Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

قفس صیاد

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #41
    Bohat umda tehreer

    Comment


    • #42
      Shandaar.
      wadera logun ki bachiun ki leta ha.
      Aik nookar ne uski Beti ki Leli.
      Scene Kamal tha

      Comment


      • #43
        لاجواب موضوع شروع کیا ہے آپ نے ساقی بھائی
        بہترین اپڈیٹس ہیں
        یہ کہانی ایک شاہکار ہو گی

        Comment


        • #44
          زبردست جناب۔۔ کہانی تو بہترین ہے ہی مگر جسطرح آپ نے کہانی کے تانے بانے بُنے ہیں وہ لاجواب ہے۔ بہت بہترین انداز میں کڑی سے کڑی ملاتے جارہے ہیں آپ۔ تھانے کے ماحول کی بھی حقیقی منظر کشی کی گئی ہے۔ نئی نویلی دلہن کیساتھ ہمبستری کی امید نے تھانیدار کو جوشیلا کردیا ہے۔ چوہدریوں اور جاگیردار وڈیروں کی حویلی میں ہونے والے جنسی معاشقعوں کو بھی بے نقاب کرتی یہ کہانی بہت جلد دیگر پڑھنے والوں کو بھی اپنے سحر میں جکڑتی نظر آئیگی۔۔۔

          Comment


          • #45
            شاندار اپڈیٹ

            Comment


            • #46
              قفس صیاد۔
              از صنم ساقی۔
              نیو اپڈیٹ۔

