Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

باجی رفعت

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #81
    Shandar aghaz he

    Comment


    • #82
      بہترین آغاز نیو کہانی ٹ

      Comment


      • #83
        یہ کہانی لاجواب ہے
        مطلب
        ٹوٹل پیسہ وصول
        کیا بات
        کیا بات
        کیا بات

        Comment


        • #84
          Maza dar story hai

          Comment


          • #85
            کمال

            Comment


            • #86
              Umda atory hai. Muashrti masla hai specially Pakistan ka. Log aisay foran shadi kar k chor jatay hain.

              Comment


              • #87
                مرد کا برتاؤ ہی عورت کی محبت وفاداری کا ضامن ہے محبت سے عورت سے کچھ بھی کروایا کا سکتا ہے

                Comment


                • #88
                  ma'ashery mien mojood anginat kidaar aise hi hain,
                  suleman ka kharab behaviour bhi rifat ko bewafayi per majboor kar raha hai,
                  haqeeqat se qareeb tar aik kahani, behtareen alfaaz k saath,
                  manzar kashi bhi khob ache se ki gayi hai,
                  yeah kahani apne aap mien shahkaar hone k paish goyi lag rahi hai,
                  shukriya writer sb, share karne k liye

                  Comment


                  • #89
                    Bahot hi shandar khani lag rai

                    Comment


                    • #90
                      ریحان رفعت کو مارکیٹ کے اس حصے میں لے آیا تھا جہاں خواتین کی ضرورت کی چیزیں تھیں رفعت خاموش سی چیزیں لینے لگی وہ دو ہی چیزوں کے لئے آئی تھی مگر اب کافی کچھ لے رہی تھی۔
                      ایک جگہ وہ میک اپ کی دکان پہ رک گئی۔۔۔ اپنے لئے کوئی لوشن اور لپ اسٹک لینے لگی ریحان اس کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔
                      اسے میک اپ کی کیا ضرورت اسے بغور دیکھتا وہ سوچ رہا تھا۔۔۔ اس کی جلد مکھن کی طرح صاف اور ملائم تھی گردن کے پاس بالوں کی کئی چھوٹی سی لٹیں موجود تھیں۔۔۔
                      نگاہیں اس کے چہرے کا طواف کرنے لگیں۔۔۔ جس کے ہونٹ کان اور جلد اتنی خوبصورت تھی اس کا باقی جسم کتنا حسین ہوگا۔۔۔ جسم کے وہ حصے جنھیں وہ لباس میں چھپا کے رکھتی تھی کس قدر خوبصورت ہونگے اس کی گداز چھاتیاں ناف کا گڑھا اور بقیہ کا جوان جسم۔۔۔ اسکی دل کی دھڑکنیں اس خیال سے بے ترتیب ہوگئی تھیں دل کیا اسے بے لباس کر کے دیکھے اس کے جسم کی خوشبو اپنے اندر اتارے۔
                      وہ دکاندار سے کسی بات پہ بحث کر رہی تھی۔
                      باجی یہ لپ اسٹک لے لیں نئی کمپنی کی ہے بہت اچھی ہے ساتھ میں قیمت بھی کم ہے۔۔۔ دکاندار اس کی خوبیاں گنوا رہی تھی رفعت کسی اور برانڈ کی لپ اسٹک لینے پہ مصر تھی۔
                      اور دوسری لپ اسٹک لے لی۔۔۔۔
                      اگر آپ یہ لپ اسٹک لے لیتیں نا باجی تو آپ کے شوہر کو بہت پسند آتی۔۔۔ دکاندار نے مایوسی سے کہا پھر ریحان کی طرف اشارہ کیا۔۔۔ رفعت جھینپ سی گئی اس نے کہنا چاہا کہ یہ میرا شوہر نہیں ہے مگر دکاندار دوسری طرف متوجہ ہو گیا تھا۔
                      ریحان بھی ایک لمحے کے لئے گڑبڑا گیا پھر اس کے قریب منہ لے جا کر سرگوشی کی۔۔
                      کاش اس دکاندار کی بات سچ ہوتی تمھارا شوہر ہونا میری خوش قسمتی ہوتی۔۔۔ وہ اس کے کان کے پاس بول گیا وہ اس کی طرف سرخ چہرہ لئے پلٹی مگر وہ بائیک کی طرف جا رہا تھا وہ اپنی چیزیں اٹھا کے اس کے پیچھے آئی۔
                      فضول باتیں نا کیا کرو اچھا۔۔۔ اسے دیکھتی ذرا خفگی سے بولی تھی دل کے چور کو چھپانے کے لئے ایسا روئیہ ضروری تھا۔
                      وہ ان سنا کر کے بائیک پہ بیٹھ گیا۔۔۔ رفعت پیچھے آبیٹھی۔
                      ہممم۔۔۔ تمھارا شوہر آئیگا منگنی پہ؟۔۔۔ وہ اپنے وجود کے ساتھ اس کے جسم کی گرمی محسوس کرنے لگا۔
                      رفعت کے جسم سے حرارت کی لہریں سی نکل کر اس کے جسم میں داخل ہو رہی تھیں۔
                      نہیں شاید نہ آئیں۔۔۔ رفعت نے جواب دیا

