woodman
Well-known member
Offline
- Thread Author
- #1
پیش لفظ
پیش لفظ
دیوث سیریز کا فاینل پارٹ آپ کے پیش خدمت ہے۔
دیوث سیریز کو سلسلہ وار لکھنے کا سوچا تھا۔
کہ ایک واقعے کو علیحدہ کہانی کی صورت لکھا جائے۔
لیکن اب میں اپنی سوچ سے رجوع کرتے ہوے اسے ایک ہی کہانی کی شکل میں لکھنے کا بیڑہ اٹھایا ہے
کہانی non linear فارمیٹ میں ہے
مطلب زمانی اعتبار سے سلسلہ وار نہیں ہو گئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کہانی میری ذاتی تخلیق ہے۔ یہ کاوش نہ کسی کی کاپی ہے اور نہ ہی کسی کہانی کا ترجمہ ہے
یہ کاوش پہلی بار اس فورم پر پیش کی جارہی ہے۔
اسی فورم پر اس کہانی کا پارٹ ون بھی موجود ہے
قاریین سے گزارش ہے کہ پہلے وہ پڑھ لیں۔
کہانی گرچہ فرضی لیکن کچھ کردار اور واقعات حقیقی ہیں۔ کرداروں اور جگہوں کے نام بدلے ہوئے ہیں
++++++++++++++++++++++++++++++++++
انتساب
یہ کہانی میں فحش ادب کے عظیم لکھاری شاہ جی (راولپنڈی والے) کے نام کرتا ہوں۔
جن کی تحاریر ، ویاگرا کا کام کرتی ہیں
ــ..ــ
اداب عرض ہے
میرا نام وقار ہے۔ بوجہ سابقے لاحقے کو چھوڈ دیتے ہیں۔ ، البتہ پیار سے لوگ وکی کہتےہیں
قد چھ فٹ، کسرتی جسم اور رنگ گورا ہے۔
چہرے سے ہمایون سعید لگتا ہوں
چونکہ یہ سیکس سٹوری ہے تو اپنے قضیب کا سایز بتانا بھی ضروری ہے ۔
میرا قضیب تقریبا ساڈھے چھ انچ لمبا ہے جبکہ قطر چار انچ ہے چوڑائی تقریباً سوا دو انچ ہے اور قضیب کا حشفہ چھتری نما ہے کچھ خواتین میرا قضیب دیکھ کر ہی گھبرا جاتی ہیں۔
لہذا میں آخر میں قضیب کی رونمائی کرتا ہوں۔ تاکہ خاتون کو بھاگنے کا موقع نہ ملے۔
میرا امپورٹ ایکسپورٹ کا ذاتی بزنس ہے۔ میرا تعلق لاہور کے مڈل کلاس طبقے سے تھا لیکن قدرت مہربان ہوئی اور مجھے ایسے مواقع ملتے گئے جنہوں نے مجھے وہاں پہنچا دیا جہاں آج میں ہوں۔
اس مین میری ذہانت یا محنت کا کوئی عمل دخل نہیں۔
میں آندھی میں اڑنے والا وہ کپڑا ہوں۔ جو کسی خالی فلیگ پوسٹ پر ایسے لپٹ گیا جیسے جھنڈا ہو۔
میری دن دگنی رات چگنی ترقی میں میری بیگم کا بہت بڑا کردار ہے۔
میری بیگم کا نام روبینہ ہے ۔ان کا قد پانچ فٹ چھ انچ ہے رنگ شدید گورا؛ سمجھو ٹیوب لایٹ جل رہی ہے۔
چہرہ بھی نہایت حسین ہے غزال آنکھیں ستواں۔ ناک گول چہرہ ، اور چہرے پر ہر وقت معصومیت طاری رہتی ہے چہرے کی مشابہت زیبا بختیار سے ملتی ہے اور جسم نورا فتحی جیسا ہے۔
گہری آنکھوں میں شرارت پھوٹتی تھی۔کسی کو نظر بھر کر دیکھ لے تو راہی رستہ بھول جائے ۔چھاتیاں DD 36، ہیں کمر 26 اور کولہے 42 ہیں۔
ہپس اتنی باہر نکلی ہیں کہ پانی کا گلاس رکھا جاسکتا ہے ۔وہ عربوں کے جسمانی معیار حسن پر پورا اترتی ہیں
کہ ننگی عورت کے سر پر اتنی بڑی چادر ڈال دی جو پورے بدن کو ڈھک سکے ۔تو وہ چادر صرف دو مقامات کے علاؤہ کہیں بدن سے مس نہ کرے۔
یعنی کہ چھاتیاں اور کولہے۔
