Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

قفس صیاد

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • اسٹوری بہت زبردست اور عام کہانیوں سے ہٹ کر ہے۔
    آپ کے ذہن میں اسٹوری کے حوالے سے جو خاکہ ہے آپ اسی کی مطابق اسٹوری کو لے کر چلیں۔۔۔

    Comment


    • بہت ہاٹ اور سیکسی کہانی ہے بڑھتے ہوئے مزہ آجاتاہے

      Comment


      • اک اچھے موضوع پر اک بہترین تحریر
        صنم ساقی جی کا جواب نہیں

        Comment


        • Originally posted by aucsan17 View Post
          بہت ہی اعلی اپڈیٹس دی ہے صنم ساقیش بھائی۔۔۔۔ ایک طرف وڈیرا حاکم ظلم اور بربریت کئی آنا پر ہے تو دوسری طرف وڈیرے کی بہن اپنی ٹانگیں اس وڈیرے کے نوکر کے وحشی لوڑے کیلئے خود ہی کھولتی ہے بلکہ تیل سے تر بھی کرتی ہے۔۔ واہ واہ لطف آگیا۔۔۔
          شکریہ دوست۔
          Vist My Thread View My Posts
          you will never a disappointed

          Comment


          • دیکھتے ہیں اب اگے کیا ہوتا ہے۔۔۔

            Comment


            • Originally posted by aucsan17 View Post
              دیکھتے ہیں اب اگے کیا ہوتا ہے۔۔۔
              ارےےےے ۔
              واہ میرے دوست اب آگے کیا ہونا ہے۔
              مین نے جب آپ سب لوگون کو بتا دیا ہے۔
              کہ ایک سپر ڈوپر سپییشل لانگ اپڈیٹ کیساتھ۔
              ٹائین ٹائین ٹائین ٹائین بس فنش ہونا ہے۔
              ہا ہا ہا ہا ہا ہا ہا ہا ہا۔
              سمجھ تو گئے ہی ہون گے میرے دوست۔
              یعنی دی اینڈ ہونا ہے۔
              ​​​​​​​تو چلین میرے دوستو اس سٹوری کی لاسٹ لانگ اپ ڈیٹ حا ضر ہے۔
              Vist My Thread View My Posts
              you will never a disappointed

