Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

دوست کی بیوی اور اس کے گھر والے

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • دوست کی بیوی اور اس کے گھر والے

    میرا نام سمیر ہے۔ جب یہ واقعہ ہوا تب میری عمر ۲۳ سال تھی جس سے کوئی بھی لڑکی، عورت یا کوئی بھی مرد اندازہ لگا سکتا ہے کہ میں شادی شدہ ہوں۔ میرا خود کا چھوٹا سا کاروبار ہے۔ مطلب میری ایک چھوٹی سی دکان ہے جہاں صبح سے شام تک میرا جگری دوست بیٹھا رہتا تھا کبھی کبھی وہ اپنا ڈیرہ قریبی بینک کے پاس بھی ڈال لیتا تھا۔ گھر کا اکلوتا ہونے کا ناتے اس پر ذمہ داریاں ہونی چاہیے تھی لیکن وہ لاپروا بنا پھرتا تھا پھر ایک دن اچانک احسن کے والد کے دوست نے احسن کے لیے سعودی عرب کا ویزہ بھیج دیا۔ تب ماں کو اپنے بیٹے کے بہیانے کی پڑی۔ احسن کی منگنی ہوچکی تھی اس لیے احسن کے سسرالیے فورا مان گئے۔
    ہم سب دوستوں اور دکانداروں نے اس کی شادی پر کافی مزا لیا تھا، مزہ صرف کھانے کا تھا لیکن شادی کے دن میرے دوست احسن کی سالی فائزہ مجھ پر کافی حد تک فدا تھی۔
    میں نے بھی سمائل کے متبادل سمائل ہی پاس کی، نکاح کی تقریب تک میں احسن کی بیوی نازیہ کے بارے میں جان چکاتھا اور سالی کے بارے میں بھی۔ نازیہ کے جسم کے متعلق بتاتا ہوں۔ نازیہ نارمل ہائیٹ کی لڑکی ہے، بوبز کا سائز ۳۲ بتیس، کمر شاید ۳۰ تیس اور باہر کو نکلی گانڈ صرف ۲۸ اٹھائیس سائز کی تھی۔ جب بھی احسن اپنی منگیتر سے ملنے جاتا تب مجھے رکھوالی کے لیے اپنے ساتھ لے جاتا تھا ان تمام واقعات کے دوران نازیہ مجھے کبھی کبھی مسکرا کر دیکھ لیا کرتی تھی لیکن میں اس وجہ سے آگے نہیں بڑھا۔ احسن چاہے مجھے اپنا جگری یار مانے یا نہ مانے میں اسے ضرور مانتا تھا اس لیے میں نازیہ کی اس مسکراہٹ کا کوئی جواب نہ دیتا تھا۔
    اب فائزہ کی طرف آتے ہیں، فائزہ اپنی بہن کی طرح نارمل ہائیٹ کی لڑکی ہے۔ فائزہ کا تھوڑا سا رنگ فئیر ہے نازیہ سے، فائزہ کے بوبزاور گانڈ کا سائز بتیس سے زیادہ تھا، کمر تیس تھا۔
    خیر نکاح کی تقریب کے وقت ہم سب دوست احسن کے قریب ہی کھڑے تھے، میں چونکہ اکثر احسن کے سسرالیوں کے گھر آتا جاتا رہتا تھا اس لیے مجھے احسن کے سسر نے ایک کام کے لیے گھر کی بیک سائڈ پر بنے سٹور روم کی طرف بھیج دیا۔ میں فورا سٹور روم کی طرف بڑھا تبھی فائزہ مجھے ساری مجلس میں اکیلے کھڑی نظر آئی مجھے اپنی طرف دیکھتا دیکھ مسکرانے لگی، میں نے بھی موقعہ محل کے حساب سے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ فائزہ کو رپلائی دیا۔
    فائزہ مسکراتے ہوئے اندر کی جانب چل دی، اندر جاتے جاتے اپنے ہاتھ کو اندر کی طرف موڑتے ہوے مجھے اشارہ کیا جسے میں نے چند لمحوں کے بعد سمجھ لیا اور اندر کی جانب بڑھ گیا۔ میں نے احسن کے سسر کے بتائے کام کو اگنور کردیا تھا۔
    میں نے باہر کے تمام دوستوں سے سن رکھا تھا کہ فائزہ کو اپنی پھدی مروانے کا بہت شوق ہے، آج دن تک ناجانے اس نے کتنے لنڈ لیے ہیں اسی سوچ کے ساتھ میں آگے کو بڑھ گیا۔
    ہم دونوں کچھ دیر بعد ایک کمرے میں آمنے سامنے کھڑے تھے جہاں احسن کےسسرالیوں نے اپنا سارا قیمتی سامان شفٹ کردیا تھا۔ شاید انہوں نے شادیوں میں چوری چکاری کے سبب ایسا کیا تھا۔ کچھ دیر ہم دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا پھر فائزہ نے آگے بڑھ کر دروازے کو لاک کردیا اور میرے سینے سے لگ گئی۔
    فائزہ کی بھاری بھرکم چھاتی میری چھاتی سی لگی ہوئی تھی اور میں فائزہ کے جسم کی اتھل پتھل کو واضح محسوس کررہا تھا۔ میں نے اپنے اس دوست کے مطابق خود کو کنوارہ بنائے رکھنے کی ایکٹنگ شروع کردی۔
