Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

قفس صیاد

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • Sensual Story قفس صیاد

    قفس صیاد۔
    ایک ظالم فرعون صفت وڈیرے اور ایک معصوم خاندان کے درمیان ہونے والی چپقلش کی سرگزشت۔

    جو بلا شک وشبہ ہی ہاتھی اور چیونٹی والا ماجرہ ھے ۔
    مختصر جامعہ اور سبق آموز۔
    دلفریب دلنشین مکھڑا تیرا ساتھ ھے آتشی بدن۔
    سندرتیکھامدہوش نشیلا ساتھ عجب دمکتابانکپن۔
    مہکتے لمحس سے تیرےجھوم اٹھتا ہے بیقرار لن۔
    ترستی رہتی ھے پھدی تیری مگر کرتی نہین ملن۔
    چاہے پورب کی شمع ہو پچھمی پروانہ۔ہوتی پریم کہانی ہے۔
    کہتے یہی ہین ازلون سے ہی چوت بڑےلنڈ کی دیوانی ہے۔
    تاریک چکنی ڈھلوانی مگر ہوتی ہے ساتھ تنگ ڈگر۔
    بےجین وبیقرارجھومتا لڑکھڑاتا ہوا اندھا راہگزر۔
    اندھیری طوفان گرم بارش گرج وچمک مین مگر۔
    کٹھن طویل مسافت مین بھی رہتا ہے پرجوش مسافر۔

    شہوت انگیز دلربا دلنشین ہوئی پرمست زندگانی ھے۔
    لپکتے تڑپتے روتے ہونٹون کی پھر بھی رات شہوانی ہے

    پھرلطف ومزے سے ہوتے ھین دونون ھی سرشار۔
    لپک جھپٹ کر سر ٹکراتے ہوئے رلاتا ھے بے شمار۔
    توکبھی دوڑ کرساتھی کو چھوڑ آتا ہے بیچ مندھار۔
    وہ پگلی پھر بھی رہتی ھے ہمیشہ اس کیلئے بیقرار۔
    چاہے اس پر جتنے ظلم و ستم ھون رہتی ہمیشہ مستانی ھے۔
    وحشت ودرندنگی بربریت وسختی درآصل اس پر مہربانی ھے۔

