچھے ہٹی۔
    زریاب مزید پاس چلا آیا۔۔
    وہ پھر سے پیچھے ہٹتی دیوار سے جا لگی
    تمہاری ہمت کی داد دینی پڑے گی۔۔۔پلوشہ دلاور خان۔۔۔۔واہ واہ۔۔۔۔وہ اتنا پاس آ کر بولا کہ ہیر کو اس کے سانسوں کی آواز تک سنائی دے رہی تھی
    نن۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔میں خود تو نہیں آئی۔۔۔۔۔وہ مجھے مہرو۔۔۔۔۔مہرو بھابھی چھوڑ کر گئیں ہیں۔
    مہرو بھابھی۔۔۔۔۔۔۔وہ استہزائیہ ہنسا
    کس رشتے سے وہ تمہاری بھابھی ہیں۔۔۔۔۔بولو۔۔۔۔۔زریاب نے سختی سے اسکا منہ جکڑا
    تمہارے بھائی نے ان کے شوہر کو قبر میں اتار کر انہیں بیوگی کی چادر اوڑھا دی اور تم یہاں رشتے داریاں بناتی پھر رہی ہو
    ہاں۔۔۔۔۔۔۔وہ پوری طاقت سے چلایا
    مم۔۔۔۔نن۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔میں۔۔۔۔میں۔وہ؟؟
    چپ۔۔۔۔۔۔زریاب نے اسکے ہونٹوں پر انگلی رکھی۔۔۔۔۔۔بلکل یکدم سے چپ۔۔۔۔۔
    آج کے بعد اگر یہ زبان بلا ضرورت ہلی تو پھر مین اسے کاٹ دوں گا سمجھی۔۔۔۔
    اب چلو میں تمہیں تمہاری اصلی آرام گاہ دکھا دوں۔۔۔۔۔۔۔۔وہ پلوشہ کو بازو سے پکڑ کر گھسیٹا باہر لایا۔
    پلوشہ اسکی قدموں کیساتھ گھسیٹتی جا رہی تھی
    زریاب اسے لے کر تہہ خانے میں آیا
    یہ۔۔۔یہ ہے تمہارا اصل ٹھکانہ۔۔۔۔اس سے آگے کا سوچنا بھی مت ۔۔۔۔وہ گھور کر کہتا وہاں سے چلا گیا
    پیچھے پلوشہ اس تہہ خانے میں سسکتی اکیلی رہ گئی
    __________________
    پلوشہ کو تہہ خانے میں بند ایک ہفتے سے اوپر ہو گیا تھا۔۔۔۔۔نہ کوئی وہاں آیا اور نہ ہی اسے باہر بلایا گیا۔۔۔۔۔سکینہ نامی ملازمہ اسے کھانا پانی سب دے جاتی تھی۔۔۔۔۔
    اور آج وہ بارہ دن کے بعدپلوشہ کے پاس زریاب آفریدی کا بلاوا لے کر آئی تھی کہ چھوٹے خان تمہیں اپنے کمرے میں بلا رہے ہیں
    پلوشہ کو رات کے اس پہر زریاب آفریدی کا اپنے کمرے میں بلانا نامناسب لگا اسی لیے وہ سکینہ کو منع کر چکی تھی جب زریاب آفریدی خود وہاں چلا آیا۔۔۔۔
    سکینہ کے جانے کے بعد وہ مضبوط قدم اٹھاتا پلوشہ کے بلکل سامنے آ کھڑا ہوا
    کیا سنانا چاہتی ہو۔تم۔۔۔۔۔؟؟
    کک۔۔۔۔کچھ نہیں۔۔پلوشہ نے زور زور سے نفی میں سر ہلایا
    ابھی کہہ رہی تھی ناں سکینہ سے خان سے کہو جو کہنا سننا ہے یہاں آ کر سن لیں۔۔۔۔
    نن۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔کوئی۔۔۔۔۔بات۔۔۔۔۔۔بھی نہیں ہے۔۔
    میری بات یاد ہے تمہیں۔۔۔۔۔۔؟؟؟
    جج ۔۔۔۔جی۔۔
    کونسی۔۔۔؟۔۔
    اگر۔۔۔اگر بلاضرورت زبان ہلائی تو کاٹ دوں گا۔۔۔۔۔وہ معصومیت سے اسکی بات دہرا گئی
    گڈ۔۔۔۔۔تم تو بہت ذہین ہو۔۔۔۔۔تو بتاؤ جب میری بات یاد تھی تو پھر آنے سے منع کیوں کیا۔۔۔۔۔اب کے وہ اپنی مخصوص دھاڑ نما آواز سے غرایا
    غلطی ہو گئی ۔۔۔۔معاف۔۔۔۔معاف۔۔۔۔کر دیں۔۔۔۔وہ کپکپاتی آواز میں بولی
    معاف کیا۔۔۔۔اب چلو گی ساتھ یا پھر۔۔۔
    چچ چلون گئی۔وہ فٹا فٹ بولی۔
    گڈ۔۔۔۔چلو۔۔۔۔۔پھر
    وہ زریاب آفریدی کے پیچھے پیچھے ناک کی سیدھ میں چلتی ہوئی اسکے کمرے تک آئی
    یہ دیکھ رہی ہو میرا کمرہ۔۔۔۔زریاب نے مڑ کر اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
    جی۔۔۔۔۔۔
    آج سے تم اس کمرے میں رہو گی
    زریاب کی بات پر پلوشہ نے حیرانگی سے اسے دیکھا۔
    زیادہ حیران ہونے کی ضرورت نہیں۔۔۔۔تم اس کمرے کی مالکن نہیں بلکہ ملازمہ بن کر رہو گی۔۔۔۔۔انڈر اسٹینڈ۔
    تمہیں اس کمرے میں رہنے کے عوض جو جو کرنا ہو گا وہ میں تمہیں ساتھ ساتھ بتاتا رہوں گا۔۔۔۔۔خود سے مجھے مخاطب کرنے کی کوشش بھی مت کرنا۔۔۔۔رائٹ۔
    جی۔۔۔۔پلوشہ نے ٹرانس میں سر ہلایا
    اب فلحال تو تم ایسا کرو کبڈ سے اگر کوئی بستر ملتا ہے تو نکال کر یہاں زمین پر بچھا لو۔۔۔۔کیونکہ اب یہیں سویا کرو گی تم۔۔
    اسکی بات پر پلوشہ کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی دوڑ گئی۔۔۔۔اتنی ٹھنڈ میں زمین پر۔۔۔۔۔وہ بمشکل اپنی ٹانگیں گھسیٹتی کبڈ تک گئی۔
    زریاب اپنی بات مکمل کرنے کے بعد واش روم میں گھس چکا تھا۔
    وہ کبڈ میں اتنی کوشش کے بعد بھی صرف ایک شال نما موٹی چادر ہی تلاش کر پائی
    اب وہ یہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ اس چادر کو نیچے بچھائے یا پھر سردی سے بچنے کواوپر اوڑھے۔وہ اسی کشمکش میں تھی جب زریاب ٹاول سے بال رگڑتا باہر آیا۔
    ایک سرسری نظر پلوشہ کے ساکت وجود پر ڈال کر بالوں کو برش کیا اور پلٹ کر بیڈ پر موجود خوبصورت سی شہنیل کی نرم وملائم رضائی میں گھسا ( یہ شہنیل کی رضائیاں بی بی جان کی نگرانی میں بنائی جانے والی اسپیشل سوغات تھی جنکو سردی کے موسم میں ہر کمرے میں موجود کمبل کو ہٹا کر پہنچا دیا جاتا تھا )
    پلوشہ نے ایک للچاتی نظر رضائی پر ڈالی اور آگے بڑھ کر چادر کو بیڈ کے بائیں جانب ذرا فاصلے پر بچھایا ۔
    اور بڑے حوصلے سے اس چادر پر لیٹ کر اپنی سر پر اوڑھی شال کو سارے جسم کے اردگرد لپیٹ کر آنکھیں بند کر لیں
    اسکی بند آنکھوں کے سامنے اپنا کمرہ گھوم رہا تھا۔۔۔۔جہاں آسائش و آرام کی ہر چیز موجود تھی اور اب وہ پلوشہ دلاور خان زمین پر پڑی تھی بنا کسی بستر اور لحاف کے۔
    ایک آنسو چپکے سے اسکی آنکھوں کے بند پپوٹے سے نکل کر زمین پر گرا مگر وہاں ان آنسوؤں کو دیکھنے اور انہین پونچھنے والا کوئی نہ تھا۔
    ہائے رےےےے۔۔ یہ قسمت۔۔
    جو لمحوں میں بادشاہ کو گدا اور گدا کو بادشاہ بنا دیتی ہے۔۔قسمت۔۔۔جس سے لڑنا انسان کے بس کی بات نہیں۔۔۔۔وہ صرف اپنی دعاؤں سے ہی قسمت کو بدلنے کا خواہش مند ہوتا ہے اور پلوشہ بھی دعا گو تھی کہ اسکی قسمت ،، اسکی زندگی بھی پھر سے پہلے جیسی ہو جائے۔۔۔۔جہاں نہ تو کوئی دکھ تھا اور نہ ہی کوئی تکلیف۔۔۔۔۔مگر اب دیکھنا یہ تھا کہ پلوشہ کی یہ خواہش پوری ہوتی بھی کہ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
    _________. . . . . _______
    پلوشہ تہہ خانے سے نکل کر اب اس کمرے میں قید ہو چکی تھی
    وہ زریاب آفریدی کے حکم کے مطابق خود کو اسے مخاطب کرنے کی ہمت بھی نہیں کر پا رہی تھی
    تین دن سے وہ اس کمرے میں تھی جہاں کی ایک ایک چیز اسے ازبر ہو چکی تھی اب تو وہ آنکھیں بند کر کے بھی بتا سکتی تھی کہ کونسی چیز کہاں پڑی ہے
    اس رات وہ زمین پر لیٹ تو گئی تھی مگر سو نہیں پائی تھی۔۔۔۔
    ٹھنڈ تلوار کی مانند ہڈیوں میں گھسے جا رہی تھی۔۔۔۔۔۔دو گھنٹے کے کھٹن صبر کے بعد وہ بلآخر اٹھ بیٹھی
    کمرے میں مدھم روشنی کیساتھ زریاب آفریدی کے ہلکے ہلکے خراٹے گونج رہے تھے
    خود تو مزے سے سو رہا ہے جنگلی اور مجھے یہاں مرنے کو لٹا دیا۔۔۔۔
    میرے مالک مجھے کس جرم کی سزا مل رہی ہے آخر۔۔۔کونسا گناہ ہو گیا مجھ سے کہ اتنی بھیانک سزا بھگتنی پڑ رہی ہے۔۔۔۔وہ افسردگی سے سوچتی کھڑی ہوئی۔
    پلوشہ مدھم روشنی میں صوفہ دیکھنے کی کوشش کر رہی تھی تاکہ اس پر لیٹ سکے
    آنکھوں کو اچھی طرح کھول کر دیکھنے پر وہ صوفہ تلاشتی آگے بڑھی ہی تھی کہ زریاب آفریدی کے پشاوری چپل میں اڑ کر زمین بوس ہوئی۔
    کھٹکے کی آواز پر زریاب بھی آنکھیں مسلتا لیمپ آن کر چکا تھا
    پلوشہ کو زمین پر اوندھے منہ گرے دیکھ کر وہ مسکراہٹ روکتا اٹھ بیٹھا
    یہ آدھی رات کو کس فلم کی ریہرسل ہو رہی ہے۔۔۔۔؟؟؟
    پلوشہ اسکی آواز پر شرمندگی کے مارے اٹھ ہی نہ پائی۔
    اٹھ جاؤ اب یا پھر کرین منگواؤں۔۔۔۔؟؟
    زریاب نےپلوشہ کی بھری بھری جسامت پر چوٹ کی۔
    وہ شرمندہ شرمندہ سی اٹھ بیٹھی۔
    کیا کر رہی تھی تم آدھی رات کو۔۔۔۔۔۔؟؟
    مم۔۔۔۔۔مجھے سردی لگ رہی ہے
    اوہ تو سردی سے بچنے کے لیے میرے لحاف میں گھسنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔؟؟؟یشب نے سیگرٹ سلگاتے پوچھا..۔۔
    نن۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔وہ۔۔۔۔۔وہ میں۔۔۔۔صوفے پر...
    میں نے تمہاری جگہ تمہیں بتا دی تھی پھر کس کی اجازت سے تم صوفے پر جا رہی تھی۔۔۔۔۔وہ تیز لہجے میں بولا
    سر۔۔۔سردی بہت۔۔۔ہے۔۔۔۔میں گرمیوں میں زمین پر لیٹ جایا کروں گی۔۔۔۔وہ سر جھکائے جلدی سے بولی۔
    کافی سے زیادہ چالاک ہو اپنے بھائی کیطرح۔۔۔۔طنز کیا گیا۔
    میرے بھائی نے کچھ نہیں کیا۔۔۔پلوشہ زریاب کی بات پر چلا کر بولی
    زریاب اسکے چلانے پر رضائی ہٹاتا اس تک آیا
    تمہارے لاڈلے بھائی نے کچھ نہیں کیا تو پھر کس نے مارا ہے سہراب خان کو ہوں۔۔۔۔
    لالہ نے جان بھوج کر نہیں۔۔۔۔غلطی سے۔۔۔۔
    پلوشہ کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی زریاب کے بھاری ہاتھ کا ٹھپڑ اسکی بولتی بند کروا گیا
    میرے سامنے دوبارہ اس کتے کی حمایت میں مت بولنا ورنہ۔۔۔۔۔
    ورنہ کیا۔۔۔۔۔؟؟؟ پلوشہ کو اپنے لالہ کے لیے لفظ کتا برداشت نہیں ہوا تھا اسی لیے ہمت کرتی بولی
    ورنہ کیا کریں گے۔۔۔۔مجھے ماریں گے۔۔۔۔ پیٹیں گے۔۔۔۔۔۔یا پھر جان سے مار دیں گے تو مار دیں۔۔۔۔مار دیں مجھے۔۔۔۔۔میں بھی اس اذیت بھری زندگی کو جینا نہیں چاہتی اسلیے مہربانی ہو گی اگر آپ مجھے مار کر اپنا بدلہ پورا کر لیں۔۔۔۔وہ روتی ہوئی سر گھٹنوں میں دے گئی۔۔۔
    زریاب نے اسکے ہچکیوں لیتے وجود کو دیکھ کر جھٹکے سے اسکا سر اٹھا کر منہ جکڑا۔۔۔
    مجھے روتی ،بلکتی عورتوں سے سخت نفرت ہے اس لیے آج کے بعد اگر تم نے دوبارہ میرے سامنے رو دھو کر خود کو مسکین شو کرنے کی کوشش کی تو واقعی جان سے مار دوں گا سمجھی۔۔۔۔وہ وارننگ دیتا کمرے سے ملحق ٹیرس پر نکل گیا
    پلوشہ اسکے جانے کے بعد بلند آواز میں ہچکیوں سے رونے لگی اور روتے روتے ناجانے کب نیند کی پری اس پر مہربان ہوئی کہ وہ وہیں زمین پر ہی سو گئی۔۔۔
    جاری ہے۔۔
    Vist My Thread View My Posts
    you will never a disappointed

