Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

سرفروش 4 ۔ مشن چائنا ۔۔ از قلم ہارڈ ٹارگٹ

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #21
    شاندار آغاز ہے جناب۔ عمران سیریز کی یاد تازہ ہو گئی۔

    Comment


    • #22
      بہت خوب جناب اچھی سٹوری ہے

      Comment


      • #23
        امید ہے کہ میری اس کہانی کو بھی آپ میرا نام دیں گے۔

        Comment


        • #24
          Originally posted by HardTarget View Post
          امید ہے کہ میری اس کہانی کو بھی آپ میرا نام دیں گے۔
          done
          جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
          ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

          Comment


          • #25
            سرفروش4۔ تیسری قسط۔







            میں ہوٹل سے نکلا ۔۔۔اورائیر پورٹ کے ویٹنگ روم کی طرف جانے لگا ۔میرے ساتھ برائے نام چھوٹا سا ہینڈ بیگ تھا۔۔۔میری رہنمائی وہی والی ائیر ہوسٹس کر رہی تھی جو مجھے اٹھانے آئی تھی۔عمارہ میرے والے روم میں ہی تھی ۔۔۔شاید فریش ہو کر نئی فلائٹ پر جانا ہوگا۔۔۔۔ویٹنگ ایریا میں پہنچا تو پتا چلا کہ جہازتھوڑا دور ہینگر میں لگا ہے ۔۔۔۔اور مجھے ائیر پورٹ کی کار سے وہاں تک لے جایا جائے گا۔۔ائیر ہوسٹس نےمجھے کار تک پہنچایا ۔۔۔اور خود واپس پلٹنے لگی ۔۔۔اتنے میں ڈرائیور اترا ۔۔۔اور میرے لئے دروازہ کھولنے لگا ۔۔۔

            میں کار پر بیٹھا اور کار روانہ ہوگئی ۔۔۔اسپیڈ درمیانی تھی ۔۔۔۔میں سائیڈ کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا ۔۔۔اچانک مجھے کچھ عجیب سا احساس ہوا ۔۔نظر سامنے گئی تو ڈرائیور بیک مرر سے مجھے دیکھ رہا تھا ۔۔میں اگنور کرتے ہوئے واپس ائیر پورٹ کا منظر دیکھنے لگا۔۔۔اچانک ایک آواز نے مجھے اچھلنے پر مجبور کردیا ۔۔۔۔۔"لگتا ہے ۔۔رات بڑی اچھی گذری ہے راجہ صاحب ۔۔"۔۔

            میں نے فورا سے سامنے دیکھا ۔۔۔۔یہ آواز میں کیسے بھول سکتا تھا ۔۔۔۔یہ آواز ٹائیگر کی تھی ۔۔جو مسکراتے ہوئے مجھے دیکھ رہا تھا ۔۔۔

            ٹائیگر صاحب کے چہرے پر میک اپ تھا ۔۔۔۔مگر آنکھیں وہی تھیں ۔۔اپنائیت بھی وہی ۔۔۔ٹائیگر صاحب آپ ۔۔معذرت ۔۔ میں پہچان نہیں سکا آپ کو ۔۔"میں نے معذرت بھرے لہجے میں کہا۔۔۔

            کوئی بات نہیں راجہ صاحب اگر آپ پہچان لیتے تو پھر میک اپ کا فائدہ کیا تھا۔۔۔ٹائیگر نے مسکراتے ہوئے کہا۔

            میں سیٹوں کے درمیانی گیپ سے آگے بڑھا ۔۔۔اور ٹائیگر سے گلے ملنے لگا۔۔۔ٹائیگرنے بھی تھپکی دی ۔۔۔اور کار مزید ہلکی کر دی ۔۔۔

            کچھ دیر ایک دوسرے کی طبعیت کا پوچھنے کا بعد میں نے پوچھا کہ ٹائیگر صاحب آپ اچانک کیسے ۔۔۔۔ ؟ کہیں کوئی مسئلہ تو نہیں ۔۔۔

            "نہیں دوست ۔۔۔ ہم دوستوں کے ہوتے ہوئےکیسی پریشانی ہو سکتی ہے ۔۔۔بس اسرائیل میں کامیاب مشن کے بعد عمران صاحب نے استقبال کرنے کے لئے بھیجا ہے ۔۔۔ٹائیگر نے مسکراتے ہوئے کہا۔

            پھر بھی ۔۔۔اگر صرف استقبال ہوتا تو آپ میک اپ میں اتنے خفیہ طریقے سے نہ مل رہے ہوتے ۔۔۔کہیں کوئی غلطی ہوئی ہے یا کوئی ایسی بات جو میں مس کر رہا ہوں ۔۔۔" میں نے پوچھا ۔

            نہیں شہزادے ۔۔۔ کوئی غلطی نہیں ہوئی ۔۔ ۔۔کرنل ڈیوڈ آپ کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑا ہوا ہے ۔۔۔اور عمران صاحب اس کی عادت کو بڑے اچھے سے جانتے ہیں ۔۔ وہ سکون سے نہیں بیٹھے والا ۔۔۔ ۔اسی لئےعمران صاحب نے ایک ڈی کوائے تیار کیا ہے ۔۔۔ٹائیگر نے جواب دیا۔

            مجھے آگے جاکر کرنل ڈیوڈ سے کیا خطرہ ہو سکتا ہے ۔۔میں آج کی فلائٹ سے اپنے ملک ہوں گا ۔۔۔۔وہاں کرنل ڈیوڈ کو حملہ کرنے کے لئے دس بار سوچنا پڑے گا۔۔۔ میں نے کہا ۔

            ارے راجہ صاحب ۔۔۔کرنل کا داؤآپ پر نہیں چل سکا تو وہ آپ کی فیملی کو ہٹ کر سکتا ہے ۔۔۔پاکیشیا سیکرٹ سروس کے دوسرے ایجنٹس کی فیملیز اول تو ہیں نہیں اور اگر ہیں بھی تو بہت بے نام سی ہیں ۔۔جب کہ آپ کی فیملی کو نہایت آسانی سے ڈھونڈا جا سکتا ہے ۔۔۔اسی لئے عمران صاحب نے ایک پلان تیار کیا ہے ۔۔۔۔جس سے کرنل ڈیوڈ مطمئن ہو کر خاموش ہو جائے گا۔۔ آپ کی اس فلائٹ کی ڈیٹیل کو ہم نے بہت واضح انداز میں عام کیا ہے ۔۔۔کرنل ڈیوڈ کو اطلاع مل جائے گی ۔۔ہائی جیکنگ کی کوشش ناکام ہوچکی ہے ۔۔۔ائیرپورٹ کے باہر آپ کے استقبال کے لئے ایک ڈیتھ اسکواڈ مقرر ہے ۔۔جو کچھ ہی دیر میں ختم ہوجائے ۔وہ میری ذمہ داری ہے ۔۔۔۔اس کے بعد کرنل ڈیوڈ اس فلائٹ کو میزائلوں سے اڑانے کا سوچے گا ۔۔۔اس فلائٹ کے روٹ پر تین ایسے اڈے ہیں جو کرنل ڈیوڈ استعمال کر سکتا ہے ۔۔اور اس جہاز کو نشانہ بنا سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔بس آپ کو جہاز پر چڑھنا ہے ۔۔۔اور مخصوص جگہ پر پیرا شوٹ سے جمپ کرنی ہے ۔۔باقی عمران صاحب اور کرنل ڈیوڈ کی ذہنی جنگ ہے ۔۔۔دیکھتے ہیں انکا اندازہ صحیح ثابت ہوتا ہے یا نہیں۔۔۔یہ لیجئے ۔۔۔یہ پیرا شوٹ اپنے ہینڈ کیری میں رکھ لیں ۔۔۔

            میں سمجھ گیا تھا ۔۔۔پیرا شوٹ اپنے بیگ میں رکھتے ہوئے ٹائیگر نے کہا کہ فلائٹ ٹیک آف کرنے کےپینتالیس منٹ بعد آ پ نے جمپ کرنی ہے ۔۔۔آپ کو ایمرجنسی گیٹ کھلا ملے گا۔۔۔۔۔ آپ کو شمال کی طرف اترنا ہے ۔۔بس خیال رہے کہ پیرا شوٹ بالکل نیچے آ کر کھولنا ہے ۔۔تا کہ کسی ریڈار یا سیٹلائٹ فوٹیج میں نہیں دیکھا جاسکے ۔۔۔۔۔

            ٹائیگر صاحب آپ میرے ساتھ ہوں گے ۔۔۔میں نے پوچھا ۔

            نہیں جناب ۔۔۔۔۔میں آپ کو جہاز میں بٹھا کر واپس ہو رہا ہوں ۔۔۔ائیر پورٹ کے باہر اسرائیلی ایجنٹس نے پکٹنگ کر رکھی ہے ۔۔اس سے کچھ حساب برابر کرنےہیں ۔۔آپ کو آگے آفندی ملے گا ۔۔۔اگلے مشن کی معلومات سب اسی کے پاس ہیں ۔۔۔ٹائیگر نے جواب دیا ۔۔۔

            مجھے جہاز کے پاس اتار کر ٹائیگر واپس ہوگیا ۔۔واپسی پر اس کی اسپیڈ خطرناک حد تک تیز تھی ۔۔میں کچھ دیر اس کی کار کو دیکھتا رہا ۔۔۔۔اور جہاز میں جا کر اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ہلکا پھلکا ناشتہ کیا۔۔۔۔اور ٹائیگر کی ہدایات کے مطابق ٹھیک وقت پر جمپ کرگیا ۔۔۔

            ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

            جن جہازوں سے پیرا شوٹ سے جمپ کیا جاتا ہے ان کی اونچائی کافی کم رکھی جاتی ہے ۔۔۔مگر مسافر طیارے 30 ہزار فیٹ سے 45 ہزار فیٹ کی اونچائی پر اڑتے ہیں ۔۔۔اسی لئے مجھے جو سامان دیا گیا اس میں ایک چھوٹا سا آکسیجن سلنڈر تھا ۔۔۔۔ ۔۔۔جہاز میں برائے نام مسافر تھے ۔۔۔۔اڑانے والا صرف ایک پائلٹ تھا ۔۔۔جو میزائیل حملے کی کنفرمیشن تک جہاز میں رہنا تھا ۔۔اور پھر جہاز آ ٹو کر کے اس نے بھی جمپ کرنی تھی ۔۔۔



            میں پیر ا ٹروپنگ کے انداز میں نیچے گرتا جارہا تھا ۔۔میری اسپیڈ کافی تیز تھی۔۔۔۔ہوا کا تیز پریشر مجھے اوپر کی طرف اچھال رہا تھا ۔۔۔مگر سر نیچے کئے میں اپنی بلندی مستقل کم کرتے جارہا تھا۔۔آکسیجن کا سلنڈر میری مدد کر رہاتھا۔۔۔۔۔نیچے سمندر کی طاقت ور لہریں تھیں ۔۔۔۔اور انہیں کے بیچ مجھے ایک وائیٹ بوٹ نظر آئی ۔۔۔۔اس کے قریب آتے ہوئے میں نے اپنا پیرا شوٹ کھول دیا۔۔۔مجھے ہزار فیٹ کے اندر آتے ہی پیرا شوٹ کھولنے کا کہا گیا تھا جو ایک خطرناک فاصلہ تھا ۔۔۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ میں بجائے سلو ہو کر کشتی پر اترتا ۔۔۔۔تیز اسپیڈ نے مجھے کشتی سےچند فیٹ پیچھے سمندر کی لہروں میں دھکیل دیا ۔۔۔۔میں نے جلدی سے پیراشوٹ سے آزادی حاصل کی اور سطح پر آگیا ۔۔۔

