Ad Blocker Detection
Please turn off your ad blocker otherwise you won't be able to access Urdu Story World. Thanks!

دنیائے اردو کے نمبرون اسٹوری فورم پر خوش آمدید

اردو اسٹوری ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین رومانوی اور شہوانی کہانیوں کا مزا لیں۔

Register Now

ن م راشد

اجنبی عورت

ایشیا کے دورافتادہ شبستانوں میں بھی
میرے خوابوں کا کوئی روماں نہیں
کاش اک دیوارِ ظلم
میرے ان کے درمیاں حائل نہ ہو
یہ عماراتِ قدیم
یہ خیاباں، یہ چمن، یہ لالہ زار

چاندنی میں نوحہ خواں
اجنبی کے دستِ غارتگر سے ہیں
زندگی کے ان نہاں خانوں میں بھی
میرے خوابوں کا کوئی روماں نہیں

کاش اک دیوارِ رنگ
میرے ان کے درمیاں حائل نہ ہو
یہ سیہ پیکر راہرو
یہ گھروں میں خوبصورت عورتوں کا زہرِخند
یہ گزرگاہوں پہ دیو آسا جواں
جن کی آنکھوں میں گرسنہ آرزوؤں کی لپک
مشتعل، بیباک مزدوروں کا سیلابِ عظیم
ارض ِ مشرق، ایک مبہم خوف سے لرزاں ہوں میں
آج ہم کو جن تمناؤں کی حرمت کے سبب
دشمنوں کا سامنا مغرب کے میدانوں میں ہے
اُن کا مشرق میں نشاں تک بھی نہیں​
 
ہم جسم

در پیش ہمیں
چشم و لب و گوش
کے پیرائے رہے ہیں

کل رات
جو ہم چاند میں
اس سبزے پہ
ان سایوں میں
غزلائے رہے ہیں
کس آس میں
کجلائے رہے ہیں؟

اس "میں" کو
جو ہم جسموں میں
محبوس ہے
آزاد کریں
کیسے ہم آزاد کریں؟
کون کرے؟ ہم؟
ہم جسم
ہم جسم کہ کل رات
اسی چاند میں
اس سبزے پہ
ان سایوں میں
خود اپنے کو
دہرائے رہے ہیں؟

کچھ روشنیاں
کرتی رہیں ہم سے
وہ سرگوشیاں
جو حرف سے
یا صوت سے
آزاد ہیں
کہہ سکتی ہیں
جو کتنی زبانوں میں
وہی بات، ہر اک رات
سدا جسم
جسے سننے کو
گوشائے رہے ہیں

ہم جسم بھی
کل رات کے
اک لمحے کو
دل بن کے
اسی بات سے
پھر سینوں میں
گرمائے رہے ہیں

اس "میں" کو
ہم آزاد کریں؟
رنگ کی، خوشبوؤں کی
اس ذات کو
دل بن کے
جسے ہم بھی
ہر اک رات
عزیزائے رہے ہیں؟
یا اپنے توہمات کی
زنجیروں میں
الجھائے رہے ہیں
اس ذات کو
جس ذات کے
ہم سائے رہے ہیں؟​
 
نارسائی

درختوں کی شاخوں کو اتنی خبر ہے

کہ ان کی جڑیں کھوکھلی ہو چلی ہیں،
مگر ان میں ہر شاخ بزدل ہے
یا مبتلا خود فریبی میں شاید
کہ ان کرم خردہ جڑوں سے
وہ اپنے لیے تازہ نم ڈھونڈتی ہے!

میں مہمان خانے کے سالون میں
ایک صوفے میں چپ چاپ دبکا ہوا تھا،
گرانی کے باعث وہاں دختران عجم تو نہ تھیں
ہاں کوئی بیس گز پر
فقط ایک چہرہ تھا جس کے
خد وخال کی چاشنی ارمنی تھی!

زمستاں کے دن تھے،
لگاتار ہوتی رہی تھی سر شام سے برفباری
دریچے کے باہر سپیدے کے انبار سے لگ گئے تھے
مگر برف کا رقص سیمیں تھا جاری،
وہ اپنے لباس حریری میں
پاؤں میں گلھاے نسریں کے زنگولے باندھے،
بدستور ایک بے صدا، سہل انگار سی تال پر ناچتی جا رہی تھی!
مگر رات ہوتے ہی چاروں طرف بے کراں خامشی چھا گئی تھی
خیاباں کے دو رویہ سرو و صنوبر کی شاخوں پہ
یخ کے گلولے، پرندے سے بن کر لٹکنے لگے تھے،
زمیں ان کے بکھرے ہوےبال و پر سے
کفّ آلود سا ساحل بنتی چلی جا رہی تھی!

