Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

میرے سمدھی اور مینوپاز کے بعد سیکس

Collapse
This topic has been answered.
X
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • Sensual Story میرے سمدھی اور مینوپاز کے بعد سیکس

    اس کہانی کا ایک خاکہ سا برسوں پہلے کہیں پڑھا تھا۔ مگر یاد نہیں آرہا ہے کہ کہاں اور کس زبان میں پڑھا تھا ۔ اس میں رنگ بھر کے اس کو ایک نئے طریقے اور ایک نئی کاوش کے روپ میں میں دوستوں کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔


    میرے سمدھی اور مینوپاز کے بعد سیکس

    پارٹ ایک

    میرا نام ثریا ہے۔ میری زندگی محرومیوں کی ایک دکھ بھری داستان ہے۔ افضل سےشاد ی کے بعد تو میں بہت خوش تھی۔ وہ بھی میرا بہت خیال رکھتا تھا۔ اسی دوران دو تین سالوں میں ہی دو بچے پہلے لڑکا جنید اور پھر لڑکی ماریہ پیدا ہوگئی۔ مگر ان خوشیوں کو جلد ہی کسی کی نظر لگ گئی۔ ابھی بچے دو اور ساڑھے تین سال کے ہی تھے کہ افضل ہم سب کو اس بھری دنیا میں تنہا چھوڑ کر چلا گیا۔ اچانک ہی ہارٹ اٹیک آگیا اور اسکی موت ہوگئی۔ میرے والدین کا پہلے ہی انتقال ہو چکا تھا۔ وہ تو خیرافضل کے سرکاری ملازم ہونے کہ وجہ سے اسکی گریجوٹی اور پنشن کے سہارے اور پھر میں نے ٹیوشن اور سلائی کڑھائی کرکے بچوں کو پڑھایا اور ان کو والد کی عدم موجودگی محسوس ہونے نہیں دی۔ اس سے بڑھ کر جو مدد اشفاق صاحب اور انکے خاندان نے کی، ان کا شکریہ کیسے کیا جائے اور یہ ان کا ایسا احسان تھا کہ ہماری فیملی کو در بدر کی ٹھوکریں کھانی نہیں پڑیں۔

    جیسا کہ میں نے بتایا کہ میرے شوہر مرکزی سرکار کے ایک ڈیپارٹمنٹ میں سیکشن افیسر تھے اور ان کا تبادلہ ہوتا رہتا تھا۔ ہمارا تعلق حیدرآباد دکن سے ہے۔ میری شادی سے قبل ہی ان کا تبادلہ بھوپال ہو گیا تھا اور وہ اشفاق صاحب کے مکان کے اوپری حصہ میں بطور کرایہ دار رہتے تھے۔ ہمارے دونوں بچے اسی مکان میں پیدا ہوئے۔ اشفاق صاحب اور انکی اہلیہ کبھی ہم کو کرایہ دار سمجھتی ہی نہیں تھی۔ گھر جیسا ماحول تھا۔ ان کے بچے بھی انہی دنوں سال دو سال کے فرق کے دوران پیدا ہوگئے۔ یعنی ہمارے اور انکے بچے تقرئبا ہم عمر تھے۔ جب میرے شوہر کا انتقال ہوا، تو میں بچوں کے ساتھ حیدرآباد واپس اگئی، مگر اشفاق صاحب اور انکی فیملی اکثر چکر لگاتی تھی اور خبر و خیریت کے ساتھ مدد بھی کرتی رہتی تھی۔

    خیر اس طرح ماہ و سال گذرتے گئے۔ میں نے بچوں کو اچھے اسکولوں میں پڑھایا۔ والد کی کمی کا ان کو ذرا بھر بھی احساس نہیں ہونے دیا۔ بیٹی ماریہ نے فیشن ڈئزائنگ میں ڈگری لی، جبکہ بیٹے جنید نے ایم بی اے کرکے ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں نوکری شروع کی۔ دوسری طرف اشفاق صاحب کی بیٹی عارفہ نے میڈکل میں ڈگری لی اور ان نے بیٹے شکیل نے انجینرنگ اور ایم بی اے کرکے والد کے کنسٹرکشن بزنس کو ہی آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا۔

