Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

کلی اور کانٹے

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #11
    Bihat hi zabardast kahani hai

    Comment


    • #12
      کمال کی کہانی ہے۔
      خاص وہ حصہ جس میں بلال اپنا پانی نازیہ کی پچھلی جگہ کے اندر ہی نکال دیتا ہے اور نازیہ بنا صاف کیے ہی کلاس میں چلی جاتی ہے۔۔۔اففف

      Comment


      • #13
        لگتا ہے کہ بلال راستے میں چھوڑ دے گا یا پھنسا دے گا

        Comment


        • #14
          قسط نمبر 3
          تحریر زاہد ملک

          اگلے ایک ہفتے تک بلال مجھے ایسی باتیں بتاتا رہا جو بہت آسان سا کام تھا اور ہم زندگی بھر شہر سے دور محبت بھری زندگی گزار سکتے تھے اور میں مکمل طور پر تیار ہو چکی تھی اس گھر کی کوئی چیز حتیٰ کہ امی ابو بھی مجھے اچھے نہیں لگتے تھے مجھے بلال سے آخری بار سیکس کئے 15:روز سے زیادہ گزر چکے تھے اور میں بہت بےتاب تھی ابھی تک میری ببلی ورجن تھی اور ببلو میرے پیچھے ڈالنے کے ساتھ اپنی انگلی سے میری ببلی کے لبوں کو مسل کر میرا پانی نکال دیتا تھا بلال کا ببلو میرے پیچھے ریشمی احساس دیتے ہوئے جب اپنا لاوا اندر ڈالتا تھا تو مجھے سکون مل جاتا اور میں نہال ہو جاتی تھی اب بہت دنوں سے مجھے اس میں خوراک نہیں ملی تھی اور میں بہت بےچین تھی میں جلد سے جلد بلال کے ساتھ جانا چاہتی تھی ۔۔۔۔۔ بلال کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے وہ کہتا تھا کہ اتنے پیسے لازمی ہوں کہ ہم اس بستی میں اپنا مکان لے سکیں مکان خریدنے کے علاوہ کیا کرنا ہے اور زندگی کیسے گزاریں گے ہم دونوں کو معلوم نہیں تھا بلال مطمئن تھا کہ اس کا دوست اسد اس کے لئے سب کچھ کرے گا اسد کراچی میں ہی کچھ عرصہ قبل کسی فیکٹری میں جاب کرتا تھا اور بلال کے محلے میں ہی ایک کرانے کے کوارٹر میں رہائش پزیر رہا تھا اب کچھ عرصہ قبل سے وہ گاؤں چلا گیا تھا اور وہیں کوئی کاروبار کرتا تھا ۔۔ میں بے دلی سے گھر کے کاموں میں مصروف تھی الماری سے کچھ سامان نکالتے ہوئے میرا دل ایک دم اچھل پڑا الماری کے دراز میں پڑی ساری رقم میری دسترس میں ہوتی تھی میں نے دراز کھول کے دیکھا اس میں کافی ساری رقم پڑی تھی ابو کوریا سے بھیجتے رہتے تھے اور چند ماہ قبل جب وہ آئے تو بینک سے کرنسی تبدیل کرا کر گھر میں رکھ کے گئے تھے میں بہت مطمئن ہو گئی اور الماری کو بںد کرتے بیڈ روم میں آ گئی تھی میں صوفے پر بیٹھی کافی دیر سوچتی رہی پھر مطمئن ہو گئی کہ میں اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد ہوں اور میں اس رقم کو اپنی خوشیوں پر خرچ کر سکتی ہوں بلال بھی تو میری محبت میں اتنا کچھ کر رہا تھا میں نے موبائل اٹھا کر ڈیٹا آن کیا تو بلال کا مسیج فٹ سے سامنے آ گیا ۔۔۔ جانوں میں نے گھر سے ایک لاکھ روپے چرا لئے ہیں ۔۔۔ بس کچھ اور ہاتھ مار لوں تو اپنا سفر شروع ہو جائے گا ۔۔۔۔ میں نے فورا اسے مسیج کیا کہ مذید کتنے چاہیں پیسے ؟؟۔ بولا پانچ لاکھ تک مکان مل جائے گا گاؤں میں ۔۔۔۔ میں نے کہا بس آپ تیاری کرو پیسے ہیں میرے پاس۔۔۔۔۔ اگلے روز امی ماموں کے ساتھ ڈاکٹر کے پاس چلی گئی میں نے بلال کو کال کر لی کہ بس آ جاؤ ۔۔ میری ممانی سو رہی تھی میں نے الماری سے پانچ ہزار کے نوٹوں والی گڈی کے ساتھ کچھ اور پیسے بھی اٹھا لئے اور امی کا سارا زیور ایک بلیو کلر کے شاپر میں ڈالے اور چھوٹے ہینڈ بیگ میں جس میں میرے تین سوٹ رکھے ہوئے تھے اسی میں ڈال کر بلال کا انتظار کرنے لگی ۔۔۔ بلال کی کال آ گئی تھی کہ میں ٹیکسی پر ہوں اور پانچ منٹ میں پہنچ رہا آپ گلی کی نکر پر پہنچو ۔۔۔ میں نے موبائل کو آف کر کے امی کے تکیہ کے نیچے رکھا اور ممانی کے کمرے کا دروازہ کھول کر تسلی کی اور سکن کلر کے چادر لپیٹ کر ہینڈ بیگ اٹھا کر گھر سے باہر آ۔گئی میں گلی کے نکر کی طرف بڑھ رہی تھی کہ ایک ٹیکسی رکی اور بلال نے جلدی آنے کا اشارہ دیا میں اس کے ساتھ بیک سیٹ پر بیٹھ گئی میرے دل چاہا رہا تھا کہ میں بلال سے لپٹ جاؤں لیکن ایسا ٹھیک نہیں تھا اور ہم ویسے بھی اب ایک ہو چکے تھے اور زندگی بھر کا عہد نبھانے نکل پڑے تھے ۔۔۔۔۔ سہراب گوٹھ کے ایک بس ٹرمینل میں بلال ایک بس کے سامنے لگا رحیم یار خان کا بورڈ دیکھ کر رک گیا ٹکٹ خریدی اور ہم دونوں ایک سیٹ پر بیٹھ گئے ۔۔دن کے تین بجے گاڑی وہاں سے نکل پڑی تھی شہر سے نکلنے کے بعد کے نظارے میرے لئے سحر انگیز تھے بلال نے اپنا ایک ہاتھ میری کمر کے گرد لپیٹ رکھا تھا اور میں بہت خوشی سے یہ۔سب کچھ انجوائے کرتی جا رہی تھی ایک جگہ پولیس والا گاڑی کی تلاشی کے دوران ہمارے پاس ٹھہر گیا اور پوچھا آپ کون ہیں ۔۔۔ بلال نے اعتماد سے کہا کہ یہ میری بہن ہے اور ہم رحیم یار خان ماموں کے گھر جا رہا پولیس مین بلال کا سٹوڈنٹ کارڈ دیکھنے کے بعد چلا گیا اور ہم مطمئن ہو گئے بلال اپنے دوست سے مسلسل رابطے میں تھا ۔۔ بلال کے پاس نیا موبائل فون دیکھ کر میں نے پوچھا تو بتایا یہ کچھ دن پہلا لیا ہے اور اس کی سم بھی اسی دوست کے نام پر ہے اور دوست سے اس نمبر سے بات کرتا ہوں اپنا موبائل میں نے بند کر کے چھپا دیا ہے ۔۔۔ میں بھی اپنے موبائل سے بلال کی چیٹنگ ڈیلیٹ کرکے اور باقی چیزیں جو میری سمجھ میں آتی تھی ڈیلیٹ کرکے موبائل امی کے تکیہ کے نیچے چھپا آئی تھی ۔۔۔۔ ہم مختلف شہروں سے گزرتے آگے بڑھ رہے تھے شام کے سائے گہرے ہونے لگے تھے میں نے بلال سے پوچھا تو اس نے اپنے دوست کو کال ملا لی اور اس سے بات کرکے اپنی بتانے لگا ۔ پھر کال کرکے بولا ہمیں اور آگے جانا ہے ۔۔۔ رات کے کسی پہر ہم گاڑی سے اتر چکے تھے اس مین روڈ سے ایک کچہ رستہ بائیں جانب جا رہا تھا جہاں ایک سائن بورڈ لگا تھا لیکن اندھیرے کی وجہ سے اس پر کچھ پڑھنا ممکن نہیں تھا ایک آدمی اپنے منہ پر کپڑا لپیٹے بیٹھا تھا اس نے بلال سے رسمی کلمات ادا کئے اور ہم دونوں سے ہاتھ ملا کر اپنے پیچھے بیٹھنے کو کہا اس کا ہاتھ بہت بڑا اور سخت سا تھا میں اس کے پیچھے بیٹھ گئی اور بلال میرے پیچھے یہ بڑی جسامت کا۔ملک تھا اور اس کی باڈی بہت سخت تھی ہم دس منٹ میں ایک الگ تھلگ کچے مکان کے سامنے رک چکے تھے یہاں سے کچھ فاصلے پر مدھم سے لائٹس دکھ رہی تھی شاید یہ کوئی بستی تھی مکان میں ایک کچہ کمرہ اور اس کے ایک کونے میں باتھ روم بنا ھوا تھا اور دوسرے کونے میں ایک بڑا درخت تھا جہاں گرمی بہت زیادہ تھی دو چارپائیاں صحن میں بچھی ہوئی تھی اور ایک پنکھے کے ساتھ بیٹری لگی ہوئی تھی اس آدمی نے بیٹری سے تاریں جوڑ دیں اور پنکھے کے ساتھ ایک لائٹ بھی روشن ہو گئی بلال کا دوست ساڑھے چھ فٹ کا کو چالیس سال کا سخت قسم کا مرد تھا اس کا رنگ سیاہ تھا اور بڑی بڑی موچھیں رکھی ہوئی تھی روشنی میں اسے دیکھ کر مجھے وہ پہلی مووی والا بلیک ٹیچر یاد آ گیا وہ ہمارے ساتھ بیٹھتے ہوئے میری طرف دیکھ کر بولا ۔۔