    پیش لفظ۔

    دوستو اور ساتھیو۔
    کسی زمانے میں جن اشیاء کو صرف آسائشات سمجھا جاتا تھا رفتہ رفتہ اب وہ سب ہماری ضروریات کا روپ دھار چکی ہیں ۔ آپ سب پڑھنے والے ذرا ماضی قریب میں جھانکیں تو یاد آئے گا کہ گھروں میں پوری فیملی کے لئے ایک ہنڈیا بنانے کا رواج تھا ۔
    بیشتر گھروں میں خواتین مل جل کے صفائی ستھرائی کا اور سلائی کڑھائی تک خود کرتی تھیں ۔ باہر سے مدد لینے کا رواج نہیں تھا ان مصروفیات میں دن تمام ہو جاتا تھا ۔ بچوں کو پالنے پوسنے میں بھی کافی مشکلات پیش آتی تھیں ۔
    پیمپرز کا نام و نشان تک نہیں تھا ۔ انسان کے بچے کے حوائج ضروریہ کے اوقات مقرر کرنے کے لئے اکثر مائیں ہلکان ہو جاتیں تھیں ۔
    تاکہ بچہ جگہ جگہ گندگی نہ پھیلاتا پھرے ۔ حتیٰ کہ رات سوتے میں بھی ماں کے دیھان میں رہتا کہ بچے کو نیند، نیند میں ہی فارغ کروا لے تاکہ بستر سوکھا ہی رہے اور کام نہ بڑھے ۔ فون شاذ و نادر ہی کسی گھر میں ہوتا ہوگا جسے عموماً تالا بھی ڈال دیا جاتا تھا ۔ گنی چنی موسم کی چار چھ سبزیاں ہوتیں وہی ادل بدل کے پکا لی جاتیں ۔
    اچھے گھرانوں میں گوشت بھون کے سبزی شوربہ بن جاتا سالن اگر کم پڑ بھی جاتا تو دوسرے وقت گلاس بھر پانی ڈال کے شوربہ بڑھا لیا جاتا ۔
    تاکہ سالن پورا ہو جائے ۔ بچوں کی مجال نہ تھی کہ کھانے میں چوں چراں کریں ۔ جس نے چپ چاپ کھا لیا وہ فرمانبردار جس نے نہیں کھایا اسے کھانے کے ساتھ دو جوتے بھی کھلا دئیے جاتے ۔ ۔ کپڑوں کے جوڑے عموماً دو چار نہیں تو چھ ہوتے جن میں سے چار کو نیا رکھنا ہوتا تھا ۔
    تاکہ کہیں آنے جانے میں کام آئیں اور پھر کچھہ عرصے بعد وراثت میں چھوٹے بہن یا بھائی کو دے دئیے جاتے تھے ۔ ۔
    کپڑے جوتے عید کے عید ہی بنتے تھے ۔ موچی عام ملتے تھے جوتے گنٹھوا کے پہننا عیب نہیں تھا ۔
    موچیوں کا روزگار چلتا رہتا تھا ۔ زندگی ٹھاٹھ میں تھی فی خاندان زیادہ اولاد کا رواج تھا ۔ درجہ بدرجہ ایک دوسرے کی کتابیں لیتے سب بچے پڑھ ہی جاتے تھے ۔ جو آجکل سوٹ بوٹ پہن کر گھومتے ہیں ۔ گھروں میں عموماً ایک سائیکل اور ایک موٹر سائیکل ہوتی تھی ۔
    سب وہی استعمال کرتے ۔ چھٹی والے دن گھر میں ہی دھو مانجھ لی جاتیں اور تیل گریس ڈال کے ڈھیلے نٹ پیچ کس لئے جاتے لو جی فراری کی سواری اگلے ہفتے بھر کے لئے لش پش ہو جاتی ۔ ۔
    معاشرے میں افراتفری اور بھیڑ چال نہیں تھی امیر غریب کا فرق کہیں محدب عدسے سے ڈھونڈنا پڑتا ۔
    نئے ہزارئیے نے چڑھتے ہی نیا چاند چڑھا دیا اور اچانک اچانک بہت کچھ بدل ڈالا پرانے ریت گیت اور رسم رواج دھندلانے لگے ۔ دو چار بچے فی خاندان کا تناسب ہونے کی وجہ سے بچوں کو زیادہ توجہ ملنے لگی ہر بچہ ہتھیلی پہ پلنے لگا ۔ ہر بچے کے لئے الگ کتابوں کے علاوہ بھی رنگ برنگی کتابوں کے ڈھیر لگے رہتے ورنہ ایک ایک نصاب تین چار بچے پڑھ جاتے تھے ۔ نئی کتابیں لینا لاڈ کے ساتھ ایک مجبوری بھی بن گیا کیونکہ اب ہر سال نصاب میں کچھ نہ کچھ بدل دیا جاتا ۔ ۔
    گھروں میں ہیلپرز رکھنے کی ضرورت ہر خاتون کو رہنے لگی کیونکہ مشترکہ خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکا تھا گھر گھر کیبلز لگ چکی ہیں نہ گھر میں کوئی بڑی بوڑھیاں ہیں جو روک ٹوک کرتیں اسٹار پلس دیکھتے وقت نکل جاتا کام ادھورے رہنے لگے تو کئی ملازمین کی گنجائش نکل آئی خانسامے بھی آگئے کپڑے دھونے اور صفائی کرنے کے لئے بھی مدد گاروں کی چھوٹی موٹی فوج بن گئی۔
    کپڑے استری بھی کروا لئے جاتے ۔
    اب خانساماں کو دس بیس ہزار ایک وقت ہانڈی بنا کے اگلے وقت شوربہ بڑھانے کے تو نہیں دئیے جا سکتے تھے سو سب کی پسند کے الگ الگ کھانے بنوائے جاتے ۔ جو خانساماں افورڈ نہیں کر سکتی تھیں انہوں نے چوبیس گھنٹے چلتے کوکنگ چینلز کی تراکیب ٹرائی کرنی شروع کر دیں اتنی ورائٹی کہ صدیوں پرانا مسئلہ آج کیا پکائیں حل ہوگیا ۔ ہوتے ہوتے یہاں تک حال ہوگیا کہ مہینوں بعد ایک کھانے کی ترکیب کی باری آتی ۔ لاڈ لڈاتی ماں اونواں اونواں کرتے بچے سے پوچھتی آج کیا بنائیں
    جبکہ ماضی قریب میں گھر کے سربراہ کی مرضی کو ملحوظ رکھا جاتا تھا ۔ بچہ جھٹ سے کہتا آج وہ بنائیں جو پہلے کبھی نہ کھایا ہو ماں سکرین آن کرتی جو بھی لائیو پک رہا ہوتا کچن میں بھی پکنے لگتا ۔ ۔ ۔ فیشن کے نام پہ کئی کئی جوڑے جوتے بن جاتے اور نئے نئے اٹھا کے ہیلپرز اور انکے بچوں کو عطا کر دئیے جاتے ۔ ۔ موبائل آئے تو ایک سے دو دو سے چار اور چار سے گھر کے فی افراد دو ہینڈ سیٹ تک بات رکی ۔
