Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

مونا چاچی از قلم ۔۔۔۔۔۔شاہ جی

Collapse
This topic is closed.
X
This is a sticky topic.
X
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • bohat hi aala afeem ny to kamal hi ker diya

    Comment


    • لمبی راتوں کے لمبے کسے سننےکادل چاہ رہا ہے

      Comment


      • wah wah wah buhat zabardast kahani lajawab manzar kashi bhoot khoob our is main any waly har aik kirdar kay sath masti shehwat ki aag ko mazeed bharkati hai

        Comment


        • واہ واہ واہ بہت خوب جناب بہت ہی عمدہ کہانی جا رہی ہے
          شاہ جی کے شاہکاروں میں سے ایک شاہکار
          کہانی کا ہر منظر بہت با خوبی لکھا گیا ہے
          ہر اپڈیٹ کمال کی ہے
          کہانی ہمارے ساتھ شئیر کرنے کا شکریہ

          Comment


          • Sary dard khatam ho gae

            Comment


            • شدید جذباتی منظر اور انتہائی خوبصورت ڈائیلاگ

              Comment


              • Shah g ki story ho or maza na aiy ye ho hi ni skta

                Comment


                • Shah g ki story ho or maza na aiy ye ho hi ni skta.

                  Comment





                  • مونا چاچی
                    قسط نمبر 9
                    رائیٹر :- شاہ جی
                    ۔











                    ۔
                    اس رات کے بعد میری اور نوشین کی دوستی پکی یاری میں بدل گئی۔۔۔۔
                    اسے میری جوشیلی چدائی نے دیوانہ کیا تھا تو مجھے اس کی نشیلی مستی نے۔۔۔۔
                    نوشین بہت حیرت انگیز عورت تھی۔۔۔۔ سیکس کے دوران اس کی اکساتی سرگوشیاں۔۔۔۔
                    پورا کڈھ کے پورا پاء (پورا نکال کے ڈالو) جیسی فرمائشیں۔۔۔
                    اور اس کی رنگیلی جوانی پاگل کر چکی تھیں۔۔۔
                    پہلے دو ہفتے تو ہمارا حال ترسے کنواروں کی طرح رہا۔۔۔۔۔
                    میں اسے روزانہ چھوڑنے جاتا۔۔۔ اور روزانہ ہی چودتا تھا۔۔۔۔
                    تین چار دن کی متواتر چدائی سے جہاں اس کی ترسی جوانی کو تھوڑا قرار آیا وہیں مجھے بھی تھوڑا بہت چودنا آ گیا تھا۔۔۔۔
                    اس معاملے میں نوشین میری استاد تھی۔۔۔
                    کمرے کے اندھیرے میں۔۔۔۔۔۔ وہ مجھے ریاض سمجھ کر پوری مستیاں کرتی ساریاں شرما اتار کر مجھے ٹرینڈ کرتی جا رہی تھی۔۔۔۔
                    اس میں اسی کا فائدہ تھا جتنی جلدی میں بھرپور ٹھوکو یار بنتا اتنا ہی فائدہ تھا۔۔۔
                    کچھ نوشین کی نشیلی ٹریننگ کا کمال تھا اور کچھ میری اتھری جوانی کا۔۔۔۔
                    ابھی ہمارے یارانے کو دس بارہ دن ہی گزرے تھے کہ چودہ فروری آ گیا۔۔۔۔
                    چودہ فروری ۔۔۔۔ ویلنٹائن ڈے۔۔۔۔
                    اس رات میں نے نوشین کو پورا سکھ دیا۔۔۔۔
                    پہلے پوری شان سے لاڈ اٹھائے اور پھر پوری جان سے ٹانگیں اٹھائیں۔۔۔۔
                    ویلنٹائن نائٹ میری کارکردگی نے نوشین کو پاگل کر دیا۔۔۔۔۔
                    ۔