            جہاں آفندی ہاتھ پھیلائے مجھے اوپر کھینچنے کے لئے بے تاب تھا ۔۔۔۔آفندی بڑے پرتپاک انداز میں ملا ۔۔۔اور ایسے ملا کہ خود بھی گیلا ہوگیا ۔۔آفندی مجھ سے مل کر کشتی کے وہیل پر بیٹھ گیا ۔۔۔۔اور اسپیڈ بڑھانے لگا۔۔۔یہی وقت تھا کہ ایک ہلکی دھماکے اور گڑگڑاہٹ کی آواز آئی ۔۔۔میں نے اوپر دیکھا تو ہمارا جہاز آگ کی لپیٹوں میں تھا ۔۔۔میں نے شکرادا کیا کہ عین وقت پر ٹائیگر نے آتا تو میں نے بھی اسی آگ میں ہونا تھا۔۔۔اور دل ہی دل میں عمران صاحب کے لئے بھی دعا کہ وہ دور رہ کر مجھ سے بے خبر نہیں تھے۔۔۔

            ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

            آفندی سے مل کر مجھے اپنے پرانے دوستوں کی یاد آگئی ۔ہینڈ سم اور خوبصورت جسامت کا مالک۔۔۔۔آفندی تھوڑا شرمیلا ۔۔۔اور کم بولنے والا تھا۔۔۔۔مگر اس کے ساتھ ہونے سے میرا اسٹریس لیول کافی کم ہوگیا۔اجنبی ملک میں ایک دوست کا ساتھ ۔۔۔آفندی سیدھا مجھے گوانگزو کی پورٹ پر لے آیا ۔۔۔۔جہاں سے ہم نے بلٹ ٹرین پکڑی اورچینگ ڈو پہنچے ۔۔۔آفندی یہاں سیکرٹ سروس کا فارن ایجنٹ تھا۔۔۔۔ مختلف شہروں میں اس کے سیف ہاؤسز تھے ۔۔چونکہ مشن یہاں چینگڈو میں تھا اسی لئے ہم سیدھا یہاں آگئے۔۔ٹرین اسٹیشن پر موجود پارکنگ میں اسکی گاڑی موجود تھی ۔۔۔جسے دیکھ کر دل خوش ہو گیا ۔۔مرسڈیز کمپنی کی نئے ماڈل کی جی کلاس ایس یو وی تھی۔۔۔۔میر ی دلچسپی دیکھ کر آفندی نے چابی میری طرف بڑھائی ۔۔جسے میں نے خوشی سے قبول کیا ۔۔

            ایس یو وی بڑی سبک رفتار اور پاور فل گاڑی تھی ۔۔۔بڑے روڈ پر آتے ہی میں نے اسپیڈ بڑھانی شروع کردی ۔۔۔۔آفندی مجھے راستہ گائیڈ

            کرنے لگا۔۔۔۔بیس منٹ کی ڈرائیوکے بعد ہم ایک زبردست سے گھر میں داخل ہورہے تھے ۔۔

            آفندی نے مجھے ایک کمرے میں پہنچایا ۔۔اورفریش ہونے کے لئے کہا۔۔۔ مجھے اپنا ایک ڈریس دیا اور کہا کہ یہ عارضی طور پر پہن لیں ۔۔میں فریش ہو کر آیا تو ملاز م آیا اور بتایا کہ آفندی صاحب کھانے پر آپ کا انتظار کر رہے ہیں ۔۔میں اٹھ کر باہر آگیا ۔۔

            جہاں آفندی کھانے پر میرا انتظار کر رہا تھا۔۔۔آئیے راجہ صاحب۔۔۔ آفندی نے اٹھ کر مجھے بیٹھنے کی جگہ بتائی اور ساتھ ہی بیٹھ گیا ۔۔

            کھانے کا مینیو پاکستانی ہی تھا ۔۔۔ساتھ ساتھ آفند ی مجھے گھرکے ملازمین کے بارے میں بتانے لگا۔۔۔ایک پاکستانی کک تھا۔۔۔۔اور ساتھ ایک پاکستانی گارڈ جو ایجنسی کا بند ہ تھا۔۔۔ایک چائینز ملازم جو باہر کے کام کرتا تھا۔۔۔ تمام ملازمین اپنے کاموں سے بخوبی واقف تھے ۔۔اور آفندی کی موجودگی و غیر موجودگی میں خود کار طریقے سے کام چلتا رہتا تھا ۔۔۔

            کھانے کے بعد آفندی مجھے اپنے بیڈ روم میں لے آیا ۔۔۔۔جہاں الماری کے اندر سے سلائیڈنگ ڈور کھولتے ہوئے ہم ایک چھوٹے کمرے میں پہنچے ۔۔۔یہ آفندی کے کام کا خاص کمرہ تھا۔۔جس میں ایک طرف ایک کمپیوٹر ٹیبل پر جدید سسٹم اور الیکٹرانکس گیجٹ رکھے تھے ۔۔۔آفندی نے مجھے کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔۔۔۔اور سسٹم آن کر دیا ۔۔۔سسٹم میں مجھے ونڈوز کے بجائے دوسرا آپریٹنگ سسٹم نظر آیا ۔یہ آپریٹنگ

            سسٹم ہیکرز میں کافی مشہور سمجھا جاتا تھا۔۔۔جس پر مجھے اندازہ ہوا کہ آفندی ہیکنگ میں بھی ایکسپرٹ ہے ۔۔۔۔

            آفندی نے ایک ویڈیو پر کلک کیا جو پاسورڈ سے انکرپٹڈ تھی ۔۔۔۔پاس ورڈ مجھے ٹائیگر نے بتادیا تھا۔۔۔۔آفندی نے مجھے ویڈیو دیکھنے کا کہا اور خود چائے لینے چلا گیا ۔۔۔

            ویڈیو ایک پریزینٹیشن پر مشتمل تھی ۔۔ویڈیو شروع ہوتے ہی مجھے ایک طیارے کی تصویر دکھائی دی ۔۔اور آواز جو یقینی طور پر ٹائیگر کی تھی ۔ٹائیگر مجھ سے ہی مخاطب تھا۔۔۔

            ُامید ہے کہ راجہ صاحب آپ یہاں تک خیریت سے پہنچ ہوں گے ۔۔۔۔۔یہاں سے آپ کے حقیقی مشن کا آغاز ہوتا ہے ۔۔۔۔۔آپ نے سپر سانک جیٹ جہاز کے بارے میں سنا ہوگا ۔۔یہ ایسے جہاز ہیں جو آواز کی اسپیڈ سےتیز سفر کرتے ہیں ۔۔یہ ٹیکنالوجی اب قدرے عام ہورہی ہے ۔۔جبکہ دوسری طرف ایک اسٹیلتھ ٹیکنالوجی ہے ۔۔۔جس میں جہاز کسی بھی ریڈار کی نظروں سے بچ کر سفر کرسکتے ہیں ۔۔۔اب تک کسی ملک کے پاس ان دو ٹیکنالوجی کا کمبینیشن موجود نہیں ہے ۔۔۔۔دنیا میں پہلی بار ایک ایسے فائٹر جیٹ پر کام ہورہا ہے جو بیک وقت اسٹیلتھ بھی ہے ۔۔اور سپر سانک بھی ہے ۔۔یعنی ایسا فائٹر جیٹ جو کسی کو نظر آئے بغیر آواز کی اسپیڈ سے تیز سفر کر سکے گا۔۔خوش قسمتی سے اس فائٹر جیٹ کا 80 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے۔۔اور بدقسمتی سے اس فائٹر جیٹ کی بھنک انڈین انٹیلی جنس کو مل چکی ہے ۔انڈین انٹیلی جنس کے ساتھ ساتھ اسرائیلی ایجنٹس بھی چائنا میں آچکے ہیں۔۔۔اور وہ ایک طرف اس جیٹ کے بلیو پرنٹس حاصل کرنا چاہیں گے اور تیار جہاز کی تباہی بھی ان کا مقصد ہے ۔۔۔اب چند دنوں کے بعد اس فائٹر جیٹ کی آزمائشی پرواز ہے ۔۔۔ چینگڈو ائیر کرافٹ انڈسٹر ی کے بالکل نیچے ایک خفیہ لیب ہے ۔۔۔جہاں اس فائٹر جیٹ پر کام ہورہا ہے ۔۔یہاں ایک طرف آپ کو اس کی حفاظت کرنی ہے ۔۔۔دوسری طرف انڈین ایجنٹس کو بھی تلاش کرنا ہے ۔۔جو وہاں آلریڈی پہنچ کر اپنا کام کر رہے ہیں ۔۔آپ کی مدد کے لئے آفندی موجود ہے ۔۔یہ ایک طرف ایک اچھا ہیکر بھی ہے ۔۔دوسری طرف ایک اچھا فائٹر بھی ہے ۔۔امید ہے کہ آپکی توقع پر پورا اترے گا۔۔۔جلد ہی آپ سے تفصیلی ملاقات ہوگی ۔۔۔۔۔

            ویڈیو ختم ہوتے ہی آفندی بھی دروازہ ناک کر کے اندر داخل ہوگیا۔۔۔۔۔اس کے ہاتھ میں بھاپ اڑاتی ہوئی گرم گرم چائے تھی ۔۔۔چائے پکڑتے ہوئے میں نے آفندی سے پوچھا ۔۔۔آفندی آگے کا کیا پلان ہے ۔۔۔

            باس ۔۔۔آگے لائن آف ایکشن آپ بنائیں گے ۔۔۔۔۔آج ہماری چائینیز انٹیلی جنس کے ساتھ میٹنگ ہے ۔۔چائے پی کر وہاں چلتے ہیں ۔۔راستے میں آپکو یہاں ہونے والے پچھلے تین ماہ کے واقعات بھی بتا دیتا ہوں۔۔۔

            ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

            جنرل فینگ کے ساتھ ہونے والی میٹنگ ان کی رہائش پر تھی ۔۔۔۔۔جو کہ آرمی کے کنٹرول میں ہیوی سیکورٹی کے انڈر تھی ۔۔۔جنرل فینگ نے اپنی وائف کے ساتھ بڑی گرم جوشی سے استقبال کیا ۔۔۔اور کہا ۔۔" جنٹل مین آپ سے مل کر بڑی خوشی ہوئی گی ۔۔۔۔عمران صاحب نے آپ پر اعتماد کیا ہے تو یقینا بہت ٹیلنٹڈ ہوں گے ۔۔۔میں نے مسکراتے ہوئے ان کے بڑھے ہوئے ہاتھ کو تھاما اور گرم جوشی سے دباتے ہوئے ان کے سامنے بیٹھ گیا۔

            جنرل فینگ نے اپنی وائف سے میرا اوراس کا تعارف کروایا ۔۔اور ہماری ضیافت کے لئے بھیج دیا۔۔۔جنرل فینگ نے مجھے کیس کے بارے میں اپنی معلومات اور اپنی طرف سے مکمل سپورٹ کا یقین کروایا ۔۔۔۔اور

            جنرل فینگ نے مجھے ایک پاس ایشو کیا ۔۔۔۔جس سے مجھے ائرکرافٹ انڈسٹری کے اندر جانے کی اجازت مل سکتی تھی۔۔۔تھوڑی ہی دیر میں انسپکٹر لیون اور سب انسپکٹر نینسی بھی آگئے ۔۔جو اس کیس میں مقامی طور پر میری مدد کرنے والے تھے ۔۔۔۔

            جنرل فینگ سے مل کر ہم انسپکٹر لیون کے آفس آگئے ۔۔جہاں پچھلی تین ماہ کی ہونے والی وارداتوں کی تفصیل دیکھی ۔۔۔۔۔میں فائل دیکھتے ہوئے آگے کا پلان بھی بنا رہا تھا ۔۔۔