روبینہ کا بچپن ،لڑکپن ریاض سعودیہ میں گزرا ، جہاں ان کی والدہ ایمبیسی سکول میں ٹیچر تھیں۔ اردو ،انگریزی ، عربی تو روبینہ نے سکول سے ہی سیکھ لی تھی۔جبکہ پشتو گھر بولی جاتی تھی، فرینچ اسپینش اپنی دوستوں سے گزارے لائق سیکھ لی تھی ۔
جبکہ پنجابی میں نے انہیں سکھا دی تھی۔
روبینہ کی ہفت زبانی کا مجھے بزنس میں بہت فائیدہ ہوا۔
خاص طور پر عربی زبان پر مادری زبان کی طرح کے روبینہ کے عبور نے میرے لیے ایسے ایسے در
کھول دیئے جو امکان سے محال تھے ۔
روبینہ (میری)جان کی والدہ کی سعودیہ جاب ختم ہوئی تو وہ لاہور شفٹ ہو گئے تاکہ بچوں کو اچھی تعلیم
دلا سکیں ۔
روبینہ کی والدہ طلاق یافتہ تھیں اور پھر انہوں نے
بچوں کے جوان ہونے تک شادی نہیں کی تھی۔
بڑے بیٹے نے سب کی شادیوں کے بعد ماں کی بھی شادی اپنے دوست کے رنڈوے باپ سے کروا
دی ہے۔
۔روبینہ کا ایک بھائی اور ایک بہن تھی اور روبینہ ان سب سے چھوٹی تھیں۔
روبینہ جان شادی سے پہلے ہی جنسی طور پر ایکٹو تھیں۔ اور سیکس کی ایک منجھی کھلاڑن تھی
جبکہ میں لڑکپن ہی سے ممے،پھدیوں سے کھیل کر بڑا ہوا تھا۔ جب لڑکے گلی ڈنڈا کھیلتے تھے میں پھدی میں اپنا ڈنڈا ڈال کر ٹل مارا کرتا تھا
میری ان سے اتفاقاً ملاقات ہوئی۔
ون نائٹ سٹینڈ کے طور پر ملاقات کب محبت پر منتج ہوئی ۔
پتہ ہی نہیں چلا۔
چند ملاقاتوں میں ہی ہمارا وہ حال ہو گیا تھا کہ
تو من شدی،من تو شدم
کہ تو ، تو نہ رہا ۔میں ہو گیا، اور میں، میں نہ رہا تو ہو گیا۔
جنس کے جوہڑ میں محبت کا کنول کھلنے کا سنتے آئے تھے۔لیکن خود پر بیتی تو کہاوت کے سچ ہونے کا یقین آیا ۔
پھر محبت کو ہم نے شادی کے بندھن میں باندھ لیا۔
ہماری ایک دوسرے سے اتنی شدید محبت تھی کہ شادی کے چند ماہ میں ہی شادی کا بندھن محبت پر بوجھ ڈالتا محسوس ہؤا ۔
تو ہم نے محبت کو بچانے کے لیے اپنی شادی کے بندھنوں کو کچھ ڈھیلا کر دیا
اور کچھ رولز طے کر کے ککولڈنگ شروع کر دی ۔
درج بالا معلومات ہماری زندگیوں کو اجمالی خلاصہ ہیں
جیسے جیسے کہانی آگے بڑھے گی۔
میں تفصیل سے واقعات کی تشریح کرتا جاؤں گا
جاری ہے۔۔۔
جن کی تحاریر ، ویاگرا کا کام کرتی ہیں
ــ..ــ
اداب عرض ہے
میرا نام وقار ہے۔ بوجہ سابقے لاحقے کو چھوڈ دیتے ہیں۔ ، البتہ پیار سے لوگ وکی کہتےہیں
قد چھ فٹ، کسرتی جسم اور رنگ گورا ہے۔
چہرے سے ہمایون سعید لگتا ہوں
چونکہ یہ سیکس سٹوری ہے تو اپنے قضیب کا سایز بتانا بھی ضروری ہے ۔
میرا قضیب تقریبا ساڈھے چھ انچ لمبا ہے جبکہ قطر چار انچ ہے چوڑائی تقریباً سوا دو انچ ہے اور قضیب کا حشفہ چھتری نما ہے کچھ خواتین میرا قضیب دیکھ کر ہی گھبرا جاتی ہیں۔
لہذا میں آخر میں قضیب کی رونمائی کرتا ہوں۔ تاکہ خاتون کو بھاگنے کا موقع نہ ملے۔
میرا امپورٹ ایکسپورٹ کا ذاتی بزنس ہے۔ میرا تعلق لاہور کے مڈل کلاس طبقے سے تھا لیکن قدرت مہربان ہوئی اور مجھے ایسے مواقع ملتے گئے جنہوں نے مجھے وہاں پہنچا دیا جہاں آج میں ہوں۔
اس مین میری ذہانت یا محنت کا کوئی عمل دخل نہیں۔
میں آندھی میں اڑنے والا وہ کپڑا ہوں۔ جو کسی خالی فلیگ پوسٹ پر ایسے لپٹ گیا جیسے جھنڈا ہو۔
