Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

مونا چاچی از قلم ۔۔۔۔۔۔شاہ جی

Collapse
This topic is closed.
X
This is a sticky topic.
X
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • bohhat acha andaze bayan ha kirrdaron ke sath sahi sallook kr rahe han aap lafazi b nehayat umda ha

    Comment


    • کہانی زبردست جزباتی رخ اختیار کر گئی ہے
      بہترین اپڈیٹ

      Comment


      • شاندار اپڑیٹس مزیدار ہہےسٹوری...❤️❤️❤️

        Comment


        • Bht hi behtreen hero ab nosheen ko manaye ga aur phir mithai khaye ga

          Comment


          • Kamal ki story hay

            Comment


            • Waaah kia bat he shah g tusi sha gaye ho

              Comment



              • مونا چاچی
                قسط نمبر 7
                رائیٹر :- شاہ جی
                .










                .
                میں فل سپیڈ سے موٹر سائیکل بھگاتا نوشین کے رکشہ کو تلاش کر رہا تھا۔۔۔۔۔
                اور میرا دماغ ڈبل سپیڈ سے نوشین کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔۔۔
                اسے اعتراض چدنے پر نہیں تھا۔۔۔۔ بلکہ اسے اعتراض میری لاپرواہی پر تھا۔۔۔
                اسے دوستی میں چدنا منظور تھا۔۔۔کھلونا بن کر نہیں۔۔۔۔۔
                اسے یہ لگا کہ میں اسے چود کر اس کے جسم کا حصول کر کے منہ پھیر گیا۔۔۔۔
                اس کی خبر تک نہیں لی۔۔۔۔۔۔ میں مرض بوجھ چکا تھا اور اب علاج سوچ رہا تھا۔۔۔۔۔۔
                علاج وہی تھا۔۔۔۔ ایک بار پھر سے تگڑا ٹیکہ۔۔۔۔
                لیکن نجانے اس کا رکشہ کونسی شارٹ کٹ گلی میں گھس گیا تھا کہ نظر ہی نہیں آ رہا تھا۔۔۔۔
                میں بےوقوفوں کی طرح رکشوں میں جھانکتا نوشین کی تلاش میں تھا۔۔۔۔
                ڈی چوک گھومتے ہوئے آخر میں نے نوشین کو ڈھونڈھ ہی لیا۔۔۔
                نوشین۔۔۔ یار بات تو سنو۔۔۔۔ میں بائیک سیدھا رکشے کے قریب لایا اور نوشین کو پکارا۔۔۔
                مجھے دیکھ کر نوشین بوکھلا سی گئی۔۔۔ ایک لمحے کو اس کے چہرے پر حیرت آمیز خوشی چمکی اور اگلے ہی لمحے پھر سے غصیلے تاثرات نے ڈیرہ ڈال لیا۔۔۔
                اوہ بھئی کون ہو تم۔۔۔ پیچھے ہٹو۔۔۔۔ رکشہ ڈرائیور یقینا مجھے پکا بھونڈ (ٹھرکی ) سمجھ رہا تھا۔۔
                نوشین میری بات تو سنو یار۔۔۔۔ میں نے رکشے والے کو اگنور کرتے ہوئے نوشین کو پکارا۔۔۔
                اوئے لگتا ہے تو نے انسان نہیں بننا ٹہر جا تیری ساری معشوقی نکالتا ہوں۔۔۔
                رکشہ والا میری ہٹ دھرمی سے تڑپ اٹھا۔۔۔۔
                ہر مڈل کلاس پاکستانی کی طرح تنہا عورت کی مدد والا جذبہ اس کے دل میں جاگ چکا تھا۔۔۔۔
                اس نے کینہ توز نظروں سے مجھے گھورتے ہوئے رکشہ ایک سائیڈ پر لگایا اور اچھل کر باہر نکلا۔۔۔
                اوئے کیا بات ہے۔۔۔؟ وہ لپکتا سیدھا میری طرف بڑھا اور انتہائی پھرتی سے بائیک کی چابی نکال لی۔۔۔
                شائد اس کے ذہن میں یہ تھا کہ میں بھی حالات خراب ہوتے دیکھ کر موقع سے فرار نا کر جاوں اور اس کی ہیرو گیری کا موقع ضائع ہو جاتا۔۔۔
                اس کی اس حرکت سے میرا دماغ سٹک گیا۔۔۔۔۔
                دیکھو پہلوان جی۔۔۔۔ آپ بیچ میں نا پڑو مجھے اس سے بات کرنی ہے۔۔۔
                میں نے نوشین کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔
                نوشین قدرے بوکھلا چکی تھی۔۔۔
                رکشہ ڈرائیور اور میری تکرار کا ممکنہ اندازہ کرتے ہوئے ایک آدھ لائلپوری لونڈا پاس کھڑا تماشے کا منتظر تھا۔۔۔
                اوئے تیری ایسی کی تیسی۔۔۔۔ جو گل کرنی ہے میرے نال کر(جو بات کرنی ہے مجھ سے کرو)۔۔۔
                رکشہ ڈرائیور نے میرے شانے پر ہاتھ رکھتے ہوئے دھمکایا۔۔۔
                میں نے غصیلی نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔۔۔۔
                اس کی بے وجہ مداخلت سے میرا دماغ گھومنے والا تھا۔۔۔
                تماشا مت بناو نوشین۔۔۔ نیچے اترو۔۔۔۔ میں نے دوبارہ نوشین کو مخاطب کیا۔۔۔
                مجھے تم سےکوئی بات نہیں کرنی۔۔۔ نوشین نے سلگتی آواز میں جواب دیا۔۔۔
                للیکن۔۔۔ میں کچھ بولنے ہی والا تھا جب رکشہ والے کےاندر کا سلطان راہی جاگ اٹھا۔۔۔
                اوئے تجھے سنائی نہیں دے رہا۔۔۔ کن ٹٹے لفنگے۔۔۔۔
