Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

شہوت ذادیوں کا سفر

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #41
    Boht zabardast update

    Comment


    • #42
      Kahani ka aghaaz e kamal h

      Comment


      • #43
        اسلام علیکم دوستو۔
        امید ہے آپ سب کو کہانی پسند آ رہی ہو گی۔ جیسے پہلے بتا چکا ہوں، یہ کہانی اپنے اختتام کے قریب ہے۔ لہذہ حسب وعدہ اس کہانی کا آخری حصہ پیش خدمت ہے۔ امید ہے پچھلی اقساط کی طرح یہ آخری قسط بھی آپ سب کو پسند آئے گی۔
        ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــ
        شہوت ذادیوں کا سفر- آخریقسط

        رباب نے ایک قدم اور آگے بڑھایا، اور اسکے اتنا قریب چلی گئی کہ رباب کی چوچیاں (نپل) اس نوجوان کے سینے سے ہلکی ہلکی ٹچ کرنے لگی۔ رباب اس کی آنکھوں میں دیکھنے لگی۔
        رباب: ہائے آپ کتنے اچھے ہیں۔ تھینک یو
        رباب کے انداز میں بے انتہا لوچ اور شہوت تھی۔ نوجوان کے جزبات مچلنے لگے تھے۔ لیکین وہ ابھی خود سے کچھ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس کا تجربہ ہو چکا تھا کہ کئی لڑکیاں صرف فلرٹ کر رہی ہوتی ہیں۔ لیکین رباب تو رباب تھی۔ وہ کہاں فلرٹ تک رکھنے والی تھی۔
        اس نے نوجوان کے سینے پر ہاتھ رکھا اور سینے کو پیار سے مسلتے ہوے کہا

        رباب: اے ہینڈسم، تمارا نام کیا ہے؟
        نوجوان: جی، ساحر۔۔۔ میرا نام ساحر ہے مس
        رباب: اُف اللہ ساحر جی۔ کیا جادو ہے آپ کی آنکھوں میں۔
        اور یہ کہتے ہوئے رباب نے اپنے ہاتھ اس کی گردن کے گرد حمائل کر کے اپنے ہونٹ ساحر کے ہونٹوں سے ملائے اور بڑے بیباکانہ انداز میں کس کیا۔ ساحر بھی سمجھ گیا تھا کہ معاملہ صرف فلرٹ کا نہیں ہے۔ وہ تو چاہتا ہی یہی تھا۔ اس کی تو جیسے لاٹری نکل آئی تھی۔ اس نے رباب کو کمر سے پکڑا اور اپنی بانہوں میں کس لیا۔ اور بھرپور انداز میں رباب کے ساتھ کسنگ کرنے لگا۔ وہ دونوں پورے جوش سے ایک دوسرے کے ہونٹوں کو چوم چوس رہے تھے۔ ساحر کے ہاتھ رباب کے بدن کا طواف کرنے لگے۔ پہلے اس کی کمر کو سہلاتا رہا۔ اور پھر اس کے ہاتھوں نے نیچے کا سفر شروع کیا۔ جن کولہوں نے ساحر کی توجہ حاصل کی تھی، وہ انہیں چھونا چاہتا تھا۔ اور پر اس کے دونوں ہاتھ رباب کے کولہوں تک پہنچ گئے۔
        ساحر نے پہلے رباب کے دونوں کولہوں پر پیار سے ہاتھ پھیرا۔ وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ رباب کا ری ایکشن کیا ہوتا ہے۔ لیکین رباب تو خود ہی یہی چاہتی تھی۔ یہ دیکھ کر کہ رباب کو کوئی اعتراض نہیں ہے، ساحر نے رباب کے دونوں چوتڑوں کو اپنی مٹھیوں میں دبوچ لیا اور انہیں دبانے لگا۔ رباب کو ساحر کی اس حرکت سے بہت مزہ آنے لگا۔ وہ اور شدت سے اس کے ساتھ کسنگ کرنے لگی۔ پر اس نے ساحر کی ٹائی دھیلی کی اور شرٹ کے بٹن کھولنے لگی۔ ساحر نے اس کے ہونٹوں سے ہونٹ ہٹائے اور کہا

        ساحر: مس، آپ کی دوست باہر موجود ہیں۔ کہیں وہ آ نہ جائے۔ کوئی مسلہ نہ بن جائے۔
        وہ اسے روکنا تو نہیں چاہتا تھا مگر ڈر بھی رہا تھا کہ کوئی مسلہ نہ بن جائے۔ اسے اپنی نوکری عزیز تھی۔ رباب اس کے ڈر کو بھانپ گئی تھی۔ وہ مزید اس کے قریب ہوئی اور اپنے ممے ساحر کے سینے میں پیوست کئے۔اور ایک ہاتھ نیچے لے جا کر پینٹ کے اوپر سے ساحر کے لن پر ہاتھ پھیرا۔ ساحر نے اس کے ہاتھ کا لمس اپنے لن پر محسوس کیا تو اس کے جزبات بھی جوش مارنے لگے۔