            فائل مکمل دیکھنے کے بعد لیون نے مجھ سے کہا کہ مسٹر راجہ چلیں آپ کو لیبارٹری بھی دکھا دیں ۔۔۔اس کے بعد نینسی اور لیون کے ساتھ ہم دونوں چینگڈو ائیر انڈسٹری وزٹ کرنے چلے گئے ۔۔آج صرف بیرونی حصے کا دورہ تھا۔۔۔وہاں وز ٹ کے بعد ہم واپس آنے لگے ۔۔۔تبھی میں نے آفندی سے کہا کہ وہ ڈریگن ہوٹل کی طرف چلے ۔۔۔ڈریگن ہوٹل ائر انڈسٹری سے کچھ دور ہی پیدل کے فاصلے پر تھا۔۔۔۔۔ہوٹل کے ویٹنگ ایریا میں ہم چاروں بیٹھ کر کافی پینے لگے ۔۔تبھی میں نے آفندی سے کہا کہ میں اس ہوٹل میں رکنا چاہتا ہوں ۔۔۔آفندی ایک دم چونک پڑا ۔۔

            راجہ صاحب ۔۔۔۔ اس ہوٹل میں تین قتل ہوچکے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔اور قاتل ابھی تک نامعلوم ہی ہے ۔۔۔آفندی نے کہا۔

            آفندی میرا خیال ہے کہ قاتل کا سراغ اسی ہوٹل میں رہنے سے ملے گا۔۔میں نے سوچ لیا ہے ۔۔۔آج کی رات اسی ہوٹل میں گذارنی ہے ۔۔۔انسپکٹر لیون اور نینسی تھوڑے حیران ہوئے ۔۔۔لیکن کچھ کہا نہیں ۔۔۔کافی ختم کرنے کے بعد انسپکٹر لیون اور نینسی چلے گئے ۔۔۔

            ٭٭٭٭٭٭٭٭

            ہوٹل ڈریگن میں میری پہلی رات تھی ۔۔۔۔آفندی اپنے گھر واپس چلا گیا ۔۔۔اسے کچھ کام کرنے تھے ۔۔۔میں نے اس سے مرسیڈیز کی چابیاں لے لی تھی ۔۔۔آفندی میرے لباس کا ناپ اور یہاں کی سردی کے حساب سے کپڑے اور شوز ارینج کرنے گیا تھا۔۔۔وہ رات میری عام رات کی طرح ہی گذری ۔۔۔صبح سویر ے آفندی اپنے 6 سو سی بائک کے ساتھ ہوٹل کے نیچے پہنچ چکا تھا۔۔۔

            میں اور آفندی ناشتہ کرنے کے بعد چینگڈو ائیر انڈسٹری پہنچ گئے ۔۔۔۔پاکیشیا کا مشہور جیٹ فائٹر جے ایف 17 اسی انڈسٹری نے بنایا تھا۔۔۔ائیر انڈسٹری کے ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ میں اپنا پاس دکھانے پر میرا استقبال کیا گیا۔۔۔اور پوری ائیر انڈسٹری دکھائی گئی ۔۔۔انڈسٹری کا چیف ڈائریکٹرہمارے ساتھ ہی وزٹ کروارہا تھا ۔۔۔۔اور پھرہمارے وزٹ کا اختتام ایک خاص کمرے میں ہوا ۔۔۔۔جہاں چیف ڈائریکٹر نے مجھ سے گذارش کی کہ آگے آپ اکیلے جاسکتے ہیں ۔۔۔ہم میں سے آگے کوئی نہیں جائے گا۔۔چیف نے میرا بنا ہوا پاس ایک خاص اسکینر پر رکھا ۔۔۔جہاں میرے لئے ایک اور راہداری کا راستہ کھل گیا ۔۔۔۔۔یہ زیر زمین خفیہ لیبارٹری تھی ۔۔جہاں پر کافی نئے پروجیکٹ پر کام کیا جا رہا تھا۔۔۔اور یہ نیا فائٹر ان میں سے ایک تھا۔۔۔یہاں میرا استقبال ڈاکٹر سمیرا نے کیا۔۔۔۔ڈاکٹر سمیرا ایرو ناٹیکل انجینئر تھی ۔۔۔اور امریکہ سے اس کی خصوصی ڈگری لی ہوئی تھی ۔۔۔یہاں پر وہ خاص دعوت پر اس پروجیکٹ پر کام کرنے آئی تھی ۔۔۔۔۔حد سے زیاد ہ سنجیدہ ڈاکٹر سمیرا نے مجھے اس نئے فائٹر کے پروجیکٹ والے حصے میں لے گئی ۔۔یہاں چار چائینیز ۔۔۔اور تین پاکستانی انجینئر کام کر رہے تھے ۔۔۔کچھ دیر سب سے ہیلو ہائے کرنے کے بعد ڈاکٹر سمیرا مجھے ریفریشمنٹ کروانے لے گئی ۔۔۔نیچے لیبارٹری میں ایک چھوٹا سا میس بنا ہوا ۔جہا ں بیٹھ کر ہم کافی پینے لگے ۔

            کافی کے کپ سپ کرتے ہوئے ڈاکٹر سمیرا کہنے لگی ۔۔۔راجہ صاحب میں نے ہی وزارت خارجہ میں ای میل کی تھی ۔۔۔پچھلے تین ماہ میں تین اموات ہوچکی ہیں ۔۔۔۔اور اب اس پر وجیکٹ پر کام کرنے والے پاکستانی اور چائینیز انجینئر دونوں ہی کافی پریشان اور ڈپریس ہو چکے ہیں ۔۔۔ ایک طرف پروجیکٹ اپنے آخری مراحل میں ہے ۔۔۔۔۔دوسری طرف یہاں مشکلات میں اضافہ بڑھتا جارہا ہے ۔۔پچھلے ایک ماہ سے ہم اندر قید ہو کر رہ گئے ۔۔۔۔اب جب تک یہ پروجیکٹ مکمل نہیں ہوتا ۔۔۔۔ہم یہاں سے نہیں نکل سکیں گے ۔۔۔۔ہر نیا دن میں ان لوگوں کو موٹیویٹ کر کے شروع کرتی ہوں ۔۔۔مجھے بتایا گیا کہ سیکرٹ سروس سے یہاں ہماری حفاظت کے لئے انتظامات کئے جارہے ہیں ۔۔صرف اسی ایک اچھی امید پر ہم لوگ یہاں ٹھہرے ہوئے ہیں۔۔۔۔۔ڈاکٹر سمیرا نے ایک ہی سانس میں پوری بات سامنے رکھ دی ۔۔۔

            جی ۔۔سمیرا صاحبہ مجھےہی بھیجا گیا ۔۔۔اورآگے سے آپ کی حفاظت کی ذمہ داری اور اس پروجیکٹ کو اچھے انداز میں لانچ کروانا میری ذمہ داری ہے ۔۔۔۔آپ کے خیال میں پچھلے انجینئر کے قتل کی کیا وجہ ہو سکتی ہے ۔۔۔میں نے سمیرا سے پوچھا ۔۔

            باہر کے کیا معاملات ہے ۔۔وہ تو مجھے نہیں پتا ۔۔۔لیکن اس فائٹر جیٹ کے لئے ہم نے کافی محنت کی تھی ۔۔۔اسٹیلتھ اور سپر سانک ٹیکنالوجی کا کمبینیشن اگر تھیوری کے لحاظ سے دیکھا جائے تو بہت آسان تھا۔۔۔مگر آپ جانتے ہیں کہ کوئی بھی چیز اگر ہوا میں حرکت کرتی ہے ۔۔تو اس کا ایک خاص دباؤ ہوا میں موجود ہوتا ہے ۔۔۔اور جب سپر سانک اسپیڈ کی بات کی جائے ۔۔۔۔تو اس اسپیڈ پر پہنچنے کے بعد ایک خاص دھماکہ ہوتا ہے جسے سونک بوم کہتے ہیں ۔۔۔۔اس سونگ بوم کی آواز پوری اسٹییلتھ ٹیکنالوجی کو ضائع کردیتی ہے ۔۔کیونکہ یہ بوم ریڈار پر ظاہر ہوجاتا ہے۔۔۔ کئی ممالک اس اسٹیج پر آکر اپنی تحقیق روک دیتی تھی ۔۔۔ہم بھی کئی سالوں سے اس پروجیکٹ پر رات دن لگے ہوئے تھے ۔۔۔اور پھر تین ماہ پہلے ہی ہم اس قابل ہوئے کہ

            فائٹر جیٹ جب سپر سانک اسپیڈ پر پہنچے تو بہت ہی کم ڈیسی بل کاسونک بوم ہو ۔۔۔اور یہی وقت تھا کہ ہماری یہ بات کسی طریقے سے لیک ہوئی ہے ۔۔۔اور اسی سلسلے میں میں سمجھتی ہوں کہ اس پروجیکٹ کو آگے بڑھنے سے روکنے کی کوششیں شروع ہوئی۔اور یہ کوشش کرنے والے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ کون ہوسکتے ہیں۔؟۔۔ڈاکٹر سمیرا نے کہا۔

            ٹھیک ہے سمیرا صاحبہ ۔۔میں سمجھ گیا ہوں ۔۔۔میں چاہتاہوں کہ آج کا دن میں پاکستانی انجینئر ز کے ساتھ گذاروں ۔۔۔اس کے بعد میں کچھ گھنٹے انہی انجینئر ز کے ساتھ ہی رہا۔۔۔مگر ان سب کی باتیں سن کر مجھے لگا کہ وہ کافی زہنی طور پر پریشانی میں ہیں ۔وہ اپنے بارے میں ٹھیک سے بتا بھی نہیں پا رہے تھے ۔۔۔اور غائب دماغی والی کیفیت میں تھے ۔۔

            اس کے لئے میں نے ائیر انڈسٹری کے ڈائریکٹر سے اجازت لی کہ میں پاکستانی انجینئر ز کو باہر لے جانا چاہتا ہوں۔۔۔اورپھر میں ڈاکٹر سمیرا اور باقی تین انجینئرز کے ساتھ باہر آگیا۔۔۔آفندی کو ان چاروں سے ملوایا ۔۔۔اور اس سے پوچھا کہ کسی اچھے ریسٹورنٹ کی طرف لے چلے ۔۔

            آفندی کی مرسڈیز میں ہم چاروں بیٹھ گئے ۔۔۔آفندی نے اپنی بائک ہوٹل سے منگوا لی۔اور گھر میں موجود گارڈز کو بھی بلوا لیا ۔۔جو ہم سے کچھ فاصلے پر حفاظت کی غرض سے تھے۔

            ہم نے ایک فائیو اسٹار ریسٹورنٹ میں ڈنر کیا ۔۔۔۔راستے میں آفندی نے اپنے ہلکے پھلکے موڈ سے سب کو ہنسایا ۔۔۔اور پھروہ کھانے کے بعد ایک بیدو میں لے گیا۔۔۔۔بیدو یہاں کے نائٹ کلبز ہوتے ہیں ۔۔جہاں پوری رات پارٹی گرلز اور ہائی میوزک ہوتا ہے ۔۔کوئی بھی الکوحل نہیں لیتا تھا۔۔مگر سب انجوائے کرنا چاہتے تھے ۔۔۔۔۔اس لئے ہائی بیٹ میوزک اور ڈانس سے دل بہلانے لگے ۔۔کافی رات تک وہاں زہن فریش کرنے کے بعد آفندی نے باقیو ں کو لیبارٹری پہنچایا ۔۔۔اور مجھے ہوٹل ڈریگن میں ۔۔۔۔



