Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

انوکھا سچ۔

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • Life Story انوکھا سچ۔

    انوکھا سچ۔
    یہ درآصل زندگی کی ایک اٹل حقیقت ہے۔

    ​​​​​​ اگر کوئی سمجھ سکے تو۔
    ۔میں نے امی کو خفگی سے دیکھا۔۔ اور انہوں نے مجھے ۔۔
    وہ مسلسل مجھے ایک ماں کی طرح نہیں جلاد ماں کی طرح گھور رہی تھیں اور میں انکو سوتیلی بیٹی بن کر۔۔۔ حلانکہ میں انکی سگھی بیٹی تھی اور آخری غلطی-- میرا مطلب ہے مجھ سے پہلے وہ پانچ غلطیاں کرکے انکو فارغ کرچکی تھیں۔۔ اب وہ مجھ سے نجات چاہتی ہیں۔۔۔
    انکی غلطیوں کی لسٹ کچھ یوں ہے۔۔ پہلے باجی فریدہ، پھر باجی نصرت، پھر احسن بھائی، پھر تقی بھائی، پھر حمزہ بھائی اور انکی آخری غلطی میں تھی بقول میری ماں کے میں انکی مرضی کے بنا اچانک دنیا میں آئی تھی، جب سب بہن بھائی بڑے ہو چکے تھے۔۔ یہاں تک کے فریدہ باجی کے بیاہ کو دو مہینے گزر گئے تھے، تب انکو پتہ چلا انکو دوسرا مہینہ ہے۔۔ تب وہ بہت روئیں واویلا کیا مگر غلطی چونکہ ابا حضور کی تھی اس لئے نظر چرا گئے۔۔ جب مجھے زرا ہوش آئی تو ایک دن املی چوری کرکے کھانے سے اماں نے دو تھپڑ پیٹھ پر رسید کرکے طنز کیا۔تجھے تو مین پیدا کرکے پچھتا رہی ہون۔
    تو میں نے بھی پٹاخ سے کہہ دیا۔۔
    کیا ضرورت تھی اس عمر میں رنگ رلیاں منانے کی۔۔۔ اماں تو فورا ہی چار انگلیاں منہ میں چبا گئیں۔۔ انگوٹھا چبانا شائد بھول گئی تھیں۔۔اور ادھر میرے ابا حضور ہنس کر لوٹ پوٹ ہو گئے۔۔۔
    اس کے بعد مجھے فارس کی اماں یعنی باجی فریدہ کی ساس نے پالا میں اس وقت صرف چھ سال کی تھی۔۔ مگر اماں چونکہ ابا کی سوتیلی بیوی تھیں۔۔ نہیں نہیں یہ میں کیا بول رہی ہوں میری سوتیلی ماں تھیں۔۔
    ویسے عجیب تو یہ ہے میری سوتیلی ماں نے مجھے بڑھاپے میں پیدا کیا۔۔۔ افف کتنی مضحکہ خیز مضائقہ خیز پیدائش ہے میری۔۔
    ہاں تو میں کہاں تھی اماں مجھے گھور رہیں تھیں اور میں اماں کو--
    وجہ وہ فارس تھا۔۔ جس کا رشتہ عین میرے میڈیکل کی پڑھائی کے وقت آن ٹپک پڑا تھا۔۔۔
    ہنہ منہ نہ متھا جن پاڑو آ لتھا۔۔ میں نے صاف انکار کر دیا۔۔۔ یہ بھی کوئی جوڑ تھا۔۔ وہ باجی کا دیور اور تائی کے بڑھاپے کی آخری غلطی تھا۔۔
    جو باجی کی شادی سے چند ماہ پہلے ہوا تھا اور سب سے بڑی بات تو یہ تھی اس کے آنے کی سب کو ہی خوشی تھی،میری اماں سمیت سب ہی خوش ہوئے صرف میں ہی ان کی غلطی تھی۔۔
    سب فارس کو اب میرے سر منڈنے کو تیار تھے۔۔۔ وہ مجھ سے صرف چھ مہینے بڑا تھا۔۔ تائی امی نے کبھی اسے گناہ یا غلطی تصور نہ کیا۔۔ یہی بات میرے تن بدن میں آگ لگانے کا سبب تھی۔۔۔
    فروا میں پوچھتی ہوں کمی ہی کیا ہے اس میں سولہ جماعتیں پاس کرنے والا ہے۔۔۔ باہر چلا جائے گا تجھ جیسے بوجھ کو میں اور نہیں ڈھو سکتی۔۔ اماں نے کہا۔۔
    میری موٹی موٹی آنکھیں بھرا گئیں۔۔ حلانکہ بچپن سے ہی مجھے معلوم تھا یہ فارس میرے نصیب پھوڑے گا۔۔ مگر مجھے امید تھی ڈاکٹر بننے کے بعد میری اس سے جان چھوٹ جائے گی اور مجھے ایک ہینڈسم سے ڈاکٹر سے عشق ہو جائے گا۔۔ جو سفید گھوڑے پر بیٹھ کر مجھے لے جائے گا۔۔۔ میرے یہ سب خواب چکنا چور ہو گئے جب فارس لندن سے سب چھوڑ چھاڑ کر منگنی کرنے ٹپک پڑا۔۔