              Comment


              • قفس صیاد۔
                سپیشئل سپر ڈوپر لاسٹ لانگ سحر انگیز اپڈیٹ۔

                نرگس خانم طیفے کے ہاتھون کو آہستگی سے آپنی کمرسے ہٹا کر علیحدہ ہونے ہی لگی تھی کہ طیفے نے اپنے دماغ مین چلتے ہوئےارادے پر فورا عمل کر ڈالا۔
                اس نے اچانک پھر سے نرگس کو أپنی بانہوں میں فورا جکڑ لیا۔نرگس نے طیفے پر دل آنے کے باوجود طیفے کے زبردستی کرنے کے انداز پر زور سے چیخ ماری۔
                اور پھر طیفے کا نرگس کے منہ کو پکڑتے پکڑتے بھی اچھی خاصی چیخ کی آواز ہونٹون سے نکل کر جنگل مین گونج اُٹھی۔اور ساتھ نرگس نے کافی زور اور طاقت لگا کر خود کو چھڑانے کی کوشش کی مگر طیفے نے اس کو قابو کر کے اُسی گھنے درخت کے نیچے گھاس پر گرا لیا۔
                نرگس خانم اب طیفے کی گرفت مین الٹی گھاس پر گری پڑی تھی اور طیفا بھی ساتھ اس کے اوپر لیٹا ہوا تھا۔نرگس نے اس سے آزاد ہونے کیلئے بہت زور لگایا۔
                لیکن طیفا بھرپور صحت مند مرد ہونے کیساتھ اپنےسارے ہی وزن کے ساتھ نرگس کے اوپر چھایا ہواتھا۔نرگس کی ساری مزاحمت اور اس کی ساری کوشش کے باوجود بھی وہ طیفے کے چنگل سے نہیں نکل پا رہی تھی۔
                کیونکہ ایک تو طیفے کا مرد ہونے کی وجہ سے نرگس کے اوپر اس کوجسمانی برتری حاصل تھی۔ دوسرا،طیفے نے نرگس کو پیچھے سے قابو کیا ہوا تھا اور اس کو اچھی طرح سے معلوم تھا کہ کسی بھی سرکش لڑکی کو کیسے بے بس کرنا ہے۔
                نرگس بیچاری جتنا زور لگا رہی تھی، اس سے وہ خود ہی زیادہ تھک رہی تھی۔اور طیفا یہ بات بھی جانتا تھا کہ اگلے چند منٹ بعد نرگس خانم بری طرح سے تھک کر نڈھال ساتھ ساتھ ہانپ بھی جائے گی اور اس سے گوٹھ کی اتھری گھوڑی کا سارا زور ختم ہو جائے گا۔
                اور پھر کچھ ہی دیر بعد طیفے کی سوچ کے مطابق ہوا۔نرگس اگلے کچھ لمحے مسلسل جدو جہد کے بعد بالکل ہی ڈھیلی پڑ گئی پھر طیفے وڑائچ کو ایئسا لگاکہ جیئسے نرگس کاتو سانس ہی نہیں چل رہا ھو۔
                کچھ تھوڑی دیر پہلے جگو کے ساتھ گھوڑے پر بیٹھنے کے وقت شیر کے خوف نے بھی نرگس کو ابھی تک ہرسان کیا ہوا تھا۔
                پھر اب طیفے نے بھی نرگس کے ساتھ پہلوانون کی طرح ھی کشتی لڑتے ہوئے اُسے چت لٹا ڈالا۔پھرجب نرگس نے تپتی ریت پر گری مچھلی کی طرح سے تڑپ کر جھر جھری لی توطیفےنےاپنی گرفت ڈھیلی کرتے ہوئے بہت تیزی کے ساتھ نرگس کے نازک بدن سے ایک ایک کپڑے کوفورا جدا کر دیا۔
                مجبوری اور بے بسی سے نرگس خانم طیفے کے جسم کے نیچے دبکی ہوئی اب بغیر ہی کسی مزاحمت کے بس اپنے سانس کو ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
                ظاہر سی بات ہے ایک جوان مرد سے کشتی لڑنا ایک گھریلو عورت ہونے سے بھی نرگس کو سانس لینے میں کافی دشواری ہورہی تھی۔ پھر کافی دیر تک وہ ننگی لیٹی طیفے کے نیچے لیٹی گہرے سانس لیتی رہی۔
                طیفا نرگس کے دل پر بیتتی کفیت کو بھی سمجھ سکتا تھا کہ ایک عورت کو بلکل ننگا کر کےجنگل کے ویرانے میں کوئی بھی چودائی کے لیے پکڑے تو اس بیچاری کی کیا حالت ہو سکتی ہے۔پھر اس کو ایک ہی ڈر ہوتا ہےجوکہ نرگس کے ساتھ بھی تو حقیقت مین ہونے والا تھا۔
                طیفے نے پھر نرگس کے کان میں سرگوشی سے بولا؛ خانم اب اگر تم نے ہلکی سی بھی کوئی آواز نکالی تو مین تمھین گلا دبا کر ادھر ہی مار ڈالوں گا۔
                کیونکہ تم آپنے بھائی وڈیرہ حاکم سائین کیلئے تو ویئسے ہی مرر چکی ہو۔اگر تم اب میرے ساتھ کوآپریٹ کرو گئی تو أپنی جان بچانے مین پھر سےکامیاب ہو سکتی ہو۔
                نرگس کےنازک بدن پر کپکپی سی طاری ہو گئی۔طیفا پھر سے نرگس سے بولا؛ خانم اب اگر تم نے چیخنے کی کوشش کی تو اس مین بھی تمہارا ہی نقصان ہے۔ تمھارےاس شور کو سن کر جگو کا کوئی ساتھی یا میرے عملے کا کوئی کارندہ بھی واپس آ سکتا ہے اس لیے چپ چاپ پڑی رہو۔
                اب نرگس خوفزدہ انداز سے سے بولی؛مگر میرے پاس تمھین دینے کیلئے کچھ نہیں ہے۔
                طیفے نے اب نرگس کے ملائم چوتڑوں کے درمیان ہاتھ سے لن سیٹ کیا اور ہلکا سا رگڑ کر بولا؛خانم جوکچھ تمہارے پاس ہے مجھے بھی توبس یہی کچھ چاہیے۔
                نرگس طیفے کی بات سمجھ کر فورا گھبرا کر بولی؛دیکھو پلیزز تم ایسا میرے ساتھ مت کرو میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں۔ میں تمھارے گوٹھ کے وڈیرہ سائین کی بہن ہوں۔پلیزز مجھے چھوڑ دواور یہان سے جانے دو۔
                طیفے بولا؛خانم اگر تم گوٹھ کے سائین وڈیرے حاکم خان کی بہن ہو تو کیا تمھارے ساتھ پھدی نہین لگی ہوئی کیا؟۔
                اور اگر تم نیک اور شریف ہوتی تو بہادر کے ساتھ پھر کیا کرتی رہی ھو؟۔
                جب اپنے ہی ملازم بہادر کا لن پھدی مین لے سکتی ہو تو کیا اب میرے لن کے ساتھ کانٹے لگے ہوئے ھین؟۔
                نرگس اب بری طرح سے گھبرا گئی اور بولی؛ پلیزز تم مجھے چھوڑ دو میں وعدہ کرتی ہوں دوبارہ ایسا نہیں کروں گی۔ اور گوٹھ سے بھی بہت دور چلی جاؤن گئی۔
                طیفا مکاری سے ہنسا اور پھر بولا؛ میں تمہارا بھائی وڈیرہ حاکم خان نہیں ہوں۔ جس کو تمھارے چودائی کروانے سے کوئی فرق پڑتا ہو کہ پھر تم ایسا کرتی ہو یا نہیں۔
                میری طرف سے تم چاہو تو دن رات چودائی کیا کرو۔بلکہ اگر تم مجھے کہو گئی تو مین تمھین وہان پر چھوڑ آؤن گا جہان پر تم دن رات نئے سے نئے لنڈون سے فیض یاب ہوا کرو گئی اورمجھے ان باتون سےکچھ فرق نہیں پڑتا۔
                نرگس اب روتی آواز میں بولی؛ پلیزز مجھے معاف کر دو غلطی ہو گئی تھی مجھ سے۔پلیزز اب مجھے جانے دو۔
                طیفے نےنرگس کی گدرائی گانڈ پر لن کو کچھ دیر مسلنے کے بعد لن کا نرگس کی بند لبون والی پھدی پر ہلکا سادباؤ بڑھا کر بولا؛خانم جی معلوم ہے نہ تمہین گوٹھ مین ایسی غلطیوں پر ہمیشہ سر کٹ جایا کرتے ہیں۔ اور تم مجھ سے جانے کی بات کرتی ہو۔۔
                نرگس پریشانی اور فکرمندی بھرے لہجے میں سسکتی ہوئی بولی؛اہ اہ اوف تم کیا چاہتے ہو اب؟
                طیفے نے پیچھے سےنرگس کے لال سرخ کندھاری سیبون کی مانند گالوں پر ہونٹ رکھے اور چومتے ہوئےبولا؛خانم جی بس تمہارا مکمل تعاون۔تم اب چپ چاپ لیٹی رہو،باقی سب میں سنبھال لوں گا۔
                نرگس اب اپنے بدن مین اٹھتی شہوت سے لرزتے کپکپاتے ہوئے سسک کر بولی؛اہ اوف مگر تم میرے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہو؟ پلیزز مین تمھارے ہی گوٹھ کی ایک شریف عورت ہوں،پلیزز ایئسے تو میری عزت نہ خراب کرو۔
                طیفا اب کی بار ہلکا سا ہنس کر نرگس کے دلفریب چوتڑوں پر لن مسلتے ہوئے بولا؛خانم جی تمھاری عزت تو تبھی خراب ہو گئی تھی جب تم بہادرکے نیچے لیٹی تھین۔خانم جی تم اس سے جو کرواتی رہی ہو،وہی کچھ تو پھر سے ہونے والا ہے،بس اب تم کو چودنے والا کوئی اور ہے لیکن تمہاری پھدی مین تو لن ہی جائے گا نا۔
                نرگس طیفے کی بات سن کر تڑپ کر بولی؛ نن نہیں ایسا نہ کرو،مجھے چھوڑ دو۔ میں ہاتھ جوڑتی ہوں تمہارے آگے۔
                طیفا بولا؛ ارےےاب ان باتوں کا کوئی فائدہ نہیں؟،
                اب خانم جی تمہارے دل چاہے تم جتنی بھی مزاحمت کرو۔۔ یا۔۔پھر۔۔ تڑپؤ میں تم کو چودے بنا تو یہان سے جانے نہین دوں گا تمہارے لئے بہتر ہے کہ تم بھی ان حالات سے اب سمجھوتہ کر لو۔اور مجھ سے ہنسی خوشی چدوا کر مزے کرو۔
                اس صورت میں تمہارے زندہ بچ جانے کا راز بھی راز رہے گا اور گوٹھ سے چلے جانے کے بعد ہمیشہ کیلئے تمہاری جان کو بھی پھر کوئی خطرہ نہیں ہو گا۔دوسری صورت میں پھر بھی ہونا تو یہی ہے مگر پھر تمہین چودنے کے بعد مجھے تمہیں ہمیشہ کے لیے خاموش کرنا ہو گا۔
                نرگس اب شدید خوف کے عالم میں بولی؛ نہیں نہیں مجھے کچھ مت کرنا، میں مرنا نہیں چاہتی۔
                طیفااب پھر سے نرگس کو مزید دھمکانے کیلیے بولا؛خانم جی میں تم سے اپنی طلب پوری کرنے کے بعد تمہیں قتل کر کے پھر گوٹھ مین ہی پھینک دؤں گا اور پھر صبح جب اس حالت میں وہان سےبرآمد ہو گی تو سوچو مرنے کے بعد بھی تمھارے بھائی وڈیرہ سائین کو کتنی ذلت کا سامنا کرنا پڑے گا ۔؟
                حاکم خان اور تمہارے پورے خاندان کو؟۔
                طیفے وڑائچ نے نرگس کے سامنے مستقبل کا ایسا گھناونا غلیظ نقشہ کھینچا تھا کہ اس کی روح فنا ہو گئی۔
                پھر طیفے نے اپنی پینٹ کا بیلٹ کھولا اور پینٹ کو اتارنے کیبعد نرگس کی ننگی گانڈ میں اپنا گرم گرم تگڑا لن رکھا تو نرگس کے سارے نازک بدن پر تیز کپکپاتی سی لرزش مچ گئی۔جس سے وہ آخری بار پھر سے سسک کر بولی؛ پلیز مجھے چھوڑ دو۔۔مجھے اس طرح سے برباد نہ کرو۔
                مگر نرگس کی یہ فریاد بھی ضائع چلی گئی کیونکہ اس کا بھی طیفے پر کوئی اثر نہ ہواکیونکہ اس کوتو اپنے کھڑے لوڑے کے آگے ہمیشہ سے کچھ دکھائی نہین دیتا تھا۔
                نرگس نے اب بھی ہلکی سی مزاحمت کرنے کی کوشش کی مگر طیفے نے نرگس کو سختی سے جکڑا ہوا تھا۔ اس کی مزاحمت کے باوجود اس کی پھدی کے ہونٹون مین لن بڑی آسانی سے اڈجیسٹ ہوتا گیا اور ۔
                طیفے نے نرگس کے روتے بلکتے ہونٹون پر ہاتھ رکھا اور دل ہی دل مین بولا؛ لے بھئی طیفے آج تو نے گوٹھ کے وڈیرے سائین کی بہن کی رسیلی پھدی پر بھی اپنا نام بالأخر لکھ ہی دیاھے۔
                طیفے نے پوری طاقت کیساتھ زوردار جھٹکا لن کو دیا اور نرگس خانم کسی مچھلی کی طرح سے تڑپی۔
                اس نے طیفے کی گرفت سے نکلنے کیلئے سارا زور لگایا مگر طیفے کے لن کی بڑی ٹوپی چند انچ لن کیساتھ نرگس کی چھوٹی تنگ رسیلی خشک پھدی میں مکمل اتر چکی تھی۔
                طیفے نے اپنا اگلا جھٹکا بھی طاقت سے بھرپور انداز مین دیا اور اسکا تگڑا لمبا لن جڑون تک نرگس کی بےپناہ تنگ پھدی کی گہرائیون کےاندر جاپھنسا۔ کیونکہ خانم بہادر سے بس ایک بار ہی تو چودی تھی ظاہر ہے اس کی پھدی ابھی تنگ ہی ہونی تھی۔
                ساتھ ہی ایک فائر کے زور دار دھماکے کیساتھ سارا جنگل گونج اٹھا اور جونہی طیفے نے سر اٹھا کر اوپر دیکھا تو ۔ایک جنگلی شیر آپنی طرف دوڑتا ہوا ۔نظر آیا جس کی دہشت کے ڈراور خوف سے طیفے کا سارا جسم کپکپا اُٹھا۔
                شیر انتہائی وحشت سے بہت تیزی کے ساتھ دوڑتا ہوا لمحہ بہ لمحہ انکے قریب أنے لگا۔
                شیر کے آگے آگے(طیفے اور خانم والی جگہ سے تقریا پچاس گز کے) کچھ فاصلے پر جگو کے کے کچھ حواری اور چند پولیس کے کارندے بھی شیر پر فائرنگ کے ساتھ اپنے گھوڑؤن کو تیزی سے دوڑائے جا رہے تھے۔
                جنگلی شیر زخمی ہونے کے باوجود اپنے غصے کے غیض و غضب مین بچھرا ہوا ان پر جھپٹنے کیلئے بار بار ان پر لپک رہا تھا۔۔
                پھر شیر نےطیفے کی أنکھون کی سامنے چند فائر لگنے کے باوجود تین افراد کو راہ عدم روانہ کر دیا۔مگر پھر ساتھ ہی اس کی نظرون سے وہ سبھی دوڑتے اچھلتے کودتے غائب ہو کر۔اوجھل ہو گئے۔۔
                مگر نرگس خانم گھاس پر طیفے کے نیچے الٹا لیٹی ہونے سے اس افتاد سے مکمل ہی طور پر لا علم رہی۔
                مگر طیفے وڑائچ کو ان افراد کے شیر کے ساتھ نگاہون سے اوجھل ہوتے اپنے نیچے دبکی نرگس خانم اور اس کی تنگ پھدی مین گھسے ہوئے اپنے لن کی یاد آئی۔
                نرگس خانم طیفے کے نیچے تڑپتی ہوئی خود کو لگاتار ہی چھڑانےکی کوشش کر رہی تھی مگر طیفے نے پھر اس کو مکمل قابو کر کے لن کو تیسرا جھٹکا دےدیا۔
                نرگس کا پورا جسم مچلا اور اس نے دوبارہ سے خود کو چھڑانے کی انتہائی انتھک ہی کوشش کرڈالی۔
                طیفے کو ایک بار پھر نرگس کے ساتھ اچھی طرح سے زور آزمائی کرناپڑی تھی مگر نرگس کی پھدی میں چونکہ لن اترا ہوا تھا تو نرگس کی یہ ساری محنت و مشکت اور مزاحمت اب بےکار تھی۔
                مگر وہ پھربھی طیفے سے خود کو چھڑانے کی کوشش کر رہی تھی۔
                نرگس کی یہ حرکت طیفے کو بہت مزا دے رہی تھی کیونکہ جتنا وہ زور لگا رہی تھی،اتنا ہی ریپ کرنے کا شوقین طیفا۔۔ نرگس کو قابو کر کے پھدی میں لن کو اندر باہر کر رہا تھا۔نرگس کو معلوم بھی نہیں تھا ایسے میں طیفے کی چودائی کی ٹائمنگ زیادہ ہو رہی تھی۔
                نرگس کے زور لگانے سے اس کے گدرائی چوتڑؤن میں لن رگڑتا ہوا پھسل کر پھدی کے اندر جا رہا تھا اور طیفے نے بڑی ہی خوبصورتی سے اس کو قابو میں کر کے اپنی چدائی جاری رکھی ہوئی تھی۔
                پھر طیفااپنے لن پر آرام آرام سے زور لگاتا گیا اور نرگس کو چودتے چودتے بولا؛؛ارےےے خانم تم چاہوجتنا مرضی زور لگا لو میری جان۔پھدی میں سے اب تو لن تب نکلے گا جب میں تمہاری چودائی کرنے کے بعد اسےخود نکالوں گا۔
                مگر نرگس خانم لگاتار ہی روتی رہی اور طیفے کو نرگس کی گھٹی گھٹی سسکیوں کی آواز مسلسل محسوس ہوتی رہی کیونکہ نرگس کے منہ کو اس نے ہاتھ رکھ کے بند جو کیا ہوا تھا۔
                نرگس کی پھدی کافی پھولی اور موٹی ہونے کے ساتھ بہت ٹائٹ اور تنگ تھی اور ساتھ گانڈ بھی بہت ہی بھاری اور بہت زیادہ باہر خوشنما پہاڑیون کی طرح اوپر کو ابھری ہوئی تھی۔مگر نرگس کی نازک کمر تو بہت پتلی تھی اور گدریا دودھیا بدن فربہ اور تندرست و توانا تھا۔
                ظاہر ہےکہ نرگس گوٹھ کے مالک حاکم خان سائین کی بہن ہونے کے ساتھ گاؤن کی اتھری گھوڑی کی طرح جوان تھی۔ وہ ان عورتوں میں سے تھی جن کا سینہ،رانیں اور گانڈ بھاری ہوتے ہیں،۔اور ان کا باقی پرکشش بدن بس قدرے فربہ اورمناسب جسامت مین ہوتا ہے۔
                طیفے کو نرگس کے ساتھ اس طرح زبردستی کرنے میں بڑا لطف ومزاء آ رہا تھا۔کیونکہ طیفےکی نرگس پر کافی عرصے سے ہی نظر تھی۔مگر وہ حاکم خان کی بہن ہونے کی وجہ سے اس کی اپروچ اور پاور سے باہر تھی۔بالاخر نرگس نے رونے کے باوجود اپنی مزاحمت ترک کر دی کیونکہ پھدی تو اس کی مزاحمت کے باوجود بھی طیفا بہت سکون سےچودے جا رہا تھا اورنرگس کے چوتڑون سے اس کا لن رگڑتا مسلتا ہوا مکمل طور پر پھدی کے اندر باہر ہوتا جارہا تھا۔
                پھر جیئسے ہی طیفے کو لگا کہ وہ چھوٹنے کے قریب پہنچنے لگا تو اس نے فورا نرگس کی پھدی سے لن باہرنکال لیا۔ وہ ابھی نرگس کی جان (یعنی فارغ ہو کر پھدی کو) چھوڑنا نہین چاہتا تھا۔
                نرگس تو طیفے کی بس اتنی ہی چودائی سے بہت ہانپ رہی تھی،جیئسے ہی طیفے نے نرگس کا مکھڑے کو چھوڑا۔وہ ساتھ ہی بہت ہی گہری سانسیں لینے لگی۔
