Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

صائمہ میری پڑوسن

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • Sensual Story صائمہ میری پڑوسن

    صائمہ میری پڑوسن

    دوستو آج میں آپ سے ایک بالکل سچی کہانی شیئر کرنے جا رہا ہوں۔ یہ کہانی میری آپ بیتی ہے۔ صرف میں نے کرداروں کے نام تبدیل کیے ہیں تاکہ راز رہ سکے۔ سب سے پہلے میں آپ کو اپنا تعارف کروا دیتا ہوں۔
    میرا نام حامد اور عمر 27سال ہے۔ ایک اچھے کھاتےپیتے گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں اور ایک اچھی یونیورسٹی میں پڑھا رہا ہوں۔ میرے والدصاحب پراپرٹی کا بزنس کرتے ہیں۔ اور اکثر دوسرے شہروں میں کاروبار کے سلسلے میں سفر پر رہتے ہیں۔ میں اپنی والدہ اور ایک بہن کے ساتھ رہتا ہوں۔ میری بہن مجھ سے بڑی ہے اور اُس کے خاوند کا انتقال ہو چکا ہے اور وہ ہمارے ساتھ ہی رہتی ہے۔ ہمارا گھر ایک بڑے شہر کے پوش علاقے میں ہے۔جہاں زیادہ تر امیر اور اپر مڈل کلاس کے لوگ رہتے ہیں۔
    تو دوستو قصہ کچھ یوں ہے کہ ایک دن میں اپنے معمول کے مطابق یونیورسٹی سے گھر آیا۔ گیٹ پر آ کر میں نے ہارن دیا چوکیدار نے گیٹ کھولا اور میں اپنی گاڑی پورچ میں لے گیا۔ پورچ میں گاڑی لاک کرنے لگا تھا کہ میں نے اندر سے ایک خاتون کو نکلتے دیکھا ۔ اس خاتون کو اس سے پہلے میں نے نہیں دیکھا تھا۔ بلکہ یوں کہنا بہتر ہوگا کہ اس قسم کی خوبصورت اور سیکسی عورت کو میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ میں سچ کہ رہا ہوں کیونکہ میں ایک بڑی یونیورسٹی میں پڑھا رہا ہوں اور وہاں ایک سے ایک خوبصورت لڑکی سے میرا واسطہ رہا ہے لیکن اس خاتون کی خوبصورتی اور سیکسی کشش کا ملاپ ہی کچھ ایسا تھا کہ میں کچھ دیر کے لیے اپنی جگہ پہ کھڑا ہی رہ گیا۔وہ دروازے سے نکلی اور پورچ میں میرے پاس آ کر لمحہ بھر کو رُکی اور مجھے سلام کیااور مین گیٹ کی طرف چل پڑی۔ میں اُس کے سراپے میں اتنا کھویا ہوا تھا کہ مجھے سلام کا جواب دینا تک یاد نہ رہا ۔
    اُس نے کالے رنگ کی سادہ سی شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی۔ جس میں اُسکا سُرخ و سفید چہرہ قیامت ڈھا رہا تھا۔ سر پر اُس نے سفید دوپٹہ اوڑھا ہوا تھا۔ کسی قسم کا میک اپ نہیں تھا صرف ہونٹوں پر ہلکے کلر کی لپ سٹک تھی جو اُس کے سیکسی ہونٹوں کو اور قیامت خیز بنا رہی تھی۔اُس جیسا سراپا میں نے آج تک نہیں دیکھا تھا۔اُس کےبالکل ٹائیٹ لباس میں اُسکے سینے کے گول اور عام سائیز سے کافی بڑے اُبھار بہت خوبصورت لگ رہے تھے۔ پیٹ بلکل ساتھ لگا ہوا۔ اور پچھلی سائیڈ بلکل گول اور تھوڑا سا باہر کو نکلی ہوئی اور اُس پر اُس کی قیامت خیز چال دیکھ کر میں اپنے حواس میں نہیں رہا تھا۔ اور ایک جگہ کھڑا بس اُس کو دیکھے جا رہا تھاجو کب کی گیٹ کراس کر کے جا چکی تھی۔ میں ہوش میں تب آیا جب میرے کانوں میں گیٹ کے بند ہونے کی آواز آئی۔ حواس میں آنے کے بعد میں نے محسوس کیا مجھے اپنی پینٹ تنگ محسوس ہو رہی تھی۔ جب غور کیا تو پتا چلا کہ میرا ہتھیار فل تیار ہو چکا تھا اور انڈروئیر پھاڑ کے باہر آنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔مجھے زندگی میں پہلی بارایسا محسوس ہواتھا کہ میرا ہتھیار صرف دیکھنے کی وجہ سے تیار ہو گیا ہو۔اُس کا جسم ہی کچھ ایسا تھا کہ صرف ایک نظر دیکھنےسے ہی میرا حال بُرا ہو رہا تھا۔
    خیر میں دوبارہ گاڑی میں بیٹھ گیا تاکہ میرا پینٹ کا اُبھار کچھ نارمل ہو جائے تو میں اندر جاوں ۔ کچھ دیر نارمل ہونے کے بعد میں اندر گیا۔ سٹنگ روم میں بہن چائے پرمیرا انتظار کر رہی تھی ۔ میں اُس کے پاس بیٹھ گیا اور چائے پیتے ہوئے میں نے اُس سے پوچھا کہ میرے اندر آتے ہوئےایک عورت باہر جا رہی تھی ۔ وہ کون ہے؟میں نے آج سے پہلے اُسے کبھی نہیں دیکھا؟اُس نے بتایا کہ یہ ہمارے محلے میں نئی آئی ہے۔ کافی غریب ہے ۔اس کا نام صائمہ {فرضی نام}ہے۔ آپ کے دوست سلیم کی والدہ نے ان لوگوں کو رہنے کے لیے اپنا سرونٹ کوارٹر دیا ہوا ہے۔ اس کا میاں ایک دوائیوں والی فیکٹری میں ڈرائیور ہے۔ دو بچے ہیں اور یہ لوگوں کے گھروں میں بیوٹی پارلر کا کام کرتی ہے۔ سلیم کی والدہ نے مجھے کہا تھا کہ اگر بیوٹی پارلر کا کوئی کام کروانا ہو تو اس کو بلا لیا کروں ایک تو کام کی ماہر ہے اور دوسرا اس غریب کی کچھ مدد ہو جائے گی۔ میں نے کہا کہ یہ تو کافی ینگ ہے لگتا نہیں کہ دو بچوں کی ماں ہے۔ بہن نے کہا کہ ہاں اسکی عمر 30 سال ہے مگر اس نے خود کو کافی سنبھال کر رکھا ہوا ہے۔ بچوں کو پڑھانے کے خاطر شہر میں شفٹ ہوئے ہیں۔ اور اُن کو خود پڑھاتی ہےاور سکول سے کبھی چٹھی نہیں کرنےدیتی۔ کافی اچھی اور اخلاقی عورت ہے۔ میری تو اس سے دوستی ہو گئی ہے۔یہ سُن کے مجھے اچھا لگا کہ چلو اس بہانے آئندا بھی اُس کو دیکھنے کا موقعہ ملتا رہےگا۔
    اس کے بعد صائمہ کا ہمارے گھر کافی آنا جانا شروع ہو گیا۔وہ اکژ اُس وقت آتی جب میں یونیورسٹی گیا ہوا ہوتا۔مگر کبھی کبھی شام کو بھی آ جاتی مگر تمام وقت وہ میری بہن کے ساتھ ہوتی اور مجھے اکیلے میں بات کرنے کا موقعہ نہیں ملتاتھا۔وہ جب بھی آتی میں جان بوجھ کر کسی بہانے سے اُس کےسامنے آتا مگر وہ صرف مجھے سلام کرتی اور میں جواب دے دیتا۔بہن کی موجودگی میں اُس سے کوئی بات نہیں کر سکتا تھا۔پھر ایک دن میں شام کو جم جا رہا تھا کہ راستے میں مجھے صائمہ نظر آئی وہ اپنے بچوں کے ساتھ گھر آ رہی تھی۔میں نے موقعہ غنیمت جان کر اُس کو سلام کیا اور پوچھا کہ وہ کہاں سے آ رہے ہیں؟ اُس نے کہاکہ بچوں نے نئے سکول بیگ کی فرمائش کی تھی وہ لینے گئےتھے۔مگر سکول بیگ تو کافی مہنگے ہیں میں ان کو کہ رہی تھی کہ یکم کو ان کے بابا کو تنخواہ ملے گی تو لے دیں گے۔ میں نے بچوں کو پیار کیا اور کہا ماشااللہ بھابی آپ کے بچے بہت پیارے ہیں۔ اُس نے شکریہ ادا کیا اور آگے بڑھ گئی۔
    میں جم کی طرف نکل پڑا۔ راستے میں مجھے ایک خیال آیا اور میں نے اپنارُخ کتابوں والی دکان کی طرف موڑ دیا۔ اچھی قسم اور نئے سٹال کے دو سکول بیگ خریدے اور گھر کی جانب واپس آ گیا۔بہن کو سارا واقعہ سنایا اور کہا کہ وہ یہ بیگ صائمہ کے حوالے کر دے۔وہ بہت خوش ہوئی اور اُس نے فون کر کے صائمہ کو اپنے گھر آنے کو کہا۔ وہ تھوڑی دیر بعد ہمارے گھر آ گئی ۔بہن نے دونوں بیگ اس کے حوالے کیے۔وہ اتنے شاندار بیگ دیکھ کے حیران ہو گئی اور خاموشی سے سوچنے لگی۔پھر اُس نے شکریہ کے انداز سے مجھے دیکھا اور کہا حامد صاحب آپ نے یہ تکلیف کیوں کی۔میرا دل اندر سے بہت خوش ہوا کہ اُس نے بھائی کہنے کی بجائے مجھے حامد صاحب کہا۔میں نے کہا کہ بھابی تکلیف کی کوئی بات نہیں وہ بہت پیارے بچے ہیں یہ بیگ دیکھ کر وہ بہت خوش ہوں گے۔ ہمارے گھر میں کوئی بچہ نہیں ہے۔ آپ اُن کو ہمارے گھر بھی لائیے گا۔اُن کو کسی بھی قسم کی کوئی ضرورت ہومجھے بتایا کریں مجھے خوشی ہوگی۔اور خاص نظروں سے اُس کی طرف دیکھ کر کہا کہ آپ ہمیں اجنبی نہ سمجھیں ہم آپ کے اپنے ہیں۔اپنی ہر ضرورت مجھے بتائیں مجھے آپ کے کام آ کر خوشی ہو گی۔اُس نے ایک مرتبہ پھر شکرگزار نظروں سے مجھے دیکھا اور کہا بچوں کے بابا آنے والے ہوں گے میں چلتی ہو ں اور حامد صاحب ایک دفعہ پھر آپ کا شکریہ۔میں نے کہ بھابی آپ کیوں مجھے شرمندہ کرتی ہیں۔ پلیز۔۔۔۔اور وہ چلی گئی۔
    اُس دن کے بعد پندرہ بیس دن وہ مجھے نظر نہیں آئی۔میں بہت پریشان تھا دل اُس کو دیکھنے کے لیے ترس گیا تھا۔ ہر وقت خیالوں میں وہ چھائی ہوئی تھی۔مگر میں کچھ کر نہیں سکتا تھا۔مگر اچانک خدا کو مجھ پر رحم آ ہی گیااوروہ رات آ گئی کہ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ پوری رات مجھے صائمہ کے ساتھ گزارنی پڑے گی اور وہ بھی ایسی رات کہ جس میں وہ سب کچھ ہو گیاجس کو میں صرف اپنے خوابوں اور خیالوں میں دیکھا کرتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔{جاری ہے}
    دوستو ۔۔ ہوا کچھ یوں کہ اُس شام میں جم سے واپس گھر آتے ہوئے یہی سوچ رہا تھا کہ کاش وہ آج پھر راستے میں مجھے مل جائے تو دل کو کچھ سکون میسر ہو مگر وہ راستے میں کہیں نظر نہ آئی ۔ اُس کی سوچوں میں گم اپنے گھر میں داخل ہو ا تو میری خوشی کی انتہا نہ رہی یہ دیکھ کر کہ وہ سٹنگ روم میں میری بہن کے پاس بیٹھی تھی میں نے سلام کیا وہ کھڑی ہو گئی اور سلام کا جواب دیا۔ وہ سادے سے انتہائی ٹائیٹ سفید سوٹ میں ملبوس ایک سیکس بم لگ رہی تھی مگر تھوڑی سی پریشانی اس کے سرخ و سفید چہرے پر نظرآ رہی تھی۔ اُس کا سراپا دیکھ کر مجھے خطرہ محسوس ہوا کہ پھر سے میرا ہتھیار تیار نہ ہو جائے کیونکہ میں نے ٹی شرٹ اور ٹراوزر پہنا ہوا تھا اگر وہ کھڑا ہو جاتا تو کافی شرمندگی ہو سکتی تھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ ہتھیار نے انگڑائی لی اور میں نے وہاں سے بھاگنے میں غنیمت جانی۔اُن کو کہا کہ میں زرا شاور لے کر آتا ہوں اور کمرے کی طرف چل پڑا۔مگر دل وہاں سے آنے کو نہیں چاہ رہا تھا ۔ اِس دوران میرالن فل کھڑا ہو چکا تھا۔میں آدھی سیڑھیاں چڑھ کر رُک گیا۔ وہاں سے صائمہ مجھے صاف نظر آ رہی تھی ۔یہاں سے میں ان دونوں کو دیکھ سکتا تھا مگر وہ مجھے نہیں دیکھ سکتی تھیں۔کیونکہ درمیان میں کلرڈ شیشہ تھا۔میرا لن فل تنا ہوا تھا اور میرا ٹراوزر ایک ٹینٹ کا منظر پیش کر رہا تھا۔ میں نے وہاں کھڑے ہو کر ٹراوزر میں ہاتھ ڈالا اور صائمہ کو دیکھتے ہوئے لن کو سہلانا شروع کر دیا۔یہ میری زندگی کا پہلا موقعہ تھا کہ کسی عورت کو دیکھ کر میں یہ کام کر رہا تھا۔کیونکہ وہ تھی ہی ایسی کہ اُس کے فل تنے ہوئے گول گول ایکسٹرا لارج ممے مجھے صاف نظر آ رہے تھے اور مجھ سے کنٹرول نہیں ہو رہا تھا۔اس دوران میں نےیہ محسوس کیا کہ اُن دونوں کے درمیان کسی بات پر کافی بحث چل رہی ہے۔پھر میں نے دیکھا کہ میری بہن نے اُس کو کسی بات پر راضی کر لیا اور اُٹھ کر میری طرف آنے لگی۔ میں بھاگ کر سیڑھیاں چڑھااور اپنے کمرے کے باتھ روم میں گھُس گیا۔کچھ دیر بعد مجھے اپنے کمرے سے بہن کی آواز آئی کہ بھائی شاور لے کر جلدی نیچے آ جاو میں نے ضروری بات کرنی ہے۔میں نے کہا کہ اوکےآتا ہوں۔میں شاور لے کر اورکپڑے پہن کر نیچے آ گیا۔ صائمہ ابھی بھی بیٹھی ہوئی تھی۔بہن نے بات شروع کی کہ بھائی صائمہ کو ایک مسئلہ درپیش ہے آپ نے اسکی مدد کرنی ہے۔میں نے کہا کہ بتائیں ضرور کریں گے۔بہن نے کہا کہ صائمہ تم خود بتاو میں چائے بنا کر لاتی ہوں۔
    بہن کے جانے کے بعد میں نے کہا کہ بھابی آپ کھل کر بتائیں کیا مسئلہ ہے؟
