Welcome!

اُردو دنیا کا نمبر ون اردو اسٹوری فورم آج ہی اس کے ممبر بنیں اور بہترین کہانیوں سے لطف اندوز ہوں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

دانشمندی.بھائی چارہ

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • Life Story دانشمندی.بھائی چارہ

    دانش مندی بھائی چارہ۔
    کسی دانش ور کا قول ہے کہ ”سچی محبت کی بنیاداحترام پر قائم ہوتی ہے۔“احترام کے بغیرمحبت، محبت نہیں ۔
    بلکہ تجارت بن جاتی ہے۔رشتہ خواہ کسی بھی نوعیت کا ہو اُسے قائم ودائم رکھنے کے لیے اعتماد انتہائی ضروری ہے۔اعتماد کے بغیررشتے کبھی بھی نہیں پنپ سکتے۔رشتوں کی بقا کے لیے اعتمادو احترام بنیادی شرائط ہیں۔جب کبھی اعتماد اُٹھ جاتا ہے تو مضبوط سے مضبوط رشتہ بھی کچی ڈور کے مانندایک پل میں ٹوٹ جاتا ہے۔پھر اُس ٹوٹی ڈورمیں چاہے کتنی ہی گرہیں کیوں نہ لگادی جائیں وہ ڈور پہلے جیسی مضبوط اور پائیدار نہیں بن سکتی۔جس طرح شیشے میں آیابال نہیں نکالاجا سکتا،بالکل اُسی طرح کھویاہوا اعتماد بحال کرنا بھی ممکن نہیں ہے۔بنتے بگڑتے رشتوں کی پل پل رنگ بدلتی داستان.۔
    رنگ بدلتےمعاشرے کی سچی کہانی(بس نام اور مقام تبدیل شدہ ہین)۔
    جب رشتوں کوحرص وہوس کی دیمک چاٹ جائے تو پھر ایسی ہی خوف ناک کہانیاں جنم لیتی ہیں۔
    اسلام آبادکے انٹرنیشنل ایئرپورٹ پرچیکنگ کے مراحل سے گزرتاہواوہ پارکنگ ایریا کی طرف بڑھ گیا۔اُس کے کندھے سے ایک درمیانے سائز کا سفری بیگ لٹک رہاتھا۔اس بیگ کے علاوہ وہ کچھ بھی اپنے ساتھ نہیں لایا تھا۔
    اپنے پیاروں کے لیے خریدے گئے بے شمار قیمتی تحائف وہ لندن کے ایک فلیٹ میں چھوڑ کرآگیا تھا۔اُن تحائف کو ساتھ لانے کی اب ضرورت ہی نہیں رہی تھی۔جب تحفہ لینے والے ہی اس دنیامیں نہیں رہے تھے تو وہ بے کارمیں یہ زحمت کیوں کرتا؟
    وہ بوجھل قدموں سے پارکنگ ایریے کی طرف بڑھ رہاتھا۔اُس کے چہرے پرسنجیدگی اور دُکھ کی ملی جلی کیفیت طاری تھی۔آنکھیں یوں متورم نظرآرہی تھیں جیسے وہ بہت دیر تک روتا رہا ہو۔وہ ایک خوب رو اور قدآورنوجوان تھا۔سُرخ وسفیدچہرے پرگھنی مونچھیں اُس کی مردانہ وجاہت میں اضافہ کررہی تھیں۔مگر اُس وقت اُس کی حالت نہایت ہی ابتر تھی۔لباس مسلاہوا، سر کے بال اُلجھے ہوئے اورشیو بڑھی ہوئی تھی۔اردگردکے ماحول سے لاتعلق سا ہوکرجونہی وہ پارکنگ ایریا میں داخل ہوا۔ایک نوجوان بھاگتا ہوا آیااور والہانہ اندازمیں اُس سے لپٹ گیا۔
    ”عاصم میرے دوست میرے بھائی!یہ یہ کیاہوگیا ہےکاش۔
    کاش ایسا نہ ہوا ہوتایہ سب میراقصور ہے۔میں اگر غفلت کا مظاہرہ نہ کرتاتو شایدیہ جگرپاش سانحہ واقع نہ ہوا ہوتامیں اپنے آپ کوکبھی معاف نہیں کروں گا۔کبھی معاف نہیں کروں گا۔دراصل میں ہی اُن سب کا قاتل ہوں۔“ نوجوان کی آوازشدتِ غم سے لرز رہی تھی۔
    ” نہیں سلیم نہیں۔“وہ رنجیدہ آوازمیں بولا۔” اس میں تمہارا بھلاکیا قصور ہے؟ یہ سب تو تقدیر کا کیادھرا ہے۔تم اگراُس وقت اُن کے ساتھ ہوتے بھی تو کیا کرلیتے؟“
    وہ بولا۔” اُن کے ساتھ مرتو سکتاتھا۔تم مجھے اپنے گھرکی حفاظت سونپ کرگئے تھے۔میں نے کوتاہی کی ہے۔“
    ” تقدیر سے کوئی نہیں لڑسکتامیرے دوست!یہ سب فضول کی باتیں ہیں۔اب چلو میں یہاں تماشابننا نہیں چاہتا۔بہت سے لوگ ہمیں دیکھ رہے ہیں۔“
    ” اوکے۔“سلیم نے جیب سے رومال نکال کراپنی پلکیں صاف کیں۔”تم ادھرہی ٹھہرومیں گاڑی نکال کرلاتا ہوں۔“
    وہ اثبات میں سرہلاکررہ گیاجب کہ سلیم اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔چند لمحوں کے بعد وہ گاڑی نکال کر لے آیا۔عاصم کے سامنے گاڑی روکنے کے بعداُس نے فرنٹ سیٹ کی کھڑکی کھول دی۔عاصم نے کندھے سے بیگ اُتارکراُسے گاڑی کی عقبی سیٹ پرپھینکااور خود سلیم کے ساتھ فرنٹ سیٹ پربیٹھ گیا۔سلیم نے گیئر لگاتے ہوئے گاڑی آگے بڑھادی۔کھلی شاہراہ پر پہنچتے ہی سلیم نے سوال کیا۔” کیا تم خالی ہاتھ آئے ہویاپھرباقی سامان“ بعد مین۔۔
    ” بس یہی بیگ ہے اور کچھ بھی نہیں لایا۔“ اُس نے سپاٹ آوازمیں قطع کلامی کی۔
    ” کیوں؟“ سلیم نے اُلجھ کرپوچھا۔
    ” کس کے لیے لاتا اور کیوں لاتا؟“ اُس نے کرب کے عالم میں اُلٹا سوال کردیا۔” جب اُن میں سے کوئی بچا ہی نہیں توتحائف کاکیاکرتا؟“
    ” میری بہن تو زندہ ہے ناں!اُس کے لیے ہی کچھ لے آتے۔“
    ”اُسے کس چیز کی کمی ہےاورپھرایسی صورت حال میں اپنے ساتھ کچھ لے کر آنامجھے مناسب نہیں لگا۔لوگ باتیں بنائیں گے کہ ساری فیملی تو موت کے گھاٹ اُتر گئی اور میں بیوی کے لیے غیرملکی تحائف لے کر آگیا۔کیا تمہیں یہ مناسب لگتا ہے؟“
    ” سوری عاصم بھائی۔“ اُس نے معذرت کی۔” مجھے ایسا سوال پوچھناہی نہیں چاہیے تھا۔یہ موقع نامناسب ہے۔بس ایسے ہی زبان سے نکل گیا تھا تم نے محسوس تو نہیں کیاناں؟“
    وہ بولا۔” تمہاراقصورنہیں ہے سلیم!دراصل جس پرگزرتی ہے پتا اُسے ہوتاہے۔میں گزشتہ کئی گھنٹوں سے جس کرب سے گزررہاہوں،اُس کااندازہ کوئی دوسراکیسے لگاسکتا ہے؟ظاہرہے تم بھی میرادُکھ محسوس نہیں کرسکتے اس لیے مجھے تم سے کوئی گلانہیں ہے۔“
    ایک لمحے کے لیے سلیم کے چہرے پرشرمندگی کے آثارنمودارہوئے مگردوسرے ہی لمحے معدوم ہوگئے۔وہ نہایت ہی مضبوط اعصاب کا مالک تھا اور اُسے اپنے احساسات و جذبات پرمکمل کنٹرول حاصل تھا۔چنانچہ وہ سنبھلتے ہوئے بولا۔”تمہارا دُکھ بھلامیں کیوں محسوس نہیں کرسکتاخداکی قسم جتنا دُکھ مجھے ہواہے اتنا شاید ہی تمہارے کسی اور دوست نے محسوس کیا ہو۔
    تاہم یہ الگ بات ہے کہ میں تمہاری طرح فطرتی طورپراس دُکھ کی شدت محسوس کرنے سے قاصرہوں۔وجہ تم جانتے ہو کہ مرنے والوں سے تمہارا خون کارشتہ تھاجب کہ میرامحض زبانی وکلامی رشتہ تھا۔ظاہر ہے اُن کادُکھ کوئی بھی تمہاری طرح شدت کے ساتھ محسوس نہیں کرسکتا،چاہے وہ میں ہوں یاکوئی دوسرا؟“
    ”اگرثمینہ بھی اُن کے ساتھ ماری جاتی تو تب تمہارے تاثرات کیا ہوتے۔کیا اُس کے مرنے کابھی تجھے اتنا ہی دُکھ ہوتاجتنامجھے؟“ اُس نے بے رحمی کے عالم میں پوچھا۔
    ” اللہ نہ کرے ۔“ وہ تڑپ اُٹھا۔” ورنہ زندہ تو میں بھی نہ رہتااورتم بھی۔۔ خداکاشکراداکرو کہ وہ زندہ اورسلامت ہے۔“
    ” کیوں تم کس لیے مرجاتے۔تمہارا اُس سے کون سا خون کا رشتہ ہے؟“
    یہ سوال بالکل غیرمتوقع تھا۔سلیم کے چہرے پرسے ایک رنگ سا آکرگزرگیااوردل پہلومیں بے اختیاردھڑک اُٹھا۔بات اُسے تیر کی طرح لگی تھی۔
    مگرموقع مناسب نہیں تھا۔اُسے معلوم تھا کہ عاصم اس وقت بے انتہاکرب و اذیت سے گزررہاہے ورنہ وہ اُسے کھری کھری سنادیتا۔تاہم اک ذرا توقف سے وہ بولا۔”میں مانتا ہوں کہ میرا ثمینہ سے خونی رشتہ نہیں ہے۔میں صرف اُس کا منہ بولابھائی ہوں لیکن تم تو اچھی طرح جانتے ہوکہ ہمارارشتہ خونی رشتے سے بھی بڑھ کرہے۔میں نے ہمیشہ اُسے سگی بہن ہی سمجھا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ تم اس رشتے کوکس نظرسے دیکھتے ہومگرخداجانتا ہے کہ اگراُسے کچھ ہوجاتاتو سب سے زیادہ دُکھ بھی مجھے ہوتا۔“
    عاصم نے کہا۔”یہی وہ دردہے جو میں گزشتہ چوبیس گھنٹے سے برداشت کررہا ہوں۔میراوجود اندرسے ریزہ ریزہ ہوچکا ہے مگرمیں پھربھی زندہ ہوں۔مجھ پرگزررہی ہے جب کہ تجھ پرگزرنے کی صرف بات ہی ہوئی ہے لیکن تم برداشت نہ کرسکے۔دراصل میں تجھے دُکھ محسوس کراناچاہتا تھا۔ورنہ میں اچھی طرح جانتاہوں کہ تم ثمینہ کوکس قدرچاہتے ہو؟ اُس کااگرکوئی سگابھائی ہوتاتو شاید وہ بھی اُس سے اس قدرپیارنہ کرتاجتناتم کرتے ہو۔“
    ”عاصم بھائی!میں ایک بارپھرتم سے سوری کرتا ہوں۔بس یوں ہی بے خیالی میں تم سے سامان کے متعلق پوچھ بیٹھاورنہ یقین مانواس میں میرے ارادے کا کوئی دخل نہیں تھا۔“
    ” میں جانتاہوں تجھے صفائی پیش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔“ اُس نے سیٹ سے پشت لگاتے ہوئے جواب دیااورپھر آنکھیں موندلیں۔
    وہ بے حدتھکاہواتھا۔گزشتہ کئی گھنٹے اُس نے بے آرامی اور پریشانی کے عالم میں گزارے تھے۔کوشش کے باوجودنیند کی دیوی اُس سے خفاہی رہی تھی۔اُس کاسارا بدن کسی پکے ہوئے پھوڑے کی طرح دُکھ رہاتھااورسردردکی شدت سے پھٹاجارہاتھا۔مگرنینداب بھی اُس پہ مہربان نہیں ہورہی تھی۔تاہم گزرے دنوں کی یادیں کسی فلم کے مانند اُس کے دماغ میں چلنے لگی تھیں۔ایک کے بعدایک منظرتواترسے بدلتاجارہاتھا۔یادِ ماضی کسی عذاب کی صورت اُس پرنازل ہوچکی تھی۔
    اس اندوہ ناک اورخوفناک واقعہ کی اطلاع اُسے سلیم ہی نے دی تھی۔سلیم ناصرف یہ کہ اُس کاگہرا دوست تھا۔بلکہ گزشتہ پانچ برس سے وہ اُس کی بیوی ثمینہ کا منہ بولا بھائی بھی بناہواتھا۔اُس نے کبھی دوست اوربیوی کے اس رشتے کوشک کی نگاہ سے نہیں دیکھاتھا۔حالانکہ باتیں کرنے والے سوسو باتیں کرتے تھے ۔وہ ہرممکن طریقے سے اُس کے کان بھرتے رہتے تھے مگروہ کسی کی بات کوبھی قابلِ اعتناءنہیں سمجھتا تھا۔سلیم اُس کامحسن تھا اورمحسن پرشک کرنااُس کے نزدیک گناہ تھا۔
    پانچ برس قبل سلیم نے اُسے باہربھجوانے کا بندوبست کیاتھا۔اُس کے لیے رقم اورپاسپورٹ کاانتظام کرنے کے ساتھ ساتھ دیارِغیرمیں اُسے ملازمت دلانے تک۔ سب سلیم ہی کی کاوشوں کے طفیل ممکن ہوسکاتھا۔چنانچہ وہ سلیم پراندھااعتمادکرتاتھا۔اُس کے خلاف کوئی بھی ایسی ویسی بات سننا اُسے گوارانہیں تھی۔پانچ برس قبل اُس کے گھریلو حالات انتہائی ابتر تھے۔دس بارہ افرادپر مشتمل کنبے کا وہ واحد کفیل تھا۔اس کنبے میں اُس کی ایک بیوہ بہن اورتین بچے بھی شامل تھے۔دیگرافرادمیں ماں باپ ، ایک بھائی اور دو بہنیں شامل تھیں۔بھائی اوربہنیں چونکہ ابھی زیر، تعلیم تھے۔لہٰذا اُن کابوجھ بھی ابھی تک اُس کے کندھوں پرتھا۔اُن دنوں وہ ایک ریڈی میڈگارمنٹس فیکٹری میں کام کرتا تھا۔ تنخواہ نہایت ہی قلیل تھی۔گزراوقات بہت مشکل سے ہورہی تھی۔
    اکثراوقات وہ مقروض رہتاتھا۔کبھی کبھارتونوبت یہاں تک پہنچ جاتی تھی کہ محلے کادکان داراُسے اُدھاردینے سے بھی انکار کردیتاتھا۔تب اُسے دکان دارکی منت سماجت کرناپڑتی تھی۔سوسو طرح کے جھوٹ بولناپڑتے تھے۔پھرکہیں جاکردکان دار ناک بھوں چڑھاتے ہوئے اُسے سودا دے دیتا تھا۔اُس کی زندگی شرمندگی بن کربسرہورہی تھی کہ ایک دن اچانک سلیم کسی فرشتے کے روپ میں آکراُس سے ٹکراگیا۔
    اُس روزوہ محلے کے جنرل اسٹورسے کچھ چیزیں خرید رہاتھاکہ رقم کم پڑگئی۔بل تیرہ سو روپے کا بناتھا۔جب کہ اُس کی جیب ایک ہزارروپے کا اکلوتا نوٹ تھا۔اُس نے پریشانی کے عالم میں جیب سے نوٹ نکالااور شرمندہ سا ہوکر کاﺅنٹرپر رکھتے ہوئے التجائیہ اندازمیں بولا۔” انکل! مہربانی فرماکربقایاتین سوروپے میرے کھاتے میں لکھ دیں ۔میں ان شاءاللہ بہت جلدیہ اُدھارچکادوں گا۔“
    ” نہ میاں نہ۔“ جنرل اسٹورکے مالک انکل نذیرنے انکارمیں سرہلاتے ہوئے کہا۔”پہلے ہی تمہارا اُدھار تمہاری استطاعت سے تجاوزکرچکا ہے۔اب میں مزید اُدھارنہیں دے سکتابالکل نہیں دے سکتا۔“
    ”پلیز انکل پلیز۔“ اُس نے منت کی۔”ایسا نہ کریں میں آپ کی پائی پائی چکادوں گا۔بس کچھ دنوں کی بات ہے مجھے“
    ” قارون کا خزانہ ملنے والا ہے۔“ انکل نذیرنے طنزیہ اندازمیں قطع کلامی کی۔” ملازمت تو اب تمہاری رہی نہیں تو میرااُدھارکیسے چکتا کروگے۔ڈاکاڈالوگے یاپھر کہیں چوری کروگے؟“
    ” انکل!میں کوشش کررہاہوں۔بہت جلدمجھے نئی ملازمت مل جائے گی۔“ اُس نے بڑی مشکل سے غصہ ضبط کرتے ہوئے جواب دیا۔
    ” نہیں میاں نہیں ،بہت ہوچکا اُدھار۔جب تک تم پہلے والااُدھارچکانہیں دیتے تب تک میں مزیداُدھارکسی صورت میں بھی نہیں دوں گا۔“
    ” انکل!میں محلہ چھوڑ کربھاگ تو نہیں جاﺅں گا۔“ اُس نے احتجاج کیا۔” پہلے بھی کئی بار میں نے آپ کا اُدھارچکایا ہے۔اب بھی چکادوں گا۔میں کوئی چور اچکا تو نہیں ہوں کہ کہیں روپوش ہوجاﺅں گا۔“
    ” واہ بھئی واہ۔“ انکل نذیرنے لڑاکا عوتوں کی طرح ہاتھ نچایا۔” ایک تو اُدھاراور اُوپرسے دھونس ۔