                    ​​۔
                    اس رات میں نے بنا کسی دوائی یا افیم کے۔۔۔۔۔
                    اسے بھرپور سیرابی دی تھی۔۔۔
                    ابتدائی پندرہ بیس دن کے سوپر پیریڈ کے بعد ہم نے باہمی مشورے سے ہر ویک اینڈ نائٹ پہ پارٹی کا شیڈول فائنل کیا۔۔۔۔
                    پورا ہفتہ شرافت اور پوری لگن سے کام کرنے کے بعد ہم بھرپور ویک اینڈ نائٹ مناتے تھے۔۔۔
                    دوران ڈیوٹی ہم دونوں پہلے کی طرح عام دوستانہ انداز میں صرف کام پہ توجہ دیتے۔۔۔۔
                    اس احتیاط سے جہاں ہمارا تعلق خفیہ رہا وہیں ہمارے بوتیک پہ کوئی منفی اثر نہیں پڑا۔۔۔۔
                    ہم دونوں مطمئن تھے کہ ہمیں کوئی نوٹ نہیں کر رہا۔۔۔
                    لیکن ایسا کیسے ہو سکتا تھا۔۔۔۔ آہستہ آہستہ نوشین کے محلے میں دبی دبی باتیں ہونا شروع ہو گئیں تھیں۔۔۔۔
                    نوشین کو لگتا تھا کہ اس کی ہمسائی اور اس کے بندے کو شک ہو گیا تھا۔۔۔
                    نوشین بہت گھبرا سی گئی۔۔۔۔ ایک بار تو وہ کافی ڈر گئی مگر اسے اب چدائی کا پھر سے نشہ لگ چکا تھا۔۔۔۔
                    اب وہ پیچھے نہیں ہٹ سکتی تھی۔۔۔
                    لیکن اب ہم تھوڑا محتاط ہو گئے تھے اب ہم نے پلان بدل لیا تھا ۔۔۔۔
                    اور ہمارا یہ پلان بدلنا۔۔۔ میری زندگی کا رخ ہی بدل گیا۔۔۔
                    مجھے اچھی طرح یاد ہے یہ وسط مارچ کی شام تھی۔۔۔۔
                    بسنت کا سیزن تھا۔۔۔۔۔ ہر طرف پتنگیں لہرا رہی تھیں۔۔۔
                    میں حسب معمول بوتیک بند کر کے چاچی کو حساب دے کر اوپر چھت پر اپنی رہائش پہ آ گیا۔۔۔۔
                    میں نے آتے ہی ممٹی کے دروازے کو کنڈی لگائی اور اپنے کمرے میں آ گیا جہاں نوشین میری منتظر تھی۔۔۔۔
                    جی ہاں نوشین پچھلی سیڑھیوں سے اوپر میری منتظر تھی۔۔۔۔
                    نئے پلان کے مطابق وہ پچھلی سیڑھیوں سے اوپر آجاتی تھی۔۔۔۔
                    گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ رک کر سوپر چدائی کروا کر وہ چلی جاتی۔۔۔
                    ۔








                    ۔
                    اس رات مجھے آئے پندرہ بیس منٹ گزرے ہونگے۔۔۔۔۔
                    میں اور نوشین ابتدائی مرحلوں سے گزر کر جوشیلے جذباتی لمحوں کو انجوائے کرتے بھرپور چدائی کا لطف لیتے مست تھے۔۔۔
                    میں نوشین کو بیڈ پر جھکا کر گھوڑی بنائے جنونی دھکے مارتا چود رہا تھا جب میری نظر کھڑکی پر پڑی ۔۔۔۔
                    جالی دار کھڑکی کے پار مونا چاچی کو دیکھ کر میرے ہوش اڑ گئے۔۔۔۔
                    میں جہاں تھا وہیں رک گیا۔۔۔۔ میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔۔۔۔
                    وہ نجانے کب سے وہاں کھڑی ہماری چدائی دیکھ رہی تھیں۔۔۔
                    میرا آدھا لن ۔۔۔۔ نوشین کی پھدی میں تھا اور میں وہیں جم چکا تھا۔۔۔
                    مجھے لگا کہ بس سارا کھیل ختم ہوگیا۔۔۔۔۔
                    ابھی وہ اندر آئیں گی اور ہمیں یہاں سے نکال پھینکیں گی۔۔۔۔۔۔
                    ۔










