Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

قفس . . کی . . چڑیا

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #41
    Originally posted by insght View Post
    Sir jee
    Aakhir Qafas ki chirya qafas mai hi rah gai na?
    ارےےے۔نہین میرے دوست۔
    اس سٹوری کی تقریبأ لاسٹ دھماکے دار اپڈیٹ تیار ہے بس پروف ریڈنگ کیلٔے ٹائم نہیم مل رہا مگر اب بہت جلد پوسٹ ہو جائے گٔی​​​​​​​۔
    Vist My Thread View My Posts
    you will never a disappointed

    Comment


    • #42
      Nawazish ho gi aap Ki.

      Comment


      • #43
        قفس۔۔کی ۔۔چڑیا۔
        یہ ۔آپ سب غلط سمجھ رہی ہیں مہرو ۔
        شمس کا اطمینان ایک پل میں اڑن چھو ہوا۔۔۔۔وہ اسکی غلط فہمی پر تڑپ کر سیدھا ہو اٹھا۔۔
        ارےےے۔ کیا غلط سمجھ رہی ہوں میں۔۔۔یہی کہ آپ نے میرے سہراب کو۔۔۔۔مہرو کے الفاظ آنسوؤں کی وجہ سے گلے میں ہی اٹک گئے۔
        فار گاڈ سیک۔۔۔مہرو آپ میری محبت تھیں ضد نہیں جو میں آپ کو پانے کے لیے اتنا گھٹیا فعل سرانجام دیتا۔۔شمس جیئسے۔۔وہ دکھ سے بولا۔
        پھر کیوں کیا آپ نے صبر۔۔۔جب محبت کی تھی تو کیوں خاموش رہے۔۔۔بولیں کیوں کیا صبر آپ نے۔۔۔مہرو نے سامنے آ کر شمس کا گریبان دبوچا۔
        کیونکہ میری قسمت میں صبر کرنا لکھ دیا گیا تھا اگر میرا بس ہوتا تو میں آپ کو آج سے نو سال پہلے ہی پا چکا ہوتا جب حشمت خان (مہرو کے بابا) نے میرے منہ پر طمانچہ مارا تھا یہ کہہ کر کہ میں اسکی اکلوتی بیٹی کے قابل نہیں۔۔۔وہ گریبان پر موجود مہرو کے ہاتھ تھامتا ضبط سے بولا۔۔
        شمس کے اس انکشاف پر مہرو کے ہاتھ اسکے گریبان پر پھسلتے ہوئے پہلو میں آ گرے۔۔۔۔
        یہ کیا کہا تھا شمس نے۔۔۔۔بابا نے۔۔۔۔وہ بے یقین تھی۔
        شمس نے مہرو کی خون نچڑتی شکل دیکھی اسے لگا کہ وہ ابھی زمین بوس ہو جائے گی۔۔۔اس نے مہرو کو سہارا دیا اور اسکے ساکت وجود کو اپنے ساتھ لگائے بیڈ تک آیا۔
        مہرو کو بیڈ پر بیٹھا کر شمس نے پاس پڑے جگ سے پانی کا گلاس بھرا اور گلاس اسکی طرف بڑھایا
        مہرو نے سوالیہ نظریں اٹھائیں۔۔۔یوں جیسے پوچھ رہی ہو میں اس گلاس کا کیا کروں۔۔۔
        شمس نے اسکی حالت دیکھتے ہوئے خود ہی گلاس اسکے ہونٹوں سے لگایا۔۔
        مہرو نے چند گھونٹ پینے کے بعد شمس کا ہاتھ پیچھے کیا۔
        آپ آرام کریں پھر بات ہو گی۔۔۔۔وہ کہہ کر پلٹا ہی تھا کہ اسکا ہاتھ مہرو کی گرفت میں آ چکا تھا۔
        شمس نے مڑ کر اسے دیکھا۔۔۔۔
        ابھی۔۔۔۔ابھی بتائیں مجھے سب۔۔۔۔اسکے لب پھڑپھڑائے۔ نہین ابھیتمہاری حالپ مجھے ٹھیک نہین لگ رہی۔
        میں ٹھیک ہوں۔۔۔۔مہرو نے کہہ کر شمس کا ہاتھ چھوڑ دیا۔
        ہوں۔۔۔۔شمس سر ہلا کر کچھ فاصلے پر پڑی چئیر گھسیٹ لایا۔۔۔۔
        وہ دونوں اس وقت آمنے سامنے تھے۔۔۔مہرو بیڈ پر پاؤں لٹکا کر بیٹھی تھی جبکہ شمس اسکے سامنے چئیر پر بیٹھا تھا۔۔
        یونیورسٹی مکمل ہونے کے بعد مجھے کسی جاب کی تلاش نہیں کرنی تھی چونکہ میں اکلوتا بیٹا تھا لہذا بابا کا جو بھی تھا وہ میرا تھا اور مجھے انکا ایکسپورٹ کا بزنس سنبھالنا تھا۔۔۔۔اسکے علاوہ زمینیں بھی تھیں جنکی دیکھ بھال کے لیے مزارعے موجود تھے مگر ان کو لوک آفٹر مجھے ہی کرنا تھا لہذا میں نے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے چند ماہ بعد ہی خود کو بزنس میں ایڈجسٹ کر لیا تھا۔۔۔
        انہی دنوں اماں کو میرے سر پر سہرا سجانے کا خیال آیا اور وہ یہ سہرا میری پسند میری مرضی سے ہی سجانا چاہتی تھیں چونکہ میری پسند اور مرضی آپ تھیں تو میں نے زبیر خان سے اجازت لے کر اماں اور بابا کو لال حویلی بھیجا تھا اپنا پرپوزل دے کر۔۔۔۔۔وہ سانس لے کر پھر سے بولنا شروع ہوا۔۔
        حشمت خان پر ان دنوں نئے نئے الیکشن جیتنے کا بھوت سوار تھا شاید اسی لیے انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ اپنی اکلوتی بیٹی خود سے اونچے لوگوں میں بیاہیں گے جو اسکے قابل ہوں گے۔۔۔
        اور حشمت خان کے شایان شان بھی۔۔۔۔جس پر وہ اپنے حلقے کے چند لوگوں میں بیٹھ کر فخر کر سکے گا۔۔۔
        حشمت خان کے ان الفاظ سے انکار پر مجھے بہت غصہ آیا تھا۔۔۔اس نے میرے باپ کو اسکے منہ پر ہی چھوٹے لوگوں کا طعنہ دیا تھا۔۔۔۔۔اگر ان کے سامنے دولت کے معیار سے کوئی چھوٹا بڑا ہوتا تھا تو پھر وہ غلط تھے۔۔۔۔کیا نہیں تھا ہمارے پاس زمینیں، حویلی، گاڑیاں، فیکٹری اور ایسا کیا ہونا چاہیے تھا جو ہمیں ان سے اونچا بنا دیتا۔۔۔۔شمس استہزائیہ ہنسا۔
        میں اس بات کا جواب لینے حشمت خان کے پاس جانا چاہتا تھا مگر بابا نے مجھے ایسا کرنے سے روک دیا۔۔۔
        ان کا کہنا تھا کہ پہلی بار انسان عزت سے مانگتا ہے اگر مل جائے تو فخر سے وصول کرتا ہے۔۔۔مگر دوسری بار مانگنے سے ملنے والی چیز پر فخر نہیں کیا جا سکتا بلکہ وہ بھیک ملنے کے مترادف ہوتی ہے۔۔۔۔اور ہم اتنے گرے پڑے نہیں کہ کسی کی بھیک وصول کریں۔۔۔۔
        بابا کی بات میرے دل کو لگی تھی۔۔۔۔میں نے آپ سے محبت کی تھی اور میں اپنی عزت اور محبت کی خاطر جھک تو سکتا تھا مگر جھک کر عزت اور محبت نہیں مانگنا چاہتا تھا۔۔۔کیونکہ میں آپ کو پورے فخر سے اپنی زندگی میں شامل کرنے کا خواہشمند تھا۔
        زبیر خان نے مجھ سے اس انکار پر معذرت کی تھی ہم اچھے دوست تھے اور اچھے دوست ہی رہنا چاہتے تھے مگر پھر بھی وقت کی گرد بہت سے اچھے رشتوں پر اپنی گرد ڈال جاتی ہے۔۔۔۔یوں میرا اور زبیر کا رابطہ بھی فون کالز پر مشتمل ہو گیا۔۔۔کئی مہینوں بعد ہم فون پر ایک دوسرے کی خیریت معلوم کر لیتے۔۔۔اور انہی فون کالز میں مجھے آپ کی سہراب خان آفریدی سے شادی کا پتہ چلا۔۔۔۔شمس اس وقت کی اذیت کو یاد کر کے خاموش ہوا ۔
        چند منٹ بعد وہ خود کو کمپوز کرتا پھر سے بولنے کے قابل ہوا۔۔۔
        اس کے بعد میری طرف سے ان فون کالز کا رابطہ بھی ختم ہو گیا تھا۔۔۔
        گھر والوں نے میری چپ اور خاموشی کے پیش نظر پروشہ سے میری شادی طے کر دی کہ شاید اس شادی سے ہی مجھ میں کچھ بہتری آئے۔۔۔۔
        بہتری تو آ چکی تھی مجھ میں شاید پروشہ کی بدولت یا پھر وقت کی بدولت۔۔۔بہت کچھ نہ ٹھیک ہو کر بھی سب کچھ ٹھیک ہو چکا تھا۔۔۔۔
        اس دن بھی میں ہرن کے شکار پر ہی گیا تھا جب میری بندوق سے نکلنے والے کارتوس کے سامنے جھاڑیون سے اچانک۔(حالانکہ اب بھی مہرو کا سہراب خان والا واقعہ آدھا ہی بتایا تھا۔وہ مہرو کا اس کا اصلی سچ بتا کر پھر سے اذیت مین مبتلا نہین کرنا چاہتا تھا)۔ نکلنے سے سہراب خان چلا آیا۔۔۔۔۔شمس نے بات مکمل کر کے لمبی سی سانس لی اور سر کرسی کی بیک سے ٹکا کر آنکھیں موند لیں یوں جیسے اتنی لمبی مسافت طے کرنے سے تھک گیا ہو۔۔
        لگ جاوے دل نوں روگ تے دھونا اوکھا۔

