Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

سونیا

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • سونیا

    عیاش لڑکی
    اخبار کی شہ سرخی تھی"انسانی درندے نے انیس سالہ دوشیزہ کو ہوس کا نشانہ بنایا اور بےہوشی کی حالت میں چھوڑ کر فرار"
    ایک دوسرے اخبار میں خبر تھی"نامعلوم درندوں نے کم عمر لڑکی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی اور موت کے گھاٹ اتار دیا"
    ایک مقامی اخبار میں درج تھا "شہر میں ایک ہی سلسلے کی تیسری واردات،تیسری لڑکی کی عزت پامال" ،"پولیس تاحال اس سیاہ نقاب پوش کی تلاش میں ناکام۔"
    تینوں خبریں پڑھتے ہی کسی ایسی عورت کا چہرا دماغ میں آ جاتا ہے،جسے شیدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہو۔ اس کے کپڑے تارتار ہوں،جسم کئی جگہ نچا ہوا ہو۔ اس کے چہرے پر کرب اور عزت کھونے کا شدید قلق ہو۔
    مگر ایسا ہر بار شاید نہ ہوتا ہو۔
    سونیا کے بارے میں سب ہی جانتے تھے،محلے میں کوئی ایسا چھورا نہیں تھا جس نے اس نے زبانی یا کاغذی عشق نہ روا رکھا ہو۔ پریم پتر،لو لیٹر،تحفے تحائف سبھی اس کی سرششت میں جائز تھے۔
    کچھ لڑکوں کے ساتھ چومنے اور چھیڑچھاڑ کی حد تک بھی گئی مگر جہاں بات شلوار سے نیچے گئی، وہ مچھلی کے طرح جل دے گئی۔
    کسی مرد کے ساتھ جسمانی تعلق اس نے کسی بڑی قیمت کے عوض سنبھال رکھا تھا۔
    اسے مرد بس مالی فائدے کا ہی ذریعہ نظر آتا تھا،وہ سب سے محض پیسے ہی بٹورتی۔
    اس نے محلے کی پرچون کی دکان پر اتنے ادھار کیے تھے کہ سمجھو آدھی دکان ہی لوٹ لی تھی۔ جس پر اس نے سودا دینا بند کر دیا۔
    سونیا نے بھی زیادہ تردد نہ کیا،‘‘تو نہیں کوئی اور سہی۔‘
    اس نے ایک دو گلیاں چھوڑ کر ایک دکاندار سلیم سے راہ و رسم بڑھائے۔ کبھی میٹھی باتوں کے عوض نمکو،بوتل،ایزی لوڈ یا کوئی دوسری چیز لے لیتی تو کبھی کچھ اور۔
    دکاندار پہلے تو ڈھیل دیتا گیا،پھر قیمت پیسوں یا کسی دوسری کرنسی میں طلب کی۔
    سونیا نے حسب سابق اسے چھوڑ کر اگلے کی راہ لی۔
    سلیم نے ایک دو بار پیغام بھجوائے اور اپنے رقم کا مطالبہ کیا۔ سونیا نے پہلے کی طرح لاپروائی سے اس کی کسی بات کا جواب نہ دیا۔
    سلیم صبر شکر کر کے خاموش ہو رہا،مگر کوئی موقع ڈھونڈ کر اپنی رقم پوری کرنے کی کوئی راہ سوچنے لگا
    کچھ مہینوں بعد ایک شام سونیا کے گھر کچھ مہمان آ گئے،اسے ان کی خاطر مدارات کے لیے کچھ سامان لینے دکان پر جانا پڑا۔
    پاس والی دکان پر جانا بیکار تھا سو سونیا بنا کسی شرمندگی کے سلیم کے پاس جا پہنچی۔ سونیا کو دیکھتے ہی اس کے عضلات تن گئے۔ مرد پر دکاندار حاوی ہو گیا۔
    سونیا بولی:ایک کلو بیسن،ایک بوتل پیپسی دے دو۔
