Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

فقیر سے بادشاہ تک کا سفر

Collapse
This topic is closed.
X
This is a sticky topic.
X
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #31
    بہوت بہوت ہی اعلی یا یج عمدہ سٹوری hn

    Comment


    • #32
      آغاز اور تعارف دونوں ہی نے اپنی طرف کھینچ لیا اب لکھنے والے کو اپنا معیار برقرار رکھنا بہت مشکل ہے
      کیوں کہ بہترین کی تلاش رہے گی

      Comment


      • #33
        Introduction sy to ye kahani bht achi lagi hy aur isny apna sehar tari kar diya hy

        Comment


        • #34
          یہ بہت پکے سروںکی کہانی ھے ...... پرانے فورم پر بھی تھی ... اب اسکو مکمل نہ کرنا قارئین پرظلم ھوگا.....

          Comment


          • #35
            Start to bra tafseeli aur lajawab ha ab aa gay chl ka dekhte hain kia hota ha. Story ki shurwat bhot zbrdst ha

            Comment


            • #36
              کہانی کے تعارف سے اندازہ ہو رہا ہے کہ شاندار اور جاندار شاہکار شروع ہو رہا ہے

              Comment


              • #37
                تعارف سے لگتا ہے کہ سٹوری زبردست ہو گی

                Comment


                • #38
                  قسط نمبر 1




                  میرا گھر ایک حویلی نما ہے مطلب ایک احاطہ میں تین کمرہ بنے ہوئے ہیں اور سامنے برآمدہ ہے جس کے ساتھ سیڑھیاں اوپر جارہی ہیں اوپر ایک کمرہ ہے جس میں کوئی رہتا نہیں بس سامان پڑا ہوا ہے ۔ گیٹ کے پاس باتھ روم اور نہانے کے لیے نلکا لگا ہوا ہے ۔
                  میری عادت تھی صبح اٹھنے کی اورمیں صبح سویرے اٹھتا اور ۔۔۔ کے بعد کھیتوں میں جاتا اور اپنی وررش کرتا کرنے کے بعد گھر جاتا اور ناشتہ کرتا اگر امی گھر ہوتی تو گالیوں سے ناشتہ ساتھ لازمی ملتا حالانکہ میں ان کا ہر حکم بجا لاتا لیکن پھر بھی ہر وقت مجھے کوستی رہتی تھیں کیونکہ ان کا کوئی بیٹا نہیں تھا ۔ لیکن یہ سب عادت ہوچکی تھی ۔ اور اگر امی حویلی جاچکی ہوتی تو سکون پھر بھی نہیں تھا کیونکہ نازنین ہوتی جس کو دیکھ کر میر ا دل خراب ہوجاتا ۔ میں ہمیشہ سوچتا رہتا کہ کبھی تو میرا بھی وقت آئے گا پھر سب کو دیکھ لوں گا ۔ لیکن ابھی تک تو وہ مجھے ہی دیکھ رہے تھے اور میرا ہی بیڑا غرق کررہے تھے ۔ خیر آج اچھا دن تھا کیونکہ امی اور نور تو حویلی جاچکی تھیں اور نک چڑھی نازنین ابھی تک سو کر نہیں اٹھی تھی میں اس کو نک چڑھی ہی کہتا تھا ۔ سویرا نے مجھے ناشتہ دیااور پائل بھی آگئی مجھےکووہ بھی افی ہی کہتی تھی حالانکہ مجھ سے چھوٹی تھی ۔سویرا بولی بھائی ناشتہ کر کے گھرکا کچھ سامان لا دے میں نے بولا ٹھیک ہے لا دیتا ہوں پائل بولی امی مجھے بھی دوکان پر لے کر میں نے نیا جوتا لینا ہے حالانکہ اس کے جوتے ابھی پچھلے ماہ ہی آئے تھے۔ امی پیسے دی گئی ہے مجھے ۔ میں نے سویرا کی طرف دیکھا جوتے اس کے پھٹےتھے لیکن کسی کو کیا امی کو صرف اپنی بیٹیاں نظر آتی اور کوئی نہ۔ میں نے پائل سے کہا کہ اچھا ناشتہ کر کے چلتے ہیں پھر مجھ کھیتوں میں بھی جانا ہے ۔ میں نے جلدی جلدی ناشتہ کیااور دوکان پر چل پڑا سوچتا جارہا تھا کہ کب ہمارے دن بدلے گے اور میں اپنی بہنوں کے لیے کچھ کرسکوں گا ۔ خیر انہی سوچوں میں دوکان پر پنچا اور گھر کا سودا لینے لگا اور پائل اپنے لیے جوتا پسند کرنے لگی گاوں میں ایک ہی بڑا سٹور تھا چچا زمان خان کا جس پر سے ہر چیز مل جاتی کپڑے ،جوتے، برتن بھی مطلب کسی کو کچھ بھی کچھ چاہیے تو چچا زمان خان کی دکان پر مل جاتا ۔ سب گاوں والے زمان خان کو چچا مانے کی دوکان بولتے ۔ خیر گھر کا راشن لیا پائل نے جوتا لیا اور گھر کی طرف چل پڑے اور کھیتوں کی طرف نکل گیا جہاں ابا جی کھیتوں کو پانی لگا رہے تھے اور ٹیوب ویل چلایا ہوا تھا میں نے ابا جی کو کہا کہ آپ بیٹھیں میں پانی لگاتا ہوں اور ان سے کسی لے لی ۔اور چل دیا کھیتوں کی طرف آج کل سردیاںشروع ہونے والی تھیں اس لیے موسم میں تبدیلیاں ہورہی تھیں دھوپ تھیں لیکن اتنی نہیں کہ پسینہ آجائے ۔ میں آخری بنے کو کاٹ کر پانی چلا چکا تھا اور اب کماد کی فصل جو کہ ابھی چار فٹ تک تھی کے باہر بنے پر بیٹھا کہ مجھے کسی کی گھٹی گھٹی چیخ سنائی دی پہلے تو میں نے دھیان نہ دیا لیکن پھر مجھے واضح چیخ سنائی دی تو میں نے سننے کی کوشش کی اور کھڑا ہوگیا میرا قد چھ فٹ تھا اور فصل ابھی چار فٹ تھی اس لیے کھڑے ہوتے ہی مجھے پتہ چل گیا کہ کہاں ہل چل ہورہی ہے ۔ پہلے تو میں للکارنے لگا لیکن پھر سوچا پہلے معاملا تو دیکھ لوں یہ نہ ہو کے میرے للکارنے وہ اس کو مار ہی نہ دے ۔میں دبے پاوں چلتا ہوںآہستہ آہستہ اس جگہ سے پاس پہنچ گیاتو آواز تیز ہوتی گئی اور چیخوں میں اضافہ ہوتا گیا اور ایک مرد کی اور ایک عورت کی آوزیں آرہی تھیں عورت چیخ رہی تھی اور اس کی دبی دبی چیخیں سنائی دے رہی تھیں میرے ہاتھ میں اس وقت کسی والا بھالا تھا میں محتاط انداز میں قدم بڑھا رہا تھا اور پھر مجھے کسی کی ٹانگیں ہوا میں نظر آئیں اور ایک مرد جو کہ ننگا تھا کسی کے اوپر جھکا ہوا نظر آیا اور آگے پیچھے ہو رہا تھا پہلے تو مجھے کچھ سمجھ نہ آئی میں سمجھا مرد نے عورت کو قابو کرر کھا ہے اور اس کو مارنے کے لیے پکڑ رکھا ہے کیونکہ میری زندگی کا پہلا سین تھا ایسا لیکن میں نے آگے بڑھ کر دیکھا تو عورت اور مرد دونوں ننگے تھے اور مردعورت پر جھک کر دھکے لگا رہا تھا اور عورت نیچے چیخ رہی تھی میں نے پہلی بار کسی عورت کو ننگا دیکھا ابھی تک میں نے اس کی ٹانگیں ہوا میں اٹھی ہو دیکھی اور مرد کا لن اس کی پھدی میں تیزی سے آگے پیچھے ہو رہا تھا اور ان دونوںکا مادہ نیچے بہہ رہا تھا ۔ یہ سین دیکھتے ہوئے میرے جسم میں کرنٹ دوڑنا شروع ہوگیا اور میرا جسم پسینہ پسینہ ہونا شرو ع ہوگیا اور میرا لن جسے میں نے کبھی پیشاب کرنے کے سوا کہیں استعمال نہیں کیا تھا ایسے اکڑگیا جیسے کوئی لوہے کی راڈ ہو مجھے نہیں معلوم تھا کب میرا ہاتھ اپنے لن پر چلا گیا ادھر عورت کی آواز آر ہی تھی اور زور لگاو میں ہونے والی ہوں مرد اور تیز ہوگیا لیکن میری تو حالت بری ہو رہی تھی یہ نہیں تھا کہ میں نے کبھی سیکس کا سنا نہیں تھا یا معلومات نہیں تھیں کالج میں پڑھتے ہوئے اور عمران جو کہ میرا کزن ہے سے بہت کچھ سنا تھا لیکن آج پہلی بار دیکھ رہا تھا میں شور مچانا چاہتا تھا لیکن میرے حلق سے آواز نہیں نکل رہی تھی پھر عورت نے زور سے چیخ ماری اور ساتھ ہی مرد اس کے اوپرگر گیا ۔مرد اوپر اٹھا تو عورت کی نظر مجھ پر پڑی اور وہ چیخ پڑی یہ تو نورین تھی میرے چچا کی بیٹی اور عمران کی بہن اس وقت میرے سامنے ننگی پڑی اس کے بڑے بڑے ممےنظر آرہے تھے اور پھدی سے سفید پانی بہہ رہا تھا نورین کے چیخنے پر جہانگیر خان سردار کے چھوٹے بیٹے کی نظر مجھ پڑی تو ایک بار تو وہ گبھرا گیا اور نورین نے بھی جلدی اپنے آپ کو ڈھانبپنے کو کوشش کی ۔ جہانگیر خان کڑک آواز میں تم کون ہو اور یہاں کیا کررہے ہو نورین جو خود کو سنبھال چکی تھی بولی یہ میرے چچا کا بیٹا ہے جہانگیر خان پریشان ہوگیا میں اب تک سنبھل چکا تھا اور بولا یہ کیا ہورہا ہے تم میری کزن کے ساتھ یہ کیا کررہے ہو میں ابھی سب کو بلا کر لاتا ہوں جب میں نے بولا تو نورین گھبرا گئی تو جلد ی سے بولی مجھے معاف کردو کسی کو مت بتانا میں بدنام ہوجاوں گی جہانگیر خان بولا کہ اگر تم نے کسی کو بتایا تو میں تم کو موت کی سزا دوں گا میں نے کہا تم غلط کررہے تھے اور میں بتاوں بھی نہ جہانگیر خان بولا میرا کچھ نہیں جائے گا تم کا چچا کی بیٹی بدنام ہوجائے گی ۔ مجھے بھی سمجھ آگئی یہ تو پہلے ہی بدنام ہے سب جانتے ہیں لیکن نورین اور اس کے ساتھ دیکھ کر میرا خون خول رہا تھا میں بولا آپ سردار کے بیٹے ہو اس کا مطلب ہے جو مرضی کرو گے جہانگیر خان بولا اب جو ہوچکا ہے بھول جاو ورنہ پچھتاو گے ۔ میں نے بولا تم نے نورین کے ساتھ زیادتی کی ہے تو جہانگیر خان بولا میں نے اس کے ساتھ زیادتی نہیں کی اس کی مرضی سے کیا ہے ۔اور دیکھو اس کو بدنام کرنا چاہتے ہو تو کرو ۔ اگر تم خاموش رہے تو تم کو ہی فائدہ ہوگا ۔ میں بولا میرا کیا فائدہ ہوگا بولا میں سردار کا بیٹا ہوں مجھ سے دوستی ہوجائے گی تو تم فائدہ میں رہو گے اور اگر دشمنی کرو گے تو پھر پچھتاو گے ۔میں سمجھتا تھا کہ سرداروں سے دشمنی نہیں کرسکتا ۔ نورین جو کہ ابھی بھی ننگی تھی صرف اپنے ڈوپٹے سے خود کو ڈھک لیا تھا میری نظر بار بار اس کے جسم پر جارہی ہے جو کہ جہانگیر خان نے نوٹ کرلی بولا لگتا ہے لڑکی پسند آگئی ہے میں نے شرم سے نظریں جھکا لیں نورین بولی یہ بڑا شریف لڑکا ہے کئی کزنوں نے اس پرڈورے ڈالنے کی کوشش کی لیکن اس نے تو جیسےقسم کھا رکھی ہے پارسائی کی ۔ لیکن کچھ دیر پہلے تو اپنا لن ہاتھ میں پکڑ رکھا تھا مجھے دیکھ کر اب پھر پارسا بن رہا ہے ۔ جہانگیر بولا پہلا فائدہ تو ابھی دے سکتا ہوں اس سے تم کا بھی کروا سکتا ہوں ۔ یہ بات جیسے ہی جہانگیر خان نے بولی ویسے ہی میری اور نورین کی نظریں آپس میں ملیں اور میرے لن نے جھٹکا کھایا جو کہ مرجھا چکا تھا ۔ اور دوسرا میری دوست بن جاوگے اور میرا دوست بننے کے لیے لوگ ترستے ہیں ۔ مجھے حویلی دیکھنے کو شوق تھا لیکن ایک سردار میرا دوست بن رہا تھا میں سوچ بھی نہ سکتا تھا ۔میں نے کہا مجھے آپ کی دوستی منظور ہے جہانگیر خان خوش ہو کر بولا یہ ہوئی نہ بات ہاتھ بڑھاو ۔مجھے نہیں پتہ تھا کہ جہانگیر خان کی دوستی مجھے کہاں لے کر جائے گی اور جہانگیر خان مجھ جیسے لڑکے سے کیوں دوستی کررہا تھا ۔ لیکن اس وقت اس بات میں خوش تھا کہ اب سردار جہانگیر خان میرا دوست تھا میں معصوم تھا اور ان چیزوں سے پاک تھا ۔ تو جہانگیر خان نے ہاتھ ملایا کہ آج سے ہم دوست ہیں پھر نورین کو بولا بھئی اب یہ میرا دوست ہے اس کی خاطر داری کرو میں نے نورین کی طرف دیکھا تو اس نے ڈوپٹہ چھوڑ دیا اب اس کا سفید جسم اور جسم پر بڑے بڑے ممے اور پانی بہاتی پھدی نظر آرہی تھی جسے دیکھ کر مجھ کچھ کچھ ہونے لگا میرا لن جھٹکے کھانے لگا جہانگیر نے کہا آگے بڑھو اور اپنی حسرت پوری کر لو میں نے سردار سے کہا کہ میں نے پہلے کبھی نہیں کیا مجھے شرم آرہی ہے اور میں اپنی کزن سے کیسے کرسکتا ہوں بولا ایک اصول یاد رکھنا عورت اور مرد کا صرف ایک رشتہ ہے وہ ہے سکون لینے کا اور دینے کا مطلب لن اور پھدی کا اس کے سوا عورت مرد کاکوئی رشتہ نہیں نورین کے سامنے لن پھدی کا نام سن کر مجھے جھٹکا لگا اور نورین مجھے ہی دیکھ رہی تھی نورین بولی یہ کچھ نہیں کرے گا بڑا پارسا ہے جہانگیر خان بولا صبر کرو یہ سب کرے گا اس نے ابھی عورت کا نشہ نہیں چکھا ایک بار چکھ لیا تو پھر صبح شام عورتوں کے پیچھے بھاگے گا ۔ نورین جو کافی دیر سے ننگی کھڑی تھی آگے بڑھی اور میرے سینے پر ہاتھ رکھا تو میرے جسم میں عجیب سا کرنٹ دوڑ گیا حالانکہ نور آپی اور سویرا تو مجھے اکثر ہاتھ لگاتے تھے لیکن ایسا کبھی محسوس نہ ہوا تھا لیکن آج پتہ نہیں کیوں جسم میں عجیب سا سرور پیدا ہوگیا ۔ نورین اب آگے بڑھ رہی اور بالکل میرے جسم سے ٹچ ہوگئی اس کا قد ساڑے پانچ فٹ ہوگااس کی گرم سانسیں میری گردن اور سینے سے ٹکرارہی تھیں اور مجھے بہت عجیب لگ رہا تھا اور میرے دماغ میں وہ سارے خیال آرہے تھے جو اکثر سننے کو ملتے کہ جہانگیر خان نے فلاں لڑکی کو چود لیا فلاں کے ساتھ دیکھا گیا اور میرے باپ کی نصیحت بھی یاد آئی کہ سرداروں سے اور حویلی سے دور رہو اور آپی کی نصیحت کہ لڑکیوں کا احترام کرو اوران سے دور رہو ۔ دماغ کہہ رہا تھا کہ یہاں سے چلا جاوں لیکن نورین کو ننگا دیکھ کر لن کی سوچ شروع ہوچکی تھی مطلب کھڑا ہوچکا تھا اور جسم میں عجیب سا سرورتھادماغ اور لن کی جنگ جاری تھی کہ مجھے یہاں سے چلے جانا چاہیے لیکن لن دماغ پر حاوی ہوگیا اور میری ساری ذہانت دھری رہ گئی ۔ نورین نے اب میرے سینے پر آزادی سے ہاتھ پھیرنا شروع کردیا تھا پھر نورین نے میری گردن کے پیچھے ہاتھ ڈال کر مجھے نیچے کیا اور میرے ہونٹوں پر اپنے رسیلے ہونٹ رکھ دیے ۔پہلے تو مجھے سمجھ نہ آئی لیکن نورین نے مجھے نہ چھوڑا اور کچھ دیر بعد میں نے بھی نورین کی ہونٹ چوسنا شروع کردیے اب مجھ سے چپک گئی تھی اور اس نے جو ڈوپٹہ خود کو چھپانے کے لیے لے رکھا تھا اور وہ نیچے گر چکاتھا ۔ مزے سے میری آنکھیں بند ہوچکی تھیں ۔ نورین نے ایک میرا ایک ہاتھ پکڑ کر اپنے ایک ممے پر رکھا مجھے ہاتھ میں نرم نرم ماس محسوس ہوا اور جب میں نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو میرا ہاتھ نورین کے ممے پر تھا میں نے زور سے پکڑا تو نورین نے چیخ ماری بولی جاہل آہستہ دباو تو پیچھے سے جہانگیر خان بولا کیا کرتے ہویہ عورت کا نازک حصہ ہوتا ہے اس کو پیا ر کرتے ہیں تو میں ہوش آیا میں کہاں اور ہم اکیلے نہ ہیں میں فوراً ہوش میں اگیا اور پیچھے ہٹ گیا ۔ میں نےبولا پہلی بار کسی کا دودھ پکڑا ہے اس لیے نہیں پتہ تھا ۔ بولا یہ عورت کا نازک حصہ ہے اس کو پیار کیا جاتا ہے چوسا جاتا ہے تم نے اتنے زور سے پکڑا ۔ نورین پھر آگے بڑھی میں بولا رک جاو ۔ ٹھیک ہے میں کسی کو نہیں بتاوں گا کہ یہاں کیا ہوا تھا جاو یہاں سے ۔جہانگیر بولا کیا ہوا تم نے مزا نہیں لینا میں بولا نہیں مجھے ایسا گند ا کام نہیں کرنا بو لا یا یہ سب کرتے ہیں گندا کہاں سے ہے اس میں تو بہت مزا ہے ایک بار کرکے تو دیکھو۔ میں بولا مجھے نہیں کرنا نورین اور جہانگیر خان پریشان ہو گئے کہ کہیں بتا نہ دوں میں بولا تم لوگ فکر نہ کرومیں کہیں نہیں بتاوں گا ۔ نورین بولی یہ بڑا پارسا بن رہا ہے ایسے نہیں مانے گا ابھی ہم یہ بات کررہے کہ باہر سے میرے نام کی آواز آنے لگی ہم کافی دیر سے یہاں تھے اور میں نے پانی لگایا ہوا تھا ابو مجھے ڈھونڈ رہے تھے میں پورا ہوش میں آگیا اور میرا سارا جوش بیٹھ گیا ۔ میں جلد ی سے باہر بھاگا جہانگیر اور نورین مجھے پیچھے سے آوازیں دیتے رہے لیکن میں باہر آگیا سامنے ابوتھے بولےاندر کدھر گئے تھے میں نے بولا میں پیشاب کرنے گیا تھا ۔(گاوں میں لوگ اکثر صبح فصلوں میں ہی جاتے ہیں )۔ابو چلے گئے کہ بندھ باندھ کر آجاو کھانا کھالو ۔ اتنے میں نورین اور جہانگیر خان بھی باہر آگئے اور جہانگیر خان بولا اب تم نے دوستی کی ہے تو کسی کو مت بتانا میں بولا نہیں بتاتا ۔ اور نورین اب پورے کپڑوں میں تھی اور سر پر ڈوپٹہ لیا ہوا تھا ایسا لگ رہا تھا جیسے اس جیسی شریف کوئی نہیں اور اندر سردار کو پورا لن مزے سے پھدی میں لے رہی تھی ۔ نورین پھر بولی کہ کسی کو مت بتانا میں بدنام ہوجاوں گی تم جو کہو میں کروں گی ۔ میں نے بولا جاو بعد میں بات کریں گے ۔ وہ چلے گئے اور میں ابو کے پاس آگیا جہاں وہ درخت کے نیچے بیٹھے کھانے پر میرا انتظار کررہے تھے ۔ مجھےبار بار نورین کا ننگا جسم یاد آرہا تھا اوراپنے ہاتھ میں ابھی اس کا مما محسوس ہورہا تھا ۔خیر جسے تیسے کر کے میں نے کھانا کھایا ابو کو بتایا کہ میری طبیعت خراب ہے گھر آگیا ۔ جب گھر میں داخل ہوا تو سامنے ہی نورین سویرااور پائل سے باتیں کررہی تھی اس کو دیکھ کر میرا حال پھر سے خراب ہونے لگا ۔ سویرا بولی بھائی خیر ہے آج اتنی جلدی میں نے بولا میری طبیعت خراب ہے اس لیے ابو نے مجھے گھر بھیج دیا ۔ کیا ہوا بھائی میں نے بولا کچھ نہیں سردرد ہے ۔ نورین فوراً بولی میں سردبادوں ۔ میں بولا نہیں تھوڑا آرام کروں گا تو خود ہی ٹھیک ہو جائے گا ۔ اور جلدی سے اندر جا کر لیٹ گیا ۔ نورین اور سویرا باہر باتیں کررہی تھیں ۔ سویرا بولی بھائی آج گھر کیسے آگیا حالانکہ اگر طبیعت خراب بھی ہو تو بھائی گھر نہیں آتا ۔ نورین بولی لگتا ہے باہر کو ئی بھوت دیکھ لیا ہے جو ایسی حالت ہورہی ہے ۔ حالت تو میری بھوت والی ہی تھی جیسے کو سچ کا بھوت دیکھ لیا ہوا ۔ پہلی دفعہ کسی لڑکی کو پورا ننگا دیکھا اور کسی بھی کی اور اس کا مما بھی پکڑا وہ بھی اپنی ہی کزن یعنی چچا کی یبٹی کا ۔ باہر تو کسی طرح خود کو کنٹرول کرلیا شرم کی وجہ سے پر کمرے میں جیسے ہی آیا تو عجیب سا احساس ہو رہا تھا ۔ بار بار نورین کا ننگا جسم اور اس ہونٹ یاد آرہے تھے اور میرا لن اس وقت پوری طرح اکڑا ہوا تھا ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا لیکن پہلے کبھی کسی کو ننگا دیکھا بھی نہیں دیکھا ۔ میرا ہاتھ خود بخود اپنے لن پر چلا گیا جو کہ اس وقت ایک لوہے کی راڈ کی طرح کھڑا تھا اور میں نے اپنی شلوا ر کا نالا کھول کر نیچے کی اور میرا لن جو کہ دس انچ لمبا اور تین انچ کے قریب موٹا تھا پھنکا مارتا ہوا باہر آگیامیرا ہاتھ لن پر تھا اچانک دروازہ کھلا اور
                  جاری ہے ۔۔۔۔​​​​​​
                  جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
                  ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

                  Comment


                  • #39
                    زبردست کمال کی اپڈیٹ

                    Comment


                    • #40
                      اب آفتاب خان کے مزے شروع ہوں گے

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X