    فائزہ نے کچھ دیر تک میری آنکھوں میں دیکھا پھر اپنا جسم اوپر اٹھاتے ہوئے میرے ہونٹوں کے برابر پہنچ کر اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں سے جوڑ دیے۔
    کچھ دیر کی کوشش کے بعد میں نے بھی فائزہ کی طرح کس کرنا شروع کردی تھی وقت کم تھا لیکن شہوت زدہ لمحوں کی وجہ سے میرا لنڈ کھڑا ہوچکا تھا، فائزہ نے ایک ہاتھ سے میرے لنڈ کو پکڑ کر آہستہ آہستہ اوپر نیچے کرنا شروع کردیا۔
    فائزہ نے کچھ لمحوں کے بعد اپنے ہونٹوں کو مجھ سے الگ کیا اور نیچے پڑی ہوئی چٹائی پر لیٹتے ہی اپنی شلوار اتار کر سائڈ پر رکھ دی۔ میں خاموشی سے کھڑا یہ سب کارنامہ دیکھ رہا تھا۔ پھر فائزہ نے مجھے اپنی طرف آنے کا اشارہ کیا۔ میں اس کی بات مان کر اس کی طرف بڑھا تب فائزہ نے میرے لنڈ کو دوبارہ پکڑا اور آہستہ سے بولی
    فائزہ: پہلے کبھی یہ کام کیا ہے یا نہیں؟
    میں نے انکار میں سر ہلا کر اسے اس کے سوال کا جواب دیا۔ تب فائزہ کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی اس نے اپنے ہاتھ پر تھوک جمع کیا اور میرے لنڈ پر ڈال کر مٹھ لگانے لگی، اس وقت حالات کی نزاکت کی وجہ سے میں بہت کچھ سوچ رہا تھا لیکن فائزہ کی اس حرکت سے میرے جسم کا روم روم سرور کی کیفیت میں مبتلا ہوچکا تھا تب فائزہ سیدھی لیٹ چکی تھی اور مجھے اپنے اوپر آنے کا اشارہ کیا۔ میں نے ٹھیک ویسا ہی کیا،
    فائزہ نے دیر نہ کرتے ہوئے میرے گیلے لنڈ کو پکڑ کر اپنی پھدی کو اندر کا راستہ دیکھا دیا۔ پھر میری ہپس پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی: آہستہ آہستہ جھٹکے لگانا شروع کردو۔
    میں نے کافی سیکس و پورن کلپس دیکھ رکھی تھی اس لیے آہستہ آہستہ دو سے تین جھٹکے لگا کر اپنے لنڈ فائزہ کی دہکتی ہٹی میں اتار دیا۔ پھر میں اسی رفتار سے چودائی کرتا رہا پھر کچھ لمحوں کے بعد میرے دھکوں کی رفتار میں تیزی آتی گئی فائزہ کبھی میری کمر کو سہلاتی تو کبھی اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر اپنی سسکیوں کو روکنے کی کوشش کرتی تو کبھی اپنا سر دائیں بائیں کرتی، میں یہ سب حرکات خاموشی سے دیکھے جا رہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ اپنے دوستوں کی باتوں پر غور کرتا رہا، پھر میری سوچوں کا وقت ختم ہوا جب فائزہ نے میرے سر کو پکڑ کر اپنے بوبز پر دبا لیا اور میں اس کے بوبز سے نکلنے والی خوشبو میں مدہوش ہوتے ہوئے خود کو روک نہ پایا۔
    ہم انیس بیس کے فرق سے ایک ساتھ فارغ ہوچکے تھے، میرے لنڈ نے آج کافی عرصے کے بعد اپنا پانی کی پھدی کے اندر چھوڑا تھا۔ (
    میں اس سیکس سے کافی پرسکون ہوچکا تھا فائزہ نے میرے سر کو اپنی گرفت سے آزاد کردیا تب میں خاموشی سے اٹھا اور اپنی شلوار اٹھا کر سیدھا کھڑا ہوگیا۔ تب تک فائزہ بھی اٹھ چکی تھی فائزہ نے بیٹھے ہوئے میرے لنڈ کو پھر سے پکڑ لیا جہاں ابھی بھی فائزہ اور میری منی لگی ہوئی تھی۔
    میں: سب ڈھونڈ رہے ہوں گے۔ اب چلنا چاہیے۔
    فائزہ نے بستروں میں سے ایک کپڑا نکال کر میرے لنڈ کو صاف کیا اور مجھے چھوڑ دیا۔ مطلب میرے لنڈ کو اپنے ہاتھ سے آزاد کردیا۔
    میں اس وقت جلدی میں تھا اس لیے فائزہ کا انتظار نہ کرتے ہوئے فورا وہاں سے نکل کر اپنے دوستوں کے پاس چلا گیا۔ جہاں ابھی ابھی نکاح ہوا تھا۔
    خیر ہم سب ڈولی لے کر احسن کے گھر چل دیئے۔ میں نے فائزہ والی بات کسی سے بھی نہیں کی، سارے کاموں کاجوں کو ختم کرکے میں اپنے گھر آگیا۔ میں نے اپنے گھر والوں کو سلام کیا اور اپنے کمرے میں گھس گیا۔
    کچھ دیر بعد خود کو ریلیکس کرنے کے بعد میں دکان کا کام شروع کردیا جو رات کے ایک بجے ختم ہوا۔