        رباب: اوہ جان فکر نہ کرو۔ کچھ نہیں ہوگا۔ وہ نہیں آئیں گی، اور اگر آ بھی جائیں تو بھی کچھ نہیں ہو گا۔ وہ تینوں میری بہت اچھی دوست ہیں۔ وہ سب سمجھ جائیں گی۔ تم بس میری طرف توجہ دو۔ اور مجھے مس مت کہا کرو۔ میرا نام رباب ہے مجھے نام سے بلاو
        ساحر: جی بہت اچھا رباب جی
        یہ سن کر رباب نے اس کے لن کو پینٹ کے اوپر سے ہی زور سے دبایا اور ساتھ ساحر کی گردن پر کس کرنے لگی۔ دوسرے ہاتھ سے وہ ساحر کے شرٹ کے بٹن کھولنے لگی۔ ساحر بھی رباب کی باتیں سن کر مطمئین ہو گیا تھا۔ اور وہ بھی رباب کے جسم سے کھیلنے میں مصروف ہوگیا۔ اس نے رباب کے ٹی شرٹ کو نیچے سے پکڑا اور اوپر لے جا کر نکال دیا۔ رباب کا دودھیا جوان بدن اس کی آنکھوں کے سامنے تھا۔ ریڈ کلر کی برا میں اس کے پستان غصب ڈھا رہے تھے۔ ساحر سے صبر کرنا مشکل ہو رہا تھا۔ اس نے فوراََ پیچھے سے رباب کے برا کی ہُک کھولی اور برا بھی نکال دی۔ رباب کا سینہ ننگا ہو چکا تھا۔ ادھر رباب نے بھی ساحر کی شرٹ اور اس کے نیچے بنیان نکال دی۔ اب دونوں کے جوان سینے ننگے ہوچکے تھے۔ ساحر کا جسم شاندار تھا۔ اس کے ڈھولے شولے بہت جاندار تھے، اس کا سینہ کسی باڈی بلڈر کی طرح تھا۔ صاف چمکدار پُر پیچ کسرتی جسم تھا اسکا۔ رباب تو اس پر فریفتہ ہی ہو گئی۔
        ادھر رباب کے بدن کی جولانیاں بھی تباہ کن تھی۔ ساحر نے اس ہوٹل میں کئی لڑکیوں اور آنٹیوں کے ساتھ سیکس کیا تھا، مگر آج تک اس کے نصیب میں رباب کی طرح کوئی حسین لڑکی نہیں آسکی تھی۔ وہ آج اپنی قسمت پر دل ہی دل میں رشک کر رہا تھا۔ رباب کے سڈول، غرور سے اٹھے ممے۔ اور ان مموں پر گلابی رنگ کے نپل شہوت انگیز دعوت نظارہ دے رہے تھے۔ اس کی ہرنی جیسی پتلی کمر اور صاف شفاف گورا پیٹ اور پیٹ کے پیچ میں کیوٹ سی ناف، کیا سحر انگیز منظر تھا۔
        ساحر نے بے اختیار ہو کر رباب کے مموں کو اپنی مٹھیوں میں بھر لیا اور جھک کر باری باری دونوں مموں کو چومنے چاٹنے لگا۔ اس کے مموں اور نپلز میں بے حد مٹھاس بھرا تھا۔ پستانوں کی نرمی اور نپلز کی سختی نے ساحر پر جادو سا کر دیا تھا۔ اور دیوانے کی طرح دونوں پستانوں اور نپلز کو منہ میں بھر بھر کر چوس رہا تھا۔ اور رباب اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر کراہ رہی تھی۔۔۔