                طیفا اب نرگس کے اوپر سے اٹھ گیا۔ مگر اس کے اٹھنے پر بھی نرگس تو ویئسے ہی گھاس پر اُلٹا لیٹی پڑی رہی اورساتھ ہلکا ہلکا ڈُسک ڈُسک کر سسکاریاں بھرتی رہی۔
                اب طیفے نے اپنی مکمل وردی کو(پینٹ اور شرٹ)اتار دی اور مکمل ننگاہوکر نرگس کے قریب بیٹھ گیا۔
                گھنے جنگل اور درختون کے نیچے ہلکا سیاہ اندھیرا چھانے کے باوجود طیفے کو نرگس کے پُرکشش بدن کا ایک ایک متوالا انگ چمکتاہواصاف دکھائی دے رہا تھا کیونکہ طیفے کی پیاسی آنکھیں نرگس کے ان دلفریب رعنایون کو دیکھنے کے لیے انتہائی حد تک کُھل جو چکی تھیں۔
                نرگس کا پرشہوت بدن اب بھی ہلکا ہلکا سا لگاتار ہلے جا رہا تھا۔ویئسے نرگس اب سائیڈ کی طرف تھوڑا کروٹ لے کر گیند بنی لیٹی پڑی تھی۔کیونکہ اس کے خیال کے مطابق نرگس کی خلاصی ہو چکی تھی۔مگر اس کو کیا معلوم تھا کہ طیفے کی اصل حرام کاریون کی تو اب شروعات ہونی ہے۔
                پھر جییسے ہی طیفے نے نرگس خانم کوسیدھا کرنے کیلیے پکڑا تو نرگس نے پھر سے طیفے سے خود کو چھڑانے کیلیے مزاحمت کردی مگرطیفے نےاب بھی فورا نرگس کو سیدھا۔کیا اور پھر اس کے پرکشش بدن کو بقایا کپڑون کی زنجیرون کی قید سے آذاد کروانے لگا۔
                تو نرگس طیفے سے بولی؛اب تو مجھے چھوڑ دو۔بالآخر تم نے اپنی ہوس اور مقصد تو پورا کر ہی لیا ہے اب تو پلیزز مجھے جانے دو۔
                طیفے نے نرگسس کی چکنی گوشت سےبھری ملائم رانوں کو کھولتے ہوئے ساتھ بہت ہی تیزی سے ان کے درمیان میں گھٹنوں کے بل پر گھستے ہوئے بولا؛ میری جان خانم جی ابھی میری پیاس نہیں بجھی اور ویسے بھی ہمارے پاس بہت ٹائم باقی ہے۔اس لئے تمہارے لیے بھی تو بہتر یہی ہے، کہ تم میرے ساتھ اچھے سے تعاون کرو پھر اپنی چودائی کے لطف و مزے سے اس بدن کی حقیقی لذت کو ہی محسوس کر سکو گئی۔تمہین قسمت سے جب یہ موقع ہاتھ آیا ہے۔تو اس کو اپنے خومخواہ کےنخرون مین گنوانا تو اچھی بات نہیں ہے۔
                نرگس انتہائی خفت سے طیفے کو بولی؛دیکھوطیفے اب مجھے چھوڑ دو۔پلیزز اب بس کر دو اور مذیدمیرےساتھ کچھ بھی مت کرو۔تمہاری ان اوچھی حرکتون سے مجھے خودسے بھی سخت گھن آ رہی ہے۔
                مگر طیفے نے نرگس کی بات کو سننے کے بجائے ایک ہلکا جھٹکا دیا تواس کالن نرگس کی پھدی کی بے پناہ گہرایون مین پہنچ گیا کیونکہ نرگس کی پھدی تو خانم کی مزاحمت کے باوجود اپنے پانی سے ہی لبریز ہو چکی تھی۔اس لیے اب طیفے کا تگڑا لن بڑی آسانی سے اس میں گھس چکاتھا۔نرگس طیفے کے أغوش سے اٹھنے لگی تو اس نے نرگس کے بھاری ممون کو جکڑ کر زور سے دباتے ہوئے مسل کر نرگس کو واپس پیچھے گھاس پر لٹا دیا۔
                پھر طیفا اپنے لن کو مکمل باہر نکال کر نرگس کی پھدی کے پھولے لبون مین ٹوپی جما کر بولا؛۔ویئسے خانم جانو اب تک تو تم کو سمجھ آگیا ہے کہ تم میرے نیچے سے تب تک نہین جا پاؤ گی جب تک مین تمہین مکمل طور پر چود نہیں ڈالتا۔ اور ایئسے تو مین تمہین جانے بھی نہین دوں گا۔
                اس لیے تمہارےزور زبردستی اور مزاحمت کا کوئی فائدہ نہیں۔تمارے لیے بہتر یہی ہو گا کہ اب سکون سے لیٹی رہوں اور تمہیں یا تمہاری پھدی کو میرے لن سے کوئی نقصان نہیں ہوگا۔۔
                مگر مجھ سے خود کو چھڑانے کیلیے زور زبردستی کرتی رہو گی تو تم کو پھر کوئی چوٹ لگ سکتی ہے جو کہ سنگین بھی ہو سکتی ہے۔اس لیے خانم جی اب بہتر تو یہی کہ کچھ تو سمجھداری کا مظاہرہ کرو۔ جو ہونا تھا وہ تو ہو چکا اور جو ہو رہا اس کو بھی تم کبھی روک نہیں سکتیں۔
                نرگس کے دلفریب ممے پوری طرح سے کھڑے اور ان کے اوپر گلابی نپلز مکمل شان سے تن چکے تھے۔جو خانم کی انتہائی پرشہوت جذبات کی بھونچال کی واضعہ گواہی تھی۔۔مگر ساتھ ہی ساتھ نرگس کی طیفے سے بھرپور مزاحمت اس کی سمجھ سے بالا تر۔شائید وہ اسے خود سے کافی کم تر جو سمجھتی تھی اور پھر اب طیفے کا اس طرح سے ریپ کرنا۔۔نرگس خانم اپنے بدن کی تپش اورجذبات کے اٹھتے شدید طوفان کے باوجود بھی طیفے کے ساتھ چودائی پر خود کو رضامند نہین کر پارہی تھی۔
                ۔
                طیفے نے نرگس کے گھاس پر لیٹتے ہے اس کے مموں کے نیپل کو پھر سے ہاتھ لگایا تو نرگس نے فورا طیفے کا ہاتھ جھٹک دیا۔جس سے غصے مین آ کر طیفے نے نرگس کی ٹانگوں کو مکمل کھولا۔اس کی پھدی مین پھنسے اپنے لن کے ساتھ چپکے نرگس کی پھدی کےگلابی نگینے کو انگوٹھے کے ساتھ زور سے مسلا تو نرگس نے پرشہوت آواز مین سسکتے ہویے یہاں سے بھی طیفے کا ہاتھ ہٹانے کی جستجو کرنے لگی۔۔
                مگر طیفے نے زبردستی نرگس کی پھدی کے گلابی دانے کو چھیڑتے ہوئے۔اپنے لن کے ساتھ نرگس کی پھدی میں زبردستی ہی اپنی ایک انگلی بھی گھسا دی۔نرگس نےبےپناہ درد وتکلیف سے چیخ کر طیفے کی انگلی کو پھدی سے نکالنے کی کوشش کرنے لگی۔مگر طیفے نے تین چار بارنرگس کی پھدی کے اندر باہر انگلی کر تے ہوئے ساتھ نرگس کے دائین ممے کے نپل کو چٹکی میں بھر کے مسل دیا۔
                جس سے نرگس کے بدن مین یکدم شہوت کا بھونچال دوڑنے لگا۔وہ بیقراری کےساتھ سسکتے ہوئے بولی؛اہ اوفف پلیز تم جو چاہے اپنے لن کیساتھ کرتے رہو مگر انگلی کو اور آگے نہیں کرو نا۔
                اسے پلیززز باہر نکال لو تم ۔
                طیفے نے اب نرگس کے اوپر لیٹتے ہوئے؛ ۔ساتھ اس کے ممون پر اپنے ہونٹ بھی رکھ دیے۔
                نرگس نے اب طیفے کو اوپرسے ہٹانے کی بلکل کوئی کوشش نہ کی۔ایک مادر زار ننگی عورت ننگے مرد کے نیچے ہو تو وہ کب تک مزاحمت کر سکتی ہے۔اس کے پاس صرف ایک ہی آپش ہوتا ہے اس سے چدوائی کروانے کا۔
                نرگس نے بھی اب سے مزاحمت کرنا بیکار ہے سمجھ لیا تھا اور نرگس کی پھدی میں طیفے کا لن بنا کسی روک ٹوک کے آسانی سے گہرایان ناپنے مین مشغول ہو گیا۔
                نرگس نے جب شہوت سے بھری مزے کے ساتھ بھرپور سسکی لی تو۔طیفا خانم کے مکھڑے کے پاس اپنا چہرہ لا کر بولا؛ خانم جی دیکھا تم لڑکیاں چاہے کچھ بھی کر لو، تمہاری پھدیون میں لن گھسنے سے کبھی بھی باز نہیں آتا۔
                نرگس طیفےکے چہرے کی دسترس سے اپنا مکھڑا تھوڑا موڑ کر بولی؛اب یہ اپنی گندی بکواس بند کرو، اور جو بھی کرنا ہے جلدی سے کرو اور پھر مجھے جانے دو۔
                مگر طیفا بہت آرام آرام سے ہی نرگس کی پھدی کی گہرایون مین لن کو اندر باہر کرتے ہوئے بولا؛خانم جانو تمہارے ممے تو بہت دلکش خوبصورت اوربہت ملائم ہیں۔۔
                مگر نرگس خانم جواب دینے کے بجائےخاموش رہی اورساتھ اپنا چہرہ بھی طیفے سے دوسری طرف ہی کیے رکھا۔مگر طیفا نرگس کوتھوڑاتیزی سے چودتے ہوئے پھر بولا؛ویسے خانم جانو کیا تم بہادر کے ساتھ چودائی کرواتے ہوئے بھی اس طرح سے ہی کرتی ہو۔
                جس سے خانم کافی غصے سے بولی؛تم بس اپنے کام سے کام رکھو۔۔اور جلدی سے چھوڑؤ مجھے۔
                طیفا بہت ہی لوفرانہ مکاری سے ہنستے ہوئے بولا؛میں بھی تو یہی رہا ہوں مگر وقت گزاری کے لیے ہم باتیں تو کر ہی سکتے ہیں نا۔ ویئسے خانم جی تم کو آخر بہادر سے چودوانے کی کیا ضرورت پیش آئی؟ ایسا تو کمی کمین اور غریب عورتیں تب کرتی ہیں جب ان کی عمر بڑھتی جارہی ہو۔۔اور شادی نہ ہو رہی ہو۔خانم تم تو اچھی خاصی خوبصورت مالدار لڑکی ہو۔ تم کو تو اپنے جیئسے ہزار لوگ مل جائیں گے۔
                پھر اس بہادر سے تم نے کیون چودایا؟۔
                کیا حاکم سائین تماری شادی نہین کرنا چاہتا تھا۔؟؟
                جس پر نرگس پھر غصے سے بولی؛ میں نے تم سے کہا ہے نا اپنے کام سے کام رکھو۔جلدی جلدی سے کرو اور پھر چھوڑو مجھے۔ویئسے میں سمجھ رہی ہوں تم اتنے آرام آرام سے کیوں کر رہے ہو۔ تاکہ تم جلدی میرے اندر کہین فارغ نہ ہو جاؤ۔
                طیفا نرگس کے دلفریب مموں کو ہونٹون میں لے کر چوستے ہوئے بولا؛۔خانم جانو جب سب کچھ تمہیں پتا ہے تو پھر ٹھک طرح سے تعاون کرو۔
                نرگس نے لطف ولذت سے سسگ کر ساتھ ہی طیفے کے ہونٹون سے اپنے ممے کے نیپل چھڑانے کی کوشش کی۔مگر طیفے نے ہلکے سے دانت نپلز پرگڑائے اور بولا؛اب بس میری جان خانم جی۔اتنی سنگدلی بھی اچھی نہیں ہوتی۔
                ساتھ ہی طیفے نے نرگس کی ٹانگوں کو ممون کے بلکل اوپر کر دیا اور گہرائی میں آرام آرام سے لن کو پورا ڈالنے لگا۔ جس سے دو تین بار نرگس درد سے کسمسائی اور پہلے تو چند بار برداشت کیا،پھر مچلتی ہوئی سسک کر طیفے سے بولی؛۔
                اہ اہ اوف۔
                کچھ تو آرام سے کرونا۔
                طیفا بولا؛خانم جانو تم جیسے کہو گی ویسے ہی کرو گا۔ مگر میرے ساتھ مکمل تعاون تو کرو پھر۔۔
                طیفے کو بہت اچھی طرح سے محسوس ہو رہا تھا کہ اب خانم پہلے سے کافی نارمل ہو چکی ہے۔یہ تو ظاہر سی بات تھی نرگس کے ذہن نے بھی قبول کر لیا تھا کہ وہ جو چاہے مرضی کرلے۔طیفا اب اس کی پھدی بہت رغبت اور چاہت سے چودتا رہے گا۔
                وییسے بھی کسی لڑکی کیلئے اس کا بدترین خدشہ اس کی عزت لٹ جانا ہوتا ہے اور نرگس کی پھدی میں طیفے کا لن تو مکمل گھسا ہوا تھا،۔اب پیچھے باقی کیا رہ گیا تھا۔اب اس سے برا نرگس کے ساتھ باقی اور کیا ہونا تھا۔اس لیے نرگس نے بالآخر طیفے سے سمجھوتہ کر ہی لیا تھا۔
                پھردھیرے دھیرے طیفے کی چودنے کی رفتار تیز سے تیز تر ہونےلگی جوکہ بلکل فطری سی بات ہے کہ جیسے جیسے مزا آتا ہے رفتار تو بڑھ جاتی اور پھر پھدی بھی ساتھ ہی ساتھ زیادہ چکنی اور رواں ہو جاتی ہے۔
                ایسے میں جیسے ہی طیفے کو آنجانی لذت کا احساس ہوا اس نے نرگس کی پھدی سے لن باہر نکال دیا۔تو خانم تنک کر بولی؛اب کرو بھی اور مجھے پھر جانے دو ۔
                طیفا نرگس کے کندھاری رخسار کوہونٹ میں لے کر چومتے ہوئے بولا؛جانم ابھی تو ہمارے پاس بہت وقت باقی ہے۔ اور ویئسے بھی اب تم نے میرے سوا کہان جانا ہے۔
                اس کے ساتھ طیفے نے نرگس کی ٹانگوں کو نیچے گھاس پر سیدھا کر دیا۔اور پھر بولا؛ اور جب تک تم مجھے یہ نہیں بتاؤ گی کہ آخر اس بہادر میں ایسا کیا تھا؟۔۔
                کہ تم اس سے چودوانے پر مان گئی تھین۔۔پھر ہی مین تم کو کہین جانے دوں گا۔۔
                جس سے خانم انتہائی خفت سے بولی؛تم آخر اپنی واہیات بکواس بند کیون نہین کرتے۔تم بار بار ایک ہی بات کیوں کیے جا رہے ہو؟
                طیفا گھٹنون سے اٹھ کر نرگس کے ساتھ لیٹ گیا اورپھر نرگس کی ممے مسلنے کیساتھ اس کی پھدی کے لبوں کو انگلی سے کھول کرشہوت دانےکو چھیڑنے لگا۔نرگس طیفے کے ہاتھ کو جب ہٹانے لگی تو اس نے خانم کا ہاتھ پکڑ کر ڑور سے دور کر دیا۔اور دوبارہ سے پھدی کے لبون کو مسلتے ہوئے بولا؛ اچھا چلو چھوڑو اس بات کو۔مجھے لگتا ہے تم کو بس صرف اپنے ملازم ہی پسند ہیں ۔
                جس سے نرگس انتہایی خفت اور شرمندگی سے بولی؛ بکو مت تم خود انتہائی کمینےاور۔واہیات انسان ہو۔
                طیفے نے نرگس کو کروٹ کے بل کر کے اس کو دوبارہ چودنے لگا۔چونکہ لن تو مکمل طور پر گیلا تھا اور نرگس کی پھدی کے آس پاس بھی ہر جگہ ملائی کی پھسلن ہو چکی تھی نرگس کی پھدی سے بہت پانی نکلا ہوا تھا۔
                طیفا نرگس کے ساتھ پیچھے لپٹ کر ساتھ نرگس کے مکھڑے کو ہاتھون سے پکڑے ہوئے اس کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں سے سختی سے ملائے فل سپیڈ میں دھکے لگا رہا تھا۔نرگس کا سارا بدن طیفے کی أغوش مین مچل مچل کر ہلتا تھا اور طیفے کو نرگس خانم کی پھدی میں لن پوراجا کر گھستا محسوس ہو رہا تھا۔اس کا موٹا تگڑا وشال لن نرگس کی پھدی کو اچھے سے کھول رہا تھا۔نرگس کے دلفریب ممے طیفے کے جاندار دھکون سے سامنے کو ابھر کر اپنی خوب اچھل کود مچا رہے تھے۔
                طیفے نے جب چند بار لن کی ٹوپی پھدی کی کوکھ کے آخری سرے سے جا ٹکرائی تو نرگس خانم کے جسم کو اتنے زور کا جھٹکا لگا کہ وہ لذت وشہوت سے تڑپ تڑپ گئی۔
                طیفے کا لن کسی کھتونگڑے کی ہی مانند کافی لمبا اورموٹا تھا اس کی ٹوپی تو گوٹھ کی کنواری لڑکیون کی پھدیوں کی تو تباہی اتار دیتی تھی، خاص کر ان عورتون کی بھی جنہوں نے پہلے کوئی موٹا لوڑا اندر نہ لیا ہوتا ۔
                طیفے نےپھردوبارہ چھوٹنے سے پہلے ہی لن کو خانم کی پھدی سے باہر نکال لیا۔اس نے جیئسے خانم کو چھوڑا تو کسی جانور کے ہانپنےکی طرح ہی سے گہری سانسیں لیتے ہوئے بولی؛آخر تم کب بس کرو گے،۔مجھےچھوڑ بھی دو ، میں اب تمہارے سامنے ہاتھ جوڑتی ہوں،۔اس گھندے گھناؤنے کام کو۔
                ختم کرو۔
                طیفا اس کے مموں کو دباتے ہوئے بولا؛ خانم جانو تم جب تک مجھ سے پورا تعاون نہیں کرو گی، یہ چودائی اسی طرح سے جاری رہے گی۔
                جس سے بالآخر نرگس خانم روہانسی سی ہو کر بولی؛آخر تم کیا چاہتے ہو؟تم نے مجھے چود تو لیا ہے۔اب میرے ساتھ اور کیا کرنا باقی ہے؟
                طیفا دوبارہ نرگس کو سیدھا کر کے خود اس کے اوپر لیٹ کر بولا؛۔بس خانم میری جان تم مجھ سے یہ مزاحمت کرنا اور رونا دھونا چھوڑ دو۔ اور،مکمل طور پر ایئسے ہوجاؤ۔جیسے تم۔نے بہادر کے ساتھ حاکم سائین کی سہاگ رات میں خود اس کے ساتھ مل کر ہر طرح سے مزا لیا تھا۔
                اب نرگس شہوت بھرے جذبات سے سسک کر بولی؛ وہ تو میری جان تھا۔۔مگر تم نے میرے ساتھ زیادتی کی ہے۔ زبردستی میری عزت لوٹی ہے؟؟۔
                طیفا نرگس خانم کے مکھڑے کے بالکل پاس اپنا چہرہ لا کر بولا؛۔خانم مین نے تمہاری عزت تو لوٹی ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے مگر پھدی مارنے اور عزت لٹنے میں فرق صرف اپنی مرضی اور سوچ کا ہے۔اپنے ذہن مین مجھے بہادر ہی رکھ کر تم سوچو کہ اس میں تمہاری بھی رضامندی شامل ہے تو پھر اس چودائی کا پورا مقصد ہی بدل جائے گا۔
                جس سے نرگس خانم بگڑ کر خفت سےبولی؛ میں کیسے یہ سوچ لوں کہ تم نے میرا ریپ میری مرضی سے کیا ہے؟ اور وہ بہادر تو۔۔؟؟
                طیفا ہنس کر بولا؛ خانم جانو اگر تم اس کو ریپ کہو گی تو پھر یہ ریپ تو اب ہوتا ہی رہے گا۔تم خود سوچو۔اب حاکم سائین کے پاس تم جا نہین سکتی۔کیونکہ اس کیلیے تم مرچکی ہو۔اور اب نہجانے کتنے دن ہفتے یا سال تمہین میرے پاس ہی رہنا ہو گا۔۔
                اوراس بات کو کوئی بھی نہیں جان سکے گا۔ تمہارا میرےساتھ جو ریلشین قائم ہوا،یہ تو اب مہینون ایٔسےہی چلےگا جب تک میرادل تم سےمکمل طورپر بھر نہین جاتا۔۔بس تمہین میرے ساتھ میری معشوق بن کر رہنا ہو گا۔مین پھر تمہین دنیاوی و جسمانی ہر لذت و أسائش مہیا کرون گا۔۔
