Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

فقیر سے بادشاہ تک کا سفر

Collapse
This topic is closed.
X
This is a sticky topic.
X
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • afi kai agy to phudiyo aur gando ki lines lagi hui hqim aik kqi bqqd aik

    Comment


    • ہر اپڈیٹ پہلے سے بڑھ کر ہوتی ہے، بہت اعلیٰ لکھ رہے ہیں، خوش رہیں آباد رہیں

      Comment


      • مزے ۔۔۔ بہترین ۔۔۔کمال ۔۔۔لاجواب

        Comment


        • خوب ۔۔۔۔
          عمدہ سٹوری ھے
          الفاظ کا چناؤ بہت زبردست ھے
          آج ہی شروع کی ہےاور پڑھ کر مزہ آگی

          Comment


          • سواد آ گیا بادشاہو اففی کے تو مزے ہیں لیزا شیزا سمرن نازیہ شازیہ فودیوں کی لمبی لائن لگی ہے اور ابھی مزید اور بھی آئیں گی

            Comment


            • 15
              جس سے میرا لن اس کی پھدی کو کھولتا ہوا اس کے اندر گھس گیا جس پر سحر نے ایک چیخ ماری بولی بدتمیز ہر بار جان نکال دیتے ہو میں بولا جان میرے ہے جب چاہے نکال لوں بولی ہاں تم کی ہے ۔ میں نے رفتار شروع سے ہی تیز رکھی اور بنا رکے اس کی پھدی میں لن اندر باہر کیے جارہا تھا کہ اچانک دروازہ کھلا جو کہ میں جلدی میں بند کرنا بھول گیا اور نہ ہی سحر کو یاد رہا کیونکہ اس وقت گھر میں کوئی بھی نہ تھا جب ہم گھر آئے تھے تو اچانک دروازہ کھلا اور سحر کی ماں اندر داخل ہوئی اور سحر سے بولی یہ کون ہے ۔ جس پر میری تو ہوا ٹائٹ ہوگئی میں نے جلدی سے لن سحر کی پھدی سے نکالا جو کہ میرے ٹانگوں پر جھولنے لگا اور سحر نے بھی ایک کپڑا اٹھا یا اور بولی ممی آپ ۔ بولی ہاں تم کی آوازیں پوری گھر میں گونج رہی ہیں سحر کی ماں کی نظر میرے جھولتے لن پر تھی اور وہ سحر سے باتیں کررہی تھی پھر سحر ہقلاتے ہوئے بولی ممی یہ میرا دوست ہے تو اس کی ماں جس کا نام ناصرہ تھا بولی ہاں دوست تم کا پیارا ہے اور تم پورا انجوائے کررہی ہو سحر بولی ممی یہ ہے ہی بہت اچھا اور بہت مزا دیتا ہے ۔ ناصرہ جو کہ سحر کی ماں تھی اور بہت ماڈرن عورت تھی جس نے اس وقت بھی نائٹی پہنی ہوئی تھی شاہد سو رہی تھی ہماری آوازیں سن کر اٹھ گئی ناصرہ کی سب سے خاص بات ناصرہ کے ممے جو کم سے کم 42 تو ہونگے سلمم جسم پر انتے برے ممے بہت دور سے بھی واضح محسوس ہوتا ہے ۔اور سے نائٹی جس میں اس کے ممے آدھے سے زیادہ جھلک رہے تھے اور اس کی کسی ہوئی ٹانگین ایک الگ ہی رومان پرور سین پیش کررہی تھیں ۔ناصر ہ آگے بڑھی اور اس نے میرے لن کو پکڑ لیا بولی پورا گدھا ہے اور میرے لن کو ہاتھ سے آگے پیچھے کرنے لگی بولی ایسا دوست تو قسمت والوں کو ملتا ہے جو تم کو ملا ۔ اب ناصرہ میرے لن کو اپنے ہاتھ سے آگے پیچھے کررہی تھی جس سے میرا ڈر بھی ختم ہوگیا تھا ۔ ناصرہ کو ئی بیک ورڈ عورت نہیں تھی بلکہ ماڈرن عورت تھی جو کہ اکثر بیرون ملک جاتی رہتی تھی اس لیے اس نے کوئی شرم نہ کی اور اپنی بیٹی کے دوست کے ساتھ ہی شروع ہوگئی ۔ ناصرہ سحر کو بولی تم میری بیٹی ہو مجھ سے کیا چھپانا تم کی اپنی لائف ہے انجوائے کرو جس پر سحر بھی اٹھ کر آگے بڑھی اور اپنی ماں کے ساتھ نیچے بیٹھ کر میرے لن کو کسنگ کرنے لگی بولی ممی یہ کمال ہے ناصرہ بولی ہاں لگ رہا ہے جس طرح تم کی چیخیں پورے گھر میں گونج رہی ہیں تو یہ واقع کمال ہوگا سحر بولی ممی یہ سچ میں بہت کمال کا ہے ۔ بولی ابھی پتہ چل جائے گا میرے سامنے ٹکتا ہے یا نہیں جس پر سحر بولی ممی آپ ہار جائیں گی تو ناصرہ بولی میں نے بھی اچھے اچھے کھلاڑیوں کو چوس کر پھینک دیا ہے یہ تو ابھی جوان خون ہے پھر دونوں ماں بیٹی شاہد مل کر میرا امتحان لینا چاہتی ہوں دونوں نے مل کر میرے لن کو چوسنا شروع کردیا ناصرہ جو کہ منجی ہوئی کھلاڑی تھی نے میرے ٹٹوں پر حملہ کیا اور چوسنا اور مسلنا شروع کردیا اور ساتھ ہی میرے لن کو منہ میں بھر کر چوسا نہیں بس رکھا اورزبان سے اس کو رگڑتی رہی ناصرہ واقع بہت تجربہ کار تھی ۔ اس نے میرے لن کو جس طریقہ سے چوسا اس طرح کو کسی نے نہیں چوسا تھا اور اس نے لن کوپہلی ہی بار آدھے سے زیادہ اپنے منہ میں بھر لیا تھا ۔ میں نے سحر کو پکڑا اور اس سے کسنگ شروع کردی جو کہ ابھی تک اپنی ماں کے ساتھ میرے لن کو چوس رہی تھی لیکن ناصرہ اس کو زیادہ موقع نہیں دے رہی تھی تو میں نے اس کو کھینچ کر اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے جو میرے ہونٹوں کو چوسنے کے ساتھ ساتھ میرے سینے پر ہاتھ پھیر رہی تھی ۔ ماں بیٹی دونوں ایک دوسرے پر بازی لے جانا چاہتی تھیں میں نے اب ناصرہ کو پکڑ کر کھڑا کیااور اس کی نائٹی پکڑ کر اتار دی اور ساتھ ہی اس کی برجو کہ 42سائز کے مموں کو بڑی مشکل سے اپنے قابوں میں رکھے ہوئے تھی بھی اتار دیے اور ممے اچھل کر لٹک گئے کیونکہ ممے کافی بھاری تھے میرے دونوں ہاتھوں میں بھی ایک مما سمانہیں پارہا تھا ۔ میں سحر کو اشارہ کیا تو سحر اور میں نے مل کر ناصرہ کے مموں پر حملہ کردیا اور ایک مماسحر نے منہ میں بھر لیا اور دوسرا میں نے بھر لیا اور کھیچنے لگا کاٹنے لگا اور سک کرنے لگا ۔ ہم دونوں سحر کی ماں پر ٹوٹے پڑے تھے جس سے سحر کی ماں بھی پورا مزا لے رہی تھی اور اس کی سسکیاں پورے گھر میں گونج رہی تھیں ۔میں نے ناصرہ کے نپلز کاٹنے شروع کردیے جس پر اس نے میرے سر کواپنے مموں پر دبانا شروع کردیا ناصرہ بولی اب مجھ سے کھڑا نہیں ہوا جارہا تو میں نے ناصرہ کو اٹھایا اور اس کو بیڈ پر لیٹا دیا اور سحر اور میں نے پھر اس کے مموں حملہ کیا جس پر ناصرہ نے مجھے اوپر کھینچ لیا اورمیرے ہونٹوں کو اپنے منہ میں بھر لیا ۔ اوربے دردی سے میرے ہونٹوں کو بھمبھوڑنے لگی جس سے مجھے درد ہونے لگا لیکن اس درد میں بھی بہت مزا آرہا تھا سحر نیچے جانے لگی اور اس نے اپنی ماں کی انڈر ویئر اتار دی اور ناصرہ کی پانی بہاتی پھدی کو چوسنے لگی اس طرح دو طرفہ حملہ ناصرہ پر تھا اوپر سے میں لگا ہوا تھا نیچے سے سحر لگی ہوئی تھی ۔ جیسےہیں میں ہونٹ چھوڑتا تو ناصرہ لمبی لمبی سسکاریاں لینے لگتی میں نے ناصرہ کو انجوائے کرنے دیا اور اس کے مموں پر ٹوٹ پڑا اور نپلز کو کاٹنے لگا نیچے سحر اس کی پھدی کو بری طریقے سے چوس رہی تھی اس دو طرفہ حملہ سے ناصرہ نے چیخ مارتے ہوئے اپنا پانی نکال دیا ۔ جس پر میں اٹھ کھڑا ہوا اور سحر کو اشارہ کیا جس نے میرے لن کو گیلا کیا اور کافی سارا تھوک لگا دیا میں نے پوزیشن سنبھال لی اور ناصرہ کی ٹانگیں اٹھا کر کاندھوں پر رکھ لیں اور سحر نے میرا لن پکڑ کر پھر سے چوما اور اپنی ماں کی پھدی کو چوما اور اس پر لگادیا اور میرے پیچھے آکر میری پیٹھی تھپ تھپائی جیسے کہہ رہی ہو چلوچڑھ جاوں گھوڑی پر ۔ میں؎نے بھی دیر نہ کرتے ہوئے ایک جاندار دھکا دیا تھا کہ اس چوکرے کا دھکا سہہ ۔ جس سے میرا لن سلپ ہوتا ہوا اس کی پھدی میں پوری طرح ایک بارمیں ہی گھس گیا اور ناصرہ نے ایک زور دار چیخ ماری بولی کمینے آرام سے نہیں ڈال سکتا تھا کیا جان ہی نکال دی میں بولا جان تو اب نکالوں کا اور اس کے ساتھ ہی میں نے بے درد ی سے شروع سے ہی سپیڈ تیز رکھتے ہوئے دھکے دینے شروع کردیے سحر ماں کے مموں کی طرف آگئی اور ناصرہ کے مموں کو دونوں ہاتھوں میں بھر کر چوسنے لگ پڑی اور بولی ممی آپ کے دودھ تو کمال کے ہیں آپ نے اتنے بڑے کیسے کرلیے تو بولی ان پر بہت محنت ہوئی ہے اس لیے اتنے بڑے ہیں ایسے تھوڑی بڑے ہو جاتے ہیں ۔ لیکن ناصرہ سے اب بولنا مشکل ہورہا تھا کیونکہ میں نے اپنی رفتا ر کافی بڑھا رکھی تھی اور پورے جوش کے ساتھ ناصرہ کی پھدی میں دھکے لگا رہا تھا اور ناصرہ تیزی سے سسکیاں بھرتی جارہی تھی ۔ میں ناصرہ کی پھدی کا بینڈ بجا رہا تھا اور اوپر سحر ماں کے نپلز کو چوس رہی تھی اور کاٹ رہی تھی اس دوہرے وار سے جلد ہی ناصرہ نے پانی چوڑ دیا اب ناصرہ کی پھدی پچ پچ کررہی تھی ۔ میں نے سحر کو پکڑ کر کھینچ لیا اور اس کو ناصرہ کے اوپر ہی منہ کے بل لٹا دیا اور لن جو کہ ناصرہ کے پھدی کے پانی سے بھیگا ہوا تھا سحر کی پھدی میں ڈال دیا جس پر سحر نے لمبی سی سسکاری لی ۔ اب ناصرہ نیچے تھے جو کہ فارغ ہونے کے بعد لمبے لمبے سانس لے رہی تھی اور اس پر اس کی بیٹی سحر لیٹی ہوئی لن اپنی پھدی میں انجوائے کررہی تھی ۔ ناصر ہ نے سحر کو پکڑ کر اس کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں سے لگایا اور میں نے طوفانی رفتا ر کھی جس پر کچھ دیر بعد سحر نے پانی چھوڑ دیا کیونکہ ہم پہلے ہی گرم تھے اور میں سحر کی چدائی کررہا تھا جب ناصرہ درمیان میں اپنی پھدی مروانے کے لیے ٹپک پڑی اس لیے سحر کے ساتھ ساتھ میں بھی اس کی پھدی میں فارغ ہوکر لیٹ گیا ۔ دونوں ماں بیٹی میرے دونوں طرف تھیں تو سحر نے پوچھا کیسا لگا میرا دوست بولی واقع بہت کمال ہے اس کا ہتھیار بھی کمال ہے اور یہ بھی کمال ہے اور کافی خوبصورت بھی ہے ۔ میں بولا ٹھیک ہے بہت ہوگئی تعریف مجھے کافی دیر ہوچکی ہے سردار میرا انتظار کررہا ہوگا تو ناصرہ بولی سردار کون ہے میں بولاسحر آپ کو سب کچھ بتا دے گی کہ ہماری جان پہچان کیسے ہوئی وغیرہ وغیرہ میں اٹھنے لگا تو سحر بولی تم سے ایک پل بھی الگ ہونے کو نہیں کرتا بس دل کرتا ہے تم ہر وقت میرے پاس ہو اور کوئی ہمیں ڈسٹرب نہ کرے تو ناصرہ بولی کیا مجھ کو کہہ رہی ہو ڈسٹرب کرنے کا ۔ تو سحر بولی نہیں آپ کی بات نہیں کررہی بس ہیں کچھ لوگ ۔ آپ کو بعد میں سب بتاوں گی ۔ میں بولا آنٹی جی تو ناصرہ بولی ہائے میرے ساتھ مزے لے لیے اب تو آنٹی نہ بولا مجھے ناصرہ ہی بولومیں بولا اُوکے ناصرہ جی پھر ملوں گا ۔ سحر بولی انتظار رہے گاور اور مجھے ایک کس کردی میں نے سحر کو بلالیا اور کہا وہ جیل اور دے دو درد والی بولی پہلے والی کہاں ہے میں بولا وہ کہیں گر گئی ہے اور گاوں جارہا ہوں تو بولی اچھا پھر وہ ننگی ہی گانڈ مٹکاتی ہوئی باہر گئی میں نے اتنے میں اپنے کپڑے پہنے اور سحر واپس آئی اور دو ٹیوب لا دی بولی لے جاو ۔ میں نے پھر سے کس کی اورجیب میں ڈال لی ۔ پھر بولی اب تو ہماری بات ہوتی رہے گی مجھے یاد آیا میں نے فون بھی لے لیا جس کو یہیں چارچنگ پر لگایا تھا اور بھولے جارہا تھا ۔ میں نے فون اٹھایا اور جیب میں ڈال لیا اور واپس چل پڑا ۔ کوٹھی پہنچا جہاں پر سردار باہر لان میں ہی بیٹھا تھا بولا بہت دیر لگا دی میں بولا بس ڈاکٹر کے پاس رش تھا تو چیک کرواتے لیٹ ہوگیا تو بولا کیا بولا ڈاکٹر نے تو میں نے بولا ڈاکٹر بول رہا تھا کہ اب ٹھیک ہے لیکن زخم اندر سے ابھی کچا ہے اس وجہ سے کبھی کبھی پین ہوجاتی ہے انہوں نے زخموں کے لیے یہ ٹیوب دی ۔ بائی چانس سحر نے جو ٹیوب دی تھی وہ زخموں کو سن کرنے والی اور خشک کرنے والی ہی تھی ۔ سردار بولا چلو واپس چلتے ہیں میں بولا ٹھیک ہے میں کمرے سے سامان لے آوں اور بولے فون نہیں لیا میں بولا لے لیا ہے ان کو فون دیکھایا بولے کافی مہنگا ہے میں بولا مجھے تو 15ہزار کا دیا ہے ۔ بولے یہ کیسے ہوسکتا ہے میں بولا وہاں پر جو لڑکا تھا ہمارے گاوں کا ہی تھا اورمیرے ساتھ کالج میں پڑتا تھا اس لے اس نے مجھے سستے میں دے دیا ۔ خیر سردار نے بھی میرا نمبر سیو کرلیا ۔ میں کمرے میں سامان اٹھانے گیا تو شازیہ بھاگ کر میرے سینے سے لگ گئی بولی تم جارہے ہو مجھ سے تو اب تم کے بنا رہا نہیں جائے گا ۔ میں بولا مجبوری ہے ۔ توا س کی آنکھوں میں نمی ہونے لگی ۔ میں بولا پگلی روتے نہیں ہیں میں جلد دوبارہ آوں گااور میرے چکر تو شہر میں لگتا ہی رہتا ہے دو چار دن میں ۔ بولی ایک رات میں ہی تم نے مجھ پر جادو کردیا ہے ۔ پلیز مجھے چھوڑ کر نہ جاوں میں بولا میں کہاں جارہا ہوں گاوں تو جانا پڑے گا اور میں آتا رہوں گا ۔ پھر اس کو اپنا نمبر لکھوایا اور اپنا فون دیکھایا کہا کہ جب دل کرے مجھے فون کرلینا ۔ پھر میں نے اپنا سامان اٹھا یا جو کپڑے یہاں آخر لیے تھے سحر نے دلوائے تھے اور کچھ اور جو دوران ٹرپ خریدے تھے رکھ لیے ۔ اور پھر گاڑی میں بیٹھ گیا۔ بولے کیسا رہا تمہار ا ٹرپ مین بولا ٹھیک رہا ۔ کافی کچھ دیکھنے کو ملا جو شاہد آپ کے ساتھ نہ ہوتاتو نہ دیکھ پاتا ۔ بولے میرے ساتھ رہو گے تو ایسے ہی عیش کرو گے ۔ کیونکہ میں نے تم کو ملازم نہیں دوست بنایا ہے ۔ ایسے ہی گپ شپ میں ہم حویلی واپس پہنچے ۔ تو ایسا لگا واپس جنت پہنچ گئے کیونکہ میں زندگی میں پہلی دفعہ گاوں سے اور اپنوں سے اتنے دن دور رہا تھا ۔ تو واپس آکر سب کو دیکھنے کی بہت چاہ تھی ۔ کیونکہ یہاں سے صرف دو دن کے لیے نکلے تھے اور آج دس دن ہوچکے تھے ۔ سردار اندر چلا گیا میں باہر سب سے ملا غفورے نے میرا حال چال پوچھا اور بولی کے تم کی بہنیں روز مجھ سے پوچھتی تھیں کہ بھائی کب واپس آئے گا تو میرے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا تھا اور تم کا باپ بھی کئی چکر لگا چکا ہے شاہد تم پہلی بار اتنے دن باہر رہے ہو میں بولا جی ۔ میرے نئے حلیے کو دیکھ کر بولا کہ بہت بدل گئے ہو بالکل شہر ی بابولگ رہے ہو پھر مجھے بولا اتنی جلدی اپنی پرواز بلند مت کرو اکثر جلدی کرنے والے منہ کے بل گرتے ہیں میں بولا آپ کی بات یاد رکھوں گا ۔ میں جلدی سے حویلی میں گھسا کیونکہ میں اپنی بہن نورکو جلد سے جلد دیکھ لینا چاہتا تھا کیونکہ ماں کے بعد وہ ہی میری ماں تھی جس نے مجھے بہت محنت سے پالا تھا ۔ پہلے میں کچن میں گیا تو وہاں ایک لڑکی کھڑی تھی میں نے اس سے نور کا پوچھا تو بولی کہ وہ سردارجہانز یب کے کمرے میں گئی ہے ۔