Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

قفس . . کی . . چڑیا

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #11
    Originally posted by insght View Post
    Zabardast
    Kamal ki story hai, suspence se bharpur.
    شکریہہ دوست پسندیدگی کیلیے
    Vist My Thread View My Posts
    you will never a disappointed

    Comment


    • #12
      قفس۔۔کی۔ ۔ چڑیا۔
      ۔پلوہی نےزریاب آفریدی کےلمس پر بہت کرب سے اپنی آنکھیں کھولیں۔
      کیسی طبیعت ہے اب۔۔۔۔؟؟وہ انتہائی شرمندگی کے انداز مین بولا۔
      زندہ ہون۔۔۔۔
      اس طرح سے تو مت کہو نا پلوہی۔۔
      نہین ہون مین پلوہی؟؟۔مم .مرر گئی ہے اب پلوہی؟؟۔۔۔
      پلیزز پلوشہ مجھے معاف کر دو نا ..پلیزز۔
      کس بات کی معافی خان آپ تو حق پرتھے ناں۔۔۔۔وہ بہت طنزیہ انداز سے بولی۔
      پلوہی میں مانتا ہوں میں غلط (ساتھ ہی وہ دل مین برابر ہی سوچے جارہے تھا ہان پلوہی میری جان مین حق پر ہو کر بھی تمہارے معاملے مین غلطی کر چکا ہون۔اپنی سچائی تو مین ایک دن تم سب کے سامنے لا کر رہون گا۔مگر تمہارے اور اپنے اس نقصان کا ازالہ کیئسے کر پاؤن گا)تھا۔۔۔۔۔
      خان صاحب۔۔اب کیا فائدہ اب تو ہو چکا جو ہونا تھا۔۔۔ویسے بھی جو کچھ بھی ہوا بلکل ٹھیک ہوا۔۔ایسا ہی ہونا چاہیے تھا۔۔۔۔۔میں کونسا یہاں آپ کے پاس خوشیاں سمیٹنے آئی تھی۔
      جو یہ خوشیان راس آتی مجھے۔۔۔۔۔
      پلوہی میں حقیقتا شرمندہ ہوں تم سے میں نے ہر گز نہیں چاہا تھا کہ ہمارا بچہ۔۔
      ہمارا۔۔۔۔۔؟؟؟.۔
      ہمارا نہیں زریاب خان صرف میرا۔۔۔صرف میرا بچہ تھا۔۔۔۔اگر آپ کا ہوتا تو آپ وہ سب بلکل نہین کرتے جو کر چکے ہیں۔۔۔۔۔۔وہ زور سے چیخنا چاہتی تھی مگر آنسوؤں کیوجہ سے اسکی آواز گھٹ گھٹ کر نکل رہی تھی۔
      میں جان بوجھ کر کیوں کروں گا ایسا پلوشہ یہ سب تو غلطی سے۔۔۔
      میں کیوں مان لوں یہ سب غلطی سے ہوا۔۔۔۔وہ اسکی بات کاٹتی بولی
      جب میں یہاں چلاتی رہی کہ شمس لالہ نے سہراب خان کا خون جان بوجھ کر کسی دشمنی میں نہیں کیا بلکہ وہ تو غلطی سے ہوا تو آپ نے مانی تھی میری بات جو میں اب آپ کی مانوں۔۔۔۔؟؟
      پلوشہ کوئی بھی باپ اپنی ہی اولاد کو یون کیسے مار سکتا ہے۔۔۔۔وہ بے بسی سے کہتا اپنی بے گناہی کا پلوہی کو یقین دلانا چاہ رہا تھا۔
      زریاب خان اس دنیا کا کوئی بھی مرد کچھ بھی کر سکتا ہے خان۔صاحب۔۔چاہے وہ کسی کا باپ ہو ،شوہر ہو ،بھائی ہو یا بیٹا ہی کیون نہ ہو۔
      وہ کچھ بھی کرسکتا ہےاور اب میں ہر رشتے میں مرد کو جانچ چکی ہوں خان۔۔۔
      مجھ سے بہتر کون جان پایا ہو گا آپ مردوں کی اصلیت کیا ہے۔۔۔۔۔۔جس کے سگے باپ نے اسے بیٹے کے جرم میں ونی کر دیا۔۔۔جس کے بھائی نے اسے اپنی غلطی کی سزا بھگتنے بھیج دیا۔۔۔۔۔جس کے شوہر نے اسے خون بہا میں آئی ہوئی لڑکی کے سوا کچھ بھی تو نہ سمجھا۔۔۔۔اور ۔۔۔اور جسکی اولاد اس دنیا میں آ کر نہجانے کیا کرتی اس کے ساتھ آپ نے بہت اچھا کیا۔۔۔۔۔بہت اچھا کیا خان کہ پہلے ہی اسے ختم کر کے مجھے مزید اذیت سہنے سے بچا لیا۔
      پلوہی۔۔۔مم۔۔۔مجھے معاف کر دو پلیززز۔۔۔۔وہ گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ کر بولا۔
      پلوشہ تکیے میں منہ چھپائے ہچکیوں سے رونے لگی۔
      پلوہی۔۔۔۔۔زریاب نے بہت محبت سے اس کو پکارتے ہوئے ساتھ پلوہی کے بالوں میں انگلیاں چلائیں
      پلیز خان۔۔صاحب۔۔پلیز مجھے چند دن سوگ منانے کی اجازت دے دیں۔۔۔۔مجھے خود کو اگلے امتحان کے لیے تیار کرنے کی کچھ تو مہلت دیں۔۔۔۔ مجھے اب میرے حال پر چھوڑ دیں خان۔۔۔۔آپ کو خدا کا واسطہ ہے۔۔۔۔چھوڑ دیں مجھے میرے حال پر۔۔۔۔۔۔۔وہ گھٹی گھٹی آواز میں رونے لگی۔،.۔
      ابھی پہلی محبت کے بہت سے قرض باقی ہیں ۔۔
      ابھی پہلی مسافت کی تھکن سے چور ہیں پاؤں ،۔۔
      ابھی ہمارے زخم تازہ ہیں یہ بھر جائیں۔۔
      تو سوچیں گے دوبارہ کب پھر سےاجڑنا ہے۔۔۔
      زریاب کے پاس اب پیچھے ہٹنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔۔چند منٹ اس نےوہاں بیٹھ کر پلوہی کی پشت کودیکھا اور ایک دکھ بھری نظر اس کے ہچکیاں لیتے وجود پر ڈال کر لمبے لمبے ڈگ بھرتا کمرے سے نکل گیا۔
      کیونکہ اب وہ اسے مزید اذیت نہیں دینا چاہتا تھا
      "میری محبتیں بھی عجیب تھیں٬ ساقی۔
      میرا فیض بھی تو بہت باکمال تھا۔
      کبھی تو صنم ۔۔سب ملا بنا طلب کئے۔
      کبھی کچھ بھی نہ ملا سوال پر!!۔
      ________________
      پلوشہ کی طبیعت کافی سنبھل گئی تھی۔۔۔ایک ہفتے سے زیادہ ہو گیا تھا اسے ہوسپٹل سے گھر آئے۔۔۔
      اس رات کے بعد پلوہی نے پھر دوبارہ زریاب کو کمرے میں نہیں دیکھا تھا۔۔۔۔اور نہ ہی کسی سے اس کے بارے میں کچھ پوچھا تھا۔
      اب بھی وہ آہستگی سے چلتی ہوئی ہال کمرے میں آئی جہاں بی بی جان اور مہرو موجود تھیں
      ارے پلوشہ تم ادھرکیوں آ گئی ہو کچھ چاہیے تھا تو انٹر کام سے بتا دیتی مجھے ۔۔۔۔مہرو اسے دیکھ کر جلدی سے کھڑی ہوئی۔
      نہیں بھابھی کچھ نہیں چاہیے تھا میں کمرے میں رہ رہ کر تھک چکی تھی اسی لیے خود ہی باہر آ گئی۔۔۔۔۔وہ آہستگی سے کہتی انکی طرف چلی آئی۔
      اچھا آؤ بیٹھو۔۔۔۔مہرو نے اپنے ساتھ جگہ خالی کی۔
      اسلام علیکم۔۔بی بی جان۔۔۔
      وعلیکم سلام۔۔۔۔کیسی طبیعت ہے اب۔۔۔۔؟؟
      اللہ کا شکر ہے بی بی جان ٹھیک ہوں اب۔۔۔۔وہ ہلکا سا مسکرائی۔
      ہوں۔۔بیٹا۔۔ہمیں ہر حال میں شکر گزار ہی رہنا چاہیے بچے۔۔۔۔مہرو تم پلوشہ کو اپنے ساتھ ہی لے جانا دل بہل جائے گا اس کا اور واپسی پر ہمارے ساتھ آ جائے گی۔
      جی بی بی جان۔۔۔۔میں بھی یہی سوچ رہی تھی اور شاپنگ وہیں سے کر لوں گی جا کر اپنی بھی اور پلوہی کی بھی۔۔۔حدید کے لیے تو زریاب کل بہت کچھ خرید لایا تھا
      ہوں جیسے مناسب سمجھو۔۔۔۔وہ مسکرائیں
      پلوہی لاتعلق سی بیٹھی اپنے ہاتھوں کو گھور رہی تھی
      پلوشہ تم اپنی پیکنگ کر لینا بلکہ میں ہی کر دوں گی۔۔۔۔پھر پرسوں کی شام کو نکلیں گے ہم۔۔۔۔
      کہان جانا ہے۔۔۔۔؟؟؟
      لال حویلی میرے میکے۔۔۔۔۔وہ میرے چھوٹے بھائی کی شادی طے ہو گئی ہے اگلے ہفتے کی اور ہم ایک ہفتہ پہلے جائیں گے وہاں۔۔۔۔مہرو نے مسکرا کر اطلاع دی
      جی۔۔۔۔۔پلوشہ نے صرف سر ہلانے پر اکتفا کیا۔
      پلوشہ بیٹا تم چاہو تو کل جا کر اپنے گھر والوں سے جا کر مل آنا۔۔۔۔زریاب کچھ نہیں کہے گا۔۔۔بی بی جان نے اسکی اتنی مرجھائی ہوئی صورت دیکھ کر کہا۔
      نہیں بی بی جان میرا دل نہیں جانے کو۔۔۔۔۔میں باہر لان میں جا رہی ہوں وہ آہستگی سے کہتی ہال سے نکل گئی۔
      تم نے پوچھا مہرو کے کیسے گری تھی اس رات۔۔۔۔۔
      نہین۔۔۔۔بی بی جان۔۔۔
      اچھا ابھی مت پوچھنا بھی اب خود ہی سنبھل جائے گی وقت کیساتھ۔۔۔وہ اس کی حالت سے افسردہ ہوئیں۔
      جی بی بی نہیں پوچھتی۔۔۔۔۔۔میں چائے لاؤں آپ کے لیے۔۔۔؟؟
      ہاں۔۔۔۔۔۔لے آؤ پھر جا کر نماز پڑھوں گی۔
      ابھی لاتی ہوں۔۔۔۔۔مہرو مسکراتی ہوئی چائے بنانے کیچن کیطرف چلی گئی
      ________________
      انہیں لال حویلی آئے دو دن ہو گئے تھے۔۔۔مگر وہاں آ کر بھی پلوہی کی حالت پر کچھ خاص اثر نہیں پڑا تھا۔۔۔۔وہ ویسی ہی گم سم سی تھی۔۔۔۔اب بھی وہ اس کمرے میں جو اسے ایز آ گیسٹ دیا گیا تھا اکیلی ہی بیٹھی اپنے ہاتھوں کی لکیروں کو دیکھ رہی تھی جب مہرو کمرے میں آئی۔
      پلوشہ یہاں کیوں بیٹھی ہو۔۔۔۔باہر سب لڑکیاں ڈھولک پر گیت گا رہی ہیں اور تم یہاں اپنی ہی ڈیڑھ انچ کی مسجدبنائےبیٹھی ہو۔۔۔۔
      وہ۔۔۔مجھے گیت گانے نہیں آتے بھابھی۔۔۔۔
      تو کون کہہ رہا ہے تمہین گیت گاؤ ۔۔۔۔۔سنو اور انجوائے کرو بس۔۔۔چلو اب اٹھو جلدی سے میں تمہارے کپڑے نکالتی ہوں چینج کرواوراٹھو باہرچلومیرے ساتھ۔۔۔۔۔
      بھابھی آپ میرا اتنا خیال مت رکھا کریں میں اس قابل نہیں ہوں۔۔۔۔وہ افسردہ مسکراہٹ سے بولی۔
      میں اچھے سے جانتی ہوں تم کس قابل ہو اور مجھے کیا کرنا ہے سمجھی۔۔۔۔اب اٹھو جلدی سے۔۔۔وہ ڈپٹتی ہوئی کبڈ کی طرف بڑھی
      یہ والا سوٹ بہت اچھا لگے گا تم پر کیا خیال ہے۔۔۔۔؟؟مہرو نے ییلو اور ریڈ کنٹراس کا عمدہ سا سوٹ نکالا۔۔۔۔
      وہ کل ہی اپنی اور پلوہی کی ساری شاپنگ کرآئی تھی پلوشہ نے جانے سے منع کر دیا تھا اس لیے وہ اپنی پسند سے ہی اس کے لیے بھی مختلف ڈریسز لے آئی تھی۔
      اچھا ہے۔۔۔بھابھی۔۔۔
      تو پھر اٹھو اور اٹھ کر پہنو اسے۔۔۔۔مہرو نے ہینگر اسکی طرف بڑھایا
      پلوہی ہینگر تھام کر چینج کرنے چلی گئی
      _________________
      بڑے سے ہال کمرے میں لڑکیاں گول دائرے کی شکل میں بیٹھیں تھیں درمیان میں ڈھولک رکھی تھی جسے ایک لڑکی بڑے ماہرانہ انداز میں بجا رہی تھی باقی لڑکیاں اردگرد بیٹھیں ڈھولک کی تھاپ پر تالیاں پیٹتی ہوئیں ۔مختلف قسم کےگیت گانے میں مصروف تھیں۔
      پلوشہ بھی کچھ ہی فاصلے پر بیٹھ کر بہت آہستہ آہستہ تالی بجانے لگی۔
      اسے شمس لالہ کی شادی یاد آئی ۔جب ان کی حویلی میں کتنی رونق تھی اور پلوہی کو اکلوتی بہن ہونے کے ناطے کچھ ایکسٹرا پروٹوکول دیا گیا تھا
      کتنا ہلگا گلا کیا تھا سب لڑکیوں نے مل کر۔۔۔۔۔وہ بجھے دل سے ہلکی ہلکی تالی بجا رہی تھی جب حدید اسکے پاس آ کر بیٹھا
      چاچی۔۔۔۔آپ کو کلیپنگ کرنی بلکل نہیں آتی کیا۔۔۔۔۔؟؟
      چاچی۔۔۔۔اس نے پلوشہ کی خاموشی پر بازو ہلا کر متوجہ کیا
      ہوں۔۔۔ہاں۔۔۔کیا ہوا مجھےکچھ کہا۔۔؟؟پلوہی چونک کر سیدھی ہوئی۔
      ارےےآپ کیسے کلیپنگ کر رہی ہیں۔کیا میں سیکھاؤں آپ کو کلیپنگ کرنا۔۔۔۔۔وہ معصومیت سے پوچھ رہا تھا۔
      ہوں۔۔۔۔۔پلوشہ نے مسکرا کر سر ہلایا۔
      یہ دیکھیں۔۔۔۔۔حدید نے دونوں ہاتھوں کو زور سے ایک دوسرے پے مار کر پرجوش انداز میں تالی بجائی۔
      ایئسے۔۔۔۔۔۔اب آپ کرین۔۔۔۔۔
      پلوہی نے بھی اسی کے انداز میں دونوں ہاتھ ایک دوسرے پر مارے مگر کچھ خاص جوش سے نہیں۔
      اووہو ایسے نہیں۔۔۔۔چاچی ایسے۔۔۔۔اس نے سر پر ہاتھ مار کر پھر سے تالی بجانے کا عمل دوہرایا۔
      اوکے۔۔۔اب کی بار پلوشہ نے اس کو مکمل فالو کیا
      گڈ۔۔۔۔اب آ گئی آپ کو بھی۔۔۔۔اب ایسے ہی بجائیں آپ۔۔۔۔۔وہ خوش ہوا
      اتنے زور سے بجاؤں گی تو میرے ہاتھ دکھنے لگ جائیں گے۔۔۔۔