                تیرے جیسے مادرچود حرامیوں کا علاج کرنا میں جانتا ہوں۔۔۔
                رکشہ والے نے میرا کالر پکڑ کر کھینچتے ہوئے گالی دی۔۔۔
                مادر چود حرامی۔۔۔۔۔۔ اس کی گالی سے میں تڑپ اٹھا۔۔۔۔ میری مرحومہ والدہ کو گالی۔۔۔۔۔
                ایک سیکنڈ میں ہی میرا دماغ گھوم چکا تھا۔۔۔۔
                اس سے پہلے کہ رکشہ والا کچھ کرتا۔۔۔۔ میرا ہاتھ بجلی کی سپیڈ سے اٹھا۔۔۔
                چٹااااااخ۔۔۔۔ زوردار طمانچے کی آواز ابھری۔۔۔۔
                میرا بھرپور تھپڑ اس کے ہوش اڑا چکا تھا۔۔۔۔۔
                یہ تھپڑ عام نہیں تھا۔۔۔۔ بھلے زمانوں میں مجیدے پہلوان کے اکھاڑے کے دنوں میں۔۔۔
                ایک بار طمانچہ کبڈی ہوئی تھی۔۔۔۔ پہلوان ایک دوسرے کو زور زور سے تھپڑ مارا کرتے تھے۔۔۔۔
                اس کبڈی کے بعد کچھ عرصہ ہماری جونئیر پارٹی بھی طمانچوں کی پریکٹس کرتی رہی تھی۔۔۔۔
                شائد یہ اس پریکٹس کا اثر تھا یا ماں کی گالی کا غصہ۔۔۔
                میرے تھپڑ سے اس کا رخسار شائد پھٹ گیا تھا۔۔۔۔
                اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔۔۔
                لمحہ بھر کو وہ سکتے میں چلا گیا۔۔۔
                میرے اندر برداشت کا بہت مادہ تھا۔۔۔ میں نے یتیمی کے کئی سال زمانے کی ٹھوکروں کو سہا تھا۔۔۔
                لیکن ایک چیز ایسی تھی جس پہ میں اپنے ہوش گنوا بیٹھتا تھا۔۔۔
                میری ماں۔۔۔۔۔ بدقسمتی سے رکشہ والا میری دکھتی رگ کو چھیڑ بیٹھا تھا۔۔۔۔
                اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ میں اسے تھپڑ ماروں گا۔۔۔۔۔
                کیونکہ عموما ایسے کیسز میں بھونڈ موقع سے فرار ہو جاتے ہیں۔۔۔۔
                ابھی وہ اسی شاک میں تھا کہ میں بائیک سے اترا۔۔۔ اور دوسرا تھپڑ جڑ دیا۔۔۔۔
                نوووووومی۔۔۔۔۔ نوشین کی چیختی آواز مجھے سنائی دی۔۔۔۔
                میرے دوسرے تھپڑ سے رکشہ والے کا منہ تقریبا گھوم ہی گیا۔۔۔ وہ ہلکا سا لڑکھڑایا اور رکشے سے جا ٹکرایا۔۔۔
                تم نے مجھے گالی دی۔۔۔۔ میں اس کی طرف لپکا۔۔۔
                تب تک رکشہ والا بھی سنبھل چکا تھا۔۔۔۔
                اس نے سنبھلتے ہی اندازہ لگا لیا کہ وہ غلط جگہ متھا لگا چکا ہے۔۔۔
                لیکن وہ بھڑوا بہت ہشیار نکلا۔۔۔ اس نے جیسے ہی بازی پلٹتے دیکھی یکدم چیخ اٹھا۔۔۔
                اوئے لڑکی کو چھیڑتا ہے۔۔۔۔ وہ چلایا۔۔۔
                رکشہ والے کی بھڑک سن کر قریب کھڑے تماشہ دیکھتے معاملے کو سمجھنے کی کوشش کرتے چند نوجوان فورا میری طرف لپکے۔۔۔
                بدقسمتی سے میں اس وقت نوشین کی طرف متوجہ تھا۔۔۔
                میرے ساتھ آو نوشین میری بات تو سنو۔۔۔۔
                میں نے غصے سے پھنکارتے ہوئے نوشین کو پکارا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر نیچے اتارنا چاہا۔۔۔۔
                میرا یہ ہاتھ پکڑنا۔۔۔۔ غصے سے بولنا۔۔۔
                رکشہ والے کا چلانا اور نوشین کا بوکھلایا چہرہ۔۔۔
                پورا منظر میرے خلاف جا رہا تھا۔۔۔۔
                اس سے پہلے کہ نوشین کچھ کہتی یا میں اسے نیچے اتارتا۔۔۔۔
                مددگار نوجوانوں میں سے ایک نے فورا مجھے عقب سے جن جھپہ مارا۔۔۔۔
                اس کے دونوں بازو نے مجھے جھپے میں لیا اور پیچھے کھینچا۔۔۔۔ جب تک میں سنبھلتا۔۔۔
                وہ مجھے کھینچتا پیچھے لیتا گیا۔۔۔۔ دوسرے نوجوان نے جیسے ہی مجھے بےبس دیکھا۔۔۔۔
                اس نے ہیرو بنتے ہوئے بڑے ٹیکنیکل طریقے سے میری پسلیوں میں مکا مارا۔۔۔
                وہ ہٹا کٹا مشٹنڈہ بڑا ہی ٹیکنیکل نکلا۔۔۔ میری پسلیوں میں درد کی شدید لہر اٹھی اور میں اوغ کی آواز سے جھکتا چلا گیا۔۔۔
                رکشہ والا غائبی مدد حاصل ہوتے ہی حوصلے میں آیا۔۔۔۔اور میری طرف جھپٹا۔۔۔۔
                تیری ماں کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ گالی دیتے آگے بڑھا۔۔۔۔۔
                اس کی گالی۔۔۔ پسلیوں میں درد۔۔۔۔
                میرے اندر کا اتھرا جٹ جاگا۔۔۔۔ جیسے ہی رکشہ والا قریب آیا اس کے ہاتھ میری گردن پہ جمے۔۔۔۔
                میرا گھٹنا حرکت میں آیا۔۔۔۔ میرا گھٹنا پورے زور سے اس کی رانوں کے درمیان پڑا۔۔۔۔
                ہااااائے ابھھھھ۔۔۔۔۔ رکشے والا میری ضرب سے ادھ موا ہوا۔۔۔۔
                اور میرے سر کی بھرپور ٹکر سے اس کے ناک سے فوارہ پھوٹ پڑا۔۔۔۔