    جاﺅ میاں جاﺅ مجھے تم پر سودابیچناہی نہیں ہے۔جاکر کوئی اور دکان دیکھو۔دکان نہ ملے تو داتادربارپرچلے جانا۔خود بھی پیٹ بھرکر کھالینا اور گھر والوں کے لیے بھی لے جانا۔“
    ” انکل! آپ زیادتی کررہے ہیں۔“ وہ چلایا۔”میری غربت پر طنز کررہے ہیں۔سودا نہیں بیچناتو دکان کیوں کھول رکھی ہے۔گھرمیں بیٹھ کرآرام کیوں نہیں کرتے؟“
    ” بک بک بندکرو۔“ انکل نذیرایک دم بھڑک گیا۔”نوٹ اُٹھاﺅاوردفع ہو جاﺅ یہاں سے۔“
    ” سودا لیے بغیرنہیں جاﺅں گا۔“ اُسے بھی طیش آگیااور پھر اسی عالم میں اُس نے کاﺅنٹرپر رکھاہوا شاپنگ بیگ اُٹھالیا،جس میں اُس کی خریدی ہوئی چیزیں تھیں۔
    ” شاپنگ بیگ رکھ دو۔“انکل نذیرآستینیں چڑھاتے ہوئے کاﺅنٹرکے عقب سے نکل کر سامنے آگیا۔” یہ غنڈہ گردی کسی اور کو دکھانا۔“
    ” نہیں رکھتا، کیا کرلوگے؟“وہ پھنکارا۔
    ” تیری تو میں“ انکل نذیر ایک گندی سی گالی دیتے ہوئے شاپنگ بیگ پر جھپٹامگریہ جراءت اُسے مہنگی پڑگئی۔سامنے چھے فٹ کا نوجوان تھا۔جیب خالی تھی تو کیا ہوا بازوﺅں میں تو دم تھا۔اُس نے ہاتھ گھمایااور انکل نذیرکاﺅنٹر سے جاٹکرایا۔
    آن کی آن میں وہاں تماشادیکھنے والے لوگوں کا ایک ہجوم سا اکٹھا ہوگیا۔انکل نذیرتھپڑ کھاکرآپے سے ہی باہر ہوگیا۔اب وہ عاصم کونہایت ہی گندی گندی گالیاں نکال رہاتھا۔لوگ معاملہ جاننے کے لیے دونوں سے سوالات کررہے تھے۔مگر وہ ایک دوسرے سے برسرپیکارتھے۔انکل نذیرکی زبانی گندی گالیاں سن کروہ ہتھے سے ہی اُکھڑ گیااور آگے بڑھ کراُسے مزیددوتین جھانپڑرسید کردیے۔
    تب تماشائیوں میں سے چند لوگوں نے مداخلت کرتے ہوئے عاصم کو جکڑ لیا۔اُس نے مچل کرخود کوچھڑانے کی کوشش کی تو اُسے جکڑنے والوں میں سے ایک نوجوان قدرے سخت اندازمیں بولا۔”کنٹرول یور سیلف یار! ۔
    یہ حماقت تمہیں مہنگی پڑ سکتی ہے۔ابھی یہاں پولیس پہنچ گئی تو جان چھڑانامشکل ہوجائے گی۔پلیز خود کوسنبھالو۔“
    پولیس کاذکر سن کر اُس نے اپنی جدوجہد ترک کردی۔تب نوجوان دوبارہ بولا۔”میں تمہاراہمدردہوں۔اس لیے جو میں کہوں اُس پر عمل کرنا اسی میں تمہاری بھلائی ہے۔ ورنہ یہ پولیس کیس بن جائے گا۔“
    اس کے بعداُسی نوجوان کے اشارے پرعاصم کوچھوڑ دیا گیا۔ہجوم آہستہ آہستہ چھٹنے لگاکہ اب وہاں لوگوں کی دل چسپی کا کوئی سامان نہیں رہاتھا۔تاہم چندایک لوگ بدستورانکل نذیرکو گھیرے اُس سے سوالات وجوابات کاسلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے۔یہ وہ لوگ تھے جن کا کام ہمیشہ بھڑکتی پرتیل ڈالنے والا ہوتا ہے۔
    بظاہراپنی باتوں سے یہ لڑنے والے فریق کو اپنے ہمدردنظرآتے ہیں۔مگر ان کا اصل کام تماشا دیکھنا ہوتا ہے۔یہ کسی کے بھی ہمدرد نہیں ہوتے بس آگ لگاکر تماشا دیکھتے ہیں کہ اسی میں ان کو تسکین ملتی ہے۔ہجوم کے چھٹتے ہی نوجوان نے عاصم کاکندھاتھپتھپایا۔”تم یہیں ٹھہرو ،میں معاملہ سلجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔یہ نہ ہو کہ کوئی شرپسند شخص جنرل اسٹورکے مالک کوبھڑکادے اور معاملہ پولیس اسٹیشن تک پہنچ جائے۔“
    عاصم نے اثبات میں سرہلادیااور نوجوان انکل نذیرکی طرف بڑھ گیا۔” جناب!آپ مجھے چند منٹ دیں گے؟ میں آپ سے علیحدگی میں بات کرنا چاہتا ہوں۔“
    انکل نذیر نے بھڑک کر کہا۔” اگر تم اُس غنڈے کے حمایتی بن کر آئے ہوتو پھرمیں تمہاری کوئی بات نہیں سنوں گا۔میں اُسے جیل کی ہوا کھلاکر ہی رہوں گا۔داداگیری کرتاہے اور وہ بھی انکل نذیر کے سامنے۔میں نے کوئی چوڑیاں تو نہیں پہنی ہوئیں؟اب تو میں اُسے مزا چکھاکر ہی چھوڑوں گا۔“
    ”آپ پہلے میری بات تو سن لیں۔پھر جودل چاہے کرنا میں آپ کو نہیں روکوں گا۔“
    ” بولو۔“ انکل نذیرنے کھاجانے والے اندازمیں کہا۔” میں سن رہا ہوں۔“
    ” یہاں نہیں اندر چل کر بیٹھتے ہیں۔“نوجوان نے انکل نذیرکا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔”آرام سے بات کریں گے۔“
    ” تم شایداُسے بھگاناچاہتے ہو؟“ اُس نے شک کا اظہار کیا۔
    ” وہ بھاگ کرکہاں جاسکتا ہے۔اسی محلے ہی کا تو رہنے والا ہے۔“ نوجوان مسکرایااورپھر منت سماجت کرتے ہوئے اُسے جنرل اسٹور کے اندرلے گیا۔
    ” بیٹھو۔“ اندر پہنچ کرانکل نذیرنے بادل نخواستہ ایک کرسی کی طرف اشارہ کیا۔
    ” شکریہ۔“ وہ کرسی پر تشریف رکھتے ہوئے بولا۔”میرانام سلیم ہے اورمیں ایک چھوٹی سی فرم کامالک ہوں جوباہرسے گاڑیوں کے اسپیئرپارٹس درآمدکرتی ہے۔کیا میں جان سکتا ہوں کہ آپ دونوں میں ہاتھاپائی کس وجہ سے ہوئی ہے؟“
    انکل نذیر نے تو پہلے تو اُسے گھورکردیکھاپھرساری کہانی بیان کردی۔اس کے بعد جواب طلب اندازمیں بولا۔” اب بتاﺅ اس میں میراکیاقصور ہے؟“
    ” آپ بالکل حق بجانب ہیں۔“ سلیم نے صاف گوئی کامظاہرہ کیا۔”لیکن وہ نوجوان بھی مجھے مجبوراورمفلس دکھائی دیتا ہے۔شایداُس کے حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ تبھی تو زندگی سے بے زاردکھائی دیتا ہے۔“
    ”کیاتم اُسے جانتے ہو؟“ انکل نذیرنے پوچھا۔
    ” نہیں مجھے تو اُس کانام بھی معلوم نہیں ہے۔“
    ” عاصم پورانام عاصم رشید ہے خبیث کا۔“ انکل نذیر نے تحقیرآمیزاندازمیں بتایا۔”ملازمت چھوٹ چکی ہے اوراب ساراسارادن آوارہ گردی کرنے کے ساتھ ساتھ غنڈاگردی بھی کرنے لگا ہے۔“
    ” اوکے۔“ سلیم نے سرہلایا۔” اُس کے ذمہ کتنی رقم ہے آپ کی؟“
    ” پچیس سو روپے۔“ انکل نذیرنے چونک کربتایا۔
    سلیم نے جیب سے والٹ نکالااورپھراُس میں سے پچیس سوروپے نکال کر انکل نذیرکی طرف بڑھادیے۔” یہ لیں پچیس سو روپے اورمعاملہ ختم کریں۔“
    ” نہیں ۔“ انکل نذیرنے نفی میں سرہلایا۔” یہ معاملہ اب اتنی جلدی ختم نہیں ہوسکتا۔پہلے وہ پولیس اسٹیشن جائے گا اور اُس کے بعدمیں اُسے عدالت میں گھسیٹوں گا۔اُس نے غنڈاگردی کی ہے۔ہاتھ اُٹھایا ہے مجھ پر،میں اُسے اتنی آسانی سے نہیں چھوڑوں گا۔“
    ” اُس کی غنڈاگردی کا کوئی ثبوت ہے آپ کے پاس، کوئی چوٹ، کوئی زخم یاپھرچشم دید گواہ؟“سلیم نے پولیس والوں کے سے اندازمیں پوچھا۔
    ” سب لوگوں نے دیکھاہے۔جب وہ مجھے ماررہاتھا۔کیاثبوت کے لیے“یہ کافی نہین ہے؟؟
    ” اُن میں سے کوئی ایک بھی گواہی نہیں دے گا۔“ سلیم نے قطع کلامی کی۔”جب کہ میں ابھی عاصم کوساتھ لے کرتھانے جارہاہوں۔وہ آپ کے خلاف ایف آئی آر کٹوائے گا اورگواہی میں دوں گا کہ آپ نے اُسے زخمی کیا ہے۔بلکہ جان سے ہی مارنے والے تھے کہ لوگوں نے بیچ بچاﺅکرادیا۔“
    ” یہیہ بالکل سفیدجھوٹ ہے۔“انکل نذیرنے بوکھلاکراحتجاج کیا۔
    وہ بولا۔” جھوٹ جھوٹ ہوتا ہے۔سفیدیا کالانہیں ہوتا۔میں ابھی عاصم کوزخمی کرتاہوں۔پھردیکھناکہ یہ جھوٹ کیسے آپ کے سچ کی دھجیاں بکھیرتاہے؟کم سے کم دوسال کی تولگ ہی جائے گی۔“
    اُس کی یہ دھمکی کارگرثابت ہوئی۔انکل نذیرایک عام سا شخص تھااور کبھی تھانے کچہری کے چکروں میں نہیں پڑا تھا۔ایک پل میں اُس کا ساراجوش وخروش صابن کے جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔اُس نے ہاتھ آگے بڑھایااورسلیم کے ہاتھ سے نوٹ پکڑلیے۔
    سلیم نے مسکراکرکہا۔”مجھے آپ کے فیصلے سے خوشی ہوئی ہے۔خواہ مخواہ بات بڑھانے سے آپ کا اُلٹانقصان ہوتا۔عدالتوں کے چکرکاٹ کرآپ کے جُوتے گھس جاتے مگرفیصلہ پھربھی نہ ہوپاتا۔یہاں عدالتوں میں سب انصاف انصاف کھیلتے ہیں۔انصاف کرتاکوئی نہیں۔“
    ” میں تمہارے کہنے پراُسے معاف کررہاہوں۔“ وہ اپنابھرم رکھتے ہوئے بولا۔”ورنہ عدالتوں کے چکروں سے میں نہیں ڈرتا۔“
    ” میں آپ کاممنون ہوں۔“ اُس نے اجازت طلب انداز میں انکل نذیرسے ہاتھ ملایااورجنرل اسٹورسے باہر نکل گیا۔
    یہ عاصم کی سلیم سے پہلی ملاقات تھی اور پہلی ہی ملاقات میں سلیم نے اُسے اپنا گرویدہ بنالیاتھا۔سلیم نے ناصرف اُس کاقرض اداکردیاتھابلکہ انکل نذیر کوبھی معاملہ آگے بڑھانے سے روک دیا تھا۔ورنہ انکل نذیراگرپولیس اسٹیشن چلاجاتاتو عاصم کے لیے جان چھڑانامشکل ہوجاتا۔اُس کی توضمانت دینے والابھی کوئی نہیں تھا۔اس پہلی ملاقات کے بعداُن کی دوستی اس قدرتیزی کے ساتھ آگے بڑھی کہ سلیم کا اُن کے ہاں آناجاناشروع ہوگیااورپھر دیکھتے ہی دیکھتے سلیم اُن کے گھرکا ایک فرد سا بن گیا۔عاصم کی نئی نئی شادی ہوئی تھی ۔اُس کی بیوی ثمینہ نہایت ہی حسین وجمیل لڑکی تھی۔مگر عاصم کی طرح اُس کا تعلق بھی لوئر مڈل کلاس سے تھا۔
    وہ لڑکیوں کی اُس قبیل سے تعلق رکھتی تھی جو شادی سے قبل اُونچے اُونچے خواب دیکھتی رہتی ہیںاوراُن کے خوابوں میں خوب رو شہزادے اورخوش نمامحل ہوتے ہیں۔لیکن قسمت کی نارسائی سے اُن کی شادی ہمیشہ کسی عاصم جیسے مفلس نوجوان سے ہوجاتی ہے۔جن کی چادر اتنی چھوٹی ہوتی ہے کہ سرڈھانپتے ہیں تو پاﺅں ننگے اور پاﺅں ڈھانپیں توسر ننگا رہ جاتا ہے۔
    سلیم نے اُن کے ہاں آنا جاناشروع کیاتوثمینہ ایک بارپھر وہی خواب دیکھنے لگی۔سلیم کی جیب ہروقت کرنسی نوٹوں سے بھری رہتی تھی۔اُسے بزنس سے معقول آمدنی حاصل ہورہی تھی۔چنانچہ وہ دل کا بہت کھلاتھا۔ویسے بھی فطرتاً وہ عیاش طبع شخص تھا۔اس لیے اپنی آمدنی فضولیات کی نذرکرتارہتاتھا۔آگے پیچھے کوئی تھانہیں جواُسے روکتاٹوکتا۔ سووہ دل کھول کریاردوستوں پرخرچ کرتارہتاتھا۔
    اُس کی عاصم رشیدسے دوستی کیاہوئی کہ ثمینہ کی تو لاٹری نکل آئی۔صرف چند ملاقاتوں کے بعدہی اُس نے ثمینہ کواپنی منہ بولی بہن بنالیا۔اب ثمینہ کی وہ تشنہ آرزوئیں پوری ہونے لگی تھیں جو عاصم کبھی پوری نہیں کرسکاتھا۔سلیم آئے دن اُس کے لیے قیمتی تحائف لانے لگا اوریوں ثمینہ خوشیوں کے جھولے میں جھولنے لگی۔اس سے قبل وہ ہمیشہ عاصم سے لڑتی رہتی تھی ۔لیکن اب وہ بہت خوش مزاج ہوگئی تھی۔بات بات پرقہقہے لگاتی رہتی تھی۔عاصم بھی اُس کی خوشی میں خوش تھا۔
    عاصم سمیت دیگرگھروالے بھی سلیم اورثمینہ کے رشتے پرخوش تھے۔لیکن عاصم کا والدرشیداحمداس رشتے پر معترض تھا۔وہ ہمیشہ اُن کے اس رشتے کومشکوک نگاہوں سے دیکھتا تھا۔وہ ایک ریٹائرڈ سکول ماسٹرتھااور بے حدخوددارانسان تھا۔اُسے اپنی بہو کایوں کسی غیرمرد سے رشتاجوڑناقطعی پسند نہیں تھا۔اکثراوقات وہ عاصم کوسمجھاتارہتا تھا۔لیکن عاصم اُس کی کسی نصیحت کوبھی سنجیدگی سے نہیں لیتاتھا۔اُسے سلیم کی دوستی پراعتبارتھا۔سلیم نے اُس پربے شماراحسانات کیے تھے۔قدم قدم پر اُس کی مدد کی تھی۔عاصم جو جاب کررہاتھا وہ بھی سلیم ہی کی مرہونِ منت تھی۔سلیم نے ہی اپنے سورس استعمال کرتے ہوئے اُسے یہ جاب دلائی تھی۔
    اس نئی ملازمت میں تنخواہ معقول تھی۔چنانچہ اُس کی گزراوقات قابلِ رشک نہ سہی مگربہتراندازمیں ضرور ہورہی تھی۔سب سے اچھی بات یہ تھی کہ اب اُسے گھریلو اخراجات پورے کرنے کے لیے اُدھارنہیں لیناپڑتا تھا۔
    وہی انکل نذیرجوکبھی اُسے دیکھنابھی گوارانہیں کرتا تھا۔اب اُسے دیکھ کرسلام کرنے لگاتھا۔دوسری طرف ثمینہ کی روزروز کی فرمائشوں سے بھی اُس کی جان چھوٹ گئی تھی۔
    اُس کی فرمائشیں اب سلیم پوری کرنے لگا تھا۔وہ ہردوسرے تیسرے دن ثمینہ کے لیے کچھ نہ کچھ لادیتاتھا۔
    ______ __________
    اُس روزعاصم آفس سے قدرے جلدی گھرلوٹاتو ثمینہ منہ پھلائے بیٹھی تھی۔اُس نے استفسارکیاتو ثمینہ پھٹ پڑی۔” مجھ سے کیا پوچھتے ہو اپنے اباجان سے پوچھو۔ میں توعاجزآچکی ہوں اُن کی روز روزکی نصیحتوں سے۔جیناحرام کرکے رکھ دیا ہے اُنھوں نے میرا۔“
    ” بھئی! کچھ پتا تو چلے ایسا کیاکردیا ہے اباجی نے،جوتم یوں غصہ کررہی ہو؟“ عاصم نے تحمل سے پوچھا۔
    ”میرے بھائی کو بے عزت کرکے نکالا ہے اُنھوں نے گھرسے، اب میں نے اس گھرمیں نہیں رہنا۔“ ثمینہ نے روتے ہوئے بتایا۔
    کیا سلیم آیا تھا۔۔۔؟
    ” ہاں آیا تھا لیکن تمہارے ابانے اُس کے ساتھ جوکیا ہے ۔وہ کوئی گھرآئے دشمن کے ساتھ بھی نہیں کرتا۔“
    ”لیکن کیوں؟“اُس نے قدرے تحیرسے پوچھا۔
    ” اس لیے کہ وہ میری فرمائشیں پوری کرتارہتا ہے۔کیابہن کو کوئی تحفہ خریدکردیناگناہ ہے؟ وہ بے چارا کتنی چاہت کے ساتھ میرے لیے ایئررنگ خرید کرلایاتھا۔لیکن تمہارے اباجان بھلامجھے کب خوش دیکھ سکتے ہیں۔چنانچہ اُنھوں نے سلیم کوبے عزت کرکے گھرسے نکال دیا۔“