              ۔تھوڑی دیرسکون کرنے کے بعد پہلے نرگس خانم ھی اٹھی اور اپنی پینٹی سے پہلے پھدی پھر بہادر کے لن کو صاف کیا۔۔اور جب اس نے بہادر کو ہلایا تو وہ جیئسے نشے میں مدہوش ہو کر بولا۔
              ۔۔اوں۔اوں۔ارے۔مالکن ابھی مجھے سونے دو نا۔
              نرگس نے اس سے کہا بہادر تم اب جاو یہان سے کافی دیر ہو گئی ہے۔اگر تمھین ادھر کسی نے دیکھ لیا تو بڑا بھنڈال اٹھ کھڑا ہو گا۔
              تو بہادر نے نشے اور مزے سے دھت اندازسے ہلکی سی آنکھیں کھولیں اور نرگس کو پتلی کمر سے پکڑ کر اپنے اوپر گراتے ہوئے بولا۔۔میری جان!ابھی تو صبح ہونے مین بہت وقت ہے اور مین کسی کے بھی اٹھنے سے پہلے چلا جاؤن گا اور ویئسے بھی تمھارے اس مست پرشباب بدن سے میرا دل ابھی نہین بھرا ھے۔۔۔
              نرگس نے سامنے لگے وال کلاک کو دیکھا تو اُسے احساس ہوا کہ واقعی ابھی ان کے پاس ایک بار مزید چدائی کا کھیل رچانے کا ٹائم ہے۔۔۔
              وہ فورا ہی بیڈ پر ایک طرف مزیدکھسک گئی اور بہادر بھی نرگس کی سائیڈ میں آ کر چپک کر لیٹ گیا۔۔۔
              اسے خود سے لپٹتا دیکھ کر نرگس نے تھوڑی کروٹ بدلی اور اپنا سر بہادرکے مظبوط بازو پر رکھتے ہوئے اس سے لپٹ کر مستی سے لن کو پکڑ ہلانےلگئی۔۔۔
              چونکہ بہادر دن بھر کے کام کاج میں بھی کافی تھک گیا تھا۔اس لئیےاسکی آنکھ لگی اور اس کے ساتھ نرگس کو بھی اپنے سونے کا پتہ ہی نہیں چلا۔۔۔
              وہ دونوں ایک دوسرے کی بانہوں میں لپٹے ہوئے کافی دیر سوئے رہے۔بہادر کی آنکھ پھر اس وقت کھلی جب اس کو اپنے شیش ناگ پر گیلا پن محسوس ہوا۔
              بہادر نے آنکھیں کھول کر دیکھا تونرگس لن پر جھکی ہوئی اس کے ٹوپےکو ہونٹون مین دبائے چوس رہی تھی۔ وہ خاموشی سے اپنی مالکن نرگس کو بہت جوش سےاپنا لن چوستے ہوئے دیکھنے لگا۔
              نرگس نے بہادر کی طرف لن کو چوستے ہوئے بہت شہوت انگیز مستی سےدیکھا،وہ دونون اکثر ایک ساتھ جب وڈیرےحاکم خان کو کسی کے چودائی کرتے دیکھتے تھے تو یہ منظر بھی کافی مرتبہ انہین نظر آیا تھا مگر آج کا لائیو شو اور وہ بھی اپنے ساتھ ہی یہ سین انتہائی دلکش اور لطف ومزے سے اتنا بھرپور تھا کہ جسے بہادر تو کیا کوئی بھی لفظوں میں بیان نہیں کرسکتا۔
              اس نے کچھ لمحے نرگس کو لن چوسنے دیا۔پھر نرگس کو اپنے اوپر آنےکا اشارہ کیا۔ جس پر وہ پر شہوت سیکسی انداز میں بیڈ پر گھٹنوں کے بل کتیا کی ہی طرح چلتی ہوئی بہادر کے ننگے وجود پر آ کر بیٹھ گئی۔
              بہادرکالن اب نرگس کی گدرائی گانڈ کو ٹچ ہو رہا تھا جبکہ اس کی گیلی بھڑکتی پھدی بہادر کے نچلے حصے پر مکمل جڑی ہوئی تھی۔
              نرگس کے تنے ہوئے دلکش ممون کے نپلز بہادر کی توجہ کو اپنی طرف کھینچ رہے تھے۔وہ اپنے دونوں ہاتھوں سے نرگس کے نپلز کو چھیڑنے لگا۔
              نرگس بھی گرم ہوتی آہستہ آہستہ نیچے کو جھکنے لگی جس کی وجہ سےاس کے ممے بہادر کے چہرے کے انتہائی قریب آ گئے۔
              بہادر نے اب باری باری اس کے مموں کو اپنے منہ میں بھر کر ننھے منے بھوکھے ندیدے بچوں کی مانند انہین چوسنے، چاٹنے اور ان پر ہلکا ہلکا نپلز کو بائٹ کاٹنے لگا۔
              پھر نرگس کےمنہ سے آہستہ آہستہ لذت آمیز سسکاریاں نکلنے لگیں۔۔بہادر بھی پرسکون انداز میں نرگس کے دونوں ممون سے جی بھر کے مزہ لینے میں مصروف تھا جیسے اس کو کسی کا ڈر خوف اورکہیں جانے کی کوئی جلدی یا کسی کے آ جانے کا ڈر نہیں تھا۔
              دوستو ساتھیو۔
              یہ بات سب لوگ جانتے ہین کہ اکثر مرد پہلی چدائی کےدوران بہت جلدی ہی چھوٹ جاتے ہیں ان کی وجوہات ہی یہی ہوتی ہیں کہ ان کو پکڑے جانے کا ڈر ہوتا ہے۔
              یا
              چودنے والی لڑکی پر خود کو طاقت ورمرد ثابت کرنے کاان کے ذہن پر اتنا دباو ہوتا ہے کہ وہ خودپہلے ہی اس لڑکی کو بیچ مندھار میں چھوڑ کرفارغ ہو جاتے ہیں۔ اگر دل ودماغ اور ذہن وجسم پر کوئی پریشر نہ ہو تو پھر ہر کوئی لمبی اور مزے سے بھرپور اننگز کھیل پائے گا۔
              کچھ دیر نرگس کے مموں کو چوس لینے کے بعد بہادر نے اسکے ممووں کو اپنے منہ سے باہر نکالا تو۔
              نرگس کی آنکھوں میں جھلکتی سرخی صاف ظاہر کر رہی تھی کہ اسے کس قدر لطف حاصل ہوا ہے۔
              پھر نرگس مزید نیچے جھکتے ہوئے بہادر کے ہونٹوں کو چوم لینے کے بعد آہستہ سے لن کو اپنے ہاتھ میں تھام کر مسلنے کے بعد اس کو اپنی پھدی میں گھسا لیا۔
              ایک لمبی سی سسکاری کے بعد نرگس آہستہ آہستہ بہادر کے لن پر اوپر نیچے ہونے لگی۔جیسے جیسے اس کا سنگین ورنگین ردھم بن رہا تھا بہادر کو نرگس کی اوپر نیچے ہونے کی رفتار میں تیزی آتی محسوس ہونے لگی۔
              چند ہی ثانیوں میں کمرے میں دونون کی مدہوش تیز تیز أہین اور مست سسکاریاں گونجنے لگیں۔
              اسکے لن پر مسلسل نرگس کی رسیلی پھدی بہادر کوتنگ ہوتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی شاید اسی وجہ سے بہادر کو بھی اپنے دل کی دھڑکن بے چین ہوتی ہوئی محسوس ہونے لگئی۔ابھی شائد ان دونون کا مزید کچھ لطف ومزا بڑھتا کہ اچانک کمرے کے دروازے پر دستک کی آواز آئی۔