    صبح میری نیند اپنے وقت پر کھلی معمول کے مطابق ناشتہ کرنے کے بعد میں اپنی دکان پر گیا کچھ دیر تک ضروری معاملات دیکھ کر، گھر واپس آگیا۔ جلدی کے چکر میں نہانا بھول چکا تھا جب یاد آیا تب میرے پاس وقت نہیں تھا اس لیے بغیر نہائے احسن کے ولیمے کی تقریب میں شرکت کے لیے نکل پڑا۔

    ہمارے ہاں بیرونی دوستیاں ہوا کرتی ہیں اس لیے زیادہ شادیاں ہم لڑکوں (مردوں) کو ہی دیکھنا اٹینڈ کرنا پڑتی ہیں۔ میرے احسن کے گھر پر پہنچنے تک احسن کے دوستوں نے تمام معاملات دیکھ لیے تھے، میں دکان سے گھر اور پھر گھر سے ولیمے پر آنے تک مجھے کافی دیر ہوچکی تھی اس لیے میرے آنے تک ولیمے کی تقریب کی تیاریاں ہوچکی تھی۔

    میں کچھ دیر احسن اور نازیہ کے قریب بیٹھا رہا پھر کسی وجہ سے اٹھ کر احسن کے گھر کے اندرونی جانب چل دیا۔ کچھ کام جو چھوٹے موٹے تھے ان کو نبٹاتے ہوئے اچانک فائزہ مجھے نظر آئی۔

    فائزہ استری اسٹینڈ کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑی مجھے دیکھ کر مسکرائے جا رہی تھی، ہال میں تمام افراد جمع تھے کچھ عورتیں اندر اور کچھ باہر آجارہے تھے۔ فائزہ کی مسکراہٹ دیکھ میرے اندر ہلکی سی سنسنی پھیل رہی تھی۔

    میں فائزہ کو یکسر فراموش کرتا واپس گھر سے باہر بنے تقریبی ھال میں چلا گیا۔ احسن سٹیج سے تھوڑا دور کھڑا کسی سے موبائل پر بات کر رہا تھا تب میں بھی اس کے پاس کھڑا ہو کر اس کی باتیں سننے لگا کچھ دیر بعد نازیہ نے احسن کو بلایا جس پر احسن نازیہ کی طرف دیکھا۔

    نازیہ: مجھے پانی پینا ہے فائزہ گھر گئی تھی ابھی تک نہیں آئی تم جا کر لادو یا منگوادو۔

    احسن (مجھ سے دھیمی آواز سے): جا جاکر اپنی بھابھی کی خدمت کر۔۔۔

    میں نے نازیہ کے سامنے سے خالی جگ کو اٹھایا اور کچھ دور پڑے ڈرم سے پانی بھرا اور واپس نازیہ کی طرف آگیا۔ نازیہ کو گلاس میں پانی ڈال کر دیتے ہوئے واپس احسن کی طرف مڑنے لگا تب نازیہ بولی: کچھ دیر اپنی بھابھی کے قریب بھی بیٹھ جاو۔ صبح سے بور ہورہی ہوں۔
    میں نے ایک نظر احسن پر ڈالی جو اس وقت اپنے دوسرے دوست کے پاس نازیہ کی طرف کمر کیے کھڑا باتیں کررہا تھا۔ مجھے احسن کی طرف دیکھتا دیکھ نازیہ پھر سے بولی:

    دیور جی۔۔۔ کس سوچ میں پڑ گئے ہو؟ میں نے کوئی مہنگی فرمائش نہیں ڈالی جس کو پورا کرنے سے پہلے آپ نے احسن سے اجازت مانگنی ہے۔

    میں کچھ دیر پہلے احسن کی اور پھر اب نازیہ کی دوہری معنی کی باتیں سن کر سوچ میں ڈوبے ہوئے نازیہ کے قریب بیٹھ گیا۔

    نازیہ پانی کا ایک گھونٹ پینے کے بعد بولی: دیور جی۔۔۔ ویسے ایک بات پوچھنی تھی اگر آپ کی اجازت ہو تو؟

