Ad Blocker Detection
Please turn off your ad blocker otherwise you won't be able to access Urdu Story World. Thanks!

دنیائے اردو کے نمبرون اسٹوری فورم پر خوش آمدید

اردو اسٹوری ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین رومانوی اور شہوانی کہانیوں کا مزا لیں۔

Register Now

محسن نقوی

خوبصورت اور بہترین اشعار
​​​​​​اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر حالات کی قبروں کے یہ کتبے بھی پڑھا کر
بہترین غزل
 
جب سے اس نے شہر کو چھوڑا ہر رستہ سنسان ہوا
محسن نقوی


جب سے اس نے شہر کو چھوڑا ہر رستہ سنسان ہوا
اپنا کیا ہے سارے شہر کا اک جیسا نقصان ہوا
یہ دل یہ آسیب کی نگری مسکن سوچوں وہموں کا
سوچ رہا ہوں اس نگری میں تو کب سے مہمان ہوا
صحرا کی منہ زور ہوائیں اوروں سے منسوب ہوئیں
مفت میں ہم آوارہ ٹھہرے مفت میں گھر ویران ہوا
میرے حال پہ حیرت کیسی درد کے تنہا موسم میں
پتھر بھی رو پڑتے ہیں انسان تو پھر انسان ہوا
اتنی دیر میں اجڑے دل پر کتنے محشر بیت گئے
جتنی دیر میں تجھ کو پا کر کھونے کا امکان ہوا
کل تک جس کے گرد تھا رقصاں اک انبوہ ستاروں کا
آج اسی کو تنہا پا کر میں تو بہت حیران ہوا
اس کے زخم چھپا کر رکھیے خود اس شخص کی نظروں سے
اس سے کیسا شکوہ کیجے وہ تو ابھی نادان ہوا
جن اشکوں کی پھیکی لو کو ہم بے کار سمجھتے تھے
ان اشکوں سے کتنا روشن اک تاریک مکان ہوا
یوں بھی کم آمیز تھا محسنؔ وہ اس شہر کے لوگوں میں
لیکن میرے سامنے آ کر اور بھی کچھ انجان ہوا

Boht khoobsurat or intense nazam
 
Achi shayari hy inki
 
اشک اپنا کہ تمہارا نہیں دیکھا جاتا
محسن نقوی

اشک اپنا کہ تمہارا نہیں دیکھا جاتا
ابر کی زد میں ستارا نہیں دیکھا جاتا
اپنی شہ رگ کا لہو تن میں رواں ہے جب تک
زیر خنجر کوئی پیارا نہیں دیکھا جاتا
موج در موج الجھنے کی ہوس بے معنی
ڈوبتا ہو تو سہارا نہیں دیکھا جاتا
تیرے چہرے کی کشش تھی کہ پلٹ کر دیکھا
ورنہ سورج تو دوبارہ نہیں دیکھا جاتا
آگ کی ضد پہ نہ جا پھر سے بھڑک سکتی ہے
راکھ کی تہہ میں شرارہ نہیں دیکھا جاتا
زخم آنکھوں کے بھی سہتے تھے کبھی دل والے
اب تو ابرو کا اشارا نہیں دیکھا جاتا
کیا قیامت ہے کہ دل جس کا نگر ہے محسنؔ
دل پہ اس کا بھی اجارہ نہیں دیکھا جاتا
 
ترے بدن سے جو چھو کر ادھر بھی آتا ہے
محسن نقوی


ترے بدن سے جو چھو کر ادھر بھی آتا ہے
مثال رنگ وہ جھونکا نظر بھی آتا ہے
تمام شب جہاں جلتا ہے اک اداس دیا
ہوا کی راہ میں اک ایسا گھر بھی آتا ہے
وہ مجھ کو ٹوٹ کے چاہے گا چھوڑ جائے گا
مجھے خبر تھی اسے یہ ہنر بھی آتا ہے
اجاڑ بن میں اترتا ہے ایک جگنو بھی
ہوا کے ساتھ کوئی ہم سفر بھی آتا ہے
وفا کی کون سی منزل پہ اس نے چھوڑا تھا
کہ وہ تو یاد ہمیں بھول کر بھی آتا ہے
جہاں لہو کے سمندر کی حد ٹھہرتی ہے
وہیں جزیرۂ لعل و گہر بھی آتا ہے
چلے جو ذکر فرشتوں کی پارسائی کا
تو زیر بحث مقام بشر بھی آتا ہے
ابھی سناں کو سنبھالے رہیں عدو میرے
کہ ان صفوں میں کہیں میرا سر بھی آتا ہے
کبھی کبھی مجھے ملنے بلندیوں سے کوئی
شعاع صبح کی صورت اتر بھی آتا ہے
اسی لیے میں کسی شب نہ سو سکا محسنؔ
وہ ماہتاب کبھی بام پر بھی آتا ہے
 
