Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

باجی رفعت

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • آگ دونوں طرف برابر ہے

    Comment


    • بہترین کہانی واہ

      Comment


      • جناب بوہت ہی عمدہ کہانی لکھی ہے ۔بوہت ہی اچھا اور دھیما انداز ہے ۔ ے

        Comment


        • arey yaar zabardast, aag hi laga di iss update nay tu.

          Comment


          • Ye Kahani ni, film ha
            Jo ahista ahista apne climax ko phnch rhi ha
            Par Jo baat isko dosrun se mumtaaz krti ha wo uski raftaar ha. Sb kch natural ha Ye ni k hero ne larki daikho aur ander daal diya. Fit update
            Keep it up

            Comment


            • زبردست اپڈیٹ محترم خوش رہو شکریہ

              Comment


              • Originally posted by Munna View Post
                گھر میں منگنی کی گہما گہمی جاری تھی کئی سارے لوگ آچکے تھے ریحان بھی گھر کے ایک فرد کی طرح سب انتظامات میں مشغول تھا۔
                نگاہ گاہے بگاہے رفعت کی طرف بھی چلی جاتی تھی جو سفید اور گولڈن کلر کے کامدار شلوار قمیض میں تھی۔۔۔ اس کا متناسب سراپا نکھر آیا تھا بال کمر پہ گرے ہوئے وہ کافی مصروف تھی کئی بار کاموں کے لئے اسے بھی بول چکی تھی۔۔۔
                ریحان کی نگاہیں اس کے جسمانی خدوخال میں الجھ جاتیں اس کا جسم جیسے بھول بھلیاں تھیں جنھیں وہ کھوجنا چاہتا تھا ایک آگ سی جل اٹھی تھی جو اس کی قربت میں ہی بجھ سکتی تھی۔
                رسم شروع ہوئی تو وہ بالکل رفعت کے پیچھے آکے کھڑا ہوگیا۔
                سب لوگ لڑکے لڑکی کے قریب سمٹ آئے تھے وہ ان کی کرسی کے قریب کھڑی تھی ساتھ ہی وہ بھی تھا اس کے عین پیچھے۔۔ شاید ایک انچ کے فاصلے سے۔
                وہ چھوٹی قد کی نہیں تھی مگر وہ چھ فٹ سے زیادہ کا تھا اگر وہ سیدھا کھڑا ہوجاتا تو اپنی ٹھوڑی اس کے سر پہ رکھ سکتا تھا۔
                رفعت نے کوئی پرفیوم لگائی تھی وہ مسحور سا ہوا پھر اس کے مزید قریب ہو کر اس کے ساتھ لگ گیا سینا اس کی پشت سے مس ہوا تھا۔
                معلوم نہیں یہ پرفیوم کی خوشبو تھی یا رفعت کے بھرپور جوان جسم کی مہک جو اس نے اپنے اندر اتاری تھی وہ ایک لمحے کے لئے آنکھیں بند کر گیا شاید رفعت کی جوانی کا خمار تھا۔
                وہ ذرا سی اس کی طرف پلٹی۔۔۔ ریحان بدتمیزی نہیں کرو؟آنکھوں میں ہلکی سی تنبیہہ لئے بولی
                کسی نے نہیں سنا تھا سب ان کی طرف متوجہ نہیں تھے بلکہ لڑکے لڑکی کو دیکھ رہے تھے جہاں انگوٹھیاں پہنائی جا رہی تھیں۔
                مجھے بدتمیزی کرنے کی اجازت دو۔۔۔ریحان نے گمبھیر سی آواز میں سرگوشی کی تھی۔

