قفس کی چڑیا۔
سیکنڈ لاسٹ۔
مہرو نے ایک تیز سخت جھٹکے سے خود کو چھڑایا اور ابرار خان پر چلا اُٹھی۔
کیا بدتمیزی ہے یہہ۔۔ابرار لالہ۔۔؟؟؟مہروسر اٹھا کر بہت ناگواری سے بولی تھی۔
ارےے ۔میں نے تو اپنارشتہ بھجوایا تھا۔تم سےشادی کرنا چاہتا ہون مگر زبیر خان نے مجھے کوئی جواب ہی نہیں دیا۔۔۔وہ گردن اکڑا کر بولا ۔
تو۔۔۔۔۔۔؟؟؟
تو یہ کہ کب تک جواب ملے گا۔۔تم ہی بتا دو ؟؟۔۔وہ کلف لگی گردن اکڑائے کھڑا تھا۔
ابرار لالہ ابھی بھابھی کو مرے صرف تین ماہ ہوئے ہیں اور آپ کو پھر سےشادی کی پڑ گئی۔۔۔۔مہرو نے شرم دلانا چاہی۔
مہروکی بات پر وہ اپنی مونچھوں کو بل دیتا مسکرایا۔
ارےےے مہرو ڈارلنگ مین۔ میں مرد ہوں۔۔۔۔مرد۔۔۔۔
مہرو بی بی۔۔۔۔؟
مرد ہیں تو مرد بنیں یوں اپنے گھر کی بہن بیٹیوں کا راستہ روکنا۔۔یہہ کہاں کی مردانگی ہے۔۔۔۔
مہرو نے اسکی طرف دیکھا اور ابرار خان کی آنکھوں میں ہمیشہ والی گندگی دیکھ کر وہ بات ادھوری چھوڑتی سائیڈ سے ہو کر آگے بڑھ گئی۔۔
اونہہ۔۔۔چیپ گھٹیا۔انسان۔۔۔وہ بڑبڑاتی ہوئی باہر نکلی۔
مہرو تو وہان سے نکل گئی مگر پیچھےکھڑا ابرار خان سوچے جا رہا تھا۔مہرو بی بی تمہین پانے کیلیے نہجانے مجھے کیا کیا کرنا پڑ رہا ہے۔پہلے اپنی بیوی کا خود گلا گھونٹ کر تمہارے آنے کا راستہ کلئیر کیا اور پھر۔۔۔؟؟؟
مجھے لگتا ہے مہرو بی بی تمہین حاصل کرنے کیلئے کچھ اور پلاننگ بھی کرنا پڑے گئی۔
مہرو نے جب سے جوانی میں قدم رکھا تھا تب سے ہی اسنے ابرار خان سے کترانا شروع کر دیا تھا۔۔۔۔
ایک تو وہ بہت رنگین مزاج مرد تھا کلی کلی منڈلانے والا شوقین بھونرا۔اور دوسرا مہرو کو ہمیشہ اسکی بے باک نظروں سے عجب الجھن ہوتی تھی۔۔۔۔۔۔۔ جب کبھی مہرو کی نظریں اسکی نظروں سے ملتیں تھیں تو مہرو کا دل چاہتا تھا کہ وہ کہیں چھپ جائے کسی ایسی جگہ پر جہاں ابرار خان کی گندی اور بےباک نظریں اس تک نہ پہنچ پائیں۔۔۔حالانکہ وہ مہرو سے چودہ، پندرہ سال بڑا تھا پھر بھی مہرو اس کے سامنے آنے سے ہمیشہ کتراتی تھی شادی سے پہلے تو وہ تایا کے گھر آتے ہوئے بانو کو ہمیشہ اپنے ساتھ لاتی تھی ابرار خان سے متعلق اپنے دل میں چھپے ڈر اور خوف کی وجہ سے اس کا سامنا کرنے سے بھی گریز کرتی تھی۔۔۔۔۔
اور اب وہ کیونکر اس شخص کے حق میں فیصلہ دے دے گی جس کی نگاہوں کی بےپردہ تپش سے ایک عرصہ اس نے کتراتے اور چھپتے ہوئے گزارا تھا۔
مہرو نے واپسی کہ چند منٹوں میں ہی فیصلہ کر لیا تھا۔۔۔ابرار خان سے یہہ تھوڑی دیر کی ملاقات ہی اسکے ڈسیزن لینے میں بہت مددگار ثابت ہوئی تھی۔
_________________
اوووف۔۔۔ف۔۔۔ف۔۔۔۔زریاب خان مجھے یقین نہیں آ رہا کہ ایسا ہو چکا ہے۔۔۔۔پلوہی خوشی سے بھرپور آواز میں چہک اٹھی تھی۔
جبکہ زریاب ہاتھوں میں سر گرائے بیٹھا تھا۔۔۔ابھی کچھ دیر پہلے لال حویلی سے فون آیا تھا کہ مہرو بھابھی نے شمس خان کہ حق میں فیصلہ دے دیا ہے۔۔۔
جب سے یہ خبر سنی تھی پلوشہ کے تو قدم ہی زمین پر نہیں ٹک رہے تھے اسکے برعکس زریاب سنجیدہ اور خاموش سا ہو چکا تھا۔۔۔۔
زریاب نے پلوہی کی بات پر سر اٹھا کر اسکے خوشی سے جگمگاتے چہرے کو دیکھا اور لمبی سی سانس لیتا اٹھ کر پلوہی کی طرف آیا۔۔
میں ابھی ایک تھپڑ سے یقین دلا دیتا ہوں تمہیں کہ ایسا ہو چکا ہے۔۔۔۔زریاب نے اسے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے پیچھے سے حصار میں لے کر بولا۔
ویری فنی۔۔۔۔۔۔پلوہی نے ناک چڑھایا۔
اٹس ناٹ فنی۔۔یو ناؤ۔۔آئی کین ڈو۔۔۔۔
ارےے خان صاحب میں جانتی ہوں آپ ایسا کر سکتے ہیں ماضی میں بھی کافی تھپڑ کھا چکی ہوں۔۔۔۔
پلوہی بھول بھی جاؤنا ماضی کو۔۔۔۔زریاب نے اسکی لٹ انگلی پر لپیٹی۔
خان صاحب بھول چکی ہون۔۔۔۔۔
پھر بھی ہمیشہ طعنے دیتی رہتی ہو۔۔۔۔۔
کبھی کبھار دینے پڑ جاتے ہیں۔۔۔۔پلوہی معصومیت سے بولی
مت دیا کرو کبھی کبھار بھی مجھے وہ سب یاد آ جاتا ہے جو میں تمہارے ساتھ کر چکا ہوں۔۔۔۔۔وہ افسردگی سے بولا
ارےےےمیں مذاق کر رہی تھی خان۔۔جی۔پلوہی نے اسکے سنجیدہ سے تاثرات پر آئینے میں نظر آتے اسکے عکس کو دیکھ کر مسکرا کر کہا۔
ہوں۔۔۔۔جانتا ہوں۔۔۔۔زریاب اسکی لٹ کھینچتا ہوا پھر پیچھے ہٹ گیا۔
خان آپ اتنے سیریس کیوں ہو رہے ہیں۔۔۔۔ مہرو بھابھی کا فیصلہ آپ کو اچھا نہیں لگا کیا۔۔۔؟؟پلوہی نے پوچھتے ہوئے زریاب سے سیگرٹ چھینی جو وہ منہ میں لے چکا تھا۔
نہیں پلوہی مجھے بھابھی کے اس ڈسیزن پر کوئی اعتراض نہیں ہے میں ہمیشہ انکے ساتھ ہوں۔۔۔۔زریاب نے سنجیدگی سے کہا
یہی بات مسکرا کر بھی تو کہ سکتے ہیں۔۔۔۔۔
یہ سیگرٹ واپس کرو اور جاؤ جا کر کچھ کام وام کرو دن بدن پھیلتی ہی جا رہی ہو اور مجھے موٹی لڑکیاں بلکل پسند نہیں۔۔۔۔