        خود ہی انہاں دلاں دے سوگ مناون سوکھا۔
        مہرو نے سر اٹھا کر شمس کو دیکھا جس کے چہرے پر تھکن تھی۔۔۔۔دکھ تھا۔۔۔اذیت تھی۔۔۔۔اور۔۔۔شاید اطمینان بھی تھا۔۔۔سب کچھ کہہ دینے کا اطمینان۔۔۔۔
        آپ کے بابا نے کہا تھا کہ دوسری بار مانگنے سے ملنے والی چیز بھیک تصور کی جاتی ہے تو پھر وہ دوبارہ کیوں گئے میرا ہاتھ مانگنے۔۔۔؟مہرو بجھی بجھی سی پوچھ رہی تھی۔
        اسکی بات پر شمس آنکھیں کھولتا سیدھا ہوا۔
        میں نہیں جانتا۔۔۔۔وہ مجھ سے پوچھے بنا ہی گئے تھے زبیر خان کے پاس۔۔۔۔وہ نظریں چرا کر بولا۔
        آپ نہیں جانتے مگر میں جانتی ہوں۔۔۔۔وہ اطمینان سے بولی
        شمس نے حیرانگی سے دیکھا مہرو اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
        دوسری بار آپ کے بابا نہیں گئے تھے بلکہ میرے لالہ آئے تھے ان کے پاس۔۔۔۔۔مہرو نے آہستگی سے انکشاف کیا۔
        آپ۔۔۔۔آپ سے کس نے کہا۔۔۔۔؟؟شمس اٹک کر بولا۔
        میں چند دن پہلے آپ سے خفا ہو کر لال حویلی گئی تھی۔
        کیا۔۔کب۔؟۔
        شمس نے لفظ خفا پر پھر سے حیرت کا اظہار کیا۔۔
        آپ نہیں جانتے تھے کہ میں آپ سے خفا ہوں مگر میں آپ سے خفا ہو کر ہی گئی تھی۔۔۔
        اس روز صفائی کے دوران آپکی اسٹڈی سے مجھے یہ باکس ملا تھا۔۔۔مہرو نے ٹیبل پر پڑے باکس کیطرف اشارہ کیا۔
        اس میں سے نکلے کارڈ پر میں نام مہر پڑھ کر ٹھٹھکی تھی اور اس میں موجود ساری مخملی ڈبیوں میں پائلیں دیکھ کر مجھے شک ہوا کہ یہ مہر میں ہوں۔۔۔میں آپ سے پوچھ کر اپنا شک دور کر سکتی تھی مگر اس وقت مجھے لگا أپ نے سہاب خان کو جان بھوج کر۔۔؟؟ آپ پر بہت غصہ تھا اس لیے میں آپ سے خفا ہو کر لال حویلی چلی گئی تھی۔
        وہیں میں نے زبیر لالہ اور اماں کی باتیں سن لیں تھیں۔۔۔مہرو بات کرتے ہوئے انگلی سے اپنی ہتھیلی پر مختلف لائنیں کھینچ رہی تھی۔
        اماں کو اب بھی میرے آپ کے ساتھ خوش نہ ہونے کا خدشہ تھا۔۔۔
        ان کے خدشے کہ جواب میں لالہ نے کہا کہ مجھے شمس پر پورا یقین ہے کہ وہ مہرو کو خوش رکھے گا اسی لیے تو میں اسکے بابا دلاور خان کے پاس گیا تھا۔۔۔۔تب نہ سہی اب تو شمس اور مہرو کی شادی ہو سکتی ہے۔۔۔۔ان کا ظرف بلند تھا جو وہ اپنی بیگم کیساتھ میرے کہنے پر شمس کا رشتہ لے کر آئے تھے۔۔۔۔
        یہ بات سن کر میں الٹے قدموں پلٹ آئی تھی اپنے کمرے میں نہیں بلکہ واپس یہاں آپ کی حویلی۔۔۔کیونکہ اب میں لالہ سے خفا تھی کہ انہوں مجھے بوجھ سمجھ کر پھینکنے کی بات کی۔۔۔مگر میں یہ نہیں جانتی تھی کہ انہوں نے خود سے ایسا کیوں کیا مگر اب۔۔۔۔۔
        اب۔۔۔۔۔شمس نے اسے بات جاری رکھنے پر اکسایا
        کچھ نہیں۔۔۔۔اس نے نفی میں سر ہلایا۔
        آپ کو برا لگا یہ سب سن کر کہ میں آپ سے۔۔۔۔
        پتہ نہیں۔۔۔۔وہ شمس کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی کاٹ کر کھڑی ہوئی ۔۔
        ابکیا ہوا۔۔۔۔؟؟
        مجھےپتہ نہین۔۔
        مہرو آپ اب بھی خفا ہیں مجھ سے۔۔۔؟
        کیا نہیں ہونا چاہیے۔۔۔۔؟؟الٹا سوال ہوا۔
        مگر اب کیوں۔۔۔۔؟؟ میں آپ کو ساری بات بتا چکا ہوں۔
        میں ساری بات سن کر ہی خفا ہوئی ہوں۔۔۔وہ نتھنوں کو پھلا کر خفگی سے بولی۔
        شمس اسکے پھولے نتھنے دیکھ کر مسکرا دیا۔
        کیا ہوا۔۔۔۔؟؟مہرو نے حیرت سے اسکی مسکراہٹ دیکھی۔
        میں آپ سے بہت محبت کرتا ہوں مہر۔۔۔۔شمس نے مسکراہٹ دبا کر محبت کا اظہار کیا۔
        سامنے سے ہٹیں آپ۔۔۔وہ شمس کی نظروں سے کنفیوز ہوئی۔
        میری محبت کا جواب اس طرح سے دیں گی کیا۔۔۔۔؟؟وہ حیران تھا مہرو کے چہرے پر نو لفٹ کے تاثرات دیکھ کر۔۔
        میں آپ سے محبت نہیں کرتی۔۔۔۔وہ آہستگی سے بولی
        تو مجھے اجازت دیں کرنے کی۔۔۔۔میں آپ کو بھی سکھا دوں گا۔۔۔۔
        مہرو نے ناراضگی سے اسے دیکھا۔۔۔ چہرے پر ہلکی مسکراہٹ سجائے ، آنکھوں میں شرارت اور محبت لیے وہ اسی کو دیکھ رہا تھا
        مہرو نظریں جھکا کر نیچے دیکھنے لگی
        مہر کیا ہم گزری باتوں کو بھلا کر اپنی نئی زندگی کی شروعات نہیں کر سکتے۔۔؟وہ مہرو کو مہرو کی بجائے مہر کہہ کر بات کر رہا تھا۔
        ہُُم۔۔
        کیا آپ نے مجھے معاف نہیں کیا اب تک۔۔۔؟؟
        اگر آپ پہلے بتا دیتے کہ آپ مجھ سے محبت کرتے تھے تو۔۔۔۔مہرو نے زبان دانتوں تلے دبا کر خفگی سے شمس کو دیکھا۔
        خبر یہ بھی نہ ہونے دی۔۔۔
        اسکی خفا خفا نظریں شمس سے شکایت کر رہیں تھیں
        میں آپ سے کیا کرتا ہوں۔۔۔۔؟؟؟شمس نے اسکی بات پر محظوظ ہو کر پوچھا۔
        پلیز مجھے جانے دیں شمس۔۔۔وہ منمنائی۔
        شمس۔۔۔۔اپنا نام تمہارے منہ سے سن کر بہت اچھا لگا مجھے۔۔۔بہت سال پہلے یہ خواہش کی تھی کہ تم مجھے میری ہو کر اسطرح سے پکارو۔۔۔۔شمس ایک دم سے فاصلے مٹاتا آپ سے تم پر آ چکا تھا۔
        مہرو نے شرما کر پاس سے نکلنا چاہا مگر شمس نے بازو پھیلا کر راستہ روک لیا۔
        شمس کے جواب اور نظروں پر گھبرا کر مہرو اسے پیچھے دھکیلتی دروازے کی طرف بھاگی۔۔
        مہررکو بات تو سنو میری۔۔۔شمس پکارتا اسکے پیچھے ہی باہر آیا
        مہرو اسکے باہر نکلنے پر دل پر ہاتھ رکھتی قریبی پلر کی اوٹ ہو گئی ۔
        شمس نے باہر نکل کر ادھر أدھر نگاہ دوڑائی۔۔
        اتنی جلدی کہاں غائب ہو گئی۔۔۔؟؟وہ کھڑا سوچ رہا تھا جب چند گز کے فاصلے پر بنے پلر کی اوٹ سے چوڑیوں کی کھنک سنائی دی
        وہ مسکراہٹ دباتا اس جانب بڑھا۔۔
        مجھ سے بچ کر کہاں جائیں گی اب۔۔۔
        کہیں بھی نہیں۔۔۔۔مہرو کھکھلا کر کہتی اسکے ہاتھ جھٹک کر سیڑھیوں کی جانب بھاگی۔۔
        میں اب بلکل بھی نہیں چھوڑنے والا۔۔۔شمس نے منہ پر ہاتھ پھیر کر دھمکی دی۔۔۔مگروہ پھر سے اسکی قید سے رفو چکر ہو چکی تھی۔۔
        تو کون کہہ رہا ہے چھوڑنے کو۔۔۔۔وہ کھلکھلاتی سیڑھیاں اتر گئی۔
        مہرو کے چہرے پر ان گنت دھنک رنگ بکھرے ہوئے تھے۔۔
        خود کو چاہے جانے کی خوشی کیا ہوتی ہے۔۔۔کوئی مہرو سے پوچھتا جو اس وقت ہنستی ،مسکراتی ،آنچل لہراتی سیڑھیاں پھلانگ رہی تھی۔
        خود کو چاہے جانے کا احساس انسان کو مغرور بنا دیتا ہے۔۔
        وہ بھی تھوڑی مغرور نظر آ رہی تھی۔۔۔کوئی اسے اتنے سالوں سے چاہتا رہا تھا یہ بات اسے گزرے ماضی کو بھلانے کے لیے کافی تھی۔۔۔
        دوسری طرف شمس اسکی کھلکھلاہٹ پر پرسکون سا کھڑا اسے زینے اترتے دیکھ رہا تھا۔۔۔
        آخر اتنے لمبے اور کھٹن صبر کے بعد اسے اسکی محبت مل ہی گئی تھی۔۔۔اسے اسکے صبر کا پھل مل چکا تھا۔۔
        وہ خوش تھا۔۔۔بہت زیادہ خوش۔
        اور مہرؤ خانم بند کمرے مین صوفے سے ٹیک لگائے سہراب خاں کے حادثے والی تلخ
        یادؤن مین بہنے لگی۔
        _______