    صائمہ نے کہاکہ پچھلے دنوں بچوں کو سکول سے چھٹیاں تھیں تو میرے شوہرامجدنے بھی ایک ہفتہ کی چھٹی لی اور ہم لاہور اپنی امی کے پاس رہنے کے لیے چلے گئے۔ ہفتہ بعد جب واپسی کا پلان بنا تو بچوں کے کہا کہ ہماری ایک ہفتہ اور چھٹی ہے ہم یہیں رہ جاتے ہیں۔توامجدنے کہا کہ ٹھیک ہے ہم جاتے ہیں بچوں کو میں اگلے ہفتے آ کر لے جاوں گا۔ ہم دونو ں واپس آ گئے۔آج امجد نے اُن کو لینے جانا تھا مگر اُس کی کمپنی سے کال آ گئی کہ کراچی کسی ڈیوٹی پر جانا ہے۔ وہ پندرہ دن کے لیے کراچی جا رہا ہے اور بچوں کے سکول پیر سے کھل رہے ہیں۔ بچوں کو اگر نہ لایا تو اُن کی پڑھائی کا بہت نقصان ہو گا۔ میں نے کہا کہ مجھے بتاو کہ میں اس سلسلے میں کیا کر سکتا ہوں؟
    تو صائمہ تھوڑا خاموش ہو گئی۔ میری بہن جو چائے لیکر آ چکی تھی وہ بولی کہ بھائی صائمہ آپ کوتکلیف دینا نہیں چاہتی یہ نہیں مان رہی تھی میں نے اس کو راضی کیا ہے۔ تو بھائی آپ پلیز لاہورسےاس کے بچوں کواپنی گاڑی پر واپس لے آئیں۔
    میں نے کہا کہ جانا کب ہے۔ اُس نے کہا کہ کل صبح آپ جائیں اور شام تک واپس آ سکتے ہیں۔ میں نےکہا کہ کل تو میں نے کچھ سٹوڈنٹس کو ٹائم دے رکھا ہےہاں یہ ہو سکتا ہے کہ ابھی رات کو میں نکل جاوں اور صبح تک بچوں کو لے کر آ جاوں۔میری بہن نے کہا کہ ٹھیک ہے کیوں صائمہ تم کیا کہتی ہو؟ صائمہ نے کہا جیسے آپ کی لوگوں کی مرضی۔۔۔
    اس پر میں نے موقعہ غنیمت جاناکہ اس طرح میں صائمہ کا فون نمبر لے سکتاہوں اور کہا کہ صائمہ بھابی آپ مجھے اپنی امی کا لاہور کا ایڈریس ، اُن کا فون نمبر اور احتیاط کے طور پر اپنا موبائل نمبر دے دیں اور اپنی امی کو فون کر دیں کہ وہ بچوں کو میرے ساتھ بھیج دیں۔
    پھر میں نے اپنی بہن سے کہا یہاں سے لاہور کا سفر 5 گھنٹے کا ہے بابا آج کل گھر میں ہیں اگر میں بابا کی لینڈکروزر لے جاوں تو یہ سفر 4 گھنٹے میں طے ہو سکتا ہےلیکن وہ اپنی گاڑی دینے پر راضی ہو جائیں تو زبردست ہو جائے میں رات کو ہی بچوں کو لے آوں گا۔اور صبح واپس آ سکتا ہوں۔ یہ سُن کر میری بہن نے کہا اُن کو راضی کرنا میری ذمہ داری ہے۔ آپ تیاری کریں۔
    صائمہ کچھ پریشان نظر آ رہی تھی۔ میں نے پوچھا کہ اب کیوں پریشان ہیں۔بچے صبح آپ کے پاس ہوں گے۔ اُس نے کہا یہ بات نہیں۔میں سوچ رہی ہوں کہ میری امی کا گھر اندرون لاہور میں ہے جہاں بہت تنگ گلیاں ہیں۔ وہاں گاڑی نہیں جاسکتی۔اوروہ بیمار بھی ہیں ہو سکتاہے وہ رات کے اُس پہر فون نہ اٹھا سکیں پھر آپ کیا کریں گے۔اور میں یہاں سے آپ کو گلیوں کا راستہ بھی نہیں سمجھا سکوں گی۔یہ سُن کر ہم سب چپ ہو گئے۔ میری بہن نے خاموشی توڑی اور کہا اس کا بہت آسان حل ہے ۔ہم دونوں ایک ساتھ بولے کہ وہ کیا؟ جس سے ہم دونوں کی ہنسی بھی نکل گئی۔ صائمہ ہنستے ہوئے بہت
    خوبصورت لگ رہی تھی۔
    میری بہن نے میرے دل کی بات بول دی۔ اس نے کہا کہ صائمہ آپ خود بھائی کے ساتھ چلی جاو اور بچوں کو لےآو۔
    صائمہ ایک دم چونک سی گئی۔ اس کے منہ سے بے اختیار نکلا۔ "میں اکیلی"۔تو بہن نے کہا کہ تم اکیلی کہاں ہو بھائی ہے نا تمہارے ساتھ۔صائمہ نے کہا "لیکن" اور چپ ہو گئی۔ میری بہن نے کہا لیکن ویکن کچھ نہیں۔ بس تم جا رہی ہو بھائی کے ساتھ۔ بھائی تمہیں کھا تو نہیں جائے گا۔میں بابا سے اُن کی گاڑی کی چابی لینے جا رہی ہوں تم دونوں تیاری کرو۔بہن کے جانے کے بعد میں نے صائمہ سے پوچھا کہ کہ میری بہن نے فیصلہ تو سُنا دیا مگر یہ بتائیں کہ امجد بھائی کو برُا تو نہیں لگےگا کہ آپ اکیلی میرے ساتھ جا رہی ہیں۔اس بات سے میں نے محسوس کیا صائمہ کے چہرے پر غصہ کے آثارتھے مگر اُس نے کنٹرول کر لیا اورعجیب سی بات کہی کہ وہ بُرا ماننے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔فیصلہ میرا ہی ہوتا ہےمیں آپ کے ساتھ جاوں گی۔ یہ کہ کر وہ کھڑی ہو گئی ۔ میں نے کہا پھر بھی اُن سے پوچھ لیں۔اُس کے چہرے پر پھر غصہ نمودار ہوا اوراُس نے کہا کہ اُن کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ میں تیار ہو کر آتی ہوں ہاں اگر آپ کو میری بات پر شک ہے تو واپسی پر امجد کو ساتھ لے آتی ہوں آپ خود اُس سے پوچھ لیجیے گا۔مجھے کچھ حیرت ہوئی اور محسوس ہوا کہ اُن کی ازدواجی زندگی کچھ بہتر نہیں ہے۔ بہرحال میرا دل اندر سے خوشی سے پاگل ہوا جا رہا تھا۔
    اتنے میں میری بہن لینڈکروزر کی چابی لیکر آ گئی اور کہا کہ بابا کہ رہے ہیں کہ موٹروے سے جائے اور گاڑی احتیاط سے چلائے۔اور میں کہ رہی ہوں کہ میری سہیلی کا خیال رکھنا۔میں ہنس پڑا اور کہا۔فکر نہ کریں میں اُس کوبلکل بھی نہیں کھاوں گا۔اور ہم دونوں ہنس پڑے۔
    اتنے میں دروازے سے صائمہ نمودار ہوئی اور اُس کے پیچھے امجد بھی تھا۔ امجد کو دیکھ کر مجھے حیرت کا جھٹکا لگا۔ صائمہ جتنی خوبصورت تھی امجد اُتنا ہی عجیب سی شکل وصورت کا آدمی تھا۔بلکل دبلاپتلا کمزور جسم بہت چھوٹاسا قداور کالے رنگ کا مالک تھا۔ عمر میں بھی وہ صائمہ سے بہت بڑا لگ رہا تھا۔وہ دونوں صوفے پر بیٹھ گئے۔ صائمہ نے اس سے ہمارا اور ہم سے اُسکا تعارف کروایا۔ وہ اپنے گھر سے اُس کو تمام بات بتا کر لائی تھی۔ لہذا سب سے پہلے امجد بولا کہ حامدبھائی میری ایمرجنسی میں ڈیوٹی لگ گئی ہے میں نے تو اس کو کہا ہے میں 15 دن بعد آ جاوں گا اور بچوں کو لے آوں گا مگر یہ کہتی ہے بچوں کے پڑھائی کا بہت نقصان ہو گا۔آپ کو خواہ مخواہ تکلیف دے رہی ہے۔میں نے کہا کہ امجدصاحب تکلیف کی کیا بات ہے۔ اور پڑھائی تو ضروری ہے اگر اس عمر میں بچوں کو چھٹی کی عادت پڑ گئی تو ساری عمر نہیں پڑھ سکیں گے۔ آپ میری فکر نہ کریں ۔میں تو اکیلا جا رہا تھا مگر صائمہ بھابی نے کہا مجھے انکی امی کا گھر ڈھونڈنے میں مشکل پیش آئے گی۔میں اتنا کہ کر چپ ہو گیا۔اس پر امجد بولاجی بلکل ٹھیک کہ رہی ہے وہ گھر جس جگہ ہے دن کی روشنی میں بھی ملنا مشکل ہے اور آپ تو رات کو جا رہے ہیں یہ ساتھ ہو گی تو آپ مشکل سے بچ جائیں گے۔ اس پر صائمہ بولی کہ 9 بج رہے ہیں ابھی ہمیں نکلنا چاہیے۔میں نے کہا کہ آپ لوگ 5منٹ دیں میں کپڑے تبدل کر لوں پھر چلتے ہیں ۔ اس پر صائمہ نے کہا کپڑے تو میں نے بھی تبدیل کرنے ہیں میں بھی گھر سے ہو کر ابھی آتی ہوں۔امجد نے کہا کہ میں چلتا ہوں فیکٹری جا رہا تھا کہ صائمہ آپ کے پاس لے آئی۔ میں نے پوچھا کہ آپ کونسی فیکٹری میں کام کرتے ہیں اُس نے جو نام اور ایڈریس بتایا وہ ہمارے راستے میں پڑتا تھا تو میں نے کہا آپ ویٹ کریں ہم جاتے ہوئے آپ کو ڈراپ کر دیں گے۔اس نے اوکے کہا اور بیٹھ گیا۔ میں اپنے کمرے میں چلا گیا۔
    ایک اچھاسا ڈریس پہنا۔ اپنا فیورٹ پرفیوم کا سپرے کیا۔موبائل اور چابی اُٹھائی اپنے پرس کو چیک کیا اچھی خاصی رقم موجود تھی مگر احتیاط کے طور پر اُس سے ڈبل رقم اپنی دوسری جیب میں رکھی۔نکلنے لگا تھا کہ مجھے ایک چیز یا د آئی میں نے اپنا سیکرٹ دراز کھولا اور اپنے دوست کا دیا ہو تحفہ باہر نکالا جوکافی عرصہ پہلے مجھے فارن ملک سے آئے ہوئے ایک دوست نے دیا تھا۔یہ خاص کنڈوم کاپیکٹ تھا جس کی مجھے کبھی ضرورت نہیں پڑی تھی اُس نے مجھے یہ دیتے ہوئے یہ کہا تھا کہ یہ خاص قسم کا کنڈوم ہے اس کو اُس وقت پہننا ہے جب تمہارا لن فل تنا ہوا ہو۔ یہ 5 منٹ کے اندر اندر تمہارے لن کی جلد کو سُن کر دے گا۔ 5 منٹ کے بعد تم نے اندر ڈالنا ہے جب جلد سُن ہو گی تو رگڑ نہیں محسوس ہو گی اور تم فارغ نہیں ہو گے۔ یہ کنڈوم تمہیں کم از کم 30 منٹ تک فارغ نہیں ہونے دے گا۔اُس کے بعد اس کا اثر ختم ہو جائے گا اور تمہارا اپنا ٹائم شروع ہو گا۔اور اُس کے بعد جب تک تمہاری طاقت ہو۔
    میں نے کنڈوم کا پیکٹ بھی جیب میں رکھ لیا کہ ہو سکتا ہے صائمہ جی کو مجھ پر رحم آ ہی جائے۔
    خیر میں تیار ہو کر نیچے آیا تو اُسی وقت صائمہ بھی اندر داخل ہوئی۔ خوبصورت تو وہ ہمیشہ سے تھی مگر آج قیامت ڈھا رہی تھی۔ اُس نے پیلے رنگ کی انتہائی ٹائیٹ قمیض پہنی تھی جس پر کالے دائرے بنے ہوئے تھے اور شلوار کالے رنگ کی تھی۔ مجھے لگ رہا تھا کہ اُس نے برا بھی انتہائی پتلی اور ٹائیٹ پہنی تھی کیونکہ اس کے گول نپلز کے ابھار بھی واضع نظر آ رہے تھے۔ میں نے اُس کو دیکھتے ہی کہاکہ اب بیٹھنا نہیں ہے چلیں کا فی دیر ہو چکی ہے۔ تو وہ میری بہن کے ساتھ ہمارے آگے آگے پورچ کی طرف چل پڑی ۔ صائمہ کو پیچھے سے دیکھ کر کنٹرول کرنا انتہائی مشکل ہو رہا تھا کیونکہ اُس کی قمیض کی لمبائی چھوٹی رکھی گئی تھی۔ جس کی وجہ سے اُس کی گول گول گانڈ آج کچھ زیادہ ہی باہر کو نکلی ہوئی دکھائی دے رہی تھی۔مجھے لگ رہا تھا کہ وہ خود ذہنی طور پر مجھ سے چدوانے کے لیے تیار ہو کر آئی ہے ۔ بہرحال یہ میرا وہم بھی ہو سکتا تھا۔میں نے لینڈکروزر کے دروازے کھولے اور امجد میرے ساتھ والی سیٹ پر اور صائمہ پیچھے والی سیٹ پر بیٹھ گئی۔ میں نے گاڑی سٹارٹ کی اور ہم نکل پڑے۔۔۔۔۔۔۔۔ (جاری ہے)
    میں نے اپنا بیک ویو مرر ایسا سیٹ کیا کہ مجھے صائمہ کا پورا چہرہ دکھائی دیتا رہے۔مجھے محسوس ہوا کہ اُس کے چہرے پر غصہ کے تاثرات تھے۔ مجھے ایسا لگا کہ شائد اُس کو میرا امجد کو ساتھ لانا بُرا لگاہے۔خیر میں نے اےسی بھی سٹارٹ کیا اور بہن جو ابھی تک پورچ میں کھڑی تھی اس کو خداحافظ کہ کر گاڑی روڈ پر لے آیا۔ اور امجد سے ہلکی پلکی گپ شپ لگانے لگا۔میں نے محسوس کیا کہ امجد کے ہاتھ ہلکے ہلکے کانپتے ہیں۔ وہ شخص مجھے جسمانی طور پر کافی کمزور اور لاغر لگ رہا تھا۔ اور ساتھ ہی مجھے صائمہ پر ترس بھی آ رہا تھا کہ وہ اتنی خوبصورت ہونے کے باوجود اس جیسے انسان کے ساتھ زندگی گزار رہی تھی۔جو شاید اُس کی جسمانی ضرورت پوری کرنے کےبھی قابل نہیں تھا۔میں انہی سوچوں میں گم تھا کہ امجد نے کہا کہ اگلے چوک کے پاس مجھے اُتار دیجیے گا وہاں سے اُس کی فیکٹری قریب ہی ہے۔ اب تک صائمہ نے غصے میں بالکل خاموشی سے سفر کیا تھا اور ایک لفظ بھی نہیں بولا تھا۔
    اگلے چوک پر پہنچ کرمیں نے گاڑی روکی اور امجد نیچے اُتر گیا۔اُترتے ہوئے وہ صائمہ کی طرف دیکھ کر بولا امی کو میرا سلام کہنا اور بچوں کا خیال رکھنا میں دو ہفتے تک آ جاوں گا۔ جس پر صائمہ نے بدستور غصے میں جواب دیا کہ تمہیں زیادہ فکر کی ضرورت نہیں میں تم سے ذیادہ خیال رکھ لو ں گی۔اس پر امجد نےمسکرا کر میری طرف دیکھا اور بولا ابھی تک غصہ میں ہے۔ اور گاڑی کا دروازہ بند کر دیا۔ میں نے گاڑی اگے بڑھا دی۔اب میں گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا اور صائمہ پیچھے بیٹھی باہر دیکھ رہی تھی۔کبھی کبھی وہ آگے دیکھ لیتی جہاں شیشے میں اُسکی اور میری نظر ٹکرا جاتی اوروہ پھر سے باہر دیکھنا شروع کر دیتی۔ اُس کے چہرے پر ابھی بھی ہلکے ہلکے غصے کے تاثرات باقی تھے۔