                پھر یہاں سے جانے کے بعد تم اپنےگھر کہین بھی بسا لینا پھر۔تو مین نہ کبھی تم سے دوبارہ ملاقات کرؤن گا اور نہ زندگی مین کبھی ہمارا پھر آمناسامنا ہو گا۔ایسے میں پھر تم اور مین جو کچھ بھی کریں گے کسی کو معلوم نہیں ہو گا۔
                نرگس خانم کچھ لمحوں کی خاموشی کے ساتھ سوچنے کے بعد بولی؛ تو کیا تم پھر مجھے یہان سے کہین بہت دور چھوڑ دو گے کیا؟۔۔
                طیفے نے نرگس کے اوپر سے اٹھتے ہوئے کہا؛ ہاں بلکل ضرور اورہرقسم کی سپورٹ کے ساتھ خود چھوڑ أؤن گا۔
                نرگس خانم بھی تھوڑا ریکس ہو کر۔طیفے کیساتھ اُٹھ کر بیٹھتے ہوئے بولی؛ ویئسے تم بہادر اور میرے بارے مین اتنا کچھ کیسے جانتے ہو؟۔۔
                طیفاخانم کی اس بات پر تھوڑا مسکرا کر بولا؛۔حاکم سائین سے جیئسے ہی مجھے معلوم ہوا کہ جنگل مین جگو ڈاکو کو دیکھا گیا۔۔اور ساتھ اس کو مارنے کے لئے۔۔مجھے پھر حاکم سائین کی منظور نظرچھیمو کی پرشہوت جوانی کی رشوت دی گئی۔
                میرا پولیس والا حرامی دماغ فورا چونک اٹھا۔ کہ جو کچھ بتایا جارہا ہے وہ اصل بات نہین ہے۔پھر چوادائی کرنے کے دوران کافی کچھ تو مین چھیمو سے اگلوانے مین کامیاب ہو گیا تھا
                اورپھر میں صبح ہی خود اکیلا جنگل مین پہنچ گیا۔ اوراپنے ساتھیو کو حاکم سائین کے دئے پلان اور ٹائم کے مطابق جگو پر چھاپہ مارنے اور اسے ساتھیو سمیعت قتل کرنے کا أڈر دیا۔طیفا کا حرامی ذہن حرام کاریون پر خوب چلتا تھا۔اس نےجب نرگس خانم کےپرشہوت شباب کے مہتابی بدن کی حشر انگیز رعنائون کو مادر زار ننگی حالت میں دیکھا تو اس کی اب نیت مزید خراب ہو گئی اور وہ خانم کومستقل اپنےپاس رکھنے کی پلاننگ کرنے لگا۔
                دوسری بات طیفے نے یہ بھی سوچ لی تھی کہ جب خانم جنگل مین قتل کرنے لیے لائی گئی ہے تو کیوں نہ اس بات کا فائدہ اٹھایا جائے۔اندھیرا ہوتے ہی وہ نرگس خانم کو گوٹھ سے دور اپنے سرکاری کواٹر مین ہی بہت خاموشی سے لے جا کر چھپا لے گا۔اور اس بات کیلیے طیفے کو نرگس خانم کی مکمل رضامندی اور تعاون کی بھی ضرورت تھی۔
                نرگس طیفے کی ساری بات سن کر پھر سے بولی؛۔کیا تم یہ کام پہلے بھی کر چکے ہو؟
                جس پرطیفا بولا؛خانم جانو کیا تم حاکم سائین کے ایما پر کام کرنے کی بات کر رہی ہو یا۔ پھر عورتون کے ساتھ سیکس کرنے کی بات کر رہی ہو؟
                مگرنرگس ہلکے خفت ذدہ لہجے مین بولی؛نہیں وہ لڑکیون کے ساتھ زیادتی اور ریپ کرنے کی بات کر رہی ہوں؟۔
                اب طیفا کچھ لمحے سوچنے کے بعد بولا؛ہاں خانم بس وہ ایک دو بارایئسے ہواہے۔ورنہ تو زیادہ ترسب خود بڑے شوق کے ساتھ چودواتی ہین۔
                خانم بولی؛مجھے لگتا ہے تم نے بہت ساری عورتون کی چودائی کی ہوئی ہے۔۔
                جس سے طیفا ہنس کر بولا؛ ہاں خانم یہ بات تو ہےمگر تم کو یہ معلوم کیئسے ہوا؟ تم نے تو بہادر سے بس ایک دودفعہ ہی چودائی کر وائی ہو گئی۔
                نرگس خانم پھرشرما کر سر کو جھکا کر بولی؛وہ میرے ساتھ تو بس بہادر نے صرف ایک ہی رات۔۔؟؟۔۔پھر کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد خانم دوبارہ سے بولی۔مگر تمہارے جھٹکوں نے تو میرا سار بدن اور ساتھ اندر بھی ہلا کر رکھ دیاہے جس سے مجھے لگا کہ تم چودنے کے بہت تجربہ کار ہو۔اگر اناڑی ہوتے تو پانچ دس منٹ سےزیادہ نہ چود پاتے۔اور تم تومجھے دو گھنٹے سے مسلسل چودے ہی جا رہے ہو ۔۔۔
                یہاں پر پھر نرگس خانم اپنی نشیلی أنکھون سے گرم موتیون کی آبشار برساتی ہوئی رو پڑی تو طیفے نے مکاری سے نرگس کے ننگے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بہت محبت و چاہت سے ہاتھ کو پھیرتے ہوئے خانم کو دلاسا دیناچاہا تونرگس نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا۔
                طیفا نرگس سے بظاہر انتہائی پیشمانی سےبولا؛خانی جی میں جانتا ہوں کہ میں نے تمہارے ساتھ بہت غلط کیا مگر؟؟۔۔۔
                نرگس طیفے کی بات کو کاٹ کر غصے سے بولی؛ اگر میں نے بہادر کے ساتھ کچھ بھی کیا ہو مگرتم کواس سے کیا تم تو ایک پولس والے ہو تمہین تو غریب عوام مظلوم نادار لوگون کی حفاظت کیلئے وردی دی گئی ہے تم کو یہ حق حاصل نہین ہے کہ کسی بھی مظلوم لڑکی یا عورت کے ساتھ تم خود بھی کرنے شروع۔۔؟؟
                اس کے أگے نرگس خانم سے کچھ دیر تو کچھ بھی بولا نہ گیا؟ پھر کچھ دیر پھر سے بولی ۔اب کچھ بتاؤ بھی کہ تم نے ایئسے کیون کیا۔اب کچھ تو بولو۔؟۔
                طیفا نرگس خانم کی باتون سے شرمندہ بلکل بھی نہین ہوا تھا کیونکہ نرگس خانم کی ان سب درست باتون کے باوجود اس کے خمیر مین کچھ نہ سمجھنے والاحرام مکمل سرائیت کر چکا تھا۔
                طیفے کے پاس کوئی جواب نہیں تھا،دنیا میں زیادتی کرنے والون کا کوئی بھی جواز ہو ہی نہیں سکتا ،سوائے مردون کی پرہوس جنسی بھوک کے۔یہ تو ایک انتائی ہی گھناؤنا مجرمانہ فعل ہے۔اگرکسی کو زیادتی کرنا جنسی فعل لگتا ہے تو یہ غلط ہے۔اگر ایسا ہے تو اس کو اپنی بہن بیٹی کا ریپ سہاگ رات میں شوہر کی بجائے کسی اور سے کروا کر پوچھنا چاہیے کہ ہاں یہ سیکس ہے یا پھر زنا یاریپ؟
                نرگس خانم طیفے سے دوبارہ بولی؛ تم یا کوئی اور اگر حاکم بھائی یا جگو ڈاکو بھی یہان ہوتا تو اس نے بھی مجھ کو اپنا گند نکالنے کا ایک ذریعہ سمجھنا تھا اور خاص کر اس عورت پرجو نہ شور مچا سکتی ہو اور نہ دسترس سے خود کو چھڑا کر باہر بھاگ سکتی ہو۔اب جبکہ مین بےبس ہو چکی ہون تو تم خود کو مجھ پہ مسلط کر کے اپنی زبردستی ہوس مٹا رہے ہو۔
                اور مجھے اس بات کا بھی یقین ہے کہ اگر مین حویلی مین موجود ہوتی تو تم نے ہمیشہ میرے پاؤن کے تلوے چاٹنے تھے نہ کہ مجھے اس طرح سے زبردستی نوچنے اور رگیدنے کے؟؟ ۔
                حالانکہ تم اپنی یہ جینسی بھوک کسی اور لڑکی سے بھی مٹا سکتے تھے مگر نہیں تم تو حاکم سائین کی بہن کے ساتھ زیادتی کرنے کا موقع ہاتھ سے کیسے جانے دیتے ۔
                نرگس خانم یہ کہ کر دوبارہ سے رونے لگ گئی۔
                طیفا نرگس خانم کی سبھی باتین سن کر سانپ کی طرح مکاری سےاپنی کنچیلی بدل کر پھر سے بولا؛۔خانم جی مجھے بہت افسوس ہو رہا ہے جو میں نے کیا۔واقعی میں اپنی جنسی طلب کے ہاتھوں درندہ بنتا جا رہا ہوں اور کسی بھی مصلحت یا کسی رکاوٹ کا پھر نہیں سوچتا۔میں واقعی مجرمانہ حد تک جنس پرست ہو چکا ہوں۔طیفے نے نرگس خانم کے زور سےاپنے سینے سے لگا کر بولا؛ خانم ہو سکے تو مجھے معاف کر دو۔ مین تمہارے ساتھ اب شادی کر لون گا۔اور پھر زندگی مین کبھی دکھ تکلیف کو تمہارے نذدیک بھی نہین آنے دون گا۔۔
                جس پرنرگس خانم روتے روتے سسکیاں لیتے ہوئے بولی؛ پھر اس سے کیا ہو گا؟ کیا میری لٹی ہوئی عزت واپس آ جائے گی یا مجھے جو اذیت اور گھن کا احساس ہوا وہ ختم ہو جائے گا؟ ہرگز نہیں،تم مردلوگ کبھی سمجھ ہی نہیں سکتےکہ عورت کو جس مرد سے سیکس کرنے کی خواہش نہ ہو اس کے ساتھ کرنے پر انتہائی ہی غلاظت کا احساس ساری زندگی اس کی یاد دلاتا رہتا ہے۔
                طیفا بولا؛خانم میں سب کچھ سمجھتا اور جانتا ہوں مگر بات صرف اتنی ہے کہ میں خود پہ قابو نہیں رکھ پایا۔اور اب اس کا ازالہ بھی تو کرنا چاہتا ہون۔طیفااب اپنے دل پر پتھر رکھ کر نرگس خانم کو خاموشی سے اپنے ساتھ جانے پر مسلسل راضی کرنے کی کوشش کیے جا رہا تھا
                جس پر نرگس استہزایہ انداز سے بولی؛ تو پھر تم کو کسی سائیکرسٹ ڈاکٹر کو دکھانے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی ساتھ مین خود بھی جیل جانے کی۔کیونکہ تم یہ گناہ پہلے بھی بہت بار کر چکے ہو اور اپنی وردی کی دھونس جما کر اس سے بچ نکلتے ہو۔ تبھی توبار بار کرنے لگتے ہو اور اگر اب بھی تم نے خود کوگرفتاری کیلیے پیش نہ کیا تو تمہارا یہ خیال پختہ ہو جائے گا کہ تم کسی کا کہین بھی ریپ کر کے بچ سکتے ہو۔
                طیفےسےایسی مدلل اور مفصل گفتگو پہلے گوٹھ مین کسی نے نہیں کی تھی۔نرگس یقیناً بہت باریکی سے اس معاملے کی سب حساسیت کو سمجھنے والی سمجھدار عورت تھی۔ آخر اپنے ہی گھر مین اپنے بھائی حاکم سائین کی طاقت اور حاکمیت دیکھتی جو چلی أ رہی تھی۔ وہان پر تو کبھی بولنے کا سوچا نہین جب خود پر بیتی تو مظلومیت کا راگ آلاپنے لگی تھی۔مگر طیفا یہ سب اس سے کہنے کا فی الحال رسک نہین لے سکتا تھا۔ اس لئے
                بہت مکاری کے ساتھ نرگس سے بولا؛ خانم تم نے یہ بالکل ٹھیک کہا،تمہاری ایک ایک بات بالکل سچ ہے اور میں واقعی مجرم ہوں تمہارا بھی اور نجانے کتنی لڑکیوں کا۔مگر پلیزز اب تم میرے ساتھ چلو مین اب اپنی ان غلطیون کا ازالہ کرنا چاہتا ہون۔۔
                جس پر نرگس بولی؛ نہین یہ بھی تمہارا ایک فریب ہے مین جانتی ہون۔کہ تم کیا سمجھتے ہو۔تم اچھی طرح سے شروع سے ہی جانتے ہو کہ یہ جرم ہے مگر پھر بھی اس سے باز نہیں آتے،اس کا مطلب ہے کہ تم اس کو خودکسی نہ کسی طرح درست سمجھتے ہو اور میرے کہنے سے تو تم کبھی باز نہیں آنے والے۔اور تم اس وقت تک اس نہیں چھؤڑو گے جب تک اس کی کہین سے سزا نہیں جھیل لیتے۔
                پھر نرگس خانم آنسو پونچھ کر بولی؛ میرے سامنے حاکم سائین نے نہجانےکتنی گوٹھ کی کمسن مجبور لڑکیون کے ساتھ ۔۔۔۔وہ بھی یہ سب کچھ کر چکا ہے اور۔۔گوٹھ کے سبھی گھر والوں نے ان باتون کو اپنی مصلحتون کیلیے ہمیشہ دبا دیا۔تم مرد لوگ کبھی نہیں سمجھ سکتے کہ یہ کس قدر اذیت ناک عمل و فعل ہے جس کو تم چسکے لے لے کر کرتے ہو۔ مگر یاد رکھنا۔فرعون و نمرود پر بھی تو ایک دن اس کا شکنجہ مکمل طورپر کس دیا جاتا ہے۔
                پھر نرگس خانم کچھ دیر بے آواز أنسو بہاتی روتی رہی اور کچھ دیر کے بعد بعد پھر طیفے سے بولی؛ تم یہ جاننا چاہتے تھے کہ میں بہادرکےساتھ کیون کر رہی تھی تو سنو۔میں اس کےساتھ اپنی ہوس مٹانے کیلئے اس وجہ سے ہی تیار ہو پائی تھی۔جس طرح تم ہوس پرست ہو۔اس طرح سے میرا بھائی حاکم سائین بھی ہے اوراس کے ہر لائیو سیکس کو نہجانے کتنے سالون سے مین لگاتار دیکھتی چلی آ رہی تھی۔میرے اس فعل کے بارے مین کچھ عرصہ پہلے بہادر کو بھی خبر ہو گئی اور وہ ہمارا ملازم۔ہونے کی وجہ سے خاموش رہا۔۔حاکم سائین کے ان رنگین و سنگین فعل دیکھتے دیکھتے میرے بدن مین بھی جذبات کےجوار بھاٹےاُٹھنے مچلنے شروع ہو گئے۔اب میرے بدن کی ہوس حاکم سائین کی بہن ہونے سےکوئی بھی نہیں مٹا سکتا تھا۔کہ مجھے ہی پھر خاموش رہنے والے نوکر بہادر کا خیال آیا۔وہ ہمارا نوکر ہونے سے نہ تو مجھ پر مسلط ہو سکتا تھا اور نہ مجھے، انکار کر سکتا تھا۔اور نہ ہی مجھے کسی طور پر بھی تمہاری طرح رگید رگید کرچودتےہوئےکوئی بھی نقصان پہنچا سکتا تھا۔۔
                طیفا حیران ہو کر بولا؛کک کیا مطلب؟۔۔
                نرگس خانم کچھ لمحےخاموش رہنے کے بعد دوبارہ بولی؛ بہادر میری چودائی کبھی نہیں کرنا چاہتا وہ۔ توبس میرے ساتھ بچپن سے وہ اور مین وہ؟؟۔۔۔۔
                پھر نرگس خانن خاموش ہو گئی تو طیفا بولا؛ اور وہ کیا؟؟؟
                نرگس اس موضع پر مذید کچھ بولنے سے خود کی جان چھڑاتے ہوئے بولی؛ اور کچھ نہیں بس۔
                مگر طیفا پھر بولا؛خانم اب بتاؤ بھی نا؟ اور کیا؟
                نرگس خانن بولی؛ تم مذید جان کر کیا کرو گے؟۔بس چھوڑؤ اس بات کو۔۔؟
                طیفا بولا؛ بس خانم جی ویسے ہی مین جاننا چاہتا ہوں۔ تم اب سب کچھ خود ہی بتاؤ نا۔ طیفا درأصل اپنے پولیس والے اس حرامی ذہن کا کیا کرتا۔۔کیونکہ کچھ بھی مشکوک حالات کےپتہ لگنے پر طیفا لازمی اس معاملے کی تہہ مین جا کر ہر چیز کی ڈیٹئل حاصل کرکے پھر اپنی مرضی کے توڑ جوڑ کیساتھ ان سے فوائد اُٹھاتا۔
                نرگس بولی؛ مم۔۔میں وہ سب کچھ اپنے منہ سے نہین بول سکتی۔
                مگر طیفا پھر سے بولا؛خانم تم مجھےسے تو اب سب کچھ بول سکتی ہو کیونکہ میرے ساتھ تم بغیر لباس کے مکمل ننگی لیٹی ہوئی ہو اورمیں تم سے وہ سب کچھ کر چکا ہوں جوبےحیائی کی آخری حد ہے۔
                تو نرگس چڑ کر بولی؛تم فضول باتیں مت کرو۔تم نے زبردستی اگر میرے ساتھ کر لیا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میں تم سے مکمل بےتکلف بھی ہو جاؤں اور پھر بغیرت اور بیشرم ہو کر سب کچھ بتلا بھی دون۔
                جس پر طیفا بہت تنک کر تنزیہ بولا؛خانم جی تم کہہ تو ٹھیک رہی ہو مگر جب مردو عورت میں چودا چودائی ہو جاتی ہے تو پھر شرم کرنے کی کوئی بھی وجوہ بھی باقی نہیں رہتی۔
                جس پر نرگس خانم جھجکتے ہویے اٹک اٹک کر بولی؛ وہ میرے ساتھ۔ وہ بہادر بس وہ اور مین تو۔۔۔؟۔اب میں تمہین وہ سب کیسے بتاؤں؟
                خانم کی ہچکچاہٹ دیکھ کر طیفا اس کو پھر عجیب سی ترغیب دلاتےہوے بولا؛خانم جی تم بس یہ سمجھو کہ میں یہاں نہیں ہوں۔بلکہ تم اب بھی بہادر کے ساتھ ہی ہو اور تم یہ بات اس سے کر رہی ہو۔ ظاہر سی بات ہے تم نے اس کو بھی تو وہ سب کرنے کو کہا ہوگا اور بول کر ہی کہا ہو گا۔
                جس سے نرگس سوچتے ہوئے بولی؛ہاں بات تو کچھ ایسی ہی ہے مگر اب اس طرح سے بتانا میرے لیے بہت ہی زیادہ مشکل ہے۔۔
                طیفے نے نرگس خانم کے دائین ممے پرہاتھ رکھااور پھر دبا کر مسلتے ہوے بولا؛خانم جانو تم کہنے کی کوشش تو کرو۔
                مگر نرگس خانم پھر سے طیفے کا ہاتھ جھٹک کر بولی؛اب میں کچھ نہیں کہہ رہی۔ اگر تم اپنا کام کر چکے ہو تو جاؤ یہاں سے اور مجھے بھی جانے دو۔ اگر نہیں تو جلدی جلدی اپنا پانی نکالو اور بھر مجھے چھوڑ کر دفع ہو جاؤ۔ کیونکہ مرد کبھی بھی اپنا پانی نکالے بغیر عورت کے جان نہیں چھوڑتا۔
                طیفے نے اپنے لن کو ہاتھ لگایا جو پھر سے خشک ہو چکا تھا کیونکہ نرگس سے باتیں کرتے ہوئے جنگل کی خوشگوار ہوا کے باعث خانم کی پھدی کا لیس دار مواد سوکھ چکا تھا۔
                طیفے نے نرگس کا ہاتھ پکڑا اور گھاس پر سے کھڑا کرتے ہوئے خانم کو اپنی آغوش ک طرف کھینچا۔ وہ کسی کٹی پتنگ کی طرح اُڑتی لپکتی اس کے سینے سے آ لگی۔
                اورساتھ ہی مچلتی ہوئے طیفے سے بولی؛اب تم پھر سے یہ کیا کر رہے ہو؟
                طیفے نےنرگس کےملائم ریشمی بالوں سے پکڑ کر اس کو فورا اس درخت کےبڑے سے تنے کے ساتھ اُلٹالگا دیا۔
                وہ خود کو چھڑانے کی کوشش کرتے ہوئے بولی؛ ابھی تو تم بڑے اپنی حرکتون پر شرمندہ ہو رہے تھے ۔اب پھر سے شروع ہو رہے ہو؟
                نرگس کی نرم وملائم ممے اور چہرہ درخت کے ساتھ لگا ہوا تھا۔طیفے نے نیچے ہو کر نرگس کی دلفریب متوالی گانڈ کی ابھری پہاڑیون کو بغیر کچھ جواب دیے کھولا اور پھر سے پھدی کےلبون مین اپنالن پھنسا دیا۔