بلال یہ تم بہت چھوٹی ہے ۔۔۔ کتنی عمر ہے اس کی؟؟۔ بلال نے بولا اسد یہ 14 سال کی ہے وہ مجھے غور سے دیکھتے ہوئے اپنے ہونٹوں پر بار بار زبان پھیر رہا تھا ۔۔ بولا ہممممم کورٹ میرج نہیں ہو سکتی ۔۔ آپ دونوں کی عمر کم ہے ۔۔۔ بہرحال کوئی اور رستہ نکالتے ہیں ۔۔۔ اس نے ٹیفن ہمارے سامنے کھول دی اور بولا کھانا کھاؤ۔۔۔ ہم نے کچھ کھانا کھا لیا اسد نے پوچھا مکان کا۔کیا کرو گے میں نے کہا ہم اپنا مکان لیں گے ۔۔۔ بلال نے میرے اور اپنے پیسے اسد کو دے دئیے اور ساتھ زیور بھی میں سارا زیور اٹھا کر لائی تھی یہ پتا نہیں کتنا تھا کبھی امی سے کسی کے ساتھ بات کرتے ہوئے سنا تھا کہ میں نے اپنا دس تولے سونا اپنی بیٹی کے لئے رکھا ہے ۔۔۔۔ اسد بولا یار توں نے لڑکی بہت پیاری چن لی ہے اس جیسی میں نے آج تک نہیں دیکھی ۔۔۔۔ کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد اسد جانے لگا اس نے شاپر اٹھا لیا تھا بولا آپ کنڈی لگا کر سو جاؤ اور بےفکر ہو جاؤ یہاں کوئی نہیں آتا اور بلال کل سے آپ ایک فرنیچر شاپ پر کام کے لئے جاؤں گے میں نے بات کر لی ہے پہلے آپ کا روزگار بھی سٹ کر لیں ساتھ میں کوئی مکان ڈھونڈ لیتا ہوں پھر کسی مولوی کو وہیں بلا کر آپ کا نکاح پڑھ لیں گے ۔۔۔ اسد چلا گیا تھا اور ہم پیار میں گم ہوتے گئے بلال نے مجھے چارپائی پر الٹا لٹا دیا تھا اور ہپس پر بیٹھ کر میری سواری کرنے لگا تھا بہت دنوں بعد ریشمی ببلو میرے اندر مزے کی لہریں چھوڑ رہا تھا ۔۔۔۔ میں نے بلال کو آواز دی کہ زور سے کروں چارپائی کی چیں چیں کے ساتھ بجتی تالی اور بلال کی انگلی نے مجھے جلدی ڈسچارج کر دیا بلال مسلسل زور کے جھٹکے مار رہا تھا پھر وہ پورا ببلو میرے اندر کر۔کے اکڑ کر زور لگاتا میرے اندر لاوا بھرنے لگا۔۔۔۔۔ مجھے سکون ملنے لگا لاوا میرے اندر کی خوراک بن چکا تھا مجھے سکون کی لہروں میں نیند آ گئی ۔۔۔۔ کائیں کائیں کی آواز پر میری آنکھ کھل گئی بلال ابھی سو رہا تھا درخت پر دو کوے کائیں کائیں کرتے ہمیں دیکھ رہے تھے ۔۔۔ میں باتھ روم چلی گئی جہاں ہینڈ پمپ لگا ھوا تھا اور میں نے پہلی بار ہینڈ پمپ چلایا تھا جس سے میرے کندھے میں درد ہونے لگا تھا ۔۔۔۔ آٹھ بجے اسد آ گیا تھا وہ ناشتہ ساتھ لایا تھا بلال بھی نہا کر آ گیا تھا اسد کی نگاہیں مجھے اپنے وجود پر چبھتی محسوس ہو رہیں تھیں ۔۔۔۔ ناشتہ کرنے کے بعد اسد نے مجھے کہا کہ بلال کو میں کام پر لے کے جا رہا تاکہ آپ کے معاملات جلدی سیٹ ہو جائیں آپ نے اتنا بڑا کام کر لیا اب واپس بھی نہیں جا سکتے کہ تم دونوں کو۔مار ڈالیں گے اور نئی زندگی کے لئے تھوڑی محنت کرنی پڑتی ۔۔۔ میرے ساتھ بلال بھی خاموش رہا اور کچھ غمزدہ تھا ۔۔۔ پھر اسد بلال کو ساتھ لے کر چلا گیا اور اس لکڑی کے چھوٹے گیٹ کے آگے تالہ لگا گئے ۔۔۔ میں اس بڑے درخت کے نیچے چارپائی پر بیٹھی بہت کچھ سوچ رہی تھی لیکن کیا سوچ رہی مجھے یاد نہیں ۔۔۔۔۔۔ کوئی ایک گھنٹے بعد گھر کا دروازہ کھلا اور اسد موٹرسائیکل سمیت اندر آ گیا ۔۔ اس نے مین دروازے کو بند کر دیا اور سنجیدہ چہرے کے ساتھ میرے پاس آ کر بیٹھ گیا ۔۔۔۔۔ بولا پریشان تو۔نہیں ہو۔۔۔ میں نے مسکرانے کی کوشش کہ ساتھ کہا نہیں انکل ۔۔۔ بولا اوہ ہ ہ انکل نہیں ہوں میں بلال میرا دوست ھے اور آپ بھی میری دوست ہو۔۔۔۔ میں نے بلال کا پوچھا تو بولا وہ اب کام کرے گا ۔۔۔۔ آپ نے ایک بچے پر اتنا بڑا اعتماد کرکے غلطی کے ہے۔۔۔۔ بہرحال اب آپ کے پاس دوسرا رستہ نہیں ہے ۔۔۔۔ اسد چارپائی پر لیٹتے ہوئے بولا ذرا مجھے ٹانگیں دبا دو۔۔میرے دماغ میں ہتھوڑے جیسا وار ہوا لیکن میں سمجھ گئی تھی کہ بلال کا دوست کس طرح بلال کی دوستی نبھانا چاہتا ہے میرے پاس کوئی رستہ نہیں تھا اب عقل واپس پیچھے کو لوٹنا چاہتی تھی لیکن اس وقت کیا کرنے ہے یہ ضروری تھا ۔۔۔ اسد اٹھتے ہوئے بولا اندر چلتے ہیں کمرے میں۔۔۔۔۔ وہ چارپائی اٹھا کر اندر چلا گیا اور مجھے بھی بلا لیا میں لرزتے بدن کے ساتھ گہری سوچوں میں اندر جانے لگی ۔۔۔ دوسری طرف میرے دماغ کی سکرین پر پہلی بلیک ٹیچر والی مووی بھی چلنے لگی تھی اسد چارپائی پر۔لیٹ گیا اس کے پاؤں چارپائی سے کافی آگے لٹک آئے تھے اور پوری چارپائی بھر آئی تھی میں چارپائی کے ساتھ سر جھکائے کھڑی تھی وہ تھوڑا سائیڈ پر ہوتے ہوئے بولا بیٹھو ادھر ۔۔۔ میں بیٹھ کر اپنے کانپتے ہاتھ اس کی پنڈلیوں پر رکھ دئیے اس کا جسم بہت سخت تھا ۔۔۔ بولا تیرے ہاتھوں میں بہت سکون اور مزہ ہے ۔۔۔ آہستہ سے دباتی رھو۔۔۔۔ میں اپنے ہاتھ تھوڑے ہلانے لگی تھی اس کا ببلو کھڑا ہوتے ہوئے تنبو بنانے لگا ۔۔۔۔ بولا اپنی قمیض اتار دو۔۔۔ میں نے ٹوٹے الفاظ میں کہا پلیز ایسا نہیں کرو۔۔۔۔ میں بلال ۔۔۔۔۔۔۔ ہاں ہاں بلال تیرا معشوق ہے تمھاری شادی اس سے ہو گی لیکن میں نے اتنا خطرہ لے رہا ۔۔۔۔ پولیس پہنچ گئی تو میں بھی جیل جاؤں گا ناں ۔۔۔۔ میرے ساتھ بھی چلنا ہے آپ کو ۔۔۔ ویسے بھی آج کل کی لڑکیوں کا پیٹ ایک ل سے نہیں بھرتا ۔۔۔۔۔ وہ کچھ دیر مجھے دیکھتے ہوئے پھر بولا قمیض اتار دو۔۔۔ میں کانپتے ہاتھوں سے قمیض اتارتے ہوئے سر جھکا گئی ۔۔۔۔۔ وششششششش کتنے فریش بوبز ہیں تیرے ۔۔۔بریزر نہیں پہنتی ؟؟؟ میں نے نفی میں سر ہلا دیا اس نے اپنے بڑے سخت ہاتھ میں باری باری میرے دونوں بوبز کو بھرا۔۔۔۔۔ میرے وجود میں بجلیاں دوڑ گئی بولا ٹانگیں دباتی رہوں ۔۔۔ میری نظر اس بڑے تنبو پر تھی اور مجھے مووی والے بلیک مین سے بھی اسد کا ببلو بڑا۔لگ رہا تھا ۔۔ وہ میری کمر پر ہاتھ پھیر رہا تھا میری ببلی پھڑکنے لگی تھی ۔۔۔ بولا اس چھوٹے مست جسم کا مزہ کتنے لوگوں کو دیا ؟؟؟ میں نے نفی میں سر ہلا دیا بولا سچ سچ بولو اب تم نے بس ادھر رہنا ہے میں نے مدھم آواز میں بولا بس بلال ۔۔۔۔ بولا کام تو بڑی رنڈیوں والا کیا ۔۔۔۔۔ پھر بولا میری شلوار اتار دو۔۔۔ میں کچھ لمحے رکی تو اسد نے میرے بالوں کو پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اور بولا ۔۔۔ میں پھر سے بولوں گا۔۔۔۔۔۔ میرا دل دھڑک سے باہر آنے لگا میں نے جلدی سے اس کی شلوار اتار دی بہت بڑا کالا ببلو جس پر گوشت نہیں تھا اور ہڈیوں سے بھرا تھا وہ اس چارپائی کے بازو کی طرح چوکور سا تھا بہت زیادہ سخت سیدھا کھڑا تھا ۔۔۔۔۔۔ اسد بولا ۔۔۔ اب اس کو چوسو اور اس سے کھیلو۔۔۔۔ میں اس کے پچکی سی ٹوپی پر اپنے لب رکھ گئی ۔۔۔۔۔ (جاری ہے )