      کوئی بات نہیں میں رات میں آپ کے ساتھ سوؤں گا تو دبا دوں گا۔۔۔حدید نے فورا اسکے خدشے کاحل پیش کیا۔
      پلوشہ اسکی بات پر دل سے مسکراتی اسے اپنے ساتھ لگا گئی
      میرا بچہ۔۔۔۔۔اس نے جھک کر حدید کے بالوں کا بوسہ لیا
      چاچی مجھ سے فرینڈ شپ کریں گی۔۔۔؟؟
      ارےےے۔۔ضرور۔۔ کرون۔۔ گی۔۔
      چاچو کو مت بتائیے گا پھر۔۔۔۔۔وہ رازداری سے بولا
      کیا۔۔۔۔۔۔؟؟
      یہی کہ ہم فرینڈز ہیں۔۔۔۔اسنے پلوہی کے کان کے پاس جا کر آہستہ سے بتایا کہ کوئی سن نہ لے۔۔۔
      وہ کیوں۔۔۔۔؟؟؟۔۔۔ پلوشہ حیران ہوئی۔۔
      انہوں نے مجھے منع کیا ہے فرینڈز بنانے سے سکول میں بھی میرا کوئی فرینڈ نہیں ہے بس کلاس فیلوز ہی ہیں میرے سب۔۔۔۔
      آپ نے پوچھا نہیں کہ فرینڈز کیوں نہیں بناتے۔۔۔؟؟
      پوچھا تھا مگر انہوں نے کہا ابھی میں چھوٹا ہوں جب بڑا ہو جاؤں گا تب بتائیں گے اور تب تک صرف چاچو ہی میرے فرینڈ رہیں گے۔۔۔۔۔۔
      ہون۔۔۔پلوشہ نے سرہلایا۔
      تو پھر ہماری فرینڈشپ پکی ہے ناں۔۔۔؟؟؟
      بلکل۔۔۔۔۔وہ مسکرائی۔۔۔
      چلیں پھر۔۔۔۔حدید نے ہاتھ کو پنچ مارنے کے انداز میں گول کیا۔
      یہ۔۔کیا۔؟؟م
      یہ ہماری فرینڈشب سائین ہے۔۔۔۔میں اور چاچو بھی ایسے کرتے ہیں۔۔۔
      اوکے۔۔۔۔۔پر مجھے کیا کرنا ہو گا اب۔۔۔پلوہی اسکی باتوں میں کافی بہل گئی تھی۔۔
      آپ بھی ایسے ہی بنائیں پھر ہم ایک دوسرے کو ہلکا سا پنچ ماریں گے۔۔۔۔
      اوہ اچھا۔۔۔پلوشہ نے مسکراتے ہوئے ہاتھ کا مکا بنایا۔۔
      دونوں نے اپنا اپنا پنچ مارا اور کھلکھلا کر ہنس پڑے ۔
      ______________
      بھابھی میں اور حدید کچھ دیر کو باہر گھوم پھر آئیں کیا۔۔۔۔۔؟؟پلوہی نے کچن میں مصروف کھڑی مہرو سے پوچھا
      چلی جاؤ مگر کسی ملاذمہ کو لے کر جانا ساتھ۔۔۔کافی پیچیدہ راستے ہیں یہان کے بھول ہی نہ جاؤ کہیں۔۔۔
      ارےےڈونٹ وری بھابھی انہی پیچیدہ علاقوں کی پیداوار ہوں میں بھی۔۔۔پلوہی لاپرواہی سے مسکرائی۔
      ہان ہان جانتی ہوں مگر پھر بھی احتیاط کرنابہت ضروری ہے۔۔۔۔مجھے بھی تو تسلی رہے گئی۔۔۔
      چلین پھر بھیج دین کسی کو ہمارے ساتھ۔۔
      ہاں میں بانو کو بھیجتی ہوں تم کوئی موٹی سی شال اوڑھو موسم بدل رہا ہے۔۔۔
      جی۔۔۔۔پلوہی کو اماں یاد آئیں وہ بھی اسی طرح فکر کرتیں تھیں جس طرح سے مہرو بھابھی۔
      ارے کیا ہوا پلوہی۔۔۔۔مہرو اسکی گالوں پر پھسلتے آنسو دیکھ کر آنچ دھیمی کرتی اس کے پاس چلی آئی۔
      بھابھی آپ بہت اچھی ہیں۔۔۔وہ کہتی ہوئی اسکے گلے لگ کر رو پڑی۔
      چند منٹ بعد مہرو نے اسے خود سے الگ کیا۔
      میری چندا تم بھی بہت اچھی ہو۔۔۔اسی لیے تو میں تمہاری پرواہ کرتی ہوں۔۔۔۔مہرو نے اسکے آنسو صاف کیے۔
      چلو اب جاؤ پھر اندھیرا پھیل جائے گا
      جی۔۔۔۔۔پلوہی دوپٹے سے اپنی آنکھیں رگڑتی ہوئی باہر نکل گئی۔
      ______________. . . ___
      چاچی چھپن چھپائی کھیلتے ہیں۔۔۔۔۔حدید نے اچھلتے ہوئے مشورہ دیا۔
      وہ اس وقت حویلی سے کافی آگے نکل آئے تھے۔۔۔۔واقعی وہ کافی پیچیدہ ایریا تھا۔۔۔۔پتھریلا اونچا نیچا سا۔۔۔۔۔سر سبز درختوں میں گھرا۔۔۔۔بلکل جنگل جیسا۔۔۔
      ارے چھپن چھپائی تو لڑکیاں کھیلتی ہیں نا۔۔۔پلوہی نے اپنی مسکراہٹ دباتے پوچھا۔
      ہاں تو آپ اور بانو لڑکیاں ہی ہیں نا۔۔۔۔
      پلوشہ اور بانو اسکی بات پر مسکرا دیں
      مگر آپ کیا کریں گے پھر۔۔۔۔؟؟؟
      میں بھی آپ لوگوں کو کمپنی دینے کو کھیل لوں گا۔۔۔۔اسکے شرارتی انداز پر پلوہی کھکھلا کر ہنس پڑی۔
      بہت چالاک ہو تم پہلے کیوں نہیں ملے مجھے۔۔۔۔
      میں تو ملنا چاہتا تھا پر آپ اپنے روم سے ہی نہیں نکلتی تھیں۔۔۔وہ فورا بولا
      اوہ سیڈ۔۔۔۔چلو کوئی بات نہیں اب تو مل چکے ہیں ناں۔۔۔پلوشہ نے اسکا ناک کھینچا۔
      یس۔۔۔۔۔۔۔چلیں اب گیم شروع کرتے ہیں
      اوکے پہلے آپ اور بانو چھپیں میں آپ دونوں کو ڈھنڈوں گی۔۔۔پلوشہ نے پہلے اپنی باری لگائی۔
      اوکے چلو بانو ہم چھپتے ہیں۔۔۔۔وہ بانو کا ہاتھ پکڑتا آگے کی طرف بھاگا۔
      زیادہ دور نہیں جانا ہے قریب قریب ہی چھپنا۔۔بیٹا۔۔
      اوکے چاچی۔۔۔۔وہ بلند آواز سے کہتا کچھ فاصلے پر موجود درخت کی اوٹ میں چھپ کر بیٹھ گیا۔
      چند منٹ بعد پلوہی نے دونوں کو ڈھونڈ نکالا۔
      پھر جو پہلے پکڑا جاتا وہی اگلی باری دیتا یونہی کافی وقت گزر گیا جب پلوشہ نے گیم کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔
      نہیں ایک لاسٹ بار پلیز۔۔۔پلیز۔۔۔چاچی آپ فورا ہی مجھے ڈھونڈ نکالتی ہیں اب میں وہ اس طرف چھپوں گا جہاں آپ ڈھونڈ نہیں پائیں گی۔۔۔۔۔حدید نے کچھ فاصلے پر جھاڑیوں کیطرف اشارہ کیا
      حدید بیٹااب واپس چلین کافی دیر ہو جائے گی دیکھو اندھیرا ہو رہا ہے۔۔۔
      نہیں ہوتا اندھیرابس ایک آخری بار پلیز۔۔۔پلیز۔۔۔پلیز۔۔۔۔وہ اسکا ہاتھ پکڑتا ملتجی ہوا۔
      اوکے۔۔۔ دس۔۔ از۔۔ لاسٹ۔۔
      اوکے ڈن۔۔۔۔۔وہ پلوہی کے مان جانے پرخوشی سے اچھلا۔
      چلو پھر چھپو جلدی سے میں اپنی آنکھیں بند کر رہی ہوں اب۔۔۔۔۔
      پلوہی کے کہنے پر وہ اسکو بتائی گئی جگہ کی مخالف سمت بھاگا۔
      چند سیکنڈ بعد پلوہی آنکھیں کھولتی اسی طرف گئی جس طرف اس نے اشارہ کیا تھا مگر حدید وہاں نہیں تھا پلوشہ نے قریب قریب سب جگہوں پر دیکھا مگر وہ اس طرف ہوتا تو ملتا۔۔۔اس نے فکرمندی سے اسے آواز دی
      حد۔۔۔۔۔حد۔۔ید۔۔۔۔۔
      حدید کہاں ہو بیٹا۔۔۔؟؟ میں ہار گئی ہوں تم جہاں بھی ہو آ جاؤ۔۔مگر بے سود۔۔۔۔۔
      کیا ہوا پلوہی بی بی۔۔۔؟؟بانو اپنا جوتا لینے گئی تھی جو کھیلتے ہوئے گہرائی میں گر گیا تھا
      بانو وہ۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔حدید۔۔۔۔
      کیا ہوا حدید بابا کو۔۔۔۔؟؟
      پتہ نہیں کہاں چھپ گیا ہے میں اتنی آوازیں دے چکی ہوں مگر کوئی جواب نہیں دیا۔۔۔۔وہ روہانسی ہوئی
      میں دیکھتی ہوں۔۔۔۔بانو کہتی ہوئی آگے کی طرف چل پڑی
      پلوشہ نے وہیں کھڑے کھڑے پھر سے کئی آوازیں دیں مگر حدید کا کوئی بھی جواب نہیں آیا۔۔۔۔۔
      پھر چند منٹ بعد بانو بھی خالی ہاتھ لوٹ آئی پلوہی بی بی اسطرف تو نہیں ہیں حدید بابا۔۔۔
      اوہ میرے مالک اب یہ کیا ہو گیا۔۔۔۔۔وہ فکرمندی سے بولی
      بی بی جی حویلی چل کر بتاتے ہیں تاکہ۔۔۔۔۔؟؟
      نن۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔حدید کو لیے بغیر کیسے چلے جائیں تم۔۔۔تم رکو یہاں میں اردگرد پھردیکھتی ہوں۔۔۔
      بی بی میں بھی چلوں آپ کے ساتھ۔۔۔۔؟؟
      نہیں بانو تم یہیں رکو اگر حدید یہاں آ گیا تو ہمیں نہ پا کر پریشان ہو گا۔۔۔تم ایسا کرنا اگر وہ آ گیا تو مجھے آواز دے دینا
      پلوشہ اسے نصیحت کرتی تیز تیز قدم اٹھاتی پھر اسی طرف چلی گئی جس طرف حدید نے اشارہ کیا تھا
      وہ اُن جھاڑیوں کو ہٹا ہٹا کر دیکھتی بہت آگے نکل گئی تھی اوپر سے اندھیرا بھی بڑھتا جا رہا تھا
      مگر اسے پرواہ کب تھی اس اندھیرے کی وہ تو بس حدید کو تلاش کر لینا چاہتی تھی جسے اپنی ذمہ داری پر ہی وہ ساتھ لائی تھی۔
      دل میں آیت الکرسی کا ورد کرتےوہ مزید آگے سے آگےبڑھتی نہجانے کتنی ہی دور آ گئی تھی۔۔۔
      مگر حدید پھر بھی نہیں ملا۔۔۔وہ وہیں زمین پر بیٹھ کر سر گھٹنوں پر رکھے اپنی پھولتی ہوئی تیز سانسیں ہموار کرنے لگی ۔
      بانو ٹھیک کہہ رہی تھی ہمیں واپس جا کر بتا دینا چاہیے تاکہ وہ لوگ حدید کو ڈھونڈ سکیں کہیں رات۔۔۔۔۔
      رات۔۔۔۔!!!! پلوشہ نے لفظ رات پر جھٹکے سے سر اٹھایا۔
      رات تو ہو چکی تھی۔۔۔۔ہر طرف گہرا اندھیرا پھیل چکا تھا۔۔پھر پلوہی کی ہارٹ بیٹ بہت تیزی سے مس ہوئی۔
      اوہ میرے خدا۔۔۔میں کہاں آ گئی ہوں۔۔۔۔؟؟اس نے کھڑے ہو کر بہت پریشانی سے چاروں طرف دیکھا۔
      مم۔۔۔۔۔میں کسطرف سے آئی تھی۔۔۔۔اسے ہر راستہ ایک جیسا ہی لگ رہا تھا۔
      چاروں طرف گھنے درخت ، جھاڑیاں اور چھوٹے بڑے پتھر موجود تھے۔
      وہ دھڑکن سنبھالتی سامنے کی طرف بھاگی مگر تھوڑا آگے جا کر گہرائی تھی وہ پھر سے واپس پلٹتی اسی جگہ پر چلی آئی جہاں سے بھاگی تھی۔
      اسے اپنے پیروں تلے زمین گھومتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔۔
      اب۔۔۔اب کس طرف کو۔مین جاؤن۔۔۔؟؟وہ گھبرا کر خود سے کہتی چاروں طرف گھوم کر سیدھی کھڑی ہوئی۔
      چند منٹ خاموش رہنے کے بعد وہ التجائیہ نظروں سے آسمان کی طرف دیکھتی دائیں جانب بھاگی کچھ دور جا کہ اسے لگا کہ یہ وہی راستہ ہے جہاں سے وہ آئی تھی۔
      اسی بات سے اسکی ہمت بڑھی اور وہ مزید تیز رفتاری سے بھاگنے لگی ۔
      پلوہی کے کانوں میں جانوروں کی عجیب و غریب اور بہت خوفناک آوازیں گونج رہیں تھیں۔
      میرے مالک رحم کرنا مجھ دکھیاری پر۔۔۔۔وہ با آواز بلند دعا مانگتی سامنے پڑے ایک بڑے پتھر سے زور دار انداز میں ٹکرائی
      اس تصادم میں جوتا ٹوٹنے کیساتھ اسکے انگوٹھے کا ناخن بھی اکھڑ چکا تھا۔
      وہ تکلیف کی شدت سے پاؤں پکڑ کر فورا ہی زمین پر جا بیٹھی۔
      اوئی ماں۔۔۔۔اللہ جی۔۔۔۔۔وہ ہونٹوں پر دانت جمائے تکلیف برداشت کرنے کی کوشش کرنے لگی۔
      چند منٹ بعد پلوہی نے اس گھپ اندھیرے میں اپنی پوری آنکھوں کو کھول کر اپنا زخم دیکھنے کی کوشش کی۔
      اسکے پاؤں کے انگوٹھے کا آدھا ناخن اکھڑ چکا تھا اور آدھا ہلکا سا ساتھ جڑا لڑھک رہا تھا۔
      پلوشہ نے درد کی شدت سہتے ہوئے اس آدھے ناخن کو بھی اکھاڑنا چاہا۔۔۔اس مقصد کے لیے اس نے ہاتھ ناخن کے پاس لے جا کر آنکھیں سختی سے میچ لیں۔
      ہونٹ بھینچے وہ ناخن اکھڑنے ہی والی تھی جب اوپر سے کوئی چیز دھم کرتی اس پر آ گری۔۔۔۔۔
      آ۔۔آ۔۔آ۔۔آ۔۔آ۔۔آ۔۔۔۔۔پلوشہ کی فلک شگاف چیخ اس ویرانے مین بے ساختہ گونج اُٹھی تھی
      _______ ____________
      بانو بے چینی سے پلوشہ کی واپسی کا بیصبری سےانتظار کر رہی تھی
      مزید کچھ دیر انتظار کے بعد وہ گھبراہٹ سے ہاتھ مسلتی اسی طرف بڑھی جس طرف پلوہی گئی تھی۔۔۔
      ابھی وہ جھاڑیوں کے پاس ہی پہنچی تھی جب پیچھے سے حدید کی آواز آئی
      بانو۔۔۔بانو۔۔۔۔وہ فاصلے پر کھڑا پکار رہا تھا
      بانو اسکی آواز پر خوشی سے واپس پلٹتی اس تک آئی
      حدید بابا کہاں تھے آپ۔۔۔۔۔؟؟میں اور پلوشہ بی بی کتنا پریشان تھیں آپ کے لیے۔۔۔۔ہم نے کتناڈھونڈا آپ کو پر آپ نہیں ملے ۔۔۔۔وہ پرجوش سی بولی۔