    کیا ابا جی نے ایئسا کیا۔؟؟
    ” تو اورکیا میں جھوٹ بول رہی ہوں؟اگر یقین نہیں آتاتوجاکراپنے اباجی سے پوچھ لو،تمہیں سچ جھوٹ کا پتاچل جائے گا۔“
    وہ غصے کے عالم میں دندناتاہوا باپ کے کمرے میں داخل ہوااورپھرجیسے پھٹ پڑا۔” اباجی!آپ آخر چاہتے کیاہیں؟
    آپ نے سلیم کوگھرسے کیوں نکالاکیا گناہ کیا ہے اُس نے، مجھے بتاﺅ؟یہی ناں!کہ اُس نے مجھے جاب دلائی اورثمینہ سے سگے بھائیوں کی طرح پیارکرتا ہے۔اُس کے کتنے احسان ہیں ہم پر،آپ کوپتا بھی ہے کہ نہیں ؟ ۔
    کیا اپنے محسن کے ساتھ کوئی ایسا سلوک کرتا ہے ۔جیسا آپ نے سلیم کے ساتھ کیا ہے۔مجھے منہ دکھانے کے لائق بھی نہیں چھوڑا آپ نے۔“
    ماسٹررشیدنے پہلے توبیٹے کو گھورکردیکھا،پھربولا۔”تم آنکھیں رکھتے ہوئے بھی اندھے بنے ہوئے ہوتومیں کیاکروں، ایک غیرمرد کوگھرمیں گھسنے دوں؟ لوگ باتیں بناتے ہیں۔مجھ سے یہ برداشت نہیں ہوتا۔“
    وہ جھنجھلاکر بولا۔” اباجی!یہ پرانی باتیں ہیں۔لوگوں کے پاس اتنی فرصت نہیں ہے کہ وہ دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑاتے پھریں۔آپ نجانے کس صدی میں جی رہے ہیں؟ یہ اکیسویں صدی کا دوسراعشرہ چل رہا ہے۔اب لوگ ان باتوں کومعیوب نہیں سمجھتے۔“
    ” مطلب اکیسویں صدی میں غیرت کے معنی بدل گئے ہیں؟“
    ”اباجی اباجی!خدا کے لیے یہ فضول وسوسے دماغ سے نکال دیں۔سلیم کومیں اپنا بھائی سمجھتا ہوں اور وہ بھی میرے لیے اپنے دل میں یہی جذبات رکھتا ہے۔“
    ” دلوں کے بھیدصرف اللہ جانتا ہے۔مگر بیٹا۔تجھے کس طرح معلوم ہوا کہ وہ تجھے اپنابھائی سمجھتا ہے؟“
    ”اباجی! مجھے لگتا ہے کہ آپ سٹھیا گئے ہیں۔اب کیا وہ مجھے لکھ کر دے گا کہ وہ مجھے اپنا بھائی سمجھتا ہے۔اُس نے میرے لیے کیاکچھ نہیں کیا؟ مجھے جاب دلائی، جیل جانے سے بچایا،انکل نذیر کاقرض اپنی جیب سے اداکیا، ثمینہ کووہ اپنی چھوٹی بہن سمجھتا ہے۔کیا یہ باتیں کافی نہیں ہیں اُسے ایک بھائی ثابت کرنے کے لیے؟“
    ” مجھے اُس کاتمہاری عدم موجودگی میں یہاں آناپسند نہیں ہے۔وہ اگر بھائی ہے توتمہاری بیوی کا ہے۔جب کہ اس گھرمیں میری دوجوان بیٹیاں بھی رہتی ہیں۔“
    ” آپ کی بیٹیاں میری بھی تو کچھ لگتی ہیں۔کیا میں اُن کا بُرا سوچوں گا؟“
    ” اس سے بُرا اور کیا سوچو گے کہ ایک غیرمردتمہارے گھرمیں آتا ہے اورتم نے آنکھیں بندکر رکھی ہیں۔“
    ” تو آپ کیاچاہتے ہیں کہ میں اورثمینہ یہ گھرچھوڑکرچلے جائیں؟“ اُس نے زچ ہوکرپوچھا۔
    ” یہ پٹی شایدتجھے تیری بیوی نے پڑھائی ہے۔مجھے لگتاہے وہ یہ گھرچھوڑنے کے بہانے ڈھونڈ رہی ہے۔“
    ” یہ دیکھیں اباجی۔“ وہ ہاتھ جوڑتے ہوئے بولا۔”میں آپ کے سامنے ہاتھ جوڑتا ہوں۔ہمیں چین سے یہاں رہنے دیجیے۔ثمینہ ایسا کچھ بھی نہیں چاہتی یہ محض آپ کا شک ہے۔“
    ” چل ٹھیک ہے جو مرضی آئے کر،میں کون ہوتا ہوں تجھے روکنے والا؟ اب تُوبڑا ہوگیا ہے ناں!اس لیے تجھے میری نصیحتیں بُری لگتی ہیں۔مگرمیری ایک بات یاد رکھنا، ایک روز تم بہت پچھتاﺅگے۔
    تب تیرے پچھتاوے تیرے نقصان کی تلافی نہیں کرسکیں گے۔“اُس نے شکست خوردہ اندازمیں جواب دیااورعاصم اُلٹے قدموں کمرے سے باہر نکل گیا۔ایک بوجھ اُس کے ذہن سے اُتر گیاتھا۔چنانچہ اب وہ قدرے مطمئن نظرآرہاتھا۔
    کمرے سے باہرآتے ہی اُس نے جیب سے سیل فون نکالااورسلیم کوکال کرنے لگا۔رابطہ ملتے ہی وہ نادم اندازمیں بولا۔”سلیم یار!میں تم سے سخت شرمندہ ہوں۔ابا جی نے جوکچھ بھی کیاہے بہت غلط کیا ہے۔میں تم سے معافی کاخواست گارہوں۔“
    سلیم نے کہا۔” کوئی بات نہیں ہے دوست، اباجی میرے بھی بزرگ ہیں بلکہ سچ پوچھوتو اُنھیں میں اپنے باپ جیسا سمجھتا ہوں۔پتانہیں اُنھیں کس نے میرے خلاف بھڑکا دیا ہے۔اس سے قبل تو اُنھوں نے کبھی بھی ایسے رویے کا اظہار نہیں کیا ہے۔“
    ” تم ناراض تونہیں ہوناں یار؟“
    ” بالکل نہیں۔“ سلیم نے ہنس کرکہا۔”باپ کی بات کاکیابُرامنانا؟ تم کوئی ٹینشن نہ لو، یوں سمجھوکہ کچھ ہوا ہی نہیں۔“
    ” بہت بہت شکریہ یار!یہ تو تمہارا بڑاپن ہے۔ورنہ آج کل کے دورمیں توکوئی کسی کی نہیں سنتا۔“
    ” بس اب رہنے بھی دویار!کیوں مجھے بانس پرچڑھانے کے لیے تل گئے ہو؟“ سلیم نے قہقہہ لگایا۔
    یوں ہی باتیں کرتے کرتے وہ ثمینہ کے پاس پہنچ گیا۔ثمینہ کوجب پتاچلا کہ وہ سلیم سے بات کررہاہے تو اُس نے عاصم سے فون جھپٹ لیا۔
    ” ہیلوسلیم!تم ٹھیک تو ہوناں؟“اُس نے بے چینی کے عالم میں پوچھا۔” میں میں تم سے سخت شرمندہ ہوں ۔دراصل یہ سب کچھ میری وجہ سے ہوا ہے۔“
    وہ ہنستے ہوئے بولا۔”بھئی!تم میاں بیوی خواہ مخواہ پریشان ہورہے ہو۔میں نے عاصم کوبتاتو دیاہے کہ میں تم لوگوں سے خفانہیں ہوں اورنہ ہی میں نے انکل کی باتوں کا بُرامنایا ہے۔وہ بزرگ ہیں ہمارے، جودل چاہے کہہ سکتے ہیں۔کہیں عاصم نے انکل سے کوئی بدتمیزی تونہیں کردی؟“
    ” نہیں نہیں عاصم بھلا اباجی سے بدتمیزی کرسکتا ہے؟“ اُس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
    ” کیا عاصم تمہارے ساتھ ہے؟“ سلیم نے بدلے ہوئے لہجے میں پوچھا۔
    ” نہیں وہ باتھ روم میں ہے۔“ اُس نے مدہم آوازمیں بتایاتاکہ آوازعاصم کی سماعتوں تک نہ پہنچ سکے۔
    ” ہائے میری جان ثمو۔“ سلیم پرایک دم رومینٹک موڈ طاری ہوگیا۔”میں کتنی چاہت سے تیرے لیے ایئررنگ خریدکر لایا تھا۔مگراُس بڈھے کھوسٹ نے رنگ میں بھنگ ڈال دی۔“
    ” وہ رنگ تو اب میں تیرے ہی ہاتھوں سے پہنوں گی۔“اُس نے شوخ مگردھیمی آوازمیں جواب دیا۔
    ” غلام حاضرہے جانِ من!حکم کروکب لے کرپہنچوں؟“
    ” میں خودکل کسی وقت تمہارے فلیٹ پر آﺅں گی۔اوکے؟“
    ” میں ابھی سے راہ دیکھناشروع کردیتا ہوں جانِ من۔“ وہ جذباتی اندازمیں بولا۔”تم کل کس وقت پہنچوگی؟“
    ” یہ میں تمہیں کل صبح بتاﺅں گی۔“ اُس نے مدہم آوازمیں بتایااورپھرعاصم کوباتھ روم سے نکلتے دیکھ کربلندآوازمیں بولی۔” اچھا سلیم بھائی پھر بات ہوگی۔ابھی میں نے عاصم کوکھانابھی دیناہے۔اوکے خداحافظ۔“
    ” اچھاجانِ من!خداحافظ۔“ سلیم نے منہ سے کِس کرنے کی آوازنکالتے ہوئے رابطہ
    منقطع کردیا۔
    _______________
    وہ دونوں ہفتے میں دوتیں بارسلیم کے فلیٹ پرملتے اورخوب جی بھرکر انجوائے کرتے۔ عاصم اس بات سے لاعلم رہا۔
    بارہا اُسے سلیم پرشک کرنے کے مواقع دستیاب ہوئے مگر ثمینہ چاپلوسی سے کام لیتے ہوئے خودکوستی ساوتری ثابت کرنے میں کامیاب رہی۔ویسے بھی عاصم سلیم پراندھا اعتماد کرتا تھا۔لہٰذااُس پرکسی قسم کاشبہ کرناعاصم کے نزدیک محسن کشی کے مترادف تھا۔ایک دن سلیم کے فلیٹ پرپہنچتے ہی ثمینہ بولی۔”سلیم جانو!میں اب عاصم کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔کیوں نہ میں اُس سے خلع لے لوں ؟“
    ” وہ کس لیے ؟“ اُس نے تحیرکے عالم میں پوچھا۔
    ” میں تم سے شادی کرناچاہتی ہوں۔“ وہ اُسے مخمورنظروں سے دیکھتے ہوئے بولی۔”دراصل تم ہی میرے خوابوں کے شہزادے ہو۔عاصم سے تو میری شادی میرے والدین کی مرضی سے ہوئی ہے۔ورنہ وہ تومجھے پہلے دن سے ہی زہرلگتا ہے۔“
    ” وہ تجھے خلع دینے کے لیے کبھی بھی راضی نہیں ہوگا۔“ سلیم نے نفی میں سرہلایا۔”ہمیں اُس سے جان چھڑانے کے لیے یاتو عدالت سے رجوع کرنا پڑے گایاپھر کوئی اور پلان بناناپڑے گا۔“
    ” کیسا پلان؟ کیاکیا تم اُسے جان سے مارنا“
    ” احمقانہ باتیں مت کرو۔“ سلیم نے قطع کلامی کی۔”میں کچھ اورسوچ رہاہوں؟“
    پھر وہ کچھ سوچ کر بولا۔” میں اُسے ملک سے باہربھجوادیتا ہوں۔اس کے بعد ہمارے مزے ہی مزے ہوں گے۔“
    ”ملک سے باہرلیکن کیسے؟“ اُس نے تحیرکے عالم میں پوچھا۔
    ” یہ تم مجھ پرچھوڑ دو کہ میں اُسے کیسے ملک سے باہربھجواتا ہوں۔“
    ” ہائے جانو!اگرایسا ہوجائے تو پھرتو ہم دونوں کے مزے ہی مزے ہوں گے۔“ وہ سلیم سے لپٹٹے ہوئے خوشی کے عالم میں بولی۔” کمائے گا وہ اورعیش ہم دونوں کریں گے۔قسم سے زندگی کالطف آجائے گا۔“
    ” ڈونٹ وری میری جان! ایسا ہی ہوگا۔“ سلیم نے اُسے بازوﺅں میں بھینچتے ہوئے جواب دیا۔
    ” توپھریہ انتظام جلدسے جلد کروناں؟“
    ” جلدی ہوجائے گا میری جان!فکرکیوں کرتی ہوکیامیرادل نہیں چاہتا کہ دن کی طرح ہماری راتیں بھی رنگین گزراکریں؟“
    وہ بولی۔” نہیں رات کے وقت میں تم سے نہیں مل سکوں گی۔دراصل اُس بڈھے کا مجھ پرکڑاپہرہ ہوتا ہے۔“
    ” اس کا انتظام بھی ہے میرے پاس مگرپھرکبھی سہی ۔ابھی ٹائم ضائع کیوں کرتی ہو؟“ سلیم نے جذبات سے بوجھل آوازمیں جواب دیااورپھرکمرے میں شیطان کا من پسند کھیل شروع ہوگیا۔اب شیطان اپنی کامیابی پر قہقہے لگارہاتھااورانسانیت ایک کونے میں منہ چھپائے رو رہی تھی۔
    پلان کے مطابق دوسرے ہی دن ثمینہ نے عاصم کوبیرون ملک جانے کے لیے ذہنی طورپرتیارکرنا شروع کردیا۔اِدھرعاصم نے لنچ کیا اور اُدھرثمینہ نے بیرون ملک جاکر قسمت آزمائی کرنے والوں کاذکرچھیڑ دیا۔وہ اُن لوگوں کاتذکرہ رشک کے ساتھ کررہی تھی۔جو کمانے کے لیے خلیجی ممالک، امریکہ اور یورپ کا رخ کررہے تھے۔عاصم چند لمحے تو بڑی توجہ کے ساتھ اُس کی باتیں سنتارہا۔پھراکتاکربولا۔” تومیں کیاکروں بھئی!مجھے کیوں سنارہی ہو یہ باتیں؟“
    وہ بولی۔” عاصم!میں چاہتی ہوں کہ تم بھی باہر جاکرقسمت آزمائی کرو،کیاخبرہمارے بھی دن پھرجائیں؟“
    ” تم ہوش میں توہو کیاکہہ رہی ہو؟“اُس نے آنکھیں نکالیں۔” میں بھلا کیسے باہر جاسکتاہوں۔بوڑھے والدین اورچھوٹے بھائی بہنوں کومیری ضرورت ہے۔“
    ” اُنھیں کوسکھ دینے کی خاطرتو میں تمہیں یہ مشورہ دے رہی ہوں۔ورنہ ہاشم،شبانہ اور ریحانہ کی تعلیم ادھوری رہ جائے گی۔بھابی ہونے کے ناتے میرایہ فرض بنتا ہے کہ اُنھیں اچھی سے اچھی تعلیم دلاﺅں۔تمہیں بھائی بہنوں کے اچھے مستقبل کے لیے یہ قربانی دیناپڑے گی۔“
    ” نہیں ثمینہ نہیں۔“ اُس نے نفی میں سرہلایا۔”میں یہ رسک نہیں لے سکتا۔تم یہ خواب دیکھناچھوڑ دو۔“
    وہ بولی۔” اس میں رسک لینے والی بھلاکون سی بات ہے؟یہاں کتنے ہی لوگ ہیں جوملک سے باہرجاب کررہے ہیں۔ڈالر،پونڈ اور ریال کمارہے ہیں۔کیاتم نہیں چاہتے کہ اس گھرمیں خوش حالی آئے؟“
    ” دیکھو یہاں میں اچھی بھلی جاب کررہاہوں۔مجھے پردیس میں دھکے نہیں کھانے۔تم کیا چاہتی ہوکہ میں شیخوں کے باتھ روم صاف کرتا پھروں؟“
    ” انگلینڈمیں شیخ کہاں سے آگئے؟“
    ” اوہ تو محترمہ مجھے انگلینڈ بھجوانے کے خواب دیکھ رہی ہے؟“ وہ طنزیہ اندازمیں مسکرایا۔”اگر وہاں مجھے کوئی گوری میم پسند آگئی توتمہاری تو چھٹی ہوجائے گی۔
    کیوں اپنے پاﺅں پر خودہی کلہاڑی مارنا چاہتی ہو؟“
    ” مجھے اپنے عاصم پراعتماد ہے کہ وہ ایساقدم کبھی بھی نہیں اُٹھائے گا۔“
    وہ بولا۔” انگلینڈ کی گوریاں تم جیسی کئی بے وقوف عورتوں کے اعتمادخاک میں ملاچکی ہیں۔جو وہاں کمانے کے لیے جاتا ہے۔وہ پلٹ کرکبھی واپس نہیں آتا۔“
    ” میں اس گھرکی خاطریہ کڑواگھونٹ بھی پی لوں گی۔“
    ”یعنی میں اگرواپس نہ آیاتوتم میرے بغیررہ لوگی؟“
    ” مرمرکر جی ہی لوں گی۔“وہ مصنوعی دُکھ کاشان دارمظاہرہ کرتے ہوئے بولی۔” لیکن مجھے یہ بھی یقین ہے کہ میراعاصم مجھ سے بے وفائی نہیں کرے گا۔مجھے خودسے زیادہ اُس پر بھروساہے۔“
    ” لیکن میں انگلینڈجاﺅں گا کیسے؟ پاسپورٹ اورویزا تومیں حاصل کرہی لوں گا۔مگروہاں انگلینڈمیں مجھے جاب کون دے گا؟“اُس نے دلچسپی ظاہرکرتے ہوئے سوال کیا۔
    ” یہ سب تم سلیم بھائی پرچھوڑ دو۔“ وہ خوش ہوکربولی۔” وہ سب انتظام کردے گا۔“
    ” نہیں بھئی نہیں اُس کے پہلے ہی ہم پربہت زیادہ احسان ہیں۔کیوں مجھے شرمندہ کراناچاہتی ہو؟ سلیم بھائی کیا سوچے گا ہم لوگوں کے متعلق ۔یہی ناں! کہ ہم بالکل ہی گئے گزرے لوگ ہیں؟“