              پہلے تو نرگس کچھ لمحے بہادر کے لن کو اپنی پھدی میں لیے وہین پر دوازنو ہوکر پریشانی اور حیرانگی سے ساکت بیٹھی رہئیں۔
              پھر کچھ حوصلہ اور ہمت جھٹلا کر دروازے کے پاس چلی آئی اور ہلکا سا دروازہ کھول کر پردے کی اوٹ سے باہر دیکھا تو۔
              وہان سامنے حویلی کی ملازمہ چھیمو حاکم کا بلاوا لیۓ کھڑی تھی ۔
              چھیمو: مالکن وڈیرہ سائین ادھر بڑے کمرے مین آپ کو جلدی بلا رہے ھین۔
              نرگس خانم: تم چلو مین تیار ہو کر أتی ہون۔ ساتھ ہی خانم نے دروازہ پھر سے بند کر دیا۔
              بہادر جو نرگس کے پیچھے پیچھے ادھر ہی پہنچ چکا تھا اس نے کمرہ بند ہوتے ہی نرگس کو تھام کر پھر سے بیڈ پر لیٹا لیا اور ساتھ ہی پاس پڑے اسی رات والےچھوٹے تکیے کو نرگس کی ملائم گانڈ کےنیچے پھر سے رکھ دیا۔
              چھیمو ابھی تک کمرے کے باہر کھڑی اپنی مالکن کے بکھرے بکھرے حلیے اور چہرے پر رات بھر کی پرشہوت چودائی کے آثار دیکھ کر گہری سوچون مین گم ہو چکی تھی۔
              وہ وڈیرے حاکم خان کی انتہائی خاص اور چڑھتی جوانی کی پہلی رکھیل ہونے کیساتھ ساتھ ہر قسم کے رازون سے واقف تھی۔اسے بس ایک فکر واندیشہ پریشان کئے جا رہا تھا کہ وہ وڈیرے کو کس انداز سے مالکن کے اس روپ سے آگاہ کرے۔اور ابھی تو اس کو نرگس کے حسین بدن کی سوغاتین پر منڈلانے والے بھونرے کو بھی دیکھنا تھا۔چھیمو یہ سوچ کر نرگس خانم کے سامنے والے کمرے مین غات لگا کر بیٹھ گئی۔
              ادھر کمرے کے اندر بہادر نےلن کو پھرسےنرگس کی پھدی میں گھسانے کے بعد پہلے آہستہ پھر طوفانی رفتار سے گھسے مارتے ہوئےاپنی مالکن کووحشت سے چودنے لگا۔
              تقریبآ أدھے گھنٹے کی لگاتار نرگس کی چودائی کرنے کے بعد آخری دھکوں کے وجہ سے پورا زور لگا کر بہادر نے اپنا سارا لن پھدی کے اندر گھسا دیا۔اور ساتھ ہی نرگس کے کندھوں کو پکڑ کر اپنی طرف کھینچ لیا جس سے لن اس کی بچہ دانی میں مکمل طور پرگھس گیا۔۔۔
              نرگس کیلئے بھی یہ آخری جھٹکاثابت ہوااوراس نے ملائی کا فوارا چھوڑ دیا۔۔۔ساتھ ہی بہادر کے لن نے منی کی پہلی پچکاری ماری اور پھر مسلسل مارتا ہی گیا۔۔۔
              وہ پھر سے نرگس کی بچہ دانی کو گاڑھی منی سے بھررھا تھا۔
              پھر وہ دونوں ایک دوسرے کی بانہوں میں کچھ دیر لپٹے رہے نرگس بہادرکو پرسکون کرنے کے لیے مسلسل اسکے جسم کو سہلاتی رہی جب کہ اسکے لن کو نرگس کی پھدی اپنے اندر جکڑے ہوئے تھی۔ پھر کچھ ہی دیر بعد نرگس خانم نے پہلے کمرے کا دروازہ کھول کر ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بہادر کو باہر نکال دیا ۔
              اور پھر فریش ہونے واش روم چلی گئی مگر بہادر اور نرگس خانم۔اپنی ساری احتیاطون کے باوجود چھیمو کی نظرون مین آ چکے تھے۔
              نرگس اپنے بھائی کیساتھ ساتھ خود بھی سہاگ رات جیئسا لطف ومزا لے کر مدہوش اور مستی سے مکمل طور پر ننگی گرم پانی سے نہانے کے ساتھ پھدی اور ممون کو پھر سے مسل رہی تھی۔
              مگر وہ اپنے ساتھ پیش أنے والے نئے خوفناک حالات سے مکمل بے خبر تھی۔
              ❤❤❤❤
              سندھ کے جھنگ علاقے مین موجود ڈفرو جنگ مین شیر کی اچانک دھاڑ سے سارا جنگل ہی گونج اٹھا۔جگو اور اُس کے ساتھی حواریون کے سدھائے ہوئے گھوڑے جو سندھ سے نکلتی ندی بھگتی کے کنارے پر چل رہے تھے، شیر کی اچانک دھاڑ سنتے ہی بری طرح بدک گئے اور بد حواسی کے عالم میں ادھر ادھر ایک دوسرے سے علیحدہ ہوتے مختلف سمتون مین سرپٹ دوڑ پڑے۔
              جنگل کی فضا ان مین موجود اس ایک نسوانی وجود کی چیخیوں سے گونج اٹھا ۔جسے جگو نے ہاتھ باندھ کے آپنے آگے بٹھا رکھا تھا۔ پھر جنگلی پرندوں کے غول کے غول وہان کے بلند درختوں کے اوپر چکر کاٹنے لگے۔
              شیر کی خوفناک دھاڑ کی آواز سے جگو کے بدکے سیاہ اکیلے تن تنہا گھوڑے نے سب سے علیحدہ ہو کر جنگل کے مغربی حصے کے ساتھ ساتھ پھیلی خود رو جھاڑیوں سے اٹے چھوٹے چھوٹے رتیلے پہاڑیوں کا رخ کیا جہاں سے تھوڑے فاصلے پر ہی بھگتی ندی کا پانی بڑی تیز رفتاری اور شور کے ساتھ نشیب کی جانب بہتا ہوا دریائےسندھ کی طرف ھی واپس جا رہا تھا۔
              اس جنگل کا زیادہ اور انتہائی گھنا حصہ بھگتی ندی کے اس پار تھا، جس میں شیر، چیتے، جنگلی بھینسے اور ہرن وغیرہ بھاری تعاداد میں موجود تھے ۔
              ساتھ ہی ادھر خون آشام چمگادڑوں اور خوفناک غاروں کی کھائیون کے علاوہ ڈفرو کے جنگل کے اس گھنے حصے میں کئی اقسام کے خوش رنگ پرندے بھی پائے جاتے تھے۔ بھگتی کے اس جانب کا جنگل تو محض نام کا جنگل تھا۔ اس میں ہرن ، خرگوش اور نیل گائے کے سوا اور کوئی جانور نہ تھا۔ البتہ خوبصورت رنگین پرندوں کی یہاں بھی بہتات تھی۔ بھگتی ندی بڑے اور چھوٹے جنگل کے درمیان ایک قدرتی حد فصیل تھی ۔ اس ندی کی چوڑائی تو زیادہ نہ تھی لیکن بلندی سے ڈھلوان میں بہنے کے سبب اس کے بہاؤ میں طوفان تیز تندی اور تیزی تھی۔ ندی کی گہرائی بھی زیادہ نہ تھی لیکن پانی کی تیز رفتاری بڑے بڑے جانوروں کے پاؤں بھی نہین ٹکنے دیتی تھی ۔ ندی کا ایک دھارا پتھروں کے درمیان میں سے راستہ بناتے ہوئے اُس پار کے جنگل میں بہتا تھا اور وہاں کے جانور ندی کی اس شاخ سے پانی پیتے تھے ۔اس گوٹھ کے مقامی لوگ ندی کی اس شاخ کو ما بھگت" کہتے تھے ۔درآصل سو سال پہلے وہان ایک بھگت نام کا سادھو رہا کرتا تھا جس کے متعلق کافی عجیب غریب روایات مشہور تھین۔