        ​​​​​​ابرارخان تیز قدم اٹھاتا لاؤنچ کی سیڑھیوں کو عبور کر کے لاؤنچ سے نکلنے ہی لگا تھا کہ۔ ابرار جانو میری بات تو سنو۔
        شہر بانو نے جیئسے ہی اس کو پکارا۔
        ابرار نے فورا رک کر مڑتے ہوئے شہر بانو کو دیکھا ۔
        پھر ساتھ آس پاس گھر مین بھی دیکھنے لگا۔
        ابرارخان سفید کلف زدہ شلوار قمیض پیروں میں سلیپر پہنے اسکے چہرے پر ہلکی پھلکی داڑھی سے بہت ہی ڈیشنگ پرسنیلٹی لگ رہی تھی۔ارے تم پریشان کیون ہو رہے ھو ۔
        "گھر مین کوئی نہیں ہے تمہارا بھائی باپ کے ساتھ زمینوں پر گیا ہے وہ ابھی تک واپس نہین لوٹا اور سب بچے بھی سو رہے ہیں۔
        اس لئے اب آپ بغیر ٹینشن کے چلو میرے ساتھ،،وہ اس کے قریب آئی اورسرگوشی مین بولی۔آنکھوں میں کچھ چمک اورسرخی تھی عجیب وغریب قسم کے جذبات تھے۔
        ابرار خان نے ایک نظر شہر بانو پر ڈالی اسے کھینچ کر خود کے قریب کیاپھرساتھ لگائے بیڈروم کی طرف بڑھنے لگا۔ جس سے شہر بانو کے پتلے سرخ ہونٹوں پر مستانہ دلفریب مسکراہٹ نمودار ہو گئی۔
        پھر وہ اپنا ریشمی ڈوپٹہ ایک شانے پر ٹکاتی ایک نظر سبھی کمرون کےبند دروازون پر ڈالتی ابرار کے ہمراہی مین آگے بڑھ گئی کمرے میں پہنچ کر دروازہ بند کرکے۔ابرار خان نے اچٹتی نظر شہربانو پر ڈالی۔اور صوفے پر جا بیٹھا۔
        خان صاحب کیا"ناراض ہومجھ سے ۔۔۔،،شہربانو بھی اس کے ساتھ جا بیٹھی۔
        ابرار نے نظریں گھما کر اس کا مکھڑا دیکھا اور پھر آہستہ سے نیچے کی طرف مچلتےشباب پراپنی نگاہین جماکر۔نہیں۔،،کی گھمبیر آواز میں بولا۔
        ارےے خان"یہ ہی تو تمہارا نخرہ مجھے پہلی ملاقات پر زیر کر گیا تھا۔۔۔تبھی تو پہلی رات ہی مجھے شوہر کی بجائے اپنے جیٹھ کی۔۔
        وہ بولنے لگی تھی کہ ابرار نے غصے سے اسے دیکھا جس پر وہ فورا چپ چاپ بیٹھ گئی اور ابرار شہر بانو کو تنبیہ طور پر سمجھانے لگا۔۔شہری"اگر شادی سے پہلے تم میری بات کو مان لیتی تو آج یہ نوبت تو نہ آتی۔۔تمہاری خاطر میں نے مہرو کو بھلا دیا اور جو میری بیوی تھی۔۔اسے خود اپنے ہاتھون سے مار ڈالا۔۔،،وہ یکدم ہائپر ہوا۔۔تم اپنے شوہر سے بے وفائی کرنے والی عورت۔۔ہو۔
        "کون مہرو ۔۔۔وہ وہ کب تمہاری تھی۔۔۔ہاہاہاہاہا۔۔۔خان یہ اچھی خوش فہمی ہے جبکہ تم جانتے ہو کہ وہ سہراب خان کے مرتے دم تک اسی سے محبت کرتی رہی نہ کہ تم سے۔۔
        اسے سہراب خان سے محبت تھی نہ کہ تم سے۔۔۔۔وہ ہمیشہ سے سہراب کی تھی نہ کہ ابرار خان تمہاری۔۔کیا تمہین یاد نہین ہے ابرارخان مہرو کوپانےکی وہ تمہاریکوشش۔۔۔چچ۔۔چچ۔۔تم اب بھی کہتےہوکہ وہ تمہاری ہے۔۔۔تمہیں کیا لگتا ہے مہرو خانم تمہاری محبوبہ ہے۔اور تم اس کو اب بھی حاصل کر سکو گے ۔۔۔،،شہر بانو ابرار پر چیخنے لگی۔
        شہری"جسٹ شٹ اپ۔۔وہ اپنے شوہر کے ساتھ صرف وفا نبھا رہی تھی۔۔،،ابرار نے ایک عجیب سی دلائل پیش کی۔
        "ہاہاہاہا۔اور تمہاری بیوی کیا کر رہی تھی اسکے شوہر کے ساتھ راتیں گزار کر۔۔۔۔،،شہر بانو پھر طنزیہ بولی۔
        ارے شہری"بکواس مت کیا کرو تم کچھ بھی بولنے سے پہلے سوچتی نہیں ہو۔ حد سے گری ہوئی عورت ہو تم۔تمہاری اپنی حرکتین بھی تو ایسی ہیں جو معافی کے بلکل بھی قابل نہیں ہین۔۔۔،ابرار نے غصے سے تپ کر اسے دھکا دے دیا۔وہ بیڈ پہ جا گری۔
        "ہاہاہاہا۔ابرار خان تم بس صرف خیالی پلاؤ پکانے والے مرد ہو تم۔۔۔۔،،وہ تالی بجاتے ہوئے بولی ابرار کا سارا غصہ رفو چکر ہو گیا اور وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگا۔پھر وہ بھی شہر بانو کے ساتھ بیڈ پر جا گرا۔۔
        دیکھو"ابرار خان تم اب بھی مہرو کو چاہتے ہو۔۔اور یہ تو تم جانتے ہو نہ مسٹر ابرار خان۔۔۔مجھے ایک منٹ بھی نہیں لگے گا یہ ثابت کرنے مین کہ سہراب خان کا حادثہ نہین بلکہ تم نے قتل کیا تھا۔۔۔۔
        اب کیوں اپنے قبیلے والون کی نظروں میں گرنےوالی کوششین کرتے ہو۔۔۔مجھے اپنی نزدیکیوں سے روشن کر دو۔۔تو۔۔سب پہلے جیسا رہے گا اور۔مین مہرو تو کیا پلوشہ خانم کو بھی تمہارے نیچے لاون گئی۔اور کسی کوپتہ بھی نہین چلے گا۔۔۔,,شہر بانو ابرار خان کے پاس چلی آئی اور سرگوشیاں کرنےلگی۔ابرار خان کئی پل اس کو دیکھتا رہا پھر دل کے کونے میں دبی محبت خود غرضی باہر نکل آئی۔اور
        پھرہاتھ بڑھا کر اس نے شہر بانو کو نزدیک کر لیا۔شہری کے ہونٹوں پہ مسکراہٹ نمودار ہو گئی
        حد درجے کی مطلبی اور خود غرضی۔۔جو دس سال پہلے گناہ ہوتے تھے۔۔
        ان کی دوبارہ شروعات ہونے کو تھی۔۔ان کے شہوت زدہ جسم دوبارہ سے ایکدوسرے کے لئے کھلونا بننے کو تھے۔۔
        پرانےشرم ناک واقعات دوبارہ سے وہاں آ کر روکے اور دوبارہ سے شہوت انگیز منظر چلنے لگے۔
        نہجانے اب کس کی جان جانی تھی
        نہجانے اب کی بار دھوکہ اور فریب کس کو موت کے گھاٹ اتارنے کو تھی۔
        نہجانے اب کی بار پھر سے کیا ہونا تھا۔
        _________
        ماضی بعید۔
        فون کال سنتے ہی مہر وخانم پریشان ہو گئی تھی۔۔
        اُوف"میں اب کیا کروں؟۔یہ کیا ہو رہا ہے؟۔۔۔۔وہ سب میرا وہم تو بلکل نہیں۔۔۔تھا وہم وہم کر کے میں نےنہجانے کتنے عرصہ ہی گزار دیئا۔۔۔،،مہرو اپنے کمرے میں ادھر سے ادھر ٹہلتے ہوئے سوچ رہی تھی۔حدید ابھی سکول سے واپس نہین آیا تھا۔
        سہراب خان"۔اتنا گراہوا تو نہیں تھا۔۔۔۔؟۔وہ تو ایسا کبھی نہیں کرے گا مگر؟۔۔
        وہ میرے علاوہ تو کبھی بھی دوسری عورت کے پاس نہیں جا سکتا۔۔۔؟؟،،مہرو انگلیاں پٹختی سوچنے لگی۔۔
        آخر جب اس کی کچھ سمجھ نہ آیا تو اس نے بیڈ پر بیٹھ کر اپنےسر کو ہاتھون مین ٹکا کر آنکھیں مُند لی۔
        اتنے میں شہر بانو کی کال پھر سے آنے لگی اس نے فون کان سے لگا لیا۔
        "ہ۔۔۔ہیلو م۔۔مم۔مہرو۔۔۔آپی۔وہ آپ کے سہراب خان اس عورت کے ساتھ اپنے ڈیرے کے اندر کی طرف جارہے ہین اور ان کا موڈ اور چال بھی کچھ عجیب و غریب قسم کی نظر آ رہی ھے۔۔۔۔جیئسے کہ انہون نے شائید بہت شراب وغیرہ پی رکھی ہو۔۔۔،،شہر بانو کی پھر سے ہڑبڑاتی ہوئی آواز سن کر مہرو بیڈ سے اٹھ بیٹھی اور خفگی سے فون کو دیکھ دوبارہ کان سے لگایا۔
        شہر بانو"ہوا کیا ہے سب کچھ تفصیل سے بتاؤ مجھے۔۔۔۔۔مہرو بہت بیچین اورساتھ گھبرا بھی گئی۔
        شہر بانو:"آپی مین ابرار لالہ کے ساتھ آپ سے ملنے کیلیے أرہی تھی تو مجھے ڈیرے پر سے عجیب سی آوازیں سنائی دی کبھی گانے کی تو کبھی عجیب پائل اور گھنگرون کے چھنکنے کی،،۔
        شہر بانو بظاہر کچھ گھبرائی اور پریشان سے آواز مین بولی۔ ابرار اس کے پیچھے سے ساتھ چمٹ کر کھڑا ہونٹوں پر ہاتھ رکھے اپنی ہنسی کنٹرول کر رہا تھا اورشہربانو بھی یہ ہی کر رہی تھی۔
        "آپی مجھے۔مم۔مجھے یہ سب بتاتے ہوئے عجیب سا لگ رہا ہے کہ سہراب خان۔۔شش شراب کے نشے مین مدہوش اس۔۔۔۔عورت کے ۔۔۔۔کے ،،ساتھ وہ ۔۔۔سب ۔۔کچھ ۔۔۔کر ۔۔رہے۔۔ہین شہر بانو گبھرائی سے بولی جبکہ مہرو کو بہت حیرانگی ہوئی۔۔
        کیا ڈیرے"پر اور کوئی نہیں ہے۔۔۔۔۔،،مہرو سنجیدگی سے بولی۔
        "نہیں آپ جلدی آ جائیں پلیز کچھ کریں آپی پلیز۔۔۔۔۔،،وہ گھبرا کر بولی اور ساتھ ہی شہر بانو نے فون ابرار خان کو پکڑا دیا۔
        "ٹھیک ہے۔۔۔،،مہرو نے کہا اور ساتھ ہی کال کاٹ دی جبکہ دوسری طرف ابرارخان اور شہر بانو کا مشترکہ قہقہہ گونجا۔پھر۔
        ابرار خان:سامنے شراب کے نشئے مین دھت پڑے سہراب کو دیکھ کر شہر بانو سے بولا تم
        "اب سہراب کے اوپر لیٹو اور مین اس کے موبائل سے کلپ بناتا ہون۔اب یہ ریکارڈنگ ہی مہر خانم کو مزید پاگل بنائے گی۔۔۔۔اور مجھے بھی اپنی دیرینہ حسرت مٹانے کا موقعہ ملے گا۔
        ابرار خان مہرو کیلئے کافی عرصے سے پاگل ہورہا تھا۔اس نے سہراب سے دوستی بھی اسی مقصد سے کی تھی مگر اب اس نئے پلان کی ماسٹر مائینڈ شہر بانو تھی۔۔
        مہرو فون بند ہونے کے بعد سوچنے لگی پہلے"ایک بار خاقان بابا کوبتانا چاہئے۔کیونکہ ایئسے ہی اکیلیے میرا ڈیرے پر جانے سے کیا ہو گا۔۔ساتھ ہی وہ سوچنے لگی کہ پہلے تو خود دیکھنا چاہیے۔مگر یہ کیسے ہو سکتا ہے آئی ڈونٹ بلیو دس کہ سہراب خان بھی ایئسے۔۔؟ میں کیا کروں۔۔ ،،مہرو لگاتار سوچ رہی تھی۔۔مگر وہ اس طرح سے ڈیرے پر جانے پر مطمئن نہیں ہو پا رہی تھی۔۔۔اس کے دل میں کچھ عجیب سا ڈر چھپا ہوا تھا۔۔نہیں۔۔۔۔شہر بانو تو میری فرینڈ ہے ۔۔۔
        اگر یہ کال کسی اور نے کی ہوتی تو مجھے لگتا کہ جھوٹ ہے مگر وہ تو میری کزن اور بچپن کی سہیلی ہے،، مہرو سر تھامےکرسی پہ گر گئی۔وہ پہلے سے ہی گاؤں کی کچھ دوسری عورتوں سے بھی سہراب کے رنگین مزاج کے بارے مین سن چکی تھی ۔
        _____________
        پھر آدھے گھنٹے بعد وہ گاؤں سے باہر ڈیرے والی سڑک پر تھی اور کچھ ہی دیر مین اب مہرو ڈیرے کے ساتھ سہراب کے ڈرائیور حشمت کے مکان کے سامنے پہنچ گئی وہ اندر جانے سے پہلے حشمت کی والدہ سے کچھ پوچھنا چاہتی تھی۔
        مہرو نے گاڑی بڑے شیشم کے درخت کے عین نیچے کھڑی کر دی ۔سامنے ہی تو حشمت کی والدہ راجاں خانم جائے نماز پہ بیٹھی تسبیح پڑھ رہی تھی۔
        "اسلام علیکم ماں جی۔۔،،مہرو نے سلام کیا۔راجاں نے خاموشی سے اٹھ کر مہرو کا ہاتھ تھاما اور۔۔
        "ارے مہرو بیٹی تم اور اسطرح سے یہاں۔۔۔،، راجاں نے مسکرا کر پوچھا۔،،مہرو نے اس کے آگے سر جھکایا تو راجاں نے ہاتھ اس کے سر پہ رکھ دیا۔پھر
        سامنے رکھی چارپائی کی طرف مہرو کو بیٹھنے کا اشارہ کیا تو مہرو ایک طرف ہو کر بیٹھ گئی۔۔
        ماں"جی آپ آپ مجھے کیسے جانتی ہیں۔۔،،،مہرو نے راجاں کو دیکھتے ہوئے سوال کیا۔
        اتنے میں راجاں کا فون بجااس نے فون اٹھایا اور دو منٹ کی بات کے بعد کاٹ دیا۔
        مہرو کچھ جانچتی نظروں سے راجاں کو دیکھنے میں مصروف تھی۔
        "جی بیٹی تم وہ کیا بول رہی تھی،،
        "میں کہ رہی تھی کہ آپ کو کیسے معلوم کہ میں مہرو ہوں،،مہر خانم نے حیرانگی سے سوال کیا۔
        "ہاہاہاہاہا بابا۔بیٹی تمہاری شادی پر تمہین دیکھا تھا وہ جائے نماز سے اٹھتے ہوئے بولین ۔
        پھر مہرو ان سے سہراب اور حشمت کے بارے مین کچھ باتین پوچھنے لگی تو وہ سوچ میں پڑ گئین۔
        مہرو"بیٹا جوتم سوچ کر پوچھ رہی ہو بات تو کچھ ویئسے ہی ہے یہان سے کچھ ہی فاصلے پر ابرار خان کا فارم ہاؤس ہے اور ان کے یہ سب شغل اور کھیل وہین پر رچائے جاتے ہین۔۔آج بھی یہ سب لوگ ادھر ہی ہون گے۔۔۔،،راجاں کی بات سن کر مہرو نے حیرانگی سے اس کو دیکھا اور پھر کچھ سوچ کر ادھر جانے کیلئے اٹھ کھڑی ہوئی۔۔
        مہر بیٹی"بیٹھو ایئسے اکیلی تم ادھر مت جاؤ،کوئی بھی عورت ذات ان کی محفلون مین ادھر نہیں جا سکتی۔۔۔۔،،راجاں نے کہا تو مہرو نے ماتھے پہ بل ڈال کر اس کو دیکھا۔پھر مہرو نے اسے چپ چاپ بیٹھنے کا اشارہ کیا تو راجاں نہچاہتے ہوئے بھی واپس بیٹھ گیی۔ اور مہرو کو دیکھنے لگی۔
        جیسے خاموشی سے پوچھ رہی ہو جانا ضروری ہے کیا۔؟
        مہرو اپنی چادر اور کپڑے ٹھیک کرتی ادھر سے نکل کر فصلوں کے درمیان سے گزرتی فارم ہاؤس کی جانب پیدل بڑھ رہی تھی۔
