Offline
ایک ایسے گندے لڑکے کی بیتی جو تھا تو بچہ لیکن ***** پن میں بڑوں کا بھی باپ تھا جس کی ہوس کی سے محلے میں ارد گرد رہنے والی لڑکیاں تو لڑکیاں اس کے اپنے خاندان کی لڑکیاں اور عورتیں بھی محفوظ نہ رہی کم عمری میں ہی اس گندے لڑکے نے ہوس کا وہ گندا کھیل کھیلا جس سے پڑھ کر بے اختیار اپ کا ہاتھ آپ کی شلوار میں چلا جائے گا پیش خدمت ہے نہیں بلک گروپ کہانی گھر کے تعاون سے مصنف کیے کی نئی سلسلہ وار کہانی گنے لگا۔ ایک ایسے گندے لڑکے کی آپ بیتی جو تھا تو بچہ لیکن حرامی پن میں بڑوں کا بھی باپ تھا۔ جس کی ہوس کی آگ سے محلے میں ارد گرد رہنے والی لڑکیاں تو لڑکیاں اُس کے اپنے خاندان کی لڑکیاں اور عورتیں بھی محفوظ نار ہیں۔ کم عمری میں ہی اس گندے لڑکے نے ہوس کا وہ گندا کھیل کھیلا جسے پڑھ کر بے اختیار آپ کا ہاتھ آپکی کی شلوار میں چلا جائے گا۔ میر انام ندیم ہے ، میرا تعلق لوئر مڈل کلاس سے ہے۔ میری کہانی شروع ہوتی ہے میرے بچین سے جب میں کلاس ففتھ کا سٹوڈنٹ تھا....... ہم لوگ کل گیارہ بہن بھائی تھے باپ نے غربت کے باوجود بچوں کی لمبی لائن لگائی۔ ہم لوگ لاہور کے ایک پسماندہ علاقے میں رہتے تھے۔ دادا نے وہ مکان بنوایا تھا جس میں پھوپھو ، تایا، چاچا اور ہماری فیملی رہتی تھی۔ سب کے حصے میں اک ایک کوٹری نما کمرہ آیا تھا۔ والد صاحب دن بھر سبزی کی ریڑھی چلاتے تھے ، رات کو والدہ کی ریڑھی چلاتے تھے اسی ایک کمرے میں ہم گیارہ بہن بھائی پیدا ہوئے۔ سات بہنیں اوپر تلے کی پھر ہم چار بھائی میں سب سے چھوٹا تھا بچپن میں محرومیاں بھی اتنی ہی دیکھیں صبح سکول سے آنے کے بعد میں باہر آوارہ گردی کرنے نکل جاتا تھا شام ڈھلے گھر داخل ہوتا تھا، گھر میں کسی کو بھی پرواہ نہیں تھی بہنیں بھی تیزی سے جو ان ہو رہی تھیں پر ہمیں تو کھانے کے لالے پڑے ہوئے تھے۔ بچپن سے ہی اپنے جیسے آوارہ لڑکوں سے میری خوب جمتی تھی وہ لڑکے عمر میں مجھ سے کافی بڑے تھے پر چونکہ وہ مجھے کھانے پینے کو کچھ نا کچھ دے دیتے تھے اور ساتھ سگریٹ کا ایک آدھ کش بھی لگوا دیتے تھے۔ اسی لئے میرے لیے میرے دوست میرے گھر والوں سے بڑھ کر تھے۔ گھر کیا تھا ایک جہنم تھا جہاں مجبوری میں رہ رہا تھا۔ یہ جون جولائی کی ایک شام کا ذکر ہے میں حسب معمول دوستوں کے ساتھ تھا۔میرا ایک شاہد نامی دوست کہنے لگا لے ندیم یہ کش لگا آج تجھے جنت کی سیر کرواتے ہیں۔ میں حیرانی سے شاہد کو دیکھنے لگا کیسی جنت کی سیر ؟ وہ بولا مٹھ رکھ دیکھتا جائیں۔ خیر سگریٹ کے لمبے لمبے کش لگا کر شاید مجھے اور ہمارے تیسرے دوست انجم کو لیکر ایک گھر میں داخل ہوا۔ یہ گھر طاہر نامی بندے کا تھا جو حال بی میں محلے میں شفٹ ہوا تھا۔ طاہر جسے سب ماموں ماموں کہتے تھے ، اس نے گھر میں گندی فلموں کا بندوبست کر رکھ تھا، جو اس پسماندہ علاقے کی واحد تفریح تھی طاہر ماموں نے ہمیں دیکھ کر کہا کیوں بھئی انجم اور شاید آج اس ننھے کا کے کو بھی لے آئے ساتھ ؟ اس پر میں نے باقاعدہ برا مناتے ہوئے کہا میں بڑا ہوں چھوٹا بچے نہیں ہوں۔ اس پر طاہر ماموں نے خباثت سے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا دیکھتے ہی منے آج فلم دیکھ کر اگر تمھارا چھوٹا سامنا پھول گیا پھر منا نہیں کہونگا۔ طاہر مامون باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے ، ہمیشہ سفید ململ کا کرتا دانتوں میں پان دبائے ہوتے تھے نهایت نفیس اردو بولتے تھے . دہلی سے تعلق ہونے کی وجہ سے پر انتہائی ٹھر کی تھے۔ کسی عورت کو نہیں چھوڑتے تھے چونکہ شادی نہیں کی تھی تنہا رہتے تھے اسی لیے کچھ زیادہ ہی رنگین مزاج تھے۔ شاہد اور انجم نے پچاس پچاس روپے ماموں کو دیئے اور کہا ماموں آج زرا ثالث قسم کی دیسی فلم ہونی چاہیئے ، ندیم پہلی بار دیکھے گا۔ اس پر ماموں نے اپنے پان زدہ دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے کہا ایسی فلم لگاؤ نگا اس منے کا منا پھول کر غبارہ بن جائے گا۔ اس پر میرے کمینے دوست قہقہہ لگانے لگے ۔ خیر پانچ منٹ بعد فلم ستارت بونی فلم کیا حیرت کا جہاں تھا مرے لئیے ، پہلی بار میں نے کسی لڑکی کے ممے وہ بھی ام جیسے پہلی بار دیکھے تھے اور سب دیکھ کر میرے دوست تو سسکاریاں لے کر شلوار کے اوپر سے لنڈ سہلانے لگے جب کے میں حیرانی سے یہ سب دیکھ رہا تھا۔ پھر جب لڑکی کی چوت دیکھی تو میری شلوار میں کھجلی سی ہونے لگ گئی جب تک فلم ختم ہوئی میں حیرت اور لچسپی سے یہ سب دیکھتا ربا فلم ختم ہونے کے بعد طاہر اموں نے کہا کیوں منے تیرے چھوٹے سے راکٹ نے زیادہ تنگ تو نہیں کیا تجھے میں جھینپ کر خاموش ہو گیا جب باہر نکلے تو شاہد اور انجم نے کہا ندیم یار تو بڑا لکی ہے جوائنٹ فیملی میں رہتا ہے دن بھر اپنی کزنز اور بہنوں کے مجھے تو نظر آتے ہونگے ؟ اس پر میں نے با قاعدہ برا مناتے ہوئے کہا شرم کرو وہ میری سگی بہنیں ہیں۔ اس پر دونوں نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا ہیں تو لڑکیاں نا ؟میں ناراض ہو کر جانے لگا تو شاہد نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا چھوڑو اس انجم کو یہ ہے ہی ٹھر کی اپنی سگی باجی کو بھی نہاتے ہوئے دیکھتا ہے۔ میں حیران رہ گیا کیا ایسا بھی ہوتا ہے ؟ خیر رات کے دو بچے جب گھر پہنچا تو اس بلا کی گرمی میں سب چھت پر سو رہے تھے۔ باجی نے دروازہ کھول نیند میں بنا دوبیٹہ کیے وہ آئی تھی اس سے پہلے کبھی اس نظر سے نہیں دیکھا تھا باجی کو آج فلم اور دوستوں کی باتوں کا اثر تھا باجی کے مموں کو غور سے دیکھنے لگا جو کمان کی طرح اٹھے ہوئے تھے۔ رات اور گرمی کی وجہ سے باجی نے برا بھی نہیں پہنا تھا تو چھاتی کی گولائیاں دیکھ کر میری چھوٹی سی لوژی پھنکارنے لگ گئی۔ میں باجی کو دیکھنے میں اتنا محو تھا کہ انکی آواز سے ہی چونکا اور باجی نے کہا کیا ہو اندیم ٹھیک تو ہو ؟ میں نے ہوش میں آتے ہوئے کہا.. کچھ نہیں۔ باجی بولی کچن میں کھانا رکھا ہے کھا کر اوپر سونے آجانا۔ یہ کہہ کر باجی تو چلی گئی پر میں تو بری طرح خوار تھا۔ جلدی سے غسل خانے پہنچا خود کو کپڑوں سے آزاد کیا تو دیکھا کھونٹی پر باجی کا سفیر پر اڑنگا ہوا تھا۔ میں پاگلوں کی طرح سونگھنے لگا برا کو تو پسینے کی عجیب سی مہک نے میرا دماغ اور خراب کر دیا۔ میں نے ایک ہاتھ میں برا پکڑا دوسرے ہاتھ سے مٹھ مارنے لگا باجی کو تصور میں لاکر برا پر ہی فارغ ہو گیا نہا کر اوپر سونے چلا گیا بھوک کیا لگتی تھی، مجھے تو اور قسم کی بھوک تھی ان ہی باتوں کو سوچتے سوچتے نیند آ گئی اچانک آنکھ کسی سرگوشی سے کھلی گھبرا کر اٹھ بیٹھا تو دیکھا مکمل چاند کی رات تھی کچھ فاصلے پر چاچی کی چار پائی پر چاچا جھکا ہوا تھا چاچا بری طرح چاچی کے عموں پر منہ مار رہا تھا یہ سب دیکھ کر میری چھوٹی سی لوژی پھر بیدار ہو گئی اب چاچے نے ادھر ادھر دیکھا تو میں نے آنکھیں بند کر لیں چاچا چاچی پر چڑھ گیا تھپ تھپ کی آوازیں آنے لگی تو دیکھا چاچی کے ممے زور زور سے ہل رہے ہیں ۔ یہ سب میری تو برداشت سے باہر ہو رہا تھا۔ پھر چاچے نے زور دار جھٹکا مارا اور چاچی کے اوپر بی بانپ کر لیٹ گیا میرا ہاتھ بے اختیار اپنی شلوار پر چلا گیا۔ کچھ دیر بعد چاچا اپنی چار پائی پر واپس چلا گیا . جب کے چاچی ننگے ممے لے کر لیٹی رہی اور اپنے ممے مسلتی رہی۔ چاچی کے ننگے مموں کو دیکھ دیکھ کر میں نے شلوار میں ہی مٹھ مارتے ہوئے چاچی کا تصور کیا مجھٹ کر گیلی شلوار کے ساتھ ہی سو گیا اگلے دن امی نے کہا اٹھ جاندیم کب تک سوتا رہے گا۔ چونکہ گرمی کی چھٹیاں تھیں سکول جانا نہیں تھا نیچے ناشتہ کرنے لگ گیا ابا اور بھائی سب محنت مزدوری کرنے نکل گئے تھے۔ امی نے باجی کو آواز دے کر کہا شبو میں زرا پڑوس میں جارہی ہوں دھیان رکھنا گھر کا جب امی چلی گئی تو باجی صحن میں جھاڑو دینے لگ گئی اب چونکہ میری نظروں کا زاویہ بدل چکا تھا میں چوری چوری باجی کو دیکھنے لگ گیا کھلے گریبان سے باجی کے ممے باہر آنے کو بے تاب تھے ۔یہ سب دیکھ کر میر احال بے حال ہو چکا تھا کچھ دیر بعد باجی نے آواز دی ندیم میں نہانے چارہی ہوں۔ میری باقی بہنیں کام کاج میں مصروف تھیں۔ غربت بہت تھی تو گھر میں بہنیں کاغذ کے لفافے بناتی تھیں، شام کو امی دکاندار کو دے کر تھوڑا بہت سودا سلف لے آتی تھیں۔ میں نے ایک نظر بہنوں پر ڈالی جو دل جمعی سے لفافے بنانے میں مصروف تھیں بہن صحن میں بنے غسل خانے میں چلی گئی غسل خانے کے اوپر ایک روشن دان تھا میں جلدی سے سئول لے کر چڑھ گیا، اندر کا نظارہ دیکھ کر بوش گم ہو گئے میری اپنی بہن اتنی سیکسی ہو سکتی ہے، کبھی نہیں سوچا تھا مموں پر صابن مل رہی تھیں جھاگ کے قطرے نیچے چوت تک جارہے تھے کیا شاندار جسم تھا باجی کا اس سے زیادہ دیکھنے کی ہمت نہیں ہوئی ڈر تھا کوئی آ نہ جائے بھاگتا ہوا اوپر چھت پر بنے کوتری نما ستور تک پہنچا دیکھا تو سامنے ہمسائیوں کی لڑکی جو بمشكل 12 سال کی ہو گی مجھے دیکھتے کہنے لگی ندیم ہمارا کبوتر آپ کی چھت پر آیا ہے پلیز واپس کر دیں اس پر میں نے کہا تم خود آجاؤ سٹور کے اندر ہے کبوتر ، لے جاؤ وہ نا سمجھی سے دیکھنے لگی چونکہ چھت سے چھت ملی ہوئی تھی تو وہ چھوٹی سی دیوار پھلانگ کر آرام سے آگئی۔ میں جو پہلے ہی خوار ہو رہا تھا اسے کھینچ کر سٹور میں لے گیا ، بچی گھر آئی تو میں نے کہا شور کیا تو گلا د با دوننگا اب ہمسائی کی لڑکی جس کا نام ماریہ تھا اس کی قمیض اور کی تو دیکھا پر جیسے ممے تھے، میں جھپٹ پڑا اور چوس چوس کر سرخ کر دیتے ہیں ۔ شلوار کے اوپر سے اس کی چوت کو سہلانے لگا مجھے اتنا مزہ آرہا تھا دل کر رہا تھا وقت تهم جای اسی اثناء . میں فارغ ہو گیا شلوار میں تو لڑکی کو چھوڑ دیا اور کہا کسی کو یہ بات بتائی تو تمهاری خیر نہیں۔ اس کے بعد میں گھر سے باہر آوارہ گردی کرنے نکل گیا ۔پر یہ کیا شام کو جب گھر آیا تو ایک بنگامہ منتظر تھا۔ اس لڑکی نے اپنی ماں کو سب بتا دیا تھا گھر پہنچا تو ایے نے جوتوں مکوں اور گالیوں سے استقبال کیا مجھے گندی گندی گالیوں اور ہے دریغ پیٹنے کے بعد باپ نے گھر سے نکل جانے کو کہا اس پر ماں بولی بچہ ہے کہاں جائے گا رات کو باپ نے کہا جہنم میں اور اب یہ بچہ .... نہیں رہا شكر كرو ان لوگوں نے پولیس کیس نہیں کیا۔ خیر گھر سے نکل پڑا اور طاہر ماموں کی طرف چل پڑا تو دیکھا ماموں کے گھر پر تالا لگا ہوا ہے گلی میں پوچھا کسی سے تو پتہ چلا ناموں کسی عزیز سے ملنے گئے ہیں کل تک آئیں گے۔ یہی سوچ رہا تھا کسی دوست کے گھر جاؤں تو عزیز انگل جو گلی کے کونے میں رہتے تھے ، پچھلے سال بی بیوی کا انتقال ہو گیا تھا اولاد تھی نہیں کوئی مجھے دیکھ کر کہنے لگے کیا ہو ا دینے پتر ؟ میں نے برا سامنہ بناتے ہوئے کہا انکل ندیم سے مر انام دے نہیں انکل نے کہا پیار سے کہتا ہوں۔ میں نے انکل عزیز کو بتایا کہ گھر والوں نے گھر سے نکال دیا اور لڑکی والی بات میں گول کر گیا۔ انکل کہنے لگا میرے گھر آجاؤ ویسے بھی اکیلا ہوتا ہوں خیر انکل کے گھر چلا گیا دو کمروں کا گھر تھا پر ہمارے گھر سے لاکھ درجہ بہتر تھا دونوں کمروں میں روم ائیر کولر لگے ہوئے تھے انکل نے کہا جاؤ بیٹا کمرے میں ، تم نے کھانا بھی نہیں کھایا ہو گا میں ہوٹل سے لے کر آتا ہوں انكل بوتل سے مزیدار چکن کرابی نے آئے ، جو میں نے سیر ہو کر کھائی اور کو لر لگا کر لیٹ کر سوچنے لگا میرے دوست ایسی ہی برا کہتے ہیں یہ انکل نہیں ٹھیک بچ کے رہو ، پر یہ تو بہت اچھے ہیں یہی سوچتے سوچتے آنکھ لگ گئی اچانک محسوس ہوا کسی نے میری شلوار میں ہاتھ ڈالا ہو۔ پہلے وہم سمجھا، جب پوری آنکھیں کھولی تو دیکھا انکل کپڑوں سے بے نیاز میرے پاس لیٹ کر میر النڈ سہلا رہے تھے گھبرا کر اٹھ بیٹھا اور کہا انکل یہ کیا کر رہے ہیں ؟ تب انکل نے کہا پتر ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے ، اتارو شلوار اور گھوڑی بن جاؤ، میں نے کہا نہیں تب انکل نے زبر دستی مجھے گھوڑی بنا کر اپنا موٹا سیاه سخت لنڈ میری گانڈ میں ڈال دیا تکلیف سے میں رونے لگا تو عزیز انکل بولی مت رو تهوزا بر داشت کرلے تھوڑی دیر بعد مزا بھی آئے گا۔ انکل نے بے دردی سے جھٹکے مارنے شروع کئے تو درد کی شدت سے چیخ پڑا اور روتے ہوئے کہا چھوڑو مجھے تب انکل نے کہا میری نظر تو کافی دنوں سے تجھ پر تھی، مجھے کیا پتہ تھا یہ بیرا خود ہی جھولی میں گر جائے گا یہ کہہ کر انکل بری طرح میری گانڈ مارنے لگا اور کچھ دیر بعد چھٹ گیا اس کے بعد انکل نے سو روپے میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا دیکھو دیمے میرے ساتھ رہو کھانا پینا سب کچھ فری پیسے بھی دونگا بدلے میں گانڈ ہی تو مارونگا میں جو درد سے بے حال تھا خود کو گھسیٹتے ہوئے واش روم میں لے گیا اور نہا کر بے حال ہو کر گر پڑا دل ہی دل میں اپنے باپ کو گالیاں دے کر سوچنے لگا پہلی شاید سید هر بھی جاتا لیکن اب جب تک اپنے باپ کی تمام بیٹیوں یعنی میری بہنوں کو باری باری نہیں جو دونگا چین نہیں آئے گا۔ میں صبح ہوتے ہی نکل پڑا انکل عزیز کے گھر سے کیونکہ انکل کے موئے سیاہ لن کی مار میرے چھوٹے سے گانڈ کی بس کی بات نہیں تھی میں شاہد سے ملا اور شاہد کو ساری بات بتائی تو وہ بولا سب تیرا باپ کا قصور ہے ، خود حرامی نے تیری ماں کی چوت پھاڑ کر رکھ دی بر سال بچه پیدا کر کر کے اور اب تیری گانڈ بھی پھڑ وادی خیر شاہد سے باتیں ہی کر رہا تھا کہ والدہ لینے آئی تو میں چپ چاپ چل پڑا اور ماں بہنوں