What's new

Welcome!

Welcome to the World of Dreams! Urdu Story World, the No.1 Urdu Erotic Story Forum, warmly welcomes you! Here, tales of love, romance, and passion await you.

Register Now!
  • Notice

    فورم رجسٹریشن فری کردی گئی ہے----پریمیم ممبرشپ فیس 95 ڈالرز سالانہ----وی آئی پی پلس 7000 روپے سالانہ----وی آئی پی 2350 روپے تین ماہ اور 1000 روپے ایک ماہ

    Whatsapp: +1 631 606 6064---------Email: [email protected]

Love Story آنگن کا دیپ

Love Story آنگن کا دیپ
صنم ساقی Çevrimdışı
Dec 24, 2022
405
11,282
93
Lahore
میرے آنگن کا دیپ۔
اپنی یادین اپنی روح اور جان کے نام۔
میرے آنگن کا دیپ (افسانہ)۔
از ۔صنم ساقی۔
قسمت بدلنے کاکوئی وقت مقرر نہیں ہے۔۔ پر جب بدلتی ہے تو انسان کو بھنک تک نہیں لگنے دیتی۔ میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔۔۔ اس رات ای میلز کرتے جانے کب میری آںکھ لگی اور میں ٹیبل پہ بایاں گال ٹکائے سوگیا۔۔۔ فون کی بیل پہ میری آنکھ کھلی۔۔۔ انجان نمبر دیکھ کے میں پریشان ہوا کہ اس وقت کون فون کررہا ہے۔ فون اٹھانے کو دل نہیں کررہا تھا۔۔ لیکن یہ سوچ کے اٹھا لیا جو بھی ہے ضرور کوئی جاننے والا ہی ہوگا۔۔ کہیں کسی مصیبت میں نہ ہو۔۔۔۔ میں نے کال اٹنڈ کی۔۔۔
ارےے"ساقی! کیا تم سو رہے ہو۔۔۔۔"
کوئل سی کھنکتی اس آواز کو میں لمحون مین ھی پہچان گیا تھا۔۔۔۔
"غزل۔۔۔۔! تم ۔۔۔۔اور وہ بھی اس وقت۔۔۔۔ خیریت۔۔۔۔ " تو ھے نا اس طرح۔۔۔۔
"ہاں ۔۔۔۔ صنم !بلکل خیریت ہے یار۔۔۔بس مجھے یہ بتاؤ کہ سو رہے ہو یا جاگ رہے ہو۔۔۔۔"
اسکی آواز میں نہجانے کیون مجھے قدرے کچھ تو اداسی محسوس ہوئی تھی
ارے"پگلی!جاگ رہا ہوں تو فون اٹھایا نا۔۔۔۔"
"ساقی۔۔! صبح کے چار بج رہے ہیں۔۔۔۔ تم ابھی تک کیوں جاگ رہے ہو۔۔۔۔۔ ؟"
اسکے ایسے سوال اور یکدم سے اتنی زیادہ بے تکلفی برتنے پر میں حیران تھا
وہ" کچھ ضرروی ای میلز کرنی تھیں اس لیے ابھی تک جاگ رہا ہوں۔۔ ویسے بھی صبح سنڈے ہے۔۔۔۔ دن میں نیند پوری کرلوں گا۔۔۔۔"
صنم"کہیں۔۔۔ تمہاری کوئی گرل فرینڈ تو نہیں ہے۔۔۔۔ جس سے تم باتین کررہے تھے۔۔۔۔ "اور ٹائم گذرنے کا احساس نہین ہوا۔