      میں وہاں پتھر کے پیچھے چھپا بیٹھا تھا مجھے چاچی کی آواز آ رہی تھی جب وہ مجھے پکار رہیں تھیں۔۔۔حدید نے فخریہ انداز میں بتایا
      تو پھر آپ سامنے کیوں نہیں آئے۔۔۔۔بانو حیرت سے بولی
      وہ ہر بار ہی مجھے ڈھونڈ لیتی تھیں میں نے سوچا اس بار مشکل جگہ پر چھپوں گا اور دیکھا وہ خود سے مجھے نہیں ڈھونڈ سکیں۔۔۔۔میں خود ہی آ گیا واپس۔۔۔۔وہ جوش سے اپنی چالاکی بتا رہا تھا
      یہ کیا ہو گیا۔۔۔۔اب۔۔۔۔اب پلوشہ بی بی کو کون ڈھونڈے گا۔
      چاچی بھی چھپ گئی ہیں کیا۔۔۔؟؟حدید اپنی سمجھ کے مطابق بولا۔
      وہ آپ کو ڈھونڈنے گئی تھیں پر اب تک نہیں لوٹیں۔۔۔۔۔بانو فکر مندی سے کہتی بلند آواز میں پلوہی کو پکارنے لگی
      پلوہی بی بی۔۔۔۔۔۔۔
      پلوشہ بی بی۔۔۔۔۔وہ منہ کے گرد ہاتھوں کا گولا بنا کر پھر سے چلائی
      چا۔۔۔چی۔۔۔چا۔۔۔۔چی۔۔۔۔ی۔ی
      چاچی۔۔ی۔۔ی۔۔حدید بھی دیکھا دیکھی چلانے لگا۔
      کئی بارچلانے کےبعد بھی پلوہی کا کوئی جواب نہ پا کر بانو حدید کاہاتھ تھامتی تیزقدموں سےگبھراہٹ اور پریشانی مین واپس لال حویلی کی طرف چل پڑی۔
      ۔_________ . . ________
      بانو حدید کا ہاتھ پکڑے جب حویلی میں واپس داخل ہوئی تو مؤذن عشاء کی اذان دے رہے تھے۔
      وہ تیز تیز قدم بڑھاتی جیسے ہی بڑے کمرے میں آئی تو وہاں موجود افراد کی نظر فورا اس تک پہنچی
      چاچو۔۔۔۔۔حدید زریاب کو دیکھ کر بانو سے بازو چھڑواتا اسکی طرف بھاگا
      زریاب نے اسے گود میں لیتے ہوئے چٹاچٹ پیار کر ڈالا
      زریاب اور بی بی جان شام میں ہی لال حویلی پہنچے تھے۔۔۔
      کہاں تھے تم لوگ اتنی دیر کر دی ہم سب پریشان ہو رہے تھے پلوہی کہاں ہے۔۔۔۔؟؟؟ مہرو بانو کی طرف لپکتی ایک ہی سانس میں بولی۔
      وہ۔۔۔۔وہ مہرو باجی وہ۔۔۔۔
      زریاب بانو کی بوکھلاہٹ پر حدید کو گود سے اتارتا اس تک آیا.۔
      کیا وہ وہ لگا رکھی ہے پلوشہ کہاں ہے۔۔۔۔۔؟؟زریاب کی غراہٹ پر بانو بنا رکے ایک ہی سانس میں اے ٹو زیڈ ساری بات بتا گئی۔
      سب سے پہلے زریاب کا سکتہ ٹوٹا اور وہ آندھی طوفان بنے وہاں سے نکلا تھا
      زریاب۔۔۔۔زریاب۔۔۔۔مہرو پکارتی اسکے پیچھے بھاگی مگر اس کے پہنچنے سے پہلے ہی وہ اپنی جیپ جارحانہ انداز میں ریورس کر چکا تھا۔
      مہرو تم اندر چلی جاؤ۔
      پلوہی مل جائے گی ان شا اللہ۔۔۔۔ بس یہیں کہیں قریب ہی ہو گی وہ ہم سب دیکھ لیتے ہین ۔۔۔۔زبیر خان (مہرو کا بڑا بھائی ) نے اسکے سر پر تسلی کے انداز میں ہاتھ رکھا۔
      جی لالہ۔۔۔۔وہ پریشان سی سر ہلاتی اندر چلی گئی
      زبیر خان نے زیاد خان (چھوٹا بھائی) اور کچھ ملازموں کو زور سے بلا کر پھر سب کو ہی ساری بات سمجھائی۔
      جسے سمجھتے ہوئے سب سر ہلاتے ایک ساتھ آگے پیچھے اپنی اپنی جیپوں کی طرف بڑھ گئے پلوہی کو ڈھونڈنے کے لیے۔۔۔
      زریاب بانو کی بتائی گئی جگہ پر پہنچ چکا تھا جیپ وہ کافی پیچھے چھوڑ آیا تھا کیونکہ درختوں کے جھرمٹ میں جیپ کو مزید آگے لے کر جانا ممکن نہ تھا
      پلوہی۔۔۔۔پلوہی۔۔۔۔۔
      زریاب نے چاروں طرف نظرین دوڑا کرپوری طاقت لگاتے ہوئے بلند آواز میں کئی بار پلوشہ کو پکارا ۔
      مگر واپسی مین کوئی بھی جواب نہ پاکر وہ موبائل ٹارچ کی روشنی میں دائیں جانب بھاگا۔
      کیونکہ بانو کے مطابق پلوہی اسی طرف گئی تھی
      وہ دیوانوں کی طرح پلوہی۔۔۔۔پلوہی۔۔۔پلوشہ پکارتا آگے سے آگے بڑھتا جا رہا تھا
      ___________________
      پلوہی کے اوپر جب درخت سے وہ سانپ،چھپکلی یا جو کچھ بھی گرا تھا گرنے کےساتھ ہی نیچے لڑھک کر ادھر أدھر رینگ گیا تھا ۔
      مگر اب پلوہی کے سارےوجود پر مارے خوف کے کپکپی طاری ہو گئی تھی۔
      میرے مالک مجھے اس مصیبت سے نکال دے۔۔۔میں اس جنگل میں موجود ان جانوروں کی خوراک بن کر مرنا نہیں چاہتی پلیز میری مدد فرما۔۔۔۔اس نے اپنے رب سے فریاد کرتے ہوئے کھسک کر درخت سے ٹیک لگائی اور اول آخر درود پاک اور سات بار آیت الکرسی کا ورد کر کے پھونک سے اپنے گرد حصار باندھا۔
      اپنے آنسوؤں کو اچھی طرح آستین سے رگڑ کر پلوہی نے پھر سے پاؤں کے ناخن کو اکھیڑنے کی ہمت مجتمع کی ۔
      آنکھیں بند کر کے اس نے اللہ کا نام لیا اور پھر جھٹکے سے آدھا اکھڑا ناخن کھینچ لیا۔
      تکلیف کی اٹھتی ٹیسوں کو برداشت نہ کرتے ہوئے پلوہی نے ایک دردناک چیخ ماری
      نسوانی چیخ پر زریاب اپنی دوڑ کو بریک لگاتا رک کر پلوشہ کی آئی آواز کی سمت کا تعین کرنے لگا۔
      _______________________
      مہرو بچے بیٹھ جاؤ تھک جاؤ گی۔۔۔۔۔۔بی بی جان نے مہرو کو بے چینی سےادھر اُدھر ٹہلتے دیکھ کر کہا
      بی بی جان پلوشہ ناجانے کس حال میں ہوگی۔۔۔۔وہ روہانسی ہوئی
      ارےےےے ۔
      بیٹا وہ مل جائے گی ان شا اللہ۔۔تم ایئسے پریشان مت ہو۔۔۔۔انہوں نے تسلی دی۔
      بی بی آپ کو پتہ ہے نا ہمارے علاقے میں رات کو پہاڑی گیڈر اور آوارہ کتے کتنی کثرت سے باہر نکل آتے ہیں مجھے تو سوچ سوچ کر ہی وحشت ہو رہی ہے بی بی جان۔۔۔۔۔
      تم ایئسے پریشان مت ہو اللہ اسے اپنے حفظ و ایمان میں رکھے۔۔۔۔بی بی جان نے ٹہرے ہوئے لہجے میں پلوہی کو اللہ کے سپرد کیا۔
      آمین۔۔۔۔۔مہرو نے دل سے آمین کہہ کر صوفے کی پشت سے سر ٹکا کر آنکھیں موند لیں
      ____________________
      پلوشہ کو اپنے قریب ہی کہیں زریاب خان کی پکار سنائی دی
      زریاب۔۔۔۔زریاب۔خان کہاں ہیں آپ۔۔۔۔۔وہ درد کی پرواہ کیے بغیر درخت کے سہارے کھڑی ہوئی۔
      پلوہی ۔۔۔پلوہی۔۔۔۔۔پھر سے آواز آئی
      خان کہاں ہیں آپ۔۔۔مم ۔۔۔میں۔۔۔۔۔میں ادھر۔۔ یہاں ہوں زریاب۔۔خان۔۔۔وہ بھی زور سے چلائی
      بلآخر زریاب اس تک پہنچنے میں کامیاب ہو ہی گیا
      پلوہی کو اپنے سامنے زندہ و سلامت دیکھ کر زریاب کو اپنے وجود میں ایک عجب سا ہی سکون سرائیت کرتا محسوس ہوا۔
      دوسری طرف پلوہی نے اس تک پہنچنے کے چکر میں پاؤں اٹھایا مگر درد کی وجہ سے وہ ایک قدم بھی چل نہیں پائی اور لڑکھڑا کر گرپڑی۔
      زریاب نہایت جلدی اور عجلت سے درمیانی فاصلہ عبور کرتا اس تک پہنچا۔
      تم ٹھیک تو ہو نا پلوہی۔۔۔۔۔وہ اسے سیدھا کرتا بے قراری سے بولا۔
      پلوہی تو ابھی تک شاک میں تھی کہ زریاب واقعی اس کے پاس آ چکا ہے۔۔۔اوپر والے نے اسکی فریاد سن لی ہے۔۔۔
      وہ دونوں یک ٹک بنا پلک جھپکائے ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔مدھم روشنی ، رات کا سناٹا ، کھلا آسمان ہلکی ہلکی سرد ہوا سب مل کر ان کے آس پاس ایک پرفسوں سا منظر پیش کر رہے تھے
      پھر پلوہی نے ٹرانس کی کیفیت میں اپنے امڈتے ہوئے شک کو یقین میں بدلنے کے لیے ہاتھ بڑھا کر زریاب کے چہرے کو چھوا۔
      زریاب بھی اس کے لمس کو محسوس کرتے ہی بے اختیار ہو اٹھا۔اور وہ بھی بیقراری سے چھونے لگا۔
      پلوہی کے ہاتھوں کو ۔۔ساتھ اسکی من موہنی صورت کے پرکشش ایک ایک نقش کو عجیب دیوانوں سی حالت کے مانند ٹچ کر رہا تھا زریاب خان اسے۔۔۔۔۔۔جو اسکی پہلی اور آخری محبت تھی۔۔۔۔جو اسکی بیوی تھی۔
      پلوشہ زریاب خان کے یقین کرنے کے اس عملی تصادم کے مظاہرے پر کسمسا کر پیچھے ہٹی ۔تو
      زریاب نے ہوش میں آتے ہوئے اپنے عمل پر نظریں چرا کر سر جھکا دیا۔
      دونوں کے بیچ فسوں خیز سی جامد گہری خاموشی چھا گئی۔
      چند منٹ بعد اس بولتی ہوئی خاموشی کو زریاب نے توڑنے میں پہل کی۔
      تم۔۔۔۔تم ٹھیک ہونا پلوہی۔۔۔۔۔؟؟
      خان گھر چلیں پلیز۔۔۔۔وہ مدھم آواز میں بولی
      ہوں۔۔۔۔ہاں چلو۔۔۔۔زریاب سر جھٹکتا کھڑا ہوا
      پلوشہ کوشش کے باوجود بھی کھڑی نہ ہو پائی۔
      کیا ہوا۔۔۔۔۔۔؟؟؟زریاب اس کے چہرے پر کرب کے تاثرات دیکھ کر فکرمندی سے اسکے سامنے گھٹنوں کہ بل بیٹھا۔
      پلوہی پاؤں پکڑے درد برداشت کر رہی تھی۔۔۔
      زریاب نے موبائل کی روشنی ڈالتے ہوئے تکلیف کی وجہ جاننے کی کوشش کی
      یہ۔۔۔۔یہ کیسے ہوا۔۔۔۔؟؟وہ خون سے بھرا پاؤں دیکھ کر فکرمند ہوا
      پلوشہ سر جھکائے خاموش رہی وہ زریاب کی کسی بھی بات کا جواب نہیں دے رہی تھی بلکہ یوں خاموش تھی جیسے نہ بولنے کی قسم کھا لی ہو۔۔۔
      زریاب نے اسکا جواب نہ پا کر جیب سے رومال نکال کر اسکے انگوٹھے پر باندھنے کے لیے ہاتھ بڑھایا
      سسی۔۔ی۔۔ی۔۔ی۔۔ی۔۔۔۔پلوہی نے اسکا ہاتھ جھٹک دیا
      پلوشہ دیکھو ابھی بھی خون نکل رہا ہے۔مجھےاس پر رومال باندھنے دو۔۔۔
      نن۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔وہ گھبراتی ہوئی مزید پیچھے ہوئی
      کم آن یار۔۔۔کچھ نہیں ہو گا
      نہیں۔۔۔نہیں بہت پین ہو رہا ہے پلیز ہاتھ مت لگائیں
      نہیں ہو گا پین آئی پرامس۔۔۔۔زریاب نے مزید کچھ سنے بنا اسکا پاؤں سیدھا کر کے انگوٹھے پر رومال باندھ دیا
      اہ ۔۔سی۔۔۔سی۔۔۔
      پلوہی نے منہ پر ہاتھ رکھ کر اپنی چیخ دبائی
      چلیں اب۔۔۔۔۔زریاب نے رومال باندھ کر اسکی طرف دیکھتے ہوئے رضامندی لی
      ہوں۔۔۔۔۔پلوہی کے ہاں میں سر ہلانے پر زریاب نے جھک کر اسے قیمتی متاع کی طرح احتیاط سے بازؤں میں سمیٹ کر سینے سے لگایا اور واپسی کے لیے چل پڑا
      _______________________
      وہ پلوہی کو لے کر حویلی کے رہائشی حصے کیطرف آیا
      پلوہی۔۔۔پلوشہ۔۔مہرو تیزی سے انکی طرف آئی
      یہ۔۔۔۔یہ کیا ہوا ہے پاؤں پر یہ چوٹ کیسے آئی۔۔؟؟وہ پریشانی سے بولی
      مہرو کی آواز سنتے ہی حویلی میں موجود سب لوگ کونوں کھردروں سے وہاں آ کر کھڑے ہو گئے شادی والا گھر تھا بہت سے مہمان تھے جو اس وقت گولائی میں پلوہی اور زریاب کے گرد گھیرا ڈالے کھڑے تھے۔۔۔عجیب سا فلمی سین کری ایٹ ہو گیا تھا جہاں ہیرو اپنی ہیروئین کو بانہوں میں لیے سب کے بیچوں بیچ آن کھڑا ہوتا ہے۔
      پلوہی سچویشن دیکھتے ہوئے شرمندگی سے زریاب خان کو کمرے میں لے جانے کا کہہ رہی تھی۔
      اور زریاب وہ تو جیسے کان بند کیے کھڑا مہرو اور وہاں موجود دیگر بزرگ خواتین کے سوالات کے جوب دے رہا تھا کہ پلوشہ کہاں سے۔۔؟؟۔۔
      اور کیسے ملی؟؟۔۔اسےچوٹ کیسے آئی۔۔؟؟
      وغیرہ۔
      مہرو نے پلوہی کی شکل پر رقم بے بسی کے تاثرات دیکھ کر زریاب کو بلند آواز میں پلوہی کو کمرے میں لے جانے کا کہا
      زریاب سر ہلاتا اسے لیے کمرے کی جانب چلا گیا جہاں پلوشہ ٹہری ہوئی تھی۔