    میں نے نازیہ کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا: ہاں کیوں نہیں، آپ نے جتنی بھی باتیں پوچھنی ہیں پوچھیں۔۔۔

    نازیہ معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ: جب میں نے سوال جواب شروع کرنے ہیں تب سارا دن گزر جانا ہے اور شاید رات بھی، پھر آپ کے دوست کا کیا ہوگا اگر آپ وہاں موجود ہوں گے تو

    میں نازیہ کی اس ڈبل میننگ بات سے تھوڑا بہت کنفوز ہوگیا تھا، میں نے پہلے جی، جی کہا پھر فورا نہیں ایسی کوئی بات نہیں ، بولنے لگا جس پر نازیہ اپنے ناک پر مہندی والا ہاتھ رکھ کر ہنسنے لگی۔

    نازیہ: اچھا اچھا۔۔۔ زیادہ باتیں نہیں پوچھتی آپ اتنا زیادہ کنفوز نہ ہوں، یہ لیں پانی پییں۔

    میں نے پہلے انکار کیا تب نازیہ بولی: پانی پی لیں نا۔۔۔ یہ نہ ہو کہ بعد میں آپ کو یہ پانی بھی نہ ملے۔

    میں نے نازیہ کے ہاتھ سے پانی کا گلاس لے لیا اور خاموشی سے پانی کے گھونٹ اپنے خشک ہوتے گلے سے نیچے اتارے نازیہ مجھے پانی پیتا دیکھتے ہوئے بولی:

    نازیہ: ویسے آپ آج نہائے نہیں نا؟؟؟

    میں نے کوئی تاثر نہیں دیا کیونکہ میں نازیہ کی بات پر غور کر رہا تھا، آج دن تک کسی کو بھی معلوم نہیں ہوا تھا کہ میں کب نہایا اور کب نہیں نہایا۔

    نازیہ دوبارہ بولی: ویسے آپ کل نکاح کے وقت کہاں تھے؟ فائزہ بھی غائب تھی۔ عجیب معاملہ ہے۔

    نازیہ نے ولیمے کی تقریب پر ایک نظر ڈالتے ہوئے دوبارہ سے میری آنکھوں میں دیکھا، میں جہاں تھا وہیں کا وہیں رک گیا۔ کیونکہ اتنے سالوں سے میں دو عورتوں کو ٹھوک ٹھوک کر خود کو ٹھنڈا کر چکا تھا لیکن کسی کو علم نہیں تھا۔ یہ اچانک نازیہ کو کیسے علم ہوگیا۔

    نازیہ نے بہانے سے کُشن ( چھوٹے تکیے) کو صحیح کرتے ہوئے میرے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے بولی: گلاس سائڈ پر رکھ دیں دیور جی۔ میں فائزہ کی تمام حرکات پر نظر رکھتی ہوں۔ آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں میں کسی کو کچھ بھی بتانے والی نہیں، کیونکہ اس میں آپ کی بدنامی کم، اور فائزہ کی زیادہ ہے۔

    میں نے ایک نظر نازیہ کی چہرے پر ڈالی پھر دوسری نظر اپنے ہاتھ پر جو نازیہ کے ہاتھ کے نیچے تھا۔ میرے ذہن میں یہ سوال بھی آرہا تھا کہ اگر نازیہ کو اپنی بہن کی حرکات پر شک ہے تو اس نے اب تک اس کو روکا کیوں نہیں،

    نازیہ: آج سے سات دن تک آپ آرام سے گزاریں پھر اس کے بعد آپ کو اپنی بھابھی کی خدمت بھی کرنی ہے۔ ہے نا احسن۔

    نازیہ نے اپنی گفتگو کے آخری حصے پر تھوڑا سا زور دیتے ہوئے احسن کی جانب دیکھا، احسن نے بھی دور سے مسکرا کر نازیہ کی ہاں میں ہاں ملائی۔ میں اس وقت ایک عجیب سی کشمکش میں مبتلا ہوچکا تھا کیونکہ میں نے آج دن تک احسن کو اپنا جگری دوست مانا تھا آپ اس بات سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ میں نے احسن کی بہن (جس کی شادی ہوچکی تھی) کو سیکس کرتے ہوئے دیکھ لیا تھا اور میں نے خود کو ان دونوں ( عائشہ اور اس کا شوہر جو بعد میں بنا) پر ظاہر بھی کردیا تھا۔ عائشہ نے بعد میں اس بات کو احسن یا احسن کی امی کو نہ بتانے کے بدلے خود کو میرے سامنے پیش کردیا تھا لیکن میں نے انکار کردیا تھا۔ جاری ہے
    Last edited by Man moji; 02-03-2023, 10:33 PM.