                    ۔
                    میں ان کے غصے اور طیش کا منتظر تھا اور وہ مجھے انتہائی سنجیدہ اور گہری نظروں سے دیکھ رہی تھیں۔۔۔۔
                    یہ سیکنڈز کی گیم تھی۔۔۔ اس سے پہلے کہ میں ہڑبڑا کر کوئی بلنڈر کرتا وہ مسکرائیں ۔۔۔۔
                    ان کی انگلی ہونٹوں پہ جمی۔۔۔۔ وہ مجھے خاموش رہنے کا اشارہ کر رہی تھیں۔۔۔
                    اور میں سناٹے میں تھا۔۔۔۔ اگلا لمحہ حیران کن تھا انہوں نے ہاتھ سے مجھے اشارہ کیا۔۔۔۔
                    یہ اشارہ لگے رہو منا بھائی جیسا اشارہ تھا۔۔۔۔
                    وہ اشارہ دے کر مسکراہٹ اچھال کر کھڑکی سے ہٹ گئیں۔۔۔۔
                    کی ہویا نومی چھیتی کر (کیا ہوا نومی جلدی کر )۔۔۔
                    نوشین کی آواز پہ میں چونکا اور بھڑک کر لن پورا گھسایا۔۔۔۔
                    ہااائے میں مر گئی کھوتیا۔۔۔۔۔ نوشین کراہتی بیڈ پر گری۔۔۔
                    میں نجانےکیوں جھنجھلا سا گیا تھا۔۔۔۔ ایک خوف نے مجھے سہما دیا۔۔۔۔
                    مونا چاچی ابھی تو چپ ہو گئی تھیں۔۔۔
                    شائد اس لیے کہ وہ ان کی پرانی واقف اور کلاس فیلو تھی اس کا بھرم رکھ لیا۔۔۔۔
                    لیکن تیرا کیا ہوگا کالیا۔۔۔۔۔؟؟ میرے دل نے سوال اٹھایا۔۔۔۔
                    میری یقینا بینڈ بجنے والی تھی۔۔۔۔
                    یہ سارے وہم سیکنڈوں میں مجھے جھنجھلاہٹ کا شکار کر چکے تھے۔۔۔
                    اور اسی جھنجھلاہٹ کا اثر تھا کہ میں نے نوشین کی باں باں کرا دی۔۔۔
                    ہااائے میں مر گئی ۔۔۔ ہااائے نومی۔۔۔۔
                    ہااائے ظالما ساہ تے کڈھ (تھوڑا رک جاو )۔۔۔
                    نوشین کی صدائیں تھی اور میرے دھکے۔۔۔۔۔
                    اسی طوفان میں آرگیزم کا طوفان شامل ہوا اور میں نے پورا لن کھینچ کر آخری آخری جھٹکا مارا۔۔۔۔
                    اس جھٹکے میں ہوش سے جوش زیادہ تھا ۔۔۔
                    مجھے ایسے لگا جیسے میں لن کسی خشک اور گرم بھٹی میں گھسا بیٹھا ہوں۔۔۔۔
                    میرا لن خشک گرم سوراخ کو رگڑتا اندر گھسا۔۔۔۔۔
                    اوہہہ ہاااائے میں مر گئی۔۔۔
                    کنجرا پیچھے پاء دتا ای (کنجرا پیچھے ڈال دیا ہے)،،
                    نوشین کی درد بھری چیخ اور کرلاہٹ سے کمرہ گونج اٹھا۔۔۔
                    میں جو پہلے ہی چکنی پھدی کا یکدم تنگ خشک سوراخ ہو جانے پہ حیران تھا بوکھلا اٹھا۔۔۔۔
                    میں بلکل ٹوکن ٹائم پہ تھا۔۔۔۔ مزے کی لہر ٹٹوں سے لن تک پہنچ چکی تھی۔۔۔۔
                    ککیا ہوا۔۔۔۔ کہتے اس پہ گرتا گیا۔۔۔۔۔
                    یہ گرنا رہا سہا لن بھی اس کی گانڈ میں اتارتا اسے تڑپا گیا۔۔۔۔
                    آااہہہ ہہاااائے اوہ میری بنڈ پاڑ دتی آ ظالما(میری گانڈ پھاڑ دی ہے ظالما )۔۔۔
                    نوشین میرے بوجھ تلے تڑپتی مچلتی کرلائی۔۔۔۔
                    شدید جھنجھلاہٹ کے بعد میں نشیلے جھٹکے لیتا اس پر مدہوش پڑا تھا اور وہ آہستہ آہستہ سسکتی میرے جسم تلے دبی لرز رہی تھی۔۔۔۔
                    بھرپور آرگیزم کے بعد جب میرے ہوش ٹھکانے آئے تو میں اس کے اوپر سے ڈھلکا۔۔۔۔
                    ہااائے نومی۔۔۔۔مرجانیا ۔۔۔
                    ٹہر جا میں تجھے بتاتی ہوں۔۔۔۔
                    کچھ دیر نوشین چیختی چلاتی مجھ پہ جھپٹی۔۔۔۔
                    ۔








                    ۔
                    وہ لاڈ بھرے غصے سے شکوے کرتی مجھے مکے مار رہی تھی اور میرا ڈر پھر سے جاگ اٹھا تھا۔۔۔۔
                    افف مجھ سے چلا بھی نہیں جا رہا ۔۔۔۔
                    بھلا ایسا کرتے ہیں۔۔۔؟؟ پچھوں تو میں کبھی ریاض کو بھی نہیں کرنے دیا تھا۔۔۔
                    اور تم نے پہلی واری وہ بھی خشک گھسا دیا۔۔۔۔
                    چل اب مجھے گھر چھوڑ کر آ۔۔۔
                    ہااائے میں سیڑھیاں کیسے اتروں گی۔۔۔۔
                    وہ اپنی گانڈ دباتے سسکتی مجھے کوس رہی تھی۔۔۔
                    لیکن میں اس کے کوسنوں سے آگے۔۔۔۔۔
                    مونا چاچی کے سینڈلوں اور شدید ترین بزتی کے بعد دھکوں کے خوف میں تھا۔۔۔۔
                    اب وٹے ( مٹی کے ڈھیلے) کی طرح منہ کیوں بنا کہ بیٹھا ہے بنڈ میری پاٹی تے منہ تو سجایا ایہہ۔۔۔۔۔
                    ( گانڈ میری پھٹی ہے منہ تم نے بنایا ہوا ہے )
                    نوشین کے مظلومانہ شکوے پہ میں بےساختہ ہنس پڑا۔۔۔۔
                    چل ہن دندیاں نا کڈھ (دانت نا نکال) اور مجھے گھر چھوڑ کر آ۔۔۔۔
                    نوشین کپڑے پہن کر تیار ہو چکی تھی۔۔۔
                    نوشین کو اس کے فلیٹ پہ چھوڑ کر میں ڈرتے ڈرتے سیڑھیاں چڑھتا میں واپس پہنچا۔۔۔۔
                    تو ویران چھت دیکھ کر مجھے وقتی سکون آیا۔۔۔۔۔۔
                    مصیبت وقتی طور پر ٹل گئی تھی۔۔۔۔
                    ۔








                    ۔
                    اگلا دن بھی سکون سے گزرا۔۔۔۔
                    مونا چاچی صرف دس منٹ کے لیے بوتیک آئیں۔۔۔۔
                    نوشین سے کام کے متعلق ڈسکشن کی اور چلی گئیں۔۔۔۔
                    نا انہوں نے میرا پوچھا اور نا میں خود سے جا کر ملا۔۔۔۔۔
                    میں اندر آفس میں بیٹھا اپنا کام کرتا رہا۔۔۔۔
                    ۔