    سلیم بولا:پیسے لائی ہو۔
    سونیا نے سو کا نوٹ نکالا اور بولی:ہاں یہ لو۔
    سلیم نے نوٹ تھاما اور بولا:یہ تو چلا گیا پچھلے کھاتے میں۔
    سونیا کو شدید برا لگا،اور بولی:دیکھو وہ بھی دے دوں گی،یہ ابھی کے سودے کے لیے ہے۔
    سلیم بولا:تو پھر ابھی کا سودا تب ہی ملے گا جب پچھلا ادا کرو گی۔
    سونیا بولی:تو پھر میرے پیسے واپس کرو۔
    سلیم بولا:کیسے پیسے،یہ تو پچھلے کھاتے میں ڈل گئے۔
    سونیا تلملا گئی،گھر میں مہمان بیٹھے تھے،اور اس کے پاس یہی نوٹ تھا۔
    وہ بولی:دیکھو پلیز!یہ پیسے دے دو،مجھے جلدی ہے۔
    سلیم بولا:واہ اتنے دنوں سے میرے پیسے دبا کر بیٹھی ہو،اپنا صرف سو روپیہ ہے اور جلدی ہے۔
    سونیا زچ ہو کر بولی:پلیز مجھے سودا دے دو،پلیز۔
    سلیم آخر اسے تپانے کی غرض سے بولا:تم نے ایک بار کہا تھا کہ میرے ساتھ ہوٹل چلو گی۔بولو اب کیا ارادہ ہے۔
    سونیا بولی:اچھا بابا! چلوں گی مگر ابھی تو پیسے دو۔
    سلیم بولا:ٹھیک ہے اندر آ کر لے لو۔
    سونیا اندر جانے کا مطلب خوب سمجھتی تھی،مگر اس وقت مجبوری تھی سو چلی گئی
    دکان میں سامان وغیرہ کی کافی اوٹ تھی جسے ایک قسم کا گودام کہا جا سکتا تھا۔ سونیا جونہی وہاں پہنچی سلیم اس پر ٹوٹ پڑا،اس کے مموں کو سختی سے دبایا،اس کی گالوں اور ہونٹوں کو چوما۔ اپنا تنا ہوا لن اس کی ٹانگوں کے بیچ رگڑا جیسے شلواروں کے اندر سے ہی گھسا دے گا۔
    قسمت اچھی تھی کہ ایک بچہ آ گیا اور سلیم کو آگے جانا پڑا۔
    سونیا بھی موقع کا فائدہ اٹھا کر آگے چلی۔
    سلیم بچے کو بھیج کر پھر ذرا سی آگ ٹھنڈی کرنا چاہتا تھا مگر سونیا نے اب ہامی نہ بھری۔ مجبورا" اس نے اسے مطلوبہ سودا تول دیا۔
    ایک بار پھر سلیم ہاتھ ملتا رہ گیا۔ دن بڑھتے گئے،سلیم کبھی کبھار ہی سونیا کو کہیں آتے جاتے دیکھتا۔ وہ اپنے پیسوں کو نقصان سمجھ کر بھول گیا۔
    ایک شام زور کی آندھی آئی اور ساتھ ہی بارش شروع ہوگئی۔
    اس نے موجدوہ گاہکوں کو نپٹایا اور پھر دکان سمیٹنی شروع کر دی،ایک دو بچوں اور ادھار والے لوگوں کو کل پر ٹال دیا۔
    سلیم نے دکان بند کر دی اور گھر کی جانب چلا۔
    ابھی ایک ہی گلی دور گیا تھا کہ سونیا بھیگتی ہوئی دکھائی دی۔ سلیم اسے دیکھ کر رک گیا۔
    سونیا بولی:سلیم!دکان بند کر دی۔
    سلیم بولا:ہاں کچھ چاہیئے تھا۔
    سونیا بولی:ہاں کلو چاول اور کچھ گرم مصالحہپہلے تو سلیم نے سوچا کہ ٹرخا دوں پھر سوچا چلو کچھ پیسے مل جائیں گے۔ وہ واپس مڑا اور دکان کھولنے لگا۔
    دکان کا آدھا شٹر کھول کر بولا:پیسے لائی ہو نا۔
    سونیا بولی:وہ ابا جی گھر نہیں تھے،اسی لیے نہیں لا سکی۔ کل کسی بچے کے ہاتھ بجھوا دوں گی۔