  • #2
    شاندار اور جاندار اپڈیٹ کے ساتھ بہترین اور عمدہ آغاز

    Comment


    • #3
      بہت عمدہ اور شہوت انگیز سٹوری ھے

      Comment


      • #4
        واہ کیا بات ہے ۔۔شین تو واقعی میں بہت اعلی ہے۔۔۔

        Comment


        • #5
          کمال کی سٹوری

          Comment


          • #6
            سب کا شکریہ کومنٹس کرنے کا

            Comment


            • #7
              Muzay ki khani hay shandar

              Comment


              • #8
                میری سوچ کے لمحات اس وقت ٹوٹے جب فائزہ میرے کندھے پر اپنی بازو رکھ کر بولی۔
                فائزہ: جناب دن کو دن کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ اگر دل کر رہا ہے تو بندے حاضر ہو جاتے ہیں۔

                فائزہ کی اس بات پر پاس بیٹھی نازیہ مجھے دیکھ کر مسکرانے لگی، میں صبح سے معنی خیز باتوں اور اشاروں سے کنفوز ہوچکا تھا اس لیے فورا وہاں سے اٹھ کر احسن کی طرف بڑھ گیا۔

                فائزہ کے اشارےو مسکراہٹ، احسن کی اجازت، اور نازیہ کی معنی خٰیز باتوں سے میرا لنڈ ہاف کھڑا ہوچکا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کرکے احسن کے ولیمے کی تقریب ختم ہوئی اور میں گھر واپس آکراپنے کام میں مصروف ہوگیا۔

                صبح اپنے وقت پر دکان پر چلا گیا۔ سارا دن کسٹمرز میں مصروف رہا کچھ کسٹمرز سےبحث بھی ہوئی کیونکہ میں دو دن سے مسلسل دکان جلدی بند کرکے چلا جاتا رہا تھا۔ کسٹمرز کی بھی دو اقسام ہیں ایک جو سچے ہوتے ہیں اور دوسرے جھوٹ بولتے ہیں۔ شام کے وقت احسن کی کال آئی سلام دعا کے بعد احسن اصل نکتے کی طرف آیا۔

                احسن: سمیر ! ایک چھوٹا سا کام تھا

                میں: ہوں۔۔۔۔ (کیونکہ میں ایک طرف احسن کی کال بھی سن رہا تھا اور دوسری طرف کام بھی کررہا تھا)

                احسن: یار مجھے آج شام سے دعوتوں میں بھی جانا پڑے گا ایک تو شادی کی دعوتیں ہیں ساتھ ہی میرے سعودیہ والے کام کی وجہ سے بھی،

                میں کسٹمر کو فارغ کرتے ہوئے: یہ تو اچھی بات ہے پھر۔۔۔ عیش کر۔ ایک وقت کا کھانا کوئی دوسرا میرے علاوہ بھی کھلانے والا ہے۔

                (احسن صبح کی چائے سے شام کی چائے تک میری ہی دکان پر بیٹھ کر پیا کرتا تھا اکثر میرا کھانا سامنے والی بھابھی جی بھیجا کرتی تھی تب بھی وہ (احسن) میرے ساتھ شریک ہوا کرتا تھا۔)

                احسن: یار وہ مسئلہ نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ مجھے نازیہ کے رشتہ داروں کے گھر اکیلا جاتے شرم اور ججک محسوس ہوتی ہے۔ تمہیں معلوم تو ہے نا کہ میں نازیہ کے گھر چائے کے علاوہ کبھی گیا ہی نہیں۔

                میں (نئے کسٹمر کو ڈیل کرتے ہوئے): اچھا پھر

                احسن: میں نے یہ بات نازیہ سے رات کو کی تھی تب اس نے تمہارا بولا۔

                میں کام کرتے کرتے کچھ سیکنڈز کے رکا، : بھابھی نے پھر کیا بولا؟

                احسن: اس نے کہا کہ تم میری شادی کے دوست ہو اس لیے ہر دعوت میں جانا ضروری بھی ہے ساتھ میں میرا ٹائم پاس بھی ہوجایا کرے گا

                میں نے اپنے دل میں سوچا: اس نے خود سے ایسا بول دیا ہے نازیہ جو کل کی بہیائی لڑکی کسی دوسرے مرد کے بارے میں ایسا کیوں بولے گی۔

                احسن مجھے خاموش دیکھ دوبارہ بولا: یار مجھے معلوم ہے تمہاری دکانداری بھی ہے اس لیے نازیہ نے یہ بھی مشورہ دیا ہے کہ ہم صرف رات کے وقت دعوت پر جایا کریں گے۔

                میں نے کچھ دیر سوچا پھر نازیہ کے متعلق سوچتے سوچتے ہاں بول دی۔ شام کے ۴ بجے تھے تب سامنے والی بھابھی (صائمہ) کی کھڑکی کھلی یہ ہمارا ایک محسوس اشارہ ہوتا تھا جب بھی گلی میں کوئی نہ ہوتا یا بھابھی کی بیٹی سو رہی ہوتی تب وہ کھڑکی کھول کر کچھ سیکنڈز کے بعد بند کردیتی تھی۔