اب وہ طوفاں ہے نہ وہ شور ہواؤں جیسا
محسن نقوی


اب وہ طوفاں ہے نہ وہ شور ہواؤں جیسا
دل کا عالم ہے ترے بعد خلاؤں جیسا
کاش دنیا مرے احساس کو واپس کر دے
خامشی کا وہی انداز صداؤں جیسا
پاس رہ کر بھی ہمیشہ وہ بہت دور ملا
اس کا انداز تغافل تھا خداؤں جیسا
کتنی شدت سے بہاروں کو تھا احساس‌ مآل
پھول کھل کر بھی رہا زرد خزاؤں جیسا
کیا قیامت ہے کہ دنیا اسے سردار کہے
جس کا انداز سخن بھی ہو گداؤں جیسا
پھر تری یاد کے موسم نے جگائے محشر
پھر مرے دل میں اٹھا شور ہواؤں جیسا
بارہا خواب میں پا کر مجھے پیاسا محسنؔ
اس کی زلفوں نے کیا رقص گھٹاؤں جیسا
 
آپ کی آنکھ سے گہرا ہے مری روح کا زخم (ردیف .. و)
محسن نقوی


آپ کی آنکھ سے گہرا ہے مری روح کا زخم
آپ کیا سوچ سکیں گے مری تنہائی کو
میں تو دم توڑ رہا تھا مگر افسردہ حیات
خود چلی آئی مری حوصلہ افزائی کو
لذت غم کے سوا تیری نگاہوں کے بغیر
کون سمجھا ہے مرے زخم کی گہرائی کو
میں بڑھاؤں گا تری شہرت خوشبو کا نکھار
تو دعا دے مرے افسانۂ رسوائی کو
وہ تو یوں کہیے کہ اک قوس قزح پھیل گئی
ورنہ میں بھول گیا تھا تری انگڑائی کو
 
زباں رکھتا ہوں لیکن چپ کھڑا ہوں
محسن نقوی


زباں رکھتا ہوں لیکن چپ کھڑا ہوں
میں آوازوں کے بن میں گھر گیا ہوں
مرے گھر کا دریچہ پوچھتا ہے
میں سارا دن کہاں پھرتا رہا ہوں
مجھے میرے سوا سب لوگ سمجھیں
میں اپنے آپ سے کم بولتا ہوں
ستاروں سے حسد کی انتہا ہے
میں قبروں پر چراغاں کر رہا ہوں
سنبھل کر اب ہواؤں سے الجھنا
میں تجھ سے پیشتر بجھنے لگا ہوں
مری قربت سے کیوں خائف ہے دنیا
سمندر ہوں میں خود میں گونجتا ہوں
مجھے کب تک سمیٹے گا وہ محسنؔ
میں اندر سے بہت ٹوٹا ہوا ہوں
 
ایک پل میں زندگی بھر کی اداسی دے گیا
محسن نقوی


ایک پل میں زندگی بھر کی اداسی دے گیا
وہ جدا ہوتے ہوئے کچھ پھول باسی دے گیا
نوچ کر شاخوں کے تن سے خشک پتوں کا لباس
زرد موسم بانجھ رت کو بے لباسی دے گیا
صبح کے تارے مری پہلی دعا تیرے لیے
تو دل بے صبر کو تسکیں ذرا سی دے گیا
لوگ ملبوں میں دبے سائے بھی دفنانے لگے
زلزلہ اہل زمیں کو بد حواسی دے گیا
تند جھونکے کی رگوں میں گھول کر اپنا دھواں
اک دیا اندھی ہوا کو خود شناسی دے گیا
لے گیا محسنؔ وہ مجھ سے ابر بنتا آسماں
اس کے بدلے میں زمیں صدیوں کی پیاسی دے گیا
 
اب یہ سوچوں تو بھنور ذہن میں پڑ جاتے ہیں​
محسن نقوی​

اب یہ سوچوں تو بھنور ذہن میں پڑ جاتے ہیں​
کیسے چہرے ہیں جو ملتے ہی بچھڑ جاتے ہیں​
کیوں ترے درد کو دیں تہمت ویرانئ دل​
زلزلوں میں تو بھرے شہر اجڑ جاتے ہیں​
موسم زرد میں اک دل کو بچاؤں کیسے​
ایسی رت میں تو گھنے پیڑ بھی جھڑ جاتے ہیں​
اب کوئی کیا مرے قدموں کے نشاں ڈھونڈے گا​
تیز آندھی میں تو خیمے بھی اکھڑ جاتے ہیں​
شغل ارباب ہنر پوچھتے کیا ہو کہ یہ لوگ​
پتھروں میں بھی کبھی آئنے جڑ جاتی ہیں​
سوچ کا آئنہ دھندلا ہو تو پھر وقت کے ساتھ​
چاند چہروں کے خد و خال بگڑ جاتے ہیں​
شدت غم میں بھی زندہ ہوں تو حیرت کیسی​
کچھ دیئے تند ہواؤں سے بھی لڑ جاتے ہیں​
وہ بھی کیا لوگ ہیں محسنؔ جو وفا کی خاطر​
خود تراشیدہ اصولوں پہ بھی اڑ جاتے ہیں​
 

Create an account or login to comment

You must be a member in order to leave a comment

Create account

Create an account on our community. It's easy!

Log in

Already have an account? Log in here.

New posts
Back
Top
Chat