        سہ پہر کا وقت تھا سورچ سر پر چمک رہا تھا۔دور دور تک ہی آدمی نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔سارا ماحول ہی پراسرار لگ رہا تھا مہرو ماتھے سے بہتا ہوا پسینہ صاف کرتی فارم کی طرف بڑھنے لگی۔
        پھر کچھ دیر ہی چلنے کے بعد ڈر اور خوف گبھراہٹ سے ادھر ادھر دیکھتی فارم ہاؤس کے باہر لگے نلکے کی طرف بڑھ گئی مہرو کو بہت شدت کی پیاس لگ چکی تھی۔
        پانی پینے کے دوران اسنے اپنے پیچھے قہقہوں کی آوازیں سنی تو۔پانی اس کے ہونٹون سے نکل کر کپڑون پر گرنے لگا ساتھ ہی مہرو خوف زدہ ہو کر واپس مڑی وہان پر چار انسان تھے۔جیتے جاگتے ہٹے کٹے مرد جو اسے حوس بھری نظروں سے دیکھ کر تیزی سے اس کی طرف بڑھ رہے تھے۔
        مہرو پیچھے ہٹنے لگی اور پھر جیئسے ہی وہ وہان سے بھاگنے لگی تھی کہ اس کی چادر کسی نے پکڑ کر کھینچی تو چادر اس کے بدن سے اتر گئی اور ساتھ وہ بھی گر کر وہین زمین بوس ہو گئی۔
        وہ چاروں ہنستے ہوئے اس کی طرف بڑھ رہے تھے۔۔
        مہرو نے آس پاس دیکھا مگر کچھ نہ ملا پھر مٹھیاں ریت سے بھر کر ان پہ پھینکی اور ادھر سے اٹھ کر بے سود بھاگی ابھی فارم کے دروازے کے پاس پہنچی ہی تھی کہ وہ آدمی اس کے سر پہ پہنچ گئے۔
        "پلیز ہیلپ می ،کوئی ہے۔۔۔۔،،،وہ اونچی اونچی چلانے لگی۔
        "سہراب خان ۔۔زبیر بھائی ،پلیز بچائیں مجھے،، وہ ایک بار پھر سے چلائی تھی مگر ایک آدمی نے اس کے شرارے کے پچھلے پلے سے ہاتھ ڈال کر کپڑے کھینچ دیئے۔
        "نہیں۔۔۔،،وہ کمر کے بل اپنا تن چھپانے کے لئے فورا ہی پیچھے جا گری ۔۔۔
        سارے آدمی قہقہے لگاتے اس کی طرف بڑھ رہے تھے۔وہ بغیر روتے بلکتے دونوں ہاتھوں سے سامنے کا قمیض کا حصہ پکڑے پیچھے ہٹ کر فارم ہاؤس کی دیوار سے لگ گئی۔خوف کے مارے اس کے حلق میں آواز اٹک گئی تھی۔بہت سارے ڈر اور خوف کے سائے اس کی آنکھوں میں اترے۔
        سہراب"مجھے بچاؤ۔اہ زبیر لالہ۔۔۔۔جلدی آؤ وہ چیخ و پکار ابھی بھی اس کے ہونٹوں میں قید تھی۔
        پھر جیئسے ہی ایک آدمی اس پر جھکا تو مہرو نے خوف سے آنکھیں بند کر لین۔ایک جوانی پر داغ لگنے لگا تھا۔۔کیا پھر سے کوئی درندگی کی انتہا ہونے لگی تھی۔
        اس آدمی کا ہاتھ مہرو کے وجود کی طرف بڑھ رہا تھا کہ اتنے میں اس کے منہ پر کسی نے زور کا مکا رسید کیا۔مہرو نے آنکھیں کھول کر حیرانگی سےخاقان آفریدی اور حشمت کو دیکھا وہ انہین مسلسل مار رہے تھے ان آدمیوں کو بے رحمی سے وہ پیٹ رہےتھے۔۔۔
        وہ جلدی سے اٹھی اور پیچھے ہٹنے لگی اور فارم ہاؤس کی دیوار کے ساتھ بنے کواٹر کا دروازہ کھول کر اندر جا کر ایک نکر میں منہ گھٹنوں میں چھپا کر بیٹھ گئی۔
        اہ"زبیر لالہ۔۔۔۔۔ پلیز بھائی بچا لو نہ ۔۔۔،،پھر ایک بار مہرو کی آواز اس کواٹر کے سناٹے کو کاٹنے لگئی۔
        خاقان آفریدی اور حشمت خان نے ان چاروں آدمیوں کو مار مار کر بے ہوش کردیا اور جپ پھر بھی خاقان أفریدی کا غم۔وغصہ ختم نہ ہوا تو انہیں جان سے ختم کرنے کا کہتے ہوئے خود مہرو کو ڈھونڈنے لگ گئے۔
        "مہر ۔۔۔۔مہر۔۔بیٹی ۔۔۔ کہاں ہو۔۔تم ،،وہ بھاگتے ہوے ادھر سے ادھر جا رہےتھے اور پھر مہرو کی سسکیوں اور زبیر لالہ مجھے بچاؤکی آوازین سن کر وہ ٹھٹھک گیے۔۔اور ساتھ ہی۔ اس کواٹرر کی طرف بڑھ گیے جہاں پر مہرو پاگل سی ہوئی بیٹھی تھی۔
        مہرو"بیٹی۔۔۔،،خاقان آفریدی بھاگتے ہوئے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوے۔اور گھٹنوں کے بل اس کے سامنے بیٹھ گیے
        مہر بیٹا"سس سب ٹھیک ہے اٹھو۔بیٹی۔ مم میں اب آ گیا ہوں نا۔۔۔۔مہرو۔۔۔۔،،وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اٹھانے لگے۔
        نن"ن۔۔نہیں بابا وہ مم سہراب وہ۔۔،،وہان۔۔مہرو پھر سے رونے لگی خاقان آفریدی کی نظر اس کے ننگے ہو تے کندھے پر پڑھی تو وہ نظر جھکا کر سر پکڑ کر بیٹھ گیے پھر جلدی سے اپنے سرسے پگڑی اتاری اور پھر بغیر کچھ بولے مہر خانم کے پیچھے سے اوپر پھیلا کر اُوڑھا دی اور پھر خاقان آفریدی نے مہرو کا ہاتھ پکڑ لیا۔اور کواٹر سے نکل کر گاڑی کی طرف بڑھ گئے
        مہرو ابھی بھی رو رو کر کانپ رہی تھی وہ بہت زیادہ سہم گئی تھی۔اس مین اب چند قدم چلنے کی ہمت بھی باقی نہیں رہی تھی۔۔۔
        خان بابا"مم میں آج بے لباس ہو گئی ہون۔۔۔۔،،وہ ان کے پیچھے جیپ کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ کر سسکیوں کے درمیان میں روتی ہوی بولی۔
        مہرو"نہیں بیٹی۔ایسا تو نہیں کہتے اور بیٹی جس نے بھی یہ کیا اور کرویا ہے انہیں تو مین چن چن کر زندہ نہیں چھوڑوں گا۔۔اور تم اب خود کو سنمبھالو اور کسی سے بھی اس کے بارے مین کوئی بات کرنےکی ضرورت نہین ہے۔۔۔ ،،خاقان أفریدی گاڑی خود چلا رہے تھے حشمت کو ادھر ہی چھوڑ کر انہون نے وہ سبھی لاشونکو خاموشی کے ساتھ ہی ٹھکانے لگانے کا کہ دیا تھا ۔
        مہرو اب بھی کانپتے ہوئے ساتھ اپنے ہاتھوں میں۔ منہ چھپائے مسلسل آنسوں بہا رہی تھی۔۔۔۔
        _________
        "کیا ہوا مہرو بیٹی تو ٹھیک تو ہو۔۔۔۔،،بی بی جان انکے گھر مین داخل ہوتے ہی سانس بھی لئے بغیر بولین۔
        "یہ گھر سے باہر اکیلی کیون کر گئی ہین ،،خاقان آفریدی نے بہت کرخت لہجے میں پوچھا۔
        مگر بی بی جان بس خاموشی سے مہرو کو ہی دیکھے جا رہی تھین۔۔پھر بی بی جان نے اپنی چادر بھی خاقان آفریدی کی چادر کے اوپر سے مہرو پر پھیلا دی۔۔اس کے کرب سے تو وہ بغیر کچھ پوچھے گزر رہی تھین یہ درد تو ان کے اندر بھی بیٹھ چکا تھا۔۔
        ___________________
        فارم ہاؤس کے دوسرے فلور پر سے ایک کھڑکی کے پاس کھڑا ابرار مہرو بیگم پر بیتنے والے ایک ایک پل کو دیکھ دیکھ کر انجوائے کر رہا تھا۔
        اس نے خود آگے بڑھنے کے بجائے مہرو کو لانے اپنے پالتو آدمی وہاں بھیجے تھے۔
        کہ اچانک سے خاقان أفریدی اپنے ڈرائیور اور باڈی گارڈ حشمت کے ساتھ فارم ہاؤس کے باہر مہرو کے پاس پہنچ گئے۔
        جنہین دیکھتے ہی ابرار خان ڈر خوف سے گھبرا کر پیچھے سائیڈ پر ہو گیا۔
        پھر جب اس نے دس منٹ کے بعد بمشکل اپنی ہمت جھٹلا کر باہر دیکھا تو مہرو وہاں سے بچ کر خاقان أفریدی کیساتھ واپس جا رہی تھی۔۔
        مہر خانم کے اس طرح بچ جانے سے ابرار خان غصے اوراشتعیال مین پاگل ہونے لگا تھا ۔کہ اتنے مین شہر بانو بھی نشئے مین مکمل طور پر دھت سہراب خان سے اپنی جی بھر کے حسرتین اور دل کے سب آرمان پورے کرنے کے بعد اُسے کمرے مین اکیلے چھوڑ کر باہر ابرار خان کے پاس چلی آئی۔۔
        وہ اس وقت اپنے پر غرور شباب کو خود ہی سہراب خان پر نچھاور کر کے مدہوش ہو رہی تھی۔اس جیسی عورت جب شرم وحیا کو چھوڑ دیتی ہے تو پھر اس کو اپنے پرائے جائز اور نجائز کے فرق کو مٹا کر شرم وحیا کو پس پشت ڈالتے ہوئے بس صرف اورصرف اس کو ہر حالت مین ہر وقت ہی اپنی پرشہوت بدن کی سبھی رعنایون کی جنسی تسکین چاہئے ہوتی ہے۔
        پھر جیئسے ہی شہر بانو کو مہر خانم کی بابت سب پتہ چلا وہ گھبرا کر ابرار خان سے پوچھنے لگے کہ خان اب اس سہراب سے کیا کہو گے اور اس کو کیسے مہرو کے ساتھ بیتتے سب حالات بتاؤ گے۔اگر اس نے یہان سے جا کر اپنے باپ اور مہرو سے وہ سب کچھ سنا تو پھر تو ہمارا سارا پلان ہی بگڑ کر چوپٹ ہو جائے گا۔
        ابرار:: ارے شہری ڈارلنگ۔سہراب کو"سڑتا رہنے دو اس کو یہاں پر اب ہمیشہ ہی۔ بلکہ تمہارا جب بھی دل چاہے۔۔تم اس کے ساتھ داد عیش کرو۔۔
        مگر ابرار خان اب تم مہرو کو پانے کے لیے کیا کرو گے ،،شہر بانو اس سے پوچھتے ہویے پھر سے سہراب خان کے پاس جانے کیلئے اٹھ کھڑی ہوئی۔۔
        ابرار خان"ارےے شہری یار تم اس کی ٹینشین مت لو مین مہرو بیگم کو حاصل کرکے ہی چھوڑون گا بس تو جا سہراب کوریڈی کر اور آج کی رات تم دونؤن ادھر فارم ہاوس پر ہی رکےرہو ۔۔ ،،ابرار خان نے کہا اور پھرجیسے ہی کمرے سے باہر نکلنے لگا سہراب نشیے کے باوجود لڑ کھڑاتا ہوا ان کے سامنے آ کھڑا ہوا تھا۔
        اس کے چہرے کو دیکھ کر ابرار اور شہر بانو کو اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ سب کچھ ہی سن چکا ہے۔۔۔
        ابرار مین"تمہارے یہ سب غلط غلیظ ارادوں کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دوں گا،میں ابھی زبیر خان کو بھی کال کر کے ساتھ بتا دیتا ہون۔،،سہراب نشیے مین مدہوش ہونے کے باوجود غصے مین آ کر بولا اور پھر اس روم سے لڑکھڑا کر باہر نکلتا ہوا سیڑھیوں کی طرف جانے لگا۔
        ابرار جانو اس کو روک لو ورنہ نہیں تو اب جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانے کیلئے خود تیار ہوجاؤ ۔۔۔،،شہر بانو گھبرا کر بولی تو ابرار خان فارم کے اس دوسرے فلور پر بنے اندرونی طرف کی دائیں سائیڈ والے دروازے کو بھاگ کر عبور کرنے لگا۔
        پھر اس سے پہلے کہ وہ سہراب خان برآمدے کا آخری حصہ عبور کر کے سیڑھی اترتا ابرار خان نے آس پاس دیکھ کر اسے نیچے دھکا دے دیا تو سہراب اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا اور سر کے بل سیڑھیوں سے گرنے لگا۔اور ابرار بھی بہت پھرتی سے وہاں سے سیڑھیاں اتر گیا۔
        "ابرار خان۔۔۔،،شہر بانو شور کی آواز سن کر ادھر آنکلی۔اور اب وہ بھاگتی ہوئی ابرار کے ساتھ ہی نیچے چلی آئی۔
        سہراب"سہراب میری جان پلیز آنکھیں کھولو۔۔۔۔،،شہر بانو نے اسے سیدھا کیا سہراب کے سر کے پچھلے حصے سے خون بہ رہا تھا۔
        سہراب نیری"میری جان ،آپ کیسے مجھے چھوڑ کے جا سکتے ہو ۔ ابرار ،جلدی سے پانی لاؤ یا پھر ڈاکٹر کو کال کرو ۔۔ ،،شہر بانو سہراب کا مسلسل منہ تھپتھپا رہی تھی۔۔۔۔
        شہربانو"۔۔سہراب خان اس دنیا میں نہیں رہا ،،ابرار نے ہی اس کی نبض چک کرتے ہوئے گھبرا کر بولا۔شہر بانو کے سر پر تو غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا وہ خفگی سے ابرار کو دیکھتے ہوئے ساتھ سہراب کے بےجان وجود سے لپیٹنے لگی۔
        ارے ظالم تمہین سہراب کو روکنے کیلیے کہا تھا ۔اور تم نے یہہ کیا کر دیا۔
        اہ۔میں کس قدر منحوس ہوں۔۔۔۔،،شہر بانو غائب دماغی سے سوچتی اور اپنے ہاتھوں پر لگے سہراب خان کے خون کو دیکھتے ہوئے۔۔۔وہ ہوش وہواس کھونے لگی۔۔
        جب انسان پہلا گناہ کرنے لگتا ہے تو گھبراتا ہے ضمیر ملامت کرتا ہے کچھ لوگ گناہ چھوڑ دیتے ہیں پر جو ایسا نہیں کرتے ان کا ساتھ ضمیر بھی چھوڑ جاتا ہے۔
        جب انسان ایک گناہ کو چھپانے کے لئے دوسرا گناہ کرتا ہے تو ایک کے بعد ایک گناہ کرنا پڑتا ہے ۔یہ ہی حال ابرار خان اور شہربانو کا تھا۔
        ادھر ابرار اب سہراب خان کی لاش کو گھوڑے پر بٹھائے فارم سے دور جنگل مین پھینکنے کیلئےلے کر جا رہا تھا کہ اچانک شمس خاں کے شکار کے لئے کیے گئے فائرنگ سے فائدہ اٹھا کر ابرار نے سہراب کے سر پر پسٹل سے فائر کیا۔۔
        اور سہراب کی لاش کو پہاڑی سے ڈھلوان کی طرف نیچھے لڑھکاتا ہوا۔۔خود وہان سے غائب ہو گیا۔۔
        جاری ہے۔
        Vist My Thread View My Posts
        you will never a disappointed

