Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

باجی رفعت

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • بہت ہی زبردست اور شہوت انگیز کہانی ہے

    Comment


    • مزے مزے مزے

      Comment


      • لاجواب تحریر

        Comment


        • خوب

          Comment


          • ہیلو دوستو، پرسکون اور خوش رہیں، ہفتے کے آخر میں
            لطف اٹھائیں۔
            دوپہر ہونے لگی تھی رفعت کچن میں سلاد بنانے میں مصروف تھی ساتھ ہی پلاؤ کو دم پہ رکھا ہوا تھا۔۔
            آج اس نے بلیو کلر کا سادہ سا شلوار کرتا سوٹ پہن رکھا تھا دوپٹہ کندھوں پہ تھا اور بال چٹیا میں گندھے ہوئے کمر پہ جھول رہے تھے اس حلئیے میں بھی اس کا حسن کسی کو بھی مسحور کر سکتا تھا۔
            سلیمان کو آئے ہوئے آج ہفتہ ہونے کو تھا اس کا روئیہ پہلے دن کی سی سردمہری لئے ہوئے تھا ضرورت کے وقت اپنے مخصوص سرد سے تحکمانہ لہجے میں بات کر لیتا تھا ورنہ وہ ساتھ رہ کے بھی لاتعلق تھے۔
            بستر پہ فاصلے ہنوز قائم تھے رفعت نے لاشعوری طور پہ کوشش کی تھی ان فاصلوں کو پاٹنے کی مگر اس کا لیا دیا انداز دیکھ کر اپنے خول میں سمٹ آئی تھی۔
            کئی راتیں مسلسل وہ اسے اپنی موجودگی کا احساس دلاتی رہی تھی کئی بار اس کی طرف کروٹ لی۔۔۔ چوڑیاں کھنکائیں۔۔۔ بات کرنے کی کوشش کی مگر وہ ایک تند نظر اس پہ ڈال کے سونے کی تلقین کر دیتا۔
            شاید وہ اس کی کیفیت سے ناواقف نہیں تھا بس انجان تھا یا پھر یہ بھی اذیت دینے کا اک انداز تھا۔
            رفعت کو اس کی آنکھیں تمسخر اڑاتی محسوس ہوتی تھیں انداز گفتگو بڑی حد تک طنزیہ ہوتا تھا وہ کچھ پوچھ بھی لیتی تو جواب طنز بھرے انداز میں ملتا کہ وہ چپ ہو کر رہ جاتی شاید باہر رہ کر وہ بڑی حد تک سنکی ہو گیا تھا اتنے عرصے بعدوہ واپس آیا تھا سب کے لئے سامان میں کچھ تحائف تھے جب کہ رفعت کے لئے فقط پرفیوم کی دو بوتلیں نکلی تھیں جن میں سے ایک آدھی استعمال شدہ تھی رفعت کو لگا شاید یہ بھی کسی اور کے لئے لی گئی ہونگی مگر مجبوری میں اسے تھما دی گئی ہیں اس کا دل کٹ کر رہ گیا تھا مگر اس نے اف تک نا کیا خاموشی سے سہہ گئی۔
            وہ بالوں کی چند لٹوں کو کان کے پیچھے اڑستی کچن سے باہر نکل کر ڈرائینگ روم میں لگے وال کلاک میں ٹائم دیکھنے آئی پھر واپس جا کر چاولوں کو دیکھنے لگی دو بجنے لگے تھے وہ آتا ہی ہوگا اس نے سر جھٹکا۔
            وہ اپنے کسی جاننے والے کی طرف گیا ہوا تھا پچھلے کئی دنوں سے یہی اس کا معمول تھا صبح کا نکل کر دوپہر کو آتا یا پھر رات کو واپسی ہوتی۔
            ندا کی شادی قریب تھی چند دنوں میں ہی دن رکھ لیا جاتا پھر کاموں کا بوجھ بڑھ جاتا اور بازار کے چکر الگ سے لگنے لگ جاتے اس نے ماتھے کو سہلایا اسے ہلکا سا چکر آیا تھا۔
            اس لمحے ندا کچن میں آئی شاید پانی پینے آئی تھی اور اسے ڈگمگاتا ہوا دیکھ لیا وہ تیزی سے اس کی طرف آئی تھی۔
            بھابی۔۔۔ کیا ہوا؟ آپ ٹھیک تو ہیں نا؟ پریشان سی پوچھتی وہ اس کا بازو تھام گئی۔۔
            ہاں ٹھیک ہوں۔۔۔ وہ مسکرائی مگر کمزوری سی محسوس ہوئی تھی۔
            ارے آپ بالکل ٹھیک نہیں لگ رہی ہیں۔۔۔ چہرہ تو دیکھیں کتنا سرخ ہو رہا ہے۔۔۔ندا تشویش میں گھر گئی پھر اس کی کلائی پکڑی۔
            رفعت کو اس لمحے کھڑا رہنا مشکل محسوس ہوا ٹانگیں بے جان سی ہوئیں۔
            اففف آپ کو تو بخار ہے۔۔۔۔ ندا حیرت سے اسے دیکھنے لگی اور آپ یہاں کچن میں ہیں۔۔۔
            کمرے میں جائیں میں کر لونگی چاولوں کو ہی اتارنا ہے نا؟ وہ بولی رفعت نے اثبات میں سر ہلایا
            وہ نہیں جانا چاہتی تھی مگر ندا نے اسے باہر کی طرف دھکیل دیا وہ جیسے تیسے کر کے خود کو دھکیلتی بیڈ روم میں آئی۔
            آنکھوں کے سامنے کئی بار اندھیرا چھایا قدم کئی بار اکھڑے یکلخت کیا ہوا تھا یوں لگ رہا تھا جیسے توانائیاں یکدم صلب ہوگئی ہیں۔
            اسے نہیں پتہ چلا وہ کیسے بیڈ تک پہنچی اور کیسے لیٹی ہوش سے رابطے منقطع ہو گئے تھے۔

