Munna
Well-known member
Offline
شادی کے دو ماہ بعد میرے میاں تو فارن اپنی جاب پرچلے گئے ۔ اور میں ساس اور سُسرکے
ساتھ رہ گئی ۔ ہم ایک گراں، گاؤں یعنی پنڈ سے تعلق رکھتے ہیں جہاں ہر کوئی اک دوجے
کو جانتا ہے ۔ بڑے شہروں میں تو ہمسائے کو بھی کوئی نہیں جانتا مگر پنڈ میں ایسا نہیں ہوتا
میرے میکے اور سسرالی سارے رشتہ دار تھوڑے تھوڑے فاصلے پر رہتے ہیں کئی کی تو
دیواریں بھی ایک ہیں ۔ دائیں طرف میری پھوپھی کا گھر تھا بائیں طرف میرے دیور کا
اسی طرح دائیں طرف تین گھر چھوڑ کر ایک بند گلی تھی جس میں میری نند رہتی تھی
أس گلی میں صرف تین گھر تھے ایک میری نند کا ایک اس کے جٹیھ کا اور ان کے سامنے
میری نند کے ساس سسر رہتے تھے وہ گلی میری نند کی سسرال کی ہی سمجھ لیں ۔ تفصیل
اس لئے دی ہے کہ جو واقعہ میں آپ لوگوں سے شئیر کرنے جا رہی ہوں وہ میری نند کے
جیٹھ کے متعلق ہے جو رنڈوا تھا چالیس سال سے زیادہ کا تھا ۔سب أسے چاچو کہتے تھے ۔ بلا کا نظرباز تھا اور کافی بدنام تھا ۔ رنڈوا تھا بیوی کے مرنے کے بعد دوسری شادی اس نے نہیں کی تھی اور گھرمیں اکیلا رہتا تھا ۔ لوگوں میں اسکے بارے مشہور تھا کہ وہ عورتوں کی جنسی ضرورت پوری کرتا ہے اور ان سے کماتا ہے مگر یقین سے کوئی ایسا نہیں کہ سکتا تھا افواہیں سمجھی جاتی تھیں ۔ میں اکثر اپنی نند کے گھر جاتی تھی کیونکہ ایک تو وہ صرف چند سال بڑی تھی اور ہماری ایک دوجے سے خوب بنتی تھی دوسرا میری ساس ار سُسر بھی خوش رہتے کہ ان کی بیٹی سے اچھی بنارکھی ہے نند کے گھر سے پہلے اس کے جیٹھ کا گھر تھا اور وہ ہمیشہ دروازہ کھول کے اپنی ڈیوڑھی میں بیٹھا رہتا تھا۔ میں جب بھی نند کے ہاں جاتی اس کے گھر کے آگے سے گذرنا ہوتا اور وہ فورا أٹھ کر دروازے پر آجاتا تو حال احوال پوچھنے لگتا
کے حال نیں ، ول تے آہو ناں
میں ۔ جی چاچو تُسی دسو
وہ ۔ کوئی خط سط وی آوندا نیں کہ اوتھے دل لا گدا نیں
نہ بھی خط آیا ہوتا تو یہی کہتی کہ ایہ کل پرسوں آیا تے چاچو تساں کی سلام لکھیا نیں
وہ۔ ہلا ، تُو جواب دتا تے مینڈا وی لکھیناس ‘ جی چاچو کہہ کے آگے نند کے دروازے کی
طرف بڑھتی ۔ مجھے جن نظروں سے وہ دیکھتا اس میں ہوس صاف ظاھر ہوتی ۔ مرد کی نظر عورت پہچان جاتی ہے کہ وہ کس نظر سے دیکھ رہا ہے ۔ میں آگے نند کے گھر کی جانب بڑھتی تو اس کی میلی نظروں کی حدت کولہوں اور کمر پر محسوس کرتی ۔ وہ تب تک دروازے سے جھانکتا رہتا جب تک میں نند کے گھر میں داخل نہ ہوجاتی ۔ خیر ۔ میں اس کو روزمرہ کی روٹین سمجھ کر نظر انداز کر دیتی ۔