      کمرے میں آ کر زریاب خان نے بہت احتیاط سے اسے بیڈ پر بیٹھایا
      پلوہی تم کو پین تو نہیں ہو رہا اب۔۔۔۔۔۔؟؟فکر مندی سے پوچھا گیا
      پلوشہ نے بنا کچھ بھی جواب دیے رخ بدل کر آنکھیں بند کر لیں۔۔۔
      مجھے تم سے محبت ہے۔۔۔
      ہان تم سے ہی تو محبت ہے!!۔۔
      محبت بھی ستارون سے۔۔۔
      گلون سی أبشارون سی۔۔
      صبح دم۔نکلتی پھولوں سی۔۔
      کناروں سے گلے ملتی لہروں سی٬
      آسمان پہ بکھرے دھنک کے رنگوں سی،
      کسی دلہن کے جوڑے پر سجے جھلمل نگینوں سی،
      کسی نازک حنائی کلائی میں چھنکتی چوڑیوں سی۔۔
      کناروں سے ٹکراتی سمندر کی موجون تیز لہروں سی,۔
      بہار کی دلنشین رم جھم برستی بارش سی۔
      پھر آسمان پہ بکھرے دھنک ست رنگوں سی۔
      کسی دلہن کے جوڑے پر سجے جھلمل نگینوں سی ۔
      کسی نازک کلائی میں چھٹکتی چوڑیوں سی ،۔
      مجھے تم سے محبت ہے۔
      ہان تجھ سے ہی تو محبت ہے۔
      زریاب کچھ دیر بیڈ کے پاس کھڑا اداس نظروں سے اپنی دید کی پیاس بھجاتا رہا اور پھر کمرے سے نکل گیا
      _______________________
      کچھ دیر بعد زبیر خان ، زریاب اور مہرو سبھی ڈاکٹر کے ساتھ ہی پلوہی کے کمرے میں داخل ہوئے۔
      ڈاکٹر نے زخم کا معائنہ کرنے کے بعد بینڈیج کی اور پین کلر دے کر چلا گیا
      زریاب یہ ہلدی ملا دودھ ہےتم اپنی نگرانی میں پلوہی کو پلا دو ورنہ دودھ پینے کے معاملے یہ بہت چور ہے میں تب تک مہمانوں کے کھانے کا انتظام وغیرہ دیکھ لوں جا کر۔۔۔۔مہرو نے دودھ کا گلاس سائیڈ ٹیبل پر رکھا۔
      جی بھابھی۔۔۔۔زریاب نے سائیڈ ٹیبل سے دودھ کا گلاس اٹھایا اور بیڈ پر پلوشہ کیساتھ ہی جا کر بیٹھ گیا۔۔۔
      زریاب کے اتنا پاس بیٹھنے پر پلوہی کےچہرے پرابھرتی ہوئی ناگواری کو دیکھ کر بغیر کچھ کہے مہرو مسکراہٹ دباتی باہر نکل گئی۔
      اب کمرے میں صرف وہ دونوں ہی تھے اور ساتھ گہری جامد خاموشی۔۔۔۔
      پلوہی۔۔۔ پی لو یہ۔۔۔۔۔زریاب نے گلاس اسکے منہ کے پاس لے جا کر کہا
      پی لوں گی مین رکھ دیں آپ اسے۔۔۔۔وہ بہت بے زاری سے ہی بولی۔
      بھابھی کہہ کرگئیں ہیں کہ میں تمہین خود پلاؤں۔۔۔۔
      میرے ہاتھ سلامت ہیں میں پی سکتی ہوں خود سے۔۔۔۔۔
      مگر میں اپنے بڑوں کا کہا نہیں ٹالتا اس لیے پیو اسے۔۔۔۔زریاب نے سیریس ہوتے ہوئے گلاس اسکے ہونٹوں سے لگایا
      پلوہی نے ہاتھ کی پشت سے گلاس کو پیچھے جھٹکا جس سے آدھا دودھ نیچے اور آدھا زریاب کے کپڑوں پر جا گرا
      واٹس رونگ۔۔۔۔۔؟؟اسکی تیوری چڑھی
      رونگ میں نہیں رونگ آپ کر رہے ہیں اپنے مزاج سے خان جی۔۔۔۔۔۔۔
      پیو اسے۔۔۔۔۔وہ بھی زریاب تھا اڑیل گھوڑا کیطرح بضد۔۔۔
      نہیں پیؤں گی۔۔۔۔وہ بھی ضدی ہوئی
      انف از انف پیو یہ جو بچا ہے ورنہ الٹے ہاتھ کا تھپڑ دوں گا۔۔۔۔زیادہ دیر کول رہنا زریاب کی عادت نہ تھی۔
      مار لیں تھپڑ۔ آخر کئی دن جو ہو گئے نہ مارے ہوئے اس لیے دل چاہ رہا ہو گا۔۔۔۔ویسے بھی میرا سکون آپ سے برداشت ہی کب ہوتا ہے۔۔۔
      میرا ضبط مت آزماؤ پلوشہ۔۔۔۔۔
      مت کریں ضبط۔۔۔۔کریں جو کرنا ہے۔۔۔۔وہ گالوں پر پھسلتے آنسو پونچھتی بولی۔
      اب کیا کر دیا میں نے جو یون برسات شروع کر دی۔۔۔زریاب اسکے آنسو دیکھ کر چڑا۔
      مگر پلوہی نے بنا کوئی جواب دیے اپنی برسات کو جاری رکھا۔۔۔۔۔
      اچھا چلو اب بند بھی کر دو رونا۔۔۔۔۔زریاب نے اپنے ایک ہاتھ سے اسکے دونوں ہاتھ ہٹا کر دوسرے ہاتھ سے اسکے آنسو پونچھے اور آگے کو جھک کر ماتھے پر بوسہ دیا۔
      یہ تو آدھا گر گیا ہے میں نیا لاتا ہوں۔۔۔۔زریاب دودھ کے آدھے گلاس کو دیکھ کر کہتا باہر نکل گیا
      پلوہی تو اسکی ہمت وجُرات پر ششدر تھی یہ۔۔۔یہ کیا کر رہا ہے آج۔۔۔۔۔؟؟؟
      اونہہ۔۔۔زبردستی تسلط جمانا چاہ رہے ہیں۔۔۔جب دل چاہا تو سینے سے لگا لیا جب چاہا پرے دھکیل دیا۔۔۔۔وہ کڑھتی ہوئی بڑبڑائی
      پانچ منٹ میں زریاب دودھ کا بھرا گلاس لیے پھر سے حاضر تھا۔
      یہ پکڑو۔۔۔۔پی لو گی یا میں پلاؤں پھر۔۔۔۔۔؟؟؟
      پلوہی نے بہت غصے سے اس کو دیکھتے ہوئے گلاس پکڑ کر ایک ہی سانس میں مکمل خالی کر دیا۔
      گڈ۔۔۔۔اب لیٹ کر آرام کرو
      زریاب نے اسکے پیچھے تکیہ ٹھیک کیا اور اسے پکڑ کر زبردستی لٹا کر کمبل اوڑھا اور خود چینج کرنے واش روم چل دیا
      پلوہی نے آنکھیں بند کیں اور دل کھول کر زریاب کو کوسنے لگی جو زبردستی کمبل ہوا جا رہا تھا۔
      ______________________
      رات کا نہجانے کونسا پہر تھا جب بھوک کی وجہ سے پلوہی کی آنکھ کھلی
      اس نے ترچھا سا اٹھ کر سائیڈ لیمپ آن کیا اوربیڈ کی دوسری سائیڈ پر سوئے زریاب پر ایک سرسری نظر ڈالی
      اب کیا کروں۔۔۔۔؟؟ صبح ناشتہ کیا تھا اور دوپہر میں بھی تو کچھ نہیں کھایا، رات کو بھی بس صرف دودھ کا گلاس پیا تھا۔۔۔۔یہ سوچ کر اس کی بھوک مزید چمک اٹھی
      اب خودہی کچن تک چلی جاتی ہوں۔۔۔۔وہ اٹھنے لگی تھی کہ رک گئی
      اگر کسی نے دیکھ لیا تو کیا سوچے گا میں اتنی بھوکی ہوں کہ آدھی رات کو کچن میں کھا پی رہی ہوں۔۔۔۔
      ہون۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
      تو پھر کیا کروں۔۔۔۔۔۔؟؟؟وہ روہانسی ہوئی
      جس نے جو سوچنا ہے سوچے مجھے کیا۔۔؟؟وہ پیٹ میں دوڑرتے چوہوں سے مزید نہ لڑ سکی ۔۔۔
      اس نے پھر سے مزے سے سوئے زریاب پر نظر ڈالی۔
      ان کو کہ دیتی ہون۔۔۔۔۔
      نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔اپنی سوچ کو وہ خود جھٹکتی ہوئی کچن تک جانے کا فیصلہ کر کے اٹھی، کمبل ہٹایا اور ٹانگ کو پکڑ کر نیچے رکھا بیڈ کورز کو جکڑ کر اٹھنے کی کوشش کی مگر پاؤں میں اٹھتی ٹیسوں کی وجہ سے کامیاب نہ ہو پائی۔
      کچھ دیر بعد پھر کوشش کی مگر سی۔۔۔ی۔۔۔ی۔۔ی کرتی ہوئی پھر سے بیٹھی رہ گئی
      کیا ہوا۔۔۔۔۔؟؟؟زریاب نے خمار آلود آنکھوں کو رگڑتے ہوئے پوچھا
      وہ روشنی کی وجہ سے جاگا تھا۔۔۔۔اسے کمرے میں مکمل اندھیرا کر کے سونے کی عادت تھی حتی کہ زیرو پاور بلب کی روشنی بھی نہیں۔۔۔۔
      وہ ۔۔۔وہ . مجھ کو بھوک لگی ہے۔۔۔۔۔پلوہی اسے دیکھے بنا منمنائی۔
      تو مجھے جگا دیتی۔۔۔روکو میں بھابھی کو کہتا ہوں۔۔۔۔زریاب نے سیل اٹھایا
      نہیں آپ بھابھی کو کیوں تنگ کریں گے اس وقت۔۔۔۔میں خود ہی چلی جاؤں گی کچن تک ہی تو جانا ہے۔۔۔۔
      اوکے۔۔۔۔۔زریاب جانتا تھا وہ پاؤں میں درد کی وجہ سے چل نہیں پائے گی مگر اسکے کہنے پر جان بوجھ کر اوکے کہتا خاموش ہو گیا۔
      پلوہی نے دو چار منٹ تک ویٹ کیا کہ زریاب پھر سے روک دے گا مگر وہ چپ ہی رہا۔۔۔
      وہ اسے کوستی ہوئی بیڈ کو مضبوطی سے تھامے بمشکل کھڑی ہوئی
      پاؤں کو گھسیٹتی ایک قدم آگے بڑھی مگر پاؤن کا پین ناقابل برداشت تھا۔
      وہ پھر سے واپس بیڈ پر جا بیٹھی۔۔۔۔
      کیوں جانا نہیں ہے کیا کچن تک۔۔۔۔؟؟؟استہزائیہ پوچھا گیا۔
      آپ خاموش رہیں جب کچھ کر نہیں سکتے تو پھر منہ بھی بند رکھیں اپنا۔۔۔۔
      میں پیار میں بھی بد تمیزی کا قائل نہیں ہوں اس لیے سوچ سمجھ کر بولا کرو۔۔۔
      تو کون مانگ رہا ہے آپ سے پیار۔۔۔۔۔؟؟وہ اسکی بات پر سیخ پا ہوتی پیچھے کو مڑی
      ضروری نہیں کہ ہر چیز مانگی جائے بعض اوقات بنا مانگے ہی وہ سب مل جاتا ہے جو انسان چاہتا ہے۔۔۔۔وہ رسان سے بولا
      مگر میں ایسا کچھ نہیں چاہتی تھی۔۔۔
      میں تو چاہتا ہوں ناں پھر تمہارے چاہنے نا چاہنے سے کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔۔۔؟؟زریاب کندھے اچھکا کر کہتا اٹھ بیٹھا
      ہاں۔۔۔ہاں آپ مرد جو ہیں جب جو چاہیں گے زبردستی حاصل کر لیں گے۔۔۔
      بلکل۔۔۔۔۔وہ اسے چڑانے کے انداز میں مسکرایا
      اونہہ مطلب پرست۔۔۔۔پلوہی نے سر جھٹک کر منہ پھیر لیا
      اب بھوک نہیں کیا۔۔۔۔؟؟زریاب نے اسے لیٹتے دیکھ کر پھر سے پوچھا
      نہیں۔۔۔۔۔لٹھ مار جواب آیا
      فائن۔۔تو پھر۔۔لیمپ آف کرو اور دوبارہ مت جلانا سمجھی۔۔۔۔۔
      پلوہی نے خاموشی سے لیمپ آف کیا اور پیٹ میں اچھل کود مچاتے چوہوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے زبردستی آنکھیں بند کر لیں۔۔
      __________________
      پلوشہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اٹھو۔۔وو۔۔۔زریاب نے اسکا کمبل ہٹا کر کہا
      مجھے نہیں کھانا ہےاب۔۔۔۔۔۔وہ نروٹھی سی بولی
      زریاب اسکے لیٹنے کے بعد اٹھ کر کمرے سے نکل گیا تھا اور اب وہ کھانے کی ٹرے لیے اسکے سرہانے کھڑا تھا
      تم سے پوچھا نہیں میں نے کھانا ہے یا نہیں۔۔۔۔زریاب نے اسکے بازو کو پکڑ کر زبردستی اٹھایا اور بیڈ کی پشت سے ٹیک لگا کر بیٹھا دیا
      کھاؤ گی یا میں کھلاؤں۔۔۔۔؟؟؟تیوری چڑھا کر پوچھا۔
      مجھے بھوک نہین ہےمین۔۔۔۔۔۔
      وہ اسکی بات پوری ہونے سے پہلے خود سامنے بیٹھا اور چمچ میں چاول بھر کر اسکے منہ کی طرف بڑھایا۔
      پلوہی نے بھی ضدی انداز میں ہونٹوں کو آپس میں مضبوطی سے بھینچ لیا
      ٹیک اٹ۔۔۔۔۔
      پلوشہ آئی سیڈ ٹیک اٹ۔۔۔۔وہ پھر سے بولا
      پلوہی منہ بند کیے اسے دیکھتی رہی۔۔۔
      اگر ان نینوں سے قتل کرنے کا ارادہ ہے تو محترمہ یہ کام آپ کچھ سال پہلے کر چکی ہیں۔۔۔۔زریاب نے اسے مسلسل اپنی طرف دیکھتے پا کر چھیڑا اور پھر جھک کر ان خفا خفا نینوں پر محبت کی پہلی مہر ثبت کر دی۔۔۔
      آپ۔۔۔۔آپ بہت برے ہیں زریاب خان آفریدی۔۔۔۔آپ سے تو برا انسان میں نےآج تک کبھی نہیں دیکھا۔۔۔۔وہ منہ ہاتھوں میں دئیے رونے لگی۔
      میں واقعی بہت برا ہوں اور مجھے مجبور مت کرو کہ میں پھر سے کچھ برا کروں۔۔۔زریاب نے مسکراہٹ دباتے ہوئے اسکے ہاتھ ہٹائے
      کیا ہے آپ کو۔۔۔۔۔؟؟وہ چڑچڑی ہو رہی تھی زریاب کی حرکات پر۔۔۔۔
      اچھا کچھ دیر کے لیے لڑائی روکتے ہیں تم کھانا کھا لو پھر یہیں سے کانٹی نیو کریں گے رائٹ۔۔۔۔۔وہ اسکا سر تھپتھپا کر کہتا سیگرٹ اور لائٹر اٹھا کر باہر نکل گیا۔۔۔۔جانتا تھا کہ پلوہی اسکی موجودگی میں کبھی نہیں کھائے گی۔
      اس کے جانے کے بعد پلوشہ نے کچھ دیر مزید رو کر آنسو رگڑے اور چمچ اٹھا کر اپنا فیورٹ مٹن پلاؤ کھانے لگی۔
      پھر وہ چند منٹ کی دیر میں ہی پوری پلیٹ چٹم کر چکی تھی۔۔۔
      جاری ہے۔۔
      Vist My Thread View My Posts
      you will never a disappointed