غزل کے اس عجیب سے شکی انداز پر میری ہنسی چھوٹنے لگئی۔۔۔اور ساتھ مین دل ہی دل مین سوچنےلگاکہ ہمارےدرمیان میں تو ایئسا کچھ ہے ہی نہین تو غزل ایئسے سوال کیون کر رہی ہے۔
"بتاؤ نا۔۔ مجھے صنم۔۔۔۔! تمہاری کوئی گرل فرینڈ ہے کیا؟"دیکھو ساقی مجھے سب سچ سچ بتانا تم۔؟؟؟
"نہیں۔۔غزل یار۔۔۔۔ میرے جیسے نارملی شکل و صورت کے عام سے لڑکوں کو آجکل کی تیز فیشن زدہ ماڈرن لڑکیاں کہاں لفٹ کراتی ہیں۔۔۔۔ یہاں تو شادی کے لیے ہمین لڑکی نہیں ملتی۔۔۔ گرل فرینڈ تو دور کی بات ہے۔۔۔۔۔ "غزل کوبتاتے صنم لگا تار ہنس رہا تھا۔۔۔۔
غزل: صنم تم"مجھ سے شادی کرو گے۔۔۔۔۔۔ ؟"
صنم"ارے غزل اب تم بھی کیا میرا مذاق اڑاو گی۔۔۔۔۔"میری بے اختیار ہنسی اچانک سے قہقہے میں بدلی۔۔۔۔
غزل:"نہی ساقی میںتم سے سچ کہہ رہی ہو۔۔۔مجھ سے شادی کرلو تم۔۔۔۔ "
پھر ہنستے ہنستے میری انتڑیاں دکھنے لگیں۔اب"بس بھی کرو نا۔۔غزل۔۔!تم اور کتنا ہنساؤ گی یار۔۔۔۔میرے گھر والے اٹھ جائیں گے۔۔"میں نے بہت زیادہ ہنسنے کے باعث اچانک سے ساتھ أتی کھانسی مین کھانستے ہوئے جواب دیا۔۔۔۔
"صنم۔۔۔یار۔۔۔۔میری بات کا یقین کرو۔۔۔۔۔میں مذاق نہیں کررہی ہوں "تمہین سچ مچ کہ ر ہی ہون۔
غزل کی آواز میں اب گہری سنجیدگی تھی۔۔۔۔ میں نے خود پر بمشکل کنٹرول کیا۔۔۔ ارےے
"کیا ہوگیا۔۔تمہین غزل۔۔۔؟ سب ٹھیک ہے نا۔۔۔۔ ؟ "۔
غزل:"ساقی یار مین تمہین سب کچھ بتاؤں گی۔۔مگر پہلے تم یہ بتاؤ کہ کیا مجھ سے شادی کرو گے تم۔۔۔۔ ؟"
یونیورسٹی کے شروع کے دنوں میں جب پہلی بار میں نے غزل کو دیکھا تھا تو ایک عجیب سا احساس دل میں اترا۔۔ گلاب کی پنکھڑی جیسی نازک سی لڑکی پہلی نظر میں ہی دل میں گھر کرگئی۔اپنی شکلو صورت اور حیثیت کچھ ایسی تھی کہ اس سے بات کرنا تو دور اسے جی بھر کے دیکھنا بھی محال تھا ،جب ہلکی سی بات چیت شروع ہوئی تو پتا چلا کہ غزل کا ایک کزن عاصم بھی اس کے ساتھ ساتھ ہی کالج مین داخل ہوا ہے۔اور وہ غزل کے معاملے مین نہایت کنزٹو سوچ اور معمولی سے باتون پر بھی ہاتھ چٹھ اورجگڑے کے لئے تیار رہتا ہے۔۔اور اس بات سے پھر سبھی ہی دوست واقف ہو گئے تھے۔۔میں نے بھی چپ چپ اپنے اُٹھے جذبات کا وہین پر گلہ گھونٹا مناسب سمجھا۔
غزل جیسی بیمثال حسین لڑکی کے ساتھ خود کا سوچنا بھی جرم لگنے لگبا تھا۔