        رباب: آہ ہ ہ ہ ہ اُف جان۔۔ سسسس آہ ہ ہ ہ بہت مزہ آ رہا ہے ساحرررررر۔۔ آہ ہ ہ ہ۔۔ چوسو میرے ممے ہاں اہسے ہی زور زور سے چوسو۔۔۔ آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ کاٹ ڈالو میرے نیپلززززززز ۔۔۔۔۔ اوہ ہ ہ میری جان ۔۔۔
        رباب مزے کے ساتویں آسمان پر تھی۔ ساحر کا بے تابانہ انداز اسے بہت اچھا لگ رہا تھا۔ وہ ساحر کے بالوں میں انگلیاں ڈال کر اس کے منہ کو اپنے پستانوں پر دبانے لگی۔ ساحر ایک طرف اس کے ممے بھنبھوڑ رہا تھا تو دوسری طرف اس کے دونوں ہاتھ رباب کی چوتڑوں کا مساج کر رہے تھے۔ اف ف ف ف کیا نرم کولہے تھے رباب کے۔ ساحر کے رگ و پے میں مزے کی لہریں دوڑ رہی تھیں۔ ساحر نے رباب کے مموں کو اپنے منہ کے لعاب سے مکمل گیلا کر دیا تھا۔ اس کے نپلز اکڑ کر کھڑے تھے اور ساحر بار بار ان کے سِروں پر زبان پھیر رہا تھا۔ رباب لزت سے اپنی پتلی کمر لچکا رہی تھی۔ اور کمرے میں رباب کی دھبی دھبی کراہوں کی آوازیں آ رہی تھیں ۔
        دونوں اس بات سے بے پروا ایک دوسرے میں گھم تھے کہ ان کی شہوت زدہ آوازیں باہر تک جارہی تھیں، اور باہر بیٹھی نازیہ، نائلہ اور افشاں، ان کی آوازیں سن کرہنس بھی رہی تھیں اور گرم بھی ہو رہی تھیں۔ لیکین وہ تینوں فلحال رباب کو پورا پورا موقع دینا چاہتی تھیں، کہ وہ اپنا شکار انجوائی کرے۔ لیکین کمرے سے آنے والی سیکسی آوازیں ان کو گرما بھی رہی تھیں۔ اس لئے بجائے اندر جانے کے ان تینوں نے وہیں اپنا کھیل شروع کیا۔ اور تینوں ایک صوفے پر آگئیں، اور ایک دوسری کے ساتھ کسنگ کرنے لگی۔ وہ تینوں ایک دوسری کے جسموں پر ہاتھ پھیرتی اور ہونٹ اور گال چومتی رہی۔
        اب اندر اور باہر دونوں طرف آگ برابر لگی ہوئی تھی اور دونوں طرف جوان بدن ننگا کھیل کھیل رہے تھے، ننگا شیطانی کھیل بڑی بیباکی اور بے غیرتی سے شروع تھا۔ سب کو صرف اپنی اپنی لزت کی پڑی تھی۔ کوئی اخلاقیات اب ان کو نہیں روک سکتی تھیں، نہ ان چار شہوت زادیوں کو اور نہ ہی جوان جسموں کے بھوکے ساحر کو۔۔۔۔۔۔۔
        اسی لیے ساحر اب کسی بات کی پروا کئے بغیر رباب کے پستانوں اور اس کی چوتڑوں سے کھیل رہا تھا۔ اس کا لن پینٹ کے اندر کسی سانپ کی طرح پھنپھناہ رہا تھا، اور پٹھاری سے نکلنے کیلیے زور لگا رہا تھا۔ لن کی بیتابی ساحر سے مزید برداشت نہیں ہو رہی تھی۔ ساحر نے رباب کے پینٹ کی زِپ کھولی اور اسے نیچے کیا۔ وہ اب بھی مسلسل اس کے ممے چاٹ رہا تھا۔ رباب کی پینٹ اتر چکی تھی۔ پھر ساحر نے اس کی پینٹی بھی اتار دی۔ رباب مکمل ننگی ہوچکی تھی۔ ساحر اس کے مموں سے کھیل رہا تھا۔
        پر ساحر نے نیچے کا سفرشروع کیا۔ وہ رباب کے مموں سے نیچے اس کے گورے پیٹ کو چومنے لگا۔ اس نے اپنی زبان رباب کی ناف میں ڈالی اور اس کی ناف کتے کی طرح چاٹنے لگا۔ رباب کو گدگدی ہونے لگی۔ وہ ساحر کے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگی۔ ساحر جب اپنی گیلی زبان اسکی ناف میں پھرتا تھا تو اسے عجیب سا سرور ملتا تھا اور وہ اپنے پیٹ اور کولہوں کو آگے پیچھے کرتی اور اس کے منہ سے لزت بھری کراہیں نکلتی۔۔ ساحر اس کی ناف، پیٹ کو بے تابی سے چوم چاٹ رہا تھا۔ وہ رباب کے بدن پر کتے کی طرح زبان نکال کر پھیر رہا تھا۔ رباب کے سارے پیٹ پر ساحر کی تھوک پھیل رہی تھی، اور ساحر کی تھوک میں گیلی ہو کر رباب کا جسم اور زیادہ چمک رہا تھا۔
        پھر ساحر مزید نیچے پہنچا۔ وہ رباب کی رانوں کی گولائیوں کو چومنے چاٹنے لگا۔ اسے رباب کے جوان جسم کی خوشبو پاگل کئے دے رہی تھی۔ اور وہ اسی پاگل پن میں اس کے ننگے بدن کو بھرپور پیار کر رہا تھا۔ رباب کا سارا بدن آہستہ آہستہ اس کی تھوک میں لتھڑ رہا تھا۔ بہت ہی شہوانی ماحول بن چکا تھا، ساحر نے آخر کار رباب کی پیاری سڈول اُبھری ہوئی تازہ ڈبل روٹ جیسی صاف شفاف اور نرم ملائم چوت پر اپنی نظریں جما دیں۔
        اف کیا مست چوت ہے اس کی۔۔۔۔۔ ساحر نے دل ہی دل میں سوچا۔ ساحر تھوڑی دیر تو رباب کے حسین چوت کے نظارے کرتا رہا اور پھر اس نے اپنے ہونٹ رباب کی تازہ ڈبل روٹی جیسی چوت کے اوپر رکھ دئے۔ اور پر وہ چوت کو باہر باہر سے مسلسل چومنے لگا۔ رباب مستی میں ساحر کے بالوں میں انگلیاں پھیر رہی تھی۔ اسے بہت مزہ آرہا تھا۔ وہ ایک ہاتھ سے ساحر کے بالوں میں انگلیاں پھیر رہی تھی تو دوسرے ہاتھ سے وہ اپنے ایک ممے کو دبا رہی تھی۔ جب زیادہ مزہ آنے لگتا، تو وہ اپنے ممے کو پکڑ کر اوپر کھینچتی اور نپل منہ میں لے کر چوستی۔
        دوسری طرف ساحر اس کی چوت کو اپنی رال سے بھیگو رہا تھا۔ باہر سے خوب پیار کرنے کے بعد وہ چوت کے دھانے کی طرف متوجہ ہوا۔ اس نے اپنی ناک رباب کے چوت سے لگائی اور رباب کے چوت کو سونگا۔ آففففف کیا مست خوشبو تھی۔ جوان حسین چوت کی خوشبو اسے پاگل بنا رہی تھی۔ اس نے دو تین بار لمبی سانسیں کھینچ کر رباب کی چوت کو سونگا۔ چوت کا جادو اب ساحر کے سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ اس نے بے اختیار اپنے ہونٹ رباب کی چوت کے منہ سے لگائے اور چوت کو اندر سے کس کیا۔ اف،، گیلی چوت کا نمکین ذایقہ اس کے جزبات بھرکانے لگا۔ رباب کو بھی اپنی چوت کے اندرونی حصہ پر مردانہ ہونٹوں کے لمس نے خوب لذت دی۔ وہ منمنانے لگی۔ اور اپنی ٹانگیں کھڑے کھڑے کھول دیں۔
        ساحر اشارہ سمجھ گیا۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے رباب کی چوت کی پانکیں پکڑ کر کھولی تو چوت کا اندرونی لال گیلا حصہ اس کی آنکھوں کے سامنے آ گیا۔ افففف کتنی خوبصورت چوت ہے اس کی۔۔۔۔ ساحر نے سوچا۔ اور پر اپنی زبان نکال کر چوت میں گھسا دی اور رباب کی چوت چاٹنے لگا۔ ساحر کی اس حرکت سے رباب کے تن بدن میں جیسے بجلی کا کرنت دوڑ گیا۔ اس کے جسم کو بے اختیار جھٹکے لگنے لگے، اور رباب کیلیے اپنا توازن برقرار رکھنا مشکل ہو گیا، رباب پیچھے کی طرف بیڈ پر بیٹھ گئی اور اپنی ٹانگیں ہوا میں اٹھا کر پوری طرح سے کھول دیں۔ اس کھلی دعوت کو دیکھ کر ساحر تو جیسے پاگل ہوگیا۔ وہ ایک دم سے رباب کی چوت پر ٹوٹ پڑا اور بُری طرح سے اسے چومنے چاٹنے لگا۔ ساحر اپنی زبان رباب کی چوت میں گہرائی تک اتار کر چاٹنے لگا۔
        رباب شہوت کے ساتویں آسمان کی بلندیوں پر اُڑ رہی تھی اور اس کے منہ سے آہیں اور شہوت زدہ آوازیں نکل رہی تھیں۔ اور یہ آوازیں باہر موجود نازیہ، افشاں اور نائیلہ کو بھی سنائی دے رہی تھیں۔ وہ تینوں اب مکمل ننگی ہو چکی تھیں۔ انہوں نے خود کو کپڑوں اور ہر قسم کی شرم و حیا سے آزاد کر لیا تھا۔ حوا کی بیٹیاں ننگی ہو کر ابلیس کا کھیل کھیل رہی تھیں۔ وہ تینوں ایک دوسرے کے مموں، چوت اور ہونٹوں کو باری باری چوم چاٹ رہی تھی اور ساتھ ساتھ اندر سے رباب اور ساحر کے شروع کیے ہوے جنسی کھیل کی آوازوں سے بھی لطف اٹھا رہی تھی۔ پر جب رباب کی لزب بھری آوازیں بہت زیادہ ہونے لگی تو ان تینوں کو بھی شوق ہوا کہ دیکھیں تو صحیح وہ کون تیس مار خان ہے جو رباب جیسی لڑکی کو بے حال کئے ہوئے ہے۔ نازیہ جو رباب کی معشوقہ بھی تھی، رباب کی آوازیں سن کر اس سے رہا نہ گیا۔