      Comment


      • #13
        زبردست جناب ساقی بھائی آب پیار کی نوک جھونک شروع ہو گئی ہے

        Comment


        • #14
          Originally posted by Micky View Post
          زبردست جناب ساقی بھائی آب پیار کی نوک جھونک شروع ہو گئی ہے
          بہت شکریہ دوست۔
          بلکل نوک جھونک شروع ہو چکی ہے۔
          بس میری تو ہمیشہ سے کوشش ہی یہی ہوتی ہے۔کہ نئے سے نئے جدت بھرے انوکھے انداز سے چہرون پر مسکراہٹین اور اور دل مین محبت اجاگر کی جائے۔۔
          Vist My Thread View My Posts
          you will never a disappointed

          Comment


          • #15
            سپر اپڈیٹ صنم ساقیبہت لاجواب اسٹوری ہے.

            Comment


            • #16
              Originally posted by Sakht londa View Post
              سپر اپڈیٹ صنم ساقیبہت لاجواب اسٹوری ہے.
              بہت شکریہ دوست۔
              یہ سب تو أپ سبھی دوستون کے پیار خلوص کا ہی نتیجہ ہے۔
              Vist My Thread View My Posts
              you will never a disappointed

              Comment


              • #17
                قفس۔ کی۔ چڑیا۔
                پلوشہ آئینے کے سامنے کھڑی بال سلجھارہی تھی جب زریاب خان آفریدی کمرے کے اندر داخل ہوا۔
                پلوہی نے فورا پاس پڑے کاؤچ سے دوپٹہ اٹھایا مگر اس کے دوپٹہ اوڑھنے سے پہلے ہی زریاب تیزی سے اس تک پہنچ چکا تھا۔
                خان ہٹین نا میرے سامنے سے۔۔۔
                پہلے بتاؤ کہ اتنی اچھی کیوں لگنے لگی ہو مجھے۔۔۔۔وہ سینے پر ہاتھ باندھے آنکھوں میں بہت سی محبت سموئے پوچھ رہا تھا۔
                یہ آپ کا مسئلہ ہے آپ ہی کو پتہ ہو گا۔۔۔۔وہ لاپرواہی سے بولی۔اور میرےسامنے سے توہٹیں خان۔۔۔ذرا۔۔۔۔۔
                پلوہی تم مجھے۔۔۔۔زریاب نے اسے بازو سے کھینچ کر سینے کے ساتھ لگایا اور پلوشہ کے اردگرد اپنےبازوؤں کا گھیرا دے ڈالا۔
                یہ۔۔۔یہ۔۔ کیا کر رہے ہیں خان صاحب۔چھوڑیں مجھےاوراپنی حد میں رہیں آپ۔۔۔۔پلوہی کچھ بوکھلائی سی آواز مین چلا پڑی۔
                تم مجھے حد میں رہنے ہی کب دیتی ہو پلوشہ۔۔۔۔مجھے یوں لگتا ہے جیسے میں نے بہت سا وقت ضائع کر دیا تم سے دور رہ کر۔۔۔۔وہ اسکے بال چھیڑتا افسردہ سا بولا
                خان پلیز۔۔۔ززز۔۔۔پلوہی خود کو چھڑواتی منمنائی۔
                وہ اس کی کھلی زلفوں میں منہ چھپاتا مدہوش سا ہو رہا تھا
                خان ہوش کریں اور چھوڑیں مجھے ورنہ پھر مین ابھی چلا کر سب کو یہان پراکٹھا کر لوں گی۔۔۔
                اچھا۔۔۔۔۔۔!!!!۔۔
                مگر جب سب اکھٹے ہو جائیں گے تو کیا بتاؤ گی اپنےچلانے کی وجہ۔۔۔۔؟؟وہ محظوظ سا ہوتے ہوےپوچھ رہا تھا۔
                پلیز چھوڑیں نا مجھے خان۔۔۔۔۔مجھے آپکی قربت سے وحشت ہوتی ہے اب۔۔۔۔پلوہی اسکے ہاتھ ہٹاتی پھرچلائی۔
                پلوشہ کی بات پر یکدم زریاب کی گرفت ڈھیلی پڑی جسکا فائدہ اٹھا کر وہ اس کے حصار سے نکلتی جلدی سے دوپٹہ اٹھا کر لڑکھڑاتی ہوئی کمرے سے نکل گئی۔
                مگر زریاب ابھی تک اپنی جگہ پر ساکت سا کھڑا تھا۔۔۔
                "مجھے آپکی قربت سے وحشت ہوتی ہے۔۔۔مجھے آپکی قربت سے وحشت ہوتی ہے۔۔۔"اس کے اردگرد پلوہی کا کہا گیا فقرہ گونج رہا تھا
                ____________.
                پلوشہ باٹم گرین کلر کی فراک کیساتھ چوڑی دار پاجامہ اور ہم رنگ کھوسہ پہنے، ہلکے میک اپ اور لائٹ سی میچینگ جیولری کیساتھ وہ نظر لگ جانے کی حد تک پیاری لگ رہی تھی۔
                اس نے بالوں کو کھلا چھوڑنے کی بجائے چوٹیا بنائی اور چوٹیا سے نکلی لٹوں کو کانوں کے پیچھے اڑس کر دوپٹہ کو سلیقے سے سر پر اوڑھا اور باہر لان کی طرف آ گئی جہاں مایوں اور مہندی کا سب اکٹھا انتظام کیا گیا تھا
                وہ بہت آہستگی سےچلتی ہوئی بی بی جان کے پاس آ کر بیٹھ گئی
                لڑکیاں ڈھولک کی تھاپ پر پشتو گیت گا رہیں تھیں۔۔
                مینہ داخکلو،سنگہ کیگی، ۔
                مالہ، چل نہ رازی۔
                حسینوں سے محبت کیسی کی جاتی ہے، ۔۔
                میں نہیں جانتا۔۔۔۔۔۔
                وئی اللہ سوگ پہ چہ سہ رنگا گرانے گی، .۔
                مالہ چل نہ رازی،۔
                او میرے رب دوسروں کے دل میں کیسے جگہ پیدا کی جاتی ہے،
                مین نہین جانتا۔۔۔۔۔۔۔۔
                پلوشہ بھی ہلکی ہلکی تالی بجاتی گیت کے بول گنگنانے لگی ۔
                جی بی بی جان آپ نے بلایا۔۔۔۔۔زریاب خان کی آواز پر پلوہی کے مسکراتے گنگناتے ہونٹ ایکدم سے ساکت ہوئے۔
                جسے زریاب نے بہت ہی چبھتے انداز میں دیکھا تھا۔
                ہاں بچے۔۔۔۔تمہارے بابا جان کا فون آیا تھا تمہیں واپس آنے کا کہہ رہے تھے کوئی مسئلہ ہو گیا ہے زمینوں کا شائید۔۔۔۔
                انہوں نے مجھے کال کیوں نہیں کی۔۔۔؟؟
                کیونکہ تمہارا فون بند تھا اس لیے...بی بی نے وجہ بتائی۔
                جی۔۔اچھا۔۔تو پھر میں نکلتا ہوں ابھی۔۔۔۔زریاب گھڑی کو دیکھتا بولا
                ارے اتنی بھی جلدی نہیں ہے صبح نکل جانا ویسے بھی اندھیرا گہرا ہو گیا ہے اب تو۔۔۔وہ فکر مند ہوئیں
                ارے نہین ۔بی بی جان میں کوئی بچہ نہیں ہوں جو اندھیرے سے ڈر جاؤں گا۔۔۔۔ابھی نکلوں گا تو دو،تین گھنٹے تک حویلی پہنچ جاؤں گا۔
                بی بی جان نے اسکے چہرے پر اٹل انداز دیکھ کر ہاں میں سر ہلا کر جانے کی اجازت دی۔۔۔۔۔اور مختلف آیات کا ورد کر کے اس پر پھونک ماری۔۔۔۔۔فی امان اللہ۔۔۔۔
                زریاب نے انکی دعا لی اور اچٹتی نظرپلوشہ کے بےنیاز چہرے پر ڈال کر واپس اندر کی جانب بڑھ گیا
                پلوہی نے منہ پھیر کر ایک نظر اسکی چوڑی پشت پر ڈالی اور سر جھٹک کر پھر سے گیت کی طرف متوجہ ہو گئی۔
                زریاب لال حویلی سے واپس تو آ گیا تھا مگر اسکا دماغ ابھی بھی پلوشہ کی بات میں ہی اٹکا ہوا تھا
                پلوہی نے ایسا کیوں کہا۔۔۔۔؟؟؟؟وہ پریشان سا سیگرٹ پھونکتا ٹیرس پر ٹہل رہا تھا
                کیا واقعی اسے میری نزدیکی ، میری قربت سے وحشت ہوتی ہے۔۔۔۔؟؟ وہ خود سے پوچھ رہا تھا
                اگر ہان۔۔۔۔۔۔۔۔تو۔۔پھر ۔۔ایئسے۔۔ کیون۔۔؟؟
                اس کیوں کا جواب اسکے ضمیر نے اسے آئینہ دکھا کر دیا تھا۔
                اسے اسکا اصلی چہرہ دکھایا تھا وہ چہرہ جس پر ہمہ وقت غصے کا ، بدلے کا ، انتقام کا نقاب چڑھا رہا تھا۔۔۔۔۔اس نقاب کو پہنے وہ یہ بھی بھول گیا تھا کہ پلوہی تو بے قصور ہے۔۔۔۔وہ اسکی بیوی ہے۔۔۔۔۔پلوشہ ہی وہ لڑکی ہے جس نے اسے پہلی دفعہ محبت کے امرت رس کو چکھایا تھا۔۔۔۔۔۔۔
                اس سب کے باوجود تم نے اس کیساتھ جو سلوک روا رکھا۔۔۔۔اس کے بدلے میں اس سے محبت کی امید کر رہے ہو۔۔۔۔وہ محبت جو تمہارے دل میں بھی موجود تھی مگر تم نے انتقام کی آڑ میں چھپا دیا۔۔۔۔اب اگر تمہیں احساس ہو گیا ہے کہ تم غلط تھے۔۔۔۔تم اپنا رویہ اسکے ساتھ بدل چکے ہو تو ضروری نہیں کہ وہ فورا ہی سےتمہاری پزیرائی کرے۔۔۔۔اس لیے پلوہی کو وقت۔۔۔۔
                وقت دو۔۔۔زریاب خان۔۔۔۔۔خود کو بھی اور پلوشہ کو بھی۔۔۔۔۔آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہو جائے گا
                اسکے ضمیر نے ایک اچھا مشورہ دیا تھا اسے۔۔۔
                اور زریاب نے اپنے ضمیر کی بات مان لی تھی۔۔۔
                اسے واقعی پلوہی کو وقت دینا چاہیے سب کچھ ایکسیپٹ کرنے کے لیے۔۔۔۔وہ پلوہی کو واپس اپنے تک پلٹنے کے لیے وقت دینے کا وہ فیصلہ کر چکا تھا۔۔
                _______________
                ولیمے سے فارغ ہوتے ہی پلوہی نے بی بی جان کے کہنے پر اپنی اور انکی واپسی کی پیکینگ مکمل کر لی تھی۔
                زریاب تو مہندی کی رات ہی واپس چلا گیا تھا اور مہرو نے ابھی مزید چند دن یہاں رکنا تھا۔۔۔۔ اس لیے بی بی جان اور پلوشہ ولیمے سے اگلے دن ہی ڈرائیور کے ساتھ واپسی کے لیے چل پڑیں تھیں۔
                تین گھنٹے کے تھکا دینے والے سفر کے بعد گاڑی ان کے گاؤں کے روڈ سے ذرا پیچھے ہی تھی کہ چڑر۔۔۔۔رڑ۔۔۔۔۔۔رڑ کی آواز کیساتھ جھٹکا کھا کر بند ہو گئی
                کیا۔۔۔ہوا۔۔۔؟؟؟
                میں اسے دیکھتا ہوں بی بی جان۔۔۔۔۔ڈرائیور مؤدب سا کہتا گاڑی سے نکل کر چیک کرنے لگا
                پندرہ بیس منٹ انتظار کے بعد وہ دروازے سے سر اندر ڈال کر بولا۔۔۔
                بی بی جان میری سمجھ میں تو کچھ نہیں آ رہی اس کی خرابی۔مین اب حویلی فون کر دوں وہاں سے حشمت آ جائے گا آپ لوگوں کو لینے۔۔۔۔؟؟
                ابھی بی بی جان نے کوئی جواب نہیں دیا تھا کہ پلوہی چلا اٹھی۔۔۔
                لالہ۔۔۔لہ۔۔۔شمس لالہ۔۔۔۔۔وہ جلدی سے گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکلی
                لالہ۔۔۔۔لہ۔۔۔لہ۔۔۔۔شمس لالہ۔۔۔۔۔وہ سڑک کنارے کھڑی چلا رہی تھی
                ______________________
                خان سائیں چھوٹی بی بی۔۔۔۔۔ڈرائیور نے بیک مرر سے پلوشہ کو ہاتھوں سے اشارہ کرتے دیکھ کر شمس کو بتایا جو پیچھلی سیٹ پر بیٹھا سیل پر بزی تھا
                ارےکہاں۔۔۔۔۔ہے وہ۔؟؟
                وہ چونک کر فوراسیدھا ہوا۔
                صاحب۔۔۔۔پیچھے سڑک پر۔۔
                شمس نے مڑ کر پیچھے دیکھا اور واقعی پلوشہ کو کافی پیچھے سڑک کنارے کھڑے دیکھ کر فورا پجارو سے باہر نکلا
                اب وہ تیز تیز قدم اٹھاتا اسکی طرف جا رہا تھا۔۔۔۔
                شمس کے پاس آنے پر پلوہی خود پر کنٹرول کھوتی اسکے سینے سے لگ کر وہ روئی کہ اپنے اردگر موجود سب کی آنکھوں کو نم کر دیا۔۔۔
                شمس نے اسکے سر کا بوسہ لیتے ہوئے اسے خود سے الگ کر کے آنسو صاف کیے۔
                کیسی ہے میری گڑیا۔۔۔۔۔؟؟؟
                زندہ ہوں۔۔۔۔۔وہ افسردگی سے بولی
                کون ہے ساتھ۔۔۔۔؟؟ شمس نے اسکی مرجھائی سی صورت دیکھ کر بات بدلی۔
                بی بی جان۔۔۔۔۔
                ہوں۔۔۔۔شمس نے گاڑی کا دروازہ کھول کر پیسینجر سیٹ پر بیٹھیں بی بی جان کو سلام کیا
                اسلام وعلیکم۔۔بی بی جی۔۔
                وعلیکم سلام۔۔۔۔۔کیسے ہو بچے۔۔۔۔؟؟بی بی جان اپنے مخصوص ٹہرے ہوئے متاثر کن لہجے میں بولیں۔
                اللہ سائیں کا شکر ہے۔۔۔۔آپ لوگ بیچ راہ میں اس طرح سےکیوں رک گئے۔۔۔؟؟؟
                گاڑی میں کوئی مسئلہ ہوگیا ہے ابھی حویلی سے ڈرائیور بلواتے ہیں تاکہ گھر جا سکیں۔۔۔۔اس کو بی بی جان نے بتایا۔
                اگر آپ مجھے اس کے قابل سمجھیں تو میں چھوڑ دیتا ہوں آپ لوگوں کو۔۔۔۔شمس دل پر ہاتھ رکھے آگے کو جھکا۔
                بی بی جان کشمکش میں تھیں کہ کیا جواب دیں۔۔۔۔
                کوئی بات نہیں اگر آپ نہیں جانا چاہتیں تو مجھے برا نہیں لگے گا۔۔۔۔۔شمس ان کے چہرے کے اتارچڑھاؤ دیکھ کر بولا۔
                ارے نہیں بچے ایسی بات نہیں ہم چلتے ہیں تمہارے ساتھ۔۔۔۔انہوں نے پلوہی کی طرف دیکھ کرشمس کیساتھ جانے کی اپنی رضامندی دی اور گاڑی سے نکل آئیں۔
                اللہ بخش تم گاڑی ٹھیک کروا کر حویلی لے آنا۔۔۔۔ہم شمس خان کیساتھ جا رہے ہیں
                جو حکم بی بی جان۔۔۔۔۔اللہ بخش مؤدب ہوا۔
                اتنے میں شمس کا ڈرائیور گاڑی ان تک لے آیا تھا