عاصم اور غزل دونوں کااس شہر لاہور کے چند امیر ترین ریئس گھرانوں سے تعلق تھا۔میرے جیسے گندمی سانولی رنگت کے عام نوجوان جو متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہوں وہ غزل جیسی لڑکیوں کے خواب نہیں دیکھ سکتے۔بس کن انکھیوں سے دیدار کرکے ہی دل کی پیاس بجھا لیتے ہیں۔ عاصم ہمارے فرینڈز کےگروپ میں شامل ہوا تو غزل سے بھی پھر کبھی ہیلو ہائے ہونے لگی۔۔یہ شوخ وچنچل الڑمٹیار سی لڑکی بنا سوچے کچھ بھی بول دیتی۔۔۔اور ہم لڑکے اپنی مردانہ سوچ کے مطابق اسکی معصوم سی باتوں کا الگ ہی مطلب نکال کے پھر سارا دن ہنستے رہتے۔۔۔
یونیورسٹی کے بعد سبھی اپنی اپنی زندگیوں میں مگن ہوگئے۔ جن کو موقع ملا وہ باہر چلے گئے اور کچھ میری طرح یہیں نوکریاں ڈھونڈنے لگے۔۔۔ پڑھائی سے فارغ ہوتے ہی ابا جی نے دونوں بہنوں کی شادی کی ذمہ داری میرے کندھوں پہ ڈال دی تھی۔۔نوکری ملی تو کولہو کے بیل کی طرح مین اپنے کام پہ لگ گیا۔۔۔ گزرتے دنوں کے ساتھ یونیورسٹی کے سبھی دوستوں سے رابطہ ٹوٹنے لگا۔۔۔
لیکن عاصم کےساتھ بات چیت جاری رہی اور اکثر اوقات ملاقات بھی ہوجاتی۔وجہ کوئی اتنی خاص بھی نہین تھی بس مجھ جیسے عام سے شکل و صورت والے لڑکے کی شعر و شاعری اور غزلین عاصم کو بہت اچھی لگا کرتین تھین ۔ اسکی وجہ سے غزل سے بھی رابطہ قائم تھا۔۔
غزل سے میری جب بھی کبھی بات ہوئی صرف دوستی کے حوالےسےہی ہوئی۔ہان اگرکبھی ان دونوں کی لڑائی ہوجاتی تو صلح میں کرایا کرتا تھا۔۔ مہینے میں ایک آدھ بارڈنر یا لنچ بھی ساتھ میں ہوجاتا۔غزل کی امی ایک عرصے سے غریب اور نادار بچوں کے لیے ایک"این جی او" چلا رہی تھیں۔۔ پڑھائی سے فارغ ہوکر غزل بھی انکے ساتھ ہی جت گئی لیکن عاصم نے نہ تو کوئی نوکری کی اور نہ ہی باپ کے بزنس میں شمولیت اختیار کی۔جب بھی اس بارے میں اس سے بات ہوتی تو وہی یہی کہتا کہ یار میں یہاں نہیں رہنا چاہتا۔۔
میں "یو ایس" مین جانا چاہتا ہوں۔غزل اور عاصم کی لڑائیاں اکثر اسی مدعے پہ ظہور پزیر ہوتی تھیں۔
کیونکہ مین شروع سے ہی یہ سمجھتا تھا کہ وہ دونون ایک دوسرے مین انٹرسٹ ہین۔مگر ان دونون نے آپسی کسی رلیشن کے ٹاپک پر کبھی کوئی نہین کی تھی۔
میں جب بھی کبھی ان سے شادی کا پوچھتا تو وہ ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھ کر قہقہ لگا کر ہنسنے لگتے۔اور پھر ہمیشہ عاصم ہی بول اٹھٹا تھا "ارےے مجھے کوئی جلدی نہین ہے ؟۔۔میں پہلے کچھ بن جاؤں۔۔۔کچھ کرلوں پھر ہی شادی کرون گا"۔