کو یقین دلایا کے ماریہ خود کریٹ تھی مجھ سے سیٹ ہونے کی کوشش کی انکار کیا الزام لگا دیا ماں میرے باپ کو کوسنے دینے لگ گئی اس نے اپنے بچے کے بجائے غیروں کا اعتبار کیا دن گزرتے گئے اور میں اب وہ چھوٹا ندیم نہیں رہا تھا بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید حرامی پنا میرے دماغ میں گھس چکا تھا پڑھائی چھوڑ کر کسی ورکشاپ پر کام کرنے لگ گیا تھا، جو پیسے ملتے تھوڑے بہت ماں کو دے کر ہر ویک اینڈ رنڈی چودنے لگ گیا تھا اسی اثناء میں بڑی دو بہنوں کا رشتہ آیا اور جھٹ منگنی پٹ بیاہ کا معاملہ طے ہوا دسمبر کی یخ سرورات تھی دونوں بہنوں کی مہندی تھ مہندی سے فارغ ہو کر میں کمرے میں سونے چلا گیا۔ بڑی باجی مہندی کے کپڑے پہینچ کرنے غسل خانے میں چلی گئی جب کے دوسری بہن اور قریبی عزیز محلے میں بنے شامیانے کے نیچے خوش گپیوں میں مصروف تھے فل آواز میں ڈیک چل رہا تھا میں بھاگتا ہوا روشن دان بے چڑھ گیا تو دیکھا بہن اپنی شلوار اتار ربی تھی یہ دیکھ کر میر النڈ سخت ہو گیا، بہن جیسے نکلنے لگی تو میں کمرے میں چلا گیا اور آواز لگائی باجی باجی کمرے میں آئی تو میں نے کہا امی کہہ رہی ہیں اوپر سٹور سے دو کمبل لے آئیں باجی سر بلاتی ہوئی اوپر کی تو میں پیچھے دوڑ پڑا باجی جھک کر لوہے کی پیٹی سے کمبل نکالنے لگی میں نے کنڈی لگائی اور لیٹ گیا باجی سے. باجی گھبر اگر کہنے لگی کیا بد تمیزی بہن ہوں تمھاری ، جب میں نے گرفت مضبوط کی تو باجی نے تھپڑ ط جڑ دیا۔ اس پر میرا غصہ ساتویں آسمان پر چلا گیا اور کہا باجی پہلے تو سوچا تھا، کپڑوں کے اوپر سے مے دبا کر کام چلا لونگا پر اب نہیں سہاگ رات کل نہیں آج ہی مناؤ گی اور وہ بھی اپنے بھائی کے ساتھ. باجی ڈر کر پلٹنے لگی میں نے جکڑ لیا اور بے تحاشہ چومنے لگا کبھی گردن پر کبھی گالوں پر اب باجی کے ہونٹوں پر ہونٹ رکھنے لگا باجی تڑپ اٹھی یہ مت کردند یم بہن ہوں تمھاری پر میں نے باجی کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں سے ڈھانپ لیا اور ایک ہاتھ باجی کی شلوار میں ڈال کر بنا بالوں والی مخملی چوت کو سہلانے لگا باجی کی چوت ہلکی ہلکی گیلی ہوتے لگی تو باجی کی قمیض زبر دستی اتار کر دو گول اناروں پر منہ مارنے لگا۔ ایک کو سہلا تا دوسرے کو چوسنے لگا اب لنڈ چوت مانگ رہا تھا تو باجی کی شلوار نیچے کی۔ باجی نے باقاعدہ ہاتھ جوڑے یہ گناه مت کرو ندیم مرے شوہر کو شک ہو جائے گا اس پر میں نے کہا سہاگ رات کل شوہر کے ساتھ منالینا باجی آج اپنے بھائی کے ساتھ منالو گی کیا حرج ہے باجی رونے لگی پر میں نے ایک نہ تھی باجی کا گرم گرم جسم بہت مزه دے رہا تھا۔
۔۔۔۔
۔۔۔۔