    کمپیوٹر اور اس ملتے جلتے کئی گیجٹس گھروں کی ضرورت بن گئے ۔ گاڑی بھی فی فرد کے حساب سے استعمال میں ہوگئی ۔
    شوہروں کو بیوی کم ہیروئن کی چاہت زیادہ رہنے لگی بیوٹی پارلرز بھی خوب خوب آباد ہوئے ۔ بچوں کی پرائیویسی کے لئے اور اپنی زندگی انجوائے کرنے کے لئے بچوں کو الگ سلایا جانے لگا ۔ والدین بھی مگن بچے بھی مگن ۔ ۔ زندگی میں سے مصائب و آلام نکل گئے زندگیاں آسان ہوگئیں اور خوشیاں کشید کی جانے لگیں ۔ اچانک کووڈ 19 نے وارد ہوکے اور کئی مسائل کھڑے کر دئیے آنلائن کلاسز کے لئے الگ الگ گیجٹس ۔ ۔ الگ الگ سمسٹرز ۔
    تمام ہیلپرز اپنے گھروں کو لوٹ گئے نازک خاتون خانہ جس نے بیڈ توڑنے اور سجنے سنورنے کے علاوہ کم ہی کچھ کیا تھا بری طرح پھنس گئیں کس کس کا دھیان رکھیں کھانا پکائیں کہ صفائی کریں کپڑے دھوئیں کہ بچوں کے مقدمے نمٹائیں کچھ بھی سمٹ کے نہ دیتا کام یوں سوار رہتے کہ گویا دل کو رو لوں تو جگر کو پیٹوں میں والا حال رہنے لگا ۔ ۔ چوبیس گھنٹے گھر میں رہنے والے فارغ رہنے اور وقت گزاری کے لئے کئی طرح کے گیجٹس اور گیمز تک بچوں کی رسائی ہوگئی ۔ ۔ موبائل تو ان تمام گیجٹس پہ سب سے نچلے درجے کی ملکیت ہے ۔
    ایک چٹی انپڑھ ہیلپر کے پاس بھی موبائل ہوتا ہے آپ کیسے سوچ سکتے ہیں کہ بچے کو موبائل نہ دیا جائے ۔ ۔ ۔ یہ سب تو مجبوریاں ہیں اور ہر گھر میں عام ہیں ۔ ملبوسات میں جدت اور ورائٹی گیجسٹس اور گاڑیوں کے نئے نئے میک اور ماڈل لانچ کئے جانے لگے تو ہر نیا ماڈل بچوں کی ضرورت اور عشرت بن گیا خواب تو کچھ رہا ہی نہیں سب کچھ رسا ہی رسا ۔ ۔
    اب جب بچوں کو ہر طرح کی آسائشات بن مانگے ہی ملنے لگیں تو کھانے پینے کی اشیاء میں سے ذائقہ نکل گیا ایک بار کی کھائی چیز کو دوبارہ چکنے کی ضرورت ہی نہیں رہی ہر ریستوران کا الگ ذائقہ اور ہر ملک کی کروڑ ہا تراکیب ۔ ۔
    کانٹی نینٹل ڈشز بھی عام ہوگئیں کیا کھائیں کیا چھوڑیں ۔ ۔ ۔ ۔
    جو منہ سے نکلے فوڈ پانڈا الہٰ دین کے چراغ کی طرح حاضر ۔ ۔ مرضی سے سونا جاگنا یہ سب عیاشیاں کبھی صرف بادشاہوں کا نصیب ہوتی تھیں اس سے بڑی آسائشات کیا ہوں گی کہ اب ہر بچہ بچی ماضی کے ایک بادشاہ اور ملکہ جیسی سہولیات والی زندگی بسر کر رہا ہے
    ۔ ہر چیز با سہولت اور آٹومیٹک ۔ ۔
    مثال کے لئے ملک فارس کا بادشاہ جمشید تو سب کو یاد ہوگا ورنہ ہمارے پرانے ادب میں اب بھی سو رہا ہے جس کے پاس ایک خوبصورت نازک بلوریں پیالہ تھا تاریخ میں جامِ جم اور ساغرِ جمشید کے نام سے مشہور ہے جس میں دنیا بھر میں ہونے والے واقعات دکھائی دیتے تھے اور ان معلومات کی بنیاد پہ اپنی آج کی اسٹیٹیجی طے کرتا تھا اس لئے اسے دنیا بھر کے ممالک پہ برتری حاصل رہتی تھی ۔ یہ موبائل وہ تاریخی جام جمشید ہی تو ہے ۔ ہر سہولت ایک ٹچ کے فاصلے پر ہے گرمی میں گرمی کا اور سردی میں سردی کا توڑ ہے بتائیے کیا آج کا دور کسی بادشاہ کی عیاشی سے کم ہے ۔ ۔
    جب یہ سب کچھ ہوگیا کچھ نیا نہیں رہا کچھ پانے کی خواہش نہیں رہی تو جوانوں کے جنونی اور گڑبڑاتے ہارمونز نے کچھ نیا کرنے کی ٹھانی ایسے ٹھانی کہ ایک بچہ تو اپنے تھرل میں موت سے ملاقات کرنے پہنچ گیا جنون میں اپنی شہ رگ ہی کاٹ لی چھٹی لکھ گیا کہ دیکھوں موت کس ذائقے کی ہے یا مرنے کے بعد کیسا لگے گا ۔ ۔
    کاش یہ سائنسدان فطرت کو یوں عریاں نہ کرتے کچھ حجاب رہنے دیتے ۔ ۔
    بہت زیادہ سہولیات اور انکی عمومیت بھی سم قاتل ہیں ان گیجٹس نے اور آسانیوں کی پہنچ نے بچوں کے سامنے دنیا برہنہ کر کے رکھ دی ہے۔ اس لئے دنیا کی ہر لذت انکی چکھی ہوئی ہے۔
    اب وہ کچھ نیا کرنا چاہتے ہیں چاہے وہ پرشہوت چدائی ہو یا یا موت کا ذائقہ چکھنا ہو ۔ ۔ ۔
    کیا یہ ممکن ہے ماضی پلٹ آئےاگر دنیا کو گول واپسی مین گھمایا جائے تو۔ ؟؟۔
    اوفففف میرے دوستو ۔
    مین تو کل اور آج کے ٹکراؤ کے بارے مین بتاتے بتاے نہجانے آپ سبھی کو نئی رامائن ہی سنانے لگ پڑا ہون۔ موجودہ دور کی تو کافی سٹوریز آپ لوگ پڑھ ہی چکے ھین۔
    تو اب دوستو میرے ساتھ پرانے دور مین واپس چلئے کچھ پہلے بغیر آسائشون والے دور کے منظر ھی دیکھ ڈالین۔
    کہ تب کیا ھوتا تھا؟؟؟۔