        Comment


        • #44
          قفس۔کی چڑیا۔لاسٹ اپڈیٹ۔
          نوٹس.۔
          ساتھیومجھے لگتاہے رمضان مین کی گئی اس بغیر مصالے منورونجن کی سٹوری سے کسی دوست کو کوئی خاص دلچسپی نہین ہے اس لئے اس کا۔
          اب اختتام کرتے ہین۔

          زبیر خان کے بیٹے کے عقیقے کا فنکشن(رسم) اپنے عروج پر تھا۔مگر پلوشہ لان میں اکیلی ہی بیٹھی تھی۔کیونکہ زریاب خان ایک ضروری کام کی وجعہ اس کو ڈراپ کرکے واپس چلا گیا تھا۔
          پھر اس کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے مہرو خانم بھی وہاں چلی آئی اور اس سے سب (بی بی جان وغیرہ) کا حال چال دریافت کرنے لگی۔
          ارےے"مہر ۔۔وہ دونوں بینچ پر بیٹھی تھی کہ شمس خان بھی اس طرف آیا۔
          مہرو کے ساتھ ساتھ پلوشہ نے بھی گردن گھما کر اپنے لالہ کو دیکھا۔پھر شمس نے پلوہی کو پیار دیتے ہوئے۔"مہر میں چند دوستوں کے ساتھ، باہر زمینون پر جا رہا ہوں۔۔۔تھوڑی دیر تک لوٹ آؤں گا۔
          اور پلوشہ بیٹا اب۔تم دونوں یہاں ایک ساتھ ہی رہنا۔اور اس کواپنا گھرسمجھو۔اگرتھک جاؤ اور ریسٹ کرنی ہو تو مہرو کے ساتھ اوپر والے فلور پر اسکے کمرے مین چلے جانا۔۔،،شمس نے پلوشہ کے سامنے رک کر مسلسل مہرو کو دیکھتے ہوئے ساتھ تیزی سے بولا۔۔
          مہرو بھی اپنے پشاوری غرارے کاپلوٹھیک کرتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔بس خان وہ آپ" ذریاب کا بھی پتہ کرنا اورجلدی سےواپس آ جانا۔۔وہ مسکرا کر بولی تو شمس نے اس کا ہاتھ تھام لیا ۔
          اگر"تم کہو توجاناں میں جاتا ہی نہیں ہوں تمہارے پاس رک جاتا ہوں نا۔۔۔،،وہ جذبات سے چور لہجے میں بولا پلوہی نے فورا کھنکارتے ہوئےگلا صاف کر کے اپنی موجودگی کا احساس دلوایا۔
          ارےےے پلوہی بیٹا"کیا ہے دو پیار بھرے بول بھی نہیں بول سکتا۔اب کیا میں اپنی بیوی سے ؟۔،،۔
          شمش لالہ"ابھی آپ کی بیوی فارغ نہیں ہے اور آپ جاؤ اب جہاں پر جا رہے تھے۔۔۔پلوشہ نے شرارت سے کہا۔
          ارے پلوہی" پلیز اب تم بھی ہر وقت زریاب کی طرح ہی مجھ سے لڑائی نہ کیا کرو۔۔۔ کبھی تو سمجھ داری سے کام لے لیا کرو تم دونوں،،شمس خان نے بھی شرارت سے پلوشہ کو ڈانٹ لگائی۔ اور
          پلوہی مسکراتے ہوئے ساتھ ہی دوسری طرف منہ کر کے بیٹھ گئی ۔
          شمس نے مہررو کا مرمرین ہاتھ تھام کر ان پہ ہونٹ سجائے۔وہ شرما کر نظریں جھکا گئی اور ہاتھ پیچھے کھینچ لیا۔شمس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔
          اچھا"میں جلدی آتا ہوں۔۔۔اب انتظار کرنا جاناں۔۔ ,,وہ شرارت سے بولا۔
          دل کی حالتین سب تم سے کہی نہین جاتی۔