                اوہ ہااائے میں مرگیا کرتے رکشہ والا اپنے چڈوں میں ہاتھ جمائے بیٹھتا چلا گیا۔۔۔۔
                لمحوں میں حالات بہت خراب ہو چکے تھے۔۔۔
                اوئے اوئے۔۔۔۔ جیسی آوازیں ابھریں۔۔۔۔
                اور میری بینڈ بج گئی۔۔۔ کوئی تین چار کےقریب راہ گیر مجھ ہر جھپٹ پڑے۔۔۔
                ایک کا ہاتھ میرے کالر پر پڑا اور میری قمیض گریبان تک پھٹتی گئی۔۔۔
                کسی کا مکہ میرا جبڑا ہلا گیا۔۔۔
                چٹاخ پٹاخ۔۔۔ تھپڑوں اور مکوں کا حملہ مجھے بوکھلا گیا تھا۔۔۔
                عقبی جھپے سے میرے بازو بے بس تھے۔۔۔۔
                لیکن ایک فائدہ ہوا۔۔۔ اس عوامی حملے میں میرے ساتھ ساتھ مجھے جکڑنے والا بھی تھوڑے بہت عتاب کا حصہ دار بن چکا تھا۔۔۔۔
                کسی مددگار کا مکہ شائد اسے بھی لگ چکا تھا۔۔۔
                اوئے بھائی ویکھ کے۔۔۔ وہ چیختے ہوئے لڑکھڑایا۔۔۔
                اس کے لڑکھڑانے اور میرے فطری مچلنے سے ہم دونوں لڑکھڑاتے زمین پہ جا گرے۔۔۔
                میرا سر بڑے زور سے فٹ پاتھ سے ٹکرایا۔۔۔۔اور میری آنکھوں کے آگے تارے چھا گئے۔۔۔
                میں نے تڑپ کر الٹی سیدھی ٹانگیں چلائیں اور سر پکڑتا سڑک پہ لوٹ پوٹ ہوا۔۔۔
                نوووومی۔۔۔۔ پیچھے ہٹو اوہہہ بھائی پیچھے ہٹو۔۔۔۔
                میں نے چکراتے سر اور مندی آنکھوں سے نوشین کو دیکھا۔۔۔۔
                وہ چلاتی رکشہ سے اتر کر میری طرف بڑھی۔۔۔
                پیچھے ہٹو۔۔۔ یہ شوہر ہے میرا۔۔۔۔۔
                اوہ ہاے نوومی تیرا تو سر پاٹ (پھٹ) گیا۔۔۔
                نوشین چیختی چلاتی میرے قریب آ بیٹھی۔۔۔۔
                نوشین کے چلانے۔۔۔۔ اہنا شوہر کہنے اور میرے سر سے خون نکلتے دیکھ کر۔۔۔۔۔۔۔
                مجھے مارنے والے جوشیلے جوانوں کو حالات کی سنگینی کا اندازہ ہوا۔۔۔
                یہ آپ کا بندہ (شوہر) ہے جی۔۔۔؟؟؟
                رکشہ والا اپنی پکوڑا ہوتی ناک کو ہاتھوں سے دباتا ہوا بولا۔۔۔
                اس کی ناک سے نکسیر برابر خون پھوٹ چکا تھا۔۔۔
                آہو۔۔۔۔۔ بندہ ہے میرا۔۔۔ ہماری لڑائی ہوئی تھی نوشین چیختے ہوئے بولی۔۔۔
                رکشہ والے نے گھبرائی نظروں سے آس پاس دیکھا۔۔۔۔
                مددگار راہ گیر رفو چکر ہو چکے تھے۔۔۔۔
                نوومی۔۔۔ افف اسے اٹھانے میں مدد کرو میری۔۔۔۔
                نوشین چلائی۔۔۔۔ اس کی چلاتی آواز سن کر قدرے فاصلے پر کھڑا ایک سٹوڈنٹ فورا بھاگتا آیا اور مجھے اٹھانے میں مدد کرنے لگا۔۔۔
                کچھ اپنی مدد اور کچھ ان دونوں کی اجتماعی مدد سے چند لمحوں بعد میں فٹ پاتھ پر بیٹھا۔۔۔۔ اپنےسر کو سہلا رہا تھا۔۔۔
                جیسے ہی میں نے سر کو سہلایا میرے سر میں درد کی ٹیس اٹھی۔۔۔
                آاااہ میں سسکا اور ہاتھ واپس کھینچا۔۔۔
                میری انگلیاں اور ہتھیلی خون آلود ہو چکی تھی۔۔۔
                ہاائے میں مر جاواں ۔۔۔ بےوقوفا پیچھے ہٹ مجھے دیکھنے دے۔۔۔
                نوشین گھبرا کر آگے بڑھی اور میرے بالوں کو ہٹا کر زخم دیکھنے لگی۔۔۔۔
                اس وقت وہ سارا جھگڑا بھول چکی تھی۔۔۔۔۔
                میں نے سکون کا سانس لیا۔۔۔۔۔۔ کٹ تو پڑی تھی لیکن۔۔۔۔۔
                نوشین نارمل ہو گئی تھی۔۔۔۔ میں بےساختہ مسکرا اٹھا۔۔۔
                کوئی بات نہیں باجی زیادہ زخم نہیں ہے۔۔۔۔
                جاتے ہوئے کسی سے ٹنکچر لگوا لیں۔۔۔۔۔ مددگار سٹوڈنٹ نے نوشین سے کہا۔۔۔
                اففف میں نے گہرا سانس بھرا اور سیدھا ہو بیٹھنے کی کوشش کرتے ہوئے اس طالبعلم کو دیکھا۔۔۔
                ڈونٹ وری سر۔۔۔۔ میں میڈیکل سٹوڈنٹ ہوں۔۔۔
                بچت ہو گئی ہے۔۔۔ اس نے میری ہمت بندھائی اور مسکراتا ہوا واپس پلٹ گیا۔۔۔
                ہیں۔۔۔۔ رکشے والا کدھر گیا۔۔۔
                نوشین کی بڑبڑاتی آواز پہ میں نے چونک کر دیکھا۔۔۔۔۔
                رکشہ والا موقع سے فرار ہو چکا تھا۔۔۔۔ بندہ کافی ہشیار تھا۔۔۔۔۔
                اس نے عقلمندی کی کہ بھاگ گیا ورنہ میں نے اس کی بینڈ بجا دینی تھی۔۔۔
                بھاگ گیا ہے۔۔۔ میں نے کراہتے ہوئے جواب دیا۔۔۔۔۔
                ہائے اب کیا کرنا ہے۔۔۔؟؟ نوشین بوکھلا کر بولی۔۔۔
                تم صرف اپنی چادر سنبھال لو۔۔۔۔ اور تم نے کھیہہ تے سواہ کرنا ہے۔۔۔
                میں نے کلس کر جواب دیا۔۔۔۔ بوکھلاہٹ میں اس کی چادر کھسک چکی تھی اور سیکسی چھاتیوں کا کلیویج اوپن نظارہ دے رہا تھا۔۔۔