    سلیم شدید تپ گیا،اس نے ناحق دکان کھولی تھی۔
    وہ بگڑ کر بولا:پہلے بتا دیتی،جاؤ پہلے پیسے لاؤ۔
    سونیا بولی:پلیز دے دو،کل بجھوا دوں گی۔
    سلیم بولا:پچھلی بار بھی یہی کہا تھا،اب چھ مہینے بعد آئی ہو تو بھی یہی جواب۔ جاؤ نہیں ہیں چاول۔
    سونیا جانتی تھی کہ اس وقت ساری دکانیں بند ہوں گی،اسی لیے اس نے سلیم کی منت شروع کر دی۔
    سلیم پہلے تو سخت لہجے میں ٹالتا رہا پھر اس پر سونیا کا اثر ہونے لگا۔
    وہ بولا:ٹھیک ہے،اندر آ کر لے لے۔
    سونیا کچھ سوچ کر اندر آ گئی۔
    سلیم نے سامنے سے تھوڑا سا شٹر اور نیچے کر دیا۔ دکان میں بالکل ہلکی سی روشنی تھی،سلیم نے بھیگی سونیا کو تھام لیا اور اسے فرش پر گرا لیا۔
    سونیا،جو اسے صرف چند منٹوں کی چوما چاٹی سمجھ رہی تھی،اب بھی یہ سوچ کر زیادہ ہراساں نہیں تھی کہ ابھی کوئی نہ کوئی گاہک آ جائے گا اور اس کی جان بخشی ہو جائے گینیچے لٹاتے ہی سلیم نے سونیا کے ہونٹوں اور گالوں کے ساتھ ہی اس کی قمیض اوپر کر کے چھاتی ننگی کر دی۔
    گیلا برا ہٹا کر ایک مما بھی نکال لیا۔
    سونیا اس عجلت پر تلملا ہی گئی،اب تک ایک آدھ بار ہی کوئی اتنی دور تک پہنچا تھا۔
    وہ اب کچھ کچھ مزاحمت کرنے لگی۔ سلیم نے فورا‘‘ ہی اس کے ہونٹوں سے ممے کا رخ کیا اور مما چوسنے اور کاٹنے لگا۔
    جبکہ ہاتھوں سے سونیا کی شلوار کا ازاربند کھول دیا اور شلوار بھی سرکا دی۔
    سونیا اب تڑپ اٹھی،کھیل اس کی حد سے آگے بڑھ گیا تھا۔ وہ اب مکمل طور پر خود چھڑانے کی کوشش کرنے لگی۔
    وہ بولی:چھوڑ مجھے، جانے دے۔ ،،،،،چھوڑ
    جبکہ سلیم بےصبری سے مموں پر زور آزمائی جاری رکھے ہوئے تھا۔
    سونیا نے آخری حربے کے طور پر سلیم کے بازو پر دانت گاڑ دیئے۔ سلیم سے ایک پل کی چوک ہو گئی اور سونیا اس کی گرفت سے نکل گئی۔
    سلیم سنبھلا تو سونیا نے اسے ایک اور دھکا دیا،سلیم پیچھے جا گرا۔
    سونیا بامشکل شلوار کو سمیٹتی باہر بھاگی۔
    گلی کے کنارے پر ایک مکان کی سیڑھیوں کے نیچے ایک بنا دروازے بیٹھک تھی، جہاں دن کو کچھ بوڑھے حقہ پیتے اور تاش سے من بہلاتے۔
    سلیم نے اتنی دیر میں اسے جا لیا۔ سونیا کے بال اس کی مٹھی میں آ گئے۔ اس کا منہ دبوچ کر کئی چانٹے رسید کیے،طیش میں جسم پر لاتیں بھی لگائیں۔ سونیا کا ایک ہونٹ پھٹ گیا اور وہ اتنی مار کھا کر بےدم ہو گئی۔
    سلیم نے اس بار اس کی قمیض پھاڑ کر جسم سے اتاری،غصے اور طیش نے تمام مصلحتیں بھلا دیں۔
    سلیم شادی شدہ مرد تھا، عورت کے جسم کے تمام راستے اسے ازبر تھے۔
    اس نے سونیا کی شلوار نوچ دی،اور اپنے نالہ کھول کر نفرت اور غصے سے سونیا کی رانوں کے بیچ لن گھسا دیا۔
    اس کھلی بیٹھک کی نیم تاریکی میں اس نے سونیا کی چوت میں لن گھسا دیا