          یہ سانسیں بھی توتجھ بِن لی نہیں جاتی ۔،،
          شمس سرگوشی میں اظہارِ محبت کر رہا تھا۔
          "اور میں بھی اپنے خاناں کے بناں جینے کا سوچتی ہی نہیں ہون اب۔۔،،مہرو نے بھی شمس کی طرح قدیمی پشتو میں ہی مدھم آواز میں بولی شمس نے اس کو ایک پل کے لئے اپنے احصار میں لے کر پھر سامنے کیا۔۔ نہجانے کیا تھا شمس کا دل نہیں کر رہا تھا کہ وہ اسے چھوڑ کر جائے مگر زمینوں پر بھی ضروری جانا تھا۔
          اوکے"میں آتا ہوں۔۔,,وہ مہر کے رخسار تھپتھپاتے ہوئے بولا ۔اور ایک نظر دونوں پر ڈال کر چل دیا ۔
          مہرو۔بھابھی"۔۔یی یہ کیا تھا
          آپ دنون کونسی زبان مین بات کر رہے تھے۔پلوشہ غصے خفگی سے منہ بسور کر بولی ۔.
          "ہاہاہاہا۔پلوہی تم نے کیون اپنے بھائی یہ پرانی قدیم پشتوزبان نہین سیکھی۔وہ تو سب کو سیکھاتا رھا ہے بچپن میں ہی سے مگر تم نے خود دھیان ہی نہیں دیا کبھی۔،،مہررو اس کے گرد بازو حائل کرتے ہوئے بولی۔
          ادھرشہربانو ان دونون کوساری
          لال حویل مین ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھکنے کے بعد دوبارہ ڈھونڈتی ہوئی اب ان کے پاس لان مین پہنچ چکی تھی۔
          "اچھا مہر خان تم یہاں کیوں حھپی بیٹھی ہو تمہیں پتا ہے کہ تمہاری آواز سنے بغیر مجھے چین نہین أتا۔۔،،اور أج بتا بھی دو مجھ سے ناراض کیون رہتی ہو۔۔
          "پلیز شہر بانو مجھے اس بارے میں کوئی بات نہیں کرنی۔مہرو چڑ کر بولی ۔۔
          تو شہر بانو بھی نراض ہو کر انہین عجیب سی نظرون سے گھورتے وہان سے پاؤن پھٹک پھٹک کر چل دی۔۔ اور باہر نکلتے شہر بانو نے ابرار خان کو کال کر دی۔ارےے خان۔۔جلدی سے پلان پر عمل کرو شمس اور زریاب خان دونون لال حویلی سے جا چکے ہین۔۔
          ادھر شہربانو کے آنکھون سے اوجھل ہوتے ہی پلوشہ نے بھی قہقہہ لگایا اور مہرو کے گرد بازو حائل کر دیئے۔ساتھ ہی بولی۔واہ بھابھی۔ کیا بات ہے اپنی بچپن کی سہیلی کوچھوڑ دیا۔
          مہرو بھی مسکرا دی اور پلوہی کے رخسار پہ ہونٹ ٹکا دیئے۔اور ساتھ مہرو کھلکھلا کر ہنستی کہنے لگی۔ہان اب تم جو مجھے مل گئی ہو۔۔چلو آؤ میرے ساتھ
          بچون کو دیکھین۔۔
          پھر جیئسےوہ دونوں حال میں داخل ہوئی تھی کہ۔ ایک نوکر ان دونوں کے پاس آیا۔اور پلوشہ سے بولا
          خانم"جی آپ کے شوہر آپ کو یاد فرما رہا ہے ۔۔باہر گاڑی کھڑی ہے چلیں۔۔،،ایک بلکل انجان سا نوکر نہایت مودبانہ انداز میں کھڑاہو کر بولا۔
          مگر وہ تو"مجھے یہان ڈراپ کر کے چلا گیا ہے۔۔۔،، پلوشہ نہجانے کیون بہت فکر مندی سے کچھ بڑبڑائی۔مین اب کیا کہ سکتی ہون۔مہرو بھی بولی۔
          پلیزز خانم"آپ ہمارے ساتھ اب چلیں بھی۔۔۔انہوں نے کہا تھا آپ کو ادھر جلدی سے لے کر آؤں۔۔۔،،وہ آپ کا انتظار کر رہے ہین پلوہی مہر خانم اور اس نوکر کی طرف پوری طرح متوجہ ہوچکی تھی پلوہی کواس طرح پریشان سے دیکھ کے بولی۔پلوہی تم چلو مین بھی ساتھ آتی ہون۔
          چلو۔ وہ پلوہی کو کہتے ہوئے پھر سےنوکر کی طرف متوجہ ہوئی۔
          مگر"روکو بھابھی ہم سب کے پاس سیل ہے۔اور زریاب اور لالہ ہمین کال کر سکتے ہین۔۔,, مگر مہرو ہینڈ بیگ سے شمس کا فون نکالتے ہوئے بولی ان کا فون چارجنگ پر لگانا تھا اس لیے وہ یہین مجھے دے گئے تھے ۔۔
          بھابھی ۔زریاب خان کا بھی پھر سے فون بند ہے۔۔
          پلوشہ"یار شائد اس نے تجھے کوئی سرپرائز دینا ہو پہلے بھی تو وہ یوں ہی کرتا ہے اس میں اتنی پریشان ہونے والی کونسی بات ہے۔۔،، مہرو خانم اب کچھ جنجھلا گئی۔۔
          "اچھا بھابھی چلو میں تمہارے کہنے پر ساتھ چلتی ہوں پتا نہین یہ آپ کا صاحبزاہ حدید اب پھر سے کہاں چلا گیا۔۔۔,, پلوہی ادھر ادھر نظریں دوڑانے لگی۔۔
          "چلیں بھی خانم۔جی۔۔،، نوکر جلدی میں لگ رہا تھا
          مہرو نے حدید کو ادھر ہی چھوڑ کر جب قدم بڑھائے تو پلوشہ بھی مجبورا تذبذب سی ہوتی اس کے پیچھے پیچھے چل دی۔
          _________________
          پھردس منٹ کے بعد وہ ڈرائیور شمش لالہ اور زریاب کے گاؤن کے بجائے لیفٹ سائیڈ کی طرف جا رہی سڑک پہ گاڑی گھما چکا تھا۔
          کچھ ہی دیر مین گاڑی اب پہاڑیوں کے درمیان سے گزر رہی تھی۔۔پلوہی خوف زدہ ہو کر باہر دیکھنے لگی اور پھر مہرو کو دیکھا۔جو مکمل لاپرواہی سے مسکرا کر بس باہر دیکھ رہی تھی مگر۔پلوہی کے دل میں عجیب سوچیں جنم لے رہی تھی۔
          پلوشہ کو نہجانے کیون لگنے لگا کہ اب سب ختم ہونے لگا۔۔انکی عزت مکمل داؤ پر لگ چکی ہے۔
          مہرو بھابی اور وہ دونون ایک ساتھ ہی ان درندوں کےہاتھوں چڑھ چکی تھین ۔ ساتھ ہی اس کی نظر ہاتھ مین پکڑے ہوئے اپنے فون پر جا پڑی۔۔
          پلوشہ کوایک بار پھر سے ہمت اپنےاندر پیدا ہوئی اس نے بہت تیزی سے اپنی ہمت اکٹھی کی اور پھرجلدی سے ساری صورت احوال کا میسج ٹائپ کیا اور ایک ساتھ شمش لالہ ذریاب خان اور خاقان آفریدی کے نمبر پر سینڈ کر دیا۔
          پھر کچھ ہی دیر بعد پہاڑیون اور جنگل کے درمیان بنی ایک عمارت کے پاس گاڑی رکی تو تیزی سےدو آدمی بھاگ کر آئے تھے۔اور پھر دونوں اطراف کا دروازہ ایک ساتھ کھولا اور پلوشہ مہرو کو کھینچ کر باہر نکالا۔
          "ک۔۔کون ہو تم لوگ۔۔۔چھوڑو مجھے۔۔۔,،مہرو نے اس آدمی کو خود سے پرے دھکیلنا چاہا مگر ناکام رہی۔
          اور وہ دونوں انہین زبردستی گھسیٹتے ہوئے اندر کی طرف چل رہے تھے۔۔
          ارے کتو کمینو"چھوڑو ہمین لچو۔۔۔۔۔کمینے,,پلوشہ بھی اب چلائی تھی ۔وہ دونوں کو اندر عمارت کے اندر ہی لا کر پھینک چکے تھے۔۔
          ___________
          ابرار خان صاحب۔۔أپ کا شکار ٹھکانہ پر پہنچ چکا ہے۔مگر وہ اکیلی آنے پر تیار نہین ہو رہی تھی۔ بلکہ ہم سب کیلئے اپنے ساتھ تو ایک اور گفٹ بھی لے کر آئی ہے۔
          اہ مہرو تمہارا چہرہ تو ہر وقت یہاں اس میں دل مین مجھے نظر آتا تھا۔۔۔کتنی محبت کی تھی میں نے تم سےمہرو ۔۔کس قدر تمہیں چاہا شائد تم اس بات سے واقف ہی نہیں ہوئی تھین۔۔،
          اب آخر کار تمہین سبق سکھانے کا وقت آگیا ہے ابرار خان دل ہی دل مین بڑبڑایا ۔
          اوکے یار اب سب وہاں خیال رکھنا"اور ٹھیک ہے میں آ رہا ہوں۔۔۔،،ابرار خان کہتا میز سے گاڑی کی چابی اٹھاتا ہوا پھر کچھ سوچ کرایک نظر بیڈ پرسجی دھجی شہر بانو پر ڈال کر بولا۔
          ارے شہری شوہر کی محبت تو تمہین ملے گئی نہین۔اور ۔شائد تمہیں اس کی ضرورت بھی تو نہیں ہے۔۔تمہین تو دولت چاہئے تھی اور ہر وقت نئے سے بھی نئے مرد کا ساتھ توچلوآؤمیرے ساتھ آج کچھ مذید لطف و مزے کیلئے۔۔۔وہ شہربانو کو کہتے ہوئے ساتھ لے کر تیز قدم اٹھاتا باہر نکل گیا۔
          شہر بانو کوشاید غصہ آیا پر وہ کچھ نہ بولی۔بلکہ قدم سے قدم ملاتے ہوئے ابرار کے ساتھ چل پڑی۔۔
          ابرار خان فل سپیڈ پہ گاڑی چلا رہا تھا۔ گاڑی پہاڑی ٹیلوں کے درمیان سے تیزی کیساتھ گزر رہی تھی۔
          اور پھر ایک بہت ہی عالیشان پرانی عمارت کے سامنے گاڑی رکی وہ عمارت اونچے اونچے پہاڑی ٹیلوں اور اس جنگل کے درمیان موجود تھی ۔
          ابرار شہر بانو کے ساتھ جلدی سے گاڑی سے نکلا اسی طرح ٹھک سے دروازہ بند کرتا تقریباً بھاگتا ہوا عمارت کے اندر داخل ہوگیا۔
          اور شہر بانو کا ہاتھ تھام کے ایک بڑے سے" کمرے کی جانب بڑھ گیا۔انر دروازے کو کھول کراندر داخل ہوا اور پھر بیڈ پر سامنے بیٹھے انتہائی وحشی گرانڈیل اُجڈ ٹائپ آدمی کی طرف اشارہ کر کے شہر بانو سے بولا۔شہری میری جانو آج کے دن کا تمہارا نیا شوہر اور بیڈ پاٹنر یہ ہے۔۔
          "ابرار خان۔،،یہ کیا بدتمیزی ہے ہے شہر بانو نے اس ریچھ ٹائپ آدمی کو دیکھ کرانتہائی شدید صدمے سے ہولی اسے اس آدمی کی ظاہری کیفیت دیکھ کر ہی دھجکا لگا تھا۔وہ پہلے ہی سے ابرار خان کے رویون سے کافی حد تک ٹوٹی ہوئی تھی۔اور اب یہہ؟؟۔
          شہری تمہین پتا ہے مین نے تم کو پانے کے لئے کیا کچھ نہین کیا مگر تمہاری اب ڈیمانڈین بہت بڑھ گئی ہین اس لئے اب تم ہمیشہ کیلئے ہی اس کے ساتھ رہو گئی۔۔
          ورنہ تو تم مجھے پاگل کرکے چھوڑ گئی۔ اور وئیسے بھی مہرو کو اس طرح وہاں سے لانے کے بعد تمہارا وہاں رہنا ٹھیک نہیں ہے۔اور مجھے پتہ تھا تم نے میری بات ماننی نہیں تھی۔ اس لئے اب تم اس طرح سے یہان پر ہو۔تو پلیز اب میری مجبوری کو سمجھو۔۔۔۔اور چلو اس کے ساتھ انجوائے کرو اوکے شہری ساتھ ہی۔۔۔۔،،ابرار نے شہر بانو کو بیڈ پر اس آدمی کے پاس دھکیل دیا۔اور شہر بانو اپنے گھٹنوں میں منہ کو چھپائے بیڈ پربیٹھی سسکنے لگئی۔ابرار کی بات سن کر شہر بانو کو اپنے ساتھ اب بہت کچھ زبردستی ہوتا نظر آ رہا تھا ۔پھر کچھ ہی لمحون بعد وہ بولی
          ابرار"مم مجھے واپس گھرجانا ہے۔۔۔پلیزززز مجھے تم یہان سے جانے دو۔۔۔ ،،شہربانو رونے لگی تھی۔مگر اس آدمی نےاپنے شوز سے پیرؤں کو آزاد کا اور بیڈ پر شہر بانو۔ کے قریب آنے لگا۔
          "ارے ارے چھوہری کہاں بھاگ رہی ہو تم۔۔،، اس آدمی نے شہر بانو کو نیچے اترتے دیکھ کر بولا اور اسے پکڑ کر اپنی طرف کھینچ لیا۔شہر بانو خوف سے کانپ جارہی تھی۔ساتھ اس کی آنکھون سے کاجل بہہ بہہ کر گلابی رخساروں پر پھیل چکا تھا۔
          ارے میری جان اب"تم یہاں سے کہاں جاؤگئی۔میری جان ایئسے کیوں۔۔۔ ،،اس نے شہر بانو کو اپنی سخت مظبوط باہوں سے دبوچ لیا۔کراس کے گلابی گالون کی سائڈ سے بکھرا کاجل صاف کرنے لگا۔۔
          ارے"چھوڑو بھی مجھے کمینے تمہارا کوئی حق نہیں بنتا ہے زبردستی مجھے چھونے یون کا۔۔،،شہر بانو چیخی۔ اور اسے ایک زور کا تھپڑ جڑ دیا مگر اس پر کچھ اثر نہ ہوا بلکہ وہ تو مسکرانے لگا۔۔ اور اس کی خوفناک مسکراہٹ میں عجیب سی وحشت درندگی جھک رہی تھا ۔
          ارے چھوہری اب" توہر حق ہے میرے پاس میں جیسے چاہوں تمہیں چھو سکتا ہوں۔ اور جو چاہون تمسے کر سکتا ہوا مین نے ابرار خان سے تمہارا سودا کیا ہے۔ اور بب تم کچھ نہیں کر سکتی۔۔ ۔ ،،اس کی بات نے شہر بانو کے سر پر بم پھوڑا۔
          تت تم کچھ بھی بکتے جا رہے ہو ۔۔۔۔ابرار خان تم تو مجھ سے محبت کرتے ہو۔اسے بولو چھوڑ دے۔۔ارے خان تم کچھ تو ہوش کرو۔۔،،مم مین توتمہاری بھابھی تمہارے خاندان کی عزت ہون شہر بانو اس آدمی کی مظبوط آغوش مین پھنسی اپنے ہاتھ پاؤں مارتے ہوئے ابرارپر جیئسے چلائی۔اسے سمجھ نہیں آ رہا تھاکہ ابرارکو اچانک آخر ہو کیا گیا ہےوہ شہربانو سے اس طرح کیوں کر رہا ہے۔۔
          ارے بلبل"بہت خوب صورت ہو تم۔کہین نظرنہ لگ جائےگی چلو میرے ساتھ لیٹ کر اب لپیٹ جاؤ۔۔،،وہ وحشت سے شہربانو کو خودسے لیپٹاتا ہوا بولا۔
          اور پھر شہر بانو کو سختی سے پکڑ کر اپنے اوپر لیٹا لیا پھر اور۔۔۔ ،،ابرار خان سے جانے کو کہ دیا۔۔
          شہر بانو نے کاجل بھری موٹی موٹی آنکھوں میں بے حدخوف بھر کے اس وحشی اور ابرار کو ایک ساتھ دیکھا۔ ساتھ" وہ اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نکالنے کی مسلسل کوشش کررہی تھی۔پھر ابرارا کو کمرے سے نکلتے دیکھ کر چلا پڑی
          ابرار"نہیں۔۔پلیززز نہین۔۔
          ارےے بلبل تم بہت خوبصورت لگ رہی ہو۔کاش تمہارا یہ حسن ہمیشہ برقرار رہے۔۔اور تم یوں ہی میرے سینے پر۔۔چپک ہوئی لیٹتی رہو سے۔اور ساتھ ہی اس آدمی نے شہربانو کو اپنی باہوں کی آغوش میں سمیٹتے ہوئے اس کے کپڑے اتارنے لگا ۔
          ابرار نے اپنا سر جھکایا اور پھر وہاں سے باہر نکل گیا۔
          شہر بانو اب بھی اس ریچھ کے مظبوط حصار مین بن پانی کی مچھلی ک طرح تڑپ رہی تھی وہ چھوٹنے کی کوشش کر رہی تھی مگرشہربانواس کی سخت گرفت کو ڈھیلا نہیں کر پائی تھی۔
          اب"تم میرے قریب رہو جیسے میرے دل کی دھڑکنیں قریب ہیں میری بلبل ہمیشہ یوں ہی تم میرے قریب رہو ۔۔۔،،وہ نیم مدہوشی کی حالت میں بولا۔شہر بانوکے انگ انگ میں آگ لگ گئی۔
          غصے کے مارے ماتھے پہ پسینہ چمکنے لگا۔اور نازک ہاتھ کی مٹھیاں بھینچ گئی۔
          ____________________
          پلوشہ کی ساری چوڑیاں ٹوٹ کی ہاتھوں میں لگ چکی تھی۔ اور مہرو کی تو جان تو آج پھر سے پرواز ہونے لگی تھی اس کی ٹانگوں کے ساتھ ساتھ سارا وجود بھی مسلسل تیز کانپے جا رہا تھا۔
          "تم لوگ ہمیں یہاں کیوں لائے ہو دروازہ کھولو۔۔۔۔۔،، پلوہی اٹھ کھڑی ہوئی اور مہرو کو اٹھاتے ہوئے بولی مہرو ڈر کے مارے نہجانے کیون خاموش ہو چکی تھی۔
          ارے"یہ تو میں ہی بتا سکتا ہوں۔۔،،اندرونی طرف سے ایک کمرے کا دروازہ دھیکل کر ابرار خان باہر نکلا تھا۔۔ وہ بہت ہی پرشہوت انداز بولا۔
          پلوشہ اور مہرو مکمل طور پر گھوم گئی تھی۔۔
          ارےےے ابرار لالہ"تم۔۔مہرو۔۔یہ دیکھ کر بہت حیران تھی۔۔ابرار کے ساتھ ایک اور آدمی بھی تھا۔۔۔،،لالہ یہ سب کیا ہے مہر خانم نے اپنی حالت کی طرف اشارہ کر کے پوچھا۔
          ابراراوروہ آدمی بھی اب ان دونوں مہرو اور پلوشہ کو ہی دیکھ رہے تھے۔
          ارے"بس مہرو جان تم مجھے بچپن سے ہی بہت پسند آئی ہو جاناں۔۔۔چلو مجھ سے شادی کر لو اب۔۔۔ ،،ابرار خان مہرو کی طرف بڑھا.
          "ارے کمینے میری بھابھی کو ہاتھ بھی مت لگانا۔مین تیری جان نکال دوں گی۔۔۔،،پلوشہ مہرو کو اپنے پیچھے کرتے ہوئے بولی۔
          وہ دونوں ایک بار پھر قہقہہ لگا کر ہنسے تھے اور پھر انہون نے سرگوشی مین ایک دوسرے سے کچھ کہا اور پھر۔اچانک انہوں نے ایک ساتھ آگے بڑھتے ان دونؤن پر جھپٹ پڑے۔مہرو کو ابرار نے پکڑ لیا اور پھرایک طرف کو بنے کمرے کی طرف کھنچنے لگے مگر جو آدمی پلوشہ کو پکڑ نےآگے آ چکا تھا۔وہ اپنی ٹانگون کے درمیان مین پلوشہ کا لگایا ہوا گھٹنہ غصے مین ۔بہت زور کا ۔۔کھا کر اب بن پانی کی مچھلی کی طرح فرش پر گرا تڑپ رہا تھا۔
          ابرار کتے کمینے" تم چھوڑو مجھے ۔۔،،مہرو نے بھی ابرار کے ایک پاؤں کے اوپر زور سے ہیل ماری اور ساتھ اس کے ہاتھ پر دانت پیس دیئے وہ اسے چھوڑ کر تکلیف سےکرانے لگا۔۔
          پلوشہ نے بھاگ کر مہرو کو اپنی طرف کھینچ۔۔لیا مہرو کا وجود خوف اور پریشانی کے باعث بے جان ہونے لگا تھا۔پھر وہ پلوشہ کی باہوں میں بے جان ہو کر گر پڑی تھی۔۔
          پلوشہ نے ایک کمرے کی طرف آگے بڑھتے ہوئے ابرار کے منہ پر پاؤن سے زور دار ٹھڈا رسید کر دیا۔
          تمہین"شرم تو نہیں آتی ہو گئی بغیرت انسان،،وہ دانت پیس کر بولی تھی۔ پھر ساتھ ہی مہرو کو لئے ایک کمرے مین گھس کر دروازے کو اندر سے بند کرلیا۔کیونکہ پلوہی کو اب بھی بہت امید تھی۔؟؟۔کہ کوئی نہ کوئی تو ان کی مدد کو ضرور پہنچے گا۔
          ابرار تکلیف سے تڑپنے کیساتھ غصے سے ان دونون کو دیکھنے لگا۔۔"اب تم دونوں کوکون بچاتا ہے میں بھی دیکھتا ہوں۔۔۔۔،،وہ دھاڑا تھا۔۔
          _________
