Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

باجی رفعت

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • کہانی بہت عمدہ اور جاندار ہے، لیکن ہمارے معاشرے میں اس عمل کو زبردستی کرنا نہیں کہا جا سکتا، یہ شوہر کا حق ہوتا ہے اور وہ جب چاہے اپنا حق حاصل کر سکتا ہے۔

    Comment


    • ہاں ایک بات قابل غور ہے وہ یہ کہ اپنے پاٹنر کی صحت کا خیال رکھنا چاہیئے۔

      Comment


      • بوہت اچھا انداز ہے لکھنے کا منا بھائی ۔کہانی کو بوہت خوبصورت انداز میں آگے بڑھا رہے ہیں۔ لاجواب ۔

        Comment


        • بہترین اپڈیٹ کی ہے

          Comment


          • محترم جناب منّا بھائی صاحب، سدا خوش و خرم اور شاد و آباد رہیں۔ آپ کے قلمبند کئے گئے شاہکار نے تمام قارئین کی توجہ اپنی جانب مبذول کروالی ہے، جو یقینً اس بات کی عکاس ہے کہ بے شک آپ کا قلمی نام “مَنّا بھائی” ہی سہی مگر آپکے معاشرتی مسائل کو دیکھنے، پرکھنے، سمجھنے اور پھر ان کو الفاظ کا جامہ پہنانے کی صلاحیت آپ کو ایک بالغ النظر شخصیت کا روپ عطاء کرتی ہے۔
            آپکا ایک ادنٰی مداح:
            غفزالی

            Comment


            • بہت عرصے کے بعد فورم کو وزٹ کیا کہانی بہت زیادہ اچھی اور جذبات کے بہترین امتزاج اور اظہار سے بھرپور ہے
              مزا آگیا جناب