  • #2
    قفس.کی.چڑیا.۔
    پلوشہ مسلسل تین دن سے بنا کسی لحاف کے زمین پر سو رہی تھی جسکا نتیجہ پھر بخار کی صورت میں سامنے چلا آیا۔۔۔۔
    زریاب کے اٹھنے سے پہلے زریاب کے حکم کے مطابق پلوشہ نے اسکے دوسوٹ پریس کرنے ہوتے تھے۔۔۔۔یہ اسکی ڈیوٹی تھی جو زریاب خان نے کمرے میں لانے کے بعد بتائی تھی۔۔۔
    زریاب روزانہ صبح پانچ بجے تک اٹھ جاتا تھا اورپلوشہ کو اسکے اٹھنے سے پہلے اسکے کپڑے تیار کرنے پڑتے۔۔۔۔
    مگر آج زریاب اٹھ چکا تھا مگر پلوشہ گٹھڑی بنی اپنی جگہ پر لیٹی تھی۔
    زریاب خاموشی سےاٹھ کرغسل کرنے چلا گیا۔۔غسل کر کے جب وہ کمرے میں آیا توپلوشہ ابھی ویسے ہی لیٹی تھی۔۔۔
    پل۔۔۔لوشہ۔۔۔۔۔۔اس نے پاس آ کر پکارا
    زریاب نے جھک کر اٹھانا چاہا۔۔۔توپتہ چلاکہ وہ تو تیزبخار میں پھنک رہی تھی۔
    لو جی نئی مصیبت۔۔۔۔۔اس نے بڑبڑاتے ہوئے پلوشہ کے وجود کو اٹھا کر بیڈ پر پٹخا۔
    پٹخنے پرپلوشہ نے غنودگی میں ہی آنکھیں کھولیں مگر سمجھ نہ پائی کہ کیا ہوا ہے اس لیے پھر سے آنکھیں موند لیں۔
    زریاب نے سیل اٹھا کر حشمت کو کال ملائی
    ڈاکٹر رضیہ کو لے کر فورا میرے کمرے میں پہنچو۔۔۔اگر وہ سوئی بھی ہو تو بھی اٹھا دینا۔۔
    کال بند کر کے رضائی سیدھی کر کے پلوشہ کے بے خبر وجود پر انڈیلی اورخود تیزی سے باہر نکل گیا۔
    کچھ دیر بعدوہ ڈاکٹر کو لیے حاضر تھا۔۔۔۔۔
    سردی لگ جانے کی وجہ سے فیور ہو گیا ہے خان صاحب میں یہ میڈیسن دے رہی ہوں کچھ کھلانے کے بعد دے دیں۔۔۔ان شا اللہ آرام آ جائے گا۔۔۔۔ڈاکٹر نے بخار کی وجہ بتائی اور میڈیسن دینے کے بعد واپس چلی گی۔
    ڈاکٹر کے جانے کے بعد زریاب نے گھڑی دیکھی چھ بجے تھے۔۔۔وہ نیچے آیا تاکہ کسی ملازمہ سے پلوشہ کے لیے کھانے کو کچھ بنوائے مگر نیچے کوئی ذی روح موجود ہوتا تو وہ کہتا۔۔۔۔
    دن چڑھ آیا مگر نواب زادیوں کو آرام سے فرصت نہیں۔۔۔۔بھابھی نے کچھ زیادہ ہی سر چڑھا رکھا ہے سب کو۔۔۔وہ غصے سے کھولتا کیچن میں آیا
    چند منٹ غائب دماغی سے ادھر أدھر دیکھنے کے بعد اس نے دودھ گرم کیا۔۔۔۔ بریڈ اور دودھ کا گلاس ٹرے میں رکھ کر کمرے کی طرف پلوشہ کے پاس چلا آیا۔۔
    اونہہ۔۔۔۔یہ سب بھی کرنا پڑنا تھا تجھے زریاب خان وہ بھی دشمنوں کے لیے۔۔۔وہ بڑبڑاتا ہوا دروازے کو لات مار کر کھولتا اندر داخل ہوا۔
    ٹرے سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر رضائی ہٹائی اور اس کو بازو سے پکڑ کر بیٹھایا
    وہ بیچاری بخار سے تپتی ہوئی دائیں جانب لڑھکی
    کیا بدتمیزی ہے۔۔۔۔۔تمہارے باپ یا بھائی کا نوکر نہیں ہوں میں جوتمہاری تیمارداری کرتاپھروں سمجھی۔۔۔سیدھی ہو کر بیٹھو اور کھاؤ اسے۔۔۔۔زریاب نے دھاڑ سے کہہ کر اسے پھر سے سیدھا کر کے ٹرے سامنے رکھی۔
    پلوشہ اسکی دھاڑ پر مشکل سے ہی سہی مگرآنکھیں کھول چکی تھی
    کھاؤ اسے۔۔۔۔وہ کھڑے کھڑے عجلت میں بولا
    پلوشہ نے ٹرے میں دودھ کا گلاس اور دو سوکھے سلائس پڑے دیکھے
    دودھ تو میں پیتی نہیں ہوں۔۔۔پر ان کو کیسے بتاؤں۔۔عجیب مصیبت مین پھنس چکی تھی وہ۔۔
    بیٹھی بیٹھی فوت ہو گئی ہو کیا۔۔۔۔؟؟
    نن۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔اس نے ناں میں سر ہلا کر جلدی سے سلائس اٹھا کر منہ میں ڈالا اور ساتھ ہی دودھ کا گھونٹ تیزی سے بھر ڈالا ۔
    کھا کر یہ میڈیسن لے لینا۔۔۔وہ حکم جاری کر کے اپنی چیزیں اٹھاتا کمرے سے نکل گیا۔۔
    پلوشہ نے بمشکل سوکھے سلائس اور دودھ زہرمار کیا اور دوا لے کر پھر سے بستر پر ڈھیر ہو گئی
    ……………………………………………………………….
    رات دس بجے کے قریب زریاب واپس کمرے میں آیا تھا اور پلوشہ کو ابھی تک رضائی میں گھسا دیکھ کر سر جھٹکتا ہوا چینج کرنے چل دیا۔۔۔۔واپس آ کر انٹرکام پر گل کو چائے لانے کا کہا۔۔۔۔
    چند منٹ بعد گل چائے لیے حاضر تھی۔۔۔۔
    کیا دوپہر کا کھانا کھایا تھا اس نے ۔۔۔۔؟؟؟
    زریاب نے گل سے پلوشہ کے کھانے کا پوچھا ۔
    نہیں۔۔۔۔میں آئی تھی لے کر مگر پلوشہ بی بی سو رہی تھیں۔۔۔
    ہوں۔۔۔اچھا ایسا کرو اب لے آؤ جا کر۔۔
    جی ۔۔۔۔وہ سر ہلاتی چلی گئی
    زریاب چائے ختم کر کے بیڈ کے پاس آیا اور ایک جھٹکے سے پلوشہ کے اوپر سے رضائی کو ۔
    کھینچ ڈالا۔
    وہ بھی ہڑبڑا کر اس شدید طوفان کا جائزہ لینے لگی۔
    ملکہ پلوشہ صاحبہ آپ کے غلام سارا دن آوارہ گردی کر کے لوٹ آئے ہیں کچھ خدمت کا موقع تو دیں۔۔۔
    زریاب کی طنزیہ بات سنتے ہی پلوشہ ناچاہتے ہوئے بھی اٹھ کر بیٹھ گئی۔
    زریاب کچھ اور بھی کہتا کہ اسکی لال قندھاری انار سی ہوتی صورت دیکھ کر خاموش ہو گیا۔
    کھانا آ رہا ہے کھا کر یہ میڈیسن لو۔۔۔۔ہمارے ہاں دشمنوں کی بس اتنی تیمارداری کی جاتی ہے۔۔۔۔یہ تمہارے باپ کی حویلی نہیں ہے کہ دس ،دس دن یونہی بستر توڑتی رہو گی۔۔۔۔میں جب کل واپس آؤں تو تم مجھے بیڈ پر نہیں بلکہ بیڈ کے آس پاس چلتی پھرتی نظر آؤ۔۔۔۔انڈراسٹینڈ۔۔۔۔
    جج۔۔۔۔جی۔۔۔پلوشہ نے فٹ ہاں میں سر ہلایا
    زریاب نے اسکے ماتھے اور گال پر ہاتھ رکھ کر پلوشہ کے بخار کی نوعیت چیک کی جو اب صبح کے مقابلے میں بہت کم تھی ۔
    اور اپنی چیزیں اٹھا کر پھر سے کمرے سے نکل گیا۔۔۔۔
    پلوشہ چاہنے کے باوجود بھی پوچھ نہ پائی کہ اب اس وقت کہاں جا رہے ہیں۔۔۔۔
    وہ ابھی اٹھ کر بیٹھی ہی تھی جب گل کھانے کی ٹرے لیے آ گئی۔۔۔
    کچھ اور چاہیے أپ کو پلوشہ بی بی۔۔۔۔اسنے ٹرے اس کے سامنے رکھ کر پوچھا۔
    نہین۔۔۔۔۔۔
    تو بی بی پھر مین جاؤن؟۔
    ہاں جاؤ۔۔۔پلوشہ کے کہنے پر گل پلٹ گئی
    پلوشہ نے کھانے کی ٹرے کو دیکھا۔۔۔۔۔اس معاملے میں اس پر کسی قسم کا ظلم نہیں کیا گیا تھا دشمن سمجھ کر۔۔۔کیونکہ وہ جب سے یہاں آئی تھی کھانا ہمیشہ اچھا ہی ملا تھا اسے۔۔۔۔اور اس معاملے میں زریاب نے بھی کوئی روک ٹوک نہیں لگائی تھی۔۔۔۔
    پلوشہ نے دو چار نوالے لے کر دوا لی اور لیٹ گئی کیونکہ کل اسے بیڈ سے نیچے ہونا تھا حکم آ چکا تھا۔۔۔۔۔اور حکم کی تعمیل کرنا پلوشہ کی ڈیوٹی میں اب شامل تھا۔
    اگلے دن پلوشہ کمرے کی صفائی کر رہی تھی جب زریب کمرے میں داخل ہوا۔۔۔۔
    پورے کمرے کی صفائی بھی پلوشہ کی ڈیوٹی میں شامل تھا۔۔۔۔جب سے وہ کمرے میں آئی تھی کسی بھی ملازمہ کو بلاضرورت کمرے میں آنے کی اجازت نہ تھی۔۔۔اسلئیے پلوشہ کو صفائی کیساتھ ڈسٹنگ بھی خودکرناپڑتی اور زریاب صفائی کے معاملے میں کافی سخت ثابت ہوا تھا ذرا جو گرد کسی جگہ نظر آ جاتی تو پھر پلوشہ کو اچھی خاصی بےعزتی سہنا پڑتی تھی۔۔۔اب بھی وہ ڈسٹنگ کر رہی تھی جب زریاب کمرے میں داخل ہوا۔۔۔
    پلوشہ نے جھاڑن رکھ کر ہاتھ دھوئے اور روم فریج سے پانی کا گلاس لے کر زریاب کی طرف گئی جواپنی ٹانگیں کو پھیلائے ریلیکس سا صوفے کی پشت پر سر رکھے ترچھا سا ہو کرلیٹا تھا۔
    خان ۔۔جی۔۔۔پانی۔۔
    پلوشہ کی آواز پر وہ آنکھیں کھول کر سیدھا ہوا اور گلاس اس کے ہاتھ سے پکڑا۔
    ارےے کیسی طبیعت ہے اب تمہاری۔۔۔۔۔؟؟
    جی۔۔۔ٹھیک ہوں۔۔۔۔وہ ہلکا سا منمنائی
    ہوں۔۔۔۔۔زریاب نے خالی گلاس واپس ٹرے میں رکھا اور پھر سے ایزی ہو گیا۔۔۔
    پلوشہ ٹرے لیے پلٹی ہی تھی جب زریاب نے اسے پکارا۔سنو
    جج ۔۔۔جی وہ پلٹی۔۔
    میرا جوتا اتارو۔۔۔۔حکم آیا
    مم۔۔۔مین۔۔؟
    تمہارے علاوہ کوئی اور ہے یہاں۔۔۔۔۔
    زریاب کی تیوری چڑھی دیکھ کر پلوشہ جلدی سے پاس آ کر زمین پر بیٹھی اور زریاب کا جوتا اتارا اور پھر جرابیں بھی اتار دیں۔۔۔
    پلوشہ کے نرم وملائم ہاتھوں کی نرمائش سےزریاب کوسکون کا احساس ہوا۔۔۔
    پاؤں بھی دبا دو۔۔اب۔۔وہ ہلکا سا سر اٹھا کر اگلا حکم جاری کرتا آنکھیں موند گیا۔۔۔۔
    پلوشہ نے خاموشی سے زریاب کا پاؤں گود میں رکھا اور دبانے لگی۔۔۔۔
    زریاب نے کچھ دیر پلوشہ کے ہاتھوں سے ملنے والے سکون کو وجود میں اتارا اور سیدھا ہو کر بیٹھا۔۔
    پلوشہ جھکے سر سے اسکی نظریں خود پر محسوس کر رہی تھی۔۔۔۔۔
    زریاب نے آہستگی سے پلوشہ کا ہاتھ پکڑ کر اپنی ہتھیلی پر پھیلایا اور بہت غور سے اسکی ہتھیلی دیکھنے لگا یوں جیسے ابھی قسمت کا حال بتائے گا
    چند منٹ بہت غور سے دیکھنے کے بعداس نےجھک کر اپنےلب پلوشہ کی پھیلی ہتھیلی پر رکھے اور اٹھ کر واش روم چلا گیا
    پلوشہ نے پلٹ کر اس ظالم شخص کی پشت کو دیکھا اور اپنی ہتھیلی پر اس کا پہلا نرم لمس پوری شدت سے محسوس کیا۔۔۔ورنہ اس سے پہلے تو زریاب آفریدی نے اسے صرف دبوچا ،، گھسیٹا اور جکڑا ہی تھا
    اس نے سر جھکا کر چند منٹ اپنی ہتھیلی کو بہت غور سے دیکھا اور پھر جھک کر اپنے لب بھی اسی جگہ رکھے جہاں کچھ دیرپہلےزریاب آفریدی اپنا لمس چھوڑ کر گیا تھا۔۔
    ""کہاں تلاش کرو گے اے ساقی تم مجھ جیسا شخص ۔
    جو تمہارے ستم بھی سہے اور تم سے محبت بھی کرے""۔
    __________
    شام میں گل کمرے میں پلوشہ کو گرم لحاف دینے آئی تھی
    یہ کس لیے۔۔۔۔؟؟؟پلوشہ حیران ہوئی۔
    پتہ نہیں بی بی خان سائیں نے کہا تھا۔
    ٹھیک ہے رکھ دو وہاں۔۔۔پلوشہ کے کہنے پر گل بستر کو رکھتی چلی گئی۔۔۔
    رات کوزریاب کےبتانے پر پلوشہ کو پتہ چلا کہ یہ بستر اسکے اپنے لیے تھا۔۔۔اس کے بخار کیوجہ سے شاید زریاب کو اس پر ترس آ گیا تھا اسلیے گرم بستر منگوایا تھا مگر جگہ ابھی بھی نہیں بدلی تھی۔۔۔۔پلوشہ نے اس گرم بستر کو زمین پر ہی بچھا کر سونا تھا
    چلو شکر ہے کچھ تو بچت ہو گی۔۔۔۔وہ اتنی سی عنایت پر ہی خوش ہوتی بستر بچھا کر شہنیل کی نرم گرم رضائی میں باخوشی گھس گئی تھی۔۔۔۔
    زریاب صبح پانچ بجے اٹھتا تھا اور پلوشہ کو اسکے اٹھنے سے پہلے اسکے دو کلف لگے سوٹ روزانہ پریس کرنے ہوتے تھے
    پلوشہ نے آج تک کبھی اپنے کپڑے پریس نہیں کیے تھے اور اب دو مردانہ سوٹ وہ بھی کلف لگے پریس کرنا اسکے لیے بہت ہی بھیانک تجربہ تھا۔۔۔۔مگر اب دن گزرنے کیساتھ اسکے ہاتھوں میں تیزی آ ہی گئی تھی۔۔۔۔وہ کپڑوں پر استری پھیر رہی تھی جب زریاب ڈریسنگ روم میں داخل ہو کر ایک نظر اس پر پھینکتا واش روم چلا گیا۔۔۔
    پلوشہ نے جلدی سے کپڑے پریس کرکےہینگ کیےاور زریاب کا ناشتہ بنانے چلی گئی
    زریاب صرف ناشتہ ہی کمرے میں کرتا تھا دوپہر کے وقت وہ باہر ہوتا اور رات کا کھانا وہ ڈائنگ ٹیبل پر ہی کھاتا۔۔۔۔۔پہلے زریاب کے ناشتے کی ڈیوٹی گل کی تھی مگر اب پلوشہ کے آنے سے یہ ڈیوٹی بھی اس کو ہی سونپ دی گئی تھی۔۔۔
    پلوشہ کوپہلے دن زریاب کے لیے ناشتہ بنانے کا تجربہ یاد تھا اس لیے اب وہ بہت محتاط ہو کر اسکا ناشتہ تیار کرتی تھی تاکہ زریاب کو پھر سے کوئی شکایت کا موقع نہ ملے
    پہلے دن جب زریاب نے صبح سویرے اٹھا کر اسے ناشتہ لینے بھیجا تھا تو اس نے سوئی جاگی کیفیت میں ناشتہ بنایا اور ٹرے میں چائے اور توس لیے واپس کمرے میں آئی
    زریاب نے چائے کا پہلا گھونٹ بھرنے کے بعد ہی کپ زمین پر الٹ دیا
    یہ چائے ہے۔۔۔۔۔اسے چائے کہتے ہیں تمہارے خیال میں۔۔۔۔وہ دھاڑا
    کک۔۔۔۔کیا ہوا۔۔۔۔خان۔۔۔۔وہ ڈرتی ڈرتی بولی
    تمہارے ہاں ایسا جوشاندہ صبح ناشتے میں پیتے تھے کیا سب۔۔۔۔۔؟؟
    نن۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔مم۔۔۔۔میں نہیں۔۔۔بناتی تھی چائے پہلے کبھی تب ہی وہ۔۔۔۔۔۔
    تو یہاں تمہیں ہی بنانی ہے سمجھی اس لیے بہتر ہے کہ جلدی سیکھ جاؤ۔۔۔
    اب جاؤ اور جا کر ہلکی چینی والی چائے بنا کر لاؤ میرے لیے۔۔۔۔
    جی۔۔۔۔پلوشہ فٹ کمرے سے نکل گئی
    اب کہ پلوشہ نے بہت احتیاط ںسے ہلکی چینی والی چائے بنائی اور کپ ٹرے میں رکھے واپس کمرے میں آئی۔۔۔۔
    خان چائے۔۔۔۔۔اس نے زریاب کو متوجہ کیا جو سیل پر بزی تھا۔۔
    ہوں۔۔۔۔زریاب نے کپ تھاما اور منہ سے لگایا
    پلوشہ کھڑی اسکے ایکسپریشنز دیکھ رہی تھی کہ آیا اب چائے ٹھیک ہے کہ نہیں۔۔۔
    زریاب نے کوئی بھی تاثر دیے بنا دوسرا اور پھر تیسرا گھونٹ بھر کر سیل سائیڈ پر رکھا اور پلوشہ کو اپنے سامنے موجود ٹیبل پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔۔۔۔
    وہ جھجھکتی ہوئی سمٹ کر سامنے ٹیبل پر بیٹھی۔۔۔دل میں وہ آیتہ الکرسی کا ورد کر رہی تھی تاکہ جلد از جلد جان خلاصی ہو۔۔۔
    یہ کپ پکڑو اورایک ہی گھونٹ میں یہ ساری چائے ختم کرو تم۔۔۔
    جج۔۔۔جی۔۔۔وہ اس نئے حکم پر ششدر تھی۔
    بھاپ اڑاتی چائے اور وہ بھی ایک گھونٹ میں۔۔پلوشہ کو یہ سوچ کر ہی وحشت ہوئی۔
    کچھ کہا ہے میں نے۔۔۔۔۔۔۔اسے سٹل کھڑےدیکھ کر زریاب کی تیوری چڑھی
    جی۔۔۔۔پلوشہ نے ڈر کے مارے جلدی سے گرم کپ منہ کو لگایا۔۔۔تین گھونٹ پینے کے بعد اس نے کپ ہٹایا کیونکہ اس سے زیادہ گھونٹ وہ بھی اتنی گرم چائے کے وہ پی نہیں سکتی تھی
    بب۔۔۔۔بہت گرم ہے۔۔۔۔۔یہ۔۔۔۔۔۔وہ منمنائی
    زریاب نے غصے سے ہاتھ کپ پر مارا جس سے چائے پلوشہ کی ٹانگوں پر گری اور وہ سی۔۔ی۔۔ی۔۔ی۔۔کی آواز نکالتی کھڑی ہوئی
    آج کے بعد اگر ذرا سا بھی حکم عدولی کا سوچا تو اس سے بھی بھیانک سزا ملے گی سمجھی۔وہ پلوشہ کی گال تھپتھپا کر کہتا ڈراڑ سے برنال نکال لایا
    یہ لو لگا لینا۔۔۔۔برنال اسکے ہاتھ میں تھما کر اپنا سیل اٹھاتا ہوا کمرے سے نکل گیا۔۔
    اونہہ۔۔۔ظالم انسان زخم دے کر مرہم بھی خود ہی رکھتا ہے۔۔۔پلوشہہ نے جھٹکے سے ٹیوب دیوار پر دے ماری
    نہیں چاہیے مجھے ترس اور ہمدردی کی یہ بھیک۔۔۔۔۔وہ روتی ہوئی سر گھٹنوں میں دے گئی۔۔
    اب تو وہ روتی بھی زریاب کی غیر موجودگی میں ہی تھی چونکہ زریاب کا حکم تھا کہ اسے روتی ، بلکتی عورتوں سے نفرت ہے اس لیے پلوشہ اسکے سامنے رو کر خود کو قابل نفرت نہیں بنانا چاہتی تھی زریاب خان آفریدی کی نظروں میں۔۔۔۔
    ""بکھرے گا جب تیرے رخسار پر تیری آنکھ کا پانی۔
    ساقی تجھے احساس تب ہو گا محبت کسے کہتے ہیں""۔
    _______________________
    خان خدا کا واسطہ ہے۔۔۔۔مجھے میری بچی سے ملوا دیں۔۔۔۔۔وہ تو بے قصور ماری گئی۔۔۔ناجانے وہ لوگ کیا حال کر چکے ہوں گے۔۔۔پتہ نہیں میری بچی وہاں ٹھیک سے کچھ کھاتی بھی ہو گی کے نہیں۔۔۔۔۔خدیجہ روتی ہوئیں دلاور خان کو پلوشہ سے ملوانے کا کہہ رہی تھیں
    تم جانتی ہو حالات خدیجہ پھر اس طرح سے واویلے کا مقصد۔۔۔۔۔۔؟؟؟وہ دکھ بھری آواز میں بولے
    اندر سے وہ بھی ڈھے چکے تھے جب سے لاڈلی بیٹی اسطرح سے ر خصت ہوئی تھی جسکا کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا انہوں نے۔۔۔۔۔
    میں کچھ نہیں جانتی بس مجھے پلوشہ سے ملوا دیں۔۔۔میں دیکھنا چاہتی ہوں اپنی بچی کو۔۔۔۔۔
    تمہیں کیا لگتا ہے میں یہاں سکون میں ہوں۔۔۔۔نہیں خدیجہ۔۔۔۔۔نہیں میں تو خود اسکی ایک جھلک دیکھنے کو بے چین ہوں مگر۔۔۔۔
    مگر کیا خان۔۔۔۔بولیں ناں کیا۔۔۔۔؟؟
    میں کیا کروں۔۔۔۔کیا کروں اب۔۔۔۔وہ بے بس تھے
    شمس جو کر چکا ہے اسکا نتیجہ ایسا ہی ہونا تھا۔۔مجھے خاقان آفریدی سے امید نہیں تھی کہ وہ ایسا کوئی فیصلہ کرے گا۔۔۔۔یہ اسکے بیٹے زریاب آفریدی کا ہی فیصلہ تھا جو۔۔۔۔
    خان آپ اپنا بندہ بھجوائیں ناں خاقان آفریدی کی حویلی میں کہ وہ ہمیں پلوشہ سے کبھی کبھی ملنے کی اجازت دے دیں۔۔۔۔خدیجہ جلدی سے آس بھری آواز میں بولیں
    ہوں۔۔۔۔تم فکر مت کرو۔۔۔۔۔کرتا ہوں کچھ۔۔۔۔۔دلاور خان نے پرسوچ انداز میں سر ہلا کر بیوی کو مطمعن کیا
    ………………………………………………………………
    زریاب چائے پی رہا تھا جب ملازمہ بابا جان کا پیغام لے کر آئی
    میں مردانے میں باباجان کی بات سننے جا رہا ہوں۔۔۔۔۔میرے آنے تک سب صاف ستھرا ہونا چاہیے۔۔۔رائٹ۔۔۔۔
    جج۔۔۔جی۔۔۔