    بچے چونکہ بر سر روزگار ہو گئے تھے۔ اشفاق صاحب اور ان کی اہلیہ نے توجہ دلائی کہ اب ان کی شادی کا وقت آگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کیوں نہ ہم ایک دوسرے کے سمدھی بن جائیں۔ بچے تو پہلے سے ہی ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ بس کیا تھا قصہ مختصر ان کی بیٹی میری بہو اور میرے بیٹی ان کی بہو بن گئی۔ شادی خاصی دھوم دھام سے ہوئی۔ میں نے بھی سبھی ارمان نکالے اور اسوقت افضل خوب یاد آگئے۔ اگر زندہ ہوتے، تو اپنے بچوں کی خوشیاں دیکھتے۔

    چونکہ اشفاق صاحب نے اپنا بزنس حیدر آباد میں بھی پھیلایا ہوا تھا، ان کا پارٹنر کے ساتھ کاروبارکے سلسلے میں کچھ ان بن ہوگئی تھی اور معاملہ کورٹ تک پہنچ گیا تھا۔اس نے ان کے آفس وغیرہ پر قبضہ کیا ہوا تھا۔ اسلئے ان کو اکثر حیدر آباد کورٹ کی پیشی بھگتنے کےلئے آنا پڑتا تھا۔ پہلے تو وہ کسی ہوٹل میں ٹھہرتے تھے۔ کیونکہ وہ بھی روایتی والدین کی طرح بیٹی کی سسرال کا پانی پینا غلط سمجھتے تھے۔

    مگر میں نے،میرے بیٹے اور بہو یعنی ان کی بیٹی نے ان کو قائل کرایا کہ وہ ہمارے گھر پر ہی ٹھہرا کریں۔ کئی بار ایسا ہوا کہ ڈنر کے بعد جب جیند اور عارفہ تھوڑی دیر ہمارے ساتھ ٹی وی دیکھ کر اور گپ شپ کے بعد چپکے سے بیڈ روم کی راہ لیتے تھے، تو میں اور اشفاق صاحب کافی باتیں کرتے تھے۔ پرانی باتیں یاد کرتے تھے۔ بھوپال اور افضل کو یاد کرتے تھے۔ اس دوران میں نے محسوس کرنا شروع کیا تھا کہ اشفاق صاحب کی نظریں میرے جسم کا طواف کرتی تھیں۔

    عورت مرد کی نظروں کو تاڑ لیتی ہے۔ اس سے قبل مجھے کبھی ان کی اس طرح کی نظروں کا احساس نہیں ہوا تھا۔ وہ کبھی آلتی پالتی مار کر، تو کبھی ایک ٹانگ کو دوسری ٹانگ پر رکھ کر کچھ بے چینی کے عالم میں پانی کے گلاس پر گلاس خالی کرتے تھے۔

    مجھے لگا کہ بیڈ روم سے جنید اور عارفہ کے سیکس کرنے کی جو دبی دبی، گھٹی گھْٹی اور کبھی اونچی آوازیں لیونگ روم میں آتی ہیں، شاید وہ اس وجہ سے بے چینی محسوس کرتے ہوں۔ اشاروں ، کنایوں میں کئی بار میں نے عارفہ سے بات کرنے کی کوشش کی کہ سیکس کے دوران آوازیں کچھ کم نکالا کرے یا کمرے میں بھاری پردے لگائے۔ مگر وہ شاید سمجھ نہیں پاتی تھی۔

