Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

باجی رفعت

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • قسط 5
    سہہ پہر ہونے لگی تھی اک روشن دن ختم ہونے کو تھا درختوں اور عمارتوں کے سائے طویل ہونے لگے تھے۔
    رفعت ابھی واش روم سے نہا کے نکلی تھی گرے کلر کی کامدار قمیض اور وائٹ شلوار میں اس کا اجلا سرخ و سفید سراپا دمک رہا تھا نم زلفیں ٹاول میں لپٹی ہوئی تھیں چہرے پہ بھی ہلکی سی نمی جاگ رہی تھی۔
    اس نے چہرہ خشک کیا پھر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے پڑے سٹول پہ آبیٹھی اور میک اپ کرنے لگی دل آج الگ انداز میں دھڑک رہا تھا۔
    آج سلیمان نے آنا تھا شام چھ بجے کی فلائیٹ تھی اور وہ سب اسے ریسیو کرنے جا رہے تھے آخر کئی سال بعد وہ گھر کے راستوں پہ قدم رکھ رہا تھا۔
    شکایتوں اور خفگیوں کا ایک انبار تھا جو رفعت کے دل کی آنگن می جمع تھا وہ اس کی بے اعتنائیوں سے شاکی رہی تھی مگر اب شاید حالات بدلنے والے تھے اس کے دل میں امید کی کونپل پھوٹی شاید اس کا رویہ جو وہ فون پہ روا رکھتا تھا بدل جاتا۔۔۔
    وہ خاصی حد تک تیار ہوگئی تھی گہرا میک اپ وہ کرتی نہیں تھی خوبصورت چہرہ میک اپ سے پاک رہ کر بھی پرکشش لگتا تھا چہرے پہ ہلکا سا فاؤنڈیشن لگا کر گالوں پہ ہلکی سی سرخی بکھیری آنکھوں میں کاجل لگا کر نرم ہونٹوں پہ ریڈ لپ اسٹک لگانے لگی۔
    لپ اسٹک لگا کے دونوں ہونٹوں کو ہلکا سا جوڑا پھر مطمئن سی ہوئی ہونٹ گلاب کی ادھ کھلی کلی سے شاداب لگ رہے تھے آنکھوں میں امیدوں کے دیپ ٹمٹما رہے تھے۔
    ٹاول کھول کر بالوں کو کنگھی کرنے اور کیچر میں قید کرنے لگی۔
    رفعت۔۔۔ بیٹا آجاؤ۔۔۔ دیر ہو جائیگی۔۔۔ امی نے ڈرائینگ روم سے آواز دی تھی۔
    آرہی ہوں بس دو منٹ۔۔۔ پھر جلدی سے اٹھی شفاف آئینے میں ہلکورے لیتے اپنے عکس کو دیکھا تیکھا ناک نقشہ۔۔۔شہابی رنگت۔۔۔ ریشمی بال جو کولہوں کو چھو رہے تھے اور موزوں جسمانی خدوخال۔۔۔
    اس حلیے میں وہ کسی کی بھی دل کی دنیا زیر و زبر کر سکتی تھی ایک سفید دپٹہ سکارف کی شکل میں چہرے سے لپیٹ کے وہ باہر آگئی
    ندا اور امی تیار بیٹھی تھیں۔۔
    چلو بیٹا چلتے ہیں دیر ہو جائیگی۔۔۔ امی نے اس کی تیاری کو غور سے دیکھا تھا مگر فقط اتنا ہی بولیں ابھی چھ بجنے میں قریب ایک گھنٹا باقی تھا وہ ساتھ چلتی ہوئی باہر آئیں۔
    دروازے سے نکلتے ہی رفعت نے جس پہلے انسان کو دیکھا وہ ریحان تھا وہ اپنے گھر کا دروازہ کھول کے باہر نکل رہا تھا اسے دیکھ کر ٹھٹک کر رکا گہری آنکھوں میں ستائش ابھری۔
    رفعت نے اسے دوسری نظر دیکھنے سے گریز کیا تھا ندا اور امی ساتھ ہی تھیں وہ آگے بڑھ گئی لیکن ریحان کی نگاہیں اسے اپنی پشت پہ محسوس ہوئی تھیں وہ اسے دیکھتا رہا تھا رفعت ذرا سی بے چین ہوئی چند دنوں میں وہ دونوں جسمانی طور پر خاصے قریب آگئے تھے شاید ضرورتوں کی آندھی نے انھیں بے مضطرب کیا تو ایک دوسرے کی پناہ میں آئے تھے ایک ساتھ لپٹ کر بہکتے رہے تھے مگر ایک حد سے نہیں گزرے تھے۔
    ریحان لب بھینچے اسے گلی میں جاتے دیکھتا رہا جہاں ایک گاڑی کھڑی تھی وہ جا کے اس میں بیٹھ گئی تو ریحان نے سر جھٹکا رفعت نے دوسری نظر ڈالنا بھی گوارہ نہیں کیا تھا اس کے دل پہ ہلکی سی چوٹ لگی۔