            ٭٭٭٭٭٭٭٭٭

            مجھے اس ہوٹل میں رہتے ہوئے دو راتیں گذر چکی تھی ۔۔دن میں آفندی اور میں لیبارٹری کے اندر کے معاملات کی چھان بین کرتے ۔۔میں نے جنرل فینگ سے آفندی کے لئے بھی پاس منگوا لیا تھا۔۔اب ہم۔انجینئرز کے ساتھ کچھ وقت گذارتے ۔۔ساتھ میں ہم لیبارٹری میں مختلف لوگوں سے ملتے ، بات چیت کرتے ۔۔اور سراغ لگانے کی کوشش کرتے ۔۔۔۔اور رات اسی ہوٹل میں واپس آجاتے ۔۔۔۔آفندی میرے ہوٹل کے سامنے والے ہوٹل میں رہ رہا تھا ۔۔۔اس کی ونڈو اور میرے روم کی ونڈو آمنے سامنے تھی ۔۔۔۔آفندی ایک اچھی اسنائپر رائفل کے ساتھ رات میں پہر ہ دیتا تھا۔۔تاکہ میں اگر گہری نیند میں ہوں تو بیک اپ پر آفندی موجود ہو۔۔۔اسنائپر اسپیشل سائیلنسر سے سجی ہوئی تھی ۔۔جس کی آواز بہت ہی محدود تھی۔۔۔آفندی نے خاص قسم کے ائیر بڈز مجھے دئے ہوئے تھے ۔۔جو کافی فاصلے تک ہمیں آپس میں بات چیت کرنے کی اجازت دیتا ہے ۔۔۔یہ خاص طور پر کان کے اندر پیسٹ ہو جاتا تھا۔۔۔اور باہر سے نظر بھی نہیں آتا ۔۔۔اور نہ بھاگ دوڑ میں گرتا۔۔۔۔اس کی نظرمیری کھڑکی ، بیڈ اور دروازے پر رہتی تھی ۔۔۔۔یہ تیسری رات تھی ۔۔۔جو مائنس 10 کے قریب درجہ حرات تھا۔۔۔کمرے میں الیکٹرک ہیٹر جل رہا تھا۔۔۔۔کہ اچانک میرے ائیر بڈز میں آفندی کی آواز گونجی ۔۔راجہ صاحب۔۔۔راجہ صاحب ہوشیار ہو جائیں ۔۔۔ہوٹل کی چھت سے رسی کے زریعے سے ایک بندہ اتر رہا ہے ۔۔۔۔

            میں کمبل میں لیٹا ہوا تھا۔۔آفندی کی آواز سے میری آنکھ کھل گئی تھی۔۔۔میں ہوشیا ر ہوگیا ۔۔۔۔اتنے میں ونڈو میں سلائیڈنگ کی آواز آئی ۔۔آواز نہ ہونے کے برابر تھی ۔۔مگر میرے حساس کانوں نے سن لی تھی ۔۔۔۔۔۔اس کے ساتھ ہی کمرے کی لائٹ روشن ہوگئی ۔۔۔اس ہوٹل کی لائٹس ساؤنڈ پر آن ہونے والی تھی ۔۔۔

            میں کروٹ لے کر بیڈ پر بیٹھ گیا ۔۔۔ابھی اٹھنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ اندر کمرے میں کوئی کودا ۔۔۔سیا ہ لباس پہنا ہوا ۔۔۔۔۔اور ساتھ ہی اس کے ہاتھ میں بجلی جیسی چمک دیکھی ۔۔۔۔میں غیر اختیار ی طور پر سائیڈ پر ہوا اور یہی حرکت میری جان بچا گئی ۔۔۔۔شائیں کی آواز کے ساتھ کوئی چیز میرے کانوں کے قریب سے گذری تھی ۔۔۔تبھی آفندی کی آواز آئی ۔۔۔راجہ صاحب ۔۔یہ چائنا کے پر اسرار فائٹرووشیا ہے ۔۔اسے آپ ننجا ٹائپ چیز سمجھ لیں۔۔ان سے مقابلہ کافی مشکل ثابت ہوسکتا ہے ۔۔۔یہ مارشل آرٹس اور تلوار و خنجر کے ایکسپرٹ ہوتے ہیں۔۔ابھی میں آفندی کو جواب دینے کا سوچ ہی رہا تھا کہ وہ سیاہ پوش دوبارہ بجلی کی طرح تڑپا ۔۔۔بڑی پھرتی سے وہ میرے سائیڈ پرآیا ۔۔۔میں نے چہرہ اور اوپر ی جسم بلاک گیا ۔۔مگر وہ میرے اوپر سے گھومتا ہوا میری پچھلی طرف بیڈ پر پہنچا۔۔۔اور میرے مڑنے سے پہلے ایک زور دار کک مارتا ہوابیڈ کی سائیڈ پر جا کھڑا ہوا ۔۔۔۔

            اس کے منہ سے بندر جیسی خوخیانے کی آواز نکل رہی تھی ۔۔۔ جو رات کے اس پہر کم خوفناک نہ تھی ۔۔۔میں نے ائیر بڈ میں آفندی سے کہا ۔۔

            جب تک یہ بند ر اس کمرے میں ہے فائر نہ کرنا ۔۔جب یہ کمرہ سے نکل جائے تو پھر تم آزاد ہو ۔۔نشانہ بنا لینا۔۔ اور فائٹنگ پوز بنا کر اس کے سامنے آگیا۔۔۔سیا ہ پوش کا ہاتھ دوبارہ چمکا ۔۔۔اور ایک خنجر میرے سینے کی طرف پھینکا ۔۔۔۔میں تیزی سے پیچھے کو گرا ۔۔۔ہاتھ زمین پر رکھتے ہوئے بیک جمپ لگا کر کھڑا ہونے لگا۔۔۔ابھی میں ہوا میں تھا کہ وہ سیاہ پوش دوبارہ کسی چھلاوے کی طرح حرکت میں آیا ۔۔میری کمر پر پڑنے والی زور دار ضرب نے مجھے دیوار پر پھینکا ۔۔۔میں ٹکرا تا ہوا نیچے گرا ۔۔۔اور پھر اپنی پوزیشن میں آیا۔۔۔یہ بند ر کسی بھی لمحے خنجر پھینکنے کا ماہر تھا۔۔۔۔میں نے تیزی سے جمپ کرتے ہوئے خود کو وارم اپ کیا ۔۔۔اور مقابل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دی جو کسی سانپ کی طرح چمکدار تھیں۔۔۔

            میں سیاہ پوش کا انتظار کئے بغیر اس پر حملہ آور ہو گیا۔۔۔۔تیزی سے فاصلہ کم کرتے ہوئے میں قریب آیا ۔۔اوراپنی ٹانگ کی رینج میں لاتے ہوئے اپنی ایڑی پر گھوما ۔۔میرے دوسری ٹانگ گھومتی ہوئی اس کے پہلو کی طرف لپکی ۔۔۔مگر سیا ہ پوش نے نہ صرف بلاک کیا ۔۔۔بلکہ پھرتی سے فرش پر گھومتے ہوئے سوئپ کک دی۔۔۔اور میرے زمین پر ٹکے ہوئے پاؤں کو ہوا میں اچھال دیا ۔۔میں ایک بار پھر اڑتا ہوا سامنے گر ا ۔۔

            اتنے میں آفندی کی آواز آئی ۔۔۔۔راجہ صاحب بچیں ۔۔۔۔میں تیزی سے کھڑا ہوا ۔۔۔مگر کھڑا ہوتے ہوئے دوبارہ گر گیا۔۔۔۔سیاہ پوش نے اٹھتےہوئے میرے قد کے حساب سے دوبارہ خنجر پھینکا ۔۔۔جو پیچھے کھڑکی سے ٹکرا یا ۔۔۔۔اور اس کوچکنا چور کرگیا۔۔۔راجہ صاحب ووشو سے فاصلہ نہ رکھیں ۔۔۔اور ہوسکے تو دیسی اسٹائل میں لڑیں ۔۔۔یہ مارشل آرٹس کےسارے اسٹائل میں ایکسپرٹ ہوتے ہیں۔۔آفندی دوبارہ بولا۔۔۔

            میں اب تک ووشو کا فائٹنگ اسٹائل سمجھ رہا تھا۔۔۔وہ خنجر پھینکنے کا ماہر تھا۔۔۔اور خنجر کے بچنے کی کوشش میں ہی اگلا حملہ کردیتا تھا۔۔۔میں اب کھڑا ہوا ۔۔۔۔۔اور آگے کی طرف بڑھنے لگا۔۔۔ووشو نے خنجر پھینکا ۔۔۔مگر میں بچنے میں پیچھے جانے کے بجائے سائیڈ پر پہنچا ۔۔۔اوراگلی جمپ میں اس کے لیفٹ سایئڈ پر آیا۔۔۔۔میرے سیدھے پنچ نے اس کے چہرے کو نشانہ بنایا ۔۔۔وہ ہلکا سا نیچا بیٹھا ۔۔مگر یہ پنج صرف ڈاج تھا۔۔۔میری طاقت ور فرنٹ کک اس کے چہرے پر پڑی ۔۔۔اور پیچھے الٹنے پر مجبور کردیا۔۔۔وہ جلدی سے سمبھلا تو میرا لیفٹ پنچ اس کے چہرے پر پڑا ۔۔۔اب کی بار ڈاج نہیں تھا ۔۔۔بلکہ نشانہ ہی چہرہ تھا۔۔۔ووشو تھوڑا پیچھے ہٹا ۔۔اور جوابی کک ماری ۔۔۔مگر میں انتظار میں تھا۔۔۔میں ہلکا سا نیچے جھکا ۔۔۔اور اسکی کک کو اپنے کندھے پرلیتا ہوا اسے اوپر اٹھا لیا۔۔۔اور پوری قوت سے سامنے الماری پر دے مارا ۔۔۔

            ووشو گر کر اٹھا ۔۔۔۔اس سے پہلے وہ پھر خنجر پھینکتا ۔۔۔میں اسکے قریب پہنچا ۔۔۔۔وہ خنجر نکال چکا تھا۔۔۔اور تیزی سے میرے چہرے پر مارا ۔۔۔میں بڑی مشکل سے بچا پایا۔۔۔اور پھر اسے اپنی ککوں پر رکھ دیا۔۔۔رائیٹ ، لیفٹ ککس اتنی تیزی سے اس کے پہلو پر پڑیں کہ اسے پسپا ہونا پڑا ۔۔پیچھے ہوتا تو دوبارہ خنجر پھینکتا ۔میں ککس کی اسپیڈ مزید تیز کرتا ہوا اس کے قریب ہوتا گیا۔۔۔اس نے جھنجھلا کہ دوبارہ خنجر والا ہاتھ گھمایا ۔۔۔۔۔میں اسی لمحے کے انتظار میں تھا۔۔۔گھومتا ہوا ہاتھ میں نے نے اپنے ہاتھوں میں لیااور اس کے بازو کے نیچے دوبارہ کندھے کی ٹیک دیتے ہو ئے اسے دوبارہ سامنے پٹخا ۔۔۔۔اب کی بار اس کا سر بھی فرش سے ٹکرایا۔۔۔

            اتنے میں آفندی کی آواز آئی ۔۔۔واہ راجہ صاحب مزا آگیا۔۔۔۔بڑے عرصے بعد ایسا دھوبی پاٹ دیکھا ہے ۔۔۔میں نے ایک سیکنڈ وقفہ کیا ۔۔۔اور پھراس کے اوپر جمپ لگا دی۔۔بڑی جچی تلی چھلانگ تھی۔۔۔۔میری کہنی اس کی پسلیوں کے اوپر لگی ۔۔۔واضح طور پر ہڈی کے کڑاکے کی آوازآئی۔۔۔میں اٹھ کر کھڑا ہوا گیا۔۔اور اس کے اٹھنے کا انتظار کرنے لگا۔۔جو ناممکن تھا۔۔۔پسلیوں کے ٹوٹنے سے پیچھے وائٹل آرگن ڈیمیج تھے ۔۔۔اور اب اٹھنے والا عام انسان کا کام نہیں تھا۔۔۔سیاہ پوش نے اٹھنے کی ایک ناکام کوشش کی اور پھردوبارہ گر گیا۔۔

            آفندی آجا ؤ ۔۔۔اس سیاہ پوش کا پردہ اتاریں ۔۔۔۔میں نے آفندی سے کہا۔۔میں سیاہ پوش کے چہرے کی طرف بڑھ رہا تھا کہ دوبارہ سے کمرے میں کوئی کودا تھا۔۔۔۔میں کھڑا ہورہا تھاکہ آفندی کی طرف سے آواز آئی ۔۔راجہ صاحب بیٹھ جائیں ۔۔۔۔