    ❤❤
    ۔قسط 1
    آسمان پر طوفانی بجلی کڑک رہی تھی ساتھ بادل بھی اتنے ذور وشور سے گرج رہے تھے کہ ساری زمین یکدم سے سخت تیز پھریری سی لیکر کانپ سی جاتی اتنی طوفانی اس طرح کی بارش آج سے پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔۔۔ گوٹھ کے کئی گھروں کی چھتیں ابتک گر چکی تھین ۔
    سندھ کے اس گوٹھ کے گرد و نواح مین اوربھی کئی خوفناک حادثات ہو چکے تھے ایئسے میں سب لوگ اپنے اپنے گھروں میں دبکے بیٹھے تھے ۔
    سنگین ومخدوش حالات کے پیش نظروہ گھروں میں قید ہو کر رہ گئے۔اس طوفانی بارش میں گھر سے نکلنا۔
    مطلب گویا اپنی موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔
    رات کے پہلے پہر ہی ایک بگھی بارشی طوفان کیچڑ اندھیرے۔اور ہوا کے تھپیڑون سے لڑتی ہوئی گوٹھ کے تھانے کے باہر آ کر رکی۔
    پھراس میں سے بظاہر ایک جوان لڑکی باہر نکلی جس کے دونون ہاتھ میں چمکتے سونے کےکنگن اورانگوٹھیون کے ساتھ نئی نویلی دلہن کی مانند ھی مہندی لگنے کے اثرات نمایان نظر آ رہے تھے۔
    تیز بارش سے بچاٶ کے لیے اس نے ایک لمبا برساتی نما کورٹ پہن رکھا تھا مگر پھر بھی ٹھنڈ کی وجہ سے اس کے دانت بج رہے تھے۔بگھی کے تھانے کی دیوار کے ساتھ رکنے تک وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی تھانے کی عمارت میں داخل ہوچکی تھی۔
    اس تھانے کا عملحہ اس لڑکی کو ان حالات مین ادھر تھانے کے اندر داخل ہوتے دیکھ کر سب حیران ھو رہے تھے کہ اس طوفانی بارش میں اکیلی جوان لڑکی کا بھلا یہان کیا کام البتہ بولا کوئی کچھ نہیں۔
    تھانیدار(طیفا وڑائچ)کے روم مین اسی طرح چھوٹے چھوٹے قدمون کے ساتھ نفاست سے چلتی۔.ہوئی وہ بے دھڑک اندر داخل ہوئی۔
    اندر موجود شخص جو کہ پولیس کی مخصوص وردی میں تھا۔اس نے شہوت و ہوس سے مسکرا کر اس کا سر سے پاؤن تک جائزہ لیتےہوئے سامنے بیٹھنےکا اشارہ کیا ۔
    وہ بھی کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔
    جی بتائین کیا بات ہے۔؟؟ اتنی طوفانی بارش میں آکر کس سے ملاقات کرنی ھے آپ نے۔ بارش تھمنے کا تو انتظار کرلیا ھوتا۔
    طیفے نے امید برخلاف دوستانہ لہجے میں پوچھا
    اگر بارش تھمنے کا انتظار کرتی تو صاحب جی وقت بہت آگے نکل جاتا۔لہذا میں اسیلئے ابھی ہی آگئی ہون۔
    ساتھ ھی اس نے سامنے تھانے کی دیوار گیر گھڑی پر ٹائم دیکھتے ہوۓ کہا جو رات کے دس کا ہندسہ عبور کرنے والی تھی۔
    ارےےےے لگتا ہے کوئی بہت خاص آپنا ہے جس سے ملاقات کرنے کے لیے آپ اس اتنےخراب موسم ھونے کے باوجود چلی آئی ہیں ۔
    طیفے نے سب کچھ جاننے کے باوجود بہت کمینگی سے مسکراتے ہوۓ پوچھا۔(حالانکہ اس کا اس طرح سے اکیلے چلے آنابھی اس کی مجبوری لاچاری اور اس ظلم کے آگے بے بسی سے سر کو جھکا کر راضی ہو کر سب کچھ سہنے کا اعلان کر رہی تھی مگر پھر بھی وہ اسکے منہ سے سب کچھ سننا چاہتا تھا)
    جی وہ صاحب جی مم مین ووہ وہ أپنے مم کے لئے؟؟؟۔
    بظاہراس نے نارمل لہجے میں بولنا شروع کیا مگر پھر اچانک أواز بھرانے کے باعث خاموش ھو گئی۔
    ارےےےےکیا تم اس مشہور اشتہاری چور ڈاکو اور منشیات فروش آدمی سے ملنے چلی آئی ہو۔
    ارےےے چھوکری تم کیوں اب اپنا وقت اس کے پیچھےضائع کرتی ہو۔؟؟
    اب نہجانے کتنے سالوں۔یا پھر ساری عمر کیلئے وہ جیل کی سلاخون مین پھنس چکا ھے ۔پتہ نہین طیفا واقعی مین حیران تھا۔یا اداکاری کے ہنر و فن مین بہت عروج پرپہنچ چکا تھا۔
    لیکن تم اس سے کیوں ملنا چاہتی ہو۔طیفے نےشکار کو پنجرے مین خود ھی پھنستا
    دیکھ کر اب پھر سے سامنے موجود بے بس ہرنی سے سوال کیا۔
    کیونکہ وہ میرا سب کچھ ھے اور مین تمھارے بتائے گے ہرجانے کی ادائیگی کرنے کے بعد مین اُسے یہان سے لے جانے کے لیے آئی ہون۔
    اس کی اگلی بات طیفے کے لیے واقعی مین حیران کُن تھی؟؟۔
    بارش کے اس رومینٹک ماحول مین شہوت وہوس سے جلتے طیفے کے جذبات پر گویا پڑول کا چھڑکاؤ ھو گیا۔ وہ یکدم أٹھ کر اگے بڑھا اور ایک ہی جھٹکے مین اس کا برساتی نما کوٹ کو اُتار پھینکا۔