    اشفاق صاحب چند روز ٹھہر کر چلےجاتے تھے۔ مگر ان کی عقابی نظروں نے مجھے گھائل سا کردیا تھا۔ ایک عرصے یعنی تقریبا بیس سال سے زائد عرصے کے بعد میری چوت میں ایک عجیب سی کھجلی ہونے لگی تھی۔ ایک سال قبل ہی میرا مینو پازہوچکا تھا۔ میری سیکس لائف تو افضل کی موت کے بعد ہی ختم ہو گئی تھی اور میری پوری زندگی ہی بچوں کو پالنے میں ہی گذری تھی۔ اپنے آپ کو دیکھنے کی فرصت ہی کہاں تھی۔ مینو پاز کے بعد تو عورت سمجھتی ہے کہ بس زندگی کی رنگینیاں اختتام کو پہنچ گئی ہیں اوربس اب آخرت کی فکر کرنے کی ضرورت ہے۔

    ایک عرصے بعد جب میں نے اپنا سروپا آئینے میٰں دیکھا، تو پتہ چلا کہ جسم فربہ تو ہوگیا ہے، مگر فیگر برقرار ہے۔ میرا دودھ جیسا جسم، بانہیں، چہرہ، سیب جیسے بھرے بھرے گال اور فل گلابی ہونٹ ابھی بھی پر کشش ہیں۔ میرے تربوز جیسے ممے اور انکے بیچ کی لکیر تر و تازہ ہے۔ یہ سارا سامان کسی بھی مرد کو گھائل کرنے اور لبھانے کےلئے کافی ہے۔

    ان بیس سالوں میں، مجھے کبھی مرد کی طلب نہیں ہوئی تھی۔ کیونکہ پوری توجہ بچوں پر تھی۔ بیوہ ہونے کے بعد کئی دور کے رشتہ داروں نے شادی کے پیام بھیجے تھے۔ مگر میں بچوں کو کسی سوتیلے باپ کے سپرد نہیں کرنا چاہتی تھی۔

    شادی کے فوراٰ بعد جنید کو چونکہ آفس سے چھٹی نہیں ملی تھی، اسلئے وہ ہنی مون پر نہیں گئے تھے۔ اس دوران اس کی کمپنی نے جب اس کو چند ماہ کےلئے یورپ جانےکےلئے کہا، تو میں اس کے پیچھے پڑ گئی کہ بہو یعنی عارفہ کو بھی ساتھ لیکر کام کے بعد کسی اچھی جگہ ہنی مون منا کے واپس آجاو۔ پہلے تو دونوں نے مجھے اکیلے گھر پر چھوڑنے سے منع کردیا۔ جب میں نے کچھ سختی دکھائی، تو وہ راضی ہوگئے۔

    ان کے جانے کے بعد تو گھر سونا ہوگیا تھا۔ اشفاق صاحب کی اہلیہ مہ جبیں جو میری سہیلی بھی تھی، نے فون پر بتایا کہ وہ میری بیٹی ماریہ کو حیدرآباد بھیج کر میرا اکیلا پن دور کروائے گی۔۔مگر میں نے منع کردیا اور اسکو کہا کہ ان دونوں کو انجوائے کرنے دو اور انکو بھی کہیں ہنی مون پر بھیج دو۔

    اس دوران اشفاق صاحب کو پھر حیدر آباد آنا پڑا، اور ان کی اہلیہ نے کہا کہ وہ اس بار کسی ہوٹل میں رہنے پر بضد ہیں۔ میں نے کہا کہ گھرکے گیسٹ روم کا اپنا باتھ روم اور انٹرنس بھی الگ ہے، تو وہ کیوں ہوٹل میں رہیں گے۔ میں نے مہ جبین سے مذاق میں کہا کہ اگر ان کو میرا اتنا خوف یا ڈر ہے، تو میں کھانا وغیرہ انکے کمرے کے دروازہ پر رکھ کر بھاگ جایا کروں گی۔ خیر بڑی لے دے کے بعد وہ ہمارے گھرپر ٹھہرنے پر راضی ہوگئے۔ اس بار پہلی بار ہم دو اکیلے ہی گھر میں رہنے والے تھے۔