            سلیمان لنچ کے وقت گھر آیا پھر اپنے روم میں داخل ہوتے وقت دروازے پہ ہی ٹھٹک کر رک گیا۔
            سامنے ہی بیڈ پہ رفعت آڑھی ترچھی اوندھی لیٹی ہوئی تھی کمر کا خم نمایاں ہوگیا تھا اور سڈول ٹانگوں کی دلکشی چھپائے نہیں چھپ رہی تھی۔
            سلیمان کی آنکھوں میں نخوت کے سائے تیرے وہ دانت پیستا اس کی طرف آیا پھر بے دردی سے کھردرا ہاتھ اس کے بدن پہ رکھ کے اسے ہلایا جلایا۔
            وہ ہنوزلیٹی رہی اس کی آنکھوں کی سرخی اور بڑھ گئی۔
            رفعت کو کسی سخت تکلیف دہ لمس کا احساس ہوا تو اس کی آنکھوں میں لرزش ابھری پھر پٹ سے آنکھیں کھول دیں چند لمحے لگے اسے صورت حال سمجھنے میں۔
            وہ اس کے نازک بدن کو ٹٹول رہا تھا انداز بے حد عامیانہ تھا جیسے وہ گوشت پوست کا کوئی ٹکڑا ہو جسے قصائی دیکھ بھال رہا ہو رفعت کو اس کی آنکھوں میں بہت دن بعد وہ چمک نظر آئی جو مرد کے اندرونی کشمکش کو آشکار کر دیتی ہے وہ بھی عورت تھی ان نظروں کا مطلب سمجھتی تھی۔۔۔
            وہ جلدی سے اٹھ بیٹھی چہرہ لال بھبوکا ہو رہا تھا کچھ بخار کا اثر تھا کچھ خجالت نے آن لیا تھا۔
            واہ لاٹ صاحبہ کیا انداز ہیں تمھارے سونے کے۔۔۔ وہ زہر خند لہجے میں بولا رفعت کو توہین کا شدید احساس ہوا تھا سبکی کے احساس سے چہرہ سرخ تر ہوا۔
            تم یہاں نیند کے مزے لوٹ رہی ہو۔۔۔ کھانا کون دیگا مجھے۔۔۔ وہ پھنکارا رفعت گڑبڑا گئی
            وہ۔۔۔ کھانا بن گیا ہے آپ بیٹھیں میں دے دیتی ہوں۔۔۔ وہ دپٹا لیتی کھڑی ہوگئی تھی۔
            ہاں یہ احسان کر دو مجھ پہ۔۔۔ وہ بولا تو رفعت دروازے کی طرف بڑھی
            پہلے میرا ایک جوڑا استری کرو۔۔۔ تحکمانہ آواز اسے رکنے پہ مجبور کر گئی۔
            وہ ایک معمول کی طرح اس کی طرف مڑی جو اپنی شرٹ نکال کر واش روم میں گھس رہا تھا۔
            رفعت اس کا ایک جوڑا نکال کر استری کرنے لگی واشروم سے پانی گرنے کی آواز آرہی تھی۔
            اس لمحے اسے فون کے وائبریشن کی مخصوص گھوں گھوں سنائی دی سلیمان کی شرٹ کی اوپری جیب میں پڑا موبائیل وائبریٹ کر رہا تھا۔
            رفعت تذبذب کا شکار ہوگئی پھر ہمت کر کے اس کی جیب سے فون نکالا اور سکرین پہ نظر دوڑائی۔
            واٹس ایپ پہ کال آرہی تھی باہر کا کوئی نمبر تھا نمبر کے ساتھ ہی لڑکی کی ایک تصویر لگی تھی۔
            تصویر کچھ ایسی تھی کہ رفعت کے گال تمتما اٹھے اسے کال ریسیو کرنے کی ہمت نا ہوئی ہاتھ کانپنے لگے تھے۔
            کال کٹ گئی وہ فون ہاتھ میں لئے غائب دماغ سی بیٹھی رہی۔
            اس لمحے اس کے ہاتھ میں پکڑا فون پھر سے جھنجھنا اٹھا واٹس ایپ پہ کئی میسجز موصول ہوئے تھے۔
            نا جانے کیوں رفعت نے وہ چاٹ کھول لی پھر آہستہ آہستہ میسجز پڑھنے لگی چہرے کی حالت متغیر ہونے لگی تھی۔
            گلہ جیسے خشک ہوا آنکھیں پتھرا سی گئیں۔
            چاٹ لڑکی کی تصویروں سے بھرا ہوا تھا اپنی چندھی ہوئی آنکھوں اور چپٹے ناک نقشے سے وہ لڑکی ایشیائی لگ رہی تھی کوئی بھی تصویر نارمل نہیں تھی وہ اس انداز میں لی گئی تھیں کہ اس کا انگ انگ نمایاں ہو رہا تھا کئی تصویروں میں اوپری بدن لباس کی قید سے آزاد تھا اور پردہ پوشی کے لئے ہاتھوں کا استعمال کیا گیا تھا جو کافی ہر گز نہیں تھا۔
            سلیمان کے میسجز تھے جن میں وہ اس سے رقم کے بارے میں بات کر رہا تھا ان دونوں کی شاید کوئی ڈیل ہوئی تھی اور سلیمان نے اسے کوئی رقم ادا کی تھی۔
            رفعت نے سنا تھا کہ خلیجی ممالک میں ایشیائی ممالک جیسے کہ فلپائن اور تھائی لینڈ وغیرہ کی بہت سی لڑکیاں ملازمت کے لئے آتی ہیں اور اگر انھیں زیادہ رقم کمانے کا کوئی ذریعہ نظر آئے تو اس کے استعمال سے بھی نہیں کتراتیں۔
            وہ تلخی سے آنکھیں سکرین پہ جمائے میسجز پڑھ رہی تھی کہ باتھ روم میں گرتے پانی کی آواز تھم گئی شاید وہ باہر نکلنے کو تھا۔
            اس نے فون جلدی سے رکھا پھر استری کرنے لگی صدمے کے ابتدائی اثرات سے نکل کر اس کے دل میں دبا دبا سا غصہ ابل رہا تھا ہونٹ سختی سے بھینچ گئے تھے۔