عاصم کے جواب پہ غزل کے چہرے پہ پھیلی اداسی بہت سے سوال کھڑے کردیتی۔ میں نے کبھی کریدنے کی کوشش نہیں کی۔ کچھ مہینوں بعد عاصم "یو ایس" چلا گیا۔ اور غزل سے میرا رابطہ مکمل طور پر ختم ہوگیا ۔۔۔ کیوں کہ اس کے ساتھ جو بھی تعلق تھا وہ عاصم کی وجہ سے تھا۔پھر اس نےبھی توکبھی مجھ سے رابطہ نہیں کیا۔۔۔۔
پھرچند ماہ مزید گزرے۔۔۔ میں اپنی دونون ہی بڑی بہنوں کے فرائض سے سبکدوش ہو گیا۔۔ مین نے بہت دھوم دھام سے ان کی شادییان کراوئین۔۔اور ماں باپ کی ڈھیروں دعائیں حاصل کر لیں۔۔۔۔۔ لیکن اب امّی چاہتی تھیں کہ وہ جھٹ پٹ میری شادی کرادیں۔۔۔ لیکن میں خود کو دماغی طور پہ شادی کے لیے تیار نہیں کرپایا تھا۔۔۔ لیکن وہ بھی باز نہ آتیں۔۔۔ خالہ، چچی، تائی، پھھپو کی بیٹیوں کی ایک لمبی لائن میرے سامنے تھی۔۔۔ اگر مجھے ان میں سے کوئی پسند نہیں تھی تو دور کے رشتہ دار عزیز و اقارب کی نئی لسٹ تیار ہونے لگتی۔۔پھر وہاں سے بھی منع کرتا تو اس کے محلے پڑوسیوں کی باری آجاتی۔۔۔ رشیدہ آنٹی کی ایم انگلش بیٹی میمونہ نشانے پہ ہوتی۔۔ اس سے نظر چراتا تو حاجی صاحب کی فاخرہ اور نادیہ مسکراتی ہوئی ملتیں، ان سے جان نہیں چھوٹی ہوتی تو میری بہنوں کے سسرالیوں میں لڑکیاں کھوجی جاتیں۔۔۔۔ امّی میرے ہاتھ میں آدھے شہر کی لڑکیوں کی "سی وی" تھماتیں۔۔ اور میں مسکرا کے انہیں گلے لگا لیتا تھا۔۔۔۔ "بیٹا۔۔! میں اپنی آںکھوں سے تمہاری خوشی دیکھنا چاہتی ہوں۔۔۔۔کیوں نہیں مانتا تو۔۔۔۔؟ " وہ آبدیدہ ہوجاتیں۔۔۔۔
"امّی۔۔! تھوڑا وقت دیں نا مجھے۔۔۔ میں نے کب انکار کیا ہے شادی سے۔۔۔۔ "
امی :صنم بیٹا"اگر تجھے کوئی پسند ہے تو بتا۔۔۔۔"نا مجھے مین اپنے بیٹے کیلیے اسے لے أؤن اپنے اس سونے أنگن مین۔
"اف ہو۔۔۔امی ! کتنی بار بتاؤں۔۔ اگر کوئی پسند آئی تو سب سے پہلے آپکو بتاؤں گا۔۔۔ بلکہ آپ سب کو اسکے گھر لے کر جاؤں گا۔۔۔۔ "اورمیں ساتھ ان کے ہاتھ چومنے لگتا۔۔۔۔ ہان یہ ضرور ہے کہ اس دوران غزل ضرور میرے ذہن کے دریچون سے نکل کر جھلملانے لگتی۔
پھر امی توچپ ہو جاتیں۔۔۔ اور میں اس سوچ میں پڑ جاتا کہ بھلا مجھے کیون وہ پسند کرے گی۔۔۔۔
**
"صنم۔۔۔ یار! تم ایئسے چپ کیوں ہوگئے ہو۔۔۔۔ َ؟ میں تمہیں پسند نہیں ہوں۔۔۔ ؟" کیا مین تمہین اچھی نہین لگتی ہون کیا۔؟؟؟