                      رات کی سیاہ چادر پھیل گئی تھی سب سو گئے تھے رفعت بہت دیر سے بستر پر لیٹی کروٹیں بدل رہی تھی نیند نہیں آرہی تھی جیسے روٹھ گئی ہو کبھی ایک کروٹ لیتی کبھی دوسری کبھی چت لیٹ جاتی کبھی اوندھی ہو کر ٹانگیں جھلانے لگتی۔۔۔
                      طبیعت میں عجیب سی بے چینی تھی جسم جیسے اکڑ گیا تھا ایسے لمحوں میں وہ سلیمان کے بارے میں سوچتی تھی مگر آج خیالوں میں ریحان در آیا تھا رفعت کو خود پہ غصہ آیا ریحان کے خیال کو ذہن سے جھٹکنا چاہا۔
                      وہ سلیمان کو کال کرنا چاہتی تھی بارہ بج گئے تھے مسقط میں شاید شام ہوگی اس نے فون اٹھا کر کال ملائی۔
                      ہیلو۔۔۔ کال ملنے پہ وہ آہستہ آواز میں بولی تھی۔
                      تم نے پھر کال کردی۔۔۔ دوسری طرف سے وہ غرایا تھا ایک دن بھی تم سے گزارا نہیں جاتا کال کر کے ضرور تم نے بکواس کرنی ہوتی ہے۔۔۔ وہ تنفر سے بول رہا تھا رفعت جیسے زمیں میں گڑھ گئی ذلت کا شدید احساس ہوا تھا۔
                      سلیمان آپ ندا کی منگنی پہ آئینگے؟ اس نے بمشکل پوچھا تھا۔
                      نہیں میں پیسے بھیج رہا ہوں نا یہی کافی ہیں تم لوگوں کے پیٹ بھرنے کے لئے۔۔۔ وہ زہر خند لہجے میں بولا۔
                      پیسہ سب کچھ نہیں ہوتا سلیمان میاں بیوی کے رشتے کے کچھ اور بھی اصول ہوتے ہیں۔۔۔ اس نے بولنا چاہا مگر اس لمحے اسے فون میں سے ہلکی سی نسوانی آواز سنائی دی تھی۔
                      لڑکیوں کے کان ایسی آواز کے لئے بہت حساس ہوتے ہیں سلیمان کے قریب کوئی موجود تھی اس کا دل ڈوب کے ابھرا۔
                      سلیمان نے ڈپٹ کر کسی کو چپ رہنے کا کہا تھا پھر کال کاٹ دی۔
                      رفعت فون ہاتھ میں لئے لیٹی رہ گئی اس کے ساتھ کون تھی وہاں؟ دل و دماغ میں واہموں کے جھکڑ سے چل رہے تھے وہ بے کل سی ہوئی نیند کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
                      اس کا دم گھٹنے لگا روم کے اندر۔۔۔
                      چپل پیروں میں اڑس کر وہ باہر آگئی اور ریلنگ کی طرف بڑھی پھر سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آگئی سلیمان سے نفرت محسوس ہو رہی تھی۔
                      چھت پہ آکر ہلکی ہوا کا جھونکا اس کے چہرے سے ٹکرایا تھا وہ دیوار کے پاس آ کے کھڑی ہو گئی دل بجھا ہوا تھا اس لمحے وہ چونک گئی دوسرے گھر کی چھت جو کہ پاس ہی تھی اسے ایک جگنو سا چمکتا ہوا نظر آیا تھا کسی نے شاید سگریٹ جلایا تھا۔