        نازیہ: اف لگتا ہے رباب کے مزے لگے ہوئے ہیں۔ شکار تگڑا لگ رہا ہے
        نازیہ افشاں کی چوت میں انگلی کر رہی تھی جبکہ نائیلا افشاں کے ممے چوم رہی تھی۔

        افشاں: کیا خیال ہے ڈارلنگ، اندر چلیں
        افشاں کی آواز میں شوخی تھی

        نائیلہ: چلیں بھئی اب مجھ سے تو اور انتظار نہیں ہوتا
        نازیہ: تو پھر چلو سب
        یہ کہہ کر تینوں لڑکیاں اٹھ کر اندر کمرے کی طرف چل دیں۔ کمرے میں تینوں لڑکیاں جب داخل ہوئی تو اندر کا منظر ان کے جزبات گرمانے کیلے کافی تھا۔ رباب بیڈ پر کہنیوں کے سہارے پیچھے چھکی ہوئی تھی اور اس کی ننگی ٹانگیں ہوا میں آٹھی تھی جبکہ ساحر رباب کی ٹنگوں کے بیچ میں نیچے بیٹھا ہوا رباب کی چوت چاٹ رہا تھا۔ ساحر کی پشت دروازے کی طرف تھی اس لئے وہ اُن تینوں کو اندر آتے ہوئے نہیں دیکھ سکا تھا لیکین رباب نے ان کو دیکھ لیا تھا۔ اور ان کو دیکھ کر رباب کے ہونٹوں پر شیطانی اور فاتحانہ مسکراہٹ آگئی تھی۔
        رباب نے ان تینوں کو سر کے اشارے سے اپنے کھیل میں شامل ہونے کی دعوت دی۔۔۔
        تینوں لڑکیاں آگے بڑھی اور رباب اور ساحر کے قریب چلی گئی۔ ساحر کو ان کی موجودگی کا احساس ہوا تو اس نے ایک دم سے اٹھنے کی کوشش کی لیکین رباب نے جلدی سے اپنی ٹانگیں اس کی گردن کے گرد کس لیں اور اسے اٹھنے سے روک لیا۔ ساحر کی گردن رباب کی ٹانگوں میں کسی ہوئی تھی اور اس کے ہونٹ رباب کی چوت کے ساتھ مظبوطی سے جُڑھ گئے تھے۔

        رباب: اف ساحر میری جان۔ رُکنا مت۔ ایسے ہی میری پُھدی چاٹتے رہو۔ سسسس آہ آج تیرا لکی ڈے ہے، آج تجھے ایک ساتھ چار پُھدیاں ملیں گی۔
        ساحر سمجھ گیا تھا کہ یہ سب ملی ہوئی ہیں۔ ایک طرف وہ ڈر رہا تھا کہ پتہ نہیں یہ چاروں اس کے ساتھ کیا کریں گی اور یہ بھی کہ پتہ نہیں وہ ان چاروں کو ایک ساتھ سنبھال بھی پائے گا یا نہیں۔ لیکین جو بھی تھا ساحر کو آج اپنی قسمت پر رشک آرہا تھا۔ اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کے اسے اتنی حسین اور ماڈرن لڑکیوں کو چودنے کا موقع ملے گا اور وہ بھی ایک یا دو نہیں بلکہ اکھٹے چار چار۔
        رباب نے اپنی ٹانگوں کا دباو اب کم کر دیا تھا۔ ساحر نے رباب کی چوت سے منہ ہٹائے بغیر نظریں موڑ کر ان تینوں کو دیکھا۔
        نازیہ، افشاں اور نائیلہ اب ان کے پاس پہنچ چکی تھیں۔ نازیہ اپنی جان رباب کے پاس اوپر بیڈ پر چڑھ گئی اور رباب کے ہونٹوں سے ہونٹ ملا دئے۔ دونوں الہڑ ہرنیاں گرمجوش انداز میں کسنگ کرنے لگی۔ رباب نے نازیہ کی گردن میں بانہیں حمایل کیں اور اس کے ہونٹوں کو چوسنے لگی۔ ایک تو ساحر کا والہانہ انداز میں اس کی چوت کو چاٹنا اور اوپر سے اس کی فیورٹ نازیہ کا ساتھ، رباب کے تن بدن میں لگی آگ کو دو آتشہ کر رہی تھی۔
        افشاں اور نائیلہ ساحر کے پاس چلی گئی تھیں۔ وہ دونوں مکمل ننگ دھڑنگ تھیں۔ افشان ساحر کے سائیڈ میں بیٹھ گئیں اور ہاتھ نیچے لے جا کر ساحر کی پینٹ کھولنے لگی۔ ساحر نے اپنی ٹانگیں تھوڑی سیدھی کی تاکہ پینٹ نکالنے میں اسے کوئی تکلیف نہ ہو۔ وہ برابر رباب کی چوت چاٹے جا رہا تھا۔ نائیلہ رباب کے برابر میں بیڈ پر بیٹھ گئیں، اس کی ٹانگیں بیڈ سے باہر تھیں۔ اس نے اپنی ٹانگیں کھولیں اور ساحر کے چہرے کو اپنے دونوں ہاتھوں میں بھر کر اسے اپنی طرف کھینچا۔