              Comment


              • قسط:7
                نیلگوں آسمان بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا سورج کی کرنیں تپش سے عاری تھیں موسم قدرے خوشگوار ہو رہا تھا۔
                وال کلاک دس بجا رہی تھی رفعت ڈائینگ روم کی ڈسٹنگ کرنے اور باقی کاموں سے فارغ ہونے کے بعد صوفے پہ آبیٹھی۔
                چھوٹا سا خوبصورت کشن گود میں رکھ کر اس نے ٹی وی لگا لیا اور بے دلی سے ٹی وی دیکھنے لگی۔
                اس کا بخار اتر گیا تھا طبیعت قدرے بحال ہوگئی تھی۔۔
                ندا کی شادی کے دن قریب آرہے تھے آج یا کل میں شادی کی تاریخ رکھ دی جاتی پھر مہمانوں کو تانتا بندھ جاتا اور سر کھجانے کی بھی فرصت نا ملتی۔
                اب بھی کام بہت بڑھ گئے تھے روزانہ مارکیٹ کے چکر لگ رہے تھے کچھ نا کچھ لایا جا رہا تھا۔
                آج بھی انھیں ندا کی جیولری دیکھنے جانا تھا۔۔
                رفعت خالی خولی نظروں سے سکرین کو دیکھتی بیٹھی رہی ندا اندر کمرے میں تھی سلیمان ابھی بھی سو رہا تھا اس کا خیال آتے ہی رفعت کی آنکھیں منجمد سی ہوئیں۔
                سلیمان کے ساتھ گزرے یہ چند دن اس کے لئے کسی امتحان سے کم نا تھے اس کے شب و روز ایک ان چاہی قربت میں گزرے تھے۔
                اس کی بہکی سانسیں چہرے پہ سوئیوں کی مانند چبھتے بال اور کھردرا اذیت ناک لمس۔۔۔ کچھ بھی اس کے اندر چاہے جانے کا احساس پیدا نہیں کر پایا تھا۔۔
                طبیعت کی خرابی کے باوجود سلیمان اسے روندتا رہا تھا اس کی اذیت سے حظ اٹھاتا رہا تھا اس کی طبیعت سنبھلی تو اس نے پھر سے دوریاں اختیار کرلی تھیں۔
                راتوں کو کئی بار رفعت کی آنکھ کھلی تو اسے کمرے میں موجود نہیں پایا تھا باہر ٹیرس پر سے اس کی گفتگو کی دھیمی آہٹیں اس کے کانوں تک پہنچتی تھیں وہ فون پہ لگا ہوتا تھا رفعت کانوں میں انگلیاں دے لیتی تھی۔
                ایسا لگتا تھا وہ جلد ازجلد ندا کی شادی کے فرض سے سبکدوش ہو کر واپس جانا چاہتا ہے۔۔۔ رفعت نے بیٹھے بیٹھے صوفے پہ پہلو بدلا اس کا دل جیسے بے حس ہو رہا تھا اگر کوئی احساس باقی تھا تو وہ نفرت اور غصے کا تھا۔
                اس لمحے اس کے کمرے کا دروازہ کھلا سلیمان باہر آیا وہ بھاری بھرکم چثے پہ نیا کھڑکھڑاتا ہوا سوٹ پہنے ہوئے تھا۔
                ڈرائینگ روم میں آکے ایک چبھتی ہوئی تیز نگاہ رفعت پہ ڈالی جو ہڑبڑا کے اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔
                ناشتہ لاؤ۔۔۔ دو الفاظ بول کر وہ کچن ٹیبل کی طرف چلا گیا اور کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا رفعت ہونٹ بھینچے کچن میں آئی تھی پھر ناشتہ نکالنے لگی۔
                اسے دیکھ کے کسی روبوٹ کا گمان ہو رہا تھا جو حکم کی تعمیل کر رہی ہو چہرے پہ کسی جذبے کا گزر نہیں تھا ہاں آنکھوں میں ہلکی سی بیزاری تھی سلیمان کے روئیوں نے اس کا دل چھلنی کر دیا تھا اب وہ اس کے لئے کچھ محسوس نہیں کرتی تھی۔
                ناشتے کے برتن اس کے سامنے رکھ کر وہ واپس مڑی اور ڈرائینگ روم کی طرف آئی سلیمان نے اسے پکارا تھا۔
                کچھ دیر بعد ہم لوگ جیولر کے پاس جائینگے۔۔۔ وہ بولا رفعت اس کی طرف پلٹی ذرا سی الجھی۔
                "ہم" سے اس کی کیا مراد تھی کون کون جارہے تھے؟ وہ بھی جانا چاہتی تھی ندا کے لئے جیولری سیٹ اسی نے سلیکٹ کیا تھا اب دیکھنے جانا تو بنتا تھا کہ کیسے بنا ہے اگر کوئی کمی بیشی ہوتی تو وہ دور کی جا سکتی تھی۔
                تم گھر پہ رہنا گھر سنبھالنا۔۔۔ اس نے سرد انداز میں اگلا جملہ بول کر رفعت کی خوش فہمی دور کر دی یہ واضح ہو گیا تھا کہ وہ ندا اور امی ہی جا رہے تھے رفعت نہیں۔
                میں بھی چلی جاؤنگی آپ کے ساتھ۔۔۔ وہ ہمت کر کے بولی سلیمان کے چہرے پہ شدید ناگواری پھیلی۔
                تو گھر میں کون رہیگا تمھارا باپ؟۔۔۔ وہ پھنکارا تم گھر پہ رہو اور ہمارے آنے تک لنچ بنادو۔۔ رعونت سے کہہ کر وہ ناشتے میں مصروف ہوگیا۔
                الفاظ رفعت کے گلے میں ہی خشک ہوگئے۔۔۔ گھر کو لاک کر کے بھی تو جایا جا سکتا تھا لنچ آکے بھی تو بنایا جا سکتا تھا۔۔
                وہ ہونٹ سیتی بوجھل قدموں سے بیڈروم میں آگئی اور بیڈ کے کنارے ٹک گئی اس کے سامنے بیٹھنا مشکل لگ رہا تھا ورنہ وہ اس کے یا اس کے والدین پہ کوئی اور جملہ چست کر دیتا اور اس کا صبر بھی تمام ہو جاتا۔
                دل غبار آلود ہو رہا تھا وہ کتنی ہی دیر ایک ہی پوز میں بیٹھی رہی آنکھوں میں یاسیت اتر آئی تھی۔
                دل میں بغاوت بھرے خیالات سر اٹھانے لگے اگر وہ اس سے یوں نا انصافی کر سکتا تھا تو وہ بھی کر سکتی تھی ریحان کا چہرہ آنکھوں کے سامنے لہرایا تھا۔