او ہیلو مسٹر۔۔۔۔میں لڑکیاں نہیں آپکی بیوی ہوں۔۔۔۔موٹی، بھدی ،کالی، پیلی جیسی بھی ہو جاؤں آپکی بیوی ہی رہوں گی سمجھے۔۔۔۔۔پلوہی انگلی اٹھا کر بولی۔
سمجھ گیا۔۔جانم۔۔زریاب نے اسکی انگلی پکڑ کر ہلکی سی مڑوری۔
اوئی ماں۔۔۔۔کسقدر جلاد صفت انسان ہیں خان آپ۔۔۔ وہ انگلی سہلاتی چیخی۔
جلاد صفت کےعلاوہ ساتھ بہت رومینٹک بھی تو ہوں۔۔۔۔زریاب نے آنکھ ماری۔
اونہہ۔۔۔۔اس نے ناک چڑھایا۔۔
میں جا رہی ہوں نیچے بی بی جان نے بلوایا تھا مجھے۔۔۔۔۔آپ بھی آ جائیں۔۔۔۔
تم جاؤ۔۔۔۔مجھے کچھ کام ہے وہ کر کے آتا ہوں۔زریاب نے لیپ ٹاپ اٹھاتے ہوئے کہا۔ پھر ساتھ ہی۔
یہ تو دیتی جاؤ۔۔۔۔اس نے سیگرٹ کی ڈبی کیطرف اشارہ کیا جو پلوہی جاتے ہوئے ہاتھ میں پکڑ چکی تھی۔
اونہہ۔۔۔۔اسکے بغیر تو سانس بھی نہیں آئے گی محترم کو۔۔۔اسنے بڑبڑاتے ہوئے ڈبی زریاب کی طرف اچھالی۔
جسے زریاب نے کیچ کر کے پھر وکٹری کا نشان بنایا اور پلوہی کی طرف ساتھ ہوائی کس بھی اچھالی۔
پلوشہ بھی مسکراتی ہوئی باہر نکل گئی۔
____________________
مہرو کے اقرار کرنے کے بعد دلاور خان اور خدیجہ۔ لال حویلی جا کر شادی کی تاریخ لے آئے تھے۔
چونکہ اس شادی کو عام روایتی انداز میں نہیں کیا جانا تھا لہذا سادگی سے نکاح کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔
خاقان آفریدی کی خواہش تھی کہ مہرو انکی حویلی سے ہی رخصت ہو۔۔۔۔مگر زریاب کو یہ گوارا نہیں تھا کہ شمس خان اسکی حویلی میں اسکے بھائی کی بیوہ کو بیاہنے آئے۔۔۔۔لہذا اس نے بابا جان کو منع کر دیا تھا۔۔
اب مہرو کو لال حویلی سے ہی رخصت ہو کر شمس خان کی حویلی میں جانا تھا۔۔۔۔
وہ اب نہ تو خوفزدہ تھی اور نہ ہی کنفیوزڈ صرف خاموش تھی۔۔۔۔
کیونکہ بسا اوقات انسان ایسی کیفیت میں مبتلا ہو جاتا ہے جہاں نہ تو کوئی خوشی اثر کرتی ہے اور نہ ہی تسلی ، ،نہ باہر بسنے والی دنیا اور نہ ہی اندر کا موسم۔۔۔بس ایک عجیب سی خاموشی طبیعت پرچھائی رہتی ہے ۔۔۔۔۔
ایسی ہی کیفیت مہرو کی تھی وہ بھی خاموش تماشائی بنی ہوئی سب کچھ ہوتے دیکھ رہی تھی۔۔۔
پلوشہ زریاب کیساتھ لال حویلی مہرو سے ملنے آئی تھی۔۔۔وہ بہت خوش تھی کہ مہرو نے شمس خان کے حق میں فیصلہ کیا۔۔۔۔اسنے مہرو کو یقین دلایا تھا کہ وہ شمس خان کیساتھ بہت خوش رہے گی۔
مگر مہرو تو زریاب کی بات پر ہی اڑی ہوئی تھی۔۔۔
زریاب نے باتوں باتوں میں مہرو سے کہا تھا کہ وہ حدید کو اپنے پاس ہی رکھے گا۔۔
مہرو تب تو چپ رہی مگر اب جیسے جیسے نکاح کا دن قریب آ گیا تھا وہ فکرمند ہو گئی تھی ۔
زریاب کو ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا میں ماں ہوں حدید کی۔۔۔۔میں مانتی ہوں وہ اس حویلی کا وارث ہے مگر اسکا یہ مطلب نہیں کہ حدید کو مجھ سے دور کر دیا جائے۔۔۔۔حدید کو میں اپنے ساتھ ہی لے کر جاؤں گی۔۔۔۔۔اس نے بڑبڑاتے ہوئے زریاب کا نمبر ملایا ۔
زریاب لیپ ٹاپ پر بزی تھا جب اسکا سیل وائبریٹ ہوا۔
بھابھی کالنگ لکھا دیکھ کر اس نے کال اوکے کی۔
اسلام وعلیکم بھابھی۔۔۔
وعلیکم السلام۔۔زریاب۔۔۔کیسے ہو۔۔۔۔۔؟؟
میں ٹھیک ہوں آپ سنائیں کیسے یاد کیا مجھ نا چیز کو۔۔۔۔
خفا ہو مجھ سے۔۔۔۔۔
کیا ہو سکتا ہوں۔۔۔۔؟؟؟زریاب نے الٹا اسی سے سوال پوچھا
نہین۔۔۔۔۔۔
ایگزیٹلی۔۔۔۔حدید کیسا ہے۔۔۔.؟؟وہ مصروف سا بولا۔
وہ ٹھیک ہے زریاب۔۔۔۔مجھے حدید کے بارے میں ہی تم سے بات کرنی تھی۔۔۔۔مہرو آہستگی سے بولی۔۔
کیسی بات۔۔۔۔۔۔
اس دن تم کہہ گئے تھے کہ حدید کو تم اپنے پاس رکھو گے۔۔۔۔
جی۔۔۔۔۔زریاب نے سر ہلاتے ہوئے لیپ ٹاپ پر سینڈ کو کلک کیا اور لیپ ٹاپ آف کر کے صوفے کی پشت سے ٹیک لگائی۔
زریاب تم جانتے ہو میں اسکی ماں ہوں۔۔۔؟؟
جانتا ہون۔۔۔۔۔
پھر تم نے ایسا کیوں کہا۔۔۔۔؟؟
کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ سہراب خان کا خون شمس خان کی حویلی میں پرورش پائے۔۔۔
پھر تو سہراب خان کی بیوہ کو بھی اس حویلی میں جانا سوٹ نہیں کرتا۔۔۔
بھابھی مجھے اس شادی پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔۔۔آپ نے ابرار خان کے مقابلے میں شمس خان کا پرپوزل ایکسیپٹ کر کے اچھا فیصلہ کیا ہے۔۔۔پر حدید کا وہاں رہنا میں مناسب نہیں سمجھتا۔۔۔۔وہ رسان سے بولا۔۔
پلوہی نے تم سے کچھ کہا ہے اس بارے میں۔۔۔۔؟؟؟مہرو مشکوک ہوئی کہ شاید پلوشہ کے گھر والوں نے منع کیا ہو حدید کو ساتھ لانے سے۔۔
نہیں بھابھی وہ کیوں کہے گی کچھ۔۔۔۔مجھے ہی یہ مناسب نہیں لگا تھا۔۔
زریاب میں حدید کو ساتھ لے کر ہی جاؤں گی۔۔۔۔تمہیں لگتا ہے میں اس کے بغیر رہ سکتی ہوں یا پھر وہ میرے بغیر۔۔۔۔؟؟؟وہ روہانسی ہوئی۔۔
بھابھی آپ زیادہ دور نہیں ہوں گی میں حدید کو ملوا لایا۔ کروں گا۔۔۔۔زریاب اسے قائل کر لینا چاہتا تھا۔۔