    وہ دروازے کے پاس پہنچا ہی تھا جب پلوشہ کی آواز آئی
    خان۔۔۔وہ۔۔۔۔وہ۔۔۔۔وہ۔۔
    کیا وہ۔۔۔۔وہ کرتی رہتی ہو۔۔۔۔بچپن سے مبتلا ہو اٹکنے کی بیماری میں یا پھر میرے سامنے ہی یہ دورہ پڑتا ہے
    پلوشہ اسے مخاطب کر کے سمجھ نہیں پارہی تھی کہ کیا اور کیسے کہے۔۔۔
    بولو اب۔۔۔۔۔منہ سئیے کیوں کھڑی ہو۔۔۔وہ گھڑی دیکھتا چڑ کر بولا
    میں۔۔۔۔میں کمرے سے باہر نکل سکتی ہوں کیا۔۔۔۔؟؟؟وہ ہونٹوں پر زبان پھیرتی بمشکل بات مکمل کر پائی
    کیوں کیا پہلے نہیں نکلتی ہو۔۔۔۔۔؟؟؟زریاب نے تیوری چڑھائی
    نن۔۔۔۔نہیں۔۔۔وہ۔۔۔صبح آپ۔۔۔آپ کا ناشتہ بنانے جاتی ہوں۔۔۔۔ بس وہ ڈرتے ہوئے بولی۔
    ہوں۔۔۔چلی جاؤ مگر اورسمارٹ بننے کی کوشش مت سے کرنا سمجھی
    جی اچھا۔۔۔۔۔۔پلوشہ نے زور زور سے اثبات میں سر ہلایا
    زریاب رضامندی دے کر کمرے سے نکل گیا
    پلوشہ نے تشکرانہ سانس خارج کی
    چلو قید خانے سے تو رہائی ملی۔۔۔۔۔وہ جب زریاب کا ناشتہ بنانے جاتی تھی تو نیچے کوئی بھی نہ ہوتا اور اسکی ملاقات کسی سے بھی نہ ہو پاتی اس لیے وہ آج مکمل رہائی ملنے پر خوش تھی اتنےدن کے بعد اس کےچہرے پرہلکی سی مسکراہٹ ابھری تھی۔
    …………………….…………………..….…….………
    بیٹھو۔۔۔۔۔بابا جان نے زریاب کو اپنے سامنے رکھی چئیر پر بیٹھنے کو کہا۔
    جی بابا جان آپ نے بلوایا تھا۔۔۔۔۔؟؟
    ہاں۔۔۔۔۔زریاب آج دلاور خان نے اپنا بندہ بھجوایا تھا
    کس سلسلے میں۔۔۔۔؟؟حسب معمول زریاب کے ماتھے پر تیوری چڑھی
    وہ لوگ پلوشہ سے ملنا چاہتے ہیں۔۔۔۔
    مگر میں ایسا نہیں چاہتا۔۔۔۔۔۔دوٹوک جواب آیا
    زریاب وہ بیٹی ہے انکی۔۔۔۔۔۔
    مگر اب میرے نکاح میں ہے۔۔میں اجازت دوں ملنے کی یا نہ دوں یہ میری مرضی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    بچی کو ماں ، باپ سے الگ کر کے کیا مل رہا ہے تمہیں۔۔۔۔۔اس اذیت سے گزر چکے ہو تم بھی کہ جب جان سے عزیز چیز دور ہو جاتی ہے تو کتنی تکلیف ہوتی ہے۔۔۔بابا جان نے قائل کرنا چاہا
    اسی تکلیف کا مزا چکھانا چاہتا ہوں ان کو بھی تو پتہ چلنا چاہیے اس تکلیف کا۔۔۔۔۔
    ایک ، آدھ بار ملوا دو۔۔۔۔کوئی حرج نہیں زریاب۔۔۔۔
    نہیں بابا جان ہر گز نہیں۔۔۔۔اگر انہیں بیٹی سے ملنے کی اتنی خواہش ہے تو پھر تیار رہیں میں ڈیڈ باڈی پہنچا دوں گا وہاں مگر زندہ سلامت تو بلکل نہیں۔۔۔۔۔
    زریاب کچھ خوف خدا کرو۔۔۔۔کیوں دشمنی کو ہوا دے رہے ہو
    دشمنی کی ابتداء انکی طرف سے ہوئی تھی اور اختتام میں کروں گا۔۔۔۔وہ بھی زریاب تھا اپنی بات پر ڈٹا رہا
    اگر میں تمہاری مرضی کے بغیر ملنے کی اجازت دے دوں تو۔۔۔۔۔۔۔؟؟بابا جان نے سوالیہ نظریں اٹھائیں
    تو میں دو کام کروں گا۔۔۔۔۔پہلا پلوشہ کو طلاق دوں گا اور دوسرا شمس خان کا قتل کروں گا اور میں ایسا کر بھی سکتا ہوں بابا جان آپ سے بہتر مجھے کوئی نہیں جانتا۔۔۔۔یہ خون خرابے سے میں صرف آپکی وجہ سے رکا ہوا ہوں ورنہ بندہ مارنا یا مروانا کونسا مشکل کام ہے۔۔۔۔۔وہ لاپرواہی سے بولا
    تم ایسا کچھ نہیں کرو گے زریاب کیونکہ تم خاقان آفریدی کے بیٹے ہو۔۔۔۔وہ خاقان آفریدی جس نے بہت مشکلوں سے برسوں پرانی خونی دشمنیوں کو دوستی میں بدلا تھا۔۔۔۔۔۔
    بلکل بابا جان میں ایسا کچھ نہیں کروں گا۔۔۔پر اگر مجھے ایسا کرنے پر مجبور کیا گیا تو شاید کچھ کر بیٹھوں۔۔۔۔۔۔وہ آگاہ کرتا کمرے سے چلا گیا
    باباجان نے ایک ملامتی نظر اسکی پشت پر ڈالی نہ جانے کس پر چلا گیا ہے یہ۔۔۔۔۔؟؟؟ وہ سر جھٹکتے بڑبڑائے
    پلوشہ زریاب کے جانے کے بعد فورا اپنی شال درست کرتی کمرے سے نکلی۔۔۔۔۔
    وہ سیڑھیاں اتر رہی تھی جب مہرو کی نظر اس پر پڑی
    ارے پلوشہ۔۔۔۔تم۔۔۔۔۔وہ حیران ہوئی
    جی اسلام و علیکم۔۔۔
    وعلیکم السلام۔۔۔۔۔زریاب نے باہر آنے کی اجازت دے دی۔۔۔۔؟؟
    جی۔۔۔۔۔پلوشہ نے ہاں میں سر ہلایا
    یہ تو اچھی بات ہے۔۔۔آؤ۔۔۔۔وہاں کیوں رک گئی
    بھابھی اگر کوئی کام ہو تو بتا دیں میں کر دیتی ہوں۔۔۔۔۔وہ سادگی سے بولی
    ارے نہیں۔۔۔۔کام کو ہزاروں ملازم ہیں یہاں۔۔۔۔تم آ کر بیٹھو۔۔۔۔کچھ باتیں ہی کر لیتے ہیں۔۔۔۔مہرو نے خوشدلی سے کہا
    پلوشہ اسکی بڑائی کی دل سے مشکور تھی کہ اس نے اپنے شوہر کے قاتل کی بہن کو قصور وار ٹہرا کر ذرا بھی برا سلوک نہیں کیا تھا
    پلوشہ آ کر مہرو کے ساتھ والے صوفے پر بیٹھ گئی۔
    بتاو کیا کھاؤ۔۔۔۔گئی۔۔
    ارے نہیں بھابھی کچھ بھی نہیں۔۔۔۔
    شرماؤ مت۔۔۔۔۔میں زریاب نہیں ہوں۔۔۔۔مہرو نے اسے شرماتے دیکھ کر چھیڑا
    زریاب کے ذکر پر پلوشہ کی کھلتی مسکراہٹ فورا سمٹ گئی۔۔۔۔جسے مہرو نے نوٹ کیا
    وقت بہت بڑا مرہم ثابت ہوتا ہے پلوشہ۔۔۔۔وقت کیساتھ ساتھ سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔۔مجھے دیکھو سہراب کے ساکت وجود کو دیکھ کر لگا تھا کہ اب جی نہیں پاؤں گی۔۔۔۔مر جاؤں گی۔۔۔مگر زندہ ہوں۔۔۔۔۔اور زندہ رہنا بھی چاہتی ہوں سہراب کی نشانی کی خاطر۔۔۔اپنے حدید کی خاطر۔۔۔۔۔یہاں کے مکینوں کی خاطر جو مجھ پر جان چھڑکتے ہیں۔۔۔۔وقت کے ساتھ اوپر والا صبر بھی دے ہی دیتا ہے۔۔۔۔وہ افسردگی سے بولی
    اسی طرح زریاب کو بھی صبر آ جائے گا وقت کیساتھ اسکا غصہ بھی ٹھنڈا پڑ جائے گا مگر تب تک تمہیں بہت ہمت اور حوصلے سے کام لینا ہو گا۔۔۔۔
    وہ شروع سے ہی غصے کا تیز ہے۔۔۔۔سہراب اور باباجان کے بلکل برعکس۔۔۔۔باباجان اور سہراب بہت کم غصہ کرتے تھے اگر کبھی آ بھی جاتا تو کنٹرول کر لیتے مگر زریاب۔۔۔۔۔۔وہ جب تک اپنا غصہ نکال نہیں لیتا تب تک چین سے نہیں بیٹھتا۔۔۔۔
    پر دل کا ہر گز برا نہیں ہے۔۔۔۔جب محبت کرنے پر آتا ہے تو جان چھڑکتا ہے۔۔۔۔۔۔پھر تم ہی تنگ پڑ جایا کرو گی اسکی محبتوں سے۔۔۔۔۔۔۔مہرو نے آخر میں بات کو مزاق کا رنگ دیا
    پلوشہ سر جھکائے خاموشی سے مہرو کی باتیں سن رہی تھی۔۔۔۔۔وہ جس روپ میں زریاب آفریدی کو دیکھ چکی تھی اس کے بعد ایسا کوئی روپ یقینا عجیب و غریب ہی ہوتا۔۔۔۔۔
    تم یہاں کیا کر رہی ہو۔۔۔۔۔؟؟؟زریاب کی آواز پر وہ اچھل کر کھڑی ہوئی
    زریاب کتنی دفعہ کہا ہے کم از کم گھر والوں سے تو آہستہ آواز میں بات کیا کرو۔۔۔۔مہرو نے ڈپٹے ہوئے کہا
    گھر والے ۔۔۔اونہہ۔۔۔۔۔ تم چلو کمرے میں۔۔۔۔وہ پلوشہ سے مخاطب تھا
    ابھی تو نکلی ہے تمہاری قید سے کچھ دیر تو آزادی فیل کرنے دو۔۔۔۔۔
    زریاب نے شکایتی نظروں سے مہرو کو دیکھا
    سنا نہیں تمہیں۔۔۔۔وہ پلوشہ کو ہنوز کھڑے دیکھ کر چیخا
    پلوشہ اسکی گرجنے پر الٹے قدموں پلٹی اور تخت پر بچھے کور کی نوک میں اڑ کر گرتی کہ زریاب نے ہاتھ بڑھا کر بازو سے تھاما
    یہ گول گول بنٹے کس لیےرکھے ہیں۔۔۔۔؟؟اس نے پلوشہ کی آنکھوں کے گرد انگلی گھما کر پوچھا
    مہرو پلوشہ کی بیچاری سی شکل دیکھ کر مسکراہٹ روکتی ہال سے نکل گئی۔
    وہ۔۔۔وہ ۔۔اچانک۔۔سے پاؤں۔۔۔۔اڑ گیا۔۔۔۔۔
    تو دیکھ کر چلا کرو ناں۔۔۔۔اوپر والے نے یہ بڑے بڑے ڈیلے دیکھنے کے لیے دیے ہیں۔۔۔۔اب جاؤ کمرے میں۔۔۔۔میں آ کر خبر لیتا ہوں۔۔۔۔۔۔
    چاچو۔۔۔۔۔وہ حدید کی آواز پر پلٹا
    ارے چاچو کی جان۔۔۔کہاں تھے صبح سے۔۔۔زریاب نے اسے بازؤں میں بھر کر چٹاچٹ پیار کر ڈالا
    سکول۔۔۔۔
    اوہ ۔۔۔۔میں تو بھول ہی گیا کہ میرا شیر اب سکول جانے لگا
    چاچو۔۔۔۔۔یہ کون ہیں۔۔۔۔؟؟؟حدید نے وہاں کھڑی پلوشہ کی طرف اشارہ کیا۔
    یہ۔۔۔۔زریب نے اسکے شال میں لپٹے وجود پر ترچھی نظر ڈالی اور آرام سے بولا۔۔
    چڑیل ہے۔۔
    "اے خوبصورت چڑیل" پلوشہ کے آس پاس ماضی کی ھی سرگوشی ابھری۔
    چڑیل۔۔۔۔۔۔؟؟؟حدید نے تصدیق چاہی
    پر یہ تو بہت کیوٹ ہیں۔۔۔۔۔وہ معصومیت سے بولا
    کہاں سے۔۔۔۔زریاب اسکی بات پر محظوظ ہوتا مسکرایا
    پلوشہ نے اس سڑیل کو اتنے دن میں پہلی دفعہ ہنستے دیکھا تھا۔۔۔۔اونہہ۔۔۔۔خود کیا ہے جن ، بھوت۔۔۔۔۔وہ کڑھتی ہوئی وہاں سے چلی آئی
    حدید بیٹا مولوی صاحب آ گئے ہیں چلو سیپارہ پڑھنے۔۔۔۔۔مہرو کی آواز پر وہ زریب کی گود سے اترا
    اوکے چاچو۔۔۔۔۔میں چلتا ہوں۔۔۔۔۔سی یو اگین۔۔۔۔۔ہاتھ کا مکا بنا کر پنچ مارنے کو آگے کیا
    زریاب نے آنکھوں میں آئے پانی کو اندردھکیلااوربمشکل مسکرا کر پنچ مارا۔
    سی یو اگین مائی چائلڈ۔۔۔۔۔۔
    حدید مسکراتا ، اچھلتا ہال سے نکل گیا
    زریاب نےخودکو ڈھیلا چھوڑتے ہوئے ایک افسردہ سی سانس لی اور بی بی جان کے روم کیطرف بڑھ گیا
    میں آ کر خبر لیتا ہوں۔۔۔۔میں آ کر خبر لیتا ہوں۔۔۔۔
    پلوشہ پیچھلے آدھے گھنٹے سے کمرے میں چکر کاٹتی زریاب آفریدی کی بات دہرائے جا رہی تھی
    اب کیا ہو گیا ہے مجھ سے جو زریاب خان نے ایسا کہا۔۔۔؟؟
    اوف۔۔۔۔۔یا میرے مالک۔۔۔۔۔۔مجھے اس ظالم انسان کی قید سے ہمیشہ کے لیے نجات عطا فرما۔۔۔۔آمین
    وہ با آواز بلند دعا کرکے جیسے ہی پلٹی پیچھے زریاب آفریدی کو گھورتے پا کر جلدی سے نظریں جھکا گئی
    دل ہی دل میں وہ آیت الکرسی کا ورد کرتی زریاب آفریدی کا غصہ ٹھنڈا ہونے کی دعا کر رہی تھی
    مجھ جیسے ظالم انسان کی قید سے رہائی چاہتی ہو۔۔۔۔۔وہ بولتا ہوا پاس آیا
    پلوشہ نے ہونٹوں پر زبان پھیر کر ہونٹ تر کیے اور آہستگی سے نفی میں سر ہلا دیا
    ابھی دعا تو مانگ رہی تھی تم۔۔۔۔۔؟؟
    نن۔۔۔۔۔نہیں وہ۔۔۔۔۔وہ میں۔۔۔۔۔
    کتنی دفعہ کہا ہے میرے سامنے بات صاف اور سیدھی کیا کرو۔۔۔۔ ہر بات اٹک کر کرنا ضروری ہے کیا۔۔۔؟؟
    سس۔۔۔سوری۔۔۔۔پلوشہ سر کو جھکا کر منمنائی۔
    ہوں۔۔۔۔۔۔تمہارے والد محترم کا پیغام آیا تھا آج۔۔۔تم سے ملنا چاہتے ہیں وہ لوگ۔۔۔۔۔ زریاب نے جیکٹ اتارتے ہوئے اطلاع دی
    مجھ سے بابا ملنا چاہتے ہیں۔۔۔پلوشہ درمیانی فاصلہ کو عبور کرتی فورا زریاب کےبلکل قریب چلی آئی۔
    زریاب نے ایک ناگوار نگاہ ڈالتے ہوئے گھڑی سائیڈ ٹیبل پر رکھی اور واش روم کیطرف بڑھ گیا
    پلوشہ بےچینی سے اسکی پشت کو دیکھتی رہ گئی۔
    بات تو پوری بتا دیتے۔۔۔۔کیا جواب دیا پھر۔۔؟؟
    بابا۔۔۔۔اماں کاش کے میں آپ لوگوں سے مل پاؤں۔۔۔وہ افسردگی سے سوچتی زریاب کے باہر نکلنے کا انتظار کرنے لگی
    پندرہ ،بیس منٹ بعد زریاب نہا کر بال رگڑتا باہر نکلا
    پلوشہ نےاسے دیکھ کر فورا جھرجھری لی اتنی سردی میں بھی نہانا نہیں چھوڑتا یہ۔۔۔
    کیا ہے ایسے کیوں گھور رہی ہو۔۔۔زریاب نے اسے مسلسل اپنی طرف دیکھتے پا کر پوچھا
    وہ۔۔۔وہ خان آپ۔۔۔۔آپ نے بابا کو کیا جواب دیا پھر۔وہ ہچکچاتی ہوئی بولی۔
    تمہارے خیال میں مجھے کیا کہنا چاہیے تھا۔۔۔۔۔زریاب نے ابرو اٹھائے۔
    جو۔۔۔جو بھی آپکی مرضی ہو۔۔۔۔۔
    میری مرضی تمہیں قبول ہو گی۔۔۔؟؟
    جج۔۔۔۔جی۔۔۔۔۔
    تو پھر ٹینشن کس بات کی ہے۔۔۔۔جب میری ہی مرضی پر چلنا ہے تو۔۔۔۔
    آپ۔۔۔۔آپ نے منع کر دیا۔۔۔؟؟
    ایگزیٹلی۔۔۔۔۔۔۔اب جاؤ اور میرے لیے چائے لے کر آؤ۔۔۔وہ حکم دیتا سیل پر بزی ہو گیا
    جی۔۔۔۔۔پلوسہ مایوس سی سر ہلاتی چائے لانے چلی گئی
    دن تیزی سے گزرتے جا رہے تھے۔۔۔۔کتنے ڈھیر سارے دن بیت گئے تھے پلوشہ کو وہاں آئے۔۔۔۔اب تو اس نے حساب رکھنا بھی چھوڑ دیا تھا۔۔۔۔زندگی زریاب خان کے بتائے اصولوں کے مطابق اچھی یا بری بسر ہو ہی رہی تھی۔۔۔۔۔۔
    زریاب نے پلوشہ کو اسکی فیملی سے ملنے کی اجازت نہیں دی تھی۔۔۔۔۔بابا جان نے بھی دوبارہ اس ٹاپک پر اس سے کوئی بات نہیں کی۔۔۔
    پلوشہ بھی وقت کیساتھ کافی سے زیادہ ایڈجسٹ ہو گئی تھی۔۔۔ اور اسکی ایڈجسمنٹ میں زیادہ ہاتھ مہرو کا تھا۔۔۔اس کی مہرو سے کافی دوستی ہو گئی تھی
    مہرو بھی اکیلی تھی اسے بھی کسی دوست کی ضرورت تھی اس لیے وہ بھی دل میں بغز رکھے بغیر پلوشہ سے مل جل گئی تھی۔۔
    زریاب کو یہ دوستی کافی کھلتی تھی۔۔۔اور اسکا غصہ وہ بند کمرے میں پلوشہ کو اپنی طنزیہ باتوں سے ٹارچر کر کے نکال لیتا تھا۔۔۔
    پلوشہ بھی اب پہلے کی طرح زریاب کے غصے سے نہ تو ڈرتی تھی اور نہ ہی روتی تھی۔۔۔۔۔وقت کیساتھ وہ بھی عادی ہو چکی تھی زریاب کے اس رویے کی اس لیے چپ چاپ سر جھکا کر اسکی کڑوی کسیلی باتوں کو صبر سے اندر اتار لیتی۔۔۔۔۔
    مہرو کی عدت کب کی ختم ہو چکی تھی مگر وہ حدید کے سکول کیوجہ سے رکی ہوئی تھی۔۔۔۔۔جیسے ہی حدید کے ایگزیمز ختم ہوئے تو وہ حدید کو لیے اپنے گھر والوں سے ملنے چلی گئی۔۔۔۔
    بی بی جان زیادہ وقت اپنے کمرے میں عبادت میں مصروف رہتیں۔۔۔۔۔۔بابا جان مردان خانے میں۔۔۔۔اور زریاب ڈیرے اور زمینوں پر کبھی دو ، چار دن کے لیے پشاور چلا جاتا۔۔
    مہرو کو بھی گئے کئی دن ہو گئے تھے مگر ابھی تک واپسی کا کوئی ارادہ نہ تھا۔۔پلوشہ سارا وقت بولائی بولائی سی رہتی پہلے مہرو کیساتھ اچھا خاصہ وقت گزر جاتا تھا اور اب وہ فارغ رہ رہ کر اکتا چکی تھی ۔۔۔۔اوپر سے گھر والے بھی بہت یاد آ رہے تھے آجکل۔۔۔۔عجیب سی کسلمندی چھائی ہوئی تھی طبیعت پر۔۔۔۔۔
    اب بھی وہ ٹیرس پر بیٹھی۔۔۔۔۔اپنے بابا۔۔۔اماں اور لالہ کو ہی یاد کر رہی تھی جب زریاب کی پراڈو کا ہارن بجا۔۔۔
    وہ جلدی سے اٹھ کر کمرے کی طرف چلی گئی۔۔۔
    یشب کمرے میں داخل ہوا تو پلوشہ کو کبڈ میں گھسے پایا
    کیا کر رہی ہو۔۔۔۔کتنی دفعہ کہا ہے میری چیزوں میں مت گھسا کرو مگر تم وقت کیساتھ ساتھ ڈھیٹ ہوتی جا رہی ہو جس پر میری کسی بات کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔۔۔وہ دروازے کے پاس ہی کھڑے ہو کر غصے سے بولا
    آپ بھی ہر وقت مجھ پر غصہ کر کر کے تھکتے نہیں ہیں کیا۔۔۔؟؟
    زریاب کا گھڑی اتارتا ہوا ہاتھ اسکی دلیری پر ایک لمحے کو ساکت ہوا اور پھر وہ درمیانی فاصلہ مٹاتا اس تک آیا
    کیا بکواس کی ہے ابھی۔۔۔۔۔
    کچھ نہیں۔۔۔۔۔پلوشہ لاپرواہی سے بولی
    کچھ نہیں۔۔۔۔وہ اسکا بازو جکڑتا خود کے قریب لایا
    خود کو اس قابل سمجھتی ہو کے زریاب آفریدی تم سے۔۔۔۔ایک خونی کی بہن سے نرمی برتے۔۔۔۔وہ استہزایا ہنسا
    جب زریاب آفریدی رات کے اندھیرے میں ایک خونی کی بہن کو نرمی برتتے ہوئے سینے سے لگا سکتا ہے تو پھر دن کے اجالے میں کیوں نہیں۔۔۔پلوشہ بازو چھڑواتے طنزیہ بولی
    زریاب نے اسکی بات پر غصے سے سرخ پڑتے ایک زوردار تھپڑ اسکی گال پر جڑا
    کیا سمجھتی ہو خود کو۔۔۔۔۔۔بولو۔۔۔کیا سمجھتی ہو ۔۔۔۔۔۔؟؟؟
    پہلے تو کچھ نہیں سمجھتی تھی زریاب خان مگر اب بہت کچھ سمجھنے لگی ہوں۔۔۔وہ نم آنکھوں سے بولی۔۔۔۔۔جب سے آپ نے مجھے چھوا۔۔۔
    بسسس۔۔۔۔۔اس سے آگے ایک لفظ نہیں۔۔۔زڑیاب ہاتھ اٹھاتے دھاڑا
    کیوں نہیں۔۔۔۔؟؟پلوشہ دو قدم پیچھے ہٹی۔
    اب اپنی بزدلی کی داستان بھی تو سنئیے۔۔خاجین۔۔۔خود کو بہت مہان سمجھتے تھے ناں آپ۔۔۔
    کیا ہیں آپ۔۔۔۔؟؟؟وہ استہزائیہ کہتی مزید پیچھے ہوئی۔۔۔
    ذرا سے لمحے میں کمزور پڑ جانے والے مرد۔۔خان۔۔۔۔میرا وجود اچھوت تھا ناں آپ کے لیے اسی لیے تو اتنی سردی میں مجھے زمین پر سلاتے تھے اور خود اس نرم گرم بستر پر مزے لے کر سوتے تھے۔۔۔۔مجھے خونی کی بہن۔۔۔۔کتے کی بہن اور ناجانے کن کن القابات سے مخاطب کرتے تھے۔۔۔اور اب۔۔۔۔وہ رکی۔
    اب۔۔۔۔۔جیسے بھی سہی آپ مجھے اپنی بیوی کا درجہ دے چکے ہیں
    زریاب۔۔۔۔خان۔۔۔۔۔آفریدی۔۔۔۔۔اور نا صرف بیوی کا بلکہ اپنے بچے کی ماں کا بھی۔۔۔۔۔۔یہ ہے آپکی اصلیت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ بے خوفی سے زریاب خان کی آنکھوں میں دیکھتی چلائی
    زریاب اپنی سرخ ہوتی انگارہ آنکھیں پلوشہ کے بےخوف چہرے پر گاڑے بے پناہ امڈتے ہوئےشدید غصے کی کفیت مین بلکل اچانک ہی۔
    جاری ہے۔
    Vist My Thread View My Posts
    you will never a disappointed