میں اک گرم خانے کے پہلو میں صوفے پہ تنہا پڑا سوچتا تھا،
بخاری میں افسردہ ہوتے ہوے رقص کو گھورتا تھا،
"اجازت ہے میں بھی ذرا سینک لوں ہاتھ اپنے"
(زباں فارسی تھی تکلم کی شیرینیاں اصفہانی! )
"تمہیں شوق شطرنج سے ہے ؟"
(اٹھا لایا میں اپنے کمرے سے شطرنج جا کر )
بچو فیل____
اسپ سیاہ کا توخانہ نہیں یہ ____
بچاؤ وزیر____
اور لو یہ پیادے کی شہ لو __
اور اک اور شہ!
اور یہ آخری مات !
بس ناز تھا کیا اسی شاطری پر ؟"
میں اچھا کھلاڑی نہیں ہوں
مگر آن بھر کی خجالت سے میں ہنس دیا تھا !
"ابھی اور کھیلو گے ؟"
لو اور بازی ___
یہ اک اور بازی ...
یونہی کھیلتے کھیلتے صبح ہونے لگی تھی !
موذن کی آواز اس شہر میں زیر لب ہو چکی ہے
سحر پھر بھی ہونے لگی تھی !!
وہ دروازے جو سال ہاسال سے بند تھے
آج وا ہو گئے تھے !
میں کرتا رہا ہند و ایراں کی باتیں :


اور اب عہد حاضر کے ضحاک سے..."
رستگاری کا رستہ یہی ہے
کہ ہم ایک ہو جایں ،ہم ایشیائی !
وہ زنجیر ، جس کے سرے سے بندھے تھے کبھی ہم
وہ اب سست پڑنے لگی ہے ،
تو آو کہ ہے وقت کا یہ تقاضا
کہ ہم ایک ہو جایں____ہم ایشیائی !"
میں روسی حکایات کے ہرزہ گو نو جوانوں کے مانند یہ بے محل وعظ کرتا رہا تھا !



اسے صبحدم اس کی منزل پہ جب چھوڑ کر آ رہا تھا ،
وہ کہنے لگی :
"اب سفینے پہ کوئی بھروسہ کرے کیا
سفینہ ہی جب ہو پر و بال طوفاں؟
یہاں بھی وہاں بھی وہی آسماں ہے ،
مگر اس زمیں سے خدایا رہائی
خدایا دہائی!!
ٹھکاناہے لوطی گری،رہزنی کا !
یہاں زندگی کی جڑیں کھوکھلی ہو چکی ہیں ،
فقط شاخساریں
ابھی اپنی افتاد کے حشر سے ہیں گریزاں !
یہ بچپن میں ،میں نے پڑھی تھی کہانی
کہا ساحرہ نے :"کہ اےشہزادے
رہ جستجو میں
اگر اس لق و دق بیاباں میں
دیکھا پلٹ کر،
تو پتھر کا بت بن کے رہ جاے گا تو!
جہاں سب نگاہیں ہو ماضی کی جانب
وہاں راہرو ہیں فقط عازم نارسائی!""
تو دن بھر یہی سوچ تھی
کیا ہمارے نصیبے میں افتاد ہے
کوئی رفعت نہیں ؟

کوئی منزل نہیں ہے ؟
 
گداگر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جن گزرگاہوں پہ دیکھا ہے نگاہوں نے لُہو
یاسیہ عورت کی آنکھوں میں یہ سہم
کیا یہ اونچے شہر رہ جائیں گے بس شہروں کا وہم
مَیں گداگر اور مرا دریوزہ فہم!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ راہ پیمائی عصا اور عافیت کوشی گدا کا لنگِ پا

آ رہی ہے ساحروں کی، شعبدہ سازوں کی صبح
تیز پا، گرداب آسا، ناچتی، بڑھتی ہوئی
اک نئے سدرہ کے نیچے، اِک نئے انساں کی ہُو
تا بہ کے روکیں گے ہم کو چار سُو؟