            بیٹا آج مارکیٹ چلیں کچھ لینا ہے۔۔۔
            سلیمان لنچ میں مصروف تھا کہ ماں کی آواز پہ چونک کے سر اٹھایا۔
            مجھے کہیں جانا ہے پیسے دے دونگا آپ اور رفعت چلی جاؤ۔۔ بے اعتنائی سے کہہ کر دوبارہ سے پلاؤ کے پلیٹ کی طرف متوجہ ہوگیا۔
            اس کی طبیعت نہیں ٹھیک تم چلے جاؤ ساتھ۔۔۔ وہ ذرا ہچکچا کے بولیں سلیمان کے ماتھے پہ کئی بل پڑے تھے۔
            کیوں کیا ہوا اسے؟ ناک سکوڑ کے انھیں دیکھا۔
            اسے کچن میں چکر آگیا تھا بخار ہے شاید۔۔۔ ان کے لہجے میں لجاجت سمٹ آئی
            تم چلے جاؤ ساتھ اسے آرام کرنے دو۔۔۔
            کوئی بخار نہیں ہے سب بہانے ہیں کام سے بچنے کے۔۔۔ اس کے سیاہی مائل ہونٹوں پہ طنزیہ مسکراہٹ پھیلی۔
            بولیں اسے چلی جائیگی آپ کے ساتھ نا جانا چاہے تو مجھے بتائیں۔۔۔ سرد سے بے تاثر لہجے میں کہتا وہ باہر نکل گیا۔
            کمرے سے نکلتی رفعت نے اس کے آخری جملے سنے تھے اور دھمکی آمیز تاثر محسوس کر لیا تھا وہ وہیں کھڑی رہ گئی نازک جسم بخار کی شدت سے کانپ رہا تھا۔