    ان کے آنے سے قبل مدتوں بعد میں نے ہلکا سا میک اپ کیا۔ میک اپ بکس بھی بہو کے کمرے سےحاصل کیا۔ اس دوران تو یہ سبھی چونچلے میں بھول چکی تھی۔ میں نے ان کی فیورٹ ڈش حیدرآبادی بریانی دم پر رکھ دی تھی۔ کام نپٹا کر وہ شام کو گھر آگئے۔ خبر و خیریت کے بعد کھانا تو ہم نے چپکے سے کھایا، مگر ان کی نگاہیں، میرے جسم خاص طور پر سینہ سے ہٹ ہی نہیں رہی تھیں۔ میں نے بھی شلوار سوٹ کے بجائے ساڑھی پہنی تھی۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس کا پلو خود ہی گر کر انجانے میں جسم کی نمائش کرواتا ہے۔ وہ بہت ہی بے چین اور بے آرام ہو رہے تھے۔ ان کی پیشانی پر پسینے کے قطرے نمودار ہو رہے تھے۔ وہ کچھ کہنا چاہ رہے تھے، مگر الفاظ ان کے منہ میں اٹک رہے تھے۔

    آخر جرات کرکے اشفاق صاحب نے کہا کہ بھابھی ثریا آپ تو آج بھی ویسے ہی جوان اور خوبصورت لگ رہی ہو، جیسے پچیس برس قبل جب افضل بھائی صاحب کے ساتھ بھوپال آگئی تھی۔ میں تھوڑی جھینپ سی گئی، مگر ہمت کرکے کہا کہ بھائی صاحب میں تو خزاں رسیدہ ہوں۔ آپ کی مدد سے پچھلے بیس سالوں سے بس ایک ہی لگن رہی ہے کہ بچے کسی مقام تک پہنچ جائیں۔

    وہ اب تھوڑا میرے قریب کے صوفے پر شفٹ ہو چکے تھے۔ اور چند منٹ کے بعد میرا ہاتھ پکڑ کر بولے ہاں بھابھی اللہ کا شکر ہے۔ ہمارے اور آپ کے بچے کسی قابل ہو گئے ہیں۔ آپ کی تربیت کا جواب نہیں۔ ہمارے بچے بھی آپ کے بچوں کی دیکھا دیکھی ہی پڑھائی میں دھیان دینے لگے۔ باتیں کرتے ہوئے وہ میرا ہاتھ سہلا رہے تھے۔ میں نے ہاتھ چھڑانے کی کوشش نہیں کی۔ جس سے ان کو اور بھی ہمت ہوئی اور ہاتھ اوپر کرکے انہوں نے میرے بازو سہلانے شروع کئئ۔ ساڑھی کی وجہ سے بازو نظر آرہے تھے۔

    "بھابھی آپ کا رنگ کتنا گورا ہے۔ لگتا ہے کہ جیسے دودھ میں شہد ملایا گیا ہو۔‘‘

    وہ اب اور قریب آچکے تھے اور انہوں نے میرا چہرہ اپنی طرف کرکے پہلے پیشانی پر بوسہ ثبت کیا اور پھر آنکھوں اور پھر ناک، چہرہ کو نشانہ بناتے ہوئے، میرے نچلےہونٹ کو اپنے منہ میں لیکر چوسنا شروع کیا۔ میری سانسیں بے ترتیب ہو رہی تھیں۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔

    اشفاق صاحب نے اب مجھے آٹھا کر اپنی گود میں بٹھا کر بھنچ کر بوسوں کی ایک بوچھار سی کردی۔ اپنی زبان سے میرے ہونٹ کھول کر اپنی زبان میرے منہ کے اندرڈال دی۔ میرے منہ سے زبان کو باہر نکال کر خوب چوسا۔ میں نے بھی زبان نکال کر ان کے منہ میں دیکر اسکو دریافت کیا اور ان کی زبان سے زبان لڑائی۔