    میں سوچ رہا تھا کہ موٹروے پر جانے سے پہلے مجھے گاڑی میں فیول فل کروا لینا چاہیے۔ اور دوسری سوچ یہ تھی کہ کس طرح سے میں صائمہ کو اپنے ساتھ فرنٹ سیٹ پر آنے کے لیے کہوں۔ کہیں وہ مزید غصہ ہی نہ کرے۔ پھر سوچا کہ میں اُس کے کام سے ہی جا رہا ہوں میرا کوئی ذاتی کام تو نہیں تھا اُس کو میرے اوپر غصہ تو نہیں کر نا چاہیے۔ یہ سوچ کر میں نے گاڑی ایک بڑے پیٹرول پمپ پر روکی ۔ لڑکے کو ٹینک فل کرنے کا کہا اور خود ساتھ بنی ٹک شاپ سے کچھ کولڈڈرنک اور کھانے کی چیزیں لے آیا ۔ پچھلا دروازہ کھول کر چیزیں صائمہ کے ساتھ رکھیں اور کولڈڈرنک اپنی سیٹ کے ساتھ فریزر میں رکھ دیں۔ ٹینک فل ہو چکاتھا۔فیول کی پیمنٹ کی اور گاڑی سٹارٹ کر کے آگے بڑھا دی۔
    موٹر وے ٹول پلازہ سےکچھ پہلے میں نے ہمت کرکے اُس کو مخاطب کیا اور کہا کہ صائمہ بھابی ایک بات کہوں آپ مائنڈ تو نہیں کریں گی۔ اُس نے شیشے سے میری طرف دیکھا اور کہا نہیں کہیے۔میں نے کہا کہ اس طرح ہم دونوں چپ رہے تو یہ چار گھنٹے کا سفر کیسے گزرے گا۔آپ مائنڈ نہ کریں تو اگلی سیٹ پر آ جائیں کچھ گپ شپ کریں گے تو سفر اچھا گزرے گا۔
    اس پر تھوڑی دیر تو کچھ جواب نہ آیا پھر اُس نے تھوڑا مسکرا کر کہا۔ کہ شکر ہے حامد صاحب آپ کو بھابی کا بھی خیال آیا۔مجھے اُس کی بات سُن کے حیرت کا ایک جھٹکا لگا۔اور میں نے گاڑی سڑک کے ایک سائیڈ پر روک لی۔ اور پیچھے کی طرف مڑ کر پوچھا۔بھابی اس بات سے آپ کا کیا مطلب ہے؟ اُس نے
    کہاکہ میں دیکھ رہی تھی جناب آج اُس کالے گٹھے{امجد}کو زیادہ ہی پرٹوکول دے رہے تھے ۔آپ کو کیا ضرورت تھی اُس کو ساتھ لانے کی؟اور اُس کو اپنے ساتھ بٹھا لیا اور مجھے پچھلی سیٹ پر پھینک دیا۔اُس کا چہرہ ایک بار پھر غصے سے سرخ ہو رہا تھا۔میں حیرت سے اُس کو دیکھ رہا تھاکہ ایک بیوی جس کی شادی کو دس سال ہو چکے ہوں اور دو بچے بھی ہوں اپنے شوہر کے بارے میں ایسا سوچ رہی تھی۔ میں تھوڑی دیر تو سوچتا رہا کہ میں کیا کہوں۔ میں نے کہا کہ بھابی آپ یہ کیا کہ رہی ہیں۔ امجد آپ کا شوہر ہے۔ آپ کو اُس کے بارے میں ایسی بات کرنا زیب نہیں دیتا۔ اس پر اُس نے بدستور غصے میں کہا کہ نفرت ہے مجھے ایسے شوہر سے جس نے میری زندگی کو برباد کر کے رکھ دیاہو۔ میرے بچے نہ ہوتے تو میں اس کوکبھی کا چھوڑ کر جا چکی ہوتی۔مگرجاتی بھی کہاں میرا تو کوئی بھی نہیں ہے ایک ماں ہے وہ بھی بیمار پڑی ہے۔ میں کہاں جاوں کس کو اپنا دکھڑا سناوں۔
    یہ کہ کر وہ رو پڑی موٹے موٹے آنسو اُس کے خوبصورت گالوں پر بہہ نکلے۔ میں پریشان ہو گیا۔اور سوچنے لگا کہ اس بات کو کیسے سنبھالوں۔ پھر کچھ سوچ کر میں نے ٹشو پیپر کاڈبہ اپنے ڈیش بورڈ سے نکالا اور نیچے اُتر کے پچھلی سیٹ کا دروازہ کھولا اور اُ س کے ساتھ بیٹھ گیا۔وہ ہاتھوں سے اپنے آنسو صاف کر رہی تھی ۔ میں نے اُس کو ٹشو پکڑایا اور اُس کے مزید قریب ہو گیا۔ میں نے کہا بھابی اب رونا تو بند کریں اس طرح میں بھی پریشان ہو گیا ہوں۔ میں آپ کو روتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا۔اور نہ اس حالت میں آپ کو لاہور تک لے کے جا سکتا ہوں۔
    اُس نے چونک کر مجھے دیکھا اور کہا نہیں لاہور تو ضرور جانا ہے بچوں کی پڑھائی کا بہت نقصان ہوگا۔ میں نے کہا تو پھر آپ آنسو صاف کریں اور اپنا موڈ ٹھیک کریں۔پھر چلتے ہیں۔ ساتھ ہی میں نے تھوڑا سا آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا اور آہستہ سے اُس کے نرم ہاتھ کو پکڑااور بولا۔ جہاں تک بات ہے کہ آپ کا کوئی نہیں تو یہ بات آج کے بعد آپ نہ بولیے گا۔ آپ مجھ پر اعتماد کریں یا نہ کریں میں اپنی طرف سے آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں ہر اچھے یا بُرے حالات میں آپ کے ساتھ ہوں۔ اب حیران ہونے کی اُس کی باری تھی وہ مجھے حیرانگی سے دیکھے جا رہی تھی۔تھوڑا سا خاموش رہنے کے بعد وہ مجھ سے بولی کیا واقعی آپ سچ کہ رہے ہیں۔
    آپ میرے دوست بنیں گے۔
    ہاں ضرور بنوں گا۔
    میرا ساتھ دیں گے۔
    ہر حالت میں دوں گا۔۔۔
    کیامیں آپ سے اپنی ہر بات شیئر کر سکتی ہوں۔۔۔۔
    جی بلکل ۔۔۔۔
    میرے راز کو راز رکھ سکیں گے۔ ۔۔۔
    اپنی جان سے زیادہ آپ کے راز کی حفاظت کروں گا۔۔۔۔۔۔
    تو پھر میری اور آپ کی دوستی پکی ۔۔۔۔
    جی بلکل موٹروے کی طرح پکی۔۔۔اوروہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔
    ٹھیک ہے پھر ملاو ہاتھ۔۔
    آپ کا ہاتھ تو پہلے ہی پکڑا ہوا ہے اور کیسے ہاتھ ملاوں۔۔ وہ پھر سے ہنس پڑی اور کہا کہ ایسے۔۔
    اور میرے ہاتھ کو سیدھا کیا اور ہم دونو ں نے ایک دوسرے سے مصافحہ کرنے کے انداز میں ہاتھ ملایا۔اورمیں نے کہا بھابی جی پہلے ہی آپ کے رونے دھونے کے چکر میں کافی لیٹ ہو چکے ہیں۔ اب مہربانی کر کے آگے آ جائیں تاکہ سفر شروع کیا جا سکے۔ تو اُس نے انکار کر دیا۔میں نے اپنے
    سرپر ہاتھ مارا اور کہا اب کیا ہو گیا۔ اُس نے کہا کہ جب ہم دوست بن چکے ہیں تو بھابی کیوں کہ رہے ہو صرف میرا نام لو گے تو آوں گی۔میں نے کہا اوکے۔۔اور میں اپنے دروازے سے نیچے اُترا اور دوسری طرف سے گھوم کر اُسکا دروازہ کھولا اور بولا۔۔۔ صائمہ جلدی سے نیچے اترو اور اگلی سیٹ پر بیٹھوورنہ میں خود تمہیں اُٹھا کر اگلی سیٹ پر پھینک دوں گا۔ وہ دوبارہ قہقہہ لگا کر ہنس پڑی ۔اور بولی اوکے نہیں اُترتی خود اُٹھا کر اگلی سیٹ پر پھینک دو۔۔۔میں اُس کی اس اچانک بے تکلفی پر حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکا اور اُس کو اُٹھانے کے لیے آگے بڑھا۔تو وہ ایک دم گبھرا گئی اور بولی اوکے اوکے آتی ہوں راستہ تو دو۔۔ میں پیچھے ہٹ گیا۔ وہ اتری اور واقعی اُچھل کر اگلی سیٹ پر بیٹھ گئی۔میں اپنی سیٹ پر آیا اور گاڑی سٹارٹ کی اور ہم چل پڑے۔ بابا کی گاڑی ہمیشہ سے میری فیورٹ رہی تھی بہت پاورفل انداز میں موٹروے پر تیرتی ہو جا رہی تھی۔ کافی دیر تک ہمارے درمیان خاموشی رہی۔پھر آخرکار اُس نے خود خاموشی کو توڑا اور کہا کہ
    کیا سوچ رہے ہو؟
    جوسوچ رہا ہوں اگر بتا دوں تو تم پھر رونا شروع ہو جاو گی۔۔۔ وہ مسکراپڑی اور کہا کہ نہیں رووں گی بتاو۔۔۔
    وعدہ۔۔۔
    پکا وعدہ۔۔۔
    امجد سے اتنی نفرت کی وجہ کیا ہے شکل وصورت تو خدا نے بنائی ہےتمہیں خوبصورت بنا دیا اور اُس کو بدصورت اس میں اُس کا کیا قصور ہے۔۔
    میں نے کب کہا کہ میں بدصورتی کی وجہ سے اُس سے نفرت کرتی ہوں۔۔۔
    پھر کس وجہ سے کرتی ہو؟
    اور بھی بہت سی وجہیں ہوتی ہیں۔۔۔
    تو بتاونا کیا وجہ ہےکیا مجھ پر ابھی اعتماد نہیں کیا تم نے۔۔۔
    نہیں یہ بات نہیں ہے۔ ۔۔
    تو پھر بتاو جب ہم دوست ہیں تو پھر شرماناکیسا؟
    تمہاری شادی نہیں ہوئی اس لیے تم نہیں سمجھ سکتے۔۔۔۔
    تو سمجھاو نا۔۔۔۔
    یارشکل وصورت کے علاوہ میاں بیوی کی کچھ ضرورتیں ہوتی ہیں جب وہ درست طریقے سے پوری نہ ہو سکتی ہوں تو نفرتیں ہی جنم لیتی ہیں۔۔۔۔
    کون سی ضرورت اُس نے پوری نہیں کی اُس نے ؟
    یار تم نہیں سمجھ سکتے کوئی اور بات کرو۔۔۔۔
    میں نے اُ س کی طرف دیکھا اور بولا۔ صائمہ جی میری عمر لگ پھگ 27 سال ہے اور میں یونیورسٹی میں لیکچرار ہوں۔میری یونیورسٹی میں 18 سے 58 سال عمر تک کے سٹودنٹس ہیں۔ اور میں کونسلنگ ٹیم کا ممبر بھی ہوں۔ یہ الگ بات ہے میری شادی کسی وجہ سے نہیں ہوئی لیکن میں ازدواجی تعلقات میں ایک شادی شدہ انسان سے زیادہ معلومات رکھتا ہوں۔ میں صرف تمہارے منہ سے سننا چاہ رہا تھا ورنہ مجھے امجد صاحب کو دیکھتے ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ آپ لوگوں کی سیکس لائف ٹھیک نہیں ہے۔ اور اُس کہ وجہ امجد صاحب ہیں اور باقی تمہارے اُن کے ساتھ رویے نے میرا اندازہ یقین میں بدل دیا۔امجد صاحب اس وقت تمہاری سیکس ڈیمانڈ کو پورا نہیں کر پا رہے۔جس کی وجہ سے تم میں زیادہ غصہ پایا جاتاہے۔ اور تمہیں ان کو دیکھتے ہی غصہ آ جاتا ہے۔کیا میں ٹھیک کہ رہا ہوں میڈم؟۔۔۔وہ حیرانی سے میرے منہ کی طرف تک رہی تھی۔ اور پھر اُس نے خاموشی سے سر ہلا دیا اور کہا کہ تم درست کہ رہے ہو۔ آج میرے خیال کے مطابق 3 مہینے ہو چکے ہیں ہمیں سیکس کیے ہوئے۔اب وہ کھل کر بات کر رہی تھی اور میں یہی چاہتا تھاکہ وہ اپنی دل کی بھڑاس نکال دے۔۔۔
    وہ کہ رہی تھی کہ۔ 3 مہینے پہلے بھی جو سیکس ہوا تھا وہ 6 مہینے بعد ہوا تھا اور ہوا بھی کیسے کہ امجد کے دوست کے بیٹے کی شادی تھی وہ اُس دن شراب پی کر آیا تھا۔ بچے سوئے ہوئے تھے ۔ شراب کے نشے میں اُس نے مجھے پکڑ لیا۔ اپنے بیڈ پر لے گیا۔میری قمیض اُتار کر کافی دیر میرے مموں پر منہ مارتا رہا اور دانتوں سے کاٹتا رہا۔ میں فل گرم ہو چکی تھی مگر اُس کا لن کھڑا نہیں ہو رہا تھا۔اُس نے کافی کوشش کی مگر بیکار۔۔ میں چونکہ فل گرم ہو چکی تھی اور مجھے لن چاہیے تھا میں نے اُسکا لن ہاتھ میں لے کر کافی مالش کی مگر وہ کھڑا نہیں ہوا۔ میں نے تنگ آ کر اُس کا لن اپنے منہ میں لے لیا اور چوپے لگانے لگی۔یہ کام میں پہلی دفعہ اُس کے ساتھ کر رہی تھی اس لیے مجھے اُس کےلن میں حرکت محسوس ہوئی اور وہ تھوڑا سا کھڑا ہوا۔ میں نے کہا اس سے پہلے کہ وہ پھر سے بیٹھ جائے میں لیٹ گئی اور اُس کو اندر ڈالنے کو کہا۔اُس بے غیرت نے اندر ڈالا۔ابھی ٹھیک سے اندر گیا بھی نہیں تھا کہ وہ اُسی وقت فارغ ہو گیا۔
    میں غصے میں پاگل ہو گئی اور اُس کو ایک ایسا دھکا دیا کہ بیڈ سے نیچے جا گرا اور اُس کو موٹی موٹی گالیاں بھی دیں۔ وہ میر ی منتیں کرنے لگا۔کہ مجھے معاف کردو تم جو کہو گی میں کروں گا۔ اب آپ ہی بتاو کہ جس انسان کی ایسی سیکس لائف ہو وہ کیسے خوش رہ سکتا ہے۔ اُس کو غصہ نہ آئے تو کیا کرے۔۔۔۔۔
    یہ سب بیان کرتے ہوئے اُس کا چہرہ شرم سے سرخ ہو رہا تھا۔وہ میرے ساتھ آنکھ بھی نہیں ملا رہی تھی۔میں نے پوچھا کہ تمہاری سیکس لائف کب سے ایسے چل رہی ہےاُس نے کہا کہ چھوٹی بیٹی کی پیدائش کے بعد سے یہی حالت ہے۔ کبھی 6 مہینے بعد کبھی سال بعد اور وہ بھی اسی طرح کا ادھورا۔۔۔۔۔
    اس کے بعد مجھے اُس سے کوئی سوال کرنے کی ہمت نہ ہوئی اور کافی دیر تک ہم میں خاموشی رہی پھر مجھے اچانک سوچ آئی کہ رات تو گزر رہی ہے ۔یہ رات گزر گئی تو مجھے ایسا موقعہ دوبارہ ملے نہ ملے۔ابھی لوہا گرم ہے تھوڑی سی چوٹ مارنے سے میرا کام نکل سکتاہے۔ لہذا میں نے کہا صائمہ آج مجھے پتہ چلا کہ تم صرف اوپر سے ہی نہیں بلکہ اندر سے بھی بہت خوبصورت ہے ۔میں تو یہ کہوں گا کہ تم ایک عظیم عورت ہو۔ اُس نے حیرانی سے مجھ سے پوچھا کہ کیا ہوا اتنی تعریف کس لیے ؟
    یہ تعریف نہیں یہ سچ ہے۔ تم جتنی خوبصورت ہو کوئی بھی شخص تم کو اپنی گھر کی رانی بنا کر رکھ سکتا ہے۔ تمہاری جگہ کوئی اور ہوتی تو کب کی خلع لے کے جا چکی ہوتی۔ اور ایک تم ہو کہ بچوں کےلیے تم ایک ایسے شخص کے ساتھ دس سال سے گزارہ کر رہی ہو۔تم واقعی عظیم ہو۔۔۔میرا دل کر رہا ہے کہ میں تمہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میں نے جان بوجھ کر جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