۔۔۔۔۔۔۔ کیا کہیں گے اُس نئے انساں سے ہم
ہم تھے کُچھ انساں سے کم؟
رنگ پر کرتے تھے ہم بارانِ سنگ
تھی ہماری ساز و گُل سے، نغمہ و نکہت سے جنگ
آدمی زادے کے سائے سے بھی تنگ؟​
 
ہم کہ عشّاق نہیں ۔ ۔ ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم کہ عشّاق نہیں ، اور کبھی تھے بھی نہیں
ہم تو عشّاق کے سائے بھی نہیں!
عشق اِک ترجمۂ بوالہوسی ہے گویا
عشق اپنی ہی کمی ہے گویا!
اور اس ترجمے میں ذکرِ زر و سیم تو ہے
اپنے لمحاتِ گریزاں کا غم و بیم تو ہے
لیکن اس لمس کی لہروں کا کوئی ذکر نہیں
جس سے بول اٹھتے ہیں سوئے ہوئے الہام کے لب
جی سے جی اٹھتے ہیں ایّام کے لب!

۔۔۔۔۔۔۔ ہم وہ کمسن ہیں کہ بسم اللہ ہوئی ہو جن کی
محوِ حیرت کہ پکار اٹھے ہیں کس طرح حروف
کیسے کاغذ کی لکیروں میں صدا دوڑ گئی
اور صداؤں نے معانی کے خزینے کھولے!
یہ خبر ہم کو نہیں ہے لیکن
کہ معانی نے کئی اور بھی در باز کیے
خود سے انساں کے تکلّم کے قرینے کھولے!
خود کلامی کے یہ چشمے تو کسی وادیِ فرحاں میں نہ تھے
جو ہماری ازلی تشنہ لبی نے کھولے!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم سرِ چشمہ نگوں سار کسی سوچ میں ہیں
سحر و شام ہے ہر لہر کی جمع و تفریق
جیسے اِک فہم ہو اعداد کے کم ہونے کا
جیسے پنہاں ہو کہیں سینے میں غم ہونے کا!
پارۂ ناں کی تمنّا کہ در و بام کے سائے کا کرم
خلوتِ وصل کہ بزمِ مئے و نغمہ کا سرور
صورت و شعر کی توفیق کہ ذوقِ تخلیق
ان سے قائم تھا ہمیشہ کا بھرم ہونے کا!
اب در و بام کے سائے کا کرم بھی تو نہیں
آج ہونے کا بھرم بھی تو نہیں!

۔۔۔۔۔ آج کا دن بھی گزارا ہم نے ۔۔۔۔ اور ہر دن کی طرح
ہر سحر آتی ہے البتۂ روشن لے کر
شام ڈھل جاتی ہے ظلمت گہِ لیکن کی طرح
ہر سحر آتی ہے امید کے مخزن لے کر
اور دن جاتا ہے نادار، کسی شہر کے محسن کی طرح!

۔۔۔۔۔۔۔ چار سو دائرے ہیں، دائرے ہیں، دائرے ہیں
حلقہ در حلقہ ہیں گفتار میں ہم
رقص و رفتار میں ہم
نغمہ و صورت و اشعار میں ہم
کھو گئے جستجوئے گیسوئے خم دار میں ہم!
عشقِ نارستہ کے ادبار میں ہم
دور سے ہم کبھی منزل کی جھلک دیکھتے ہیں
اور کبھی تیز ترک بڑھتے ہیں
تو بہت دور نہیں، اپنے ہی دنبال تلک بڑھتے ہیں
کھو گئے جیسے خمِ جادۂ پرکار میں ہم!

۔۔۔۔ 'آپ تک اپنی رسائی تھی کبھی'
آپ ۔۔۔۔۔۔ بھٹکے ہوئے راہی کا چراغ
آپ ۔۔۔۔۔ آئندہ پہنا کا سراغ
آپ ٹوٹے ہوئے ہاتھوں کی وہ گویائی تھی
جس سے شیریں کوئی آواز سرِ تاک نہیں
آج اس آپ کی للکار کہاں سے لائیں؟
اب وہ دانندۂ اسرار کہاں سے لائیں؟