                شمس نے بی بی جان کو بیٹھنے میں مدد کی۔۔۔۔۔۔پلوہی بھی اپنے دل میں امڈتی خوشی کو سنبھالتی۔ان کے ساتھ ہی گاڑی میں آ بیٹھی
                پندرہ منٹ کی ڈرائیو کے بعد جو روڈ آنا تھا اس روڈ پر تین سڑکیں تھیں جو تین مختلف گاؤں کو جاتی تھیں ان تین میں سے ایک سڑک پلوہی کے گاؤں کو اور دوسری سڑک زریاب خان کے گاؤں کی طرف جاتی تھی۔
                اس روڈ پر پہنچتے ہی بی بی جان کو نہجانے کیا سمائی کہ بول اٹھیں۔
                دائین جانب لے چلو۔۔۔۔۔
                شمس اور پلوہی نے بیک وقت ان کی طرف دیکھا۔
                وہ راستہ پلوشہ کے گاؤں کی طرف جاتا تھا
                جی۔۔۔۔۔شمس نے سر ہلاتے ہوئے ڈرائیور کو اپنی حویلی جانے کا کہا۔
                بیس منٹ بعد وہ لوگ حویلی کے اندر تھے۔
                پلوشہ ناقابل یقین خواب کی سی کیفیت میں تھی۔۔۔۔۔۔وہ پورے سات ماہ بعد اپنوں سے ملنے والی تھی۔۔۔جسکی خوشی ہی نرالی تھی۔۔۔اسکے چہرے پر قوس وقزاح کے کئی رنگ بکھر رہے تھے وہ آگے بڑھنے کی بجائے جھجھکتی ہوئی بی بی جان کی طرف واپس مڑی۔
                بی بی جان نے اسکے چہرے پر امڈتی خوشی کو دیکھ کر مسکراتے ہوئے سر ہلا کر پلوہی کو گھر کےاندر جانے کی اجازت دی۔
                پلوشہ نے انہیں سہارا دیا اور پھر اپنے بھاری قدم گھسیٹتی ہوئی رہائشی حصے کی طرف اندر جانے کو بڑھی۔
                پلوہی کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ روئے یا ہنسے۔۔۔کچھ عجیب سی حالت تھی دل و دماغ کی۔۔۔۔۔
                پلوشہ۔۔۔شہ۔۔۔بی بی۔۔۔۔رحیمہ کی چیخ پوری حویلی میں گونجی تھی جسے سنتے ہی سب ایک ایک کر کے وہاں آ موجود ہوئے
                پلوہی میری بچی۔۔۔۔۔سب سے پہلے اماں ہی ہوش میں آتی ہوئین اسکی طرف اگے بڑھیں اور اسے سینے سے لگا کر رونے لگیں
                کہاں تھی تو۔۔۔میری تو آنکھیں ترس گئیں تھیں اپنی بچی کو دیکھنے کے لیے۔۔۔۔کیسی ہو میری جان۔۔۔۔انہوں نے اس کے چہرے کو بیقراری سے چومتے ہوئے پوچھا۔
                میں ٹھیک ہوں اماں۔۔۔۔وہ خدیجہ کے آنسو صاف کرتی مدھم سا کہتی پیچھے ہوئی ۔
                پھر باری باری سب آ کر اسے گلے لگا کر ملتے جا رہے تھے
                کافی دیر ملنے ملانے کا سلسلہ چلتا رہا کوئی دس پندرہ منٹ بعد جا کر پلوہی کی جان بخشی ہوئی۔
                خدیجہ نے اسے اپنے پہلو میں بیٹھا لیا اور بیتے سات ماہ کی کتھا سننے لگیں۔
                پلوشہ نے انہیں خود پر گزری ہر قیامت چھپا کر مہرو اور بی بی جان کی محبتوں کو بڑھا چڑھا کر بتایا تھا۔۔۔جس پر خدیجہ کافی مطمعن ہو گئی تھیں کہ جسطرح بھی سہی انکی بیٹی اچھے لوگوں میں ہی گئی تھی۔
                بی بی جان کو بھی وہاں خاص الخاص طور پر پروٹوکول دیا گیا تھا۔
                حویلی میں عجب سی چہل پہل معلوم ہو رہی تھی ہر کوئی بی بی جان اور پلوشہ کی آؤ بھگت کرنے میں بچھا جا رہا تھا
                وہ سب(پلوشہ کے گھر کی خواتین ، چچیاں ، کزنز ) سب دالان میں بیٹھے تھے۔
                خدیجہ نے سب کی موجودگی میں بی بی جان سے سہراب خان کے خون کی معافی مانگی اور انہیں اس دن کا سارا قصہ سنانے لگیں۔۔۔۔۔۔
                اس دن شمس قریبی علاقے میں ہرن کے شکار پر گیا ہوا تھا۔۔۔۔وہ اور سمندر خان (ملازم دو ہرنوں کا شکار کر کے) واپس آ رہے تھے کہ راستے میں پہاڑی گیڈر سامنے آ گیا۔۔۔۔شمس نے اس پہاڑی گیڈر کو دیکھ کر ہی گولی چلائی تھی۔۔۔۔پر اس لمحے سہراب خان کا بلاوا آ چکا تھا۔۔۔۔بدقسمتی سے شمس کی بندوق سے نکلی گولی جھاڑیوں کے پیچھے سے یکدم سامنےآتے سہراب خان کو خون میں نہلا گئی۔۔۔۔گولی سہراب کے عین سینے پر دل کی جگہ پر لگی تھی اور وہ اسی لمحے جان کی بازی ہار گیا تھا۔۔۔۔
                اس بات کو مہرو اور سہراب کے سبھی گھر والے مان چکے تھے سوائے زریاب خان آفریدی کے۔۔۔(جس نے اس بات کو جھوٹ قرار دے کر ماننے سے انکار کر دیا تھا اور پنچائیت بیٹھائی گئی تھی۔کیونکہ جو کچھ اسے بتایا اور سمجھایا گیا تھا وہ تو اس سب کے اُلٹ ہی تھا )۔
                خدیجہ نے پلوہی کی زبانی اسکے ساتھ کیے گئے اچھے سلوک پر بی بی جان کا تہہ دل سے شکریہ بھی ادا کیا۔
                اتنی مہمان نوازی اور پزیرائی پر بی بی جان نے انہیں یقین دلایا کہ ان کے دل میں ان سب کے لیے کوئی میل نہیں ہے۔۔۔۔۔
                کیونکہ موت تو اٹل ہے جو ہر حالت میں آ کر ہی رہے گی پھر ان لڑائی جھگڑوں سے کیا حاصل۔۔۔۔۔؟؟
                _______________________
                پھر بی بی جان نے تنہائی ملتے ہی پلوشہ کو وہاں پر رکنے کا کہا تھا۔۔۔۔جسے سن کر وہ بہت ہچکچائی ۔
                بی بی جان وہ زریاب۔۔خان۔۔۔
                کچھ نہیں کہے گا وہ۔میں سنبھال لوں گی اسے تم فکر مت کرو۔۔۔انہوں نے تسلی دی۔
                مگر بی بی جان۔۔۔۔۔۔
                تمہیں مجھ پر یقین نہیں ہے کیا۔۔۔۔۔؟؟
                میرا یہ مطلب نہیں تھا بی بی جان آپ تو میرے لیے۔۔۔۔وہ انکے ہاتھ پکڑے رو پڑی۔
                مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا بی بی جان کہ آپ کا کن الفاظ میں شکریہ ادا کروں۔۔۔۔
                مجھے تمہارے شکریے کی ضرورت نہیں ہے بچے تم میرے لیے مہرو سے ہر گز کم نہیں ہو۔۔۔۔بی بی جان نے اسکے ہاتھ تھپتھپا کر حوصلہ دیا۔۔۔۔۔
                چلو شاباش اب رونا بند کرو اوراپنے شمس لالہ سے کہو مجھے ڈرائیور کیساتھ حویلی بھجوا دے۔
                بی بی جان کھانا کھا کر جائیے گا ناں اماں اور بھابھی خاص آپ کے لیے۔۔۔۔۔
                ارے نہیں جاؤ جا کر منع کرو کھانا کھانے میں بہت دیر ہو جائے گی اتنی خاطر مدارت تو کر دی ہے باقی پھر کبھی سہی میں اب نکلوں گی بس۔۔۔۔
                جی۔۔۔۔۔پلوہی سر ہلاتی کچن کی طرف چلی گئی
                اماں کو بی بی جان کا میسج دیا اور رحیمہ کو شمس کو لینے بھیجا جو مردانے میں تھا
                __________________. . .
                شمس خود چھوڑ کر آنا چاہتا تھا مگر بی بی جان نے منع کر دیا اسلئیے وہ ڈرائیور کیساتھ ہی روانہ ہو گئیں تھیں ۔
                زریاب ٹیرس پر ٹہلتا سیل فون کان سے لگائے کال میں بزی تھا جب پجارو اندر داخل ہوئی ۔
                انجانی گاڑی کو اندر آتے دیکھ کر وہ کال بند کرتا ریلئنگ گرل کی طرف آیا۔
                بی بی جان کو گاڑی سے نکلتے دیکھ کر وہ حیران ہوتا نیچے ہال میں چلا آیا۔
                اسلام وعلیکم بی بی جان۔۔۔۔۔۔۔زریاب نے آگے بڑھ کر انہیں سہارا دیا
                وعلیکم سلام کیسے ہو۔۔بیٹتنا۔۔۔؟؟
                فٹ ہوں آپ سنائیں کیسی گزری شادی۔۔۔۔؟؟
                شادی بھی اچھی گزر گئی خدا جوڑی سلامت رکھے دونوں کی۔۔
                جی بلکل۔۔۔۔۔زریاب نے سر ہلایا
                تمہارے بابا جان کہاں ہیں اور زمینوں کا مسئلہ ہو گیا حل۔۔۔۔۔؟؟
                بابا جان کمرے میں ہیں شاید اور زمینوں کا مسئلہ بھی حل ہو چکا ہے۔۔۔
                آپ کس کیساتھ آئیں ہیں بی بی جان….؟؟
                گاڑی خراب ہو گئی تھی راستے میں وہیں سے کروا لی تھی۔۔۔۔ٹھیک ہے پھر میں بھی آرام کروں بہت تھکن ہو رہی ہے۔۔۔۔۔۔بی بی جان بات گول مول کرتیں اپنے کمرے کیطرف چلی گئیں
                زریاب چاہنے کے باوجود بھی ان سے وہ نہ پوچھ سکا جو پوچھنا چاہتا تھا
                …………………………………………..…………
                پلوہی خوش بھی تھی اور بے چین بھی۔۔۔
                خوش وہ اپنے گھر آ کر اور گھر والوں سے مل کر تھی اور بے چین وہ زریاب کی وجہ سے تھی۔
                نہجانے زریاب نے کیساری ایکٹ کیا ہو گا جب بی بی جان نے میرے یہاں ہونے کا بتایا ہو گا۔۔۔۔۔یقینا بہت غصہ آیا ہو گا اور اس غصے کی لپیٹ میں پوری حویلی کے ملازم آ چکے ہوں گے اب تک۔۔۔۔ وہ اپنی قیاس کے گھوڑے دوڑا رہی تھی۔
                پتہ نہیں زریاب اتنا غصہ کیوں کرتے ہیں ۔۔۔؟؟کیا ہو جائے اگر ہر وقت بات بے بات غصہ نہ کریں تو۔۔۔۔ذرا ذرا سی بات پر تیوری چڑھ جاتی محترم کی۔۔۔۔
                پلوشہ بی بی۔۔۔۔پلوہی۔بی بی۔۔
                نیچے وہ۔۔۔۔۔وہ آئے ہیں۔۔۔۔ رحیمہ گھبراتی بوکھلاتی اسکے کمرے میں آئی۔۔
                کون وہ۔۔۔؟؟
                وہ۔۔۔۔۔وہ پلوشہ بی بی۔۔۔۔زریاب خان۔۔۔۔۔
                زریاب خان۔۔۔۔۔پلوشہ کے ہاتھ میں پکڑا ہوا گلاس گرتا۔زمین سے ٹکرا کر کرچی کرچی ہو چکا تھا۔
                _________________. .
                زریاب بی بی جان کے جانے کے بعد اپنے کمرے میں آ کر لیپ ٹاپ پر بزی تھا جب اسکا سیل وائبریٹ ہوا۔
                بھابھی کالنگ دیکھ کر اس نے کال اوکے کردی ۔۔۔۔
                پلوہی کہاں ہے۔۔۔۔۔؟؟؟دوسری طرف چھوٹتے ہی پوچھا گیا
                پلوشہ۔۔۔۔۔
                ہاں پلوہی اسکا سیل کیوں آف جا رہا ہے۔۔۔ میری اس سے بات کروا دو۔۔۔۔گھر پہنچ کر بتایا ہی نہیں اس نے۔۔۔میں یہاں فکر مند ہو رہی ہو ؟؟؟ مہرو ایک ساتھ ایک ہی سانس میں بول پڑی۔۔۔
                جسٹ آ منٹ بھابھی۔۔۔۔۔۔پلوشہ کے پاس سیل فون کہاں سے آیا۔۔۔۔۔؟؟
                تم میری بات کرواؤ اس سے ۔یہ انویسٹی گیشن پھر کر لینا۔۔۔۔۔۔
                کیسے بات کرواؤں میں۔۔۔۔؟؟
                کیوں ابھی تک آئے نہیں ۔۔وہ لوگ کیا۔۔۔۔؟؟مہرو پریشان ہوئی
                بی بی جان آ گئیں ہیں مگر پلوشہ۔۔شہ۔۔تو نہین ہے ان کے ساتھ۔ ۔
                پلوہی کہاں ہے۔۔۔۔۔؟؟مہرو ٹھٹھکی
                مجھے کیا پتہ۔۔۔۔میں تو سمجھا کہ آپ نے اپنے ساتھ روک لیا ہو گااسے۔۔
                نہیں۔۔۔نہیں پلوہی اور بی بی جان اللہ بخش کیساتھ اکٹھے نکلیں تھیں صبح 10 بجے اور اب شام ہو گئی ہے۔۔۔۔تم ایسا کرو بی بی جان سے پوچھو جا کر پلوہی کدھر رہ گئی۔۔۔؟؟
                جی۔۔۔۔زریاب عجلت میں فون بند کرتا ہوا۔ بی بی جان کے کمرے میں آیا وہ مغرب کی نماز پڑھ رہیں تھیں
                زریاب بے چینی سے ٹہلتے ہوئے ان کے فارغ ہونے کا انتظار کرنے لگا
                بی بی جان نے دعا مانگنے کے بعد زریاب کو ٹہلتے دیکھ کر پکارا.
                کیا ہوا زریاب خریت۔۔۔۔؟؟
                بی بی جان پلوہی کہاں ہے۔۔۔۔؟؟ بھابھی کی کال آئی تھی تو پتہ چلا کہ وہ بھی آپ کیساتھ ہی نکلی تھی لال حویلی سے پھر راستے میں کہاں رہ گئی۔۔۔۔؟؟وہ بے چین دیکھائی دے رہا تھا
                تم بیٹھو بچے میں بتاتی ہوں سب۔۔۔بیٹھوادھر۔۔۔۔۔۔۔۔ میری جان۔۔۔۔۔۔۔بی بی جان نے اسکے تیور دیکھ کر پچکارا۔
                زریاب بادلانخواستہ ان کےپاس بیٹھ گیا۔۔۔
                اصل میں گاؤں سے کچھ پیچھے راستے میں گاڑی خراب ہو گئی تھی۔۔۔۔وہیں ہمیں پلوہی کا لالہ شمس خان مل گیا۔۔
                شمسسسس۔۔۔۔۔وہ بیٹھے سے کھڑا ہوا
                بات مکمل ہونے دو زریاب۔۔۔
                کیا بات۔۔۔؟؟ یہی کہ آپ اسے اس قاتل کیساتھ روانہ کر آئیں ہیں۔۔۔۔وہ بھڑک اٹھا۔۔۔
                زریاب بچے میں خود بھی دلاور خان کی حویلی گئی تھی۔۔۔پلوہی تو واپس آنا چاہ رہی تھی میں ہی زبردستی وہاں چھوڑ آئی اُسے۔۔۔
                بی بی جان نے زریاب خان کو ٹھنڈا کرنا چاہا۔
                زریاب۔۔۔۔زریاب کہاں جا رہے ہو بچے۔۔۔؟؟؟ بات تو سنو۔۔۔۔بی بی جان پکارتیں ہی رہ گئیں مگر زریاب غصے سے بھرا سنی ان سنی کرتا فوراحویلی سے نکل گیا۔۔۔۔
                جاری ہے۔۔۔
                Vist My Thread View My Posts
                you will never a disappointed