    نیچےسرخ وسفید رنگت والی وہ خوبصورت مٹیار ایک کالے رنگ کے مہنگے ترین شلوار قمیض کے اوپر سفید دوپٹہ اوڑھے شانِ بے نیازی سے بیٹھی رہی۔اس کی نظریں بظاہر نیچی ھو کر اپنے گلے مین پہنے ہیرے سے مزین مہنگی نیکلس پر گھڑی تھین۔
    طیفے کی آنکھین بھی وہین پر موجود مگر ان کی توجہ کا مرکزچھاتی کےبڑے ابھارون کی دلکش اٹھان پر تھا۔
    اس نے اپنی پوری ذندگی میں اس سوگوارحسینہ جیئساسندر مست پرشباب پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔
    تھوڑی دیر گزرنے کے بعد اس نے اپنے سپاہیون میں سے ایک بندے کو اشارے سے اپنے آفس مین بلایا۔
    وہ تابعداری سے فورا طیفے کے پاس چلا آیا۔
    سنو ۔اس نے اپنے بڑے سخت کھردرے ہاتھون کی ایک انگلی اٹھائی وہ۔ اسے تنبیہ کرنے والے انداز میں بولا۔ انکے مطلوبہ فرد کو
    فورأ حوالات سے نکال کر آذاد کرنے کی فارمیلٹی کو کمپلیٹ کرو۔اُسے صبح ان کے ساتھ گوٹھ سے ہمیشہ کیلئے شہر چلے جانا ہے۔
    وہ سر ہلاتا اپنے صاحب کے سلیوٹ مارتا حولات کی طرف چلا گیا۔
    اب طیفا بھی اس کو ساتھ لیے آفس سے ملحقہ ریسٹ روم مین پہنچ کر سرسری سی نگاہ اٹھا کر اس لڑکی کو دوبارہ دیکھنے لگا۔
    جو وہان پر آتے ہی آپنے نازک بدن کو کپڑون کی قید سے نکالے جا رہی تھی۔
    کیونکہ تھانیدار کی ڈیمانڈ بہت ھی واضع تھی۔
    سرخ وسفید رنگ بڑی بڑی آنکھیں خوبصورت تیکھی ناک
    گلاب کی پنکھڑیوں جیسے لب۔پتلی صراحی دار گردن۔اس کی نظریں اس کے سراپے کا جائزہ لینے لگی۔
    مگر یہ لڑکی اپنے اندر کچھ عجیب سی پراسراریت ضرور رکھتی تھی۔
    اس نے چند ہی لمحون مین بڑے برقعے سے سر سے پیرون تک اپنا پرشہوت ڈھکا شباب مکمل ننگا کر دیا۔
    ❤❤
    ۔”باباسائیں!....۔
    میری بیوی وڈیرے کی قدم بوسی کے لیے کبھی نہیں جائے گی،اگر اس بات پر وہ خفا ہوتا ہے تو ہوتا رہے ۔مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے ۔“اس نے اپنےگوٹھ کی دیرینہ غلیظ رسم کی مخالفت کی۔
    ”پتر!....کیا تمھین پتا ہے کہ وڈیرسائیں اس بات کا کتنا برا مناتا ہے۔“سکندر کے والد نے اس کواپنی بات سمجھانے کی پوری کوشش کی ۔”اور تم کوئی پہلے فرد نہیں ہو جو اپنی دلہن کے ساتھ وہاں جا رہے ہو، سارے گوٹھ کے نئی شادی شدہ جوڑے وڈیرے سائیں کی قدم بوسی کرنے جاتے ہیں ۔“
    ”بابا سائیں !....۔
    مین نے آپ سے کہہ جو دیا ہے۔کہ رضیہ کو میں کبھی بھی اس پرہوس متکبر بڈھے کے پاس لے کر نہیں جاﺅں گا۔وہ میری عزت ہے اور میں یہ کبھی بھی گوارہ نہیں کر سکتا کہ کوئی بھی غیر مرد اسے ہوس بھری نظرون سے دیکھے ۔جبکہ وہ کمینہ غلیظ فطرت اپنی بیٹی کی عمر کی لڑکیوں کو تن تنہا اپنے پاس اکیلےحجرے میں بلاتا ہے ۔
    یہ کونسا قانون کیسی انسانیت ہے کہ نئی نویلی دلہن کو گاﺅں کے وڈیرے کی قدم بوسی کے لیے بھیجاجائے وہ بھی اکیلے کمرے میں۔“۔
    ”پتر کیا تم نے وہ کہاوت نہیں سنی کہ دریامیں رہ کرمگرمچھ سے بیر نہیں رکھا جاتا ۔“بوڑھا ماکھا (مختار) اپنے باغی بیٹے کی ناں کو ہاں میں بدلنے کے لیے اپنی سی کوشش کر رہا تھا،۔۔
    مگرفرسودہ رسموں سے بغاوت کر نےوالا اس کاپڑھا لکھا ہونہار بیٹاسکندرکسی صورت اس کی یہ بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں تھا۔
    ”بابا سائیں !....۔
    بس چند دنوں کی بات ہے میں نے اپنے دوست شہزاد بٹ کو کہ رکھا ہے۔جونہی شہر میں کوئی مناسب ٹھکانہ ملا ہم سب وہاں منتقل ہوجائیں گے ۔“
    ”بہرحال بیٹا میرا تو کام تھا تمھین سمجھانا۔“اس کا باپ گویا ہار مانتے ہوئے
    بو لا۔”آگے اب تمہاری مرضی ہے ۔“
    ”آپ بلکل فکر نہ کریں۔
    بابا سائیں!.... ۔
    کچھ نہیں ہوتا ہمین ،اتنی بھی اندھیر نگری نہیں ہے ۔“سکندر باپ کوتسلی دیتاہوا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
    اس کی حسین وجمیل بیوی رجو (رضیہ) چارپائی پر بیٹھی اپنے شوہر اور سسر کی گفتگو کو بڑے غور سے سن رہی تھی ۔رضیہ جو خود ایک بڑے شہر کی باسی اور دیہات کے ان رسم ورواج سے بالکل ناواقف تھی ۔