        نائیلہ: اف جان تھوڑی توجہ ہماری طرف بھی دیجئے
        اور یہ کہہ کر اس نے ساحر کے سر کو اپنی ٹانگوں کے بیچ ننگی چوت پر رکھ لیا۔ ساحر سمجھ گیا تھا۔ اس نے اپنے دونوں ہاتھ نائیلہ کی ننگی سڈول رانوں پر رکھے اور منہ اس کی پہلے سے گیلی نرم و نازک چوت پر رکھ دیا۔ اور زبان سے نائیلہ کے چھوٹے پیشاب کی جگہ کو چاٹنے لگا۔ نائیلہ ساحر کی زبان کے لمس سے دوھری ہو گئی اور وہ بھی رباب کی طرح پیچھے لیٹ گئی۔
        رباب اور نازیہ ابھی تک ایک دوسری میں مگھن تھیں۔ ساحر کے ہٹنے پر رباب نے نازیہ کا ہاتھ پکڑ کر اپنی چوت پر رکھ دیا، وہ دونوں کسنگ ساتھ ساتھ کر رہی تھی۔ نازیہ نے پہلے رباب کی چوت کو اوپر سے مسلہ پھر اپنی دو انگلیاں رباب کی گیلی چوت میں گھسا دیں اور اس کی چوت میں اندر باہر کرنے لگی۔ وہ رباب کی چوت کو انگلیوں سے ایسے چود رہی تھی جیسے لنڈ سے چودا جاتا ہے۔رباب مزے سے منمنانے لگی۔ اور اس نے نازیہ کو کھینچ کر اس کا سینہ اپنے چہرے کے اوپر کر لیا۔ یوں نازیہ کے ممے رباب کے منہ کے اوپر آگئے اور رباب نازیہ کے نپل کو چوسنے لگی۔ جبکہ نازیہ رباب کی چوت میں انگلی کر رہی تھی۔
        افشاں نے ساحر کی پینٹ اتار دی تھی اور پر اس نے ساحر کا انڈر وئیر بھی اتار دیا۔ یوں اب ساحر بھی ان چاروں کی طرح مکمل ننگا ہو گیا تھا۔ ساحر گھٹنوں کے سہارے نیچے بیٹا تھا اور نائیلہ کی چوت چاٹ رہا تھا۔ اس کے ہاتھ نائیلہ کی رانوں پر تھے اور وہ نائیلہ کی چوت چاٹنے کے ساتھ ساتھ اس کی رانوں، پنڈلیوں اور کولہوں کو ہاتھوں سے مسل رہا تھا۔ نائیلہ پورے جوش میں آئی ہوئی تھی۔ اس نے اپنی ٹانگیں ساحر کے کندھوں پر رکھ دیں اور ساحر مزید گہرائی تک نائیلہ کی چوت چاٹنے لگا۔
        افشاں نے ساحر کا لنڈ ہاتھ میں تھام لیا۔ اف کتنا بڑا لنڈ تھا ساحر کا۔ افشاں کی مٹھی ساحر کے لنڈ سے بھر گئی تھی۔ افشاں فوراََ ساحر کی ٹانگوں کے سامنے نیچے لیٹ گئی۔ یوں ساحر کا لنڈ اس کے چہرے کے سامنے آگیا تھا۔ افشاں نے اس کے لنڈ کو مٹھی میں دبا لیا۔ اتنا بڑا لن۔۔۔ افشاں کے منہ میں لنڈ کو دیکھ کر رال جمع ہونے لگی۔ اس نے ساحر کے لنڈ کی ٹوپی پر ایک دو کس کئے۔ زبان نکال کر اسے چاٹا۔ ساحر کے لنڈ پر لگی نمکین چکنائی نے افشاں کی شہوت کو کئی گناہ بڑا دیا تھا۔ اس نے ساحر کے لنڈ کو ایک دم پورا منہ میں لے لیا اور اسے چوسنے لگی۔ اممممممم ۔۔۔ افشاں کے منہ سے مزے کی آوازیں نکلنے لگی۔ اور پورا لنڈ منہ میں ڈالتی، کچھ دیر چوستی اور پر باہر کردیتی۔
        ادھر ساحر بھی ساتویں آسمان پر تھا۔ ایک طرف نائیلہ کی حسین چوت اور اس چوت سے آنے والی بھینی بھینی مہک اور اس کے اوپر افشاں کا اس کے لنڈ کو چوسنا، اسے اپنی قسمت پر یقین نہیں آرہا تھا۔ اس نے اب افشاں کے منہ میں اپنے لنڈ کوآہستہ آہستہ آگے پیچھے کرنا شروع کیا۔ وہ ہولے ہولے انداز میں افشاں کے منہ کو چود رہا تھا۔ افشاں نے بھی اپنے ہونٹوں کی گرفت لنڈ کے گرد ٹائیٹ کی۔ لنڈ اب پھنس پھنس کر اس کے منہ میں اندر باہر جا رہا تھا۔
        تھوڑی دیر وہ چاروں اپنی اپنی پوزیشنز میں رہے۔ پھر رباب نے بڑے پیار سے نازیہ کو اپنے اوپر سے ہٹایا۔ رباب کی چوت میں نازیہ کی انگلیوں نے آگ لگا دی تھی۔ اب اس سے اور برداشت نہیں ہو رہا تھا۔ اسے یہ آگ بجھانی تھی۔ اس نے نائیلہ کی چوت پر جھکے ساحر کو کندھوں سے پکڑا اور اسے اوپر بیڈ پر کھینچ لیا۔ ساحر نے مزاہمت نہیں کی۔ بلکہ وہ رباب کی طرف خود کھینچنے لگا۔ ساحر کے اٹھنے سے اس کا منہ نائیلہ کی چوت سے اور اس کا لنڈ افشاں کے منہ سے نکل گیا۔ وہ بیڈ پر چڑھ کر رباب کے ساتھ آگیا۔ وہ بیڈ پر گھٹنوں کے بل بیٹھا تھا۔ اس کا لنڈ سیدھا کھڑا تھا جسے دیکھ کر رباب، نازیہ اور نائیلہ کے منہ میں پانی بھر آیا۔ افشاں بھی ساحر کے پیچھے پیچھے بیڈ پر چڑھ گئی۔ اب سب بیڈ پر آچکے تھے۔