    بچی کو بولنے دو وہ کیا چاہتی ہے۔۔ ابا نے اپنے سفید بالوں کا لحاظ کرتے کہا ورنہ وہ جانتے تو تھے ہی کہ میں کتنی منہ پھٹ ہوں۔۔
    "مجھے انکی بات نے حوصلہ سا دیا۔۔
    "اماں میں نے نہیں بچے پالنے وہ بھی اس فارس کے-- تین تین روٹیاں کھا جاتا ہے۔۔نہجانے اس کے بچے کتنی روٹیان کھائیں گے؟؟ میرا صدمہ بھی تو گہرا بنتا تھا۔۔ بندہ ایک روٹی کھاتا ہے۔۔!
    "چلو آدھی اور بھی کبھی کبھار کھا لیتا ہے، تین کون کھاتا ہے-- ؟ اتنی باڈی بنائی ہے اس نے مجھے تو ڈر ہی لگتا ہے اس پہاڑ سے کہیں گر کر ہمارے گھر کا فرش ہی نا توڑ دے۔
    روٹی میں پکا دوں گی اماں نے ہاتھ جھاڑے یا فریدہ پکادے گی تیرے ہاتھ کی تو وہ ویسے بھی نہیں کھائے گا۔ آدھی جلی، آدھی کچی روٹی وہ بھی کہیں سے اسکی ٹانگ نکلی ہوتی ہے کہیں سے دانت ٹوٹے ہوتے ہیں۔۔ اپنی اس توہین پر میری آنکھیں بھرا گئیں۔ روٹی بنانا اتنا مشکل کام ہے میں نے دکھ سے اماں کو بتایا۔۔۔ کیا مشکل ہے اس میں؟ اماں نے گھورا۔۔ نیک بخت بات روٹی کی نہیں منگنی کی ہو رہی تھی۔۔ ابا چارپائی پر لمبی تانتے بولے۔۔۔
    "میں انکے پیروں میں بیٹھ کر پیر دبانے لگی۔ شاید اس فارس سے جان چھوٹ جائے۔۔ اب تیرا مسئلہ حل ہو گیا؟ اماں نے ہاتھ جھاڑے، جیسے ان ہاتھوں پر دھول کی جگہ میں تھی۔" اور وہ انہوں نے جھاڑ دی"۔۔۔
    اتنی بے عزتی میری آنکھوں کیساتھ اس بار ناک بھی بہنے لگی۔۔۔۔ جو میں نے بروقت چارپائی کی چادر سے پونچھ لی۔۔۔
    تم کیا چاہتی ہو ؟ اب ابا نے پوچھا۔۔۔ ابا میں منمنائی۔۔۔
    اس خاندان میں بچے کیسے پیدا ہوتے ہیں۔۔ فریدہ باجی کے دو بچے مر گئے۔۔ احسن بھائی کی گڈی نیم پاگل ہے اور صائمہ باجی کے دونوں بیٹے معذور ہیں، آپ چاہتے ہیں۔۔ میں ڈاکٹر فروا ایسے بچے پالوں وہ بھی اس فارس کے۔۔ وہ کوئی فواد خان ہے یا حمزہ علی عباسی۔۔ میرے تاثرات روہانسے تھے دل کو چھو لینے والے۔۔ میرے یہ الفاظ ابا کو لگتے بھی، اگر اماں چپل پکڑ کر میری کمر نہ سینکتیں۔۔ "
    ہائے اماں جی میں رونے لگی۔۔۔ ابا نے اماں کو منع کیا۔۔ مگر اماں کا جوتے مارتا ہاتھ اب نچا نچا کر اماں تقریر کر رہی تھیں۔۔ بے شرم بے حیا۔۔ باپ سے گندی باتیں کرتے ہیں۔۔ میں کہتی ہوں موئی آگ لگے ایسی پڑھائی جو کنواری بچیوں کو بے حیا بنا کر ساری لاج ختم کردیتی ہیں۔۔۔ میں اتنی توہین برداشت نہ کر سکی اور منہ پھاڑ کر بولنے لگی۔۔ اماں تم جیسے جاہل اور پینڈو لوگ ہی ہسپتال جا کر کہتے ہیں ہماری بچی کا کیس لیڈی ڈاکٹر کرے گی۔۔ تم پڑھنے نہیں دو گی تو کیا خاک لیڈی ڈاکٹر بنوں گی۔۔ پھر خواجہ سرا آئیں گے کیس کرنے۔۔؟
    میری بات پر اماں نے دل پر ہاتھ رکھا اور میں انکو نظر انداز کرتی باہر نکل گئی۔۔
    اب مجھے اس فارس کا منہ توڑنا تھا جو اپنا رشتہ بھیج کر خود کو کہیں کا پھنے خان سمجھ رہا تھا۔۔۔ ہونہہ اتنا یہ ہیرو کسی ناول کا میرا بی پی بہت ہی تیز تھا۔۔