                میں نے ایک بار اپنے کاروباری کاموں کے متعلق سوچا، جب تمام کام کلیئر پا کر میں نے مین سوئچ کو آف کیا اور موبائل سائلنٹ کرکے جیب میں ڈال لیا۔ سامنے والے دکاندار کو چائے پینے کا بتا کر دوسری گلی میں گھس گیا۔ یہ بھی میرا طریقہ کار تھا تاکہ کسی کو شک نہ ہو۔ گلے کے کونے میں بنی سیڑھی سے چڑھ کر دوسری جانب صائمہ بھابھی کی گلی میں اتر گیا۔ اس وقت گلی میں ۲ موٹر سائیکل کھڑے تھے جن میں سے ایک میرا بھی تھا۔

                میں نے ایک نظر دونوں طرف ڈالی پھر خاموشی سے بھابھی کے گھر کی سیڑھیاں چڑھنے لگا کیونکہ دروازہ پہلے سے کھلا ہوا تھا۔ سیڑھیاں چڑھنے کے بعد مخصوص کمرے کو کھول کر میں بیڈ پر جا بیٹھا۔

                کچھ دیر بعد بھابھی چائے کے دو مگ لیے، نیلے رنگ ٹی شرٹ اور جینز پہنے لال رنگ کی لپ سٹک لگائے میرے ساتھ آکر بیٹھ گئی۔

                بھابھی کا یہ روپ صرف اور صرف میرے لیے تھا اس کی ایک ہی وجہ تھی بھابھی گجرات شہر کی ایک ماڈرن لڑکی تھی جب ان کی شادی ہوئی تو ان کے تمام ارمان، راستے میں ہی رہ گئے ان کے ایک ارمان کی پورا کرنے کے لیے میری وجہ سے ان کا شوہر آج کویت میں اپنے روزگار میں مصروف تھا۔ بھابھی نے اپنے ہاتھ میں پکڑے چائے کے مگ کو میری جانب بڑھاتے ہوئے بولی:

                بھابھی: احسن کی شادی اچھے سے ہوگئی نا؟؟؟

                میں مگ لیتے ہوئے: ہاں ہوگئی۔

                بھابھی نے ہیلز اتار کر بیڈ پر اپنی ٹانگیں سیدھی کرلیں۔ میں ریلیکس ہوکر چائے پینے لگا۔ جیسے ہی چائے ختم ہوئی اسی وقت بھابھی نے مجھے لیٹنے کا اشارہ کیا۔

                میں روٹین واز خاموشی سے بیڈ کے کنارے سے ٹیک لگا کر ٹانگیں سیدھی کرکے آدھا لیٹا اور آدھا بیٹا ہوا تھا۔ (

                بھابھی نے اپنے ہاتھوں کو میری ران پر گھوماتے ہوئے آہستہ سے بولی: سمیر ! تمہیں معلوم ہے میں نے یہ تین دن کیسے گزارے؟

                میں نے انکار میں اپنا سر ہلایا جس پر صائمہ بھابھی مسکراتے ہوئے میرے سیمی اریکٹ لنڈ کو پکڑ کر نرمی سے مسلنے لگی۔

                بھابھی: ہم نے جو ویڈیو بنائی تھی نا۔۔۔ اسے دیکھ دیکھ کر۔۔۔

                میں جیسے ہی سیدھا ہونے لگا اسی وقت بھابھی نے اپنے ہاتھ کی مدد سے میرے چھاتی کو پیچھے کی طرف پش کردیا۔

                بھابھی: آج میرے پیریڈز کا آخری دن ہے۔۔۔ (کچھ دیر وقفے کے بعد) تم نے میری ہر خواہش کو پورا کیا۔ آج میں تمہاری خواہش کو پورا کرنے والی ہوں۔

                میں ایک طرف یہ سوچ رہا تھا کہ بھابھی کے اگر پیریڈز ختم نہیں ہوئے تو مجھے گرم کیوں کیا اور اب یہ سوچ رہا تھا کہ کیا واقعی صائمہ میری منی کو پی جائے گی جی ہاں یہی میری خواہش تھی۔ جسے آج پہلی عورت پورا کرنے والی تھی میں نے کچھ عرصہ پہلے ایک لڑکے سے سیکس کیا تھا تب اس نے میرا لنڈ اس وقت تک چوسا تھا جب تک میں فارغ نہیں ہوجاتا۔ اس لذت کو محسوس کرکے میں آج دن تک ناجانے کتنی مرتبہ فارغ ہوچکا تھا۔

                یہ سچ ہے کہ میں نے آج دن تک مٹھ نہیں ماری تھی لیکن جب بھی رات کو سونے سے پہلے میں راشد کے بلو جاب کو سوچ کر سوجاتا تھا تب میرا اس رات احتلام ہوجاتا تھا۔ میں نے اپنی خواہش کا اظہار صرف بھابھی صائمہ سے کیا تھا وہ بھی تب جب میں نے ان کے لیے ان کی خواہش کے مطابق سرخ رنگ کی برا و پینٹی لا کر دی تھی۔