بلکل نہیں۔۔۔۔حدید میرے ساتھ ہی جائے گا زریاب میں تمہاری یہ بات بلکل نہیں مانوں گی۔۔۔۔۔
جیسے آپ کی مرضی۔۔۔۔۔۔زریاب نے کہہ کر کھٹاک سے کال بند کی۔۔
کس سے بات کر رہے تھے۔۔۔۔۔؟؟پلوشہ نے کمرے میں داخل ہو کر زریاب کا سرخ چہرہ دیکھا
کسی سے نہیں۔۔۔۔۔وہ غصے سے کہتا کشن کو لات مار کر کیز اٹھاتا باہر نکل گیا
پلوشہ نے افسردگی سے زریاب کی پشت کو دیکھا۔۔۔۔۔۔جب سے مہرو بھابھی نے لالہ کے حق میں فیصلہ کیا تھا زریاب کافی سے زیادہ سنجیدہ رہنےلگا تھا۔۔۔
زریاب کا رویہ کچھ برا بھی نہیں تھا۔۔۔۔پلوہی نے خود کو اس کی جگہ پر رکھ کر سوچا تھا۔۔۔اس کا اکلوتا بھائی جوانی میں ہی چلا گیا تھا یہ دکھ بہت بڑا تھا اور اب اپنے بھائی کی بیوہ کو اسی شخص کے حوالے کرنا اس سے بھی زیادہ مشکل نظر آ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔
__________________
مہرو کو زریاب سے بات کرنے کے بعد یوں لگ رہا تھا جیسے اس نے کوئی غلط فیصلہ کر لیا ہو۔۔۔۔وہ افسردہ سی بیٹھی تھی جب اماں اسٹک کے سہارے چلی آئیں__
ایسے کیوں بیٹھی ہو مہر۔۔۔۔۔؟؟وہ پاس آ کر تخت پر بیٹھیں۔
کچھ نہیں بس ایسے ہی۔۔۔۔۔۔مہرو مسکرا کر سیدھی ہوئی۔
پریشان ہو۔۔۔۔۔
نہیں۔۔۔۔۔مہرو نے اپنے پیر کے انگوٹھے کو دیکھتے ہوئے نفی میں سر ہلایا۔۔
شمس اچھا لڑکا ہے۔۔۔۔۔زبیر کے ساتھ پڑھتا رہا ہے اس لیے زبیر بھی مطمعن ہے۔۔۔۔مجھے بھی ابرار کے مقابلے میں وہ ہی مناسب لگا تھا۔۔۔تم پریشان مت ہو وقت کیساتھ سب ٹھیک ہو جائے گا میری بچی۔۔۔۔۔انہوں نے مہرو کے جھکے سر پر ہاتھ پھیرا۔۔
مہرو ان کا لمس پا کر بے قابو ہوتی انکی گود میں سر رکھ کر رو پڑی۔۔
اماں بہت مشکل ہے میرے لیے یہ سب قبول کرنا۔۔۔۔۔ایسا مت کریں آپ لوگ اماں۔۔۔۔۔۔مم میں کہیں نہیں جاؤں گی۔۔مم۔۔مجھے۔۔۔۔۔مجھے یہ شادی نہیں کرنی ہے۔۔۔وہ روتی ہوئی کہہ رہی تھی۔
میں سہراب کے قاتل کو شوہر کے روپ میں کیسے قبول کروں گی اماں۔۔۔۔۔مجھ سے یہ سب نہیں ہو گا۔۔۔۔روک دیں سب۔ اب بھی انکار کر دیں ان لوگوں کو۔۔۔۔۔
ایسا مت کہہ میری بچی۔۔۔۔اللہ تجھے وہ ساری خوشیاں دے جنکی تجھے خواہش ہے۔۔۔۔۔میں ماں ہوں تیری ۔۔مجھ سے تیری یہ اجاڑ زندگی نہیں دیکھی جاتی مہر۔۔۔ایسا مت کہہ جو ہو چکا اور جو ہو رہا ہے وہ سب اوپر والے کی مرضی ہے اسے اللہ کی رضا جان کر قبول کر لے میری جان۔۔۔۔۔۔میں مرنے سے پہلے تجھے خوش وخرم دیکھنا چاہتی ہوں۔۔۔۔۔
اماں ایسا تو اب مت کہیں پلیز۔۔۔۔مہرو ماں کی بات پر تڑپ کر پیچھے ہٹی۔
اللہ آپ کو میری بھی زندگی لگا دے اماں آپ ہمیشہ ہمارے سر پر سلامت رہیں۔۔۔۔مہرو نے انکے ہاتھوں کو ہونٹوں سے لگایا۔۔
میں اپنی زندگی گزار چکی ہوں مہر اور اب پاک پروردگار سے اپنے بچوں کی خوشیوں کے لیے دعا گو ہوں۔۔۔۔وہ پاک ذات میرے بچوں کو خوش رکھے مجھے اور کیا چاہیے۔۔۔۔انہوں نے پیار سے مہرو کے بال سنوارے۔
ماما۔۔۔واٹ ہیپنڈ آپ رو کیوں رہی ہیں۔۔۔۔۔؟؟؟حدید پھولے سانس سے وہاں کھڑا فکر مندی سے مہرو کو آنسو پونچھتے دیکھ رہا تھا۔۔۔وہ باہر بچوں کیساتھ کھیل رہا تھا اور ابھی وہاں آیا تھا۔
کچھ نہیں میری جان میں رو نہیں رہی تھی۔۔۔گیم ختم ہو گیا آپ سب کا۔۔۔۔؟؟؟مہرو نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
یس پھوپھو۔۔۔۔گیم ختم ہو گیا اب جلدی سے ہم سب کو نوڈلز بنا کر دیں۔۔۔۔۔زیان (زبیر خان کا بیٹا )نے حدید سمیت اپنے دوسرے دونوں بھائیوں کیطرف اشارہ کیا۔
اوکے میں ابھی بنا کر دیتی ہوں۔۔۔۔تم لوگ دادو کے پاس بیٹھو۔۔۔۔۔مہرو مسکراتی ہوئی ان سب کے لیے نوڈلز بنانے کچن کیطرف چلی گئی۔۔۔۔
_______________________
آج جمعہ کا دن تھا اور جمعہ کے دن ہی شمس اور مہرو کا نکاح رکھا گیا تھا۔
بابا جان ،بی بی جان اور پلوشہ کل ہی لال حویلی آ چکے تھے زریاب کو آج آنا تھا نکاح سے پہلے۔۔۔۔۔
پلوشہ اپنے گھر جا کر خدیجہ کیساتھ ساری تیاریاں کروا آئی تھی اور اب اسنے مہرو کی طرف سے ہی شادی مین شامل ہونا تھا۔
جمعے کی نماز کے بعد نکاح کا ٹائم مقرر ہوا تھا اور اب سب مرد لوگ نماز پڑھنے گئے ہوئے تھے
پلوہی کے گھر والے بھی چند ایک مہمانوں کیساتھ آ چکے تھے مگر زریاب کا کوئی اتا پتہ نہیں تھا ۔
پلوشہ نے اسے کال کی مگر زریاب کا سیل آف تھا۔
کہاں رہ گئے ہیں زریاب۔۔۔؟؟؟وہ بے چینی سے ٹیرس پر ٹہلتی اسکا انتظار کر رہی تھی۔جب مہرو اس کے پاس چلی آئی۔
مہرو نے آف وائٹ کلر کی فراک پہنی تھی جس پر گولڈن کلر کا کام ہوا تھا پلوشہ ہی یہ ڈریس اسکے لیے لائی تھی اپنی پسند سے۔۔۔بالوں کو چوٹیا میں قید کر رکھا تھا جس میں سے چند ایک لٹیں ادھر أدھر بکھری ہوئی تھیں ہلکے میک اپ اور جیولری کے ساتھ کچھ سوگوار سی وہ بہت پیاری لگ رہی تھی۔