    وہ بولی۔” وہ ایسا نہیں سوچتا۔بلکہ وہ تو خودتمہیں باہربھجوانا چاہتا ہے۔تاکہ ہم لوگوں کے حالات سنورجائیں۔شبانہ اورریحانہ کی شادیاں اچھے اورامیرگھرانوں میں ہوں اورہاشم پڑھ لکھ کربڑا افسر بن جائے۔سلیم بھائی سے زیادہ ہمدردتم کہیں بھی نہیں ڈھونڈسکتے۔“
    ” اس کا مطلب ہے کہ تم نے اس سلسلے میں سلیم بھائی سے خود بات کی ہے۔بہت بے وقوف ہوتم۔کم سے کم مجھ سے پوچھاتو ہوتا۔اُس نے کوئی ٹھیکا تو نہیں لے رکھا ہم لوگوں کاکہ ہروقت بس ہمارے ہی مسائل حل کرتا رہے؟“
    ” ارے نہیں بھئی !ایسی بات نہیں ہے۔“ وہ مسکرائی۔”وہ تو سلیم بھائی نے خودذکرچھیڑاتومجھے بات کرناپڑگئی ورنہ میں کب اُس پربوجھ ڈالنے کے حق میں ہوں؟“
    اس کے بعدثمینہ نے کچھ اس طرح اُسے مستقبل کے سہانے سپنے دکھائے کہ وہ فوراً ملک سے باہرجانے کے لیے تےار ہوگیا۔
    دوسرے دن جب عاصم ناشتہ کرنے کے بعدآفس چلاگیاتوثمینہ نے فوراًسلیم کانمبرملادیا۔رابطہ قائم ہوتے ہی سلیم نے پوچھا۔”سناﺅجانِ من! پلان کا کیا بنا؟“
    وہ بولی۔” پلان کامیاب ہوگیا ہے۔تم فوراً اُسے باہر بھیجنے کا انتظام کرو۔“
    کیا۔۔؟ سچ مین وہ باہر جانے پر راضی ہو گیا ہے
    ” تو اور کیا میں جھوٹ بول رہی ہوں۔“ اُس نے جواب دیا۔
    وہ بولا۔” تواسی خوشی میں آج میرے فلیٹ پرآرہی ہوناں؟“
    ” نہیں جانو! اب ہمیں بہت احتیاط سے کام لینا پڑے گا۔اُسے اگرذراسی بھی بھنک پڑگئی تو ساراپلان چوپٹ ہوجائے گا۔“
    ” یہ توتم میرے ساتھ زیادتی کررہی ہو جانِ من۔“اُس نے شکوہ کیا۔
    وہ بولی۔” صبرکاپھل میٹھاہوتا ہے۔تم کچھ دن صبرکرلو میں تجھے خوش کردوں گی۔“
    ” پھل سامنے رکھاہوتوکون کم بخت صبرکرسکتا ہے؟“ اُس نے ایک ٹھنڈی آہ خارج کی۔
    وہ ہنسی۔” اتنے ندیدے مت بنو ڈیئر!ہم بہت جلدملیں گے۔کیامجھ پربھروسانہیں ہے؟“
    ” خود سے بڑھ کرتم پربھروسا ہے۔اس لیے تو اپناسب کچھ داﺅپرلگارہاہوں۔“
    ” سب کچھ داﺅپر لگاکربھی تم فائدے میں رہوگے۔کمائے گا وہ اور عیش ہم کریں گے۔“
    ” کہیں یہ خواب، خواب ہی نہ رہ جائے؟“ اُس نے دل میں چھپے خدشے کااظہارکیا۔”انگلینڈجاکراکثرلوگ سب رشتے ناتے بھول جاتے ہیں۔اگر وہ بھی ایساہی نکلاتو ہمارے توسب خواب چکناچورہوجائیں گے۔“
    ” آئندہ ایساخیال بھی دل میں مت لانا۔وہ مجھے پاگل پن کی حد تک چاہتاہے۔مجھے یقین ہے کہ اُس پرکسی گوری کا جادونہیں چل سکتا۔“ ثمینہ نے پُرغرورلہجے میں جواب دیا۔
    وہ بولا۔” اتنی اُونچائی پرمت اُڑو،نیچے گروگی توبہت زیادہ چوٹ لگے گی۔“
    ”فکرمت کرومیں نیچے نہیں گروں گی۔بس تم اُسے جلدسے جلدکسی طرح انگلینڈبھجوادو۔“
    ” اوکے میں ایک ہفتے کے اندرہی سارا انتظام کردوں گا۔“
    ایسے ہی وقت باہرکاریڈورمیں قدموں کی چاپ اُبھری تو اُس نے جلدی سے خداحافظ کہہ کررابطہ منقطع کردیا۔
    پلان کے مطابق سلیم نے کوشش کی اور عاصم کودس دنوں کے اندرہی انگلینڈ بھجوادیا۔جاتے ہی عاصم کو جاب بھی مل گئی۔انگلینڈمیں سلیم کا ایک رشتے دارگاڑیوں کے کاروبارسے منسلک تھا۔چنانچہ اُسی کے شوروم میں عاصم کو سیلزمنیجرکی جاب مل گئی۔ماہانہ سیلری عاصم کی توقع سے بھی زیادہ تھی۔لہٰذاوہ ہرماہ ثمینہ کوآن لائن موٹی موٹی رقمیں بھیجنے لگا۔ اب ثمینہ کی پانچوں گھی میں تھیں۔اُس نے سلیم کے ساتھ مل کرشہر کی نئی آبادی میں ایک پلاٹ خریدااورمکان کی تعمیرشروع کردی۔عاصم اس بات سے بے خبرشب وروزپیسہ کمانے میں لگا رہا۔ثمینہ ہرماہ دکھاوے کے لیے تھوڑی بہت رقم ساس سسرکوبھی دے دیتی تھی۔چنانچہ گھرکی گاڑی بھی آسانی سے چل رہی تھی۔عاصم کبھی کبھارفون پرگھروالوں سے بات کرلیتا تھا۔تاہم ثمینہ کو وہ ایک ہفتے میں تین چارمرتبہ کال کرتا تھا۔
    وہ دونوں ناصرف عاصم کی کمائی پرہاتھ صاف کررہے تھے۔بلکہ ہردوسری رات ثمینہ کے بیڈروم میں رنگ رلیاں بھی منا رہے تھے۔گھرکے دوسرے افراد چونکہ سلیم کے ساتھ ایک عرصے سے گھلے ملے ہوئے تھے۔لہٰذا اُن کی طرف سے شک کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔تاہم ماسٹر رشیداحمدبڑی مستقل مزاجی کے ساتھ اُن کی تاڑمیں لگا رہا۔اُسے شک نہیں بلکہ یقین تھا کہ ثمینہ اورسلیم کے درمیان ناجائزمراسم ہیں۔
    لیکن اپنی پوری کوشش کے باوجود وہ اب تک اپنے مقصدمیں ناکام رہاتھا۔دراصل وہ اُنھیں رنگے ہاتھوں پکڑنا چاہتا تھا۔مگر عجیب بات یہ تھی کہ ہررات اُسے جلدی نیند آجاتی تھی۔حالانکہ عاصم کے جانے سے قبل وہ ہمیشہ دیر سے سویاکرتا تھا۔
    ماسٹررشید رات کوسونے سے قبل باقاعدگی سے دودھ پینے کا عادی تھااور یہ دودھ ہمیشہ اُس کی ٹیبل پرثمینہ ہی رکھا کرتی تھی۔اُس رات جب وہ عشاءپڑھ کراپنے کمرے میں سونے کے لیے لیٹا تو اُسے گرانی شکم کی شکایت ہوگئی۔
    حالانکہ کھانابھی اُس نے معمول سے زیادہ نہیں کھایاتھا۔دودھ کاگلاس حسبِ معمول ٹیبل پر رکھا ہوا تھا۔مگر آج دودھ پینے کواُس کاجی نہیں چاہ رہاتھا۔اُس کی بیوی خدیجہ بیگم چند لمحے تو غورسے اُس کی طرف دیکھتی رہی۔پھرپوچھا۔” کیابات ہے آج آپ پریشان لگ رہے ہیں۔ طبیعت تو ٹھیک ہے ناں آپ کی؟“
    وہ بولا۔”ہاں بس ٹھیک ہی ہوں۔تم ایساکرو یہ دودھ پی لو یاپھرہاشم کو دے دو۔میں آج نہیں پیوں گا۔“
    ” اس کا مطلب ہے کہ آپ ٹھیک نہیں ہیں۔“
    اُس نے کہا۔” ارے نیک بخت!میں بالکل ٹھیک ہوں۔بس ذراپیٹ بھرابھرا سا محسوس ہورہاہے۔اس لیے میں دودھ نہیں لینا چاہتا۔یہ نہ ہوکہ پیٹ میں گڑبڑہوجائے اور ساری رات ٹوائلٹ کے چکر کاٹتا رہوں؟“
    ” اچھا ٹھیک ہے ۔تو پھر آج میں ہی دودھ پی لیتی ہوں۔“ خدیجہ بیگم نے بسترسے اُٹھتے ہوئے جواب دیااورپھر آگے بڑھ کردودھ کا گلاس اُٹھاکرمنہ سے لگادیا۔
    دودھ پینے کے بعدوہ دوبارہ سوگئی۔ابھی تھوڑی ہی دیرگزری تھی کہ خدیجہ بیگم کے خراٹے گونجنے لگے۔لیکن وہ جاگتا رہا۔بستر پر کروٹیں بدلتا رہا کتنی ہی دیرگزر گئی مگرآج خلافِ توقع اُسے نیندنہیں آرہی تھی۔جب کہ خدیجہ بیگم معمول سے تھوڑی دیرقبل ہی سوگئی تھی۔وہ بستر پر لیٹااسی سوچ میں غرق تھاکہ معاً اُس کے دماغ میں روشنی کاجھماکا سا ہوااور وہ اُٹھ کر بیٹھ گیا۔” اوہ اب میں سمجھا۔“ اُس نے مدہم سی آوازمیں خودکلامی کی۔”اس کامطلب ہے کہ دودھ نشہ آورہوتاہے۔شایداُس میں خواب آورگولی ڈالی جاتی ہے۔“
    ” لیکن کیوں؟“ دماغ نے سوال کیا۔
    اس ” کیوں “ کا فی الفور اُس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔وہ دوبارہ سوچنے لگا۔ایک بارپھراُس کے دماغ میں روشنی سی لپکی اور پھراُس ”کیوں“ کا جواب بھی اُسے مل گیا۔”۔
    ہاں بالکل یہی بات ہے۔“ اُس نے پھرخودکلامی کی۔”یہ ثمینہ اورسلیم کی پلاننگ ہے۔وہ مجھے خواب آورگولی کھلاکریقیناً منہ کالا کرتے ہیں۔لیکن اب میں ایسا نہیں ہونے دوں گا۔بالکل نہیں ہونے دوں گا۔“
    کمرے میں زیروپاور بلب کی نیلگوں روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ساتھ والی ٹیبل پراُس کی رسٹ واچ اوربینائی کا چشمہ رکھا ہوا تھا۔اُس نے چشمہ لگاکروقت دیکھاتو رات کے بارہ بجنے والے تھے۔وہ بسترسے اُٹھا اوردبے پاﺅں چلتاہواکمرے سے باہر نکل گیا۔اُس کارُخ ثمینہ کی خواب گاہ کی طرف تھا۔جو طویل کاریڈورکے کارنرمیں واقع آخری کمرا تھا۔وہ دبے پاﺅں چلتا ہوا کمرے کے دروازے تک پہنچ گیا۔کمرے کے اندرسے دھیمی دھیمی آوازیں آرہی تھیں۔ان آوازوں میں ثمینہ کی ہنسی بھی شامل تھی۔ماسٹررشیدکا خون کھولنے لگااورپھراُس نے کمرے کے دروازے کوایک دم کھول دیا۔
    ثمینہ اورسلیم آنے والی افتاد سے بے خبربسترپرموجود بالکل عریاں حالت میں رنگ رلیاں منارہے تھے۔کہ معاًکمرے کا دروازہ کھلااور پھر” چِٹ“ کی آوازکے ساتھ ہی کمرادودھیاروشنی میں جگمگا اُٹھا۔سامنے موجود منظردیکھ کرماسٹررشیدپر سکتے کی سی کیفیت طاری ہو گئی۔اُس نے کبھی سپنے میں بھی نہیں سوچاتھا کہ کسی دن ایسا بے حیائی کاکھیل اُس کے گھرمیں کھیلاجائے گا۔چندلمحے تو اُس پرسکتے کی حالت طاری رہی۔اس کے بعدوہ دانت پیستے ہوئے بولا۔” بے حیا عورت!یہ میراگھر ہے جسے تم نے عیاشی کااڈا بنارکھا ہے۔ آج تجھے میں زندہ نہیں چھوڑوں گا۔“
    سلیم اورثمینہ اس دوران ناصرف تن ڈھانپ چکے تھے۔بلکہ اچانک لگنے والے جھٹکے سے بھی سنبھل چکے تھے۔چنانچہ اُسے جارحانہ اندازمیں ثمینہ کی طرف بڑھتے دیکھ کرسلیم نے فوراً مداخلت کی۔” رُک جاﺅ بڑے میاں!ورنہ جان سے جاﺅگے۔“سلیم نے ہاتھ میں پکڑاہواپستول لہرایا۔
    ” تم تم مجھ پرگولی چلاﺅگے۔“ وہ غصے سے کانپتی ہوئی آوازمیں بولا۔” اتنی ہمت ہے تجھ میں ؟“
    ” تم اگرمجبورکروگے توضرورچلاﺅں گا۔بہترہوگاکہ جو دیکھاہے اُسے خواب سمجھ کر بھول جاﺅ۔کسی سے ذکرکیاتو بے موت مارے جاﺅگے۔“ اُس نے دھمکی کے انداز میں جواب دیا۔
    وہ بولا۔”مجھے یقین نہیں آرہا کہ تم آستین کے سانپ نکلوگے اوریوں اپنے دوست کی عزت پہ ڈاکاڈالوگے؟ تم نے میرے بیٹے کے بھرم کاخون کیا ہے۔بہن اوربھائی کے مقدس رشتے کامذاق اُڑایا ہے۔تجھ پر اللہ کاقہرنازل ہوگا۔“
    ” بڑے میاں! تمہارے بیٹے کابھرم ہمیشہ مجھ پرقائم رہے گا۔“ اُس نے ڈھٹائی کامظاہرہ کرتے ہوئے قہقہہ لگایا۔ ” تاہم اب تم پرسے اُس کابھرم ضرور اُٹھ جائے گا۔“
    ” میں میں تجھے چھوڑوں گا نہیں تم نےتم نے“
    ” غصہ تمہاری صحت کے لیے مضرہے باباجی۔“اُس نے طنزیہ لہجے میں قطع کلامی کی۔” بقول تمہارے میں آستین کا سانپ ہوں اور سانپ کا کیابھروسا کسی کوبھی ڈس سکتا ہے۔تم تواپنی زندگی جی ہی چکے ہوکم سے کم اپنی جوان ہوتی بیٹیوں کاہی خیال کرلو۔تم کیا چاہتے ہو کہ وہ بے چاریاں کسی کومنہ دکھانے کے لائق بھی نہ رہیں؟ جاﺅ اور آرام سے سوجاﺅ،منہ بند رکھوگے تو فائدے میں رہوگے ورنہ بہت نقصان اُٹھاﺅگے۔“
    یہ کھلی دھمکی تھی۔گوکہ ماسٹررشیدموت سے نہیں ڈرتاتھا۔لیکن بیٹیوں کے خوف ناک انجام کے متعلق سوچ کروہ لرز اُٹھا۔سلیم کے اندازسے صاف ظاہرہورہاتھا کہ اگر اُس نے زبان بندنہ رکھی تو اس کاخمیازہ اُس کی بیٹیوں کوبھگتنا ہوگا۔چنانچہ بہتری اسی میں تھی کہ وہ اپنی زبان بندرکھتا۔اُس نے ایک نظراُن دونوں پرڈالی اورپھرہارے ہوئے جواری کی طرح کمرے سے باہر نکل گیا۔
    ماسٹررشید جونہی کمرے سے باہرنکلاتو ثمینہ نے رونا شروع کردیا۔سلیم نے کہا۔” یہ کیا حماقت ہے تم کیوں رورہی ہو؟“
    وہ بولی۔”روﺅں نہ تو اورکیا کروں؟ انکل ساری بات عاصم کو بتادے گا۔میں کسی کومنہ دکھانے کے لائق بھی نہیں رہوں گی۔“
    ” یہ تمہارا وہم ہے۔ایسا کچھ بھی نہیں ہوگا۔یقین کرووہ بڈھامرتامرجائے گامگریہ بات عاصم کونہیں بتائے گا۔“
    ” کیوں نہیں بتائے گا جب کہ سب کچھ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا ہے۔“
    وہ بولا۔” اس لیے کہ وہ ایک باپ ہے اور دنیا کا کوئی بھی باپ اپنی بیٹیوں کابُرانہیں چاہتا۔چاہے وہ اس بڈھے کی طرح پڑھا لکھا ہویاچٹااَن پڑھ۔“
    ” لیکن جب عاصم چھٹی پرآئے گاتوتب کیا ہوگا؟“ اُس نے دل میں چھپے خدشے کا اظہارکیا۔” تب تو یہ بڈھاچُپ نہیں رہے گاناں؟“
    ” اس کا حل بھی ہے میرے پاس۔“ وہ چہرے پرخباثت آمیزمسکراہٹ طاری کرتے ہوئے بولا۔” تم ایسا کرو ابھی عاصم کو کال کرو اور اُسے بتاﺅکہ اُس کے باپ نے تمہاری عزت پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔تھوڑی بہت رونے کی اداکاری بھی کرلیناتاکہ اُسے کسی قسم کا شبہ نہ رہے۔“
    ” نن نہیں یہ میں نہیں کرسکتی۔“ وہ ایک دم بوکھلاگئی۔”ایک سفید بالوں والے بزرگ پہ اتنا گھناﺅناالزام لگاناٹھیک نہیں ہے۔مجھ پراللہ کا قہرنازل ہوجائے گا۔“
    وہ بولا۔” تم اگراللہ کے قہرسے ڈرتی رہوگی توپھرعاصم کاقہرتم پرضرورٹوٹے گا۔پہلے اس قہر سے بچوبعدمیں توبہ کرلینا۔مرنے سے پہلے تک توبہ کے دروازے کھلے ہی رہتے ہیں۔“
    ہائے رے انسان کی خوش فہمی بچارہ۔ ساری زندگی توبہ کی اُمیدمیں گناہ پر گناہ کرتا چلاجاتاہے۔لیکن توبہ کی سعادت ہزاروں میں سے کسی ایک کوہی نصیب ہوتی ہے۔ ثمینہ بھی اُس وقت توبہ کی اُمیدمیں یہ گھناﺅنا گناہ کرنے پر تل گئی۔” ٹھیک ہے میں عاصم سے بات کرلیتی ہوں۔“وہ رضامندہوکربولی۔” مگراس وقت لندن میں نجانے ٹائم کیا ہوگا؟ کہیں ایسا نہ ہوکہ عاصم سو رہا“