                      یہ ریحان تھا جو دوسرے گھر کی چھت پہ تھا۔
                      وہ دونوں کچھ ہی فاصلے سے اپنی اپنی چھتوں پہ آمنے سامنے تھے۔
                      رفعت۔۔۔ ریحان بولا پھر سگریٹ بجھادی اسے اس وقت چھت پہ دیکھ کے حیرت سی ہوئی تھی
                      اس نے آہستہ سے اپنی دیوار کے اوپر پاؤں رکھا دوسرا پاؤں رفعت کی گھر کی دیوار پہ رکھا پھر آہستگی سے ان کی چھت پہ اتر گیا۔
                      اسے اپنے سامنے دیکھنے لگا چاند کی مدھم روشنی اس پہ پڑ رہی تھی اس کا نیم روشن خوبصورت ہیولہ نظر آرہا تھا۔
                      اس وقت وہ دوپٹے سے بے نیاز تھی سینے کی جگہ کا خوبصورت ابھار نظر آرہا تھا تنگ سی قمیض میں اس کی چھاتیاں قید تھیں نازک لچکدار کمر کو قمیض نے تھام رکھا تھا لمبے ریشمی بال کمر پہ لڑھک کر کولہوں کو چھو رہے تھے۔
                      ریحان بے خود ہوا سانس اتھل پتھل ہوئی تھی اس لمحے اسے بے لباس دیکھنے کی خواہش پھر سے سر اٹھانے لگی۔
                      بے اختیار اس نے رفعت کا ہاتھ تھاما تھا۔
                      اس وقت کیا کر رہی ہو چھت پہ۔۔۔۔ اس نے پوچھا وہ ہاتھ نا چھڑا سکی جسم پہ چیونٹیاں سی رینگنے لگی تھیں۔
                      نیند نہیں آرہی تھی تو اوپر آگئی۔۔۔وہ بولی
                      نیند کیوں نہیں آرہی تھی؟ وہ اس کی مخروطی انگلیوں سے کھیلنے لگا۔
                      نیند تو مجھے بھی نہیں آرہی تھی۔۔۔میں تمھیں یاد کر رہا تھا۔۔۔وہ سرگوشی میں بولا پھر اس کے قریب ہوا رفعت کی پشت دیوار سے جا لگی۔
                      ریحان ۔۔۔ رفعت کے جسم پہ بے شمار چیونٹیاں سی رینگنے لگی تھیں وہ جھجک کر اس سے الگ ہوئی مگر اس نے بازو نہیں چھوڑا تھا۔
                      ڈر گئی ہو؟۔ وہ مدھم آواز میں بولا پریشان نا ہو پھر اس کی انگلیاں رفعت کے بازو پہ سرکتی کہنی تک آگئیں اور بازو پہ آگے کا سفر کرنے لگیں۔
                      ایک بات بتاؤ اگر نیند نا آئے تو کیا کرنا چاہئیے۔۔۔
                      پتہ نہیں۔۔۔ وہ بولی بازو اس کے ہاتھ میں تھا۔
                      اب میں نیچے چلتی ہوں۔۔۔وہ گھبرا گئی تھی اپنے اندر اٹھتے طوفان سے۔۔۔ کچھ تھا جو اسے ریحان سے لپٹ جانے پر اکسا رہا تھا وہ جانتی تھی بدن کے اینٹھن کا علاج شاید اس کی بانہوں میں مل جائے مگر جھجک آڑے آ رہی تھی مضطرب ہو کر وہ نیچے کی طرف بڑھی۔
                      وہ وارفتگی سے اسے جاتا دیکھتا رہ گیا اس کی تشنگی بڑھ گئی تھی وہ اسے تسخیر کرنا چاہتا تھا۔