    رفعت اپنے کمرے میں آئرن سٹینڈ کے پاس کھڑی سلیمان کے چند جوڑے استری کر رہی تھی۔
    وہ آگیا تھا اور اب نیچے ڈرائینگ روم میں سب کے ساتھ بیٹھا خوش گپیاں کر رہا تھا کچھ مہمان بھی آئے تھے وہ دل جمعی سے کپڑے پریس کر کے وارڈروب میں لگے ہینگر میں لٹکانے لگی کہ دروازہ کھلا وہ اندر آیا تھا۔
    رفعت جلدی سے اس کی طرف مڑی ہونٹوں پہ ہلکی شرمگیں مسکراہٹ ابھری۔
    جب سے وہ آیا تھا وہ ٹھیک سے ملی بھی نہیں تھی ائیرپورٹ پہ بس سلام دعا ہی کیا تھا اتنے سال بعد آیا تھا گلے ملنا تو اس کا حق تھا وہ اس کی طرف دیکھتی رہی مگر سلیمان ایک نظر اس پہ ڈال کے ہونٹ بھینچے ٹیبل پہ پڑے اپنے ہینڈ بیگ کی طرف بڑھا رفعت کی رنگت پھیکی سی پڑی تھی۔
    سلیمان آپ ڈنر سے پہلے نہائینگے کیا؟ اس نے جھجکتے ہوئے پوچھا مگر وہ متوجہ نہیں تھا بیگ میں کچھ ڈھونڈ رہا تھا پھر ایک پیکٹ نکال کر سیدھا ہوا۔۔۔ پتہ نہیں کیا تھا وہ۔۔۔ شاید کسی کے لئے گفٹ لایا تھا۔
    پیکٹ نکال کے وہ اس کی طرف مڑا جو کمرے کے وسط میں کھڑی انگلیاں مروڑتی اسے دیکھ رہی تھی۔
    میں نہا لونگا اگر نہانا ہوا تم یہ کپڑے باتھ روم میں رکھ دو۔۔۔۔ وہ بولا تو لہجہ جذبات سے عاری تھا
    رفعت کو سبکی سی محسوس ہوئی وہ اسے ہی دیکھ رہی تھی۔۔۔ وہ مضبوط جسم کا مالک تھا مگر اب پہلے سے قدرے بھاری ہو گیا تھا رنگت کسی قدر زیادہ گندمی ہوگئی تھی اور بال سامنے سے اڑ چکے تھے پیشانی پہ شکنیں جیسے مستقل ڈیرہ جمائے ہوئے تھیں بھاری مونچھوں کی اوپر پھیلی ہوئی ناک سے وہ سخت گیر سا مرد نظر آرہا تھا۔
    پھر اس کی نگاہیں ان کپڑوں پہ پڑیں جو رفعت استری کر رہی تھی اور ماتھے پہ پڑے بلوں میں چند بلوں کا اضافہ ہوا۔
    کس نے کہا تمھیں یہ کپڑے استری کرنے کو؟۔ سرد سے لہجے میں بولا رفعت جو پہلے ہی نروس سی کھڑی تھی بوکھلا گئی۔
    وہ۔۔۔ میں نے سوچا آپ تھکے ہونگے اور آکر نہا دھو کے کپڑے بدلینگے اس لئے میں نے یہ کپڑے استری کر دئیے۔۔۔ وہ ہکلائی
    کپڑے تو میں بدلوںگا لیکن یہ نہیں۔۔۔ میرے بیگ میں چند جوڑے پڑے ہیں وہ استری کر لو۔۔۔۔ وہ نخوت سے بولا رفعت بے اختیار سر اثبات میں ہلا گئی۔
    وہ باہر چلا گیا تو رفعت خود کو سنبھالتی اس کے بیگ کی طرف آئی اور اس کے چند جوڑے نکال کر مشینی انداز میں استری کرنے لگی چہرے پہ تھکن سی اتر آئی تھی۔۔۔

