Ad Blocker Detection
Please turn off your ad blocker otherwise you won't be able to access Urdu Story World. Thanks!
  • اردو اسٹوری ورلڈ ممبرشپ

    اردو اسٹوری ورلڈ ممبرشپ ریٹس

    ٭یہ ریٹس 31 دسمبر 2025 تک کے لیے ہیں٭

    فری رجسٹریشن

    مکمل طور پر مفت

    رجسٹریشن بالکل مفت ہے، اور فورم کے عمومی سیکشنز تک رسائی حاصل کریں۔

    پرو پیڈ ممبرشپ

    فیس: 1000 روپے (1 ماہ)

    اس پیکج میں آپ کو صرف پرو پیڈ سیکشنز تک رسائی حاصل ہوگی۔

    وی آئی پی ممبرشپ

    فیس: 3000 روپے (3 ماہ)

    وی آئی پی ممبرشپ میں پرو اور وی آئی پی اسٹوریز سیکشنز تک رسائی حاصل کریں۔

    وی آئی پی پلس ممبرشپ

    فیس: 5000 روپے (6 ماہ)

    وی آئی پی پلس ممبرشپ کے ذریعے پرو، وی آئی پی اور وی آئی پی پلس سیکشنز وزٹ کریں۔

    پریمیم ممبرشپ

    فیس: 50 ڈالر (6 ماہ)

    پریمیم ممبرشپ میں پرو، وی آئی پی، وی آئی پی پلس اور خصوصی پریمیم سیکشنز شامل ہیں۔

    رابطہ کریں

    WhatsApp: +1 540 569 0386

    Email: [email protected]