    Comment


    • #3
      قفس کی چڑیا۔
      پلوشہ تیزی کیساتھ دو قدم پیچھے ہٹی۔
      ​​​​​​
      اب اپنی بزدلی کی داستان بھی تو سنئیے۔
      ارےےے۔خان۔۔جی۔خود کو بہت مہان سمجھتے تھے ناں آپ؟؟۔
      کیا ہیں آپ۔۔۔۔؟؟؟وہ استہزائیہ کہتی مزید پیچھے ہوئی۔
      ذرا سے لمحے میں اپنے نفس کے ہاتھون کمزور پڑ جانے والے مرد۔ارےے۔خان۔۔جی۔۔میرا وجود اچھوت تھا ناں آپ کے لیے اسی لیے تو اتنی سردی میں مجھے زمین پر سلاتے تھے اور خود اس نرم گرم بستر پر مزے لے کر سوتے تھے۔۔۔۔مجھے خونی کی بہن۔۔۔۔کتے کی بہن اور نہجانے کن کن القابات سے نوازہ کرتے تھے۔۔۔اور اب۔۔۔۔وہ رکی۔
      اب۔۔۔۔۔جیسے بھی سہی آپ مجھے اپنی بیوی کا درجہ دے چکے ہیں
      زریاب۔۔۔۔خان۔۔۔۔۔آفریدی۔۔جی۔۔۔اور نا صرف بیوی کا بلکہ اپنے بچے کی ماں کا بھی۔۔۔۔۔۔یہ ہے آپکی اصلیت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ بے خوفی سے زریاب خان کی آنکھوں میں دیکھتی چلائی
      زریاب اپنی سرخ ہوتی انگارہ آنکھیں پلوشہ کے بےخوف چہرے پر گاڑے بے پناہ امڈتے ہوئےشدید غصے کی کفیت مین بلکل اچانک ہی جیئسے پتھر کے مجسمے کے مانند گم سم ہو گیا۔
      اور پھر چند لمحے اسی طرح جامد خاموش کھڑا رہنے کے بعد اچانک ہی اٹھ کر روم سے باہر
      چلا گیا۔
      __________ _________
      یاد گزیدہ۔
      چند سال پہلے۔
      آج صبح سے ہی موسم کافی ابرآلود تھا۔۔۔۔سردیاں جا رہیں تھیں اور گرمیوں کی آمد تھی۔۔۔۔پہاڑی علاقوں میں ان دنوں محسوس کرنے والوں کو ایک عجیب سا پرسوز لطف محسوس ہوتا ہے۔۔۔۔یہی پرسوز لطف پلوہی خانم کو بہت اٹریکٹ کرتا تھا۔
      آج بھی وہ اماں سے اجازت لے کر اسی لطف کا ہی مزا لینے حویلی کے پچھلے باغ میں چلی آئی تھی۔۔۔۔
      پورے باغ میں اچھی طرح گھوم پھر کر وہ چپکے سے پگڈنڈی پر چلتی ٹھنڈے پانی کی جھیل کیطرف بڑھی جو حویلی کی پچھواڑےمیں بیس منٹ کے پیدل فاصلے پر موجود تھی۔
      وہ مکھڑہ ڈھانپے ادھر أدھر دیکھتی آگے بڑھتی جا رہی تھی۔۔۔دل میں ایک خوف بھی تھا کہ کہیں اسے کوئی دیکھ نہ لے۔۔۔۔ گھر سے تو باغ تک جانے کی اجازت لے کر نکلی تھی مگر اب وہ کافی آگے جھیل تک جا رہی تھی۔۔جہاں اکیلے جانے سے اماں اور شمس لالہ نے سختی سے منع کیا ہوا تھا۔
      پلوہی نے مطلوبہ مقام پر پہنچ کر چاروں طرف ایک چور نگاہ گھمائی اور کسی کی بھی ادھر موجودگی نہ پا کر چادر کے پلو کو پیچھے کھسکا کر مکھڑے کو باہر نکالا ۔
      پھر آرام دہ حالت میں پتھر پر بیٹھ کر پاؤں جوتے سے آزاد کیے اور ٹھنڈے ٹھار پانی میں ڈبو دیے۔۔۔۔
      اوئی ماں۔۔۔۔۔اسکے منہ سے بے ساختہ چیخ بلند ہوئی۔
      اپنی بے ساختہ چیخ پر پلوہی خود ہی ڈرتی کھلکھلا کر ہنسی۔۔۔تو پھر ہنستی ہی چلی گئی۔
      کچھ فاصلے پر گھاس مین لیٹے زریاب آفریدی نے سر اونچا کر کے دائیں جانب کو دیکھا جہاں کالے رنگ کےکپڑوں میں ملبوس ایک خوبصورت سندر چڑیل جھومتی ہوئی قہقہے لگانے میں مصروف تھی۔
      از شی میڈ۔۔۔۔؟؟وہ پتھر سے ٹیک لگاتا اٹھ بیٹھا۔
      کہیں واقعی سچ مین چڑیل تو نہیں۔۔۔یہہ۔۔۔اپنی سوچ پر مسکراتا وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
      چلو زریاب آفریدی آج تمہیں لائیو ایک چڑیل سے ملنے کا موقع ملا ہے۔۔۔۔گو ٹیک اینڈ انجوائے۔۔۔۔وہ ہاتھ جھاڑتا اسطرف چل پڑا۔
      پلوہی اردگرد کی پرواہ کیے بغیر اپنی ہنسی روک کر اب مختلف پرندون کی آوازیں نکالنے میں بزی تھی۔یہ بچپن سے اسکا محبوب مشغلہ تھا جب پہاڑوں میں اسکی آوازگونج کرواپس پلٹتی تو وہ اپنی ہی آواز کو سن کر انجوائے کرتی۔۔۔۔۔اب بھی وہ ایسا ہی کر رہی تھی جب اچانک سے۔؟
      آآآہہہہہہہمممم۔۔۔۔۔کی آواز پر اسکی توجہ ہٹی۔
      پلوہی نے پلٹنے سے پہلے چادر کھینچ کر منہ چھپایا اور پیچھے کو مڑی۔
      اپنے سامنے ہیرو نما ینگ سے لڑکے کو دیکھ کر وہ پلکیں جھپکائے بغیر یک ٹک اسے دیکھنے لگی
      جو بلیو جینز پر بلیک ہائی نیک پہنے،ہلکے بھورے بالوں کو جیل سے سیٹ کیے۔۔۔ببل گم چباتا ہوا۔۔۔۔آنکھوں کو بھینچے اسے مشکوک انداز میں گھورتا۔۔۔۔کسی انگریزی فلم کا ہیرو ہی لگ رہا تھا۔
      زریاب اسکے مسلسل خود کو تکنے سے ہلکا سا کنفیوز ہوتا۔۔۔کھنکارا۔۔۔۔۔
      کون ہو تم۔۔۔۔۔۔۔؟
      وہ صرف پلوہی کی کاجل لگی بڑی بڑی آنکھوں کو ہی دیکھ سکتا تھا باقی چہرہ وہ پیچھے مڑنے سے پہلے ہی چھپا چکی تھی۔۔
      پہلے ۔۔۔تم۔۔۔۔تم بتاؤ۔۔۔تم کون ہو۔۔۔۔؟؟پلو ہی پلکیں جھپکاتی ہوئی تیزی سے اپنا حوصلہ بحال کر تے ہوئے بہت شرارت سے بولی۔
      میں۔۔۔۔زریاب نے انگلی سے اپنی طرف اشارہ کیا
      ہان۔۔۔۔تم۔۔۔۔بتاؤ۔؟
      مین۔۔۔۔۔
      زریاب۔۔۔۔خان۔۔۔آفریدی۔۔۔۔زریاب ٹہر ٹہر کر بولا
      اور مین ہون اس گلستان کی ایک سندر ہیر۔پلوہی جان بوجھ کر عجیب بھرائی ہوئی بھاری آواز مین بولی۔ جیئسے کوئی چڑیل بول رہی ہو۔
      درآصل وہ زریاب کی آنکھون مین اپنے لئے شکوک شہبات کی پرچھائیان لہراتے ہوئے دیکھ چکی تھی۔اسی لیے وہ اس کو ڈرانے کیلئے شرارت سےبولی۔
      مگر پلوہی تو اُسے بلکل نہین جانتی تھی ورنہ یہ شرارت والی حرکت نہ کرتی۔
      زریاب نے اچانک سے چھلانگ لگائی اور پلوہی کو تیزی سے پکڑ لیا اور غصے سے بولا ہان اب بتاؤ تم کون ہو چڑیل اور ادھر کیا کر رہی ہو۔
      وہ ۔۔وہ۔۔ مم ۔۔مین۔۔۔ پلوہی۔۔۔۔دلاور۔۔۔۔خان۔۔۔۔
      پلوہی اب تھوڑا سا گبھرانے کے انداز میں جلدی سے ایک تیز جھٹکے سے زریاب سے بازو چُھڑا کر بولی۔
      گلستان کی ہیر۔ ۔پلوہی۔یہ کئیسا نام ہے۔مگر تم تو پہلے مجھے ایک چڑیل نظر آرہی تھی۔
      زریاب۔۔۔بھی۔۔کتنا عجیب سا بیہودہ نام ہے۔۔۔پلوہی نے چادر کے اندر ہی منہ کا زاویہ بگاڑ کر اس کی نقل اتاری۔اور تم ہی ہو گےکوئی بھوت شوت۔
      زریاب اسکے کانفیڈینس کی داد دیتا مسکرا اٹھا۔
      میں نے کوئی جوک نہیں سنایا تمہیں۔۔جو ایسے دانت نکال رہے ہو۔پلوہی نے اسکی خوبصورت مسکراہٹ پر چوٹ کی۔
      تو پھر جوک ہی سنا دو۔۔۔۔وہ ببل گم کا پٹاخا پھوڑتے بولا
      مجھے کوئی شوق نہیں اجنبی غنڈوں سے فری ہونے کا۔۔۔۔
      مگر مجھے تو بہت شوق ہے اجنبی چڑیلوں سے فری ہونے کا۔۔۔۔
      تت تم۔۔۔۔تم نے پھر مجھ کو چڑیل کہا۔