                تیری نظریں ہی فتوری ہے۔۔۔۔ نوشین نے گڑبڑا کر اپنی چادر درست کرتے ہوئے الٹا مجھے ہی ڈپٹا۔۔۔
                ہاں ہیں فتوری۔۔۔۔ بلکہ میں سارا کا سارا ہی فتور ہوں۔۔۔۔
                تو مر جانے دیتی مجھے۔۔۔۔ کیوں بچایا۔۔۔۔۔
                تب تو بڑا چیخ رہی تھی کہ شوہر ہے میرا۔۔۔۔۔میں نے بھڑاس نکالی۔۔۔
                بکواس بند کر۔۔۔ شکر مناو بچت ہو گئی۔۔۔۔
                اب اٹھ تماشا نا بنا۔۔۔ نوشین نے اٹھتےہوئے کہا۔۔
                ہاں تو کیوں بچایا۔۔۔۔ جب میں فتوری ہوں خود غرض اور ہرجائی ہوں بےقدرا ہوں تو کیوں بچایا۔۔۔۔
                کیا لگتا ہوں تیرا بول۔۔۔۔ میرا ددماغ گھوم چکا تھا۔۔۔
                ابھی تک تجھے پتہ نہیں چلا کہ تو میرا کیا لگتا ہے۔۔۔۔۔۔؟؟؟
                اتنا چوچا کاکا نہ بن۔۔۔۔ چل مجھے گھر چھوڑ دے۔۔۔۔
                نوشین نے چادر سے باقاعدہ نقاب کرتے ہوئے کہا۔۔۔
                یہ اس کی پرانی عادت تھی۔۔۔ عام طور پر وہ چہرہ نہیں ڈھانپتی تھی لیکن۔۔۔۔
                میرے ساتھ بائیک پر ہمیشہ وہ چادر کا نقاب بنا لیا کرتی تھی۔۔۔
                لیکن کیوں۔۔۔؟؟ میں نے آج تک غور نہیں کیا تھا۔۔۔ لیکن اس وقت میں چونک چکا تھا۔۔۔
                تو میرا کیا لگتا ہے اور نقاب بنانا۔۔۔ میں نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔۔۔
                اب چل۔۔۔۔۔ میرا منہ کیا دیکھ رہا ہے نوشین نے قدرے سختی سے کہا۔۔۔
                میں نہیں جا رہا۔۔۔۔۔ تم کوئی اور رکشہ پکڑ لو۔۔۔
                میں نے تنک کر انکار کیا اور موٹرسائیکل کی طرف بڑھا۔۔۔۔۔۔
                میں نے بے اعتنائی سے بائیک سیدھا کیا ہی تھا کہ مجھے نوشین کی آواز سنائی دی۔۔۔
                ٹھیک ہے میں رکشے پر چلی جاتی ہوں تم اکیلے موٹر سائیکل گھسیٹتے موج کرنا۔۔۔۔
                نوشین کی پیش گوئی سے میں بوکھلا اٹھا۔۔۔
                میں اس کا طعنہ سمجھ چکا تھا۔۔۔۔ وہ رکشہ والا بہن چود حرامی۔۔۔۔
                موٹرسائیکل کی چابی ساتھ لے جا چکا تھا۔۔۔۔
                میں نے بوکھلا کر نوشین کی طرف دیکھا۔۔۔۔
                وہ سڑک کی دوسری طرف جاتے خالی رکشہ کو اشارہ کر رہی تھی۔۔۔۔
                میں اس کے جملے پہ بھنا اٹھا۔۔۔ اور بائیک گھسیٹتا پاوں پٹختا۔۔۔۔
                کسی بائیک والے کو تلاش کرنے لگا جس سے میں چابی مانگ کر بائیک سٹارٹ کر سکوں۔۔۔۔
                جنوری کی ٹھنڈی ہوا اور سر سے اٹھتی ہلکی ٹیسیں۔۔۔۔
                وقت گزرنے کے ساتھ زخم ٹھنڈا ہوتا درد بڑھا رہا تھا۔۔۔۔
                بہت ہی اوتری چیز ہو تم قسمے۔۔۔۔۔
                نوشین تیز قدموں سے تقریبا بھاگتی میرے قریب پہنچی اور مجھے کوستے ہوئے بولی۔۔۔
                تم گئی نہیں۔۔۔؟ میں نے منہ پھلاتے ہوئے پوچھا۔۔۔
                بچت کی ہے ،،،سوچا تمہارے ساتھ چلی جاونگی۔۔۔۔ اس نے مجھے چھیڑتے ہوئے کہا۔۔۔
                بچت کی کچھ لگتی۔۔۔۔ میرا سر درد سے پھٹ رہا ہے اور یہ دیکھو قمیض بھی پھٹ گئی۔۔۔
                میں نے پھٹا ہوا گریبان دکھاتے ہوئے کہا۔۔۔
                تو نا بنتے ہیرو۔۔۔۔۔ کیا ضرورت تھی لڑنے کی۔۔۔
                توبہ نومی تم تو بڑے سخت ہو۔۔۔ نوشین نے حیرت بھری آواز میں کہا۔۔۔
                سارا تمہارا قصور ہے۔۔۔۔ تم نے میری بات سنی ہی نہیں۔۔۔ ایک بار میری بات سنتی تو سہی۔۔۔۔
                میں نے مناسب موقع دیکھ کر صفائی پیش کرنا چاہی۔۔۔
                کیوں سنتی۔۔۔۔۔ اتنے دنوں سے تم گونگے کا گڑ کھائے بلکل چپ تھے۔۔۔۔
                بلکہ مجھے دیکھ کر کسی نا کسی بہانے کھسک جاتے تھے۔۔۔۔
                میں اتنی بھی عام نہیں کہ ترلے کرتی پھرے۔۔۔۔
                نوشین کی بات سن کر میں تڑپ اٹھا۔۔۔۔
                نوشششین۔۔۔۔ ایسا مت کہو۔۔۔۔ تم عام ہوتی تو کیا میں تمہارے پیچھے آتا۔۔۔۔۔؟؟
                ہاں میری غلطی ہے لیکن بات وہ نہیں ہے۔۔۔ میں تم سے ڈر گیا تھا۔۔۔
                میں نے بائیک ایک سائیڈ پر کھڑی کی اور گہرے سانس لیتا ہوا بولا۔۔۔
                کیوں۔۔۔۔۔ میں کوئی چڑیل ہوں جو ڈر گئے تھے نوشین نے عجیب سے لہجے میں پوچھا۔۔۔
                نہیں یار۔۔۔۔ وہ اس رات جو ہوا تو میں ڈر گیا کہ تم مجھے ناراض ہوگی۔۔۔۔
                میں نے تمہیں بہکا دیا۔۔۔ میں تمہارا جرم وار ہوں نوشین ۔۔۔۔