    اُس نے کہا کہ کیامیں تمہیں آگے بولو۔۔۔
    میں کہا کہ رہنے دو ۔۔ کچھ کھاو گی؟
    نہیں بات نہ بدلو پہلے جملہ مکمل کرو کہ میں تمہیں۔۔۔ کیا۔۔۔
    چھوڑو نا یار ویسے منہ سے نکل گیاتھا۔۔
    نہیں بتاو۔۔۔
    یار تمہارے غصہ سے ڈر لگتاہے۔۔
    نہیں کروں کی غصہ بولو۔۔
    وعدہ ۔۔۔
    ہاں وعدہ۔۔۔
    میں کہنے لگا تھا کہ میرا دل کررہا ہے کہ میں تمہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
    ہاں ہاں بولو۔۔۔۔
    یار دیکھ لو۔۔
    بولو یار وعدہ کیا ہے نہیں کروں گی غصہ۔۔۔
    میں تمہیں ایک اچھی سی کسِ کروں۔۔۔۔۔۔۔۔
    یہ کہ کر میں نے اپنا منہ دوسری کر لیا۔۔۔
    اور تھوڑی دیر بعد بولا اگر ابھی تک تھپڑ نہیں آیا تو میں منہ سیدھا کر لوں۔۔۔۔
    وہ ہنس کر بولی بہت بے شرم ہو تم۔۔۔سیدھے دیکھو اور گاڑی چلاو ۔گاڑی چلاتے ہوئے کیسے کس کرو گے؟
    میں نے فوراً کہا کہ اچھا اس کا مطلب ہے گاڑی روک کر کس کر سکتا ہوں۔۔۔۔
    میں نے کہا سیدھی طرح گاڑی چلاو کیا اول فول بکے جا رہے ہو۔ہر طرف سے گاڑیاں آ رہی ہیں کوئی دیکھے گا تو کیا کہے گا۔۔۔۔
    کوئی نہیں دیکھے گا میں سائیڈ پر اندھیرے میں گاڑی روک لوں گا پھر کس کروں گا۔۔۔۔
    کیا خیال ہے پلیز۔۔۔۔
    یار کیا کہ رہے ہو۔۔ سڑک پر گاڑیوں کی اتنی لائٹس ہیں اندھیرا کہا ں سے آئے گا۔۔۔۔
    اچھا یہ وعدہ کرو کہ اگر کہیں اندھیرا مل گیا تو کرنے دو گی۔۔۔۔
    یار کیسی کیسی فرمائش کر رہے ہو۔۔۔
    یار مان جاو نا پلیز پلیز۔۔۔۔
    اچھا اندھیرا آنے دو پھر دیکھیں گے۔۔۔۔
    دیکھیں گے نہیں آپ کہو کرنے دوں گی۔۔۔ پلیز ۔۔۔۔
    اچھا فل اندھیرا آیا کوئی لائٹ نہ ہوئی پھرکر لینا۔۔۔۔۔
    اوکے منظور۔۔۔۔۔
    اورپھر میں نے سائن بورڈ دیکھا کہ اگلا سروس ایریا 2 کلومیٹر کے بعد آ رہا تھا۔میں نے سوچا کہ سروس ایریا کی پارکنگ میں کسی کونے میں اندھیرے والی جگہ مل سکتی ہے۔میں بولا۔ سروس ایریا آنے والا ہےایک ایک کپ اچھی سی کافی کا پیتے ہیں۔ کیاخیال ہے؟۔۔۔ اُس نے کہا جیسے تمہاری مرضی۔۔
    تھوڑی دیر بعدمیں گاڑی کو پارکنگ میں لگا رہا تھا۔میں نے جان بوجھ کر جگہ ایسی چنی تھی جہاں لائیٹ بہت کم تھی اور آس پاس کوئی گاڑی بھی نہیں تھی۔ ویسے بھی تقریباً رات دس بجے کا ٹائم تھا اِکا دُکا گاڑیاں تھیں اور وہ بھی دور دور۔۔۔۔
    ہم نے گاڑی لاک کی اور ایک ایک کپ کافی کا آرڈر دیا۔بہت کم لوگ تھے مگر جس نے بھی ایک دفعہ صائمہ کو دیکھا وہ دوبارہ ضرور دیکھتا تھا وہ چیز ہی ایسی تھی۔خیر ہم نے گرما گرم کافی پی اور اپنی گاڑی میں آ گئے۔ میں نے گاڑی سٹارٹ کرنے سے پہلےکہا۔ میڈم کیا خیال ہے؟
    اُس نے کہا۔ کس بارے میں؟
    میں بھی یہی کہ رہاہوں "کس کے بارے میں" ۔۔۔۔ وہ ہنس پڑی اور کہا تم بہت شرارتی اور ضدی انسان ہو۔ ۔۔۔
    تم نے وعدہ کیا تھا۔۔۔
    میں نے کہا تھا جہاں لائٹ بالکل نہیں ہوگی یہاں تو تھوڑی لائیٹ ہے۔۔۔۔
    میں نے کہا صائمہ پلیز قریب قریب کوئی گاڑی نہیں ہے اور دوسری بات کہ گاڑی کے تمام شیشے کالے ہیں ۔کوئی بندہ ہمیں نہیں دیکھ سکتاپلیز۔۔۔۔
    اُس نےکہا اچھا بابا۔۔ اور اپنے گال کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگی کہ جلدی سے یہاں کر لو اور چلو۔۔۔۔
    میں نے کہا نہیں میں تمہارے ہونٹوں پر کروں گا۔۔۔۔۔ اچھا بابا جلدی کرو۔۔
    میں نے کہا جلدی نہیں آرام سے انجوائے کرو اور اُس کا جواب سننے سے پہلے ہی میں نے اپنا بایاں بازو اُس نے سر کے پیچھے رکھا اور اُ س کو اپنی طرف سرکا لیا اور اپنے دائیں ہاتھ سے اُس کے گال کو سہلانے لگا۔میرا ہاتھ کبھی اُس کے گال پہ ہوتا۔کبھی میں اُسکے کان کی لو پر انگلیوں سے مساج کرتا۔۔ اور پھر گردن پر۔۔۔۔ وہ کافی دنوں سے سیکس کی بھوکی تھی میرے اس تھوڑے سے مساج نے اُس کی اندر کی چنگاری کو مزید سلگا دیا تھا۔ اُس کا جسم گرم ہو رہا تھا۔اُ س نے اپنی آنکھیں بند کر لی تھیں اور اُس کے ہونٹ سسکیاں لینے والے انداز میں کھلے تھے لیکن وہ اپنی سسکیوں کی آواز پر قابو رکھے ہوئے تھی۔تھوڑی دیر میں نے یہ کھیل جاری رکھا تاکہ اُس کی آگ کو مزید بھڑکا سکوں۔اب وہ خود اپنے آپ کو میرے قریب کر رہی تھی۔اور اس کا سر میری بغل کے پاس آ چکا تھا اوروہ اپنے منہ کہ اوپر اُٹھا رہی تھی جیسے کہ رہی ہو کہ جلدی سے میرے ہونٹوں کا رس چوس لو ۔۔۔ میں اُس کا اشارہ سمجھ رہا تھا لہذا میں نے اپنے دائیں ہاتھ سے اُس کی ٹھوڑی کو پکڑا اُس کا منہ اُوپر کی جانب اُٹھایا اور اُس کے گرم گرم ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ کر چوسنا شروع کر دیا۔وہ اب بھی اپنے اوپر ضبط کیے ہوئے تھی اُس کا منہ بند تھا اور صرف میں باری باری اُس کے اوپر اور نیچے والے ہونٹ کو چوس رہا تھا۔ میں نے اُس کی آگ کو مزید بھڑکانے کا سوچا اور اپنا ہاتھ جو اس وقت اس کی گردن پر تھا اس کو آہستہ سے نیچے کرنا شروع کیا۔اور اس کی چھاتی پر آ گیا۔ واہ کیسے ممے تھے اُس کے۔بالکل گول ، تنے ہوئے اور ایکسٹر لارج سائیزکے۔۔ اور پھر جیسے ہی میں نے اُسکے بائیں ممے کو ہاتھ سے ہلکا سا دبایا۔ اُس کا منہ کھل گیا اور ایک سسکی کی آواز سے اُس نے کہا حامد پلیز۔۔۔۔۔اور ساتھ ہی اُس نے بھوکی بلی کی طرح میرے ہونٹوں کو چوسنا شروع کر دیا۔اب وہ اور میں باری باری ایک دوسرے کے ہونٹوں کو چوس رہے تھے۔اور میرادایاں ہاتھ مسلسل اُس کے دونوں مموں کا مساج کرنے میں لگا ہو تھا۔۔۔پھر میرے شرارتی ہاتھ نے مزید آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔ اور صائمہ کے پیٹ سے رینگتا ہوا اُس کی ٹانگوں کے درمیان جا پہنچا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    لیکن وہاں پہنچ کر مجھے حیرت کا ایک جھٹکا سا لگا کیونکہ وہاں پر ایک اور ہاتھ پہلے سے موجود تھا۔وہ ہاتھ صائمہ کا اپنا ہاتھ تھا جس سےوہ شلوار کے اوپر سے ہی اپنی چوت کا مساج کر رہی تھی۔ اور اُس جگہ سے اُس کی شلوار کافی حد تک گیلی ہو چکی تھی۔لیکن میرا ہاتھ جیسےہی اُس کے ہاتھ سے ٹکرایا اُس کو ہوش سا آگیا۔وہ اچانک پیچھے ہٹ گئی اور بولی حامد بس۔۔ اب اس سے آگے نہیں اور سیٹ کے ہیڈ ریسٹ سے سر ٹکا لیا اور آنکھیں بند کر کے لمبی لمبی سانسیں لینے لگی۔۔۔ میں نے کہا کیوں کیاہوا؟۔۔ وہ بولی تم نے صرف ایک کس کی اجازت لی تھی مگر ہم نے بے خودی میں کافی کچھ کر لیا اب بس چلو۔۔۔میں بولا۔۔ سچ سچ بتاو کیا تم بھی فل مزے نہیں لے رہی تھیں۔ تمہیں بھی تو بہت مزہ آ رہا تھاپھر سارا قصور میرا کیوں؟ ۔۔۔ یہ سُن کر وہ چپ سی ہو گئی اور پھر بولی ۔۔ یار جو بھی تھا اب بس پلیز چلو۔۔۔ اوکے میں چل رہا ہوں لیکن یہ سرا سر نا انصافی ہے میرے ساتھ۔اور گاڑی سٹارٹ کر کے آگے بڑھا دی۔۔ وہ بولی کیسی ناانصافی یہ کیا کہ رہے ہو۔۔۔ یار خود سوچو تم نے خود تو خوب مزے لے لیے اور شاید اپنے ہاتھ سے اپنا پانی بھی نکال لیا۔اور میرے لن کا کچھ بھی نہ سوچا اور ہاتھ تک نہ لگایا۔ یہ بے چارہ ابھی تک انتظار میں کھڑا ہے۔ دیکھو۔۔ اور میں نےتھوڑا پیچھے ہو کر اپنی قمیض اُٹھا دی۔۔ اور شلوار کا ٹینٹ بنا ہو سامنے آگیا۔اُس نے ایک نظر دیکھا اور مسکرا کہ شرماتے ہوئے منہ دوسری طرف کر لیا۔میں بولا منہ دوسری طرف کرنے سے کچھ نہیں ہو گا اس کا کچھ انتظام کرو۔۔ جب تک اس کا پانی نہیں نکلے گا یہ اسی طرح کھڑا رہے گا۔۔۔ وہ بولی میں کچھ نہیں کر سکتی تم خاموشی سے گاڑی چلاو۔۔۔کیسے گاڑی چلاوں جب تک یہ کھڑا ہے مجھ سے گاڑی چلانا مشکل ہو رہی ہے۔پھر میں نے جان بوجھ کر اپنے آپ کو کبھی آگے کبھی پیچھے اور دائیں بائیں کرنا شروع کر دیا جیسے میں کافی تکلیف میں بیٹھا ہوں۔وہ مجھے دیکھ رہی تھی اور تھوڑی دیر بعد میں نے ایک دفعہ پھر اُس کی طرف دیکھ کر کہا کہ یار صائمہ پلیز اب تو درد بھی ہونا شروع ہو گیا ہے۔ اور تھوڑی دیر ایسا رہا تومجھے گاڑی روکنا پڑے گی۔۔۔
    وہ مجھے دیکھ رہی تھی اور میں اپنے چہرے پر مصنوعی درد کے اثرات لیے ہوئے تھا جیسے کہ میں بہت تکلیف میں ہوں۔ ۔۔پھر وہ اچانک بولی یار حامد کیا مصیبت ہے تم بہت ضدی ہو اپنی بات منوا کر ہی چھوڑتے ہو۔۔ اچھا بتاو کیا کرنا ہے۔۔ کرتی ہوں۔۔۔ میں نے گاڑی چلاتے ہوئے ہی تھوڑا سا سیٹ پیچھے کی اپنی قمیض اُٹھا دی ۔۔میرا لن اُس کی بات سُن کر مزید تن گیا تھا۔ اور شلوار کا ٹینٹ کچھ مزید اونچا ہو گیا تھا۔وہ مجھے دیکھ رہی تھی جیسے پوچھ رہی ہو کیا کرنا ہے۔ میں نے کہا کہ اس کو پکڑو اور آہستہ آہستہ سہلاو پلیز۔۔۔ اور پھراُس نے اپنےسفید نرم و نازک ہاتھ سے آہستہ سے میرے لن کو پکڑ لیا۔۔۔ اور میرے جسم میں سرور کی ایک لہر سی دوڑ گئی۔اور میرے منہ سے ایک سسکاری نکل گئی۔۔ اُس نے کچھ دیر شلوار کے اوپر سے ہی میرا لن پکڑے رکھا۔ اور پھر اُس نے آہستہ آہستہ اپنے ہاتھ کو حرکت دینا شروع کی۔میرا لن تقریباً 6 سے 7 انچ کے درمیان تھا ۔ شروع میں اُس نے درمیان سے پکڑا ہوا تھا پھر اُس نے اپنے ہاتھ کو آہستہ سے نیچے کیا ۔ میں بھی نیچے سے تھوڑا آگے سرک گیا تاکہ اُس کا ہاتھ آسانی سے جڑ تک پہنچ سکے۔ وہ اپنا ہاتھ جڑ سے اوپر لاتی اور میرے لن کی ٹوپی تک آ جاتی اور پھر آہستہ آہستہ دوبارہ جڑ تک لے جاتی۔۔۔ میں دیکھ تو سڑک کی طرف رہا تھا مگر میرا ذہن اس وقت مزے کی بلندیوں پر تھا۔ جب اُس کا ہاتھ میرے لن کی ٹوپی تک آتا تو وہ آہستہ سے ٹوپی پر اپنی انگلی پھیر دیتی۔ اورمزے سے میرے منہ سے سسکاری نکل جاتی۔دس منٹ تک وہ ایسے ہی کرتی رہی ۔ اس دوران میں نے محسوس کیا کہ اُس کو بھی مزہ آرہا تھا اور وہ بڑے پیار سے میرے لن کو سہلا رہی تھی۔ کبھی کبھی اس کا دوسرا ہاتھ غیرارادی طور پر اپنی ٹانگوں کے درمیان چلا جاتا مگر وہ میری طرف دیکھ کر ہاتھ ہٹا لیتی۔تھوڑی دیر بعد میں نے اس سے کہا کہ شلوار کا کپڑا زیادہ رگڑ کھا رہا ہے اور تکلیف ہو رہی ہے اگر مناسب ہو تو میرا اوزار بند کھول دو پلیز۔۔ مجھے لگا کہ وہ مجھ سے پہلے ہی یہی چاہتی تھی اُس نے لن کو چھوڑ دیا اور نیچے جھک کر دونوں ہاتھوں سے میرا اوزار بند کھولنے کی کوشش کرنے لگی۔۔ تھوڑی کوشش کے بعد اس نے ایک جھٹکے سے میرا اوزار بند کھول دیا۔اور شلوار نیچے کرنے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔ میں نیچے سے تھوڑا اوپر اُٹھ گیا تاکہ وہ آسانی سے میری شلوار اُتار سکے۔