وہ نہیں آئے گا۔۔۔۔مہرو آہستگی سے بولی۔
پلوہی نے مہرو کی بات پر پلٹ کے اسے دیکھا۔۔
میری صبح بات ہوئی تھی ان سے بھابھی کہہ رہے تھے کہ وہ نکاح سے پہلے ضرور آ جائیں گے۔۔۔
نکاح سے پہلے نہیں نکاح کے بعد آئے گا وہ۔۔۔۔۔مہرو لمبی سی سانس لے کر کہتی باہر دیکھنے لگی۔۔
بھابھی آپکی بات ہوئی تھی ان سے کیا۔۔۔۔؟؟؟
نہیں۔۔مگر اس کو۔۔میں جانتی ہوں۔۔۔۔
آپ انکی وجہ سے پریشان مت ہوں بھابھی۔۔۔۔پلوہی نے اسکی افسردہ شکل دیکھ کر تسلی دی۔۔
پلوہی وہ مجھ سے کبھی خفا نہیں ہوا تھا مگر اب ہو چکا ہے۔۔۔۔
زریاب آپ سے خفا نہیں ہو سکتے ہیں بھابھی وہ آپکی بہت عزت کرتے ہیں۔۔۔وہ تسلی آمیز انداز سے بولی۔۔
ہاں میں جانتی ہوں پر وہ مجھ سے آج خفا ہے حدید کے معاملے پر۔۔۔۔
حدید کے معاملے پر۔۔۔۔۔کیسا معاملہ۔۔۔۔؟؟پلوہی حیران ہوئی
وہ چاہتا ہے میں حدید کواپنے ساتھ نہ لے کر جاؤں بلکہ اس کے پاس چھوڑ دوں۔۔۔۔مہرو افسردگی سے بولی۔
ایسا کیسے ہو سکتا ہے بھابھی حدید بہت چھوٹا ہے کیسے رہے گا آپ کے بغیر۔۔۔۔۔وہ زریاب نے ایسے ہی کہہ دیا ہو گا آپ پریشان مت ہوں میں بات کر لوں گی ان سے۔۔۔۔
نہیں پلوہی۔۔۔۔اسنے ٹھیک ہی کہا تھا حدید سہراب خان کا خون ہے۔۔۔۔۔وارث ہے اس خاندان کا پھر کیسے وہ کسی اور کے گھر میں پرورش پا سکتا ہے۔۔۔۔۔
وہ کسی اور کا گھر نہیں بھابھی آپ کا گھر ہو گا۔۔۔حدید کی ماں کا گھر۔۔۔پلوہی نے مہرو کو محبت سےکہا۔
مہرو پلوشہ کی اس بات پر افسردگی سے مسکرا دی۔
پلوشہ تم بہت اچھی ہو۔۔
اور آپ مجھ سے زیادہ اچھی ہیں بھابھی۔۔۔۔پلوہی نے اسکے ہاتھ تھامے۔
پلوہی تم۔۔۔۔تم حدید کا خیال رکھنا۔۔۔۔میں اسے ساتھ لے کر نہیں جاؤں گی وہ اب اپنے باپ کے گھر میں ہی رہ کر پرورش پائے گا۔
مگر بھابھی وہ کیسے رہے گا آپ کے بغیر۔۔۔۔ وہ فکرمند ہوئی۔
رہ لے گا وہ جیسے باپ کے بغیر رہ رہا ہے۔۔۔۔وہ افسردہ ہوئی۔
ایسا کچھ بھی نہیں ہو گا بھابھی حدید آپ کے ساتھ ہی جائے گا میں زریاب کو منا لوں گی آپ ٹینشن مت لیں پلیز۔۔۔
تم زریاب سے اس بارے میں کوئی بات نہیں کرو گی پلوہی میں نے حدید کو سمجھا دیا تھا رات کہ وہ تم لوگوں کیساتھ رہے گا۔۔۔۔
ایسا کیوں کیا آپ نے وہ بچہ ہے ابھی۔۔۔۔پلوشہ پریشان ہوئی۔
کل وہ بچہ بڑا ہو گا اور جب وہ مجھ سے پوچھے گا کہ ماما آپ نے میرے بابا کے قاتل کے ساتھ شادی کیوں کی تو میں اس کو کیا جواب دوں گی پلوشہ۔۔۔۔۔مہرو کے آنسو گالوں پر پھسلے۔
بچے تو پیار کے بھوکے ہوتے ہیں بھابھی جہاں سے پیار ،، محبت اور توجہ ملے وہیں کے ہو جاتے ہیں۔۔۔۔پر آپ کہہ رہی ہیں کہ وہ اپنے باپ کے قاتل کے گھر پرورش نہیں پا سکتا تو ٹھیک ہی کہہ رہی ہوں گی۔۔۔۔۔میں حدید کا خیال رکھوں گی مجھے بہت عزیز ہے وہ آپ فکر مت کریں۔۔۔۔پلوہی سپاٹ سے انداز میں کہہ کر وہاں سے چلی آئی۔۔
نہجانے کب تک لالہ قاتل ہی کہلاتے رہیں گے۔۔۔وہ افسردگی سے سوچتی نیچے ہال میں آ گئی۔۔
___________________
پہلے وہ زریاب کے نہ آنے سے پریشان تھی اور اب بھابھی کی باتوں نے اسے مزید پریشان کر دیا تھا۔۔
_______________
نکاح ہو چکا تھا اور مہرو کے کہنے کے مطابق زریاب واقعی نہیں آیا تھا۔
پلوشہ بھی ٹھیک سے خوش نہیں ہو پا رہی تھی۔۔۔۔پہلے جتنی وہ خوش تھی مہرو اور شمس کی شادی سے اب اتنی ہی افسردہ بیٹھی تھی۔
نکاح کے بعد کھانے کا انتظام تھا۔۔۔۔کھانے سے فارغ ہونے کے بعد دلاور خان نے ان لوگوں سے واپسی کی اجازت چاہی تھی۔۔
پلوہی اور شہربانو مہرو کو وہیں ہال میں لے آئیں تھیں جہاں مہمان خواتین بیٹھیں تھیں۔۔
پلوشہ زریاب ابھی بھی نہیں آیا۔۔۔۔مہرو نے اس کے کان کے پاس سرگوشی کی۔
اسکا چہرہ گھونگھٹ نکال کر چھپایا گیا تھا۔۔
نہین۔۔۔۔۔
ہوں۔۔۔۔مہرو نے افسردگی سے سر ہلا دیا۔
پلوشہ بچے چلو مہرو کو لے کر وہ لوگ باہر انتظار کر رہے ہیں۔۔۔۔بی بی جان نے ہال میں داخل ہو کر کہا۔۔
جی بی بی جان۔۔۔۔پلوہی نے سر ہلا کر مہرو کا بازو تھاما اور باہر کی جانب چل پڑی۔۔
راہداری میں کھڑیں سب رشتے دار عورتیں باری باری مہرو سے ملتی اور دعائیں دیتی جا رہی تھیں۔۔
کچھ آگے جا کر مہرو نے پلوہی کا ہاتھ تھاما جو اسکے بازو پر تھا۔۔
پلوشہ ۔۔تم۔۔زریاب سے کہنا اب۔۔میں بھی اس سے خفا ہوں۔۔۔۔لہذا میرے سامنے وہ اب کبھی بھی مت آئے ۔۔۔۔
مگر بھابھی میں آپ کے سامنے آ چکا ہوں۔۔۔۔۔زریاب کی آواز پر جہاں پلوہی پلٹی وہیں مہرو نے بھی چادر پیچھے سرکائی اور پرشکوہ نگاہوں سے زریاب کو دیکھا۔۔
آپ مجھ سے خفا ہو کر مت جائیں کیونکہ میں آپ سے خفا نہیں ہوں۔۔۔۔۔وہ سنجیدگی سے بولا۔۔