                مگر نرگس پھر سے تپتی مچلتی غصے سے جھٹپٹا کر بولی؛ارےے یہ کیا وحشی پن سےکر رہے ہو؟ چھوڑو مجھے۔۔۔
                مگر طیفے نے اپنا لنڈ نرگس کی پھدی پر سیٹ کیا اور دوبارہ سے لن کو اس کی پھدی میں گھسا دیا۔اس کو بہت اچھی طرح سے معلوم تھا کہ عورت کو کھڑا کر کے پیچھے سے اس طرح چودنا عورت کے لیے بہت ہارڈ ہوتا ہے۔اس نے کئی اڑیل لڑکیون کوبطور سزا اپنے سرکاری کوارٹر مین اس طرح چود کر چیخنے پر مجبور کر دیا تھا۔وہ اب پھر سے نرگس کو آخری حد تک اس طرح سے ہی چودنا چاہتا تھا تا کہ پھر وہ کبھی طیفے کو بھولا نہ سکے۔نرگس گوٹھ کی واقعی بہت اتھری اور اڑیل گھوڑی تھی۔جو طیفے کی اتنی چکنی چپڑی باتون پر بھی رام نہین ہو رہی تھی۔
                پھر طیفے کے پہلے جھٹکے پر ہی نرگس خانم بہت ہی تڑپ مچل کر بولی؛ بس کرو مجھے درد ہو رہا ہے پلیزز۔
                طیفے نے نرگس کے بالوں کو پکڑ کر اس کے چہرے کو اپنی طرف موڑتےہوئے بولا؛خانم مین نے تو تم کو موقع دیا تھا کہ تم مجھے سب کچھ تفصیل سےبتا دو مگر تم نے وہ سب ٹائم ضائع کیا۔اب اگر مجھے تم کو چودنا ہے تو ایسے وحشیت سے چودون گا کہ تم پھر زندگی بھر مجھے بھول نہ سکو۔
                ساتھ ہی طیفے نے تیزی سے لن کو جھٹکے لگانے شروع کر دیئے اور پھرچندجھٹکوں کے بعد ہی نرگس کی زور دارچیخیں نکلنے لگیں۔طیفا نے نرگس کے گلابی پتلے ہونٹون پر اپنے کھردرے ہونٹ رکھ کر انہین بھنبوڑ کر چوستے ہوئے جھٹکے پر جھٹکہ لگاتا رہا۔کچھ جھٹکوں کے بعد نرگس کی ٹانگوں نے خانم کا ساتھ دیناچھوڑ دیااوروہ نیچے جھک کرگھاس پر پھر سے بیٹھنے لگی تو طیفے نے نرگس کو پکڑ کر گھاس پر ہی اُلٹالٹا دیا۔اور خود بھی ساتھ ہی نرگس کے اوپر پیچھے سے چڑھ گیا اور اپنے لن کو پھر سے نرگس کی پھدی کے پھولے لبون پر رکھا اور ہلکے جھٹکے سے لن کی ٹوپی کو نرگس کی پھدی کے اندر گھسا دیا۔
                نرگس بے أواز سسکتی رہی مگر اب اُس نے کوئی بھی مزاحمت کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی۔طیفے نے لن کو اندر دھکیلا تو اب لن پھدی کی دیوارؤن سے رگڑتا ہوا اس میں آہستہ أہستہ تیزی سے اترنے لگا۔خلاف توقع نرگس کی پھدی جیئسے خود طیفے کے لن کو بنا کسی دقت یا مزاحمت کے اپنی پوری آمادگی خوشنودگی سے اپنے اندر ہی اندر کھینچے جا رہی تھی۔اور ساتھ منی سےشرابورچکنی بھی ہو چکی تھی۔
                طیفا تو بہت ہی دیر سے نرگس کی پھدی کےاس اٹریکش کیلئے ہی تو خانم کے ساتھ اتنی مغز ماری کیے جا رہا تھا مگر نرگس تو اپنے جذبات پر مزاحمت کے قفل ڈالے۔اپنے پرکشش بدن کی پیاس اورحسرتون کو زنجیرون سے قیدکیےاب تک تڑپ تڑب کر خوامخواہ مچلتی روتی رہی تھی۔اگر وہ اپنی خوشی رضا سے چودواتی تو۔اب تک نہجانے ان کے پھر کتنے ہی چودائی کے رائیونڈ لگ چکے ہوتے۔۔
                نرگس خانم نے تو ایوین فظول مین ہی تو رو رو کر اپنا برا حال کر لیا تھا۔۔طیفے نے نرگس کی پھدی کی دیوارون سے لن کو تھوڑا رگڑتے مسلتے ہوئے اندر کرتے کرتے اس نے سارا لن پھر سےجڑون تک نرگس کی پھدی کی بچہ دانی میں اتار دیا۔طیفے کو اب یہ جان کرکوئی حیرانگی نہ ہوئی کہ نرگس نے اب چودنے مین کسی قسم کی بھی کوئی مزاحمت کیون نہیں کی۔جہاں پہلے وہ اس کا لن پھدی میں جاتے ہی مچل مچل کر رونے لگتی تھی۔ وہاں اب نرگس سارا لنڈ ایک بار ہی پھدی میں مکمل اترنے پربھی پرسکون لیٹی ہوئی تھی۔ طیفا پھر سےآرام آرام سے نرگس کی پھدی کو چودنے لگا اور نرگس پہلے تو کافی دیر خاموش سی نیچے لیٹی رہی۔اور طیفا خانم کے کندھوں کو پکڑ کر پوری طاقت سے اپنے لن کو جھٹکے دینے لگا ۔
                مگر نرگس نے جب کوئی منفی ردعمل نہیں دیا تو۔ طیفے کو نرگس کے ان گدرائے مخروطی دلفریب ابھرے کولہے جو کافی اُوپر اٹھے ہوے تھے نرگس کی پھدی چودنے کا اب بڑا ہی مزا آ رہا تھا۔آہستہ آہستہ پھر طیفے کو کچھ عجب انوکھا احساس ہوا۔۔
                نرگس خانم نے اپنے بایئن ہاتھ کواپنی پھدی پر طیفے کے لن کے ساتھ رکھا ہوا تھا اور جئیسے جیئسے وہ نرگس کی پھدی کو چود رہا تھا،نرگس خانم بھی اپنی پھدی کے نگینے سے کھیل رہی ہے۔جس سے نرگس خانم کی تیز مرتعیش سانسیں گرم سے گرم ہوتی ہوئین گہری مدہوش ہو رہی تھیں اور نرگس کی پرشبابی بدن کی کیفیت بھی ہر آن ہیجان انگیز ہوتی جا رہی تھی۔پھرطیفے کے دھکون کی رفتار بھی تیزہوتی گئی اور بالآخر طیفے کو نرگس خانم کے مچلتے بدن میں تیزکپکپی سی محسوس ہوئی۔طیفے نے نرگس کی پھدی سے پھر لنڈ کو باہر کھینچنا چاہا تو۔
                نرگس خانم کی پھدی تو لن کے ساتھ پیچھے پیچھے ہی آ کر ایک سخت تیزجھٹکے سے طیفے کے لن کی جڑؤن سے واپس آ کر مل گئی۔پھرتونرگس خانم کسی اتھری گھوڑی کی طرح مچل مچل کر خود ہی اپنے بھاری گدرائے دلفریب چوتڑ اُٹھا اُٹھا کر۔طیفے کے لن پر ایک تواتر سے برسانے لگی اور۔نرگس خانم کی رس بھری پھدی کی نرم ونازک دیواریں طیفے کو سخت تیز ترین طوفان کی مانند اپنے لن کے اوپرتیزمتوحش لرزتی ہوئی محسوس ہوئیں۔
                طیفے نے نرگس کے ان تیز ترین جھٹکوں کے ساتھ لن کومکمل باہر نکال کر واپس نرگس کی پھدی میں دوبارہ جڑون تک پھدی کے اندر گھسیڑتے ہوئے کچھ جھٹکوں کے بعد لیس دار گاڑھی منی نرگس کی بھڑکتی بھٹی پر جھونک دی۔اور نرگس خانم کے اوپر ہی اسی طرح سے لیٹ گیا۔
                نرگس خانم بھی تیز گہری سی سانس لیتے ہوئے طیفے کے منی کے چھڑکاؤ سے اپنی ملائی کو ملاتے ہوئے ساتھ طیفے کے لنڈ کوگرماگرم منی سے ٹکورتے ہوئے دادتحسین بھی دیے جا رہی تھی۔
                کچھ لمحے مست مدہوش نرگس خانم کے اوپر لیٹے رہنے کے بعد طیفا اس کے اوپر سے اُٹھ کر بولا؛ تو خانم جانو ۔۔بہادر اور تم دراصل حاکم خان سائین کے ہر ریپ اور زبردستی کے زنا کاریون کوبچپن سےایک ساتھ ہی مل کر دیکھتے چلے آ رہے ہو۔۔
                نرگس نے طیفے کی اس بات کا کوئی جواب بھی نہہ دیا مگرنہ ہی خانم نےطیفے کےاس اندازے سے انکار کیا۔اس کا مطلب یہ تھا کہ طیفے کو یہہ گیس لگانے میں اس سے کوئی غلطی نہیں ہوئی تھی۔طیفےنےخانم کے براء کے کپڑے سے اپنے لن کو صاف کیا۔جس پر دونون کی گاڑھی ملائی کیساتھ نرگس کی پھدی سے نکلنے والی سرخ آمیزے کی علامت اب نرگس کےاچھی طرح سےچودنےکی مکمل گواہی واضعہ تھی۔
                اپنا لن صاف کرنے کے بعد طیفا نرگس سے بولا؛نرگس خانم مین تیرہ سال سے بھی کچھ کم عمر تھا جب تیرے بھائی حاکم نےمیری بڑی بہن پینو سے پہلی بارہمارے گھر مین ہی زبردستی اس کا ریپ کیا۔
                جب حاکم نے میری بہن پینو کو چودا تھا۔۔تو مین پینو کی اس ہر تڑپ اور اذیت کے ہر لمحے کا خود گواہ تھا۔۔پینو کے ساتھ حاکم نے پہلی بار ہی پھدی اور گانڈ دونوں جگہون سے اس کو چودڈالا تھا۔۔اور اس وقت سے ہی مین نے سوچ لیا تھے کہ مجھے بھی حاکم کی بہن کو زندگی مین ایک بار تو لازمی چودنا پڑے گا۔
                مگر اب جبکہ قسمت کی ستم ظریفی سے وہ سب ممکن ہو چکا ہے۔۔مجھے اب خود سے گھن آنے لگی ہے۔طیفے حرامی نےفوراہی ایک من گھڑت کہانی بنا کر نرگس خانم کی ہمدردی بٹورنے کی نئی ترکیب سوچ ڈالی۔۔۔
                مگرجب نرگس کچھ بھی بولنے کے بجائے خاموش رہی تو وہ پھر بولا؛ ویئسے خانم جی تم بھی اب کی بار اچھی طرح سے فارغ ہوئی ہو تم کو بھی یقیناً لظف و مزا آیا ہو گا۔
                مگر نرگس بدستور پہلے کی طرح الٹی لیٹی ہلکا ہلکا سارے بدن کےساتھ مچلتی رہی اور پھر بھی خانم نےطیفے سے کوئی بات نہیں کی۔
                ادھرطیفا نرگس کو رام کرنےکے لئے نئے سے بھی نئےترپ کے تیر چلاتے ہوئے بولا؛ ویئسے خانم میں نےآج تک جس کی بھی پھدی چودی ہے مجھے کسی نے بھی ایئسا بدلے مین ریسپانس نہین دیا۔خانم اگر سچ کہون تو مجھے آج واقعی مین تمہاری چودائی کرنے سے بہت مزہ آیا ہے۔ویئسےجب میں تمہین آخری لمحون مین چود رہا تھا۔تو کیا تم بھی اپنی پھدی سے کھیلتے ہوئے میرے ساتھ فارغ ہو رہی تھیں؟۔
                کیون خانم جانو ایئسے ہی ہے نا؟۔۔؟
                تمہین بھی اس وقت مجھ سے چودنے مین بہت مزاء آ رہا تھا نا۔۔؟؟
                مگر نرگس خانم اب بھی بس خاموش سے ہی لیٹی رہی۔
                طیفے نے اپنے لن کو مسلا اور مسلتے مسلتے دوبارہ نرگس کے اوپر چڑھ گیا۔ ابھی اسکا لن پوری طرح سے کھڑا نہیں ہوا تھا۔
                اس نے لنڈ کو نرگس کی گانڈ کی بھاری متوالی دراڑ ہی کے درمیان پھنسایا،اور پھر طیفا خانم کے اوپر لیٹ گیا۔خانم اب بھی الٹا لیٹی رہی۔ایئسا لگ رہا تھا کہ نرگس خانم کو طیفے کی چودائی مین اپنی پھدی اور چوتڑؤن کے اتاولے پن سے اُچھال اُچھال کر ساتھ دینے پر اب ندامت ہو رہی تھی۔طیفے کا لن نرگس خانم کی نرم وملائم حؤتڑون کےدرمیان دبکاہوا مزے اور لذت کے بے پناہ دباؤ سے اپنے سر کو اُٹھانے لگا تھا۔
                طیفاجھک کرنرگس کی صرحی دار گردن کو چومتے ہوئے اسکے کان میں بولا؛خانم کیا تم ایک بار پھر سے وہی مزاءلینا چاہتی ہو بولونا جانو؟۔
                نرگس خانم اب ہلکا سا لذت سے سسک کر بولی؛ہاں ہان مگر اب جلدی سے کرو۔مگر پہلے کی طرح تم کوئی نیا مسئلہ مت کھڑا کرنا ؟پلیزز اب جلدی سے پھر مجھے چود ڈالو۔
                جس سے طیفا بولا؛اسی طرح سے اگر تم مجھے پہلے بھی کہہ دیتیں توسوچوخانم تم کو بھی کتنا مزاء آتا۔
                مگر خانم بولی؛میں کئیسے تم سے یہ سب کہتی مین تو تمہین جانتی تک نہیں ہوں۔اور پھرتم نے میرے ساتھ زیادتی کرنے کی کوشش کی تھی۔ تم مجھے سے پیار تھوڑے کرتے ہو۔میں اپنی عزت لوٹنے والے سے کیئسے یہ سب کہتی کہ میرے ساتھ اس اس طرح سے میری چودائی کرو۔
                طیفا نرگس کے ہونٹون اور ممے چھیڑتے ہویے بولا؛مگر خانم میں نے تو تم کو کہا تھا کہ میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہون اور تم مجھ سے کھل کر بات کر سکتی ہو۔
                نرگس اب کچھ لمحے خاموش رہی پھرطیفے کے ہونٹ چومتے ہویےاس کوسیکس کا ریسپانس دیتے ہوئے بولنے لگی۔
                میں دس سال کی تھی جب حاکم لالہ نے میرے اور بہادر کے سامنے ایک چھوٹی سی لڑکی کا ریپ کیا تھا۔آس لڑکی کی پھدی کی جگہ بہت تنگ تھی تو لالہ نے بھرپور زوراور طاقت سے اس کو چود دیا۔ پھر وہ جب بھی کسی کو حویلی لاتا تھا ہمیشہ مین بہادر کے ساتھ حاکم لالہ کے ان لائیو نظارون کو دیکھا کرتی تھی۔مجھے وہ سب اچھا لگنے لگا ۔مجھے ان منظرون کو دیکھنے سے بہت مزا آتا ہے۔پھر یہ سب دیکھتے دیکھتے نہجانے کتنے سال گذر گئے۔اب کافی عرصے سے مجھے میرےخوابون مین حاکم سائین آ کر میرے ساتھ بھی وہ سب کچھ ویئسے ہی زبردستی کرتا تھا۔مگر حقیقت مین یہ سب ہونا تو ناممکن تھا۔ پھر میرا دل و من بیکل رہنے لگا تھا۔کہ پھر ایک دن مجھے خیال آیا کہ کیون نہ مین بہادر کے ساتھ یہ سب کر ڈالون۔پھر مین نے کتنی بار ہی بہادر سے اییسے کرنے کو کہا۔مگر وہ حاکم بھائی سے بہت ڈرتا تھا۔۔
                پھر حاکم بھائی کی شادی کے رات بہادر نے پہلی بار میرے ساتھ کیا تھا۔مجھے بہت اچھا لگا مگر اب نہجانے حاکم لالہ نے اس کے ساتھ کیا کیا ہو گا۔
                نرگس خانم طیفے کے ہونٹ چوستے چوستے ساتھ رونے لگی۔
                طیفے بھی سوچ مین پڑ چکا تھا کہ اب نرگس کی اس گریہ زاری کا کیا جواب دے۔
                اتنے مین نرگس پھر سے طیفے کے لن کو اپنی گانڈ کے ملائم پھاٹکون مین دبا دبا کر مسلتی ہوئی بولی۔مجھے تمہارا وہ سب زبردستی میرے ساتھ کرنا بہت اچھا لگ رہا میری پھدی نے نہجانے کتنی بار اپنے بند توڑ توڑ کر منی کے سیلاب بہائے ہین مگر پھر بھی مین یہ سب تم سے نہیں کہہ سکتی تھی کہ تم میرے ساتھ اذیت بھری چودائی کرو۔
                ۔
                جس سے پھر طیفا بولا؛ تو پھر خانم جانو اب کیون خود سے ہی سب کچھ مجھ کوبتلائے جا رہی ہو ؟
                جس پر نرگس تھوڑا تنک کر خفت سے بولی؛ کیونکہ میرے اس کمینہ بدن اورنگوڑی پھدی اورچوتڑون نے مجھ سے بغاوت کر کے تم سے خود ہی تو لپیٹ لپیٹ کر بہت مزا اُٹھایا ہے۔اب بس مین نے جان لیا ہے کہ تجھ سےمیری مزاحمت کرنا تو بیکار ہے۔ چلو اب جلدی سے تم ایک بار پھر سے مجھے پہلے کہ ہی طرح چودو۔
                طیفے نے لن کی ٹوپی نرگس خانم کی گانڈ کے اوپر رکھ کر مسلتے ہوئے بولا؛ بس جانم تھوڑی دیر اور۔۔
                جس پر نرگس طیفے سے لذت سے سسک کر بولی؛ہمین ادھر چندگھنٹون سےبھی کچھ زیادہ ٹائم ہوگیا۔ اب تو خود اور مجھ پر کچھ خیال کرو۔اور تم جلدی سے میری پھدی چود ڈالو نا اور مجھے کتنا انتظار کرنا ہے؟۔
                طیفا ہنس کر بولا؛خانم جانو تم مجھے اب صیح مزا دے رہی ہو اور وییسے بھی یہ تو حقیقت ہے کہ خانم تم گوٹھ کی سبھی لڑکیون اور عورتون سے بہت خوبصورت ہو ساتھ پھدی اور تمہارے ممے بھی بہت کمال کے ہیں۔اب تو ساری زندگی بھی میرا دل تم سے ہمیشہ نہیں بھرے گا۔
                اب طیفے کا لنڈ مکمل کھڑا ہو چکا تھا کیوں کہ اس کو فارغ ہوئے تقریبا أدھے گھنٹے سے زیادہ ٹایم ہوگیا تھا۔
                طیفے نے لن کو تھوڑا سا زور لگایا تو وہ ساتھ ہی دوہرا ہونے لگا۔پھر نرگس کے چوتڑون پر تھوڑا سا اور رگڑا تو وہ مکمل سخت ہو گیا۔اب کی بار طیفے کے زور لگانے سے لن پھدی کے لبون کے اندر داخل ہونے لگا۔ نرگس نے ہلکی سی لذت بھری آہ کی آواز نکالی اور ساتھ ہی اپنے ہاتھوں سے تھامی زمین پر سے گھاس کو مٹھی میں پکڑ لیا۔طیفے نے نرگس کی صراحی دار گردن پر ہونٹ رکھ کر ہلکا سا دانتوں سے بائٹ کاٹا۔ جس سے نرگس خانم نے اپنی چکنی رانوں کو تھوڑا کھول دیا،جس سے طیفے کا سارا لن خانم کی پھدی میں گھستا چلا گیا۔ اور نرگس نے خود ہی ساتھ ہلکے ہلکے پیچھے کو اپنے چوتڑ اوپر اچھالنے شروع کر دیۓ۔
                طیفے نے پھر جب چند زوردار جھٹکے دیئے تو نرگس اس سے بولی؛ اہ اہ اوففف تمہارا بہادر اورحاکم سائین سے ہتھیار بہت بڑا ہے اور ساتھ بہت زیادہ موٹا بھی مجھ کو لگتا ہے۔اہ اہ اہ پلیززز تھوڑا أرام اور آہستہ سے کرو نا۔
                جس سے طیفے لذت أمیز لہجے مین بولا؛خانم جانو اب تو کھل کر کہو نا۔۔کہ مین کیا کرؤ ؟؟
                نرگس بھی مذید سسک کر مزے مین بولی؛اہ اہ اہ اوفف اہ یہی کام جو تم میرے پیچھے سے کر رہے ہو۔اہ اوفف تھوڑا تو آرام سے کرو۔؟۔
                پھر طیفے نے مستی اور خانم کی مکمل رضامندی سی جنگل مین اُسی جگہ نرگس خانم کو دو بار مزید چو د ڈالا۔
                اور پھر اندھیرا ہونے پر اپنے ساتھ کواٹر بھی لے گیا۔
                وہ تو شائید خانم کو ساری زندگی ساتھ ہی رکھتا مگر اس کے چند ہفتون بعد ہی جگو ڈاکو کے پیچھے دورے پر جانے ک . وجہ سے نرگھس خانم گوٹھ سے ہمیشہ کیلئے غائب ہو گئی۔


