صنم ساقی
VIP+
Offline
- Thread Author
- #1
۔اوف یہ محبت ۔
ایک جان ہیں ہم۔تحریر از:ساقی
میری محبت ۔
ایک جان ہیں ہم۔تحریر:ساقی۔
coopied.
میں نے گاڑی پورچ میں کھڑی کی آور باہر نکل کر لاک کر کے اپنی ٹائی کی ناٹ ٹھیک کی۔۔۔۔۔ ہاتھ میں موجود بوکےکو ٹھیک سے پکڑا اور قدم آگے کی طرف بڑھا دیے----- داخلی دروازے پر پہنچتے ہی دروازہ کھل گیا۔۔۔۔۔۔۔ جیسے کوئی پہلے سے انتظار کر رہا ہو اور ایک بجلی سی میرے سامنے کوند گئی وہ میرے سامنے کھڑی قیامت ڈھا رہی تھی----- رائل بلیو کلر کی مون لائٹ جرسی کی فل میکسی----- جو اس کے بریسٹ کی اونچائی سے شروع ہوئی تھی اور نیچے پیروں تک تھی مگر بیچ میں گھٹنوں کے اوپر سے ایک کٹ تھا جو نیچے تک چلا گیا تھا اور وہ اس طرح گھڑی تھی کہ اس کٹ سے اس کی سڈول اور گوری رانیں صاف نظر آرہی تھیں----- گلے میں ایک خوبصورت سا نیکلس تھا اور لمبے بالوں کا ایک اونچا سا جوڑا بنا ہوا تھا۔۔۔۔ جس نے اس کی صراحی دار گردن کو اور اس پر موجود تل کو اور نمایاں کر دیا تھا۔۔۔۔۔۔اس کے جوڑےمیں بھی چمکتا ہوا ایک بینڈ لگا تھا------ ہلکے پنک میک اپ نے اس میں مزید چار چاند لگا دیے تھے اور مجھے میرے قدموں پر فریز کر دیا تھا۔۔۔۔۔ میں سوچ بھی سکتا تھا کہ وہ اتنی خوب صورت ہو گی۔ وہ لڑکی: کیا ہوا---- جم کیوں گئے ہو----آجاو آو ناں۔۔۔۔ میں رباب ہی ہوں ۔۔۔۔۔ آؤ اندر آؤ ---- وہ ہٹ کر مجھے جگہ دیتے ہوئے بولی میں سر جھٹک کر اندر داخل ہو گیا اور وہ دروازہ بند کرنے لگی---- تب میں نے دیکھا کہ پیچھے سے وہ میکسی بیک لیس تھی( یعنی پیچھے سے وہ اس کی ہپس سے شروع ہو رہی تھی اور کمر پوری ننگی تھی) اور اس کی گوری سیکسی کمر مجھ کو دعوت نظارہ دے رہی تھی----- مجھے اپنے نیچے ہلچل سی محسوس ہوئ اور میں نے مشکل سے اپنا دھیان دوسری طرف کیا------ وہ مجھے لے کر لاوئنج میں آگئ اور بیٹھنے کا اشارہ کیا۔۔۔۔۔ گلاب کے پھولوں کا بڑا سا بوکے اس کو پکڑاتے ہوئے اور بیٹھتے ہوئے میں نےپوچھا---مانا کہ ہم آج پہلی دفعہ مل رہے ہیں مگر تم نے اتنی رات کو کیوں بلایا ہے اور وہ بھی اس طرح تیار شیار کر وا کے۔ رباب: بتا دوں گی اتنی جلدی کیا ہے--- ابھی آئے ہو بیٹھو تو سہی----بس ایک منٹ دو۔۔۔۔ میں ابھی آئی اور وہ باہر نکل گئی میں کمرے کا جائزہ لینے لگا۔۔۔۔۔ سادہ سا بید کا صوفہ سیٹ پڑا تھا۔۔۔۔ اور باقی کمرہ خالی تھا۔۔۔ دیوار پر صرف ایک وال کلاک تھی۔۔۔۔ باقی دیواریں خالی تھیں۔۔۔۔۔ ابھی میں کچھ اندازہ لگانے کی کوشش کر رہا تھا کہ رباب ہاتھ میں ٹرے لیے کر اندر داخل ہوئی اور مجھے سوفٹ ڈرنک پیش کیا۔۔۔۔ خود بھی اپنا گلاس لیے کر سامنے والے صوفے پر بیٹھ گئی۔۔۔۔ ڈرنک کی چسکیاں لیتے ہوئے ہم ادھر اُدھر کی باتیں کرتے رہے۔۔۔۔ میں نے خالی گلاس سامنے موجود چھوٹی میز پر رکھتے ہوئے کہا اب تو سسپنس ختم کرو اور بتاؤ کہ اتنی رات کو کیوں بلایا ہے۔۔۔۔۔ بتاتی ہوں ۔۔۔ بتاتی ہوں اور یہ کہتے ہوئے وہ میرے قریب آگئی اور مجھ سے جڑ کر بیٹھتے ہوئے اس نے دونوں ہاتھوں سے میرا چہرہ تھاما۔۔۔۔۔ تھوڑی دیر مجھے دیکھتی رہی اور پھر اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں سے ملا دیئے میں حیرت سے دنگ رہ گیا مگر پھر فورا سنبھل کر خود کو تیار کیا اور خود بھی اس کو کس کرنے لگا----- اففففف------ یہ ہم دونوں کا پہلا کس تھا----- پچھلے آٹھ مہینوں کی آنکھ مچولی کے بعد آج فائنلی یہ موقعہ آ ہی گیا تھا دونوں کے ہونٹ ایک دوسرے میں گھلے ہوئے تھے ہم کبھی ایک دوسرے کے ہونٹوں کو چوسنے لگتے اور کبھی زبان اندر ڈال کر مزہ لیتے----- رباب کے ہاتھ میرے سر کے بالوں کو سہلا رہے تھے اور میرے ہاتھ اس کی ننگی کمر کو سہلا رہے تھے---- یہ کس لمبا ہوتا جا رہا تھا اور گرمی بڑھتی جا رہی تھی----- سانس لینا مشکل ہو رہا تھا اور پھر ہم نے یہ کس توڑ دیا----- صوفے سے ٹیک لگائے ہم دونوں گہری گہری سانسیں لینے لگے---- ابھی ہم سانس درست کر رہے تھے کہ کلاک نے بارہ کا گھنٹا بجایا رباب نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھےاٹھاتے ہوے اندر ڈائننگ روم میں لے آئی---- اندر داخل ہوتے ہوئے میں حیران رہ گیا---- ٹیبل پر ایک کیک اور دوسرے کھانے کے ریفرشمنٹ سجے ہوئے تھے ---- میں ایک معمول کی طرح کھینچتا ہوا ٹیبل کے پاس آگیا---- رباب نے موم بتیاں جلائی اور چھری میرے ہاتھ میں پکڑاتے ہوئے کہا عاشر میری جان---- جنم دن مبارک ہو اور تب مجھے یاد آیا کہ آج میرا جنم دن ہے---- آج سے پہلے کبھی بھی یاد نہیں آیا تھا کہ میرا ایک جنم دن بھی ہوتا ہے مگر یاد بھی کیسے آتا کوئی ہوتا تو یاد دلاتا۔۔۔۔۔اور اس دن کو مناتا---- اور میرے لیے اہتمام کرتا---- مگر میرا تھا ہی کون۔ رباب: کیا سوچ رہے ہو جان---- کاٹو نا میں نےاس کی طرف دیکھا---- میری آنکھیں جھلملا گئی اور وہ تڑپ گئی نہیں نہیں آج نہیں----- عاشو میری جان آج نہیں( اس نے ایک دم میری آنکھوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے اور ان سارے آنسوؤں کو پی گئی جو میری آنکھوں سے بہنے کے لیے تیار تھے) جانو آج کا دن تمہاری زندگی کا سب سے حسین دن ہوگا----- قسم سے---- تم کیک کاٹؤ اور اپنے آج کے خوشیوں بھرے دن کا آغاز کرو میں نے سر ہلاتے ہوئے کیک پر چھری چلا دی----- ہپی برتھ ڈے مائی ڈارلنگ کہتے ہوئے رباب نے مجھے کیک کھلایا اور میں نے اس کو-----پھر پلیٹ میں کھانے پینے کی دوسری چیزیں رکھ کر ہم دوبارہ صوفے پر آ کر بیٹھ گئے اور ایک دوسرے کو اپنے ہاتھوں سے کھلانے لگے میں یعنی عاشر احمد ایک خفیہ ایجنسی میں انسپکٹر ہوں اور اس دنیا میں تنہا ہوں ---- میں نے ہوش ایک یتیم خانے میں سنبھالا تھا----- بارہ تیرہ سال کی عمر تک میں وہی رہا---- پڑھنے کا شوق تھا اس لیے دوسرے تمام ہنگاموں سے الگ تھلک اپنے آپ کو پڑھنے میں مصروف رکھا----- اچھے نمبروں سے میٹرک کرنے کے بعد میں نے کالج میں داخلہ لے لیا---- اپنے خرچے پورے کرنے کے لیے میں نے بہت ساری جگہوں پر کام کیا---- ویٹری کی۔ وزن اٹھایا۔ اور اخبار تک ڈالا---- قسمت نے ساتھ دیا اور میٹرک کرتے ہی ایک آفس میں چپراسی کی نوکری مل گئی----- نوکری کے ساتھ ساتھ پڑھائی بھی جاری رکھی اور ایک طویل سفر طے کرنے کے بعد آج میں ایک بہتر مقام پر ہوں ----- اس تمام عرصے میں میرا دھیان کبھی بھی کسی خرافات کی طرف نہیں گیا---- لڑکیوں سے چکر۔ نشے اور فلموں کی لعنت میں ان سب سے دور رہا تھا ----- بس ایک لگن تھی کہ اپنا ایک مقام بنانا ہے----- روپے پیسے جمع کر کر کے اور آگے پڑھ پڑھ کر میں آج اس مقام پر تھا---- پہلے میں پولیس میں بھرتی ہوا تھا مگر پہلے ہی سال میری اچھی کارکردگی دیکھ کر میرے ایک آفیسر نے مجھے خفیہ ایجنسی کی طرف راغب کر دیا اور سی ایس ایس کا امتحان دینے کے لیے تیار کرلیا----- بچپن سے محنت مزدوری کرنے کی وجہ سے جسم مضبوط تھا اور قد کاٹھ بھی اچھا تھا-----پڑھنے کا چور نہیں تھا۔۔۔۔ رہنمائی ملی تو امتحان بھی پاس کرلیا۔۔۔۔۔پھر مجھے سلیکٹ کر لیا گیا اور میری سخت ٹریننگ شروع ہو گئی----- جس کے بعد اب میں عملی طور پر کام شروع کر چکا تھا------ میں اپنے کام میں بہت ترقی کرنا چاہتا تھا اس لیے بہت محنت کر رہا تھا کہ اچانک رباب میری زندگی میں ہلچل مچانے آگئی عملی طور پر جاب شروع کرتے ہی میں نے ایک اچھے پوش علاقے میں گھر لے لیا تھا جو میری سب سے بڑی خواہش تھی----- سالوں سے جمع شدہ رقم اور کچھ ہاؤس بلڈنگ فائنانس کی مدد سے میں گھر لینے میں کامیاب ہوگیا----- چھوٹا سا دو بیڈ روم اٹیچ باتھ روم ۔ ٹی وی لاونج۔ ڈرائنگ ڈائننگ اور امریکن اسٹائل کچن کےساتھ چھوٹا سا فرنٹ لان اور کار پورچ بھی تھا۔۔۔۔۔ یہ ایک سنگل اسٹوری بنگلہ تھا جو مجھے اپنی لوکیشن کی وجہ سے بھی مجھے بہت پسند آیا تھا ایک اچھے نئے پوِش آباد ہونے والے علاقے میں اس وقت قیمتیں اتنی زیادہ نہیں تھیں اور پھر میری پسند کی وجہ اس کا الگ تھلگ ہونا اور اس کے سامنےکی طرف سمندر کا پھیلا ہونا تھا اور آس پاس آبادی ابھی دور دور تھی۔۔۔۔۔ کافی سکون اور آرامدہ علاقہ تھا میں اپنی جاب اور گھر میں سیٹ ہو چکا تھا۔۔۔۔۔ گھر اتنا ڈیکوریٹ نہیں کیا تھا کیونکہ میں ہاؤس بلڈنگ کا قرضہ سب سے پہلے اتار کر فارغ ہونا چاہ رہا تھا چنانچہ جاب اور قرضہ دو ہی جنون سر پر سوار تھے۔۔۔۔۔ یہاں تک کہ میں نے قرضہ اتار دیا اور سکون کا سانس لیا۔۔۔۔ اب تن من دھن سے جاب کی ذمہ داریاں ادا کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔۔۔ لڑکیوں میں میری کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی یا شاید میں نے کبھی دلچسپی لینے کی کوشش بھی نہیں کی تھی۔۔۔۔۔۔ حالانکہ مجھے اس بات کا پورا پتہ تھا کہ میں ایک بہت اچھی شخصیت کا مالک ہوں مگر پتہ نہیں کیوں لڑکیوں سے بات کرتے ہوئے جھجھکتا تھا ۔۔۔۔۔ حالانکہ جاب پر کام کرنے والی لڑکیوں سے کوئی مسئلہ نہیں تھا مگر جاب سے ہٹ کر کوئی بات کرتے ہوئے میں جھجھک سا جاتا تھا مگر پھر سب کچھ الٹ ہو گیا۔۔۔۔۔ رباب میری زندگی میں ایک طوفان کی طرح آئی اور سب کچھ تہس نہس کر دیا یہ ان دنوں کی بات ہے جب میری پروموشن ہوئی تھی اور اب مجھ پر کام کا لوڈ کچھ کم ہوگیا تھا۔۔۔۔۔ سو میں گھر جلدی آجایا کرتا تھا۔۔۔۔۔ ٹی وی دیکھنا ہی میرا کام تھا جب ایک دن مجھے رباب کی کال ملی تھی اور اس نے مجھ سے دوستی کرنے کی خواہش کی تھی۔۔۔۔ میں نے اس گو ٹالنے کی بہت کوشش کی ۔۔۔۔ اس کے ساتھ رُوڈ ہوا۔۔۔۔ فون اٹھا کر ریسیور نیچے رکھ دیتا تھا مگر اس بندی نے ہار نہ مانی اور پھر پتہ نہیں کب اور کیسے میں بھی اس میں دلچسپی لیتا گیا شاید میں بھی کوئی دوست بنانا چاہتا تھا حالانکہ شان ( ذیشان جس کو میں پیار سے شان کہتا تھا) میرا وہ دوست تھا جو اس ساری جدوجہد میں میرے ساتھ برابر کا شامل تھا اور ہم دونوں نے ساتھ ہی یتیم خانے سے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا اور آج بھی ایک ہی ادارے میں ایک ساتھ ہی کام کر تھے۔۔۔۔۔ وہ میرا ہمدم اور میرا سب سے اچھا دوست تھا مگر کسی لڑکی سے دوستی ایک الگ بات تھی۔۔۔۔ میری رباب سے دوستی فون پر بڑھتی چلی گئی۔۔۔۔۔صحیح معنوں میں رباب وہ لڑکی تھی جس سے باتیں کرکے مجھے اپنی زندگی کی بے رنگی کا احساس ہوا۔۔۔۔۔ میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ میں کیوں لڑکیوں سے بھاگ رہا ہوں۔۔۔۔ان سے بات کرنے میں کوئی حرج تو نہیں۔۔۔۔ رباب نے میرے اندر اعتماد پیدا کیا اور میں بھی اس سے فری ہوگیا۔۔۔۔ ہم بہت کچھ ڈسکس کرتے تھے یہاں تک کے سیکس کے بارے میں بھی اپنے خیالات ایک دوسرے کو بتائے تھے۔۔۔۔ اس نے ابھی اپنے بارے میں صرف یہ بتایا تھا کہ وہ ایک سرکاری ادارے میں کام کرتی ہے مگر میرے بارے میں وہ سب کچھ جانتی تھی کیسے یہ اس نے نہیں بتایا۔۔۔۔میں اپنی بہت سی جاب کی باتوں کے بارے میں اس سے مشورہ کرنے لگا۔۔۔ وہ دیانت داری اور سچائی سے مجھے مشورہ دیتی تھی۔۔۔۔ ہماری دوستی کے بارے میں شان بھی جانتا تھا۔۔۔۔۔ اور اکثر مجھے چھیڑتا تھا رباب کے نام سے۔۔۔۔ وہ مجھے مجبور کرتا تھا کہ مجھے رباب سے ملنا چاہیے۔۔۔۔۔ شان اور مجھ میں بس یہی فرق تھا کہ وہ لڑکیوں کے ساتھ بہت فرینک تھا ۔۔۔۔۔ کئی لڑکیوں سے اس کی دوستی تھی اور وہ آرام سے ان لڑکیوں کی مرضی سے ان کے ساتھ سیکس بھی کر لیتا تھا۔۔۔۔۔ اس کا کہنا تھا کہ اگر کوئی لڑکی چاہتی ہے کہ میں اس سے سیکس کروں۔۔۔۔۔ اور اس کو سکون دوں تو میں کیوں انکار کرکے ان کا دل توڑوں ۔۔۔۔۔ ہاں دوستی سے پہلے میں ان کو بتا دیتا ہوں کہ دیکھو یہ صرف دوستی ہے محبت اور شادی کے چکر میں مت پڑنا اور اگر ایسا سوچتی ہو تو ابھی سے الگ ہو جاؤ ۔۔۔۔۔۔۔ویسے بھی امیر گھرانوں سے تعلق رکھنے والی لڑکیاں کہاں محبت وحبت قسم کے چکروں میں پڑتی ہیں وہ تو خود کپڑوں کی طرح بوائے فرینڈ بدلتی ہیں۔۔۔۔۔ اس لیے شان کا یہ کھیل اب تک کامیابی سے جاری تھا۔۔۔۔اس کے نزدیک سیکس ہی سب کچھ تھا وہ رباب کے حوالے سے کئی دفعہ مجھے چھیڑ چکا تھا کہ یہ کیا ہم سولہویں صدی کی طرح کی محبت اور دوستی کر رہے ہیں کہ اب تک ایک دوسرے کی شکل بھی نہیں دیکھی اور اس کا کہنا ٹھیک تھا رباب نے مجھے دیکھا ہوا تھا مگر میں نے اب تک اُسے نہیں دیکھا تھا بس اس کی مترنم آواز سن کر سوچتا تھا کہ وہ یقیناً خوب صورت ہو گی۔۔۔۔۔۔پچھلے آٹھ مہینوں میں ہم بہت قریب آگئے تھے۔۔۔۔ بلاشبہ میں اس سے محبت کرنے لگا تھا اور وہ بھی مجھےچاہنے لگی تھی۔۔۔۔ ہم دونوں اپنی محبت کا اظہار ایک دوسرے سے کر چکے تھے مگر صرف فون پر اور آخرکار میں نے رباب سے ملنے کو کہہ ہی دیا۔۔۔۔ اور آج میں اس کے گھر میں بیٹھا نا صرف اپنا جنم دن منانے کا آغاز کر رہا ہوں بلکہ اپنی زندگی کا پہلا کس بھی کر چکا ہوں۔ رباب: عاشر۔۔۔۔ جان کیا سوچ رہے ہو؟ رباب کی آواز سن کر میں خیالوں کی دنیا سے باہر آیا۔۔۔۔۔ بس یہی سوچ رہا ہوں کہ تم میرے تصورات سے بڑھ کر حسین ہو اور مجھےاپنی قسمت پر یقین نہیں آرہا۔۔۔۔ میں نے سچے دل سے اس کی تعریف کی۔۔۔ (واقعی گلابی رنگت، مناسب قد کے ساتھ پر فیکٹ فگر، لائٹ براؤن آنکھیں بمعہ گھنی پلکیں اور سب سے زیادہ خوب صورت اس کے گلابی اور کٹاؤ دار ہونٹ جن کے سائیڈ پر ایک ننھا سا تل گارڈ کی طرح براجمان تھا ان تمام لوازمات کے ساتھ وہ کسی اپسرا سے کم نہیں لگ رہی تھی اور میں اپنی قسمت پر حیران تھا کہ کیا وہ واقعی مجھ سے پیار کرتی تھی۔۔۔ اس کے لیے تو نجانے کتنے امیر کبیر لوگ اپنی دولت لٹانے کو تیار ہو جاتے اور وہ مجھ جیسے بس گزارے لائق کمانے والے سے پیار کرتی ہے) رباب: یقین کیوں نہیں آرہا۔۔۔۔ تم میں کس چیز کی کمی ہے میں : نہیں کمی تو شاید نہیں ہو مگر تم سے تو ہر لحاظ سے کم ہوں۔۔۔ میں نے کہا رباب کھڑی ہو گئی اچھا مجھ سے کم ہو ۔۔۔۔ آؤ ادھر آؤ ۔۔۔۔ اس نے ہاتھ پکڑ کر کھڑا کیا۔۔۔۔۔ ہم پلیٹیں خالی کر چکے تھے۔۔۔پلیٹ کو ٹیبل پر رکھ کر میں اس کے ساتھ آگیا۔۔۔۔۔ وہ مجھے لے کر ایک فل وال آئینے کے پاس لے آئی جو لاونج کی دیوار پر لگا تھا۔۔۔۔۔ ہم دونوں برابر برابر کھڑے تھے جب وہ بولی۔۔۔۔ لو دیکھو۔۔۔۔ کون کم ہے اور کون زیادہ۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم دونوں ہی ایک دوسرے کا جواب لگ رہے تھے۔۔۔۔ میں اپنے چھ فٹ کے قد۔۔۔۔۔ چوڑے کندھے اور چوڑے سینے۔۔۔۔۔ گھنے اور کالے بالوں اور سب سے بڑھ کر اپنی سحرکار کالی آنکھوں کے ساتھ کسی لحاظ سے کم نہیں لگ رہا تھا۔۔۔۔۔ میرے کانوں میں اپنے ادارے میں کام کرنے والی کچھ لڑکیوں کی باتیں گونجنے لگی جو میری موجودگی سے بے خبر میری آنکھوں کی تعریف کرتے ہوئے کہہ رہی تھیں کہ عاشر کی آنکھیں دیکھ کر بندہ اپنی سدھ بدھ ہی کھو بیٹھتا ہے۔۔۔ میں نے ان کے کمنٹس حیرت سے سنےتو تھے مگر ان پر یقین آج کر رہا تھا۔۔۔۔ واقعی میری آنکھیں سحر کار تھیں) پھر بھی آئینے میں ہم دونوں کے عکس کو دیکھتے ہوئےمیں نے کہا اب بھی میرا جواب یہی ہے کہ تم مجھ سے زیادہ حسین ہو اور میں کچھ نہیں تمہارے آگے۰ رباب ایک دم پلٹی۔۔۔۔۔ نہیں جان۔۔۔۔ تم بہت اچھے ہو۔۔۔۔ ظاہری طور پر دیکھو تو یہ اونچا قد۔۔۔۔ یہ مضبوط بازو۔۔۔۔۔ یہ کالی کالی سحر کار آنکھیں۔۔۔۔۔ یہ گھنے بال اور سب سے بڑھ کر تمہارا دل۔۔۔۔ میرے ایک ایک نقش کو ہونٹوں سے چومتی ہوئی وہ میرے دل پر ہاتھ رکھ کے مجھے دیکھنے لگی اور پھر جھک کر میرے دل کے مقام کو چوم لیا۔۔۔۔ میں کنگ کھڑا رہ گیا تھا اس کے جذبات کی شدت نے مجھے چپ کرا دیا تھا۔ رباب نے مجھے ہلکا سا کھنچا اور پھر دیوار سے لگا دیا۔۔۔۔۔اور میرے بہت قریب آگئی یہاں تک کے اس کے سینے کے اُبھار میرے سینے میں دھنس گئے۔۔۔۔ قد کے لحاظ سے وہ میرے کندھے تک آرہی تھی اور پھر وہ اپنا چہرہ اٹھا کر بولی کچھ عرصے پہلے کی بات ہے جب ہماری ایجنسی میں ایک بہادر آدمی کا چرچا تھا۔۔۔ جس نے اپنی بہادری سے ایک بہت بڑی کاروائی کی تھی۔۔۔۔۔ میں نے بھی اس کو دیکھا تھا۔۔۔۔۔ وہ بہت ہینڈسم اور چارمنگ تھا اس کی آنکھوں میں اک سحر تھا۔۔۔۔ادارے کی لڑکیاں اس پر مرتی تھیں۔۔۔۔۔ مگر وہ لڑکیوں سے دور بھاگتا تھا بس کام کی بات کی اور آگے چل دیا۔۔۔۔۔ میں من ہی من میں اس کو پیار کرنے لگی۔۔۔۔ ایک دن اس نے روڈ پر ایک بوڑھے کی جان بچائی اور پھر اس کی تکلیف کو جانتے ہوئے اس کے مسئلے کو حل کیا۔۔۔۔ میں اس کا پیچھا کر رہی ہوں اس کو خبر بھی نہیں تھی۔۔۔۔۔ پھر اس کی اور بہت سی اچھائیاں مجھے پتہ چلتی گئی اور میں اس کے پیار میں ڈوبتی گئ۔۔۔۔۔۔ اس کو تو پتہ بھی نہیں کہ کوئی اتنی شدت سے اس کو مانگ رہا ہے۔ رباب نے تھوڑا رک کے مجھے دیکھا اور میں دنگ کھڑا یہ سب سن رہا تھا۔۔۔۔ وہ مسکرائ اور اپنے دونوں بانہیں میرے گلے میں ڈال مجھے جھکایا اور خود تھوڑا سا اونچا ہو کر میرے ہونٹوں کو زور سے چوم لیا اور پھر کہا وہ تم تھے عاشر۔۔۔۔۔ میری جان۔۔۔۔ تم تھے۔۔۔۔ کتنی مشکل سے تم سے دوستی کی یہ تو تم بھی جانتے ہو۔۔۔۔ شاید میرے جذبوں کی سچائی اور شدت تھی جو تمہارے دل کو بھی محسوس ہوئی اور تم نے مجھے قبول کر لیا۔۔۔ کیوں میں ٹھیک کہہ رہی ہوں نا۔۔۔۔۔ بولو نا چپ کیوں ہو( اس نے مجھے ہلکے سے ہلایا ) میں: ہوش میں آؤں تو کچھ بولوں۔۔۔۔۔ میں نے گہری سانس لے کر اس کے گرد اپنی بانہیں کس دیں۔۔۔۔۔ تو تم بھی میری ہی ایجنسی میں کام کرتی ہو۔۔۔۔ اس ہی لیے میری ہر بات سے واقف ہو۔ رباب: ہاں اور اب بہت جلد تمہارے انڈر میں کام کروں گی۔۔۔۔۔ وہ میرے شرٹ کے بٹنوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے بولی میں: ہمممم۔۔۔۔ میرے انڈر میں ۔۔۔۔۔ گڈ رباب: عاشر تم مجھ سے ناراض تو نہیں ہو نا( اس نے سہمی ہوئی نظروں سے مجھے دیکھا) میں :ناراض۔۔۔۔ ( میں رکا اور پھر مسکرا کر بولا) نہیں ناراض نہیں حیران ضرور ہوں۔۔۔۔۔ کہ آج تک اتنی حسین صورت سے نا آشنا رہا۔۔۔۔۔۔ رباب: اب نہیں رہوگے۔۔۔۔۔ اس نے بھی مسکرا کر جواب دیا۔ اور ہمارے لب پھر آپس میں مل گئے۔۔۔۔۔ ہم دونوں اپنے بدن ایک دوسرے سے رگڑ رہے تھے اور یہ رگڑ جسم میں سنسنی دوڑا رہی تھی۔۔۔۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ میں اپنا ضبط کھو دوں اور رباب کی نظروں میں گر جاؤں ۔۔۔۔۔ اس لیے تھوڑی دیر بعد جب محسوس ہوا کہ اب بات برداشت سے باہر ہے تو میں نے کس توڑ دیا اور الگ ہٹ کر اپنی سانسوں کو اور اپنے عضو کو کنٹرول کرنے لگا۔ رباب: کیا ہوا عاشر؟ میں : نہیں کچھ نہیں۔۔۔۔۔ میرا خیال ہے مجھے اب چلنا چاہیے۔۔۔۔۔ میں نے نظریں چراتے ہوئے کہا رباب: کیوں سالگرہ کا تحفہ نہیں لو گے میں: تحفے کی کیا ضرورت ہے۔۔۔۔ یہ سب جو تم نے میرے لیے کیا ہے کم ہے کیا( میں نے اس کی توجہ دلائی) رباب: نہیں یہ سب تو کچھ نہیں ۔۔۔۔تمہارا تحفہ سب سے بڑھ کر ہے۔۔۔ آو ۔۔۔۔ اور وہ میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اندر لے چلی۔۔۔۔ کمرے کا دروازہ کھولا اور کہا چلو اندر چلو عاشر اور اپنا تحفہ وصول کرو میں اندر داخل ہو گیا اور ایسا لگا کہ شاید غلطی سےاس جگہ آگیا۔۔۔۔۔ کمرے میں لائٹ مدہم تھی۔۔۔۔ خوشبو والی کینڈلز۔۔۔۔۔ گلاب کے پھولوں کے گلدستے۔۔۔۔۔۔ وسیع و عریض بیڈ جس پر خوبصورت مخمل کی میرون چادر تھی۔۔۔۔۔۔ پورا کمرہ بھینی بھینی خوشبو سے مہک رہا تھا۔۔۔۔۔ میں حیرانی سے سب دیکھ رہا تھا کہ رباب کی آواز نے چونکا دیا عاشر۔۔۔ اپنا تحفہ قبول کرنے کےلیے تیار ہو۔۔۔۔۔۔ میں مڑا اور اس سے ٹکرا کر رہ گیا۔۔۔۔ رباب میرے بالکل پیچھے پاس ہی کھڑی تھی۔۔۔۔۔ آگے بڑھ کر اس نے میرا کوٹ اتار دیا۔۔۔۔۔۔ کوٹ کو سائیڈ پر پڑے ہوئے صوفے پہ ڈال کر اس نے میری ٹائی اتاری اور ساتھ ہی پینٹ کی بیلٹ کھولی اور نکال کر پھینک دی۔۔۔۔۔ اب وہ میری شرٹ کے بٹن کھول رہی تھی۔۔۔۔۔ شرٹ اور پھر بنیان اتارنے کے بعد اب میں صرف اپنی ڈریس پینٹ اور جوتے موزوں میں کھڑا تھااور پھر اس نے میرے دیکھتے ہی دیکھتے اپنے ڈریس کی زپ کھول دی۔۔۔۔۔۔ ایک لمحہ میں وہ ڈریس زمین پر گر گئی اور اس کا سنگ مرمر جیسا جسم ننگا ہو گیا ۔۔۔۔۔۔ دونوں ہاتھ پھیلا کر وہ بولی۔۔۔۔عاشر میری جان۔۔۔۔ آج میں اپنے جسم کو۔۔۔ اپنی محبت کو اور اپنے آپ کو تمہیں سونپ رہی ہوں۔۔۔۔۔ ہر کسی کو اپنی عزت اور جان سب سے زیادہ پیاری ہوتی ہے اور آج سے میری عزت، میری جان، میرا جسم سب کچھ صرف تمہارا ہے۔۔۔۔ آو عاشر آگے آو اور اپنا تحفہ قبول کرو میرے لیے یہ سب ایک خواب تھا مگر میں اس خواب سے منہ نہیں موڑ سکتا تھا۔۔۔۔۔ میرا ہاتھ اٹھا اور اب وہ رباب کے چہرے کے نقوش کو چھو رہا تھا۔۔۔۔۔ گالوں پہ انگلیاں پھیرتے ہوئے میں نے اپنے انگوٹھے سے اس کے گلابی ہونٹوں کو رگڑا۔۔۔۔ ایک سسکی سی رباب کے منہ سے نکلی اور میں نے ایک دم اس کو کھینچ کر اپنے سینے سے لگا لیا۔۔۔۔۔ ایک ہاتھ سے اس کے بالوں کے جوڑے کو نرم سی مٹھی میں جکڑا اور ہلکے سے جھٹکے سے اس کا چہرہ اوپر اٹھا لیا۔۔۔۔۔دوسرے ہاتھ سے اس کی کمر کو سہارا دے کر میں نے بے قراری اور بے تابی سے اس کو چومنا شروع کردیا۔۔۔۔۔ اس کی آنکھیں۔۔۔۔ گال۔۔۔ اور لبوں کو چومتا ہوا میں گردن تک آگیا۔۔۔۔۔ گردن اور پھر مزید نیچے اس کے بریسٹ۔۔۔۔۔ کمر پر موجود ہاتھ اور نیچے گیا جبکہ دوسرے ہاتھ سے میں نےاس کے بریسٹ سے بریسٹ پیڈ ہٹا دیے( بیک لیس اور اس ٹائپ کے ڈریس میں بریزر نہیں پہنی جاتی بلکہ سیلیکون کے پیڈ ہوتے ہیں جو بریسٹ پر چپکا لیے جاتے ہیں ) پیڈ ہٹاتے ہی میں نے اس کے ایک بریسٹ کو منہ میں لے لیا۔۔۔۔۔ ایک تیز سسکاری سی رباب نے لی اور میں نے اس بریسٹ کو چوسنا شروع کر دیا۔۔۔۔ میرا ایک ہاتھ اس کے ہپس دبا رہا تھا۔۔۔۔۔۔پھر میرے اسی ہاتھ نےاس کے سر کے بالوں پر لگے ہوئے ہئیر بینڈ کو بھی اتار دیا ۔۔۔۔۔ اور اس کے ڈارک براؤن بال کھل گئےاور اس کی کمر کو ڈھکتے ہوئے۔۔۔۔۔ ہپس تک جا پہنچےاور میرا ہاتھ بھی دوبارہ اس کے ہپس پر پہنچ گیا۔۔۔۔۔۔ جبکہ دوسرا اس کے بریسٹ کی نپل کو سہلا رہا تھا اور میں اس کے ایک بریسٹ کو چوس رہا تھا۔۔۔۔۔۔ تین طرف سے اس حملہ کو وہ برداشت نہیں کر پا رہی تھی۔۔۔۔اس کی سسکاریاں بڑھتی جا رہی تھیں اور مجھے ایسا لگا کہ اس کے قدم ڈھیلے ہو رہے ہیں اور اس سے پہلے وہ گر جاتی میں نے اس کو سنبھال کر بیڈ پر لٹا دیا۔ میرون چادر پر گورا کنوارا بدن میرے جذبات کو بری طرح بھڑکا رہا تھا۔۔۔۔۔میں نے اپنے پاؤں کی مدد سے جوتے اتارے اور پھر کھڑے کھڑے اپنے آپ کو پینٹ سے بھی آزاد کر دیا۔۔۔۔۔ صرف انڈر وئیر رہ گیا اور میں اس کو چھوڑ کر رباب کی طرف متوجہ ہو گیا۔۔۔۔۔ جو بالکل ننگی پڑی بے قراری سے بیڈ پر مچل رہی تھی۔۔۔۔۔ اس کو قرار دینے کے لیے میں اس پر جھک گیا۔۔۔۔۔ اس کے جسم کے ایک ایک حصے پر اپنے لبوں سے مہر لگائی۔۔۔۔ اس کے سینے کے ابھاروں سے دودھ پیتے ہوئے میں مزے سے پاگل ہو رہا تھا۔۔۔ اور میرا ہتھیار انڈر وئیر میں تنگ ہو رہا تھا۔۔۔۔۔ میرا ہاتھ اس کے جسم پر پھرتا ہوا ناف سے نیچے گیا تو مجھے کوئی کپڑا محسوس ہوا۔۔۔۔ منہ ہٹایا دودھ سے دیکھا تو پتہ چلا پینٹی ہے۔۔۔۔۔ کھینچ کر اتاری اور پھر سے سلسلہ جوڑا دودھ پینے کا جہاں سے توڑا تھا۔۔۔۔ رباب میرا سر اپنے بریسٹ پر دبائے جا رہی تھی اور اس کا دوسرا ہاتھ میرے جسم پر پھر رہا تھا۔۔۔۔۔ اچانک میرا ہاتھ ناف سے نیچے گیا اور میں نے وہاں سہلانا شروع کیا۔۔۔۔۔ رباب کے جسم کو کرنٹ لگا اور اس کا اوپری جسم کسی آرچ کی طرح اٹھنے لگا۔۔۔۔۔ اس جگہ سہلاتے ہوئے مجھے گیلا گیلا سا لگا لہذا میں اب بریسٹ چھوڑ کر نیچے دیکھنے لگا۔۔۔۔ بڑی چمک تھی۔۔۔۔اچانک میرا ہاتھ ناف سے نیچے گیا اور میں نے وہاں سہلانا شروع کیا۔۔۔۔۔ رباب کے جسم کو کرنٹ لگا اور اس کا اوپری جسم کسی آرچ کی طرح اٹھنے لگا۔۔۔۔۔ اس جگہ سہلاتے ہوئے مجھے گیلا گیلا سا لگا لہذا میں اب بریسٹ چھوڑ کر نیچے دیکھنے لگا۔۔۔۔ بڑی چمک تھی۔۔۔۔ چکنائی اور گیلا ہٹ تھی۔۔۔۔۔۔ عجیب مہک تھی جو اپنی طرف کھینچ رہی تھی۔۔۔۔۔ پتہ نہیں کیا ہوا میں نےاس پر اپنی زبان رکھ دی۔۔۔۔۔ رباب کے جسم نے جھرجھری لی اور اس نے اپنے پیر اور کھول دیے ساتھ ہی اس نے میرے سر کو اندر کی طرف دبانا شروع کر دیا اور میں سمجھ گیا کہ اس کو میرے اس طرح چاٹنے سے بہت مزا آ رہا ہے چنانچہ میں سب بھول کر دل و جان سے اس کو چاٹنے لگا۔۔۔۔ میری زبان کی نرمی اور سانسوں کی گرمی۔۔۔۔۔۔ اس کو سسکنے پر مجبور کرنے لگی اس کی سسکیاں اور تڑپ بڑھتی گئی۔۔۔۔۔ اور پھر میں نے محسوس کیا کہ اس کا جسم کچھ اکڑ سا رہا ہے میں نے پیچھے ہٹنا چاہا۔۔۔۔۔۔ مگر اس نے میرا چہرہ اپنی رانوں میں دبا لیا اور گھٹی گھٹی آواز میں بولی۔۔۔۔۔ نہیں عاشر نہیں رکنا۔۔۔۔۔ پلیز مت رکو۔۔۔۔۔۔ کرتے جاؤ ۔۔۔۔ مت رکو اور میں کرتا گیا یہاں تک کہ اچانک گرم گرم پانی کی دھار میرے منہ پر پڑی اور میں ایک دم پیچھے ہو گیا۔۔۔۔ رباب کا جسم جھٹکے لینے لگا اور پانی تیزی سے نکلنے لگا۔۔۔۔۔ میں نے ادھر اُدھر دیکھا اور پھر سائیڈ ٹیبل پر ٹشو باکس سےٹشو نکال کر اس جگہ لگا دیے۔۔۔۔۔۔ رباب ساکت پڑی تھی۔۔۔۔ مجھے اپنا منہ نمکین سا لگ رہا تھا۔۔۔۔۔ میں نے دوسری طرف دروازہ دیکھا تھا سوچا باتھ روم ہو گا۔۔۔۔ میں اٹھ کر ادھر چل پڑا۔۔۔۔۔ وہ باتھ روم ہی تھا۔۔۔۔۔۔ میں نے اندر جاکر کلی کی اور اچھی طرح منہ دھویا۔۔۔۔۔ میرا ہتھیار بھی اچھا خاصا سخت ہو رہا تھا چنانچہ فراغت حاصل کرکے اسے بھی خوب اچھی طرح سے دھو لیا اور پھر باہر آگیا
رباب نے آنکھیں کھول کر مجھے دیکھا اور پھر اپنی بانہیں پھیلا دیں۔۔۔۔۔ میں اس کے سینے سے لگ گیا یہ اور بات تھی کہ میں پوری طرح اس کی بازوؤں میں نہیں سما سکا تھا بس اس کے سینے سے چمٹا تھا کسی بچے کی طرح اور وہ میرے بالوں کو سہلاتی رہی ہم دونوں تھوڑی دیر ایسے ہی رہے اور پھر وہ اُٹھ گئی اور باتھ روم چلی گئی میں بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر بیٹھا کمرے کا جائزہ لے رہا تھا۔۔۔۔۔ بلاشبہ بہت بڑا اور عمدگی سے سجا ہوا کمرہ تھا۔۔۔۔۔۔ سامنے بڑا سا اسکرین بھی لگا ہوا تھا جس کے نیچے کیبنٹ تھا شیشے کے پٹ تھے اور اس میں رکھے ہوئے ڈی وی ڈیز اور ڈی وی ڈی بھی نظر آ رہے تھے۔۔۔۔۔۔ ایک طرف چار دروازوں کی بڑی سی الماری تھی اور اس کے ساتھ ہی ڈریسنگ ٹیبل جو کاسمیٹک سے بھری ہوئی تھی۔۔۔۔۔ ابھی میں سب دیکھ رہا تھا کہ رباب باتھ روم سے واپس آگئی وہ میرے بالکل ساتھ چپک کر بیٹھ کئی اور اپنا سر میرے سینے پر رکھ دیا۔۔۔۔۔ میری انگلیاں اس کے بالوں کو سہلانے لگی اور اس کی انگلیاں میرے سینے کے بالوں سے الجھنے لگیں۔۔۔۔ رباب: عاشو۔۔۔۔ جان ۔۔۔۔۔میں آج تمہیں لذت اور مزے کی اس دنیا کی سیر کرانا چاہتی ہوں جہاں تم نے جانے کا کبھی بھی نہیں سوچا۔۔۔۔۔ جہاں میں بھی کبھی نہیں گئی ہوں۔۔۔۔ ہاں مگر اب تمہارے ساتھ جانا چاہتی ہوں۔۔۔۔ بولو جانو میرا ساتھ دو گے میں: رباب۔۔۔۔ میری جان ۔۔۔۔ آج میں نے اپنے آپ کو تمہارے حوالے کر دیا ہے جہاں چاہو لے چلو۔۔۔۔۔ میں نے اسے چومتے ہوئے کہا اور وہ خوش ہو گئی رباب: عاشر ایک بات یاد رکھنا۔۔۔۔ میری زندگی میں آنے والے تم پہلے آدمی ہو۔۔۔۔ میں نے اپنے آپ کو تمہارے نام لکھ دیا ہے اب مجھے اپنے آپ سے الگ مت کرنا ورنہ میں مر۔۔۔۔۔ میں نے اس کا جملہ پورا نہیں ہونے دیا اور اپنے ہونٹوں سے اس کے ہونٹ کو سیل کر دیا۔۔۔۔۔ میں اس کو بے تحاشا چوم رہا تھا اور وہ خاموشی سے میرا جارحانہ اسٹائل کا یہ چومنا برداشت کر رہی تھی میں: اب دوبارہ میرے سامنے مرنے کی بات مت کرنا۔۔۔۔۔ اس کے لبوں کو جو میرے اس جارحانہ کس کی وجہ سے لال ہو گئے تھے۔۔۔۔ اپنی جارحانہ گرفت سے آزاد کرتے ہوئے میں نے کہا اور ہاں۔۔۔۔۔ سب کچھ جانتی ہو میرے بارے میں۔۔۔۔۔۔ تو یہ بھی پتہ ہوگا کہ تم پہلی لڑکی ہو جو میرے اتنے قریب ہو ۔۔۔۔۔جس سے محبت کا میں نے اظہار کیا ہے۔۔۔۔ مستقبل کا تو کسی کو نہیں پتہ مگر وعدہ ہے کہ جب تک جان ہے تمہارے علاوہ اور کوئی اس جگہ تک نہیں پہنچے گی رباب مسکرا دی اور میں اس کے گالوں میں پڑنے والے ڈمپل پر کس کر کے رہ گیا۔۔۔۔ اس نے اچانک ہی مجھے چومنا شروع کر دیا۔۔۔۔ میں بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے ہوئے تھا اور وہ میرے اوپر رانوں پر بیٹھ گئی۔۔۔۔۔ اس کی چوت کی گرمی میرے عضو کو ہو شیار کر رہی تھی۔۔۔۔۔۔ میری ٹانگیں پھیلی ہوئی تھی اور وہ ان پر بیٹھ کر میرے چہرے۔۔۔۔ گردن اور کانوں کو چومنے لگی بلکہ کان کی لو کو بھی چوسا۔۔۔ جس نے مجھے بہت مزا دیا اور پھر وہ میرے سینے کے نپلز کو چوستی ہوئ نیچے ناف تک آگئ اور دوسرے ہی لمحے اس نے میرے انڈر وئیر کو بھی اتار دیا۔۔۔۔۔ میرا ہتھیار آہستہ آہستہ سخت ہو رہا تھا اور اپنا سائز بڑھا رہا تھا جب اس نے پیچھے ہوتے ہوئے اس کو اپنے منہ میں لے لیا۔۔۔۔۔ میں اپنی جگہ سے جیسے اچھل پڑا۔۔۔۔۔۔ اففففففف۔۔۔۔۔ کتنی لذت تھی کہ میں بتا بھی نہیں سکتا۔۔۔۔ اس نے میرے ہتھیار کو خوب اچھی طرح سے منہ میں لیا اور کسی لالی پاپ کی طرح چوسا۔۔۔۔۔ بلکہ دونوں بالز کو بھی منہ میں لے کر چوسا۔۔۔۔۔۔ میں مزے سے پاگل ہو رہا تھا۔۔۔۔۔۔ یہ نہیں کہ سیکس کے بارے میں مجھے کچھ پتہ نہیں تھا۔۔۔۔۔ میں نے شان کی لائی ہوئ کئ بلیو پرنٹ فلمیں دیکھیں تھیں مگر اپنے شریف مزاج کی وجہ سے میں مار کھا جاتا تھا اور خود سے قدم بڑھانے کی ہمت نہیں کرتا تھا۔۔۔۔۔ کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ جو کچھ ان فلموں میں دیکھا ہے کبھی میرے ساتھ بھی ایسا ہو گا۔۔۔۔۔ حالانکہ شان نے مجھے بہت تیار کیا تھا بلکہ ایک دفعہ تو وہ بہانے سے مجھے ایک طوائف کے پاس بھی لے گیا تھا کہ میں اپنی جھجھک پر قابو پا لوں مگر مجھے وہ سب اچھا نہیں لگا اور میں وہاں سے بھاگ آیا تھا۔۔۔۔۔ اس کے بعد شان مجھ سے کتنے دن ناراض بھی رہا تھا مگر میں نے اس کو منا لیا تھا یہ کہہ کہ جب تک میرا دل راضی نہیں ہوگا میں کچھ نہیں کروں گا اور جب دل راضی ہوگا تو بالکل پیچھے نہیں ہٹوں گا اور آج وہی وقت تھا وہ سب کچھ جو فلموں میں دیکھا تھا آج اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا بلکہ وہ سب کر بھی رہا تھا اور کروا بھی رہا تھا۔۔۔۔۔۔ فلموں میں نکلتی آوازیں آج میرے منہ سے نکل رہی تھیں۔۔۔۔۔۔رباب اپنی جگہ سے ہٹ کر میری سائیڈ پر آگئی اب وہ گھٹنوں کےبل کسی چوپائے کی طرح کھڑی تھی اور میرے عضو کو چوس رہی تھی جب میرا ہاتھ اس کے جسم پر رینگتا ہوا اس کے ہپس کی طرف آیا اور اس کے دونوں ہپس کے درمیان گھس گیا۔۔۔۔۔۔۔ پھر میری انگلیاں اس کی ہپس کی دراڑ سے ہوتے ہوئے اس کی چوت کی طرف آگئی اور پھر میری ایک انگلی اس کے اندر گھس گئ۔۔۔۔۔ رباب نے سسکاری بھری اور تھوڑے زور سے میرے عضو کو دبا دیا۔۔۔۔۔۔ مجھے لگا کہ میں چھٹ جاؤں گا مگر ایسا نہیں ہوا۔۔۔۔۔ رباب پیچھے ہٹ گئی۔۔۔۔۔ اور میں اپنی انگلی اس کے اندر باہر کرنے لگا۔۔۔۔۔۔ وہ مزے سے آہ بھرنے لگی اور پھر میرے پاس سے اٹھ کر وہ ڈریسنگ ٹیبل کی طرف گئی اور پھر فورا ہی واپس آکر اس نے ایک کریم میرے ہتھیار پر لگائی اور کہا آو عاشر آو اور آج مجھے فتح کر لو میں فورا سیدھا ہو گیا۔۔۔۔۔ میرا ہتھیار مکمل لمبائ اور سختی کے ساتھ اور۔۔۔۔۔ پورا چکنا اندر جانے کو تیار تھا۔۔۔۔۔ رباب میرے سامنے لیٹ گئی دونوں ٹانگیں ممکنا حد تک کھول دیں۔۔۔۔ اس کی گلابی گلابی چوت میرے سامنے تھی۔۔۔۔۔جس کے دونوں لب میری انگلی باہر آنے کے بعد پھرمل گئے تھے۔۔۔۔۔ جن کو میں نے ہاتھوں سے کھولنے کی پھر ایک کوشش کی اور رباب سسک پڑی اور بولی عاشر تمہارا بھی یہ فرسٹ ٹائم ہے اور میرا بھی۔۔۔۔۔ پلیز آرام آرام سے کرنا۔۔۔۔۔ مزے لے کر اور مزے دے کر کرنا۔۔۔۔۔ میں نے سر ہلایا اور اس کی کھلی ٹانگوں کے بیچ میں آگیا۔۔۔۔۔۔ گھٹنوں کے بل جھک کر اس کو چہرے پر چومنے لگا۔۔۔۔ نیچے میرا ہتھیار اس کی چوت کو چھو رہا تھا۔۔۔۔پہلے اس کو چوت کے اوپر رگڑنے لگا اور پھر میں نے ہلکے ہلکے دھکے سے اس کو اندر کرنا شروع کر دیا ۔۔۔۔ چکنا ہونے کی وجہ سے آرام سے تھوڑا اندر آگیا گو کہ تکلیف کی وجہ سے رباب کسمسائی مگر برداشت کر گئی۔۔۔۔۔ میں نے ایک جنون میں آکر اس کو مزید تیزی سے چومنا شروع کردیا وہ بھی میرے کس کا جواب اتنی ہی تندی سے دینے لگی۔۔۔۔۔۔ میں نے ہتھیار کو مزید اندر کرنا چاہا مگر ناکام رہا کوئی رکاوٹ تھی۔۔۔۔۔ میرے ذہن میں شان کی دی ہوئی معلومات گردش کرنے لگی کہ ہر کنواری لڑکی کی چوت میں ایک پردہ ہوتا ہے جو ہتھیار کو اندر نہیں جانے دیتا اور اس کو جھٹکا دے کر ہی پھاڑنا پڑتا ہے اور اس کی وجہ سے لڑکیوں کو درد بھی ہوتا ہے اور خون بھی نکلتا ہے مگر اس پردے کی موجودگی کا مطلب ہوتا ہے کہ وہ لڑکی کنواری ہے اور پاکیزہ ہے۔۔۔۔۔ مجھے بھی رکاوٹ کا سامنا تھا اور صاف ظاہر تھا کہ رباب ان چھوئی اور کنواری تھی۔۔۔۔ اس لیے اس نے مجھ سے آرام سے کرنے کو کہا تھا کہ اس کو تکلیف نا ہو ۔۔۔۔۔ مجھے اس پر بہت پیار آیا کہ وہ میرے پیار میں اپنے کنوارپن کی قربانی دے رہی ہے اور تکلیف برداشت کرنے کو تیار ہے۔۔۔۔۔ میں نے دل میں سوچ لیا کہ میں کل ہی رباب سے شادی کر لوں گا۔۔۔۔ میں ہی اس کا شوہر بنوں گا آخر اس کی سیل میں ہی توڑ رہا ہوں اور اس کے کنوارے پن کو ختم کر رہا ہوں تو آگے بھی میں ہی اس کا سب کچھ ہوں گا۔۔۔۔۔ میں نے اپنے ہتھیار کو باہر نکالا اور پھر رباب کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں دبا کر ایک زوردار جھٹکے سے اپنے ہتھیار کو اندر کر دیا۔۔۔۔۔۔ رباب تڑپ گئی اور مچل گئی شائد چیخ بھی نکلی ہو جو میرے منہ میں ہی دب کر رہ گئی۔۔۔۔۔وہ مجھے اپنے اوپر سے ہٹانے لگی۔۔۔۔۔۔ میں رک گیا اس کے ہونٹ چھوڑ کر اس کی بریسٹ منہ میں لے کر چوسنے لگا۔۔۔۔۔ اس کی تکلیف تھوڑی کم ہوئی اور اس نے جسم کو بھی ڈھیلا چھوڑ دیا۔۔۔۔۔ میں نے آہستہ آہستہ اپنے ہتھیار کو ہلانا شروع کیا اور اندر باہر کرنا شروع کیا۔۔۔۔۔ تھوڑا سا کراہنے کے بعد وہ مزے میں سسکنے لگی اور پھر یہ سسکیاں بڑھتی چلی گئی اور میرے اندر بھی ایک آگ سی بھڑکانے لگی۔۔۔۔۔۔ میری رفتار تیز ہوتی گئی۔۔۔۔۔۔ سانسیں پھولتی گئی۔۔۔۔۔۔۔۔ ماحول ایک دم گرم ہوگیا۔۔۔۔۔ پسینہ پانی کی طرح بہنے لگا۔۔۔۔۔۔۔ اور میں اس جگہ کو مزید تنگ پا کر اپنا پورا زور لگانے لگا۔۔۔۔ میرا عضو پھنس پھنس کر اندر جا رہا تھا۔۔۔۔۔ اور میں لذت کی اونچائیوں کو چھو رہا تھا۔۔۔۔۔ اتنا مزا آرہا تھا جو بیان سے باہر تھا۔۔۔۔۔۔ ساری توانائی سمٹ کر میرے عضو میں آگئی تھی خون کا بہاؤ بڑھ گیا اور پھر میرا ضبط۔ ختم ہو گیا اور میں ایک تیز سسکاری لے کر جھٹکےلینے لگا۔۔۔۔۔۔ اسی لمحے مجھے محسوس ہوا کہ رباب کا جسم بھی جو اکڑ گیا تھا اب ڈھیلا پڑ رہا ہے اور گرم گرم پانی چھوڑ رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔ نڈھال ہو کر میں رباب پر گر گیا۔۔۔۔ اس نے بھی مجھے اپنے سے کس کر لپٹا لیا اور ہم تھوڑی دیر ایسے ہی لیٹے رہے۔۔۔۔۔ پھر میں اٹھ کر بیٹھا اور واش روم جاکر اپنے آپ کو صاف کر کے آیا اور رباب کو جانے کے لیے کہا رباب نے اٹھنے کی کوشش کی مگر کراہ کے رہ کئی۔۔۔۔ اس نے مجھ سے کمرے کی لائٹ جلانے کو کہا۔۔۔۔ میں نے لائٹ آن کی۔۔۔۔ کمرہ تیز لائٹ سے جگمگا اٹھا۔۔۔۔ اب میں رباب کے پاس آیا میں: جانو۔۔۔۔ اٹھو جاؤ۔۔۔ واش روم جاؤ رباب کمزور سی آواز میں بولی عاشر۔ ۔۔ بہت درد اور جلن ہو رہی ہے اور اٹھا نہیں جا رہا پلیز سہارا دو۔۔۔۔ اپنا ہاتھ میری طرف بڑھاتے ہوئے وہ بولی میں اس کے اور قریب آگیا اور اچاُنک میری نظر اس کی ٹانگوں پر پڑی اور میں نے اس کو وہیں روک دیا میں ؛ رباب جان ادھر ہی رک جاؤ ۔۔۔۔۔ مجھے دیکھنے دو۔۔۔ ایک منٹ۔۔۔۔۔ میں اس پر جھک گیا اور اس کی ٹانگوں کو کھول کر دیکھا۔۔۔۔ خون اور سفید مادے سے اس کی رانیں اور چوت بھری ہوئی تھی رباب: کیا ہوا؟ اور پھر وہ بھی اٹھ کر دیکھنے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔۔ میں نے روکا اور پوچھا۔۔۔۔ کوئی صاف کپڑا یا چھوٹا تولیہ دو رباب: وہاں باتھ روم کی کیبنٹ میں ہے میں اندر باتھ روم میں آیا۔۔۔۔ چھوٹا تولیہ اٹھایا اور پلاسٹک مگ میں گرم پانی بھرا ٹب میں گرم پانی کا نل کھول کر میں اندر آیا۔۔۔۔ اس کے پاس بیٹھ کر اچھی طرح گرم پانی سے چوت صاف کی اور پھر سہارا دے کر اس کو اٹھایا اور باتھ روم میں لے جاکر کموڈ پر بیٹھا دیا۔۔۔۔۔۔ تھوڑی دیر میں اندر جا کر دیکھا وہ گرم پانی کے ٹب میں بیٹھی تھی اس کا تولیہ قریب رکھ کر میں اندر کمرہ میں آگیا۔۔۔۔۔ مجھے اس کو دیکھ کر افسوس ہو رہا تھا کہ میں نے اس کو اتنی تکلیف دی ۔۔۔۔۔ میں نے چادر کو بھی گیلے تولیے سے صاف کر دیا۔۔۔۔۔ رباب آہستہ سے چلتی ہوئی میرے پاس آگئی میں : درد زیادہ تو نہیں ہے۔۔۔ ڈاکٹر کے پاس لے چلوں اور وہ ہنس دی۔۔۔ میرے پاس بیٹھتے ہوئے بولی۔ میرے جانو۔۔۔۔۔ یہ نارمل ہے۔۔۔۔ تھوڑی جلن اور درد ہے ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔۔ تم نے تو پھر بھی آرام سے کیا ہے بعض لوگ تو جنگلی پنے سے کرتے ہیں کہ بچاری لڑکی کے ٹانکے لگانے پڑتے ہیں۔۔۔۔ اس کی بات سن کر میں نے سکون کی سانس لی اور اسے اپنی بانہوں میں اٹھا کر بیڈ پر لیٹا دیا۔۔۔۔ نیم دراز ہو کے اس کو اپنی بانہوں میں لے لیا۔۔۔۔۔اور اس کے دودھ اپنے منہ میں لے کر آہستہ آہستہ چوسنے لگا اور بیچ بیچ میں ہم باتیں بھی کرتے رہے۔ رباب کمرے سے باہر نکل گئی اور میں ٹانگیں پھیلا کر اس کے جہازی سائز بیڈ پر آرام سے لیٹ گیا اور اپنے مرجھائے ہوئے عضو کو دیکھنے لگا جس نے آج زندگی میں پہلی بار جنس مخالف کےاندر جانے کا مزا چکھا تھا ۔۔۔۔ اس کو چیرا پھاڑا تھا اور اب سکون سے بےدم پڑا تھا۔۔۔۔۔۔ پھر سوچ کا رخ رباب کی طرف مڑ گیا اور میں اس کے بارے میں سوچنے لگا اتنے میں رباب کمرے میں داخل ہوئی۔۔۔۔ اس کے ہاتھ میں اک ٹرے تھی جس میں دو مگ رکھے تھے۔۔۔۔۔ عاشر چلو دودھ پی لو۔۔۔۔۔ مجھے مخاطب کر کے اس نے سائیڈ ٹیبل پر ٹرے رکھ دی۔