تو پھر کہاں تھے اب تک جانتے ہو میں نے اور پلوشہ نے تمہارا کتنا انتظار کیا۔۔۔۔۔مہرو کے آنسو پلکوں سے نیچے گرے۔۔
پلیز روئیں مت آپ ( آج وہ مہرو کو بھابھی کی بجائے آپ کہہ کر بات کر رہا تھا )۔۔زریاب نے اسکے کندھوں کے گرد بازو پھیلایا۔۔
بہت برے دوست ثابت ہوئے ہو تم ۔۔۔۔مہرو نے اسکے بازو پر مکا جڑا۔
برا تو میں ہوں ہی اپنی نند سے پوچھ لیں۔۔۔۔زریاب نے مسکرا کر پلوہی کی ناک کھینچی۔
جوابا پلوشہ نے زور سے اسکا ہاتھ جھٹک دیا جو خفگی کی علامت تھا۔
اور کتنی دیر ہے بھئی۔۔۔باہر سب انتظار کر رہے ہیں۔۔۔۔زبیر خان نے انکی طرف آتے پوچھا۔
جی بس آ رہے ہیں۔۔۔۔پلوشہ نے مہرو کو دیکھا۔۔
مہرو نے ایک خاموش نظر پاس کھڑے زریاب پر ڈالی ۔
ہمیشہ خوش رہیں۔۔۔۔زریاب نے مہرو کے سر پر ہاتھ رکھ کر دعا دی اور باہر جانے کی بجائے اندر کیطرف چلا گیا۔
پلوہی نے مہرو کی چادر کو درست کیا اور اسے ساتھ لیے باہر نکل گئی۔
____________
مہرو سب بڑوں ، بزرگوں کی دعاؤں تلے رخصت ہو کر شمس خان کی حویلی آ چکی تھی۔۔۔پلوشہ بھی اسکے ساتھ آئی تھی۔۔۔چند روایتی رسموں کے بعد پلوہی مہرو کو اسکے کمرے میں لے آئی تھی۔یہ کمرہ پلوشہ نے ہی ڈیکوریٹ کروایا تھا وہ مہرو کو شمس اور پروشہ کے کمرے میں نہیں لے جانا چاہتی تھی ۔۔
اسی لیے اس نے مہرو اور شمس کے لیے نیا کمرہ سیٹ کروا دیا تھا۔۔۔۔
پلوہی نےمہرو کو کمرے میں لا کر بیڈ پر بیٹھایا۔
یہ آپ کا کمرہ ہے بھابھی۔۔۔۔اسکی ہر چیز آپکی ملکیت ہے بلکہ یہ حویلی یہ گھر بھی آج سے آپ ہی کا ہے۔۔۔۔امید ہے آپ بنا کسی تکلف کے یہاں کی ہر چیز کو یہاں کے مکینوں سمیت اپنا سمجھیں گی۔۔۔۔میری دعا ہے کہ اللہ تعالی آپ کو بہت سی خوشیوں سے نوازے۔۔۔۔وہ سب خوشیاں جو آپ کا حق ہیں۔۔۔۔۔
میں اب چلتی ہوں۔۔۔۔آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتا دیں۔۔۔پلوہی نے تفصیلی بات کر کے پو چھا
نہیں۔۔۔۔۔مہرو نے نفی میں سر ہلایا
ٹھیک ہے میں جاتی ہوں آپ بلکل ریلیکس ہو کر بیٹھیں۔ بھابھی۔۔۔۔۔۔حدید کو میں اپنے ساتھ ہی سلاؤں گی۔
پلوشہ حدید کوبھی اپنے ساتھ ہی لے کر آئی تھی۔
بیسٹ آف لک۔۔۔۔۔وہ مسکرا کر کہتی کمرے سے چلی گئی۔
پیچھے مہرو بے چینی سے انگلیاں چٹخانے لگی۔۔۔۔دل بہت زور زور سے دھڑک رہا تھا۔۔۔۔ہتھیلیاں بار بار پسینے سے بھیگتیں جنہیں وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد کپڑوں سے رگڑ کر صاف کر لیتی۔۔۔۔عجیب سی ہیزیٹیشن تھی حالانکہ نکاح سے پہلے وہ بلکل بھی کنفیوز نہ تھی پھر اب کیوں ایسا ہو رہا تھا۔۔۔۔۔؟؟
مہرو نے دل کی دھک دھک سے بے چین ہو کر پاس پڑے جگ سے پانی گلاس میں انڈیلا اور پینے لگی۔۔۔۔پانی پی کر وہ سیدھی ہوئی تھی جب آہستگی سے کمرے کا دروازہ کھلا اور شمس اندر داخل ہوا۔۔۔۔مہرو نے اسے دیکھے بغیر ہی سر جھکا دیا۔۔۔۔
شمس چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا بیڈ کے قریب آ کھڑا ہوا۔
مہرو بیڈ سے ٹانگیں نیچے لٹکا کر ہاتھوں کو مضبوطی سے دبوچے سر جھکائے بیٹھی تھی ۔
شمس نے ایک نظر اسکے جھکے سر کو دیکھ کر آہستگی سے سلام کیا۔
مہرو نے سر کی ہلکی سی جنبش سے اسکے سلام کا جواب دیا۔
میں جانتا ہوں یہ سب آپ کے لیے اتنا آسان نہیں تھا۔۔۔۔۔۔میں سہراب کا قاتل ہوں اور اسکے قاتل کو کسی بھی رشتے میں قبول کرنا یقینا آپ کے لیے بہت تکلیف دہ ہو گا۔۔۔۔۔۔
بے شک میں نے سہراب خان کو جان بوجھ کرنہیں مارا تھا مگر اسے گولی تو میرے ہاتھوں ہی لگی تھی۔۔۔۔۔جس کا پچھتاوا مجھے آج تک ہے اور شاید مرتے دم تک رہے گا۔۔۔۔شمس نے افسردگی سے اپنے ہاتھوں کو دیکھتے کہا۔
بابا زبیر کو اچھے سے جانتے تھے اسی لیے انہوں نے مجھ سے مشورہ کیے بغیر ہی اس سے رشتے کی بات کر لی۔۔۔۔اگر مجھے انکے فیصلے کا علم ہوتا تو میں بلکل بھی انہیں اس بات کی اجازت نہ دیتا کیونکہ جس طرح یہ سب آپ کے لیے مشکل ہے اسی طرح میرے لیے بھی۔۔۔۔۔میں خود کو آپ کا مجرم تصور کرتا تھا اور شاید آگے بھی کرتا رہوں۔۔۔۔مجھ سے جو ہو چکا اسکی کوئی معافی نہیں ہے میں جانتا ہوں لیکن پھر بھی آپ سے معافی مانگتا ہوں۔۔۔۔ہو سکے تو مجھے معاف کر دیجئے گا۔۔۔وہ سانس لینے کو رکا۔
مہرو دم سادھے شمس کو سن رہی تھی۔۔
آپکے گھر والوں کے دل بہت بڑے ہیں میں انکی بڑائی کی دل سے قدر کرتا ہوں جنہوں نے مجھے اس قابل جانا کہ اپنی پھولوں جیئسی بیٹی میرے حوالے کی۔۔۔۔۔
یہ گھر آپ کا ہے۔۔۔۔۔۔آپ جس طرح چاہیں یہاں رہ سکتی ہیں۔
میں کسی بھی معاملے میں آپ کو اپ سیٹ نہیں کرنا چاہتا۔۔۔۔۔آپ کو میری ذات سے کسی قسم کی کوئی شکایت نہیں ہو گی۔۔۔۔۔وہ پھر سے رک کر سانس لینے لگا۔