    کچھ دیر ہم دونوں کی کوشش سے میری شلوار میرے گھٹنوں تک اُتر گئی۔اور میرے لن پر صرف میری قمیض کا کپڑا تھا۔ جیسے ہی اُس نے وہ ہٹایا تو میرا فل تنا ہوا لن اُس کے سامنے تھا۔ اور وہ حیرت سے اُس کی طرف دیکھ رہی تھی۔میں نے کہا کیا ہوا؟ کیا دیکھ رہی ہو؟ اُس نے حیرت سے کہا۔حامد لن اتنا بڑا بھی ہوتا ہےکیا۔۔۔ میں نے کہا خود دیکھ لو بالکل اصلی اور کنوارہ ہے۔۔۔ اتنا بڑا کبھی نہیں دیکھا کیا؟ اُس نے کہا کہ میں نے زندگی میں صرف امجد کا لن دیکھا ہے یا آج تمہارا دیکھ رہی ہوں۔دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔اس کے سامنےتو امجد کا لن ایک بال پوائنٹ کے برابر ہے۔۔ اور ہم دونوں قہقہہ مار کر ہنس پڑے۔۔۔ میں نے کہا کہ اب پکڑ کر ایسے ہی کرو جیسے شلوار کے اوپر سے کر رہی تھی۔اس نے کہا کہ کرتی ہوں مگر میری بھی ایک شرط ہے۔۔ کہ تم نے میری طرف نہیں دیکھنا۔میں نے اپنا بھی کام کرنا ہے۔میں نے کہا اوکے۔۔۔ اور اُس نے اُسی طرح ہاتھ سے لن کو آگے پیچھے کرنا شروع کر دیا۔ اُس کے نرم و نازک ہاتھوں کی گرمی بہت مزہ دے رہی تھی۔۔ میں نے آہستہ سے آنکھو ں کو موڑ کر اُس کی طرف دیکھا تو مجھے اُس کی ٹانگیں نظر آ رہی تھیں۔ اُس نے اپنا دوسرا ہاتھ اپنی شلوار میں ڈالا ہو تھاجس میں شاید الاسٹک تھا۔۔ اور وہ اُسی سپیڈ سے چوت کا مساج کر رہی تھی جس سپیڈ سے وہ میرے لن کو سہلا رہی تھی ۔ تھوڑی دیر بعد مجھے محسوس ہوا کہ اُس کی سپیڈ تیز ہو رہی ہے۔ اُس کے منہ سے سسکیوں کی تیز آوازیں نکل رہی تھیں۔کچھ دیر بعد اچانک اُس کے ہاتھوں کی حرکت رُک گئی اور وہ اپنے ہاتھ سے میرے لن کوزور سے دبانے اور چھوڑنے لگی۔پھر اُس نے میرے لن کو چھوڑ دیا اور ہیڈ ریسٹ سے سر ٹکا کر لمبی لمبی سانسیں لینے لگی۔۔۔ میں سمجھ گیا کہ ایک دفعہ وہ فارغ ہو چکی ہے۔
    پھر اُس نے جب آنکھیں کھولیں تو میں نے کہا۔کیاہوا؟۔۔میں تھک گئی ہوں۔۔۔ ابھی سے تھک گئی ہومیرا تو ابھی بھی پانی نہیں نکلا۔۔اچھابابا اب معاف کردو اب کیاکروں تمہارا پانی کیسے نکلے گا۔۔تمہارا پانی نکلے اور میری تو جان چھوٹے۔۔ اور میں کھلکھلا کر ہنس پڑا اور کہا ایک دفعہ کوشش کر کے اس کو اپنے منہ میں ڈال دو میں پانچ منٹ میں فارغ ہو جاوں گا۔۔۔ اُس نے حیرت سے میری طرف دیکھا اور بولی اس کو منہ میں کیسے ڈال لوں پاگل ہو گئے ہو کیا۔۔۔۔ کیوں جس طرح امجد کا ڈالا تھا اُسی طرح۔۔۔۔۔۔
    اور وہ ہنس پڑی اور بولی وہ تو بال پوائنٹ ہے اُس جیسے تو چار چار اکھٹے میرے منہ میں آ سکتے ہیں۔۔ یہ تو نہیں آ سکتا۔۔۔ میں نے کہا ڈئیر ایک دفعہ کوشش کر کے تو دیکھ لو اگر نہ آیا تو نہ کرنا پلیز۔۔۔ پلیز ایک دفعہ ہمت کرو اور یہ کہ کر میں نےبائیں بازو سے اُس کواپنی طرف سرکایا اور سر پر ہاتھ رکھ کر اُس کے منہ کو اپنے لن کی طرف لے جانے لگا۔اُس کہا ٹھہرو کیا کر رہے ہو ڈرائیونگ کر تے ہوئےیہ کام خطرناک ہو سکتا ہے۔ کسی سائیڈ پر گاڑی روکو تو میں ٹرائی کرتی ہوں۔میں نے تھوڑا آگے جا کر موٹروے کے جنگلے کے ساتھ ایک بڑے درخت کے نیچے گاڑی روک دی۔ جہاں روشنی بھی کافی کم تھی۔ اپنی سیٹ کو فل پیچھے کیا اور تقریباً سیٹ پر لیٹ گیا۔ صائمہ نے لن کو ہاتھ میں پکڑا اور قریب سےدیکھتے ہوئے بولی اوکے میں کوشش کرتی ہوں لیکن تم وعدہ کرو کہ تمہارے پانی کا ایک قطرہ بھی میرے منہ میں نہیں جانا چاہیے۔مجھے اُلٹی ہو جائے گی۔۔ میں نے کہا وعدہ بلکہ تم اس طرح کرو کہ سامنے سے ٹشو پیپر کا ڈبہ مجھے دے دو ۔جب میں فارغ ہونے لگوں گا تو تمہارے منہ سے نکال لوں گا۔اُس نے کہا اوکے اور ڈبہ مجھے پکڑا دیا۔مگر اس سے پہلے اُس نے کچھ ٹشوپیپر نکالے اور اُن سے میرے لن کی ٹوپی صاف کرنے لگی۔۔۔۔
    اور پھر سب سے پہلے اُس نے میرے لن کی ٹوپی پر اپنی زبان پھیری۔ اور میرا سارا جسم جھنجھنا اُٹھا۔۔ اور میرے منہ سے بے اختیار سسکی نکل گئی۔ وہ کچھ دیر ٹوپی پر زبان پھیرتی رہی۔ اور پھر آہستہ سے اُس نے ٹوپی کو اپنے منہ میں ڈال لیا۔جب اُس کے گرم گرم ہونٹوں اور منہ کا لمس مجھے اپنے لن پر محسوس ہوا تو مزے کی بلندیوں پر پہنچ گیا۔ اس وقت ٹوپی اور لن کا تقریباً دو انچ کا حصہ اُس کے منہ میں تھا جس کو آہستہ آہستہ آگے پیچھے کر رہی تھی۔ ایک ہاتھ سے اُس نے لن کو جڑ سے پکڑ رکھا تھا اور دھیرے دھیرے منہ کے اندر باہر کر رہی تھی۔میں نے اپنے ہاتھ سے اُس کے سر کو ہلکا سا دبایا تاکہ تھوڑا سا اور اندر جائے۔ تو اُس نے لن منہ میں ڈالے ہوئے ہی ہاتھ کے اشارے سے مجھے منع کر دیا۔ پھر لن کو منہ سے نکال کر بولی۔ یہ کام نہ کرو پہلے ہی جتنا ہو سکتا ہے میں اندر لے رہی ہوں۔ اس سے زیادہ پر مجھے الٹی آ جائے گی۔۔۔ اس کے بعد اُس نے تھوڑا اور زیادہ اندر کرنے کی کوشش کی تو تقریباً ٹوپی اور تین انچ لن اُس کے منہ میں تھا۔ بقیہ چار انچ لن اُس کے منہ سےباہر رہ گیا تھا۔تو اُس نے ہاتھ سے اُس حصے کی مٹھ لگانی شروع کر دی۔ اب میرا آدھا لن اُس کے منہ کے اندر باہر ہو رہا تھا اور آدھے لن کی وہ مٹھ لگا رہی تھی۔ اُس کی اس حرکت نے مجھے ایک نئے مزے کرا دیئے۔۔۔ میں اس کی داد دیے بغیر نہ رہ سکا۔۔۔۔ تقریباً دس منٹ وہ اسی انداز سے کرتی رہی اور ساتھ ساتھ وہ میرے منہ کے تاثرات بھی دیکھ رہی تھی کہ میں مزے کرتے ہوئےاُس کے منہ میں ہی نہ فارغ ہو جاوں۔ میں اُس کی بات سمجھ گیا اور اُس کو اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوے کافی سارے ٹشوپیپر دکھائے۔ جس سے وہ مطمئن ہو کر چوپے لگانے لگی۔۔۔۔۔ اب میں فارغ ہونے کے قریب تھا میں نے اشارے سے اُسے منہ سے نکالنے کا کہااور وہ فوراً رک گئی اور لن منہ سے نکال لیا۔ میں نے اُس کوٹشو پیپر پکڑائے اور کہا منہ میں نہ ڈالے لیکن مٹھ لگانا جاری رکھے۔۔۔ اُس نے ایک ہاتھ سے ٹشوپیپر میرے لن کی ٹوپی کے اوپردبائے اور دوسرے ہاتھ سے مٹھ لگانے لگی۔۔۔ دونوں ہاتھ ہلنے کی وجہ سے اُس کے بڑے ممے اوپر نیچے ہلتے ہوئے بہت پیارے لگ رہےتھے ۔ مجھے افسوس ہو کہ اس کام کے دوران میں اتنی شاندار چیز کو قطعی بھول گیا تھا خیر سوچا کہ اگلی دفعہ ان پر بھرپور توجہ دوں گا۔اسی دوران میں فارغ ہو گیا اور صائمہ نے میرا سارا پانی ان ٹشوپیپرز میں جذب کرڈا لا اور میرے لن کو بھی صاف کر دیا۔گاڑی میں لیٹے ہی شلوار پہنی سیٹ سیدھی کی اور گاڑی آگے بڑھا دی۔۔ کافی سکون ہو گیا تھا ۔ اور صائمہ سے ہلکی پھلکی گپ لگانے لگا۔ اور دل میں اصل مقصد کا پلان سیٹ کرنے لگا۔
    دوستو۔ اب ہمارا سفر تقریباً آدھا ہو چُکا تھا۔گاڑی میں بالکل خاموشی تھی۔صائمہ سیٹ کے ساتھ سر ٹکا کر آنکھیں بند کر کے شائد سو چکی تھی۔شائد دو دفعہ فارغ ہونے کے بعد اُس کو سکون مل گیا تھا۔ اور میں ڈرائیونگ کرتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ اب میرا اگلا پلان کیا ہوگا۔ کیونکہ میں اس رات کو ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا اور وہ سب کچھ کرنا چاہتا تھا جو میں کبھی سوچتا تھا۔ کافی سوچ بچار کے بعد میں نے ایک ترکیب سوچی اور صائمہ کو مخاطب کیا۔۔۔۔ کیا سوچ رہی ہو؟۔۔۔۔۔ کچھ نہیں۔۔۔ لیکن میں کچھ سوچ رہاہوں۔ ۔۔۔ کیا ؟۔۔۔۔ یہی کہ ہم لگ پھگ رات کو دو یاتین بجےلاہور پہنچیں گے اور اُس وقت آپ کی امی کو اور بچوں کو جگانا مناسب ہو گا؟۔۔۔ ۔۔ مناسب تو نہیں ہو گا مگر جانا تو ہے ،لیکن میں ایک بات اور سوچ رہی ہوں کہ رات کے اُس پہر میں اکیلی گلیوں میں کیسے جاوں گی۔ مین روڈ سے امی کا گھر گلیوں میں کافی دور ہے۔ اور آپ ظاہر ہے گاڑی میں رہیں گے اُس وقت گاڑی کو بھی اکیلا نہیں چھوڑا جا سکتا۔کیا کریں؟۔۔۔ میں دل ہی دل میں کچھ خوش ہو ا ۔ مجھے اپنی بات بنتی ہو نظر آ رہی تھی۔۔۔ میں بولا۔۔آپ کی بات ٹھیک ہے،لیکن کیا کریں آپ کی امی بھی بیمار ہیں اور اُس وقت بچوں کو چھوڑنے نہیں آ سکیں گی۔۔۔۔ یہ بات سُن کر وہ بھی سوچ میں پڑ گئی۔ ۔۔تھوڑی دیر بعد میں بولا۔ اگر ہم بچوں کو صبح 8 یا 9 بجے لے لیں تو؟؟؟۔۔۔وہ ایک دم چونک کر بولی۔ کیا مطلب اتنی دیر ہم کہاں رہیں گے؟؟؟ میں بولا۔۔۔ پریشان نہ ہوں میری بات غور سے سنیں باقی ہو گا وہی جیسے آپ راضی ہوں گی۔۔۔ میں یہ کہ رہا تھا کہ رات کو جانا مناسب نہیں ہے اگر گھر کسی مین روڈ پر ہوتا تو چلے جاتے مگراب مناسب
    نہیں ہے۔ اس لیے میں سوچ رہا ہوں ہم لاہور میں کہیں آرام کر لیں گے یا کہیں راستے میں رُک جاتے ہیں صبح جا کر بچوں کو لے آئیں گے۔۔۔ کیا خیال ہے؟۔۔ وہ پھر سوچ میں پڑ گئی۔۔۔ اور بولی کہتے تو آپ ٹھیک ہیں لیکن کہاں رکیں گے۔۔۔۔ کہیں بھی رُکا جا سکتا ہے کسی بھی اچھے ہوٹل میں۔۔۔۔ اگر آپ کو ناگوار نہ گزرے تو؟؟؟ نہیں ایسی بات نہیں ہے۔میں سوچ رہی ہوں میں آپ کو بہت زیادہ تکلیف دے رہی ہوں۔۔۔میں بولا۔۔۔ ہا ں یہ تو ہے۔۔۔یہ سُن کر وہ چونک گئی۔میں ہنس کر بولا۔۔لیکن اس تکلیف کا مجھے مزہ آ رہا ہے۔۔ کاش ایسی تکلیف آپ روزانہ مجھے دیا کریں۔۔۔ جناب اب تکلف چھوڑیں اور فائنل فیصلہ سُنائیں کہ رُکنا ہے کسی ہوٹل میں یا نہیں؟ وہ بولی ۔ جیسا آپ مناسب سمجھیں، رُک جائیں تو زیادہ مناسب ہے۔۔۔۔ میرادل خوشی سے اچھلنے لگا۔۔۔ میں بولا۔۔ بجائے لاہور جا کر رُکنے کے ہم اگلے انٹرچینج سے اتر کر کسی اچھے سے ہوٹل میں ریسٹ کرتے ہیں۔ صبح ایک گھنٹے میں ہم لاہور ہوں گے۔۔۔ وہ بولی ۔ اوکے۔۔۔ پندرہ منٹ کے بعد ہم موٹر وے سے اُتر رہے تھے۔۔ یہ انٹر چینج ایک خوبصورت علاقے میں تھا۔ ایک پہاڑی کے ساتھ خوبصورت جھیل تھی جہاں لوگ سیروسیاحت کے لیے آتے تھے۔ اور وہاں ایک کافی خوبصورت بلڈنگ میں واقع ایک صاف ستھرے ہوٹل کی پارکنگ کے اندر میں نے گاڑی روکی اور ہم باہر آگئے۔ ریسپشن پر ایک نوجوان لڑکا کھڑا تھا جس کو میں نے کھانس کر اپنی طرف متوجہ کیا جو کہ صائمہ کے سیکسی سراپے میں کھویا ہوا تھا۔ وہ اپنی چوری پکڑے جانے پر شرمندہ سا ہو کر میری طرف متوجہ ہوا۔ میں نے ایک ڈیلکس روم بُک کرنے کا کہا۔
    اُس نے ضروری اندراج کے بعد مجھ سے میرا آئی ڈی کارڈ مانگا جو میں نے دے دیا۔اُس نے کاپی اپنے ریکارڈ میں لگائی اور واپس کرتےہوئے ایک ویٹر کو اشارہ کیا چابی اُس کے حوالے کی اور کہا۔ ۔ مسٹر اینڈ مسز حامد کو روم میں پہنچا آو۔۔۔ یہ سُن کے میں نے بے اختیار صائمہ کی طرف دیکھا۔ جس کا چہرہ یہ بات سُن کر سُرخ ہو رہا تھا۔ مگر وہ کچھ نہ بولی اور ہم خاموشی سے ویٹر کے پیچھے چلنے لگے۔ کمرہ کافی بہتر تھا۔ ویٹر کو فارغ کرنے کے بعد میں نے دروازہ بند کرتے ہوئے شرارت سے کہا۔۔