    اس دوران ان کے ہاتھ کام کررہے تھے۔ ساڑھی کے نیچے وہ میرے بوبس کو دبا رہے تھے۔ ایک ایک کرکےانہوں نے میری ساڑھی کو اور پھر بریزیر اور برا کو اتار کر پھینک دیا۔ میرا اوپر کا جسم پورا ان کے سامنے ننگا تھا۔ میں نے انکی شرٹ کے بٹن کھولنے میں انکی مدد کی۔ انڈر شرٹ کو انہوں نے خود ہی اتار کر دور پھینک دیا۔ ان کا بالوں بھرا سینہ میرے سامنے تھا۔ میں نے ان کے سینے کےبالوں کو سہلایا۔ یاد آیا کہ افضل کا سینہ تو سپاٹ تھا۔ اور ان کے سینہ پر بوسے ثبت کئے۔

    اب انہوں نے اپنے ہاتھوں میں مجھے اٹھا کر بیڈ روم کا رخ کیا اور بیڈ کے گدے پر پر ایک طرح سے جیسے پھینک دیا۔ میرا بھاری بھرکم وجود انہوں نے گڑیا کی طرح گود میں اٹھا لیا تھا۔ سنا ہے کہ سیکس کے وقت عورت کو گود میں لینے سے مردوں کو وزن کا احساس نہیں ہوتا ہے۔ جیسے عورتوں کو، جب مرد کا بھاری وجود ان کے اوپر ہوتا ہے۔

    پہلے انہوں نے اپنی پینٹ اور انڈر ویر اتار کر پھینک دی۔ ان کا چھ سات انچ کا لوڑ ا کھڑا سلامی دے رہا تھا۔ لگتا تھا ایک جنرل حملہ کرنے کےلئے تیار ہے۔ اس کے ننے سے سوراخ سے رطوبت بہہ رہی تھی۔ میں نے ہاتھ میں لیکر فیل کرکے اسکو دبایا۔ اسکے سوراخ سے رطوبت کو صاف کیا اور پھر اس کے سر پر کس کرکے اس کو منہ میں لینے کی کوشش کی۔ میرا منہ اتنا کھل ہی نہیں رہا تھا۔ ان کے پورے بدن پر گھنے بال تھے۔ جو اب سفیدی کی طرف مائل تھے۔

    خیر اشفاق صاحب نے مجھے لیٹنے کےلئے کہا اور میری پینٹی نیچے اتار کر پوچھا کہ گھر میں کوئی پروٹیکشن موجود ہے کیا؟ وہ کہنے لگے کہ جنید کے کمرے میں جاکر کنڈوم وغیرہ دیکھ کر آوں۔ میں نے کہا کہ میرا مینو پاز ہو چکا ہے، اس لئے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ بس ٓاجاو۔ مگر احتیاط کے ساتھ۔ اس چوت کو بیس سال بعد چدنا ہے۔ یہ تقرئبا اب تو ورجن چوت ہے۔

    کنواری چوت کا نام سنتے ہی ،انہوں نے چوت کے لب انگلیوں سے کھولے۔ میرے چوت کے لب نہایت موٹے ہیں اور کلائی ٹورس بھی واضع شکل میں ہے۔

    چوت ویٹ تو ہو چکا تھا۔ ہاں اتنی رطوبت نہیں تھی، جتنی مینو پاز سے قبل ہوتی تھی۔ میری پشت بیڈ پر ٹکی ہوئی تھی، مگر ٹانگیں بیڈ کے سرے پر نیچے لٹکی ہوئی تھیں۔ انہوں نے اپنا سر نیچے کرکے زبان چوت کے سرے پر لگادی۔ میں نے بال صاف کر دئے تھے، گو کہ مجھے توقعہ نہیں تھی، کہ معاملہ اس حد تک پہنچ جائیگا۔

    افضل کبھی اورل نہیں کرتے تھے۔ بس مجھے ہی کبھی کبھی وہ بھی بس چند سیکنڈ منہ میں لینے پر مجبور کرتے تھے۔ پہلی بار کسی کی زبان میری چوت کے ساتھ ٹچ کر رہی تھی۔ انہوں نے پہلے لبوں کو چوما۔ پھر کلائی ٹورس کو منہ میں لیکر چوسا۔ میں نے ٹانگیں کھول کر ان کو چوت کا پورا نظارہ کرنے دیا۔ وہ بتا رہے تھے میری رانیں اور ٹانگیں جیسے سنگ مرمر سے بنی ہیں۔