      ارےے تم نے پہلے مجھے غنڈہ جو کہا ہے۔

      وہ تو تم ہو۔ تم نے کتنے زور کے ساتھ میرا بازو پکڑا تھا۔پلوہی اپنے نازک ہاتھ سے کلائی کو مسلتے ہوئے بولی جیئسے اب بھی وہ زریاب کے ہاتھون مین جکڑی ہوئی ہو۔
      تم بھی تو ہو۔۔کیئسے مجھے ڈرائے جا رہی تھی۔۔مگر ہو بہت خوبصورت چڑیل۔۔۔زریاب نے مسکراہٹ دبا کر کہا۔
      ارے کسقدر بے شرم ہو تم۔۔۔۔مجھے اکیلی سمجھ کر لائن مار رہے ہو۔پلوہی اس کی شرارت کو سمجھ گئی۔
      کیوں تم پر لائن مارنا ممنوع ہے کیا۔۔۔؟؟وہ دوبدو بولا
      زریاب خان آفریدی۔۔۔۔اپنی حد میں رہو۔۔۔پلوہی نے غصے مین دانت کچکچائے۔
      ارےےہیر گلستان۔۔۔۔ پلوہی دلاور خان۔۔۔۔۔کیا آپ میری حدود بتا سکتی ہیں
      ہٹو میرے راستے سے۔۔۔۔وہ جوتا پہنتی جانے کو تیار ہوئی۔
      کدھر جارہی ہو۔؟
      تم سے مطلب۔۔۔۔۔۔
      مطلب ہے تو پوچھ رہا ہوں۔۔۔۔
      مجھے تمہارے مطلب سے کچھ لینا دینا نہیں۔۔۔۔تم میرا راستہ چھوڑو
      میں نے کب روکا ہے۔۔۔۔زریاب نے کندھے اچکائے
      سامنے سے ہٹو گے تو میں گزر پاؤں گی۔۔۔وہ غصے میں چڑ کر بولی
      تو جائیے جناب۔۔۔۔زریاب خان مسکراہٹ روکتا سر خم کرتا پیچھے ہٹا۔
      پلوہی نے اس پر غصیلی سی گھوری ڈالی اور سائیڈ سے ہو کر گزر گئی
      ارےےےپھر کب ملو گی۔۔۔۔"اے خوبصورت چڑیل"۔۔۔۔پلوہی کے تھوڑا آگے گزرجانے پر زریاب نے پلٹ کر بلند آواز میں اس سے پوچھا۔
      کل جہنم مین ۔۔۔
      تم وہاں بھی جاتی ہو۔۔۔۔۔وہ محظوظ ہوتا فورا بولا
      نہیں۔۔مگر۔۔۔تمہیں بائے بائے کرنے ضرور آؤں گی۔۔۔۔
      زریاب کا چھت پھاڑ قہقہ پوری وادی مین بلند ہوا۔
      اونہہ۔۔۔۔بدتمیز انسان۔۔۔۔ہنستے ہوئے بھی قیامت لگتا ہے۔۔۔۔
      لاحول ولا۔۔۔۔۔وہ اپنی سوچ پر توبہ کرتی تیز تیز قدم اٹھاتی آگے بڑھ گئی
      زریاب ہونٹوں پر دلکش سی مسکراہٹ سجائے تب تک اسے دیکھتا رہا جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہیں ہو گئی
      پلوہی دلاور خان اور زریاب خان آفریدی کی یہ پہلی اتفاقیہ ملاقات۔تھی۔۔
      زریاب خان اس روز تو خود کو ڈانٹ ڈپٹ کر واپس لے آیا تھا مگر دل پھر سے وہاں جانے کو بے چین بیقرار تھا ۔
      ہو سکتا ہے وہ دوبارہ وہاں آئے۔۔۔۔یا پھر آئی ہو۔۔۔۔مجھے وہاں جانا چاہیے تھا۔۔۔بلاوجہ دو دن صرف اس خوبصورت چڑیل کو سوچ کر ہی ضائع کیے۔۔۔وہ مسکرایا
      یس مجھے وہاں جانا چاہیے ہو سکتا ہے پھر سے دیدار ہی ہو جائے۔۔۔۔۔وہ خیالوں میں گم تھا جب مہرو کی آواز اسے حقیقت میں کھینچ لائی
      ارے زریاب کن سوچوں میں مگن ہو بھئی دو دن سے نوٹ کر رہی ہوں کھوئے کھوئے سے ہو۔۔۔کہیں کسی پری کا سایہ تو نہیں ہو گیا۔۔۔۔مہرو چھیڑتی ہوئی سامنے پڑے تخت پر آ بیٹھی۔
      ارے کہاں مائی ڈئیر سویٹ۔ بھابھی۔۔۔۔۔ہمارے ایسے نصیب کہاں کہ کسی پری کا سایہ ہو ہاں البتہ چڑیل کا سایہ ضرور ہو سکتا ہے۔۔۔وہ مسکراہٹ دبا کر بولا۔
      ارےے کون ہے وہ چڑیل۔ مجھے بھی تو بتاؤ؟
      جانے دیں بھابھی وہ۔۔۔مین۔۔۔بس۔۔آپ۔۔۔سے مزاق کر رہا تھا۔
      زریاب اب مکرو مت میں جان چکی ہوں کوئی ہے اور آجکل میں ہی ملی ہے تمہیں۔۔۔تمہاری حالت سے میں پہلے ہی مشکوک ہو گئی تھی اور اب تم اپنی ہی بات میں پھنس چکے ہو اس لیے بہتر ہے شرافت سے بتاؤ کون ہے۔۔۔۔
      ارے بھابھی سچ میں کوئی نہیں۔۔۔زریاب نے زوروشور سے نفی میں سر ہلایا
      مت بتاؤ۔۔۔۔میں تمہارے لالہ سہراب خان کے تھرو۔ پتا کروا لوں گی وہ کون ہے۔۔۔۔۔مہرو نے دھمکی دی۔
      ارےےغضب خدا کا بھابھی۔۔لالہ کو مت بتائیے گا پلیزززز کچھ بھی۔۔۔
      تو پھر سیدھی طرح لائن پر آ جاؤ۔اور بتاؤکون ہے وہ۔
      بتایا تو ہے چڑیل ہے۔۔۔۔وہ مہرو کی چالاکی پر چڑ کر بولا۔
      اچھا کہان پر ملی تمہین وہ چڑیل۔؟۔۔
      جھیل والی سائیڈ پر۔۔۔
      کیا ہمارے گاؤن کی ہے۔؟؟
      نہین ساتھ والے گاؤن کی۔
      تمہیں کیسے پتا کہ وہ ساتھ والے گاؤں کی ہے۔۔۔۔وہ مشکوک ہوئی
      ہمارے گاؤں کی لڑکیاں اتنی بہادر نہیں ہیں کہ اکیلے اتنی دور جا سکیں۔
      مطلب کافی سے زیادہ ایمپریس ہو چکے ہو۔۔اس سے۔
      نہیں مزید دو ، چار ملاقاتوں میں ہو سکتا ہے کافی سے زیادہ ایمپریس ہو جاؤں۔۔۔وہ سر کھجاتا ہوا اب سیدھا ہو کر بیٹھا
      بہت بدتمیز ہو زریاب۔۔۔۔۔کہیں پہلی ہی ملاقات میں اس سے اگلی بار ملنے کا وعدہ تو نہیں لے آئے۔۔۔
      پوچھا تو تھا کے کب ملو گی دوبارہ..مگر۔۔
      مگر۔۔۔۔۔کیا؟؟؟
      مگر وہ کافی زیادہ نک چڑی سی تھی۔۔۔۔۔زریاب برا سا منہ بنا کر بولا
      اچھا ۔۔۔۔دیکھنے میں کیسی تھی۔۔۔۔مہرو ایکسائیٹڈ ہوئی
      پتہ نہین۔۔۔۔
      پتہ نہین مطلب؟؟؟؟۔
      پتہ نہیں مطلب۔۔بھابھی۔۔میں اس کو دیکھ نہیں پایا۔
      اوووففف۔۔۔۔زریاب کیا تم پاگل ہو چکے ہو یا پھر مجھے کرو گے۔
      خود ہی تو پوچھا تھا۔۔۔۔وہ چڑا
      ارے ڈفر ۔۔۔۔۔جب دیکھا نہین تو اچھے کیسی لگی وہ۔؟
      ارے ڈفر۔۔۔۔جب دیکھا نہیں تو اچھی کیسے لگ گئی وہ۔
      تو یوں پوچھیں ناں۔۔۔۔۔ایکوئچلی بھابھی۔۔۔وہ۔۔۔وہ ناں۔۔۔۔زریاب مہرو کے دوپٹے کو انگلی پر لپیٹتا شرمانے کی ایکٹینگ کرنے لگا
      زریاب۔۔۔مہرو نے اسکے بازو پر مکا جڑا
      بھابھی آج کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔۔۔وہ آنکھ دبا کر چھیڑتا ہال سے نکل گیا۔
      زریاب ۔۔۔زریاب۔۔۔۔۔۔
      رکو۔۔۔۔رکو تو۔۔۔
      بدتمیز انسان۔۔۔سسپینس پھیلا کر کہاں جا رہے ہو۔۔۔۔مجھے ساری بات بتا کر جاؤ۔مہرو جلدی سے سامنے آئی
      قسم سے بھابھی آپکی شکل پر۔تو؟؟۔۔۔زریاب شرارت سے ہنس پڑا۔
      چھوڑو میری شکل میں جانتی ہوں بہت پیاری ہے۔۔۔۔اب مجھے پوری بات بتاؤ۔
      ماشا ء اللہ کیا خوش فہمی ہے آپکی۔۔۔کب سے ہے ویسے یہ خوش فہمی۔۔۔زریاب نے ہونٹوں پر انگلی رکھی
      زریاب۔۔۔۔۔۔۔اب تم میرے ہاتھ سے بچو گے نہین۔
      ہاہاہاہا۔۔اوکے۔۔۔اوکے ریلکیس بھابھی۔۔۔۔۔۔پہلے لمبے لمبے سانس لے کر خود کی شکل پر بجے بارہ کو دس پر لائیں پھر بتاتا ہوں۔۔۔۔
      زریاب تم۔۔۔۔۔مہرو نے پاس پڑا گلدان اٹھایا
      اوہ نو ڈئیر بھابھی ریلیکس آئی ایم جسٹ جوکنگ۔۔۔۔۔وہ ڈرنے کی ایکٹنگ کرتا پیچھے ہوا
      اب فضول میں گھماؤ مت سمجھے۔۔مین اب۔۔۔پوری بات کو سن کر ہی جان چھوڑوں گی تمہاری۔۔۔۔
      بھابھی آئی سوئیر میں ساری بات اے ٹو زیڈ بتاؤں گا مگر ابھی مجھے جانے دیں میں لیٹ ہو رہا ہوں۔۔۔وہ گھڑی دیکھتا بولا۔۔
      ہو سکتا ہے وہ میرا وہاں انتظار کر رہی ہو۔۔۔۔پھر آ کر دوسری ملاقات کی بھی ساری باتیں آپ کو سناؤں گا ۔۔۔ڈن۔۔۔۔۔۔اب پلیز جانے دیں
      اوکے جاؤ۔۔۔۔مگر چھوڑنے والی نہیں میں اگلوا کر ہی دم لوں گی۔۔۔۔۔اس کے بارے مین تم سے سب کچھ ہی۔
      مجھے آپ کے ٹیلنٹ پر کوئی شک نہیں۔۔۔۔وہ مسکراہٹ دبا کر چھیڑتا باہر بھاگ گیا
      بدتمیز انسان۔۔۔۔۔مہرو اسکی بات سمجھ کر مسکرا دی
      ______. ___. ________
      زریاب خان آفریدی۔۔۔۔۔
      پلوہی اپنے کمرے کی کھڑکی میں کھڑی اسے ہی سوچ رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔
      یقینا ساتھ والے گاؤں کا ہی ہو گا کیونکہ آفریدی قبیلے کے لوگ ساتھ والے گاؤں میں ہی رہتے ہیں
      اوف کتنا ڈیشنگ تھا کمینہ اور ساتھ بدتمیز بھی اتنا ہی۔۔۔۔وہ سوچ کر مسکرا دی
      مجھے خوبصورت چڑیل کہہ رہا تھا۔۔۔۔ڈفر۔۔۔۔پتہ نہیں دوبارہ دیکھ پاؤں گی اسے کے نہیں۔۔۔۔وہ افسردہ ہوئی
      پر میں اسے دوبارہ دیکھنا کیوں چاہتی ہوں۔۔۔۔وہ بہت حیرانگی سے خود سے پوچھ رہی تھی.۔
      کہیں۔۔۔۔ میرے۔۔۔۔ دل۔۔۔۔۔ مین وہ ۔۔۔۔
      ارے نہیں پلوہی۔۔۔۔پہلی ہی ملاقات میں ایسا کیسے ہو سکتا بھلا۔۔۔۔نہیں میں ایسی نہیں ہوں اور نہ ہی ایسا سوچ سکتی ہوں۔۔۔۔۔اسنے خود کو مطمعن کیا
      لیکن اگر واقعی مین ایسا ہوگیا تو۔۔۔۔۔؟؟؟ چند منٹ کے وقفے سے اسکے دل نے پھر سے اُس سے سوال کیا۔
      نن۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔نہیں پلوہی ایسا کچھ مت کرنا یہ دل کے معاملے بہت مشکل ہوتے ہیں۔۔۔۔تم ایک اچھی لڑکی ہو اوراچھی لڑکیاں کبھی کسی نامحرم کو دل میں جگہ نہیں دیتیں ہیں۔۔۔۔اس لیے بہتری اسی میں ہے کہ اس معاملے سے دور رہو۔۔۔اور زریاب خان آفریدی کو ایک اچھی یاد سمجھ کر بھول جاؤ اس سے پہلے کے تم اتنی آگے بڑھ جاؤ کہ تمہارے لیے واپسی ناممکن ہو جائے۔۔۔اس کے ضمیر نے اسے بہترین مشورہ دیا۔
      پلوہی خانم۔۔۔۔
      پلوہی رحیمہ کی آواز پر چونک کر مڑی ۔۔۔
      رحیمہ تجھے مین نے کتنی دفعہ کہا ہے کہ دروازہ ناک کر کے آیا کرو۔۔۔۔وہ ناگواری سے بولی۔
      معاف کر دیںنا۔ پلوہی بی بی بھول گئی میں۔۔۔۔رحیمہ نے سر پر ہاتھ مارا۔
      اچھا اچھا اوکے بتاؤ کیوں آئی ہو۔۔۔۔۔
      وہ جی۔۔۔۔۔آپ کو بڑے خان سائیں بلا رہے ہیں۔
      اچھا تم چلو مین آتی ہون۔
      جی۔۔۔۔۔وہ سر ہلاتی چلائی گئی
      پھر پلوہی نے ایک لمبی سی سانس خارج کر کے خود کو زریب آفریدی کی سوچوں سے آزاد کیا اور ہلکی پھلکی ہو کر بابا کی بات سننے چل دی
      ________________
      زریاب تم نے بتایا ہی نہیں مجھے دوبارہ اپنی اس خوبصورت چڑیل کے بارے میں۔۔۔۔مہرو نے اس کے کپڑے پیک کرتے ہوئے پوچھا
      ارےےے کون سی خوبصورت چڑیل بھرجائی۔۔۔۔؟؟؟ زریاب نے چلغوزہ کو منہ میں رکھ کر حیرانگی سے پوچھا۔
      زیادہ انجان بننے کی ایکٹنگ مت کرو۔۔اب۔۔تمہاری سبھی چلاکیوں کو سمجھتی ہوں میں۔
      ارے بھابھی سب سمجھتی ہیں تو پوچھ کیوں رہی ہیں۔۔۔۔پھر؟؟
      زریاب۔۔۔تنگ مت کرو مجھے بتا دو اب۔۔پھر ایک سال بعد جا کر روبرو ملاقات ہو گی ہماری۔۔۔ہو سکتا ہے تمہارے بتا دینے پر میں تب تک تمہاری درمیانی راہیں ہموار کر سکوں۔۔۔۔۔
      گریٹ۔۔۔۔بھابھی ہو تو آپ جیسی۔۔۔۔زریاب نے بیڈ پر لیٹے لیٹے مہرو کی بلائیں لیں۔
      بہت مسخرے ہو۔۔۔۔وہ مسکرائی
      تھینکس۔۔بھابھی۔اب پوچھیں جو پوچھنا ہے۔۔۔۔؟؟
      ملی پھر دوبارہ۔۔۔؟؟
      نہین۔۔۔۔
      تم گئے تھے وہاں جھیل پر۔۔۔۔؟؟
      کئی دفعہ۔۔۔بلکہ روز ہی جاتا ہوں مگر وہ دوبارہ وہاں نہیں آئی۔۔۔۔
      اوہ سیڈ۔۔۔۔۔مہرو افسوس کرتی زریاب کے پاس ہی بیڈ پر جا بیٹھی
      پھر اب کیسے پتہ چلے گا کہ اس کا نام کیا تھا اور وہ واقعی ساتھ والے گاؤں ہی کی تھی یا پھر کسی کے ہاں آئی مہمان تو نہیں۔۔۔۔مہرو نے خدشہ ظاہر کیا
      بھابھی یہ تو کنفرم ہے کہ وہ ساتھ والے گاؤں ہی کی رہنے والی تھی۔۔۔۔۔اور اس کا نام۔۔۔۔۔وہ رکا
      مہرو نے مشکوک ہو کر آنکھیں سکیڑیں
      زریاب اسکے ایکسپریشنز دیکھ کر مسکرایا
      اس کا نام پلوہی۔۔۔ دلاور ۔۔خان ہے۔۔۔۔
      پلوہی۔۔ دلاور۔۔ خان۔۔۔۔واہ۔۔۔۔نام تو بہت یونیق ہے
      خود بھی وہ بہت یونیق ہی تھی۔۔۔وہ مسکرایا
      پر تم نے تو اسے دیکھا نہیں تھا ناں۔۔۔۔؟؟؟
      اوہ مائی ڈئیر بھرجائی جی ۔۔۔۔ میں نے اسکا چہرہ نہیں دیکھا تھا پر اسکی کاجل لگی بڑی بڑی نشیلی آنکھیں ضرور دیکھیں تھیں۔۔۔وہ آنکھ دبا کر بولا
      آہہہہہہممم مطلب۔۔۔۔۔مہرو مسکرائی
      ایگزیکٹلی۔۔۔۔وہ بھی مسکرا کر اٹھ بیٹھا
      پر مجھے تم اتنے ہلکے لگتے نہیں تھے۔۔۔۔
      میں اتنا ہلکا ہوں بھی نہیں بھابھی۔۔۔۔
      اچھا جی۔۔۔تو پھر ایک لڑکی کی صرف آنکھیں دیکھ کر ہی اس کے عشق میں گوڈے گوڈے ڈوب چکے ہو۔۔۔اور کہہ رہے ہو ہلکے نہیں۔۔۔مہرو نے مزاق اڑایا
      عشق میں تو نہیں کہہ سکتی بھابھی آپ ہاں البتہ 100 میں سے 60 پرسنٹ کے چانسز لگ رہے ہیں وہ بھی فلحال صرف پسندیدگی کے ۔۔۔وہ آنکھ مارتا اپنے شوز کے تسمے کس کر اس کی طرف آیا
      اب آپ سے ایک ریکویسٹ ہے بھابھی۔۔۔۔
      ہون بولو۔۔۔۔؟
      پلیز اب یہ خبر اپنے نیوز چینل پر نشر مت کیجئیے گا۔۔۔۔وہ چھیڑتا ہوا دروازے کیطرف بھاگا
      بدتمیز۔۔۔۔مہرو نے دانت کچکچا کر پاس پڑا برش اسکی طرف پھینکا جسے وہ کیچ کر کے ٹیبل پر رکھتا سیٹی کی دھن پر
      میرے انکھیوں سے لاگے رے تیرے نین۔۔۔۔
      روٹھی ہے نیدیا کیون کھو گیا رے میرا چین۔۔۔۔
      مین پروانہ ہوا تیرا۔ہوا خود سے بیگانہ ساتھ۔۔۔
      جگ بھی ہوا دیوانہ تیرا لاگے رے بےچین۔۔۔۔
      _____________
      جی بابا آپ نے مجھ کو بلایا۔۔۔۔پلوہی مسکراتی ہوئی آئی اور دلاور خان کیساتھ آ کر بیٹھ گئی۔
      ہاں بابا کی جان۔۔ہم نے ہی بلایا ہے۔
      کیا کہنا تھا بابا سائین مجھے۔ آپ نے۔
      بیٹا تمارے لیے ایک اچھی خبر ہے۔
      کیسی خبر۔۔۔؟؟وہ ایکسائیٹڈ ہوئی
      میری بیٹی کا ایڈمیشن ہو گیا ہے۔۔۔
      اوہ سچ۔۔۔پلوہی اچھل کر کھڑی ہوئی
      بلکل سچ۔۔۔۔۔دلاور خان بیٹی کی خوشی دیکھ کر مطمعن ہوئے
      اوف بابا۔۔۔۔آپ بہت اچھے ہیں۔۔۔۔اور آپ کو پتہ ہے میں آپ سے بہہہہہہہہہہہہت بہت زیادہ محبت کرتی ہوں۔۔۔۔۔پلوہی نے بابا کے سامنے ٹیبل پر بیٹھ کر بانہیں پھیلائیں۔
      جانتا ہوں سب۔۔۔۔۔۔وہ اسکی ناک کھینچ کر مسکرائے
      چلو پھر تیاری پکڑو۔۔۔۔اگلے ہفتے تمہیں جانا ہے
      پر بابا میں ہوسٹل میں آپ سب کے بغیر کیسے رہوں گی۔۔۔۔وہ اداس ہوئی۔
      اب اتنا تو کرنا ہی پڑے گا ناں۔۔۔۔یا پھر کینسل کروا دوں سب۔۔۔۔
      ارے اب ایسی بھی بات نہیں۔۔۔۔۔میں ہر ویک اینڈ پر حویلی آ جایا کروں گی کیسا۔۔۔۔؟؟
      بہت اچھا۔۔۔۔۔چلو اب اس خوشی کے موقعے پر اپنے بابا کی چائے سے تواضع کرو
      ضرور۔۔۔۔ناصرف چائے بلکہ آپ کا فیورٹ گاجر کا حلوہ بھی۔۔۔۔
      ارے واہ۔۔۔۔۔پھر تو جلدی کرو اس پہلے کہ تمہاری اماں کو خبر ہو۔۔۔۔وہ رازداری سے بولے
      ہاہاہاہا۔۔۔۔جا رہی ہوں۔۔۔۔پلوہی انکی رازداری پر ہنستی ہوئی کیچن کی طرف بڑھ گئی
      ______________
      زریاب کل اسلام آباد جا رہا تھا اور وہاں سے اسے پھر آکسفورذ یونیورسٹی کے لیے لندن کو فلائی کرنا تھا۔
      مزید تعلیم کیلیے۔۔
      وہان جانے سے پہلے وہ ایک بار پھر سے دل میں دید کی امید جگائے جھیل پر جانا چاہتا تھا۔۔۔اپنی پیکنگ مکمل کرنے کے بعد وہ وہاں جانے کے لیے نکل پڑا۔۔
      _________
      پلوہی بی بی پیکنگ ہو گئی ہے۔۔۔۔۔اب میں جاؤں۔۔۔؟؟رحمیہ نے اس سے پوچھا جو کبڈ میں سر دیے کھڑی تھی
      ہان جاؤ تم۔۔۔
      جی اچھا۔۔۔۔۔رحیمہ سر ہلاتی چلی گئی
      ___________
      پلوہی نے اسکے جانے کے بعد شال نکال کر اوڑھی اور چپکے سے باغ میں جانے کے لیے نکل کھڑی ہوئی
      باغ میں پہنچ کر اس نے چاروں طرف نگاہ دوڑائی اور کسی کو بھی نہ پا کر دل میں چور لیے وہ جھیل کیطرف چل پڑی۔۔
      ___________
      زریاب نے مطلوبہ مقام پر پہنچ کر ادھر أدھر دیکھا اور مایوس ہو کر پتھر پر بیٹھ گیا۔۔۔۔وہ پتھر پر بیٹھا جھیل کے پانی میں کنکر پھینکنے لگا۔۔۔۔
      پلوہی نے دھڑکتے دل پر ہاتھ رکھ کر درخت کی اوٹ سے زریاب خان کی چوڑی پشت کو دیکھا
      ارے یہ تو پہلے سے موجود ہے۔۔۔کہیں یہ میرا انتظار تو نہیں کر رہا۔۔۔۔۔؟؟
      واہ۔۔۔بھئی پلوہی بی بی کیا خوش فہمی ہے تیری۔۔۔۔وہ اپنی سوچ پر مسکراتی آگے کو ہوئی کہ پیچھے سے پتھر لڑھک کر اسکے پاؤں پر گرا۔
      پلوہی کی گھٹی گھٹی چیخ نے زریاب آفریدی کے دونوں کان کھڑے کیے
      وہ پلٹا اور درخت کی اوٹ میں ہرے آنچل کو لہراتے دیکھ کر اسکی طرف بھاگ کھڑا ہوا۔
      پلوہی نے جیسے ہی زریاب کو اپنی طرف آتے دیکھا وہ فورا واپسی کے لیے بھاگی۔۔۔۔
      پلوہی لسن۔۔می۔۔۔رکو تو بات سنو۔۔میری۔۔
      زریاب چلاتا ہوا جب تک وہاں پہنچا وہ درختوں کے جھرمٹ میں گم ہو چکی تھی
      "اے خوبصورت چڑیل" وہ منہ کے گرد ہاتھوں کا گولا بنا کر پوری قوت سے چلایا
      ایک بار۔۔۔۔دو بار۔۔۔۔کئی بار۔۔۔۔۔مگر پلوہی وہاں ہوتی تو سنتی اسے۔