                      آج موسم خوشگوار تھا صبح سے ہلکی ہلکی بارش ہوتی رہی تھی ہلکی پھوار نے موسم کو خوشگواریت بخش دی تھی نیلگوں آسمان کو بدلیوں نے ڈھک رکھا تھا۔
                      ریحان یونیورسٹی سے گھر آیا تھا بیگ کندھے پہ جھول رہا تھا بائیک سٹینڈ پہ کھڑی کرکے وہ اندر کی طرف آیا ڈرائینگ روم میں سے کسی کی آواز آرہی تھی وہ اندر آیا پھر ٹھٹکا۔
                      رفعت امی کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی اسے دیکھ کے پلکیں اٹھائیں پھر جھکا دیں۔
                      ریحان نے سلام کیا تھا۔
                      اچھا ہوا تم جلدی آگئے ریحان۔۔۔ رفعت کا کچھ کام ہے یہ تمھیں ہی بلانے آئی تھی ان کے گھر چلے جانا۔۔۔۔ امی بولیں ریحان نے سر ہلایا پھر رفعت کو دیکھا جو صوفے پہ تھی آنکھیں اک لمحے کے لئے چار ہوئیں رات کا منظر آنکھوں کے سامنے لہرایا تھا ان کے گھر جانا امتحان ثابت ہو سکتا تھا اس کا دل کیا امی کو منع کر دے کل رات جو ہوا جذبات کی موجوں میں بہہ کے ہوا وہ اس حالت کا شکار پھر سے نہیں ہونا چاہتا تھا جب وہ بے خود ہو جاتا لیکن اسے جانا ہی پڑا۔
                      اس کی نند ندا کی منگنی کچھ دن میں ہی تھی گھر کے بہت سارے کام نپٹانے تھے فرنیچر کی جگہ تبدیل کرنی تھی شاپنگ پہ بھی جانا تھا رفعت کی ساس کی پریشانی تو اور بھی سوا تھی۔
                      گھر میں کسی مرد کی غیر موجودگی ان کے لئے مشکلیں کھڑی کر گئی تھی ان کی جان پر بن آئی تھی وہ ان کے ساتھ مل کے چھوٹے موٹے کام کرتا رہا۔
                      پھر ان کے ساتھ ٹیکسی میں بیٹھ کے مارکیٹ آیا تھا وہ اگلی سیٹ پہ تھا رفعت بڑا سا سفید دپٹہ اوڑھے پچھلی سیٹ پہ تھی ساتھ ہی اس کی ساس بیٹھی تھی دونوں مختلف چیزوں کی خریداری کے بارے میں بات کر رہی تھی۔۔
                      یہ خواتین کی گفتگو تھی ریحان کو اس میں دلچسپ نہیں تھی مگر اس کی نگاہیں کئی بار رفعت کی طرف اٹھی تھیں شال اوڑھے وہ تروتازہ لگ رہی تھی عنابی ہونٹ ادھ کھلی کلیوں کو مات دے رہے تھے زلفوں کی کئی لٹیں چہرے کی دربان بنی ہوئی تھیں خوبصورت چھاتیاں لباس میں دفن تھیں وہ سر جھٹک کر رہ گیا اس سے نگاہ ہٹانا کتنا مشکل کام تھا۔