    ان کی زبان کی چھیڑ چھاڑ سے میں تو کسی دوسری دنیا میں پہنچ چکی تھی۔ انہوں نے زبان سے سوراخ کا پتہ لگا کر اس کو چوت میں کافی اندر کر دیا۔ میرے ٹشوز ان کی زبان کے ساتھ ٹچ ہوکر ایک عجب سماں پیدا کر رہے تھے۔ بیچ بیچ میٰں وہ اوپر آکر میرے جوسز سے لتھڑی اپنی زبان، میرے منہ میں ڈالتے تھے۔ میں بھی اپنے چوت کا مزا چکھ کر انکی زبان کو چوس کر خشک کرتی تھی۔

    تھوڑی دیر کے بعد انہوں نے مجھے پوری طرح بیڈ پر لیٹنے کو کیا۔ ان کو لگ گیا تھا کہ سوراخ خاصا تنگ ہے۔ پاس ہی شلف سے فیس کریم کی شیشی کھول کر اس کو اپنے لنڈ کے سر پر لگادیا اور پھر میری چوت کی انٹری پر لگائی اور میرے کلی ٹورس کے ساتھ لنڈ کو ٹکرانے لگے۔ میں نے بھی ان کا ساتھ دیکر لنڈ کو ہاتھ میں لیکر چوت کے اوپر نیچے کرنے لگی۔ اب ویٹ نیس آچکی تھی۔۔ اپنی انگلیوں سے چیک کرکے انہوں نے کہا کہ سوراخ تو ابھی بھی بہت تنگ ہے اور سوراخ کے اردگرد ٹشوز کا ماس سا بنا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس سوراخ میں پھر جان ڈال دیں گے۔

    اوپر نیچےکرنے کے دوران انہوں نے اسکو اب سوراخ پر فٹ کردیا اور ایک جھٹکے سے بلڈوزر کی طرح ٹشوز کو کچلتے ہوئے اسکو اندر کی راہ دکھا دی۔ میری تو چیخ نکل گئی۔ ابھی پورا اندر نہیں گیا تھا۔ وہ تھوڑی دیر کےئے رک کر مجھے دیکھنے لگے۔سر اور تھوڑا سا حصہ ہی اندر تھا۔

    اب انہوں نے اسکو باہر نکال کر سوراخ کے دہانہ پر پہنچایا اور ایک بار پھر زور دار جھٹکے سے پورا سات انچ لمبا اور کئی انچ موٹا لوڑا اندر کردیا۔ کئئ مسلز اور ٹشوز ان کی اس جارحانہ حکمت عملی سے جیسے کچل دئے گئے۔

    اس سوراخ کو ابھی تک صرف افضل کا لنڈ ہی نصیب ہوا تھا۔ اس کا سائزبھی مشکل سے ہی پانچ چھ انچ کے درمیان رہا ہوگا اوراشفاق کے لوڑے سے کافی پتلا تھا۔

    اس کے ساتھ اشفاق نے میری ٹانگیں اوپر اپنے شانہ پر رکھ کر کاروائی شروع کردی۔ چند اسٹروکس کے بعد وہ میرے اوپر گر کر میری باڑی کا ایک ایک انچ چومنے لگے۔ بوبس کو مسلنے کے بعد نپلز کو منہ میں لیکر انہوں نے خوب چوسا۔

    میری زبان کو چوس کر وہ بتا رہے تھے، کہ بھابھی میں تو کئی دہائیوں سے تمہارا دیوانہ ہوں۔ جب تم افضل کے ساتھ ہمارے مکان میں بھوپال رہنے آئی تھی،میں تو تب سے ہی تمہارا دیوانہ ہوگیا تھا۔ اب بڑھاپے میں تمہارا جسم اور قرب مل گیا۔ وہ جانے کیاکیا بک رہے تھے۔