            ایک ہلکی سی آواز کے ساتھ کمرے میں کودنے والا بے جان ہو کر سائیڈ پر گرا ۔۔۔آفندی کی اسنائپر بے آواز اور اس نے کلین شاٹ دیا تھا۔۔۔۔اتنے میں ایک تیسرا بندہ کودا ۔۔۔۔جسے زمیں پر پاؤں رکھنا بھی نصیب نہیں ہوا ۔۔۔آفندی کی اسنائپر کے شاٹ نے اسے ہوا میں ہی اندر لا پھینکا ۔۔۔۔

            راجہ صاحب اب میدان صاف ہوگیا۔۔۔یہ اسی ووشو کے ساتھ تھے ۔۔۔اور اس کے ڈھیر ہونے کے بعد اندر اترے ۔۔۔۔میں انسپکٹر لیون کو فون کر رہاہوں ۔۔۔آفندی کی آواز آئی ۔۔۔

            میں نے سیاہ پوش کے چہرے سے نقاب پوش کھینچ دیا۔۔۔۔یہ چائینیز تھا۔۔۔۔اس کے چہرے پر زخم کے نشان بھرے پڑے تھے ۔اتنے میں اس چائینیز کے منہ میں کچھ حرکت ہوئی ۔۔میں تیزی سے اس کے منہ پر جھپٹا اور منہ کھولا ۔۔۔مگر وہ سائینائیڈ کا کیپسول چبا چکا تھا۔۔۔اس کے منہ سے جھاگ ابلنے لگا۔۔۔۔۔۔میں نے بعد آنے والے نقاب پوش کے نقاب کھینچے ۔۔۔۔۔حیرت کا ایک جہاں میرا منتظر تھا۔۔۔بعد میں آنے والے دونوں چہرے انڈینز تھے۔۔۔

            کچھ دیر میں انسپکٹر لیون اور نینسی بھی پہنچ گئے ۔۔۔آفندی کچھ دیرسامنے والے ہوٹل میں اپنی پوزیشن پر رہا اور پھرانسپکٹر لیون کے آنے کے بعد وہ بھی آ گیا۔۔۔۔لیون کے چہرے پر حیرانگی صاف پڑھی جارہی تھی ۔۔جب آفندی نے اسے بتایا کہ ووشو کو جسمانی فائٹ میں شکست دی گئی ۔۔۔لیون اور نینسی کے چہرے پر مرعوبیت کے آثار تھے ۔۔۔۔۔۔۔

            آٖفندی نے آتے ہی ان کی چیکنگ شروع کردی ۔۔۔۔۔۔۔دونوں انڈینز سائلنسر لگے ہوئے مشین پسٹل سے لیس تھے ۔۔۔آفندی ووشو کی گردن پر بنے ٹیٹو کو دیکھ کر چونکا ۔۔مجھے دیکھ کر اس نے کچھ بولنا چاہا۔۔۔مگر میں نے اشارے سے خاموش رہنے کا کہا۔۔۔

            انسپکٹر لیون نے اپنی فورس کو فون کردیا تھا۔۔۔اس نے آتے ہی پکچرز لیں ۔۔فارنسک والے اپنا کام کرنے لگے۔۔۔اور پھر میں آفندی کے ساتھ اس کے گھر آگیا۔۔۔۔۔مجھے اکیلے میں آفندی سے بات کرنی تھی ۔۔۔ویسے بھی ہوٹل میں اب کام ختم تھا۔۔۔

            آٖفندی کے ساتھ میں اسکے خاص کمرے میں آگیا۔۔۔آفندی کافی کا کہتا ہوا آکر میرےسامنے بیٹھ گیا۔۔

            ہاں آفندی تم ووشو کے ٹیٹو کو دیکھ کر کیوں چونکے تھے ۔۔میں نے پوچھا ۔۔

            راجہ صاحب ۔۔۔مجھے جب عمران صاحب نے یہاں بھیجا تھا۔۔تو سب سے پہلے میں نے یہاں کے جرائم پیشہ گینگز کی لسٹ بنائی تھی ۔۔۔چائنا جتنا باہر سے ترقی یافتہ اور ماڈرن ہے ۔۔۔۔یہاں کے جرائم پیشہ اسی قدر زیادہ پاورفل اور خفیہ ہیں ۔۔۔۔ووشو کی گردن پر مادام شیانگ کے گینگ کا نشان تھا۔۔۔۔۔جو مکاؤ کے ایک بڑے حصے کو کنٹرول کرتی ہے ۔۔۔۔مادام شیانگ کے ایریا میں اسکی حکومت چلتی ہے ۔۔۔پولیس کبھی اس پر ہاتھ نہیں ڈال سکتی ۔۔۔۔ مادام شیانگ کے پاس دس ہزار سے زائد کی اپنی فورس ہے ۔۔۔۔اور ووشو اس کے خاص قاتل ہیں ۔۔ اور اس کیس میں مادام شیانگ کا نام آنے کے بعد کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔۔۔ایک کے بعد ایک قاتل آپ کی تلاش میں آسکتا ہے ۔۔۔ وہ یہاں سرکاری طور پر بھی مادام شیانگ کافی پاور فل ہے ۔۔۔۔اس لئے اب اس کیس کو دوبارہ سے اپنی نظر سے دیکھنا ہوگا۔۔میں اب انسپکٹر لیون کے کام پر اعتبار نہیں کرسکتا۔۔ آفندی نے کہا ۔۔۔

            یہ مکاؤ یہاں سے کتنا دور ہے ۔۔۔میں نے آفندی سے پوچھا ۔۔

            راجہ صاحب مکاؤ یہاں سےقریب ہی ہے ۔۔مگر وہاں جانے میں از حد خطرہ ہے ۔۔۔۔آفندی نے کہا۔

            اور یہ مادام شیانگ کو اس کام کے لئے کس طرح راضی کیا گیاہوگا۔۔۔؟ میں نے آفندی سے پوچھا۔۔

            راجہ صاحب مادام شیانگ کو ویسے تو پیسوں کی کمی نہیں ہے ۔۔۔۔اس کے سینکڑوں کیسینو اور کلب ہیں ۔۔۔۔مگر جرائم کی دنیا میں آپ کو کام لینے پڑتے ہیں تاکہ آپ کی دہشت بنی رہے ۔۔۔اس لئے اس نے یہ کام لیا ہوگا۔۔۔اور اصول کے مطابق بھاری پیمنٹ یا کوئی شرط رکھی ہوگی ۔۔۔انڈینز نے اسی لیے مادام شیانگ کو ہائر کیا ہے کہ مکاؤ چینگڈو سے قریب ہے اور یہاں سب سے زیادہ کسی گینگ کی دہشت ہے تو مادام شیانگ کا گینگ ہی ہے ۔۔۔۔آفندی نے بتایا۔

            میں کچھ دیر سوچتا رہا ۔۔۔اور پھر آفندی سے کہا کہ تم کل سے لیبارٹر ی والے معاملات دیکھو۔۔۔۔۔جلد ازجلد یہ پروجیکٹ مکمل ہو ۔ان دونوں انڈینز کو ٹریس کرو۔۔۔یہ ہوسکتا ہے کہ چینگڈو میں ہی رہ رہے ہوں۔۔۔۔۔میں تب تک مکاؤ سے ہوکر آتا ہوں ۔۔۔میری بات پر آفندی نے صاف انکار کردیا کہ اکیلے مکاؤ جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔وہ علاقہ خطرناک گینگ کے لوگوں سے بھرا ہوا ہے ۔۔۔۔مگر

            میرے اصرار پر اسے ماننا پڑا ۔۔۔۔۔۔مگر اس نے بھی اپنی ایک شرط رکھ دی۔۔۔

            راجہ صاحب اگر آپ مجھے نہیں لے کر جانا چاہتے تو ٹھیک ہے ۔۔۔مگر ان علاقوں میں آپ کو زبان سمجھنے والا بندہ چاہئے ہوگا۔۔اسکے لئے ایک لڑکی ہے ۔۔۔۔اسے اپنے ساتھ لے جائیں ۔۔۔نورین نام ہے ۔۔۔۔اردو اور چائینز میں خاص مہارت ہے ۔۔۔ آفندی نے کہا۔۔

            میں کچھ لمحے سوچنے لگا۔۔۔اور آفندی سے پوچھا۔۔۔۔"کیا عمراں صاحب کو اس لڑکی کے بارے میں پتا ہے۔۔۔۔"

            جی راجہ صاحب پچھلے سال یہ لڑکی عمران صاحب سے ٹکرائی تھی ۔۔۔یہ اوغور لوگ ہیں جو چائنا میں ارمچی کی طرف رہتے ہیں ۔۔لڑکی نہایت نڈر اور بہادر ہے ۔۔۔۔تربیت یافتہ بھی ہے ۔۔۔۔۔۔۔نورین یہاں چائنہ سے نکلنا چاہتی تھی ۔۔۔مگر عمران صاحب کی شرط تھی کہ پہلے کچھ خود کو ثابت کرے ۔۔۔۔تو پھر اسے یہاں سے نکالا جائے ۔۔۔۔۔۔آفندی نے کہا۔۔

            آفندی کی بات میں سچائی تھی ۔۔۔مجھے چائینیز زبان سے بالکل آشنائی نہیں تھی ۔۔۔اور انگلش بولنے والے یہاں بہت ہی کم لوگ تھے ۔۔۔اسی لئے میں ہامی بھر لی ۔۔۔۔

            ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

            صبح میں سو کر اٹھا ۔۔۔تو آفندی نے میرا بیگ تیار کر دیا تھا۔۔۔۔ناشتہ کر کے فارغ ہوئے کہ بیل بجی ۔۔۔۔۔کچھ ہی دیر میں آفندی نورین کو لئے میرے پاس آگیا ۔۔۔نورین ایک قد آور اور خوبصورت لڑکی تھی ۔۔۔چائینز لڑکیوں کے برعکس اس کی آنکھیں بڑی اور گہری تھیں۔۔۔قریب آکر اس نے ہاتھ ملایا ۔۔۔۔میرے حال پوچھنے پر اس نے ٹوٹی پھوڑی اردو میں جواب دیا۔۔۔آفندی کےمطابق وہ مکمل سمجھ لیتی تھی ۔۔مگر بولنے میں جھجک تھی ۔۔۔۔۔۔کچھ ہی دیر میں چائے آگئی ۔۔۔چائے پینے کے بعد ہم مکاؤ کے لئے نکل پڑے ۔۔۔۔۔آفندی نے نورین کو مکاؤ میں سیف ہاؤس کا بتا رکھا تھا ۔۔جہا ں ہمارا مطلوبہ اسلحہ اور گاڑیاں تیار تھیں ۔۔۔

            ٭٭٭٭٭٭٭٭٭

            چائنا کےسارے علاقے بہت ہی ترقی یافتہ صاف ستھر ے اور آسمانوں سے باتیں کرتی عمارتوں والے تھے ۔۔۔۔۔مگر مکاؤ اس سے کافی مختلف تھا۔۔۔۔۔۔۔یہاں اندھیر ی گلیاں ۔پرانے انداز کی بلڈنگز۔۔ شراب اور نشہ کرتے لوگ ۔۔۔۔ہر گلی کے کونوں پر مسلح لوگ ۔۔۔۔ہمیں نظر آئے ۔۔۔۔

            نورین کافی تیز اور ہوشیار تھی ۔۔۔۔مکاؤ پہنچتے ہی ہم اپنی مطلوبہ جگہ پہنچے ۔۔۔گاڑی اور اسلحہ سے لیس ہوئے ۔۔۔اور مادام شیانگ کے کلب کی طرف چل پڑے ۔۔۔۔

