Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

حسرتیں تمام تر

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • Life Story حسرتیں تمام تر

    دلہن رخصت ہو کر بخیر و خوبی کار تک رسائی حاصل کر چکی تھی۔ دولہا کی بہنوں، بھانجوں، بھتیجوں اور بھابھیوں کے جمگھٹے میں کار کی سیٹ پر بفضل خدا سالم سلامت بیٹھنے میں کامیابی پائی اور کلمہ شکر ادا کیا۔ اب تقریبا سبھی خواتین کی کوشش تھی کہ دلہن کے ساتھ بیٹھ کر خود کو قریب ترین اقربا میں درج کرایا جا سکے۔ بڑی کوشش اور ہزار جتن سے رضوانہ باجی اور راحمہ بھا بھی بھیڑ کو عبور کر کے کار کے دروازے تک پہنچ چکی تھیں۔ اب کار کا ڈور تھامے کھڑی تھیں بلکہ اندر گھنے کی کسر رہ گئی تھی۔ اپنے دوستوں سے الوداعی مصافحے کے بعد حسن (دولہا میاں کار تک پہنچے تو جم غفیر دیکھ کر دور کھڑے حسرت و یاس بھری نظروں سے بھی سنوری کار کو ملاحظہ کرنے لگے۔ حسن ! آؤ! اندر بیٹھ جاؤ۔ راحمہ بھابھی نے رضوانہ باجی کی سمت اشارہ کر کے ارشاد فرمایا مطلب انہیں ہٹا کر بیٹھ جایا جائے۔ وہ اپنی جگہ سے ایک انچ نہ ہلنے والی ۔ شور ہنگامے میں حسن کی سماعتوں تک آواز تو نہ پہنچ پائی مگر وہ ان کی بات سمجھ چکا تھا۔ آپ دونوں بیٹھ جائیں ۔ میں فرحان کی بائیک پر چلا جاؤں گا۔ حسن نے ہاتھ کے اشارے سے انہیں زحمت دینے سے روکا (جس کے لیے وہ پہلے سے تیار نہ تھیں) دونوں کے دلوں کو ڈھارس پہنچی اور مطمئین و شاداں بظاہر بے نیاز بنی ہزاروں چلتے دلوں کو نظر انداز کیے دلہن کے ساتھ تشریف فرما ہوئیں۔ گھر پہنچے تو ایک ہنگامہ منتظر تھا۔ رضیہ رقیہ، بانو، صفیہ، زاہدہ حنا ، کرن ، رفعت سلطانہ اور دیگر تمام خواتین کے چہرے تھو بڑوں میں بدل چکے تھے۔ منہ کے زاویے اتنے خراب تھے کہ دلہن کے پاس جانا تک گوارا نہ کیا گیا۔ راحمہ اور رضوانہ نے اسے مجلہ عروسی تک پہنچایا۔ دولہا میاں حسن خواتین خانہ کا خراب موڈ دیکھ کر سرعت سے آگے بڑھے اور صفائیاں دے کر منانے لگے۔ کیونکہ اپنی شادی کے روز کسی قسم کی بدمزگی کے قائل نہ تھے۔ ” مجھے تو خود کار میں جگہ نہ ملی۔ ڈرائیور کے ساتھ تو بہر صورت رضا بھائی ( بڑے بہنوئی) نے بیٹھنا تھا۔ جیسے بھابھی اور باجی دلہن کے پاس بیٹھ گئیں تو مجبوراً مجھے فرحان کی بائیک پر گھر آنا پڑا۔” اس کی دکھ بھری روداد سن کر کچھ چہروں کا تناؤ کم ہوا۔ اختر بیگم جو گھر پر ہی موجود تھیں ( شادی والے گھر کو تالا نہیں لگاتے نابس تبھی) محواستراحت تھیں ورنہ کسی نہ کسی کے لئے لینے کا جواز ڈھونڈ نکالیں، لہذا محفل جلد ( صرف دو گھنٹے کی برائیوں کے بعد ) برخاست ہو گئی اور حسن میاں راحمہ بھابھی کی ہدایت پا کر جل سے اپنے کمرے کی جانب بہ صحت رحمہ بھابھی بھی سونے کے لیے اپنے کمرے میں چلی گئیں۔ قدم من من بھاری ہو رہے تھے گویا پہلی چوری یا واردات کرنے نکلے ہوں۔ خوف الگ جان کھائے جا رہا تھا کہ اگر عقب سے کسی نے آواز دے کر روک لیا اور کسی بات پر اعتراض جڑ دیا تو کیا جواب دیں گے پہلے ہی پسینہ پسینہ تھے۔ بالآخر تمام تر ہمت جمع کر کے جو نہی ناب گھمائی اور اندر قدم دھرا ہی تھا کہ کہ وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ کا کے ! یہ انداز مخاطب اختر بیگم کے سوا بھلا کس کا ہو سکتا تھا ؟ ” لاشعوری طور پر کمرے کا دروازہ سرعت سے بند کر کے پیچھے مڑ کر دیکھا مبادا بچپن کا مشہور زمانہ نام نئی نویلی دلہن کی سماعت تک نہ پہنچ جائے۔ عقب میں والدہ ماجدہ کو ایستاده پایا۔ سب تو گھوڑے گدھے بیچ کر سو گئے ۔ جدھر جگہ نظر آئی۔ منہ اٹھا کرچڑ گئے۔ بوڑھی ماں کا کسی کو ذرا جو خیال آیا ہو ۔ کھانا کھایا یا نہ کھایا ؟ مرگئی یا جی گئی ؟ آخری فقرہ ماں جی کا تکیہ کلام تھا لہذا حسن کے چہرے پر کوئی جذباتیت پیدا نہ ہو سکی۔ میں نے دیکھا تھا ۔ آپ سورہی تھیں۔“ بمشکل حرف زبان سے ادا ہوئے۔ ” آہوجی ، اب تو یہی کہنا ہے ۔ اس کی بات کا ذرا یقین نہ کیا گیا۔ ” بریانی گرم کر کے دو مجھے بھوک کی وجہ سے ڈھنگ سے نیند بھی نہ آئی ۔” وہ حکم صادر کرتی واپس پلٹ گئیں۔ چارونا چاردہ کچن تک آیا اور بچا ہوا کھانا جو شادی ہال سے گھر منتقل کیا گیا تھا۔ نکال کر گرم کرنے لگا۔ اختر بیگم کا شمار گھر کی واحد بزرگ خاتون اور سربراہ میں ہوتا تھا اور ان کی حکم عدولی کو جرم کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ۔ ہر امر کے لیے ان کی منشاء لازم و لزوم تصور کی جاتی تھی۔ جس جسے اپنی عزت پیاری تھی وہ انہیں ناراض کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ انہیں سب کو سب کچھ کہنے کا اختیار حاصل تھا۔ اس نے انہیں کھانا پیش کر دیا تو وہ ناقدانہ نظروں سے اس کا جائزہ لینے لگیں۔ اہے ہے۔ حلیہ تو دیکھو ذرا۔ شیروانی پر کتنی سلوٹیں پڑ گئیں۔ یونہی منہ اٹھا کر دلہن کے پاس چل دیے ۔ ماں جی نے ناک لبوں پر چڑھائی ۔ ایسا کرو پہلے جا کر نہا لو۔ پھر کمرے میں چلے جانا۔ تمہارے سینے کی بو مجھے یہاں تک سونگھائی دے رہی ہے۔” جس قدر فعال اختر بیگم کی ناک تھی ، اتنی ہی تیز خاندان بھر میں مشہور اس کے پینے کی بوتھی۔ ” مجھے نیند آ رہی ہے۔ ماں جی ! میں بس سوؤں گا ۔ جی کڑا کر کے بے حد ہمت سے کام لے کر جمائی لی گئی۔ رک ذرا۔ یہ برتن چین میں رکھ کر چلے جانا ہیں۔ آدھا کھانا تو وہ کھا چکی تھیں۔ تھوڑا باقی تھی۔ وہ ضبط اور صبر کی بلندیوں کو چھوتا بیٹھا رہا۔ یہ الگ بات تھی کہ اختر بیگم کے بدستور جاری سوالوں میں وہ ذرا سا کھانا بھی آدھے گھنٹے میں ختم ہوا۔ بہر کیف وہ برتن اٹھا کر کچن کی جانب بڑھ گیا۔ ناب گھما کر سرعت سے اندر داخل ہوا تو بڑی مشکل سے سمیٹی ہوئی گرمجوشی اور اعتماد مایوسی میں سرایت کر گیا۔ دلہن عروسی لباس میں ملبوس بھی سنوری فیک لگائے خواب خرگوش کے مزے لے رہی تھی۔ کچھ دیر وہ وہیں خالی الدینی کی کیفیت میں کھڑا رہا۔ پھر واش روم میں گھس گیا۔ صبح ہوئی تو بھانت بھانت کی بولیوں سے گھر گونج رہا تھا۔ ناشتہ ولیے کی تیاری اور بارات میں ہونے والی نا پسندیدگیاں زیر گفتگو تھیں۔ کسی نہ کسی بات پر نکتہ اعتراض اٹھا کر جلے دل کے پھپھولے پھوڑے جارہے تھے۔ آخر میں بان اس جملے پر ٹوٹی۔ ہماری تو کوئی اہمیت ہی نہیں ہے۔ آخر کار اختر بیگم کوپ چڑھ گئی۔ بول پڑیں۔ چار ہفتوں سے تم اپنے گھر بار چھوڑ کر آ بیٹھی ہو۔ اپنی مرضی سے کھانے پکانے رہنے سہنے کے باوجود نخرے ہیں کہ اپنی جگہ موجود ، اب اتنے شہر میں بھائی کیا تم لوگوں کو گود میں اٹھا کر پھرے؟“ اس عزت افزائی پر بیٹیوں بہوؤں کبھی کے منہ فٹے منہ بن گئے جبکہ راحمیہ بھابھی کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ بیج کر امر ہو گئی۔ ظاہری بات ہے کہ وہ اس پھٹکا ر ہے مستی تھیں ۔ اماں ! تم بھی ہماری طرف داری بھی کر لیا کرو۔ یہ بھی تو دیکھو کہ دن چڑھ گیا۔ سورج پوری آب و تاب سے جگمگا اٹھا تمہارے دولہا صاحب زادے ابھی تک نئی نویلی دلہن کے پہلو سے لگے بیٹھے ہیں۔” تیسرے نمبر کی زاہدہ نے اہم ترین پہلو اجاگر کیا۔ اختر بیگم اٹھ کھڑی ہوئیں۔ صبح اس کی آنکھ کھلی تو حسن کو مزے سے شب خوابی کے لباس میں لیٹے خراٹے لیتے پایا۔ اس کا دل چاہا گلاس بھر کر پانی اس سے پر انڈیل دے۔ اپنی اس خواہش کا گلا گھونٹتے ہوئے اٹھا تلخ کے انداز میں جیولری اور چوڑیاں اتار کر ڈریسنگ ٹیبل پر رکھیں اور کپڑے پینج کرنے کے لیے واش روم کا رخ کیا۔ حسن کی آنکھ کھلی تو اسے یوں اپنے انتظار میں بیٹھا یا کر کھل اٹھا۔ یہ آپ کا منہ دکھائی کا تحفہ اور اصل رات آپ سوگئیں تو مجھے آپ کو ڈسٹرب کرنا اچھا نہ لگا۔ وہ دھیمے لجے میں گویا ہوا۔ اس کی انکساری دیکھ کر وہ مہربہ لب خوب صورت جیولری سیٹ تھام گئی۔ دفعتا دھڑ دھڑ کی آواز سے دروازہ چنا گیا۔ حسن نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا تو اختر بیگم پورے طمطراق سے انداز داخل ہو گئیں۔ وے تم دونوں میں شرم نام کی کوئی چیز ہے کہ نہیں۔ دن چڑھ گیا مگر بے شرموں کی طرح دروازہ بند کیے پڑے ہو۔ چلو باہر نکل کر بیٹھو۔ اشارے سے بیرونی راہ دکھائی۔ اس عزت افزائی پر دونوں ہی زمین میں گڑ کہ رہ گئے۔ سبھی سمٹی ارم باہر نکلی تو تمام مردوں اور دیگر خواتین کے چہروں پر طمانیت و سرشاری ( دوسرے معنوں میں کمپنی سی خوشی ) کو دوڑتے پایا۔ سیکی کے احساس نے دل میں ڈیرے ڈالے وہ چار پائی پر ٹک گئی۔ سب اپنی باتوں میں ایسے من رہے ( ہم ایک ہیں) جیسے اسے دیکھا ہی نہیں ہو۔ اسے اپنی بے عزتی محسوس ہوئی تو کچھ دیر بعد اٹھ کر اپنے کمرے میں آگئی۔ تمہاری بیگم نے تو ہم سے سیدھے منہ کوئی بات ہی نہ کیا ۔ کچھ دیربعد وہ بہنوں کے نرغے میں تھا۔ اختر بیگم نے پہلے ہی دماغ ٹھکانے لگا رکھا تھا۔ رہی سہی کسر یہاں پوری ہوگئی۔ شرم و حیا بھی کوئی شے ہوتی ہے۔ پہلے دن بھلا کیا بولے گی وہ ؟ حسن سٹپٹا کر بولا۔ شومئی قسمت کہ دفعتنا اختر بیگم سامنے ہے آموجود ہو ئیں۔ فورا ہاتھ نچا کر بولیں۔ بیگم کی بڑی طرف داری کرتی آرہی ہے۔ ساس نندوں کی یہی عزت کرانا کہ مہارانی کے آگے پیچھے پھریں۔ خبردار جو آئندہ اس کی حمایت کی تو … اختر بیگم نے بیٹے کو وارنگ دی۔ جن کی زبان کے آگے خندق تھی۔ لحاظ وادب اور احترام مانع تھے۔ وہ ایک حرف بھی ادا نہ کر سکا۔ دستر خوان لگ چکا تھا۔ اختر بیگم نے بچہ بھیج کر ارم کو بلوایا اور جب تک وہ کمرے سے آئی۔ وہاں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ حسن نے ہراساں ہی کھڑی بیوی پر نگاہ دوڑائی۔ اس کی نظریں بھانپ کر اختر بیگم نے اسے دوسری طرف علیحدہ سے بچوں کے لیے لگے دستر خوان پر بٹھا دیا۔ چار و ناچار اسے وہاں بیٹھ کر کھانا کھانا پڑا۔ کھانے کے بعد وہ کمرے میں چلی گئی۔ کچھ دیر بعد حسن آیا تو اس کا خراب موڈ دیکھ کر سمجھانے لگا۔ فرحان بھائی اور رضوان بھائی شادی کے فوراً بعد الگ ہو گئے تھے ماں جی اسی تناظر میں ہمیں دیکھ رہی ہیں ۔ ارم ! مجھے اپنے اور تمہارے ساتھ تھوڑی بہت زیادتی ہونا منظور ہے مگر میں نہیں چاہوں گا کہ میری مگر ماں، بہنوں، بھتیجوں اور بھابھی کا دل کسی بات پر ٹوٹے۔ تم بھی اس بات کا خاص خیال رکھنا۔ سبحان بھائی نے دیار غیر میں بیاہ رچا کر بیوی اور بچوں پر ظلم ڈھایا ہے۔ مانا کہ ماں جی کی طبیعت اور مزاج ذرا سخت ہے مگر بھا بھی انہی کے ساتھ کئی سالوں سے گزارا کر رہی ہیں۔ آج لوگ بھا بھی کی مثالیں دیتے ہیں۔ اماں خود ان کی گردیدہ ہیں۔ وہ مہر بہ لب اثبات میں سر ہلا کر رہ گئی۔ اے یہ کیا منہ اٹھا کر سیدھے کمرے میں چل دیے۔ یہ طور طریقے یہاں نہیں چلتے اور دکھاؤ ذرا یہ کیا ہے؟ جوں ہی حسن کمرے کی جانب بڑھا۔ اختر اس کی تقلید میں کمرے میں داخل ہوئیں۔ ارم کے ہاتھ سے شاپر جھپٹ لیا۔ ہائے چوڑیاں ! ماں کے لیے لانا تو یاد نہ آئیں۔ پیدا کر کے پال پوس کر اتنا وڈا کر دیا مگر ماں کی قدر نہ آئی۔ جمعہ جمعہ آٹھ دنوں میں زنانی نے خدا جانے کیا جادو کر دیا کہ اس کے لیے تحفے تحائف سب حاضر ہو گئے وہ جلے دل کے پھپھولے پھوڑنے لگیں ۔ چھوڑو اماں ! تم کیوں اپنا دل جلاتی ہو۔ ہوتی ہیں کچھ عورتیں شوہر کو اپنا غلام بنانے والی ۔ افسوس! یہ ہتھکنڈے مجھے اب تک نہ آئے ۔“ جیٹھانی آنکھیں مٹکا کر طنزیہ انداز میں بولتی ساس کا ہاتھ پکڑ کر باہر کی جانب بڑھیں۔ مگر اختر بیگم کی شعلہ بیانیاں جاری تھیں۔ یہ بے غیرتیاں میرے گھر میں نہیں چلتیں۔ میری کم عمر، نادان پوتیاں ہیں۔ گھر کا ماحول بگڑا تو دونوں کو بازو سے پکڑ کر باہر نکال دوں گی ۔ شرمندگی سے وہ دونوں زمین میں گڑے جارہے تھے اور حسن نے آئندہ بیوی کے لیے کچھ لانے سے توبہ کرلی۔ راحمہ اماں کو پانی پلا کر اپنے کمرے میں آئی تو بڑی صاحبزادی کو اوندھا لیٹے کوئی واہیات ویڈیو دیکھتے پایا۔ کمبخت جب سے وائی فائی لگوایا تھا۔ دونوں لڑکیاں موبائل سے چپکی رہتی تھیں۔ راحمہ نے بھی زیادہ روک ٹوک نہ کی کہ بھلا یہی تو بچیوں کے موج مستی کے دن ہوتے ہیں۔ تفریح کی آڑ میں کیا چیزیں ملاحظہ کی جارہی ہیں۔ اس بات کو درخوراعتنا نہ جانا گیا۔ اٹھ کر کمرے کی جھاڑو نکال لو بیٹی ! ابھی چچی صحن سے لگا ئیں گی تو کمرے کا کچرا بھی ساتھ ہی سمٹ جائے گا۔“ راحمہ کی ہدایت پر پاؤں جھلاتی ربیعہ نے برا سا منہ بنایا۔ ” آپ چچی کو بول دیں کہ ہمارے کمرے سے بھی جھاڑو نکال لیں ۔ مفت مشورہ حاضر تھا۔ تمہاری چچی کے منہ کون لگے ؟ جسے خود خیال نہ ہو۔ اسے کہنے کا کیا فائدہ ہو نہ راحمہ نے ناک چڑھائی۔ کیوں؟ آپ کے ہاتھ کا پکا کھانا بھی تو کھا لیتی ہیں تو پھر کمرے سے جھاڑو کیوں نہیں نکال سکتیں؟ آپ سب کے لیے کھانا بناتی ہیں تو انہیں بھی چاہیے کہ سیب کمروں کی صفائی کریں ۔ “ربیعہ سخت بے مزہ ہو کر گویا ہوئی ۔۔ بات کسی حد تک راحمہ کی عقل میں سما چکی تھی۔ باہر ایک دیورانی پر حکم صاد کر دیا۔ دبو قسم کی ارم کو چاروناچار ان کے کمرے کی صفائی کرنی پڑی۔ وہ جیٹھانی کی بات سے انکار کر کے کوئی نئی بد مزگی پیدا نہیں کرنا چاہتی تھی۔ راحمہ کی مستحکم حیثیت سے وہ بخوبی واقف ہو چکی تھی۔ حسن ناشتے سے فارغ ہو کر آفس جانے کے لیے تیار کھڑا تھا۔ اختر بیگم سے اجازت طلب کرنے کے بعد اس کی متلاشی نظریں ارم کی منتظر تھیں۔ وہ
    دکھائی نہ دی تو غیر ارادی طور پر اس کے قدم اپنے کمرے کی جانب اٹھ گئے۔ اختر بیگم نے پہلو بولا ۔ چند لمحوں بعد وہ کمرے سے نکلا اور اپنی مسکراہٹ۔ پر قابو پا تا خوش گوار تاثر لیے بیرونی جانب بڑھنے لگا کہ اختر بیگم کی آواز آئی۔ بےہدایتے بیگم کے ساتھ کیا راز و نیاز چل رہے تھے ؟ خبردار جو گھر کا ماحول بگاڑنے کی کوشش کی تو میری معصوم بچوں کے ذہن خراب ہوں یہ میں کسی طور پر برداشت نہ کروں گی۔ کان کھول کر سن لو۔ اعتراض جڑ کر بات کو طول دیا۔ انہیں دونوں پوتیوں کی تربیت کی بڑی فکر لاحق تھی تبھی نئے نویلے جوڑے پر کڑی نظر رکھتیں۔ حسن کے جانے کے بعد ارم نے جو بے بھاؤ سنیں وہ الگ تھا۔
    چاچو کے ساتھ کھانا ہمیشہ بھتیجیاں بیٹھ کر کھایا کرتی تھیں۔ ارم کو جبرا اختر بیگم کے ساتھ بیٹھنا پڑتا۔ اوائل روز میں کوشش کر کے (بقول راحمہ چلا کی ہے ) وہ سب سے پہلے حسن کے ساتھ براجمان ہوئی تو اختر بیگم نے بھسم کر دینے والے انداز میں گھوری ماری۔ اگلے روز حسن نے بزبان خود اسے گھرک کر ربیعہ اور اقرا کو اپنے پاس بٹھا لیا تو اختر بیگم اور راحمہ کے چہروں پر شادمانی دوڑ گئی۔ دل میں ٹھنڈی پڑ گئی۔ حسن نے اپنی موجودگی میں کئی روز بعد ان کے چہروں پر حسد کی جگہ طمانیت کی لہر پائی تھی لہذا ان کے مزاج کے بدلاؤ کا سرا ہا تھ آ گیا۔ جو نہی کسی بات پر اختر بیگم کا موڈ خراب ہوتا۔ وہ ارم کو کسی بات پر لتاڑ کے رکھ دیتا۔ وہ خفت زدہ آنسوؤں کو بمشکل آنکھوں میں جذب کرتی اور حسن ماں کے چہرے پر اطمینان پا کر گھر کی فضا پر سکون دیکھ کر سکھ کا سانس لیتا۔ اس نے ایک روز ہمت کر کے حسن کی اس کج ادائی پر استفسار کیا تو جوابا اس نے جواب دیا۔ مجھ پر پہلا حق میرے گھر والوں کا ہے۔ اگر میرے ساتھ رہنا تو مجھ سے پہلے انہیں قبول کرو ورنہ اپنا اور میرا رستہ الگ سمجھو ۔” بے حد روایتی انداز میں کہہ کر وہ کروٹ بدل گیا جبکہ وہ پوری رات بے آواز روتی رہی۔ افسانوی دنیا سے مرعوب خوابوں خیالوں میں شہزادے کی منتظر ارم پر حقیقت بڑی کربناک ثابت ہوئی تھی۔ آنے والے وقت میں وہ مزید اپنی ذات میں سمٹ کر رہ گئی۔ جیٹھ صاحب دیارِ غیر میں مقیم دوسری شادی رچا چکے تھے۔ مہینہ بھر بعد بھاری رقم گھر بھیج کر ہر ذمہ داری ہے گویا سبکدوش ہو جاتے۔ اختربیگم بڑی بہو کے آگے پیچھے پھر تیں کیونکہ پوتیوں میں ان کی جان تھی۔ راحمہ نے بھی ساس کی اس کمزوری سے آخری حد تک فائدہ اٹھایا تھا۔ شوہر کی غیر موجودگی میں اپنے قدم مضبوط کرنے کے لیے وہ ساس کی ہمنوا بن گئیں۔ دونوں یک جان دو قالب تھیں۔ ہر شے پر حد سےزیادہ استحقاق کی وجہ سے ہی دونوں دیورانیاں زیادہ عرصہ سسرال میں نہ رہ پائیں تھیں۔ حسن کے لیے اپنوں نے تلاش بسیار کے بعد یتیم مسکین ارم کا انتخاب کیا تھا اور اب گویا سانس لینا اس کے لیے محال تھا۔ اختر بیگم کی تینوں بیٹیاں رضوانہ، رضیہ اور زاہدہ اپنے گھر بار کی تھیں جبکہ رضوانہ سے چھوٹے دونوں بھائی الگ گھر میں سکونت اختیار کر چکے تھے۔ تعلقات مثالی نہ سہی مگر اتنے ناگوار بھی نہ تھے۔ منہ دیکھے کی مروت بخوبی نبھائی جاتی تھی۔ پیٹھ پیچھے برائیاں اور غیبتیں تو ساری دنیا کا وتیرہ ہے۔ جس کے بغیر رہنا کسی طور پر مکن نہیں۔ وہ کالج سے نکلی اور قدرے محتاط انداز میں چلتی سیدھی سڑک پر کنارے کنارے چلنے لگی یہ آج اقرا نے طبیعت کی خرابی کے باعث چھٹی کر لی تھی اور یہ موقع غنیمت نہیں بلکہ بے حد قیمتی تھا۔ اس نے ہاتھ میں پکڑے سیل فون پر نگاہ دوڑائی ۔ وہ طے کردہ وقت پر پہنچی تھی۔ اس کی غیر موجودگی کی وجہ سے اس کے چہرے پر ناگواری نے جگہ بنائی۔ سورج سوا نیزے پر موجود تھا اور دھوپ کی تمازت سے اس کی آنکھیں چندھیا گئی تھیں۔ اس نے ارد گرد دیکھا وفتا قریب ہی ٹائر چر چرائے وہ اچھل پڑی۔ عظیم ہے اختیار اس پڑا۔ غصے سے اسے گھورا اور اس کا اشارہ پا کر ایک ادا سے اچھل کر بائیک پرٹک گئی۔ عظیم کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔ اسی نے اپنا نازک ہاتھ ایس کے شانے پر رکھا اور پھر چٹکی کاٹی جو کہ چلنے کا اشارہ تھی۔ وہ بائیک دوڑا لے گیا۔ وہ بائیک سے نیچے اتری تو غصیلی نظروں سے گھورتے اختر بیگم کو بیرونی دروازے پر پایا۔ ان کی آنکھوں کی تپش آسانی اپنے وجود پرمحسوس کر سکتی تھی۔ بے حد آہستگی سے قدم اٹھاتی وہ چبوترے پر چڑھی۔ حسن بائیک لاک کرنے لگا اختر بیگم نے راستہ چھوڑا تو وہ اندر داخل ہو گئی۔ راحمہ بھا بھی چار پائی پر بیٹھی بظاہر بے نیاز سبزی کاٹنے میں مصروف تھیں۔ محض منہ میں کچھ بڑبڑا کر رہ گئیں۔ جو نہی حسن پانی پینے کے لیے بیٹھا اختر بیگم کی خاموشی کو زبان ملی ۔ ” تم نے اپنی مہارانی سے پوچھا نہیں کہ راحمہ اچھا بھلا لیڈی ڈاکٹر کے پاس لے جارہی تھی تو پھر اسے کیا پڑی تھی کہ تمہیں فون کر کے بلائے ؟ حسن نے پانی کا گلاس ختم کیا اور پھر ارم کو گھورا۔ کوئی تصور نہ ہونے کے باوجود وہ مجرموں کی طرح نگاہیں جھکا کر کٹہرے میں آموجود ہوئی۔ حالانکہ وہ تمام صورت حال ان پر واضح کر چکی تھی کہ وہ پیدل نہ جاسکے گی اس لیے حسن کوفون کر کے بلارہی ہے مگر اختر بیگم کے ہاتھ نصیحت کرنے کا سرا آچکا تھا۔ اب بھلا کس کی مجال تھی کہ آگے سے صفائی پیش کرے۔ وہ اس طرح کا کوئی موقع دینے کی ہرگز قائل نہ تھیں۔ حسن جلدی میں تھا۔ جاتے سمے بول پڑا۔ لہجہ بڑا کٹیلا تھا -” بھابھی کے ساتھ چلی جاتیں۔ خوامخواہ مجھے فون کر دیا۔ کام ادھورا چھوڑ کر آنا پڑا۔” ہم نے بھی بچے پیدا کیے ہیں۔ یہ انوکھی تھوڑی ہے۔ وہی ازلی نسلی، جدی پشتی جملہ ) تم بھی بیگم کے بلاوے پر مستعدی سے دوڑے چلے آئے۔ مہارانی پیدل چلنے سے انکاری! ارے بھئی ابا کے گھر بھی یہ ڈھکو لے چلتے تھے کیا ؟ یہ بہانے بازیاں ہمارے ہاں نہیں چلتیں۔ معصوم جوان پوتیاں ہیں میری ۔ کیا اب تم ہر ہفتے دو ہفتے بعد بھاری پیٹ ۔ شوہر کی پشت سے چپک کر لیڈی ڈاکٹر کے جایا کرو گی۔ ایسی بے غیرتیاں ہمارے ہاں رائج نہیں ہیں ۔ ” حسن جاچکا تھا۔ ارم کے وہ لتے لیے گئے کہ اس نے کان چھو لیے۔ کمرے میں جاکر روتی رہی حتی کہ اختر بیگم کو دروازہ دھڑ دھڑانا پڑا ۔ باہر آجاؤ۔ ابھی سے چھلے میں پڑ گئی کیا ؟“ چار و ناچار ا سے باہر آ کر کاموں میں حصہ لینا پڑا۔ ایسی صورت میں راحمہ کی دبی دبی ہنسی اس کا دل جلا کر راکھ کر رہی تھی۔ اختر بیگم کی معصوم، نادان، کم فہم اور منی سی پوتی سمندر کنارے اپنے بوائے فرینڈ کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے مستقبل کے حسین خواب دیکھنے میں گم تھی۔ زندگی بے حد حسین ہو چکی تھی اب تک وہ اس مادرائی دنیا کے صرف خواب دیکھ پائی تھی یہ امرت نوش کیا تو احساس ہوا کہ عشق کی چھایا تلے زیست کس قدر شاداں ہوا کرتی ہے۔ عظیم کی دلنشین گفتگو اور جادوئی لہجہ ا سے بے نیاز کر جاتا یکدم حیات سرخ گلاب بن گئی تھی۔ موقع پاتے ہی وہ دونوں ڈیٹ پر نکل جاتے اور مستقبل کی دلفریب با تیں اور لائحہ عمل طے کرتے۔ بے شمار خوش رنگ پھولوں کو دامن میں سجایا جاتا۔ اس کا پڑھائی میں ویسے بھی کم ہی دیدہ لگتا تھا۔ اب مزید لا پروا رہنے لگی۔ آنکھیں ہمہ وقت مردانہ وجاہت کے حامل عظیم کی سنگت کے خواب بننے کی عادی ہو چکی تھیں۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ سخت گیر قسم کا شوہر تھا مگر صورت حال کی پیش نظر خود پر مضبوط و آہنی خول چڑھا چکا تھا جس سے ٹکرا کر ہر بار ارم کے قلب کو پاش پاش ہونا پڑتا۔ پھر خود کو سمیٹنے اور جوڑنے میں بے حال ہو کر رہ جاتی ۔ کوئی داد رسی کرنے والا نہ تھا۔ قصور وار نہ ہونے کے باوجود گھریلو سیاسی سازشوں کا شکار ہو کر رہ جاتی۔ اس وقت بھی وہ گھر آیا تو وہ سو چکی تھی۔ حسب معمول راحمہ نے خوش دلی سے اسے کھانا پیش کیا۔ گھنٹہ بھر اختر بیگم کے پاس بیٹھ کر وہ کمرے میں آکر لیٹ گیا۔ جہاں بیڈ پر ارم دنیا و مافیہا سے بے خبر سورہی تھی۔ وہ لیٹ کر چھت لکھنے تکنے لگا۔ دماغ مختلف سوچوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔ ارم سے زیادتی کا خیال اکثر دل کے نہاں خانے میں کسک بن کر ابھر کر معدوم ہوتا تھا۔ احساس جرم اندر ہی اندر کچوکے لگا تار ہتا تھا۔ بعض اوقات ہمارے اپنے ہماری خوشیوں میں رکاوٹ بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اپنی حق تلفی کے احتمال سے خود زیادتی کے مرتکب بن جاتے ہیں۔ وہ سوچے گیا۔ ارم کی طرف داری کا مطلب تھا کہ حاسدین کے شر کو بڑھاوا دینا اور اس کی زندگی کو مزید امتحان سے دو چار کرنا ۔ یہ سوچ کر وہ اس کی جانب سے لا پروا ہوتا گیا۔ لاشعوری طور پر وہ آنے والے اچھے دنوں کا حساب کتاب کرنے لگا۔ ربیعہ اور اقرا کی شادی کے بعد یقینا وہ دونوں ایک مثالی طمانیت، پیارہ قرار سے حرین ازدواجی زندگی گزارنے کے لائق ہو سکتے تھے۔ عاصمہ کے اعتراضات تب تک بے دم ہو جائیں گے اور اماں تو ہوں گی ہی نہیں۔ وہ یکدم چونک کر سوچوں کے بھنور سے نکلا۔ امان اماں کہاں جائیں گی ؟ سوال نے لاشعوری طور پر وہ آنے والے اچھے دنوں کا حساب کتاب کرنے لگا۔ ربیعہ اور اقرا کی شادی کے بعد یقینا وہ دونوں ایک مثالی طمانیت، پیارہ قرار سے حرین ازدواجی زندگی گزارنے کے لائق ہو سکتے تھے۔ عاصمہ کے اعتراضات تب تک بے دم ہو جا ئیں گے اور اماں تو ہوں گی ہی نہیں۔ وہ یکدم چونک کر سوچوں کے بھنور سے نکالا۔ همان اماں کہاں جائیں گی ؟ سوال نے سر اٹھایا۔ وہ جھر جھری لے کر رہ گیا۔ بے ارادہ وہ کسی پیچ پر پہنچ گیا تھا۔ دوسروں کی زندگیوں پر مسلط ہو کر کبھی کبھی انسان کتنا بے وقعت ہو جاتا ہے۔ آج کل صاحبزادے کی مصروفیات بڑھ چکی تھیں ۔ میڈیکل اسٹور بند کرنے کے بعد تمام وقت موبائل واٹس ایپ اور فیس بک کی نذر ہو جاتا۔ جسے عابدہ نے شدت سے محسوس کرنے کے بعد ساس سے بھی تذکرہ کیا تھا۔ را شدہ بیگم کے از حد اصرار کے بعد آج وہ جاگ کر اس کی آمد کا انتظار کر رہی تھیں۔ رات کو بارہ بجے اسٹور بند کر کے ڈیڑھ گھنٹہ فون پر برباد کرنے کے بعد ڈیڑھ بجے عظیم آٹو میٹک لاک کھول کر گھر میں داخل ہوا تو عابدہ نے اسے آڑے ہاتھوں لیا۔ آدمی رات کو گھر میں آنے کا کون سا طریقہ ہے ؟ بارہ بجے تو کلینک بھی بند ہو جاتا ہے۔ پھر ڈیڑھ بجے اسٹور بند کرنے کی بھلا کیا تک ہے؟” ایک دوست آگیا تھا۔ باتیں کرتے کرتے وقت کا پتا ہی نہ چلا۔ ” جواز گھڑا جونورا سے پیشتر مسترد ہوا ۔ ہاں ، ہاں سہیلیوں کی طرح باتوں میں لگ کر وقت گزرنے کا احسا میں نہ ہوا۔ ماں ہوں تمہاری۔ سارے رنگ جانتی اور چھتی ہوں۔“ چاہنے کے باوجود لہجے کو سخت بنانے سے نہ روک پائیں ۔ وہ سر جھکا گیا۔ ذرا توقف کے بعد احساس ہو نے قدرے نرمی سے گویا ہوئیں۔ رسم کی چیزیں دکھائی تھیں تمہیں۔ فریش ہو کر کھانا کھا لو تو لے کر آتی ہوں۔” ریم؟ اس نے استفہامیہ نظروں سے ماں کو دیکھا۔ ہاں بھئی! اس اتوار کو ہم لوگ تمہارے ماموں کے گھر جارہے ہیں۔ رسم بھی تو کرتی ہے۔ ہمارے خیال سے اب خاندان بھر میں تمہارے اور عروج کے رشتے کا سب کو معلوم ہو جانا چاہے بھی چیدہ چیدہ رشتہ داروں کو لے کر بھائی صاحب کے گھر جا کر مروج کے ہاتھ پر پیسے رکھ کر آئیں گے اور انگلی میں انگوٹھی بھی ڈالوں کی انشاء اللہ ” عابدہ مدھم لہجے میں روانی سے کہتے بھول ہی گئیں کہ ابھی ایک منٹ پہلے بیٹے پر تخت پر ہم تھیں ۔ عظیم صورت حال کی تعبیر آنگاہی کے بعد سخت کبیدہ خاطر ہوا۔ هما پلیز ، بچپن کی اس زبانی کلامی بات کو آپ اتنا بڑھاوا نہ دیں۔ میں کسی اور کو پسند کرتا ہوں اور عروج سے شادی نہیں کر سکتا ۔ بیٹے سے اتنی دیدہ دلیری کی توقع نہ تھی۔ عابدہ کے شک پر یقین کی مہر لگ گئی۔ روایتی بین عمود آیا۔۔ خبردار جوکسی امرتی غیری چھل پیری کو میری بھیجی پر فوقیت دی تو ۔ اس گھر میں عروج کے علاوہ کوئی لڑکی بہو بن کر نہیں آئے گی ۔ عابدہ نے قطعیت سے کہا جبکہ عظیم خاموش رہا۔ ریلیکس ماما کھانا تو دے دیجیے۔ ماحول کا تناؤ دور کرنے کے لیے وہ خوشامدانہ انانے میں بولتا اٹھ کھڑا ہوا۔ عابدہ نے بھی بچن کی راہ لی۔ حسن کو بیٹی کی پیدائش کی اطلاع ملی تو احساس تشکر سے آنکھیں نم ہو گئیں۔ دل رب کے حضور سجدہ ریز ہو گیا۔ اس نے میسج پڑھ کر بھا بھی کو کال ملائی۔ مبارک ہو۔ ابا بن گئے ہو۔“ بھا بھی نے لیجے کو خوشگوار بنایا۔ خیر مبارک ! ارم کیسی ہے؟” وہ بے اختیار کو چھ بیٹھا۔ لیجے سے فکر مندی مترقع تھی۔ راحمہ کے دل میں نو کیلا کا نچ سا چھا۔ ٹھیک ہے۔ تم خوانخواہ پریشان نہ ہو ۔ لاکھ نا چاہنے کے باجود لہجے میں طنز کی آمیزش ہوئی۔ میں پہنچتا ہوں۔ خدا حافظ ۔ اس نے رابطہ منقطع کر دیا۔ راشدہ بیگم نے بہو کی دکھ بھری کھائی تو پر سوچ انداز میں سر ہلانے لگیں۔ جوان جہاں اولاد سے یوں زور زبردستی سے کام نہیں نکلوایا جاتا۔ آئندہ گریز کرنا۔ سرشی اور بغاوت کا امکان ہوتا ہے۔ بہو کو سرزنش کرنا ضروری گردانا۔ خود سوچیں اماں ! رشتہ ختم ہونے سے میرا تو میکے سے ناتا ہی بند ہو جائے گا۔ برسوں کی محبت اور ریاضت خاک میں مل جائے گی۔ عابدہ کے چہرے پر نظر کی لکریں بڑی واضح تھیں۔ ہوا تم فکر مند نہ ہو۔ بہتری کی سبیل نکل آئے گی۔ ان شاء اللہ ! نجانے کیسے بے فکرے والدین ہوتے ہیں۔ جولڑکیوں کو یوں بے مہار چھوڑ کر رکھتے ہیں کہ اپنے ، برخود تلاش کرتی پھر وی۔ ان کی بلا سے پرائے بیٹوں کے دماغ ، خراب کرتی پھریں۔ اللہ جانے ! اماؤں کی تربیت اور بیٹیوں کی حیا کہاں جا چھپی ۔ راشدہ بیگم نے کف افسوس ملی ۔ دونوں ساس بہو میں کمال کی ذہنی ہم آہنگی تھی۔ انکی بات سے بھی عابدہ صد فیصد متفق تھی۔ را شدہ بیگم نے ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچا اور لائحہ عمل طے کر کے عابدہ کو سختی سے اس معاملے سے پہلو تہی برتنے کی ہدایت جاری کی۔ راشدہ بیگم کی فہم و فراست سے بخوبی واقف ہونے کی وجہ سے ایک حد تک مطمئن ہو کر عابدہ نے چپ سادھ لی۔
    یہ تو تم نے بڑا اچھا کیا کہ آنٹی کو حقیقت سے آگاہ کر دیا ۔ عظیم نے گزشتہ رات کا احوال اس کے گوش گزار کیا تو ربیعہ چنکی۔ وہ طویل ہنکارا بھر کر رہ گیا۔ ” ابھی مزید ایکشن لینا پڑا کا ڈارلنگ ! ظاہر ہے۔ اتنی آسانی سے آنٹی اپنی ضد سے پیچھے نہیں نہیں کی اور وہ تمہاری نام نہاد معیشتر اسے ضرور تمہاری زندگی میں شامل کرنے کی کوشش کریں گی ۔ وہ بڑے ناصحانہ انداز میں بول رہی تھی۔ مگر تم صرف میرے ہو۔” بڑے بے باک انداز میں فلمی ڈائیلاگ کی طرح بولی تو عظیم کا دل جھوم جھوم گیا۔ اپنی عزت ہر کسی کو عزیز ہوتی ہے۔ ارم عرصہ ہوا مل جل کر بیٹھنا اور گھلنا ملنا بھول چکی تھی۔ وجہ اختر بیگم کا بلا وجہ لعنت ملامت اور مطعون کرنا تھا (اپنے تئیں اپنا رعب قائم رکھنا ) کچن میں مکمل طور پر راحمہ کی اجارہ داری تھی۔ اس وجہ سے بھی دو یا ہر کے اپنے کام نمٹا کر کمرے میں ہی رہنا پسند کرتی تھی۔ راجمع اسے کوشش کی آخری حد تک ڈی گریڈ کر کے بڑے طمطراق اور استحقاق سے اس کی کی ہوئی صفائی اور دیگر چھوٹے موٹے امور میں مین میخ نکالتی پھرتی ۔ اس روز حسن گھر میں داخل ہوا تو حسب معمول اختر بیگم اپنے تخت پر موجود بال بال کر تسبیح کے دانے گرانے میں منہمک تھیں۔ وہ سلام کر کے کمرے کی سمت بڑھا۔ زرادیر اماں کے پاس بھی بیٹھ جایا کرو۔“ اختر بیگم نے پاٹ دار آواز میں پیچھے سے ہانک لگائی۔ ارے اماں ! روز ہی تو بیٹھتا ہوں۔ آپ بھی حد کرتی ہیں۔ نا گوار انداز میں جواب سن کر اختر بیگم کی سر پر لگی اور تلوؤں پر بھی۔ ارے اماں ! روز ہی تو بیٹھتا ہوں۔ آپ بھی حد کرتی ہیں ۔ نا گوار انداز میں جواب سن کر اختر بیگم کی سر پر لگی اور تلوؤں پر بھی۔ اللہ جانے ! اندر ہی اندر کیا گھول کر پلا دیتی ہیں بیویاں وہ سر جھٹک کر آگے بڑھ گیا۔ کمرے میں داخل ہو کر وہ منفی رواحہ کو گود میں اٹھا کر ارم کو تیار ہونے کا کہنے لگا۔ نہ میں اماں سے پوچھ آتی ہوں۔ وہ برامان جائیں گی ۔ “ارم باہر کی جانب بڑھنے لگی۔ اس کی ضرورت نہیں ہے۔ اس نے اس کا ہاتھ تھام کر پھینچ کر اپنے قریب کر لیا۔ وہ اس کے سینے سے آلگی۔ اس اچانک افتاد پر ہکا بکارہ گئی۔ ” تمہارے لیے صرف میں اور میری بات کافی ہونی چاہیے۔“ وہ اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتا ایسے دلنشین انداز میں بولا کہ ارم کو خواب کا سا گمان گزرا ۔ دلفریب مسکان نے اس کا لبوں کا احاطہ کیا۔ بعض اوقات ہم اپنا تسلط اجارہ داری ملکیت اور حاکمیت قائم کرنے کے چکر میں اپنا موجودہ مقام بھی کھو دیتے ہیں۔ جو شے مسلط ہوتی ہے اپنی قدرو منزلت کھو دیتی ہے۔ ساس کے حد درجہ سمجھانے اور تسلی و دلاسوں کے باوجود تنہائی میں عابدہ کی آنکھیں نم ہو گئی تھیں۔ جوانی میں ہوگی کی چادر اوڑھ کر ساری عمر نوکری کر کے بیٹے کو پروان چڑھایا تھا۔ ایک عمر تیاگ کر کچھ خوابوں کے دیب آنکھوں میں جلائے بیٹھی تھیں کہ وہ نیا شوشا چھوڑ کر ماں کو بے دل کر چکا تھا۔ سیرال میں بوڑھی ساس کے علاوہ دور پار کے رشتہ دار تھے اور میکے میں بہن بھائیوں سے قابل ذکر میل جول تھا۔ وہ رشتے ہی اثاثہ تھے جو عزت بھری نگاہ سے دیکھتے تھے۔ ان عزیزوں رشتوں کی بے رخی سہنے کی متحمل نہ تھیں بھی افسردہ اور ہیجان زدہ تھیں ۔ باہر دادی اور پوتے میں کچھ راز و نیاز چل رہے تھے۔ دھیمی آوایں کمرے تک رسائی پارہی تھیں مگر الفاظ واضح طور پر سنائی نہ دے سکتے تھے۔ وہ منہ سر لپیٹ کر لیٹی رہیں- یہ کیا ہے؟ حسن نے فائل بھا بھی کی جانب بڑھائی تو انہیں اچنبھا ہوا۔ ویزا اور کاغذات مختصر مگر جامع جواب حاضر تھا۔ راحمد استفہامیہ نظروں سے دیکھے گئی۔ اختر بیگم کا دل بھی ہولا سا گیا۔ کمبخت بڑے تینوں کی طرح شادی کے بعد یہ لڑکا بھی بدلنے لگا تھا۔ اکثر تیور دکھا جاتا۔ اللہ کی بار ہو ان موئی کمینی ہویوں پر نجانے کیسے مٹھی میں کر لیتی ہیں؟ اختر بیگم سوچ کر رہ لیں۔ بھائی صاحب کافی عرصہ سے اصرار کر رہے تھے۔ میں ہی ٹال رہا تھا۔ کہنے لگے بھائی ہو۔ ذرا سا کام نہیں کر سکتے۔ مجبوراً مجھے آپکے اور ربیعہ اقرا کا پاسپورٹ بنوانا پڑا۔ سامان وغیرہ پیک کر لیں۔ جس سے ملتا ہے آرام سے مل لیں۔ دو ہفتے بعد روانگی ہے۔ وہ بتا کر رکا نہیں اور راحمہ کی تو یہ حالت تھی کہ کا ٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ ابھی کل ہی تو بڑی نند کے سامنے خیال آرائی کی تھی کہ حسن بچی کی پیدائش کے بعد اپنے رنگ ڈھنگ دکھانے لگا ہے۔ سوچ رہی ہوں گھر اپنے نام کرالوں۔ آنے والے وقت کا کیا بھروسا کہ کون کیا کر گزرے؟ رضوانہ نے بھی متفق ہو کر اثبات میں سر ہلا دیا کہ بھابھی سے بگاڑنے کی سوچ بھی محال تھی۔ بھلا شیر کی کچھار میں ہاتھ کون ڈالے؟ اختر بیگم کے سامنے راحمد رونے کو ہو گئی۔ پردیس میں سوکن کے ساتھ میں نہ رہ پاؤں گی ۔ امان ! رہنا تو پڑے گا شکر کرو کہ اسے تمہارا خیال آگیا۔ دیر آید درست آیدا اختر بیگم نے کلمہ شکر ادا کرنے کے سے انداز میں کہا۔ راحمیہ روہانسی ہوئی۔ ” ہمارے جانے کا آپ کو کوئی دکھ نہیں ہے۔ اماں ! لوجی کر لوگل ! اب کیا میں اپنے دکھ کی خاطر تمہارا گھر خراب کروں۔ میری تو فکرات ختم ہوئیں۔ بیٹیوں کو بیاہ دیا ۔ تم تو پھر بہو ہو۔ کبھی اپنے گھروں میں خوش باش جھلی لگتی ہیں۔ چاہے بہو ہو ، چاہے بیٹی ! اختر بیگم نے رکھائی سے جواب دیا۔ پر ایا ملک سونے پہ سہا کہ پرائی عورت کی زیر، دوسرے درجے میں رہنا افف ! ” راحمہ نے سوچ کر جھر جھری لی۔ اختر بیگم تو ہاتھ جھاڑ کر برطرف ہو چکی تھیں۔ مزے سے پان کی گلوری بنا کر منہ میں رکھ لی۔ دوسروں کو تیسرے درجے کا شہری بنانے والے جب خود دوسرے درجے” کا شکار ہوتے ہیں تو ر احمد کی طرح دم بخودرہ جاتے ہیں۔ کچھ بجھائی نہیں دیتا۔ ساس کی ہدایت سن کر عابدہ تحیر کے ساگر میں ڈوب کر ابھری تم سے یہ امید نہ تھی اماں ! اس چھل پیری کے گھر جانے کی بات کر رہی ہو۔” لیجے میں افسوس نمایاں تھا۔ ” کتنے ارمان سے رسم کا جوڑا خرید کر لائی تھی۔ بھابھی سے بھی زبان کر چکی ہوں۔ ساری بات جاننے کے باوجود آپ رشتہ لے جانے کی حامی بھر چکیں۔ اس لڑکے کی چکنی چپڑی باتوں میں آگئیں ۔ عابدہ صدمے کی سی کیفیت میں بولیں۔ و تم میرے ساتھ چلو تو سہی ۔ بڑی بی اپنے کہے پر قائم تھیں ۔ ایک ایچ پیچھے نہ نہیں ۔ چہرے پر کمال اطمینان چھایا تھا۔ دھیمی آواز میں بہو کے کان کے قریب منہ کر کے جانے کیا کہا کہ عابدہ کے چہرے سے بھی ملال جاتا رہا۔
    را حمہ اداس تھی ۔ اور آنے والے وقت کا سوچ کر کسی حد تک خوفزدہ بھی ۔ آج تو ارم کی آمد سے قبل کچن میں کھڑے ہو کر ناشتہ بھی نہ بنا سکی۔ دودھ کی بالٹی بھی آدمی جنگ میں انڈیل کر کمرے میں رکھنا بھی بھول گئی۔ رات حسن جو سیب لایا تھا۔ وہ بھی باہر فریح میں رکھے اپنی خوش بختی پر پھولے نہ سمارہے تھے۔ خیر سے اختر بیگم بھی پر ملال تھیں بھی چپ چاپ لیٹی تھیں۔ ارم حسن کا ناشتہ لینے کے لیے کمرے سے نکلی تو خلاف معمول میدان صاف دیکھ کر تیر زده رہ گئی۔ بہر کیف ڈرتے ڈرتے فریج سے آٹا نکال کر لائی اور لاشعوری طور پر منتظر ہی رہی کہ آخر کب جیٹھانی آکر اسے پیچھے ہٹائے اور چولہے پر قبضہ جمائے۔ مگر را حمہ کو تو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا۔ کمرے سے نکلی ہی نہیں۔ ارم بہو! میرا بھی ناشتہ بنا دینا اختر بیگم نے بستر سے ہانک لگائی۔ لہجہ خاصا نرم تھا۔ ارم اس انداز تخاطب اور ناشتے کی استدعا پر بے ہوش ہوتے ہوتے بچی۔ ربیعہ بستر میں دیکھی یہ جھوٹ موٹ کی سوتی دل ہی دل میں اس نئی افتاد پر غور و خوض کر رہی تھی ۔ عظیم سے جدائی کا احساس خود پر طاری کرنے کے لیے کوشاں تھی مگر ذہن بھٹکا جارہا تھا۔ ان تمام باتوں سے ہٹ کر اپنی خوشی چھپائے اقراء اپنی دوستوں سے ملنے کے لیے نکلنے کی تیاریوں میں مصروف تھی۔ دو درجن دوستوں کو آخر دو ہفتوں میں نمٹانا بھی تو تھا۔ وقت بیحد علیل تھا۔عظیم نے یہی گلی بتائی تھی ۔ عابدہ اور راشدہ نے اس بچی تھی میں قدم رکھا تو راشدہ بیگم سراج ماریل سے بنا گھر لمحوں میں پہچان لیں۔ دستک دی تو کیم تیم خاتون نے دروازہ کھولا۔ آنکھیں چندھیا کر بغور دونوں خواتین کا جائزہ لیا گیا۔ پھر اندر آنے کا راستہ چھوڑ دیا۔ وری را شدہ تو اختر بیگم راشدہ بیگم سے بغلگیر اس طرح ہوئیں کہ دہلی پہلی سی راشدہ کو مانو قابو میں کر لیا ہو۔ وہ بھی شاداں و فرحان اختر بیگم کی مضبوط بانہوں میں سمائیں۔ عابدہ ساس کو نہال و پر مست خاتون سے چھی پائے دیکھ رہی تھیں۔ (ان کا ارادہ وہان جا کر ہلا بولنے کا تھا مگر یہاں تو صورت حال ہی نرالی تھی ) دونوں پرانی پڑوسیں تھیں۔ اختر بیگم نے اپنا گھر خریدا تو یہیں شفٹ ہو گئیں۔ راشدہ بیگم نے بھی شروع میں میل جول رکھا مگر جونہی بیٹے کی شادی کی تو بہو کے ساتھ مصروف ہو کر رہ گئیں۔ کچھ اختر بیگم کسی وجہ سے عابدہ کی شادی میں شامل نہ ہو پائی تھیں۔ لہذا دونوں کا ملنا جلنا ختم ہو گیا۔ اختر بیگم نے دونوں کو اپنے تخت پر ہی بٹھا لیا تھا۔ اپ پرانی یادیں تازہ ہونے لگیں اور گزرے قصے گوش گزار ہونے لگے جس مقصد کے تحت آئے تھے۔ وہ درمیان میں ہی رہ گیا۔ عابدہ کے شہر کے اور اشارے بھی راشدہ بیگم کو حال میں واپس نہ لا پائے۔ ارم نے ہی ان کے سامنے دسترخوان لگا کر وہیں تخت پر ناشتا پیش کیا۔ راحمہ نے رسمی سے انداز میں آکر دعا سلام کی۔ آپ نے تو کوئی بات ہی نہ کی ۔ واپسی میں عابده سخت کبیدہ خاطر تھیں۔ دروازے سے باہر نکلتے ہی شکوہ کیا۔ تو اتنی باتیں کی تو ہیں۔“ ساسو ماں نے بڑے اطمینان سے جواب دیا۔ ہنوز چہرے سے شادمانی پھوٹ پڑ رہی تھی۔ اس بارے میں کچھ نہیں کہا۔ عابدہ نے اس پر زور دیا۔ ہاں تو ہم کیوں پرائی بچی پر انگلی اٹھا ئیں۔ اپنے بچے کو قابو میں رھیں تو بات بنے ۔ راشدہ بیم پرانی سہیلی سے مل کر ہلکی پھلکی ہو گئی تھیں ناک سے گویا بھی اڑائی۔ عابدہ ساس کا دوہرا رویہ دیکھ دل مسوس اب کیا ہوگا ؟‘ دانت کچکچائے۔ مسئلہ جوں کا توں اپنی جگہ موجود تھا۔۔ بے فکر رہو۔ فونوں کی دوستیاں اور محبتیں زیادہ دیر پا ثابت نہیں ہوئیں۔ جتنی تیزی سے پروان چڑھتی ہیں۔ اتنی ہی جلدی زمین بوس ہو جاتی ہیں۔ دیکھ لینا اپنے ناہنجار کو بھی ۔ خود ہی سدھر جائے گا۔ ساس کے یقین بھرے انداز پر عابدہ کچھ بول نہ پائیں۔ رات کو عظیم آیا تو عابدہ سو چکی تھیں ۔ راشدہ بیگم کو جاگتا پا کر نہال ہوگیا۔ بڑے خوشگوار انداز میں کھانا کھایا۔ لڑکی دیکھی؟ کیسی لگی؟ اشتیاق بھرے لہجے میں پوچھا۔ ربیعہ سے فون پر ذکر نہ کیا تھا کیونکہ اسے سرپرائز دینا مقصود تھا ( آج وہ صرف لڑکی دیکھنے کا کہہ کر گئی تھیں) ہم ! ماشاء اللہ ! لڑکی تو چندے آفتاب چندے ماہتاب ہے۔ اپنے ماموں زاد کے ساتھ گھومنے نکلی ہوئی تھی۔ ہمارے سامنے ہی واپس بھی امہار انہوں نے ہی لوٹی۔ راشدہ بیگم نے اطمینان سے کہا۔ ہیں دادی! عظیم اچھل پڑا۔ ہاں بیٹا! میں تو تمہیں بتانا ہی بھول گئی۔ تمہاری ہونے والی دادی ساس میری پرانی سہیلی نکلی۔ مل کر مزا آ گیا۔ میں تو عابدہ سے کہہ رہی تھی ۔ اگلی بار عظیم کو ضرور ساتھ لے کر جائیں گے ۔ اب تو سمجھو گھر کا معاملہ ہے۔ راشدہ بیگم کمال بے نیازی سے کہتی کن اکھیوں سے پوتے کے چہرے کے بدلتے رنگ ملاحظہ کر رہی تھیں۔ چھوڑیں دادی؟! وہ …. ماما کہہ رہی تھیں کہ کوئی رسم کا سامان و امان. وہ ماموں کے گھر جانے کے لیے کھانے سے ہاتھ بیچ گیا۔ اچھا وہ جیسا تم کہو بیٹا! جیسے تم خوش ! دادی نے بظاہر سرسری انداز میں کہا۔ جبکہ دل میں لڈو پھوٹ رہے تھے۔ یہ تھی دور جدید کی راشدہ بیگم کے بقول فونوں والی محبت کا اعتماد و اعتبار۔ پورا ایک دن وہ بستر پر پڑی خود پر دو ہفتے بعد آنے والی جدائی طاری کرنے کی کوشش کرتی رہی مگر ذہن بھٹک بھٹک کر کمینی اقراء کی جانب جا رہا تھا جو اسے تکلفاً پوچھ کر مزے سے ٹور پر نکلی ہوئی تھی۔ کافی دیر سوچ بچار کے بعد دل اس نقطہ پر مرکوز ہوا کہ محبت اور جدائی اپنی جگہ مگر سیر و سیاحت اور تفریح کی اہمیت سے بھی انکار ممکن نہیں ۔ موتی فیس بک پر کون سا لوگوں کی کمی ہے) اس خیال نے بھی دل میں سر اٹھایا۔ سچ ہے کہ جیسے مرنے والے کے ساتھ دفن نہیں ہوا جا سکتا بالکل اسی طرح جدائی کے احساس کو زندگی پر غلبہ نہیں دیا جا سکتا ۔“ اس نے بڑے ناصحانہ انداز میں سوچ کر بستر چھوڑ اور فریش ہونے چل دی۔ اب آنے والے وقت میں جہاز کے سفر کا خیال۔ دوبئی کی مست ہوائیں ، باپ کی طرف سے ملنے والی آسائشات اور ماڈرن اسٹیپ مما کا خیال ذہن و قلب کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔(ختم شد)

  • #2

    دلچسپ اور بہت ہی زبردست کہانی ۔​

    Comment

    Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

    Working...
    X