غزل کی دلکش سریلی آواز پھر سے میرے کان میں گونجی۔
"غزل۔۔یار ! ہوا کیا ہے۔۔۔کیا گھر مین تمہاری لڑائی ہوئی ہے کیا بتاو نا مجھے۔۔۔۔ ؟"
"میرے گھر والون کو چھوڑو تم۔۔۔ بس مجھے ہاں یا نہ میں جواب دو۔۔۔ تم مجھ سے شادی کرو گے یا نہیں۔۔۔۔ ؟"
میں یقین اور بے یقینی کے بیچ میں اٹک سا گیا تھا۔۔۔۔
غزل"تم جانتی ہو۔۔ یہ ناممکن ہے۔۔ تمہارے ماں باپ میرے لیے کیوں مانیں گے۔۔۔؟"اور ویئسے بھی وہ تمہارے کزن عاصم مین انٹریسٹ تھے تمہارے حوالے سے۔(اب مین ڈائریکٹ غزل سے کیئسے کہتا کہ تم خود پہلے عاصم مین ہی انوال تھی)
غزل:"شادی میں نے کرنی ہے انھوں نے نہیں ۔۔ تم بس اپنی مرضی بتاؤ۔۔۔"
صنم:"لیکن۔۔۔غزل تم نے میرا ہی انتخاب کیوں کیا۔۔۔۔ ؟ اور جب تک تم عاصم کے بارے میں مجھے کچھ نہیں بتاؤ گی میں ایسے کیسے فیصلہ کرلوں"میں نے بہت سنجیدگی سے اس سے سوال کیا۔
غزل::"عاصم۔۔! سے ہمارے گھر کا ہر تعلق ختم ہوچکا ہے"غزل نےافسردگی سے اس نے جواب دیا۔"وہ "یو ایس" جا کے بدل گیا۔۔۔ اسے کوئی اور وہان پر پسند آگئی۔۔۔۔۔صنم۔۔۔! اس نے ہم سب کو دھوکہ دیا۔۔۔۔ "غزل
کی آواز میں بہت ہی لرزش تھی۔۔۔
میرے دل میں ایک درد سا اٹھا تھا۔۔۔ پل بھر میں اپنی اوقات سمجھ آگئی۔۔۔ وہ مجھے مرہم کے طور پہ استعمال کرنا چاہتی تھی۔ "کیوں۔۔ غزل۔۔! آخر اس طرح سے کیوں۔۔۔۔ ؟ میری بس اتنی سی اوقات ہے تمہارے سامنے۔۔۔۔ ؟" میں چیخ چیخ کے کہنا چاہتا تھا۔۔۔ لیکن زبان پہ تالے لگ گئے۔۔۔۔ بھلا کیسے میں سوچ لوں کہ اس کے دل میں میرے لیے محبت جاگی ہے۔ میں تو شائد مرہم بننے کے قابل بھی نہیں ہوں۔
غزل پھر سے"بتاؤ نا۔۔۔صنم! تم مجھ سے شادی کرو گے یا نہیں۔۔۔پلیزز۔۔!"ساقی مان جاؤ نا۔
صنم :غزل"تم اپنے طبقے میں کسی خوبصورت شکل لڑکے کا انتخاب کرو۔۔۔میں تمہارے قابل نہیں ہوں۔۔۔۔ "مین سچ کہ رہا ہون۔میں نے اپنے دل پہ پتھر رکھ لیا
غزل"نہیں۔۔۔۔ساقی میں تم سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔۔۔۔ مجھے کوئی اور نہیں چاہیے۔۔۔ "
شائد وہ مجھ سے شادی کرکے خود کو ایک سزا دینا چاہتی تھی۔۔(عاصم کے دھوکے نے اسے توڑ دیا تھا)۔۔ اور وہ مجھے توڑ رہی تھی۔میں نےاندر سے اُٹھتی ہوئی سسکی اپنے اندر ھی دفن کردی۔۔۔۔