                Comment


                • #18
                  Uff ,
                  Itna khatarnak suspence?
                  Ghazab na shahkar hai
                  Shukria saqi ji....
                  Last edited by Man moji; 03-31-2023, 03:19 PM.

                  Comment


                  • #19
                    Originally posted by insght View Post
                    Uff ,
                    Itna khatarnak suspence?
                    Ghazab na shahkar hai
                    Shukria saqi ji....
                    ارےےےے۔
                    نہین تو دوست۔
                    ابھی کہان ہےسسپنس؟؟؟۔
                    رمضان کا بابرکت مہینہ ہے اور سبھی ساتھی اور دوست بہت مصروف ہین۔
                    نماز،روزون اور عبادت مین۔
                    یہ تو بس ہلکی پھلکی دل لگی ہے۔
                    کہان کا سسپنس۔
                    کہان کا تھرل۔
                    ​​​​​​​بس روز ملنے کا ایک چھوٹا سابہانہ بنا رکھا ہے۔
                    Vist My Thread View My Posts
                    you will never a disappointed

                    Comment


                    • #20
                      قفس کی چڑیا۔
                      پلوشہ کہاں ہےجلدی سے بلائیں اسے۔۔۔۔۔زریاب خان بھن بھناتا ہوا غصے مین بولا۔۔
                      ارےےےےزریاب بیٹا تھوڑا بیٹھو تو سہی۔۔۔۔بیٹھ کر بات ہوتی ہے۔۔۔۔دلاور خان نے اسکے تیوروں کے برخلاف بہت ہی تحمل سے کہا تھا۔
                      میں یہاں پر بیٹھنے نہیں آیا ہون۔مین تو بس پلوہی کو لینے آیا ہوں۔۔۔
                      بیٹا تم پلوشہ کو بیشک لے جانا ساتھ ۔۔ وہ بیوی ہے تمہاری مگر تم سکون سے دو گھڑی بیٹھو تو سہی ۔۔۔۔۔
                      پلیز آپ وہ کریں جو میں کہہ رہا ہوں۔۔۔۔نہ میں یہاں بیٹھنے کو آیا ہوں اور نہ ہی کبھی بیٹھوں گا یہان۔۔۔۔۔زریاب نے ایک انتہائی تلخ نظر فاصلے پر کھڑے شمس پر ڈال کر کہا۔
                      پلوشہ پیلر کی اوٹ میں کھڑی زریاب خان کا اس طرح سے چلانا سن رہی تھی مگر اس کی سامنے آنے کی ہمت نہین ہو رہی تھی۔
                      بیگم تم پلوشہ کو بلاؤ کہاں ہے وہ۔۔۔۔دلاور خان نے پھر خدیجہ بیگم کو کہا۔
                      جی۔۔۔۔۔وہ سر ہلاتیں اٹھنے ہی والی تھیں کہ پلوشہ انکے جانے سے پہلے ہی پلر کی اوٹ سے نکل کر جھکے سر سے سامنے چلی آئی۔
                      چلو پلوشہ میرے ساتھ مین تمہین لینے آیا ہون۔۔
                      زریاب نے اسے سرخ آنکھوں سے دیکھا ضرور مگر فل وقت اپنے غصے پر قابو پا کر بہت دھیمے سے بولا۔
                      پلوہی جانتی تھی اس بلاوے کا مقصد مگر کچھ کر نہیں سکتی تھی ایک طرف باپ اور بھائی تھے تو دوسری طرف اس کا شوہر تھا اور شوہر بھی وہ جو کبھی دل میں رہ چکا تھا جس کی ہر بات وہ پتھر پر لکیرجان کر مانتی آئی تھی مگر اب جب سے مس کیرج ہوا تھا وہ زریاب کے ساتھ کافی منہ ماری کر چکی تھی مگر اس وقت وہ کچھ ایسا کر کے نیا پینڈوراباکس کھولنا نہیں چاہتی تھی اسی لیے نہایت خاموشی سے سرکو جھکائے کسی کی طرف بھی دیکھے بنا بس فورا باہر کی جانب چل پڑی۔
                      وہ اچھے سےجانتی تھی کہ اگر گھر والوں پر جو نظر پڑ گئی تو پھر اس کاجانا بہت مشکل ہو جائے گا۔
                      زریاب بھی سب پر طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے اسکے ساتھ پیچھے ہی باہر آ گیا تھا۔
                      پھر ان دونون کی گھر واپسی کا ساراراستہ بہت خاموشی کے ساتھ کٹا۔۔۔
                      _________________
                      ادھر بی بی جان راہداری میں ہی کھڑی بے چینی سے ٹہلتیں ہوئین ان کا انتظار کر رہیں تھیں۔
                      جب وہ دونوں آگے پیچھے اندر داخل ہوئے تو انہوں نے پلوہی کو دیکھ کر زریاب خان پر ایک ملامتی نظر ڈالی۔۔۔
                      جس پر زریاب نظریں چراتا آگے بڑھ گیا۔
                      مگر پلوشہ بی بی جان کے پاس چلی آئی۔۔بی بی جان آپ کیوں ادھرکھڑی ہیں ایئسے ۔۔۔۔؟؟چلیں کمرے میں۔۔
                      بی بی جان خاموشی سے اسکے ساتھ کمرے میں آئیں۔
                      کسی کی بھی نہیں سنتا یہ۔۔نالائق۔۔ناجانے کس پر چلا گیا۔۔۔۔اتنا غصہ تو کبھی خان (خاقان آفریدی) نے بھی نہیں کیا جتنا یہ کرتا ہے۔۔۔۔اسےاب اللہ ہی ہدایت دے بس۔
                      بیٹھو یہاں۔۔۔۔بی بی جان نے پلوہی کا بازو پکڑ کر اسے اپنے سامنے بیڈ پر بیٹھایا۔
                      میں شرمندہ ہوں تم سے پلوہی بیٹا۔۔۔میں کتنے مان سے تمہیں وہاں چھوڑکر آئی تھی اور اس زریاب نے تمہیں چند گھنٹے بھی رکنے نہیں دیا۔
                      بی بی جان آپ کیوں شرمندہ ہیں۔۔۔مجھے ملنا تھا سب سے۔ توبس ۔۔۔مل لیا اس لیے رکنے یا نہ رکنے سے اب کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔۔۔۔پلوشہ بجھی بجھی سی بولی۔
                      پھر بھی اتنے مہینوں کی دوری تھی کچھ وقت تو ۔۔۔۔۔۔
                      کوئی بات نہیں بی بی جان مجھے بلکل بھی برا نہیں لگا بلکہ میں تو خوش ہوں کہ کم وقت کے لیے ہی سہی میں اپنے گھر والوں سے مل تو آئی اور ویسےبھی مجھے آج یاکل یہیں آنا تھا تو پھر آپ کیوں شرمندہ ہو رہی ہیں۔
                      بی بی جان نےبہت ہی فخر سے اس کو دیکھا تھا ۔
                      تمہارے ہر عمل میں تمہاری ماں کی اعلی تربیت جھلکتی ہے پلوشہ بیٹا۔۔۔۔اور مجھے فخر ہے کہ تم میرےزریاب کی شریک حیات ہو۔۔۔وہ مسکرائیں۔
                      بیٹا تم جس طرح کے حالات میں یہاں آئی تھی۔۔۔جس طرح سے زریاب کا برا رویہ سہا اور سہہ کر برداشت کیا۔۔۔۔۔ اگر سچ پوچھو تو میں تمہارے صبر اور دھیمے مزاج کی قائل ہو چکی ہوں۔۔۔میں بلکل ایسی ہی لڑکی زریاب کی زندگی میں لانا چاہتی تھی۔۔۔۔
                      میری ایک بات مانو گی پلوہی بیٹا۔۔۔۔انہوں نے آس بھرے لہجے میں کہہ کر اسکے دونون ہاتھ تھامے۔
                      جی بی بی جان أپ ضرور کہین۔مین بھلا کیون نہین مانو گی اسے۔
                      پلوشہ بچے زریاب کو بھی اپنے جیسا بنا دو۔۔۔
                      پلوہی نے حیرانگی سے ان کی طرف دیکھا۔۔۔۔ بی بی جی اپنے جیسا۔کیا مطلب۔۔۔۔؟؟؟؟
                      بیٹا میرے کہنے کا مطلب ہے کہ اپنے جیسا صابر اور دھیمے مزاج کا۔۔۔
                      میں ایک ماں ہونے کے ناطے یہ نہیں کر سکی مگر تم ایک بیوی ہونے کے ناطے یہ کرنے کی کوشش کرو پلوہی۔۔۔۔۔تم جس رشتے میں اسکے ساتھ بندھ چکی ہو وہ رشتہ جتنا نازک ہے اتنا ہی مضبوط بھی اور اس رشتے کا تقاضہ بھی تو یہی ہے کہ جب دونوں فریق میں سے کوئی ایک غلط ہو تو دوسرے کو چاہیے کہ وہ اپنے عمل سے اپنی محبت سے اسکی غلطیوں کو درگزر کر کے اصلاح کرے۔۔۔
                      میں بھی اب یہی چاہتی ہوں کہ تم اپنی محبت سےاسے بدل دو۔۔۔۔کیونکہ اگر تم چاہو تو زریاب کی کی گئی زیادتیوں کو بھلا کراسے بدل سکتی ہو پلوشہ بیٹا۔۔۔۔
                      جب سے مس کیرج والا واقعہ ہوا ہے تو میں نے دیکھا ہے وہ کافی بدل گیا ہے تمہارے ساتھ۔۔۔۔تم بھی دل بڑا کر کے سب بھلا دو اب میری جان۔۔۔۔دونوں خاندانوں میں موجود رنجشوں کو مٹانے کی کوشش کرو کہ ۔
                      یہ سب تم ہی ممکن کر سکتی ہو بچے۔۔۔۔۔
                      کروگی ناں تم ایسے بیٹا۔۔۔۔؟؟؟انہوں نے بہت مان سے پلوہی کے ہاتھوں پر دباؤ ڈالا۔
                      جج۔۔۔۔۔جی بی بی جان میں۔۔۔۔میں کوشش کروں گی کہ سب ٹھیک ہو جائے۔
                      ہوں۔۔۔۔مجھے تم سے ایسے ہی جواب کی امید تھی۔۔۔۔خوش رہو آباد رہو۔۔۔۔بی بی جان نے مسکراتے ہوئے اسکا سر شفقت سے تھپتھپایا ۔
                      اب جاؤ جا کر کھانا کھا لو اور آرام کرو تھک گئی ہو گی۔
                      أپ نے کھانا کھا لیا۔۔۔؟؟؟
                      نہیں ابھی نہیں۔۔۔۔تم ایسا کرو سکینہ سے کہو مجھے یہیں دے جائے اب باہر جانے کی ہمت نہیں۔۔۔۔
                      جی میں بھجواتی ہوں ابھی۔۔۔۔۔پلوشہ مسکرا کر کہتی باہر چلی گئی۔۔
                      __________
                      پلوہی کھانے سے فارغ ہو کر جب کمرے میں آئی تو زریاب بیڈ پر لیٹا ٹی وی دیکھ رہا تھا ایک سرسری نظر اس پر ڈال کر پھر سے ٹی وی دیکھنے لگا۔۔
                      پلوشہ نہایت آہستگی سے چلتی ڈریسنگ روم میں چینج کرنے چلی گئی
                      چینج اور وضو کر کے وہ کمرے میں آئی اور خاموشی سے ٹی وی کا سوئچ آف کر دیا
                      زریاب ایک لمحے کو اسکی ہمت پر عش عش کر اٹھا مگر پلوشہ کو جائے نماز اٹھاتے دیکھ کر وہ کوئی بھی تلخ بات کہنے سے باز رہا۔
                      پلوہی نے تسلی سے عشاء کی نماز ادا کی اور لائٹ آف کر کے بیڈ کے پاس آئی۔
                      خان۔۔مم۔مجھے کہاں پر سونا ہے۔۔۔۔۔؟؟؟
                      میرے پہلو میں۔۔۔۔فٹ جواب آیا۔
                      صد شکر کہ وہ لائٹ آف کر چکی تھی ورنہ بلاوجہ زریاب اسکا مزاق اڑاتا۔۔۔۔پلوشہ اپنے بلش کرتے گالوں پر ہاتھ پھیر کر بیڈ کی دوسری سمت آ کر لیٹ گئی۔
                      زریاب خان نے بھی خاموشی سے دوسری طرف کروٹ بدل لی۔۔۔
                      پلوہی اسکے خاموشی سے آج بیڈ پر یون کروٹ بدل لینے پر حیران تھی۔۔
                      یہ۔۔۔۔یہ ایئسےخاموش کیوں ہیں۔۔۔اور مجھ پر غصہ بھی نہیں کیا۔۔۔۔۔حیرت ہے لینے تو یوں گئے تھے جیسے آج ہی قتل کر دیں گے میرا اور اب۔۔۔۔۔چلو اچھا ہے خاموش ہیں ورنہ پھر سے جواب میں کوئی تلخ بات میرے منہ سے نکل جاتی اور پھر نئے سرے سے ہمارا جھگڑا ہو جاتا۔۔۔۔
                      اتنے دن کی تھکن تھی نہجانے کب سوچتے سوچتے پلوہی کی آنکھ لگی۔جس کا اسے پتہ ہی نہ چلا۔
                      _____________
                      پلوشہ گہری نیند میں تھی جب اسے گھٹن کا احساس ہوا یوں جیسے کوئی بہت بھاری چیز اس پر آرکھی ہو۔۔۔۔۔
                      اس نے غنودگی میں ہی ایک دو بار ہاتھ کو ہلا کر اس چیز کو ہٹانے کی کوشش کی مگر یہ کیا۔۔۔؟؟وہ باوجود کوشش کے ہاتھ نہ ہلا پائی
                      اب کے پلوہی نے پٹ سے آنکھیں کھول دیں۔ مگر کمرے میں چھایا گھپ اندھیرا اسکے دل کی دھڑکن مزید بڑھا گیا۔۔۔۔۔اسے زریاب کی مکمل اندھیرا کر کے سونے کی عادت سے سخت ہی نفرت محسوس ہوئی۔۔
                      پھر پلوشہ نے اسی اندھیرے میں اپنے اردگرد دیکھنے کی کوشش کی۔۔۔۔
                      چند منٹ کے غوروحوض کے بعد اسے اپنے کان کے پاس زریاب کے ہلکے ہلکے خراٹوں اور سانسوں کی آواز محسوس ہوئی
                      اوہ۔۔۔۔۔میں یہاں پر کیسے آ گئی۔۔۔۔؟؟وہ حیران تھی وہ تو بیڈ کی بلکل پائنتی سے لگ کر سوئی تھی پھر زریاب کے اتنے قریب کیسے۔۔۔۔۔؟؟؟
                      اس نے کسمسا کر اپنا ہاتھ آزاد کروایا جو زریاب کی گرفت میں تھا زریاب کا ایک بازو اسکے سر کے نیچے جبکہ دوسرا پلوہی کے عین اوپر سے گزار کر دوسری سائیڈ پر رکھ کر اسے قید کیا گیا تھا ۔
                      زریاب کے بازو سے ہی پلوہی کو خود پر کسی وزنی چیز کا احساس ہوا تھا۔۔۔۔
                      کیا مصیبت ہے۔۔۔۔۔پلوشہ زور لگانے کے باوجود بھی زریاب کا بازو ہلکا سا بھی ہٹا نہ پائی تو بڑبڑا اٹھی۔
                      کونسی مصیبت۔۔۔۔۔زریاب نے کہتے ہوئے اس کو مزید اپنے قریب کیا
                      وہ پلوہی کے جھٹکوں پر جاگ گیا تھا جو وہ اسکے بازو کو ہٹانے پر مار رہی تھی
                      بازو ہٹائیں خان۔۔۔۔مجھے گھٹن ہو رہی ہے۔۔۔۔
                      ارےے خان کی جان۔۔۔۔۔۔کیسی گھٹن۔۔۔۔۔؟؟؟وہ موڈ میں بولا
                      پلوشہ اس ڈائیلاگ پر سخت بدمزا ہوئی۔
                      خان پلیز۔۔۔۔لائٹ تو آن کریں مجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔۔۔۔۔
                      مجھ سے یا اندھیرے سے۔۔۔؟؟؟وہ زریاب ہی کیا جو بات کی کھال نہ اتارے۔
                      دونوں سے۔۔۔۔۔۔ہٹائیں بازو کس قدر بھاری ہے یوں جیسے انسان کا نہیں بلکہ لوہے کا ہو۔۔۔۔وہ چڑ کر بولی
                      زریاب نے اسکے یون چڑنے پر مسکراتے ہوئے سائیڈ لیمپ آن کیا
                      پلوہی اسکی گرفت ڈھیلی پڑتے ہی پرے کو کھسکی۔۔۔۔۔۔
                      میں نے تمہاری جگہ اپنے پہلو میں بتائی تھی سنا نہیں تھا کیا تم۔نے۔۔۔۔؟؟؟ وہ ایکدم سے پنتیرا بدلتا اپنے مخصوص کرخت لہجے میں بولا
