Ad Blocker Detection
Please turn off your ad blocker otherwise you won't be able to access Urdu Story World. Thanks!

دنیائے اردو کے نمبرون اسٹوری فورم پر خوش آمدید

اردو اسٹوری ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین رومانوی اور شہوانی کہانیوں کا مزا لیں۔

Register Now

Poetry محسن نقوی

Sexy_dick_lhr

Well-known member
Joined
Dec 25, 2022
Messages
721
Reaction score
7,798
Location
Lhr
Offline
اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر
حالات کی قبروں کے یہ کتبے بھی پڑھا کر
کیا جانئے کیوں تیز ہوا سوچ میں گم ہے
خوابیدہ پرندوں کو درختوں سے اڑا کر
اس شخص کے تم سے بھی مراسم ہیں تو ہوں گے
وہ جھوٹ نہ بولے گا مرے سامنے آ کر
ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کر دے
تنہائی کے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر
وہ آج بھی صدیوں کی مسافت پہ کھڑا ہے
ڈھونڈا تھا جسے وقت کی دیوار گرا کر
اے دل تجھے دشمن کی بھی پہچان کہاں ہے
تو حلقۂ یاراں میں بھی محتاط رہا کر
اس شب کے مقدر میں سحر ہی نہیں محسنؔ
دیکھا ہے کئی بار چراغوں کو بجھا کر
 
اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر
حالات کی قبروں کے یہ کتبے بھی پڑھا کر
کیا جانئے کیوں تیز ہوا سوچ میں گم ہے
خوابیدہ پرندوں کو درختوں سے اڑا کر
اس شخص کے تم سے بھی مراسم ہیں تو ہوں گے
وہ جھوٹ نہ بولے گا مرے سامنے آ کر
ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کر دے
تنہائی کے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر
وہ آج بھی صدیوں کی مسافت پہ کھڑا ہے
ڈھونڈا تھا جسے وقت کی دیوار گرا کر
اے دل تجھے دشمن کی بھی پہچان کہاں ہے
تو حلقۂ یاراں میں بھی محتاط رہا کر
اس شب کے مقدر میں سحر ہی نہیں محسنؔ
دیکھا ہے کئی بار چراغوں کو بجھا کر

Wah wah boht aala
 
تجھے اب کس لئے شکوہ ہے بچے گھر نہیں رہتے
جو پتے زرد ہو جائیں وہ شاخوں پر نہیں رہتے
تو کیوں بے دخل کرتا ہے مکانوں سے مکینوں کو
وہ دہشت گرد بن جاتے ہیں جن کے گھر نہیں رہتے
جھکا دے گا تیری گردن کو یہ خیرات کا پتھر
جہاں میں مانگنے والوں کے اونچے سر نہیں رہتے
یقیناً یہ رعایا بادشاہ کو قتل کر دے گی
مسلسل جبر سے محسن دلوں میں ڈر نہیں رہتے
 
فنکار ہے تو ہاتھہ پہ سورج سجا کے لا
بجھتا ہوا دیا نہ مقابل ہوا کے لا
دریا کا انتقام ڈبو دے نہ گھر تیرا
ساحل سے روز روز نہ کنکر اٹھا کے لا
اب اختتام کو ہے سخی حرف التماس
کچھہ ہے تو اب وہ سامنے دست دعا کے لا
پیماں وفا کے باندھ مگر سوچ سوچ کر
اس ابتدا میں یوں نہ سخن انتہا کے لا
آرائش جراحت یاراں کی بزم میں
جو زخم دل میں ہیں سبھی تن پر سجا کے لا
تھوڑی سی اور موج میں آ اے ہوائے گل
تھوڑی سی اس کے جسم کی چرا کے لا
گر سوچنا ہیں اہل مشیت کے حوصلے
میداں سے گھر میں ایک تو میت اٹھا کے لا
محسن اب اس کا نام ہے سب کی زبان پر
کس نے کہا کہ اس کو غزل میں سجا لا
 
یہ رونقیں یہ لوگ یہ گھر چھوڑ جاؤنگا
اک دن میں روشنی کا نگر چھوڑ جاؤ نگا
مرنے سے پیشتر میری آواز مت چرا
میں اپنی جاۂیداد ادھر چھوڑ جاؤں گا
قاتل مرا نشان مٹانے پہ ہے بضد
میں بھی سناں کی نوک پہ سرَ چھوڑ جاؤنگا
تْو نے مجھے چراغ سمجھ کر بجھا دیا
لیکن تیرے لۓ میں سحر چھوڑ جاؤنگا
آۂندہ نسل مجھ کو پڑھے گی غزل غزل
میں حرف حرف اپنا ہنر چھوڑ جاؤنگا
 