    اپنے سسر جو رشتے میں اس کا پھوپھا لگتا تھا کی باتیں اسے بہت بری لگ رہی تھی ۔اب اسے احساس ہو رہا تھا کہ اس کا باپ کس وجہ سے اس رشتے سے ناخوش تھا ۔یہ تو سکندر کی خوش قسمتی تھی کہ وہ اس کی محبت میں اس رشتے کے لیے ڈٹ گئی اور اس کے باپ کو سکندر کا رشتہ قبو ل کرنا پڑا ۔البتہ وہ سکندر سے یہ عہد لینا نہیں بھولا تھا کہ وہ جلد ہی گوٹھ کوچھوڑ کر شہر مین منتقل ہو جائیں گے ۔
    سکنددر خود بھی گوٹھ کی زندگی سے تنگ آ یا ہوا تھا۔اپنے مامو ں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس نے بھی گوٹھ چھوڑنے کا فیصلہ کر لیاتھا۔ پہلے تو اس نے یہی ارا دہ کیا ہوا تھا کہ شہر میں کوئی مناسب ٹھکانہ
    ڈھونڈنے کے بعد ہی شادی کرے گا، مگر جب رجو کی ز بانی اسے پتا چلا کہ ،۔
    رضیہ کے والد اس کی شادی کسی اور جگہ کرنے کے لیے پر
    تو ل رہا ہے تو شہر آباد ہو نے سے پہلے اس نے اپنا گھر آباد کرنا ضرو ری سمجھا ۔
    گورضیہ اور اس کے لیے ماموں کے دو کمرے کے چھو ٹے سے
    مکان میں چند دنو ں کے لیے جگہ نکل آتی، مگر اس طرح اسے اپنے بوڑھے ماں باپ کو اکیلا چھوڑنا پڑ تااور ایسا کرنا اسے مناسب نہیں لگا تھا ۔ یوں بھی کچھ دنو ں کی بات تھی گو ٹھ والے گھر کا سودا کر کے اس نے بیعانہ بھی لے لیا تھا صرف شہر میں کوئی منا سب ٹھکانہ ملنے کی دیر تھی۔اس کے بعد وہ سبھی وہاں منتقل ہو جاتے ۔
    سکندر کے کمرے میں داخل ہوتے ہی وہ کھڑی ہوگئی۔”میں نے وڈیرے سے ملنے کے لیے نہیں جانا۔“ شوہر کے پہلو سے چمٹتے ہوئے وہ نہایت لاڈ سے بولی ۔
    ”تو میں تمھیں کب بھیج رہا
    ہوں ۔“سکندر اسے ساتھ لیے
    چارپائی پر بیٹھ گیا۔
    ”پھوپھا جان جو ضد کر رہے ہیں ۔“رجو نے پریشانی ظاہر کی ۔
    ”تو کیا ہوا ۔“وہ ٹھو س لہجے میں بولا ۔”مرضی تو میری چلے گی نا اور میں تمھیں کبھی کسی غیرمرد کے سامنے بےپردہ ہو نے کی اجازت نہیں دوں گا ۔چاہے وہ وڈیرا ہو یا کوئی دوسرا تیسرا ۔“
    اس کی بات پر رجو نے مطمئن انداز میں سر ہلادیا۔یوں بھی وہ جانتی تھی کہ سکندر اس سے کتنی محبت کرتا ہے۔
    گوٹھ کا وڈیرا حاکم خان بڑے کرّوفر سے تکیے سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔ دو خدمت گاراس کے پا ﺅں دبانے میں مصروف تھے۔ اس کے سامنے چند آدمی فرش پر بچھی دری پر بڑے مودّبا نہ اندازمیں بیٹھے تھے ۔
    ”سنا بھئی رمجو !....کیا نئی
    تازی ہے ۔“وڈیرے نے دری پر بیٹھے ہوئے افراد میں سے ایک کا نام لے کر مخاطب ہوا۔
    ”سائیں !....کوئی خاص تو نہیں ہے ۔“رمیض عرف رمجو نے مودّبانہ لہجے میں جواب دیا۔
    ”سنا ہے تمھارے یار ماکھے کے پتر نے شادی کر لی ہے شہر مین؟“۔
    وڈیرے نے اپنی مونچھوں کو تاﺅ دیتے ہوئے پوچھا ۔
    ”ہاں سا ئیں !....“رمجو نے فورا اثبات میں سر ہلایا۔
    ”دولھا ،دلھن قدم بوسی کے لیے حاضر نہیں ہوئے ابھی تک ؟“ وڈیرے کے لہجے میں حیرانی تھی ۔
    ”سائیں !...ماکھے کا بیٹا، میرے بیٹے اسلم کا دوست ہے ۔اسلم کے یہی بات پوچھنے پر اس نے بتایا کے وہ اپنی بیوی کوکسی غیر مرد کے
    سا منے بے پردہ نہیں ہونے دے گا ۔پھر چاہے وہ گوٹھ کا وڈیرا سائیں ہی کیوں نا ہو۔“رمجو کے بجائے اس کے ساتھ بیٹھے دلدار نے جواب دیا ۔
    ”کیا ؟“وڈیرااچھل کرسیدھا ہوا ۔”کیا بک رہے ہو ؟۔“
    ”سس ....سائیں !....میرا بیٹا یہی بتا رہا تھا۔‘‘دلدار ہکلا گیا تھا ۔
    ”رمجو !....جاؤ اور ماکھے کو فورأ بلا لاﺅ۔ “
    ”جج .... جی.... سائیں!“رمجو جلدی سے اٹھ کر کمرے سے باہر نکل گیا ۔
    اس کے آنے تک وڈیرا اضطراری انداز میں مونچھوں کو تاﺅ دیتا رہا ۔جلد ہی وہ ماکھے کے ہمراہ لوٹ آیا ۔
    ماکھے نے اندر داخل ہوتے ہی وڈیرے کے پاﺅں چھوئے اور سر جھکا کر کھڑا ہو گیا ۔
    ”ہا ں بھئی ماکھے !....سنا ہے بیٹے کی شادی کر دی ہے تو نے ۔“وڈیرے نے اسے گھورتے ہوئے رعونت سے پوچھا۔
    ”جج.... جی سرکار!۔“ ماکھے نے تھوک نگلتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔
    ”کب؟“ وڈیرے نے اگلا سوال کیا ۔
    ”دو تین دن ہو گئے ہیں سا ئیں! “ ماکھا دھیمے لہجے میں بو لا۔
    ”دو تین دن ....؟“وڈیرے کے لہجے میں پرجلال حیرانی تھی ۔”مگر اس گاﺅں میں تو میرے پرکھوں سے رواج چلا آ رہا ہے کہ شادی کی صبح دلھا، دولھن گوٹھ کے وڈیرے کے پاس حاضر ہوتے ہیں ۔“