مجھے کسی چیز کی کوئی جلدی نہیں ہے۔۔۔۔اس لیے آپ ریلیکس ہو کر رہیں۔۔۔۔۔میں خود کو اور آپ کو وقت دینا چاہتا ہوں اس رشتے کو قبول کرنے کا۔۔۔۔۔۔کیونکہ وقت ہی ہر زخم،، ہر دکھ کا بہترین مرہم ثابت ہوتا ہے۔۔۔۔
آپ جتنا چاہیں وقت لے سکتیں ہیں۔۔۔۔۔میں آپکے ہر عمل ہر فیصلے کی دل سے قدر کروں گا۔۔۔لہذا آپ ریلیکس ہو جائیں۔
شمس اپنی بات مکمل کر کے ایک اچٹتی نظر مہرو کے جھکے سر اور انگلیاں چٹخاتے ہاتھوں پر ڈال کر اسٹڈی کی طرف چلا گیا۔
اور وہ واقعی ریلیکس ہو چکی تھی۔۔۔۔مہرو نے سر اٹھا کر شمس کی پشت کو دیکھا اور پرسکون ہو کر سر بیڈ کی بیک سے ٹکا دیا۔۔۔۔۔
وہ جس بات سے کنفیوز تھی اس بات کے لیے شمس اسے وقت دے چکا تھا
اور مہرو کو وقت ہی تو چاہیے تھا۔۔۔۔۔
__________________
اگلے دن چند ضروری مہمانوں کی موجودگی میں ولیمے کا چھوٹا سا فنکشن ارینج کیا گیا تھا۔
لال حویلی اور آفریدی حویلی سے سب آئے تھے سوائے زریاب کے۔۔۔۔۔
پلوشہ کی زریاب سے ناراضگی کا گراف مزید اونچا ہو گیا تھا۔۔۔۔وہ فنکشن کے بعد واپس نہیں جانا چاہتی تھی مگر پھر بی بی جان کے کہنے پر وہ انکار نہ کر سکی تھی اسلئیے انکے ساتھ ہی واپس آ گئی۔۔۔۔۔۔
مہرو بھی حدید کو لیے ایک ، دو دن رہنے اپنے گھر والوں کیساتھ لال حویلی واپس چلی گئی تھی۔
وہ لوگ جب حویلی پہنچے تو زریاب گھر پر نہیں تھا۔
پلو ہی نے چینچ کرنے کے بعد عشاء کی نماز پڑھی اور بیڈ پر آ کر لیٹ گئی۔۔۔۔کافی دن کی تھکان تھی اسلیے کب اسکی آنکھ لگی اسے پتہ ہی نہ چلا۔
زریاب جب کمرے میں داخل ہوا تو پلوہی کے سوئے ہوئے وجود کو دیکھ کر اسے کافی خوشگوار حیرت ہوئی۔۔۔۔وہ تو سوچ رہا تھا محترمہ چار ، پانچ دن تک واپس نہیں آنے والی ہیں۔۔۔۔مگر اب اسے دیکھ کر وہ مسکراتا ہوا اسکی طرف بڑھا۔
پلوشہ گہری نیند میں تھی زریاب نے مسکراہٹ دبا کر اسکی چہرے پر آئی لٹ کو پکڑ کر زور سے کھینچا۔
کیا ہوا۔۔۔۔کون۔۔۔۔۔؟؟پلوہی ڈر کر اٹھ بیٹھی۔
سامنے زریاب کو اس طرح سے مسکراتے دیکھ کر وہ غصے سے چیخی۔
خان ۔۔۔جی۔۔۔یہ کیا بدتمیزی تھی۔۔۔۔۔؟؟؟؟
بدتمیزی۔۔۔۔کیسی بدتمیزی۔۔۔؟؟وہ انجان بنا۔
اتنی اچھی نیند آئی تھی مجھے اور آپ نے جگا دیا شیم آن یو مسٹر۔۔۔۔اب کھڑے ہو کر دانت کیوں نکل رہے ہیں۔۔۔۔۔وہ چڑ کر بولی۔
چڑیل لگ رہی ہو۔۔۔۔۔۔زریاب نے اسکے بکھرے بالوں کی طرف اشارہ کیا۔
اور آپ بھی بھوت لگ رہے ہیں یوں ہنستے ہوئے۔۔۔۔
اچھا بتاؤ اتنی جلدی کیسے واپسی ہو گئی۔۔۔۔؟؟
میں آپ کو جواب دینے کی پابند نہیں لہذا مجھے سونے دیں۔۔۔۔پلوہی نے کمبل میں منہ چھپایا
پابند تو ہو تم میری۔۔۔۔مگر ہوا کیا ہے جانانه (ڈارلنگ) ۔۔۔۔؟؟؟زریاب نے چھیڑتے ہوئے اسکا کمبل ہٹایا۔
خان کیا ہے۔۔۔
کیا ہوا خفا کیوں ہو۔۔۔؟؟
آپ تو ننھے کاکے ہیں ناں جو جانتے نہیں کیا ہوا ہے۔۔۔۔؟؟؟
ہاہاہاہا۔۔۔۔۔زریاب اسکے یون لفظ ننھے کاکے کہنے پر دل کھول کر ہنسا۔
مگر پلوشہ غصیلی نظروں سے اسے گھور رہی تھی۔
اچھا سوری نا۔۔۔چلو ساری خفگی ختم کر کے پھر سے دوستی کرتے ہیں۔۔۔۔وہ مسکراہٹ دباتا ہاتھ بڑھا کر اسکے سامنے بیٹھا۔
مجھے کوئی دوستی ووستی نہیں کرنی آپ سے آپ جانتے ہیں آپ نے کیا کیا ہے۔۔۔۔؟؟؟
سوری فار دیٹ۔۔۔۔
کتنا آسان ہے آپ کے لیے کچھ بھی کر کے سوری کہہ دینا۔۔۔وہ ابھی بھی خفا تھی۔
مسئلہ کیا ہے سوری کر تو رہا ہوں اب اور کیا کروں۔۔۔۔۔؟؟
مجھ سے بات مت کرین۔۔۔
یہ تو ہو نہیں سکتا۔۔۔۔زریاب نے اسکی ناک کھینچی۔
میرا نہیں تو بھابھی کا خیال کر لیتے وہ بار بار آپ کا پوچھ رہی تھیں۔۔۔میں نے کتنی کالز کیں آپ کو۔۔۔۔کیا یہی ویلیو ہے میری آپکی نظر میں کہ آپ میری کال کاٹ کر اپنا سیل آف کر دیں۔۔۔وہ خفگی سے بولی۔
سوری۔۔۔۔۔
آج کے فنکشن میں بھی نہیں آئے آپ۔۔۔۔؟؟
سوری۔۔۔۔۔۔
اور بھابھی سے آپ نے یہ کیوں کہا کہ حدید انکے ساتھ نہیں جائے گا بلکہ یہاں ہمارے پاس رہے گا۔۔۔۔۔پلوشہ بات یاد آنے پر گھور کر بولی ۔
میں نے کہا تھا ان سے مگر اب میں اپنی بات سے پیچھے ہٹ چکا ہوں۔۔۔۔حدید بہت چھوٹا ہے اور اسے ماں کی ضرورت ہے۔۔۔۔باپ تو مر چکا ہے اور اب میں اسے ماں سے جدا کر کے ماں کی ممتا سے محروم نہیں کرنا چاہتا لہذا میں اپنی یہ بات واپس لے چکا ہوں تم انہیں بتا دینا۔۔۔۔۔۔
انہیں۔۔۔کنہیں۔۔۔۔؟؟پلوہی نے ابرو اٹھائے۔
مسز شمس دلاور خان کو۔۔۔۔۔وہ سنجیدگی سے کہتا اٹھ کر ڈریسنگ روم میں چلا گیا۔
اونہہ۔۔۔مسز شمس۔۔۔بھابھی بھی تو کہہ سکتے تھے۔۔۔۔پلوہی نے ناک چڑھایا۔
اسے زریاب کا مہرو کو بھابھی کی بجائے مسز شمس کہنا اچھا نہیں لگا تھا۔
_______________________
دو دن بعد شمس مہرو کو لینے لال حویلی گیا تھا۔۔۔۔مہرو حدید کو وہیں چھوڑ آئی تھی۔۔۔۔اس نے زبیر لالہ سے کہہ دیا تھا کہ وہ حدید کو آفریدی حویلی چھوڑ آئیں۔۔۔۔۔زبیر خان نے جواب میں کیا۔۔۔۔؟؟۔