      شٹ۔۔۔۔۔۔۔زریاب نے درخت پر مکا جڑا
      اور چند منٹ انتظار کے بعد مایوس سا واپس لوٹ گیا
      مانا کہ تمہین ہم کھو چکے ہین اس ظالم زمانے مین۔مگر۔
      تمہاری آ ۔کر دلنشین یاد ہمین بہت بیتاب رکھتی ہے۔
      ہو کر گھمبگیر متوحش گرم تیز سانسین میری ہر دم۔
      بیتے لمحے اورگڑیون کا ہر لحظ حساب وکتاب رکھتی ہے
      ______________
      پلوہی نے اپنی دوڑ کو بریک حویلی میں آ کر لگائی تھی
      ارے لڑکی کیا ہوا۔۔۔سانس کیوں پھولا ہوا ہے۔۔کچھ بولو۔۔کہاں تھی تم۔۔۔۔۔۔؟؟خدیجہ نے ایک ساتھ مین اتنے ڈھیر سارے سوال پوچھے
      ممی پا۔۔۔۔پانی۔۔۔۔۔۔وہ بمشکل بول پائی۔
      رحیمہ پانی دو اسے۔۔۔۔
      رحمیہ بوتل کے جن کی طرح پانی لیے حاضر ہوئی
      پلوہی نے دل پر ہاتھ رکھا اور ایک ہی سانس میں پانی ختم کیا۔
      کہاں تھی۔۔۔۔۔خدیجہ نے کڑی نظروں سے پلوہی کو دیکھا
      باغ۔۔۔۔۔ مین۔۔۔۔
      وہاں ایسا کیا دیکھ لیا بی بی جی۔۔۔۔رحیمہ نے بتیسی نکال کر پوچھا
      بب۔۔۔۔ بھوت۔۔۔۔ تھا۔۔
      ہائے سچ میں پلوہی بی بی بھوت تھا وہاں۔۔۔
      پلوہی نے اسے ایک لمبی گھوری نوازی اور اٹھ کر اماں کے پاس آ بیٹھی
      کیا کرنے گئی تھی باغ میں وہ بھی بنا اجازت۔۔۔۔وہ خفا ہوئیں
      اماں کل ہوسٹل چلی جاؤں گی میں خفا مت ہوں۔۔مجھ سے۔۔بس دل چاہ ریا تھا اس لیے ٹہلنے کو گئی تھی۔۔۔۔اس نے نظریں چراتے ہوئے مان سے جھوٹ بولا۔
      پلوہی بیٹا کبھی بھی کوئی بھی کام ماں باپ کی اجازت کے بغیر نہیں کرتے ہیں۔مین نے کتنی دفعہ ہی سمجھایا ہے تمہیں۔۔۔
      اچھا ناں اماں سوری آئندہ ایسا نہیں ہو گا سچ میں۔۔۔۔۔پلوہی نے لاڈ سے انکے گلے میں بانہیں ڈالیں
      اچھااچھا ٹھیک ہے جاؤ اپنی چچیوں سے مل آؤ۔۔۔پھر شکوہ کریں گیں کے تم مل کر نہیں گئی
      اوکے مسز دلاور خان صاحبہ جو حکم۔۔۔۔اس نے سر خم کرتے ماں کو چھیڑا۔
      چل جا مسخری نہ ہو تو۔۔۔۔وہ مسکرائیں
      پلوہی کھلکھلاتی ہوئی باہر نکلی کہ سامنے سے آتے شمس لالہ سے ٹکرا گئی۔
      کیا ہے لالہ دیکھ کر نہیں چل سکتے تھے کیا۔آپ۔۔وہ ناک کو پکڑے چلائی۔
      ارےے زیادہ لگ گئی کیا۔۔۔؟؟وہ فکرمند ہوا
      نہیں بس تھوڑی سی وہ ناک سہلاتی بولی
      کس اسٹیشن پر پہنچنے کی جلدی تھی تمہیں۔۔۔۔؟؟
      اسی اسٹیشن پر جس اسٹیشن پر آپ کو بھی جانے کی جلدی ہوتی ہے
      بہت چالاک ہوتی جا رہی ہو۔۔۔شمس نے مسکراتے ہوئے اسکی ناک کھینچی
      شکریہ نوازش۔۔۔۔اب بتائیں اگر کوئی پیغام دینا ہے انہین أپ نے تو۔۔۔؟؟
      پل۔۔۔۔ وہی۔۔۔۔۔
      ہاہاہا۔۔۔۔وہ کھلکھلا کر ہنسی
      میں کہوں گی کہ بھابھی آپ کو لالہ پچھلے باغ میں بلا رہے ہیں کیسا۔۔ہے۔؟؟
      شمس اس کی بات پر مسکرایا مگر
      پلوہی شرافت سے جاؤ اور مل کر واپس آؤ خبردار اگر کوئی ہوشیاری دیکھائی تو۔۔۔ یا کچھ الٹا سیدھا بولا تو۔۔۔
      ارے کیا ہے لالہ مل لیں چند ماہ بعد تو وہ بذات خود یہاں موجود ہوں گی مسز شمس دلاور خان بن کر اس لیے میری مانیں تو ان دنوں میں چھپ چھپ کر ملنے کو انجوائے کریں۔۔۔وہ رازداری سے بولی
      اپنے قیمتی مشورے خود تک محدور رکھو اور کوئی بھی الٹی سیدھی حرکت کی تو سزا بھی برابر ملے گی سمجھی۔۔۔
      اونہہ۔۔۔انتہائی بور ہیں آپ تو نہجانے پروشہ (چچا زاد) بھرجائی کا کیا ہو گا۔۔۔وہ افسوس سے سر پر ہاتھ مارتی آگے بڑھ گئی
      شمس اسکی اداکاری پر مسکراتا ہوا سیڑھیاں پھلانگ گیا
      _____________
      اگلے روز زریاب اسلام آباد کے لیے اور اسلام آباد سے لندن کے لیے فلائی کر گیا تھا
      زریاب نے پلوہی دلاور خان کو اسکی باتوں سمیت ایک اچھی یاد سمجھ کر دل میں سنبھال لیا تھا
      پلوہی پشاور آ چکی تھی ہاسٹل میں۔۔۔۔دلاور خان نے اسکا ایڈمیشن پشاور کی ہی یونیورسٹی میں کروایا تھا۔۔
      اس نے بھی زریاب آفریدی کو ایک اچھی یاد سمجھ کر سائیڈ پر کر دیا تھا وہ یہاں پڑھنے آئی تھی اور پوری دلجمعی سے صرف پڑھنا ہی چاہتی تھی۔۔ویسے بھی اسکی تربیت جس انداز میں کی گئی تھی اس کے مطابق کسی بھی غیر مرد کو سوچنا اسکے لیے اچھا نہین تھا۔۔۔لہذا اس نے بھی زریاب کو مزید یاد کرنا مناسب نہ سمجھا تھا کیونکہ وہ قسمت پر یقین رکھنے والی لڑکی تھی جو مل گیا اسی کو صبر و شکر کے ساتھ قبول کر لیا۔۔۔
      یوں وقت کے ساتھ ساتھ پلوہی زریاب کے لیے اور زریاب پلوہی کے لیے ماضی کا حصہ بن کر رہ گئے تھے
      ائےصنم""کون کہتا ہے مٹ جاتی ہے دوری سے محبت۔
      ملنے والے تو خیالوں میں بھی ہمیشہ بے حساب ملا کرتے ہیں""
      __________________
      چھ سال بعد۔۔۔۔۔۔پورے چھ سال بعد پھر سے پلوہی پلوشہ۔ دلاور خان کا نام زریاب کے اردگرد گونجا تھا
      جب نکاح خواہ بلند آواز میں پلوشہ دلاور ولد دلاور خان کے نام پر اسکی رضامندی لے رہا تھا ۔۔۔وہ اس نام پر ساکت تھا۔۔۔۔برسوں بعد یہ نام سن کر زریاب کے سوئے ہوئے جذبات نے بھرپور انگڑائی لی تھی۔۔
      اسکے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ پلوہی اسی شمس خان کی بہن ہے جس نے سہراب لالہ کا قتل کیا تھا۔۔۔۔وہ اسی کشمکش میں تھا۔۔۔۔۔جب بابا جان نے زریاب خان آفریدی کا کندھا ہلایا
      زریاب بیٹا سائن کرو تم دیر ہو رہی ہے۔۔۔۔
      زریاب نے ناسمجھی سے خاقان آفریدی کیطرف دیکھا اور پھر پین پکڑ کر دھڑا دھڑ سائن کر دیے۔۔۔۔۔
      نکاح کے بعد وہ غائب دماغی سے پجارو دوڑاتا ہوا حویلی پہنچا تھا
      مگر اب جھٹکا لگنے کی باری پلوہی کی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔جب اس نے اپنی نم آنکھوں سے سامنے زریاب آفریدی کو غصے سے چلاتے دیکھا تھا
      جو اسے ،اسکے گھر والوں ، اسکے لالہ کو برا بھلا کہتے ہوئے کف اڑا رہا تھا
      نکاح کے وقت تو پلوہی(پلوشہ) سن دماغ لیے بیٹھی تھی جس میں صرف ایک ہی بات گونج رہی تھی کہ وہ وہاں کی ہمیشہ سے قائم فرسودہ روایات کی بھینٹ چڑھ گئی ہے۔۔۔۔اسے ونی کر دیا گیا ہے۔۔۔وہ بےقصور ماری گئی ہے۔۔۔۔اور اب پھر اپنے سامنے زریاب آفریدی کو دیکھ کر اسکا دماغ پھر سے سن ہو چکا تھا
      پلوہی نے آنکھوں میں آئی نمی ہاتھ سے صاف کر کے پھر سے ایک بار اسکودیکھا کہ شاید اسکی نظر کا دھوکا ہو مگر نہیں سامنے وہی ینگ سا ہیرو ۔اب ایک مکمل مرد کی صورت میں موجود تھا
      تب کے زریاب میں اور اب کے زریاب خان میں بہت زیادہ فرق حائل ہو چکا تھا
      تب وہ مسکراتے ہوئے اس کو دیکھ رہا تھا اور اب وہ غصے سے بھرا۔ اس پر چلا رہا تھا
      وہ مزید بھی کچھ سوچتی کہ زریاب نے پاس آ کر جھٹکے سے اسکی گردن دبوچی
      میں ابھی اسکا قصہ تمام کر کے یہ حساب برابر کر دوں گا۔۔۔وہ پلوہی کی گردن دبوچ کر چیخا تھا
      زریاب کے اس ردعمل پر پلوہی کے اندر رہی سہی ہمت بھی ٹوٹ گئی تھی۔۔۔۔دل میں موجود زریاب آفریدی کی وہ دھندلائی ہوئی شبیہہ مزید دھندلا گئی تھی۔۔۔۔ یہ وہ زریاب خان نہیں ہے۔۔۔ اسکے دل میں ابھرتی مدھم سی سرگوشی نے اسکی آنکھوں دیکھے سچ کو سختی سے جھٹلایا تھا ۔
      اسی وقت خاقان آفریدی نے بیچ میں آ کر زریاب کے ہاتھ پلوہی کی گردن پر سے ہٹوائے تھے
      وہ ایک خون آلود نظر پلوہی کی کاجل پھیلی آنکھوں میں گاڑتا ہال سے نکل گیا تھا
      پیچھے پلوہی قسمت کی اس ستم ضریفی پر ساکت تھی
      ________. . _____.
      زریاب۔۔۔۔۔پلوہی کو اپنے کمرے سے نکال کر تہہ خانے چھوڑ آیا تھا
      وہ پلوہی کو دیکھ کر ڈر چکا تھا۔۔۔۔وہ ڈر چکا تھا کہ کہیں اسکا دل پھر سے اسکے ساتھ دغا نہ کر جائے۔۔۔۔کہیں ایسا نہ ہو کہ پلوہی کی صورت اسے وہ سب بھلا دینے پر مجبور کر دے جو وہ بھولنا نہیں چاہتا ۔
      وہ بہت ہی چپکے چپکے بغیر کسی کینظرون مین آئے اپنے لالہ سہراب خان کے اس حادثے (جس کو وہ حادثہ نہین قتل ہی سمجھتا تھا نہجانےکیون اس کا دل اس واقعہ کو حادثہ نہین مانتا تھا)کے بارے مین ہر ایک جانکاری حاصل کرتا جارہا تھا۔
      وہ کوئی نہ کوئی ایئسے سراغ کی تلاش مین تھا جس سے سہراب لالہ کے اس واقعہ کی اصل تصدیق مل سکے۔
      اب پلوشہ اس کیلئے خون بہا میں آئی صرف ایک خونی کی بہن تھی۔۔۔جو وہاں سزا بھگتنے آئی تھی اور بس۔۔۔۔وہ خود کو باور کروا چکا تھا۔
      پلوہی کو بیسمنٹ میں بندہوے ایک ہفتہ ہو چکا تھا ۔جب مہرو
      بی بی زریاب کے کمرے میں آئی تھی
      زریاب مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے۔۔۔
      جی بھابھی بیٹھیں۔۔۔نا۔۔زریاب کتاب ٹیبل پر رکھ کر اسکی طرف آیا
      مہرو اسکے سامنے صوفے پر ٹک گئی
      کیا یہ پلوشہ وہی پلوہی ہے جو تمہیں چھ سال پہلے ملی تھی جھیل پر۔۔۔۔؟؟
      زریاب نے حیرانگی سے مہرو کو دیکھا
      ایسے کیا دیکھ رہے ہو۔۔۔جو پوچھا ہے اسکا جواب دومجھے۔
      جی۔۔۔۔۔زریاب نے سر جھکا کر اقرار کیا
      تو پھر بھی تم اسے تہہ خانے میں کیون چھوڑ آئے ہو۔؟؟
      بھابھی اس کا اصل ٹھکانہ وہی ہے۔۔
      اسکا اصل ٹھکانہ کہاں ہے یہ اپنے دل سے پوچھو۔۔
      بھابھی پلیز۔۔۔۔وہ سب میری ٹین ایج کی فیلنگز تھیں اب ایسا کچھ بھی نہیں۔۔۔
      کیا واقعی ایسا ہی ہے۔۔۔۔؟؟مہرو نے آنکھیں اچکائیں
      آپ کہنا کیا چاہ رہی ہیں صاف صاف کہیں نا۔۔۔۔ بھابھی۔آپ۔۔
      زریاب میں بس اتنا کہنا چاہ رہی ہوں کہ جو کچھ ہو چکا ہے اس میں پلوہی کا کوئی قصور نہیں اسلیے سہراب کے خون کی سزا اسے مت دو۔۔۔وہ رسان سے بولی۔
      بھابھی وہ سہراب لالہ کے قتل کی یہاں سزا بھگتنے ہی آئی ہے ۔۔۔
      کس جرم کی۔جو بس نے کیا ہی نہین ہے۔۔؟؟؟
      زریاب اب مہرو کے سوال پر لاجواب ہوا۔
      دیکھو زریاب تم ایک پڑھے لکھے انسان ہو۔۔تمہارے منہ سے ایسی جہالت آمیز گفتگو کچھ جچتی نہیں ہے۔۔۔۔جو کچھ ہو چکا وہ سب تو میری قسمت میں تھا۔۔اگر انکا قتل بھی ہوا ہے تو تمہارے۔سہراب لالہ اتنی ہی عمر لکھوا کر لائے تھے۔۔۔۔شمس خان تو صرف ان کی موت کی وجہ بنا ہے۔۔۔وہ نہ بنتا تو کوئی اور وجہ بن جاتی۔۔۔۔جانا تو تب بھی ہوتا ہے جب بلاوا آ جایے تو۔؟
      موت برحق ہے زریاب آج نہیں تو کل ہم سب کو چلے جانا ہے۔۔۔پھر یہ لڑائی جھگڑے۔۔۔خون۔۔۔۔قتل۔۔۔۔۔بدلے۔۔۔۔اس سب سے کیا حاصل۔۔۔۔۔؟؟
      بھابھی آپ۔۔۔
      زریاب میں جانتی ہوں تم میری بہت عزت کرتے ہو۔۔۔۔میری ہر بات بلاتردود مانتے ہو۔۔۔۔اب۔۔۔۔اب بھی میری ایک بات مان کر میرا مان رکھ لو زریاب۔۔۔۔۔۔۔۔۔
      زریاب نے سوالیہ نظروں سے مہرو کو دیکھا۔
      پلوہی کو اس قید سے نکال کر اپنے کمرے میں لے آؤ۔۔۔۔وہ آہستگی سے بولی۔۔
      جیسے بھی سہی اب وہ بیوی ہے تمہاری۔۔۔تم نے بہت سے لوگوں کی موجودگی میں اس کیساتھ نکاح جیسا پاکیزہ رشتہ جوڑا ہے۔۔۔اس لیے اس رشتے کی بے حرمتی مت کرو۔۔۔۔وہ بیچاری مجبور بے بس لاچار عورت ہے سہراب کے ساتھ ہوئے حادثے مین اس کا کیا قصور۔
      کسی اور ناطے نہ سہی تو مجھے اپنے بھائی کی بیوہ سمجھ کر ہی۔۔۔۔
      بھابھی پلیز ایسا مت کہیں۔۔۔۔آپ اچھی طرح جانتی ہیں آپ میرے لیے کیا ہیں۔۔۔
      میں آپکی کوئی بات نہیں ٹالتا ہوں اس لیے یہ بھی نہیں ٹالوں گا مگر بھابھی اس سے آگے مزید کچھ اور نہیں۔۔کہنا مجھے۔۔۔
      میں ماضی کو بھول چکا ہوں۔۔۔۔اس لیے دوبارہ یاد کرنے کی بھی کوئی خواہش نہیں ہے مجھے۔۔۔
      تم نے میرا مان رکھ لیا اتنا کافی ہے میرے لیے۔۔۔۔اس سے آگے تم جو چاہو کرو۔۔۔مگر یہ بات مت بھولنا کبھی کہ پلوہی سہراب کےمعاملےمین بے قصور ہے۔۔۔مہرو نے آہستگی سے باور کروایا
      ہوں۔۔۔۔زریاب نے پرسوچ انداز میں سانس خارج کر کے بات ختم کی۔
      مہرو بھرجائی سے وعدے کے دو دن بعد وہ پلوہی کو اپنے کمرے میں لے آیا تھا۔۔۔۔مگر دل فلحال اسے بے قصور ماننے کو راضی نہ تھا۔۔۔اسی لیے زریاب نے پلوہی کے ساتھ کسی قسم کی نرمی نہیں برتی تھی۔
      ""جھوٹی مسکان لیےچہرے پر اپنے غم چھپاتے ہیں۔
      ارےساقی سچی محبت کرنے کی بھی کیاخوب سزا ملی""۔
      ________
      پلوہی کا سارا کانفیڈینس تو اسی دن بھر بھری ریت ہو چکا تھا۔۔۔۔جب اسکو قربانی کے لیے پنچائیت میں پیش کیا گیا تھا۔۔۔
      وہ ہمیشہ سے ہی اپنے علاقے کی ان فرسودہ اور ظالمانہ روایات سے بہت نالاں تھی۔۔۔مگر یہ نہیں جانتی تھی کہ ایک دن وہ بھی انہیں ظالمانہ روایات کی بھینٹ چڑھ جائے گی۔۔۔۔اور اسے بلی چڑھانے والے اسکے اپنے سگے قریبی رشتے ہوں گے۔۔۔۔
      نکاح کے بعد جب وہ اپنے بھاری قدم گھسیٹتی آفریدی حویلی میں داخل ہوئی تھی تو وہ ایک نئی پلوہی بن چکی تھی جو ڈرپوک بھی تھی اور بزدل بھی تھی۔۔۔۔مگر اب بہادر نہ رہی تھی۔۔۔۔کیونکہ اب اسے ساری زندگی اپنے لالہ کی غلطی کی سزا جو بھگتنی تھی۔۔۔
      وہ بھی ویسا ہی ایک دن تھا۔۔۔جیسے دن کو پلوہی باغ اور جھیل کنارے جا کر انجوائے کرتی تھی۔۔۔سردیاں جا رہی تھیں اور گرمیوں کی آمد تھی۔۔اورساتھ دھمادھم بارش ہوئے جارہی تھی۔
      انہی دنوں کے پرسوز لطف کو محسوس کرنے وہ ٹیرس پر آئی تھی۔۔۔مگر اب بہت کچھ بدل چکا تھا۔۔نہ تو دل میں کوئی خوشی تھی اور نہ ہی کوئی امنگ۔۔۔
      اس لیے وہ انجوائے کرنے کی بجائے وہاں بیٹھ کر ماضی میں گزرے ایسے ہی دنوں کو یاد کرنے لگی۔۔اسے چھ سال پہلے کا وہ دن پوری جزئیات سے یاد تھا جب وہ ایسے ہی موسم کا لطف لینے جھیل گئی تھی جہاں اسے پہلی دفعہ زریاب خان آفریدی ملا تھا۔۔۔
      پلوہی کو اس دن کی ایک ایک بات یاد آ رہی تھی۔۔۔وہ اپنی اور زریب کی کہی ہر بات کو اپنی زبان سے دہرا کر تازہ کر رہی تھی۔۔۔۔وہ ماضی میں بھٹکتی اور ناجانے کیا کچھ سوچتی کہ مؤذن کی آواز پر حال میں لوٹی۔۔۔۔
      اوہ۔۔ہ۔۔مغرب بھی ہو گئی اور مجھے پتہ ہی نہیں چلا۔۔۔۔وہ بڑبڑاتی ہوئی کمرے کی طرف بڑھی
      پلوہی نے مغرب کی نماز پڑھ کر جیسے ہی دعا کے بعد ہاتھ اپنے چہرے پر پھیر کر ہٹائے اسکی نظر بیڈ پر بیٹھے زریاب خان پر پڑی
      جسکے بازو پر بندھی پٹی دیکھ کر وہ ناجانے کس جذبے کے تحت بےچین ہوتی جلدی سے اس کے پاس پہنچی
      یہ۔۔۔یہ کیا ہوا آپ کو۔۔۔۔؟؟وہ فکرمندی سے پوچھتی بیڈ پر زریاب کے سامنے جا بیٹھی
      کچھ نہین۔۔۔۔
      پھریہ پٹی کیوں بندھی ہوئی ہے اور یہ خون۔۔۔
      کہا ہے ناں کچھ نہیں ہوا۔۔۔وہ چڑ کر بولا
      نہین زریاب خان یہ۔۔۔یہ سب کیسے ہوا۔بتائین مجھے۔۔آپ۔۔۔۔آپ کو چوٹ کیسے آئی۔۔۔۔مجھے بتائیں ناں زریاب۔۔۔۔۔ایک آنسو چپکے سے پلوہی کی آنکھ سے نکل کر گال پر پھسلا
      وہ رو رہی تھی اس شخص کے لیے جو ماضی میں کبھی اسے اچھا لگا تھا۔۔۔جسے بھلا کر بھی وہ ہمیشہ بھول نہیں پائی تھی۔۔۔۔
      جس نے اسے صرف اور صرف ایک خونی کی بہن ہی سمجھا تھا۔۔۔جس نے اس سے کوئی نرمی نہ برتی تھی پھر بھی وہ اس ظالم شخص کی تکلیف پر رو رہی تھی۔۔
      زریاب نے حیرت سے اس کے آنسو کو دیکھتے ہوئے پلوہی کی آنکھوں میں جھانکا۔
      جن میں فکر تھی۔۔۔پریشانی تھی۔۔۔۔تکلیف تھی۔۔۔۔پرواہ تھی اور شاید چاہ بھی تھی۔۔۔۔
      یہ وہی آنکھیں تو تھیں جن کو بار بار دیکھنے کی خواہش کی تھی کبھی۔۔۔اس نے۔۔۔
      اب یہ آنکھیں اسکی اپنی ملکیت تھیں۔۔۔۔وہ ان میں ڈوب جانے کا حق رکھتا تھا۔۔۔۔اور وہ ان کاجل بھرے نینوں میں ڈوب ہی گیا تھا۔
      صرف ایک لمحہ۔۔۔۔ایک لمحہ لگا تھا زریاب خان آفریدی کے جزبات کو اسکی بے نیازی پر حاوی ہونے میں اور وہ سب کچھ بھلا کر پلوہی کی ذات میں گم ہوتا چلا گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔
      ""کیا کشش بیخودی سی تھی اسکی آنکھوں میں۔
      صنم میرا پاگل دل تو جیئسے مجھ سے ہی لڑ پڑا تھا۔
      جاری ہے۔
      Vist My Thread View My Posts
      you will never a disappointed