                آج منگنی کا تیسرا دن تھا رفعت سارا پھیلاوا سمیٹ چکی تھی مہمان بھی جاچکے تھے۔
                اس نے صبح کے کچھ برتن دھوئے پھر فارغ ہو گئی اماں کمرے میں تھی ندا کالج گئی ہوئی تھی اپنا دپٹا اوڑھ کے وہ باہر نکل آئی اور ساتھ والےگھر کے دروازے پہ دستک دی تھی۔۔
                دروازہ ریحان نے کھولا۔۔۔ وہ حیران ہوئی وہ خالہ سے ملنے آئی تھی اسے لگا ریحان یونیورسٹی میں ہوگا۔
                تم یونیورسٹی نہیں گئے۔؟ وہ پوچھنے لگی ریحان اسے ہی دیکھ رہا تھا اسے یوں دروازے پہ پاکے دل مچل گیا کئی دن بعد اسے دیکھ رہا تھا منگنی کے بعد ان کے گھر جانا ہی نہیں ہوا تھا۔
                نہیں آج آف ہے۔۔۔ اس نے بتایا
                اچھا خالہ گھر پہ ہیں؟
                ہاں آجاؤ۔ وہ ایک طرف ہوا رفعت اندر آگئی اس نے دروازہ بند کیا پھر اس کے پیچھے آیا عقب سے اسے دیکھنے لگا۔
                وہ چست سا پاجامہ اور شارٹ شرٹ میں تھی اور بہت دلکش چال چلتی ہوئی اندر جا رہی تھی تنگ شرٹ میں کمر درخت کی اکڑی ہوئی شاخ کی طرح بل کھا رہی تھی سکن کلر کے تنگ پاجامے میں صحت مند بھرے بھرے کولہے جیسے لرز رہے تھے اس کی نظریں ان میں الجھ کر رہ گئیں عورت کو فرصت سے بنایا گیا ہے ہر ہر عضو کی موزوں رکھا گیا ہے سر سے پاؤں تک حسن کی دولت ان پہ لٹائی گئی ہے.
                اگر حسن ایک دولت تھی تو رفعت بے حد امیر تھی ریحان اس کو دیکھتا رہا بدن میں مدھم سی آگ جلنے لگی۔
                وہ اندر آکے ڈرائینگ روم میں آبیٹھی ادھر ادھر دیکھا۔
                کہاں ہیں خالہ؟ اس سے پوچھا تھا جو صوفے کے پیچھے کھڑا ہو گیا تھا
                وہ نہیں ہیں گھر پہ۔۔۔ ریحان نے خمار آلود نظروں سے اسے دیکھ کے کہا
                تم کہہ رہے تھے کہ وہ گھر پہ ہیں۔۔۔ رفعت نے اسے خفگی سے دیکھا پھر ہونٹ کاٹے ریحان آکے صوفے پہ قریب بیٹھ گیا۔
                وہ نانی کے گھر گئی ہیں۔۔۔ اس کی نگاہیں رفعت کی منہ زور جوانی پہ بھٹک رہی تھیں جنھیں وہ ہٹانے سے ناکام ہو رہا تھا۔
                ٹھیک ہے میں ان کے آنے کے بعد آؤنگی وہ بولی پھر واپسی کے لئے کھڑی ہونا چاہا عجیب سی بے چینی ہونے لگی تھی۔
                رفعت بیٹھ جاؤ تھوڑی دیر میں وہ آجائینگی۔۔۔ ریحان نے ہاتھ رفعت کے کندھے پہ رکھ کے اسے روکا اور اس کی اٹھنے کی کوشش ناکام بنائی پھر اس کے ساتھ جڑ کے بیٹھ گیا۔
                جب وہ آجائینگی تب میں پھر آجاؤنگی۔۔۔ وہ بولی دل یکدم شدت سے دھڑکنے لگا تھا ریحان نے اپنا ہاتھ اس کے گرد رکھا تھا اور قریب ہوا تھا۔
                بار بار کیوں آؤگی یہیں بیٹھ کے انتظار کر لو۔۔ریحان نے اسے ذرا سا اور قریب کیا۔
                اس لمحے وہ پوری نہیں تو کچھ حد تک اس کی آغوش میں آگئی تھی سانس الجھنے لگی یوں لگ رہا تھا کہ دل کسی بھی لمحے اچھل کر حلق میں آجائیگا۔