    مسٹر اینڈ مسز حامد۔۔۔ ہا ہا ہا۔۔۔وہ بھی بے اختیار ہنس پڑی۔ اور بولی۔۔۔ مسٹر حامد خاموشی سے لیٹ جاو اور نیند کرو۔۔صبح باقی سفر کرنا ہے ۔۔۔اوکے اوکے غصہ نہ کریں فریش ہو جائیں ۔وہ ٹاول اُٹھا کر واش روم میں گھس گئی۔اُس کے جانے پرمیں بیڈ پر بیٹھ گیا اورجیب سے پرس وغیرہ سائیڈ ٹیبل پر رکھا اور جیب سے کنڈوم کا پیکٹ بھی برآمد ہوا جو میں نے تکیہ کے نیچے احتیاط سے رکھ دیا۔تھوری دیر بعد وہ واش روم سے نکلی۔ اُس کے بال کھلے ہوئے تھے اور اُس کا سفیدو سرخ چہرہ ایسے لگ رہا تھا جیسےکالے بادلوں میں چاند چمک رہا ہو۔ اور دوپٹہ نہ ہونے کی وجہ سے اُس کے ایکسٹرا لارج سائز کے سینے کے اُبھار دیکھ کر میری شلوار میں حرکت شروع ہو چکی تھی۔ اب میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔ دل کر رہا تھا کہ ابھی اس کو جکڑ لوں اور سب کچھ کر ڈالوں مگر میری ذرا سی جلدی سارا کام بگاڑ سکتی تھی وہ کافی غصہ والی تھی اور میری بہن کی دوست بھی تھی اس لیے میں ایسا کوئی کام نہیں کرنا چاہتا تھا جس میں اُس کی مرضی شامل نہ ہو۔ اُس نے مجھے اس طرح سوچ میں دیکھا تو بولی ۔کیا سوچ رہے ہو؟۔۔۔
    بہت کچھ سوچ رہا ہوں لیکن کہنے کی ہمت نہیں ہو رہی۔۔۔۔ کیوں ایسی کون سی بات ہے ؟؟؟۔۔۔ بس آپ کی ناراضگی سے ڈر لگتا ہے۔۔۔وہ ہنس پڑی اور چلتے ہوئے بالکل میرے سامنے کھڑی ہو گئی اور بولی۔۔۔ حامد ایک تو آپ میرے دوست ہو آپ کے علاوہ آج تک میرا کوئی مرد دوست نہیں ہے۔اور دوسرا آپ اور آپ کی بہن جو کچھ میرے اور میرے بچوں کے لیے کر رہے ہیں وہ کبھی کسی نے نہیں کیا۔آپ کو کیا لگتا ہے کہ آپ کوئی بات کریں گے یا کسی چھوٹی سی خواہش کا اظہار کریں گے تو میں ناراض ہو جاوں گی۔۔۔۔۔آپ بولیں کیا کہنا چاہ رہے تھے ؟۔۔۔ میں نے کہنے کے لیے بہت کچھ سوچ رکھا تھا مگر اُس کی اس گفتگو کے بعد میں پھر کہنے کے لیے الفاظ تلاش کرنے لگا اور تھوڑی دیر چپ ہو گیا۔۔۔ ہم دونوں کمرے کے درمیان کھڑے تھےاور وہ میرے بالکل سامنے بغلوں میں ہاتھ دیے میری طرف دیکھ رہی تھی اور میں خاموشی سے اُس کے جانب دیکھ رہا تھا۔۔۔میں کچھ بولنا چاہ رہا تھا کہ وہ پھر بولی۔۔ اوکے اب آپ کا ٹائم ختم ۔۔ مجھے تھوڑا سا اندازہ ہے کہ آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں۔۔اوراُس نےاپنے ہاتھ کی انگلی میرے ہونٹوں پر رکھی اور بولی۔۔ آپ نے بالکل خاموش رہنا ہے اب سب کچھ میں بولوں گی اور آپ خاموش رہیں گے ٹھیک ہے؟؟؟۔۔ اور میں نے ایک روبوٹ کی طرح سر ہلادیا۔۔۔وہ میرے سامنے سے ہٹی اور سائیڈ ٹیبل پر پڑے لیمپ کو آن کر دیا جس میں زیرو کا بلب لگا ہوا تھا اور مین لائیٹ کا بٹن آف کر دیا۔ کمرے میں ہلکی سی سرخ روشنی پھیل گئی۔ اور پھر وہ چلتے ہوئے دوبارہ میرے سامنے آ کر کھڑی ہو گئی۔ مگر اس بار وہ میرے بہت زیادہ قریب تھی اتنے قریب کہ میں اُس کے جسم اور بالوں کی خوشبو بھی محسوس کر رہا تھا۔۔۔وہ بولی۔۔ حامد میں ایک 30 سال کی شادی شدہ عورت ہوں۔زندگی کے کافی نشیب و فراز دیکھے ہیں اور میں اچھی طرح سمجھ سکتی ہوں کہ اس وقت آپ کے ذہن میں کیا چل رہا ہے۔ آپ ایک اچھے اور شریف انسان ہیں اور بھروسہ مند بھی ہیں میں آپ پر بھروسہ کر سکتی ہوں اور اسی وجہ سے میں نے اپنی زندگی میں پہلے مرد سے دوستی کی ہے۔ راستے میں گاڑی میں جو کچھ بھی ہم نے کیا اُس کی وجہ بھی یہی بھروسہ ہی تھی کہ آپ میرے راز کورازرکھ سکتے ہیں۔اور آپ کے خلوص کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کا کو ئی ذاتی کام تو نہیں صرف میرے بچوں کے لیے آپ اپنی مصروفیات چھوڑ کر میرے ساتھ چل پڑے اور اتنا خرچہ بھی کر رہے ہیں اور ساتھ میرے ناراضگی سے بھی ڈر رہے ہیں۔ میں آپ کے اس خلوص کا بدلہ تو نہیں چکا سکتی مگر آپ کو چند خوشی کے لمحات تو دے ہی سکتی ہوں۔ جب گاڑی میں آپ ہوٹل میں رکنے کی بات کر رہے تھے تو مجھے اُس وقت ہی سمجھ آ چکی تھی کہ آپ کے ارادےکیا ہیں۔ میں اس ہوٹل میں آنےسے پہلے ہی اپنے آپ کو آپ کی خواہش کے لیے ذہنی طور پر تیار کر کے آئی تھی۔ اس لیے اب آپ کو کچھ بھی کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔یہ کہتے ہوئے وہ اور آگے بڑھی اور اُس کا جسم میرے ساتھ جڑ گیا۔اُ س نے دونوں ہاتھوں سے میرے چہرے کو تھاما اور اپنے کانپتے ہوئے گرم ہونٹ میرے ہونٹوں سے جوڑ دئیے۔اور پھر بھوکی بلی کی طرح میرے ہونٹوں کو چوسنے لگی۔ میں نے بھی کچھ کہے بغیر اپنا ایک ہاتھ اُس کی پیٹھ پر پھیرنا شروع کر دیا اور دوسرے ہاتھ سے اُس کے بال پکڑ کر دیوانہ وار اُس کےہونٹوں کو چوسنے لگ گیا۔اُس کے ٹائیٹ اُبھار میرے سینے کے ساتھ رگڑ کھا رہے تھے اور میرا ہتھیار میری شلوار کو پھاڑنے کی کوشش کرتے ہوئے اُس کے پیٹ میں گھسنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔اور وہ اپنی ایڑیاں اُٹھا کر پنجوں کے پل کھڑی میرے ہونٹوں کو چوسنے میں مصروف تھی۔میں نے اپنا ایک ہاتھ اُس کے سینے پر رکھا اور اُس کے اُبھاروں کو مسلنے میں مصروف ہو گیا۔ جس سے اُس کو ایک آگ سی لگ گئی اور وہ بے دردی سے میرے ہونٹوں کو کاٹنا شروع ہو گئی۔ ساتھ ہی میں نے اُس کا ایک ہاتھ پکڑا اور اُس کو آہستہ سے اپنے لن پر رکھ دیا۔ اُس نے گہری سانس لی اور کسنگ چھوڑ کر سر میرے کندھے پر رکھ دیا۔ اور ہاتھ سے میرے لن کو سہلانا شروع کر دیا۔میں نے اُس کو بیڈ کی سائیڈ پر بٹھا دیا اور ہاتھ سے اُس کی قمیض اُتارنے کی کوشش کرنے لگا۔ اُس نے بھی مدد کی اور قمیض اُتار کر بیڈ پر ڈال دی۔ کالے رنگ کی برا میں اُس کے ممے مکھن کے بڑے بڑے پیڑے لگ رہے تھے۔ جن کو دیکھ کر میں پاگل سا ہو گیا۔ اور اُس کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر مموں کو چاٹنے اور کاٹنے لگا۔ اُس کے منہ سے سی سی کی آوازیں نکل رہی تھیں مگر وہ مجھے کاٹنے سے نہیں روک رہی تھی۔ پانچ منٹ تک میں اُس کے مموں کے ساتھ یہی کام کرتا رہا۔ پھر میں نے اُٹھ کر اپنی قمیص اُتار دی اور اُس کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ میری شلوار ایک ٹینٹ کا منظر پیش کر رہی تھی۔ پھر میں نے ایک جھٹکے سے آوزار بند کھول دیا۔ شلوار میرے پاوں میں گر گئی۔ میرا فل تنا ہوا لن اُس کے منہ کے سامنے تھا۔ جس کو دیکھ کر مجھے اُس کے چہرے پر ایک ڈر سا نظر آیا۔ وہ اُس کو دیکھے جا رہی تھی۔ میں بول پڑا۔۔۔۔ صائمہ کیا ہوا؟؟۔۔۔ حامد مجھے ڈر سا لگ رہا ہے۔ ۔۔۔ کیوں؟۔۔ یاراگر تم سب کچھ کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہو تو میرے لیے یہ سائیز بہت زیادہ ہے۔میں یہ نہیں لے پاوں گی۔ ۔۔میں بولا۔۔ میری جان کچھ نہیں ہوتا۔ تم شادی شدہ ہو ۔۔۔ وہ تو ہے مگر تمہیں پتہ ہے کس طرح کی شادی شدہ ہوں اُس کا تو تمہارے سامنے کچھ بھی نہیں ہے۔ ۔۔ تمہارا تو مجھ سے برداشت نہیں ہو پائے گا۔ ۔۔میں درد سے مر جاوں گی۔پلیز میں سکنگ کر دیتی ہوں۔تم فارغ ہو جاو۔۔۔میں اُس کے ساتھ ہی بیڈ پر بیٹھ گیا اور اُس کو سمجھانے لگا۔
    یار کیا ہو گیا تمہیں؟؟؟۔۔ دیکھو کیا تم کو مزہ نہیں آرہا کیا؟؟ کیا ساری زندگی اسی طرح گزار دو گی؟ اور دوسری بات کیا میں تمہارا دوست ہوں یا دشمن۔۔۔ کیا میں ایسی کو ئی حرکت کر سکتا ہوں جس سے تمہیں تکلیف ہو؟؟ مجھ پر بھروسا نہیں ہے کیا؟ ۔۔ وہ بولی میں تم پر اپنے سے بھی زیادہ بھروسہ ہے۔ ۔۔۔ تو پھر ڈر کس بات کا۔۔۔ خاموشی سے انجوئے کرو۔ اگر مزہ نہ آیا تو پھر کہنا۔۔۔ یار وہ سب ٹھیک ہے مگر یار ہمارے پاس کوئی پروٹیکشن بھی نہیں ہے۔ کچھ غلط نہ ہو جائے۔۔ کچھ نہیں ہوگا میں نے انتظام کیاہوا ہے۔ یہ دیکھو۔۔۔ اور تکیہ کے نیچے سے کنڈوم نکال کر اُس کو دکھا دیا۔۔۔یہ کب لیا تم نے؟؟؟۔۔بس لے لیا چھوڑو۔۔ تم کسی بات کی فکر مت کرو۔۔ تمہاری سب فکریں میری۔۔۔۔ بہت خراب ہو تم حامد۔۔ مجھے خبر بھی نہیں لگنے دی اور سب انتظام کر لیا۔۔۔میری جان چھوڑو بس تم انجوئے کرو۔۔۔یہ کہ کر میں نے دوبارہ سے کسنگ سٹارٹ کر دی اور ہاتھ پیچھے کر کے کے اُس کی برا کے ہک کھول دیے۔۔ اُس کے خوبصورت ممے برا کی قید سے آزاد ہوئے اور میں نے اُس کو بیڈ پر لٹا دیا اور خود اُس کےاوپر آ کر مموں سے کھیلنے لگ گیا۔۔ اچانک مجھے دوست کی نصیحت یاد آئی کہ کنڈوم کو پانچ سے دس منٹ پہلے پہننا ہے۔۔ میں نے تکیے کے نیچے سے کنڈوم اُٹھایا اور جلدی سے پہن لیا۔۔۔ اب مجھے اندر ڈالنے کے لیے دس منٹ انتظار کرنا تھا۔لہذا میں نے مموں کو چوسنا اور کاٹنا شروع کر دیا۔۔۔ صائمہ کہ منہ سے سی سی کی آوازیں دوبارہ نکلنا شروع ہو چکی تھیں۔ میں نے اپنا ہاتھ آہستہ سے نیچے کرنا شروع کر دیا تاکہ میں اُس کا اوزار بند کھول سکوں۔مگر مجھے احساس ہوا کہ اُس کی شلوار میں اوزار بند نہیں بلکہ الاسٹک ہے۔۔۔ اور میں نے آہستہ سے اُس کی شلوار نیچے کرنا شروع کر دی۔۔ جب شلوار اُس کے گھٹنوں تک پہنچی تو اُس نے خود ہی اپنے پاوں کی مدد سے پوری اُتاردی۔۔
    میں نے اپنا ہاتھ آہستہ سے اُس کی مخملیں رانوں پر پھیرنا شروع کر دیا۔اور اپنے ہاتھ کو اُس کی ٹانگوں کے درمیان لے گیا۔اور اُس کی لکیر پر پھیرنا شروع کر دیا۔وہ جگہ پوری طرح گیلی ہو چکی تھی۔۔میرا ہاتھ جیسے ہی اُسکی لکیر سے ٹکرایا اُس نے ایک لمبی سی سسکاری لی اور مجھے اپنے ساتھ زور سے لپٹا لیا۔اُسکی وہ جگہ بالوں سے بالکل پاک تھی ایسے لگ رہا تھا جیسے آج ہی اُس نے بال صاف کیے ہوں۔مجھے دوبارہ یہ شک گزرا کہ شاید وہ گھر سے ہی چدنے کے لیے تیار ہو کر آئی تھی۔۔ بہرحال وہ جگہ چکنی ہونے کی وجہ سے میرے انگلی بار باراندرکی جانب پھسل رہی تھی۔میں نے آہستہ سے اپنی انگلی اندر داخل کی جس سے شاید اُس کو آگ سی لگ گئی۔ اُس نے میرے کاندھے پر دانت گاڑ دیئے میں نے درد سے سسکاری بھری مگر اُس کو منع نہیں کیا وہ بہت مزے میں تھی۔میری انگلی پھنس کر اندر جا رہی تھی۔ واقعی لگتا تھا جیسے اُس کو آج تک استعمال ہی نہیں کیا گیا تھا۔ وہ بہت ٹائیٹ تھی۔۔۔دوسری طرف صائمہ میرے انگلی کرنے کی وجہ سے فل مزے میں تھی۔۔ وہ اپنا سر بیڈپر ادھر اُدھر مار رہی تھی اور اپنی ٹانگیں کھول کر میرے انگلی کو مزید اندر لینا چاہ رہی تھی۔۔۔۔پھر میں نے اپنی انگلی باہر نکالی اور دو انگلیوں کو جوڑ کر آہستہ سے اندر داخل کرنے لگا۔شروع میں تھوڑی سی مشکل ہوئی مگر تھوڑی دیر بعد میری دونوں انگلیاں اندر باہر ہونے لگیں۔۔۔ زیادہ رگڑ لگنے کی وجہ سے صائمہ مزے کے ساتویں آسمان پر پہنچ گئی۔۔ اُس نے بیڈ کی چادر کو دونوں