      Comment


      • #4
        زبردست اور بہت ہی منفرد افسانہ ہے شکریہ صنم ساقی

        Comment


        • #5
          Originally posted by Sakht londa View Post
          زبردست اور بہت ہی منفرد افسانہ ہے شکریہ صنم ساقی
          شکریہ دوست۔
          ویئسے یہہ سب میری سٹوری قفص صیاد کا ایک حصہ تھی۔اور اب رمضان کے بابرکت مہینے سے چونکہ اس کی اپڈیٹ نہین ہو سکتی تھی۔
          تو دوستو۔قفس صیاد کو۔۔۔
          قفس کی چڑیا پوسٹ کر دیا۔
          Vist My Thread View My Posts
          you will never a disappointed

          Comment


          • #6
            کمال کی سٹوری ہے جناب آور بہترین انداز میں بیان کی جارہی ہے

            Comment


            • #7
              Originally posted by Micky View Post
              کمال کی سٹوری ہے جناب آور بہترین انداز میں بیان کی جارہی ہے
              بہت شکریہ دوست۔
              یہہ تو بس آپ دوستو کی محبت و چاہت ہے کہ۔
              ورنہ من آنم کہ من دانم۔​​​​​​​۔
              Vist My Thread View My Posts
              you will never a disappointed

              Comment


              • #8
                قفس کی چڑیا۔
                ۔"ایک لمحے میں کمزور پڑ جانے والا مردہو آپ۔
                یہ ہے آپکی اصلیت "۔
                زریاب کے کانوں میں پلوشہ کا کہا گیا فقرہ گونج رہا تھا۔
                وہ اسوقت جھیل کنارے بیٹھ کر پلوہی اور اسکی باتوں کو سوچتے ہوئے خود کو ملامت کیے جا رہا تھا۔
                ٹھیک ہی تو کہا تھا پلوشہ نے۔۔۔یہی تو ہے نا میری اصلیت۔۔۔۔۔کیوں میں ان لمحون مین کمزور پڑ گیا۔کیوں جھانکا میں نے ان آنکھوں میں جو مجھے لے ڈوبیں۔
                اب اپنے ہی بچھائے جال میں بہت بری طرح پھنس گیا ہوں میں۔۔۔۔۔اسی لیے تو اسے کمرے سے نکالا تھا میں نے کہ کہیں کمزور نہ پڑ جاؤں۔۔۔اور اب ہر۔۔۔وقت وہ مجھےبات بات پر وہ یہی طعنہ دے گی۔۔۔۔
                بے شک وہ بیوی ہے میری ۔۔۔۔میں اس پر حق رکھتا ہوں مگر جو سلوک میں اس کے ساتھ روا رکھ چکا تھا اس کے بعد ایسا کچھ کرنا۔۔۔
                زریاب نے پریشانی کے عالم مین سر ہاتھوں پر گرایا۔
                دس منٹ بعد وہ مطمعن سا اپنے بکھرے بال سمیٹتا پجارو کی طرف بڑھ گیا جیسے کچھ سوچ چکا ہو۔
                اس رات ناصرف زریاب کمزور پڑا تھا بلکہ پلوہی نےبھی کوئی خاص مزاحمت نہ کی تھی۔۔۔
                مگر پھر اس رات کے بعد وہ دونوں ہی ایک دوسرے سے نظریں چرائے ہوئے تھے۔
                زریاب نے اس کو مخاطب کرنا ہی چھوڑ دیا تھا نہ کوئی طنز،، نہ طعنہ۔۔۔اور پلوشہ وہ تو پہلے بھی خود سے مخاطب نہیں کرتی تھی اسے۔۔۔
                یوں خاموشی کے ساتھ چند دن گزرے جب پلوہی کو اپنے اندر ہونے والی تبدیلی کا کچھ احساس ہوا۔
                وہ بلکل بھی خوش نہیں تھی اس تبدیلی سے بلکہ الٹاچڑچڑی ہوتی جا رہی تھی۔۔۔وہ جانتی تھی یہ بات نہ تو زریاب کے لیے خوشی کا باعث ہو گی اور نہ ہی اس حویلی کے باقی مکینوں کے لیے اس لیے وہ کسی کو بھی کچھ بتائے بغیر خاموش ہو گئی ۔۔۔
                اس دن بھی وہ ماضی کو اور اپنے گھر والوں کو یاد کر کے افسردہ تھی
                جب زریاب کی ذرا سی بات پر سیخ پا ہوتی اتنے دنوں کی خاموشی سے اندر کا پکتاہوا۔ لاوا اگل گئی ۔۔
                زریاب اسکی بات کےجواب میں کچھ بھی کہے بنا کمرے سے نکل گیا تھا۔
                اور اب رات کے بارہ بج چکے تھے مگر زریاب ابھی تک نہیں لوٹا تھا
                پلوشہ اس کے انتظار میں جاگ رہی تھی۔۔۔۔
                ایسا کچھ غلط تو نہیں کہا مین نےجو اتنی اکڑ ہے کہ واپس ہی نہیں آئے۔۔۔مت آئیں مجھے کیا میں کونسا مری جا رہی ہوں ان کے انتظار میں۔۔۔
                میرا بھی اس بیڈ پر اتنا ہی حق ہے جتنا زریاب آفریدی کا۔۔۔۔۔۔پہلے خاموش تھی پر اب نہیں رہوں گی خان صاحب۔۔۔۔ اپنے حق کے لیے لڑوں گی۔۔۔۔۔وہ خود کو تسلی دیتی چادر اوڑھ کر لیٹ گئی۔
                رات کا نہجانے کونسا پہر تھا جب پلوہی کی آنکھ کھٹکےکی آواز پر کھلی ۔
                اس نے مندی مندی آنکھوں سے زریب کو صوفے پر لیٹتے دیکھا اور اس کا یہ دیکھنا ہی جیئسے غضب ہو گیا۔ وہ فورا اُٹھ کر بیٹھتی ہوئی بولی۔
                آپ صوفے پرلیٹ کرکیا شو کرنا چاہ رہے ہیں۔۔۔یہی کہ میں اب بھی آپ کے لیے اچھوت ہی ہوں۔۔خان صاحب۔جس کیساتھ آپ اپنا بستر بھی شئیر نہیں کر سکتے۔۔۔۔
                مگر زریاب کچھ بھی کہے بنا وہین پر کروٹ بدل گیا۔
                اونہہ۔۔۔۔۔یوں کہیں ناں کہ اب مجھ سے نظریں ملانے کی ہمت نہیں ہے۔۔۔۔۔بزدل انسان۔۔۔۔۔وہ بلند آواز سے بڑبڑائی۔
                پلوشہ بزدل نہیں ہوں میں سمجھی۔۔تم۔۔اور جہاں تک نظریں نہ ملانے کا مسلہ ہے تو میں نے ایسا کچھ غلط نہیں کیا کہ تم سے نظریں چراتا پھروں۔۔۔۔اس لیے خاموشی سے بغیر شور شرابہ کیے سو جاؤ۔
                مجھے سونے کے لیے آپ کی پرمیشن تو بلکل بھی نہیں چاہیے زریاب خان۔۔۔۔
                تو مت سوؤ مگر زبان بند رکھو اپنی کیونکہ مجھے سونا ہے۔۔۔
                میری زبان ہے میں کھولوں یا بند رکھوں۔اسے۔۔وہ بدتمیزی سے بولی۔
                مسئلہ کیا ہے تمہارا۔۔۔۔وہ غراتا ہوا اسکی طرف آیا۔اگر تحمل سے تم کوجواب دے رہا ہوں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ سر پر چڑھ جاؤ۔۔تم۔۔اپنی حدود کو مت بھولو تم۔
                بھول چکی ہوں میں سب۔۔۔۔یاد ہے تو بس مجھے اتناکہ میں اب آپکی بیوی ہوں اور آپ کے ہی بچے۔۔۔۔۔ پلوہی غصے سے چلا اُٹھی۔
                اسٹاپ دس نان سینس۔۔۔۔یوں چلا کر کیا باور کروانا چاہ رہی ہو تم۔۔۔۔۔یا پھر یہ سمجھ رہی ہو کہ تمہارا یہ واویلا تمہارے کام آئے گا اور پھر میں تمہاری طرف مائل ہو جاؤں گا۔۔۔۔تو یہ بھول ہےتمہاری پلوشہ بی بی۔۔۔تم میری شرعی بیوی ہو اور میں نے تم سے جائز تعلق بنایا ہے۔۔۔تمہیں کوئی تکلیف ہے تو رہے آئی ڈیم کئیر۔۔۔زریاب نے سرخ آنکھوں سے دیکھتے ہوئے کہا
                مجھے کوئی شوق نہیں ہے آپ کو اپنی طرف مائل کرنے کا کیونکہ اگر مجھے ایسا کوئی شوق ہوتا تو آپ تین ، چار ماہ بھی خود کو کنٹرول نہیں کر سکتے تھے۔
                زریاب خان آفریدی ۔۔۔۔۔۔
                اور اگر آپ کو کئیر نہیں تو مجھے بھی نہیں ہے سمجھے آپ۔۔۔۔۔میں کل ہی اپنے گھر والوں سے ملنے جاؤں گی اور اگر آپ نے مجھے روکنے کی کوشش کی تو خود بھی سکون سے نہیں بیٹھوں گی اور نہ ہی آپکو بیٹھنے دوں گی۔۔۔پلوہی نے دھمکی دی۔۔۔
                نہجانے اتنی بہادری اس میں آئی کہاں سے تھی جو وہ ماضی کی نڈر پلوشہ بن چکی تھی شاید ماں بننے کے جزبے نے ہی اسے اتنی ہمت دی تھی جو وہ زریاب کو دوبدو جواب دے رہی تھی۔۔۔
                کل کی کل دیکھی جائے گی۔۔۔فلحال بیڈ سے اٹھ کر اپنی جگہ پر جاؤ۔۔۔
                کیوں جاؤں۔۔۔۔۔جب تعلق جائز ہے تو پھر آپ کو تکلیف کس چیز کی ہے۔۔۔۔
                زریاب اسکی بدتمیزی اور بدزبانی پر ٹیمپر لوز کرتا اس پر چڑھ دوڑا۔
                ایک۔۔۔دو۔۔۔۔وہ تیسرا تھپڑ مارنے ہی والا تھا کہ بیچ میں رک گیا
                آج کے بعد زبان درازی کی تو سزا اس سے بھی بدتر ہو گی سمجھی اس لیے کسی خوش فہمی میں مت رہنا۔۔۔۔وہ اس کو وارننگ دیتا سیگرٹ اور لائٹر اٹھا کر بالکونی میں نکل گیا۔۔۔۔۔
                پیچھے پلوہی گھٹنوں میں سر دئیے سسک اٹھی۔۔۔۔وہ تو اب سمجھی تھی کہ شاید اسکی سزا ختم ہونے جا رہی ہے مگر نہیں وہ تو پھر غلط سمجھ بیٹھی تھی شائید۔۔۔
                کوئی پوچھے ذرا ان سے کہ دل جب مرگیا ہو تو کیا تدفین جائز ہے ؟
                کوئی پوچھے ذرا ان سے محبت چھوڑ دینے پر ، دلوں کو توڑ دینے پر۔
                کوئی فتوی نہیں لگتا؟.۔
                کوئی پوچھے ذرا ان سے محبت اس کو کہتے ہیں؟ جوسب کچھ ختم کرتی ہے۔
                دلون کو بھسم کردیتی ہے۔
                اگر یہی محبت ہے..۔
                تو پھرنفرت کسے کہتے ہین۔؟؟؟
                _______________________
                بی بی جان مجھے آپ سے کچھ ضروری بات کرنی ہے۔۔۔۔پلوشہ ان کے کمرے میں موجود بات کرنے کی اجازت لے رہی تھی
                بولو بچے۔۔۔۔بی بی جان قرآن پاک کو غلاف میں لپیٹتے ہوئے بولیں
                بی بی جان میں اپنے گھروالوں سے ملنا چاہتی ہوں۔۔۔۔
                بی بی جان کو آج وہ کچھ دنون سے بدلی بدلی اور نڈر سی محسوس ہو رہی تھی مگر وہ اس وجہ کو جاننے سے قاصر تھیں۔
                بچے مجھے تو پہلے بھی کوئی اعتراض نہیں تھا اور اب بھی نہیں ہے ۔۔۔تم زریاب سے اجازت لے لو۔
                وہ نہیں دیں گے اجازت۔۔۔۔اس لیے مجھے صرف آپکی اور بابا جان کی اجازت چاہیے بس۔۔۔۔وہ دوٹوک بولی
                تم بیٹھو۔۔۔یہان۔۔بی بی جان نے اسکا انداز دیکھتے ہوئے کہا
                پلوشہ پاس پڑی چئیر پر ان کے سامنے ٹک گئی۔۔۔۔۔
                اب بولو کیا ہوا ہے۔۔۔۔۔؟؟گھروالوں سے کیوں ملنا چاہتی ہو۔اب یکدم اس طرح سے۔۔۔؟؟
                مجھے یاد آ رہی ہے سب کی۔۔۔اور بناقصور کے جتنی سزا مین بھگت چکی ہوں کافی ہے۔۔۔آپ اپنے بیٹے سے کہیں یا تو مجھے مار ہی دے یا پھر مجھے میرے گھروالوں سے ملنے کی اجازت دے۔۔۔۔
                زریاب سے کچھ جھگڑا ہوا ہے کیا۔۔۔۔۔؟؟بی بی جان تو اسکے دھیمے انداز کی قائل تھیں اور اب وہ جس انداز میں بات کر رہی تھی وہ ان کے لیے حیران کن تھا
                نہیں۔۔۔۔اس نے نفی میں سر ہلایا
                ہاتھ اٹھایا ہے اس نے تم پر۔۔۔۔۔؟؟؟
                پلوہی نے انکے صیح اندازے پر جھٹکے سے سر اٹھایا
                تمہارے گال پر نشان ہیں۔۔۔انہوں نے پلوشہ کے بولنے سے پہلے ہی نشانی بتائی
                دوبارہ وہ تم پرکبھی ہاتھ نہیں اٹھائے گا تم بے فکر ہو جاؤ۔۔۔۔انہوں نے یقین دلایا
                اونہہ۔۔۔یہ ہاتھ تو ناجانے کتنی دفعہ اٹھ چکا ہے بی بی جان آپ کو اب معلوم پڑا ہے۔۔۔پلوہی دل میں ہمکلام ہوئی۔
                بی بی جان بات ہاتھ اٹھانے کی نہیں ہے بات تو بےقصور سزا کاٹنے کی ہے۔۔۔وہ مدھم آواز میں بولی
                پلوہی بچے تم اسی علاقے کی پلی بڑھی ہو تم سے بہتر کون یہاں کے رسم و رواج جانتا ہو گا پھر آج یہ شکوہ کس بات کا۔۔۔؟؟
                بی بی جان میں اب تھک چکی ہوں۔۔۔وہ بہت مایوس آواز سے بولی
                ہمت سے کام لو بیٹا تم سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔
                نہیں ہو گا کچھ بھی ٹھیک۔۔۔جب شروع سے اب تک نہیں ہو پایا تو پھر اب کیسے ہو گا۔۔۔۔؟؟
                میں۔۔۔آپ۔۔۔ہم سب عورتیں اپنے ہی رشتوں کی خاطر سولی پر چڑھا دی جاتی ہیں اور پھر امید کی جاتی ہے کہ بے زبان جانور بن کر ہر ظلم ، ہر سزا سہتے جاؤ۔۔۔نہ پہلے کچھ بدلہ ہے اور نہ ہی اب بدلے گا
                میں بات کروں گی زریاب سے کہ تمہیں گھر والوں سے ملا لائے۔۔۔۔بی بی جان نے تسلی دی
                نہیں۔۔۔۔مجھے زریاب آفریدی کی بھیک نہیں چاہیے۔۔۔۔مجھے نہیں ملنا ہے گھروالوں سے۔۔۔۔وہ انکار کرتی روتی ہوئی باہر نکل گئی۔
                بی بی جان نے افسردہ ہو کر پاس پڑا فون اٹھایا اور مہرو کا نمبر ڈائل کیا
                _______________
                پلوہی ایسے کیوں بیٹھی ہو طبیعت ٹھیک ہے تمہاری۔۔۔۔۔۔؟؟مہرو فکرمندی سے پوچھتی اسکے سامنے آئی
                وہ دو دن پہلے ہی واپس آئی تھی۔۔۔بی بی جان نے ہی اسے واپس بلوایا تھا۔
                میں ٹھیک ہوں بھابھی۔۔پلوشہ ہلکا سا مسکرائی۔
                کیا خاک ٹھیک ہو۔۔۔۔گل بتا رہی تھی تم کھانے پینے میں بھی بلکل لاپرواہی برت رہی ہو۔
                اسی لیے تو رنگت اتنی پیلی ہوتی جا رہی ہے تمہاری۔۔۔خود کواب کیوں ایئسے سزا دے رہی ہو۔۔۔؟؟
                جب زندگی کا مقصد ہی سزا جھیلنا ہے بھابھی تو پھر پرواہ کرنے کا کیا فائدہ۔۔؟؟وہ بہت مایوسی سے بولی ۔
                پلوہی۔ زریاب کا رویہ تو شروع دن سے ہی مناسب نہیں تھا پر تم تو بہت صبر سے کام لے رہی تھی۔۔۔پھر اب ایسا کیا ہوا جو تم اتنی زیادہ مایوس ہو چکی ہو۔۔۔؟؟
                میں پہلے مایوس نہیں تھی بھابھی اسی لیے تو صبر سے برداشت کر رہی تھی سب۔۔۔۔پر اب وقت اور حالات مجھے مایوس کر چکے ہیں اسی لیے میری برداشت بھی ختم ہوتی جا رہی۔۔۔۔۔
                گھروالے بہت یاد آ رہے ہیں کیا۔۔تمہین۔۔؟؟میں زریاب سے بات کروں گی۔۔۔
                نہیں۔۔۔۔۔۔مجھے کسی کی یاد نہیں آرہی اور نہ ہی میں کسی سے ملنا چاہتی ہوں۔۔
                دیکھو پلوشہ جو بھی مسئلہ ہے مجھ سے شئیر کرو پلیز۔۔۔۔مہرو فکرمند ہوئی۔
                بھابھی مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔۔۔میں ٹھیک ہوں۔
                تم بتانا نہیں چاہتی تو اور بات ہے۔۔۔۔میں تمہیں ایسی چھوڑ کر نہیں گئی تھی جیسی تم ہو چکی ہو۔۔۔
                پلوہی اب کیا کہتی خاموشی سے سر جھکائے بیٹھی رہی
                مہرو نے اسکے جھکے سر کو دیکھ کر مزید پوچھنا مناسب نہ سمجھا۔
                اچھا میں تمہارے لیے دودھ بھجواتی ہوں پی لینا ورنہ میں خفا ہو جاؤں گی
                جی پی لوں گی۔۔۔پلوشہ اسکی پیار بھری دھمکی پر مسکرا دی۔۔
                _________________
                زریاب۔۔۔۔۔
                وہ سیڑھیوں کے پاس اپنے نام کی پکار پر مڑا۔
                کہاں تھے تم اب تک۔۔۔؟؟ جانتے ہو بی بی جان کتنی دفعہ پوچھ چکی ہیں تمہارا۔۔۔مہرو نے فکرمندی سے پوچھا۔
                مل آیا ہوں بی بی جان سے۔۔۔۔
                کھانا کھایا۔۔۔۔۔؟
                ابھی تو آیا ہوں۔اور۔۔آپ نے انویسٹی گیشن یہین پر سے شروع کر دی۔
                اچھا فریش ہو کر آ جاؤ تم میں لگاتی ہوں کھانا۔۔۔
                ابھی آیا۔۔۔۔۔وہ کہتا ہوا سیڑھیاں چڑھ گیا
                کمرے میں داخل ہوتے ہی زریاب کی نظر سامنے جائے نماز پر سجدے کی حالت میں جھکی پلوہی پر پڑی۔۔۔
                وہ سر جھٹکتا واش روم چلا گیا
                پندرہ ، بیس منٹ بعد جب وہ بالوں میں ٹاول رگڑتا باہر نکلا تو پلوشہ ابھی بھی اسی حالت میں تھی
                زریاب نے آئینے کے سامنے ھی کھڑے ہو کر بال بنائے اور جان بوجھ کربرش زور سے ڈریسنگ ٹیبل پر پھینکا۔۔۔۔
                مگر اس کھٹکے پر بھی پلوہی ٹس سے مس نہ ہوئی
                وہ مشکوک ہوتا ہوا فورا اسکی طرف بڑھ آیا۔
                پلوشہ۔۔اس وے۔۔پکارا مگر پلوہی نے کوئی جواب نہ دیا
                زریاب نے فکرمندی سے زمین پر بیٹھ کرفورا ہی پلوشہ کا کندھا ہلایا۔
                مگر اس ذرا سے ہی جھٹکے پر پلوشہ زریاب کی طرف بے جان مورت کی طرح لڑھکتی چلی آئی۔
                اور کمرے کے گہرے سکوت مین زریاب کی تیز چیخ نما آواز گونج اٹھی۔
                پلوہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟۔
                زریاب کبھی پلوشہ کے بے حرکت جسم کو دیکھتا۔تو کبھی پریشانی اور بدحواسی سے پلوہی کی کلائی پکڑ کر نبض ڈھونڈ رہا تھا تو کبھی پلوشہ کے مکھڑے پر ہاتھ رکھے سانسون کی آمدورفت تلاش کرتا۔
                پھر ہر طرف سے مایوس ہونے پر اچانک بھرائی ہوئی تیز آواز سے پکار اُٹھا۔
                بھابھی۔؟؟۔
                Vist My Thread View My Posts
                you will never a disappointed

                Comment


                • #9
                  Zabardast
                  Kamal ki story hai, suspence se bharpur.