غزل"کیوں کہ ساقی تم لاکھوں لڑکوں سے اچھے ہو۔۔ سمجھدار ہو۔۔اور مجھے یقین ہے تم میرا دل نہیں توڑو گے۔۔۔"
"اور میرے دل کا کیا۔۔۔ ؟ جسے تم کرچیاں کرچیاں کررہی ہو۔۔۔۔ " میں کہتے کہتے رکا۔۔پھر کچھ دیر دونوں طرف ہی خاموشی چھائی رہی۔۔۔۔
صنم ::غزل "تم ابھی جذباتی ہورہی ہو۔۔۔ تھوڑا تو وقت دو خود کو۔۔اور پھر دانشمندی سے کوئی فیصلہ کرنا۔۔۔۔ "
غزل:"میرے پاس وقت نہیں ہے۔۔صنم جو کرنا ہے ابھی کرنا ہے۔۔اور میں جذباتی بھی نہیں ہورہی ہوں۔۔۔مین نے یہ سب بہت سوچ سمجھ کے فیصلہ کیا ہے۔۔۔"
میں فورا سمجھ گیاتھا کہ میں عاصم کا دوست ہوں، وہ مجھ سے شادی کرکے اسے تکلیف دینا چاہتی تھی۔جس سے میں اپنی ہی نظروں میں گرتا چلا جا رہا تھا۔۔۔۔غزل"وقت کیوں نہیں ہے تمہارے پاس۔۔۔ "
"میں عاصم سے پہلے شادی کرنا چاہتی ہوں۔۔۔۔ اسکی شادی کی تاریخ طے ہوچکی ہے۔۔"
کتنی صاف گو تھی وہ۔۔۔۔ سب سچ سچ بتا رہی تھی۔۔۔ میں نے پل بھر کے لیے سوچا یہ چاہتی تو جھوٹ بول سکتی تھی۔۔ میرا دل رکھنے کے لیے کچھ بھی کہہ دیتی۔۔مگر اس نے جھوٹ کا سہارا نہیں لیا۔۔۔۔ میرا دماغ بار بار کہہ رہا تھا کہ میں اسے جھٹک دوں۔۔۔ انکار کردوں۔۔ اور کہہ دوں کہ میں خود کو مار کر تمہارا مرہم نہیں بن سکتا۔۔۔۔۔ پر دل تھا جو خود کشی کرنے کو مچل رہا تھا۔۔۔۔
صنم:"تمہاری فیملی کیئسےمانے گی۔۔۔۔ ؟"اور یہ سب"تم کیسے خود کہہ سکتی ہو۔۔۔۔ ؟"
غزل"میرے گھر والے مجھے بس خوش دیکھنا چاہتے ہیں۔۔۔ "
صنم:غزل کیا"تم میرے ساتھ خوش رہو گی۔۔۔۔؟"
غزل:"ہاں۔۔۔۔ مجھے یقین ہے میں تمہارے ساتھ ہمیشہ خوش رہوں گی۔۔۔۔"
صنم غزل"کیسے۔۔۔۔ ؟کیسے کہہ سکتی ہو تم۔۔میرے اور تمہارے گھر کے ماحول میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔۔۔۔ میرے پاس تمہارے لائق نہ شکل وصورت ہے نہ سٹیٹس۔۔۔۔ "
اب کھل کے بات کرنا ضروری ہوگیا تھا
غزل:"صنم ساقی۔۔۔! خوش شکل اور سٹیٹس والے لوگ خوشیوں کی ضمانت نہیں ہوتے۔۔۔یہ سب ایک دکھاوا ہے۔۔۔ جس کی حقیقت بہت بھیانک ہے۔۔۔"
صنم:"توغزل تم اپنی زندگی کے ساتھ ایک اور تجربہ کرنا چاہ رہ ہو۔۔۔۔؟"
غزل:"نہیں۔صنم میں تجربوں سے نکل کے حقیقت میں داخل ہونا چاہتی ہوں۔۔۔۔ "مین "نہیں جانتی کہ تم کیوں؟؟۔۔۔۔ مگر تم ہی اب میری ڑمزندگی مین بس ہو۔۔۔۔ "۔"کیا تم تیار ہو۔۔۔اس کے لئے۔صنم ۔۔!"