    دھکوں سے میرا پورا جسم ہل رہا تھا۔ میرے جسم کے ایک ایک انگ میں جیسے نشہ بھرا جا رہا تھا۔ اب نیچے سے میں نے بھی دھکے دینا شروع کردئے۔ آخر میں نے ان کو زور سے بھینچ کر اور زور دار آواز کے ساتھ اووو ہووو آااای ای ای ہووو اوووو کے نعرے بلند کرکے اوران کی کمر میں یاتھ پیوست کرکے اپنے آرگیزم کا اعلان کردیا۔ اشفاق صاحب نے بھی دھکوں میں تیزی لاکر بلند آواز میں اووو اوووو اووو اااااا ووو کرکے اپنا پورا مال میرے سوراخ میں انڈیل کر اسکو سیراب کردیا۔

    جب افضل نکلتے تھے، تو پتہ ہی نیہں چلتا تھا۔ ان کا آرگیزم بہت خاموشی سے آتا تھا۔ مہ جبین نے مجھے بتایا تھا کہ ان کے شوہر کا آرگیزم بہت ہی پاورفل ہوتا ہے، اور وہ اس وقت پورا کمرہ سر پر اٹھا لیتے ہیں۔ ہماری آپس میں اس طرح کی بات چیت ہوتی تھی، جب ہم بھوپا ل میں رہتے تھے۔ ہم دونوں ان دنوں تازہ تازہ شادی شدہ تھیں۔آج میں ان کا آرگیزم پہلی بار خود دیکھ رہی تھی۔ اچھا تھا کہ کوئی گھر پر نہیں تھا۔ ہم دونوں کی بلند آوازوں نے ارتعاش پیدا کر دیا تھا۔

    مجھے سیراب کرنے کے بعد وہ اسی طرح میرے اوپرہی لیٹ گئے۔ میں نے پوچھا کہ ’’بیس سالوں کے بعد انکواب کیسے جرات ہوئی؟بس بچوں کی شادی کے بعد جب آپ نے حیدر آباد آنا شروع کیا تو اُپ کی نگاہیں بدلی سی لگیں، اس سے قبل کبھی محسوس بھی نہیں ہونے دیا۔‘‘

    تو انہوں نے کہا کہ تمہارے شوہر کی وفات کے بعد جب میں نے مدد کرنے کی ٹھانی، تو سوچا کہ تہارے ساتھ فلرٹ کرنا اب غلط ہوگا۔ کیونکہ اس کا یہی مطلب لیا جاتا کہ میں مدد اپنے مطلب کےلئے کر رہا ہوًں اور اس دوران بچے بھی بڑے ہو رہے تھے اور ان پر برا اثر پڑتا۔ تم نے بھی دوسری شادی سے منع کر دیا تھا۔ شاید تم بھی ان دنوں تیار نہیں ہوتی۔ پھر ہمارا تعلق ہی ٹوٹ جاتا۔

    اس دوران ان کا عضو دوبارہ اکڑ گیا تھا، وہ میرے چوت کے آس پاس ہی تھا۔ میں نے اسکو واپس گیراج کی راہ دکھائی۔ اس بار وہ آرام سے پھسلتے ہوئے اندر چلا گیا۔ انہوں نے پھر دھکے لگانے شروع کئے۔ انہوں نے میرے بوبس کس کے پکڑے ہوئے تھے، نپلز کو چوس رہے تھے۔ ان کی دھکوں کی رفتار بڑھ رہی تھی۔ چپ چپ کی آوازیں کمرے میں گونچ رہی تھیں۔ میری چوت کے مسلز اکڑنے لگے اور لگا کہ پوری باڈی سے خون ٹانگوں کے بیچ جمع ہوگیا ہے۔ میں نے اشفاق صاحب کے سر کو پکڑکر زبان باہر نکال کر ان کو چوسنے کےلئے دی۔ اور اسی دوران ان کے دھکوں کی رفتار، چپ چپ کے بیچ ٓآآآآآآآآہ ہ ہ ہو ہو ہو ہو آ آ آ آ آ کرکے ڈھیر ہوگئی۔ میرے بدن سے پوری طاقت جیسے نچوڑی گئی ہو۔ مجھے کوئی ہوش نہیں تھا۔ بس اتنا اب لگ رہا تھا کہ اشفاق بھی کراہ رہے ہیں اور نیچے میری چوت گیلی ہو رہی ہے۔ لمبی سانس لیکر وہ میرے اور ایک بے جان لاشہ کی طرح گرے ہوئے تھے۔