                لیکن۔۔۔۔۔ یقین کرو میں نے تمہیں عام نہیں سمجھا تم میری سب سے پیاری دوست ہو ۔۔۔۔
                اور میری زندگی میں آنے والی پہلی عورت۔۔۔۔
                واقعی یقین کریں میں ایک ہی سانس میں سب کچھ بولتا ہی گیا۔۔۔
                بکواس نا کر۔۔۔۔ ڈر گیا تھا ۔۔۔۔ اس وقت تو بڑے جوش چڑھے ہوئے تھے۔۔۔۔
                توبہ۔۔۔ میرا پورا پنڈا (جسم) چھیل دیا۔۔۔۔ تب ڈر نہیں لگا۔۔۔۔
                اس وقت تو تجھے جن چڑھے ہوئے تھے ۔۔۔ اور یہ بہکا دیا ۔۔۔۔۔۔
                تم مجھے اچھی طرح جانتے ہو نومی۔۔۔۔ میں ایسے بہکنے والی ہوتی تو کب کی بہک چکی ہوتی۔۔۔۔
                بھلا کوئی تھپڑ مار کر بھی بہکتا ہے۔۔۔ تو واقعی جھلا ہے۔۔۔۔
                نوشین نے میٹھا شکوہ کیا۔۔۔۔ ان کا میٹھا شکوہ میرے اندر ترنگ جگا گیا۔۔۔
                باقی اگلی بات تیری سچی ہے۔۔۔ میں پورے یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ میں تمہاری زندگی میں آنے والی پہلی عورت تھی۔۔۔۔
                نوشین کے اعتراف پہ میں نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔۔۔
                اب ایسے میری طرف کیا دیکھ رہے ہو۔۔۔ تمہاری طرح چوچی کاکی نہیں ہوں۔۔۔۔
                شادی شدہ دو بچوں کی ماں ہوں نوشین نے قدرے جھینپتے ہوئے کہا۔۔۔۔
                اچھا یہ بتاو کہ۔۔۔۔ میں نے بولنا چاہا۔۔۔۔۔۔
                چل بس باقی باتیں گھر جا کے کرنا۔۔۔۔
                چل کسی طریقے اپنا سکوٹر (بائیک) سٹارٹ کر۔۔۔
                نوشین نے بڑی ادا سے مجھے حکم سنایا۔۔۔۔
                تھوڑی دیر بعد۔۔۔۔ وہ میرے ساتھ بیٹھی گھر کو جا رہی تھیں۔۔۔۔
                آج مجھے لازمی نمونیا ہوگا۔۔۔۔ میں نے سرد ہوا سے کانپتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
                تو جرسی کیوں نہیں پہنی۔۔۔ نوشین نے میرے کندھے پر ہاتھ کو ہلکا سا دباتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔
                ارے وہ بوتیک میں اتاری ۔۔۔۔ پھر جلدی میں پہننا بھول گیا۔۔۔
                اس وقت دماغ گھوما ہوا تھا میں نے کھسیاتے ہوئے جواب دیا۔۔۔
                تو بوتیک میں کیوں اتاری تھی۔۔۔؟ تمہارے جیسا لاپرواہ بندہ میں نے آج تک نہیں دیکھا۔۔۔۔
                نوشین نے دوستانہ انداز میں میری کلاس لی۔۔۔۔۔
                بدگمانی کی دھند چھٹنے کے بعد۔۔۔۔۔ وہ بلکل پہلے کی طرح باتیں کر رہی تھی۔۔۔
                بس یار۔۔۔۔ مجھے الجھن ہوتی ہے ویسے بھی فروری آنے والا ہے اب کہاں وہ سردی میں نے مستانےانداز میں جواب دیا۔۔۔
                ہاں بھئی۔۔۔۔ تمہارے اندر جوانی کا جوش ہے خون کی گرمی ہے ورنہ ہمارے جیسے بڈھے بندے سارا دن جیکٹ پہنے رکھتے ہیں۔۔۔نوشین ہنستے ہوئے بولی۔۔۔
                ہاں یہ تو سچ کہا۔۔۔۔۔ گرمی تو بہت ہے میں نے ذومعنی انداز میں جواب دیا۔۔۔
                چل چپ ۔۔۔ گرمی بہت ہے۔۔۔ تیری گرمی دو منٹ میں پانی ہو جاتی ہے۔۔۔
                وڈا شوخا نا ہو تو۔۔۔۔ نوشین کے میٹھے شکوے پہ میں بری طرح چونکا۔۔۔
                کیا مطلب۔۔۔ میں نے بائیک شارٹ کٹ گلی میں ڈالتے ہوئے پوچھا۔۔۔
                ہر بات کا مطلب نہیں پوچھتے۔۔۔۔ اب چپ چاپ گڈی دوڑا۔۔۔
                پھر تیری ٹکور کرتی ہوں۔۔۔۔ نوشین نے شوخی سے مجھے ڈپٹا۔۔۔
                کونسی ٹکور کرو گی۔۔۔؟؟ میں نے جان بوجھ کر ذومعنی انداز سے پوچھا۔۔۔۔
                اک واری گھر پہنچ۔۔۔۔۔ تجھے بتاتی ہوں ساری باتیں۔۔۔۔۔
                نوشین کا جھینپتا جواب سن کر میں خوشی سے جھوم اٹھا۔۔۔۔ اور بائیک کی سپیڈ بڑھاتا گیا۔۔۔
                تھوڑی دیر بعد ہم گھر پہنچ چکے تھے۔۔۔۔
                تو اندر چل۔۔۔۔ اور منہ ہاتھ دھو لو۔۔۔۔
                بچے خون دیکھیں گے تو پریشان ہو جائیں گے۔۔۔
                تب تک میں بچوں کو لے کر آتی ہوں۔۔۔۔۔
                انہوں نے حسب معمول مجھے چابی پکڑائی اور خود ہمسائی کے گھر گھس گئیں۔۔۔
                میں دروازہ کھول کر بائیک اندر کھڑی کی۔۔۔
                صحن میں لگے واش بیسن کے سامنے پہنچا۔۔۔۔
                واش بیسن کے اوپر لگے شیشے میں اپنا عکس دیکھ کر میں حیران رہ گیا۔۔۔۔
                میرا حلیہ اچھا خاصا بگڑ چکا تھا۔۔۔
                گرد آلود بکھرے بال۔۔۔ پھٹا گریبان۔۔۔ کنپٹی سے رخسار تک جما ہوا خون۔۔۔۔
                میں خود اپنی ہی حالت پہ مسکرا اٹھا۔۔۔ آج کی پھینٹی بڑی یادگاری پھینٹی تھی۔۔۔