            مادام شیانگ کی آدھے سے زیادہ مکاؤ پر حکومت تھی ۔۔۔۔۔اس کی رہائش اپنے کلب کے ساتھ ہی بنے ہوئے عالی شان محل میں تھی ۔۔عام طور پر وہ کلب میں ہی کچھ وقت کے لئے آتی ۔۔۔۔۔اور باقی اپنے محل سے ہی معاملات دیکھتی ۔۔۔

            میں نے نورین سے خاص طور پر مکاؤ میں مادام شیانگ کے دشمن گینگ کی معلومات لینے کا کہا ۔۔۔میرا ارادہ یہ تھا کہ مادام شیانگ کا کلب دیکھنے کے بعد ہم وہاں جا کر دیکھتے اور دوسرے گینگ لیڈرز سے ملنے کی کوشش کرتے ۔۔۔۔

            ہمیں مادام شیانگ کے کلب سے کافی دور پہلے ہی روک دیا گیا تھا۔۔۔اور گاڑی وہاں کھڑی کر کہ پیدل جانے کا کہا۔۔۔ہماری چیکنگ ہوئی ۔۔۔لیکن نورین نےکمال ہوشیار سے مشین پسٹل چھپایا ہوا تھا۔۔۔اس کے بعد ہم تاریک گلیوں سے گذرتے ہوئے کلب پہنچے ۔۔۔۔راستوں میں جگہ جگہ مسلح لڑکے موجود تھے ۔۔۔جو غصیلی نظروں سے ہمیں دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔۔غصے کی وجہ شاید ہمارا چائینز نہ ہونا تھا۔۔۔۔۔اور اجنبی کو یہاں اچھانہیں سمجھا جاتا تھا۔۔۔

            میں نے آفندی سے مشور ہ کر کے ایک ایکریمین گینگ کا کارڈ اور حوالہ لے لیا تھا۔۔اگر کوئی ایسی سیٹنگ بنتی کہ ہم مادام شیانگ سے ملاقات کر پاتے تو ہم اس کے لئے بھی پہلے سے ہی تیار تھے ۔۔۔۔۔

            کلب کے باہر دیوہیکل سیاہ فام گارڈ نے ہمیں دوبارہ چیک کیا۔۔۔اور کلب کے اندر جانے دیا۔۔۔۔اندر سے کلب تیز روشنیوں سے جگمگا رہا تھا۔۔۔کلب کے درمیان میں اسٹیج تھا ۔۔جہاں عریاں لڑکیاں اس وقت ڈانس کر رہی تھی ۔۔۔۔بہت ہی ہیوی بیس والا میوزک بج رہا تھا۔۔

            میں اور نورین کچھ دیر کلب کے اندر کا جائز ہ لیتے تھے ۔۔۔کونے پر باؤنسرز بھی موجود تھے ۔۔جو مسلح بھی ہوسکتے تھے ۔۔۔یہ کلب کا ماحول خراب کرنے والوں کو باہر پھینکتے تھے ۔۔۔۔

            ہمیں کاؤنٹر کے قریب کھڑا دیکھ کر تمام باؤنسرز اوراسٹاف کی نظریں ہمیں ہی دیکھ رہی تھی ۔۔میں نے نورین کا ہاتھ پکڑا ۔۔۔اور ایک ٹیبل پر جا بیٹھے ۔۔۔۔۔۔کچھ ہی دیر میں ویٹر آیا ۔۔۔اور آرڈر پوچھنے لگا۔۔۔۔نورین نے چائینیز میں ہی کسی لوکل ڈرنک کا آرڈر دیا۔۔۔

            کلب کے اسٹیج کے گرد شراب پیتےلوگوں کا ایک ہجوم تھا۔۔جن میں چائینز کے علاوہ دوسری قومیت کے لوگ بھی تھے ۔۔۔۔۔۔لوکل ڈرنکس لانے والا ویٹر جیسے ہی ہمارے قریب پہنچا ۔۔۔۔۔نورین نے ایک سو یوان کی آدھی کے قریب گڈی اس کے کوٹ میں ڈال دی ۔۔۔اور سرگوشی کرتے ہوئے پوچھا ۔۔"ہمیں مادام شیانگ سے ملنا ہے ۔۔۔۔۔کیا وہ اپنے آفس میں ہے ۔۔۔"

            نورین کی سرگوشی سن کر ویٹر ایک دم چونکا ۔۔۔۔اور ہاں میں اشارہ کر کے کہا ۔۔۔کہ وہ موجود ہے ۔۔۔مگر جلد ہی جانے والی ہے ۔۔۔۔

            جوس پیتے ہوئے نورین نے پوچھا کہ میں جا کر کاؤنٹر پرپوچھوں ۔۔۔۔۔میں نے ہامی بھر کر کہا کہ جاؤ ۔۔۔۔نورین نے جوس کا آخری سپ لئے اور پر اعتماد طریقے سے چلتی ہوئی کاؤنٹر پر پہنچی ۔۔۔۔اور میک اپ سے لدی ہوئی ریسپشنسٹ کے سامنے ایکریمین کمپنی کا کارڈ رکھا ۔۔۔کہ ہمیں مادام شیانگ سے ملنا ہے ۔۔۔۔۔مگر شاید ریسپشنسٹ نے منع کر دیا۔۔۔۔نورین نے دوبارہ کوشش کی ۔۔۔اور شاید کوئی آفر بھی دی ۔۔۔مگر اس کے چہرے پر مستقل انکار والی کیفیت تھی ۔۔۔۔

            نورین واپس آنے لگی ۔۔۔میں سمجھ گیا کہ کھیر سیدھی انگلی سے نہیں نکلے گا۔۔۔نورین نے واپس آکر بتایا کہ راجہ صاحب ۔۔۔ریسپشنسٹ کہہ رہی ہے کہ تین ماہ سے پہلے ملاقات نہیں ہوسکتی ۔۔۔۔۔ساری اپوائمنٹ پہلے سے فکس ہے ۔۔۔۔اب یہی بات ہورہی تھی کہ میں نے ہوٹل اسٹاف کو ایکٹو ہوتے دیکھا ۔۔۔۔۔میں سمجھ گیا ۔۔میں نے نورین سے وہیں بیٹھنے کاکہا ۔۔۔۔

            اوراٹھ کر کاؤنٹر کی طرف جانے لگے ۔۔۔۔کاؤنٹر پر اسی لڑکی کو میں نے ایکریمین لہجے میں کہا کہ مجھے مادام شیانگ سے ملنا ہے ۔۔۔۔

            جس پر اس نے وہی جواب دیا ۔۔۔۔مگر میں نے اس کی بات ان سنی کر دی ۔۔۔۔اور دوبارہ چلا کر بولا ۔۔۔۔۔مجھے مادام شیانگ سے ملنا۔۔۔میری اونچی آواز سے وہ لڑکی تھوڑی بوکھلائی ۔۔۔۔۔مگر پھر مجھے سمجھانے کی کوشش کرنے لگی ۔۔۔تیسر ی بار میں نے ایک زوردار ہاتھ کاؤنٹر کی ٹیبل پر مارا۔۔۔۔۔اور دوبارہ اونچی آواز میں چلا کر بولا ۔۔۔۔۔مجھے مادام شیانگ سے ملنا ہے ۔۔۔۔۔

            اب میری آواز ہوٹل کے اس پورے حصے میں گونج گئی ۔۔۔جس سے کسٹمر اور گارڈز دونوں میری طرف متوجہ ہوئے ۔۔۔۔نورین نے اٹھنے کا ارادہ کیا۔۔۔۔مگر میں نے اسے اشارہ کیا کہ وہیں بیٹھی رہے ۔۔۔۔۔

            ہوٹل کے دروازے سے گارڈز میری طرف بڑھے چلے آرہے تھے ۔۔۔۔۔۔کاؤنٹر گرل نے ایک بار مجھے سمجھانے کی کوشش کی ۔۔۔۔مگر میں نے سمجھنا ہی نہیں تھا۔۔۔۔۔۔تبھی میری کندھے پر زوردار تھپکی ہوئی ۔۔۔۔پیچھے مڑنے کے بجائے میں نے ایک زور دار بیک کک اچھالی ۔۔۔جو پیچھے والے کی گردن پر لگی ۔۔اور اسے پیچھے دھکیل دی ۔۔۔

            میں نہایت اطمینان سے مڑا ۔۔۔جہاں دو بگڑے ہوئے تاثرات والے باؤنسر میرے منتظر تھے ۔۔۔اب کی بار دونوں ساتھ آگے بڑھے ۔۔۔مگر میں نے ایک نہایت خوبصورت چھلانگ لگائی ۔۔۔اور ان دونوں کو ہلکی ککس لگا کر ان کے پیچھے کودا۔۔۔۔اتنے میں مزید دو باؤنسر آکر سامنے شامل ہوگئے ۔۔۔۔ان کے جسم کافی بڑے اور ڈیل ڈول والے تھے ۔۔۔۔پھرتی کے ساتھ ساتھ اچھے فائٹر بھی تھے ۔۔۔۔مگر بس ایک غلطی کر رہے تھے ۔۔۔۔وہ شروع سے ہی غصے میں آگئے ۔۔۔۔اور میری ہلکی ہلکی سے نونک جھونک سے مزید طیش میں آتے جارہے تھے ۔۔۔جبکہ میں اپنی پھرتی سے ان کے درمیان ناچ رہا تھا۔۔۔۔اور ان کے چہرے اور گردن پر ہلکی ہلکی چپت رسید کرتا جارہا تھا۔۔۔

            ان چاروں نے اپنا پورا زور دے مارا ۔۔۔مگر مجھے چھو بھی نہ سکے ۔۔۔۔اور میں ان کے درمیان کسی چھلاوے کی طرح رقص کر رہا تھا۔۔۔اب تو ہال میں بھی خوفزدگی والے شور کے بجائے دلچسپی اور واؤ والا شور آرہا تھا۔۔۔

            یہ سلسلہ مزید جاری رہتا ہے ۔۔۔مگر اوپر برآمدے سے آنے والی آواز نے ان چاروں باؤنسرز کو اسٹیچو بنا دیا۔۔۔۔۔۔میں نے اوپر ی طرف دیکھا جہاں ایک خوبصورت پری چہرہ مجھے حیرت سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔عمر کوئی تیس سے پینتیس سال کے درمیان ہوگئی ۔۔اونچےقد اور پر غرور انداز میں مجھے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔اتنے میں کاؤنٹر والی لڑکی نے نہایت مودبانہ انداز میں کہا ۔۔مادام یہ آپ سے ملناچاہتےتھے ۔۔

            اوپر آنے والی مادام شیانگ تھی ۔۔۔جو کہ مکاؤ کے ایک بڑے اور مشہور گینگ کی لیڈر تھی ۔۔۔۔۔اس کے آس پاس دس سے زائد گارڈز تھے ۔۔۔مادام شیانگ اور میں ایک دوسری کی آنکھوں میں دیکھ رہے تھے ۔۔۔اس نے مجھے دیکھتے ہوئے اشارہ کیا۔۔۔۔اور چاروں باؤنسر ز اپنے کپڑے ٹھیک کرتے ہوئے اپنی جگہوں پر واپس چلے گئے ۔۔۔۔

            اتنے میں مادام شیانگ کی آواز گونجی ۔۔۔۔اگر ملاقات کے لئے آنا تھا تو یہ لڑائی جھگڑا کیوں۔۔۔۔؟ اگر لڑنے کا اتنا ہی شوق ہے تو کل مکاؤ میں ہونے والی فائٹ کی وننگ بیلٹ لے کر آو ۔۔۔۔اور ملاقات کرلو ۔۔۔مادام کے لہجہ طنز سے عاری تھا ۔۔مگر اس میں چیلنج ضرور تھا۔۔میں نے مسکراتے ہوئے ہامی بھری ۔۔۔۔اور مادام شیانگ کو اترتے ہوئے دیکھنے لگا۔۔۔جو کسی بڑے دلفریب انداز میں لہراتی ہوئی اتری اور۔۔۔باہر چلی گئی ۔۔۔