                ❤❤
                اس فرعونیت کے چیلے کو کاش کوئی تو یہان آ کر برباد کرے،اس کی قبر مین کیڑے پڑین۔۔مالک سائیں اسے تباہ و بربادکرے ،وہ کبھی خوشی آرام و سکون کا منہ ساری زندگی نہ دیکھے ....ماکھے کی بیوی اب تھانیدار کو کوسنے لگی ۔
                بھلی لوکے”اس طرح بد دعائیں دینے سے تو اب کام نہیں چلے گانا نیک بخت !.اری.تم..کوئی عملی تجویز سوچو ۔ورنہ وہ قسائی مارمار کر ہمارے بیٹے کو معذور کر دیں گے ،یا شاید جان ہی سے مار ڈالین،وہ بہت ظالم اور سخت دل ہیں۔“وہ اس پر ظلم وستم۔اور اذیت رسانی کے اپنے سارے ہی ہنر آزمائے جا رہے ہین۔۔
                سکندر”کے ابّا !..تت..تم نا پھر شہر چلے جاﺅ۔ وہان بھائی جان بہت پڑھے لکھے سمجھدارہیں۔وہ ضروراس کا کوئی حل نکال لیں گے۔“اس کی بیوی نےبھی وہی مشورہ دیا جو اس سے سکندر نے کہا تھا ۔اور پھر ماکھے نے اگلی صبح شہر جانے کا ارادہ مصم کر لیا ۔
                ”کیا ....؟“ماکھے کی ساری بات سنتے ہی اس کا سالا خورشید یکدم سے ہتھے سے اکھڑ گیا تھا ۔اس ”تھانیدار کی اتنی جرّات۔وہ سرکار کا ملازم ہوتے ہوئے اتنا بڑا غیر قانونی کام۔“
                کر رہا ہے۔
                دوسرے دن شہر پہنچتے ہی ماکھے کی ایما پر اس کے سالے نے سکندر کے دوست شہزاد بٹ کوبھی وہین بلالیا۔اورپھرتینون کےڈرائینگ روم مین اکٹھےہوتے ہی شہزاد کے کہنے پر ماکھے نے سکندر پر گزرنے والے وہ سارے حالات ان دونون کے گوشہ گوار کردیے۔۔
                ”بھائی جان !...ہمارے گوٹھ کی سرکار وڈیرا حاکم خان سائین ہے اور سکندر پر بیتنے والی سب بپتا تو حاکم خان کی ہی منشا پر ہو رہا ہے ۔ہم ان کے خلاف تو کبھی کچھ بھی نہیں کر سکتے۔وہ ظالم تھانیدار تو اب پولیس مقابلے کی آڑ میں سکندر بیٹے کو جانی نقصان بھی پہنچا سکتا ہے ۔اور ہمارے پاس اسے جھٹلانے کا کیا ثبوت ہو گا ۔“
                آپ”بلکل ہی فکر نہ کرو مختار چاچا !....میں آج ہی وکیل کا بندوبست کرتا ہوں ۔جلد ہی ہم پھر سکندر کو حوالات سے باہر کر وا لین گے۔۔
                ”نہیں شہزاد پُتر !....ماکھے“ نے نفی میں سر ہلایا۔”یہ تو اب ممکن نہیں ہے ۔اگر ہم نے وکیل کیا تو جانے اور کون کون سے جرائم تھانیدار میرے بیٹے کے سر منڈھ دے ۔وڈیرے کی وجہ سے سارے گاﺅں نے تھانیدار کی حمایت اور حق ہی میں بولنا ہے ۔یہ نہ ہو ہماری اس قانونی کارروائی کو وہ ہٹ دھرمی جان کرپھرمیرے بیٹے کو کوئی ناقابل تلافی نقصان ہی پہنچا دیں ۔“
                جس پر خورشید پھر تلخی سے بولا۔”تو بھر پھر کیا مین اپنی دھی اس کمینے کے پاس بھیج دوں ؟“
                ”نہیں چاچا۔“شہزاد بٹ نے فورا ہی نفی میں سر ہلایا۔”بھابھی کے بارے مین تو ایئسے کچھ سوچیے بھی مت۔۔لیکن ہم اب مل کر کوئی ایسی تجویز تو سوچ سکتے ہین نا کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے ۔“
                شہزاد بٹ کی بات پر خورشید کسی گہری سوچ میں ہی ڈوب گیا ۔چند لمحوں بعد اس کی آواز ابھری ۔ماکھے”کیا تھانیدار نے ہماری رضیہ بیٹی کو دیکھا ہوا ہے ۔
                ”نہیں ۔“ماکھے نے فورا ہی نفی میں سر ہلایا۔
                ”ہونہہ!....پھر“گہرا سانس لیتے ہوئے خورشید شہزاد بٹ اور ماکھے کی طرف دیکھ کر ہلکے سے مسکرایا ۔”اب دیکھنا میں تھانیدار کو کیسا سبق سکھاتا ہوں ۔“
                ”مگر کیسے ؟“ماکھا بھی اسے ہنستا دیکھ کر خوش ہو گیا تھا ۔
                اب”یہ تم مجھ پر چھوڑ دو اور ۔تم بس آرام کرو ۔“ کہتے ہوئے خورشید شہزاد کو اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کرتے ہوئے کھڑا ہو گیا۔
                ارے ہاں”ایک تھی تو سہی ادھر ایئسی بچی ۔اس خوبصورت سی“خرانٹ نائیکہ نے سوچنے کی اداکاری کی ۔وہ ”بڑی خوب صورت بچی تھی ۔مگر آپ کو اس سے کیا لینا ؟“
                ہم پر”آپ کی بڑی مہربانی ہو گی اگر آپ اس کا پتا ہمین بتا دیں تو۔“خورشید نے ملتجی لہجے مین بولا۔اور شہزاد بس خاموشی سے اس نائیکہ اور چچا خورشید کے مابین ہونے والی باتون کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔
                آپ لوگون کو”بتا تو دوں سب مگر....مگر فائدہ،مطلب مجھے کیا فائدہ ؟....یوں بھی اس نے مجھ سے درخواست کی تھی کہ اس کا راز طشت ازبام نہ کروں ۔“
                ”اس کے بھلے کی بات ہے بائی جی !....اور آپ کے لیے کیا اتنا فائدہ کافی رہے گا ۔“شہزاد نے خورشیدچچا کامقصد سمجھتے ہوئے اس سیچوئیشن کو خود کنٹرول کرتے ہوئے ہزار ہزار کے پانچ نوٹ اس نائکہ کی جانب بڑھائے ۔
                نوٹ جھپٹتے ہوئے بوڑھی دلالہ نے انہین ایک فلیٹ کا پتا دہرا دیا۔
                شہزاد اور خورشید پھر شکریہ کہتے ہوئے وہاں سے باہر نکل آیا ۔
                بس”بیس ہزار میرے لیے کافی ہیں بھائی صاحب !“سوگوار چہرے والی وہ لڑکی شہزاد کو کافی بھلی لگی تھی ۔اسے یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ وہ ایسے موذی مرض میں مبتلاہو سکتی ہے۔ویئسے”میں تو اس سے بھی بہت کم معاوضے پر راضی ہو جاتی ۔ مگر ان دوائیوں کی خریداری کی مد میں مجھے کافی خرچا کرنا پڑتا ہے اور میری اب آمدن نہ ہونے کے برابر ہے ۔اور پرائیویٹ نوکریوں کی تنخواہیں تو آپ کو معلوم ہوں گی ۔باقی آپ کی کہانی جان کر تو میں یقینا مفت بھی راضی ہو جاتی کہ میری نظر میں یہ نیکی کا کام تھا ۔“
                اور خورشید اور شہزاد اس کے یوں آسانی سے مان جانے پر گہرا سانس بھر کر رہ گیے تھے ۔گو اس کام کے بارے اس لڑکی کو بتاتے ہوئے انہین کافی ہی شرمندگی بھی محسوس ہوئی تھی ۔مگر اپنی بیٹی رضیہ کی عزت اور سکندر پر آئی اس مصیبت کے چھٹکارے کے ہی خاطر وہ یہ سب بھی کر گزرے تھے۔
                پھر وہان سے واپسی کے سفر مین شہزاد خورشید چاچا سے بولا.۔چاچا مین اب بھی کہ رہا ہو ن کہ سکندر کے باہر آنے کے بعد مین اس فرعون صفت تھانیدار کو زندہ نہین چھوڑؤ گا۔۔
                خورشید شہزاد کے کندھے کو پیار سےہلکا سا تپھتپاتے ہوئے۔ بیٹا مین تمہارے جذبات کو سمجھتا ہون۔مگر موت تو اس کے لیے اپنے گناہون سے نجات ہو گئی۔اسے تو اب ساری زندگی ہی سزا بھُگتنی ہو گئی۔
                شہزاد اور خورشید کے باہر نکلتے ہی ایک ادھیڑ عم کی انتہائی خوبصورت عورت أپنے أنسو پونچھتی ہوئی اس سوگوار حسین کے پاس چلی آئی۔
                __________۔
                موسلا دار بارش مین رات اپنی بھیانک تاریکی آنکھوں میں جھونک رہی تھی۔ ہاتھ کو ہاتھ سمجھائی نہیں دے رہا تھا اور موسلا دھار بارش کا طوفان لمہ بہ لمہ بڑھ رہا تھا۔ایئسے مین ایک بھگی اندھیرے میں بل کھاتی ہوئی گوٹھ کے بیرونی کچی سڑک پر بڑھی ہی چلی جارہی تھی ۔ طوفانی ہوا اور بوچھار کے تندوتیزتھپیڑے ہر آن رہ رہ کربگھی کے ساتھ ٹکرا رہے تھے۔۔
                بارش کا چھاجوں برستا ہوا پانی کچی مٹی کے ساتھ مل کر بگھی کے پہیون کو ناکارہ بنا رہا تھا۔اور اوپر سے دیر ہونے کے کارن ماکھے تیز سے تیز کرنے کی دہائی اس کودے جا رہا تھا۔
                بگھی کا وہ بوڑھا کوچوان احتیاط سےچلاتا ہوا منزل کے قریب پہنچنے کو تھا۔بگھی کو اس سے تیز چلانا ویئسے ہی ناممکن تھا،۔ اس لئے وہ کوچوان ماکھے کے چلانے پر جھنجھلا بھی رہا تھا،۔
                اٹھتے طوفان برستی بارش مین انہین گوٹھ پہنچنے کے باعث پہلے ہی کانی دیر ہو چکی تھی۔پھر بالآخر گوٹھ"کے تھانے کے اس برآمدے کے سامنے وہ بگھی آکر رک گئی.اس وقت تھانے کی بس چند ہی بتیاں روشن تھیں اور تھانے کا بیشتر سے بھی زیادہ حصہ تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ماکھا تیزی سے بگھی کا دروازہ کھول کر باہر نکلا طوفانی ہوا کے تھپیڑوں سے اُس کے بدن میں تیزجھر جھری سی دوڑ گئی۔ اس نے پھر جب زور زور سے کوئی ہے کوئی ہے پکارا۔
                تو نہجانے کدھر سے ایک سپاہی سامنے چلا آیااور ماکھے کے پوچھنے پر تھانیدار کا اپنے کواٹر مین ہونے کا کہ دیا۔