              خوفناک جنگلی درندوں اور اس پار کی گوٹھ نام کی اس بستی کے درمیان بھگتی ندی ایک قدرتی سرحد کا کام بھی کرتی تھی جسے عموما فریقین میں سے کوئی بھی عبور کرنے کی کوش نہ کرنا۔ البتہ کبھی کبھار موسم سرما میں ندی کا پانی کم ہونے کی وجہ سے کوئی ذی روح ندی پار کر کے اس پار آنے کی غلطی کر بیٹھتا۔ عام طور پر بھولے سے ادھر اُدھر نکلنے والا انسان یا جانو کوئی بھی زندہ سلامت بچ کر واپس نہ جاتا تھا۔
              گوٹھ بستی کے لوگ ایک مخصوص قدیم طریقے سے اس کا شکار کر لیتے تھے۔ جہاں تک شیروں اور دوسرے جنگلی جانوروں کا تعلق ہے وہ ندی کا پانی کم ہونے کے باوجود پانی کے انتہائی تیز بہاؤ کی وجہ سے ادھر کا رخ نہ کرتے تھے۔ البتہ مبینہ طور پر سنا یہ بھی تھا کہ ندی کا پانی کم ہونے کے دنوں میں بھی کوئی چیتایا شیر پہاڑی کی بلندی پر پانی میں ابھری ہوئی چٹانوں کے سلسے کو عبور کر کے ندی کے اس پار کبھی کبھار آ جاتے، بین ۔
              ایساشاید ہی کبھی ہوتا تھا ۔ بھگتی ندی کے اس جانب انتہائی کم گنجان جنگل سےکافی دور پیچے ہٹ کر کچھ اور بھی کچھ بستیاں آباد تھیں جن میں سب سے بڑی بستی وڈیرے سائین حاکم خان کی تھی ۔گوٹھ گاؤن کی وہ بستی وڈیرے حاکم خان کی دو پکی حویلیان چند کچے پکے گھروں اور سو ڈیڑھ سوجھونپڑیوں پرمشتمل تھی۔شیر کی دھاڑ نے ایک بار پھر جنگل کو بلا کر رکھ دیا۔ اگر چہ جگو پوری قوت سے گھوڑے کی لگام کھینچے ہوئے تھا اور اس کا گھوڑا بھی سدھایا ہوا تھا لیکن شیر کی خوفناک دھاڑ نے اُسے بری طرح بدحواس کر دیا تھا اوروہ بے قابو ہو کر مزید تیز رفتاری سے بھاگنے لگا تھا۔ پوری کوشش کے باوجود جگو گھوڑے کو روک نہین سکا اور نہ ہی اس کا رخ گوٹھ کی جانب واپس موڑنے میں کامیاب ہوا۔ بدحواس اور تیز رفتاری کے باعث گھوڑا پتھریلے نمہوار راستے پر بار بار ٹھوکریں کھا رہا تھا۔ جوں جوں گھوڑ بلندی کی طرف جارہا تھا،۔
              جگو کے ساتھ ساتھ آگے بندھی بیٹھی گوٹھ کے وڈیرے سائین کی اکلوتی بہن نرگس خانم کے اوسان بھی خطا ہوتے جارہے تھے اور گھوڑے کی ہر ٹھوکر کے ساتھ ان دونون کا وجود ہوا مین روشنیوں کے بگولون کی طرح اوپر اچھلتا تھا۔
              پھر جس خطر ناک مقام سے جگو خوف زدہ تھا وہ مقام ان کے بہت قریب آچکا تھا۔ جھاگ اڑاتی شور مچاتی بل کھاتی بھگتی ندی اب ان کے سامنے تھی۔
              گھوڑے کا رخ اب اس تنگ اور پتھریلی پگڈنڈی کی طرف تھا جو پہاڑی کے ڈھلوانی راستے پرتھی جہاں پر ندی اپنی پوری طوفان خیزی کے ساتھ بہہ رہی تھی۔ جونہی ان کا گھوڑا اترائی کی طرف بڑھا وہان پر کھڑے ہوئے انسپکڑ طیفے نے انہین دیکھ لیا۔
              انسپکڑ طیفا درآصل کچھ چور غنڈوں کی(اس کے مخبر نے اس کو واضع طور پر اطلاع دی تھی) وجعہ سے ادھر موجود تھا۔
              اور پھر کچھ دیر پہلے اس نے نسوانی چیخوں کی آوازیں سن کر اپنے ساتھیون کو مختلف سمعت مین بھیج کر تلاش کرنے کا أڈر دیا اور خود بھی ادھر ادھر دیکھنے لگا تھا، درآصل اس کے دماغ مین یہ بات ہی آئی تھی کہ وہ چور لٹیرے ڈاکو کسی عورت کو اٹھا کر لائے ہون گے۔
              اپنی انسپکڑ کی وردی مین ملبوس طیفے ہاتھ مین پسٹل اور ساتھ ایک نالی بندوق بھی کندھے پر رکھے اُدھر دیکھ رہا تھا کہ جگو اور نرگس خانم کی نظر بھی طیفے پر پڑ گئی۔ مبینہ طور پر موت کے منہ مین گرفتار نرگس خانم نے جب اس ویرانےمیں کسی انسان کو کھڑا دیکھتے ہی نرگس نے زور زور سے اپنی مدد کے لئے پکارنا شروع کر دیا۔
              جگو کا گھوڑا بھی اترائی میں سیدھا اس کی طرف ہی جارہا تھا جہاں سامنے طیفا کھڑا ان کا انتظار کر رہا تھا۔ اس نے گھوڑے پر بیٹھے جگواور ساتھ بندھی نرگس خانم کو آپنی طرف اتے دیکھ کر اپنی بندوق کی نالی کا رخ جگو کی طرف اُٹھا دیا۔
              طیفااب چٹان کی طرح ایستادہ ڈھلوانی راستے کی پگڈنڈی پر جگو کے سامنے کھڑا ھو چکا تھا۔اس کے ہانپتے ہوئے گبھرائے گھوڑےنے اپنےراستے کے سامنے جب رکاوٹ دیکھی تو اس کی رفتار قدرے سست پڑ گئی۔اور جگو ابھی اسے قابو کرنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ گھوڑے کے اگلے سم یکدم ایک ابھرے ہوئے نوکیلے پتھر سے ٹکرائے اور وہ قلابازیاں کھاتا ہوا بھگتی ندی کی تیز یخ خوفناک لہروں میں جاگرا۔
              ساتھ ہی جگو کی دلدوز چیخ نے سارے جنگل کے سناٹے کو چیر ڈالا۔درآصل اس کا گھوڑے سے گرتے ہوئے سر بڑے سے پتھر سےٹکرا کر پاش پاش ہو چکا تھا۔
              اور اس کے ساتھ ہی گھوڑے کی پیٹھ سے ریشمی گٹھڑی کی طرح نرگس خانم بھی اچھل کر بھگتی ندی میں جا گری تھی۔طیفے نےبندوق اور ہولسڑ اپنی کمر سے اتار کر پرے پھینکا اور بھگتی کے پانی میں نرگس خانم کے پیچھےکود گیا۔
              جب وہ چند لمحوں کے بعد پانی کی سیج پر اترا تو اس کی متلاشی نظریں پانی کی تیز چلتی لہرون پر ادھر ادھر دوڑنے لگیں۔
              پھر ذرا سے ھی فاصلے پر اسے بھگتی ندی کے کنارے پرریشمی گٹھڑی جھاڑیوں میں پھنسی ہوئی نظر آئی۔وہ تیز رفتارپانی کو چیرتا ہوا ادھر بڑھا۔