بتاؤ نا مجھے
میں نہیں جانتا تھا کہ میری ہاں مجھے کسی وادی میں لے جائے گی یا پھر اندھے کنوئیں میں دھکیل دے گی۔۔ پھر بھی اس دل نشیں تجربے سے گزرنا ضروری تھا۔۔۔
صنم"ٹھیک ہے غزل۔۔۔ اگر تو تمہاری یہی منشا ہے تو میں راضی ہوں۔۔۔۔۔ "
غزل:"لیکن میری کچھ شرطیں ہیں۔۔۔۔""تم آج ہی اپنے گھر والوں کو میرے رشتے کے لیے بھیجو۔۔۔ میں اگلے دو ہفتوں کے اندر اندر تم سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔۔۔۔ "
صنم"اتنی جلدی۔۔۔۔۔ ؟ اتنی جلدی کیسے۔۔۔۔ مجھے تھوڑا تو وقت دو۔۔۔۔۔ "
غزل:"تم سمجھ کیوں نہیں رہے ہو صنم۔۔میرے پاس وقت بہت کم ہے۔۔۔۔"مین سب کچھ"جانتی ہوں۔۔۔ بس تمہارا ساتھ چاہیے مجھے اس بے وقوفی میں۔۔۔۔ "
میں کش مکش میں تھا کہ کیا کروں۔۔۔۔ اس پہ یہ پاگل پن سوار کیوں ہے۔۔۔ گر کچھ دن بعد بھوت اتر گیا تو۔۔۔؟ لیکن اس بار بھی میں دل سے ہار گیا۔۔۔ "صنم ساقی۔۔! جو ہوگا دیکھا جائے گا۔۔۔۔"
"ٹھیک ہے۔۔۔ میں کل ہی اپنے گھر والوں کو بھجواتا ہوں۔۔۔۔ "
"میری ایک اور شرط بھی ہے۔۔۔۔ "
"مجھے شادی کے پہلے سال ہی بچہ چاہیے۔۔۔۔ "
اسکی بے تکی شرط پہ میں ششدر تھا۔
"غزل۔۔! یہ کیسی شرط ہے۔۔۔ ؟"
"ایسے کیسے ہاں کر دوں۔۔۔۔۔ ؟ یہ انسان کے ہاتھ میں تھوڑی ہوتا ہے۔۔۔۔ "
"جانتی ہوں۔۔۔ پر اگر تم ہاں کردو گے تو میری یہ خواہش پوری ہوجائے گی۔۔۔۔۔ "
ایک پل کے لیےمجھے یہی لگا کہ شائد وہ اپنے حواس میں نہیں ہے۔ اس لیے عجیب و غریب باتیں کررہی ہے۔
"یہ مت سمجھنا کہ میں عاصم کے دھوکے سے حواس کھو بیٹھی ہوں۔۔۔۔ "
اس نے میرے دماغ میں الجھے سوالوں کو پڑھ لیا تھا۔۔۔
"تو پھر یہ سب کیا ہے۔۔۔۔۔ ؟"
"وقت پہ چھوڑ دو۔۔۔۔۔ اور اپنے دل سے ہر وہم نکال دو۔۔۔۔۔ "
کیسے ہر وہم دل سے نکال دوں۔۔۔ ایک طرف قسمت بے یقین کھڑی تھی اور دوسری طرف دماغ خدشات کے جالے بن رہا تھا۔۔۔۔
"صنم! بیٹا۔۔۔! صبح ہوگئی۔۔۔ اٹھ جا ۔۔۔ کب تک سوتا رہے گا۔۔۔۔ "
امّی کی آواز میرے کان میں پڑی۔۔۔ میں کرسی سی اٹھ کر بستر پہ جا لیٹا۔۔۔۔۔
"صنم۔۔۔! یاد سے بھیج دینا اپنے گھر والوں کو۔۔۔ میں انتظار کروں گی۔۔۔۔۔ "
غزل کی آخری سرگوشی سنائی دی۔۔۔۔ ایک خمار سا تھا۔۔۔ میری آنکھیں بند ہونے لگیں۔۔۔
شائد میں کسی خواب میں ہوں۔۔۔ نیم مدہوشی میں مَیں بڑ بڑایا۔
۔جاری ہے۔
 
Back
Top