        رباب، ڈوگی پوزیشن میں جھکی اور ساحر کے لنڈ کو منہ میں بھر لیا۔ ساحر اپنے لن کو آگے پیچھے کرنے لگا اور اب رباب کے منہ کو چود رہا تھا۔ نازیہ ساحر کے ساتھ چمٹ گئی اور اپنا ننگا سینہ ساحر کے سینے سے ملا لیا اور اپنے ہونٹ ساحر کے ہونٹوں سے۔ افشاں ساحر کے پیچھے آگئی اور پیچھے سے اس کی گانڈ پر ہاتھ پھیرنا شروع کیا۔ وہ ساحر کی گانڈ کی درمیانی لکیر میں انگلی پھیر رہی تھی اور جب اس کی انگلی ساحر کی گانڈ کے سوراخ پر پہنچ جاتی تو وہ اسے اندر دبا لیتی۔ جس سے افشاں کی انگلی ساحر کی گانڈ میں گھس جاتی۔ ساحر کے ساتھ ایسا پہلے کسی نے نہیں کیا تھا۔ اسے بہت مزہ آرہا تھا۔ کچھ دیر ساحر کی گانڈ میں انگلی گھمانے اور اندر باہر کرنے کے بعد وہ اسے باہر نکالتی، دوبارہ سے ساحر کی درمیانی لکیر میں انگلی پھیرتی، اس کے موٹے موٹے کولہے دباتی، اور پھر انگلی لکیر میں ڈال کر گانڈ کے سوراخ پر پہنچ جاتی اور انگلی ساحر کی گانڈ میں ڈال دیتی۔ وہ مسلسل ساحر کی گانڈ سے یوں کھیل رہی تھی۔
        اُدھرنائیلہ گھُم کر رباب کے پیچھے چلی گئی جو ڈوگی بن کر ساحر کا لنڈ چوس رہی تھی۔ نائیلہ رباب کی ٹانگوں کے بیچ میں سیدھی لیٹی، اور یوں اس کا چہرہ رباب کی چوت کے عین نیچے آگیا۔ نائیلہ نے رباب کے سڈول چوتڑوں کو اپنے دونوں ہاتھوں میں بھر کر نیچھے دبایا، رباب تھوڑی نیچے ہوئی تو اس کی چوت نائیلہ کے منہ سے لگ گئی۔ نائیلہ نے زبان نکال کر رباب کی چوت چاٹنی شروع کی۔ وہ چاروں کافی دیر تک اسی حالت میں رہے۔ پر نازیہ نیچے جھکی اور رباب کے ساتھ مل کر ساحر کے لنڈ کو چومنے چاٹنے لگی۔ ساحر کا لنڈ کبھی رباب کے منہ میں گھستا اور کچھ دیر رباب کے منہ میں جھٹکے دینے کے بعد جب اس کا لنڈ نکلتا تو نازیہ اسے اپنے منہ میں بھر لیتی۔ وہ دوںوں باری باری ساحر کے لنڈ سے مزے لے رہی تھی۔ افشاں نے اب پیچھے جھُک کر پیچھے سے ہی ساحر کے ٹٹوں کو چاٹنا شروع کر دیا تھا۔ ساحر ہر طرف سے حسین جوانیون میں گھیر گیا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی بادشاہ کو اس کی کنیزوں نے اپنی جھرمٹ میں لے لیا ہو۔
        وہ چاروں کچھ دیر ایسے ہی ایک دوسرے کے جسموں سے محظوظ ہوتے رہے۔ پھررباب اٹھی، اسے نے نازیہ کو پکڑ کر سیدھا لیٹا دیا۔ اس کی ٹانگیں کھولیں اور ساحر کو اشارہ کیا۔ ساحر اس کا اشارہ سمجھ گیا تھا۔ وہ نازیہ کی ٹانگوں کے بیچ میں آگیا اور اپنے لنڈ کو نازیہ کی چوت پر رکھ دیا۔ نازیہ کی چوت گیلی اور لنڈ لینے کیلے تیار تھی۔ ساحر نے ایک ہی جھٹکے میں اپنا موٹا لمبا لنڈ نازیہ کی حسین چوت میں پوری گہرائی تک اتار دیا۔ نازیہ کے منہ سے بے اختیار کراہیئں نکل گئیں، ساحر کے لنڈ نے اس کی نازک سی چوت کو خوب پھیلا دیا تھا۔ وہ اپنی چوت کی اندرونی جلد پر ساحر کے لنڈ کے دباو اور رگڑ کو بڑی شدت سے محسوس کر رہی تھی۔ ساحر ابتدا میں آہستہ آہستہ جھٹکے دینے لگا۔ جب اس کا لنڈ قدرے آرام سے نازیہ کی چوت میں آنے اور جانے لگا تو اس نے اپنے لنڈ کے جھٹکے تیز کر دئے، اب وہ فل سپیڈ سے نازیہ کی چوت چود رہا تھا۔ جھٹکوں سے نازیہ کا پورا بدن ہل رہا تھا۔ ساحر کے ٹٹے جب نازیہ کی چوت کے نیچے ٹکراتے تو اس س شپ شپ شپ شپ کی آوازیں نکلنے لگتی۔
        رباب نیچے جھک کر نازیہ کی چوت کے قریب ہو گئی، وہ ساحر کے لنڈ کو نازیہ کی چوت چودتے قریب سے دیکھ رہی تھی۔ اس نے ایک ہاتھ سے نازیہ کی چوت کے چھولے کو مسلنا شروع کیا۔ نازیہ مزے اور ہیجان سے اپنا سر دائیں بائیں مار رہی تھی۔ کوئی پانچ منٹ تک ساحر ایسے ہی نازیہ کی چوت چودتا رہا۔ تب جاکے نازیہ چھؤٹ گئی تھی۔ رباب نے جان لیا تھا کہ نازیہ چھوٹ چکی ہے۔ اس نے ساحر کو پیچھے دھکا دیا اور ساحر دھکے سے پیچھے جھک گیا۔ رباب ساحر پر چڑھ گئی۔ ساحر سیدھا ہوا، رباب نے اپنی ٹانگیں ساحر کے لنڈ کے گھرد پھیلا دی اور اپنی چوت ساحر کے لنڈ پر رکھ دی۔ پھر وہ ساحر کے لنڈ پر بیٹھتی چلی گئی۔ لنڈ رباب کی چوت میں اندر تک چلا گیا۔ رباب نے مزے سے اپنا چہرہ اوپر اٹھا لیا اور منہ اسکا بے اختیار کھل گیا۔ وہ ساحر کے لنڈ پر اوپر نیچھے ہونے لگی۔ ساحر بھی نیچھے سے رباب کی چوت میں جھٹکے مارنے لگا۔ غپ غپ غپ غپ کی آوازوں کے ساتھ رباب کی چوت ساحر کے لنڈ سے چُد رہی تھی اور رباب کے ممے اوپر نیچے اُچھل رہے تھے۔