                منہ ہاتھ دھو کر۔۔۔ بالوں کو قدرے سنوارنے سے جہاں میری حالت قدرے بہتر ہوئی وہاں گیلا ہاتھ پھرنے اور ہلجل سے درد بھی جاگ اٹھا۔۔۔۔
                ابھی میں منہ پونچھ رہا تھا کہ بچے آ دھمکے۔۔۔
                نومی انکل۔۔۔۔۔ آپ کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے۔۔۔۔؟
                نوشین کے بڑے بیٹے وسیم کی گھبرائی آواز پہ میں چونکا۔۔۔
                ہاااں بیٹا۔۔۔۔ لیکن اٹس اوکے میں اس کے اچانک سوال پہ قدرے بوکھلا اٹھا۔۔۔
                شکر ہے۔۔۔ مما بتا رہی تھیں آپ کے سر پہ چوٹ لگی۔۔۔
                وسیم کے اگلے جملے پہ میں چونکا۔۔۔۔ اففف یہ نوشین بھی نا۔۔۔
                بھلا کیا ضرورت تھی سب کچھ بتانے کی۔۔۔میں اندر ہی اندر جھنجھلایا۔۔۔
                ارے نہیں۔۔۔۔ تم چھوڑو اور بتاو عدیم کدھر ہے۔۔۔۔؟ میں نے فورا بات بدلی۔۔۔
                عدیم فیڈر پی رہا ہے۔۔۔ مما کہہ رہی تھیں کہ اگر ابھی لے گئی تو نومی کو دیکھ کر ہشیار ہو جائے گا۔۔۔۔
                سو جاتا ہے تو لے جاتی ہوں وسیم نے جھٹ مما کی نقل اتارتے ہوئے جواب دیا اور میں بےساختہ ہنس پڑا۔۔۔
                واقعی عدیم مجھے دیکھ لیتا تو یقینا ہشیار ہوجاتا۔۔۔۔ وہ مجھ سے بہت اٹیچ تھا۔۔۔۔
                وہ ساڑھے تین سال کے آس پاس ہوگا اور پچھلے سال ڈیڑھ میں مجھے دیکھ دیکھ کر بہت مانوس ہوچکا تھا۔۔۔۔
                واہ بھئی۔۔۔۔ اور تم نے کھانا کھا لیا میں نے پیار سے اس کے بالوں کو سہلایا...
                جی میں نے کھا لیا ہے۔..۔ اس نے تابعداری سے جواب دیا۔۔۔۔
                گڈ آو پھر تمہیں کہانی سناتے ہیں۔۔۔ میرے ذہن میں شرارت جاگی۔۔۔۔۔
                وسیم خاصا باتونی تھا۔۔۔ اگر یہ بھی ہشیار ہوجاتا تو میری ٹکور دھری کی دھری رہ جاتی۔۔۔۔
                میں کہانی سنانے کے بہانے اسے بستر پر لے آیا۔۔۔
                تھوڑی دیر بعد میں اس کے بالوں کو سہلاتا ٹارزن کی کہانی سنا رہا تھا۔۔۔۔
                دس پندرہ منٹ گزر چکے تھے۔۔۔ وسیم غنودگی میں جا چکا تھا لیکن میں احتیاطا ابھی تک اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتا نوشین کا منتظر تھا۔۔۔
                وہ نجانے کہاں رہ گئی تھی۔۔۔۔ ابھی میں نے سوچا ہی تھا کہ بیرونی دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔۔۔۔
                اففف بہت بھاری ہوگیا ہے ۔۔۔۔ نوشین پھولی سانسوں سے بولتی کمرے میں داخل ہوئی۔۔۔
                شششش ۔۔۔۔۔ میں نے فورا اسے خاموش ہونے کا اشارہ کیا۔۔۔
                اوہہہ یہ بھی سو گیا۔۔۔۔ شکر ہے۔۔۔
                نوشین نے چھوٹے بیٹے کو بستر پر لٹایا اور سکون بھرے سانس میں بولی۔۔۔
                ہمم بس دیکھ لو۔۔۔ میں نے وسیم کے سرہانے سے اٹھتے ہوئے جواب دیا۔۔۔
                ہمممم بچے بہت اٹیچ ہیں تمہارے ساتھ۔۔۔۔نوشین نے آہستگی سے کہا۔۔۔
                اور بچوں کی ماں۔۔۔؟؟ میں نے فورا مستانہ سوال پوچھا۔۔۔۔
                بچوں کی ماں۔۔۔۔ ابھی سوچ رہی ہے۔۔۔
                نوشین نے آہستگی سےکہا اور کمرے سے باہر نکل گئی۔۔۔۔
                سنیں تو۔۔۔ میں ان کے پیچھے لپکا۔۔۔
                کیا سوچ رہی ہیں۔۔۔۔ میں ان کے پیچھے ساتھ والے کمرے میں گھسا۔۔۔
                یہ وہی کمرہ تھا جہاں میں نے انہیں چودا تھا۔۔۔
                وہ کمرے میں گھستی دیوار کے ساتھ لگی الماری کھول رہی تھیں۔۔۔
                یہی کہ تمہیں کیا سزا دوں۔۔۔ وہ الماری میں منہ گھسائے قدرے شوخی سے بولیں۔۔۔
                سسزاااااا لیکن کیوں میرا قصور۔۔۔؟؟ میں نے حیرت بھرے انداز میں پوچھا۔۔۔
                تمہارا قصور۔۔۔۔ بھی بتاتی ہوں پہلے یہ پکڑو۔۔۔
                انہوں نے الماری سے شلوار قمیض کا جوڑا نکال کر میری طرف بڑھایا۔۔۔
                یہ شلوار قمیض۔۔۔؟؟ میں تھوڑا سا حیران ہوا۔۔۔
                پہن لو۔۔۔۔ تمہارے سوٹ کا تو ستیاناس ہوچکا ہے۔۔۔ وہ آہستگی سے بولیں۔۔۔۔۔
                ہینگر سے لٹکا استری شدہ سوٹ۔۔۔۔ یقینا اس کے شوہر کا تھا میں نے دل ہی دل میں تجزیہ کیا۔۔۔
                تم کپڑے بدل کر ہینگر اندر لٹکا دینا۔۔۔ تب تک میں کھانا گرم کرتی ہوں ۔۔۔
                نوشین نے مجھے کپڑے پکڑائے اور باہر نکل گئی۔۔۔
                میں کچھ دیر ساکت کھڑا رہا۔۔۔ پھر کپڑے بدلنے لگا۔۔۔۔
                سوٹ تقریبا میرے ماپ کا ہی تھا۔۔۔۔ میں نے کپڑے بدل کا اپنا جائزہ لیا۔۔۔۔