                    ۔
                    پورا دن گزر گیا۔۔۔۔ میں بوتیک بند کر کے ڈرتے ڈرتے ان کے دروازے پہ پہنچا۔۔۔۔۔
                    میرا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔۔۔۔
                    کچھ دیر ہچکچاہٹ کے بعد میں نے کانپتے ہاتھوں سے بیل بجائی۔۔۔۔
                    چند لمحے گزرے ہونگے کہ دروازہ کھلا۔۔۔
                    دروازے پہ عتیق انکل کو دیکھ کر میں نے سکھ کا سانس لیا۔۔۔۔
                    السلام و علیکم چچا کیسے ہیں۔۔۔۔ میں نے بوکھلائے انداز میں انہیں سلام ٹھوکا۔۔۔
                    بس ٹھیک ہوں۔۔۔ گزارا چل رہا ہے۔۔۔۔ تم سناو کیسے ہو بھئی۔۔۔
                    انہوں نے تھکے تھکے انداز میں جواب دیا۔۔۔
                    کیا ہوا چچا۔۔۔؟ آپ آج بہت کمزور اور تھکے تھکے لگ رہے ہیں۔۔۔
                    میں نے قدرے پریشانی سے پوچھا۔۔۔۔۔
                    آج وہ کافی کمزور لگ رہے تھے۔۔۔۔
                    ارے نہیں یہ تو بس یونہی تھوڑی بدپرہیزی ہو گئی۔۔۔۔
                    آو اندر آو۔۔۔ انہوں نے فورا مجھے دعوت دی۔۔۔
                    ننہیں چچا۔۔۔ آپ آرام کریں۔۔۔۔
                    چچی کدھر ہیں مجھے انہیں حساب کتاب دینا تھا۔۔۔
                    میں نے کیش اور چابیوں والا چھوٹا بیگ دکھاتے ہوئے کہا۔۔۔
                    تمہاری چچی تو بازار گئی ہے۔۔۔۔ لاو مجھے دے دو ۔۔۔
                    انہوں نے جواب دیتے ہوئے ہاتھ بڑھایا۔۔۔
                    ٹھیک ہے چچا میں نے ہینڈ بیگ انہیں پکڑایا اور خود سکون کا سانس لیتا اوپر آ پہنچا۔۔۔۔
                    رات تقریبا ساڑھے نو کا وقت ہوگا۔۔۔۔۔
                    میں باہر سے ڈنر کر کے مطمئن انداز میں سیڑھیاں چڑھتا جیسے ہی اوپر پہنچا میرے بڑھتے قدم جھٹکے سے رک گئے۔۔۔
                    چھت پہ کھڑی مونا چاچی کو دیکھ کر میری ہوائیاں اڑ چکی تھیں۔۔۔۔۔
                    آخر وہ وقت آن پہنچا تھا جس کا مجھے ڈر تھا۔۔۔۔
                    وہ بڑے سکون سے منڈیر کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑی شائد میرا ہی انتظار کر رہی تھیں۔۔۔۔
                    ۔