                وہ اسے ہلکا سا بھینچ رہا تھا جیسے پوری طرح اس کے بھرپور جوان جسم کو سمیٹنا چاہتا ہو ہاتھ اس کے گرد لپٹ گئے تھے۔
                اس کے بدن کی دھیمی دھیمی خوشبو ریحان کو بے خود کر رہی تھی۔
                ریحان۔۔ رفعت نے بے قرار ہو کے اس کا نام لیا تھا۔
                ہاں۔۔ وہ بولا پھر آہستہ سے اسے اپنی ٹانگوں پہ بٹھالیا۔
                تت۔۔تم کیا کرتے ہو آج کل۔۔ رفعت پوچھنے لگی آنکھیں بند ہونے لگی تھیں۔
                ریحااان۔۔۔ وہ بہکی ہوئی سی کراہی ریحان کے ہاتھ بے لگام ہوگئے تھے۔۔
                یونی کے کام کرتا ہوں۔۔۔ آج آف ہے۔۔۔ کام دیکھوگی میرا۔۔ وہ بولا
                ہاں دکھا دو مجھے۔۔ رفعت نے بند آنکھوں سے جواب دیا۔
                پھر اندر بیڈ روم میں چلو وہاں دکھاتا ہوں۔۔ وہ بولا
                وہ اس کے ساتھ اندر کی طرف آئی ریحان کا کمرہ اوپر جانے والی سیڑھیوں کے ساتھ تھا۔
                وہ رفعت کا کانپتا ہوا بازو پکڑے دروازہ کھول کے اندر آیا۔
                پھر دروازہ بند کر کے رفعت کی پشت دروازے سے لگادی اس کی تپتی ہوئی سانسیں رفعت کی گردن سے ٹکرانے لگیں۔
                وہ شدت سے اس کے چہرے اور گردن پہ جھک گیا اس کے دونوں ہاتھ پکڑ کر سر سے اوپر کر دئیے دوپٹا اس نے اتار دیا تھا رفعت کی نرم چھاتیاں اسے اپنے سینے پہ بخوبی محسوس ہو رہی تھی اور اس کے جوان بدن کی سوندھی خوشبو اندر اتر کر طوفان مچا رہی تھی اس کے نرم ہونٹ ریحان کے ہونٹوں سے ملے وہ انھیں نرمی سے منہ میں لے رہا تھا ہاتھ اس کی پتلی کمر کی سیر کر رہے پھراس نے قمیض ہلکی سی اوپر کر دی۔
                دن کے دس بج رہے تھے گلی میں بچوں کے کھیلنے کی آواز آ رہی تھی اور چند خوانچے والے بھی صدائیں دے رہے تھے۔
                ریحان۔۔ میں شادی شدہ ہوں۔۔ وہ بمشکل بولی سانس سینے میں نہیں سما رہی تھی
                تم بہت خوبصورت ہو تمھارے جیسی لڑکی میں نے کبھی نہیں دیکھی۔۔ وہ شاید اس کی بات سن نہیں پا رہا تھا اس کو ساتھ بھینچتا بیڈ کی طرف آیا۔
                اب تم تب ہی جاؤگی جب امی گھر پہ آجائینگی۔۔ وہ اسے کمر سے پکڑ کے بیڈ پہ چت لٹانے لگا۔
                نہیں مجھے ابھی جانا ہے ریحان وہ مچلی مگر ریحان نے اس کے پاؤں اوپر کر کے بیڈ پہ سیدھا لٹا دیا۔
                کہا نا تھوڑی دیر بعد چلی جانا۔۔۔ وہ اسے مخمور نظروں سے دیکھتا بولا تھا نظریں اس کے بدن کے خوبصورت نشیب و فراز پر تھیں اس کا صحتمند سینہ چت لیٹنے کی وجہ سے فلیٹ ہو گیا تھا مگر پھر بھی مدھم ابھار موجود تھے ریحان کی کنپٹیاں سلگ اٹھیں سینہ تیز ہوتے سانسوں سے لرزنےلگا ضبط کے بندھ ٹوٹے تو وہ آہستہ سے اس کے اوپر آیا تھا۔
                اس کے ہونٹ رفعت کے چہرے اور گردن سے لگ گئے تھے ہاتھ اس کی قمیض کو اوپر کر رہے تھے پیٹ کو برہنہ کرکے اس نے رفعت کو دونوں ہونٹوں کو منہ میں لے کے چھوڑا پھر اس کے بدن پہ نیچے کی طرف آیا۔