                  Comment


                  • #10
                    قفس ۔کی ۔چڑیا۔
                    پپ پلوشہ۔۔۔۔۔پلوہی۔۔پلیززز۔۔۔ آنکھیں کھولو۔۔۔۔۔پلوہی کیا ہوا ہے آنکھیں کھولو پلیز۔۔۔۔۔وہ پلوشہ پرجھکا اسکے گالون کو تھپتھپا رہا تھا۔تو کبھی معدوم ہوتی سانسین دیکھتا اور ساتھ پلوہی کی کلائی پکڑ کر نبض کو تلاش کرنے کی کوشش کرنے لگ پڑتا۔
                    ٹینشین پریشانی اور گبھراہٹ مین زریاب خان کوکچھ سمجھ نہین آرہا تھا کہ وہ کر کیا رہا ہے؟؟۔
                    پھر اچانک سے وہ گبھرا کر چلا اٹھا۔
                    بھابھی۔بھابھی؟؟۔۔۔
                    کیا ہوا ہے پلوہی کو۔۔۔۔۔مہرو چند ہی لمحون کے بعد دروازے سے بھاگتی ہوئی کمرے کے اندر چلی آئی۔
                    وہ اتنی دیر انتظار کرنےکے بعد زریاب کو بلانے آرہی تھی کہ روم کے قریب پہنچنے پر جب کمرے کے ادھ کھلے دروازے سے زریاب کی پکار کے ساتھ اس نے پلوشہ کو گرے ہوئے دیکھ لیا ۔
                    پتہ نہیں بھابھی۔۔۔میں جب آیا تو یہ اس طرح سے سجدے کی حالت میں تھی اور اب میرے ہلانے سے بھی۔۔۔۔
                    پلوہی چندا آنکھیں کھولو نا۔۔۔۔۔پلوہی۔میرری جان۔۔۔اٹھو نامہرو اسکے ہاتھ سہلاتی ہوئی پکارے جا رہی تھی۔
                    زریاب ہمیں اسے ہوسپٹل لے جانا چاہیے۔۔۔۔۔جلدی کرو۔۔۔۔پتہ نہیں یہ کیوں ایئسے بے ہوش ہوگئی ہے
                    جی۔۔۔۔زریاب نے سر ہلاتے ہوئے جھک کر پلوشہ کا وجود بازؤں میں بھرا اور باہر کی جانب چل پڑا۔۔۔
                    تم گاڑی تک لے جاؤ میں چادر لے کر آتی ہوں۔۔۔۔مہرو کہتی جلدی سے اپنے کمرے کی طرف بھاگی
                    چند منٹ بعد زریاب اور مہرو پلوشہ کے بے ہوش وجود کو لیے ہوسپٹل جا رہے تھے۔
                    ______________
                    مسز سہراب۔۔۔۔۔۔پیشنٹ سے کیا رشتہ ہے آپ کا۔۔۔۔۔۔؟؟؟ ڈاکٹر رضیہ نے مہرو سے پوچھا وہ مہرو کو جانتی تھی کیونکہ ان کے گاؤں سے دو میل کے فاصلے پر واقع ہوسپٹل کی یہ جدید خوبصورت سی عمارت سہراب آفریدی اور خاقان آفریدی کی ہی محنتوں کا ثمر تھی۔
                    یہہ میری۔۔۔۔۔میری دیورانی ہے۔۔۔۔مہرو نے ایک نظر پاس کھڑے زریاب پر ڈال کر اصل رشتہ بتایا۔
                    ہوں۔۔۔تو۔۔کب سے ہوئی ہے ان کی شادی۔۔۔۔؟؟؟
                    آپ یہ بتائیں کے پیشنٹ کی کنڈیشن کیسی ہے۔۔۔۔اس کا بائیوڈیٹا جان کر کیا کریں گی آپ۔۔۔۔زریاب ہائپر ہوا۔
                    تم چپ رہو زریاب۔۔۔۔۔۔
                    اٹس اوکے مسز سہراب میں ان کے مزاج کو جانتی ہوں اکثر یہاں کا اسٹاف ان کے غصے سے فیض یاب ہوتا رہتا ہے۔۔۔۔ڈاکٹر رضیہ نے مسکرا کر کہتے ہوئے ان دونوں کو اپنے ساتھ اپنے کمرے میں آنے کا کہا
                    پلیز ہیو آ سیٹ۔۔۔۔۔۔وہ مسکرا کر بولیں
                    زریاب بمشکل اپنا غصہ ضبط کرتا ہوا چئیر گھسیٹ کر بیٹھ گیا۔
                    مہرو اس کے سرخ ہوتے چہرے سے اسکا اُمڈتا غصہ بھانپ گئی تھی۔۔۔۔
                    پلیزز ڈاکٹر رضیہ بتائیں پلوشہ کیسی ہے اب۔۔۔۔۔؟؟؟
                    شی از فائن ناؤ۔۔۔۔۔
                    ہوا کیا تھا۔اس کو۔۔۔۔؟؟؟؟ اچانک سے کیسے بے ہوش ہو گئی۔
                    اس کنڈیشن میں ایسا ہو جاتا ہے مسز سہراب آپ تو خود ایک ماں ہیں۔۔۔۔۔ڈاکٹر رضیہ مسکرا کر بولیں
                    کیسی کنڈیشن۔۔۔۔۔میں سمجھی نہیں۔۔۔۔؟؟؟
                    ڈاکٹر نے پہلے ایک نظر زریاب کو دیکھا جو ٹکٹکی سے سامنے لگے وال کلاک کو ہی گھور رہا تھا۔
                    شی ہیز ٹو منتھس پریگنیٹ ہیو؟۔۔۔۔
                    جی۔۔۔۔؟؟؟ مہرو اس خبر پر شاکڈ ہوئی
                    آپ نہین جانتی کیا۔۔؟؟؟
                    نن۔۔۔۔۔نہیں ایسی بات نہیں وہ ایکچولی میں اپنے پیرنٹس کی طرف تھی تبھی یہ خوشخبری ملی تھی۔۔۔۔مہرو نے بروقت بات کو سنبھال لیا۔
                    اوہ۔۔۔۔۔اوکے۔۔۔۔ڈاکٹر رضیہ ہونٹ سکیڑ کر مسکرائیں ۔
                    بٹ ہر کنڈیشن از ٹو مچ کریٹیکل۔۔۔۔۔ان کی ڈائیٹ کا خاص خیال رکھیں۔۔۔۔کافی ویکنیس ہے جسکی وجہ سے وہ بے ہوش ہو گئیں تھیں
                    میں میڈیسن لکھ رہی ہوں۔۔۔باقاعدگی سے میڈیسن دیں کھانے پینے کا پراپر خیال کریں اور دس ، پندرہ دن کی سپیس سے چیک اپ کرواتیں رہیں۔۔۔۔۔
                    جی۔۔۔۔۔ہم گھر لے جا سکتے ہیں اب انہین۔۔؟؟ مہرو نے اجازت مانگی
                    جی۔۔۔۔۔بلکل۔۔۔۔
                    اوکے تھینکس۔۔۔۔۔مہرو نے ڈاکٹر رضیہ سے ہاتھ ملایا اور زریاب کی طرف مڑی۔
                    زریاب اسکے مڑنے سے پہلے ہی کمرے سے نکل چکا تھا۔
                    پھر واپسی کا سارا راستہ خاموشی سے کٹا تھا۔۔۔۔
                    ______________
                    تم پلوہی کو کمرے میں لے جاؤ میں اس کے کھانے کوکچھ لاتی ہوں۔۔۔۔ مہرو نے سیڑھیوں کے پاس پلوہی کے گرد سے بازو ہٹا کر زریاب سے کہا
                    اسکی ٹانگیں سلامت ہیں خود چل کر جا سکتی ہے یہ۔۔۔۔وہ پھنکار کر کہتا ہوا سیڑھیاں چڑھ گیا۔
                    مہرو ایک ملامتی نظر اس پر ڈال کر پلوہی کو پکڑے آگے بڑھی۔
                    بھابھی مجھے کوئی اور کمرہ مل سکتا ہے کیا۔۔۔۔؟؟؟؟ یا پھر ایسا کریں مجھے بیسمنٹ میں ہی چھوڑ آئیں میں وہاں سکون میں رہوں گی۔۔۔۔
                    اس حویلی میں بہت سے کمرے ہیں پلوشہ تم کسی کمرے میں بھی ٹہرسکتی ہو مگرزریاب کے کمرے میں۔۔۔۔۔
                    نہیں میں نہیں جاؤں گی۔۔۔۔پلوہی نے تیزی سے نفی میں سر ہلایا
                    اچھا ٹھیک ہے تم میرے ساتھ میرے کمرے میں چلو کل اپنی مرضی سے کوئی بھی کمرہ سیٹ کروا لینا ہوں۔۔۔۔وہ پلوشہ کی حالت کے پیش نظر فورا سے بولی۔
                    جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
                    پھر مہرو اسے لیے اپنے کمرے میں چلی آئی۔
                    تم بیٹھو میں تمہارے لیے کھانے کو کچھ لاتی ہوں
                    مجھے ذرا بھی بھوک نہیں ہے بھابھی۔۔۔۔
                    چپ رہو تم۔۔۔۔اب میں تمہاری ایک بھی سننے والی نہیں۔۔۔۔مہرو ڈپٹتی کمرے سے نکل گئی
                    پلوشہ نے ڈھیلے سے انداز میں گردن صوفے کی پشت سے ٹکا کر آنکھیں موند لیں۔۔۔۔
                    کئی آنسو لڑیوں کی صورت میں آنکھوں سے نکل کر اسکی گالوں کو بھگو گئے
                    کب تک۔۔۔۔کب تک چلے گا یہ سب۔۔۔؟؟ پہلے تو میں اکیلی تھی مگر اب۔۔۔۔۔۔۔
                    میرے مالک میں کیا کروں۔۔۔۔؟؟میری سزا کب ختم ہو گی۔۔۔۔؟؟ کیا ساری زندگی مجھے اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا جھیلنی ہو گی؟؟۔۔۔۔نہیں میرے مالک۔۔۔۔نہیں۔۔۔مجھ میں اب مزید سکت باقی نہیں رہی ہے۔۔۔۔مجھے معاف کر دے میرے مالک معاف کر دے۔۔۔۔۔۔
                    پلوہی سو گئی کیا۔۔۔۔۔؟؟مہرو نے ٹرے ٹیبل پر رکھتے ہوئے پوچھا
                    وہ جلدی سے آنسو پونچھ کر سیدھی ہوئی۔۔۔نہیں جاگ رہی ہوں۔۔۔۔بھابھی۔۔
                    چلو پھر جلدی سے یہ سب ختم کرو اور میڈیسن لے کر آرام کرو
                    مہرو نے پاس بیٹھ کر زبردستی اسے تھوڑا بہت کھانا کھلا کر میڈیسن دی اور بیڈ پر لیٹا کر کمبل اوڑھایا
                    پلوشہ نے تشکرانہ نظروں سے مہرو کو دیکھا اور آنکھیں بند کر لیں۔
                    کبھی کبھی انسان واقعی مین ہار جاتا ہے۔۔
                    ارےے انسان واقعی خود سے ہار جاتا ہے۔
                    ہردم خاموش رہتے رہتے۔۔۔
                    صبر و برداشت کرتے کرتے۔
                    پے جا امیدیں رکھتے رکھتے۔
                    رشتے ناتون کو نبھاتے نبھاتے۔
                    ہر وقت صفائیاں دیتے دیتے۔
                    روٹھے ہوئے کو مناتے مناتے۔
                    پھر کبھی کبھی قسمت خود سے۔
                    روٹھ جاتی ہے۔
                    _____________________
                    بھابھی لائیں یہ میں کرتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔پلوشہ نے کچن میں چائے بناتی مہرو سے ساس پین پکڑا۔
                    ارے نہیں تم ریسٹ کرونا جا کر یہ سب ہو جائے گا۔
                    میں بہت ریسٹ کر چکی ہوں اس لیے مجھے بنانے دیں چائے اور آپ لان میں چلیں میں چائے لے کر وہیں آتی ہوں۔
                    چلو ٹھیک ہے بناؤ تم میں چلی جاتی ہوں۔۔۔مہرو مسکراتی ہوئی باہر نکل گئی۔
                    کچھ دیر بعد پلوہی بھی چائے کی ٹرےلیے لان میں آئی
                    آجکل موسم کافی اچھا ہے ناں۔۔۔۔مہرو نے اردگرد دیکھتے ہوئے پلوشہ کی رائے لی۔
                    ہوں اچھا ہے۔۔۔۔وہ اپنا کپ لیے چئیر پر جا بیٹھی۔
                    جھیل والی سائیڈ پر گئی ہو تم کبھی۔۔۔۔چند منٹ کی خاموشی کے بعد مہرو نےپلوہی سےپوچھ لیا۔
                    ہان بھابھی کئی بار۔۔۔۔
                    اب بھی وہان جانے کو دل کرتا ہے کیا۔۔۔۔۔؟؟؟
                    نہیں۔۔۔۔۔۔ پلوشہ نے نفی میں گردن ہلائی
                    کیون۔۔۔۔؟؟؟
                    اگر انسان اندر سے خوش اور مطمعن ہو تو سب کچھ کرنے کو دل چاہتا ہے ورنہ نہیں۔۔۔
                    پلوہی ۔۔۔۔۔زریاب۔۔۔۔
                    بھابھی پلیز مجھے ان کے بارے میں کوئی بات نہیں کرنی۔
                    کیوں نہیں کرنی ہے پلوشہ۔۔۔۔زریاب ناصرف تمہارا شوہر ہے بلکہ اب تو وہ تمہارے بچے کا باپ بھی بننے والا ہے۔
                    اس سے کیا ہو گا۔۔۔۔جب انہیں میرے وجود سے سروکار نہیں تو پھر اس بچے سے کیا ہو گا جو صرف ایک لمحاتی غلطی کا نتیجہ ہے۔۔۔
                    ایسے مت کہو پلوشہ۔۔۔۔میں مانتی ہوں زریاب غلط کر رہا ہے تمہارے ساتھ مگر تم اسکی بیوی ہو اسکی نسل کی امین ہو۔۔۔۔پھر کیسے اسے تم سے یا اس بچے سے کوئی سروکار نہیں۔۔۔۔۔اچھا ایک بات تم سے پوچھوں سچ سچ بتاؤ گی ناں بڑی بہن سمجھ کر۔۔۔۔۔؟؟؟
                    جی۔۔۔پوچھین۔۔۔ بھابھی۔۔
                    تم زریاب کو پہلےسے ہی جانتی تھی نا میرا مطلب ہے نکاح سے پہلے۔۔۔۔؟؟
                    آپ سے کس نے کہا کہ میں انکو جانتی ہوں۔۔۔پلوشہ نے سوالیہ نظروں سے بہت حیرانگی سے مہرو کو دیکھا۔
                    زریاب نے۔۔۔۔۔۔۔
                    زریاب۔۔۔۔۔۔زریاب خان نے کیا۔۔۔۔۔؟؟؟؟وہ حیران ہوئی
                    ہون۔۔۔ اسی نے بتایا۔۔۔۔
                    کب۔۔۔۔ کہان۔۔۔؟؟
                    جھیل کے پاس۔۔۔
                    پلوشہ منہ کھولے ساکت تھی۔۔۔۔۔تو کیا اس شخص کو وہ سرسری سی ملاقات ابھی تک یاد تھی۔۔۔
                    کیا ہوا۔۔۔۔کچھ غلط کہا میں نے۔۔۔۔؟؟؟مہرو اسکی شکل دیکھ کر بولی
                    ہوں۔۔۔۔۔نن۔۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔اصل میں وہ۔۔۔۔پلوشہ کچھ گڑ بڑا سی گئی تھی۔
                    پلوہی میں تمہیں چھ سال پہلے سے جانتی ہوں جب تم پہلی بار زریاب خان آفریدی سے ملی تھی۔۔۔۔
                    پلوشہ نے حیرت سے مہرو کو دیکھا
                    اصل میں زریاب نے تمہارے بارے میں مجھے سب کچھ بتا دیا تھا۔۔۔۔۔وہ اس ملاقات کے بعد کئی بار وہاں جھیل کے پاس تم سے ملنے کی امید لیے گیا تھا مگر تم اسے دوبارہ نہیں ملی۔۔۔۔۔۔زریاب ان دنوں اسلام آبادمیں پڑھ رہا تھا اوروہان سے چھٹیوں پر آیا تھا جب تم اسے ملی پھر ہر بار وہ جب بھی چھٹیوں پر آتا تو جھیل کنارے ضرور جاتا تھا۔۔۔۔مگر تم نے دوبارہ اسے نہیں ملنا تھا سو نہی ملی۔۔۔
                    وقت کے ساتھ ساتھ یہ بات ماضی کا حصہ بن گئی۔۔۔۔میں نے بھی پھر دوبارہ کبھی زریاب خان سےتمہارے بارے میں نہیں پوچھا۔۔۔۔کیونکہ حدید کے آنے سے میں بھی کافی سے زیادہ مصروف ہو چکی تھی اور سچ پوچھو تو میں اس بات کو بھول ہی چکی تھی۔۔۔۔
                    جس روز تم پنچائیت سے آئی تھی اس روز مجھے تمہارے نام کو سن کر شاک لگا تھا۔۔۔۔کیونکہ زریاب کو جو لڑکی چھ سال پہلے ملی تھی جسے وہ پسند کرنے لگا تھا اس کا نام بھی پلوہی دلاور خان تھا۔۔۔۔
                    تب۔۔۔۔تب میں نے زریاب سے ہی کنفرم کیا کہ کیا تم وہی پلوہی ہو جو اس کو جھیل پر ہی ملی تھی۔۔۔۔؟؟
                    اس کے اقرار کے بعد میرے دل میں تمہارے لیے جو تھوڑا بہت میل تھا وہ بھی ختم ہو چکا تھا۔۔۔اور یقین مانو پلوہی جہاں تک میرا خیال ہے زریاب تم پر صرف ظاہری غصہ کرتا ہے اندر سے وہ ابھی بھی۔۔۔۔۔
                    بھابھی۔۔۔زریاب کی بھاری آواز پر جہاں مہرو کو بریک لگا وہاں پلوشہ بھی کھلا منہ بند کرتی سر جھکا گئی۔
                    زر۔۔زریاب۔۔۔تم۔۔؟
                    جی میں۔۔۔۔کونسی کہانیاں سنا کر دل بہلا رہی ہیں۔۔۔اس کا۔۔۔وہ طنز کرتا پلوہی کی طرف چلا آیا۔
                    اور تم۔۔۔۔تم اپنی یہ معصوم سی روتی شکل بنا کر سب کی ہمدریاں سمیٹ کر انہین میرے خلاف کر دو گی تو یہ سراسربھول ہو گئی تمہاری۔۔۔۔۔
                    زریاب چپ ہو جاؤ تم۔۔۔۔یوں چیخ چلا کر اپنا غصہ پلوہی پر نکال کر کس کو دھوکا دے رہے ہوخود کو ،پلوشہ کو یا ہم سب کو۔۔۔۔مان کیوں نہیں لیتے کہ پلوہی تو آج بھی تمہارے دل میں۔۔۔۔
                    بسسسس۔۔بھابھی۔۔۔اس سے آگے کچھ نہیں۔۔۔۔زریاب نے ہاتھ اٹھا کر مہرو کی بات کاٹی۔
                    میرے دل میں آپ کی یہ پلوہی نہ کبھی تھی اور نہ ہی کبھی ہو گی غور سے سن لین آپ دونون ہی۔
                    اس لیے ان باتوں سے اسکا جی مت بہلائیں کیونکہ میں اب اسے۔۔۔۔۔۔
                    خان جی وہ بڑے خان مردانے میں۔۔۔۔
                    زریاب کی ایک خونخوار نظر نے سکینہ کی بولتی بند کردی وہ جانتی تھی وہ کیا کر چکی ہے۔۔۔۔
                    سکینہ اگر دوبارہ ایسی غلطی ہوئی تو۔۔۔
                    نن۔۔۔۔۔نہیں خان جی۔۔۔۔۔دوبارہ نہیں ہو گی۔کبھی نہین۔۔۔
                    وہ ایک تیکھی نظر اس پر ڈالتا مردانے کی طرف بڑھ گیا۔
                    کتنی دفعہ کہا ہے سکینہ کے جب وہ بات کر رہا ہو تو بیچ میں مت کاٹا کرو جانتی تو ہو اس کے مزاج کو مگر نہیں بے عزتی کروانے کی عادت جو پڑ چکی ہے تمہیں۔۔۔۔۔مہرو نے بھی اسے ڈپٹا۔
                    معاف کر دیں۔۔مہرو باجی آئندہ سے نہیں ہو گی۔
                    اچھا ٹھیک ہے جاؤ۔۔۔۔۔سکینہ جان بخشی پر اندر کی طرف بھاگ گئی۔
                    مہرو نے پلوشہ کا کندھا ہلایا۔۔۔۔پلوہی اسکی باتوں کو دل پر مت لو ایسے ہی جو منہ میں آتا ہے بول دیتا ہے۔اور تم چلو ذرا میرے ساتھ بی بی جان کے کمرے میں ۔۔۔
                    آپ چلیں میں آتی ہوں۔۔۔پلوہی مدھم سا منمنائی۔
                    نہیں میرے ساتھ ہی چلو میں نے انہیں کچھ دیر پہلے ہی خوشخبری سنائی تھی تمہارا پوچھ رہی تھیں چلو چل کر ان سے نصیحتیں اور دعائیں لے لو۔۔۔۔مہرو نے ٹہوکا دیا
                    ہوں چلیں۔۔۔۔۔وہ بھی کھڑی ہوئی۔
                    پھر دونوں ہی آگے پیچھے ایک ساتھ بی بی جان کے کمرے کیطرف چلی گئیں۔
                    _____________ ____
                    مہرو عشاء کی نماز پڑھ کر ہٹی تھی جب گل اجازت مانگتی اندر داخل ہوئی
                    مہرو باجی۔۔۔۔۔۔پلوشہ بی بی کو چھوٹے خان صاحب بلا رہے ہیں۔۔۔
                    پیغام پر پلوہی کا میگزین کا صفحہ پلٹتا ہاتھ ایک لمحے کو ساکت ہوا
                    مہرو نے ایک نظر اسے دیکھ کر گل کو اچھا کہہ کر رخصت کیا اور خود پلوہی کی طرف آئی
                    پلوشہ چندا جاؤ ۔۔۔۔۔زریاب بلا رہا ہے۔
                    مم۔میں۔۔۔۔میں نہیں جاؤں گی بھابھی۔
                    دیکھو پلوہی جان تم اسکی بیوی ہو حویلی میں سب کو پتہ چل چکا ہے کہ تم زریاب کے بچے کی ماں بننے والی ہو۔۔۔پھر یوں اس طرح کمرہ الگ کر کے کیوں دوسروں کوباتوں کاموقع دے رہی ہو۔۔۔
                    یوں کہیں بھابھی کہ دو دن میں ہی اکتا گئیں ہیں مجھ سے۔۔۔وہ روہانسی ہوئی
                    تم ایسا سمجھ رہی ہو تو میں تمہاری بات کو جھٹلاؤں گی نہیں۔۔۔۔۔کیونکہ میں وہ سوچ رہی ہوں جو ابھی تم دونوں ہی نہیں سوچ اور سمجھ پا رہے۔۔۔۔
                    ٹھیک ہے بھابھی میں جا رہی ہوں۔۔۔پلوشہ کمبل ہٹا کر کھڑی ہوئی
                    چندا مجھ سے خفا ہو کر جاری ہو۔۔؟؟
                    نہین۔۔۔۔بھابھی۔۔
                    تو پھر رونی صورت کیوں بنا رکھی ہے۔۔۔۔۔مہرو اسکے پاس آ کر مسکرائی۔
                    میری صورت ہی اب ایئسی ہے تو۔۔۔
                    ایویں۔۔۔۔تمہاری صورت تو اتنی پیاری ہے کہ جسکی صرف آنکھوں کو دیکھ کر ہی زریاب خان آفریدی عرف کھڑوس مر مٹا تھا۔۔۔۔
                    پلوہی لفظ کھڑوس پر کھلکھلا اٹھی
                    ارےےیہ ہوئی ناں بات یوں ہی ہنستی رہا کرو۔۔۔۔
                    عنقریب وہ پھر سے تمہارے قدموں میں ہو گا بچے۔۔۔۔۔مہرو نے اسکے سر پر ہاتھ رکھے بنگالی بابا کی نقل اتاری۔
                    بھابھی۔۔۔۔
                    سوچو ذرا زریاب۔۔۔۔خان۔۔۔۔۔آفریدی تمہارے قدموں میں کیسا لگے گا۔۔۔۔؟؟؟ مہرو نے شرارت سے آنکھ دبائی۔
                    بھابھھھیییی۔۔۔۔۔۔۔
                    ہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔
                    چلو جاؤ اب رب راکھا کہیں وہ ادھر محترم بندوق لے کے ہی نہ تمہیں مجھ سے رخصت کروانے آ جائیں۔
                    پلوہی اسکی بات پر مسکراتی ہوئی کمرے سے نکل گئی۔
                    پلوشہ جیسے ہی کمرے میں داخل ہوئی اسکی نظر سامنے کھڑے زریاب پر پڑی جو ماتھے پر تیوری چڑھائےاسے ہی دیکھ بلکہ گھور رہا تھا۔
                    جی أپ نے۔۔۔۔ بلایا۔۔۔۔؟؟؟وہ سر جھکائے مضبوط قدم بڑھاتی قریب آئی۔
                    تمہارا کمرہ کونسا ہے۔۔۔۔؟؟؟تیکھے انداز میں پوچھا گیا۔
                    پتہ نہین۔۔۔۔۔
                    تو پھر کسے پتہ ہے۔۔۔۔؟؟؟تیوری مزید چڑھی۔۔۔
                    آپ کو۔۔۔۔۔
                    مجھے۔۔۔۔۔وہ استہزایا ہنسا
                    آج کے بعد اگریہ ڈرامہ رچایا تو بلکل بھی اچھا نہیں کروں گا میں۔۔۔
                    پہلے آپ کونسا اچھا کر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔وہ دل میں بڑبڑائی
                    سن رہی ہو میری بات۔۔۔۔
                    جی۔۔۔۔۔۔پلوشہ نے سر ہلا دیا
                    عمل بھی ہونا چاہیے۔۔۔۔۔اور ہاں بی بی جان کو میرے ہاتھ کو اٹھانے کا تم نے بتایا تھا۔۔۔؟؟؟زریاب نے اسے بازو سے کھینچ کر قریب کیا۔
                    نن۔۔۔۔نہیں۔۔ تو۔۔پلوہی نے اسکی آنکھوں میں دیکھ کر جھرجھری لی۔۔۔جو بے انتہا سرخ تھیں۔
                    وہ خوف کے باعث چند سکینڈ سے زیادہ اسکی لال انگارہ آنکھوں میں نہیں دیکھ پائی تھی۔۔۔
                    تو پھر انہیں خواب آیا کہ میں نے تم پر ہاتھ اٹھایا تھا۔۔۔زریاب بلند آواز میں بولا۔
                    مم۔۔۔۔میں نے نہیں بتایا خان۔۔۔۔وہ تو انہوں نے گال پر نشان دیکھ لیے تھے تو۔۔۔۔۔۔وہ ہلکا ہلکا لرزتی بولی۔
                    زریاب نے ایک سرسری نظر اس کے گالوں پرڈالی اورجھٹک کر اسے پیچھے دھکیلا۔
                    پلوشہ اس جھٹکے کے لیے تیار نہ تھی اس لیے پیچھے کو الٹے منہ زمین پر ثا گری۔
                    اماں۔۔۔۔ں۔۔۔۔۔ں۔۔۔۔۔ں۔۔۔۔اسکے منہ سے تیز چیخ بلند ہوئی۔
                    زریاب نے ہر گز بھی نہیں سوچا تھا کہ وہ اتنے ہلکے سے جھٹکے پر اتنی بری طرح سے جا گرے گی۔
                    پلوشہ۔۔۔۔واٹ ہیپنڈ۔۔۔۔تم۔۔۔۔۔تم ٹھیک تو ہو ناں پلوہی۔۔۔۔۔۔۔وہ اس پر تیزی سے جھکا پیقراری سے پوچھ رہا تھا۔
                    پلوہی پے پناہ تکلیف کی وجہ سےبمشکل صرف نفی میں سر ہلا پائی
                    کیا ہوا۔۔۔بھابھی۔۔۔۔۔بھابھی۔۔۔۔۔وہ پلوہی کا سر گود میں رکھے مہرو کو پکار رہا تھا۔
                    خا۔۔۔۔۔خان۔۔پلیززززز۔۔ہو۔۔۔۔۔سپٹل۔۔۔۔۔وہ گھٹی گھٹی آواز میں بمشکل اتنا ہی کہہ پائی
                    زریاب اسکے منہ سے لفظ ہوسپٹل سنتا جلدی سے اسے بازؤں میں اٹھائے نیچے کی طرف بھاگا۔
                    _________. . . ___. . . ___
                    سوری خان صاحب ہم کوشش کے باوجود کچھ نہیں کر پائے
                    آپکی مسز کا مس کیرج ہو گیا ہے۔۔۔۔ڈاکٹر رضیہ نے افسردہ انداز میں خبر سنائی۔
                    دھڑام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
                    دھڑام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دھڑام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
                    زریب خان آفریدی اپنی بنائی گئی اونچائی سے منہ کہ بل دھڑام سے گرا تھا
                    پلوشہ کیسی ہے۔۔۔۔۔؟؟؟ وہ اتنی مدھم آواز سے بولا کہ ڈاکٹر بمشکل سن پائیں۔
                    ٹھیک ہیں مگر فلحال غنودگی میں ہیں آپ مل سکتے ہیں۔۔۔۔روم میں شفٹ کر دیا ہے۔۔۔۔
                    جی۔۔۔۔۔۔وہ سر ہلا کر کہتا ہوا اپنےبھاری قدم بمشکل گھسیٹتا پھر پلوہی کے کمرے کی طرف بڑھنے لگا۔۔۔
                    یہ کیا کر دیا زریاب خان تم نے۔۔۔۔؟؟اپنی ہی اولاد کو اپنے ہاتھوں ختم کر دیا۔۔۔۔ کیا اب اسکا انتقام خود سے لو گے جیسے شمس کا انتقام پلوہی سے لیتے رہے ہو۔۔۔۔؟؟وہ تو بےقصور تھی بیچاری۔۔۔۔ مگر تم۔۔۔تم تو انجانے میں ہی سہی پر قصوروار بن چکے ہو زریاب خان۔۔۔اپنی ہی اولاد کو کھا گئے ہو تم۔۔۔انسان ہو یا پھر درندے جو اپنی ہی اولاد کو نوچ گھوسٹ لیتے ہیں۔۔۔۔۔۔؟؟بولو کیا ہو تم۔۔۔۔۔۔؟؟اسکا ضمیر کھینچ کھینچ کے طمانچے مارتا اسے آئینہ دیکھا رہا تھا۔
                    زریاب خان اب کیا کرو گے خود کیساتھ۔۔۔۔؟؟؟کیا وہی مار پیٹ وہی لعن طعن کرو گے خود کیساتھ جو پلوشہ کیساتھ کر چکے ہو اسکی سزا کے طور پر۔۔۔۔؟؟
                    نہیں۔۔۔۔۔
                    اسکا ضمیر استہزائیہ ہنسا۔۔۔۔تم خود کیساتھ ایسا کچھ کیوں کرو گے بھلا مرد جو ٹہرے اور وہ ٹہری ایک عورت۔۔۔۔۔
                    جس کی پرواہ کیے بغیر تم نے اس سے ناروا سلوک روائے رکھا۔۔۔۔جسے وہ زبان بند کیے سہتی رہی سہتی رہی۔۔۔۔تمہیں پروا ہی کب تھی اسکی یہ جو اب اس طرح تمہاری شکل اتری ہے۔۔۔تمہاری آنکھوں میں نمی ہے تو یہ پچھتاوا ہے تمہارا اپنی اولاد کھونے کا نہ کے پلوشہ کے ساتھ برے رویے کا۔۔۔
                    نن۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔میں پلوہی سے۔۔۔۔۔زریاب تڑپ کے بڑبڑایا
                    کیا۔۔۔۔؟؟کیا پلوہی سے۔۔۔۔۔؟؟
                    میں محبت کرتا ہوں اس سے۔۔۔۔وہ وہیں پیلر سے ٹیک لگا کر زمین پر بیٹھ گیا
                    اونہہ۔۔۔۔محبت۔۔۔۔اسے محبت کہتے ہیں تو پھر نفرت کسے کہتے ہیں زریاب خان۔۔۔۔۔؟؟
                    پھرچند منٹ دونوں کے درمیان خاموشی چھائی رہی۔
                    بولو اب چپ کیوں ہو گئے۔۔۔۔؟؟
                    اپنی بکواس بندکرو۔میں پلوشہ سے محبت کرتا ہوں۔۔۔کرتا تھا۔۔۔کرتا رہوں گا سمجھےتم۔۔۔زریاب گھٹنوں سے سر اٹھا کر باآواز بلند چلایا۔
                    وہاں سے گزرتے سویپر نے رک کر حیرت سے زریاب خان کو زمین پر بیٹھے اکیلے ہی چلاتے دیکھا۔۔
                    زریاب اسکی نظروں میں موجود حیرت اور تجسس دیکھ کر خود کو کوستا اٹھ کر پلوہی کے روم کی طرف چلا گیا۔۔۔مگر قدم اب بھی کہیں کے کہیں پڑ رہے تھے۔۔۔وہ بمشکل خود کو گھسیٹ کر کمرے میں داخل ہوا ۔
                    پلوشہ بیڈ پر ہوش خرد سے بیگانہ پڑی تھی۔۔۔ایک ہاتھ میں ڈرپ لگی ہوئی تھی جبکہ دوسرا اسٹریچر سےنیچے کو لٹک رہا تھا ۔
                    زریاب آہستگی سے چلتا پاس آیا اور پلوہی کے لٹکتے ہاتھ کو بیڈ پر رکھا۔
                    یہ۔۔۔یہ پلوہی تو وہ پلوہی نہ تھی جس نے پہلی ملاقات میں ہی زریاب آفریدی کے دل کو گدگدایا تھا۔۔۔۔۔جسے دیکھ کر زریاب کو پھر سے اسے دیکھنے کی چاہ ہوئی تھی۔۔۔۔ جسکی ایک جھلک کی خاطر وہ کئی بار جھیل پر گیا تھا۔۔۔۔۔جس کی شبیہہ زریاب کے دل میں دھندلی ضرور ہو گئی تھی مگر مٹی نہیں تھی۔۔۔
                    یہ تو کوئی اور ہی پلوشہ تھی جو صدیوں کی بیمار لگ رہی تھی۔۔۔۔۔پیلی رنگت ، آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے، سوکھے پھٹک ہونٹ۔۔۔کمزور و لاغر سی۔انتہائی لاچار۔۔۔
                    زریاب کو یاد آیا جب وہ اسے تہہ خانے سے نکال کر کمرے میں لایا تھا تو رات کو وہ اندھیرے میں زمین پر اوندھے منہ گری تھی۔۔۔۔اور زریاب نے اسکی بھری بھری ہیلتھی جسامت پر چوٹ کی تھی اور کرین منگوانے کا مشورہ دیا تھا اور اب۔۔۔۔اب تو وہ اس پلوہی سے آدھی رہ چکی تھی۔۔۔۔۔
                    زریاب کے دل کو کسی نے مٹھی میں جکڑا۔۔۔
                    میں انتقام میں اتنا اندھا ہو چکا تھا کہ بنا جرم کے تمہیں سزا دی۔۔۔۔میں اتنا گر گیا تھا کہ میں نےتم پر ہاتھ اٹھایا۔۔تمہاری ان آنکھوں میں آنسو لایا جن پر مرمٹا تھا میں۔۔۔۔۔وہ مزید آگے ہوا
                    تم۔۔۔۔۔تمہیں۔۔۔۔اپنی باتوں سے ٹارچر کیا۔۔۔۔بے وجہ ڈپٹا تم پر اپنا غصہ نکالا۔۔۔۔کیوں۔۔۔۔؟؟کیوں میں اپنی بدلے کی آگ تمہارے وجود میں اتارتا رہا۔۔۔۔کیوں۔۔۔۔؟؟؟زریاب کی آنکھ سے ایک آنسونکل کرپلوشہ کے ڈرپ لگے ہاتھ پر گرا۔
                    مجھے معاف کر دو پلوہی اس انتقام کی آگ میں جل کر میں اپنا ہی نقصان کر بیٹھا۔۔۔اپنی ہی اولاد کو کھا گیا میں۔۔۔۔مجھے معاف کر دو پلیز۔۔۔۔وہ بے آواز بولتا دل میں پلوہی سے ہمکلام تھا
                    میں نے بہت برا کیا ہے تمہارے ساتھ۔۔۔۔بہت زیادتیاں کی ہیں۔۔۔بہت برا ہوں میں۔۔۔۔بہت برا۔۔۔اس نے جھک کر پلوہی کے ہاتھ کا بوسہ لیا۔۔۔
                    میری جان ہو سکے تو معاف کر دو مجھے ۔۔۔۔میں۔۔۔۔۔میں تمہیں دیکھ کر ڈر چکا تھا پلوہی۔۔۔۔۔کہ کہیں پھر سے تمہارا اسیر نہ ہو جاؤں مگر۔۔۔۔مگر میں یہ بھول چکا تھا کہ میں تو پہلے ہی تمہارا اسیر ہوں اب کیا ہوں گا۔۔۔۔؟؟چند مزید آنسو گر کر پلوشہ کے سنہری بالوں میں جذب ہو گئے
                    بار بار تمہیں دیکھنے کی چاہ کی تھی میں نے مگر جب یہ چاہ پوری ہوئی تو میرا انتقام اس چاہ کے مقابل مین آ کر ڈٹ گیا۔۔۔۔
                    میرا انتقام مجھ سے سب کچھ چھین لے گیا ہے پلوہی۔۔۔۔اٹھو۔دیکھو۔۔۔۔دیکھو اس بدلے کے چکر میں میرے ہاتھ کچھ بھی نہیں آیا۔۔۔۔تمہارے گھر والوں کو تکلیف دینے چلا تھا میں۔۔۔۔اور آج پھر سے اپنی قیمتی چیز کھو جانے کی تکلیف سے گزر رہا ہوں۔۔۔۔۔۔جو بھی ہوا سب میرا قصور ہے۔۔۔۔۔میری ہی وجہ سے ہمارا بچہ اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی چلا گیا
                    اب کیا یہ انتقام میں خود سے لوں گا۔۔۔۔۔۔؟؟
                    نن۔۔نہیں۔۔۔۔۔اسکے اردگرد گونجا
                    جب نہیں۔۔۔۔تو پھر میں سہراب لالہ کے خون کا بدلہ تم سے کیوں لے رہا تھا پلوشہ۔۔۔۔میں کیوں اسقدر گر گیا کہ خود کو۔۔۔۔
                    ایکسکیوزمی سر۔۔۔۔۔۔نرس کی آواز پر زریاب خان اپنے آنسو پونچھتا پیچھے ہٹا۔
                    مجھے یہ انجیکشن دینا تھا انہیں۔۔۔
                    ہوں۔۔۔۔وہ سر ہلاتا کمرے سے نکل گیا
                    نرس نے حیرت سے کھڑوس سے زریاب خان کی یہ حالت دیکھی
                    لگتا ہے کافی محبت ہے اپنی بیوی سے۔۔۔۔حیرت ہے اسے غصے کے علاوہ بھی کچھ آتا ہے۔۔۔۔ویسے رومینس کرتے ہوئے کیسا لگتا ہو گا۔۔۔۔؟؟؟(ناذمہ نرس) ہونٹ پر انگلی رکھے سوچنے لگی
                    کھڑے کھڑے فوت ہو چکی ہو کیا۔۔۔؟؟آمنہ نے روم میں اینٹر ہو کر اس پر طنز کیا۔۔
                    ارےےےے نہین تو مین بس۔۔
                    وارڈ میں راؤنڈ لو جا کر تمہاری ڈیوٹی ہے وہاں۔۔۔۔
                    پتہ ہے مجھے میری استانی مت بنو ڈاکٹر رضیہ نے انجیکشن لگانے بھیجا تھا مجھے یہاں۔۔۔۔
                    تو کیا لگا دیا۔۔۔۔۔؟؟ آمنہ نے بھنویں اچکائیں.۔۔
                    ابھی لگا ہی رہی تھی کہ تم وارد ہو گئی ہو۔
                    لگا کر جلدی ڈیوٹی پر آؤ میں تمہاری ملازمہ نہیں کہ تمہاری آدھی ڈیوٹی بھی میں ہی دوں۔۔۔۔۔وہ کہہ کر واپس مڑ گئی۔
                    آ رہی ہوں ابھی۔۔۔۔ناذمہ نے منہ بگاڑتے ہوئے ہاتھ سیدھا کر کے اسکی پشت پر لعنت بھیجی اور پلوہی کے بازو سے وین ٹٹولنے لگی
                    _________._____
                    چندا کیسی طبیعت ہے اب تمہاری۔پلوہی نےآنکھیں کھولنے پرمہرو بھابھی کو خود پر جھکے پایا۔
                    ہوں۔۔۔۔۔اس نے آہستہ سا سر ہلایا
                    چلو تھوڑی ہمت سے اٹھو۔۔۔میں تمہیں سوپ پلا دوں۔۔۔۔مہرو نے اسے سہارا دے کر ترچھا سا بیٹھایا اور سوپ پلانے لگی
                    تین ، چار چمچ لینے کے بعد پلوہی نے پھر مزید پینے سے منع کیا۔
                    تھوڑا سا اور پی لو۔۔۔۔
                    نہین بھابھی اب بس۔۔
                    اوکے۔۔۔۔لٹا دوں پھر۔۔۔۔۔؟؟؟
                    نہیں ایسے ہی ٹھیک ہوں۔۔۔۔وہ مدھم سا بولی
                    بی بی جان بھی آنے کا کہہ رہی تھیں مگر میں نے انہین منع کر دیا ہے۔
                    ڈاکٹر رضیہ نے شام تک تمہین ڈسچارج کرنے کا کہا ہے۔۔۔۔مہرو کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا بات کرے۔۔۔۔تم پریشان مت ہونا سب ٹھیک ہو جائے گا۔
                    پلوہی خاموشی سے کچھ بھی کہے بنا بس سامنے دیوار کو ہی دیکھتی رہی۔
                    پلوشہ۔۔چندا۔۔چند منٹ بعد پھر سے مہرو نے پکارا۔
                    پلوہی نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
                    پلوہی جو ہو گیا اسے بھول جاؤ دیکھو ہماری قسمت میں جو لکھا ہو وہ تو ہو کر ہی رہتا ہے اس لیے تم پریشان مت ہو اوپر والا اور دے دے گا
                    بھابھی مجھے نیند آ رہی ہے۔۔۔۔۔مہرو کی باتوں کے جواب میں وہ بس یہی کہہ پائی۔
                    اچھا لیٹ جاؤ پھر۔۔۔۔مہرو نے آگے بڑھ کر اسے لیٹنے میں مدد کی اور اس پر چادر درست کر کے پاس پڑی چئیر پر بیٹھ گئی
                    پلوشہ نے لیٹ کر اپنی نم ہوتی آنکھیں موند لیں۔۔
                    مہرو افسردگی سے پلوہی کے کپکپاتے ہونٹوں اور پلکوں پر سجی نمی کو دیکھ رہی تھی
                    ________________
                    زریاب نے نرس کے آنے پر کمرے سے نکل کر مہرو کو فون کیا تھا
                    بیس ، پچیس منٹ بعد مہرو ڈرائیور کیساتھ ہوسپٹل آ گئی تھی
                    زریاب کچھ بھی کہے بنا نظریں چراتا ہوا باہر چلا گیا تھا۔
                    رات کو پلوہی ایک ، دو بار ہوش میں آئی تھی مگر غنودگی میں اور اب دوبارہ صبح ہوش آیا تھا ڈاکٹر رضیہ نے چیک اپ کے بعد شام تک ڈسچارج کرنے کا کہا تھا
                    شام کو مہرو ڈرائیور کیساتھ ہی پلوشہ کو واپس حویلی لے آئی تھی
                    بی بی جان نے بہت پراثر اور ٹہرے ہوئے لہجے میں پلوہی کو سمجھایا اور ہمت دی تھی۔۔۔۔مہرو اسے میڈیسن دے کر زریاب کے کمرے میں چھوڑ کر چلی گئی تھی۔
                    پلوہی خاموشی سے چھت کو گھور رہی تھی جب بالکونی کا دروازہ کھول کر کوئی اندر چلا آیا ۔
                    پلوہی جانتی تھی کون ہو گا اس لیے اس نے سختی سے آنکھیں میچ لیں یوں جیسے اب نہ کھولنے کی قسم کھا لی ہو۔۔۔۔
                    زریاب شکستہ قدموں سے چلتا بیڈ کے پاس آیا۔
                    پلوہی نے آنکھوں کیساتھ جیئسے اپنی سانس بھی بند کر لی ۔
                    پلوشہ۔۔۔۔وہ آہستگی سے بولا۔
                    پلوہی۔۔۔۔۔پھر سے پکارا۔۔
                    پلوہی کیطرف سے خاموشی پا کر وہ جھکا اور لب اسکے ماتھے پر رکھے
                    اس لمس پر پلوشہ نے کرب سے آنکھیں کھول کر زریاب آفریدی کی آنکھوں میں دیکھا ۔
                    تو نظرین ملتے ہی پھر بنا کسی خوف کے دیکھتی چلی گئی۔۔
                    Vist My Thread View My Posts
                    you will never a disappointed

                    Comment

                    Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                    Working...
                    X