                    ۔
                    ارے تم رک کیوں گئے۔۔۔۔
                    میں کب سے تمہارا انتظار کر رہی ہوں۔۔۔۔
                    مونا چاچی نے نرم لہجے میں مجھے پکارا۔۔۔۔۔
                    ان کا نرم لہجہ اور مسکراتا چہرہ دیکھ کر میں تھوڑا سا حوصلے میں ہوا۔۔۔۔
                    ممیرا انتظار ۔۔۔ میں نے تھوک نگل کر حلق تر کیا اور اٹکتے ہوئے پوچھا۔۔۔
                    ہاں بھئی۔۔۔۔۔۔۔ آو پتنگ اڑاتے ہیں۔۔۔۔
                    اتنی اچھی ہوا چل رہی ہو بسنت کے دن ہوں اور میں گڈی نا اڑاوں ایسے ہو سکتا ہے بھلا۔۔۔۔۔
                    چلو شاباش ادھر آو وہ پتنگ پکڑو اور ادھر جا کر کھڑے ہو جاو۔۔۔۔
                    وہ بڑے شوخ انداز میں مجھے حکم سنا رہی تھیں۔۔۔
                    ممیں پتنگ اڑاوں جی۔۔۔۔؟ میں نے بوکھلا کر پوچھا۔۔۔۔
                    ارے نہیں بھئی تم کیا پتنگ اڑاو گے تم بس مجھے کنی دو (اڑانے میں مدد کرو ) پھر دیکھنا میرا پیچ لڑانا اور بو کاٹا کرنا۔۔۔۔۔
                    وہ شوخی سے بولتی مجھے بلکل گلوکارہ فریحہ پرویز کی طرح لگیں۔۔۔۔
                    دل ہوا بو کاٹا۔۔۔۔ ان دنوں اس کا یہ گانا بہت مقبول تھا۔۔۔۔
                    ججی اچھا ۔۔۔۔ میں بوکھلائے انداز میں آگے بڑھا اور پتنگ اٹھا کر ان کی ہدایت کے مطابق کچھ فاصلے پہ چلا گیا۔۔۔۔
                    انہوں نے بڑے بےتکلفانہ انداز میں اپنا دوپٹہ منڈیر پہ رکھا اور ڈور کو تھام کر آہستہ آہستہ کھینچ کر جھٹکا دیتے ہوئے مجھے پتنگ چھوڑنے کا حکم سنایا۔۔۔۔
                    میں نے فورا پتنگ چھوڑی اور مونا چاچی بڑے دھیان سے ڈور کھیچنتی کبھی ڈھیل دیتی پتنگ کو اوپر چڑھاتی جا رہی تھیں۔۔۔۔
                    یسسس یسسس وہ گڈے بازوں کی طرح چلا رہی تھیں ۔۔۔۔
                    میری نظریں لمحہ بہ لمحہ اوپر جاتی پھڑپھڑاتی پتنگ پر تھیں۔۔۔
                    نومی ڈور والا گولہ پکڑ جلدی کر۔۔۔۔۔
                    مونا چاچی کی جوشیلی آواز پہ میں نے چونک کر ان کی طرف دیکھا۔۔۔
                    جیسے ہی میری نظریں مونا چاچی پہ پڑیں مجھے دو ہزار وولٹ کا جھٹکا لگا۔۔۔۔
                    اپنے منہ دھیان۔۔۔۔ دونوں ہاتھوں سے تنی ڈور تھامے پتنگ کو سنبھالتی مونا چاچی کا آفت بدن غضب ڈھا رہا تھا۔۔۔
                    انہوں نے اپنا پسندیدہ سفید رنگ پہن رکھا تھا۔۔۔۔۔بنا دوپٹے کے۔۔۔۔۔
                    ہوا کے زور سے چپکا لباس مونا چاچی کے نسوانی حسن کے جلوے بکھیرتا مجھے جلا کر رکھ گیا۔۔۔
                    ان کے چہرے پر جوش کی چمک۔۔۔۔
                    اٹھے بازووں کا اینگل۔۔۔ چپکا سوٹ۔۔۔۔
                    اور تنی چھاتیاں۔۔۔۔۔۔ میں اب عورت کے بدن سے واقف ہو چکا تھا۔۔۔۔
                    بھلے ایک عورت کا بدن سہی۔۔۔۔ میں عورت کے بدن اور نشیب فراز سے خوب آگاہ ہو چکا تھا۔۔۔
                    اور یہ آگاہی مجھے بتا رہی تھی کہ مونا چاچی کا بدن آفت ہے قیامت ہے نجانے کیا ہے۔۔۔
                    میں پاگلوں کی طرح انہیں گھورتا جا رہا تھا۔۔۔۔
                    نومی بیوقوفا جلدی کر۔۔۔۔ مونا چاچی کی ڈانٹتی آواز پہ میرا دھیان ٹوٹا۔۔۔۔
                    اور میں بوکھلا کر ڈور کے لڑھکتے گولے کی طرف لپکا۔۔۔۔
                    میں گولہ پکڑ کر واپس پلٹ کر ان کے قریب چلتا آیا ۔۔۔
                    یہ لیں جی۔۔۔ میں نے مونا چاچی کے دہکتے بدن سے نظریں چراتے ہوئے کہا۔۔۔
                    مونا چاچی کی سب سے بڑی انفرادیت ان کی پرسنالٹی کا رعب تھا۔۔۔۔
                    ان کو پھر سے تاڑنے کی خواہش کے باوجود۔۔۔
                    انہیں تاڑنے کی ہمت پیدا نہیں ہو رہی تھی۔۔۔
                    افف احمق لڑکے۔۔۔۔۔ دیکھ نہیں رہے میں دونوں ہاتھوں سے بمشکل پتنگ سنبھال رہی ہوں۔۔۔
                    تم ڈور والا گولہ پکڑ کر ۔۔۔۔ میرے پیچھے کھڑے ہو جاو۔۔۔۔۔۔
                    خیال رکھنا ڈوری زیادہ نا کھلے چلو شاباش۔۔۔
                    ان کے نئے حکم پر میں سر جھکاتا ان سے تھوڑا فاصلے پر جا کھڑا ہوا۔۔۔
                    توبہ آج تو بہت تیز ہوا چل رہی ہے۔۔۔۔ اور وہ بھی شمال سے جنوب کی۔۔۔۔
                    مونا چاچی کی خودکلامی سن کر میں نے ان کی طرف دیکھا۔۔۔۔
                    اس بار ان کا عقبی بدن میری نگاہوں کے گھیرے میں آیا۔۔۔۔
                    مونا چاچی ہوا کے ساتھ رخ بدلتے اپنی پوزیشن بدل چکی تھیں۔۔۔
                    اب ہوا ان کو عقب سے ترچھی ٹکراتی میرے ہوش اڑا گئی۔۔۔۔۔
                    ان کا بدن کسی سنگی مجسمے کی طرح کمال خوبصورتی سے ترشا غضب ڈھا رہا تھا۔۔۔۔
                    عقب سے ہوا کے زور سے۔۔۔ چپکتی قمیض مونا چاچی کے دلکش کولہوں کے ابھار کو نمایاں کر رہی تھی۔۔۔۔
                    متناسب کمر کے نیچے خوبصورتی سے ڈھلے کولہے اور گداز رانیں۔۔۔۔
                    بازووں کی اٹھان سے تنی چھاتیوں کا عقب سے نظارہ۔۔۔۔
                    اچانک مونا چاچی نے ڈور کو کھینچتے ہوئے پلٹی ماری۔۔۔۔
                    یہ مشتاق احمد کی گگلی کی طرح اچانک والی پلٹی تھی۔۔۔۔
                    ادھر وہ پلٹیں۔۔۔ ادھر ہوا سے ان کی قمیض کا دامن لحظہ بھر کو پھڑپھڑاتا اوپر اٹھا۔۔۔
                    بجلی کیسے آنکھوں کو چندھیا دیتی ہے ۔۔۔۔ یہ میں نے اس دن جانا تھا۔۔۔۔
                    قمیض کے ہٹنے سے۔۔۔۔ سفید کسا ہوا پیٹ اور آدھی کمر کا جلوہ میرے ہوش اڑا گیا تھا۔۔۔۔
                    دودھ اور میدے سے گندھے آٹے کی طرح مونا چاچی کے دودھیا گلابی جسم کا لشکارہ دیکھ کر بےساختہ میرے ہاتھ سے ڈور کا گولہ چھوٹتاگیا۔۔۔۔
                    ۔