    ”جج ....جی سائیں !....“ماکھا نے اب کی بار ہکلاتے ہوئے سر جھکا لیا ۔
    ”جب معلوم ہے تو پھراب تک عمل کیوں نہیں ہوا ۔“وڈیرے نے غضب ناک ہوتے ہوئے کہا ۔
    ” س....سس...سائیں ،سرکار!.... بب ....بچہ ہے خیال نہیں رہا ہوگا۔“ماکھا تھر تھر کانپنے لگ گیا تھا ۔
    ”تو گھر میں بڑا کوئی نہیں تھا اسے سمجھانے کے لیے ؟“
    ”سس ....سا ئیں بتایا تھا ۔اصل میں بہو کی طبیعت تھو ڑی نا ساز تھی اس لیے....“
    ”بکوا س بند کرو ماکھے !“ وڈیرا دھاڑا۔ ”تمھارا کیا خیا ل ہے، مجھے کچھ پتا نہیں ہے کہ گوٹھ میں کیا ہو رہا ہے اور تمھارا بیٹا لوگو ں سے کیا کہتا پھر رہا ہے ۔“
    ”مم....مین آپ سےمعافی چاہتا ہوں سرکار ۔بچہ ہے نہ سمجھ ہے ۔مم ....میں اسے سمجھا دوں گا ۔“ماکھے کا رنگ خوف سے زرد ہو گیا تھا ۔
    ”اس کو سمجھانے کی ضرورت پہلے تھی ماکھے !....اب وقت گزر گیا ہے ۔
    میں اس کی منحوس کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتا ۔اب اس کی دلہن اکیلے مجھے ملنے کے لیے آئے گی ۔“
    ”جی سرکار !....“ماکھے نے جلدی سے
    اثبا ت میں سر ہلایا۔
    وڈیراہا تھ سے اسے جانے کا اشارہ کر کے اپنی مونچھوں کو تاﺅ دینے لگا ۔
    ”بابا سا ئیں!....وڈیرا جو کر سکتا ہے کر لے ۔رضیہ اس کے پاس کبھی نہیں جائے گی۔“ سکندر نے اپنے والد کی بات سنتے ہی فورا انکار میں سر ہلا دیا۔
    ماکھے نے ملتجی ہو کر اس سے کہا۔”پُتر!....تم میرے بڑھاپے پر رحم کھاﺅ ۔یہ نہ ہو اس ضد سے تمھیں کوئی ایسا نقصان پہنچ جائے جو میری بردا شت سے باہر ہو ۔
    ”بابا سا ئیں!.... آپ سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کر رہے۔ “سکندر زچ ہوکر بولا۔ ”یہ بے غیرتی ہے ۔میری بیوی ،میری عزت ہے ۔میں اسے کس طرح وڈیرے کے پاس بھیج سکتا ہوں ۔اور جہا ں تک تعلق ہے فائدے نقصان کا تو وہ سب کو پیدا کرنے والے کے ہاتھ میں ہے اس ظالم وحشی وڈیرے کے ہاتھ میں نہیں ۔“
    ”اری!.... تو ہی اسے کچھ کہہ دے۔ شاید تیری با ت اس کی عقل میں آ جا ئے ۔“ماکھا اپنی بیوی کو مخاطب ہوا ۔
    ”میں کیا کہوں۔“اس کی بیوی دھیمے لہجے میں بولی ۔”میں تو بس اس کی خیر یت کی دعا ہی ما نگ سکتی ہو ں ۔“
    ”خا لی دعا ﺅ ں سے کا م نہیں چلتا ۔“ماکھا چلایا۔”دوا دارو بھی کرنا پڑ تی ہے ۔“
    ”وقت آنے پر وہ بھی ہو جائے گی ۔“سکندر اطمینان بھرے لہجے میں کہتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گیا ۔
    ”سن لیا ۔“بیٹے کے کمرے سے نکلتے ہی اس نے سر پکڑ لیا تھا ۔”یہ خود بھی مرے گا اور اس بڑھاپے میں ہمیں بھی خوار کرائے گا ۔“
    ”مالک خیر کرے گا سکندر کے ابّا!....اتنا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ۔“
    ماکھے نے مشورہ دیتے ہوئے کہا ۔”تم بہو رانی کی منت سماجت کرو شاید وہ ما ن جائے ۔بھتیجی ہے تمھاری اسے کہو کہ تھوڑی دیر کی تو با ت ہے ۔بس وڈیرے کے پاﺅں کوہاتھ لگا کر ہی تو وا پس آ جاناہے۔اب وہ اسے کھا تھوڑی جا ئے گا ۔“
    ” سکندر کے ابا۔ مجھے یہ بات نہ بتاﺅ کہ قدم بوسی میں کتنی دیر لگتی ہے ۔میں خود اس وڈیرے کے باپ کی قدم
    بوسی کے لیے جا چکی ہوں ۔میں کسی صو رت بہو کو اس کام کے لیے راضی نہیں کرو ں گی۔یوں بھی ہماری بہو لاکھوں میں ایک ہے اور ایسی دلہنوں کو وڈیرا جلدی فارغ نہیں کیا کرتا ۔“
    ”بھاڑ میں جاﺅ “ماکھا غصے سے بولا ۔” تم ماں بن کر بھی اپنے بیٹے کی بہتری کے با رے میں نہیں سو چ سکتی ہو۔حالانکہ تمھیں اچھی
    طر ح پتاہے کہ وڈیرا سائیں پر کھوں کے رسم و رواج کا کتنا خیا ل رکھتا ہے ۔“
    سکندر کی ما ں اطمینان سے بولی۔کل پر سو ں تک شاید ہم شہر چلے جائیں،پھر تو ادھرنہ وڈیراہو گا نہ ھی وہان پر اس کے فرسودہ رسم و روا ج “ ۔
    اور ماکھا ہونٹ بھینچ کر رہ گیا تھا۔
    ایک ضروری اعلان۔
    دوستوساتھیو یہ سٹوری بلکل کمپلیٹ ھے تقریبأ اسی طرح کی چند ھی اپڈیٹ ہین مزید؟؟۔
    مگر؟؟؟۔
    پوسٹ کرنے کیلئے ھے بس تھوڑا ساانتظار۔
    تفصیلی تجزیہ اور لائک کیلئے ساقی ھے بیقرار۔
    جاری ھے۔
    ۔
    Attached Files
    Vist My Thread View My Posts
    you will never a disappointed