            میں اپنی جگہ پر واپس آگیا۔۔۔تو نورین سخت پریشان تھی ۔۔۔" راجہ صاحب آپ نے اس کی شرط کیو ں مانی ۔۔۔ہم اس سے کسی اور طرح ملنےکا راستہ نکال لیتے ۔۔۔۔"۔

            نورین ہم نے نہ صرف ملنا ہے ۔۔۔۔۔بلکہ اس کا اعتماد بھی جیتنا ہے ۔۔۔۔۔اور مجھے یقین ہے کہ کل کی فائٹ ہم ہی جیتیں گے ۔۔۔۔چلو واپس ہوٹل چلتے ہیں ۔۔۔

            راستے میں ایک ریسٹورنٹ سے کھانا کھایا۔۔۔۔۔اور اپنے روم واپس آگئے ۔۔۔ہم نے ایک ہی روم لیا ہوا تھا۔۔۔۔نورین خوبصورت بھی تھی ۔۔۔۔اور ذہین بھی ۔۔۔۔۔اور مجھے اس کی طرف سے پیش قدمی کی انتظار کرنا تھا۔۔۔

            میں نے اسے بیڈ پر سونے کا اشارہ کر کے خود صوفے پر لیٹ گیا۔۔۔۔۔

            ٭٭٭٭٭٭٭٭٭

            راجہ کے مکاؤ نکلنے کے بعد آفندی اپنے کام پر لگ گیا ۔۔وہ اس وقت انسپکٹر لیون کے دفتر میں اس کے سامنے موجود تھا۔۔اور لیون اس کی مانگی ہوئی رپورٹ اس کے سامنے رکھے ہوئے بتا رہا تھا۔۔۔۔۔ اس نے ہوٹل میں مارے جانے والے انڈینز کی تصویروں کو ائیر پورٹ کے ریکارڈ پر چیک کیا تو پتا چلا کہ وہ تین ماہ پہلے شنگھائی ائرپورٹ سے چائنا میں داخل ہوئے ۔۔۔ائر پورٹ کے ریکارڈ سے پاسپورٹ کی کاپی نکلی تو پتا چلا کہ وہ کسی اور ملک کے پاسپورٹ پر داخل ہوئے تھے ۔۔۔۔مگر جب ان پاسپورٹس کو چینگڈو میں انٹری کے لئے چیک کیا ۔۔۔۔تو نہ ڈومیسٹک

            انٹری ملی ۔۔۔نہ ٹرین سے ٹکٹ ہوئی ۔۔۔اور نہ کسی بس سے ریکارڈ ملا۔۔۔اس جگہ آ کرآگے کا کوئی کلیو نہیں مل رہا تھا۔۔

            انسپکٹر ۔۔۔کیا ایسا ہو سکتا ہے ۔۔۔کہ ۔۔ان لوگوں نے چینگڈو میں داخلے کے لئے کوئی اور راستہ استعمال کیا ہو۔۔۔۔کیونکہ یہ پروفیشنل ایجنٹس ہیں ۔۔۔۔۔آفندی نے پوچھا ۔۔

            آپ کے خیال میں کونسا راستہ ہوسکتاہے ۔۔۔چائنا میں آپ کو سفر کے لئےہر وقت اپنے پاسپورٹ اور شناخت کی ضرورت ہوتی ہے ۔۔اس کے بغیر سفر کرنا ناممکن ہے۔۔۔انسپکٹر لیون نے جوابی پوچھا۔۔۔۔

            انسپکٹر ایک بات بتاؤ ۔۔۔۔چینگنڈو میں روزانہ کتنے کنٹینرز سبزی ، فروٹس ، اور دوسری اشیاء لے کر داخل ہوتے ہیں ۔۔۔ان کنٹینرز میں صرف سامان کا حساب ہوتا ہے ۔۔۔۔ اور اس کے اندر چھپ کر سفر کیا جاسکتا ہے ۔۔۔اس کے علاوہ بعض اوقات لوکل بس اپنے اسٹاپ کے علاوہ ہائی وے سے بھی مسافر اٹھاتی لیتی ہیں ۔۔۔اور شہرمیں داخل ہونے سے پہلے ہی وہ لوگ بس سے اتر سکتے ہیں۔۔ان میں سے کسی زریعے سے بھی سفر کیا جاسکتا ہے۔۔۔ آفندی نے کہا۔

            آفندی کی بات سن کر انسپکٹر لیون حیران ہوگیا۔۔۔ہاں آفندی ہم تو صرف آفیشل راستوں کو چیک کررہے ہیں ۔۔۔۔ان آفیشل تو بہت سے طریقے ہیں۔۔مگر ہم ان کو چیک نہیں کرسکے ۔۔۔۔۔۔۔انسپکٹر کا لہجہ معذرت بھرا تھا۔

            چلو کوئی بات نہیں ۔۔۔۔اب تو ان لوگوں کی پکچرز بھی آچکی ہیں ۔۔۔۔دوبارہ سے ریکارڈ چیک کرنے کی کوشش کرو ۔۔۔ان لوگوں نے یہاں کہیں رہائش بھی لی ہوگی جو یقینی طور پر ہوٹل پر نہیں رکےہوں گے ۔۔۔بلکہ کوئی پرائیوٹ گھر کسی سورس سے رینٹ پر لیا ہوگا۔۔۔اس کےعلاوہ سم کا ریکارڈ بھی دیکھو ۔۔۔۔۔میں جب تک لیبارٹری کا چکر لگاتا ہوں ۔۔۔آفندی نے کہا۔۔۔اور اٹھ کھڑا ہوا گیا۔

            آفندی سمجھ رہا تھا کہ انسپکٹر لیون زہین تو ہے ۔۔۔مگر ۔۔۔غیر ملکی ایجنٹس کے سامنے اس کا ذہن الگ انداز سے چل رہا ہے ۔۔۔وہ انہیں عام سے جرائم پیشہ سمجھ رہاہے ۔۔۔مگر یہ ہائیلی ٹرینڈ ایجنٹس ہیں ۔۔اوریہاں کافی گہرائی تک اپنی جڑیں چھپائے بیٹھے تھے ۔۔۔

            آفندی پولیس اسٹیشن سے نکلا ۔۔۔۔۔دوپہر ہوچلی ۔۔۔وہ وہاں سے سیدھا لیبارٹری آیا ۔۔۔۔۔یہاں کام ویسے ہی چل رہا تھا ۔۔۔بس فائنل ٹیسٹنگ چل رہی تھی ۔۔۔۔۔ایک مخصوص پیڈ پر جہاز کو فکس کر کے رکھا ہوا تھا۔۔۔۔جبکہ اس کا انجن فل پاورسے چل رہا تھا۔۔۔۔جہاں اس کی ہیٹ اور ساؤنڈ کی ٹیسٹنگ ہورہی تھی ۔۔۔۔۔سب کے چہروں پر خوشی کے آثار تھی ۔۔۔کیونکہ سب چیزیں کامیاب اور امید کے عین مطابق چل رہی تھی ۔۔۔

            آفندی کچھ دیر یہ سب دیکھتا رہا ۔۔۔۔۔۔۔۔ شام ہونے والی تھی ۔۔۔اور اب سب کام سمیٹ رہے تھے ۔۔۔۔اتنے میں ڈاکٹر سمیرا اس کے قریب آئی ۔۔۔۔اور پوچھنے لگی ۔۔آفندی صاحب مجھے کچھ سامان خرید نا ہے ۔۔۔۔اگر آپ کے پاس ٹائم ہوتو مجھے باہر لے جائیں ۔۔۔اور واپس پر چھوڑ دیجئے گا۔۔۔آفندی نے ہامی بھر لی ۔۔

            کچھ دیر بعد لیب مکمل طور پر بند ہوگئی اور سب اپنے اپنے ہاسٹلزکی طرف چلے گئے ۔۔۔۔تو ڈاکٹر سمیراآفندی کے ساتھ باہر آگئی ۔۔اور دونوں قریبی شاپنگ مال چلے گئے ۔۔۔۔شاپنگ کرنے میں کافی دیر ہوگئی ۔۔۔۔شاپنگ کے بعد آفندی نے کھانے کا پوچھا تو سمیرانے ہاں میں سر ہلا دیا ۔۔۔۔اتنے میں آفندی کو خیال آیا اور اس نے سمیرا سے پوچھا کہ پاکستانی کھائے ہوئے کتنی دیر ہوگئی ہے ۔۔۔۔سمیر ا نے کہا کہ چھ ماہ سے اوپر ہوگئے ۔۔۔آفندی نے پوچھا کہ پاکستانی کھانے کا موڈ ہے ۔۔۔۔جس پر سمیرا نے کہا۔۔۔کیوں نہیں ۔۔۔ابلے ہوئے چاول اور مچھلی کھا کھا کر میں تنگ آگئی ہوں۔۔۔۔۔

            اس پر آفندی نے کہاکہ میرا گھر قریب ہی ہے ۔۔۔۔چل کر کھا نا کھاتے ہیں ۔۔۔اور کال کر اپنے باورچی کو کھاناتیارکرنے کا کہدیا۔۔۔۔جب وہ لوگ گھر پہنچے تو کھانا ٹیبل پر لگ چکا تھا۔۔۔بریانی ۔۔۔قورمہ دیکھ کر سمیرا کا موڈایکدم بچوں جیسا ہوگیا۔حالانکہ وہ کافی سیریس اور کم گو تھی ۔۔مگر کھانے کی ٹیبل پر پاکستانی مینیو نے اس کے موڈ کو بوسٹ کردیا تھا۔۔۔

            کھانے کھانے کے دوران سمیرا مستقل باتیں کرتی رہیں ۔۔۔اس نے اب مستقل یہاں آکر کھانے کا فیصلہ کیا تھا۔۔۔۔۔کھانے کے بعد گرم گرم چائے آگئی ۔۔۔۔

            چائے پیتے ہوئے آفندی اپنے مطلب کی بات پر آگیا۔۔۔۔سمیراجی ۔۔۔آپ سے ایک بات پوچھوں ۔۔۔

            جی پوچھیں ۔۔۔۔ڈاکٹر سمیرانے کہا۔

            جیسے کہ آپ نے بتایا کہ یہ ایکسپیریمنٹ آپ لوگ کافی عرصے سے کر رہے تھے ۔۔۔۔۔تو جب یہ تجربہ کامیاب ہوا تو آپ نے اعلیٰ حکام کو بتایا کہ ہم اس تجربے میں آگے بڑھ سکتے ہیں ۔۔آپ کے خیال میں یہ بات لیب سے باہر کس طرح نکل سکتی ہے ۔۔۔یہ ایک نہایت ہی اہم اور خفیہ نیوز تھی ۔۔۔جس کے باہر نکلتے ہی ایجنٹس اس طرف حملہ آور ہوئے ۔۔۔۔آفندی نے پوچھا ۔

            آفندی اس کا میں کچھ نہیں کہہ سکتی ۔۔۔مگر اس فائٹر جیٹ کا جو ایویناکس سسٹم تھا ۔۔۔وہ ایک چائنیزانجینئر دیکھ رہا تھا۔۔۔۔اور وہ ہر ہفتے باہر کلب جایاکرتا تھا۔۔۔۔سب سے پہلے اسی کا قتل ہوا ۔۔۔اگر خبر لیک ہوئی تو اسی سے ہوسکتی تھی ۔۔۔۔اس کے بعد چائنا نے ہمیں دوسرا انجینئر دیا ۔۔۔۔۔۔اور اس کے بعد پاکستانی انجینئر آیا۔۔۔۔ وہ بھی صرف ایک بار ہی باہر گیا۔۔۔اور مارا گیا۔۔۔۔یہ سب کہیں نہ کہیں لنکڈ ہے ۔۔۔مگر ہماری ٹیم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے ۔۔۔جو یہ خبر باہر پہنچاتا ۔۔۔ہم سب ایک ٹیم کی طرح کافی عرصے سے کام کررہے ہیں ۔۔۔سمیرا نے تفصیل سے جوا ب دیا۔۔