    ہاتھوں میں بھینچ لیا تھا اور آنکھیں بند کر کے اپنے ہی ہونٹوں کو کاٹنے لگی تھی۔۔ مجھے لگا کہ اب لوہا فل گرم ہو چکا ہے چوٹ مارنے کا وقت آ گیا ہے۔ ویسے بھی کنڈوم پہنے ہوئےپندرہ منٹ سے زیادہ ہی ہو چکے تھے لہذا میں اُٹھا اور اُس کی ٹانگیں کھول کر اُن کے درمیان جا بیٹھا۔اور اپنے فل تنے ہوئے لن کو اُس کی چکنی لکیر پر پھیرنا شروع کر دیا۔۔۔ اُس وقت میں نے پہلی دفعہ اُسکی چوت کو دیکھا۔صائمہ ہر جگہ سے ہی خوبصورت تھی مگر اتنی خوبصورت چوت میں نے انگلش فلموں میں بھی نہیں دیکھی تھی۔وہ بالکل ٹائیٹ اور بند تھی۔ صرف لکیر نظر آ رہی تھی۔جب میں اپنے لن کی ٹوپی اُس پر پھیرتا تو ہلکی سی اندر سے پنک کلر کی نظر آتی اور پھر بند ہو جاتی۔میں اپنی قسمت پر رشک کر رہا تھا کہ مجھے اتنی خوبصورت اور ٹائیٹ عورت کو چودنے کا موقع ملا تھا۔۔۔ لن پھیرنے کی وجہ سے صائمہ صبر کی حدوں سے نکل چکی تھی اور نیچے سے اپنے جسم کو اُٹھا رہی تھی جیسے کہہ رہی ہو کہ اندر ڈالو۔۔۔ میں نے اشارہ سمجھ کر اپنے لن کی ٹوپی کو سوراخ پر سیٹ کیا آہستہ سے دباو ڈالنا شروع کیا۔ ٹائیٹ ہونے کی وجہ سےمجھے تھوڑا زیادہ دباو ڈالنا پڑا۔ اُسکی چکناہٹ اور زیادہ دباو ڈالنے کی وجہ سے میرے لن کی ٹوپی ایکدم اندر داخل ہو گئی۔۔ تو صائمہ کو جیسے ہوش سا آگیا۔۔ میں اسکے لیے تیار نہیں تھا۔۔ اُس کے منہ سےہلکی سی چیخ برآمد ہوئی ۔۔۔ آووووووئی۔۔۔ میں نے گبھرا کر اُس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔۔۔ اُسکی آنکھیں پوری کھل گئی۔۔میں اُس ہی پوزیشن پر رُک گیا۔۔۔ اُس نے اپنے ہاتھ سے پکڑ کر میرا ہاتھ منہ سے ہٹایا اور بولی۔۔ حامد پلیز۔۔۔ آرام سے ۔۔ کیا ہوا جان زیادہ درد ہوا؟؟؟۔۔۔ نہیں بہت زیادہ تو نہیں ہوامگردرد ہوا ہے۔۔ اب مزید اندر نہ کرنا ۔۔۔ میں نے کہا اوکے اور پھر آہستہ سے اپنی ٹوپی کو باہر نکال کر دوبارہ اندر ڈالا۔۔ اس مرتبہ وہ بھی تیار تھی جس وجہ سی وہ چپ رہی۔۔ میں نے پوچھا ۔۔ کیوں اس دفعہ بھی درد ہوا؟؟؟ وہ بولی ۔۔ نہیں اس دفعہ پہلے سے بہت کم ہو ا ۔۔ میں نے پھر آہستہ آہستہ ٹوپی کو آگے پیچھے حرکت دینا شروع کر دی جس سے اُس کو مزہ آنا شروع ہو گیا۔۔۔ تھوڑی دیر بعد اُس نے بھی نیچے سے اپنے جسم کو اُٹھا اُٹھا کر میرا ساتھ دینا شروع کر دیا۔۔۔ اب مجھے لگ رہا تھا جیسے اُس کا دل کر رہا ہےکہ پورا اندر جائے۔۔ مگر میں اُسی جگہ پر رُکا ہوا تھا۔۔ اُس نے کافی مرتبہ کوشش کی اور اپنے جسم کو زیادہ اُٹھایا تاکہ تھوڑا اور اندر جا سکے لیکن میں اُس وقت دباو کم کر دیتا اور تھوڑا پیچھے ہو جاتا اور اُس کا وار خالی جاتا۔ میں اُس کو مزید تڑپانا چاہتا تھا تاکہ وہ خود مجھ سے بول کر کہے ۔۔۔ تھوڑی دیر یہ کھیل جاری رہا۔۔ آخر کار اُس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔۔ وہ اپنے منہ کو میرے کان کے قریب لا کر بولی۔۔ حامد پلیز تھوڑا اور اندر کرو نا۔۔۔۔ کیوں جان؟؟؟ مزہ آ رہا ہے پلیز تھوڑا اور اندر کرو۔پلیززززززززز۔۔۔۔۔
    میں بولا۔۔ یا ر کہیں تمہیں درد نہ ہو۔۔ ۔۔ نہیں ہوتا یار،پلیز اندر کرو۔۔۔ یار دیکھ لو تمہاری چیخ نہ نکل جائے۔۔۔۔۔ نہیں نکلتی چیخ پلیزززززز اندر کرو۔۔۔۔ میں یہی سننا چاہتا تھا۔۔۔ساتھ ہی میں نے ایک زوردار جھٹکا لگایا اور اپنا پورا فل تنا ہوا لن جڑ تک اُس کی چوت میں گھسا دیا۔۔۔ مگر میں اس سے پہلے اُس کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں سے مکمل جکڑ چکا تھا۔۔۔ اُس کی ایک دردناک چیخ میرے منہ میں ہی رہ گئی۔۔اُس نے اپنا منہ آگے پیچھے اور سائیڈ پر کرنے کی بہت کوشش کی مگر میں پوری طرح تیار تھا اور اُس کو فل قابو کیا ہوا تھا۔۔ اُس نے بہت کوشش کی کہ وہ میرے نیچے سے نکل جائے یا اپنا منہ آزاد کروا لے مگر اب یہ نہیں ہو سکتا تھا۔ پانی سر سے گزر چکا تھا۔۔۔۔۔۔۔
    اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔۔۔۔۔۔۔ اُس نے کافی کوشش کے بعد ہتھیار ڈال دیے اور ساکت ہو گئی۔۔ جب میں نے دیکھا کہ وہ بحال ہو چکی ہے تو میں نے بھی آہستہ سے اُس کہ منہ کو آزاد کر دیا۔۔۔ ۔۔ مگر لن کو اندر ہی رہنے دیا۔۔ منہ آزاد ہوتے ہی اُس نے لمبی لمبی سانسیں لیں اور بولی ۔۔ ہائے میں مرگئی۔۔ حامد ماردیا تم نے مجھے۔۔۔ اتنا ظلم بھی کوئی کرتے ہیں۔۔ بہت ظالم ہو تم یہ کہتے ہوئے اُس کی موٹی موٹی آنکھوں میں آنسو لہرا رہے تھے۔۔۔۔ کیا ہوا جان تم نے خود ہی تو کہا تھا کہ اندر ڈالو میرا کیا قصور ہے؟؟؟ یہ کب کہا تھا کہ ایک ہی جھٹکے میں سارا اندر ڈال دو۔۔۔ میری تو ہر چیز پھاڑ دی تم نے۔۔۔ اُف خدایا۔۔ایک تو اتنابڑا اور وہ بھی ایک جھٹکے میں اندر کر دیا۔۔ میں مر جاتی تو؟؟؟ جان کچھ نہیں ہوتا۔۔ جو درد ہونا تھا ہو چکا اب مزے لو۔۔۔۔ وہ بولی۔۔۔ اچھا ٹھیک ہے پلیز اب آرام سے کرنا۔۔۔ میں بولا اوکے۔۔ اور
    پھر لن باہر نکالا اور آہستہ سے بغیر جھٹکے کے دباو ڈال کر اندر کر دیا اس دفعہ وہ برداشت کر گئی۔۔۔ میں نے آہستہ آہستہ اندر باہر کرنا شروع کر دیا۔۔ اُس کو دوبارہ مزہ آنا شروع ہو گیا تھا۔۔ مگر مجھے جو مزہ جھٹکے میں آیا تھا وہ آہستہ کرنے سے نہیں آ رہا تھا۔۔ میں نے اُس سے کہا یار اگر برداشت کر سکو تو ایک جھٹکہ مار لوں مزہ آئے گا۔۔ وہ بولی اوکے لیکن بتا کر مارنا۔۔۔ میں نے کہا اوکے تیار ہو جاو۔۔ اور پورا لن باہر نکال کر ٹوپی سیٹ کی اور زوردار جھٹکہ مار کر پورا اندر کر دیا اُس نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیا تھا۔۔۔۔
    کوئی آواز برآمد نہیں ہوئی ہو برداشت کر گئی تھی۔میں نے پوچھا کیوں کیا صورتحال ہے۔۔ اُس نے کہا کہ اوکے اب درد بہت کم ہوا ہے بلکہ مزہ زیادہ آیا ہے۔۔۔ بس پھر کیا تھا۔۔ میں نے اُس کی ٹانگیں اُٹھا کر اپنے کاندھوں پر رکھیں اور جھٹکے مارنا شروع ہو گیا۔۔۔ وہ اب مزے کی بلندیوں پر تھی اور اُس کے منہ سے سسکاریاں اورمزے کی آہیں نکل رہی تھیں۔۔۔ پندرہ منٹ اسی طرح کرنے کے بعد مجھے اپنی فیورٹ پوزیشن کا خیال آیا۔۔۔ میں رک گیا۔اور لن کو باہر نکال لیا۔۔ اور بیڈ سے اُتر کر قالین پر کھڑاہوگیا۔ وہ سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھنے لگی۔۔ میں نے ہاتھ سے پکڑ کر اُس کو بیڈ کے کنارے پر اپنے سامنے گھوڑی بنالیا اور خود اُس کے پیچھے کھڑا ہو گیا۔۔ واہ کیا منظر تھا۔۔ اُس کی گول گول گوری گانڈ میرے سامنے تھی ۔ میں نے پیچھے سے لن اُس کی چوت پر سیٹ کیا اور ایک جھٹکے سے اندر اُتار دیا۔۔ اب میرے لن کے لیے سیٹ ہو چکی تھی اس لیے کو ئی مشکل پیش نہ آئی اور میں جھٹکے مارنا شروع ہو گیا۔ اب صائمہ بھی میرا ساتھ دے رہی تھی۔۔ میں جب آگے کو جھٹکہ مارتا تو ہو پیچھے کو مارتی اور میرا لن اُس کے اندر جڑ تک اُتر جاتا۔۔۔ دس منٹ اسی پوزیشن میں کرنے پر مجھے احساس ہوا کہ اب میں فارغ ہونے کے قریب تھا۔۔ میں نے اپنی سپیڈ تیز کر دی ۔۔ اُدھر صائمہ کی آہیں اور سسکیاں آہستہ آہستہ چیخوں میں تبدیل ہو رہی تھیں ۔۔ میں نے غور کیا تو وہ کہہ رہی تھی ۔۔ حامد پلیز اب بس کرو مجھے چھوڑ دو میں تین دفعہ فارغ ہو چکی ہوں مجھ میں اب ہمت نہیں ہے۔۔۔ پلیززززززززز۔۔۔۔ یہ سن کر میری سپیڈ اور تیز ہو گئی اور ایک زوردار جھٹکے سے میں نے اپنا سارا لوڈ صائمہ کی چوت کے اندر ہی چھوڑ دیا۔۔۔یہ تو شکر ہے میں نے کنڈوم پہنا ہوا تھا ۔نہیں تو صائمہ نے پکا پریگننٹ ہوجانا تھا کیونکہ میں اتنا نشے میں تھا کہ میں عین ٹائم پر باہر نہیں نکال سکتا تھا۔۔۔۔ میرے جسم کو جھٹکے لگ رہے تھے اور صائمہ نے بھی محسوس کر لیا تھا کہ میں فارغ ہو رہا ہوں اس لیے وہ بھی چپ ہو گئی تھی۔۔۔ میں تھوڑی دیر لن کو اندر ہی ہلاتا رہا ۔ پھر باہر نکال کر صائمہ کے ساتھ ہی بیڈ پر لیٹ گیا۔ وہ بھی لیٹی ہوئی لمبی لمبی سانسیں لے رہی تھی ۔اور آنکھیں بند کی ہوئی تھی۔ پندرہ سے بیس منٹ تک ہم ایسے ہی لیٹے رہے۔ میں اُس کے سفید دودھیا جسم کو دیکھ رہا تھا وہ اُلٹی لیٹی ہوئی تھی اور اُس کی گول گول گانڈ لیمپ کی ہلکی ہلکی سرخ روشنی میں بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔مجھے لگ رہا تھا کہ وہ تھک کر سو چکی تھی۔ میں نے کروٹ لی اور اپنا بایا ں ہاتھ اُس کی پیٹھ اور گانڈ پر پھیرنا شروع کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    اُس کے ملائم اور خوبصورت جسم کا لمس پا کر میرے ہتھیار نے پھر انگڑائی لی اور اپنے آپ کو جنگ کے لیے پھر سے تیار کرنے لگا۔ میں نے اپنے لن پر نظر ڈالی اور مجھے ہنسی آ گئی۔ کیونکہ ابھی تک پہلا کنڈوم اُترا نہیں تھا۔ اور وہ دوبارہ تیار ہو رہا تھا۔خیر میں اُٹھا اور واش روم میں جا کر کنڈوم کو ڈسٹ بن میں ڈالا اور لن کو پانی سے صاف کیا اور پھر ٹشو پیپر سے خشک کیا اور تولیہ لپیٹ کر باہر آگیا۔صائمہ ابھی تک بے خبر اُلٹی لیٹی ہوئی تھی۔ میں تھوڑی دیر اُس کو ایسے ہی دیکھتا رہا۔اور سوچ رہا تھا کہ بنانے والے نے اُس کو واقعی فرصت میں بنایا ہو گا۔اُس کا جسم تھا ہی ایسا کہ شریف سے شریف آدمی بھی اُس کو اس حالت میں دیکھتا تو اپنے آپ پر قابو نہ پا سکتا۔مجھے دوبارہ لگ رہا تھا کہ میں زیادہ صبر نہیں کر پأوں گا حالانکہ میں کچھ ہی دیر پہلے بہت تسلی سے اُس کی لے چُکا تھا۔ لیکن دل کر رہا تھا کہ اسی طرح اُس کے اوپر جا کر پکڑ لوں اوراُس کی گانڈ میں لن ڈال دوں۔ مگر یہ سوچ بھی آرہی تھی کہ پتہ نہیں کتنے عرصے بعد وہ اِس طرح کاسکون حاصل کرنے کے بعد سو رہی تھی۔ میں اُس کو ڈسٹرب نہیں کرنا چاہ رہا تھا۔ مگر میرا ہتھیار ابھی بھی فل موڈ میں تھا۔ میں نے وقت دیکھا ۔ رات کا ایک بج رہا تھا۔ میں نے سوچا ابھی بہت وقت ہے ایک مرتبہ اور مزہ اُٹھا لینا چاہیے اور یہی سوچ کر میں اگے بڑھا ۔اور اُس کے پاس بیٹھ کر اُس کی اوپر اُٹھی ہوئی خوبصورت گانڈ پر ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا۔ وہ اب بھی بے سُد لیٹی ہوئی تھی۔ میرا لن فل موڈ میں لہرا رہا تھا۔ کہ اچانک مجھے خیال آیا کہ میں خود غرض بن رہا ہوں۔ مجھے خیال آیا کہ وہ آج کی رات میں تین سے ذیادہ مرتبہ فارغ ہو چکی ہے۔ اس دفعہ شاید وہ پسند نہ کرے اور مجھ سے تنگ نہ آ جائے۔ میں اُس کو کھونا نہیں چاہتا تھا۔اُس سے لمبی دوستی رکھنا چاہتا تھا۔ایک دفعہ میرے ایک بزرگ نے مجھے نصیحت کی تھی کہ ۔
    "جب ایک عورت کسی مرد کو اپنا سب کچھ سونپ دیتی ہے تو وہ اُس سے بہت سی اُمیدیں بھی وابستہ کر لیتی ہے۔کہ وہ مرد اُس کا ہر طرح سے خیال رکھے گا۔ اور وہ اُس مرد پر احسان کرتے ہوئےاپنی ایک امانت اُس کے سپرد کرتی ہے۔تو آپ کو اُس کے اس احسان کا خیال رکھنا چاہیے اور اُس کو کسی طرح کی تکلیف یا درد میں ڈال کر خود غرض نہیں بننا چاہیے ۔ اس قسم کے مرد سےعورت جلد تنگ آ جاتی ہے جو ہر وقت اپنی غرض کا خیال رکھے۔عورت ایک صنف نازک ہے اور اُس کو ایک نازک گفٹ کے طور پر سنبھال کر رکھنااور اُسے کبھی ٹوٹنے نہ دینااور اُس پر کبھی خود غرضی کی چوٹ نہ مارنااور پھر دیکھنا وہ ساری زندگی تم سے زیادہ تمہارا خیال رکھے گی"
    میں صائمہ سے لمبی دوستی کا خواہشمند تھا۔اُس کا خیال رکھنا چاہتا تھا اور اُس کو سنبھال کر رکھنا چاہتا تھا۔ لہذا میں نے چادر کھولی اور اُس کے جسم پر ڈال دی اور خود اُس کے ساتھ خالی جگہ پر دوسری چادر اوڑھ کر لیٹ گیا۔ پھر مجھے خیال آیا اور میں نے موبائیل پر صبح 8 بجے کا الارم لگایا اور سونے لگا۔ اور تھوڑی ہی دیر میں نیند کی آغوش میں چلا گیا۔