  • #2
    Waha saqi sahab..
    zabardast pesh lafz likha hai aapnay kahani ka.. yadoon k jharokon main lai gaye.
    Kaya wakt the woh jab zindagi buhat saada thee. Har cheez main apnayat thee, aur zindagi main sakon tha.. ab tu bhagam dor lagi hui hai..

    Kahani kai plot say lag raha hai kahani bubat hi dhamakay daar hogi.. gaon k firsoda rasm o rawayat say baghawat karnay walay hanaisha saza bhugatatay hain.. daikhtay hain sikandar kaamyab hota hai ya nahi..

    Buhat hi aala..

    Comment


    • #3
      آغاز سے تو کہانی دلچسپ معلوم ہوتی ہے

      Comment


      • #4
        زبردست کہانی

        Comment


        • #5
          آغاز تو بھت زبردست شاندار ہے آگے چل کر مزا آ ے گا جناب

          Comment


          • #6
            شاعرانہ انداز سے بھرپور آغاز آور پھر ماضی کی جھلک کے بعد سٹوری کا آغاز زبردست جناب ساقی بھائی لاجواب

            Comment


            • #7
              Originally posted by alone_leo82 View Post
              Waha saqi sahab..
              zabardast pesh lafz likha hai aapnay kahani ka.. yadoon k jharokon main lai gaye.
              Kaya wakt the woh jab zindagi buhat saada thee. Har cheez main apnayat thee, aur zindagi main sakon tha.. ab tu bhagam dor lagi hui hai..

              Kahani kai plot say lag raha hai kahani bubat hi dhamakay daar hogi.. gaon k firsoda rasm o rawayat say baghawat karnay walay hanaisha saza bhugatatay hain.. daikhtay hain sikandar kaamyab hota hai ya nahi..

              Buhat hi aala..
              شکریہ ہےدوست۔
              جسم ودل مین أترنے والا تیرایہ حسین پیغام دیکھ کے۔
              ساقی کرے گا نچھاور پرشہوت اپڈیٹ انعام دے کے۔
              ویئسے یہ ساری سٹوری ھی پیش لفظ ھے بہت جلد ہی ایک شاہکار سٹوری پرانے ادوار پر آپ دوستو کی نظر ھوگئی۔
              ۔
              Vist My Thread View My Posts
              you will never a disappointed

              Comment


              • #8
                زبردست آغاز

                Comment


                • #9
                  Aghaz behtareen ha kahani ka

                  Comment


                  • #10
                    Wah kia introduction tha.
                    story ni writter ne pouri film hi chala dI ha.
                    wo b action se bharpoor.
                    Daikhtey Hain aagey kia hota ha.
                    Nice starting

                    Comment

                    Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                    Working...
                    X