                ریحان ٹیرس پہ کھڑا تھا ہاتھ سنگ مرمر کی ریلنگ پہ جمے ہوئے تھے آنکھیں گلی میں اچھلتے کودتے بچوں پہ تھیں جو ہر فکر سے آزاد کھیل رہے تھے۔۔۔
                یکلخت سامنے والے گھر کا دروازہ کھلا ریحان کی نگاہوں نےاس طرف پرواز کی تھی۔
                سلیمان ندا اور ماں کے ساتھ باہر آرہا تھا یہ لوگ کہیں جا رہے تھے ریحان کی آنکھوں میں سوچ کی پرچھائیں سی ابھری۔
                رفعت باہر نہیں آئی تھی ریحان نے اس کی ہلکی سی جھلک دیکھی وہ دروازہ بند کر کے واپس اندر کی طرف مڑ گئی تھی ریلنگ پہ اس کے ہاتھوں کی گرفت مضبوط ہوگئی۔
                دل بلیوں اچھلنے لگا تھا رفعت سے ملے دو ہفتے ہونے کو تھے پھر وہ اسکے قریب نہیں جا سکا تھا دور ہی دور سے اس کے خوبصورت چہرے کو نگاہوں کی آغوش میں بھرتا رہا تھا۔
                آج وہ اکیلی تھی گھر والے کہیں جا رہے تھے اس کے دل میں کسک سی جاگی اسے دیکھنے کی اس خوشبو کو محسوس کرنے کی جو اس کے بدن سے پھوٹتی تھی۔
                اس نے ہونٹ کاٹتے ہوئے بے اختیار خود کو کوسا دل میں امڈتے طوفان پہ بند باندھنے کی کوشش کی اور کمرے میں آکر بستر پر دراز ہو گیا۔
                بے چینی سی طاری ہورہی تھی دل تھا کہ اسے اکسا رہا تھا اس سمت جانے پہ آمادہ کر رہا تھا جہاں وہ ماہ جبین رہتی تھی۔
                کچھ دیر وہ یوں ہی بستر پہ دراز آنکھوں پہ کلائی رکھے لیٹا رہا اپنے آپ سے لڑتا رہا پھر اٹھ بیٹھا اور چھت پہ آگیا۔
                دونوں گھروں کے درمیان بمشکل چار فٹ کا فاصلہ حائل تھا جسے عبور کرنا کچھ مشکل نا تھا وہ ہونٹ بھینچے کھڑا رہا پھر طائرانہ نظروں سے ارد گرد دیکھا اطراف میں موجود گھروں کی چھتیں نظر آئیں وہاں کوئی بھی موجود نہیں تھا سب لوگ گھروں کے اندر تھے اس نے احتیاط سے ایک پیر اپنی طرف کی منڈیر پہ رکھا دوسرا سامنے کی دیوار پہ رکھا اور بے آواز چھت پہ اتر گیا۔
                پھر دھیمے قدموں سے چلتا سیڑھیوں کی طرف آیا اور اترنے لگا معلوم نہیں کہاں ہوگی وہ۔۔۔ اس نے سوچا سانس ہلکی سی بے ترتیب ہوئی تھی۔
                آرام آرام سے سیڑھیاں اترتا وہ نیچے آیا آخری سیڑھی پہ قدم رکھتے ہی کچن کی طرف سے مدھم آواز آئی تھی جیسے برتن رکھے گئے ہوں یا اٹھائے گئے ہوں اس گھر کا نقشہ اسے ازبر تھا۔
                آواز کا تعاقب کرتے ہوئے وہ کچن کی طرف آیا اور دروازے میں ہی رک گیا قدم جیسے تھم گئے تھے۔
                آنکھیں اس پہ جم گئیں وہ دوسری طرف منہ کئے کچن کاؤنٹر کے پاس کھڑی تھی اس کے ہاتھ چل رہے تھے شاید کچھ بنا رہی تھی۔۔
                وہ گرے کلر کی شارٹ شرٹ اور گھیرے دار شلوار پہنے ہوئے تھی دپٹا موجود نہیں تھا لمبے ریشمی بال پونی کی قید کاٹ رہے تھے۔
                اس نے ایپرن باندھ رکھا تھا جس کی گستاخ ڈوریاں اس کی موزوں کمر کو سختی سے جکڑے ہوئے تھیں اس کے سڈول کولہوں کے جان لیوا ابھار لباس کے اندر سے اپنی موجودگی کا پتہ دے رہے تھے ریحان کی آنکھیں گستاخیوں پہ اتر آئیں بے خود ہو کر وہ اس کی طرف آیا تھا۔
                اس کے عین پیچھے کھڑے ہو کر آہستہ سے اس کے گرد اپنے بازوؤں کا حصار قائم کر دیا۔