                پھر بھگی سے ایک دوشیزہ کا سر اورس اتھ اسکے چھریرےبدن کا بالائی حصہ نمودار ہوا ۔ سپاہی کی آنکھیں پھیلنے لگیں ۔ اسے ایسا محسوس ہوا جیسے کسی جادو گر نے ۔کہیں جادو کا گولہ چھوڑ دیا ہو اور جس کے پھٹنے پر آسمان سے ایک پری زمین پر اتر آئی ہو ۔
                گھنگھریالے بالوں میں سفید دودھیار نگ، بادامی آنکھیں ، شہ دار بھنویں، لمبی سیاہ پلکیں ، آنکھوں میں ! سرمہ کی ہلکی سی دھاری ، ماتھے پر کا جل کا ٹھیکہ ، گلابی دہکتے ہوئے رخسار ستواں ناک، رسیلے ہونٹ ، نیچلے ہونٹ کے کنارے پر سحرانگیز تل ۔ ٹھوری میں ہلکا ۔ ساگڑ ھا ، گردن ہنر و صناعی کا شاہکار اور اس کے جو بن کے دلفریب متوالے ابھار
                دل و نگاہ کے لئے ہزاروں دیتی دعوتیں عجیب سا عالم تھا ۔
                وہ سپاہی تھانے مین برآمدے کے پیلرکے پاس کھڑا جیسے اس کےحسن و جمال کی دنیا میں گم ہو گیا تھا۔ اُ سے اپنے گردو نواکا کچھ ہوش نہین تھا۔
                اس دوشیزہ نے سپاہی پر طاری یہ کیفیت دیکھی تو وہ ہلکا ساجھینپ کر ماکھے سے بولی چاچا کیا تھانیدار ملا ۔ہے۔
                ماکھا ۔۔ارےے بیٹا ہمین تھانے کے ساتھ اس کے کواٹر جانا ہے۔