    ہوش میں آنے کے بعد میں نے ان کے سر کے سفید بالوں کو سہلایا۔ وہ میرے اوپر ہی لیٹے تھے اور کہہ رہے تھے ، ثریا، میں جوانی میں ٹائیگر تھا۔ میں رات رات بھر مہ جیبن کو چودتا تھا۔ مگر اب وہ ہمت اور طاقت نہیں رہیَ ان دنوں تم ملتی تو کئی کئی دن میں تم کو چودتا۔ میں نے ان سے کہا کہ میں ان کے کارنامے مہ جبین سے سن چکی ہوں۔ وہ ان دنوں مجھے اپنی چدائی کی کہانی سناتی تھی۔

    انہوں نے کہا ثریا ایک بات بتاوں، مجھے تمہاری باڈی اور بوبس کے دیدار بیس سال پہلئ ہی ہوئے تھے۔ میں نے حیران ہوکرپوچھا، ایسا کیسے؟ تو وہ بتانے لگے کہ ایک بار میں چھت پر پانی کی ٹینکی وغیرہ کو دیکھنے گیا تھا۔ تو نیچے تمہاری بالکونی پر نظر پڑی، تو تم باتھ روم میں نہا رہی تھی۔ افضل آفس چلا گیا تھا۔ اور بچے چھوٹے تھے اور وہ کمرے میں کھیل رہے تھے۔ شاید ان پر نظر رکھنے کےلئے تم نے باتھ روم کا دروازہ بند نہیں کیا تھا۔ بس وہ دن اور آج کا دن، وہ منظر میرے سامنے ہردم گذرتا تھا۔ تمہارا یہ گورا بدن، سفید، سفید گول گول گوری گوری بوبس کا تو میں دیوانہ تھا۔ جب مہ جبین کی لیتا تھا، تو اسکی گندمی بوبس کو تمہاری بوبس سمجھ کر مسلتا اور چوستا تھا۔
    مگر افضل کے بعد میں نے تمہیں سیکس کے زاویہ سے دیکھنا بند کردیا اور اپنے من کو سلادیا۔۔۔ خیر اسی طرح باتیں کرتے ہوئے ہم ایک دوسرے کی بانہوں میں سو گئے۔

    اسٹوری پر زیادہ سے زیادہ کمنٹ کریں، تاکہ میں دوسرا پارٹ حاضر کروں۔ شرط ہے کہ کمنٹ زور دار ہونے چاہئں، جتنے گندےہوں، اتنے ہی اچھے۔۔۔

    ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
    image.png
  • Answer selected by kashmiri at 02-13-2023, 11:41 PM.

    بہت ہی عمدہ اور بہترین لاجواب سٹوری
    اسپر ?آیئ لو یو تو بنتا ہے ❤❤❤❤❤❤❤❤

    Comment


    • #2
      Lajawab story he

      Comment


      • #3
        کہانی کا پلاٹ بہت اچھا ہے

        Comment


        • #4
          واہ کیا کمال کی اپڈیٹ دی ہے

          Comment


          • #5
            کمال کر دیا

            Comment


            • #6
              آخر اشفاق صاحب سمدھن کو لٹاہی گئے

              Comment


              • #7
                مختصر،جامع،موثر جاندار کہانی

                Comment


                • #8
                  غزل اس نے چھیڑی مجھے ساز دینا

                  ذرا عمر رفتہ کو آواز دینا

                  Comment


                  • #9
                    عمدہ تحریر، کہانی کا پلاٹ زبردست ہے اور الفاظ کے عمدہ چناؤ نے تحریر کو چار چاند لگا دیئے ہیں​

                    Comment


                    • #10
                      Shandar kahanigud

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X