        رباب: آہ آۃ آہ آہ فک می فک می۔۔او ساحر سسسسس چود میری چوت کو اور زور سے چود
        رباب بے باکانہ بکے جارہی تھی اور تیز تیز ساحر کے لنڈ پر اُچھل رہی تھی۔ وہ مزے کی بلندیوں پر تھی۔ ساحر کا موٹا اور لمبا لنڈ رباب کی لچکیلی چوت میں کہرائی تک گھس رہا تھا۔ رباب کی چوت لنڈ سے بھر گئی تھی اور اس کے اٹھنے بیٹھنے سے ساحر کا لنڈ رباب کی چوت کے اندر رگڑ کھا کر گھس رہا تھا جو رباب کی چوت میں لگی آگ کو بڑھا رہا تھا۔
        نازیہ سکون سے سائیڈ پر لیٹی ان کو دیکھ رہی تھی۔ جبکہ نائیلہ سائیڈ سے رباب کے مموں پر جھکی تھی اور وہ باری باری رباب کے اچھلتے مموں کوہاتھوں میں دبوچ کر انہیں مسل رہی تھی اور اس کے نپلز کو منہ میں لے کر چوستی جا رہی تھی۔ ادھرافشاں ساحر کے منہ پر بیٹھ گئی اور اپنی چوت ساحر کے ہونٹوں سے لگا دی۔ ساحر اس کی چوت چاٹنے لگا، اور افشاں اپنی چوت کو اس کے منہ سے مسل رہی تھی۔ کچھ دیر بعد رباب کی رفتار انتہا کو پہنچ گئی۔ وہ تیزی اور شدت سے ساحر کے لنڈ پر اُچھلنے لگی، وہ ڈسچارج ہونے والی تھی۔ اس کے منہ سے آں آں آں کی آوازیں نکل رہی تھی۔ پھر اس کی چوت سے پانی ساحر کے لنڈ کو بھگو گیا۔ رباب فارغ ہوچکی تھی اور اس کے تن بدن میں بھری گرمی جیسے اس کی چوت کے راستے نکل گئی تھی۔ اس کے نازک بدن کو جوش کے آخری جھٹکے لگے اور وہ نڈھال ہو کر ساحر کی سائیڈ میں جھک گئی، اس نے اپنے کولہے اٹھا کر اپنی چوت سے ساحر کے لنڈ کو نکالا۔ ساحر کا لنڈ رباب کی چوت میں مکمل لتھڑ چکا تھا۔
        رباب کے اترتے ہی افشاں بھی ساحر کے اوپر سے اتر گئی۔ ساحر کا لنڈ ابھی بھی سیدھا کھڑا تھا۔ افشاں ساحر کے سامنے کتیا کی طرح ڈوگی سٹائیل میں لیٹ گئی۔ وہ کہنیوں اور گھٹنوں کے بل لیٹی تھی۔ اس کا پیٹ بیڈ سے اوپر تھا لیکین اس کے ممے نیچے بیڈ پر تھے اس نے اپنی گانڈ اوپر اٹھا رکھی تھی اور ٹانگیں کھول رکھی تھی۔
        ساحر اٹھا اور افشاں کی ٹانگوں کے بیچ آگیا۔ اس نے دونوں ہاتھ افشاں کے باہر نکلے چوتڑوں پر رکھے اور اس کی چوتڑوں کو انگھوٹے سے تھوڑا کھینچا تو اس کی چوت کا دھانہ اور اوپر آگیا۔ چوت کے اوپر رباب کی تنگ تاریک پنک کلر کی گاند کی موری بہت سیکسی لگ رہی تھی۔ لیکین ساحر کو پتہ تھا کے اس موری میں گھسنے کی پیشگی اجازت چاہئے ہوتی ہے، اور فلحال وہ کسی بحث کے موڈ میں نہیں تھا۔ اسی لئے اس نے اپنا لن افشاں کی چوت پر رکھ کر دبایا تو اس کا لنڈ افشاں کی گیلی چوت میں اترتا چلا گیا۔ اور وہ تیز تیز جھٹکوں سے افشاں کی چوت مارنے لگا۔ ساحر کی رانوں اور افشاں کے چوتڑوں کے ٹکرانے سے ہپ ہپ ہپ ہپ ہپ کی آوازی نکل رہی تھی اور افشاں بُری طرح سے چود رہی تھی۔
        کافی دیر تک ساحر افشاں کو اسی انداز میں چودتا رہا۔ حتٰکہ افشاں کے بدن کو جھٹکے لگنے لگے اور وہ مزید لنڈ کو برداشت کرنے کے قابل نہ رہی تو وہ ایک دم سے ساحر کے نیچھے سے نکل گئی۔ ساحر اپنی انتہا پر پہنچنے والا تھا جب افشاں ہٹ گئی تھی۔ ساحرکافی دیر تک چدائی کرنے کا ماہر تھا، لیکین آج سے پہلے اس نے بیک وقت صرف ایک ہی لڑکی کو چودا تھا، لیکین آج تین لڑکیوں کو ٹھںڈا کرنے کے باوجود اپنے لنڈ کو کھڑا دیکھ کر اسے اپنے لنڈ اور سٹیمنا پر رشک آنے لگا تھا۔
        افشاں کے ہٹتے ہی نائیلہ سیدھی لیٹ گئی، اور ساحر اس پر چڑھ گیا۔ اور اپنا لنڈ نائیلہ کی چوت میں گھسا کر اسے مشنری پوزیشن میں چودنے لگا۔ باقی تینوں لڑکیاں ایک ساتھ لیٹی ان دونوں کو دیکھے جارہی تھیں۔ اس بار ساحر مکمل نائیلہ کے اوپر لیٹ گیا تھا اور کبھی وہ نائیلہ کے ساتھ کسنگ کرتا اور کبھی تھوڑا نیچھے ہو کر اس کے نپلز چوستا، ساتھ ساتھ اس کا لنڈ نائیلہ کی چوت میں تیزی سے اندر باہر جا رہا تھا۔ کافی دیر نائیلہ کو ایسے چودتے رہنے کے بعد ساحر کے لنڈ کو جھٹکے لگنے لگے، لیکین دسچارج ہونے سے پہلے ہی اس نے اپنا لنڈ باہر نکال دیا تھا اور لنڈ کے نکلتےہی گارھی منی جھٹکوں سے نکل کر نائیلہ کے پیٹ پر گر گئی۔ نائیلہ بھی اپنے عروج کو پہنچ چکی تھی۔
        ساحر ہانپتا ہوا نائیلہ کے اوپر ہی ڈھیر ہو گیا۔ اور لمبی لمبی سانسیں لینے لگا۔ نائیلہ اس کی پشت پر ہاتھ پھیرتی رہی۔ کچھ دیر بعد ساحر اس کے اوپر سے اتر گیا اور اپنا لن سائیڈ پر پڑے ٹشو سے صاف کرنے لگا۔ لنڈ صاف کرنے کے بعد اس نے اٹھ کر کپڑے پہن لئے۔
        دوسری طرف چاروں لڑکیاں ننگی آڑھی تیرچھی ایک دوسرے کے قریب لیٹی تھیں۔