۔۔۔۔۔ آج وہ آپ، سیہ پوش اداکارہ ہے
ہے فقط سینے پہ لٹکائے سمن اور گلاب
مرگِ ناگاہِ سرِ عام سے اس کی ہیں شناسا ہم بھی
اعتراف اس کا مگر اس لیے ہم کرتے نہیں
کہ کہیں وقت پہ ہم رو نہ سکیں!
۔۔۔۔۔ آؤ صحراؤں کے وحشی بن جائیں
کہ ہمیں رقصِ برہنہ سے کوئی باک نہیں!
آگ سلگائیں اسی چوب کے انبار میں ہم
جس میں ہیں بکھرے ہوئے ماضیِ نمناک کے برگ
آگ سلگائیں زمستاں کے شبِ تار میں ہم
کچھ تو کم ہو یہ تمناؤں کی تنہائیِ مرگ!
آگ کے لمحۂ آزاد کی لذّت کا سماں
اس سے بڑھ کر کوئی ہنگامِ طرب ناک نہیں
کیسے اس دشت کے سوکھے ہوئے اشجار جھلک اٹھے ہیں
کیسے رہ گیروں کے مٹتے ہوئے آثار جھلک اٹھے ہیں
کیسے یک بار جھلک اٹھے ہیں!

۔۔۔۔۔ ہاں مگر رقصِ برہنہ کے لئے نغمہ کہاں سے لائیں؟
دہل و تار کہاں سے لائیں؟
چنگ و تلوار کہاں سے لائیں؟
جب زباں سوکھ کے اِک غار سے آویختہ ہے
ذات اِک ایسا بیاباں ہے جہاں
نغمۂ جاں کی صدا ریت میں آمیختہ ہے!

۔۔۔۔ دھُل گئے کیسے مگر دستِ حنا بندِ عروس
اجنبی شہر میں دھو آئے انہیں!
لوگ حیرت سے پکار اٹھے: "یہ کیا لائے تم؟"
"وہی جو دولتِ نایاب تھی کھو آئے تم؟"
ہم ہنسے، ہم نے کہا: "دیوانو!
زینتیں اب بھی ہیں دیکھو تو سلامت اِس کی
کیا یہ کم ہے سرِ بازار یہ عریاں نہ ہوئی؟"
لوگ بپھرے تو بہت، اِس کے سوا کہہ نہ سکے:
"ہاں یہ سچ ہے سرِ بازار یہ عریاں نہ ہوئی
یہی کیا کم ہے کہ محفوظ ہے عفت اِس کی،
یہی کیا کم ہے کہ اتنا دَم ہے!"

۔۔۔۔۔۔۔ ہاں، تقنّن ہو کہ رقت ہو کہ نفرت ہو کہ رحم
محو کرتے ہی چلے جاتے ہیں اک دوسرے کو ہرزہ سراؤں کی طرح!
درمیاں کیف و کمِ جسم کے ہم جھولتے ہیں
اور جذبات کی جنت میں در آ سکتے نہیں!
ہاں وہ جذبات جو باہم کبھی مہجور نہ ہوں
رہیں پیوست جو عشّاق کی باہوں کی طرح
ایسے جذباتِ طرح دار کہاں سے لائیں؟

۔۔۔۔۔۔۔ ہم کہ احساس سے خائف ہیں، سمجھتے ہیں مگر
اِن کا اظہار شبِ عہد نہ بن جائے کہیں
جس کے ایفا کی تمنا کی سحر ہو نہ سکے
روبرو فاصلہ در فاصلہ در فاصلہ ہے
اِس طرف پستیِ دل برف کے مانند گراں
اُس طرف گرمِ صلا حوصلہ ہے
دل بہ دریا زدن اک سو ہے تو اک سو کیا ہے؟
ایک گرداب کہ ڈوبیں تو کسی کو بھی خبر ہو نہ سکے!
اپنی ہی ذات کی سب مسخرگی ہے گویا؟
اپنے ہونے کی نفی ہے گویا؟

۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں، فطرت کہ ہمیشہ سے وہ معشوقِ تماشا جُو ہے
جس کے لب پر ہے صدا، تُو جو نہیں، اور سہی،
اور سہی، اور سہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کتنے عشّاق سرِ راہ پڑے ہیں گویا
شبِ یک گانہ و سہ گانہ و نُہ گاہ کے بعد
(اپنی ہر"سعی" کو جو حاصلِ جاوید سمجھتے تھے کبھی!)
اُن کے لب پر نہ تبسّم نہ فغاں ہے باقی!
اُن کی آنکھوں میں فقط سّرِ نہاں ہے باقی!
ہم کہ عشّاق نہیں اور کبھی تھے بھی نہیں
ہمیں کھا جائیں نہ خود اپنے ہی سینوں کے سراب
لیتنی کنت تُراب!
کچھ تو نذرانۂ جاں ہم بھی لائیں
اپنے ہونے کا نشاں ہم بھی لائیں!​
 