    © 2025 اردو اسٹوری ورلڈ۔ تمام حقوق محفوظ ہیں۔

Family گناہ گار

Hmayu

Gold
Joined
Jul 2, 2023
Messages
569
Reaction score
9,476
Location
Karachi
Offline
گُناہگار
گُناہگار
سعدیہ میری بہن ہے اور اس کی عمر 17 سال ہے۔ میں بھی بہت سے بھائیوں کی طرح ہی ہوں اور اپنی بہن کو بہت چاہتا بھی ہوں اور میری یہ چاہت ایک بھائی کی طرح کی ہی ہے۔ لیکن ایک گناہ جو مجھ سے سرزد ہو گیا اس پر بہت شرمندہ ہوں اور جانتا ہوں کے اس کا کفارہ ممکن نہیں ہے۔ میں جانتا ہوں کے اس گناہ کے کرنے کیلئے کوئی دلیل نہیں ہے جو میں اپنی صفائی پیش کرنے کیلئے دوں۔ ہوا کچھ یوں تھا کہ سعدیہ کچھ دنوں سے ہماری خالہ کے گھر گئی ہوئی تھی۔ کیونکہ سکول میں اس کے امتحان ہو چکے تھے اور وہ فارغ تھی۔ حمیرا جو ہماری خالہ زاد ہے نے بہت اصرار کر کے امی جان سے سعدیہ کو اپنے ہاں کچھ دن کیلئے لے جانے کی اجازت لے لی تھی۔ اور جیسے ہی سعدیہ امتحانوں سے فارغ ہوئی حمیرا اسے لینے کیلئے اپنی ماں کے ساتھ آ دھمکی۔ اور آج تقریباً دو ہفتے ہونے کو تھے کہ سعدیہ اُن کے ہاں رہ رہی تھی ۔امی جان نے مجھے کہا کہ میں خالہ کے گھر سے سعدیہ کو لے آؤں۔ میں نہا دھو کر تیار ہوا اور موٹرسائیکل نکال کے خالہ کے گھر کے لیئے روانہ ہوا۔ خالہ کا گھر ایک دوسرے گاؤں میں تھا جو کے ہمارے گاؤں سے چودہ پندرہ کلومیٹر کی دوری پر ہوگا۔ میں کوئی آدھے گھنٹے میں ہی خالہ کے گھر جا پہنچا۔ حال احوال کے بعد حمیرا چائے بنا کر لے آئی۔ چائے پی چُکنے کے بعد میں نے خالہ سے اجازت چاہی تو خالہ نے کہا کے اتنی جلدی کیا ہے ابھی آئے اور ابھی چل دیئے۔ آرام سے بیٹھو کھانا وغیرہ تیار ہوتا ہے تو کھا کر آرام سے چلے جانا۔ اب خالہ کہہ رہی تھیں تو میں انکار کیسے کرتا ویسے بھی میرا دل چاہ رہا تھا کے میں کچھ دیر اور یہیں رکوں کیونکہ میں دل ہی دل میں حمیرا کو بہت پسند کرتا تھا۔ اور اس کو بارہا دل ہی دل میں اپنی بیوی کے روپ میں دیکھ چُکا تھا۔ میں نے بھی موقع مناسب جانا اور سوچا کے چلو اسی بہانے کچھ دیر اس کے ساتھ بھی وقت بیت جائے گا۔
خالہ نے اسے کہا کے جلدی سے کھانا تیار کرو۔ اور خود میرے ساتھ باتیں کرنے لگیں۔ ہم ابھی باتیں کر ہی رہے تھے کے خالہ کے پڑوس سے ایک عورت آگئی۔ خالہ اس عورت کے پاس بیٹھ گئیں تو میں چُپکے سے وہاں سے اُٹھا اور کچن میں چلا گیا جہاں حمیرا کھانا بنا رہی تھی۔ سعدیہ بھی اُس کی بھرپور مدد کر رہی تھی۔ میں سائیڈ پر کھڑا ہو کے اُن سے ادھر اُدھر کی باتیں کرنے لگا۔ وہ بھی کھانا بناتے ہوئے مجھ سے باتیں کر رہی تھیں۔ میں چور نگاہوں سے حمیرا کے بھرپور سراپے کا بھی جائزہ لے رہا تھا۔ وہ یقیناً قدرت کا شاہکار تھی۔ وہ بھی سعدیہ کی ہی ہم عمر تھی۔ گورے رنگ کے ساتھ خوبصورت اور پر فیکٹ فِگر اُس پر قیامت خیز لباس مجھ پر بجلیاں گرا رہے تھے۔ اس کی ہر ہر ادا پر میری جان نکل رہی تھی۔ میں باتیں تو اُن کے ساتھ کر رہا تھا لیکن لیکن دماغ سے میں کسی اور ہی دُنیا میں تھا۔
وہ دونوں کھانا بنانے میں مصروف تھیں جبکہ میں حمیرا کے سحر میں گرفتار تھا۔ میں بار بار بہانے بہانے سے اُس سے ٹکرانے کی کوشش کر رہا تھا۔ دو تین دفعہ میں نے اپنے کندھے سے اُس کے مموں کو دبایا تھا جبکہ ایک آدھ دفعہ ہاتھ اس کی گانڈ پر بھی لگایا تھا۔ میں سرور اور مستی کی سی کیفیت میں تھا۔ حمیرا سے چھونا اُسے بُرا نہیں لگا تھا یا پھر اُس کی نظر میں یہ سب حادثاتی تھا۔ کیونکہ کوئی خاص ری ایکشن اُس کی جانب سے دیکھنے کو نہیں ملا تھا۔ پر سچ بات یہ ہے کے میری حالت غیر تھی۔
خیر کھانا تیار ہوا اور ٹیبل پر لگا دیا گیا۔ ہم نے مل کر کھانا کھایا ۔ اس کے بعد میں نے خالہ سے اجازت چاہی تو انہوں نے بھی اجازت دیتے ہوئے کہا کے دھیان سے جانا راستے میں موٹرسائیکل چلاتے ہوئے مستی نہ کرنا۔ میں نے جی اچھا کہہ کر سعدیہ کو چلنے کو کہا۔ سعدیہ بھی تیار تھی بس اُس نے کپڑے تبدیل کرنے تھے۔ وہ پانچ منٹ میں کپڑے تبدیل کر کے آ گئی۔ ہم گھر کیلئے نکلے تو شام ہونے کو تھی لیکن فاصلہ کوئی بہت زیادہ نہیں تھا اس لیئے کوئی زیادہ فکر بھی نہ تھی۔ سعدیہ ہلکے پیلے رنگ کی قمیض جبکہ سفید شلوار اور دوپٹّے میں قیامت لگ رہی تھی۔ ہم ابھی کوئی آٹھ نو کلومیٹر ہی آئے ہوں گے کے کھڑاک کی ایک سخت آواز کے ساتھ موٹر سائیکل کی چین ٹوٹ گئی۔ میں نے اپنے طور پر اسے مرمت کرنے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہ ہو سکی۔ آس پاس کسی مکینک کا ہونا بھی ممکن نہیں تھا۔ کیونکہ یہ چند دیہاتوں کو ملانے والی ایک چھوٹی سی روڈ تھی۔ اور میں اگلے تمام راستے تک اسے دھکیل کر بھی نہیں لے جا سکتا تھا۔ میں نے دیکھا کے کوئی پانچ چھ سو گز دور ایک گھر تھا۔ میں نے فیصلہ کیا کے موٹرسائیکل اس گھر میں کھڑی کر کے باقی تمام فاصلہ پیدل طے کرتے ہیں۔ اور موٹرسائیکل کو دھکیل کر اُس گھر تک لے گیا۔ گھر کے مکین اچھے تھے اُنہوں نے بھی وہاں موٹرسائیکل کھڑی کرنے پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ وہاں پر موٹرسائیکل چھوڑنے کے بعد میں اور سعدیہ پیدل ہی گھر کیلئے روانہ
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
Back
Top