                      ریحان ان کے گھر کی ڈرائینگ روم میں بیٹھا تھا وہ سہہ پہر سے یہیں تھا گھر کے کاموں میں ان کا ہاتھ بٹاتا رہا تھا ابھی شام ہو رہی تھی۔۔
                      اٹھنے کو تھا کہ رفعت سیڑھیاں اترتی نیچے آئی وہ بے اختیار ٹھٹکا تھا۔
                      کیا کر رہے ہو ریحان؟ رفعت نے پوچھا
                      چلنے لگا تھا۔۔ ابھی تو کوئی کام بھی نہیں ہے وہ بولا۔۔۔ اگر کوئی کام ہوا تو کل مجھے پھر بلا لینا۔۔اس نے کہا رفعت نے سر ہلایا ۔
                      چائے پی کے جانا ریحان میں بناتی ہوںوہ بولی تو ریحان مسکرا دیا۔۔
                      نیکی اور پوچھ پوچھ۔۔۔ وہ بولا
                      رفعت متوازن چال چلتی کچن کی طرف بڑھ گئی۔
                      وہ یوں ہی بیٹھا رہا آنکھیں کچن کی طرف اٹھ رہی تھیں وہ مصروف تھی۔
                      اس لڑکی میں اتنی کشش کیوں ہے وہ سوچنے لگا وہ کو ایجوکیشن میں پڑھ رہا تھا لڑکیوں سے ہر قدم پہ واسطہ پڑتا تھا لیکن ایسی حیوانی کشش کسی میں نہیں تھی جو اپنی طرف کھینچے رفعت نے بہت خوبصورت جوانی پائی تھی۔
                      وہ چائے بنا کے اسے دینے لگی دھیمے قدموں سے آتی اس کے پاس ہلکی سی جھکی تو گریبان ذرا سا کھل گیا تھا ریحان کے نظریں غیر ارادی طور پر ڈھلکے گریبان سے اندر ہو آئیں۔
                      وہ بے انتہا خوبصورت تھی شفاف دودھ جیسی چھاتیوں کا اوپری حصہ نظر آیا تھا جو زیر جامے میں جکڑا ہوا دہائیاں دے رہا تھا ریحان کا گلہ خشک ہونے لگا۔
                      وہ لاتعلق سی سامنے بیٹھ گئی اس بات سے بے خبر کہ انجانے میں اس پہ کیا ستم توڑ گئی ہے۔
                      شکریہ ریحان۔۔۔ اتنے سارے کاموں میں مدد کے لئے وہ سامنے صوفے پہ بیٹھ کے بولی۔
                      اس کی ساس اور نند دوسرے کمرے میں تھیں جہاں سے باتوں کی ہلکی ہلکی آواز آرہی تھی۔
                      شکریہ کی کوئی بات نہیں ہے۔۔۔ اس نے چائے سے خشک ہوتا حلق تر کیا۔
                      ہے تو سہی۔۔۔ جانتے ہو سلیمان کے باہر جانے کے بعد امی باہر کے سارے کام کر لیتی ہیں آج تم ہو اور بہت ہاتھ بٹایا ہے وہ مشکور سی ہو رہی تھی۔
                      میں روز آنے کے لئے تیار ہوں۔۔۔ وہ ہلکا سا بولا ضرورت ہو تو مجھے بلا لیا کرو۔۔۔
                      ہاں بلاؤنگی۔۔اس ہفتے تو بہت سارے کام ہونگے۔۔۔ وہ بولی ریحان نے سر ہلایا تھا۔
                      پھر اسے نگاہوں میں بھرا۔
                      کپ ٹیبل پہ رکھ کر وہ جانے کے لئے اٹھ کھڑا ہوا۔
                      اگر نیند نہ آئے تو چھت پہ آجایا کرو۔۔ وہ بولا پھر باہر نکل گیا وہ ہونٹ چباتی کھڑی رہ گئی۔
                      +--------------------+