جنانزیب کا کمرہ نیچے تھا میں سیدھا کمرے کے باہر پہنچا تو سوچ میں پڑ گیا کہ میں یہاں کیا کررہا ہوں کسی نے پوچھا کہ میں ادھر کیوں گھوم رہا ہوں اور کیا کرنے آیا ہوں لیکن مجھ سے رہا نہیں گیا کہہ دوں گا کہ نور کو چھوٹےسردار بلا رہے ہیں نے دروازہ پر ناک کیا تو آواز آئی دروازہ کھلا ہے آجاو میں اندر گھسا تو سامنے ہی سنگھار شیشے کے سامنے شینا خان بیٹھی تھی جو کہ اور اپنے بال بنا رہی تھی اس کی ناگن سی لمبی زلفیں بل کھاتے ہوئے نیچے زمین پر لگ رہی تھیں اور شیشے میں اس کا خوبصورت پری چہر نظر آرہا تھا جیسا چاند بادلوں سے نکلا ہو ۔ اس کی نظر بھی مجھ پر پڑی تو وہ گھوم گئی اور اس کا جوبن میرے سامنے آگیا سلم سمارٹ جسم اور بھاری سینہ تیکھے نین نقش اور جھیل جیسے آنکھیں جیسے اس میں بندہ ڈوبنے کے لیے کچھ بھی کر جائے ۔ بولی تم کون ہو اس کا اور میرا ٹھیک سے سامنا پہلی ےبار ہوا تھا ۔ میں بولا جی وہ چھوٹے سردار کا خادم آفتاب خان ہوں تو بولی تم ہو آفتاب لیکن تم تو یہاں کے نہیں لگ رہے ۔ میں بولا جی یہیں کا ہوں بس سردار نے مجھے اس طرح کا لباس پہننے کا حکم دیا ہے ۔ وہ مجھے سر سے پاوں تک دیکھ رہی تھی اور میرے سراپے کا جائزہ لے رہی تھی میں اس کی نظروں میں پسندگی دیکھ رہا تھا اپنے لیے ۔ بولی کیا کام ہے میں بولا جی میں نور کو ٹھونڈ رہا تھا چھوٹے سردار یاد کررہے تھے اس کو بولی نور تو یہاں نہیں ہے میں بولا جی ٹھیک ہے ۔ میں واپس مڑا تو بولی کیا نام بتایا ہے تم نے میں بولا جی آفتاب ۔ بولی نام یاد رہے گا ۔ میں نےبولا جی بولی کچھ نہیں جاو ۔ میں باہر نکلا کہ نور یہاں نہیں تو واپس کچن میں چلی گئی ہوگئی کیونکہ حویلی میں وہ زیادہ تر کچن میں ہی رہتی ہے ۔ میں واپس کچن میں گیا لیکن وہاں پر نہیں تھی وہاں وہی لڑکی تھی میں نے پھر سے پوچھا نہ نور کدھر ہے تو بولی بتا یا تو ہے کہ سردار جہانز یب خان کے پاس گئی ہے میں بولا ان کے کمرے میں نہیں ہے تو بولی پھر مجھے نہیں پتہ ۔ میں واپس نیچے حویلی میں تلاش کرنے لگا ۔ میں نے سوچا شاہد گیسٹ روم میں ہوگی تو میں گیسٹ روم میں گیا وہاں بھی نہیں تھی ایسے ہی تلاش کرتے کرتے ایک کمرے کے سامنے سے گزرا تو اندر سے نور کی ہلکی سی آواز آرہی تھی ۔ میں نے پہلے ناک کرنے کا سوچا پھر سوچا کہیں سردار برا ہی نہ منا جائے اس لیے سوچا کچھ دیر انتظار کرتا ہوں دروازے کے پا س ہی کھڑکی تھی جس کا ایک پٹ کھلا ہو ا لگ رہا تھا میں نے دیکھا تو واقع ہی اس کا پٹ کھلا تھا لیکن اس کے آگے پردہ تھا تومیں نے آہستہ سے ہاتھ ڈال کر پردہ سائیڈ پر کیا تو پہلا منظر میرے سامنے آیا وہ رونکھٹے کھڑے کر دینے والا تھا ایک مرد نیچے لیٹا ہوا تھا اور اس کے درمیان ایک عورت لیٹی ہوئی تھی اور اس کے اوپر ایک مرد لیٹا ہوا تھا اور دونوں مل کر ایک عورت کی چدائی کررہے تھے جی ہاں وہ عورت اور کوئی نہیں میری بہن نور تھی جو کہ سردار کے اوپر الٹی لیٹ ہوئی تھی اور اس کے اوپر سارنگ خان غفورے کا بیٹا اور گلنا ز کے گھر والا چڑھا ہوا تھا اور دونوں میری بہن نور کو بری طرح چود رہے تھے اور نور ان سے کہہ رہی تھی کیا ہوا آج جوش نہیں لگا رہے اور زور لگاو وہ دونوں اپنے پورےجوش سے نور کو چود رہے تھے لیکن وہ ایسے ریکٹ کررہی تھی جیسے ان دونوں سے اس کو فرق نہ پڑتا ہوا اور ان کو اور جوش دلا رہی تھی کہ اور زور لگاو میرا تو جیسے کاٹو تو خون نہ نکلے میری وہ بہن جس نے مجھے بڑی محنتوں سے پالا تھا اور گھر میں ہمارے سامنے کبھی اس نے ڈوپٹہ بھی نہیں اتار ا تھا اس پر دو دو مرد چڑے ہوئے چود رہے تھے اور وہ ان سے کہہ رہی تھی اور زور لگا ۔ ہاں ایسے ہی جوش لگاو ۔ سردار کہہ رہا تھا کہ تم پر ہم جتنی بھی جان لگا دیں تمہیں کم ہی لگتا ہے جس پر نور بولی سردار یہ تمہاری ہی مہربانی ہے ان پانچ سالوںمیں مجھے اتنا چودا اور چدوایا ہے کہ اب مجھے دو چار سے فرق ہی نہیں پڑتا بولی یاد ہے تم کو وہ دن جب آپ نے اپنے سب شرابی دوستوں سے مجھے سارا دن چداویا تھا ۔ جب میری اتنی زیادہ چدائی ہوتی رہی ہے تو اب میرا جسم اتنی چدائی برداشت کرنے کا عادی ہوچکا ہے ۔ میں شادی کر بھی لوں تو میرا ایک خاوند بیچارہ مجھے کبھی سکھ نہیں دے پائے گا ۔ میری تو جیسے دنیا ہی اجڑ چکی تھی کہ نور حویلی والوں کی سیکس کرنے کی مشین ہے سردار خود تو چودتا ہے اور دوسروں سے بھی چدواتا ہے ۔ نور کے ممے مجھے صاف نظر آرہے تھے جو دونوں میں سینڈوچ بنے ہوئے بھی واضح نظر آرہے تھے میرا خون جوش مارا اور میرا ہاتھ اپنے خنجر پر گیا اور میں نے خنجر نکال کر سردار کو للکارنے والا ہی تھا کہ پھر نور اور ابو اور غفورے کی نصیح یاد آگئی کہ جو کچھ بھی ہو جائے اگر کچھ بھی ایسا ویسا دیکھ لو تو چپ رہنا ورنہ تم کو ہی سزا ملے گی میں سزا سے نہیں ڈرتا تھا لیکن میرا سارا گھر برباد ہوجاتا ۔ وہ دونوں نور کے اندر فارغ ہوکر الگ ہوچکے تھے اور نور کھڑی ہو کر اپنے کپڑے پہن رہی تھی اس وقت میری بہن میرے سامنے باکل ننگی تھی جس کا دودھ جیسا جسم میرے سامنے تھا اور 36 کے گول مٹول ممے اور ان پر ہلکے بلیک نپلز صاف نظر آرہے تھے اور نیچے میرے بہن کا سپاٹ پیٹ اور ساتھ ہی بالوں سے پاک پھدی ج میں سے ابھی بھی سردار کا مادہ بہہ رہا تھا اس وقت مجھے غصہ بھی آرہا تھا اور اپنی بہن نور کے جسم کو دیکھ کر سرور بھی آرہا تھا ابھی میں اندر جھانگ ہی رہا تھا کہ پیچھے سے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا میں پلٹ کر دیکھا تو گڑیا تھی جو میرے ہاتھ میں خنجر دیکھ کر ڈر گئی اور مجھے بازوں سے پکڑ کر واپس کھینچ کر لے گئی ۔ اور مجھے میری ماں کی قسم دے دی کہ تم کچھ بھی ایسا ویسا کچھ نہیں کرو گے ۔ ماں کی قسم سنتے ہی میرے ہاتھ رک گئے اور گڑیا نے میرے ہاتھ سے خنجر لے لیا اور مجھے کھینچ کر واپس لے جانے لگی اور پھر مجھے کھینچ کر کچن میں لے ہی گئی میری آنکھوں سے آنسو آرہے تھے ۔ تو گڑیا بولی کیا کرنے جارہے تھے خود کشی میں بولا میں سردار کو جان سے ماردوں گا بولی تو پھر کیا ہوگا پھر وہ تیرے پورے گھر کو بلکہ پورے خاندان کو ماردیں گے ۔ اور دیکھ نور کے ساتھ کوئی زبردستی نہیں ہورہی تھی وہ اپنی مرضی سے کررہی تھی کیونکہ اس کو بھی یہ بات پانچ سال پہلے سمجھ آگئی تھی کہ ہم جیسوں کا نصیب سرداروں کی بستر کی زینت ہی ہوتا ہے اور نور کے ساتھ پہلی بار زیادتی کروانے والی اور سردار کے کمرے میں بھیجنے والی بھی تمہاری سوتیلی ماں ہی تھی جو پیسے کے لیے اور سرداورں کی خوشی کے لیے کسی حد تک بھی جا سکتی ہے اور بہت سے راز اس حویلی میں دفن ہیں جو تم وقت کے ساتھ ساتھ جان جاو گے بس تم کی اور باقی سب کی بھلائی اسی میں ہے کہ تم بس چپ رہو ۔ تم کی آپی نور نے اپنی قربانی دی یہ نہ ہو کہ تم کی وجہ سے تیری باقی بہنیں بھی سرداروں کے بستر کی زینت بن جائیں ۔ اتنے میں نور بھی پیچھے سے آگئی مجھے دیکھتے ہی بھاگتے ہوئے میرے پیچھے سے گلے لگ گئی اور نارا مارا آگیا میرا شیر میری جان کیسی ہے اور مجھے چومنے لگ پڑی لیکن مجھ سے واپس بولا نہیں جارہا تھا ۔ کیونکہ ابھی میں اس کو دو لوگوں سے چدواتے دیکھ کر آرہا تھا ۔ نور کو جب جواب نہ ملا تو وہ گھوم کر میرے سامنے آگئی بولی بھائی کیا بات ہے تم ٹھیک ہو تو گڑیا بولی کہ تم کا بھائی نے تم کو سردار کے کمرے میں دیکھ لیا ہے اور وہ سب کچھ کرتے ہوئے بھی ۔ تو اس کی نظریں میرے چہرے پر پڑیں جہاں پر آنسو تھے تو نور کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے جو کہ روتے ہوئے میرے پاوں مین پڑ گئی اور بولی بھائی مجھے معاف کردے تو میں نے نور کو اٹھا یا اور کہا کہ اپنے بھائی کو معاف کردے جو کہ اپنی بہن پر اتنا ظلم ہونے کے بعد بھی کچھ نہیں کرسکا گڑیا بولی یہ پاگل تو سردار کو مارنے کے لیےخنجر نکال چکا تھا میں نے اس کو روک لیا نور پھر گڑگڑاتے ہوئے میرے پیروںمیں گر گئی کہ تم نے اگر مارنا ہی ہے تو مجھے جان سے مار دوں اگر تمہیں کچھ ہوگیا تو میں جیتے جی مرجاوں گی اور ابو بھی اور سویرا بھی ۔ کافی دیر روتی رہی اور مجھے سے قسمیں لیتی رہی کہ میں ایسا ویسا کچھ نہیں کروں گا ۔ جس پر میں نے وعدہ کرلیا اور دل میں ایک وعدہ اور کرلیا کہ اس گھر کی ایک ایک عورت جب تک میرے نیچے نہیں آئے گی میں چین سے نہیں بیٹھوں گا ۔ میری بہن کا بدلہ تب پورا ہوگا ۔ آنسو بہاتی آنکھوں سے بولی کہ میرا بھائی شہر جا کر باکل شہری بن گیا ہے کتنا پیارا ہوگیا ہے وہ مجھے پیار سے لالہ بلاتی تھی بولی لالہ تم بہت خوبصورت لگ رہے ہو۔ پھر بولی تم بھوکے ہوگئے میں کھانا لگاتی ہوںمیں بولا مجھ سے نہیں کھایا جائے گا بولی میری قسم ہے کھالے میں بولا مجھے نہیں علم تھا کہ تم ہمارے گھر کے لیے اپنے جسم کو لہو لہو کرتی رہی ہو ۔ بولی شاہد یہی میری تقدیر تھی اس لیے میں نے قسمت کا فیصلہ سمجھ کر قبول کرلیا اب تو اس بات کو پانچ سال ہوچکے ہیں گڑیا کو بولا کھانا لگاو میں اپنے لالہ کو اپنے ہاتھ سے کھلاو ں گی ۔ پھر مجھ سے پوچھا گھر گئے یا یہاں ہی آئے ہو میں بولا سید ھا ادھر ہی آیا ہوں اور آتے ہی آپ کو تلاش کرنے نکل پڑا دو بار کچن میں گیا اور پھر باہر تلاش کررہا تھا کہ آپ کی آواز آئی پہلے انتظار کیا پھر کھڑی دیکھا جو کھلی تھی اور پردہ ہٹایا تو اس کے ساتھ ہی میں نے نظریں نیچے جھکا لی ہاں بولا پردہ ہٹا تو اپنی بہن کو چدتے دیکھا لفظ چدتے جب نور نے بولا تو ایک پل کے لیے اس کی آنکھوں سے میری آنکیں ملیں اور میں نے نظریں نیچے جھکال لیں میں بولا میں خنجر نکال چکا تھا اگر گڑیا امی کی قسم نہ دیتی تو ان خبیثوں کے سینے کے پار کردیتا ۔ اس نے پھر امی کی قسم دی کہ ایسا ویسا کچھ نہیں کرو گے ۔ اتنے میں گڑیا کھانالے کر آگئی اور بولی آج تیرا بھائی بھی جوان ہوگیا اس نے عورت مرد کی جنگ دیکھ لی اور وہ بھی اپنی ہی بہن کی اور وہ بھی ایک ساتھ دو لوگوں کی ۔ جس پر میں نے شرمندہ ہوتے ہوئے نظریں جھکا لیں نور بولی ہٹ پاگل کیوںمیرے شریف سے بھائی کو بگاڑرہی ہو ۔ بولی خود چدواتے ہوئے شرم نہیں آئی تم کے بھائی نے دیکھ لیا تو میں کیا کروں کھڑی بند رکھنی تھی جس پر بولی اس کے حویلی آنے پر مجھے سب سے زیادہ ڈر یہی تھا کہ کبھی تو میری اصلیت اس کو پتہ چل جائے گی ۔ نور ساتھ ساتھ باتیں بھی کررہی تھی اور ساتھ ساتھ کھانا بھی کھلا رہی تھی ۔ نور بولی سچ میں تم نے مجھے اس حالت میں دیکھ لیا میں نے ایک پل کے لیے نظریں اٹھائیں اس کے مموں پر ڈالیں اور واپس نیچے کرلیں ۔ گڑیا بولی اور تمہاری ساری کرتوت بھی سن لی جو تم کہہ رہی تھی اور زور لگاو اور زور لگاوجس پر ایک بار پھر نور اور میری نظریں ٹکرائیں اور دونوں نے نظریں جھکا لیں اور میں بولا چپ کرو ۔ بولی وان اپنی بہن کو دیکھتے ہوئے شرم نہیں آرہی تھی اور مجھے بولتے ہوئے ٹوک رہے ہو میں بولا میں نے تو خنجر نکا لیا تھا مارنے کے لیے بولی بس بس تم پہلے کافی دیر کھڑے کیا کررہے تھے اپنی بہن کے نظارے لے رہے تھے کہ تم کی بہن کیسے چدواتی ہے ۔ پھر کافی دیر بعد خنجر نکالا میں بولا وہ منظر دیکھ کر میں اپنے حواس میں نہیں رہا کہ میری پردہ دار بہن جس نے گھر میں کبھی ڈوپتہ بھی نہیں لیا اور گڑیا بولی کہ یہاں دو دو سے چدوا رہی ہے ۔ میری نظر بار بار نور کے سینے پر جارہی تھی جس پر گڑیا بولی لگتا ہے تم زیادہ پسند ااگئی ہو جو تم کو دیکھنے کا اس کا بار بار دل کررہا ہے بیچارے کو دیدار ٹھیک سے ہوا نہیں بچہ جوان نہیں ہوا اس کو جوان کردوں میں بیٹھا کھانا کھا رہا تھا اور وہ دونوں ایسے بے شرموں کی طرح باتیں کررہی تھیں جیسے ان کے لیے یہ سب کوئی نیا نہ ہو ۔ بولی بس کرو تم بھی تو یہاں پر یہی کرتی ہو ۔ میں نے فوراً گڑیا پر نظر ڈالی بولی یہاں سب کے ساتھ یہی ہوتا ہے ۔ یہاں پر جوان اور کوبصورت لڑکیاں صرف اسی کام کے لے رکھی گئیں ہیں جب جس کی ضرورت ہو کمرے میں بلا لو ۔ میں بولا ایک دن میں آپ کا بدلہ ان سے ضرورلوں گا بولی خبردار کچھ ایسا ویسا کیا میرا مرا منہ دیکھو گے ۔ میں چپ کرگیا ۔ میں نے کھانا کھا لیا میں بولا میں ابھی سردار سے مل کر آتا ہوں پھر گھر چلتے ہیں ۔ پھر میں وہاں سے نکلا اور سیدھا سردار کے دروازے پر پہنچا جہاں پر دستک دی تو یاسمین خان بولی آجاو میں اندر داخل ہوا تو سردار بیڈ پر سو رہا تھا یاسمین بولی آگئے ہو واپس ۔ بولوں کہاں گئے تھے اتنے دن میں بولا سردار کے مہمانوں کے ساتھ رہیں ہیں ان کو سیر وغیر کرواتے رہے ہیں آج وہ گئے تو ہم واپس آگئے ۔ کیونکہ سردار نے مجھے رستے میں یہی بیان دینے کو کہا تھا ۔ بولی شہر جا کر تو تم بالکل شہر بابو بن گئے ہو میں بولا یہ آپ کی دوست سحر کا ہی کمال ہے گئے تھے اس کے پاس میں بولا جی فیس چکانے گیا تھا یہ بات میں نے یاسمین کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہی تھی۔ تو خوب انجوائے کیا تم نے شہر کے ٹرپ کو میں بولا جی خادم بندا کتنا انجوائے کرسکتا ہے جو مالک کا حکم ہو وہ ہی کرنا پڑتا ہے ۔ میں بولا ٹھیک میں چلتا ہوں ۔ میں باہر نکلا اور نیچے آگیا کیونکہ مجھے گھر جانے کی جلدی تھی میں پھر سے کچن میں گیا جہاں پر گڑیا اور نور آپس میں باتیں کررہی تھیں نور کہہ رہی تھی یہ بہت برا اگر تم نہ روکتی تو افی کچھ بھی کرسکتا تھا بولی اس کو کیسے سمجھاوں اور کیسے روکوں ۔ بولی اس کے لیے تم کو افی کو اپنی بات ماننے پر مجبور کرنا ہوگا ۔ تو بولی کیسے کرسکتی ہوں بولی یہ ہنر تم میں بہت اچھے سے ہے کہ ایک مرد سے کیسے بھی کوئی بات منوائی جاسکتی ہے تو نور بولی وہ میرا بھائی ہے اور میرا لالہ ہے کوئی مرد نہیں بولی وہ پورا مرد ہے اور مرد اور عورت کا ایک ہی رشتہ ہوتا ہے جو تم کو اچھی طرح پتہ ہے اور ویسے بھی اس نے تم کو اچھی طرح دیکھ لیا ہے وہ تمہیں کافی دیر سے چدتے دیکھ چکا ہے تم دونوں نے حویلی میں رہنا ہے اور گھر میں بھی رہنا ہے اس لیے کئی بار تم کو ایسی حالت میں دیکھے گا تو غصے میں کچھ کرنہ بیٹھے بولی کہہ تم ٹھیک رہی ہو پھر بھی وہ میرا بھائی ہے مجھے شرم آئے گی بولی ہاںم تم کتنی شرم والی ہو وہ اچھی طرح دیکھ چکا ہے جیسے تم دو کا ایک ساتھ لے رہی تھی بولی بھائی بچانا ہے تو اس کو تم ہی مجبور کرسکتی ہو اور اس کی دوست بن جاو اور اس کو بھی اب ضرورت ہوگی جتنا وہ شریف ہے کہیں کنوارہ ہی نہ رہ جائے تم نے بچپن سے اس کو اتنا کھینچ رکھا ہےہم سے بات بھی نہیں کرپاتا بیچارہ کچھ اس کو بھی ڈھیل دو تاکہ وہ بھی اپنی زندگی کچھ انجوائے کرسکے ۔ میں اتنے مین اندر آگیا ۔ گڑیا دیکھ کر بولی آگئے ۔ جی تو نور بولی چلو چلتے ہیں ۔ می اور نور گھر کے لیے نکل پڑے گھر پہنچے تو سویرا مجھے دیکھتے ہوئے پاگلوں کی طرح میرے گلے لگ گئی پائل کے چہرے پر چمک آگئی اور اس نے بھی مجھے سمائل کیاور گلے ملی نازنین نے بس حال پوچھا ۔ امی ابھی حویلی میں تھی سب میرا نیا لک دیکھ کر چونک گئے اور سب نے تعریف کی اور پوچھا کہاں گئے تھے شہر کیسا ہے اور میں نے ان کو جب فون دیکھایا تو سب ہی بہت خوش ہوئے سب نے باری باری فون دیکھا ۔ پھرمیں نے سب کو تصویر بنا کر بھی دیکھائی سب ہی حیران تھے ۔ سویرا بولی حویلی کی تم پر کچھ خاص عنایت نہیں ہوگی میں بولا ایسا کچھ نہیں میں نے سردار کے دوستوں کی کافی خدمت کی جس پر انہوں نے مجھے کپڑوں اور فون کے لیے پیسے دیے ۔ تو شہر میں تھا تووہاں کا ماحول دیکھ کر ویسے ہی کپڑے لے لیے ۔ نوربولی چلو بھائی کو آرام کرنے دو بیچارہ اتنے دن بعد گھر آیا ہے ۔ میں بولا میں زرا ابو سے مل کر آتا ہوں اور باہر نکل گیا سیدھا کھیتوں میں گیا جہاں پر ابو فصلوں کی کیاریاں ٹھیک کررہے تھے مجھے دیکھ کر بولے واہ میرے شہری بابوتم تو بالکل بدل گئے ہوں بہت پیارے لگ رہے ہو اور مجھے گلے لگا لیا اور خوب پیار کیا ۔ وہاں سے سیدھا گلناز کی طر ف گیا دروازہ بجایا تو گلناز نے ہی دروازہ کھولا مجھے دیکھ کر دروازے پر ہی لپٹ گئی میں نے بولا پاگل کوئی دیکھ لے گا بولی دیکھتا ہے تو دیکھ لینے دو اتنے دن کہاں تھے میں بولا غفورے نے نہیں بتایا بولی بتایا تھا لیکن کافی دن لگا دیے ۔ میں بولا بس وہاں پر کام کچھ لمبا ہوگیا تھا سردار کا ۔ دروازہ بند کر کے اندر گیا اندر سے صائمہ پوچھ رہی تھی کون ہے تو ناز بولی تم کا لٹیرا آیا ہے صائمہ نے باہر دیکھا تو بولی لگ گیا جناب کو وقت میں بولا تم کو غفورے سے پتہ چلا ہی گیا ہو گا میں باہر تھا اور اس سے پہلے آیا تھا تم باہر گئی ہوئی تھی ۔ ایسے ہی کچھ دیر بیٹھا اور نکلنے لگا تو ناز بولی ایسے ہی چلے جاو گے میں بولا ابھی شام کا وقت ہے غفورا آتا ہو گا پھر چکر لگاتا ہوں پھر ان کو بھی موبائل دیکھا جو کہ دیکھ بہت حیران اور خو ش ہوئیں ایک ایک کس پر ہی گزارہ کیا اور وہاں سے بھی نکل گیا اور سوچا کہ سارنگ سے تو پہلے ہی بدلہ لے چکا ہوں اس کی بیوی اور بہن میرے نیچے آچکی ہے ۔ ناز اور صائمہ میرے بچے کی ماں بنے گی ۔ جو میں نے سوچ لیا تھا ۔ اتنے میں میرے فون کی بیل بجی دیکھا تو سحر کا نمبر تھا بولی پہنچ گئے ہو میں نے بولا جی ۔ بولی واپس آجاو نہ تم ساتھ ہوتے ہو تو لگتا ہے سب کچھ مل گیا ۔ ممی بھی تم کی فین ہوچکی ہیں ۔ پھر حال چال پوچھا اور جلد شہر جانے کا وعدہ کر کے فون بند کردیا ۔ میں ابھی ندی کے پاس بیٹھا خود کے بارے میں سوچ رہا تھا اور نور کے بارے میں جب نور کا ننگا جسم یا د آیا تو میرے جسم میں ہل چل ہونے لگ پڑی میں نے خود کو جھٹکا لیکن گڑیا کی باتیں جو اس نے نور سے کیں تھیں کیا نور ان پر عمل کرے گی کیا نور میری طرف بڑھے گی بار بار ذہن کو جھٹک دیتا پھر اٹھ کر گھر کی طرف چل دیا تو ابھی کچھ ہی آگے گیا ہوں گا کہ عمران اور نورین کو ایک کھیت کی طرف جاتے ہوئے دیکھا سوچا ان سے بھی مل لوں وہ شاہد اپنے کھیت جارہتے ھتے میں بھی ان کے پیچھے چل پڑا جو مجھ سے فاصلے پر تھے انہوں نے مجھے نہیں دیکھا لیکن میں ان کے پیچھے تھا میں نے بھی قدم بڑھائے اور جلد ہی ان کے پیچھے پہنچ گیا جو کہ ایک ٹیوب ویل والے کمرے میں گھس رہے تھے میں بھی ان کی پیچھے کمرے میں جانے لگا لیکن دروازہ بند کردیا میں حیران ہوا کہ یہاں ایسا کیا کہ دروازہ بند کردیا میں نے دروازے کی جھری سے دیکھا تو نورین اور عمران ایک دوسرے کے ہونٹوں کو چوس رہے تھے یہ کیا دونوں بہن بھائی ایک دوسرے کے ہونٹوں کو چوس رہے تھے جنہیں دیکھ کر مجھے بھی سرور آنے لگا آج ہی میں بھی اپنی بہن نور کو ننگا دیکھ کر آیا تھا اور پائل کے ساتھ بھی کافی کچھ کرچکا تھا نورین نے کسنگ توڑی تو بولی بھائی جلدی کرو وقت نہیں ہے کوئی بھی آسکتا ہے اگر کسی نے دیکھ لیا تو غضب ہوجائے گا ۔ عمران نے بھی جلد ی سے اپنی شلوار نیچے کی اور نورین بھی گھوڑی کی طرح جھک گئی اور اپنی شلواری نیچے کرلی عمران نے اپنے لن جو کہ ساڑھے چھ انچ کے قریب ہوگا پر تھوک لگا لی اور نورین کی پھدی میں ڈال لیا یہ وقت اب چھاپے کا تھا کیونکہ نورین کو دیکھ کر میرا لن بھی بہت ہارڈ ہوچکا تھا مجھے ایک خیال اور آیا میں نے فوراً فون نکالا اور جھری جو کہ کافی بڑی تھی کا کیمرہ لگایا اور ان کی ویڈیو بنانے لگا جب ان کی چہرے واضح آگئے اور ویڈیو بن گئی تو میں نے موبائل بند کیا اور لکارا یہ کیا ہورہا ہے تو دونوں بیچاروں کے ٹٹے شاٹ ہوگئے میں نے جھری میں سے آواز دیتے ہوئے کہا کہ میں نے تم دونوں کو دیکھ لیا ہے دروزہ کھولو ورنہ توڑدوں گا ۔ عمران نے ڈرتے ڈرتے دروازے کھولا میں بولا تم دونوں بہن بھائی ہو کر ایسا گندہ کام کررہے تھے تو عمران بولا یار وہ یہ وہ ہڑبڑانے لگا نورین بولی میں نے اس پاگل کو کہا تھا کہ اس وقت نہ جائے تم نے دوسرے بار مجھے پکڑا عمران بولا دوسری بار بولی ہاں ایک بار سردار کے ساتھ بھی اپنی کھیت میں پکڑا تھا میں بولا وہ تو بات اور تھی تم بھائی بہن ہو بولی بس بس لیکچر مت دو یہ سب فالتو ہے مرد اور عورت کا ایک ہی رشتہ ہوتا ہے ۔ وہی جو تم اور سردار کر چکے ہو یہ بھی مرد ہے ۔ چاہے بھائی ہے تو کیا ہوا بیچار کب سے شادی کے لیے ترس رہا تھا تو میں نے اس پر ترس کھا لیا ۔ میں بولا اور لڑکیاں تھوڑیں تھیں بولی چھوڑوں تم پھر سے میری لے لو اور ہمیں جانے دو ۔ عمران بیچار ا ڈرا کھڑا تھا بولا پلیز کسی کو مت بتانا بھائی ہمیں جان سے مادیں گے ۔ نورین بولی عمران تم چپ کرو اور جاو یہاں سے میں آتی ہوں عمران سنتے ہی چلا گیا میں نے اس کو نہیں روکا ۔ عمران کے جانے کے بعد بولی تم میری پھدی مار لو اور ہمیں جانے دو ۔ میں بولا تم کی تو مار چکا ہوں پہلے بھی بولی پھر کیا چاہتے ہو مین بولا تم مجھے ایک نئی لڑکی دو گی بولی میں کہاں سے دوں گی میں بولا تم کی تو کافی دوستیں ہیں بولی تم وہی آفتا ب ہو نا جو لڑکی کے نام سے بھی شرماتا تھا جس سے بات کرنا بھی بہت مشکل ہوتا تھا میں بولا ہاں وہی ہوں لیکن تم نے ہی مجھے بدل دیا ہے بولی ٹھیک ہے میں اتنظام کردوں گی۔ میں نے بولا ٹھیک ہےبولی ابھی تم نے میرا کام خراب کردیا ہم ابھی شروع ہی ہوئے تھے تم آگئے میں پیاسی رہ گئی اب میری پاس تم بجھاو گے اگ نئی لڑکی چاہیے تو میں تو پہلے سے گرم تھا میں نے نورین کو کھینچ کر گلے لگایا اور ا س کے ہونٹوں پر ہونٹ رکھے کچھ دیر چوسا بولی جلد ی کرو تم آگئے ہو کوئی اور بھی یہاں آسکتا ہے میں نے نورین کو پلٹایا جو کہ جھگ گئی میں نے اپنا لن پینٹ سے باہر نکالا اور پینٹ سرکادی اور اس کی شلوار نیچے کی اور اس کی پھدی پر تھوک لگایا اور اپنا لن اس کی پھدی میں نشانہ لگاتے ہوئے گھسا دیا جس پر اس نے زور سے سسکی لی اور آگے ہونے کی کوشش کی لیکن میں نے قابو کرلیا میں بھی دن سے تپا پڑا تھا اور بار بار نور کا ننگا جسم دماغ میں آرہا تھا اس لیے میں بھی بنا رکے شروع ہوگیا اور نورین نے چیخنا شروع کردیا میں بولا کوئی آجائے گا چپ رہو بولی اپنی گانڈ میں اتنا بڑا لے کر دیکھو پھر پتہ چلے گا میں بولا اچھا چپ کر و رفتار تیز کردی میں نورین کو بے دردی سے چودنے لگا کیونکہ وقت واقع کم تھا اور خطرناک جگہ تھی لیکن منی جب دماغ پر چڑھی ہوتو کچھ نہیں دکھتا میں نے جھ کر نورین کے مموں کو مسلنا شروع کردیا جس پر نورین کی چیخیں سسکیوں میں بدل گئی میں نے اپنی رفتا ر اور بڑھا دی کہ جلد فارغ ہوسکوں کہ اچانک دروازہ کھلااور
              جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
              ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

              Comment


              • زبردست اپڈیٹ

                Comment


                • آ وٹ کلاس مزہ آ گیا زبردست اپڈیٹ ہے

                  Comment


                  • اچھی اپڈیٹ ہے مزہ آگیا ہے انتہائی دلچسپ اور شہوت انگیز کہانی ہے

                    Comment


                    • بہت ھی آلا کمال کی سٹوری ہے جتنی بی تعریف کی جائے تو کم ہو گی

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 1 guests)

                      Working...
                      X