    میں بڑی خود کو توپ چیز سمجھ کر فارس کے گھر گئی۔۔ وہاں جاتے ہی میرا منہ کھل گیا وہ فارس کا بچہ میری باجی کے ہاتھ سے پراٹھا کھا رہا تھا۔۔ میرا تو دل بھی جل بھن کر کوئلہ ہو گیا۔۔ میں جلدی سے باجی کے پاس گئی۔۔ اور چارپائی پر بچی باقی جگہ سمیٹ کر بیٹھ گئی۔۔ اور اپنی چوٹی اٹھا کے فارس کے منہ پر ماری وہ آنکھ بچاتا اٹھ گیا۔۔ میں اسکی چال خوب سمجھ چکی تھی یہ آدمی میری بہن کو مجھ سے چھیننا چاہتا ہے۔۔۔بچپن سے ہی باجی کے ساتھ ایسا تھا۔ انکے بچوں سے زیادہ یہ فتنہ انکا بچہ تھا۔۔ میں نے اپنے چھوٹے سے منہ کو بڑا کر کے کھولا اور باجی کے آگے کیا۔۔ وہ مجھے گھورتی نوالہ میرے منہ کے آگے سے گزارتی فارس کے منہ تک لے گئی۔۔۔
    کیا لینے آئی ہو؟ باجی نے پوچھا۔۔۔ میری تو روح رونے لگی۔۔۔ اتنی بے عزتی؟ ایک ہی دن میں؟ بھلا میں مانگنے والی ہوں جو صرف لینے ہی جاؤں وہاں۔۔
    ہونہہ " زہر" خیر میں نے خود کو صنم جنگ سمجھ کر جواب دیا۔۔۔
    اوپر گندم میں ماچس کی ڈبی میں ڈال کر رکھا ہے کیڑا نہ لگ جائے اس لئے وہاں سے لے لو۔ باجی نے لاپروائی سے کہا۔۔ اور میں پیر پٹختی واپس گھر چلی گئی۔۔۔ وہ کہتی رہ گئی جا کر لے لو۔۔۔
    میں اب بہت افسردہ تھی، مجھے کسی طور اس فارس سے شادی نہیں کرنی تھی۔۔ وجہ وہی لو میرج کا شوق ۔۔۔ اور وہ بچے جو ہمارا خاندانی اور نہایت ذاتی معاملہ تھا۔ یہ مسئلہ صرف ہمارے ہی خاندان میں تھا۔۔۔ حلانکہ کزن میرج نہ ہو تب بھی یہ ہو جاتا ہے مگر میں اس بات کو مسئلہ بنانا چاہتی تھی۔۔ جیسے جیسے منگنی کے دن قریب آ رہے تھے میرے دل میں وسوسے اور وہم بڑھتے جارہے تھے۔۔۔ میں نے کافی بار سوچا فارس سے بات کرلوں مگر وہ تو مجھے منہ ہی نہین لگاتا تھا۔۔۔ اللہ کیا بتاؤں کتنا شرما رہا تھا۔۔۔
    حلانکہ مجھے شرم چھو کر بھی نہ گزر رہی تھی۔۔ دل کسی فلمی ہیروئن کی طرح خالی خالی تھا۔ ۔۔۔ میں بھر پور خود کو سجل علی تصور کر رہی تھی کس طرح وہ منحوس بلی بن کر ہر ڈرامے میں روتی رہتی تھی۔۔ میں خود کو سجل علی سمجھ تو لیتی پھر میری آنکھوں پر حلقے پڑ جاتے پھر میری کبھی لو میرج نہ ہوتی،۔
    بلکہ شاید ارینج بھی خطرے میں پڑ جاتی۔۔۔ یہ سراسر رسک تھا۔۔ اس لئے میں صرف پانی کے آنسو بار بار لگا کر سیلفی لیتی اور فیس بک پر ڈال کر کمنٹ وصول کرتی کسی کا کوئی تسلی بخش کمنٹ نہ تھا مجھے مایوسی ہوئی۔۔۔
    دوستیں بھی سوتیلی لگ رہی تھیں۔۔۔۔ منگیتر اس سے بھی زیادہ جو منہ بھی نہیں لگا رہا تھا۔۔ بندہ اکیلا دیکھ کر سیٹی ہی بجا دیتا ہے۔۔ میرا دل ہی بدل جاتا سارے خواب چکنا چور ہو گئے ۔۔
    جب "منگنی" والے دن قاضی صاحب "نکاح" پڑھانے آئے۔۔۔
    ابا میں گھونگھٹ اٹھا کر منمنائی، گھونگھٹ نیچے کرو بیٹی وہ ہنکارہ بھر کر بولے۔۔۔ "میں نے اپنے سونے کے دل پر فارس کے نام کا پتھر رکھ کر تین بار قبول ہے قبول ہے قبول ہے بولا۔۔۔
    اس بار میں بہت کپکپا کر روئی اور آنسو اصلی تھے۔۔ مگر حیرت مجھے اس بات پر تھی، سب مجھے چپ کروانے کے بجائے خوشی سے گلے مل رہے تھے، کسی کو میرا میک اپ خراب ہونے کی پروا نہ تھی۔۔
    اس لئے مجھے خود ہی ضبط کرنا پڑا۔۔
    اب وہ فارس کا بچہ۔۔۔ اوں ہوں۔۔ خود جناب عالی فارس صاحب میرے شوہر ٹائپ کوئی چیز بن گئے تھے۔۔
    پھر پوری رات میں اپنا نوکیا بارہ سو والا وٹہ سیٹ پکڑ کر انتظار کرتی رہی کہ اب فون کرے گا۔۔ مگر نہ جی لمبی تان کر سو گیا۔۔۔ قسم سے یہاں تک آواز آ رہی تھی خراٹوں کی دیوار پھلانگ کر۔۔۔