          شمس اور زریاب خان ایک ساتھ ابھی لال حویلی میں داخل ہوئے تھے کہ سامنے سے خاقان آفریدی زبیر خان اور حشمت خان غصے اور وحشت سے بچھرے ہوئے باہر نکلنے لگے وہ دونون ہی بھاگ کر ان تک پہنچے اور پھر خان آفرید ایک ساتھ پلوشہ کا سینڈ کیا میسج اور مہرو خانم پر کچھ سال پہلے بیتا حادثہ بھی سب کو بتانے لگے ساری بات سنتے ہی زریاب جیئسے لڑکھڑا گیا۔۔
          زریاب"تم ٹھیک ہو۔۔،شمس خان اس کے پاس آیا تھا۔
          "نہیں لالہ ہم لٹ گئے لالہ۔۔۔ہم برباد ہو گئے۔۔۔۔ ،،وہ بھرائی آواز میں بولا زبیر اور حشمت نے اسے سہارا دیا۔ شمس خود بھی غصے سےکانپ رہا تھا۔۔
          چاچا" وہ وہ آدمی لے کر گیا تھا۔۔۔آمی اور چاچی لوگوں کو۔۔،،اتنے مین حدید نے سامنے اشارہ کیا جو بہت خاموشی سے ان کے درمیان آ کر کھڑا تھا سب باتین سن رہا تھا۔
          "شمس لالہ یہ تو ہمارا ملازم نہیں ہے۔۔زریاب غصے بولا۔۔ ارے جلدی سے اسے پکڑو یہ ابرار خان کے فارم پر نوکر ہے زبیر خان بھی بول اٹھا۔
          خاقان آفریدی:بیٹا اس کو پکڑنے سے پہلے تم سب میری بات سن لو۔مجھے پلوشہ اور مہرو بیٹی پر اٹھنے والی گندی نظرون کا سیاہ بھی دوبارہ نظر نہین أنا چاہیے۔
          مین تم سب کو اجازت دیتا ہوں اپنے اپنے ہتھیار ساتھ لے لو اور ضرورت پڑے تو جو بھی سامنے آئے زندہ ہی زمین مین گاڑ ڈالو۔
          ۔_______
          بھابھی مہرو
          پلوشہ۔۔۔۔پلوہی۔،،۔۔زریاب سب کے آگے آگے بھاگتے ہوئے اندر داخل ہو رہا تھا۔۔اس کے پیروں سے پلوشہ سے سر پر اوڑھی بھاری چادر پھٹی ہوئی ٹکراتی نظر آئی جو امید کوئی دل میں بچی تھی وہ بھی اچانک ختم ہونےلگئین۔زریاب کی ٹانگیں کانپ سی گئین اور وہ زمین بوس ہونےلگا۔
          اتنے مین سامنے کمرے کا دروازہ یکدم کھولا تھا ۔زریاب کی تو روح تک کانپ رہی تھی۔ وہ بڑی محنتوں کوششین کر کے اٹھا ہی تھا۔کہ پلوہی دوڑتے ہوئے اس کے سینے سے آ ٹکرائی۔
          پلوشہ جو نہجانے کن جتنوں اور ہمتون سے خود اور مہرو کو ان درندون سے بچانے کیساتھ حوصلے سے سانسین لے رہی تھی اپنے رکھوالے کی باہون مین بے ہوش ہو گئی۔
          زریاب نے پلوشہ کو اٹھانے کیساتھ اگے بڑھتے آہستہ سے وہ دروازہ مکمل دھکیلا سامنے کا منظر دیکھ وہ شکرانے کے طور پر آنکھیں میچے وہین بیٹھ گیا۔
          پھر کچھ دیرزریا ب نےاپنا کوٹ اتار کر نیچے بیٹھا اور مہروکے چہرے پہ نظریں ٹکائے وہ اسے ہلکا اوپر اٹھا ئےکوٹ پہنانے لگا۔مہرو کی کنڈیشن زیادہ خراب تھی۔جبکہ پلوشہ کے بس ہاتھ زخمی تھے اور مہرو کے کپڑے پھٹنے کیساتھ سارا کاجل رخساروں پہ بکھر چکا تھا بال کھول چکے تھے ساتھ ہونٹوں سے خون بہہ رہا تھا۔
          پلوہی"۔۔۔۔مہرو ۔۔بھابھی۔۔آنکھیں کھولو ۔۔۔،، وہ اس کی سانسیں چیک کرنے لگا جو بڑی مدھم تھی۔
          "وہ کمینہ کہاں ہے۔۔۔،،یکدم ابرار کاخیال آتے ہی وہ مہرو اور پلوشہ کو ادھر ہی زمین پہ لیٹا ئےباہر نکلا۔
          اس گھر میں چار کمرے تھے وہ سارے ہی زریاب کھول چکا تھا اب آخری کے سامنے کھڑا قسمت کی اس عجیب ستم ظریفی پرہنس رہا تھا ۔حالانکہ کچھ ڈیر پہلے والے دردوتکلیف سے دل پھٹ رہا تھا ۔زریاب نے جب سامنے دیکھاتھا تو وہان۔
          "نہیں۔۔۔وہ پھر سے چیخنے ہنسنے لگا تھا۔
          سامنے سلوٹ زدہ بیڈپر بہت ہی عجیب کنڈیشن مین ۔۔شمس خان۔حشمت اور زبیر لالہ کے درمیان سے نظر آتےشہر بانو اور ابرار خان کے مردہ وجود زریاب کامنہ چڑھا رہےتھے۔
          کمرے کی حالت شہر بانو کی بربادی کی گواہ دے رہی تھی اور ساتھ ابرار کی روح بھی اس دنیا فانی مین کہیں نہیں تھی۔
          زریاب کے ہاتھ سے ریوالور زمین بوس ہو گیا اور وہ سہراب لالہ اور پلوشہ اور مہرو پر بیتے گئے حالات پر اپناسر تھام کر وہین گر گیا ۔
          _________
          ۔_______________
          پلوشہ:کتنے سال گزرے گئے ناں زریاب خان۔۔!!
          وہ اس وقت جھیل کنارے ایک ہی پتھر پر ایک ساتھ بیٹھے تھے۔۔۔پلوہی نے زریاب کے بازو سے اپنا بازو گزار کر سر اسکے کندھے پر رکھا ہوا تھا جبکہ زریاب اپنی گود میں دھرا اس کا ہاتھ تھامے تھرڈ فنگر میں پہنی رنگ کو آگے لگاتار پیچھے کر رہا تھا
          پلوشہ کی بات پر اس نے مسکرا کر "ہوں" کہا
          خان آپ کو یاد ہے نا ہماری پہلی وہ ملاقات جو یہان پر ہوئی تھی۔۔۔
          ہان ہان کیون نہین ایک ایک جزیئات کے ساتھ یاد ہے۔
          اتنے زیادہ سال گزر چکے ہیں میں سوچتی ہوں تو مجھے اب حیرت سی ہوتی ہے۔۔۔۔وہ کچھ بےیقینی سے بولی۔
          ارے اس پر تمہین اب حیرت کیوں۔۔۔۔؟؟زریاب نے ابرو اچکائے۔
          یہی کہ میں نے اتنے سال آپ کو کیسے برداشت کر لیا۔۔
          پھر زریاب کی تیز گھوری پر وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔۔۔
          اوف یہ کہو کہ میں نے کیسے تم جیسی موٹی بیوی کیساتھ گزارا کر لیا اسکے باوجود کہ مجھے موٹی لڑکیاں پسند نہیں۔۔زریاب نے بھی پورا بدلہ اتارا۔
          اب اتنی بھی موٹی نہیں ہوں۔۔۔۔پلوہی برا مان کر بولی۔
          نہین موٹی تو تم ہو ۔۔۔وہ اسے چڑا کر مسکرایا ۔
          اچھا خان بس مذاق چھوڑیں یہ بتائیں نا اب ہم کب جا رہے ہیں کاغان۔۔۔۔؟؟
          ارے بچوں کے ایگزامز تو ختم ہو لینے دو نا۔میری بے صبری محبوبہ۔۔۔زر۔یاب نے شرارت سے اسکی ناک کھینچی۔
          بچوں کے ایگزامز نیکسٹ ویک ختم ہو رہے ہیں۔۔۔۔کل بھابھی کا بھی فون آیا تھا کہہ رہی تھی پروگرام فائنل کر کے بتا دو تاکہ شمس اپنا شیڈول سیٹ کر کے وقت نکال سکیں۔
          ہاں تو کہہ دو بچوں کے لاسٹ پیپر والے دن تک ریڈی رہیں پھر نکل پڑیں گے۔۔
          ہوں۔۔۔۔پلوہی نے اثبات میں سر ہلایا
          چھ سالہ حنین پلوشہ کو پکارتی ہوئی سامنے سے بھاگتی آ رہی تھی جبکہ حنان بیٹ پکڑے اسکے پیچھے بھاگ رہاتھا
          وہ بھاگ کر پلوہی کی گود میں منہ چھپا گئی۔۔
          ماما "باسی نان" مجھے مار رہا ہے۔۔۔
          اسکی بات پر پلوہی اور زریاب دونوں نے اپنی مسکراہٹ دبائی۔۔
          ماما یہ مجھے پھر سے باسی نان کہہ رہی ہے۔۔۔حنان پاس آ کر خفگی سے بولا۔
          حنین کو سب ہنی کہتے تھے جبکہ حنان کا نک نیم بھی یہی بنتا تھا مگر اسے سب حنان ہی کہتے جس پر وہ اکثر چڑتا کیونکہ اسے لگتا تھا ہنی لفظ حنین کی بجائے اس پر زیادہ جچتا ہے اور محترمہ حنین صاحبہ اسی بات پر اسے باسی نان کہہ کر مزید ٹارچڑ کرتی تھیں۔۔
          ہنی بیٹا مت تنگ کیا کرو بھائی کو۔۔۔۔پلوشہ نے حنان کو قریب کرتے ہوئے حنین سے کہا۔۔۔
          جو اب زریب کی گود میں چڑھ کر اسکا سیل پکڑے کینڈی کرش کھیلنے میں مگن تھی۔
          یہ ہے ہی باسی نان جیسا۔۔۔گال دیکھیں کیسے پھولے ہوئے ہیں یوں جیسے نان پھٹنے والا ہو۔۔۔
          حنین۔۔۔ن۔۔۔ن۔۔۔پلوشہ نے تنبیہہ کی
          جب کے زریاب نے سزا کے طور پر سیل لے کر اسکی پہنچ سے دور کر دیا۔۔
          بابا۔۔۔بابا پلیز۔۔۔پلیز سیل دیں مجھے گیم کھلینی ہے۔۔۔وہ بےقراری سے بولی۔
          پہلے حنان کو سوری بولو۔۔۔۔
          زریاب کی بات پر حنان کا بجھا چہرہ کھل اٹھا۔۔۔حنین میڈم سوری کریں گی مجھ سے وہ گردن اکڑا کر کھڑا ہوا۔
          پلوشہ مسکراہٹ روکے اسکے ایکسپریشنز دیکھ رہی تھی۔۔
          حنین نے برا سا منہ بنا کر حنان سے سوری کرنے کی بجائے سوری پھینکا کھٹاک سے عین منہ پر۔۔۔
          اٹس اوکے۔۔۔۔حنان نے بھی لٹھ مار انداز میں احسان کر کے سوری قبول کی۔
          چلو بھئی تم دونوں کی صلح ہو چکی ہے اب اٹھو گھر چلتے ہیں بی بی جان انتظار کر رہی ہوں گی۔۔۔
          زریاب نے حنین کو گود سے اتار کر کھڑا کیا اور خود بھی کھڑا ہوا
          بابا کچھ دیر اور رکتے ہیں ناں۔۔۔۔حنین نے للچاتی نظروں سے زریاب کو سیل پاکٹ میں رکھتے دیکھ کر کہا۔
          نہیں۔۔ابھی چلو پھر آئیں گے سویٹ ہارٹ۔۔۔وہ مسکرا کر اسکی پونی کھینچتا بازو پکڑ کر چل پڑا۔۔
          پلوہی نے حنان کی جیکٹ کی زپ بند کر کے کیپ اسکے سر پر دی اور چادر درست کرتی اٹھ کھڑی ہوئی۔۔
          یہ محتصر سا آئیڈل قافلہ ایک دوسرے کیساتھ ہنستا ،مسکراتا، اٹھکلیاں کرتا گھر واپس جا رہا تھا۔۔۔
          یہ آفریدی حویلی کے ہال کا منظر ہے جہاں سے ابھی بابا جان اور دلاور خان نکل کر مردانے کی طرف گئے تھے جہاں قبیلے سے آئے کچھ مرد مہمان ان کا انتظار کر رہے تھے۔۔
          ________________
          اور ہال کے اندر موجود تخت پر بی بی جان اور خدیجہ بیگم بیٹھیں آہستہ آواز میں گھٹنوں اور جوڑوں کے درد پر اپنا تبادلہ خیال کر رہیں تھیں۔۔۔
          جبکہ ان سے کچھ فاصلے پر کارپٹ پر چوکڑی مارے چودہ سالہ حدید، سات سالہ حمزہ اور چھ سالہ حنان بیٹھے مسٹر بین دیکھ رہے تھے۔۔۔۔تھوڑی تھوڑی دیر بعد مسٹر بین کی حرکتوں پر وہ ہنستے ہوئے ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر محظوظ بھی ہو رہے تھے۔۔۔۔
          اب اگر ان سے تھوڑا آگے دائیں جانب دیکھا جائے تو وہاں چھ سالہ حنین اور نو سالہ دعا بیٹھیں ٹیچر ٹیچر کھیل رہی تھیں۔۔۔
          حنین ٹیچر بنی ہوئی تھی جبکہ دعا اس سے بڑی ہو کر بھی ابھی اس کی اسٹوڈینٹ ہی تھی۔۔۔
          حدید کا حنین کو پٹاخہ کہنا کچھ غلط بھی نہ تھا وہ واقعی اس خاندان میں ایک پٹاخہ ہی تھی۔۔۔حالانکہ حنین اور حنان دونوں ٹوئنز تھے مگر دونوں ایک دوسرے کے الٹ تھے حنین جتنی کلیور اور منہ پھٹ تھی حنان اتنا ہی سیدھا اور شریف تھا مگر حنین سے پوری ٹکر لیتا تھا وہ شریف ہو کر بھی۔۔۔
          اب یہ تو ہو گئی بچوں کی کہانی اب آگے بڑھتے ہیں بچوں کے اماؤں ، اباؤں کی طرف۔۔۔۔
          بی بی جان اور خدیجہ جس تخت پر بیٹھیں تھیں اس تخت کے بلکل سامنے صوفوں پر زریاب اور شمس لیب ٹاپ اور فائلز کھولے بزنس کے معاملات ڈسکس کر رہے تھے۔۔
          زریاب نے پلوشہ کے کہنے پر الیکشن سے ڈراپ آوٹ کر دیا تھا اور پھر کچھ عرصے بعد بابا جان کے کہنے پر شمس کیساتھ مل کر لیدر کا بزنس شروع کر دیا تھا اور اب وہ دونوں شافے انڈسٹریز سے ہوئے کنٹریکٹ کو ہی ڈسکس کر رہے تھے شاید۔۔
          ان کے قریبی سنگل صوفوں میں سے ایک پر مہرو بیٹھی تھی ٹانگیں اوپر کیے گود میں البم رکھے۔۔۔حالیہ کاغان ٹریپ پر لی گئی تصویریں دیکھ رہی تھی۔۔
          ساتھ ساتھ پاس پڑے باؤل سے پاپ کارن بھی اٹھا کر منہ میں رکھ لیتی۔۔
          ماما میں یہ لے جاؤں۔۔۔۔حمزہ (شمس اور مہرو کا بیٹا) نے پاپ کارن کے باؤل کی طرف اشارہ کیا۔
          ہاں میری جان لے جاؤ۔۔۔۔مہرو مسکرا کر بولی
          حمزہ باؤل اٹھا کر واپس حدید اور حنان کیطرف بھاگ گیا۔
          مہرو مسکرا کر ایک نظر بچوں پر ڈالتی پھر سے البم الٹ پلٹ کرتی غور سے تصویریں دیکھنے لگی۔۔۔
          پلوہی نے ہال کے داخلی دروازے میں کھڑے ہو کر یہ منظر اپنی مسکراتی نظروں سے دیکھا۔۔
          وقت کیساتھ کتنا کچھ بدل گیا تھا۔۔
          پلوشہ اور زریاب دو عدد ٹوئنز بچوں کے ماں باپ بن چکے تھے۔۔
          حدید اور دعا کے بعد شمس اور مہرو کو اللہ نے حمزہ سے نوازا تھا۔۔
          بڑے بزرگ سب ان کے سروں پر سلامت تھے جو کہ اللہ تعالی کا ایک بہت بڑا احسان تھا ان پر اور سب سے بڑھ کر زریاب اور شمس کی صلح اور دوستی تھی۔۔
          پلوہی نے مسکراتے ہوئے زریاب کی طرف دیکھا جو شمس کی بات سنتا کان پکڑے ہوئے تھا اور شمس شاید اسے کسی بات پر کھری کھری سنا رہا تھا۔۔
          اسے بی بی جان کی کہی برسوں پرانی بات یاد آئی۔۔
          "وقت کیساتھ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا پلوشہ"بیٹا۔۔
          اور ان کی بات کے جواب میں پلوہی نے کہا تھا۔۔۔۔
          "نہ اب تک کچھ ٹھیک ہوا ہے اور نہ ہی کبھی ٹھیک ہو گا بی بی جان"۔
          مگروقت نے واقعی بہت کچھ ٹھیک کر دیا تھا۔۔۔
          اس نے ایک لمبی سی پرسکون سانس لے کر رب کائنات کی بابرکت ذات کا ڈھیروں ڈھیر شکر ادا کیا اور ہلکی پھلکی ہو کر چائے کی ٹرے لیے آگے بڑھی گئی جہاں اسکے اپنے اسکے ہاتھوں کی بنی چائے کا انتظار کر رہے تھے۔۔۔
          پلوشہ کی بنی چائے کو اب چائے کہا جا سکتا تھا کیونکہ اب وہ واقعی چائے ہی بناتی تھی نہ کہ جوشاندہ۔۔!
          ضروری نہیں کہ ہر ونی ہو کر آنے والی ہیر کیساتھ ایسا ہی ہو جسے زریاب آفریدی جیسا چاہنے والا شریک سفر ملا۔۔۔۔۔یا پھر ہر بیوہ ہونے والی مہرو کیساتھ کہ جسکے اپنوں نے اسے وہ خوشیاں لوٹائیں جن پر اس کا حق تھا۔۔۔
          ہمارے ہاں اکثر بہن بیٹیاں اپنے باپ بھائیوں کی خاطر خون بہا اور دیگر ایسے ہی افعال میں ونی کر دی جاتیں ہیں اور پھر انہیں بے زبان جانور سمجھ کر جو سلوک کیا جاتا ہے وہ کسی گناہ سے کم نہیں۔۔۔۔
          گالم گلوچ، مارپیٹ حتی کہ اکثر اوقات جسم کے کسی حصے کو کاٹ کر اس کو سزا اور اذیت دی جاتی ہے جو اس سارے قصے میں بے قصور ہوتی ہے۔۔
          اور بیوہ عورت کو بیوگی کی چادر اوڑھا کر سائیڈ پر کر دیا جاتا ہے کہ اس کا خوشیوں پر کوئی حق نہیں یا پھر اگر وہ شادی کر لیتی ہے تو اس پر تحقیر آمیز جمعلات پھینکے جاتے ہیں۔۔۔
          کیا ایک مرد کو جنم دینے والی عورت کیساتھ ہمین یہ سلوک زیب دیتا ہے۔؟
          کیا ایک عورت اتنی ارازاں ہے کہ اسے ان ظالمانہ اور جاہلانہ رسومات کی بلی چڑھا دیا جائے
          کیا وہ انسان نہیں۔۔۔۔کیا وہ پتھر کی بنی مورت ہے جو جذبات اور احساسات سے مبرا ہو۔۔۔۔کیا وہ اس لیے پیدا کی گئی ہے کہ اپنے ہی جنم دئیے مرد کی محکوم بن جائے۔
          نہیں۔۔۔عورت محکوم نہیں۔۔۔۔نہ ہی اتنی ارازاں کے چند لوگوں کے ہجوم کی بنی پنچائیتوں اور جرگوں میں بیٹھا کر کسی کے بھی حوالے کر دی جائے۔
          اتنے خوبصورت رشتے بنتے ہیں اس عورت کیساتھ جو اپنے سگوں کی عزت اور شان و شوکت کی خاطر ایسی فرسودہ اور ظالمانہ رسومات پر قربان کر دی جاتی ہے۔۔۔
          عورتون کے دلون سے سسکتی ہوئی آواز۔۔
          "جب ہوس گھائل کرے مجھ کو نظر کے تیر سے۔۔۔
          اس گھڑی کرتی ہوں شکوہ کاتب تقدیر سے۔۔۔۔
          ہائے مجھ عورت کی قسمت کیا بتاؤں کیا کہوں۔۔۔؟
          کاٹتا ہے میری شہہ رگ باپ بھی شمشیر سے۔۔۔
          غیر چن دیتے ہیں مجھ کو جیتے جی دیوار میں۔۔۔
          ساتھ اپنےغیرت میں جکڑتے ہیں مجھے زنجیر سے۔۔۔۔
          سارے رشتے مجھ کو عبرت ناک دیتے ہیں سزا۔۔۔۔
          مانگتا ہے مال و زر شوہر بھی مجھ دلگیر سے۔۔۔۔
          اور جب تیزاب سے جھلسا دیا جائے مجھے۔۔
          ہر کسی کو خوف آتا ہے میری تصویر سے۔۔۔
          عمر بھر خدمت کروں پر پھر بھی ہو جاتی ہوں میں۔۔۔۔
          گھر سےباہرصرف تین لفظوں کی فقط تحریر سے۔۔۔۔
          اے ساقی مردوں سے میرا ہے فقط اک یہ سوال۔۔۔!
          کب میں دنیا میں جئیوں گی عزت و توقیر سے۔
          اختتام۔​​​​​
          Vist My Thread View My Posts
          you will never a disappointed