    ” ٹائم کوگولی مارویار!“ اُس نے جھنجھلاکربات کاٹی۔” تم بس عاصم سے بات کرواور اُسے یقین دلاﺅ کہ اُس کے باپ نے واقعی تمہاری عزت تارتارکرنے کی مذموم کوشش کی ہے۔جب کہ تم نے بڑی مشکل سے اپنی عزت بچائی ہے اور یہ کہ اب تم اس گھرمیں رہنانہیں چاہتی ہوکیونکہ وہ دوبارہ بھی ایسی مذموم حرکت کرسکتا ہے اورہاں کال کرتے وقت فون کاسپیکرآن رکھنا۔“
    ” اوکے میں ٹرائی کرتی ہوں۔“ اُس نے ٹیبل پررکھا ہواسیل فون اُٹھایااور عاصم کا نمبرملادیا۔
    دوسری جانب سے عاصم کی ہیلوسنائی دی تووہ رونے لگ گئی ۔اندازایسا تھا کہ اداکاری کے بجائے حقیقت کا گمان ہوتا تھا۔لمحہ بھرکے لیے تو اُس کی اداکاری پر سلیم بھی حیران رہ گیا۔وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ثمینہ اتنی اچھی اداکارہ ہوگی۔
    عاصم نے پریشانی کے عالم میں پوچھا۔” ثمینہ!میری جان مجھے بتاﺅبات کیا ہے؟ یوں روکرمجھے تکلیف تو نہ دو۔“
    وہ روتے ہوئے بولی۔” تمہیں شایدیقین نہ آئے مگرمیں تمہیں پھربھی بتاﺅں گی۔دراصل دراصل بات“ جملہ اُدھوراچھوڑکروہ پھررونے لگی۔ یہاں تک کہ اُس کی ہچکی بندھ گئی۔
    عاصم نے پریشان ہوکرکہا۔” تمہارے آنسوگواہی دے رہے ہیں کہ تم سچی ہو۔پلیزاب بتادو کہ بات کیاہے؟“
    وہ بولی۔” انکل ۔انکل نے ابھی کچھ دیر قبل میری عزت پر ہاتھ ڈالاہےمم میں اب اس گھرمیں نہیں رہ سکتی ۔ مجھے اُس سے ڈرلگتا ہےوہ پھر کسی وقت بھی ایسی حرکت کرسکتا ہے۔“ اُس نے رک رک کربات پوری کی اورایک بارپھررونا شروع کردیا۔
    دوسری طرف سے عاصم چلارہاتھا۔” نہیں نہیں یہ جھوٹ ہےجھوٹ ہے کہہ دو کہ جھوٹ ہے۔ورنہ اتنے مقدس رشتے پرسے میرا اعتبار اُٹھ جائے گا۔“
    مگر وہ عاصم کی بات سننے کے بجائے روئے چلے جارہی تھی۔جب عاصم کوچلاتے ہوئے کافی دیرگزرگئی تو وہ بھرائی ہوئی آوازمیں بولی۔” اسی لیے تومیں تجھے بتانا نہیں چاہتی تھی کہ تم میرا اعتبارنہیں کروگے۔مگر عاصم! یہی سچ ہے۔تمہیں اگریقین نہیں آتاتومیں کوئی بھی قسم کھانے کوتیار ہوں۔“
    وہ بولا۔”میں میں کیسے یقین کرلوں کہ اباجی اس حد تک گرسکتے ہیں؟۔ثمینہ! خداکی قسم مجھے کچھ سجھائی نہیں دے رہا۔“
    ” تم اگرمجھ پرشک کررہے ہوتوپھر میرے پاس اپنی سچائی ثابت کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے۔وہ یہ کہ میں ابھی اسی وقت خودکُشی کرلیتی ہوں۔“ اُس نے روتے ہوئے جواب دیا۔
    ” نہیں ثمینہ نہیں۔“ وہ چلایا۔” تم ایسا کچھ بھی نہیں کروگی۔تجھے میری قسم بولوکہ تم دوبارہ اپنی جان لینے کی بات نہیں کروگی۔“
    ” بے عزت ہوکرجینے سے بہتر ہے کہ میں عزت کے ساتھ اپنی جان دے دوں۔“
    ” نن نہیں مجھے تم پراعتبار ہے۔“ اُس نے بوکھلاکرجواب دیا۔” تم صبح ہوتے ہی اپنے گھرچلی جانا۔اس ماسٹررشیدسے میں خودنمٹ لوں گا۔“ نفرت کی شدت سے عاصم نے اُسے اباجی کہنابھی گوارانہیں کیاتھا۔
    ”ٹھیک ہے میں صبح ہوتے ہی یہاں سے نکل جاﺅں گی۔“
    اس کے بعد عاصم نے چندمنٹ اِدھراُدھرکی باتیں کیں اور پھر رابطہ منقطع کردیا۔
    ” یہ ہوئی ناں بات کمال کی ایکٹنگ کی ہے تم نے۔اب ہوگی باپ بیٹے کی جنگ۔“سلیم نے ثمینہ کوداددیتے ہوئے ہنس کر کہا۔” آﺅاب یہاں رکنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔میرے فلیٹ پرچلتے ہیں۔وہیں سے صبح کے وقت تم اپنے گھرچلی جانا۔“
    ” چلو۔“ ثمینہ مسکرائی۔” تمہارافلیٹ ٹھیک رہے گا۔یہاں تو بڈھے نے سارامزاکرکراکردیا۔“
    صبح ماسٹررشیداور اُس کے گھروالے جاگے تو ثمینہ غائب تھی۔سبھی گھروالے پریشان ہوگئے مگرماسٹررشید مطمئن تھا۔وہ یوں ظاہرکررہاتھا کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ ناشتے کی میزپرخدیجہ بیگم چندلمحے تو اُسے گھورتی رہی۔پھربولی۔”آپ تو ایسے مطمئن بیٹھے ہیں جیسے ہماری لاٹری نکل آئی ہو؟ کوئی پروا ہی نہیں ہے آپ کو بہو کے غائب ہونے کی۔“
    وہ بولا۔” تم اُس کی فکرمت کرو،مجھے معلوم ہے کہ اس وقت وہ کہاں ہوگی اورکیا کررہی ہوگی؟“
    ” آپ کادماغ تو ٹھیک ہے۔آپ کوکیسے پتاچلا کہ ثمینہ“
    ” ناشتاکرو بیگم۔“اُس نے سپاٹ لہجے میں قطع کلامی کرتے ہوئے کہا۔” عقل مند کے لیے اشارہ کافی ہوتا ہے۔“
    جواب میں خدیجہ بیگم اُسے محض گھورکر رہ گئی۔ناشتا کرنے کے بعد بچے سکول و کالج روانہ ہو گئے۔جب کہ اُن کی بڑی بیٹی فرحانہ برتن سمیٹ کرکچن کی طرف چل دی۔ اب ناشتے کی ٹیبل پروہ میاں بیوی تنہا رہ گئے۔
    ” اب بتاﺅ بات کیا ہے؟“ خدیجہ بیگم نے سوال کیا۔
    وہ بولا۔” ہماری بہو ایک بدکاراور بد چلن عورت ہے۔گذشتہ رات میں نے اُسے سلیم کے ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑا ہے۔مجھے لگتا ہے کہ وہ صبح سویرے ہی اپنے میکے کی طرف بھاگ گئی ہے۔“
    ” یہ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ سلیم تو اُس کا بھائی ہے؟“ خدیجہ بیگم کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔” مم مجھے تو یقین ہی نہیں آرہا کہ سلیم اور ثمینہ اس طرح کی گھناﺅنی حرکت نہیں بھئی نہیں آپ کو کوئی غلط فہمی ہو گئی ہے۔ میں کیسے یقین کرلوں کہ آپ سچ کہہ رہے ہیں؟“
    ” تم احمق کی احمق ہی رہوگی۔“وہ طیش میں آکربولااورپھرگزشتہ رات والا واقعہ بغیرکسی لگی لپٹی کے اُسے سنادیا۔
    ” ارے تو پھرفوراًعاصم سے بات کرو ناں؟“ اُس نے پریشانی کے عالم میں سوال کیا۔
    ” نن نہیں۔“ ماسٹرنے نفی میں سرہلایا۔” اگر میں نے عاصم کو کچھ بتایا تو سلیم ہماری بیٹیوں کادشمن بن جائے گا۔جب تک عاصم چھٹی نہیں آجاتاتب تک ہمیں اس راز کو راز ہی رکھنا ہوگا۔“
    وہ بولی۔” آپ اگراسی طرح ڈرتے رہے تو وہ ڈائن وارکر جائے گی۔میری مانو تو ابھی عاصم کوکال کرکے ساری بات بتادو۔اللہ مالک ہے جو ہوگا دیکھا جائے گا۔“
    ” قطعی نہیں،سلیم بہت خطرناک آدمی ہے۔میں نہیں چاہتاکہ وہ ہماری بیٹیوں کوکسی قسم کا نقصان پہنچائے۔“
    ”آپ سمجھتے کیوں نہیں؟“ وہ جھنجھلاگئی۔”یہ بہت نازک معاملہ ہے۔آپ کی خاموشی آپ کو مجرم بنادے گی۔اس سے پہلے کہ وہ ڈائن عاصم سے بات کرکے اُس کے کان بھرے، آپ خودہی عاصم کوساری سچائی بتادیں۔“
    بیوی کی بات دل کو لگتی تھی۔اُس نے لمحہ بھر کے لیے سوچااورپھر بولا۔”تم ٹھیک کہتی ہومیں ابھی اپنے کمرے میں جاکرعاصم سے بات کرتا ہوں۔“وہ اُٹھا اور اپنے کمرے کی طرف چل دیا۔
    اُس کا سیل فون بسترکے ساتھ والے ٹیبل پررکھا تھا۔اُس نے سیل فون اُٹھایااورعاصم کانمبرملادیا۔چوتھی بیل کے بعد عاصم کی خمارآلود ہیلو سنائی دی تووہ بولا۔” بیٹے! میں تمہاراابوبات کررہاہوں۔دراصل مجھے تم سے ایک بہت ہی سیریس مسئلہ ڈسکس“
    ”مرگیا آپ کا بیٹا۔“ عاصم نے نفرت انگیزلہجے میں قطع کلامی کی۔”آئندہ مجھے کال مت کرنا۔ورنہ میں کوئی گستاخی کربیٹھوں گا۔“
    بیٹے کا لہجہ اور لفظ بتارہے تھے کہ بازی اُس کے ہاتھ سے نکل گئی ہے۔تاہم اُس نے بھرائی ہوئی آوازمیں کہا۔” بیٹے!مجھے نہیں معلوم کہ تم سے کیا کہا گیا ہے اورکس نے کہا ہے۔مگرخدا جانتا ہے کہ“
    ” میں نے کہہ دیا ہے ناں!کہ مجھے کچھ نہیں سننا۔“ عاصم نے دوبارہ بات کاٹی۔”پھر آپ کیوں اور کس لیے اپنی صفائی پیش کرنا چاہتے ہیں؟ آپ نے تو مجھے منہ دکھانے کے لائق بھی نہیں چھوڑا۔ثمینہ آپ کی بہو ہے اوربہو بیٹی کی طرح ہوتی ہے۔لیکن آپ نے اس مقدس رشتے کوپامال کرکے رکھ دیا ہے۔“
    ” یہ تم کک کیاکہہ رہےہو؟“ عاصم کی بات سن کراُسے یوں لگا جیسے کسی نے اُسے سرِبازار ننگا کردیاہو، اُس کی زبان جیسے گنگ ہو کر رہ گئی۔بولنے کے لیے اب کچھ بچاہی نہیں تھا۔فون ہاتھ میں لیے وہ یوں ساکت وجامدتھا۔جیسے کوئی سنگی مجسمہ ہو۔دوسری طرف سے عاصم کب کاکال منقطع کرچکا تھا۔مگروہ بدستور فون کان سے لگائے ہوئے تھا۔ایسے ہی بیٹھے بیٹھے اُسے بہت سی دیرگزرگئی تووہ اُٹھا،ٹیبل کی درازسے ایک نوٹ بک نکالی اورکچھ لکھنے لگا۔
    ابھی اس واقعے کو ہوئے چنددن ہی گزرے تھے کہ ایک روزاچانک عاصم کو سلیم کی طرف سے کال موصول ہوئی۔” عاصم میرے دوست!تم پہلی فرصت میں چھٹی لے کرپاکستان پہنچ جاﺅ۔“ سلیم نے بھرائی ہوئی آوازمیں بتایا۔
    ” مگرکیوں سلیم؟“ اُس نے حیرانی اور پریشانی کی ملی جلی کیفیت میں سوال کیا۔” مجھے بتاﺅ ہواکیا ہے۔اور اور یہ تم روکیوں رہے ہو، خیرتوہے ناں؟“
    ” کچھ بھی نہیں بچا یار۔“ سلیم نے پھوٹ پھوٹ کررونا شروع کردیا۔
    ” سلیم سلیم“ وہ چلایا۔”خدا کے لیے مجھے بتاﺅ ہواکیا ہے؟“
    ” وہوہ انکل آنٹی تمہاری بہنیں بھائی اوربھانجےسب کے سب مم ماما“بات ادھوری چھوڑکراُس نے دوباہ روناشروع کردیا۔شایدشدتِ غم سے وہ بول ہی نہیں پارہا تھا۔
    عاصم کے منہ سے ” نہیں“ کی آواز چیخ کی صورت برآمد ہوئی اورپھروہ جیسے پتھرکابن کررہ گیا۔سیل فون اُس کے ہاتھ سے چھوٹ کردبیزقالین پرگرگیا۔چندلمحے تو اُس پرسکتے کی سی کیفیت طاری رہی ۔اس کے بعدوہ پھوٹ پھوٹ کرروتے ہوئے گھٹنوں کے بل قالین پربیٹھ گیا۔” نہیں نہیں یہ نہیں ہوسکتا۔“ وہ روتے روتے چیخ کرکہتا اور پھررونے لگتا۔دوسری طرف سیل فون سے سلیم کی ہلکی ہلکی ” ہیلو، ہیلو“ کی آوازسنائی دے رہی تھی۔مگر عاصم اپنے ہوش وحواس میں ہوتا تو سیل فون کی طرف متوجہ ہوتا۔آخرکا سلیم نے نااُمید ہوکرکال ڈس کنکٹ کردی۔
    عاصم نجانے کتنی ہی دیراسی کیفیت میں بیٹھا رہا۔روتے روتے اُس کی آنکھوں کاپانی خشک ہوگیا۔مگروہ پھربھی رورہاتھا۔اچانک اُس کا سیل فون بجنے لگا۔اُس نے بادل نخواستہ سیل فون اُٹھاکردیکھاتواسکرین پرسلیم کانام جھلملارہاتھا۔کال ریسیوکرنے کواُس کادل نہیں چاہ رہاتھا۔لیکن پھراُس نے کال ریسیوکرلی۔تب سلیم نے اس اندوہ ناک واقعے کے بارے میں اُسے ساری تفصیل بتادی۔سلیم کے مطابق یہ ڈکیتی کی واردات تھی۔مگرعاصم کویقین آرہاتھا۔
    ” ڈاکوﺅں کی بچوں کے ساتھ کیا دشمنی تھی؟“ تفصیل سننے کے بعداُس نے غمزدہ اندازمیں پوچھا۔”اوراور میری معصوم بہنوں کاکیاقصور تھا؟ مزاحمت تو غالباً میرے بھائی اورباپ نے کی ہوگی؟“
    سلیم نے کہا۔”اس بارے میں،میں کیاکہہ سکتا ہوں میرے بھائی!تم بس چھٹی لے کرپہنچ جاﺅ، اُن کی تجہیزوتکفین بھی توکرنی ہے ناں؟“
    ” مم میں اُن سب کومُردہ کیسے دیکھوں گا۔“ وہ پھررودیا۔”اُن کی زندہ صورتیں میرے ذہن میں محفوظ رہنے دے سلیم!مم میں برداشت نہیں کرسکوں گا یار تم ہی اُنھیں قبروں میں اُتاردو۔“
    ” یہ دیناداری کے تقاضے ہیں میرے دوست!تمہیں باپ اورماں کے جنازے کو کندھادیناہی پڑے گا۔اورثمینہ بھی توتیری راہ دیکھ رہی ہے۔“
    سلیم کافی دیر تک اُسے سمجھاتارہا۔آخرکاراُسے سلیم کی بات ماننا ہی پڑی اوروہ دو ماہ کی چھٹی لے کروطن واپس آگیا۔
    معاًگاڑی کے ٹائرزچیخے،اُسے ایک جھٹکالگااور وہ ماضی سے نکل کرحال میں پہنچ گیا۔گاڑی رک چکی تھی ۔اُس نے سامنے دیکھاتوگاڑی کے آگے سے بھینسیں روڈکراس کررہی تھیں۔
    سلیم نے جھنجھلاکرکہا۔”پتانہیں اس ملک کے لوگوں کوکب عقل آئے گی اورکب یہ سڑکوں کے کنارے مویشی چراناچھوڑیں گے؟“
    جواب میں وہ خاموش رہا۔سلیم نے روڈخالی ہوتے ہی گاڑی آگے بڑھادی۔لگ بھگ وہ تین گھنٹوں کے اندرگھرپہنچ گئے۔جہاں ایک ساتھ نو میتیں عاصم کی منتظر تھیں لاشوں کاپوسٹ مارٹم ہو چکاتھا۔گھرمیں عاصم کے تقریباً دورونزدیک کے تمام رشتے دارموجودتھے۔وہ ایک ایک میت سے لپٹ کرروتا رہا۔دوست رشتے داراُسے سچی جھوٹی تسلیاں دیتے رہے۔مگرآج ہرتسلی اُس کے غم کی شدت کم کرنے میں ناکام رہی تھی۔تھوڑی دیرکے بعدجنازے اُٹھائے گئے تو وہ لوگوں کے ہجوم کے ساتھ قبرستان کی طرف روانہ ہو گیا۔جنازے پڑھے گئے اورپھراُس کی آنکھوں کے سامنے ہی اُس کے سارے گھروالوں کوزمین میں اُتاردیاگیا۔قبرستان سے فارغ ہوکرجونہی وہ لوگوں کے ساتھ اپنے گھر تک پہنچاتوگیٹ کے سامنے ہی ایک پولیس وین موجودتھی۔۔