                    ۔
                    بوووو کاٹا۔۔۔۔۔۔۔ ہاہاہاہا وہ گئی۔۔۔۔۔
                    مونا چاچی کے جوشیلے نعروں سے میں نے گڑبڑا کر ان کی طرف دیکھا۔۔۔۔
                    ان کا چہرہ خوشی سے چمک رہا تھا ۔۔۔
                    شائد وہ پیچے کے بعد کسی کی پتنگ کاٹ چکی تھیں۔۔۔۔
                    ادھر وہ جوش سے اچھلیں۔۔۔۔۔ ڈور پہ ان کی گرفت قدرے ڈھیلی پڑی ۔۔۔۔
                    دوسری طرف بوکھلاہٹ میں ڈوری والا گولہ میرے ہاتھوں سے چھوٹ کر دور تک لڑھکتا گیا۔۔۔۔
                    میں پتنگ بازی کے فن سے ناواقف لڑکا۔۔۔۔
                    اپنی ہڑبونگ میں ان کا بڑا نقصان کر گیا۔۔۔
                    اس سے پہلے کہ وہ سنبھلتیں۔۔۔۔ ہوا کے زور اور ڈھیلی ڈور سے پتنگ ان کے ہاتھوں سے چھوٹتی گئی۔۔۔۔
                    اوہہہ شٹ شٹ کرتے انہوں نے ڈور کو سنبھالنا چاہا لیکن پتنگ پھڑپھڑاتی۔۔۔۔۔
                    اوپر نیچے ہوتی کسی من چلے کے ڈھانگے ( لمبے بانس ) نے اڑتی پتنگ کو مال مفت سمجھ کر لوٹنے کی کوشش کی۔۔۔۔
                    اسے پتنگ تو کیا ملنی تھی۔۔۔۔ الٹا اس کے ڈھانگے نے پتنگ کا بیڑہ غرق کر دیا۔۔۔۔
                    پتنگ ڈھانگے کی ضرب سے پھٹتی زمین بوس ہوتی گئی۔۔۔
                    افففف نومی ۔۔۔۔۔ تو بھی بس ایویں ہی ہے۔۔۔۔۔
                    ڈور تو تجھ سے سنبھالی نہیں گئی اور شوق تیرے مستانے ہیں۔۔۔۔ ؟
                    مونا چاچی کے ذومعنی طعنے پہ میں نے بوکھلا کر ان کی طرف دیکھا۔۔۔۔
                    وہ اپنی کمر پر ہاتھ رکھے۔۔۔۔ شکائتی نظروں سے مجھے گھور رہی تھیں۔۔۔
                    ججی سسسوری مجھے پتہ نہیں چلا۔۔۔
                    میں نے گڑبڑا کر جواب دیا اور ڈور کے گولے کی طرف لپکا۔۔۔
                    چھوڑ دفع کر۔۔۔ اب ڈور کا اچار ڈالنا ہے میرے پاس ایک ہی گڈا تھا۔۔۔
                    مونا چاچی نےفورا مجھے ٹوکا۔۔۔
                    ۔