    میں ہر بار چودہ فروری کو تنہا رہی تھی اس بار یہ تنہائی خاصی دکھ بھری تھی۔۔ میرے آنسو تھے کے خشک ہونے کا نام ہی نہ لیتے تھے۔
    وہ میرے لئے کوئی تحفہ لئے میرا منتظر ہو میں یہ سوچ کر باہر ابا کے گھڑے سے پانی پینے آ گئی شائد بندر بن کر دیوار سے لٹکا ہو، جیسے بچپن میں میں لٹکتی تھی۔
    مگر ہمارے گھر کی دیوار بھی گہری نیند میں سو رہی تھی۔۔اسکی اتنی گہری نیند دیکھ کر مجھے بھی نیند آ گئی اور میں سو گئی۔۔ صبح دس بجے امی نے ہلا کر اٹھایا۔۔ پہلے مجھے لگا شاید کہہ رہی ہیں زلزلہ آ گیا۔۔ کچھ دیر بعد سمجھ آئی کہہ رہی ہیں شکر ہے تم زندہ ہو، اتنا سوئی ہو ۔
    اور وہ فارس بیٹا تمہارا انتظار کرکر کے چلا گیا۔۔ مجھے لگا تم فوت ہی ہو گئیں۔۔۔ اللہ کا شکر ہے زندہ ہو۔۔۔ میں بھی سوچوں پہلے نہیں مری جب میں دعا کرتی تھی اب کیوں مر گئی۔۔۔ ؟
    قسم سے امی کی اس بات سے میرا دل دکھ سے بھرنے لگا اور میں منہ بنا کر ناشتہ کرنے اٹھ گئی۔۔۔
    پیٹ بھر کر مجھے یاد آیا امی نے کہا تھا فارس میرا انتظار کر رہا تھا پوچھتی ہوں شائد ویلنٹائن ڈے کا تحفہ دے کر گیا ہو۔ میں نے امی سے پوچھا۔۔ امی وہ فارس کیوں آیا تھا اور مجھے اٹھایا کیوں نہیں؟؟ ۔
    اماں حیرت سے دیدے پھاڑ کر مجھے دیکھنے لگی انکی ایک انگلی تھوڑی پر تھی۔۔ میں نے اپنا سوال دھرایا۔۔۔ امی فارس کیوں آیا تھا؟؟۔۔۔
    یہ فارس فارس کیا لگائی ہے؟ بے شرم گھر والے کا کوئی نام لیتا ہے۔۔۔
    اماں کو اتنا جلال میرے پیدا ہونے پر بھی نہ آیا تھا جتنا اس فارس کو فارس کہنے پر آیا تھا۔۔حلانکہ اسکا نام فارس ہی تھا اور یہ عجیب و غریب نام اماں نے ہی رکھا تھا، وہ امریکہ جا رہا تھا ۔
    اسکے ہوائی جہاز کا وقت تھا تجھ سے ملنے آیا تھا۔۔ میں نے کمبل ہٹا کر تمہارا چہرہ دکھا دیا۔۔۔ اماں کی آخری بات پر مجھے اپنے موت کے فرشتے پر غصہ آیا جانے وہ کہاں گیا تھا جو میں اب تک زندہ تھی۔
    اماں میں دبا دبا چلائی۔۔۔
    میں کوئی جنازہ تھی جو تو نے کمبل ہٹا کر چہرہ دکھا دیا۔۔ شوہر ہیں وہ میرے اٹھا دیا ہوتا جانے اب کب آئیں۔۔ اس بار میں نے نہجانے کیوں اس فارس کو عزت دی۔۔۔ حلانکہ وہ اس قابل نہ تھا۔۔۔ بھلا کوئی میری جیسی بے حد حسین منکوحہ کو ویلنٹائن ڈے پر اکیلا چھوڑ کر جاتا ہے ایک تو یہ ظالم دنیا اور ایک وہ خود ظالم شوہر۔۔۔
    اس نے بولا تھا تمہاری نیند خراب نہ کروں ورنہ تمہیں مردوں سے شرط باندھے سوتے دیکھ کر مجھے بہت شرمندگی ہوئی۔۔
    میں اماں کی ایکٹنگ سے متاثر نہ تھی، مگر میں بوجھل دل سے کتابیں لے کر چھت پر چلی گئی چھت پر جانے کا بھی فائدہ نہ ہوا اس فارس کی وجہ سے اب محلے کے سب بچے مجھے باجی باجی کہیں گے ہر بار جو ایک امید ہوتی تھی کہ اس بار کوئی چھپا رستم عاشق پرپوز کرے گا آج کے دن وہ بہت لیکن وہ بھی بری طرح ٹوٹ کر سپردخاک ہو چکی تھی۔۔
    یہ چھٹی کرنا بے کار گیا تھا۔۔۔ لو میرج کے سب خواب چکنا چور ہو گئے تھے۔۔۔
    ______________