    پولیس انسپکٹرایک چھریرے بدن والا خوب صورت سا نوجوان تھا۔جس کی آنکھوں سے ذہانت چھلکتی تھی۔سب سے پہلے اُس نے پولیس والوں کے روایتی اندازسے ہٹ کرعاصم سے اظہارِ تعزیت کیااورپھرشائستہ اندازمیں بولا۔” گوکہ آپ سے سوال وجواب کرنامجھے بہت معیوب محسوس ہورہا ہے۔مگرمیں اپنی پروفیشنل ذمہ داری سے مجبور ہوں ورنہ یہ موقع ایسی گفت گوکے لیے نہایت نامناسب ہے۔مجھے اُمیدہے کہ آپ میری مجبوری کوسمجھتے ہوئے مائنڈنہیں کریں گے؟“
    وہ بھرائی ہوئی آوازمیں بولا۔” انسپکٹرصاحب!مجھے اب کچھ بھی اچھا بُرانہیں لگتا۔آپ کوجوکچھ بھی پوچھناہے بلاجھجک ہوکرپوچھیں۔ویسے آپ کومعلوم ہی ہوگا کہ میں ملک سے باہررہتا ہوں۔“
    ” مجھے آپ انسپکٹرشیردل کے نام سے پکارسکتے ہیں۔“ وہ کیپ اُتارکرسامنے پڑے ٹیبل پررکھتے ہوئے بولا۔” میرے سینے پہ لگی نیم پلیٹ توآپ نے پڑھ ہی لی ہوگی۔“
    ” پڑھ چکاہوں۔“ اُس نے اثبات میں سرہلایا۔”آپ سوال کیجیے؟“
    ” سلیم سے آپ کاکیارشتہ ہے؟“ انسپکٹرنے پہلاسوال کیا۔
    وہ بولا۔” سلیم میرے لیے ایک بھائی کی طرح ہے۔اگرآپ کواُس پرکسی قسم کاشک ہے توپھرآپ کی تفتیش غلط رخ پرجارہی ہے۔“
    ”یعنی بھائی کی طرح ہے۔مگربھائی نہیں ہے؟آپ کے کہنے کایہی مطلب ہے ناں؟“ انسپکٹرنے اُس کی بات کویکسرنظراندازکردیا۔
    ”ہاں۔“ اُس نے اثبات میں سرہلایا۔” میرااُس سے کوئی رشتہ نہیں ہے۔لیکن مجھے اُس پرکسی قسم کابھی شک نہیں ہے۔اُس نے بے شماراحسانات کیے ہیں مجھ پر۔آج میں جوکچھ بھی ہوں سلیم ہی کے دم سے ہوں۔“
    ” میں نے ابھی تک اُس پرکسی قسم کابھی شک نہیں کیا۔تاہم میں اُس سے چندسوالات ضرورکرنا چاہوں گا۔“
    ” سوری انسپکٹرصاحب!میں اس کی اجازت نہیں دے سکتا۔“ اُس نے نفی میں سرہلایا۔
    ” آپ سے کس نے اجازت مانگی ہے؟“ انسپکٹرمسکرایا۔”یہ تومیری ڈیوٹی ہے جوبہرصورت مجھے سرانجام دینی ہے۔آپ چاہیں بھی تو مجھے اس اقدام سے نہیں روک سکتے۔کیونکہ یہ کارِسرکارہے اورکارِسرکارمیں آپ توکیاکوئی بھی رکاوٹ نہیں ڈال سکتا۔“
    ” یہ تو آپ زیادتی کررہے ہیں انسپکٹرصاحب۔“ اُس نے احتجاج کیا۔” سلیم میرادوست ہے اور مجھے اپنی جان سے بھی پیاراہے۔میں اُس کی بے عزتی کسی صورت میں بھی برداشت نہیں کروں گا۔“
    ” مسٹرعاصم!میں ایک پولیس والاہوں اورہمارے سینے میں موجوددل احساسات وجذبات سے قطعی عاری ہوتاہے۔آپ شایدنہیں جانتے کہ صوبائی حکومت نے یہ کیس دس روزکے اندرنمٹانے کا حکم دیاہے۔میں آپ کے جذبات کی قدرکرتاہوں مگرسوری میں آپ کے جذبات کواپنی تفتیش کے رستے میں حائل ہونے کی اجازت نہیں دے سکتا۔بے شک وہ آپ کاانتہائی عزیزدوست ہے ۔لیکن بدقسمتی سے وہ میرے شک کی زدمیں آتاہے۔مجھے آپ کی بیوی ثمینہ اورسلیم دونوں سے پوچھ تاچھ کرنی ہے۔“
    ” مطلب آپ مجھے رسواکرنے پہ تلے ہوئے ہیں؟“
    ” آپ اگر ایسا سمجھتے ہیں توپھرمیں کیاکہہ سکتا ہوں۔“
    ” اوکے۔“ عاصم نے اثبات میں سرہلایا۔” میں اُنھیں بلاتاہوں آپ اپنایہ شوق بھی پوراکرلیجیے۔“
    وہ بولا۔” شوق اورڈیوٹی دو الگ الگ افعال ہیں مسٹرعاصم اورڈیوٹی کوسرانجام دینا میراشوق نہیں بلکہ جنون ہے۔“
    ” توٹھیک ہے آپ اپناجنون پوراکرلیجیے۔“
    ” یہاں نہیں میں اُنھیں پولیس اسٹیشن لے کرجاﺅں گا۔“ انسپکٹرشیردل نے جواب دیا۔
    ” نو نو۔“ وہ بوکھلاکرکھڑاہوگیا۔” میں یہ قطعی نہیں ہونے دوں گا۔یہ بہت غلط بات ہوگی۔“
    ” آپ اگرتعاون نہیں کریں گے تویقینا مجھے اُنھیں گرفتارکرناپڑے گا۔“
    ” یہی ایک تو خامی ہے ہمارے محکمہ پولیس کی کہ مقتول کے ورثاءکوبھی تفتیش میں شامل کرلیتی ہے۔اسی لیے توشرفاءتھانوں کارُخ نہیں کرتے۔“
    وہ بولا۔” دیکھیے مسٹرعاصم!آپ جب تک یہ جذبات کاچشمہ آنکھوں سے اُتارنہیں دیتے تب تک آپ محکمہ پولیس کی مجبوری کونہیں سمجھ سکتے۔ہماری تفتیش ہمیشہ شک سے شروع ہوکریقین تک پہنچتی ہے۔“
    ” یعنی آپ اپنی من مانی کرکے ہی رہیں گے؟“
    ” من مانی نہیں فرض پوراکروں گا۔گڈبائے مسٹرعاصم۔“ اُس نے کیپ اُٹھاکرسرپررکھی اورعاصم سے ہاتھ ملاکررخصت ہوگیا۔
    پولیس اُسی روزسلیم اورثمینہ کوشک کی بنیادپرساتھ لے گئی۔جب کہ عاصم نے اُنھیں چھڑانے کی تگ ودوشروع کردی۔وہ پولیس کے افسران بالا سے ملا مگرکوئی بھی اس معاملے میں اُس کی مدد کرنے پرراضی نہ ہوا۔وجہ یہ تھی کہ اُن میں سے کوئی بھی پولیس افیسرانسپکٹرشیردل سے بگاڑنانہیں چاہتاتھا۔
    دوسرا انسپکٹرشیردل کو صوبائی حکومت کی بھی مکمل سپورٹ حاصل تھی۔ایسی صورتِ حال میں کوئی افسربالاکیسے راضی ہوسکتاتھا؟ چنانچہ ہرآفس سے عاصم کوایک ہی جواب ملا اور وہ تھا” سوری“ تھک ہارکروہ گھرلوٹ آیا جہاں اُس کے چندقریبی رشتہ دارٹھہرے ہوئے تھے۔
    انسپکٹرشیردل کااپنا ایک مخصوص اسٹائل تھا تفتیش کرنے کا۔وہ ہمیشہ مجرم کوجسمانی کی بجائے نفسیاتی ٹارچرکرنے کا قائل تھا۔چنانچہ سب سے پہلے اُس نے ثمینہ کو بلایااور شائستہ اندازمیں بولا۔”ثمینہ بی بی!گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔میں اُن پولیس والوں میں سے نہیں ہوں۔جو بلاوجہ مجرم کوٹارچرکرنے کے شوقین ہوتے ہیں۔آپ اگر سچ بولیں گی تومیں وعدہ کرتاہوں کہ میری طرف سے آپ کوکسی قسم کی تکلیف نہیں پہنچے گی۔“
    وہ بولی۔” انسپکٹرصاحب!سب سے پہلی بات تویہ ہے کہ میں مجرم نہیں ہوں۔جب کہ آپ مجھے مجرم کہہ چکے ہیں اور رہ گئی سچ بولنے والی بات تومیں بھلاکیوں جھوٹ بولوں گی۔کیامرنے والے میرے کچھ نہیں لگتے تھے؟“
    ” سوری آپ شاید میری بات سمجھ ہی نہیں سکیں۔مجرم کا لفظ میں نے آپ کے لیے استعمال نہیں کیا۔بلکہ ویسے ہی بطورمحاورہ بولا ہے۔“
    ” اٹس اوکے۔“ اُس نے سرہلایا۔” پوچھیے کیا پوچھنا چاہتے ہیں آپ؟“
    ” وقوعہ کی رات آپ کہاں تھیں؟“ انسپکٹرشیردل نے اُس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے سوال کیا۔
    گھر پر تھی۔؟
    کون سے گھرمیں میکہ گھریا“۔
    ” ظاہرہے میکہ گھرمیں تھی ورنہ آج یہاں آپ کے سامنے نہ بیٹھی ہوتی۔“ اُس نے قطع کلامی کرتے ہوئے جواب دیا۔
    انسپکٹرنے اثبات میں سرہلایااورپھراگلاسوال کیا۔”کیا یہ محض اتفاق ہے کہ آپ وقوعہ کی رات اپنے میکہ گھرمیں تھیں یاپھر“
    ” دیکھیے انسپکٹرصاحب۔“ اُس نے دوبارہ قطع کلامی کی۔”پلیزآپ یوں گھما پھراکرسوال مت کریں۔جو پوچھنا ہے صاف صاف الفاظ میں پوچھیں۔“
    اُس کے اندازمیں اُلجھن تھی۔چنانچہ انسپکٹرچوکنا ہوکربولا۔”بی بی!نو جیتے جاگتے بے گناہ انسان قتل ہوئے ہیں اورپولیس کی تفتیش ہمیشہ گھرسے ہی شروع ہوتی ہے۔ آپ کی بے زاری دیکھ کرلگتاہے کہ آپ کچھ جانتی ہیں ۔مگربتانانہیں چاہتیں۔“
    ” یہ وہم ہے آپ کا۔میں اگرکچھ جانتی تو ضروربتاتی۔مجھے بھلا کچھ چھپانے کی کیا ضرورت ہے؟“
    ”اوکےتو یہ بتائیں کہ یہ سلیم آپ کاکیالگتاہے؟“
    ” بھائی ہے۔“ اُس نے مختصرساجواب دیا۔
    انسپکٹر بولا۔” جہاں تک مجھے معلوم ہے توآپ کاکوئی بھائی نہیں ہے۔توپھریہ سلیم شایدآپ کاکوئی کزن وغیرہ ہوگا؟“
    ” وہ میرامنہ بولا بھائی ہے۔“
    ” یعنی آپ کااُس سے کوئی رشتہ نہیں ہے؟“ انسپکٹرنے پُرجوش اندازمیں پوچھا۔
    ”کیامنہ بولارشتہ آپ کے نزدیک رشتہ نہیں ہے؟“
    منہ بھولے رشتون پر ہم وشواس نہین رکھتے ساتھ ہی انسپکٹرنےاب ہوامیں تیرچلاتے ہوئے کہا۔” لیکن آپ کے پڑوسی وغیرہ توآپ دونوں کے اس رشتے کوشک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں؟“
    ” مم میں سمجھی نہیں آپ کہناکیاچاہتے ہیں؟“ وہ پل بھرکے لیے بوکھلاگئی۔
    ” یہی کہ آپ کے اورسلیم کے درمیان کوئی چکروغیرہ چل رہاہے۔جسے آپ کے مقتول سسرپسند نہیں کرتے تھے۔اُن کااورسلیم کا ایک بارجھگڑابھی ہواتھا۔کیا یہ سچ ہے؟“
    ” بکواس کرتے ہیں ہمارے پڑوسی۔“ وہ ایک دم بھڑک اُٹھی۔” دراصل وہ ہمیں آگے بڑھتادیکھ کرحسداورجلن کاشکارہوگئے ہیں۔اس لیے مجھ پراُلٹے سیدھے الزام لگاتے رہتے ہیں۔“
    ” میں سمجھانہیں حسداورجلن سے آپ کی کیامراد ہے؟“
    وہ بولی۔” دراصل میرے شوہرعاصم کوسلیم نے ملک سے باہربھجوایا ہے۔سلیم نہ صرف میرامنہ بولابھائی ہے بلکہ عاصم کابھی قریبی دوست ہے۔ہمارے اس رشتے کے متعلق میرے شوہرکوبھی اچھی طرح معلوم ہے۔لیکن لوگوں سے ہماری ترقی ہضم نہ ہوسکی ۔اس لیے وہ میرے اور سلیم کے رشتے کوغلط رنگ دینے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔“
    ” یعنی آپ کے سسراورسلیم کے درمیان کوئی جھگڑانہیں ہواتھا؟“
    ” بالکل بھی نہیں۔“ اُس نے نفی میں سرہلایا۔” بلکہ میرے سسرمرحوم تو سلیم کواپنے بیٹوں کی طرح چاہتے تھے۔“
    ” مطلب وہ آپ دونوں کے اس رشتے سے خوش تھے؟“
    ” بلاشک وشبہ خوش تھے۔“اُس نے جواب دیا۔
    ” اوکے۔“ انسپکٹرنے اثبات میں سرہلایااور پھرایک لیڈی کانسٹیبل کو بلاکرکہا۔” اس بی بی جی کو لے جاﺅ اور اس کے آرام کاخصوصی خیال رکھناہے۔مجھے شکایت کا موقع نہیں ملناچاہیے۔“
    ”ڈونٹ وری سر۔“ خرانٹ سی لیڈی کانسٹیبل ذومعنی اندازمیں ہنستے ہوئے بولی۔” میں آپ کی توقع بھی زیادہ اس بی بی جی کاخیال رکھوں گی۔“
    اُن دونوں کے جانے کے بعدانسپکٹرنے سلیم کو طلب کرلیا۔سلیم ایک کانسٹیبل کی معیت میں اندرداخل ہوااور سلام کرنے کے بعدجواب طلب نظروں سے انسپکٹرکی طرف دیکھنے لگا۔
    ” تشریف رکھیے۔“ انسپکٹرنے کرسی کی اشارہ کیااورپھرکانسٹیبل کودوبہترین چائے لانے کاکہہ دیا۔
    ” ہاں تومسٹرسلیم!کیاخیال ہے،سوالات کاآغازکیاجائے؟“انسپکٹرنے مسکراکرپوچھا۔
    ” کیوں نہیں جناب!یہ توآپ کی ڈیوٹی ہے۔آپ پوچھیں مجھے جوکچھ بھی معلوم ہوگا میں بلاجھجک بتاﺅں گا۔“
    ” اوکے تو یہ بتائیے کہ آپ کی اورعاصم کی دوستی کس طرح اور کیسے ہوئی؟“
    ” بس ویسے ہی ہوگئی جس طرح سب کی ہوتی ہے۔“
    ” یہ میرے سوال کاجواب تو نہ ہوا۔“ انسپکٹرمعترض ہوا۔
    ” ٹھیک ہے میں آپ کوساری کہانی سنادیتا ہوں۔“ اُس نے اثبات میں سرہلاتے ہوئے کہا اورپھرانکل نذیرکے جنرل اسٹورمیں پیش آنے والا واقعہ انسپکٹرکے سامنے بغیرکسی لگی لپٹی کے بیان کردیا۔
    جب وہ واقعہ سنارہاتھاتو اُس دوران کانسٹیبل چائے کے دوگرماگرم کپ انسپکٹرکی ٹیبل پررکھ گیاتھا۔انسپکٹرنے ایک کپ اُس کی طرف کھسکادیاجب کہ دوسراکپ خود اُٹھا لیا۔” ۔
    ہاں تومسٹرسلیم!“ وہ چائے کی چسکی لیتے ہوئے بولا۔” میں نے سناہے کہ عاصم کے والدمقتول رشید احمدآپ کوپسند نہیں کرتے تھے۔کیا یہ سچ ہے؟ اگرآپ نے جھوٹ بولا تو یقیناآپ پھنس جائیں گے۔اس لیے جواب سوچ سمجھ کردینا۔“
    سوال سن کرلمحہ بھرکے لیے وہ کش مکش کا شکارہوگیا۔مگر چہرے کے تاثرات سے اُس نے انسپکٹرکوپتانہ چلنے دیا۔ویسے بھی وہ مضبوط اعصاب کامالک تھا۔چنانچہ ایک لمحہ سوچنے کے بعدوہ بولا۔” ہاں انکل رشید واقعی مجھے پسندنہیں کرتے تھے۔“
    ” گڈآپ نے سچ بول کرایک معزز شہری ہونے کا ثبوت دیاہے۔“انسپکٹرنے توصیفی اندازمیں کہا۔” اب ذرایہ بھی بتادیجیے کہ آپ دونوں کے بیچ جھگڑاکس بات پر ہواتھا؟“
    ” وہ جی بس ایک عام سی گھریلو بات تھی۔آپ جان کرکیاکریں گے؟“
    ”دیکھیے مسٹرسلیم!یہ کوئی عام سا معاملہ نہیں ہے۔نو انسانوں کو بڑی بے رحمی کے ساتھ قتل کیا گیاہے۔آپ اگرسب کچھ ہمیں نہیں بتائیں گے توپھرہم قاتلوں تک کیسے پہنچیں گے؟آپ کو ہمارے ساتھ مکمل تعاون کرناپڑے گا۔یہی آپ کے حق میں بہترہوگا۔“
    ” وہ جی دراصل میں ثمینہ کے لیے ایک تحفہ لے کرگیاتھا۔جس پرانکل رشیدکوغصہ آگیا تھا اورپھرہم دونوں کے بیچ تُو تُومیں میں ہوگئی۔مگریہ تو بہت پُرانی بات ہے۔“
    انسپکٹرنے کہا۔” لیکن میں نے تو کچھ اور سنا ہے؟“
    ” وہ وہ کیا جی؟“ اُس نے حیرت اورپریشانی کی ملی جلی کیفیت میں سوال کیا۔
    ” یہی کہ وقوعہ سے چندروزقبل بھی آپ دونوں کے بیچ کسی بات پرجھگڑاہواتھا؟“انسپکٹرنے ہوامیں تیرچلایا۔
    ” نن نہیں جی آپ کوکیساپتا؟“ غیرارادی طورپراُس کے منہ سے نکلاتوانسپکٹرشیردل معنی خیزاندازمیں مسکرادیا۔