                      رفعت سلیمان کو کال پہ کال کر رہی تھی مگر وہ اٹینڈ نہیں کر رہا تھا آگے سے نمبر بزی ہو جاتا تھا۔۔۔ پرسوں ندا کی منگنی تھی وہ اس سے بات کرنا چاہتی تھی مگر وہ اگنور کر رہا تھا۔
                      شاید بزی ہو اس نے بجھے دل سے خود کو دلاسہ دیا یہ بندھن اس کے لئے عذاب جان بن گیا تھا وہ کوفت زدہ سی لیٹی رہی۔
                      بستر جیسے اسے کاٹ رہا تھا۔
                      ایک آخری بار اس نے کال کی دوسری طرف سے اٹینڈ کی گئی تھی وہ جلدی سے اٹھ بیٹھی بیڈ کراؤن سے ٹیک لگایا تھا۔
                      کون سا کیڑا کاٹ رہا ہے تمھیں اس وقت جو تم پھر کال کرنے لگ گئی ہو۔۔۔ سلیمان کی آواز آئی تھی۔
                      تمھیں چین نہیں ہے کیا؟ اس کی آواز زہر میں بجھی ہوئی تھی۔
                      سلیمان پرسوں ندا کی منگنی ہے۔۔
                      تو؟وہ پھنکارا
                      تو اگر آپ آجاتے تو بہت اچھا ہوتا۔۔۔ وہ بولی
                      میں کتنی دفعہ یہ بکواس کر چکا ہوں کہ میں نہیں آسکتا جھک نہیں مار رہا ادھر۔۔۔
                      رفعت بجھ سی گئی
                      تم یہاں آکے کام کر لو میری جگہ تو میں آجاتا ہوں۔۔۔ کتے کی ٹیڑھی دم ہو تم جو سیدھی نہیں ہوتی کبھی۔۔۔۔ ایک ہی بات کی رٹ لگائے رہتی ہو۔۔۔بکواس عورت۔۔۔۔
                      اس نے کال کاٹ دی تھی۔
                      رفعت نے فون سائیڈ ٹیبل پہ ڈال دیا دل مردہ سا ہوا تھا۔
                      چند لمحے بے سکونی سے لیٹی رہی کمرہ زندان لگنے لگا تھا۔
                      پھر اٹھی چپل پیروں میں اڑس کر باہر آنے لگی جب دل تنگ ہوتا تھا تو چھت پہ جاتی تھی۔
                      پھر باہر آتے آتے یکدم رک سی گئی ریحان کی بات یاد آئی تھی اگر وہ چھت پہ ہوا تو۔۔۔وہ سوچ میں پڑ گئی پھر بے دم سی ہوئی۔
                      چپل واپس اتار کر بیڈ پہ لیٹ گئی اوپر نہیں جانا چاہتی تھی کل جو ہوا تھا وہ انجانے میں ہوا پھر اسے نہیں دہرانا چاہتی تھی۔
                      جیسے بھی تھی شادی شدہ تھی اسے اپنی ضرورتوں کے لئے اپنے شوہر کا انظار کرنا تھا اچھی بیوی بن کے۔۔۔وہ کبھی تو آتا پھر اس پہ مہربان ہو جاتا۔
                      وہ ہونٹ کاٹتی خود پہ ضبط کرتی بستر پہ لیٹ گئی ایک تکیہ سینے سے لگا لیا تھا ہونٹوں کو دانتوں سے چباتی وہ ریحان کے خیال کو جھٹکنے کی کوشش کرنے لگی۔
                      کمرے میں نائٹ بلب کی دھیمی نیلگوں روشنی پھیلی ہوئی تھی بیڈ پہ لیٹی رفعت کا ہیولہ نظر آرہا تھا باہر رات لمحہ لمحہ کر کے سرک رہی تھی۔

                      جاری ہے۔۔

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 1 guests)

                      Working...
                      X