    یہ تھکن جسمانی نہیں ذہنی تھی جو اس کے روئیے کے سبب رگ و پے میں اتری تھی۔
    شام کا اندھیرا ہر طرف پھیل گیا تھا آسمان پہ بادلوں کی ٹکڑیاں تیر رہی تھیں جنھوں نے موتیوں کی مانند چمکتے ستاروں کو اپنی اوٹ میں چھپا رکھا تھا۔
    ریحان اپنے گھر کی چھت پہ کھڑا ہتھیلیاں منڈیر پہ ٹکائے کھڑا تھا نگاہیں ساتھ والے گھر پہ جمی ہوئی تھیں آج رفعت کا شوہر آیا تھا۔
    امی اسے کئی بار ان کے گھر جا کے مل آنے کا بول چکی تھیں مگر وہ ہچکچا رہا تھا وہ نہیں چاہتا تھا کہ انجانے میں اس کی نگاہ بہک کر رفعت کی طرف جائے۔۔۔ اگر اس کا شوہر اس بات کو بھانپ لیتا تو اس کے لئے مصیبت کھڑی ہوجاتی۔
    وہ کافی دیر یونہی کھڑا یاسیت بھری نظروں سے اس طرف دیکھتا رہا پھر نیچے اتر آیا اور دروازہ کھول کر اس کے گھر کی طرف آیا دل بھی عجیب پرندہ ہے اس کی طرف جانے کے لئے پھڑپھڑا بھی رہا تھا مگر اندر ہی کہیں چوری پکڑے جانے کا خوف بھی سرسرا رہا تھا۔
    وہ اندر آیا کافی گہما گہمی تھی کافی سارے لوگ ڈرائینگ روم میں جمع تھے جو پڑوسی اور رشتے دار ہی تھے اور ملنے آئے تھے وہ بھی سلام کر کے ایک طرف بیٹھ گیا۔
    نگاہ سلیمان پہ جمی ہوئی تھی سلونی شکل و صورت کا عام خدوخال والا آدمی تھا البتہ جسامت گینڈے کی طرح مضبوط تھی۔
    چہرے پہ بڑی بڑی مونچھیں نمایاں تھیں اور کلائیوں پر بالوں کی بہتات تھی ریحان اسے خالی خولی نظروں سے تکتا رہا اسے رفعت کے ساتھ اس کا رشتہ بے جوڑ لگا وہ سرخ و سفید رنگت کی نازک اندام لڑکی تھی جلد اتنی ملائم کہ چھو لو تو نشان پڑ جائے یہ انسان اس سے میل نہیں کھاتا تھا ریحان نے سر جھٹکا۔
    اس لمحے رفعت طشتری میں کوئی چیز لئے اندر آئی تھی اس نے سیاہ رنگ کی لانگ شرٹ اور وائٹ شلوار پہنی تھی دپٹا سلیقے سے چہرے کو گھیرے میں لئے ہوئے تھا ریحان کی نگاہیں اس کے وجود سے دیوانہ وار لپٹ گئیں اس کی آنکھوں میں وارفتگی اتر آئی تھی۔
    رفعت نے بھی اسے دیکھ لیا تھا وہ ایک لمحے کے لئے ہلکی سی ٹھٹکی پھر طشتری ٹیبل پہ رکھ کر سلیمان سے کچھ پوچھنے لگی۔
    ریحان کے پیٹ میں گرہیں سی پڑنے لگیں ہونٹ سختی سے ہونٹوں پہ جم گئے یہاں بیٹھنا دوبھر محسوس ہونے لگا وہ زیادہ دیر وہاں بیٹھا نا رہ سکا وہاں سے اٹھ کے باہر آگیا۔
    کیفیت عجیب ہو رہی تھی آج وہ اس کی بانہوں میں سونے والی تھی۔۔۔
    وہ اس کا شوہر ہے مجھے یہ سب محسوس نہیں کرنا چاہئیے۔۔۔ اس نے خود کو کوسا پھر گیٹ سے باہر نکل آیا عجیب بے چینی سی طاری ہونے لگی تھی معلوم نہیں کیوں اس کا دل کیا دیواروں پہ مکے برسائے انھیں توڑ دے یا اپنے ہاتھ تڑوا لے۔