            ریحان اپنے بیڈ پہ نیم دراز بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے لیٹا ہوا تھا لیپ ٹاپ اس کے گھٹنوں پہ دھرا تھا جس کے ماؤس پیڈ پہ اس کی انگلیاں چل رہی تھیں مگر وہ فوکس نہیں کر پا رہا تھا نا جانے اس کا دھیان کہاں تھا۔
            تھک ہار کے اس نے لیپ ٹاپ سکرین نیچے کھینچ لی پھر بستر سے اتر آیا اور کھڑکی میں آن کھڑا ہوا۔۔
            باہر ایک اور سیاہ رات پر پھیلا رہی تھیں ہنگامے مدھم پڑ رہے تھے۔
            اس کی نظریں سامنے والے گھر کی درو دیوار سے لپٹ رہی تھیں کسی کو تلاش کر رہی تھیں مگر نا مراد لوٹ رہی تھیں اسے دیکھے کئی دن ہو گئے تھے۔

            کمرے میں نائٹ بلب کی نیلگوں مدھم روشنی پھیلی ہوئی تھی درو دیوار جیسے دم سادھے کھڑے تھے۔
            رفعت اپنے بیڈ پہ چت لیٹی ہوئی تھی کمفرٹر سینے تک اوڑھ رکھا تھا کومل بدن جیسے بخار میں پھنک رہا تھا شام سے پہلے وہ امی کے ساتھ مارکیٹ گئی تھی اور کئی بار غش کھاتے کھاتے رہ گئی تھی اب بدن ٹوٹ رہا تھا۔
            دروازے پہ ہلکی سی آہٹ ہوئی تو اس نے آنکھیں کھول کے دیکھا سلیمان اندر آیا تھا پھر دروازہ لاک کر کے ایک نظر اسے دیکھا اور واشروم کی طرف بڑھ گیا وہ ساکت لیٹی رہی۔
            چند لمحے بعد وہ باہر آیا تو جسم پہ شرٹ موجود نہیں تھی وہ اپنا مخصوص ٹراؤزر اور بنا آستینوں کے بنیان پہنے ہوئے تھا وہ سیدھا اس کی طرف آیا رفعت کو اس کا انداز بدلا ہوا سا لگا۔
            وہ لمبی لمبی سانسیں لے رہا تھا جن نظروں سے رفعت کو دیکھا وہ کسمسا کر رہ گئی ان نظروں کا مطلب وہ جانتی تھی۔
            سلیمان اس کے پاس آ بیٹھا پھر اسے کندھوں سے پکڑ کر کھینچا۔۔
            کپڑے اتارو۔۔۔ اس نے بھاری آواز میں تحکمانہ سرگوشی کی تھی بہکی بہکی سانسیں اس کے چہرے پہ پڑنے لگیں۔
            رفعت بے حس و حرکت سی لیٹی رہی اس کے اندر کچھ ٹوٹ رہا تھا بکھر رہا تھا ہونٹ آپس میں سختی سے بھینچ گئے تھے ۔
            کئی دن وہ اپنے آپ کو اس کے حوالے کرنے کے لئے تیار رہی تھی وہ چاہتی تھی کہ ان کے درمیان حالات معمول پہ آئیں اور وہ منہ موڑے رہا تھا آج جب اسے معلوم تھا کہ رفعت کی طبیعت ٹھیک نہیں تو وہ اسے بلا رہا تھا۔۔۔آج اس کے پاس سلیمان کے لئے کچھ نہیں تھا جسم بخار سے تڑخ رہا تھا اٹھنے سے چکر آرہے تھے اس کے میسجز پڑھ کے احساسات مردہ سے ہو گئے تھے۔
            اتارو۔۔۔ اس نے پھر کہا پھر خود ہی اس کے کپڑے ایک ایک کر کے الگ کرنے لگا وہ آنکھیں میچے لیٹی رہی کوئی احساس نہیں جاگا تھا ریڑھ کی ہڈی میں سرسراہٹ نہیں ہوئی تھی نرمی اور محبت کا احساس ناپید تھا۔