              نوجوان طیفے کے مضبوط بازو بھگتی ندی کی تند و تیز لہروں سے لڑنا خوب جانتے تھے۔وہ انہیں لہروں سے کھیلتا ہوا تو جوان ہوا تھا۔ وہ تیز موجوں سے لڑتا ہوا بہت جلدھی جھاڑی کے پاس پہنچ گیا۔
              دونون ہاتھ مظبوطی سے بندھے ہونے کے باوجود نرگس خانم نیم بے ہوشی کے عالم میں جھاڑیوں میں پھنسی ہوئی تھی ۔درآصل اس کی خوش بختی تھی کہ ندی میں گرتے ہی ایک تیز رفتار لہر نے اسے کنارے کی جھاڑیوں کی طرف اچھال دیا اور بندھے ہاتھون مین جھاڑی کی ایک شاخ بھی پھنس گئی تھا۔
              طیفے نے اسے جلدی سے جھاڑیوں سے نکال کر اپنی کمر پر ڈال لیا اور ایک ہاتھ سے جھاڑیوں کو پکڑتا ہوا کنارے پر آگیا۔۔
              اب طیفے کے سامنے پرستان سے اُتری ہوئی پری مکمل طور پر بے ہوش ہو چکی تھی۔طیفے نے اسے ایک گھنے درخت کے نیچے گھاس پر لٹا دیا۔ شیر کی دھاڑا ایک بار پھر سنائی دی مگر یہ آواز کہیں بہت دور سے آئی تھی۔
              جو بے ہوش اس حسین مورتی کی سماعت تک نہ پہنچ سکی۔ دونون بازوؤں میں خوبصورت سونے کےکنگن اورگردن کے گرد آب دار ہیرے موتیوں کی مالا ساتھ بہت ہی قیمتی لباس مین دیکھ کر طیفے کو فورا ہی اس کے گوٹھ کے وڈیرے سائین کی فیملی ہونے(یعنی خانم کا ) کا شک ہوا۔ چونکہ نرگس کے پیٹ میں کافی پانی بھی بھر چکا تھا، ۔
              اس لئے طیفے نے سونے کے زیورات سے مزین اس وجود کو (ہاتھون کی بندش آزاد کرنے کے بعد)منہ کے بل الٹا کر کے کمر پر دونوں ہاتھ رکھ کر جھٹکے دینا شروع کئے ۔ ہر جھٹکے پر اس کے منہ سے پانی اچھل کر باہر آ جاتا ۔
              چند بار ایسا کرنے سے اُس کے پیٹ سے سارا پانی ہی خارج ہو گیا اور اس کے منہ سے ہائے امی جی کی مدہم سی آواز نکلی۔
              یہ آواز سن کر طیفے کو اپنی کوشش پر بےحد خوشی ہوئی ۔ پھر اس نے اس کو درخت کے ساتھ ٹیک لگا کر بٹھا دیا۔اب طیفے نے پہلی بار اسے غور سے دیکھا بھیگی ہونے کی بعد اس کی نسوانی حشر سمانیاں اپنے عروج پر تھین۔
              آنکھیں کھولیں پلیززپلیزز خانم جی آنکھیں کھولیں آپ بچ گئی ہیں۔
              طیفے نےجب زور سے اُس کو پکارا تو۔ اس کی زوردار آواز پر نرگس کی آنکھوں کی گھنیری پلکوں میں ہلکی سی ہی جنبش ہوئی۔
              تو طیفے نے فورا اس کے گال تھپتھپانا شروع کر دیے ۔ ایسا کرتے ہوئے اُس کے ہاتھ نرگس کے نرم ملائم چہرے کے لمس سے آشنا ہو رہے تھے ۔چند بار تھپتھپانے سے آنکھوں کے سنہری دوار دھیرے دھیرے سے کھل گئے جن کے پیچھے دو گہرے سیاہ موتی ہلکے سے جھلملاہٹ دے رہے تھے ۔
              میں میں وہ۔ نرگس نے بولنا چابا لیکن وہ بلکل ھی بول نہ سکی۔
              'آپ بلکل ٹھیک ہیں خانم جی اب فکر کرنے کی کوئی بات نہیں۔طیفے کی یہ بات سن کروہ کافی حد تک ہوش میں آگئی۔نرگس نے اپنے سامنے ایک اجنبی نوجوان کو پولیس کی وردی مین کھڑے دیکھا تو اس کی نظریں فورا اپنے بھیگے لباس کی طرف لوٹ آئیں اور وہ خوف آمیز شرم وحیا سے سمٹ کر رہ گئی۔ گیلا باریک ریشمی لباس اس کے جسم کو عریانی کی حد تک واضح کر رہا تھا ۔
              طیفاخانم کی اس پریشانی کو دیکھتے ہوئے جلدی سے اٹھا اور بڑے بڑے قدموں سے چلتا ہوا درختوں کے جھنڈ میں غائب ہو گیا۔چندلمحوں کے بعد جب وہ دوبارہ نمودار ہوا تو اس کے ہاتھوں میں مردانہ سندھڑی رومال اور ایک بڑی سی موٹی چادر موجود تھی ۔ اس نے ذرا فاصلے پر کھڑے ہو کر وہ کپڑے خانم کی طرف پھینکتے ہوئے کہا۔خانم سائین میرے پاس اس وقت بس یہی کچھ ہے۔
              آپ انہین اوڑھ لیجئے ۔
              اور یہ کہہ کر طیفامنہ دوسری طرف کر کے کھڑا ہو گیا۔نرگس نے پہلے اس رومال سے منہ اور سرخشک کیا اور پھر چادر سے اپنا نازک بدن ڈھانپ لیا۔ اگرچہ نازک مزاج نرگس خانم کو ان کپڑوں سے عجیب قسم کی بو آرہی تھی، تاہم اس کے ٹھٹھرتے اور بھیگے بدن کے لئے ان میں زندگی بخش حرارت بھی موجود تھی۔
              ہم پہلے وہ غنڈے اور پھر پانی ؟۔ نرگس اپنی بات پھر سےپوری نہ کر پائی ۔۔
              خانم سائین آپ کاوہ گھوڑا ٹھوکر کھا کر آپ سمیت ندی میں جا گرااور أپ کو باندھ کر لانے والا ڈاکو ادھر ہی پتھر پر گرنے سے مرر چکا ہےاور۔وہ گھوڑا تو تیز لہروں کی نذر ہو گیا لیکن میں آپ کو نکال کرلے آیا ہوں ۔"مگر خانم جی جہان تک مین سمجھا ہون آپ وڈیرے سائین حاکم خان کے فیملی مین سے ھین مگر اس طرح سے ڈاکو کے پاس۔؟؟طیفے کے منہ کا رخ اب بھی نرگس خانم سے دوسری طرف تھا۔
              تم ادھر میری طرف دیکھو اور پہلے تم مجھےبتاؤ کہ تم کون ہو۔اور اس خوفناک جنگل مین ادھر کیا کر رہے تھے؟۔
              نرگس نے طیفے کے جسم پر وردی ہونے کے باوجوداس کی چوڑی سی پشت پر نظریں گاڑے گاڑے سوال کیا۔
              خانم جی میں آپ کے ہی گوٹھ کے ایک غریب کسان کا بیٹا اور ساتھ گوٹھ کے ہی تھانے مین انسپکڑ ہوں۔
              طیفا پلٹتے ہوئے بولا ۔ میں درآصل وڈیرے سائین کے کہنے پر ہی آپنے ساتھیون کے ساتھ اس ڈاکو جگو کی سرکوبی کے لیے موجود تھا۔
              حاکم سائین نے بتایا تھا کہ جگو ان کے وفادار ملازم بہادر کو قتل کرنے کے بعد فرار ہو رہا ھے بس اُسے پولیس مقابلے مین ادھر سے فرار ہونے سے پہلے اُڑا دینا ہے
              اس لئے مین جنگل میں اس کا انتظار کر رہا تھا۔