میرے سِوا سرِ مقتل مقام کس کا ہے
کہو کہ اب لبِ قاتل پہ نام کس کا ہے
یہ تخت و تاج و قبا سب انہیں مبارک ہوں
مگر بہ نوکِ سِناں احترام کس کا ہے
تمہاری بات نہیں تم تو چارہ گر تھے مگر
یہ جشنِ فتح، پسِ قتلِ عام کس کا ہے
ہماری لاش پہ ڈھونڈو نہ اُنگلیوں کے نشاں
ہمیں خبر ہے عزیزو یہ کام کس کا ہے
فنا کے ہانپتے جھونکے ہوا سے پوچھتے ہیں
جبینِ وقت پہ نقشِ دوام کس کا ہے
تمہاری بات تو حرفِ غلط تھی مِٹ بھی گئی
اُتر گیا جو دلوں میں کلام کس کا ہے
وہ مطمئن تھے بہت قتل کر کے محسنؔ کو
مگر یہ ذکرِ وفا صبح و شام کس کا ہے
 
فلک پر اِک ستارا رہ گیا ہے
میرا ساتھی اکیلا رہ گیا ہے
یہ کہہ کر پھر پلٹ آئیں ہوائیں
شجر پر ایک پتا رہ گیا ہے
ہر اِک رُت میں تیرا غم ہے سلامت
یہ موسم ایک جیسا رہ گیا ہے
ہمارے بعد کیا گزری عزیزو
سناؤ شہر کیسا رہ گیا ہے؟
برس کچھ اور اے آوارہ بادل
کہ دِل کا شہر پیاسا رہ گیا ہے
خداوندا سنبھال اپنی امانت
بشر دنیا میں تنہا رہ گیا ہے
حوادث کس لیے ڈھونڈیں گے مجھ کو؟
میرے دامن میں اب کیا رہ گیا ہے؟
ستارے بانٹتا پھرتا ہوں "محسن"
مگر گھر میں اندھیرا رہ گیا ہے
 
مطمئن ہوں کہ مجھے یاد رکھے گی دنیا
جب بھی اس شہر کی تاریخِ وفا لکھے گی
میرا ماتم اِسی چپ چاپ فضاء میں ہوگا
میرا نوحہ اِنہی گلیوں کی ہوا لکھے گی
 
بچھڑ کے مجھ سے کبھی تو نے یہ بھی سوچا ہے
ادھورا چاند بھی کتنا اداس لگتا ھے
یہ ختم وصال کا لمحہ ہے را ئگاں نہ سمجھ
کہ اس کے بعد وہی دوریوں کا صحرا ہے
کچھ اور دیر نہ جھاڑنا اداسیوں کے شجر
کسے خبر کون تیرے سائے میں بیٹھا ہے
یہ رکھ رکھاؤ محبت سکھا گئی اس کو
وہ روٹھ کر بھی مجھے مسکرا کے ملتا ہے
میں کس طرح تجھے دیکھوں نظر جھجکتی ہے
یہ بدن ہے کہ آئینو ں کا دریا ہے
کچھ اس قدر بھی تو آساں نہیں ہے عشق تیرا
یہ زہر دل میں اتر کے ہی راس آتا ہے
میں تجھ کو پا کے بھی کھویا ہوا سا رہتا ہوں
کبھی کبھی تو مجھے تو نے ٹھیک سمجھا ہے
مجھے خبر ہے کہ کیا ہے جدائیوں کا عذاب
کہ میں نے شاخ سے گل کوبچھڑتے دیکھا ہے
میں مسکرا بھی پڑا ہوں تو کیوں خفا ہیں یہ لوگ
کہ پھول ٹوٹی ہو ئی قبر پر بھی کھلتا ہے
اسے گنوا کے میں زندہ ہوں اس طرح محسن
کہ جیسے تیز ہوا میں چراغ جلتا ہے
 
خزاں کی دھوپ سے شکوہ فضول ہے محسن
میں یوں بھی پھول تھا آخر مجھے بکھرنا تھا
وہ کون لوگ تھے ، ان کا پتہ تو کرنا تھا
مرے لہو میں نہا کر جنہیں نکھرنا تھا
یہ کیا کہ لوٹ بھی آئے سراب دیکھ کے لوگ
وہ تشنگی تھی کہ پاتال تک اترنا تھا
گلی کا شور ڈرائے گا دیر تک مجھ کو
میں سوچتا ہوں دریچوں کو وا نہ کرنا تھا
یہ تم نے انگلیاں کیسے فگار کر لی ہیں ؟
مجھے تو خیر لکیروں میں رنگ بھرنا تھا
وہ ہونٹ تھے کہ شفق میں نہائی کرنیں تھیں ؟
وہ آنکھ تھی کہ خنک پانیوں کا جھرنا تھا ؟
گلوں کی بات کبھی راز رہ نہ سکتی تھی
کہ نکہتوں کو تو ہر راہ سے گزرنا تھا
خزاں کی دھوپ سے شکوہ فضول ہے محسن
میں یوں بھی پھول تھا آخر مجھے بکھرنا تھا
 

Create an account or login to comment

You must be a member in order to leave a comment

Create account

Create an account on our community. It's easy!

Log in

Already have an account? Log in here.

New posts
Back
Top
Chat