                رفعت کے ہموار پیٹ پر ناف کا پیالہ اس کا دل دھڑکا رہا تھا ناف سے ذرا اوپر اس کی چھاتیاں ہر سانس کے ساتھ ڈوب ڈوب کر ابھر رہی تھی۔۔
                ریحان کو ہر چیز بھولنے لگی یاد رہا تو بس یہ کہ وہ جوانی کی مورت اس کی دسترس میں ہے وہ اسے اپنے تپتے ہونٹوں سے چھونے لگا۔۔
                رفعت اس کی گرم سانسیں اپنے بدن پہ محسوس کر رہی تھی اس نیم تاریک کمرے میں جیسے دو بدن دھیمی سی آنچ پہ سلگ رہے تھے جس کو قربت کے چھینٹے ہی بجھا سکتے تھے۔
                ریحان کے ہاتھ بہکنے لگے اس کے قمیص کو اوپر کی طرف کھینچا وہ اس کی چھاتیوں کو قمیض کی قید سے رہا کر کے ہاتھوں کے کٹوروں میں سینچنا چاہتا تھا۔
                نہیں پلیز۔۔۔ وہ کراہی پھر اس کے ہاتھوں کو پکڑ لیا۔
                اعتراض مت کرو۔۔۔ ریحان نے اس کے سرخ چہرے کو دیکھا اس سے مزید صبر نہیں ہو رہا تھا ہونٹ کانپ رہے تھے آنکھوں میں خمار اتر آیا تھا۔
                نہیں پلیز یہ مت کرو۔۔۔ میں کسی اور کی ہوں۔۔ وہ بولی ریحان اسے دیکھ کر رہ گیا شاید اسے احساس ہو گیا تھا کہ وہ کیا کرنے جا رہے ہیں اس کی حالت بری تھی مگر وہ سنبھلنے کی کوشش کر رہی تھی۔
                پلیز تمھاری امی آجائینگی۔۔ وہ بولی ریحان نے اس کے انداز میں بے نام سی جھجک محسوس کرلی وہ اس کے لئے تیار نہیں تھی وہ اوپر سے ہٹ گیا۔
                رفعت بیڈ سے اتری تھی پھر ہونٹ کاٹتے ہوئے قمیض درست کی اور الجھے ہوئے بالوں میں ہاتھ پھیرا وہ اس سے نظریں چرا رہی تھی۔
                وہ بیڈ پہ نیم دراز اسے دیکھتا رہا آنکھیں ضبط سے سرخ ہوگئی تھیں دل اس کے قرب کے لئے مچل رہا تھا اور اس کے خوبصورت ہونٹوں کا ذائقہ اب تک منہ میں گھلا ہوا تھا اگر ممکن ہوتا تو اسے یہیں روک لیتا اور دن صبح ہونے تک پیار کرتا مگر وہ واقعی کسی اور کی بیوی تھے اسے پیار کرنے کا حق کسی اور کے پاس تھا۔
                تم چاہو تو باہر ڈرائیںگ روم میں انتظار کر لو رفعت۔۔ وہ اس سے بولا جو اپنا دپٹہ اوڑھ رہی تھی۔
                نن۔۔۔ نہیں میں بعد میں آجاؤنگی۔۔ وہ بولی تو ریحان نے گہری سانس لی۔
                رفعت ایک جھجکتی ہوئی نگاہ اس پہ ڈال کے سمٹی ہوئی سی باہر نکل آئی وہ یونہی لیٹا رہا پھر اٹھ کر کچن کی طرف آیا فریج کا دروازہ کھول کر ایک یخ پانی کی بوتل ہونٹوں سے لگائی اور غٹاغٹ پینے لگا۔
                چہرہ اب بھی تپ رہا تھا مگر اندر دہکتے الاؤ کی شدت میں ذرا کمی آئی تھی آنکھوں کی سرخی قدرے کم ہوئی تو دماغ نے کام شروع کیا۔
                اس لڑکی میں ایسا کیا تھا جو وہ اتنا بے بس ہوجاتا تھا دماغ سن ہوجاتا اور منہ زور خواہش پیدا ہوتی تھی اسے حاصل کرنے کی۔۔ اب اس کا لمس پانے اور لبوں سے آشنا ہونے کے بعد بدن اور بھی چٹخ رہا تھا۔۔