              طیفے کی یہ بات سن کر نرگس کو سمجھنے مین کوئی شک نہ رہا تھا۔کہ “ اس کے بھائی کو بہادر اور اس کے درمیان بننے والے تعلق کا پتہ چل چکا ہے۔اور اس نے بہادر کو آپنے خاص ملازم جگو سے مروانے کیساتھ ساتھ نرگس کو بھی جنگلی وحشی جانورون کے آگے پھینکنے کا حکم دے دیا تھا اور نرگس کے غائب ہونے کے بعد جگو کا بھی بندوبست کردیا تاکہ ہر قسم کا ہی نام۔ونشان ختم ہوجائے۔۔
              ادھر طیفے کو نرگس خانم کے پراعتماد اور تحکمانہ لہجے سے اس کا شک یقین میں بدل چکا تھاکہ وہ گوٹھ کے وڈیرہ سائین کی بیوی یا بہن ہے۔ پھروہ بڑی آہستگی اورادب سےمذید کنفرم کرنے کیلئے بولا۔
              جیسے وہ کوئی اعتراف گناہ کر رہا ہو۔مگر خانم جی آپ اس طرح سے اس ڈاکو کے قبضے مین کیئسے؟۔
              پلیزز مجھ پر اعتبار کیجیے اور مجھے سب کچھ سچ سچ تفصیل سے بتا دین تاکہ مین أپ کی مکمل طور حفاظت کر سکون۔
              نرگس خانم۔نےاب بہت مجبوری میں أپنی اور بہادر کے درمیان بننے والے ہر تعلق کو(نرگس نے چالاکی سے خود کو معصوم بنتے ہوئے آپنے تعلق کا بہادر کی زبردستی کرنے کا بتایا ) عیان کیا جس کے باعث أپنے بھائی حاکم سائین کے جگو کو نرگس خانم کوجنگلی جانورون کے درمیان پھینکنے کے شک کا بھی ساتھ اظہار کر ڈالا۔
              نرگس یہ سب طیفے کو بتاتے ہوئے اب جنگل کی تنہائی اور ایک جوان خوبصورت مرد کے ساٹھ ہونے کیوجہ سے جزباتی طور پر وہ اشتعیال مین آرہی تھی۔
              اس نے جان بھوج کر طیفے کو اس سنسان جنگل مین ایک خوبصورت جوان عورت کے ساتھ تنہا ہونے کا احساس دلانے کیلئے جلدی سے آگے بڑھی اور غصہ ظاہر کرتے ہوئے کبھی اس کے ہاتھ پکڑ کر موڑنے کی کوشش کرتی تو کپھی مظبوط جسم پر نازک ہاتھون سے مارنے کا ناٹک کرنے لگی۔
              مگر تم نے میرا بدن چھونے کی ہمت کیئسے کی ھے نہجانے تمھارے گندھے سخت ہاتھون کی وجعہ سے میرے سارے جسم مین بہت درد ھو رہا ھے۔
              خانم جی اگر مین نے آپ کو چھوا ھے تو وہ حالات کی مجبوری تھی۔اگر مین ایسا نہ کرتا تو پھر آپ ندی میں ڈوب جاتیں۔"۔ساتھ ہی طیفے نے آپنے بچاؤ کی خاطر نرگس خانم کے دونون ہاتھ مظبوطی سے پکڑ کراس کے
              نا زک ملائم بدن کو اپنے ساتھ لگا لیا۔
              ہائے مین مرر جاؤن تم نے پھر سے مجھے پکڑ لیا ہے۔ اور ساتھ ہی نرگس خانم بظاہرحیرت اور غصہ ظاہر کرتے ہوئے ارادتا طیفے کے ساتھ لگ کر کھڑی ہو گئی۔جس سے اس کی ملائم مخملی گدرائی گانڈ نے چند لمحون مین طیفے کے سرکش لن مین جیئسے بھونچال لا کھڑا کر دیا۔طیفے کا لن لوہے کے راڈ کی طرح کھڑا ہو چکا تھا۔
              اس نے أپنی زندگی میں بہت سی پھدیاں ماری تھیں مگر نرگس خانم کی گانڈ کی وجعہ سے لن کھڑا ھو کر ایسے مچل رہا تھا کہ جیسے اس نے سالوں سے پھدی کی شکل تک نہ دیکھی ہو۔اس مین صرف اور صرف گوٹھ کی مالکن نرگس خانم کا أپنی دسترس مین ہونے کا احساس چھپا تھا۔
              ویئسے بھی طیفا وڈیرہ سائین کی طرح ہی جنونی حد تک ہوس پرست تھا اور اس ہوس کو مٹانے کے لیے جائز ناجائز ان کیلئے کوئی حساب کتاب نہین ہوتا تھا۔
              ایک عام انسان کو زندگی میں مختلف پھدیان مارنے کا موقع شائید ھی ملتا ہو۔ہر کسی کا کبھی نہ کبھی کوئی داؤ لگ ہی جاتا ہے اور ان سب کو اکا دکا پھدیاں بھی مل جاتی ہون گی۔
              چودائی کے شوقین کوئی نہ کوئی پھدی مارنے کے کوئی جگاڑ لگا لیتے ہین جیسے ایسا کوئی بھی کام کرنا جس میں پھدی ملنے کے چانس بڑھ جاتے ہون۔
              مثال کے طور پر جیئسے گوٹھ کے وڈیرون نے گاؤن کی سبھی نئی نویلی دلہنون کا أپنے قدم بوسی کا فرعونیت بھرا رواج بنایا ہوا تھا۔ اسی طرح سندھ کے ایک اور باآثر طاقتور رئیس أعظم وڈیرے سائین نے غلیظ ترین رسم بنا رکھی تھی۔ہر جوان ہونے اور گوٹھ مین بیاہ کر آنے والی لڑکی کی پھدی کی کھدائی کا پہلا سہرا وہی سر انجام دیتا تھا۔یعنی یہ کمینے ظالم لوگون أپنے مقاصد کیلیے گندھے اور غلیض ترین اصول بنا کر مجبورون اور بے بس معصوم لوگون پر حاکم بن بیٹھتے ہین۔
              مگر طیفےکے ساتھ تو جوان ہونے کے بعد اس سے بھی نرالا کام ہوتا تھا کہ جہاں بھی وہ جاتا۔اسکے لن کیلئے وہان پر پھدی پہلے سے ھی موجود ہوتی تھی۔
              اس بات مین اس کے کمینہ زہن کیساتھ ساتھ نوے پرسینٹ طیفے کا آپنی وردی کے بے پناہ طاقت کا احساس چھپا تھا۔۔
              وڈیرے سائین کی طرح ھی اسکی زندگی کا محور بھی سراسر پھدی پر ہی تھا۔ آکثر طور پر وہ وہی کام کرتا تھا جس میں کسی نہ کسی طرح سے پھدی ملنے کامعاملہ منسلک ہوتا تھا۔ پھر اس کے لئے ایک پھدی سے دوسری پھدی تک جانے کی راہ ویسے ہی ہموار ہو جاتی تھی۔وہ ہمیشہ ایسی جگہوں پر ہر وقت پایا جاتا تھا جہاں اس کو ان گنت پھدیاں چودنے کا چانس مل جاتا۔آج بھی وہ وڈیرے سائین کے اس کام کو(جگو کے قتل) سرانجام دینے سے پہلے اس کی منظور نظر چھیمو کو بے رحمی سے چود کر ہی آیا تھا۔
              پھر نرگس خانم طیفے کے ہاتھون کوأہستگی سے آپنی کمر سے ہٹا کر علیحدہ ہونے ہی لگی تھی کہ طیفے نے اپنے دماغ مین چلتے ہوئےارادے پر فورا عمل کر ڈالا۔
              اس نے اچانک پھر سے نرگس کو أپنی بانہوں میں فورا جکڑ لیا۔نرگس نے طیفے پر دل آنے کے باوجود طیفے کا زبردستی کرنے کا انداز دیکھ کر زور سے چیخ مار دی۔