                      میں اکیلی ہی سوتی ہوں اس لیے مجھے کسی کے پہلو میں سونے کی عادت نہیں۔۔۔وہ بھی بنا لحاظ رکھے بولی۔
                      میں کسی کی نہیں اپنی بات کر رہا ہوں سمجھی۔۔۔۔۔۔۔
                      مجھے سونے دیں خان اتنے دن کی تھکن ہے نا۔۔۔۔وہ جمائی روکتی اسے دیکھ کر صلح جو انداز میں بولی۔
                      تھکن تو مجھے بھی بہت ہو رہی ہے مگر۔۔۔۔۔۔وہ بات روکتا مسکرایا۔
                      پلوشہ اسکے تیور سمجھ چکی تھی اسی لیے ایک ہی جست میں بیڈ سے نیچے اتر گئی۔
                      زریاب اسکی اتنی پھرتی پر مسکرا اٹھا۔
                      سو جاؤ۔۔۔۔۔۔مجھے بھی کوئی شوق نہیں تم سے رومینس کرنے کا۔۔۔۔وہ جل کر کہتا لائٹر اور سیگرٹ اٹھا کر بالکونی میں نکل گیا۔۔۔۔
                      یہ زریاب کی دوسری بری عادت تھی کہ جب نیند سے ایک دفعہ جاگ جاتا تو پھر دوبارہ نہیں سوتا تھا
                      پلوہی جانتی تھی یہ بات اسی لیے اس نے زریاب کے جانے کے بعد پرسکون ہو کر کمبل لپیٹا اور نیند سے بھاری ہوتی ہوئین آنکھیں سختی سے میچ لیں
                      ________________________
                      مجھے بتا تو دیتی کہ تم اپنے گھر والوں سے ملنے چلی گئی ہو میں ہر گز زریاب کو کال نہ کرتی تو اسے پتہ بھی نہیں چلنا تھا تم ایک آدھ دن تک رہ لیتی وہاں۔۔۔۔۔مہرو کو زریاب نے رات ہی بتا دیا تھا کہ بی بی جان پلوہی کو اسکے گھر چھوڑ آئیں تھیں اور وہ اسی وقت جا کر واپس لے آیا تھا اس لیے اب وہ پلوشہ سے فون پر بات کرتی ایسا کہہ رہی تھی۔
                      آج نہیں تو کل پتہ چل ہی جاتا بھابھی پھر تو وہ بلاوجہ غصہ ہوتے۔۔۔
                      اوہ پلوہی تو کیا اب نہیں ہوا وہ غصے۔۔۔۔۔؟؟؟
                      نہین۔۔۔۔۔۔۔
                      بلکل بھی نہیں۔۔۔۔۔۔؟؟؟مہرو حیران تھی۔
                      جی۔۔۔۔
                      ارے واہ۔۔۔۔یعنی کہ تبدیلی آئے گی نہیں بلکہ آ چکی ہے۔۔۔۔مہرو شوخی سے بولی
                      اتنا سب ہو جانے کے بعد کیا فائدہ ایسی تبدیلی کا۔۔۔۔۔۔پلوہی بے دل ہوئی۔
                      دیر آمد درست آمد اس لیے ناشکری مت کرو۔۔۔۔ بلکہ شکر ادا کرو کہ زریاب جیسا ہٹلر بدل رہا ہے۔۔۔اور پتہ ہے اسکے بدلنے سے سب سے زیادہ فائدہ تمہیں ہی ہونے والا ہے۔۔۔مہرو مسکراہٹ دبا کر بولی۔۔
                      وہ۔۔کیئسے۔۔۔؟؟
                      تمہیں ہر وقت اسکی سڑی ہوئی غصے سے لال پیلی صورت ہی دیکھنے کو ملتی تھی ۔۔۔کم از کم اب وہ مسکرا تو دیا کرے گا تمہیں دیکھ کر۔۔۔۔۔۔مہرو نے بات کے آخر پر خود ہی قہقہہ لگا کر مزا لیا۔۔
                      بھابھی آپ بھی ناں۔۔۔۔۔پلوشہ سامنے آتی لٹ کان کے پیچھے کرتی مسکرائی۔
                      اچھا اور کوئی نئی تازی سناؤ دو پھر۔۔۔۔۔
                      کیسی نئی تازی۔۔۔۔؟؟
                      یاد ہے تمہیں پہلے بھی جب میں لال حویلی سے واپس آئی تھی تو تم نے مجھے تائی بننے کی خوشخبری سنائی تھی اس لیے اس بار بھی میں ایسی ہی نیوز سننے کی منتظر رہوں گی تیار رہنا۔۔۔۔۔۔مہرو نے چھیڑا۔
                      بھابھھھھی۔۔۔۔۔پلوہی بلش کرتی شرما گئی۔
                      ارے یار۔۔۔۔۔تم یقینا شرما رہی ہو گی۔۔۔ہے ناں۔۔۔۔؟؟؟ مہرو ہنسی۔
                      بھابھی میں فون رکھ رہی ہوں پھر بات ہو گی خدا حافظ۔۔۔۔پلوشہ نے جلدی سے کہہ کر کال بند کی
                      توبہ ہے بھابھی آپ بھی ناں۔۔۔۔وہ مسکرا کر پلٹتی زریاب سے ٹکرائی جو اسکے بلکل پیچھے ہی کھڑا تھا
                      کیا برائیاں کر رہی تھی میری۔۔۔۔؟؟ بھابھی کیساتھ۔۔۔۔
                      مجھے کیا ضرورت ہے آپ کی برائیاں کرنے کی۔۔۔۔وہ کہتی ہوئی سائیڈ سے ہو کر بیڈ کیطرف آئی
                      پلوشہ کب تک چلے گا یہ سب۔۔۔۔۔؟؟؟
                      کیا سب۔۔۔؟؟؟
                      تمہاری بےگانگی اور کیا۔۔۔۔۔۔؟؟؟وہ خفا خفا سا بولا
                      اونہہ۔۔۔میری چند روزہ بیگانگی بھی سہی نہیں جا رہی محترم خان صاحب سے اور خود جو بیگانگی دیکھائی تھی وہ بھول گئے شاید۔۔پلوہی گہری سوچون مین ڈوب گئی۔
                      کیا سوچ رہی ہو۔۔۔۔؟؟؟
                      مجھے ابھی وقت چاہیے۔۔۔۔۔وہ سرگوشی میں بولی۔
                      کس لئے۔۔۔؟؟
                      آپ کے اس مزاج کو سمجھنے اور قبول کرنے کے لیے۔۔۔۔
                      مگر میں مزید وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا ہوں پلوہی۔۔۔۔جو گزر گیا وہ کافی تھا مگر اب میں اس وقت کو تمہارے ساتھ گزارنا چاہتا ہوں ایک لمحہ بھی ضائع کیے بنا۔۔۔وہ محبت سے کہتا قریب آیا۔۔
                      کس قدرمطلب پرست ہیں خان آپ۔۔یعنی کہ اب بھی زبردستی مجھ پر مسلط ہونا چاہ رہے ہیں آپ۔۔۔۔۔۔؟؟؟ وہ پٹاخ سے بات اسکے منہ پر مار گئی۔
                      ادھر پلوشہ کی بات زریاب کے دل پرجیئسے گھونسے کی مانند پڑی۔۔۔۔
                      نہیں میں اب تم سے کوئی زبردستی نہیں کرنا چاہتا کسی بھی قسم کی۔۔۔اس بار فیصلہ کرنے کا اختیار میں تمہیں دیتا ہوں پلوشہ۔۔۔۔
                      تمہارا فیصلہ ہی آخری ہو گا اور میں تمہارے کیے فیصلے کو قبول کروں گا۔۔۔۔
                      تم چاہو تو واپس اپنے گھر اور گھر والوں کے پاس جا سکتی ہو ہمیشہ کے لیے۔۔۔۔۔اور اگر نہیں تو۔۔۔۔۔وہ رکا۔
                      تو پھر کبڈ کے تیسرے ڈراڑ میں تمہارے لیے وہ چیز پڑی ہے جس میں میں تمہیں دیکھنا چاہتا ہوں۔
                      میں زیادہ وقت دینے کا قائل نہیں ہوں اس لیے ایک ہفتہ ہے تمہارے پاس۔۔۔۔اس ایک ہفتے میں میں تمہیں بلکل ڈسٹرب نہیں کروں گا اسلیے اچھی طرح سوچ لو اور پھر فیصلہ کرو۔۔۔
                      مگر خیال رہے کہ میں اب ہر فیصلے میں تمہارے ساتھ ہوں۔۔۔اگر تم واپس جانا چاہو گی تو بھی میں بلکل رکاوٹ نہیں بنوں گا اور اگر تمہارا فیصلہ میرے حق میں ہوا تو پھر۔۔۔۔۔
                      اس ڈراڑ میں موجود تمہارے لیے خریدی گئی چیز کو پہن کر تیار رہنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
                      ایک ہفتہ مطلب اگلے سنڈے۔۔۔۔۔پھر ساتھ ہی زریاب نے حساب لگا کر اسے فیصلہ سنانے کا دن بتایا۔
                      اب میں بے چینی سے اس دن کا اور ساتھ تمہارے ڈسیزن کا منتظر رہوں گا۔
                      سو ٹیک یور ٹائم۔۔۔۔۔زریاب سنجیدگی سے اسے اپنا فیصلہ سناتا لمبے لمبے ڈگ بھرتا کمرے سے نکل گیا۔
                      پیچھے پلوشہ بلکل ساکت کھڑی تھی۔کیا وہ واپس جانا چاہتی ہے ہمیشہ کے لیے۔۔۔؟؟؟اسکا دماغ اسکے دل سے سوال کر رہا تھا۔
                      ______________________.
                      زریاب کے دئیے گئے وقت کے مطابق چار دن گزر چکے تھے۔۔۔ان چار دن میں زریاب اس سے بلکل پہلے کی طرح لاتعلق ہو گیا تھا ۔
                      وہ ایک کمرے میں بلکل اجنبی بن کر رہ رہے تھے۔۔۔۔اجنبی تو وہ پہلے بھی تھے مگر اُس اجنبیت میں تو دشمنی تھی ، انتقام تھامگراب وہ یکسربیگانہ ہو چکا تھا۔
                      پلوشہ باوجود کوشش کے کوئی بھی فیصلہ نہیں کر پائی تھی۔۔۔۔دل اور دماغ میں ایک عجیب سی جنگ چھڑ چکی تھی۔۔۔۔۔۔
                      دماغ اسے مسلسل واپس جانے کا مشورہ دے رہا تھا تاکہ زریاب کو اسکے کیے گئے سلوک کی سزا مل سکے جبکہ دل اس کے برخلاف زریاب کی حمایت کر رہا تھا۔۔۔۔
                      دل چیخ چیخ کر اسے یہیں رہنے کا مشورہ دے رہا تھا جہاں وہ شخص تھا جسے اس نے اپنے باپ اور بھائی کے علاوہ ایک اچھے مرد کی حثیت سے سوچا تھا ورنہ اس سے پہلے تو کسی مرد نے پلوہی کو اسطرح متاثر نہیں کیا تھا جیسے زریاب خان آفریدی نے پہلی ملاقات کے بعد اسے بے چین کر دیا تھا
                      جو اب اسکا شوہر تھا اسکا محرم۔۔۔۔جسے کبھی اس نے اس روپ میں دیکھنے کی تمنا کی تھی۔۔۔۔۔چونکہ ایک نامحرم مرد کو سوچنا بھی گناہ کے زمرے میں ہی آتا ہے اس لیے پلوہی نےبروقت ہی اپنی اٹھتی ہوئی تمناؤں کو لگامیں ڈال لیں تھیں
                      اب جسے بھی سہی اور جن حالات میں بھی سہی اسکی یہ تمنا پوری ہو چکی تھی۔۔۔پھر کیونکر وہ اس شخص سے الگ ہو پاتی۔۔۔۔؟؟؟
                      اسے بی بی جان کی چند دن پہلے کی گئی نصیحتیں یاد آ رہیں تھیں جن میں انہوں نے اسے زریاب کی غلطیوں کو درگزر کر کے دونوں فیملیز میں موجود رنجشوں کو ختم کرنے کا کہا تھا۔۔۔
                      اسے مہرو کی وہ باتیں یاد آ رہیں تھیں جن میں مہرو نے پلوہی کے سامنے زریاب کی اس سے محبت کا اقرار کیا تھا۔۔۔۔۔وہ محبت جو آج سے کئی سال پرانی تھی جسے وقت کی دھول مٹی میں دبا ضرور گئی تھی مگر اسے ختم نہیں کر پائی تھی۔۔۔
                      وہ محبت جو اب پھر سے اسکی منتظر تھی۔۔۔۔۔بانہیں پھیلائے اسے سمیٹنے کے لیے تیار کھڑی تھی۔۔۔۔مگر پلوشہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ کیا کرے۔۔۔۔
                      اسی کشمکش میں مزید دو دن پر لگا کر اڑ گئے۔۔۔۔
                      کل سنڈے تھا پلوشہ کے فیصلہ سنانے کا۔۔
                      _______ ________
                      زریاب بہت بے چینی اور بے قراری سے ایک ایک دن گن کر گزار رہا تھا۔
                      وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ اگر خدانخواستہ پلوہی نے واپسی کا فیصلہ سنا دیا تو وہ کیا کرے گا۔۔کیسے کرے گا قبول اس کا یہ فیصلہ اور یہیں پر آ کر اسکا سارا غصہ سارا طنطنہ جھاگ بن کر بیٹھ جاتا۔۔۔۔
                      کیا تھا اگر میں خود کے غصے پر تھوڑا سا کنٹرول رکھنا سیکھ جاتا تو کم از کم اتنا پریشان تو نہ ہونا پڑتا آج مجھے۔۔۔۔
                      انسان ہمیشہ غصے میں ہی کچھ ایسا کر جاتا ہے جو بعد میں اسکے اپنے لیے ہی تکلیف کا باعث بن جاتا ہے۔
                      اسی لیے تو ہمارے مذہب میں غصہ حرام قرار دیا گیا ہے۔۔۔۔۔تاکہ دونوں فریقین اسکے شر سے محظوظ رہیں۔۔۔۔مگر انسان برے وقت سے پہلے کبھی یہ سب سمجھتا ہے۔۔۔۔جب اسکے اپنے ہاتھ میں سوائے پچھتاوے کہ اور کچھ نہیں رہتا۔۔۔۔۔
                      زریاب کا بھی اب یہی حال تھا۔۔۔۔وہ پلوشہ کیساتھ اپنے روا رکھے گئے سلوک،،،،اپنے عمل،،،،اپنے غصے پر پچھتا رہا تھا۔
                      کسی نے کیا خوب کہا ہے۔۔۔۔
                      غصے میں خاموشی کے چند لمحات ،
                      پچھتاوے کے ہزار لمحات سے بہتر ہیں !
                      مگر یہ سمجھ زریاب خان کو اب آیا تھا جب وقت اسکے ہاتھ سے ریت کی مانند پھسل چکا تھا۔۔۔۔
                      "کاش"کہ سہراب لالہ کا خون شمس خان نے نہ کیا ہوتا۔۔۔۔۔
                      "کاش" کے پلوشہ شمس خان کی بہن نہ ہوتی۔۔۔۔
                      "کاش" کہ میں نے بابا جان کی بات مان لی ہوتی۔۔۔۔۔
                      "کاش" میں اپنے غصے کو قابو میں رکھ کر پلوہی کیساتھ وہ سب نہ کرتا جو کر چکا۔۔۔۔۔
                      ایسے بہت سے "کاش" تھے زریاب کہ پاس۔۔۔۔۔۔۔مگر وقت اب وہ نہیں رہا تھا کہ وہ اپنے ان سارے "کاشں" کو پورا کر سکتا۔۔۔
                      گیا وقت پھر ہاتھ نہیں آتا ہے اس لیے انسان کو چاہیے کہ ہمیشہ اپنی ہر بات،،،،ہر عمل بہت سوچ سمجھ کر اٹھائے تاکہ بعد میں پچھتاوے کا کوئی "کاش" نہ رہ جائے ۔۔۔۔زریاب آفریدی کی طرح۔۔
                      پھر زریاب کی ذہن رو بھٹکتی ہوئی اس انجان فون کال کی طرف چلی گئی۔
                      جس مین سہراب لالہ کے حادثہ کے بارے مین بتایا گیا تھا۔
                      جو زریاب کو یہ تو بہت اچھی طرح سے ہی واضع کر گیا کہ سہراب لالہ کے ساتھ وہ حادثہ نہین تھا بلکہ لالہ کا واقعی قتل کیا گیا تھا۔
                      مگر وہ اپنی ساری کوششون کے باوجود بھی اصل حقیقت کا پتہ لگانےسے کوسون دور تھا۔
                      کیونکہ نہ تو وہ فون کرنے والے کو ٹریس کر سکا۔اور نہ ہی اس کی بتائی باتوں کی تصدیق یا تردید ہوئی۔
                      کبھی کبھی تو زریاب کو ایئسا لگتا تھا کہ فون کال کرنے والے کے پیچھے بھی شمش خان کا ہی ہاتھ ہے۔؟؟
                      پھر زریاب کے ذہن مین وہ پہلی کال کی ہر بات ذہن مین گونجنے لگئی۔
                      جاری ہے۔
                      Vist My Thread View My Posts
                      you will never a disappointed

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X