    سونیا چیخی مگر سلیم نے اس کا منہ دبوچ لیا۔ سلیم کا موٹا لن اس کی کنواری چوت کو پار کر گیا۔
    سونیا نے بھرپور مزاحمت کی مگر سلیم نے تمام تر رنجش اور طیش سونیا کو چودنے میں صرف کر دی۔ سونیا کسی مچھلی کی طرح تڑپنے لگی، اس تڑپ اور مچلنے سے اس کا ننگا جسم ناہموار فرش سے چھل گیا اور کمر سے خون رسنے لگا۔
    اس نے ہاتھ پیر سب چلائیں،مگر کوئی فائدہ نہ ہوا۔ سلیم اسے بےدردی سے چودتا رہا۔
    اسے اس وقت نہ اپنے پیسے یاد تھے نہ کوئی اور بات اسے سونیا سے یہی وقتی حساب نپٹانا تھا۔
    دس منٹ کی اذیت ناک چدائی کے بعد سلیم چھوٹ گیا۔ اس وقت تک سونیا بےسدھ ہو چکی تھی۔ سلیم جب شلوار کا نالہ باندھنے لگا تو اسے احساس ہوا کہ اس سے کیا جرم سرزد ہو گیا ہے۔ اس نے سونیا کا دوپٹہ دکان سے اٹھا کر سونیا کے پاس بھینکا اور جلدی سے وہاں سے روانہ ہو گیا۔ اسے تسلی تھی کہ کچھ گاہکوں نے اسے دکان بند کرتے دیکھا ہے،سو وہ مکر سکتا تھا۔
    صرف پندرہ بیس منٹ کے دورانیے میں ایک لڑکی جنسی زیادتی کا شکار ہو گئی۔
    کچھ دیر بعد بارش تھمی،ایک بزرگ کا وہاں سے گزر ہوا تو اسے بیٹھک میں ایک لڑکی برہنہ اور لٹی حالت میں ملی۔
    بس پھر کیا ایک جھگمگھٹا لگ گیا۔ سونیا کا باپ بھی اسے تلاشتا آن پہنچا۔
    محلے ہی کا ایک مرد کسی اخبار کا نام نہاد رپورٹر تھا،یہ خبر منٹوں میں ٹی وی سکرین کی پٹی اور اگلی دن کے اخبار کی سرخی بن گئی
    کئی دنوں تک سونیا موضوع رہی،کبھی افسوس میں کبھی تمسخر میں کبھی کردار کشی میں۔
    کوئی اسے کسی کی درندگی کہتا،کوئی سونیا کی بےراہروی تو کوئی آنےوالا عذاب،غرض بات سب ہی بھول گئے۔
    سلیم ڈرتا رہا مگر سونیا نے اس کا نام نہ اگلا۔
    کچھ دن ماؤں نے اپنی جوان بچیوں کو گلی سے دور رکھا، مگر پھر سب ویسا ہی ہو گیا۔
    ایک دن سونیا سلیم کے پاس جا پہنچی۔ سلیم بھونچکا رہ گیا،سو بولی:دو کلو گھی،ایک کلو چینی تول دو۔
    سلیم بولا:پیسے۔
    سونیا معنی خیز انداز میں بولی:اب کیسے پیسے،اس رات پیسے لے تو لیے تو نے۔
    سلیم کپکپاتے ہاتھوں سے سودا تولنے لگا،اب وہ کبھی سونیا سے پیسے نہیں مانگ سکتا تھا۔
    اخبار کی شہ سرخی تھی"انسانی درندے نے انیس سالہ دوشیزہ کو
    ہوس کا نشانہ بنایا اور بےہوشی کی حالت میں چھوڑ کر فرار۔۔۔
    ختم شُد

  • #2
    واہ۔ کہانی بہت انوکھی اور دلچسپ تھی۔ مزا آیا

    Comment


    • #3
      کہانی آج کل کے حالات پر ہے
      اچھی کوشش کی گئی

      Comment


      • #4
        حقیقت پسند کہانی.. پڑھ کے مزہ آیا

        Comment

        Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

        Working...
        X