کیوں۔۔۔۔؟؟۔
جیسے سوال پوچھنے کی بجائے اچھا کہہ کر اثبات میں سر ہلا دیا تھا۔
شمس حدید کو جانتا تھا۔۔۔وہ اس سے مل بھی چکا تھا اسلیے واپسی پر وہ مہرو سے پوچھنا چاہتا تھا کہ وہ حدید کو ساتھ کیوں نہیں لائی۔۔۔۔۔۔؟؟۔
مگر عجیب سی ہچکچاہٹ آڑے آ رہی تھی اسی لیے وہ خاموشی سے ڈرائیونگ کرتا رہا اور مہرو کو حویلی چھوڑ کر خود ڈیرے پر چلا گیا۔۔۔
زبیر خان اگلے ہی دن حدید کو آفریدی حویلی چھوڑ گیا تھا۔۔۔۔۔جب بی بی جان اور بابا جان کو زریاب کی یہہ بات پتہ چلی تھی کہ۔
وہ حدید کو مہرو کی بجائے اپنے پاس رکھنا چاہتا ہے تو بابا جان نے پھر زریاب کو اچھی خاصی سنائیں تھیں۔
جسے زریاب سر جھکائے خاموشی سے سنتا رہا تھا۔۔۔۔کچھ فاصلے پر کھڑی پلوہی جانتی تھی یہ خاموشی کا لاوا اسی پر پھٹے گا کیونکہ پلوشہ نے ہی بی بی جان اور بابا جان کو زریاب کی حدید سے متعلق بات بتائی تھی مگر خلاف توقع زریاب نے پلوہی سے بازپرس کرنے کی بجائے اسے یہ کہا کہ کل وہ جا کر حدید کو مہرو کے پاس چھوڑ آئے۔۔۔۔پلوشہ نے زریاب کو بھی ساتھ جانے کا کہا تھا مگر وہ نہیں مانا۔۔۔۔یوں پلوشہ اگلے دن بی بی جان کو ساتھ لے کر حدید کو مہرو کے پاس چھوڑ آئی تھی۔۔۔۔
مہرو جہاں خوش تھی حدید کے آنے پر وہیں تھوڑی اپ سیٹ بھی تھی کہ شاید وہاں کے مکینوں کو حدید کا وہاں آنا اچھا نہ لگے۔۔۔۔۔۔مگر وہ غلط تھی۔۔۔۔
_____________
وقت کسی کی پرواہ کیے بغیر گزرتا جا رہا تھا۔۔۔۔۔مہرو کو وہاں آئے ایک ماہ ہو چکا تھا۔۔۔۔۔اس ایک ماہ میں اس کے اور شمس کے درمیان کچھ نہیں بدلا تھا وہ آج بھی پہلے دن کی طرح ایک ہی کمرے میں دو اجنبی بن کر رہ رہے تھے۔۔۔۔
مہرو کے لیے صرف شمس خان ہی اجنبی تھا اب تک کیونکہ حویلی کہ باقی مکین جن میں دلاور خان ،، خدیجہ اور حویلی کی چار ، پانچ ملازمیں شامل تھیں وہ ان سب سے اپنی خوش مزاجی کے باعث گھل مل گئی تھی۔۔۔۔
مہرو آفریدی حویلی کی طرح یہاں بھی بہو ہونے کا پورا پورا حق ادا کر رہی تھی۔۔۔۔۔اس نے حویلی کی بہت سی ذمہ داریاں اپنے سر لے لیں تھیں۔۔۔۔جنہیں وہ بہت خوش اسلوبی سے انجام دے رہی تھی۔۔۔۔۔
خدیجہ مہرو کے اس رویے پر خوشی سے پھولے نہیں سما رہیں تھیں جنہیں مہرو کی شکل میں اتنی اچھی بہو مل گئی تھی اچھی تو خیر پروشہ بھی تھی۔
مگر تھوڑی نخرے والی تھی جبکہ مہرو میں نام کا بھی نخرہ نہ تھا۔۔۔۔
اس لیے خدیجہ بھی خوشی خوشی ہر کام کو مہرو کے مشورے سے ہی کرتی تھیں۔۔۔۔یوں ساس ،، بہو کی اچھی بن گئی تھی۔۔
اس وقت مہرو روتی ہوئی دعا کو گود میں لیے بہلا رہی تھی جب حدید وہاں آیا۔
ماما یہ کیوں رو رہی ہے لائیں اسے مجھے دیں میں چپ کرواتا ہوں۔۔۔
نہیں اسے بھوک لگی ہے ابھی دودھ پی کر چپ ہو جائے گی۔۔۔۔مہرو نے رحیمہ سے فیڈر پکڑ کر دعا کے منہ کو لگائی۔۔
جسے وہ چپ ہو کر پینے لگی۔۔۔
ماما آپ کو پتہ ہے بابا کہہ رہے تھے وہ کچھ دنوں تک اسلام آباد جائیں گے تو مجھے بھی اپنے ساتھ لے کر جائیں گے۔۔۔حدید خوشی سے بولا۔
بابا۔۔۔۔؟؟؟باباکون۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟
شمس بابا اور کون۔۔۔۔۔
یہ انکل بابا کب ہوئے۔۔۔۔؟؟مہرو حیران تھی۔۔۔حدید تو شمس کو انکل کہتا تھا پھر اب بابا کیسے۔۔۔۔۔؟؟۔
وہ شاکڈ تھی۔
وہ انکل ہیں آپ کے بابا نہیں۔۔۔۔۔مہرو نے تحمل سے سمجھایا۔۔
وہ آپکے ہزبینڈ ہیں ماما تو میرے بابا ہی ہوئے ناں۔۔۔۔۔حدید سمجھداری سے بولا۔۔
مہرو اسکے منہ سے اتنی گہری بات سن کر ساکت تھی۔۔
حدید بیٹا یہ کس نے کہا ہے تمہین۔۔۔۔۔۔؟
کسی نے نہیں۔۔۔۔میں جانتا ہوں ان کی اور آپ کی شادی ہو چکی ہے۔۔۔۔وہ آپ کے ہزبینڈ ہیں اور میرے بابا۔۔۔۔
میری ان سے شادی ہو چکی ہے مگر وہ تمہارے بابا نہیں ہیں حدید۔۔۔۔مہرو غصے سے بولی۔
مما آپ نے ہی تو کہا تھا حدید بیٹا ۔۔دعا آپ کی بہن ہے۔۔۔۔۔دعا تو شمس انکل کی بیٹی ہے پھر میری بہن کیسے ہوئی۔۔۔؟؟حدید سوالیہ نظروں سے ماں کو دیکھتا پوچھ رہا تھا۔
وہ انسان کا بچہ تھا یا شیطان کا مہرو حیران تھی اسکی بات پر۔۔۔۔۔
دعا آپکی بہن ہے مگر شمس آپکے بابا نہیں ہیں وہ آپکے انکل ہیں اور آپ انہیں انکل ہی کہیں گے۔۔۔۔اب کے مہرو نے پیار سے سمجھایا۔
نو۔۔۔۔میں انہیں بابا ہی کہوں گا۔۔۔۔وہ بضد تھا۔۔
اسکی بات پر مہرو نے غصے سے اسے تھپڑ مارنے کو ہاتھ اٹھایا مگر پیچھے سے کوئی اسکا ہاتھ تھام کر روک چکا تھا۔۔
مہرو نے گردن موڑی اور پیچھے کھڑے شمس پر ایک غصیلی نظر ڈال کر جھٹکے سے اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ سے کھینچا۔
حدید بیٹا میں آپکی وڈیو گیم لے آیا ہوں۔۔۔۔جا کر چیک کرو وہی ہے جو آپ نے کہی تھی۔۔۔۔۔۔شمس نے مسکرا اسکے بالوں میں ہاتھ پھیرا۔