            آفندی مستقل سوچ رہا تھا۔۔۔۔۔اتنے میں سمیرا نے چائے کا کپ رکھا ۔۔۔اگرمیں آج یہاں رک جاؤں تو کوئی مسئلہ تو نہیں ۔۔۔سمیرا کی

            نگاہوں میں عجیب سی شوخی اور مستی تھی ۔۔۔

            آفندی نے کہا شوق سے رہ سکتی ہیں ۔۔۔۔کوئی ایشو نہیں ۔۔۔اس پر سمیرا نے موبائل نکالا ۔۔۔اور لیب کی سیکورٹی کو اطلاع دے دی کہ وہ آج باہر رک رہی ہے ۔۔۔۔

            آفندی نے سمیرا کو دوسرا بیڈ روم دیا ۔۔۔۔۔اور اپنے بیڈ روم میں آگیا۔۔۔اس نےاپنے لیپ ٹاپ پر کام کرناتھا ۔۔۔اس نے ڈیپ ویب پر جا کر کچھ ٹاسک پوسٹ کئے ۔۔۔پچھلی ای میلز دیکھیں ۔۔۔اور دو ڈھائی گھنٹے کام کے بعد اپنے بیڈ روم واپس آگیا۔۔۔اسے نیند آرہی تھی ۔۔مگر اس سے پہلےوہ چائے پینا چاہ رہا تھا۔۔۔ابھی وہ یہ سوچ ہی رہا تھ کہ دروازے پر دستک ہوئی۔۔۔وہ سمجھ گیا کہ باورچی چائے لے آیا ہے ۔۔کیونکہ وہ سونے سے پہلے لازمی چائے پیتا تھا۔۔۔

            دروازہ کھلتے ہی ایک تیز خوشبو کاجھونکا اندر داخل ہوا۔۔۔۔۔یہ ڈاکٹر سمیرا تھی ۔۔۔جو نہا کر فریش ہو کر نیوڈریس پہنی ہوئی تھی ۔۔۔اور اس فٹنگ والی میکسی میں کمال لگ رہی تھی ۔۔اس کے ہاتھ میں چائے کی ٹرے تھی ۔۔آفندی کو حیران دیکھ کر کہنے لگی ۔۔وہ باورچی نے چائے لا کر دی تو میں نے سوچا کہ میں ہی آپ کو لادیتی ہوں ۔۔۔

            آفندی نے دروازہ چھوڑ دیا۔۔۔اور سمیرا اندر آگئی ۔۔۔اس نے اپنا چشمہ اتار کر اورکھلا ڈلا سوٹ اتار کر یہ سوٹ پہنچا تو بالکل الگ ہی لک نظر آئی ۔۔۔۔۔چائے پینے کے بعد سمیرانے دروازہ اندر سے لاک کیا ۔۔۔اور بیڈ روم پر آگئی ۔۔

            اس کا انداز کافی جارحانہ ۔۔۔۔اور عزائم عاشقانہ تھے ۔۔۔۔آفندی سمجھ گیا۔۔۔کہ آج اس کی عزت اترنے والی ہے ۔۔۔

            سمیرا نے بیڈ پر آتے ہی اپنی میکسی کھول دی ۔۔۔۔۔باہر سے نارمل فگر رکھنے والی اندر تباہی بھرے ہتھیار چھپائے ہوئی تھی ۔۔۔اس کے ممے کافی بڑےاور موٹے تھے ۔۔۔۔۔کمر پتلی ۔۔۔اور تھائیز بھی خوبصورت اور بھری بھری ۔۔۔۔۔۔۔سمیرا اوپر آ کر آفندی پر جھک گئی ۔۔اور اس کی شرٹ کے بٹن کھولنے لگی ۔۔۔۔۔شرٹ اتار کر وہ اسپر جھک گئی ۔۔۔اور چہرے پر بوسے دیتے ہوئے ہونٹ چوسے ۔۔۔اس نے آفندی کے ہاتھ پکڑ کر انہیں اپنے سینے پر رکھ دیئے ۔۔۔اور بولی ۔۔۔۔آفندی انہیں دبا ؤ ۔۔۔۔ان کا رس پیو ۔۔۔انہیں خالی کردو ۔۔۔۔

            آفندی نے اس کے خروبوزوں کو تھاما ۔۔۔اور دبانے لگا۔۔۔۔سمیرا اسی طرح وحشیو ں کی طرف اس کے چہرے کو چومے جارہی تھی ۔۔۔اسنے آفندی کی پینٹ بھی کھینچ کر اتار دی ۔۔۔اور اس کے لن کو پکڑ کر کھینچنے لگی ۔۔۔۔سمیرا کے منہ سے گرما گرم آہیں نکل رہی تھیں۔۔۔۔

            آفندی کا لن سخت ہوتے ہی اس نے آفندی کی آنکھوں میں دیکھا ۔۔۔۔اور اسکے اوپر ٹانگیں پھیلا کر بیٹھ گئی ۔۔۔۔۔سخت ایک لمحے کے لئے اس کی پھدی کے لبوں پر رکا ۔۔۔۔۔اور پھر سمیرا کے اگلے جھٹکے سے اندر گرم بھٹی میں داخل ہوگیا۔۔

            سمیرا کے اندر بے انتہا کی گرمی تھی ۔۔۔پتا نہیں کتنے عرصے وہ برداشت کئے ہوئی تھی ۔۔۔لن اندر جاتے ہی اس نےتیزی سے آفندی کے اوپر سواری شروع کردی ۔۔۔اس کے میں سے سسکیوں اور آہوں کا طوفان برپا ہوگیا۔۔۔آہ ہ۔۔۔۔اف۔۔۔۔سس۔۔۔۔۔آہ ہ ہ۔۔۔۔

            سمیرا نے اپنے دونوں بھاری ممے اپنی مٹھی میں جکڑ لئے۔۔۔۔۔اور آفندی کے لن کو اپنی پھدی میں لئے گھمانے لگی۔۔۔اوہ ہ۔۔۔آ ہ ہ۔۔۔اف۔۔۔ آفندی آج تجھے کھا جانا ہے ۔۔۔۔۔آفندی حیرت سے اس آتش فشاں کو دیکھ رہا تھا جو اس وقت جوالا مکھی بنی ہوئی تھی ۔۔۔

            آفندی کے سینے پر ہاتھ ٹکا کر وہ اپنے چوتڑ اچھال اچھال کر اس کے لن پر مار رہی تھی ۔۔۔۔۔آہ ہ ہ ۔۔۔اف۔۔۔۔ہا ہ ہ ہ۔۔۔۔قریب دس منٹ تک اس نے آفندی کی بھرپور سواری کی ۔۔۔۔۔اور پھر اتر کے سائیڈ بیڈ پر لیٹ گئی ۔۔۔اور بولی ۔۔۔آفندی میرے اوپر آ ۔۔۔اور مجھے توڑ دے ۔۔۔آفندی اب اس کی ٹانگوں کے درمیان آگیا۔۔۔۔اور ایک ہی جھٹکے میں لن اندر دے مارا۔۔۔۔۔اور پھر اندر لن مار کر جھٹکوں کی مشین چلا دی۔۔۔۔۔سمیرا کے بڑے اور بھاری ممے اب اوپر کو اچھلے جا رہے تھے ۔۔۔اور اسکی سسکیاں اب چیخوں میں بدلنے لگی۔۔۔آہ ہ۔۔۔آف۔۔۔آفندی ۔۔۔۔اور زور سے مار ۔۔۔۔۔۔آہ ہ ۔۔۔۔ہا ہ ہ ہ۔۔۔۔۔۔

            آفندی صحت مند اور فٹ بندہ تھا۔۔۔اورفیلڈ میں رہنے کی وجہ سے مستقل ورزش کاعادی تھا۔۔۔۔۔اس نے اگلے آدھے گھنٹے میں سمیرا کی پھدی کی بس کروادی ۔۔۔اس کی پھد ی سے پانی نکل نکل کربیڈپر تالاب بنا رہا تھا۔۔۔۔اور جسم کی گرمی آہستہ آہستہ کم ہو کر اب درجہ حرارت نارمل ہو گیا۔۔۔۔

            آفندی نے سمیرا کو مختلف پوزیشنز میں ٹھیک ٹھاک چودا ۔۔۔اور جب تک اس کی بس نہیں ہوئی ۔۔۔اس نے اپنا ڈسچار ج نہیں ہونے دیا۔۔۔اورسمیرا کے ہار مانے پر خود بھی اس کے اندر فارغ ہوگیا۔۔۔اور اس کے برابر لیٹ گیا۔۔

            کچھ دیر میں کمرے کا ماحول اور جسموں کی گرمی ٹھنڈی ہوئی تو سمیرا نے آفندی سے معذرت کی ۔۔مگر آفندی نے کہا کوئی بات نہیں ۔۔جاؤ فریش ہو کر آجاؤ ۔۔۔

            کچھ دیر بعد سمیرا فریش ہو کر آئی ۔۔۔اور ایک راؤنڈ اور لگا کر آفندی کے بیڈ پر ہی سو گئی ۔۔۔

            صبح کے چار بجے کا ٹائم تھا کہ آفندی کی آنکھ کھل گئی ۔۔۔۔اس نے اپنے زہن میں ٹائمر لگایا ہوا تھا۔۔۔۔۔اٹھ کر ا س نے برابر میں بے سدھ لیٹی سمیرا کو دیکھا ۔۔۔اور اٹھ کر بیٹھ گیا۔۔۔وہ ایک کام کرنا چاہ رہا تھا۔۔۔اور وہ سمیرا کا موبائل چیک کرنا تھا۔۔۔

            اس نے موبائل دیکھا تو فنگر لاک لگا تھا۔۔۔جو اس نےبے سدھ لیٹی سمیرا کے ہاتھ پکڑ کر ان لاک کردیا۔۔۔۔اور موبائل دیکھنے لگا۔۔۔اس کے سارے میسجز دیکھے ۔۔۔ای میلز دیکھی ۔۔۔۔۔کال لسٹ ۔۔۔۔سب باریک بینی سے دیکھتا رہا تھا۔۔۔اسے کوئی قابل اعتراض چیز نظر نہیں آئی ۔۔۔آخر میں اس نےگیلری کی پکچرز دیکھنی شروع کی ۔۔۔۔۔اور پھر ایک پکچر دیکھ کر وہ حیران ہوگیا۔۔۔۔ یہ پکچر لیب کے اندر کی ہی تھی ۔۔۔جہاں بیس کے قریب لوگ تھے ۔۔۔۔اور سائرہ کو ایک انعام دیا جار رہا تھا۔۔۔اور انعام دینے والی ایک چائینز عورت تھی ۔۔۔آفندی کو لگا کہ اس نے اسی ہفتے میں اس عورت کو کہیں دیکھا ہے ۔۔۔۔۔مگر کہاں ۔۔۔

            آفندی نے فون ویسے ہی سائیڈ پر رکھا ۔۔۔اور سونے لیٹ گیا۔۔۔کل کافی کام ہونے والے تھے ۔۔۔۔​
            جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
            ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

            Comment


            • #26
              Bahut khoob janab kia shandar story hy

              Comment


              • #27
                Bhot hi khubsurat updat action or sex sy bharpur

                Comment


                • #28
                  kia kamaal ki update di hai mujhy lagta hai yhi sumera ghadaar hai

                  Comment


                  • #29
                    بہت خوب یار
                    ذبردست سٹوری کی اپڈیٹ دی ہے
                    دل تو نہیں کرتا کہ اپڈیٹ ختم ہو
                    لیکن ہو جاتی ہے
                    شاندار

                    Comment


                    • #30
                      Wahoooooo Maza aagya yr such ma dill khsh ho gy khanni phar k

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X