                دروازے پر ہونے والی دستک سن کر تھانیدار چونک پڑا تھا ۔ناگواری کے انداز میں اٹھتے ہوئے اس نے دروازہ کھولااور ماکھے کو سرخ کپڑوں میں لپٹی لڑکی کے ساتھ دیکھ کر اس کا دل بلیوں اچھلنے لگا ۔
                اس نے معنی خیز لہجے میں کہا ۔ او۔۔ اچھا تو ماکھے یہ تم ہو”بہت ہی اچھا کیا تم نے بزرگو !....ورنہ آج رات ہی سکندر کی تفتیش شروع ہو جانا تھی ۔ا ب وہ صبح واپس آجائے گا ۔اور اپنی بہو کی بھی فکر نہ کرنا،میں اسی کوئی نقصان نہیں پہنچاﺅں گا ۔بس اسے تھوڑا جاگنا پڑے گا ۔ “یہ کہتے ہی اس نے ماکھے کو کچھ بولنے کا موقع دیے بغیر اس کے پہلومیں کھڑی سرخ کپڑوں کی گٹھری کو اندر گھسیٹا اور کواٹر کا دروازہ زور سے بند کرتے ہوئےکنڈی کر دیا ۔
                وہ کنوارا تھا کیونکہ شادی کر کے وہ خود کو کسی ایک کا پابند نہیں کر سکتا تھا ۔یوں بھی جسے حرام کاری کی لت پڑ جائے اس کے لیے حلال میں لذت باقی نہیں رہتی ۔
                دھڑکتے دل کے ساتھ اس نے سکندر کی دلہن کا گھونگھٹ الٹا ۔اپنے دل کی دھڑکنیں اسے بے ربط ہوتی ہوئی محسوس ہوئیں ۔حسنِ سوگوار پر دلہناپے کا روپ خوب چڑھا تھا ۔ اور پھر ماکھے کو نہجانے یہ کیا سوجھی تھی کہ اس نے بہو کو خوب سجا سنوار کر اس کے پاس بھیجا تھا حالانکہ اس نے ایسی کوئی شرط نہیں رکھی تھی ۔خیر کچھ بھی تھا اس نے تھانیدار کو خوش کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی ۔اتنا تعاون کرنے والا نہجانے اس وڈیرے کی حکم عدولی پر کیسے راضی ہوا تھا ۔
                خیر اس نے زیادہ دیر اس مسئلے میں سر کھپانا مناسب نہ سمجھا کہ اس کی دلچسپی اور توجہ کے لیے ایک بہت خوب صورت اور سہما سہما اب کھلونا اس کے سامنے موجود تھا ۔اسے تو یہ بھی بھول گیا کہ وہ ابھی تک رات کا کھانا نہیں کھا سکا تھا ۔
                اس نے بہت ہی تیزی اور سرعت کے ساتھ اپنے اور اس سوگوار حسین کے سارے کپڑے أتار ڈالے اور اس کو بانہون مین لے کر اپنے بیڈ پر چلا گیا۔
                پھرتھانیدار طیفے نے ماکھے کی بہو کا ہاتھ پکڑ کر اس کو اپنے پاس کھینچا اور ساتھ لپٹاتے ہوئے بولا:ارےے چھوری اب تم اپنے خاوند کی طرف سے بلکل ہی بےفکر ہو جاؤ اور اطمینان سے میرے ساتھ حسین لمحات کا پورا مزہ لو یہ کہتے ہوئے طیفے نے اس کے ہونٹوں پر جھکتے ہوئے اُس کے ہونٹوں کو چوسنا شروع کر دیا۔جبکہ نیچے سے اسکا تگڑ لن پھدی مین گھسنے لگا۔۔
                وہ لڑکی بھی طیفے کے ہونٹون مین ہونٹ ڈال چکی تھی اور ساتھ اس کی پھدی طیفے کے لن کو اپنے لبون میں لیکر اس کے چوپے لگانے لگی۔۔۔
                پھدی کےگرماگرم لبوں کے لمس کوطیفے نے لن پر محسوس کرتے ہی اس کے سارے جسم کو ایک پرشہوت تیز جھٹکا سا لگا اور اس نے پھر بھرپور انداز میں پھر سکندرکی نئی نویلی اُس سندر جوان دلہن کا ساتھ دیتے ہوئے اپنے سارے منہ کو کھول کر اس کی پتلی سبک زبان کو اپنے حلق مین کھینچ کر اپنی زبان سے دبا دبا کرچوسنے لگا۔
                ادھر نیچے سے اس کی وہ رس بھری پھدی اب بڑے سٹائل سے اس کا آدھا لن اپنے گلابی لبون مین۔پھنساۓ شدت سے جکڑ کر چوس رہی تھی۔۔۔
                پھر طیفے نے اس جوان حسینہ سے بہت آہستہ سے اپنے ہونٹ چھڑائے اور تھوڑا نیچے جھک کر دیکھتے ہوئے اپنے لن پر اس کی پھدی کے چوپے دیکھنے لگا۔طیفے کو ماکھے کی نئی نویلی دلہن تو انتہائی منجھی ہوئی سیکس چودائی کی کھلاڑی لگ رہی تھی۔جو طیفے سے چودنے کے بجائے۔۔الٹا اس کو گنے کی گنڈیری کی طرح چوسنے کے درپے ہو چکی تھی۔
                اس کی پھدی کے گلابی پھولے لب پوری طرح سے کھلے ہوئے تھے۔۔۔اور وہ بڑے جوش اور شدت کی دیوانگی سے طیفے کے لن کو اپنے اندر کھینچے جا رہے تھے۔۔۔طیفا یہ سب دیکھ کر سیدھا ہو کر بیٹھا اور دونوں ہاتھوں سے اس کے بھاری بھر کم چوتڑون کو پکڑ کے اپنا لن پھدی کےاندر مکمل گھسیڑ کر اس کی رسیلی پھدی کو بڑے پیار سے چودنے لگا۔
                جس سے سکندر کی اس جوان بیوی کا سندر مکھڑا بھی پھدی کے ساتھ تھوڑا سا مذید کھل گیا اور اس کا دل چاہنے لگا کہ کاش طیفے کا یہ لن پھدی کے بجائے اوپر اس کے منہ میں آ جائے اور پھر طیفا بہت دھیرے دھیرے پیار سے اس کے منہ کو چودتا رہے۔
                طیفے نے پھر جیسے اس کے دماغ مین چلتی ہوئی بات پڑھ لی ہو۔۔۔کیونکہ اُسے ان نشیلی آنکھوں میں اپنے تگڑے لن کی بھوک واضح محسوس ہو رہی تھی۔۔۔اس نے فورا رس بھری پھدی کے ہونٹون سے لن کو باہر نکالا اور ہلکا سا اپنا رخ اوپر کو موڑتے ہوئے بیڈ پر کھڑے ہو کر لن کو اس سحر انگیز پرکشش سندر حسینہ کے مکھڑے کی طرف کیا تو پھر لن اس کے پتلے شہد بھرے ہونٹوں کے بلکل ہی قریب آ گیا۔
                اس متوالی حسینہ کی خواہش پوری ہو رہی تھی۔۔۔اس نے بڑے پیار سے پہلے ہونٹوں کو طیفے کے لن کی ٹوپی پر رکھ کر ہلکا کِس کیا اور اپنا سارا منہ کھول کر طیفے کے بڑےلن کو منہ میں لینے لگی۔
                طیفے کا موٹا اور تگڑا لن اس حسینہ کے منہ کو مذید کھولتے ہوئے منہ کی تہون میں أہستہ آہستہ سارا ہی گھستا چلا جا رہا تھا۔۔تبھی طیفے نے اس سحر انگیز حسینہ کے سر کے بالوں کو پیچھے سے پکڑ لیا اور پھر بڑے جوش اور شدت سے اس کے منہ کو چودنے لگا۔
                پھر جب کچھ دیر بعد طیفے نے لن کو باہر نکالنا چاہا تو اس وحشی مٹیارنے اپنے ہونٹوں کے ساتھ گرِپ کرتے ہوئے طیفے کے لن کی ٹوپی کو وہین جکڑ لیا اور اپنی زبان کی نوک سے لن کے اکلوتے سوراخ پر چھیڑخانی کرنے لگی۔۔۔لن کے سوراخ میں زبان کی نوک محسوس کرتے ہی طیفے کے منہ سے لطف و لذت بھری مزے سے بھرپور سسکاری برآمد ہوئی۔
                ساتھ ہی اس متوالی حسینہ نے طیفے کو دیکھتے ہوئے لن کو چھوڑ کر اپنی رستی ہوئی رس بھری گلابی پھدی کی طرف اشارہ کیا تو وہ آگے پھدی پر جھک کر پھدی کی رستی ہوئی ملائی کو سائیڈوں سے چاٹنے لگا۔۔۔پھر پھدی کو چٹوانے کے ساتھ اس اتاؤلی حسینہ نے طیفے کے لن کو اپنے پرکشش چہرے پر پھیرتے ہوئے لن کی اکلوتی آنکھ سے باہر نکلا پریم رس چاٹ ڈالا اور اب ان دونوں نے ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیڈ پر لیٹ کر لن اور پھدی پر ایک ساتھ اپنے منہ پھر سے جوڑ دیے۔
                ان دونون کے جوش اور بے قراریون سے یوں لگتا تھا کہ وہ جئسے لن اور پھدی کو چوسنے کیلئے ہی پیدا ہویے ہون۔۔۔پھر طیفے نے اپنا منہ رسیلی پھدی کے دونوں لبوں کے عین اوپر بہت سختی سے چپکا کر ان کے درمیان مین زبان رکھی اور اس کو آگے پیچھے ہلاتے ہوئے اس کی پھدی کوزبان سے ہی چودنا شروع کر دیا۔۔۔
                ادھر اس مٹیار نے بھی باری باری طیفے کے دونوں ٹٹون کو اپنے منہ میں بھر کر چوسا اور ساتھ ہی سارے لن کو اپنے حلق مین گھسیڑ کر طیفے سے منہ کو چودوانے لگئی۔
                پھر ایک بار جب طیفے نے لن کو اس کے منہ سے باہر نکال کر ساتھ ہی پھدی کے لبون کو اپنے دانتون مین دبا کر ہلکا سا بائٹ کاٹا تو وہ اتنی بری طرح سے پرشہوت جذبات کے ہاتھون خوار ہو چکی تھی کہ وہ لن کو منہ میں لیتے ہی انتہائی ماہر رنڈی کی طرح زور سے چوپے لگانے لگی۔
                جس سے طیفے نے بھی زور لگا کر اپنے تگڑے لن کواس کے حلق تک دھکیل ڈالا۔۔۔پھر
                جیسےہی طیفے کے لن کی ٹوپی نےسکندرکی بیوی کے حلق میں جا کر ڈبکی لگائی ایسا لگا کہ وہ مٹیار لذت کے گہرے ساگر مین ڈوبتی کسی اور ہی جہان میں چلی گئی ہو۔۔۔
                ادھر طیفے کی مست مدہوشی کا عجیب عالم تھا اس حسینہ کا حلق اتنا نرم اور ملائم تھا کہ مانو جیسے لن کسی نرم،ملائم اور گرما گرم مکھن کے پیڑے میں جا پھنسا ہو۔
                طیفے نےچند دفعہ اس کے حلق تک لن پہنچایا اور پھر لن مین بے پناہ تناؤ أتے ہی اس کے منہ سے باہر نکال لیا۔
                اور ساتھ ہی دل میں سوچا کہ بس اتنا بہت ہے کہیں اس کے حلق میں ہی نہ چھوٹ جاؤں اور پھر سکندر کی نئی نویلی دلہن کو چودنے کا باقی کا پروگرام دھرے کا دھرا رہ جائے۔اس لیےاب اصل کام یعنی اس اتاؤلی حسینہ کی رس بھری پھدی کی چدائی کی طرف آنا چاہیے۔
                یہ سوچ کر طیفے نے سحر انگیز حسینہ کے سوگوار مکھڑے کی طرف دیکھا تو وہ اپنے مموں کو دباتے مسلتے ہوئے راانیں کھول کر اپنی پھدی کو مسل رہی تھی۔۔۔اور ساتھ ہی ساتھ طیفے کی طرف بے پناہ ہوس بھری نگاہوں سے دیکھتی جا رہی تھی۔
                طیفے نے ٹانگیں کھول کر بیڈ پر نیم دراز ہوتے ہوئے تکیے سے ٹیک لگائی اوراس مٹیارکو اپنی طرف کھینچا۔
                وہ مٹیار دلفریب متوالے سٹائل سے مٹکتی ہوئی الٹی طرف منہ کر کے دھیرے دھیرے طیفے کے لن پر بیٹھ گئی۔۔۔جبکہ وہ اس کے دلفریب ابھرے چوتڑون مین درمیانی سوراخ پر انگلی اور انگوٹھے سے اس کی پرکشش گانڈ کا جائزہ لینے گا۔
                جیسے ہی اس نے طیفے کے لن پھدی کے اندر لیکر اوپر نیچے ہونا شروع کیا تو اس کی رس بھری پھدی نے طیفے کے لن کے ساتھ ساتھ ٹٹوں کو بھی اپنی پھدی کےہونٹون کےساتھ چاٹنے لگی۔
                طیفہ بھی نیچے سے اپنے لن کو زور سے جھٹکے مارے جا رہا تھا۔۔۔کچھ دیر بعد سحر انگیز حسینہ طیفے کے اوپر سے اٹھی اور پھراس کے چہرے کی طرف مکھڑا گھما کراسکے لن پر پھر سے بیٹھ گی۔۔۔اور خود ہی پھر سے لن کے ساتھ پھدی کا ملاپ پرشہوت جوش و خروش سے کروانے لگئی۔
                طیفا بھی اب پھر سے لن کو نیچے سے زور زور سے اوپر کو دھکے مارے جا رہا تھاجبکہ اس مٹیار کے اچھلنے کی رفتار بہت بڑھنے لگئی۔
                کچھ دیر بعد ہی اس سحر انگیزحسینہ کا متوالہ بدن اکڑنا شروع ہوا۔تو ساتھ ہی اس کی آنکھیں نیم مست مدہوشی کی کیفیت میں بند ہونے لگیں۔۔۔اس نے پھر آگے جھک کر طیفے کے ہونٹون پر اپنے لبون کو چپکایا اور اپنے ہاتھوں سے طیفے کے مظبوط کندھون سےپکڑتے ہوئے ساتھ اپنی پھدی سے اسکے لن کوجکڑتے ہوئے پرکشش دلفریب چوتڑون کو اٹھا اٹھا کر زور شور سے طیفےکےتگڑے لن کو چودنے لگئی۔
                پھر چند لمحوں بعد ہی اس کی پھدی سے گرماگرم ملائی طیفے کی لن پر برسنے لگئی۔
                اس اتاؤلی مٹیارکاپرکشش بدن تیز ہچکولون سے لگاتار ہی تیز جھٹکے کھا رہا تھا اور اس کی چکنی ملائم رانیں بری طرح سے کانپ رہی تھیں۔۔اچانک پھر اس کا بدن ڈھیلا ہوا اور وہ طیفے کے اوپرنڈھال ہو کر وہیں لیٹتی چلی گئی۔
                طیفا بھی اپنے لن کو پڑنے والے کھچاؤ کے سبب تھوڑا اٹھ کر بیٹھ گیا۔۔۔جب اس نے دیکھا کہ وہ مٹیار پوری طرح سے فارغ ہو گئی ہے!!!تو طیفے نے اپنے اوپر سے اُسے بیڈ پر ہی کروٹ دلائی اور خود اٹھ کر سامنے موجوداس کےدلفریب چوتڑؤن سے مزین گانڈ کے ساتھ اوپر جھک گیا
                اور وہ بھی اپنی پرکشش گانڈ کے دوار ہلاہلا کرطیفےکی توجہ خودپربڑھانے لگی۔ساتھ ہی اس نے بے پناہ مستی سے اپنی گانڈ کی دونوں دلفریب پہاڑیوں کو پکڑ کر مخالف سمتوں میں ہی مکمل کھول دیا۔
                طیفے نے اس حسینہ کا جب یہ مست بلاوہ دیکھا تو اپنے لن لے جا کر سیدھا اس کی گانڈ کے گلابی کھلے سوراخ کے درمیان رکھ کر ساتھ ہی دلفریب ابھرے چوتڑون کو جکڑ لیا۔۔۔
                اس مٹیار کو جب طیفے کا لن اپنی مست گانڈ کی دراڑ میں محسوس ہوا تو بے اختیار مزے کی آہ اوفففف اس کے ہونٹون سےلذت بھری سسکتی آواز نکل گئی۔
                طیفا تھوڑی دیر تک اپنا لن ہلا ہلا کراس کی پرکشش گانڈ کیے گلابی سوراخ کو لن سے چومتا رہا۔۔۔تو اس اتاؤلی حسینہ نے خود ہی اپنی گانڈ تھوڑی سی پیچھے اوپر کو اُچھال دی۔
                ساتھ ہے طیفے نے بھی اپنے لن کو گانڈ کے اندر گھستے ہوئے دیکھ کر ایک زور کا گھسہ مار دیا تو اس کا لن پُڑھک کی آواز کے ساتھ گانڈ کی گہرایون میں گھستا چلا گیا۔
                پھر طیفے نے انتہائی بیصبری اور بیقراری سے چوتڑون کو پکڑ جکڑ کر گھسے مارنے شروع کر دیے۔۔کیونکہ وہ پہلے ہی اس مٹیار کے مست مدہوش اداؤن سے بہت گرم ہو چکا تھا۔
                طیفے کے زور دار دھکے سٹارٹ ہوتے ہی اس مٹیار نے منہ سے سیییییی کی آوازنکالی اور پھر بڑی تیزی سے اپنے چوتڑون کو پیچھے اوپر کو زور زور سے اُچھالنے لگی۔۔۔
                طیفے نے دس منٹ تک اس کو اسی ڈوگی مست پوزیشن میں پرشہوت انداز سے چودا۔۔اتنے مین وہ مٹیاربھی پھرسے صیح طرح سےگرم ہو چکی تھی۔اور وہ ساری جان سے اپنی مست گانڈ کو طیفے کے لن پر اُچھالتے ہوئے بولی۔۔اوفف۔۔۔ہائےےے۔۔رےےے ے ۔جانو اہ اہ اوف آج تو بہت عرصے بعد چودائی کا صواد آیا ہے اہ اہ اہ اہ اوف مزا ہی آ گیا۔
                ساتھ ہی اس کے دلکش چوتڑون کے جھٹکے بڑھنے لگے اور طیفے کواس کی پھدی سے نکلنے والی ملائی کی پھوار کی بیڈ پر گرنے کی بہت واضح آواز محسوس ہو رہی تھی۔
                طیفا اس کی فراغت محسوس کرتےہی وہیں رک گیا چند لمحے بعد جب وہ پھر سے ٹھنڈی ہو گئی تو اس نے آگے بیڈ پر لیٹ کر طیفے کا لن اپنی گانڈ سے باہر نکال دیا۔۔
                اور پھر اپنے پاؤں کے بل بیڈ پر بیٹھتے ہوئے طیفے کا لن جو کہ اس کی منی اور گانڈ کے مواد سے مکمل لتھڑا ہوا تھا اس کو اپنی زبان سےچاٹ چاٹ کر صاف کرتے ہوئے اکٹھا کرنے لگی۔
                طیفا وڑائچ ابھی تک فارغ نہیں ہوا تھا جبکہ وہ مست حسینہ اپنی پھدی کا پانی دو بار نکال چکی تھی۔
                اچانک ہی جیسے اس سحر انگیز حسینہ کے دماغ میں کلک سا ہوا تو اس کو اپناکیا ہوا پلان کچھ یاد آیا۔
                اس نے دلفریب انداز سے اُٹھ کر طیفے کے چہرے کو پکڑا اور اپنے مکھڑے کی طرف کھینچے ہوئےوہ اس کے کھردرے ہونٹون پراپنے گلابی متوالے رسیلے لب جوڑ دیے۔ اور پھر سحر انگیز دلنوا انداز سے طیفے سے فرنچ کسنگ کے دوران اس کے لن کا سارا وہ مواد اپنی زبان سے اس کے حلق مین لگاتارہی گھسیڑنے لگی۔
                طیفے کو اس کی زبان چوسائی سے کسی پرانی الکوحل شراب کا نشئہ چھانے لگا۔۔اور پھر وہ مسلسل جھوم جھوم کرمخمور انداز سے اس کی اتاؤلی زبان سے وہ زہر کشیدتا رہا۔
                پھر جب طیفے کو وہ نشیلی زبان خشک ہوتی محسوس ہوئی تو پھر اس نےبیڈ کے اوپر اب اُسے گھوڑی بننے کو کہا تو وہ مٹیار فور ہی اُٹھ کر گھوڑی بن گئی۔
                پھرطیفے نےپیچھےسے چوتڑون کے ساتھ سٹک کر اپنا لن اس کی رستی پھدی کے عین نیچے لے آیا اوراس کی پھدی کے دانے کو تگڑے لن سے رگڑ رگڑ کر مسلنے لگا ۔
                ۔
                کچھ دیر لن کے ساتھ مست شرارتون کرنے کے بعد طیفے نے ایک تکیہ اٹھا کر اس گھوڑی بنی ہوئی حسینہ کے سر کے نیچے رکھا اور پھر اس کو پتلی کمر سے پکڑ کر تھوڑا مذید گانڈ اوپر اٹھانے کو کہا۔۔۔
                جب اس نے اپنی مست گانڈ اوپر اٹھائی تو اس پوزیشن میں اس کی پرکشش دلفریب گانڈ درمیان سےچِر کر باہر اوپر کیطرف ابھر کر اور بھی پھیل گئی۔
                اس مٹیار کی گلابی گانڈ کا وہ متوالا سوراخ اور ساتھ بڑی ہی گہری دہانون والی سنہری گھفا ایک۔۔بڑے أفریتی طوفان کی مانند اپنےکھلے۔سوراخون سے طیفے کو گھورے جارہی تھین اس کووہ دونون ہی کافی کھلے ہوئے تباہ کن خوفناک جزیرے لگ رہاتھا۔جوخود طیفے کو اس مین غرق کی ہونے کی نوید نامحسوس انداز سے سنا رہے تھے۔
                طیفے نے غیر اضراری انداز مین کچھ اپنا تھوک اس کی گانڈ کے گلابی سوراخ پر پھینکا اور ہاتھ کی دائین انگلی سے اس مٹیار کی گانڈ کے مدھر سوراخ کو نرم کرنے لگا۔
                گانڈ کے سوراخ پر انگلی لگتے ہی اس سحر انگیز حسینہ نے سر گھما کر طیفے کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھوں میں طیفے کو کچھ سوالیہ انداز کے آثار نظر آئے۔۔۔جیئسے کہ رہی ہو صاحب جی آپ یہہ کیا کر رہے ہو اتنا بڑا گہرا غار نظر آنے کے بعد بھی ان فالتو کے چونچلون مین کیون اپنا اور میرا وقت برباد کرتے ہو۔۔
                مگر پھر بھی طیفے نے گانڈ کا سوراخ نرم کرنے کے بعد اس نے اپنا ایک گھٹنا حسینہ کے دائین چوتڑ کے پاس بیڈ پر ٹکایا اور دوسرے پاؤں پر وزن سنبھالتے ہوئےاپنا لن اس کی اتاؤلی ہوتی گانڈ کے سوراخ پر رکھ کر بہت ہی زور سے اچانک ہی سارا دباؤ ڈال دیا تو لن کی ٹوپی گانڈ کے اندر بہت تیزی سے گہرائی مین اترتی چلی گئی۔
                اور پھر آگے سے پہلی بار اس حسینہ کے منہ سے مستی کی سسکنے کی ہلکی سی اوں۔۔۔اہ اوں۔ کی آواز نکلی۔پھر طیفا آہستہ آہستہ دھکون سے لن کو گانڈ کے اندر باہر کرنے لگا۔
                ویئسے تو اس مٹیار کی پھدی اور گانڈ دونون ہی کنواری تو تھی نہیں کہ جس پر طیفے کا زور لگتا۔۔۔اس لیے چند لمحوں مین وہ پورا لن سے اس کی گانڈ کو چود رہا تھا۔
                مگر طیفے کیلئے یہ تو بہت ہی حیرت کی بات تھی کہ ابھی ابھی اتنے بڑے بڑے سوراخ دیکھنے کے باوجود اس کی گانڈ اندر سے ایسے ٹائٹ لگ رہی تھی کہ جیسے پہلے کبھی اس کی گانڈ کے اندر کچھ نہ گیا ہو۔
                اس حسینہ نے ساتھ ہی اپنے نیچے سے پھدی پر ہاتھ رکھ کر اس کے ہونٹون کو مسلتے ہوئے اپنی تین انگلیاں ایک ساتھ ہی اندر گھسا دئیں اور تیزی سے انگلیوں کو پھدی کے اندر باہر کرنے لگی۔
                پندرہ منٹ کی طیفے کی اس وحشیانہ بے درد چدائی سے وہ حسینہ مزے سے فل مدہوش ہو کر آوازیں نکال رہی تھی۔۔۔اگلے ہی کچھ منٹون میں اس سحر انگیز مٹیار کی رس بھری پھدی نے پھرہار مان لی اور اپنی گرما گرم ملائی کو پھر بیڈ پر گرانے لگی تو اس کی گانڈ اور سختی سے ٹائٹ ہونے لگئی۔جس سے طیفے کو اتنا مزہ آیا کہ چند سیکنڈ بعد ہی اسکے منہ سے بھی اہ اہ اہ اوہ افففففف جانو نکلا اور اس کے سارے جسم کو تیز جھٹکا لگا۔
                یہ محسوس کرتے ہی وہ مست حسینہ ایک دم آگے ہوئی اور طیفے کا لن اس کی گانڈ سے باہر نکل گیا۔
                پھر وہ بجلی کی سی تیزی سے مڑ کر گھومی اور طیفے کے لن کو اپنے منہ میں لے کر چومتے چوستے ہوئے مست چوپا لگانے لگی۔
                پھر اگلے چند سیکنڈون میں ہی طیفے وڑائچ کے لن کی ساری رگین پھولنے لگئیں اور پھر طیفا اس مٹیار کے منہ میں ہی فارغ ہو گیا۔
                طیفے نے پھر اس مفت کی ملی ہوئی مٹیار کو ساری رات چودتے ہوئے گزار دی۔
                **********************۔
                ”ہاں بھئی رمجو !....“وڈیرا حاضرینِ محفل پر طائرانہ نگاہ دوڑاتا ہوا اپنی ٹانگیں دبانے والے رمجو نائی کو مخاطب ہوا ۔”سناہے وہ ماکھااپنے سارے ٹبّر(خاندان) کے ساتھ شہر چلا گیا
                ”ہاں سائیں !....“رمجو نے اثبات میں سر ہلایا۔”آپ نے ٹھیک ہی سنا ہے۔“
                وڈیرے نے معنی خیز لہجے میں پوچھا ۔”مگر اس کا وہ بیٹا تو حوالات میں بند تھا ؟“
                جس پرمجو نے تائید کرنے کے انداز مین جواب دیا۔وہ سائیں اُسے !....اسے ،اپنی بیوی رہا کر ا کر لے آئی تھی ۔“
                ”میری سمجھ میں نہیں آیا ،تم کیا کہہ رہے ہو ؟“وڈیرا حاکم سائین جان بوجھ کر ان جان بن گیا تھا ۔
                ”سائیں !....سنا تو یہی ہے کہ ماکھا ،سر شام اپنی بہو کو تھانیدار کے کوارٹر پر چھوڑ آیا اور اگلی صبح اس کی بہو اپنے خاوند کے ساتھ گھر واپس لوٹ آئی ۔“
                ”ہا....ہا....ہا۔“وڈیرے نے معنی خیز انداز میں بڑھیا قہقہہ لگایا ۔”خوب بہت خوب ۔ یہ ماکھا تو بہت عقل مند نکلا ۔ویسے پرکھوں کے رسم و رواج توڑنے والوں کو ایسی ہی عقل مندیاں دیکھانا پڑتی ہیں ۔“
                ”بالکل سائیں !....حاضریں محفل یک زبان ہو کر بولے تھے ۔یوں بھی وڈیرے کے حکم سے اس دن بیٹھک کھچا کھچ بھری ہوئی تھی ۔وڈیرے نے اپنی نافرمانی کرنے والے اس خاندان کا انجام جو تمام گوٹھ تک پہچانا تھا ۔
                تمام لوگ دل ہی دل میں ماکھے کے ہی خاندان کی بدقسمتی پر افسوس کر رہے تھے ،کہ وہ انہی میں سے ایک تھا ۔اس کا درد انہیں اپنا درد ہی تو لگنا تھا ۔کل کلاں کو ان کو بھی یہ صورت حال پیش آ سکتی تھی۔ ان سبھی بوڑھے والدین کی مجبوریوں کو آج کل کی جوان اولاد کیا جانے ۔
                ”وڈیرا سائیں !....میں اندر آ سکتی ہوں ۔“بیٹھک کے دروازے سے دلکش نسوانی آواز سن کر تمام دروازے کی جانب متوجہ ہو گئے تھے ۔وڈیرے نے بھی مونچھوں کا تاﺅ دینے والے ہاتھ کو روکتے ہوئے بہت غور سے دروازے کی سمت دیکھا ۔کالی چادر لپیٹے ایک جوان لڑکی وہاں پرکھڑی تھی ۔
                ”آجاﺅ ۔“وڈیرے نے کمال مہربانی سے اسے اندر آنے کی اجازت دی۔
                ”مہربانی سائیں !....“کہتے ہوئے وہ اندر داخل ہوئی اور وڈیرے کی بڑی مسہری کے قریب آ کر اس نے بے باکی سے چہرے پر لپٹی چادر اتار دی ۔
                ارےےے”بتاﺅ کیا پریشانی ہے چھوری !....“وڈیرے نے اس کے سوگوار حسن کو سراہتی ہوئی نظروں سے دیکھا ۔”کیا ان کو باہر بھیج دوں ۔“اس کا اشارہ اپنی حاضرین محفل کی طرف تھا ۔
                ”نہیں سائیں !..نہین..انہی کی بھلائی کی بات کرنے آئی ہوں ۔اگر آپ کی اجازت ہو تو کچھ عرض کروں ۔“
                ”اجازت ہے ۔“وڈیرے کا دایاں ہاتھ پھر سے اپنی اٹھی ہوئی مونچھوں کو مروڑنے میں مصروف ہو گیا ۔
                ”سائیں !....میں ایڈز کی مریضہ ہوں ۔“گلا کھنکار کر صاف کرتے ہوئے اس نے تمہید باندھی۔”اور پرسوں میں نے آپ کے گوٹھ مین ماکھے کی بہو ہونےکا کردار ادا کرتے ہوئے اس تھانیدار کے ساتھ رات گزاری ہے ۔اس کے بعد میرا ارادہ توآُ کر آپ کی قدم بوسی کرنے کے لیے بھی آنے کا تھا مگر عین وقت پر آپ کی بچھڑی ہوئی آپ کی مظلوم بہن نرگس خانم کی محبت نے ہی جوش مارا اور اس نے عین موقع پر مجھے ادھر آنے سے منع کر دیا کہ اس کے دل میں اب بھی آپ کی محبت وپیار اور احترام موجود ہے ۔آپ تمام لوگوں سے بس اتنی گزارش ہے کہ علاقے کے لوگوں تک میری یہ بات پہنچادینا کہ اُس ماکھے کی بہو آج بھی بلکل پاک دامن ہے ۔
                تھانیدار کو بھی اس بات کی خبر کر دینا کہ جس پاک دامن لڑکی کو اس نے داغ دار کرنے کا ناپاک منصوبہ بنایا تھا وہ ناکام ہو گیا ہے ۔وہ لڑکی آج بھی اتنی ہی پاکیزہ ہے جتنی پہلے تھی ۔اور جہاں تک میرا تعلق ہے تو میرا تو خمیر ہی کچرے سے اٹھا ہے ۔
                اسی ملعون کام کی وجہ سے ہی تو میں ایڈز جیسی مہلک بیماری میں مبتلا ہوئی اور اسی بیماری کی وجہ سے میں نے اس کام سے توبہ بھی کر لی ۔مگر اب ایک مظلوم کو بچانے اور ظالم کو اس کے ظلم کی سزا دینے کی خاطر مجھے مجبوراََ یہ کام کرنا پڑا۔
                مجھے بس اتنا ہی آپ سب سے کہنا تھا ۔“یہ کہتے ہی اس نے اپنا پھر سے چہرہ چادر میں چھپایا اور جس طرح اچانک آئی تھی اسی طرح سب کو ہکا بکا چھوڑ کر باہر نکل گئی ۔
                اب وڈیرے سائین کی اکڑی ہوئی مونچھیں چوہے کی دم کی طرح لٹک گئی تھیں ۔وہ بہ مشکل اپنی مسہری سے اٹھ کر لڑکھڑاتے ہوئے بیٹھک سے باہر نکل گیا ۔اس کے دماغ میں تو صرف ایک سوچ گونج رہی تھی کہ نرگس خانم ۔۔
                جگو ڈاکو سے بچی کیئسے اور اگر نرگس نے اس لڑکی کو منع نہ کیا ہوتا اور وہ سچ مچ اس کے پاس پہنچ جاتی تو پھر.۔
                اس کے آگے حاکم سائین کے چلتی سوچین یکدم بند ہوئین اور وہین لڑکھڑا کر گر پڑا۔۔
                اس کی آنکھون کےسامنےنرگس خانم کی بے بسی کی مظلوم شبیہ آ کر لہرانے لگی تو حاکم سائین کے دل پر اچانک بہت ہی پریشر آن پڑا اور۔پھر حاکم سائین دل کے بے پناہ تکلیف کی شدت کے دورے سے گر کرتڑپنے لگا۔۔۔
                اختتام۔۔
                دی اینڈ۔
                دوستو ویئسے تو کہانی بہت آگے جا سکتی مگر اس کو مناسب وقت پر اختتام دینا مجھے اچھا لگا۔

                Vist My Thread View My Posts
                you will never a disappointed

                Comment


                • Zabardast janab bohot khoo

                  Comment


                  • Originally posted by Kaka shrarti View Post
                    Zabardast janab bohot khoo
                    شکریہ۔
                    Vist My Thread View My Posts
                    you will never a disappointed

                    Comment


                    • لاجواب انداذ میں اینذ کیا ہے ساقی بھائی

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X