    سوتے ہوئے مجھے اچانک ایسا لگا کہ کوئی میرے گال کو تھپ تھپا رہا ہے۔ میں نے آنکھیں کھول دیں۔صائمہ کا چہرہ میرے بالکل سامنے تھا اور اُس کے بھاری بھرکم مموں کا بوجھ بھی میرے سینے پر تھا۔
    حامد اٹھو یار۔۔۔۔۔ الارم کی آوازسے بھی نہیں اُٹھے؟
    جی جی ۔۔۔اُٹھ گیا۔ کیا ٹائم ہوا ہے؟
    آٹھ بج رہے ہیں۔ جلدی اُٹھیں ہم نے نکلنا نہیں ہے کیا؟ یہ کہتے ہوئے وہ اُٹھ کر بیٹھ گئی۔ اور ساتھ ہی میں بھی اُٹھ گیا۔
    اُس کے بال کھلے ہوئے تھے۔ اور اُس نے جسم پر چادر لپیٹی ہوئی تھی۔ اُس کے اور میرے کپڑے اُسی طرح صوفے اور فرش پر پڑے تھے۔ جیسے ہم نے رات کو اُتارے تھے۔ اور ہم دونوں اپنی اپنی چادر لپیٹے بیٹھے ہوئے تھے۔میں نے اُس کی طرف دیکھا اور ہماری نظریں ٹکرایں اور اُس نے شرما کر نیچے دیکھنا شروع کر دیا۔ میں ہنس کر بولا۔
    کیسی ہیں میڈم؟؟؟ رات کیسی گزری؟؟؟
    یہ سُن کر اُس کا چہرہ شرم سے سُرخ ہوگیا۔ وہ بدستور نگاہیں نیچے کیے ہوئے بولی۔
    میں تو اُسی وقت سوگئی تھی۔ آپ مجھے جگا دیتے میں کپڑے ہی پہن لیتی۔اب صرف ایک چادر میں لپٹی بیٹھی ہوں۔
    تم بہت سکون سے سو رہی تھی۔ میں تم کو کافی دیر تک دیکھتا رہا۔تمہارے خوبصورت جسم پر ہاتھ بھی پھیرتا رہا تم بہت پیاری لگ رہی تھی۔
    اچھا۔۔۔ مجھے جگا دیتے پھر۔۔۔
    نہیں میں تمہیں ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتا تھا۔ڈر رہا تھا کہ تمہیں پریشان نہ کر دوں۔۔۔ کہیں تم مجھ سے بددل نہ ہو جاو۔۔۔ اور مجھے خود غرض نہ سمجھنا شروع کر دو۔۔۔یہ میری زندگی کی سب سے خوبصورت رات تھی۔جو تمہاری وجہ سے مجھے ملی۔میں زندگی بھر تمہارا احسان نہیں بھولوں گا۔۔۔تم نے مجھے آج وہ خوشی دی ہے جو میں زندگی میں کبھی بھی بھلا نہیں سکوں گا۔ تم میرے لیے ایک گفٹ ہو اور میں تمہیں سنبھال کر رکھنا چاہتا ہوں۔
    یہ آپ کا بڑا پن ہے حامد۔۔۔۔۔ ورنہ لوگ تو عورت کو ایک کھلونا سمجھتے ہیں۔ نئے کھلونے سے جی بھر کر کھیلتے ہیں اور جیسے ہی وہ دل بھرتا ہے اُس کو پھینک کر نئے کی تلاش میں نکل جاتے ہیں۔اور ایک آپ ہیں مجھے سنبھالنے کی باتیں کر رہے ہیں۔
    یہ کہ کر وہ کھڑی ہوئی اور چادر کو لپیٹے ہوئےمیرے سامنے آ گئی ۔اُس کی آنکھوں میں نمی سی تھی۔ اُس نے دونوں ہاتھ میرے گالوں پر رکھے اور اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں میں پیوست کر دیے۔ ایسا کرنے سے اُس کی چارد نیچے گر پڑی۔ مگر اُس کو چادر کا ہوش نہیں تھا۔وہ آنکھوں میں نمی لیے میرے ہونٹوں کو چوسے جا رہی تھی۔ میں ایک بت کی طرح کھڑااُس کی برہنہ پیٹھ پر ہاتھ پھیر رہا تھا۔اُس نے ہونٹوں کے بعد میرے چہرے کےہر حصے پر بوسوں کی بارش کر دی ۔ اور ساتھ ساتھ وہ سرگوشیوں میں کہ رہی تھی ۔۔۔۔
    حامد تم مجھے پہلے کیوں نہیں ملے۔۔۔۔؟؟؟؟ آئی رئیلی لو یو۔۔۔۔۔
    حامد تم مجھے پہلے کیوں نہیں ملے۔۔۔۔؟؟؟؟ آئی رئیلی لو یو۔۔۔۔۔
    کچھ دیر یہی سین چلتا رہا۔۔۔میرے جسم سے بھی چادر اُتر چکی تھی مگر تولیہ ابھی تک میری کمر پر لپٹا ہو تھا۔ صائمہ کی اس بے خودی اور برہنہ جسموں کے ٹکرانے کے سبب میرا لن فل تیارہو چکا تھا۔ لہذا میں نے بھی صائمہ کو جواب دینا شروع کر دیا۔ اور اُس کے ہونٹوں کو چوسنا شروع کر دیا۔ میرے ہاتھ اب اُس کے خوبصورت مموں کو دبانے میں مصروف ہو گئے۔
    پھر میں نے ایک اور فیصلہ کیا اور آہستہ سے اپنا ایک بازو اُس کے پیچھے سے گزار کر اُس کو اپنی باہوں میں اُٹھا لیا۔اور چلتا ہوا واش روم کی طرف چل دیا۔ اُس نے کچھ حیرانی سے میری طرف دیکھا مگر کچھ نہ بولی۔ میں اُس کو اُٹھائے ہوئے واش روم میں داخل ہوا۔اور اُس کو واش روم میں کھڑا کر دیا۔ اپنی کمر سے تولیہ اُتار اور اُس کو ٹاول سٹینڈ پر ڈالا ۔۔۔ اور پانی کاشاور کھول دیا۔ پانی کی ہلکی ہلکی بوندیں ہمارے ننگے جسموں پر پڑنا شروع ہو گئیں۔ ساتھ ساتھ ہم ایک دوسرے کے ہونٹوں کو چوس رہے تھے۔ پھر میں تھوڑا سا نیچے ہوا اور اُس کے ایک ممے کا نپل اپنے منہ میں ڈال کر چوسنے لگا۔اور ساتھ دوسرے ہاتھ سے اُس کا دوسرا ممہ دبانے لگا۔ اُس کا ایک ہاتھ میرے بالوں میں تھا اور دوسرےہاتھ سے اُس نے اپنے بالوں کو پکڑ رکھا تھا۔اور فل مزے میں تھی۔ اُس کے منہ سے سسکاریوں کی آوازیں نکل رہیں تھیں۔میں نے آگے بڑھ کر ایک ہاتھ سے شاور بند کر دیا اور اپنا گیلا ہاتھ اُس کی دونوں ٹانگوں کے درمیان لے گیا۔ اُس کی چوت میں ہلکے سے انگلی داخل کی وہ کافی گرم تھی ۔ تھوڑی دیر تک انگلی کرنے کے بعد میں سیدھا ہوا اور صائمہ کے پیچھے آگیا ۔ اور اُس کو پیچھے سے پکڑ کر دونوں مموں کو مسلنے لگا۔ ایساکرنے سے میرا لن اُس کی گانڈ کی لکیر میں تھا۔ اور وہ اپنی گانڈ کو پیچھے کی طرف دبا رہی تھی جیسے چاہ رہی ہو کہ میں اندر کروں۔ میں نے اُس کا اشارہ سمجھا اور اُس کے دونوں بازو پکڑ کر دیوار میں لگے ٹاول سٹینڈ پر رکھ دیے۔ ٹاول سٹینڈ تھوڑا نیچے لگا ہو تھا۔ اُس کو پکڑنے کی وجہ سے وہ تھوڑا جھک گئی اور اور اُس کی گانڈ پیچھے کو نکل آئی۔ میں نے پیچھے سے اپنے لن کو پکڑا اور اُس کی گیلی چوت پر رکھ کر دباو ڈالنا شروع کر دیا۔ مگر جسم گیلا ہونے کی وجہ سے درست طریقے سے اندر داخل نہیں ہو پا رہاتھا۔ لہذا میں اپنے ہاتھ میں ہلکا سا تھوک لگا کر اپنے لن کی ٹوپی پر لگایا اور کچھ اُس کی چوت پر لگا کر دوبارہ سے ٹرائی کی۔ اس دفعہ تھوڑا زور لگانے سے ہی میرا لن اندر داخل ہو گیا جس سے صائمہ کے منہ سے سسکاری نکل گئی۔ مگر اُس نے درد کا شکایت نہیں کی ۔جس کی وجہ سے میں شیر ہو گیا اور تھوڑا سا جھٹکا لگا کر پورا اندر کردیا اور جھٹکے لگانے لگا۔ اس دفعہ میں نے کنڈوم نہیں پہنا ہو تھا۔ جس کی وجہ سے مجھے زیادہ مزہ آرہا تھا۔اور میں بار بار اپنا پورا لن باہر لاتا اور ایک جھٹکے سے پھر اندر کر دیتا۔ چونکہ صائمہ پورے طریقے سے نہیں جھکی ہوئی تھی اس لیے میرا لن پورے کا پورا اندر نہیں جاتاتھا تھوڑا سا باہر ہی رہ جاتا اور میں سوچ رہا تھا کہ اُس کو زیادہ جھکاوں تاکہ پورا اندر جائے۔ مگر یہ بھی ڈر تھا کہ اگر اُس نے ٹاول سٹینڈ کو چھوڑا تو وہ گر ہی نہ جائے۔ میں کچھ اور ترکیب سوچ رہا تھا۔ مجھے واش روم میں انگلش کموڈ نظر آیااور پھر میں پیچھے ہٹا اور صائمہ کو گما کر کموڈ کی طرف لے آیا۔ کموڈ کا کور بند تھا۔ میں نے اُسے کہا کہ وہ اپنے گھٹنےکموڈ کے اوپر رکھ لے۔ اُس نے ایسا ہی کیااور گھٹنے کموڈ پر رکھ کر آگے کو جھک گئی۔ایسا کرنے سے اُس کی گانڈ اور چوت پورے طریقے سے میرے سامنے آگئی۔ اور میں نے پھر سے پیچھے سے اپنا پورا لن اُس کی چوت میں گھسا دیا۔ اس پوزیشن سے میرا لن پورے کا پورا اندر آ اور جا رہا تھا اور ہر جھٹکے سے صائمہ کے منہ سے سسکی نکل جاتی۔ میں نے ہاتھ آگے کر کے اُس کے بالوں کو اکٹھاکر کے پکڑا جس سے اُس کا نیچے جھکا ہوا سر اوپر کو ہو گیا۔اور میں نے بالوں کو کھینچ کر زور سے جھٹکے لگانے سٹارٹ کر دئیے۔صائمہ کا چہرہ مجھے نظر آرہا تھا۔ اُس کی آنکھیں بند تھیں اور اُس نے اپنے ہونٹ کو دانتوں میں دبا رکھا تھا اور فل مزے لے رہی تھی۔ میرا لن پورے طور پر ٹوپی تک باہر آتا اور میں پھر ایک زور دار جھٹکے سے اُس کو دوبارہ اندر کر دیتا۔ جھٹکے کی وجہ سے میرا جسم زور دار آواز کے ساتھ اُس کی گانڈ سے ٹکراتا اور اُس کی سفید نازک گانڈ میں ایک لہر سی پیدا ہوتی۔ واش روم جھٹکوں کی دھپ دھپ اور صائمہ کی سسکیوں سے گونج رہا تھا۔بغیر کنڈوم کرنے کی وجہ سے مجھے اور مجھ سے زیادہ شاید صائمہ کو مزا آرہا تھا۔اور دوسرا مجھے پورے طریقے سے اُس کی گانڈ اور چوت میں اندر باہر ہوتا ہوا میرا ہتھیار نظر آرہا تھااور میں مزے کی آخری سٹیج پر تھا۔ اور آخر کار مجھے لگا کہ میں فارغ ہونے والا ہوں تو میں نے اپنا لن باہر نکالا اور صائمہ کی گانڈ کے اوپر رکھ کر ہاتھ سے مٹھ لگانا شروع ہو گیا۔ اور تھوڑی دیر بعد میں نے اپنی ساری منی صائمہ کی پیٹھ اور گانڈ پر نکال دی۔میری منی کی قطرے اُس کی گانڈ کے سوراخ پر بھی گرے۔ جن کا نظارہ بہت خوبصورت تھا۔ صائمہ میرے مکمل فارغ ہونے تک اُسی پوزیشن میں رہی اور پھر میرے پیچھے ہٹنے پر وہ بھی کھڑی ہو گئی۔ دونوں کو سانس چڑھا ہوا تھا۔ہم دونوں نے ایک دوسرے سے نظر ملائی اور دونوں ہنس پڑے ۔ وہ بولی
    یار ۔۔۔۔ آج تو حد ہو گئی۔ اتنی ایکسرسائیز میں نے زندگی میں نہیں کی جتنی آج رات اور صبح کر لی۔۔۔ مجھ سے تو اب ٹھیک سے کھڑا بھی نہیں ہوا جا رہا۔
    بہت تھکا دیا تم نے۔
    اچھا۔۔۔ اگر تھک گئی ہو تو اُٹھا لوں تم کو۔۔۔۔۔
    جی نہیں شکریہ۔۔ پہلے ہی کافی اُٹھا لیا آپ نے۔۔ اب تو ہمت نہیں ہے۔پلیز اب باہر جاؤ۔۔ میں شاور لے لوں۔۔۔۔
    اب کیا شرم ؟؟؟ اکھٹے لیتے ہیں شاور۔۔۔
    نہیں ۔۔۔ پلیز باہر جاؤ۔ ۔۔۔ میں باہر آؤں گی پھر آپ آنا۔۔۔۔۔
    اوکے جیسے آپ کی مرضی۔۔۔۔
    میں واش روم سے باہر آ گیا۔اور بیڈ پر چادر لے کر لیٹ گیا اور اُس کے باہر آنے کا انتظار کرنے لگا۔۔۔۔ اُس نے واش روم سے آواز دے کر اپنے کپڑے منگوائے اور پہن کر باہر آ گئی۔۔۔
    میں نے انٹر کام پر ہیوی قسم کے ناشتے کا آرڈر دیا اوراپنے کپڑے اُٹھا کر واش روم میں گس گیا۔۔۔۔
    جب میں باہر نکلا تو ناشتہ آچکا تھا۔۔۔ اور صائمہ انتظار کر رہی تھی۔۔۔ ہم دونوں نے ڈٹ کر ناشتہ کیا کیونکہ رات اور صبح کی ایکسرسائز کی وجہ سے زوروں کی بھوک لگ رہی تھی۔
    تھوڑی دیر بعد ہماری گاڑی اُس ہوٹل سے نکل کر موٹروے کیطرف بھاگی جا رہی تھی۔

    ختم شد​

  • #2

    ایک اچھا لکھاری ہی جانتا ہے کہ ایک کہانی کو انمول کیسے بنایا جاتا ہے۔
    ایک ایسا شہکار جس کی تعریف کرنے کے لیے الفاظ کم پڑ جائیں۔۔
    بہت اعلی اپڈیٹ

    Comment


    • #3
      Bohot hi mazydar update akhr chod hi gai bachi

      Comment


      • #4
        Shandar warzish thy

        Comment


        • #5
          Buhat achi short story hai. Maza aa gaya.

          Comment


          • #6
            شہوت انگیز

            Comment


            • #7
              Boht behtareen kahani
              phar ka boht maza aya saima ki khoob chodai ki

              Comment


              • #8
                بہت عمدہ کہانی ہے، کمال کی منظر کشی کی ہے اور سیکس تو اخیر ہی ہے

                Comment


                • #9
                  Lajwab story hai jnab

                  Comment


                  • #10
                    Mukhtasar magar shandar kahani he

                    Comment

                    Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                    Working...
                    X