              اور طیفے کا نرگس کے منہ کو پکڑتے پکڑتے بھی اچھی خاصی چیخ کی آواز ہونٹون سے نکل کر جنگل مین گونج اُٹھی۔پھر نرگس نے کافی زور اور طاقت لگا کر خود کو چھڑانے کی کوشش کی مگر طیفے نے اس کو قابو کر کے اُسی درخت کے نیچے گھاس پر گرا لیا۔
              نرگس خانم اب طیفے کی گرفت مین الٹی گھاس پر گری پڑی تھی اور طیفا بھی ساتھ اس کے اوپر لیٹا ہوا تھا۔نرگس نے آزاد ہونے کیلئے بہت زور لگایا۔
              لیکن طیفا صحت مند ہونے کیساتھ اپنےسارے وزن کے ساتھ نرگس کے اوپر چھایا ہواتھا۔نرگس کی ساری ھی مزاحمت اور اس کی ساری کوشش کے باوجود بھی وہ طیفے کے چنگل سے نہیں نکل پا رہی تھی۔
              کیونکہ ایک تو طیفے کا مرد ہونے کی وجہ سے نرگس کے اوپر اس کوجسمانی برتری حاصل تھی۔ دوسرا،طیفے نے نرگس کو پیچھے سے قابو کیا ہوا تھا اور اس کو اچھی طرح سے معلوم تھا کہ کسی بھی سرکش لڑکی کو کیسے بے بس کرنا ہے۔
              نرگس بیچاری جتنا زور لگا رہی تھی، اس سے وہ خود ہی زیادہ تھک رہی تھی۔اور طیفا یہ بات بھی جانتا تھا کہ اگلے چند منٹ بعد نرگس خانم بری طرح سے تھک کر نڈھال ساتھ ہانپ بھی جائے گی اور اس گوٹھ کی اتھری گھوڑی کا سارا زور ختم ہو جائے گا۔
              اور پھر طیفے کی سوچ کے مطابق یہی ہوا۔نرگس اگلے کچھ لمحے مسلسل جدوجہد کے بعد بالکل ہی ڈھیلی پڑ گئی پھر طیفے وڑائچ کو ایئسا لگا کہ جیئسے نرگس کا تو سانس ہی نہیں چل رہا ھو۔
              کچھ تھوڑی دیر پہلے جگو کے ساتھ گھوڑے پر بیٹھنے کے وقت شیر کے خوف نے بھی نرگس کو ابھی تک ہرسان کیا ہوا تھا۔
              پھر اب طیفے نے بھی نرگس کے ساتھ پہلوانون کی طرح ھی کشتی لڑتے ہوئے چت لٹا ڈالا۔پھر جب نرگس نے تپتی ریت پر گری مچھلی کی طرح سے جھرجھری لی تو طیفے نے اپنی گرفت ڈھیلی کرتے ہوئے بہت تیزی کیساتھ نرگس کے نازک بدن سے ایک ایک کپڑا کو
              فورا جدا کر دیا۔
              مجبوری اور بے بسی سے نرگس خانم طیفے کے جسم کے نیچے دبکی ہوئی اب بغیر کسی مزاحمت کے بس اپنے سانس کو ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
              ظاہر سی بات ہے ایک جوان مرد سے کشتی لڑنا ایک گھریلو عورت ہونے سے بھی نرگس کو سانس لینے میں کافی دشواری ہورہی تھی۔ پھر کافی دیر تک وہ ننگی طیفے کے نیچے لیٹی گہرے سانس لیتی رہی۔
              طیفا نرگس کے دل پر پیتتی کفیت کو بھی سمجھ سکتا تھا کہ ایک عورت کو بلکل ننگا کر کےجنگل کے ویرانے میں کوئی بھی چودائی کے لیے پکڑے تو اس بیچاری کی کیا حالت ہو سکتی ہے۔پھر اس کو ایک ہی ڈر ہوتا ہےجوکہ نرگس کے ساتھ بھی تو حقیقت مین ہونے والا تھا۔
              طیفے نے پھر نرگس کے کان میں سرگوشی سے بولا؛ خانم اب اگر تم نے ہلکی سی بھی کوئی آواز نکالی تو مین تمھین گلا دبا کر مار ڈالوں گا۔ کیونکہ تم آپنے بھائی وڈیرہ حاکم سائین کیلئے تو ویئسے ہی مررچکی ہو۔اگر میرے ساتھ کوآپریٹ کرو گئی تو أپنی جان بچانے مین پھرکامیاب ہو سکتی ہو۔
              نرگس کےنازک بدن پر کپکپی سی طاری ہو گئی۔طیفا پھر سے نرگس سے بولا؛ خانم اب اگر تم نے چیخنے کی کوشش کی تو اس مین بھی تمہارا ہی نقصان ہے۔ تمھارےاس شور کو سن کر جگو کا کوئی ساتھ یا میرے عملے کا کوئی کارندہ بھی واپس آ سکتا ہے اس لیے چپ چاپ پڑی رہو۔
              اب نرگس خوفزدہ انداز سے سے بولی؛مگر میرے پاس تمھین دینے کیلئے کچھ نہیں ہے۔
              طیفے نے اب نرگس کے ملائم چوتڑوں کے درمیان ہاتھ سے لن سیٹ کیا اور ہلکا سا رگڑ کر بولا؛خانم جوکچھ تمہارے پاس ہے مجھے بھی توبس یہی کچھ چاہیے۔
              نرگس طیفے کی بات سمجھ کر فورا گھبرا کر بولی؛دیکھو پلیزز تم ایسا میرے ساتھ مت کرو میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں۔ میں تمھارے گوٹھ کے وڈیرہ سائین کی بہن ہوں۔پلیزز مجھے چھوڑ دواور ادھر سے جانے دو۔
              طیفے بولا؛اگر تم گوٹھ کے سائین وڈیرے حاکم خان کی بہن ہو تو کیا تمھارے ساتھ پھدی نہین لگی ہوئی کیا؟۔
              اور اگر تم نیک اور شریف ہوتی تو بہادر کے ساتھ پھر کیا کرتی رہی ھو؟۔
              جب اپنے ہی ملازم بہادر کا لن پھدی مین لے سکتی ہو تو کیا اب میرے لن کے ساتھ کانٹے لگے ہوئے ھین؟۔
              نرگس اب بری طرح سے گھبرا گئی اور بولی؛ پلیزز تم مجھے چھوڑ دو میں وعدہ کرتی ہوں دوبارہ ایسا نہیں کروں گی۔ اور گوٹھ سے بھی بہت دور چلی جاؤن گئی۔
              طیفا مکاری سے ہنسا اور پھر بولا؛ میں تمہارا بھائی وڈیرہ حاکم خان نہیں ہوں۔ جس کو تمھارے چودائی کروانے سے کوئی فرق پڑتا ہو کہ تم ایسا کرتی ہو یا نہیں۔ میری طرف سے تم چاہو تو دن رات چودائی کیا کرو۔بلکہ اگر تم مجھے کہو گئی تو مین تمھین وہان پر چھوڑ آؤن گا جہان پر تم دن رات نئے سے نئے لنڈون سے فیض یاب ہوا کرو گئی اورمجھے ان باتون سےکچھ فرق نہیں پڑتا۔
              نرگس اب روتی آواز میں بولی؛ پلیزز مجھے معاف کر دو غلطی ہو گئی تھی مجھ سے۔پلیزز اب مجھے جانے دو یہان سے۔
              طیفے نےنرگس کی گدرائی گانڈ پر لن کو کچھ دیر مسلنے کے بعد لن کا نرگس کی بند لبون والی پھدی پر ہلکا سادباؤ بڑھا کر بولا؛خانم جی گوٹھ مین ایسی غلطیوں پر ہمیشہ سر کٹ جایا کرتے ہیں۔