                میں بھابھی کی بات سن کر سوچ میں ڈبواہواتھا تب بھابھی نے میری شلوار کو میری گانڈ سے نیچے کرتے ہوئے مجھے پکارا۔

                بھابھی کی مشکل کو آسان بناتے ہوئے میں نے اپنی گانڈ کو بیڈ سے اٹھا دیا جس پر بھابھی نے فورا میری شلوار میری گانڈ کے نیچے سے نکال کر سائڈ پر رکھ دی۔

                اب میرا لنڈ بھابھی کی نظروں کے سامنے جھٹکے کھا رہا تھا تب بھابھی اٹھی اور بیڈ کے پاس پڑے میز سے کیک کریم کو اٹھا لیا اب میری باری تھی میں نے آگے بڑھ کر بھابھی کی نیلی ٹی شرٹ کو اتار کر اپنی شلوار کے اوپر رکھ دیا اور بھابھی کے بوبز کے طرف دیکھنے لگا جو اب ۳۶ کے قریب قریب پہنچ چکے تھے۔ شاید یہ میری ہی محنت کا نتیجہ تھا۔

                بھابھی نے آج پہلے کی طرح برا نہیں پہنی تھی کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ یہ تمام کپڑے کچھ دیر بعد اتر جانے ہی ہیں پھر کیونکہ انہیں پہن کر گندا کیا جائے۔

                میں بھابھی کے بوبز دیکھ کر اپنے ہاتھوں کو روک نہ پایا اور ایک کے بعد ایک اپنے ہاتھوں کو بھابھی کے بوبز پر رکھ کر نرمی سے مسلنے لگا۔

                بھابھی کے منہ سے ہلکی ہلکی سسکاریاں نکلنے لگی تھی تب وقت کی کمی کا احساس مجھے بھی ہوچکا تھا اور بھابھی کو اپنے پیریڈز کا بھی علم ہورہا تھا اسی وجہ سے ہم دونوں رک گئے۔

                بھابھی نے اپنے ہاتھ میں پکڑی کیک کریم کو اپنے ہاتھ میں نکال کر اپنے بوبز پر لگانے لگی۔ کچھ دیر بعد بھابھی نے مجھے پھر سے بیڈ کے ساتھ ٹیک لگانے کا اشارہ کیا لیکن میں سونے کے انداز میں مکمل لیٹ گیا کیونکہ یہ بھی میری ایک چھوٹی سی خواہش میں شامل تھا۔

                بھابھی مسکراتے ہوئے بولی: بہت جلدی ہے؟

                میں ان کو مسکراتا دیکھ خود ہی مسکرا دیا: آپ کو معلوم تو ہے نا۔۔۔ مجھے یہاں آئے ۵ منٹ سے اوپر ٹائم ہوچکا ہے۔ پھر بھی ایسا سوال

                بھابھی: پتا ہے پتا ہے تمہارے بہت سارے کسٹمرز تمہارے لیے لائن لگائے کھڑے ہوتے ہیں۔ بولا بھی ہے ایک عدد لڑکا رکھ لو کام آسان ہوجائے گا۔

                میں: لڑکا رکھ تو لوں لیکن وہ مزہ نہیں جو ’’خود‘‘ کرنے میں ہے۔

                بھابھی میری بات سمجھتے ہوئے اپنے بوبز کو میرے دوبارہ نرم پڑتے لنڈ پر مسلنے لگی کچھ ہی دیر میں میرا لنڈ پھر سے ہارڈ ہوچکا تھا۔ میں نے ایک نظر بھابھی کے بوبز پر ڈالی پھر اپنی آنکھیں بند کیے نازیہ ، فائزہ اور احسن کے متعلق سوچنے لگا۔ اگر نازیہ کو اپنی بہن کے متعلق سب معلوم ہے تو اس نے اب تک اپنی بہن کو روکا کیوں نہیں؟ اور اگر نازیہ اپنی بہن کی کاری گری میں شامل ہے تو۔۔۔ میں تمام باتیں سوچتے سوچتے نازیہ اور فائزہ کی کڑیاں ملا چکا تھا۔

                بھابھی نے مجھے سوچ میں ڈوبا دیکھ میرے لنڈ سے نکلنے والی پری کم کو اپنی زبان سے ٹچ کرکے مجھے خود کا احساس دلایا۔

                میں آنکھیں کھول کر بھابھی کے کارنامے دیکھنے لگا۔ بھابھی کے بوبز پر لگی کریم اب میرے لنڈ پر بھی لگ چکی تھی اب آہستہ آہستہ وہ اپنے بوبز کو میرے لنڈ پر اوپر نیچے کرنے کی رفتار کو تیز کرنے لگی۔

                یہ سب ہم دونوں نے کافی مرتبہ برادر سسٹر سیکس کی ویب سائٹ پر دیکھ چکے تھے آج ہم تقریبا دسویں مرتبہ کررہے تھے لیکن اصل کام کچھ دیر بعد شروع ہونا تھا۔