        ساحر: مس میں چلتا ہوں اب
        اس نے رباب کو مخاطب کیا تھا۔ رباب جلدی سے اٹھی اورسائیڈ پر رکھے اپنے پرس سے کچھ پیسے نکال کر ساحر کی طرف بڑھا دئے۔

        رباب: یہ تمہاری ٹپ
        ساحر: نہیں مس،، آج تو میں بہت زبردست ٹپ وصول کر چکا ہوں اسے رہنے دیں
        رباب: کوئی نہیں میری جان لے لو دل سے دے رہی ہوں۔ تو نے آج جو مزہ دیا ہے ہم سب کو وہ ہمیں کم ہی ملا ہے، یہ اسی کاانعام ہے۔
        رباب کی بات سن کر ساحر نے اس کے ہاتھ سے پیسے لے لئے۔ رباب نے اپنے کپڑے اٹھا لیئے اور پہننے لگی۔ ادھر افشاں، نائیلہ اور نازیہ بھی اٹھ کر کپڑے پہننے لگی تھی۔

        ساحر: مس وہ بیڈ شیٹ تبدیل کرنی تھی۔
        رباب: ہاں اب تو اور بھی ضروری ہو گیا ہے تبدیل کرنا
        رباب کی بات سن کر سب ہنس پڑے اور پر ساحر نے بیڈ سے پرانی بیڈ شیٹ ہٹائی جس پر ان سب کے جسموں سے نکلنے والے پانی کے کئی سارے نشان بن گئے تھے۔ پر اس نے نئی چادر ڈالی اور اجازت لے کر چلا گیا۔
        رباب اور نازیہ وہیں بیڈ پر ڈھیر ہوگئیں جبکہ افشاں اور نائیلہ دوسرے روم میں چلی گئیں۔ ساری شام گھومنے اور پر شاندار چُدائی نے ساری لڑکیوں کو تھکا دیا تھا۔ وہ سب بہت جلد نیند کی آغوش میں چلی گئیں۔ اگلی صبح ہوٹل سے چیک آوٹ کر کے انہوں نے واپس اسلام آباد کا سفر شروع کیا۔ اور یوں ان کی دوستی کا ایک اور رنگین سفر اختتام کو پہنچا۔ ان چاروں کی دوستی میں ایسے کئی سفر اور پڑاو آئے تھے جہاں انہوں نے زندگی اور جوانی کے مزے مل کر اٹھائے تھے۔ وہ چاروں ہر معاشرتی ضابطے کو توڑ رہی تھیں اور زندگی جینے کے نئے ضابطے لکھ رہی تھی۔ یہ صرف ان کی کہانی نہیں تھی بلکہ اس معاشرے کی الیٹ کلاس کی تقریباََ ہر باغی لڑکی کی کہانی تھی، جو اپنی زندگیوں کے ہر لمحےکو آخری حد تک انجوائے کرنے پر یقین رکھتی تھیں۔ اور یہ سفر جاری رہتا ہے، اس معاشرے کے کسی نہ کسی جگہ صبح شام یہ شیطانی کھیل چلتا رہتا ہے اور یہ ایسے ہی چلتا رہے گا۔



        ۔
        ختم شدہ
        Last edited by Man moji; 02-28-2023, 11:24 PM.

        Comment


        • #44
          شکریہ ایڈمن

          Comment


          • #45
            بہت عمدہ کہانی، بعد والی اپڈیٹس کی تصاویر بھی شامل کر دیتے تو لطف دوبالا ہو جاتا

            Comment


            • #46
              Bahut umda short story

              Comment


              • #47
                آج تک پڑھی گئی کہانیوں میں سب سے بہترین کہانی ہے بہت شکریہ

                Comment


                • #48
                  Jinsi billian.. zabardast kahani hai janab..

                  Comment


                  • #49
                    Zabardast jnab lajwab update hai

                    Comment


                    • #50
                      کمال کر دیا لڑکیوں نے

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X