    رات اندھیرے کی بارش میں بھیگنے لگی تھی درو دیوار آپس میں دھیمے سروں میں سرگوشیاں کر رہے تھے۔
    کمرے میں نائٹ بلب کی نیلگوں روشنی پھیلی ہوئی تھی رفعت اپنے بیڈ پر دراز شب خوابی کا باریک لباس پہنے ہوئے تھی۔۔۔ آتی جاتی ہر سانس کے ساتھ اس کا منہ زور سینہ ڈوب ابھر رہا تھا ریڑھ کی ہڈی میں میٹھی میٹھی لہریں دوڑ رہی تھیں وہ کمرے میں آگئی تھی سلیمان ابھی آنے والا تھا۔
    یکلخت دروازہ کھلا رفعت نے دھڑکتے دل سے دیکھا سلیمان اندر آیا تھا وہ اسے دیکھتی رہی وہ اندر آکے ایک بے تاثر نگاہ اس پہ ڈالتا واشروم میں گھس گیا باہر نکلا تو صرف ایک ٹراؤزر اور بنا آستینوں کے بنیان پہنے ہوئے تھا بنیان کے غیر موجود آستینوں سے اس کے توانا بازو نظرآرہے تھے جن پہ گھنے بال تھے توند بھی ہلکی سی ابھری ہوئی تھی وہ سیدھا بیڈ کی طرف آیا اور برابر میں لیٹ گیا۔
    رفعت نے جیسے سانس تک روک لی وہ اس کی پیشقدمی کی منتظر تھی سانس کی لے چڑھ آئی تھی اور رگ رگ میں خمار دوڑ رہا تھا شوہر بڑے طویل عرصے کے بعد آیا تھا وہ خود سپردگی پہ آمادہ تھی متاع جان اس پہ لٹانے کے لئے تیار۔۔۔ مگر اس طرف کوئی حرکت نا ہوئی۔
    وہ یوں ہی ساکت لیٹا ہوا تھا رفعت ذرا سی کسمسائی تو بیڈ ہلکا سا چرچرایا تھا جیسے اسے اپنی موجودگی کا احساس دلایا ہو مگر وہ بے حس و حرکت رہا نا جانے کیوں رفعت کو لگا وہ جان بوجھ کے اسے نظر انداز کر رہا ہے۔۔
    دن بھر دونوں کے بیچ دو جملوں کا ہی تبادلہ ہوا تھا ورنہ وہ اپنے سلوک سے اس کے وجود کی نفی کرتا رہا تھا اور اب بھی کر رہا تھا۔
    سلیمان کروٹ دوسری طرف بدل گیا رفعت نے کن اکھیوں سے اسے دیکھا وہ منہ دوسری طرف کئے لاتعلق سا لیٹا تھا۔
    چند لمحے بعد اس کے سانس لینے کی ہلکی سی خرخراہٹ کمرے میں گونجنے لگی رفعت کے ہونٹ بھینچ گئےوہ بے حس سی ہوئی۔۔۔ ہر احساس کی جیسے موت ہوگئی تھی آنکھیں چھت میں کسی غیر مرئی نقطے پہ جمی ہوئی تھیں اور نیند آنکھوں سے کوسوں دور۔۔۔۔

    جاری ہے۔۔۔۔​

    Comment


    • bohat zaberdast update thi maza aa gya

      Comment


      • کیا کمال کی اپڈیٹ تھی کیا منظر کشی کی گئی

        Comment


        • افف ظالم رفعت کا نی میرا دل توڑ دیا

          Comment


          • ہاے ظالم سلمان ۔۔۔ سلمان نے تو بے حسی کی حد ہی کر دی۔۔۔ پردیس میں اس کا لازمی کسی لڑکی کے ساتھ چکر ھو گا۔۔۔ اس لیے سلمان کو رفعت اچھی نہیں لگ رہی۔۔۔ ویسے کہتے بھی ٹھیک ہیں ۔۔ گھر کی مرغی دال برابر ۔۔۔ اب رفعت ریحان کا لن لینے کیلئے موقعے کی تلاش میں رہے گی۔۔۔ مزہ آ گیا جناب ۔۔۔لاجواب ۔۔۔کمال ۔۔۔بہترین ۔۔۔

            Comment


            • Boht shandar update

              Comment


              • سلیمان کا رفعت کے ساتھ برتاؤ کچھ عجیب وغریب ہے جانے رفعت کے سلگتے جزبات کو کب سکون میسر آہیگا

                Comment


                • کہانی کا یہ بہت ہی خوبصورت اور خطرناک ہے رفعت کے لیے دیکھتے ہیں آگے کیا ہوتا ہے

                  Comment


                  • رفعت بیچاری کافی مظلوم ہے
                    چلو ریحان ہے نا سب محرومیاں کا ازالہ کرنے کے لیے

                    Comment


                    • Ala

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X