    تمہیں جانے سے پہلے وہ کیسے مل کر گئے ہیں؟ساتھ والی ثنا نے شرارت سے پوچھا۔۔۔ تمہارے جاننے کی بات نہیں یہ میں نے اترا کر کہا۔۔ اچھا اتنا ہی بتا دو کل ویلنٹائن ڈے پر کیا دے کر گئے اسکی بات سے مجھے پتنگے لگ گئے مگر میں ضبط کر گئی اور اتراتے بولی۔" تمہیں کیوں بتاؤں یہ بات غیر نکاح شدہ لڑکیوں کے لئے نہیں ہے"۔ میں نے جھوٹ بول کر اس فارس کی عزت رکھی۔۔۔۔ غصہ تو مجھے اسی کا تھا اسکی وجہ سے مجھے اتنے اتنے بڑے جھوٹ بولنے پڑ رہے تھے یہ مشرقی بیویاں بھی نہ شوہر جیسا بھی ہو اسکی عزت رکھ لیتی ہیں۔۔ میں بھی اس وقت مجبوری میں وہی کر رہی تھی۔۔ لو میرج کا خواب اب بھی کہیں دبا دبا سہ تھا۔۔۔ آہ-- میں نے سرد آہ بھری۔۔ اور گھر آ گئی۔۔۔
    ____________
    چھ مہینے بعد فارس کا خط آیا۔۔ باجی نے بہت چھیڑا میں شرم سے لال ہوتی خط بچاتی چھت پر بھاگ گئی اور مرغیوں کے دڑبے میں چھپ گئی۔۔ ہائے کہیں اماں کو ہی پتہ نہ چل جائے۔۔۔ مین اسکے خط کو پڑھنے کے بجائے دل اور انکھون سے لگا رہی تھی۔اور ساتھ
    میں ڈر بھی رہی تھی۔۔ وہ مجھے خوش دیکھ کہ یہ ہی نہ کہہ دیں فارس کو ابھی طلاق دو--
    اماں سے میری خوشی دیکھی ہی کب جاتی تھی؟ ۔
    یہ تو میری ہمت تھی ایسی ماں کے ساتھ گزارہ کر لیا اور شکر ہے اس فارس کے بچے کو عقل تو آئی۔۔ پھر میں نے رات کا کھانا جلدی لگا کر جلدی کھایا اور برتن دھو کر اپنے کمرے میں جا کر چارپائی پر گر گئی۔۔ اور خط کو پھر دل سے لگایا۔۔۔۔
    جب اماں ابا کے خراٹوں کی آواز آنے لگی تو میں نے موبائل کی ٹارچ کی روشنی میں خط کھولا اور پھر میرا منہ کھل گیا۔۔ وہ لو لیٹر کچھ یوں تھا۔۔
    "اسلام و علیکم کیسی ہیں آپ بیگم۔۔۔
    میں کچھ دن تک آ رہا ہوں کچھ منگوانا ہو تو اپنی باجی کو بتا دینا وہ مجھے خط میں بتا دیں گی۔۔
    ہائے میرا ہاتھ بے اختیار دل پر گیا۔۔۔۔ نہ پیار کے دو بول نہ کوئی شعر، سیدھا مطلب کی بات اور آخر میں تمہارے فارس کی جگہ فارس چیمہ لکھ دیا۔۔۔ "اللہ"۔۔۔۔۔ میں نے روتے ہوئے ہینڈ فری لگا کر گانا لگایا۔۔
    زندگی میں کوئی کبھی آئے نہ ربا،۔
    جب آئے تو پھر کوئی جائے نہ ربا۔۔۔
    دینے ہوں اگر ایئسے مجھے بعد میں آنسو ۔
    تو پہلے ہمین کوئی بھی ہنسائے نہ ربا۔۔۔
    اس وقت دل چاہ رہا تھا باجی کی گندم سے زہر کی گولی نکال کر کھا لوں خیر یہ آپشن میں نے بعد کے لئے رکھا ہے۔۔
    وہ دن بھی آ گیا جب فارس چیمہ پاکستان تشریف لےآئے۔۔۔ سب اس سے ملنے گئے اماں نے مجھے سختی سے صحن میں بھی آنے سے منع کردیا۔۔ کیونکہ دس دن بعد میری رخصتی تھی۔۔
    مجھے دکھ تو اس چیز کا تھا اب میں اپنی دوستوں سے فون پر کیا بات کروں گی؟ پھر سے جھوٹ--
    میرا دل دکھ سے ٹوٹ کر چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا۔۔۔
    پھر شادی کی پہلی رات ہی فارس نے مجھ سے پوچھا۔۔ تم مجھ سے شادی کیوں نہیں کرنا چاہتی تھیں؟؟ ۔
    اچھا تو یہ وجہ تھی اس کے اس طرح فاصلے پر رہنے کی۔۔۔ میں نے منمناتے ہوئے۔پہلے لو میرج کا شوق اور پھر اپنے دوستوں کے منگیتروں کے لمبے چوڑے قصے سنادیئے۔۔۔
    جسے سن کر وہ بہت دیر تک ہنستا رہا۔۔ یہاں تک کے اصلی آنسو آنے لگے ۔۔ اس کے نہیں میرے۔۔۔ میں نے سر جھکا لیا۔۔ اف جھلی اس لئے منع کیا تھا--؟ مجھے لگا تم کسی اور سے شادی کرنا چاہتی ہو۔۔۔