            اپنی بنیان اتار کر وہ اس پہ جھک آیا بہکی سانسیں اس کے بدن پہ پڑنے لگیں ہاتھ اس کے نازک جسم کا بھنبھوڑنے لگے دانت اس کے جسم پہ اپنے نشان چھوڑنے لگے۔
            رفعت کے ہونٹوں سے درد بھری کراہ نکلی اسے پھر سے چکر سا آیا تھا سلیمان کی آنکھوں میں چمک سی لہرائی اس کی تکلیف محسوس کر کے جیسے اس کی انا کی تسکین ہوئی تھی۔
            ہر احساس پہ کراہت کا احساس غالب تھا سر جیسے درد سے پھٹ رہا تھا وہ اس سے ایسا سلوک کر رہا تھا جیسے کسی گھر میں چور گھس آئیں۔۔۔ ہر نازک چیز توڑ ڈالیں۔۔۔ قیمتی چیزیں لوٹ لیں۔
            سلیمان نے اس کا چہرہ ہاتھ میں جکڑ کر ایک تھپڑ مارا۔۔۔پھر دبا دبا غرایا۔
            لاش کی طرح مت لیٹی رہو۔۔۔ میرا ساتھ دو۔۔ وہ آنکھیں شدت سے بند کئے لیٹی رہی گال سن ہو گیا تھا نفرت کی ایک لہر سی بدن میں اٹھی تھی وہ انگلی بھی نا ہلا سکی بدن میں سکت نہیں رہی تھی دل کیا جو انسان اس سے کمبل کی طرح لپٹا ہوا ہے اسے اتار پھینکے۔
            نا جانے کب اپنی وحشت اس پہ اتار کر وہ جدا ہوا تھا رفعت ساکت سی لیٹی رہی چہرہ ہر جذبے سے عاری تھا۔
            وہ دوسری طرف منہ کر کے سو گیا تھا رفعت آہستہ سے اٹھی۔۔۔ کپڑے جو کچھ بیڈ پے کچھ نیچے بکھرے ہوئے تھے انھیں سمیٹا اور جیسے تیسے پہننے لگی ہر حرکت کے ساتھ منہ سے کراہ نکل رہی تھی بدن پھوڑے کی طرح دکھ رہا تھا۔
            کپڑے پہن کر وہ باتھ روم کی طرف آئی اور واش بیسن کے ساتھ کھڑے ہو کر تپتے چہرے پہ پانی کے چھپاکے مارنے لگی آنکھیں دھندلائی ہوئی تھیں۔
            دل کیا کمرے سے نکل جائے کہیں دور چلی جائے مگر بے بسی کے پنجوں میں پھڑپھڑا کر رہ گئی چند لمحے آئینے میں اپنے ٹوٹے بکھرے عکس کو دیکھتی رہی پھر بے جان قدموں سے بیڈ کی طرف آئی اور لیٹ گئی۔

            جاری ہے۔۔۔​

            Comment


            • واہ کیا بہترین اپڈیٹ تھی
              ہر اپڈیٹ میں کہانی مزید کلامیکس پکڑ رہی ہے

              Comment


              • behtreen update

                Comment


                • riffat ko b rehan ki traf maail ho jana chiye

                  Comment


                  • بہت عمدہ اپڈیٹ، کہانی ایک انتہائی اہم دور میں داخل ہو رہی ہے

                    Comment


                    • جذبات سے بھرپور اپڈیٹ. رائٹر نے کمال مہارت سے سمندر کو کوزے میں بند کردیا ہے

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X