خود سے ہم دور نکل آئے ہیں

میں وہ اقلیم کہ محروم چلی آتی تھی
سالہا دشت نوردوں سے، جہاں گردوں سے
اپنا ہی عکسِ رواں تھی گویا
کوئی روئے گزراں تھی گویا

ایک محرومیِ دیرینہ سے شاداب تھے
آلام کے اشجار وہاں
برگ و بار اُن کا وہ پامال امیدیں جن سے
پرسیِ افشاں کی طرح خواہشیں آویزاں تھیں،
کبھی ارمانوں کے آوارہ، سراسیمہ طیّور
کسی نادیدہ شکاری کی صدا سے ڈر کر
ان کی شاخوں میں اماں پاتے تھے، سستاتے تھے،
اور کبھی شوق کے ویرانوں کو اڑ جاتے تھے،
شوق، بے آب و گیاہ
شوق، ویرانۂ بے آب و گیاہ،
ولولے جس میں بگولوں کی طرح ہانپتے تھے
اونگھتے ذرّوں کے تپتے ہوئے لب چومتے تھے

ہم کہ اب میں سے بہت دور نکل آئے ہیں
دور اس وادی سے اک منزلِ بے نام بھی ہے
کروٹیں لیتے ہیں جس منزل میں
عشقِ گم گشتہ کے افسانوں کے خواب
ولولوں کے وہ ہیولے ہیں جہاں
جن کی حسرت میں تھے نقّاش ملول
جن میں افکار کے کہساروں کی روحیں
سر و روبستہ ہیں،
اوّلیں نقش ہیں ارمانوں کے آوارہ پرندوں کے جہاں
خواہشوں اور آمیدوں کے جنیں!

اپنی ہی ذات کے ہم سائے ہیں
آج ہم خود سے بہت دور نکل آئے ہیں!​
 
زمانہ خدا ہے

"زمانہ خدا ہے، اسے تم برا مت کہو"

مگر تم نہیں دیکھتے ۔۔۔ زمانہ فقط ریسمانِ خیال
سبک مایہ، نازک، طویل
جدائی کی ارزاں سبیل
وہ صبحیں جو لاکھوں برس پیشتر تھیں
وہ شامیں جو لاکھوں برس بعد ہوں گی
انھیں تم نہیں دیکھتے، دیکھ سکتے نہیں
کہ موجود ہیں، اب بھی موجود ہیں وہ کہیں
مگر یہ نگاہوں کے آگے جو رسی تنی ہے
اسے دیکھ سکتے ہو، اور دیکھتے ہو
کہ یہ وہ عدم ہے
جسے ہست ہونے میں مدت لگے گی
ستاروں کے لمحے، ستاروں کے سال!

مرے صحن میں ایک کم سن بنفشے کا پودا ہے
طیّارہ کوئی کبھی اس کے سر پر سے گزرے
تو وہ مسکراتا ہے اور لہلہاتا ہے
گویا وہ طیارہ، اُس کی محبت میں
عہدِ وفا کے کسی جبرِ طاقت ربا ہی سے گزرا
وہ خوش اعتمادی سے کہتا ہے:
"لو، دیکھو، کیسے اسی ایک رسی کے دونوں کناروں
سے ہم تم بندھے ہیں!
یہ رسی نہ ہو تو کہاں ہم میں تم میں
ہو پیدا یہ راہِ وصال؟"

مگر ہجر کے ان وسیلوں کو وہ دیکھ سکتا نہیں
جو سراسر ازل سے ابد تک تنے ہیں!
جہاں یہ زمانہ َ۔۔۔۔۔ ہنوزِ زمانہ
فقط اِک گرہ ہے!
 
تعارف

اجل، ان سے مل،
کہ یہ سادہ دل
نہ اہلِ صلوٰۃ اور نہ اہلِ شراب،
نہ اہلِ ادب اور نہ اہلِ حساب،
نہ اہلِ کتاب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہ اہلِ کتاب اور نہ اہلِ مشین
نہ اہلِ خلا اور نہ اہلِ زمین
فقط بے یقین
اجل، ان سے مت کر حجاب
اجل، ان سے مل!