                    ۔
                    میں منہ لٹکائے واپس پلٹا۔۔۔۔ میرا دہرا نقصان ہوا تھا۔۔۔۔
                    ایک طرف میری لاپرواہی مونا چاچی کو بدمزہ کر چکی تھی دوسری طرف میں ان کے لشکاروں سے محروم ہونے والا تھا۔۔۔
                    لو تم کیوں منہ لٹکا رہے ہو۔۔۔۔ جب ڈور نہیں سنبھال سکتے تو گڈے کے نقصان پہ یوں منہ مت لٹکاو۔۔۔۔
                    جاو مجھے نیچے سے پانی لا دو۔۔۔۔۔ استری سٹینڈ کے پاس میری بوتل پڑی ہوگی ۔۔۔
                    انہوں نے منڈیر پہ پڑا دوپٹہ شانوں پہ ڈالتے ہوئے حکم سنایا۔۔۔۔
                    مونا چاچی اپنی صحت کے حوالے سے حد درجہ جذباتی تھیں۔۔۔
                    گرمیاں ہو یا سردیاں وہ ہمیشہ ابلا پانی پیتی تھیں۔۔۔
                    ان کے پاس پرس ہو یا نہ ہو ان کی پانی والی بوتل ہمیشہ ان کے پاس ہوتی تھی۔۔۔
                    میں ان کا حکم سنتے فورا نیچے گیا اور آہستگی سے دروازہ کھولتا ان کے اپارٹمنٹ میں گھس گیا۔۔۔۔
                    اندر سناٹےکا عالم تھا۔۔۔ میں سیدھا استری سٹینڈ کی طرف بڑھا۔۔۔۔
                    شائد وہ اوپر آنے سے قبل کپڑے استری کر رہی تھیں۔۔۔
                    ایک طرف ان کے سوٹ استری شدہ حالت میں سٹینڈ پر پڑے تھے جبکہ ذرا فاصلے پر دھلے کپڑوں کی گھٹڑی پڑی ہوئی تھی۔۔۔۔
                    مونا چاچی بھی کمال تھیں۔۔۔۔ گھر میں باقاعدہ ملازمہ موجود تھی لیکن۔۔۔۔
                    کھانا اور استری یہ دونوں کام وہ خود کرتی تھیں۔۔۔
                    بقول ان کے کھانے میں ذائقہ اور استری سے شلوار کی بلکل سیدھی کریز بنانا بھی ایک فن تھا۔۔۔۔
                    اکثر خواتین کریز کی باریک لائن میں توازن نہیں رکھ پاتیں۔۔۔
                    کپڑے دھونے کے بعد۔۔۔۔ اسی کریز کو دوبارہ سے وہیں جمانا ایک آرٹ ہے۔۔۔۔۔
                    ڈریسنگ آپ کی شخصیت کی پہلی پہچان ہے۔۔۔
                    اور میں گواہ تھا ان کے کپڑے میلوں سفر کے دوران بھی سلوٹ زدہ نہیں ہوتے تھے۔۔
                    لیکن اس وقت میری اچٹتی نظر گھٹڑی پہ رک چکی تھی۔۔۔۔ کپڑوں کے ڈھیر سے نکلتی بلیک برا سٹریپ میرے خیالوں کو بہکا چکی تھی۔۔۔۔
                    مونا چاچی کی برا پہلے دن سے میری فینٹسی رہی تھی۔۔۔
                    میں خود سارا دن لیڈیز سے ڈیلنگ کے دوران۔۔۔۔۔
                    بازاروں میں چکروں کے دوران ہزاروں برا دیکھ چکا تھا۔۔۔
                    دکانوں میں لٹکی برا سے لے کر ۔۔۔۔ عورتوں کے جسموں پر سجی برا تک۔۔۔
                    بوتیک میں سارا دن ایک سے بڑھ کر ایک عورت آتی تھی۔۔۔۔
                    بلکل نوخیز پھوٹتی کونپلوں سے لے کر فورٹی ڈی تک کے نظارے دیکھنے کو روز ملتے تھے۔۔۔۔
                    اور اس میں میرا اتنا قصور بھی نہیں تھا۔۔۔۔۔
                    جو بھی خاتون وہاں آتی ۔۔۔ وہ چاہے سوٹ خریدتی یا نہیں۔۔۔۔
                    بوتیک ڈسپلے پہ لٹکے سوٹ اتار کر سینے سے لگا کر شیشے میں اپنا جائزہ ضرور لیتی تھی۔۔۔۔
                    ایسے میں وہ اس بات سے بےخبر ہوتی تھیں کہ۔۔۔۔۔ بوتیک کے کیبن میں ۔۔۔۔
                    ڈارک شیشوں کے پیچھے میں انہیں بڑے سکون سے تاڑتا رہتا تھا۔۔۔۔
                    اور اگر انہیں میرا پتہ چل بھی جاتا تو کیا تھا۔۔۔۔
                    مرد سیلزمین کو عورتیں ہومیو پیتھک مرد سمجھتے ہوئے اتنا خاص پردہ نہیں کرتیں۔۔۔۔۔
                    یہ الگ بات ہے کہ کاونٹر کے پیچھے کھڑے مردوں کے لوڑے سارا دن کاونٹر سے ٹکراتے رہتے ہیں۔۔۔
                    لیکن نجانے مونا چاچی کون سے برانڈ اور کونسے سٹف والا برا استعمال کرتی تھیں۔۔۔۔
                    قمیض کے پیچھے ان کے برا کپس کا کٹاو ہمیشہ سب سے الگ نظر آتا تھا۔۔۔
                    کبھی کبھی جھلکنے والا سٹریپ کا نظارہ میں دیکھتا رہتا تھا۔۔۔
                    اور آج وہی سٹریپ مجھے نظر آ رہی تھی۔۔۔
                    نجانے مجھ میں اتنی ہمت کہاں سے آ گئی۔۔۔
                    میں نے بیرونی دروازے پہ نظر رکھتے ہوئے اس گھٹڑی کی طرف سرکا۔۔۔۔
                    میرا ہاتھ آگے بڑھا۔۔۔ اور میں نے برا سٹریپ کو پکڑ کر باہر کھینچ نکالا۔۔۔
                    چمکیلی بلیک برا۔۔۔۔۔۔ برا کے فوم والے کپس پہ چڑھا سلکی کپڑا چمک رہا تھا۔۔۔
                    میں نے برا کپس کو چھوا۔۔۔ میری انگلیاں چکنے کپڑے پر پھسلیں۔۔۔۔
                    کیا نفاست ہے ۔۔۔۔ مونا چاچی کے پیٹ اور کمر کا ہلکا سا نظارہ ۔۔۔۔
                    ان کے اندرونی جسم کی جھلک دکھلا چکا تھا۔۔۔
                    ان جیسی نرم ملائم دودھیا گلابی کمر والی عورت کی چھاتیاں کیسی ہو سکتی ہیں میں تھوڑا بہت اندازہ لگا سکتا تھا۔۔۔
                    اگر نوشین جیسی عورت کی چھاتی اتنی ہیجانی ہو سکتی تھی تو مونا چاچی کا بدن اس سے کئی گنا زیادہ ملائم اور نازک محسوس ہوتا تھا۔۔۔۔
                    عید والے دن ان کا ہلکا سا ساتھ لگ کر عیدی ملنے کا لمس اور کرنٹ نوشین کے بلکل ننگے پورے جسم کے بھرپور لمس سے کئی گنا زیادہ ہیجانی تھا۔۔۔۔
                    برا کی نزاکت اور نفاست محسوس کر کے میرے اندر کا سیل مین جاگا اور میں نے برانڈ ٹیگ ڈھونڈنا چاہا۔۔۔۔
                    Victoria Secret 36 D
                    برا ٹیگ برانڈ کے ساتھ ساتھ سائز بتاتا مونا چاچی کے نسوانی راز افشا کر گیا۔۔۔۔
                    نوشین کا سائز اڑتیس ڈی تھا۔۔۔ اور اس کے بڑے مالٹے جیسے مومے (چھاتیاں) میرے بڑے مضبوط ہاتھوں میں بھی بمشکل آتے تھے۔۔۔۔۔
                    گویا مونا چاچی کی چھاتیاں نوشین کی چھاتیوں سے تھوڑا چھوٹی تھیں۔۔۔۔
                    یعنی بھرپو لیکن درمیانے مالٹے جتنی۔۔۔۔۔
                    میرے پورے ہاتھ میں آ جانے والی ۔۔۔
                    میں نے نوشین کی لٹکتی چھاتیاں کو سوچا۔۔۔
                    گھوڑی بنا کر ۔۔۔ اس کی لٹکی ہلتی چھاتیوں کو پورے ہاتھوں میں دبوچ کر مسلنا ہم دونوں کو بہت پسند تھا۔۔۔۔
                    میں نے نشیلی دیوانگی سے برا کپ کو دبوچا۔۔۔۔۔۔
                    نرم سلکی فوم والا برا میری مٹھی میں دبوچا گیا۔۔۔۔۔
                    صرف برا کو دبوچنے سے ایسا نشیلا کرنٹ لگا کہ بس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
                    میرے لوڑے نے تن کر جھٹکا لیا۔۔۔
                    اففف میں نے جھرجھری لی اور برا کو گھٹڑی میں گھسیڑتا بوتل اٹھا کر تیز قدموں اوپر کو دوڑا۔۔۔۔
                    یہ لیں ۔۔۔۔ میں نے اپنے بہکتے سانسوں کو سنبھالتے ہوئے انہیں بوتل تھمائی۔۔۔۔۔
                    وہ سکون سے کرسی پر بیٹھی میرا ہی انتظار کر رہی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔
                    کیا ہوا بھئی۔۔۔۔؟؟ تمہارا چہرہ اتنا لال کیوں ہو رہا ہے۔۔۔۔۔۔
                    مونا چاچی کے چھبتے سوال پہ میں بوکھلا اٹھا۔۔۔۔۔
                    ۔