                بھابھی کے بوبز کی نرمی اور میرے لنڈ کی گرمی ہم دونوں پر اثر دیکھا رہی تھی بھابھی نے آہستہ آہستہ اپنی زبان کو میرے لنڈ پر ٹچ کرنا شروع کردی تھی۔ بھابھی کا ایسا باربار کرنا مجھے سیکس کی جنت کا نظارہ کروانے لگا تھا۔

                بھابھی نے کچھ دیر ایسا کرنے کے بعد اپنے بوبز کو آزاد چھوڑ دیا کیونکہ بھابھی کے بوبز پر لگی کریم اب میرے لنڈ پر منتقل ہوچکی تھی پھر آہستہ آہستہ بھابھی میرے لنڈ پر اپنے چہرے کو جھکانے لگی۔

                میں جانتا تھا کہ یہ پہلی مرتبہ ہے بھابھی کا کسی بھی مرد کا لنڈ چوسنا۔ میں نے ہردم کوشش کرنے کا سوچ رکھا تھا کہ بھابھی کو زبردستی کوئی کام کرنے کا نہیں بولوں گا۔

                بھابھی نے ابھی میرے لنڈ کی ٹوپی اپنے گرم منہ میں لیا مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میرا لنڈ ایک گشتی کی گرم دہکتی پھدی کےاندر جا رہا ہے۔

                میں نے ہر دم کوشش کی کہ میں اپنی کمر کوقابو میں رکھ سکوں میں اس کوشش میں کامیاب بھی ہوچکا تھا لیکن بھابھی جھکنا روکا نہیں کچھ دیر بعد مجھے ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ بھابھی نے میرا سارا لنڈ اپنے منہ کے اندر لے لیا ہے۔

                میں نے اپنا سر اٹھا کر بھابھی کی طرف دیکھا جہاں مجھے بھابھی کا صرف سر نظر آیا اور کچھ نہیں۔ بھابھی کے سر کے ریشمی بال میرے پیٹ پر پھیلے ہوئے تھے۔

                بھابھی نے آہستہ آہستہ اپنا سر اوپر سے نیچے کی طرف کرنا شروع کردیا تھا مجھے معلوم ہو چلا تھا کہ بھابھی نے اس کام کی پریکٹس کی گاجر یا مولی سے شروع کی ہوگی۔ اسی لیے آج ان کا ٹیسٹ کامیاب جا رہا تھا۔ بھابھی کو یہ بھی معلوم تھا کہ یہ میرا دوسرا تجربہ ہے اس لیے بھابھی نے کوئی جلدی نہیں کی۔

                بھابھی بالکل نرمی سے آہستہ آہستہ اپنا ٹیسٹ دیے جارہی تھی۔ میں خود کو قابوکرنے کی ہر ممکن کوشش کرنے لگا تھا۔

                کچھ دیر بعد جب مجھ سے برداشت نہ ہوا تب اپنے جذبات کو قابو میں رکھنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے ٹوٹے پھوٹے الفاظ بول پڑا: بھابھی۔ اب مزید برداشت نہیں ہورہا۔

                مجھے ایسا محسوس ہوا کہ بھابھی میری اس بات پر مسکرائی تھی کیونکہ آج وہ اپنے ٹیسٹ میں ۱۰۰ میں ۱۰۰ نمبر لے چکی تھی۔ وہ نادان بچی کی طرح میرے لنڈ کو مزید سک کرنے لگی۔ اسی وجہ سے میرا لنڈ بھابھی کے منہ کی گرمی کی وجہ سے فارغ ہونے لگا۔

                میری کمر آہستہ آہستہ بیڈ سے اٹھ چکی تھی مجھے بس اتنا معلوم تھا کہ میں فارغ ہورہا ہوں اور کچھ نہیں۔

                میرے منہ سے لذت بھری سسکاریاں نکل رہی تھی جو میری منی کے آخری قطرے کے نکل جانے کے بعد بند ہوئی۔ بھابھی نے میرے فارغ ہوجانے کے کچھ دیر بعد اپنا چہرہ اوپر اٹھا جو باہر سے بالکل صاف تھا۔ حیرت کا جھٹکا اس وقت لگا جب بھابھی بولی: اگر مجھے یہ معلوم ہوتا کہ اس کام میں اتنا مزہ آتا ہے تو میں تم دونوں سے پھدی کی جگہ یہاں ڈالنے کا بولتی۔

                بھابھی اٹھ کر میری بغل میں لیٹ گئی اور میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئی بولی: آج سے۔۔۔۔۔۔
                Last edited by Man moji; 02-03-2023, 10:42 PM.

                Comment


                • #9
                  سٹارٹ بہت اچھا لکھا ہے

                  Comment


                  • #10
                    لاجواب اسٹوری زبردست

                    Comment

                    Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                    Working...
                    X