                باقی سب تو ٹھیک تھا لیکن کپڑوں سے معمولی بساند آرہی تھی۔۔۔۔
                سالوں سے الماری میں یا پیٹی میں رکھے جانے کپڑوں میں ایسی بساند آ ہی جاتی ہے۔۔۔۔
                لیکن مجبوری تھی میں نے کندھے اچکائے اور الماری کھول کر ہینگر لٹکانے لگا۔۔۔۔
                الماری میں تین چار مردانہ سوٹ لٹک رہے تھے۔۔۔ میں ایویں ہی الماری کا جائزہ لینے لگا۔۔۔
                ہینگر شدہ سوٹوں کے ساتھ ایک گرم چادر بھی تھی۔۔۔
                میں نے بےتکلفی سے چادر اتاری اور اوڑھ لی۔۔۔۔۔
                چوٹوں کی وجہ تھی یا ٹھنڈی ہوا کا اثر۔۔۔۔۔
                ہلکی ہلکی سردی محسوس ہو رہی تھی۔۔۔ میں چادر لپیٹتے الماری بند کرنے ہی لگا تھا کہ میری نظر پرفیوم کی شیشی پر پڑی۔۔۔۔
                بروٹ (Brute) ۔۔۔۔ میں نے شیشی کا نام پڑھتے ہوئے جائزہ لیا۔۔۔۔
                شیشی کے اوپر سلور پلیٹ کے اوپر پرفیوم کا نام کندہ تھا۔۔۔
                میں نے ڈھکن کھولا اور پرفیوم چھڑکا ۔۔۔۔
                واو۔۔۔۔ بروٹ کی مخصوص خوشبو سے کمرہ مہکنے لگا۔۔۔۔
                چلو گڈ ہوگیا کپڑوں سے بساند نہیں آئے گی۔۔۔
                میں نے احتیاطا چادر پر بھی تھوڑا سا پرفیوم چھڑکا اور شانوں کے گرد چادر لپیٹتا باہر آ نکلا۔۔۔
                برآمدے کے ساتھ بنے کچن میں کھٹر پٹر بتا رہی تھی کہ نوشین کھانا تیار کر رہی ہے۔۔۔
                میں دبے قدموں آگے بڑھا۔۔۔۔ کچن کے کھلے دروازے سے مجھے اندر کا منظر صاف نظر آ رہا تھا۔۔۔۔
                نوشین کا منہ دوسری طرف تھا۔۔۔۔ وہ منہ دھیان شائد کچھ بنا رہی تھی۔۔۔۔
                میں دروازے تک پہنچا ہی تھا کہ اچانک نوشین کے متحرک ہاتھ رکے۔۔۔
                اور وہ تیزی سے دروازے کی طرف پلٹی۔۔۔۔۔
                اس کی نظروں میں عجیب سی چمک ابھری۔۔
                بس لمحہ بھر کی چمک۔۔۔ اگلے ہی لمحے انہی آنکھوں میں حیرت اور پھر شکوہ چمکا۔۔۔۔۔۔۔
                ہااائے تیرا بیڑہ تر جائے نومی۔۔۔ آج تم نے بروٹ لگا لیا۔۔۔
                نوشین کی شکائتی آواز پہ میں چونکا۔۔۔
                ہاں۔۔۔۔۔ اچھا ہےنا۔۔۔؟ مجھے بہت پسند آیا۔۔۔میں نے احمقانہ انداز میں پوچھا۔۔۔
                افففف میں تیرا کی کراں۔۔۔ بس چپ کر جا ۔۔۔۔نوشین نے گہرا سانس بھرتے ہوئے کہا۔۔۔
                اوہو یار بتاو تو۔۔۔؟ آخر ہوا کیا ہے میں نے جھنجھلا کر پوچھا۔۔۔
                تم نے بروٹ لگا کر مجھے پھر ڈسٹرب کر دیا۔۔۔۔۔ یہ میرے بندے کا پرفیوم ہے۔۔۔۔
                وہ لگاتا تھا۔۔۔ نوشین کے جواب پہ میرے اندر کمینی خوشی جاگی۔۔۔
                اچھا یار سوری سامنے پڑا تھا میں نے لگا لیا۔۔۔۔۔
                تم یہ بتاو کہ۔۔۔۔؟اندر کیا کہہ رہی تھی۔۔
                میں اس کے قریب جا کھڑا ہوا۔۔۔ کچھ نہیں کہہ رہی تھی ۔۔۔
                تم جاو اندر بیٹھو میں پلاو گرم کر کے لاتی ہوں۔۔۔۔ نوشین نے مجھے ٹرخانا چاہا۔۔۔
                واو پلاو۔۔۔۔ یہ کہاں سے لائی ہو یقینا ہمسائی کے گھر سے میں نے تکہ لگایا۔۔۔
                ہاں ۔۔۔۔۔ نوشین نے ایک لفظی جواب دیا اور چولہے کی طرف گھوم گئی۔۔۔۔۔
                اچھا بتاو نا۔۔۔؟ میں نے اس کے قریب جا کر پھر سے پوچھا۔۔۔
                ککیا بتاوں۔۔۔؟ چھوڑو بس۔۔۔ نوشین آہستگی سے بولی۔۔۔
                یہی کہ۔۔۔۔ مجھے سزا کیوں دینی ہے۔۔۔؟ میں نے مدہم آواز میں پوچھا۔۔۔
                تم مجھے پھر سے ڈسٹرب نا کرو نومی۔۔۔۔ جاو کمرے میں بیٹھو۔۔۔
                نوشین کے الٹے جواب پہ میں حیران رہ گیا۔۔۔
                اوہ ۔۔۔۔ تو تمہیں پرفیوم ڈسٹرب کر رہا ہے۔۔۔میں نے آہستگی سے پوچھا۔۔۔
                ہممم۔۔۔۔ یہ پرفیوم عام نہیں ہے بہت یادگاری پرفیوم ہے۔۔۔۔
                نوشین کھوئے کھوئے لہجے میں بولی۔۔۔
                یادگاری۔۔۔؟؟ شوہر کی یاد دلاتا ہوگا میں نے سرگوشی کی۔۔۔
                ہاں۔۔۔ ہم جب بھی ساتھ لیٹتے تھے دونوں یہی پرفیوم لگاتے تھے نوشین نے بڑے ذومعنی انداز میں سرگوشی۔۔۔
                ہمم اسی لیے ۔۔۔ تم اچانک پلٹی تھی میں نے شوخی سے پوچھا۔۔۔۔
                ہاااں میں سمجھی وہ آگئے۔۔۔۔ نوشین قدرے اداسی سے بولی۔۔۔
                ایک بات پوچھوں نوشین لیکن وعدہ کرو سچ بتاو گی۔۔۔
                میں نے ہمت کر کے اجازت مانگی۔۔۔
                ہاں پوچھو تم جانتے ہو میں تم سے جھوٹ نہیں بولتی۔۔۔۔