              نرگس پریشانی اور فکرمندی بھرے لہجے میں سسکتی ہوئی بولی؛اہ اہ اوف تم کیا چاہتے ہو اب؟
              طیفے نے پیچھے سےنرگس کے لال سرخ کندھاری سیبون کی مانند گالوں پر ہونٹ رکھے اور چومتے ہوئےبولا؛خانم جی بس تمہارا مکمل تعاون۔تم اب چپ چاپ لیٹی رہو،باقی سب میں سنبھال لوں گا۔
              نرگس اب اپنے بدن مین اٹھتی شہوت سے لرزتے کپکپاتے ہوئے سسک کر بولی؛اہ اوف مگر تم میرے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہو؟ پلیزز مین تمھارے ہی گوٹھ کی ایک شریف عورت ہوں،پلیزز ایئسے تو میری عزت نہ خراب کرو۔
              طیفا اب کی بار ہلکا سا ہنس کر نرگس کے دلفریب چوتڑوں پر لن مسلتے ہوئے بولا؛خانم جی تمھاری عزت تو تبھی خراب ہو گئی تھی جب تم بہادرکے نیچے لیٹی تھین۔خانم جی تم اس سے کرواتی رہی ہو،وہی کچھ تو پھر سے ہونے والا ہے،بس اب تم کو چودنے والا کوئی اور ہے لیکن تمہاری پھدی مین تو لن ہی جائے گا نا۔
              نرگس طیفے کی بات سن کر تڑپ کر بولی؛ نن نہیں ایسا نہ کرو،مجھے چھوڑ دو۔ میں ہاتھ جوڑتی ہوں تمہارے آگے۔
              طیفا بولا؛ ارےےاب ان باتوں کا کوئی فائدہ نہیں؟،
              اب خانم جی تمہارے دل چاہے تم جتنی بھی مزاحمت کرو یا تڑپؤ میں تم کو چودے بنا تمہین یہان سے جانے نہین دوں گا تمہارے لئے بہتر ہے کہ تم بھی ان حالات سے اب سمجھوتہ کر و۔اور مجھ سے ہنسی خوشی چدوا
              کر مزے کرو۔
              اس صورت میں تمہارے زندہ بچ جانے کا راز بھی راز رہے گا اور گوٹھ سے چلے جانے کے بعد ہمیشہ کیلئے تمہاری جان کو بھی پھر کوئی خطرہ نہیں ہو گا۔دوسری صورت میں پھر بھی ہونا تو یہی ہے مگر پھر تمہین چودنے کے بعد مجھے تمہیں ہمیشہ کے لیے خاموش کرنا ہو گا۔
              نرگس اب شدید خوف کے عالم میں بولی؛ نہیں نہیں مجھے کچھ مت کرنا، میں مرنا نہیں چاہتی۔
              طیفااب پھر سے نرگس کو مزید دھمکانے کیلیے بولا؛خانم جی میں تم سے اپنی طلب پوری کرنے کے بعد تمہیں قتل کر کے پھر گوٹھ مین ہی پھینک دؤں گا اور پھر صبح جب اس حالت میں وہان سےبرآمد ہو گی تو سوچو مرنے کے بعد بھی تمھارے بھائی وڈیرہ سائین کو کتنی ذلت کا سامنا کرنا پڑے گا ۔؟
              حاکم خان اور تمہارے پورے خاندان کو؟۔
              طیفے وڑائچ نے نرگس کے سامنے مستقبل کا ایسا گھناونا غلیظ نقشہ کھینچا تھا کہ اس کی روح فنا ہو گئی۔
              پھر طیفے نے اپنی پینٹ کا بیلٹ کھولا اور پینٹ کو اتارنے کیبعد نرگس کی ننگی گانڈ میں اپنا گرم گرم تگڑا لن رکھا تو نرگس کے سارے نازک بدن پر تیز کپکپاتی سی لرزش مچ گئی۔جس سے وہ آخری بار پھر سے سسک کر بولی؛ پلیز مجھے چھوڑ دو۔۔مجھے اس طرح سے برباد نہ کرو۔
              مگر نرگس کی یہ فریاد بھی ضائع چلی گئی کیونکہ اس کا بھی طیفے پر کوئی اثر نہ ہواکیونکہ اس کوتو اپنے کھڑے لوڑے کے آگے ہمیشہ سے کچھ دکھائی نہین دیتا تھا۔
              نرگس نے اب بھی ہلکی سی مزاحمت کرنے کی کوشش کی مگر طیفے نے نرگس کو سختی سے جکڑا ہوا تھا۔ اس کی مزاحمت کے باوجود اس کی پھدی کے ہونٹون مین لن بڑی آسانی سے اڈجیسٹ ہوتا گیا اور ۔
              طیفے نے نرگس کے روتے بلکتے ہونٹون پر ہاتھ رکھا اور دل ہی دل مین بولا؛ لے بھئی طیفے آج تو نے گوٹھ کے وڈیرے سائین کی بہن کی رسیلی پھدی پر بھی اپنا نام بالأخر لکھ ہی دیاھے۔
              طیفے نے پوری طاقت کیساتھ زوردار جھٹکا لن کو دیا اور نرگس خانم کسی مچھلی کی طرح سے تڑپی۔
              اس نے طیفے کی گرفت سے نکلنے کیلئے سارا زور لگایا مگر طیفے کے لن کی بڑی ٹوپی چند انچ لن کیساتھ نرگس کی چھوٹی تنگ رسیلی خشک پھدی میں مکمل اتر چکی تھی۔
              طیفے نے اپنا اگلا جھٹکا بھی طاقت سے بھرپور انداز مین دیا اور اسکا تگڑا لمبا لن جڑون تک نرگس کے تنگ راہ پھدی کی گہرائیون کےاندر جاپھنسا ۔
              ساتھ ہی زور دار دھماکے کیساتھ سارا جنگل گونج اٹھا اور جونہی طیفے نے سر اٹھا کر اوپر دیکھا تو ۔
              جنگلی شیر آپنی طرف دوڑتا ہوا ۔ظر آیا جس کے ڈر اور خوف سے طیغے کا سارا جسم کپکپا اُٹھا۔
              شیر انتہائی وحشت سے بہت تیزی کے ساتھ دوڑتا ہوا لمحہ بہ لمحہ انکے قریب أنے لگا۔
              جارھی ھے۔
              Vist My Thread View My Posts
              you will never a disappointed

              Comment


              • #47
                Boht behtareen update

                Comment


                • #48
                  واہ صنم ساقی بھائی کیا لکھتے ہو آپ اور اوپر سے سبجیکٹ بھی ایسا لیا ہے آپ نے جس میں معاشرے ان لوگوں پر قلم اٹھایا ہے جو بہت ہی کمزور ہیں اور ان پر حکومت کرنے والے جاگیردار، چوہدری اور وڈیرے جو اپنے اپکو انکے ناخدا سمجھتے ہیں۔۔۔

                  Comment


                  • #49
                    واہ جی واہ

                    سوپر۔ بلکہ سوپر سے کہیں اوپر

                    Comment


                    • #50
                      zaberdast agaz bohata chi story shuru hui hy

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X