                    ۔
                    ککچھ نہیں۔۔۔۔ میں نے نیم کھڑے لن کو رانوں میں دبوچتے ہوئے گھگھگیا کر جواب دیا۔۔۔۔۔
                    ۔







                    ۔
                    نووو۔۔۔۔۔ کچھ تو ہے۔۔۔۔؟؟ اتنی دیر لگا دی بوتل اٹھانے میں۔۔۔۔؟؟
                    وہ گہری نظروں سے مجھے دیکھتی پوچھ رہی تھیں اور میں بری طرح بوکھلا چکا تھا۔۔۔
                    کیا انہیں میری نشیلی فیلنگ کا اندازہ ہوگیا تھا۔۔۔۔۔؟
                    کہیں ایسا تو نہیں تھا ۔۔۔۔۔۔۔
                    انہوں نے جان بوجھ کر پورا ڈرامہ سٹیج کیا تھا۔۔۔۔
                    وگرنہ اس سے پہلے یوں دھلے کپڑوں کا ڈھیر میں نے نہیں دیکھا تھا۔۔۔۔
                    مونا چاچی کو پھیلاوے سے شدید الجھن ہوتی تھی۔۔۔
                    میں بوکھلائی نظروں سے انہیں دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔
                    ۔










                    ۔
                    جاری ہے۔۔۔۔۔۔
                    جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
                    ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

                    Comment


                    • Acchi Story Hay

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X