                رات کا تاریک غلاف ہر سو پھیل رہا تھا اندھیرا چھایا تو گھروں میں برقی روشنیاں جل اٹھیں۔۔
                رفعت کچن میں رات کے برتن صاف کر رہی تھی سب برتنوں کو صاف کر کے وہ شیلف میں ترتیب سے رکھ رہی تھی دپٹا گلے میں الجھا کمر پہ جھول رہا تھا اور چھوٹی سے خوبصورت ناک پہ پسینے کی چند بوندیں ابھر آئی تھیں۔
                امی دوا کھا کے لیٹ گئی تھیں اور ندا اپنے کمرے میں کالج کا ہوم ورک کر رہی تھی وہ بھی کام نمٹا کر اپنے کمرے میں آگئی۔
                کپڑے بدل کر اس نے ڈھیلا ڈھالا سا نائٹ سوٹ پہنا اور دروازہ بند کر کے بستر پر دراز ہو گئی۔
                کئی دن ہوگئے تھے سلیمان نے کال نہیں کی تھی وہ جیسے بیگانہ سا ہوگیا تھا رفعت نے فون نکال کر ہاتھ میں لیا دل کیا اسے کال کرلے مگر دوسری ہی لمحے ارادہ ملتوی کردیا۔
                رات کے اس وقت وہ اس کی جلی کٹی نہیں سننا چاہتی تھی وہ بنا لحاظ کئے کچھ بھی بولتا تھا اور پھر وہ پہروں مضمحل رہتی تھی فون سائیڈ پہ رکھ کے اس نے کروٹ بدلی۔۔
                معاً ریحان خیالوں میں در آیا رفعت کو اپنے بدن پہ چیونٹیاں سی رینگتی ہوئی محسوس ہوئیں۔
                وہ آج گئی تھی ان کے گھر اور آنٹی نہیں تھیں وہ اکیلا تھا پھر جو ہوا اسے سوچ کے اس کی سانس چڑھ گئی۔
                وہ اسے روم میں لے جا کے اوپر لیٹا تھا وہ بے قرار ہوئی تکیہ سینے سے لگایا۔
                نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی اور آنکھوں میں سرخ ڈورے تیر رہے تھے۔

                جاری ہے...​

                Comment


                • کمال ہے بھائی بہت ہی شاندار

                  Comment


                  • کیسی دوسرے کا لمس پا لیا اب مشکل ہے کہ رفعت خود کو روکے اپر سے شوہر بھی کوی لگاؤ نہیں رکھتا اب بہت جلد اپنا اپ سپرد کردیگی

                    Comment


                    • کہانی بہت ہی خوبصورتی سے آگے بڑھ رہی ہے۔۔۔ ایسی ہی کہانی ہوتی ہے جس میں کوئی جلدبازی نہیں ہوتی

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X