    تھینک گاڈ اینڈ آئی لو یو۔۔ اس نے میرے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی پہنا کر مجھے دیکھا۔۔ اور میں خوشی سے پاگل ہو گئی وہ کتنا اچھا تھا نا، مجھے آج پتہ چلا اور وہ مجھ سے کتنی محبت کرتا تھا ساتھ یہ بھی۔۔
    اگلی صبح مجھے اپنی کسی دوست سے جھوٹ نہیں بولنا پڑا۔۔۔
    ہاہ میرا فارس۔۔۔
    واقعی بہت رومینٹک تھا اور یہ بات جاننے کے لئے مجھے کسی ویلنٹائن ڈے کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔
    "انسان کو سب کچھ مل جاتا ہے بس کچھ صبر کرنا پڑتا ہے"۔ یہ بات بھی مجھے فارس نے اچھی طرح سے سمجھا دی تھی۔ اور میں سمجھ بھی گئی تھی
    وہ ایک مہینہ فارس کی سنگت میں کیسے گزرا میں نہیں جانتی بس میں اتنا جانتی ہوں مجھے اس سے بہت محبت ہو گئی ہے۔۔ جو اسے مجھ سے نکاح سے پہلے ہی تھی۔۔ کتنا گھنا میسنا تھا وہ۔۔۔ ایک مہینے بعد وہ چلا گیا مجھے جلد بلانے کا کہہ کر۔۔ میں دن بھر اسکی کال میسج کا انتطار کرتی اور مہینے بعد آنے والے خط کا۔۔۔ ہر وقت مجھے بس یہی پوچھنا ہوتا میرا پاسپورٹ کب بنے گا ویزہ کب لگے گا۔۔ وہ مجھے تسلی دیتا رہتا۔۔۔ تین مہینے اسی طرح گزر گئے۔
    پھر جب مجھے معلوم ہوا میں اس کو خوش خبری دینے والی ہوں۔۔ مجھے دکھ ہوا وہ میرے پاس نہ تھا۔۔۔ ہماری اب کم ہی بات ہوتی وہ اکثر مصروف رہتا۔۔ مجھے پھر سے لو میرج کا خواب یاد آیا۔۔۔ آہ۔۔۔ اگر لو میرج ہوتی تو میرا کتنا خیال رکھتا۔۔۔ خیر سے ایک مہینہ رہ گیا تھا جب وہ آیا۔۔۔ میں خفا خفا سی تھی۔۔ مگر اسکی محبت ایسی تھی کے دو ہی دن خفا رہ سکی۔۔۔
    ______________
    میراایک بیٹا ہوا جو بہت ہی پیارا اور خوبصورت تھا بلکل فارس جیسا میری رہی سہی ناراضگی اسے دیکھتے کھو گئی۔۔
    مگر فارس پھر سے چلا گیا۔۔ میرے دل کے ایک کونے میں پھر سے اداسی چھا گئی۔۔
    اگر میری لو میرج ہوتی تو وہ کبھی مجھے یوں چھوڑ کر نا جاتا۔ میرے دل کا درد رفتہ رفتہ بڑھنے لگا مگر میں خود کو اپنے بیٹے میں مصروف رکھ رہی تھی۔۔
    ان ہی دنوں میری دو دستوں کی لو میرج ہو گئی۔۔ میرے زخم ہرے ہونے لگے اور زندگی وسوسوں میں گزرنے لگی۔۔ میری دوستیں جب مجھے اپنی شادی شدہ زندگی کے قصے سناتیں تو میں بے اختیار اللہ سے شکوہ کرنے لگتی کاش میری بھی لو میرج ہوتی اس بار کا ویلنٹائن ڈے بھی اداس ہی گزرا میں اس شادی سے اب پھر ہر گز خوش نہ تھی۔
    میرا بیٹا بڑا ہونے لگا۔۔ وہ سال بھر کا بھی نہ تھا۔ جب فارس نے مجھے امریکہ بلا لیا۔۔ میں چلی گئی وہاں اس نے مجھے پرائیوٹ کالج میں داخلہ لے دیا۔۔ وہ کافی مہنگا تھا۔۔۔ اور چیکو کا باقاعدہ چیک اپ کرواتا اور میرا بھی بہت خیال رکھتا۔۔۔ میں ڈاکٹر بن گئی اور ساتھ ہی میرے گھر ایک بہت پیاری بیٹی ہوئی میری بیٹی بہت زیادہ پیاری تھی فارس مجھ سے زیادہ اس سے ہی محبت کرتا۔۔مگر دل میں لو میرج کی چنگاری آج بھی زندہ تھی۔۔۔۔ پھر فارس نے میرے فگر اور جاب کا خیال کرتے یہیں پر فل سٹاپ لگا دیا۔۔۔
    مگر لو میرج کا خواب دل میں ابھی بھی کبھی چنگاریاں اٹھاتا تھا۔۔۔