اوکے بابا۔۔۔۔۔وہ اچھل کر کہتا نیچے بھاگ گیا۔
بچے پر ہاتھ اٹھا رہیں تھیں آپ۔۔۔۔؟؟چند منٹ کی خاموشی کو شمس کی آواز نے توڑا۔
بچے جب غلطی کریں تو سدھارنے کے لیے ایسا کرنا پڑتا ہے۔۔۔۔
بلکل۔۔۔۔مگر صرف غلطی پر۔۔۔۔۔شمس نے تصیح کی۔
مہرو نے اسکی بات پر سوالیہ نظریں اٹھائیں۔۔
حدید کچھ غلط نہیں کہہ رہا تھا اگر وہ مجھے انکل کی بجائے بابا کہنا چاہتا ہے تو اس میں برا کیا ہے۔۔۔۔؟؟
آپ اسکے بابا نہیں ہیں۔۔۔۔
میں جانتا ہوں۔۔۔۔۔مگر میں بھی چاہتا ہوں کہ وہ مجھے بابا کہے مجھے اچھا لگے گا۔۔۔۔۔اور ویسے بھی دعا بھی تو آپکی بیٹی نہیں ہے پھر بھی آپ اسے ایک ماں ہی کی طرح ٹریٹ کر رہی ہیں میں نے تو آپ کو ایسا کرنے سے نہیں روکا۔۔۔
دعا ابھی چھوٹی ہے۔۔۔۔۔مہرو آہستگی سے بڑبڑائی۔
حدید بھی اتنا بڑا نہیں ہوا کہ اسے باپ کی ضرورت نہ رہے۔۔
مجھے آپ سے بحث نہیں کرنی۔۔۔۔وہ چڑ کر بولی۔۔
شمس اسکےیون چڑنےپر مسکرا دیا۔
فائن۔۔۔۔مجھے بھی اس بارے میں مزید کچھ نہیں کہنا۔۔۔۔حدید مجھے بابا ہی کہے گا اور آپ اسے اس بات سے. نہیں روکیں گی۔۔۔شمس کہہ کر جھکا۔
مہرو اسکے جھکنے پر سانس روک چکی تھی۔
شمس نے جھک کر مہرو کی گود میں لیٹی دعا کے گال پر بوسہ لیا اور مہرو کے اردگرد اپنی خوشبوئیں بکھیرتا واپس مڑ گیا
_________________
اس دن کے بعد مہرو نے حدید کے شمس کو بابا کہنے پر نہیں ٹوکا تھا۔۔۔۔حدید شمس سے کافی اٹیچ ہو چکا تھا۔۔۔۔جسکی بڑی وجہ شمس کیطرف سے اس کو ملنے والی توجہ اور محبت تھی۔
مہرو بھی شمس کی حدید سے محبت پر خاموش اور مطمعن ہو گئی تھی۔۔۔۔اب اکثر اسکے اور شمس کے درمیان حدید اور دعا ڈسکس ہونے لگے تھے۔۔۔۔۔جس سے یہ ہوا تھا کہ دونوں کی ایک دوسرے سے بات کرنے کی ہچکچاہٹ کافی کم ہو گئی تھی۔
پلوہی اکثر وہاں آتی رہتی تھی مگر زریاب کے بغیر۔۔۔۔زریاب خان مہرو سے ہفتے دو ہفتے بعد فون پر بات کر لیتا تھا البتہ حدید کو وہ حشمت کو بھیج کر بلوا لیتا۔۔۔یوں حدید پورا دن زریاب کیساتھ گزار کر شام میں واپس آ جاتا۔۔۔
دن نارمل روٹین کے مطابق گزرتے جا رہے تھے۔۔۔
_____________________
مہرو اور خدیجہ تخت پر بیٹھیں باتیں کر رہیں تھیں۔۔۔۔۔قریب ہی دعا باکر میں بیٹھی اسے آگے پیچھے گھسیٹ رہی تھی جبکہ حدید کچھ فاصلے پر راہداری میں اپنی نئی سائیکل دوڑا رہا تھا جو شمس خان کل ہی اسکے لیے لایا تھا۔۔۔۔
رحیمہ۔۔۔۔رحیمہ۔۔۔۔۔مہرو نے وہیں بیٹھے بیٹھے رحمیہ کو آواز دی
جی مہرو باجی۔۔۔۔۔وہ بوتل کے جن کیطرح حاضر ہوئی۔
یہ دعا کے فیڈر کو گرم پانی سے اچھی طرح دھو کر رکھو پھر میں فیڈر بناتی ہوں۔
بی بی جی۔۔۔میں یہ خان سائیں کے لیے چائے لے جا رہی تھی یہ دے آؤں آ کر دھوتی ہوں۔۔۔۔رحیمہ نے ہاتھ میں پکڑی ٹرے آگے کی۔
یہ میں لے جاتی ہوں تم جلدی سے یہ فیڈر دھو دو۔۔۔۔مہرو نے چائے کی ٹرے اسکے ہاتھ سے پکڑی۔
اماں میں یہ چائے انہین دے آؤں۔۔کیا۔۔۔؟؟
ہوں۔۔۔۔جاؤ۔۔۔۔۔خدیجہ مسکرا کر بولیں۔
مہرو چائے لیے کمرے میں آئی پر کمرہ خالی تھا شمس شاید اسٹڈی میں تھا۔
وہ اسٹڈی میں گئی مگر وہ بھی خالی تھی پر شمس کی چیزیں وہیں پڑیں تھی جسکا مطلب تھا وہ وہیں تھا مگر اب شاید باہر نکلا ہو۔۔
مہرو ٹرے اسٹڈی ٹیبل پر رکھ کے جیسے ہی مڑی اسکی نظر کتاب میں رکھی مخملی ڈبیا پر پڑی جو آدھی سے زیادہ کتاب کے اندر تھی صرف ایک سرا نظر آ رہا تھا۔۔۔
یہ کیا ہے۔۔۔۔۔؟؟؟مہرو کو تجسس ہوا۔
مجھے کیا جو بھی ہو۔۔۔۔وہ کندھے اچکا کر واپس مڑی۔
دیکھ ہی لیتی ہوں مین۔۔اسےدیکھنے میں کیا حرج ہے۔۔۔۔۔؟؟وہ دل میں موجود تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر واپس ٹیبل تک آئی۔۔۔۔
اس نے کتاب کو کھولا تو بیچ میں واقعی میرون مخملی ڈبیا تھی مگر وہ ڈبیا لمبی تھی جیسے کسی بریسلٹ کی ہوتی ہے۔۔۔۔۔
مہرو نے ایک نظر اسٹڈی کے بند دروازے پر ڈالی اور جلدی سے ڈبی کھول دی۔
یہ کیا۔۔۔۔۔؟؟؟وہ ڈبی میں موجود پائل دیکھ کر ساکت تھی۔
وہ اور نہجانے کتنی دیر ساکت رہتی کہ شمس کی آواز پر چونک کر مڑی۔
آپ کیا کر رہیں ہیں۔۔۔۔۔؟؟؟
وہ۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ میں۔۔۔۔وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ۔۔۔۔۔یہ پائل آپ کے پاس کیسے آئی۔۔۔۔؟؟مہرو کے ساکن لبوں نے ہلکی سی جنبش کی تھی۔
یہ پائل۔۔۔۔شمس نے اسکے ہاتھ میں پکڑی پائل کیطرف اشارہ کیا۔۔
جی۔۔۔۔۔یہ۔۔۔۔۔پائل۔۔۔۔۔"میری پائل"۔۔؟؟۔۔۔
مہرو نے لفظ میری پائل پر زور دے کر سپاٹ نظروں سے شمس کو دیکھتے ہوئے سردوسپاٹ انداز میں پوچھا تھا۔
مجھے بتائین آپ کے پاس کیئسے آئی۔۔۔ میری پائل۔۔۔
شمس خان؟؟؟۔
جاری ہے۔