JavaScript is disabled. For a better experience, please enable JavaScript in your browser before proceeding.
You are using an out of date browser. It may not display this or other websites correctly.
You should upgrade or use an
alternative browser .
ہر نفس دامِ گرفتاری ہے
نَو گرفتارِ بَلا غور سے سُن
دل تڑپتا ہے کیوں آخرِ شب
دو گھڑی کان لگا، غور سے سُن
اِسی منزل میں ہیں سب ہجرو وصال
رہروِ آبلہ پا، غور سے سُن
اِسی گوشے میں ہیں سب دیر و حرم
دل صنم ہے کہ خُدا، غور سے سُن
کعبہ سُنسان ہے کیوں اے واعظ!
ہاتھ کانوں سے اُٹھا غور سے سُن
موت اور زیست کے اَسرار و رمُوز
آ مِری بزْم میں، آ غور سے سُن
ناصر کاظمی
اگر غفلت سے باز آیا ، جفا کی
تلافی کی بھی ظالم نے تو، کیا کی
کبھی انصاف ہی دیکھا، نہ دِیدار!
قیامت اکثر اس کُو میں رہا کی
مومن خان مومن
کیا بتاؤں تجھے اسباب جئے جانے کے !
مجھ کو خود بھی نہیں معلوم، کہ کیوں زندہ ہُوں
اپنے ہونے کی خبر کس کو سُناؤں ساغر
کوئی، زندہ ہو تو میں اُس سے کہوں زندہ ہوں
ساغر
اُجاڑ جنگل ، ڈری فضا، ہانْپتی ہوائیں
یہیں کہِیں بستِیاں بساؤ، اُداس لوگو
اُسی کی باتوں سے ہی طبیعت سنبھل سکے گی
کہیں سے محسن کو ڈھونڈ لاؤ، اُداس لوگو
مُحسن نقوی
ہم کیا کریں، اگر نہ تِری آرزو کریں
دُنیا میں اور کوئی بھی تیرے سِوا ہے کیا
حسرت موہانی
رونے لگے ابھی سے، کہ ہے اِبتدائے حال
تم نے ابھی فسانۂ حسرت سُنا ہے کیا
حسرت موہانی
کیا کہوں دل نے کہاں سینت کے رکھا ہے اُسے
نہ کبھی بُھولنے پاؤں، نہ مجھے یاد آئے
میں نے حافِظ کی طرح، طے یہ کِیا ہےعابد !
٠بعد ازِیں مے نہ خورم بے کفِ بزم آرائے٠
سیّدعابدعلی عابد
میں چپ رہوں ، کبھی بے وجہ ہنس پڑوں محسن
اسے گنوا کے عجب حوصلے تلاش کروں
محسن نقوی
1
تھی وہ اِک شخص کے تصّور سے
اب وہ رعنائیِ خیال کہاں
مرزا غالب
کہانیاں نہ سُنو آس پاس لوگوں کی
کہ میرا شہرہے، بستی اُداس لوگوں کی
نہ کوئی سمت نہ منزل، سو قافلہ کیسا
رواں ہے بِھیڑ فقط بے قیاس لوگوں کی
احمد فراز
Create an account or login to comment
You must be a member in order to leave a comment
Create account
Create an account on our community. It's easy!
Log in
Already have an account? Log in here.
New posts