    راوی چین ہی چین لکھ رہا تھا جب اماں کا انتقال ہو گیا۔۔ میں اپنے ان کے ساتھ بچوں کو لے کر پاکستان گئی۔۔ جیسی بھی تھی میری ماں تھی مجھے بہت مشکل سے فارس نے سنبھالا ورنہ مجھے آج پتہ چلا میں اماں سے اتنی محبت کرتی ہوں۔۔ بے شک وہ تمام عمر سوتیلی ماں بن کر رہیں اور میری شادی فارس جیسے آدمی سے کر کے مجھے تباہ کردیا۔
    آج سے پہلے میں نے صرف انکے لئے سوتیلا پن محسوس کیا تھا۔۔ مگر اب ماں بن کر احساس ہوا تھا۔ وہ کیوں ہر وقت مجھ سے خفا رہتی تھیں۔ امی میں انکے جنازے سے لپٹ لپٹ جاتی۔۔۔
    جو میری وجہ سے ہی لیٹ آمد کے باعث بہت دن سرد سے خانے میں تھا ۔۔۔
    خیر پاکستان آئی تو دوستوں سے بھی ملنا ہوا۔۔۔ وہ افسوس کرنے آئیں اور ساتھ ہی اپنا لو میرج کا بھی ایکسپیرئنس شئیر کرنے لگیں۔۔
    ایک نے بتایا۔۔جو لوگ شادی سے پہلے محبت کر لیتے ہیں وہ بعد میں صرف کام کروانا جانتے ہیں۔۔ ساری باتیں پہلے کرلو تو بعد میں صرف دال سبزی آٹا یہی سب رہ جاتا ہے۔۔۔
    دوسری بتانے لگی غیروں سے بہتر اپنے ہی ہوتے ہیں کم سے کم تپتی دھوپ میں تو نہیں مارتے۔۔ میری ساس ہر وقت لو میرج کا طعنہ دیتی ہیں اور وہ خاموشی سے سنتے ہیں۔۔۔ ہر چیز پر روک ٹوک۔۔۔
    میرے تو اپنے شوہر ہر وقت لو میرج کا طعنہ دیتے ہیں۔۔۔ گھر ہر وقت جنگ جدل بنا رہتا ہے ۔۔ اماں ابا سے کہو تو کہتے ہیں۔۔ ہم نے رشتہ نہ طے کیا تھا تم لوگ خود ہی کر آئیں تھیں۔۔ اور ہر سال جب بھی ویلنٹائن ڈے آتا ہے
    ہماری زندگی عذاب میں ڈل جاتی ہے وہ کہتے ہیں ۔جو لڑکی اپنی عزت خود نہیں کرتی
    کوئی لڑکا اسکی کبھی عزت نہی کرے گا.
    جب کوئی لڑکی ڈیٹ یا لڑکے کے ساتھ کہیں تنہائی میں ملتی ھے
    تو لڑکے کے مایئنڈ میں یہ بات ضرور آتی ھے
    کہ جو لڑکی اپنے ماں،باپ اپنے بہن،بھائی کی عزت کی پاسداری نہیں کرسکتی
    جن کے ساتھ خون کا رشتہ ھے،
    لڑکا ایسی لڑکی کو ڈیٹ پر تو ضرور لے جائے گا
    مگر جب شادی کی بات آئے گی
    تو پاکیزہ کردار کی لڑکی کا ہی انتخاب کرے گا.
    اس لئےاپنے آپ کو ایسا چاند نہ بناؤ
    بلکہ ایسا سورج بنو جس پر نظر پڑتے ہی جھک جائے.
    اللہ نے بیٹی کورحمت بنا کر بھیجا ھے اسے رحمت بن کر رہنا چاہیے نا کہ زحمت
    ہمارے شوہر طعنہ دیتے ہیں کیسے مجھ سے ملنی آتی تھیں حلانکہ میں ایک غیر مرد تھا۔۔۔ کاش ہماری لو میرج نہ ہوتی کم سے کم عزت سے زندگی تو کٹ جاتی محبت تو مل ہی جاتی ہے بات تو عزت کی ہے جب شوہر ہی عزت نہ دے تو ساس نند دنیا کوئی بھی عزت نہیں دیتا اس ویلنٹائن ڈے کی وجہ سے ہم نے پہلے خود عزت خراب کی اب کسی کو دیکھتے ہیں تو ترس آتا ہے۔۔ وہی اچھے ہیں جو حرام کے رشتوں میں خواب کی تعبیر نہیں ڈھونڈتے۔۔ کم سے کم عزت سے سر اٹھا کر تو جیتے ہیں۔۔
    اس قسم کی بہت سی باتیں مجھے انہوں نے بتائیں۔۔
    "وہ تو چلی گئیں ۔۔ اور میرے دل میں دبی لو میرج کی حسرت بھی چلی گئی۔۔ میں نے اس رات امی کو بہت یاد کیا اور اللہ کا بہت شکریہ ادا کیا۔۔۔ "اور میرے وہ تو نکاح کے بعد بھی مجھ سے فاصلے پر رہے تھے نہ کبھی کسی ویلنٹائن ڈے پر اوچھی حرکت کی تھی نا کبھی مجھے کسی خواہش کا طعنہ دیا تھا فارس تو اللہ کا انعام تھے۔۔ مجھے اب سمجھ میں آئی جو محبت کرتے ہیں وہی عزت دیتے ہیں اور فارس نے تو کبھی مجھ سے اونچی آواز میں بات تک نہ کی تھی مجھے اپنے شانہ بشانہ چلایا تھا۔ مجھے سوسائٹی میں موو اون کرنا سکھایا تھا۔۔