                نوشین نے مڑ کر میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔
                اس رات ۔۔۔۔ جو ہوا ۔۔۔۔ تمہیں برا لگا۔۔۔؟ میں نے آہستگی سے پوچھا۔۔۔
                نوومی۔۔۔۔ میرے سوال پر نوشین نے مجھے فورا ٹوکا۔۔۔۔
                ٹوکیں مت۔۔۔۔ آج کے بعد کبھی نہیں پوچھوں گا۔۔۔
                آج کے بعد میں کبھی بھی اس حوالے سے کوئی بات نہیں کرونگا۔۔۔
                لیکن آج مجھے پوچھنا ہے۔۔۔ میں نے اٹل انداز میں کہا۔۔۔
                اگر میں کہوں ہاں مجھے برا لگا تھا تو۔۔۔ ؟؟
                نوشین نے میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔؟
                تو کچھ بھی نہیں۔۔۔؟ جو آپ کو لگا وہ بتا دیں بس۔۔۔
                میں نے ہاتھ اٹھا کر قطعیت سے پوچھا۔۔۔
                اس نے میری طرف دیکھا۔۔۔۔ ہلکا سا مسکرائی۔۔۔۔
                نہیں مجھے برا نہیں لگا تھا ۔۔۔ نوشین کے جواب پہ میں کھل اٹھا۔۔۔
                ہممم یعنی اچھا لگا۔۔۔۔ تو پھر یہ ناراضگی کیسی۔۔۔؟ میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھ ہی لیا۔۔۔
                ہمم اب بات کھل ہی گئی ہے تو بتاتی ہوں لیکن اس شرط کے ساتھ کہ نیکسٹ اس پر بات نہیں ہوگی ۔۔۔
                نوشین نے وعدہ مانگا۔۔۔
                منظور ہے ۔۔۔ میں نے بےتابی سے حامی بھری۔۔۔
                ہمم تو سنو ۔۔۔ پتہ ہے نومی ۔۔۔۔۔
                تمہارے یوں بھاگ جانے سے مجھے بڑا دکھ ہوا۔۔۔۔۔
                تم تو ایسے بھاگے تھے جیسے کوئی ڈکیتی کر لی ہو۔۔۔
                مجھے تم پر مان تھا۔۔۔۔ کہ تم میرے بہت گہرے اور اچھے دوست ہو۔۔۔۔
                ایسا دوست جس سے میں سب باتیں شئیر کر لیتی ہوں۔۔۔ جو میرے دکھ سکھ سنتا ہے۔۔۔۔
                اس رات میں ڈسٹرب ہو گئی تھی۔۔۔۔ نہر کنارے لانگ ڈرائیو گجرے اور اپنے بندے کے ذکر سے میں ڈسٹرب ہو گئی۔۔۔۔
                اور پھر تم نے مجھے گھورا۔۔۔۔ میں اسی وقت سمجھ گئی تھی کہ تمہارے اندر بھانبھڑ جل اٹھے ہیں۔۔۔۔
                میں نے تمہیں سمجھایا لیکن تم بہت جذباتی ہوگئے اور میرے ہاتھ پکڑ کر اپنے ہی گالوں کو پیٹنے لگے۔۔۔
                بس وہاں میں نے ضبط کھو دیا۔۔۔۔ جب تم مجھ پر جھکے۔۔۔
                میں بہت ڈسٹرب ہو چکی تھی۔۔۔۔ تب میں نے تمہیں دوست سے یار بنانے کا سوچا۔۔۔۔
                مجھے لگا تم مجھے سنبھال لو گے۔۔۔۔ جیسے میرے باقی مسلے حل کرتے ہو یہ بھی کر دو گے مجھے اس وقت بہت طلب ہو گئی تھی۔۔۔۔
                لیکن۔۔۔۔ جب تم بھاگے مجھے دکھ ہوا۔۔۔
                تم نے میری یاری کو۔۔۔ میرے کھلنے کو ۔۔۔۔موقع سے فائدہ سمجھا۔۔۔ً
                میں دو دن تمہارا انتظار کرتی رہی لیکن تم نہیں آئے۔۔۔۔
                میں تو اپنی نظروں میں گر گئی تھی نومی۔۔۔۔
                مجھے دکھ ہوا کہ تم نے مجھے صرف عورت سمجھا۔۔۔ مجھے امید تھی تمہارے دعووں پہ امید تھی کہ۔۔۔
                تم بنا احساس دلائے مجھے سنبھال لوگے۔۔۔ تم نے مجھے سیراب تو کیا لیکن۔۔۔۔ بھاگ گئے۔۔۔۔
                عین اس وقت جب مجھے سیرابی کے بعد تمہارے بازووں کی ضرورت تھی۔۔۔
                تمہارے سہارے کی ضرورت تھی تاکہ مجھے پشیمانی نا ہو۔۔۔ مجھے سب دوستانہ لگے ۔۔۔
                لیکن۔۔۔ نوشی سر جھکائے بولتی بولتی چپ ہوگئی۔۔۔
                نوشی۔۔۔ میں سب بتا چکا ہوں۔۔۔ اور پورے دل سے مافی مانگتا ہوں۔۔۔
                مجھے معاف کر دیں۔۔۔ نیکسٹ ایسا نہیں ہوگا۔۔۔ میں نے آہستگی سے کہا۔۔۔
                چل اوئے نیکسٹ کا بچہ۔۔۔۔ کوئی نیکسٹ نہیں کوئی مافی نہیں۔۔۔۔ سزا ملے گی سزا ۔۔۔
                نوشین نے شوخی سے مجھے دھمکایا۔۔۔
                اوہو۔۔۔ تو دیں سزا۔۔۔۔۔ ہر سزا منظور ہے میں نے پورے جذبے سے جواب دیا۔۔۔۔۔
                جاری ہے۔۔۔۔۔۔
                جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
                ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

                Comment


                • بہت ہی زبردست اور شاندار اپڈیٹ۔ روٹھنے اور منانے کا سین تو فلمی سین بن گیا اور اس نے زبر دست مزہ دیا۔ شاہ جی ایک بار پھر چھا گئے۔ ویلڈن من موجی بھائی

                  Comment


                  • بہت شاندار

                    Comment


                    • Maza aa gya update parh k

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X