    ” مسٹرسلیم!“ معاً انسپکٹر بدلے ہوئے لہجے میں بولا۔”میں تمہاری زبان سے صرف سچ سننا چاہتا ہوں۔“ اس باراُس نے اُسے ”آپ“ کہنابھی گوارا نہیں کیا تھا۔” بہتر ہوگا کہ خودہی سچ بول دوورنہ منہ کھلوانے کے میرے پاس اور بھی طریقے ہیں۔“
    ”مم میں کچھ نہیں جانتا جی۔“ اُس نے نفی میں سرہلاتے ہوئے جواب دیا۔
    ” اوکےاس کامطلب ہے کہ تم سیدھی طرح نہیں مانوگے۔مجھے کچھ اور سوچناپڑے گا۔“
    ” جب میں نے کچھ کیاہی نہیں توپھرمجھے ڈرنے کی کیاضرورت ہے؟“ اُس نے ہمت کامظاہرہ کیا۔
    ” واقعی تجھے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔“ انسپکٹرمعنی خیزاندازمیں مسکرایا۔” اوکے اب تجھ سے کل صبح ملاقات ہوگی۔“
    اس کے بعداُس نے کانسٹیبل کوآوازلگائی تو وہ فوراً حاضرہو گیا۔” حکم سر۔“ کانسٹیبل نے سلیوٹ کیا۔
    ” اسے لے جاکرحوالات میں بندکردو اور حوالدارالطاف سے کہوکہ اُسے صاحب بلارہے ہیں۔“ انسپکٹرنے حکم دیا۔
    ” بہت بہتر جناب۔“ کہتے ہوئے کانسٹیبل سلیم کوساتھ لے کرباہرنکل گیا۔جب کہ انسپکٹرشیردل سامنے رکھی فائل کی طرف متوجہ ہوگیا۔
    چندلمحوں کے بعد ایک موٹاتازہ حوالدار اجازت لے کراندرداخل ہوا اور انسپکٹرکوسلام کرتے ہوئے بولا۔” حوالدارالطاف حاضرہے جناب !حکم کیجیے۔“
    انسپکٹرنے کہا۔” الطاف!آج رات یوں سمجھوکہ تمہارا امتحان ہے۔تم نے اس حوالاتی کورات بھرپلک بھی نہیں جھپکنے دینی۔لیڈی کانسٹیبل فرزانہ کوبھی بتادو کہ اُس نے ثمینہ کونہیں سونے دینا۔“
    ” بے فکررہیے جناب!ایسا ہی ہوگا۔“حوالدارنے فرماں برداری سے جواب دیاتوانسپکٹرنے اُسے جانے کااشارہ کردیا۔
    دوسرے روز صبح سویرے ناشتے سے فارغ ہونے کے بعد وہ آفس جانے کی تیاری کررہاتھاکہ ایسے وقت گھریلوملازم نے آکراُسے بتایا۔” جناب!کوئی عاصم نامی شخص آپ سے ملنے کے لیے آیا ہے۔“
    ” ٹھیک ہے تم اُسے ڈرائنگ روم میں بٹھاکرچائے وغیرہ پلاﺅمیں آرہاہوں۔“
    ملازم اثبات میں سرہلاتے ہوئے چلاگیا ۔جب کہ وہ یونی فارم پہننے لگا۔یونی فارم پہن کراُس نے قدآدم آئینے میں اپناناقدانہ جائزہ لیااورپھر مطمئن ہوکرٹیبل پررکھی دوتین فائلیں اُٹھاتے ہوئے وہ کمرے سے باہرنکل گیا۔اب اُس کا رُخ ڈرائنگ روم کی جانب تھا۔
    جونہی وہ ڈرائنگ روم میں داخل ہواتو عاصم اُسے دیکھ کرکھڑاہوگیا۔
    ” پلیزتشریف رکھیے۔“ وہ عاصم کے ساتھ گرم جوشی سے مصافحہ کرتے ہوئے بولا۔”حکم کیجیے کیسے تشریف آوری کی زحمت کی؟“
    عاصم نے کہا۔” انسپکٹرصاحب!میں کل رات سے نہیں سویا۔پلیزآپ میری وائف اور دوست کو چھوڑدیں۔مجھے اُن پریقین ہے وہ بے دوش ہیں۔وہ اس قدر گھناﺅنا جرم کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔آپ نے ڈکیتی کی واردات میں خواہ مخواہ اُن بے چاروں کوملوث کر دیا ہے۔“
    ” ڈونٹ وری مسٹرعاصم!وہ اگر بے گناہ ہیں تومیں آپ کویقین دلاتاہوں کہ کوئی اُن کابال بانکابھی نہیں کرسکتا۔“
    وہ بولا۔”جناب!میں مقتولین کاوارث ہونے کے ناتے آپ سے گزارش کرتاہوں کہ اُن دونوں کوچھوڑدیں۔مجھے اپنی بیوی اور دوست پرپورااعتماد ہے۔وہ کبھی ایسا نہیں کرسکتے۔“
    ” آپ جذباتی ہوکر سوچ رہے ہیں مسٹرعاصم!میں یہ تونہیں کہہ سکتا کہ وہ دونوں اس گھناﺅنی وادات میں ملوث ہیں۔مگراتنامجھے یقین ہے کہ وہ اس بارے میں کچھ نہ کچھ جانتے ضرورہیں۔آپ آج شام تک صبرکرلیں اگروہ دونوں بے گناہ ہوئے توبغیرکسی سفارش کے رہاہوجائیں گے ورنہ اُن کی قسمت کافیصلہ عدالت کرے گی۔“
    ”میں آپ کے شک کی وجہ جان سکتا ہوں؟ آپ کوکون سا ایسا اہم کلیوملاہے کہ آپ نے اُن دونوں کوگرفتارکرلیا؟“
    ” وقت آنے پریہ بھی بتادوں گا۔بس آپ تھوڑاسا صبرکرلیں۔“
    ” صبرکیسے صبرکرلوں انسپکٹرصاحب!“وہ جھنجھلا اُٹھا۔”میرے سارے گھروالے بے دردی کے ساتھ قتل کردیے گئے۔شبے میں میری بیوی اوردوست سلاخوں کے پیچھے چلے گئے۔مگرآپ ہیں کہ پھربھی مجھے صبر کی تاکیدکررہے ہیں۔کیایہ ممکن ہے؟“
    ” عاصم صاحب!آپ میرے ایک سوال کاجواب دیں گے؟“انسپکٹرنے کچھ سوچتے ہوئے پوچھا۔
    وہ بولا۔” بس اب یہی کسررہ گئی تھی۔اوکے مجھے بھی تفتیش میں شامل کرلیں۔“
    ” آپ بھی اگرتفتیش کی زد میں آگئے تومیں اس سے گریزنہیں کروں گا۔“ اُس نے سنجیدگی سے جواب دیا اورعاصم بے بسی سے ہونٹ کاٹ کررہ گیا۔
    ” آپ کچھ پوچھنا چاہ رہے تھے؟“
    وہ بولا۔” ہاں دراصل میں اس اُلجھن میں ہوں کہ ڈاکوکبھی بے جاخون خرابا نہیں کرتے توپھر اُنھوں نے آپ کی فیملی کے ساتھ یہ امتیازی سلوک کیوں کیا۔ اگر لوٹنا ہی اُن کامقصدتھا توپھراُنھیں یہ خون ریزی کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ زیادہ سے زیادہ آپ کے والدیاپھربھائی نے مزاحمت وغیرہ کی ہوگی۔عورتیں اوربچے تو مزاحمت کرنے سے رہے۔مجھے یہ کسی دشمن کی کارروائی لگتی ہے۔کوئی ایسا دشمن جس کے لیے آپ کے سب گھروالے خطرے کاالارم تھے۔اب آپ سوچ کر بتائیے کہ آپ کاایساکوئی دشمن تھا؟“
    ” میں اس بارے میں لاعلم ہوں۔“ اُس نے بے بسی کے عالم میں جواب دیا۔
    ” توپھرمیری تفتیش کے رستے میں روڑے کیوں اٹکاتے ہو؟“ انسپکٹرنے قدرے بُرامناکرپوچھا۔
    ” ٹھیک ہے۔“ اُس نے اثبات میں سرہلایا۔” آپ کی بات دل کولگتی ہے۔لہٰذا آپ اپنی تفتیش جاری رکھیں۔اب میری طرف سے آپ کو کوئی شکایت نہیں ہوگی۔“
    ” گڈ یہ ہوئی ناں بات۔“ انسپکٹرمسکرایا۔” اب آپ بے فکرہوجائیں ،بہت جلدقاتل کی گردن میرے ہاتھوں میں ہوگی۔“
    ” اوکے۔“ وہ انسپکٹرسے ہاتھ ملاتے ہوئے رخصت ہوگیا۔
    انسپکٹرپولیس اسٹیشن پہنچااور فوراًثمینہ کوپیش کرنے کاحکم دیا۔وہ لیڈی کانسٹیبل کے ساتھ جب انسپکٹرکے سامنے پیش ہوئی تو اُس کی حالت بہت بُری تھی۔ایک ہی رات میں جیسے وہ آدھی ہوکررہ گئی تھی۔حالانکہ انسپکٹرشیردل کے حکم کے مطابق اُس پرکسی قسم کاجسمانی تشددنہیں کیاگیاتھا۔اُسے صرف ساری رات زبردستی جگاکررکھا گیاتھا۔چنانچہ اُس کی خوب صورت آنکھوں کے گردسیاہ حلقے پڑے ہوئے تھے۔ریشمی زلفیں جھاڑجھنکارکی مانند اُلجھی ہوئی تھیں اورلباس میں سلوٹیں پڑچکی تھیں۔انسپکٹرنے ایک نظراُس کاجائزہ لیا اورپھرمسکراتے ہوئے بولا۔” تشریف رکھیے ثمینہ بی بی۔“
    ”خدا کے لیےمم مجھے سونے دیجیے انسپکٹرصاحب۔“ وہ منمنائی۔” میراسردردسے پھٹاجارہا ہے۔مممیں مرجاﺅں گی پلیزپلیزمیں سونا چاہتی ہوں۔“
    ” سچ بولوگی تو ضرورسونے دیاجائے گا۔ورنہ یوں ہی جاگ جاگ کرپاگل ہوجاﺅگی۔“ انسپکٹرنے بے رحم اندازمیں جواب دیا۔
    سچ۔۔کیا سچ۔؟؟
    ” یہی کہ عاصم کی فیملی کے ساتھ کیاہواتھا؟“
    ”مم مجھے کیاپتاجی مم میں تواپنے گھرمیں تھی۔میرامطلب ہے کہ میکہ گھرمیں تھی۔“
    وہ بولا۔” ثمینہ بی بی! تمہیں جوعزت دینی تھی ۔وہ میں کل دے چکاہوں۔اب ”آپ جناب“ والے القاب نہیں چلیں گے۔لہٰذاجوکچھ تمہیں معلوم ہے مجھے بتادو، میں کوشش کروں گاکہ تمہیں کم سے کم سزاہو۔“
    ” مم میں کچھ بھی نہیں جانتی جی۔“وہ رونے لگی۔
    ” بی بی!یہ تھانہ ہے۔یہاں آنسوبہانے سے جان نہیں چھوٹتی بلکہ سچ بولنے سے چھوٹتی ہے۔بولوتم کیاجانتی؟“
    ” مم میں کچھ نہیں جانتی۔“ اُس نے روتے روتے جواب دیا۔
    ” فرزانہ!“ انسپکٹرنے لیڈی کانسٹیبل کو مخاطب کیا۔” اسے لے جاﺅ اورزندہ چھپکلی والا فامولہ آزماﺅ۔“
    ” یس سر۔“ کہتے ہوئے فرزانہ نے اُسے بازوسے پکڑااور تقریباًکھینچتے ہوئے باہر لے گئی۔
    عاصم پریشانی کے عالم میں گھرپہنچااورپھربیڈپرگرسا گیا۔اُس کی سماعتوں میں رہ رہ کرانسپکٹرشیردل کے الفاظ گونج رہے تھے۔” ڈاکوکبھی بھی بلاوجہ کی خون ریزی پسند نہیں کرتے۔یہ کسی دشمن کی کارروائی لگتی ہے۔کوئی ایسادشمن جس کے لیے آپ کے سب گھروالے خطرے کا الام تھے۔خطرے کاالارم تھے۔خطرے کا الارم تھے۔“ لفظ ہتھوڑے کی مانند اُس کی سماعتوں پربرسنے لگے۔
    ”شایدمجھ سے کہیں بہت بڑی غلطی ہوگئی ہے۔“ اُس نے خودکلامی کی اورپھراُٹھ کربیٹھ گیا۔ایسے ہی وقت ماضی کے واقعات کی ایک فلم سی اُس کے دماغ میں چلنے لگی۔ اُسے ثمینہ پرسلیم کی بے انتہا مہربانیاں یادآئیں،ساتھ ساتھ بوڑھے اورجہاں دیدہ باپ کی نصیحتیں یاد آئیں۔پھرثمینہ کا الزام یاد آیاجو اُس نے عاصم کے نیک نام باپ پرلگایاتھا۔ مجبوراوربدقسمت باپ کی آخری کال کے الفاظ یاد آئے۔اُن لفظوں میں کس قدردردتھااور سچائی جیسے چھلک رہی تھی۔مگر وہ بدبخت تھا۔باپ کی بجائے ایک مکارعورت پراعتبار کر بیٹھا۔ سوچ سوچ کروہ پچھتارہاتھا۔مگراب تیرکمان سے نکل چکا تھا۔وہ چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کرسکتا تھا۔اسی پریشانی کے عالم میں وہ اُٹھااورباپ کے کمرے کی طرف چل دیا۔جب سے وہ آیاتھا ابھی تک باپ کے کمرے میں اُس نے قدم نہیں رکھا تھا۔اس کی وجہ وہ نفرت تھی جو باپ کے خلاف ثمینہ نے اُس کے دل میں پیداکی تھی۔
    وہ یوں پشیمانی کے اندازمیں کمرے کے اندرداخل ہوا۔جیسے اُس کاباپ زندہ ہواورکمرے میں بیٹھااُسے ملامت کرنے کامنٹظرہو۔لیکن کمرابالکل سنسان تھا۔کمرے میں موجودہر چیز پرگرد کی ایک موٹی تہہ جمی ہوئی تھی۔سامنے ہی بالکل دیوارکے ساتھ اُس کے باپ کابیڈتھا۔بیڈسے چند فٹ اُوپردیوارمیں پیوستہ ایک چوبی الماری تھی۔جو نہ صرف بندتھی بلکہ اُسے تالابھی لگاہواتھا۔دوسری دیوارکے ساتھ اُس کی ماں کابیڈ تھا۔وہ مرے مرے قدموں سے چلتا ہوا باپ کے بیڈکے قریب پہنچ کر رک گیا۔ایسے ہی وقت بے اختیاراُس کی آنکھیں چھلکنے لگیں۔
    دردنمکین پانی کاروپ دھارکراُس کاچہرہ بھگونے لگا۔روتے روتے اُسے کئی لمحات بیت گئے ۔مگرآج اُس گھرمیں کوئی ایک بھی نہیں تھا۔جو اُسے تسلی دیتا۔اُس کے آنسوپونچھتا،اُسے گلے لگاکراُس کی بلائیں لیتا،یاپھراُس کی پشت سہلاتے ہوئے کہتا۔” بیٹے!مردکی آنکھوں میں آنسواچھے نہیں لگتے۔“
    رونے سے غم کی شدت کچھ کم ہوگئی تو وہ اُٹھااورٹیبل کی درازسے چابی نکال کرچوبی الماری کھولی اوراندرسے باپ کی چیزیں نکال کربیڈپرڈھیرکرنے لگا۔ان چیزوں میں زیادہ تر روزمرہ کے استعمال کی اشیاءتھیں۔جن میں باپ کے تہہ شدہ کپڑے،جوتے، چند کتابیں، پنشن بک اورڈائری نما ایک نوٹ بک تھی۔ اس نوٹ بک میں ماسٹررشیداکثر گھریلو حساب کتاب درج کیاکرتا تھا۔اُس نے نوٹ بک اُٹھاکرکھولی توصفحات کے درمیان سے ایک تہہ شدہ کاغذنکل کربیڈ پرگرگیا۔اُس نے تہہ شدہ کاغذاُٹھاکر دیکھاتو اُس کے ایک کونے میں لکھاتھا۔” عاصم کے لیے“اُس نے دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ کاغذکی تہیں کھولیں اورنظریں تحریرپر جمادیں۔ماسٹر رشید نے لکھا تھا۔
    عزیزاز جان پیارے بیٹے ؑعاصم کے نام
    السلام علیکم!بیٹے میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے زندگی بھرخوش وخرم رکھے۔میں جانتاہوں کہ میرایہ خط تجھے تب ملے گا جب میں اس دنیا میں نہیں ہوں گا۔نجانے مجھے کیوں یقین سا ہوچلا ہے کہ میں طبعی موت نہیں مروں گا۔
    اگر میرایہ یقین سچ ثابت ہوجائے تو پھر میری موت کے ذمہ دارمیری بہو ثمینہ اور اُس کادوست سلیم ہوں گے کیونکہ اُن دونوں کومیں نے گزشتہ رات ثمینہ کے بیڈ روم میں نہایت ہی شرم ناک حالت میں دیکھا ہے۔وہ دونوں بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ بہن بھائی کے مقدس رشتے کوپامال کررہے تھے۔تب میں نے اُنھیں بُرابھلاکہاتوسلیم نے مجھ پرپستول تان کرمجھے دھمکی دی کہ اگرمیں نے کسی کے سامنے زبان کھولی تو وہ میری دونوں چھوٹی بیٹیوں کو منہ دکھانے کے لائق بھی نہیں چھوڑے گا۔
    چنانچہ میں نے خوف کے مارے یہ بات کسی کوبھی نہیں بتائی۔مگرجب صبح کے وقت میں نے ثمینہ کوگھرسے غائب پایاتو پھرمجبوراًمجھے یہ بات تمہاری امی کو بتانا پڑگئی۔اس کے بعد تمہاری امی ہی کے مشورے پر میں نے تجھے کال کی مگرتب تک وہ ڈائن ثمینہ تمہارے کان بھرچکی تھی۔لہٰذاتم نے میری بات سننے کی بجائے اُلٹامجھ پر الزام لگا دیا۔ بیٹے!میں تم سے بالکل ناراض نہیں ہوں۔بس دُکھ ہے تو صرف اس قدرکہ تم نے مجھے اعتبارکے قابل نہیں سمجھا۔بہرکیف میں نے تجھے معاف کردیا ہے۔آخرمیں صرف اتنا کہوں گا کہ۔
    اگرتم ثمینہ کی اصلیت جان جاﺅتو پھر اُس سے قطع تعلق کرلینا۔خواہ مخواہ کی دشمنی مول مت لینا۔سلیم بہت خطرناک آدمی ہے۔