    آج سمجھ میں آیا تھا، وہ ہمارے رشتے اور میری ہی عزت کی حفاطت کر رہے تھے۔۔ کتنے اچھے ہیں وہ۔۔ میں نے ایک نظر چارپائی پر اپنی بیٹی کو سینے پر سلائے اپنے معصوم اور پاکیزہ شوہر کو دیکھا۔۔ جن کا ہر خالص جذبہ اور محبت صرف میرے لئے تھی۔۔ میں تو دنیا کی سب سے خوش قسمت لڑکی تھی جسے اتنا پاکیزہ شوہر ملا تھا۔۔ ویلنٹائن ڈے کا کیا ہے آپ کا شوہر جس دن جب کہیں بھی آپکی طرف محبت سے مسکرا کر دیکھے یا چار لوگوں میں کھڑے ہو کہ کہے میٹ مائے وائف یا آپکے کے کھانے کی تعریف کرے وہ ویلنٹائن ڈے ہی ہوتا ہے۔ مھبت کے اظہار کے لئے کسی خاص دن جگہ یا تحفے تحائف کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ چیزیں تو مصنوعی ہوتی ہیں وقتی ہوتی ہیں ٹوٹ جاتی ہیں پرانی ہو جاتی ہیں گم جاتی ہیں۔ مگر عزت جذبات اور پاکیزہ محبت نہ کہیں جاتی ہے نہ کبھی ختم ہوتی ہے نہ بے عزتی کا داغ لگنے دیتی ہے۔۔اور فارس تو بہت پاکیزہ محبت کرنے والے انسان تھے ان کا کسی عام لو میرج کرنے والے سے کیا مقابلہ جو پہلے اظہار کرتے ہیں جان دینے کی قسم کھاتے ہیں چاند تارے توڑ لانے کی باتیں کرتے ہیں پھر لو میرج کرکے اسی محبوبہ کو مفت کی نوکرانی بنا دیتے ہیں پھر عورت سر اٹھا کر نہ بات کر سکتی ہے نا کسی غلط اقدام شوہر کو کچھ کہہ سکتی ہے۔۔ دنیا تو دنیا ماں باپ بھی کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ وہ آپکی اپنی چوائس ہوتی ہے۔۔
    اگر میری کسی انجان شخص سے ملاقاتوں کے بعد لو میرج ہو جاتی تو میرا بھی یہی حال ہوتا۔ میں فارس کو دیکھتے سجدہ شکر میں جھک گئی۔۔
    بے شک میرے "فارس" میرے لئے اللہ کا تحفہ ہیں۔۔۔ بہت شکریہ اللہ پاک۔۔ آئی لو یو اللہ۔۔
    ختم شدہ۔
    Vist My Thread View My Posts
    you will never a disappointed

  • #2
    زبردست ساقی بھائی لاجواب تحریر ہے




    Comment


    • #3
      بہت دن بعد کوئی بے مثال تحریر پڑھنے کو ملی ہے ساقی صاحب آپ خوش رہیں آباد رہیں

      Comment


      • #4
        بہت عمدہ

        Comment


        • #5
          واہ کیا کمال کی تحریر ہے زبردست بہت اعلی معاشرے کے لیے ایسی ہی تربیت کی ضرورت ہے

          Comment


          • #6

            دلچسپ اور بہت ہی زبردست کہانی ۔​

            Comment


            • #7
              بہت کمال کی تحریر
              محبت کے اظہار کے لیے کوئی ٹائم کوئی دِن نہیں ہوتا

              Comment


              • #8
                bohat he achi tehreer hai jiss mai maza be sabaq b

                Comment


                • #9
                  دلچسپ اور مزیدار اسٹوری

                  Comment


                  • #10
                    Boht khoobsurat or mohabbat kye jazbe sye bahrpor kahani

                    Comment

                    Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                    Working...
                    X