          Comment


          • #15
            ہاے ۔۔۔ہاے ظالم بلال ۔۔۔ کیا کر دیا بلال تو نے نازیہ کے ساتھ ۔۔۔ نازیہ کم عمری میں بہت بڑی غلطی کر گئی۔۔۔ بلال کا دوست اسد اب نازیہ کی پھدی اور گانڈ مارے گا ۔۔۔ اور بلال نازیہ کو چھوڑ کر چلا جائے گا ۔۔۔ اسد نازیہ کی زندگی برباد کر گا۔۔۔۔ اسد کمینہ کالووووو نکلے گا۔۔۔مز۔۔۔مز۔۔۔مزہ آگیا جناب ۔۔۔لاجواب ۔۔عمدہ ۔۔۔زبردست ۔۔۔

            Comment


            • #16
              اچھی اسٹوری ہے مزہ آگیا

              Comment


              • #17
                Zbrdst aaghaz aik bhot he bhtreen kahani

                Comment


                • #18
                  لاجواب کہانی۔ پڑھ کر مزا آگیا۔
                  عشقِ ممنوع

                  Comment


                  • #19
                    zamane ki aik talkh haqeqt pe likhhi hoi kahani maza de gi

                    Comment


                    • #20
                      لو جی ۔۔۔۔ہنڑ وجے گی ۔۔۔۔۔تے تھا ں تھاں وجے گی

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X