    خداحافظ تمہارابدنصیب باپ ماسٹررشید احمد
    باپ کاخظ پڑھنے کے بعدوہ دیر تک روتا رہا،دل ہی دل میں خود کوکوستا رہا۔جب روتے روتے تھک گیاتو ثمینہ اور سلیم سے انتقام لینے کے منصوبے سوچنے لگا۔پہلے تو اُس نے انسپکٹرشیردل سے مدد لینے کاسوچامگرپھرخودہی یہ پلان رد کردیا۔آخرکار بہت دیر کے بعد ایک بے داغ پلان اُس نے تیارکرلیا۔اب اُسے مناسب وقت کا انتظارتھا۔
    اُدھر پولیس اسٹیشن میں اُسی روزسلیم اور ثمینہ نے اقبال جرم کرلیاتھا۔انسپکٹرشیردل کا نفسیاتی حربہ اس باربھی کامیاب ثابت ہوا تھا۔چنانچہ دونوں مجرموں کواسی روز جیل کے حوالات میں منتقل کردیا گیا کہ اب اُنھیں سزادینایا برّی کرناعدالت کی ذمہ داری تھی۔
    دس بارہ دنوں کے بعدایک بارپھرعاصم انسپکٹرشیردل کے ڈرائنگ روم میں اُس کے سامنے بیٹھاتھا۔
    انسپکٹرشیردل بڑی حقارت کے ساتھ اُس کی طرف دیکھ رہاتھا۔چند لمحے اُسے گھورنے کے بعدانسپکٹربولا۔” مجھے آپ سے اس قدر گرنے کی اُمید نہیں تھی۔اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں ،میں نے پہلاشخص دیکھا ہے جو اپنے ماں باپ اوربھائی بہنوں کے لہوکا سوداکرنا چاہتا ہے۔“
    وہ بولا۔” مجبوری ہے انسپکٹرصاحب!میں جانتاہوں کہ اس ملک کاقانون اُنھیں شک کا موقع دیتے ہوئے برّی کردی گا۔کوئی چشم دیدگواہ تو ہے نہیں میرے پاس تو پھر کیس لڑنے کاکیا فائدہ؟اس سے بہتر ہے کہ میں کیس لڑنے کی بجائے خون بہا لے لوں؟ مذہب اورقانون دونوں اس کی اجازت دیتے ہیں۔“
    ” لیکن مجھے یقین ہے کہ اُنھیں سزا ہوجائے گی۔پھرتم کیوں اپنوں کاخون بیچنا چاہتے ہو؟“
    ” اُنھیں سزاہوبھی گئی تومرنے والے تو واپس نہیں آئیں گے ناں؟“
    انسپکٹرنے کہا۔”مجھے لگتاہے کہ آپ ابھی تک اُس بے وفا اورقاتل عورت کو بھولے نہیں ہیں۔اب بھی آپ کادل اُس کے نام پردھڑکتاہے۔“
    ” میں اُس پہ کب کی لعنت بھیج چکاہوں۔“اُس نے حقارت سے جواب دیا۔
    ” مسٹرعاصم!میں توآپ کویہی مشورہ دوں گاکہ آپ خون بہا لینے کی بجائے کیس لڑیں۔میں آپ کویقین دلاتاہوں کہ اُن دونوں کوموت کی سزاضرور ہوگی۔“
    وہ بولا۔” انسپکٹرصاحب!آپ مجھ سے کہیں بہترجانتے ہیں اس ملک کے قانون کو، یہاں انصاف کوئی نہیں کرتا۔سب اپنی جیبیں بھرتے رہتے ہیں۔اُن کی بلاسے کوئی مرے یاجیے، اُنھیں صرف اورصرف اپنی “۔
    ” بے وقوف مت بنو ۔“ انسپکٹرنے قطع کلامی کی۔” کیس کی پیروی توکرو،پھردیکھنا کیا ہوتا ہے؟“
    ” کچھ بھی نہیں ہوگا جناب!سوائے اس کے کہ میں یہ کیس ہارجاﺅں گا۔پلیز مجھے مجبورمت کریں۔“
    ” اوکے۔“ انسپکٹرنے اثبات میں سرہلایا۔”جیسے آپ کی مرضی، میں کیا کہہ سکتا ہوں۔خون بہادلانا عدالت کاکام ہے پولیس کا نہیں۔قاتلوں کے وکیل سے رجوع کرو یاپھرسیدھاجیل جاکراُن دونوں سے ملاقات کرو۔“
    ” ٹھیک ہے جناب!توپھرمجھے اجازت دیجیے۔“ اُس نے مصافحے کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا۔” ان شاءاللہ بہت جلد دوبارہ ملاقات ہوگی۔“
    ” خون بہالینے کے بعد مجھے اپنی شکل مت دکھانا۔“ اُس نے بے دلی سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔”میں بزدلوں کوپسند نہیں کرتا۔“
    ” خون بہالینے کے بعدمیں اس ملک سے واپس انگلینڈچلاجاﺅں گا۔“
    ” میری طرف سے جہنم میں چلے جانا۔“ انسپکٹرنے حقارت سے جواب دیا۔
    وہ سلیم اورثمینہ کے مشترکہ وکیل کے ساتھ سنٹرل جیل میں داخل ہواتووکیل بولا۔” خصوصی ملاقات کی اجازت جیلرسے لیناپڑے گی۔“
    اُس نے کہا۔” اسی لیے تو آپ کوساتھ لایا ہوں سر!اس خصوصی ملاقات کا انتظام آپ نے کرنا ہے اورہاں آپ بے فکررہیے خون بہالینے کے بعدمیں آپ کو بھولوں گا نہیں بلکہ آپ کا خصوصی شکریہ ادا کروں گا۔“
    ” ڈونٹ وری سر!“ وکیل نے خوشی سے دانت نکالے۔”میں ابھی انتظام کیے دیتا ہوں ۔مگرجیلرکوبھی راضی کرناپڑے گا۔“
    ” کوئی بات نہیں وہ بھی کرلیں گے۔“ اُس نے جیب سے والٹ نکالا،اُس میں سے چندبڑے نوٹ نکال کر وکیل کی طرف بڑھادیے۔”کیاخیال ہے کافی رہیں گے یامزیدبھی دوں؟“
    ” کافی ہیں سر۔“ وکیل مسکراتاہواجیلرکے آفس میں داخل ہوگیا۔
    وکیل کی کوششوں سے نصف گھنٹے کے اندرہی سلیم اوروہ ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔کمرے میں اُن کے علاوہ کوئی تیسرا شخص موجود نہیں تھا۔ سلیم کی نظریں جھکی ہوئی تھیں اورچہرے پرندامت وپچھتاوے کے تاثرات تھے۔
    ” تمہارا پچھتاوا اورندامت اب بے معنی ہیں۔“ عاصم نے پہل کی۔”تم دونوں کوپھانسی کی سزا ہوجائے گی۔“
    وہ بولا۔” تم یہی بتانے آئے ہو مجھے؟“
    ” نہیں ۔“ اُس نے نفی میں سرہلایا۔” میں تم دونوں سے ایک سوداکرنے آیا ہوں۔“
    ” کیسا سودا؟“ سلیم کے چہرے پرحیرت تھی۔
    ” تمہاری اسپیئر پارٹس درآمد کرنے والی فرم کتنی مالیت کی ہوگی؟‘ ‘ اُس نے اُلٹاسوال کردیا۔
    ” اُس کی مالیت توکروڑوں میں ہوگی مگرتم کیوں پوچھ رہے ہو؟“
    ” اس لیے کہ یہ فرم تجھے موت کی سزاسے بچا سکتی ہے۔“ اُس نے معنی خیزاندازمیں جواب دیا۔
    ” میں اب بھی نہیں سمجھا، تم کہناکیا چاہتے ہو؟“سلیم کے چہرے پرحیرت دوچندہوگئی۔
    ” میں نے کہہ تو دیا ہے کہ سودا کرنا چاہتا ہوں۔تجھے یہ فرم میرے نام کرناپڑے گی۔“
    ” تمہارادماغ توٹھیک ہے؟“ وہ طنزیہ اندازمیں ہنسا۔
    ” اوکے توپہلے یہ دیکھ لو،پھربات کریں گے۔“ اُس نے ایک تہہ شدہ کاغذجیب سے نکال کراُس کی طرف بڑھادیا۔
    سلیم نے ناگواراندازمیں کاغذ لیا،اُس کی تہیں کھولیں اورپھرپڑھنے لگا۔جوں جوں وہ پڑھتاگیاتوں توں اُس کی رنگت اُڑتی چلی گئی۔
    ” یہ کیا ہے؟“کاغذپڑھنے کے بعدسلیم نے خوف زدہ لہجے میں سوال کیا۔
    ” یہ میرے باپ کے اُس خط کی فوٹوکاپی ہے۔جومیں عدالت میں بطورثبوت پیش کروں گا۔انسپکٹرشیردل کہتا ہے کہ اس خط کی موجودگی میں چشم دید گواہ کی ضرورت نہیں پڑے گی۔اب فیصلہ تمہارے ہاتھ میں ہے اچھی طرح سوچ لو فرم پیاری ہے یااپنی زندگی؟“
    ” مم میں سوچ کرجواب دوں گا۔“
    ” تو سوچو میں تمہارے فیصلے کامنتظرہوں۔ مگر ذراجلدی کرنا ابھی مجھے تمہاری قاتل محبوبہ سے بھی ایک سودا کرنا ہے۔“
    ” مم میں اپنے وکیل سے مشورہ کرنا چاہتا ہوں۔“ اُس نے کانپتی ہوئی آوازمیں جواب دیا۔
    عاصم نے کہا۔” یہ مشورہ تمہارے وکیل نے ہی دیا ہے۔وہ باہرموجودہے ۔کیابلاﺅں اُسے؟“
    ” ہاںمیں اُس سے کچھ پوچھنا چاہتاہوں۔“
    ” انصاری صاحب!اندرآجایئے آپ کے کلائنٹ کو آپ کی ضرورت۔“ عاصم نے قدرے بلندآوازسے وکیل کو پکارا۔
    انصاری صاحب فوراً کمرے میں داخل ہوا اور بلاتمہید بولا۔”سلیم صاحب! عاصم ٹھیک کہتا ہے ۔اس کے علاوہ آپ کے پاس بچنے کاکوئی راستہ نہیں ہے۔میں نے ہی اسے منت سماجت کرکے خون بہالینے کے لیے راضی کیا ہے۔“
    ” لل لیکن مم میں توبرباد ہوجاﺅں گا۔“ سلیم نے بوکھلائی ہوئی آوازمیں جواب دیا۔
    انصاری بولا۔” بربادی کوآبادی میں بدلتے دیرنہیں لگتی مگرزندگی صرف ایک بارملتی ہے۔سوچومت بس ہاں کہہ دو۔“
    ” ٹھیک ہے جناب۔“ سلیم نے نہ چاہتے ہوئے بھی رضامندی کا اظہارکردیا۔
    سلیم کے جانے کے بعداُس نے ثمینہ سے ملاقات کی تو وہ بھی خون بہامیں وہ بنگلہ دینے کے لیے راضی ہوگئی جو اُس نے عاصم کی محنت کی کمائی سے تعمیرکرایاتھا۔عاصم اندرہی اندرخون کے گھونٹ پیتا رہامگربظاہروہ بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ اُس سے ملاتھا۔
    وکیل کے ساتھ رخصت ہوتے وقت وہ ثمینہ سے بولا۔” فکرنہ کرو راضی نامہ کے ساتھ ساتھ تمہیں طلاق نامہ بھی ملے گا۔اب تم دونوں کوبہن بھائی بننے کا ڈھونگ نہیں رچانا پڑے گا۔“
    چند روز کے اندرہی سارے معاملات طے پاگئے۔سلیم کی فرم اورثمینہ کا بنگلہ عاصم کے نام منتقل ہوگئے تھے۔چنانچہ بظاہروہ بڑاخوش اورمطمئن تھا۔سلیم کے وکیل کوبھی بطورنذرانہ اُس نے خاصی رقم اداکی تھی۔خون بہالینے کے بعدعاصم نے باقاعدہ تحریری طورپرسلیم اورعاصم کومعاف کردیا تھا۔جس دن سلیم اور ثمینہ نے جیل سے رہاہوناتھااُسی دن عاصم نے ثمینہ والے بنگلے میں ایک پارٹی کا اہتمام کررکھاتھا۔اس پارٹی میں انسپکٹرشیردل اورسلیم کے وکیل کے علاوہ عاصم کے چند پڑوسی اور رشتے دارمدعو تھے۔پارٹی کاٹائم دوپہر دوبجے کے لگ بھگ رکھا گیا تھا۔چنانچہ ایک بجتے ہی مدعوئین پہنچنے لگے۔ڈیڑھ بجے تک قریب قریب تمام مہمان پہنچ گئے۔اب اُنھیں ثمینہ اورسلیم کا انتظارتھا،جو اس پارٹی کے مہمانِ خصوصی تھے۔کیونک عاصم نے اُنھیں سب مہمانوں کی موجودگی میں معاف کرنا تھا ۔
    سب لوگ خوش تھے اورآپس میں گپ شپ لگارہے تھے۔جب کہ چندایک لوگ ٹی وی پرمعروف ٹاک شودیکھنے میں محو تھے ۔مگرانسپکٹرشیردل قدر بے زارسا دکھائی دے رہاتھا۔وہ ایک صوفے پربیٹھا سگریٹ کے کش لگارہاتھا۔اُس کی شکل دیکھ کریوں لگتاتھا۔جیسے اُسے جبراًپاٹی میں لایاگیا ہو۔عاصم کافی دیرسے اُس کے تاثرات نوٹ کررہا تھا۔
    اُسے انسپکٹرکی ناراضی کی وجہ بھی معلوم تھی۔لیکن عاصم مجبورتھا۔وہ انسپکٹرکامشورہ مان کرکیس نہیں لڑسکتاتھا۔لہٰذاخون بہالے کراُس نے قاتلوں سے صلح کرلی تھی۔یہ پارٹی بھی اسی مقصدکے لیے منعقدکی گئی تھی۔
    عاصم مہمانوں سے ہائے ہیلو کرتا ہوا انسپکٹرشیردل کے پاس پہنچ گیا۔”کیسے ہیں سرآپ؟“عاصم نے ہنس کرپوچھا۔
    انسپکٹرشیردل نے ناگوارنظروں سے اُسے گھورا۔” میں سوچ بھی نہیں سکتاتھا کہ آپ اس قدرلالچی نکلیں گے۔اس بنگلے اورفرم کا آپ کیاکریں گے؟“
    ” یہ بنگلہ اوروہ فرم اب میرے کہاں رہے ہیں؟“ وہ مسکرایا۔” دونوں کوبیچ دیا ہے میں نے۔“
    وہ بولا۔” بنگلہ اورفرم نہیں بلکہ آپ نے اپنوں کالہوبیچا ہے۔“
    ” دیکھیے سر!“ وہ پھرمسکرایا۔”جو ہوناتھا وہ تو ہوچکا۔پلیزاب غصہ تھوک کرپارٹی انجوائے کیجیے۔ویسے بھی کل صبح میں واپس انگلینڈ چلاجاﺅں گا۔میں نہیں چاہتا کہ میری یادوں میں آپ کی اُتری ہوئی شکل محفوظ ہوجائے؟“
    ”اوہ تو آپ چاہتے ہیں کہ میں قہقہے لگاﺅں؟“ اُس نے جل کرپوچھا۔
    ” اس میں حرج ہی کیا ہے؟“
    ”داد دیناپڑے گی بھئی!آپ کے حوصلے کی۔“انسپکٹر کے لہجے میں طنزکی کاٹ تھی۔”مجھے آپ کی تعریف بیان کرنے کے لیے لفظ ہی نہیں مل رہے۔“
    ” آپ صرف ہنس دیجیے۔میں سمجھوں گاکہ آپ نے میری تعریف کردی ہے۔“
    ایسے ہی وقت اچانک اُس حال نما کمرے میں خاموشی چھاگئی اور سب کی نظریں ٹی وی کی اسکرین پرجم کررہ گئیں۔
    بریکنگ نیوزمیں ایک مرداورعورت کو دکھایاجارہاتھا۔دونوں گولیوں سے چھلنی تھے۔جب کہ نیوزچینل کانمائندہ چلاچلاکروقوعے کی تفصیل بیان کررہاتھا۔ہال میں موجود سب لوگوں کی نگاہیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔مرنے والے سلیم اورثمینہ تھے۔جنھیں نامعلوم موٹرسائیکل سواروں نے جیل روڈ پرگولیاں مارکرہلاک کردیاتھا۔نیوزچینل کا نمائندہ بتارہاتھا کہ موٹرسائیکل سوارموقعے سے فرارہونے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔تاہم پولیس اُنھیں سرگرمی کے ساتھ تلاش کرنے کی کوشش کررہی ہے۔
    خبرسن کرانسپکٹرشیردل نے مشکوک نگاہوں سے عاصم کی طرف دیکھااورپھرایک دم مسکرادیا۔
    اختتام۔
    Vist My Thread View My Posts
    you will never a disappointed

  • #2
    آج کل کے معاشرے میں اسطرح کے کردار جا بہ جا موجود ہیں آستین کے سانپ بن کر ایسے ڈستے ہیں انسان پانی بھی نہ مانگے شکریہ صنم ساقی

    Comment


    • #3
      کسی پر بے جا اور اندھا اعتماد اس انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتا

      ​​​​​​


      Comment


      • #4
        aj pahli dafa is section mye aya ho pr yha to kmal kmql ki khania hye yr sabak amoz..

        Comment


        • #5

          دلچسپ اور بہت ہی زبردست کہانی ۔​

          Comment

          Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

          Working...
          X