میری دن دگنی رات چگنی ترقی میں میری بیگم کا بہت بڑا کردار ہے۔
میری بیگم کا نام روبینہ ہے ۔ان کا قد پانچ فٹ چھ انچ ہے رنگ شدید گورا؛ سمجھو ٹیوب لایٹ جل رہی ہے۔
چہرہ بھی نہایت حسین ہے غزال آنکھیں ستواں۔ ناک گول چہرہ ، اور چہرے پر ہر وقت معصومیت طاری رہتی ہے چہرے کی مشابہت زیبا بختیار سے ملتی ہے اور جسم نورا فتحی جیسا ہے۔
گہری آنکھوں میں شرارت پھوٹتی تھی۔کسی کو نظر بھر کر دیکھ لے تو راہی رستہ بھول جائے ۔چھاتیاں DD 36، ہیں کمر 26 اور کولہے 42 ہیں۔
ہپس اتنی باہر نکلی ہیں کہ پانی کا گلاس رکھا جاسکتا ہے ۔وہ عربوں کے جسمانی معیار حسن پر پورا اترتی ہیں
کہ ننگی عورت کے سر پر اتنی بڑی چادر ڈال دی جو پورے بدن کو ڈھک سکے ۔تو وہ چادر صرف دو مقامات کے علاؤہ کہیں بدن سے مس نہ کرے۔
یعنی کہ چھاتیاں اور کولہے۔
روبینہ کا بچپن ،لڑکپن ریاض سعودیہ میں گزرا ، جہاں ان کی والدہ ایمبیسی سکول میں ٹیچر تھیں۔ اردو ،انگریزی ، عربی تو روبینہ نے سکول سے ہی سیکھ لی تھی۔جبکہ پشتو گھر بولی جاتی تھی، فرینچ اسپینش اپنی دوستوں سے گزارے لائق سیکھ لی تھی ۔
جبکہ پنجابی میں نے انہیں سکھا دی تھی۔
روبینہ کی ہفت زبانی کا مجھے بزنس میں بہت فائیدہ ہوا۔
خاص طور پر عربی زبان پر مادری زبان کی طرح کے روبینہ کے عبور نے میرے لیے ایسے ایسے در
کھول دیئے جو امکان سے محال تھے ۔
روبینہ (میری)جان کی والدہ کی سعودیہ جاب ختم ہوئی تو وہ لاہور شفٹ ہو گئے تاکہ بچوں کو اچھی تعلیم
دلا سکیں ۔
روبینہ کی والدہ طلاق یافتہ تھیں اور پھر انہوں نے
بچوں کے جوان ہونے تک شادی نہیں کی تھی۔
بڑے بیٹے نے سب کی شادیوں کے بعد ماں کی بھی شادی اپنے دوست کے رنڈوے باپ سے کروا
دی ہے۔
۔روبینہ کا ایک بھائی اور ایک بہن تھی اور روبینہ ان سب سے چھوٹی تھیں۔
روبینہ جان شادی سے پہلے ہی جنسی طور پر ایکٹو تھیں۔ اور سیکس کی ایک منجھی کھلاڑن تھی
جبکہ میں لڑکپن ہی سے ممے،پھدیوں سے کھیل کر بڑا ہوا تھا۔ جب لڑکے گلی ڈنڈا کھیلتے تھے میں پھدی میں اپنا ڈنڈا ڈال کر ٹل مارا کرتا تھا
میری ان سے اتفاقاً ملاقات ہوئی۔
ون نائٹ سٹینڈ کے طور پر ملاقات کب محبت پر منتج ہوئی ۔
پتہ ہی نہیں چلا۔
چند ملاقاتوں میں ہی ہمارا وہ حال ہو گیا تھا کہ
تو من شدی،من تو شدم
کہ تو ، تو نہ رہا ۔میں ہو گیا، اور میں، میں نہ رہا تو ہو گیا۔
جنس کے جوہڑ میں محبت کا کنول کھلنے کا سنتے آئے تھے۔لیکن خود پر بیتی تو کہاوت کے سچ ہونے کا یقین آیا ۔
پھر محبت کو ہم نے شادی کے بندھن میں باندھ لیا۔
ہماری ایک دوسرے سے اتنی شدید محبت تھی کہ شادی کے چند ماہ میں ہی شادی کا بندھن محبت پر بوجھ ڈالتا محسوس ہؤا ۔
تو ہم نے محبت کو بچانے کے لیے اپنی شادی کے بندھنوں کو کچھ ڈھیلا کر دیا
اور کچھ رولز طے کر کے ککولڈنگ شروع کر دی ۔
درج بالا معلومات ہماری زندگیوں کو اجمالی خلاصہ ہیں
جیسے جیسے کہانی آگے بڑھے گی۔
میں تفصیل سے واقعات کی تشریح کرتا جاؤں گا
جاری ہے۔۔۔