بڑھو تُم بھی آگے بڑھو،
اجل سے ملو،
بڑھو، نو تونگر گداؤ
نہ کشکولِ دیوزہ گردی چھپاؤ
تمہیں زندگی سے کوئی ربط باقی نہیں
اجل سے ہنسو اور اجل کو ہنساؤ!
بڑھو، بندگانِ زمانہ بڑھو بندگانِ درم
اجل، یہ سب انسان منفی ہیں،
منفی زیادہ ہیں، انسان کم
ہو اِن پر نگاہِ کرم!​
 
انتقام

اُس کا چہرہ، اُس کے خدوخال یاد آتے نہیں
اک شبستاں یاد ہے
اک برہنہ جسم آتشداں کے پاس
فرش پر قالین، قالینوں کی سیج
دھات اور پتھر کے بت
گوشہء دیوار میں ہنستے ہوئے!
اور آتشداں میں انگاروں‌کا شور
اُن بتوں کی بے حِسی پر خشمگیں;
اُجلی اُجلی اونچی دیواروں پہ عکس
اُن فرنگی حاکموں کی یادگار
جن کی تلواروں نے رکھا تھا یہاں
سنگِ بنیادِ فرنگ!


اُس کا چہرہ اُس کے خدوخال یاد آتے نہیں
اک برہنہ جسم اب تک یاد ہے
اجنبی عورت کا جسم،
میرے ‘ہونٹوں‘ نے لیا تھا رات بھر
جس سے اربابِ وطن کی بے بسی کا انتقام
وہ برہنہ جسم اب تک یاد ہے!​
 
آنکھوں کے جال

آہ تیری مدبھری آنکھوں کے جال
میز کی سطحِ درخشندہ کو دیکھ
کیسے پیمانوں کا عکسِ سیمگوں
اس کی بے اندازہ گہرائی میں ہے ڈوبا ہوا
جیسے میری روح، میری زندگی
تیری تابندہ سیہ آنکھوں میں ہے
مے کے پیمانے تو ہٹ سکتے ہیں یہ ہٹتی نہیں

قہوہ خانے کے شبستانوں کی خلوت گاہ میں
آج کی شب تیرا دزدانہ ورود
عشق کا ہیجان، آدھی رات اور تیرا شباب
تیری آنکھ اور میرا دل
عنکبوت اور اس کا بےچارہ شکار
تیرے ہاتھوں میں مگر لرزش ہے کیوں؟)
کیوں ترا پیمانہ ہونٹوں سے ترے ہٹتا نہیں
خام و نو آموز ہے تُو ساحرہ
کر رہی ہے اپنے فن کو آشکار
(اور اپنے آپ پر تجھ کو یقیں حاصل نہیں
پھر بھی ہے تیرے فسوں کے سامنے مجھ کو شکست
میرے تخیلات، میری شاعری بیکار ہیں

اپنے سر پر قمقموں کے نور کا سیلاب دیکھ
جس سے تیرے چہرے کا سایہ ترے سینے پہ ہے
اس طرح اندوہ میری زندگی پر سایہ ریز
تیری آنکھوں کی درخشانی سے ہے
سایہ ہٹ سکتا ہے، غم ہٹتا نہیں

آہ تیری مدبھری آنکھوں کے جال
دیکھ وہ دیوار پر تصویر دیکھ
یہ اگر چاہے کہ اس کا آفرینندہ کبھی
اس کے ہاتھوں میں ہو مغلوب و اسیر
کیسا بے معنی ہو یہ اس کا خیال
اس کو پھر اپنی ہزیمت کے سوا چارہ نہ ہو
تو مری تصویر تھی
میرے ہونٹوں نے تجھے پیدا کیا
آج لیکن میری مدہوشی کو دیکھ
میں کہ تھا خود آفرینندہ ترا
پابجولاں میرے جسم و روح تیرے سامنے
اور دل پر تیری آنکھوں کی گرفت ِ ناگزیر
ساحری تیری خداوندی تیری
عکس کیسا بھی ہو فانی ہے مگر
یہ نگاہوں کا فسوں پایندہ ہے​
 

Create an account or login to comment

You must be a member in order to leave a comment

Create account

Create an account on our community. It's easy!

Log in

Already have an account? Log in here.

New posts
Back
Top
Chat