                رفعت جو اس کی موجودگی سے بے خبر تھی اس اچانک افتاد پہ حواس باختہ ہوئی تھی منہ سے ہلکی سی چیخ نکلی پھر تڑپ کر دور ہونا چاہا۔
                میں ہوں۔۔۔ ریحان نے اس کے کان کے پاس خمار آلود سرگوشی کی تھی۔
                ریحان۔۔۔ تت تم۔۔۔ رفعت کے ہونٹوں سے اتنا ہی نکل سکا اس کا وجود سن سا ہو گیا تھا اسے یہاں موجود پا کر۔
                ہاں۔۔۔وہ اس کی پشت کو سینے سے لگائے کھڑا تھا کمر پہ گرفت اب بھی قائم تھی ہونٹ اس کی گردن پہ رینگنے لگے۔
                چھوڑو مجھے پلیز۔۔۔ اس نے خود کو چھڑانے کی سعی کی دل جیسے سینے سے باہر آنے کو تھا۔
                ریحان میرا شوہر آجائیگا۔۔۔ اس نے جیسے التجا کی تھی وہ سلیمان سے نالاں تھی مگر خوفزدہ بھی۔۔
                کوئی نہیں آئیگا۔۔ میں نے انھیں جاتے ہوئے دیکھا تھا۔۔ آہستہ سے بولتا وہ اس کی گردن کا پور پور لبوں سے چھو رہا تھا ہاتھ اس کے ہموار پیٹ پہ جمے ہوئے تھے۔
                پھر اس کی قمیض اوپر کر دی اور دہکتے ہوئے ہونٹ عقب سے اس کی موزوں کمر پہ سفر کرنے لگے۔
                وہ یونہی اس کے نرم و نازک وجود کو بازوؤں میں اٹھا کے ڈرائینگ روم کے صوفے تک لایا تھا۔
                ڈرائینگ روم کا بڑا صوفہ ان دونوں کا بستر بن گیا سارے خیال رفعت کے ذہن سے اوجھل ہو گئے تھے شوہر نے جو خلا چھوڑا تھا اسے کوئی اور پر کر رہا تھا۔
                ریحان نے اسے صوفے پہ لا گرایا پھر اسے اپنے وجود سے ڈھانپ لیا وہ اس کے ہونٹوں کو باری باری اپنے ہونٹوں میں لے رہا تھا دونوں ہاتھ قمیض تلے اس کے جوان بدن سے گستاخیوں میں مصروف تھے رفعت کی حالت غیر ہونے لگی۔
                گھر میں ہر طرف سناٹا تھا بس ان دونوں کی بہکی بہکی سانسیں ماحول میں دھیما سا ارتعاش پیدا کر رہی تھیں ریحان اس کے سیمیں بدن کو نئے سرے سے دریافت کر رہا تھا۔
                ہاتھ اس کی گھیرے دار شلوار کی سلوٹوں میں الجھ گئے ہونٹ اس کے برہنہ پیٹ کے ذائقے چکھ رہے تھے اس کے بدن سے اٹھتی مہک اس کے حواس پہ چھا رہی تھی۔
                ریحان۔۔۔ رفعت سسکی۔
                آج نہیں۔۔۔ وہ ہاتھ اس کے سینے پہ رکھ کے دھکیلنے لگی یکایک عجیب سا خوف دل میں آ بیٹھا تھا دیکھ لئے جانے کا خوف۔۔۔ سلیمان کے آجانے کا ڈر وہ مضطرب ہوئی۔
                اسے خود سے دور کرنا چاہا ڈر تھا کہ اگر ابھی دور نا کیا تو طوفان سب بہا لے جائیگا۔
                ریحان نے سرخ خمار آلود نظروں سے اسے دیکھا۔
                آج نہیں پلیز۔۔۔ وہ ملتجی لہجے میں بولی۔
                ریحان نے گہری سانس لی پھر جھک کر اس کے لبوں کا طویل بوسہ لیا اور الگ ہونے لگا۔

                جاری ہے۔۔۔​

                Comment


                • Wah behtareen update rifhat ahista ahista line pa rahi ha lagta ha jald rehan ki qismat jald khulne wali ha

                  Comment


                  • بوہت عمدہ کہانی ہے ۔منا بھائی زبردست لکھ رہے ہو ۔

                    Comment


                    • شروع میں اُداسی پھر شہوت بھرا اختتام ،کمال کی اپڈیٹ جناب

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X