          Comment


          • #45
            بہت خوب اختتام کیا ہے ساقی بھائی

            Comment


            • #46
              Aakhir Qafas Ki Chirya qafas se azad ho hi gai,
              Is se acha ikhtitam ho hi nahi sakta tha,
              Saqi ji ap ki bohat bohat nawazish,
              K ap ne Ramzan mai kahani ki kami na hone di.

              Comment


              • #47
                Originally posted by insght View Post
                Aakhir Qafas Ki Chirya qafas se azad ho hi gai,
                Is se acha ikhtitam ho hi nahi sakta tha,
                Saqi ji ap ki bohat bohat nawazish,
                K ap ne Ramzan mai kahani ki kami na hone di.
                ویلکم اینڈنوازش دوست۔اور آپ دوستون اور ساتھیون کا بھی شکریہ۔
                جنہون نے لایک کمنٹس کے ساتھ بھرپور حوصلہ افزائی کی۔
                اور کرتے ہی جارہے ہین۔
                Vist My Thread View My Posts
                you will never a disappointed

                Comment


                • #48
                  Wah.
                  alfaz nahi bayan karnay kay liye.. kaya zabardast complete novel likha hai..
                  By chance hi nazar padi aur open kiya aur jab tak khatam nahi huwa band nahinkiya...

                  Buhat buhat shukriya janab likhnay aur share karnay k liye..

                  Buhat hi aala..

                  Maza agAya.. lajawab..
                  kaya kahnay

                  Comment


                  • #49
                    بہت ہی دلچسپ اور دل کو موہ لینے والی اسٹوری تھی صنم ساقی تم جادوگر ہو صاف ستھری بغیر سیکس کے لکھو یا پر فل مصالحہ دار تم کی کیا ہی بات ہے بھائی بہت شکریہ اور نیک تمنائیں تمہارے لیئے

                    Comment


                    • #50
                      Originally posted by alone_leo82 View Post
                      Wah.
                      alfaz nahi bayan karnay kay liye.. kaya zabardast complete novel likha hai..
                      By chance hi nazar padi aur open kiya aur jab tak khatam nahi huwa band nahinkiya...

                      Buhat buhat shukriya janab likhnay aur share karnay k liye..

                      Buhat hi aala..

                      Maza agAya.. lajawab..
                      kaya kahnay
                      بہت شکریہ۔دوست۔بس یہ تو سبھی دوستون اور ساتھیون کی محبت خلوص پیار اور تعاون ہے ۔کہ ہم سب مل کر اپنے فارم کے دلکش ماحول کو مزید خوبصورت اور شہرت کے لیےکوشاں ہین۔
                      Vist My Thread View My Posts
                      you will never a disappointed

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X