میں نے اُسے اپنی بانہوں میں جکڑتے ہوئے کہا ابھی تو پیا ہے وہ مسکرائی اور بولی اب اصل والا پی لو۔۔۔۔۔ تازہ دم ہو جاؤ گے مگر جو مزا اس میں تھا وہ اس میں کہاں۔۔۔۔۔ اس کے اُبھار کو دباتے ہوئے میں نے کہا اچھا بابا۔۔۔۔اس کو پینے کے بعد یہ بھی پی لینا۔۔۔۔۔ ویسے بھی یہ اب تمہارے نام ہو چکا ہے۔۔۔۔ رباب نے مجھے ہونٹ پر چومتے ہوئے کہا ہم دونوں دودھ کی چسکیاں لینے لگے جب اچانک رباب کو کچھ یاد آیا اور اس نے اُٹھ کر بڑے سکرین پر ایک بلیو فلم لگا دی ارے تم یہ دیکھتی ہو۔۔۔۔۔ میں نے حیران ہو کر پوچھا نہیں۔۔۔۔۔ پہلی دفعہ دیکھی ہے۔۔۔۔ وہ بھی شان نے دی تھی کہا تھا کہ تم سے ملنے سے پہلے ضرور دیکھ لوں ۔۔۔۔۔فائدہ مند رہے گی۔۔۔۔۔ وہ لاپرواہی سے دودھ کا گھونٹ لے کر بولی شان نے دی تھی۔۔۔۔ میں تو اچھل پڑا ہاں۔۔۔۔ رباب میری طرف دیکھتی ہوئے بولی۔۔۔۔۔ اصل میں جس طرح شان تمہارا جگری دوست ہے ویسے ہی ریما میری جگری سہیلی ہے اور آجکل ان دونوں میں گاڑی چھن رہی ہے۔۔۔ وہ بات مکمل کر کے چپ ہو گئی اور میں بھی حیران ہوتا ہوا دودھ کے گھونٹ بھرتا رہا۔۔۔۔ میں اپنے اردگرد سے اتنا بے خبر تھا۔۔۔ میں نے اپنے آپ کو ڈانٹا اور الرٹ کیا کمرے میں سیکسی آوازیں گونج رہی تھیں۔۔۔۔۔ اس سکرین کا ساونڈ سیسٹم بہت اچھا تھا اور کمرے میں وہ ہلکی اور جاندار آواز میں کام دکھا رہا تھا۔۔۔۔ اور ہم کو پھر سے خمار چڑھ رہا تھا۔۔۔۔۔ مگ خالی کر کے ہم ٹی وی کی طرف متوجہ ہو گئے اور انہماک سے فلم دیکھنے لگے۔۔۔۔۔ آہستہ آہستہ ہمارے ہاتھ پھر ایک دوسرے کے جسموں پر رینگنے لگے اور ہم پھر سے جذبات میں بہنے لگے۔۔۔۔۔ چومنا چوسنا۔۔۔ چاٹنا اور دبانا۔۔۔۔۔اور پھر فائنلی رباب کی چوت کو فتح کرنا۔۔۔۔ سارا کچھ دوبارہ سے ہوا اور میں مزید مزے میں ڈوب گیا۔۔۔۔ واقعی آج کا دن شروع ہوتے ہی میری تو قسمت پلٹ گئی تھی۔۔۔ ایک دوسرے کو مزے اور لذت کی دنیا کی سیر کرواتے ہم پتہ نہیں کب سو گئے۔ میری آنکھ کھلی تو میں ننگا ہی بستر پر پڑا تھا اور میرے جسم پر ایک کمبل بھی پڑا تھا۔۔۔۔۔ سر گھما کر دیکھا رباب کی جگہ خالی تھی۔۔۔۔۔ کمرے میں دن کی ہلکی سی روشنی پھیلی ہوئی تھی جس سے پتہ چل رہا تھا کہ صبح ہو چکی ہے۔۔۔۔ میں اوپر کی طرف کھسک کر بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔۔۔۔ آج سے پہلے کبھی بھی اپنے آپ کو اتنا ہلکا پھلکا محسوس نہیں کیا تھا۔۔۔۔ پورے جسم میں سرشاری سی بھری ہوئی تھی اور مزے کی لہریں سی اُٹھ رہی تھیں۔۔۔ انھیں سوچوں میں گم تھا کہ رباب کمرے میں داخل ہوئی۔۔۔۔ وہ سیدھی میرے پاس آکر مجھ سے لگ کر بیٹھ گئی رباب: گڈ مارننگ۔۔۔۔ بلکہ گڈ آفٹر نون جانو اور پھر جھک کر مجھے چوما میں نے گرم جوشی سے جواب دیتے ہوئے اسے اپنی ٹانگوں پر لٹا لیا اور ہونٹوں سے ہونٹ جوڑ دیے۔۔۔۔ رباب پتلا سا نائٹی کا گاون پہنے ہوئے تھی اور اس کا گورا بدن لشکارے مار رہا تھا وہ شائد نہا چکی تھی کیونکہ اس کے بال نم تھے اور جسم سے بھی شاور جیل کی خوشبو آرہی تھی۔۔۔۔ ہم دونوں کا کس تھوڑی چلا اور پھر میں پیچھے ہٹ گیا میں : تم نے مجھے اُٹھایا کیوں نہیں ۔۔۔۔ آفس جانا تھا رباب: جی نہیں آج آپ کی چھٹی ہے اور آج کا آپ کا سارا دن میرے نام ہے۔۔۔ ویسے آپ پریشان مت ہوں۔۔۔۔ شان نے آفس کال کر کے بتا دیا ہے کہ آپ آج نہیں آئیں گے۔۔۔۔ وہ میرے سینے کے بالوں سے کھیلتی ہوئی بولی میں : اچھا تو یہ تم دونوں کی ملی بھگت ہے۔۔۔ میں نے مصنوعی غصہ دکھایا رباب ہنس پڑی اور کہا دونوں نہیں تینوں۔۔۔ ریما کو بھول گئے میں : ہاں ریما۔۔۔۔ ویسے یہ ریما کون ہے ؟ کیا مین جانتا ہوں رباب: نہیں آپ نہیں جانتے مگر کوئی بات نہیں آج آپ اس سے بھی مل لیں گے۔۔۔۔ وہ اور شان بھی ہمیں جوائن کریں گے ۔۔۔ڈنر پر۔۔۔۔ اس کی اس بات پر میں حیران رہ گیا میں: ڈنر پر۔۔۔۔ یہ ڈنر کہاں سے آگیا رباب اٹھ کر بیٹھ گئی اور پھر بولی کیوں تم آج ہمیں ڈنر نہیں دو گے میں : تم کو تو دو گا مگر ان کو نہیں۔۔۔۔ میرے اور تمہارے بیچ کوئ اور نہیں آنا چاہیے رباب: عاشر۔۔۔۔ وہ دونوں کوئی اور نہیں ہیں ۔۔۔۔۔ وہ ایک دم سنجیدہ ہو گئی۔۔۔۔جاننا چاہتے ہو کیسے۔۔۔۔۔ میں نے اثبات میں سر ہلا یا تو وہ بولی۔۔۔ ٹھیک ہے پھر سنو۔۔۔۔۔میں ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والی ۔۔۔۔۔ بدقسمتی سے ایک غیر معمولی حسین لڑکی تھی۔۔۔۔ جس نے اپنے آپ کو اس معاشرے کے بھیڑیوں سے کیسے بچایا ہےیہ وہ ہی جانتی ہے۔۔۔۔۔۔ میں چپ چاپ بیٹھا اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا جس پر دکھ اور درد کا سایہ منڈلا نے لگا تھا۔۔۔۔۔ ایک گہری سانس لے کر کہنے لگی۔۔۔۔ میں نے غریبی کے باوجود پرائیوٹ تعلیم حاصل کی۔۔۔۔۔ میٹرک میں تھی جب میرے ماں باپ ایک ٹریفک حادثے میں مر گئے۔۔۔۔۔۔ میرا باپ سبزی فروش تھا اور میری ماں ایک پرائیوٹ اسکول میں آیا گیری کرتی تھی۔۔۔۔ پہلے حالات اچھے نہیں تھے تو برے بھی نہیں تھے مگر ماں باپ کے مرنے سے خراب ہو گئے۔۔۔۔ میں نے ماں کی جگہ آیا گیری کرنی شروع کردی اور ساتھ ساتھ ٹیوشن بھی پڑھانا شروع کیا۔۔۔۔۔ ریما پہلے ہی ٹیوشن پڑھا رہی تھی اور ساتھ ساتھ وہ بی اے بھی کر چکی تھی اور اب ایم اے کی تیاری کر رہی تھی میں نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا کیا ریما تمہاری بہن ہے؟ رباب : نہیں مگر بہنوں سے بڑھ کر ہے۔۔۔۔ اصل میں ریما میرے ماں باپ کو بہت بری حالت میں ملی تھی۔۔۔۔۔ وہ گاؤں کی رہنے والی تھی اور اس کو فلموں میں کام کرنے کا شوق تھا۔۔۔۔۔۔اس نے اپنا نام ریما بھی خود ہی رکھا تھا اس کا اصل نام تو کچھ اور تھا۔۔۔ ایک دفعہ اس کے گاؤں کے پاس کسی فلم کی شوٹنگ ہوئی تھی تو اس کی وہاں کسی بندے سے بات چیت ہو گئی تھی۔۔۔۔۔ چودہ پندرہ سال کی عمر تھی اچھے برے کا کچھ نہیں پتہ تھا۔۔۔۔۔ بس اس چکا چوند سے متاثر ہو گئی اور اس بندے کے بہکانے میں آکر گھر سے بھاگ کر شہر آگئی۔۔۔۔۔۔ ابھی میٹرک پاس تھی اور زمانے کا کچھ بھی پتہ نا تھا۔۔۔۔۔ اس بندے کا پتہ پوچھتے ہوئے اس جگہ تک پہنچ گئی ۔۔۔۔۔ اس بندےنے اور اس کے دوستوں نے دو دن تک ریما کو خوب نچوڑا۔۔۔۔۔ اس کی عزت سے دل بھر کر کھیلے اور پھر اس کو نیم بے ہوشی میں سنسان جگہ پھینک گئے۔۔۔۔۔۔ میرے بابا سبزی کا ٹھیلا لے کر آرہے تھے انھوں نے دیکھ لیا اور وہ اس کو وہاں سے اٹھا کر گھر لے آئے۔۔۔۔۔ ماں بھی اس کی حالت دیکھ کرپریشان ہو گئی۔۔۔۔۔ مگر ان دونوں نے ریما کو بچا لیا اور اپنے رشتہ دار کی بیٹی ظاہر کر کے گھر میں ہی رکھ لیا۔۔۔۔۔ میں شاید دس سال کی ہوں گی۔۔۔۔۔ لاپرواہ سی مگر خوش تھی کہ اب کوئ تو میرے ساتھ بات کرنے والا ہو گا۔۔۔۔۔ ہماری دوستی ہو گئی اور ہم ساتھ میں پڑھنے لگے۔۔۔۔۔ ریما نے ہی میرے اندر پڑھائی کا شوق ڈالا اور مجھے احساس دلایا کہ پڑھائی کے بغیر کچھ نہیں ہے۔۔۔۔ اس نے بھی اپنی پڑھائی شروع کر دی۔۔۔۔ اس کو احساس تھا کہ اس نے کتنا غلط قدم اٹھایا تھا اور پھر جب سے اسے یہ پتہ چلا کہ اس کے گھر والے گاؤں چھوڑ کرچلے گئے ۔۔۔۔۔ کہاں کسی کو نہیں معلوم اس دن سے وہ اور بجھ گئی تھی ۔۔۔۔۔۔اس کو زندگی کی طرف لانے میں میرے ماں باپ کا بہت ہاتھ تھا۔۔۔۔۔ جنہوں نے اس کو پھر سے زمانے سے لڑنے کے لیے تیار کیا۔۔۔۔۔۔ اور پھر ہمارے برے وقت میں اس نےہی پورے طور سے ہمارا ساتھ دیا اور مجھے کسی چوزے کی طرح اپنے پروں میں چھپا لیا۔۔۔۔ میں ماں باپ کے انتقال پر ویسے ہی ہراساں تھی اس کی حفاظت میں پرسکون ہو گئی (اس نے میری طرف دیکھا اور پھر اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔۔۔۔ مجھ سے دور جاکر کھڑکی سے پردہ ہٹا دیا۔۔۔۔۔ دھوپ تیزی سے اندر آگئی اور کمرہ روشن ہو گیا) میں: پھر کیا ہوا؟ چپ کیوں ہو گئی۔۔۔۔ میں بھی بستر سے آٹھ کر اس کے پاس آگیا۔۔۔۔۔ اور بالکل ننگا کھڑااس کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ جب وہ مجھے اس حالت میں دیکھ کر مسکرائ اور پلٹ کر الماری سے ایک ڈریسنگ گاؤن نکال کر مجھے پہنایا۔۔۔۔ میں نے اسے اپنی بانہوں میں بھر لیا اور کس کر اپنے آپ سے بھینچ لیا۔۔۔۔ اس نے بھی اپنے آپ کو میرے اندر سمونے کی پوری کوشش کی۔۔۔۔ میں اس کی کمر سہلانے لگا ۔۔۔۔ میں سمجھ گیا تھا کہ وہ اداس ہو گئی ہے۔۔۔۔ ماضی کی دکھ بھری باتوں کو دوبارہ یاد کرنا آسان نہیں ہوتا چنانچہ اس کو اپنی سپورٹ دینے کی ایک چھوٹی سی کوشش کی رباب اپنے آپ پر قابو پا کر پھر بولی عاشر۔۔۔ خوب صورت ہونا اور اس پر غریب ہونا بہت بڑا قصور ہے۔۔۔۔ آپ لوگوں کے لیے آسان ٹارگٹ بن جاتے ہیں۔۔۔۔۔ ریما یہ صدمہ اٹھا چکی تھی۔۔۔ کم عمری۔۔۔۔ کم تعلیم۔۔۔۔ اور نا سمجھی کی بہت بڑی قیمت ادا کی تھی اس نے۔۔۔۔۔۔ اس لیے اس نے مجھے اس پریشانی سے بچانے کے لیے میری خوب صورتی کو بد صورتی کے پردے میں چھپانے کی کوشش کی۔۔۔۔۔ میرا رنگ سانولا کردیا اور مجھے ہر وقت نقاب میں رہنے پر مجبور کر دیا۔۔۔۔۔ وہ ٹھیک تھی ان احتیاطات کے باوجود میرے لیے اپنے آپ کو بچانا مشکل لگ رہا تھا۔۔۔۔اور آیا گیری بھی کرنی مشکل ہو گئی تھی۔۔۔۔۔۔ اس وقت ریما نے مجھے بہت سہارا دیا حالانکہ وہ مجھ سے دو چار سال ہی بڑی ہے مگر حالات نے اس کو بہت سمجھ دی تھی اور وہ میرے ماں باپ کی احسان مند بھی تھی کہ انھوں نے اسے اس وقت سہارا دیا تھا جب وہ مرنے کے قریب تھی اور اپنی عزت بھی لٹا بیٹھی تھی ۔ ۔۔۔۔ اس نے میری آیا گیری چھڑوا دی اور مجھے صرف گھر پر ٹیوشن پڑھانے پر رضامند کر لیا۔۔۔۔ مجھے بھی وہ کام پسند نہیں تھا بس پیسوں کی وجہ سے کر رہی تھی۔۔۔۔ چنانچہ میں نے آیا گیری چھوڑ دی اور پھر ہم دونوں نے مل کر زندگی کی گاڑی کو کھینچنا شروع کیا۔۔۔۔۔ کمپیوٹر ۔۔۔۔۔ شارٹ ہینڈ اور چند دوسرے اور کورس کر کے اس نے ایک آفس میں جاب شروع کر دی۔۔۔۔ اب وہ مکمل فارم میں تھی۔۔۔۔ بقول اس کے کہ عزت سے تو ہاتھ دھو بیٹھی ہوں مگر اب اور کسی کے لیے تر نوالا نہیں بنوں گی۔۔۔۔ اب اپنی شرطوں پر کام کروں گی۔۔۔۔ میں زیادہ تر گھر پر ہی رہتی تھی اور پڑھنے میں مصروف رہتی تھی۔۔۔۔ ریما کس کس طریقے سے مردوں کو الو بنا کر اپنا کام نکالتی رہی سب مجھے پتہ تھا۔۔۔۔ وہ مجھے بھی گائیڈ کرتی رہتی تھی کہ اپنے آپ کو کس طرح بچا کر مردوں کو پاگل بنانا ہے اور اپنا کام نکلوانا ہے۔۔۔۔۔ یہاں تک کہ اس کی رسائی اس ادارے تک ہو گئی اور پھر وہ ایک مستند انفارمر کی حیثیت سے اس جگہ کام کرنے لگی اور اس کی وجہ سےپڑھائی کے ساتھ ساتھ میں نے بھی یہاں جوائن کر لیا۔۔۔۔۔ بات ختم کر کے وہ چپ ہو گئی میں نے دونوں ہاتھوں کے پیالے میں اس کے چہرے کو بھرا اور کہا میرے لیے وہ قابل محترم ہے اور میں اس کی عزت میں کوئی کمی نہیں رکھوں گا اوہ عاشو۔۔۔۔۔ میری جان۔۔۔۔ آئی لو یو۔۔۔۔۔۔ آئی لو یو۔۔۔۔۔ وہ خوشی سے کہتی چلی گئی جب میں نے اس کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں سے بند کر دیا۔۔۔۔۔ ہم پھر سے ایک دوسرے کو کس کرنے لگے۔۔۔۔۔ میں نے اپنی زبان اس کے منہ میں ڈال دی اور وہ اسے چوسنے لگی۔۔۔۔۔ میرے نیچے ہلچل شروع ہوگئی اور ایک میٹھی سی کسک پورے بدن میں دوڑ گئی۔۔۔۔۔ میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اس کے ہپس کو دبایا اور وہ میرے منہ میں ہی سسک پڑی۔۔۔۔۔ میں نے ہپس سے ہی پکڑ کر اسے اٹھا لیا اور لا کربستر پر لٹا دیا اور اب اپنا کس توڑ دیا۔۔۔۔ اس کی ٹانگیں نیچے لٹک رہی تھیں اور باقی جسم اوپر تھا۔۔۔۔ ایک ہی لمحے میں۔۔۔ میں اس کے بدن سے گاؤن اتار کر پھینک چکا تھا۔۔۔۔۔ اور وہ مکمل ننگی میرے سامنے پڑی تھی۔۔۔ اس کی دونوں ٹانگوں کو مزید کھولتے ہوئے میں گھٹنوں کے بل اس کے سامنے بیٹھ گیا اور میرا منہ اس کی گلابی چوت پر پہنچ گیا۔۔۔۔ ایک ہاتھ سے چوت کے لبوں کو کھولتے ہوئے میری زبان بے قراری سے اس کے اندر داخل ہو گئی۔۔۔۔۔ اس کی تیز سسکی نے مجھے سب بھلا دیا اور میں اس پر ٹوٹ پڑا۔۔۔۔۔۔ میری زبان اس کے اندر تک جانے کی سر توڑ کوشش کر رہی تھی اور کافی حد تک کامیاب بھی تھی۔۔۔۔۔ رباب اس عمل کی شدت کی وجہ سے بری طرح مچل رہی تھی اور میں نے اس کو مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا۔۔۔۔ اب میں اس کے چوت کے دانے کو زبان سے چھیڑ رہا تھا اور میری بیچ کی انگلی اس کی چوت کے اندر باہر ہو رہی تھی۔۔۔۔
میں ایک ہاتھ سے چوت کے لب کھول رہا تھا اور میری انگلی تیزی سے اندر باہر ہو رہی تھی۔۔۔۔۔ رباب کی سسکاریاں بڑھتی جا رہی تھی اور پھر اس کا جسم اکڑنے لگا اور اس نے میرے سر کو اپنی ٹانگوں میں دبانا شروع کردیا۔۔۔۔۔ اس نے زور سے مجھے پکارا۔۔۔۔۔ افففففف آہہہہ ۔۔۔۔۔ اوہ اوہ۔۔۔۔۔۔ عاشر۔۔۔۔ اوہ عاشو میری جان ۔۔۔۔ اہہہہہہہہ اور پھر وہ جھٹکے لینے لگی۔۔۔۔۔ میں نے انگلی نکال کر اپنا منہ لگا دیا اور وہ گرم گرم پانی اپنے چہرے پر محسوس کرنے لگا۔۔۔۔چوت کی مہک مجھے مزید بہکانے لگی اور میں بے خودی میں اپنا چہرہ تیزی سے اس کی چوت پر رگڑنے لگا۔۔۔۔۔ رباب نے اپنے پیر اٹھا کر میرے کندھوں پر رکھ دیے اور گہری گہری سانس لینے لگی۔۔۔۔۔۔ سارا پانی اپنے چہرے پر مسل کر مجھے خاصا اطمینان ہوا اور میں بھی گہری سانس لے کر اٹھا اور اس کے برابر میں اس کی طرح سے پیر لٹکا کر لیٹ گیا اور آنکھیں بند کر لیں۔۔۔۔ دوسرے ہی لمحے ایک میٹھے سے مزے نے مجھے چھوا اور میں بدستور آنکھیں بند کیے اس کے مزے لینے لگا۔۔۔۔۔یہ رباب تھی جو پہلے میرے ماتھے سے مجھے چومنا شروع کرکے آنکھوں اور پھر گال۔۔۔۔ میرے کان۔۔۔۔ تھوڑی۔۔۔۔۔ سینے اور ناف سے ہوتے ہوئے میرے ہتھیار کو گرفت میں لے چکی تھی۔۔۔۔ اس کے نرم اور گرم ہونٹ اپنے عضو پر محسوس کر کے میں لذت میں ڈوب گیا تھا۔۔۔۔۔ اپنے آپ کو میں نے مکمل اس پر چھوڑ دیا تھا جو چاہے جیسا چاہے کرے اور وہ واقعی مجھے جنت کی سیر کروا رہی تھی۔۔۔۔۔ میرا مرجھایا ہوا ہتھیار جان تو اس وقت ہی پکڑ چکا تھا جب میں اس کی چوت چاٹ رہا تھا مگر اب رباب کے عمل نے اس کو لوہے کی طرح سخت کر دیا تھا۔۔۔۔۔ میرے ہتھیار سے اچھی طرح کھیل کر اور اس کو چوس کر اب وہ اس پر بیٹھ گئی ۔۔۔۔۔۔ افففففف کیسا کرنٹ لگا کہ میری آنکھیں کھل گئی تب میں نے دیکھا کہ اپنے دونوں پاؤں میرے دونوں طرف رکھے وہ میرے پورے ہتھیار کو اپنے اندر کرنے کی کوشش کر رہی تھی مگر تکلیف اس کے چہرے سے صاف نظر آ رہی تھی۔۔۔۔۔ آج پہلی دفعہ سیکس کروانے کے بعد ابھی اس کی چوت اتنی نہیں کھلی تھی کہ وہ آسانی سے میرے اتنے بڑے 8انچ لمبے اور 2 انچ موٹے ہتھیار کو آسانی سے اندر لے لے مگر صرف میرے مزے کے لیے وہ درد سہہ کر کوشش کر رہی تھی۔۔۔۔۔ مجھے اس پر بہت پیار آیا اور میں نے ایک دم کروٹ لے لی۔۔۔۔ اب وہ میرے نیچے آگئی اور میرا پھنسا ہوا عضو پھنستا ہوا اس کے اندر چلا گیا میں: کیوں اپنے آپ کو تکلیف میں ڈالتی ہو۔۔۔۔۔ابھی رات کو کتنا خون نکلا ہے اور کتنا درد تھا پھر ایسا کیوں کر رہی تھی۔۔۔۔۔ اس کے بکھرے بالوں کو اس کے چہرے سے سمیٹے ہوئے میں نے پیار سے کہا رباب: عاشر میں تم کومزا دینا چاہتی تھی۔۔۔۔۔ جیسے تم نے مجھے ابھی دیا۔۔۔۔ اور اس کے لیے میں ہر تکلیف برداشت کر سکتی ہوں میں نے اس کے لبوں کو زور سے چوما اور کہا میری جان۔۔۔۔ جس چیز سے تم کو تکلیف ہو گی تو مجھے کیسے اس میں مزا آئے گا۔۔۔۔۔ اب دوبارہ ایسا مت کرنا۔۔۔۔ ورنہ ورنہ۔۔۔۔ اس نے مجھے سوالیہ نظروں سے دیکھا ورنہ میں ناراض ہو جا ۔۔۔۔۔ اس سے پہلے کے میں بات مکمل کرتا اس نے میرے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ کر مجھےچپ کروا دیا اور کہا میں مر جاؤں گی اگر تم ناراض ہوئے تو اور میں نے شدت جذبات سے اس کو سینے سے کس کر لگا لیا اور نیچے سے اپنے ہتھیار کو تیز تیز اندر باہر کرنے لگا۔۔۔۔بریسٹ کو چوستے ہوئے میں اپنی رفتار بڑھا چکا تھا ۔۔۔۔ رباب لذت اور مزے سے پاگل ہو رہی تھی اور بری طرح مچل رہی تھی۔۔۔۔ اپنے جسم کا زور ڈالتے ہوئے میں نےاس کے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں میں اپنی انگلیاں پھنسا کر دونوں ہاتھ اس کے سر کے اوپر لے گیا۔۔۔۔۔ رباب دونوں پیروں کو بستر پر بری طرح رگڑ رہی تھی اور میرا نام ٹکڑوں میں اس کے منہ سے نکل رہا تھا اور شہد کی طرح میرے کانوں میں ٹپک رہا تھا۔۔۔۔۔۔ عا۔۔۔ عاشر۔۔۔ آہہہہہ اوہ ۔۔۔۔ عاشر۔۔۔۔ اففففف اوہ عاشو ۔۔۔۔۔۔ جانو میری رفتار تیز ہوتی گئ مجھے لگا کہ میں اب جھڑنے کے قریب ہوں تو میں نے رباب کے ہاتھوں کو آزاد کر کے اسے کمر سے پکڑ لیا۔۔۔۔۔ اور اسی لمحے میرا نام لیتے ہوئے اس نے اپنی انگلیاں میری کمر میں گاڑ دیں اور اس کے مزے سے میں جھڑنے لگا اور ساتھ اس کی چوت میں سیلاب آگیا۔۔۔۔ ہم دونوں شانت ہو گئے اور برابر لیٹ کر گہری گہری سانسیں لینے لگے رباب: جانو اب اٹھ جاؤ۔۔۔۔ مجھے بھوک لگ رہی ہے میں : ارے ابھی بھی بھوک باقی ہے اور وہ ہنس دی جناب میں پیٹ کی بھوک کی بات کر رہی ہوں۔۔۔۔۔ جسم کی بھوک کی نہیں۔۔۔۔ وہ کہنی کے بل کروٹ لے کر میری طرف دیکھتے ہوئے بولی میری جان۔۔۔۔ سب سے خطرناک یہ جسم کی بھوک ہوتی ہے۔۔۔۔ جو بڑی مشکل سے ختم ہوتی ہے بلکہ ختم نہیں کم ہوتی ہے ۔۔۔۔ میں نے بھی اس کی طرف کروٹ لیتے ہوئے اپنی انگلی سے اس کے ہونٹوں کو نرمی سے رگڑا جی جناب آپ ٹھیک فرما رہے ہیں ۔۔۔۔۔ مگر اب اٹھ جائیں ۔۔۔۔۔ اس نے مجھے کھنچ کر اٹھایا اور اسی طرح کھینچتے ہوئے باتھ روم میں لے آئی مگر پھر میں نے اس کو باہر جانے نہیں دیا بڑے سے جاکوزی باتھ ٹب میں پانی بھر کر اس نے ٹیمپریچر سیٹ کیا۔۔۔۔ کولون اور شاور جل ملایا۔۔۔۔۔ خوب جھاگ بن گیا اور ہم دونوں اس میں بیٹھ گئے۔۔۔۔ جھاگ اور پانی ہمارے سینے تک آگئے تھے۔۔۔۔ نیم گرم پانی خوشبو والا پانی اعصاب پر اچھا اثر ڈال رہا تھا۔۔۔۔۔ میری پشت ٹب سے لگی ہوئی تھی اور رباب کی پشت مجھ سے۔۔۔۔ میں نے شاور اسپنج اُٹھایا اور ٹب کے پانی میں ڈوبا کر رباب کے بدن پر نچوڑنے لگا۔۔۔۔۔ ساتھ ساتھ میں نے اس کے کندھے کو اور پیچھے کی گردن کو چوسنا شروع کر دیا۔۔۔۔۔رباب نے اپنے دونوں بازو پیچھے کرکے میری گردن میں ڈال دیے اور مجھے اپنے سے اور چپکا لیا۔۔۔۔ ہم دونوں ایک دوسرے کے جسم سے کھیلنے لگے۔۔۔۔ رباب رخ بدل کر میرے سامنے آگئی اور اب ہم دونوں ایک دوسرے کے لب چومنے لگے۔۔۔۔۔ حرارت بڑھنے لگی اور پھر رباب کھڑی ہو گئی اس نے اپنا ایک پیر پیچھے ٹب کی دیوار پر رکھ دیا اور میرے بالکل قریب ہوگئی۔۔۔۔ میں نے سوالیہ نظروں سے اُسے دیکھا۔۔۔۔ اس نے میرے منہ کے پاس موجود چوت کے لپس اپنے انگلیوں سے کھول دیے اور سر سے اشارہ کیا۔۔۔۔ اس دعوت سے تو کوئی کافر ہی انکار کرتا۔۔۔۔۔ تھوڑا سا آگے ہو کر میں نے منہ چوت کے اندر گھسا دیا۔۔۔۔ رباب لڑکھڑا گئی مگر میں نے اس کے ہپس پر ہاتھ رکھ کر اسے تھام لیا اور زبان کے چٹخارے لینے لگا۔۔۔۔۔۔اندر باہر اوپر نیچے میری زبان بہترین کارکردگی دکھا رہی تھی کیونکہ رباب کی سسکاریاں بڑھتی جا رہی تھیں اور وہ میرے سر کو مزید اندر دبائے جا رہی تھی۔۔۔۔۔ اور پھر وہ جسم کو اکڑانے لگی اب وہ جھڑنے والی تھی۔۔۔۔ اور پھر تیز سسکیوں میں ٹوٹا پھوٹا میرا نام لیتی ہوئی وہ جھڑ گئی۔۔۔۔۔ نڈھال ہو کر وہ سینے پر سر ٹکا کر لیٹ گئی۔۔۔۔۔میں نے بھی اس کو اپنی بانہوں میں سمیٹ لیا۔۔۔۔ تھوڑی دیر گزر گئی اور ہم مست پانی میں پڑے رہے۔۔۔۔۔پھر کلاک کے گھنٹے کی آواز آئی اور رباب نے آنکھیں کھول دیں ۔۔۔۔۔ اوہ تین بج گئے۔۔۔۔۔ میں چونک گیا ۔۔۔۔کیا۔۔۔۔۔ دن کے تین بجے ہیں؟ جی جناب۔۔۔۔۔ اب اٹھیں۔۔۔۔ یہ کہتے ہوئے وہ ٹب سے نکل کر شاور کے نیچے جا کر کھڑی ہو گئی۔۔۔۔۔ میں بھی اس کے پیچھے آگیا اور ہم دونوں ایک دوسرے کو مل مل کر نہلانے لگے۔۔۔۔۔ رباب کے لمس نے میرے ہتھیار کو ہوشیار کر دیا اور تن کر کھڑا ہو گیا۔۔۔۔ رباب کے ہپس میں چبھا تو اس نے مڑ کر دیکھا تو میں نے بے بسی سے کندھے اچکاے اور وہ مسکراتے ہوئے اپنے گھٹنوں پر بیٹھ گئی اور میرے عضو کو منہ میں لیے لیا۔۔۔۔ میں نے مزے کی گہرائیوں میں ڈوب کر آنکھیں بند کر لیں۔۔۔۔۔ رباب نے اوپر سے لے کر نیچے تک خوب چوسا۔۔۔۔۔ میری بالز کو خوب چاٹا اور منہ میں بھرا۔۔۔۔ میں نے لذت میں ڈوب کر اس کے سر کو اور اپنی طرف دبا دیا اور اس کے نتیجے میں میرا عضو اس کے حلق تک چلا گیا اور اس کی سانسیں سی رکنے لگی۔۔۔ اس نے مجھے ایک دم دھکا دیا اور میں نے آنکھیں کھول دیں۔۔۔۔۔ رباب بڑی بڑی سانسیں لیتے ہوئے بولی کیا کرتے ہو جانو ۔۔۔۔ میری سانسیں رک گئی تھیں۔۔۔۔ اوہ سوری جانو۔۔۔۔ میں نے معذرت کی اور وہ پھر سے میرے ہتھیار کے ساتھ مصروف ہو گئی۔۔۔۔۔ ہاتھوں اور اپنے نازک لبوں کا استعمال کرکے اس نے مجھے بھی فارغ کروایا اور پھر ہم نہا کر باہر آگئے تولیہ سے جسم صاف کرتے ہوئے میں نے اپنے کل کے اتارے ہوئے کپڑے اٹھائے مگر رباب نے روک دیا رباب نے الماری کھول کر ایک ہینگر نکالا اور مجھے دیتے ہوئے کہا عاشر میری طرف سے سالگرہ کا تحفہ میں حیران رہ گیا اوربولا میری جان کل سے اب تک سالگرہ کے تحفے ہی جمع کر رہا ہوں اب تک ختم نہیں ہوئے۔۔۔۔ ابھی اور کتنے باقی ہیں رباب: میرا بس چلتا تو ساری دنیا تم پر سے وار دیتی۔۔۔۔۔ میں نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسے اپنی بانہوں میں بھر لیا اور کہا یہ تو میرا ڈائیلاگ ہونا چاہیے تھا اور اس نے میرے ہاتھ کو کس کرکے ہٹایا اور بولی تم اور میں اب ایک ہیں تم کہو یا میں ۔۔۔ کوئ فرق نہیں پڑتا۔۔۔۔ چھوڑو یہ سب اور بتاؤ یہ سوٹ پسند آیا یا نہیں میں نے ہینگر اس کے ہاتھ سے لے کر دیکھا۔۔۔۔ اسٹیل گرے کلر کا ٹو پیس سوٹ تھا۔۔۔۔۔ لائٹ پر پل کلر کی شرٹ اور گرے اور پر پل کلر کی ٹائی کے ساتھ اس کے ذوق کا آئینہ دار بنا ہوا تھا میں : بہت اچھا ہے ۔۔۔۔ زبردست مگر سب سے اچھا تو دینے والا ہے۔۔۔۔ اس کے ہونٹوں پر ایک زور سے کِس کیا رباب خوش ہوگئی اور بولی جی نہیں پہننے والا بھی تو شاندار ہے۔۔۔۔ مگر ابھی مت پہننا ۔۔۔۔ورنہ کریز خراب ہو جائے گئی۔۔۔۔ اس نے مجھے روک دیا کیوں؟ میں نے پوچھا رباب: وہ ہم پہلے ناشتا کریں گے پھر کپڑے بدل کر باہر چلیں گے۔۔۔ریسٹورنٹ میں ٹیبل بک ہے۔۔۔ جہاں ہم چاروں ڈنر کریں گے۔۔۔۔ جس کا بل تم دو گے۔۔۔۔ شرارت سے دیکھتے ہوئے اس نے مجھے آج کے پروگرام کے بارے میں بتایا میں : ٹھیک ہےبابا۔۔۔۔ بل کیا جان بھی کہو تو دےدے گیں ۔۔۔۔ مگر ایک پروگرام میرا بھی ہے وہ پورا کرکے ہم ڈنر کے لے چلیں رباب نے الماری کھول کر ایک ہینگر نکالا اور مجھے دیتے ہوئے کہا عاشر میری طرف سے سالگرہ کا تحفہ میں حیران رہ گیا اوربولا میری جان کل سے اب تک سالگرہ کے تحفے ہی جمع کر رہا ہوں اب تک ختم نہیں ہوئے۔۔۔۔ ابھی اور کتنے باقی ہیں رباب: میرا بس چلتا تو ساری دنیا تم پر سے وار دیتی۔۔۔۔۔ میں نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسے اپنی بانہوں میں بھر لیا اور کہا یہ تو میرا ڈائیلاگ ہونا چاہیے تھا اور اس نے میرے ہاتھ کو کس کرکے ہٹایا اور بولی تم اور میں اب ایک ہیں تم کہو یا میں ۔۔۔ کوئ فرق نہیں پڑتا۔۔۔۔ چھوڑو یہ سب اور بتاؤ یہ سوٹ پسند آیا یا نہیں میں نے ہینگر اس کے ہاتھ سے لے کر دیکھا۔۔۔۔ اسٹیل گرے کلر کا ٹو پیس سوٹ تھا۔۔۔۔۔ لائٹ پر پل کلر کی شرٹ اور گرے اور پر پل کلر کی ٹائی کے ساتھ اس کے ذوق کا آئینہ دار بنا ہوا تھا میں : بہت اچھا ہے ۔۔۔۔ زبردست مگر سب سے اچھا تو دینے والا ہے۔۔۔۔ اس کے ہونٹوں پر ایک زور سے کِس کیا رباب خوش ہوگئی اور بولی جی نہیں پہننے والا بھی تو شاندار ہے۔۔۔۔ مگر ابھی مت پہننا ۔۔۔۔ورنہ کریز خراب ہو جائے گئی۔۔۔۔ اس نے مجھے روک دیا کیوں؟ میں نے پوچھا رباب: وہ ہم پہلے ناشتا کریں گے پھر کپڑے بدل کر باہر چلیں گے۔۔۔ریسٹورنٹ میں ٹیبل بک ہے۔۔۔ جہاں ہم چاروں ڈنر کریں گے۔۔۔۔ جس کا بل تم دو گے۔۔۔۔ شرارت سے دیکھتے ہوئے اس نے مجھے آج کے پروگرام کے بارے میں بتایا میں : ٹھیک ہےبابا۔۔۔۔ بل کیا جان بھی کہو تو دےدے گیں ۔۔۔۔ مگر ایک پروگرام میرا بھی ہے وہ پورا کرکے ہم ڈنر کے لے چلیں گے۔۔۔میں نے سسپنس پیدا کیا۔ کیسا پروگرام۔۔۔۔ رباب نے حیرت سے پوچھا اور مجھے ڈریسنگ گاؤن پہننے میں مدد دی۔۔۔۔ وہ خود بھی پتلا نائٹ گاؤن پہن چکی تھی۔ بتاؤں گا۔۔۔۔ ابھی تو کھانے کو دو۔۔۔۔ بہت بھوک لگی ہے۔۔۔۔ میں اس کا دھیان دوسری جانب لگا کر باہر لے آیا اور اب میں رباب کا گھر غور سے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ بالکل بھی نہیں لگ رہا تھا کہ کوئی یہاں رہتا ہے۔۔۔۔ صرف رباب کا بیڈ روم اچھے سے سجا تھا اور لاونج میں بید کا صوفہ سیٹ تھا اور ڈائننگ روم میں ایک آٹھ کرسیوں والی ڈائننگ ٹیبل۔۔۔۔ کچن میں بھی بہت تھوڑے برتن تھے۔۔۔۔ میں کچن میں ایک چھوٹی سی میز پر بیٹھا ادھر اُدھر دیکھ رہا تھا جب رباب نے ہاٹ پاٹ میرے سامنے رکھا۔۔۔۔۔ وہ ایک چولھے پر چائے اور دوسرے پر آملیٹ بنا رہی تھی۔ میں نے پوچھا یہ گھر کس کا ہے میرا ہے۔۔۔۔ ابھی سال ہوا ہے مکمل ہوا ہے۔۔۔۔ اس نے کام میں مصروف رہتے ہوئے مجھے بتایا تو تم اور ریما ادھر رہتی ہو۔۔۔ میں نے آگے جاننا چاہا نہیں ہم دونوں ایجنسی کے لیڈیز ہوسٹل میں رہتے ہیں۔۔۔۔ اس نے جواب دیا تو پھر یہاں کون رہتا ہے؟ میں نے پوچھا کوئی نہیں۔۔۔۔ اس نے آملیٹ کی پلیٹ میرے سامنے رکھتے ہوئے جواب دیا کیا مطلب جب گھر ہے تو ہوسٹل میں کیوں رہتی ہو۔۔۔۔ میں ابھی تک الجھا ہوا تھا میرے سامنے چائے کا مگ رکھتے ہوئے وہ بولی۔۔۔۔ تم ناشتا شروع کرو میں بتاتی ہوں ۔۔۔۔۔ آصل میں میرے ماں باپ غریب ضرور تھے مگر انھوں نے اپنی کفایت شعاری سے ایک 80 گز کے پلاٹ پر گھر بنایا ہوا تھا۔۔۔۔ ان کے گزر جانے کے بعد کچھ عرصہ ہم وہیں رہے کیونکہ غریبوں کی آبادی تھی اور وہاں سب ہم کو جانتے تھے۔۔۔۔ میں انٹر کے امتحان دے کر اور ریما ماسٹرز کرکے فارغ ہو چکی تھی جب ہم کو وہ جگہ چھوڑنی پڑی کیوں؟ میں نے ہاتھ روک کر اس سے پوچھا وہ گہری سانس لے کر بولی ماں باپ کے گزر جانے کے بعد ہم صرف دو سال ہی وہاں رہ سکے۔۔۔۔ پہلے سال ہی محلے کے ایک دو گھروں سے میرا اور ریما کے لیے شادی کی پیش کش ہوئی تھی۔۔۔۔ظاہر ہے وہ مجھے بچپن سے جانتے تھے اور میری خوب صورتی سے واقف تھے اور ریما بھی کم حسین نہیں تھی۔۔۔ ہم دونوں اس آفت سے پریشان ہو گئے۔۔۔ اتنی جلدی شادی کا اور وہ بھی اپنے جیسے ہی غریب گھرانے میں شادی کرنے کا ہم دونوں کا کوئی ارادہ نہیں تھا مگر ہم اتنی جلدی کسی سے بگاڑنا بھی نہیں چاہتے تھے۔۔۔۔ ریما نے انتہائی چالاکی سے ان کھرانوں کو ٹالا۔۔۔۔ اور ان سے بہانے بنا کر سوچنے کے لیے ٹائم مانگا۔۔۔۔۔وہ لوگ مان گئے اور ہمارا خیال پہلے کی طرح رکھنے لگے۔۔۔۔ اس دوران ٹیوشن سےاور پارٹ ٹائم جاب کرکے ہم نے کچھ پیسے بھی جمع کر لیے۔۔۔۔۔ قسمت سے ریما کی ملاقات ایک کیس کے دوران ناصر سے ہو گئی۔۔۔۔۔ اور دونوں کی دوستی ہو گئی۔۔۔۔۔ ریما نے اس کی دوستی کا فائدہ اٹھایا اور اچھے دام لگوا کر وہ گھر جو ایک پس ماندہ علاقے میں تھا بیچ دیا ناصر کون۔۔۔۔۔ میں نے پوچھا ناصر اسی ایجنسی میں کام کرتا تھا۔۔۔ اب سب کچھ چھوڑ کر امریکہ شفٹ ہو گیا ہے۔۔۔۔ اس کے سالے نے اس کو پوری فیملی کے ساتھ وہاں بلوا لیا۔۔۔۔ اس کی دوستی سے ہم دونوں کو بہت فائدہ ہوا۔۔۔۔ اس علاقے سے ہماری جان چھوٹ گئی اور ہم اس ادارے میں جاب حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔۔۔۔ رباب ناشتا کرتے ہوئے بتاتی جا رہی تھی اس کام کی کوئی قیمت نہیں وصول کی ناصر نے۔۔۔۔ میں نے پلیٹ صاف کرتے ہوئے پوچھا مفت میں کون کسی کے کام آتا ہے اور وہ بھی کسی غریب کے۔۔۔۔۔ ناصر نے اپنی قیمت ریما سے امریکہ جانے والے دن تک وصول کی۔۔۔۔۔ مگر یہ ماننا پڑے گا کہ ریما نے اس کو صحیح طریقے اور صحیح وقت پر استعمال کیا۔۔۔۔ اس نے مجھے ناصر کے سامنے بھی نہیں آنے دیا اور اس کو اپنی حد تک ہی رکھا۔۔۔۔ خیر۔۔۔۔ وقت گزرتا گیا اور ایک سال میں ہم نے مزید پیسے جمع کر لیے کیونکہ ہمارا خرچا تو ناصر اٹھا رہا تھا۔۔۔۔ سو ہمارے پیسے بچ رہے تھے۔۔۔ ادارہ جوائن کرنے سے سیلری میں بھی اضافہ ہو گیا تھا۔۔۔۔ میں نے بھی ایک کوچنگ سینٹر جوائن کر لیا تھا جو مجھے اچھے پیسے دے رہا تھا۔۔۔۔ ظاہر سی بات ہے وہ ایک پوش علاقہ تھا ایک منٹ تم نے بتایا نہیں کہ گھر بیچنے کے بعد تم دونوں کہاں رہیں؟ چائے کے گھونٹ لیتے ہوئے میں نے سوال کیا رباب: گلشن میں ناصر کے سالے کا ایک فلیٹ تھا۔۔۔۔ وہاں ہم شفٹ ہوگئے تھے۔۔۔ اس فلیٹ کا سارا انتظام ناصر کے ہاتھ میں تھا۔۔۔۔ پوش علاقہ تھا کسی کو کسی کی خبر نہیں۔۔۔۔ ناصر چونکہ شادی شدہ تھا اس لیے وہ ویسے بھی ہوشیار رہتا تھا۔۔۔۔ آنے سے پہلے سب کچھ دیکھ بھال کر آتا تھا اور رات گزار کر چلا جاتا تھا تمہارا اس سے آمنا سامنا نہیں ہوا۔۔۔ میں نے پھر بیچ میں اس کی بات کاٹ کر سوال کیا نہیں ہم دونوں بہت محتاط تھے اس سلسلے میں۔۔۔۔۔ اس نے بھی چائے پیتے ہوئے جواب دیا اچھا پھر اس گھر تک کیسے پہنچی۔۔۔۔ میں نے پوچھا رباب نے مسکرا کر دیکھا اور بولنا شروع کیا۔۔۔۔ ہم پیسے بچاتے گئے اور فکس ڈیپازٹ میں بھی ہمارے پیسے جو ہم نے گھر بیچ کر جمع کروائے تھے وہ بھی بڑھتے چلے گئے ہم ملنے والے منافع کو بھی اسی میں جمع کروا دیتے تھے۔۔۔۔ اس دوران ادارے میں کمپیوٹر سے منسلک جگہ خالی ہوئی اور میں نے ریما کے کہنے پر اپلائی کر دیا۔۔۔۔ اور میں سلیکٹ ہو گئی۔۔۔۔ یہ ایک عارضی جاب تھی اور پارٹ ٹائم تھی۔۔۔۔۔ پیسے اچھے تھے کوچنگ چھوڑ کر میں نے بھی یہ ادارہ جوائن کر لیا۔۔۔۔۔ میری کارکردگی اچھی دیکھ کر مجھے مستقل کر دیا اور میں پڑھنے کے ساتھ ساتھ کمانے بھی لگی۔۔۔۔۔دو سال گزر گئے۔۔۔۔۔ میں ماسٹرز کے پہلے سال میں تھی ایک دن میں اور ریما ساحل پر تفریح کے لیے آئے تھے کہ واپسی پر ہم نے اس بنگلے پر برائے فروخت کا بورڈ دیکھا۔۔۔۔ اس وقت یہ بنا ہوا نہیں تھا۔۔۔۔ صرف ایک اونچی سی باونڈری وال تھی اور اسٹرکچر بھی مکمل کھڑا تھا مگر صرف اینٹوں پر۔۔۔۔ دیے گئے نمبر پر بات ہوئی تو ہم اس بندے سے ملنے آے۔۔۔۔ وہ ایک آدھیڑ عمر کا آدمی تھا۔۔۔۔ بچے سب باہر کے ملکوں میں سیٹ تھے اور اب دونوں میاں بیوی کو بھی اپنے پاس بلا رہے تھے چنانچہ وہ اپنی بے کار پڑی جائیداد بیچ کر جانا چاہ رہا تھا۔۔۔۔۔ مزے کی بات یہ تھی کہ اس نے ان دونوں بنگلوں کا سودا ہم سے کر لیا اور ہم نے کچھ پیسے ہاؤس بلڈنگ سے قرض لے کر دونوں بنگلے خرید لیے دونوں بنگلے۔۔۔۔ میں نے پوچھا ہاں ۔۔۔۔ یہ میرا بنگلہ ہے ۔۔۔۔ برابر والا ریما کا ہے۔۔۔۔ مگ خالی کر کے وہ اٹھ گئی اور برتن سمیٹنے لگی۔۔۔۔ اس کا ساتھ دینے کے لیے میں بھی اٹھ گیا۔۔۔۔ برتن سنک میں رکھے اور ٹیبل صاف کرنے لگا۔۔۔۔ رباب نے مجھے منع کیا مگر میں نے کہا کوئی بات نہیں میں اپنے گھر میں بھی تو کرتا ہوں ۔۔۔۔ تم جلدی سے کچن سمیٹو۔۔۔۔۔ چار بج رہے ہیں ۔۔۔۔ دیر ہو رہی ہے وہ جلدی جلدی برتن دھو کر کچن صاف کرکے میرے ساتھ کمرے میں آگئی اور اب ہم دونوں تیار ہونے لگے میں دس منٹ میں تیار ہو گیا پھر اس کی طرف نظر کی تو جیسے نظروں نے واپس آنے سے انکار کر دیا۔۔۔۔ لائٹ پر پل کلر کی بے تحاشا کلیاں والی فراک۔۔۔۔ جس کی اوپری باڈی ڈارک پر پل ویلوٹ کی تھی اور گھیر پر ڈارک پر پل اور سلور دھاگے سے کام ہوا تھا۔۔۔۔ اس کے ساتھ پر پل ہی جامہ وار کا تنگ پاجامہ تھا۔۔۔ اسے اس طرح دیکھ کر میرا عضو انڈر وئیر میں تنگ ہو گیا۔۔۔۔ افففف کتنا مشکل ہے نظر بچانا۔۔۔ رباب ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے اسٹول پر بیٹھ کر سینڈل پہن رہی تھی اور جھکے ہونے کی وجہ سے گلا آگے سے لٹکا ہوا تھا اور اس سے اس کے بریسٹ اور اس پر چپکے ہوئے پیڈ صاف نظر آ رہے تھے۔۔۔۔۔میں اس کو کھڑا دیکھتا رہا یہاں تک کے وہ کھڑی ہوگئی۔۔۔۔ شیشے میں مجھے دیکھ کر مڑی اور پوچھا۔۔۔۔ کیا ہوا؟ ایسے کیا دیکھ رہے ہو۔۔۔۔ ادھر آو اور پیچھے سے ڈوری باندھ دو۔۔۔۔ اس نے اشارہ کیا میں اس کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا اور اس کو کندھوں سے پکڑ کے گھمایا اور اس کے لمبے گھنے بال جو اس کے ہپس تک جا رہے تھے ایک طرف کندھے پر کیا۔۔۔۔ اس کی کمر پوری طرح ننگی ہو گئ۔۔۔۔ ڈوری کے سرے پکڑ کر میں نے باندھ دیے اور پھر جھک کر اس کی ننگی کمر کو چوم لیا۔۔۔۔۔ اس کے جسم میں تھرتھری سی دوڑ گئی اور وہ پیچھے ہٹنے لگی مگر میں نے پیچھے سے اسے جکڑ لیا اور سرگوشی کی میرا ارادہ پکا ہے اب کیوں مجھے بے موت مارنا چاہ رہی ہو۔۔۔۔ رحم کرو مجھ غریب پر رباب: کس بات کا پکا ارادہ ۔۔۔۔ شیشے میں مجھے دیکھتے ہوئے اس نے پوچھا شادی کا۔۔۔۔ میں نے جیسے بم پھوڑا کیا۔۔۔۔ کیا کہا تم نے۔۔۔۔ وہ حیران ہو گئی اور میں نے اسے اپنی بانہوں سے آزاد کرتے ہوئے اس کا رخ اپنی طرف موڑا اور اپنے دونوں ہاتھ کی ہتھیلیوں میں اس کے چا ند جیسے مکھڑے کو بھرتے ہوئے کہا۔۔۔۔ ہاں۔۔۔۔ شادی۔۔۔۔ ابھی ہم تیار ہو کے چلیں گے۔۔۔ میرے علاقے کے مولوی صاحب سے جان پہچان ہے۔۔۔۔ وہ ہمارا نکاح پڑھائیں گے اور پھر ہم ڈنر کے لیے جائیں گے۔۔۔۔ بات ختم کر کے میں نے رباب کی طرف دیکھا جو دنگ کھڑی تھی۔۔۔۔۔ کیا ہوا یقین نہیں آرہا۔۔۔۔ میں پوچھا اور اس نے اثبات میں سر ہلا یا رباب میری جان ۔۔۔۔۔ تمہارے اور میرے حالات ملتے ہوئے ہیں۔۔۔۔ ہم بے شک پچھلے آٹھ مہینوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں اور یہ بے شک ہماری پہلی ملاقات ہے مگر اس ملاقات نے ہم دونوں کو ایک دوسرے پر کھول دیا۔۔۔۔ ایک دوسرے کی محبت کو جان کر ہی ہم نے یہ ملاقات کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔۔۔۔ تم مجھ سے واقف تھیں اور میں صرف آواز سے اور تمہاری معصوم باتوں پر فدا تھا۔۔۔۔ میں نے تمہیں اپنے خوابوں سے بڑھ کر پایا ہے اور اب کھونا نہیں چاہتا۔۔۔۔ تم نے اپنا آپ مجھ پر لٹا دیا اور میں نے بھی اپنا آپ تم پر قربان کردیا۔۔۔۔ اب سوچنے کا کوئی موقعہ نہیں ہے۔۔۔۔ میں آج اور ابھی تمہیں اپنی شریک حیات کا درجہ دے رہا ہوں ۔۔۔ اب تم بتاؤ۔۔۔۔۔ مجھ سے شادی کرو گی۔۔۔۔ میں نے اپنی بات ختم کرکے اس کی طرف دیکھا اور اس ساکت کھڑا دیکھ کر جھنجھوڑ دیا وہ کسی ٹوٹی ہوئ درخت کی شاخ کی طرح مجھ سے لپٹ گئی اور بولنے لگی۔۔۔۔ ہاں کروں گی۔۔۔۔ ضرور کروں گی اور صرف تم سے کروں گی۔۔۔۔تمہارے علاوہ کسی اور کا ہونے کو تو میں نے سوچا بھی نہیں تھا۔۔۔۔ آئی لو یو عاشر۔۔۔۔۔ آئی لو یو میں اپنی بانہوں کا گھیرا تنگ کرتے ہوئے اس کے سر کے بالوں کو چومتے ہوئے کہا۔۔۔۔ آئی لو یو ٹو میری جان تھوڑی دیر اسی طرح کھڑے رہنے کے بعد میں نے اسے الگ کیا اور اپنی انگلی سے اس کا جھکا ہوا چہرہ اوپر اٹھایا۔۔۔۔۔ گالوں پہ بہتے آنسو اور شدت جذبات سے کانپتے ہونٹ۔۔۔۔ میں لمحہ نہیں لگایا ان آنسووں کو پینے میں اور ان ہونٹوں کو اپنی گرفت میں لینے میں۔۔۔۔۔ لبوں کو چومتے ہوئے میں ایک ہاتھ سے اس کی کمر سہلاتے ہوئے اسے تسلی بھی دیتا رہا یہاں تک کہ اس نے اپنے آپ کو سنبھال لیا۔۔۔۔ چلو اب جلدی کرو۔۔۔۔ میں چاہتا ہوں جلد سے جلد ہمارا نکاح ہو جائے۔۔۔۔۔ اس کو اپنی گرفت سے آزاد کرتے ہوئے میں نے کہا اور وہ سر ہلات ہوے الگ ہو گئی۔۔۔۔ ڈریسنگ اسٹال پر بیٹھ کر اس نے گیلے ٹشو پیپر سے اپنا منہ صاف کیا۔۔۔۔۔ ہلکا سا پف کرکے آنکھوں میں کاجل ۔۔۔۔۔پلکوں پر مسکارا۔۔۔۔ آئی لائنر اور بلش آن کا ٹچ دے کر لپ اسٹک لگا کر کھڑی ہو گئی۔۔۔۔۔ اس ہلکے میک اپ میں بھی وہ کم نہیں لگ رہی تھی۔۔۔۔ ہم دونوں پرفیوم کا ایک دوسرے پر چھڑکاؤ کر کے تیار ہو گئے۔۔۔۔ رباب نے جلدی جلدی چیزیں سمیٹیں۔۔۔۔ بقول اس کے میری عادت نہیں ہے کہ پھیلا ہوا گھر چھوڑ کے جاؤں ۔۔۔۔ میں نے بھی تائید کی کیونکہ میری بھی یہی عادت تھی۔۔۔۔ کمرہ سمیٹ کر لائٹ بجھا کر ہم دونوں مین ڈور سے باہر آگئے۔۔۔۔ رباب نے لاک کرنے سے پہلے الارم آن کر دیا۔۔۔۔ پھر مین ڈور لاک کرنے لگی۔۔۔۔۔ تب میں نے اردگرد کا جائزہ لیا۔۔۔۔۔ علاقہ آباد نہیں تھا۔۔۔۔ مکانات بہت دور دور تھے۔۔۔۔ شائد اس لیے کم داموں میں یہ بنگلہ مل گیا۔۔۔۔ بلکہ دونوں کم دام میں مل گئے تھے۔۔۔۔ میں نے برابر والے بنگلے پر نظر ڈالی مگر اونچی وال کی وجہ سے کچھ نظر نہ آیا مگر وہ دروازہ ضرور نگاہ میں آیا جو دونوں بنگلوں کی مشترکہ دیوار پر تھا کیا دیکھ رہے ہو؟ رباب لاک وغیرہ سے فارغ ہو کر میرے پاس کھڑی ہو گئی
کچھ نہیں۔۔۔۔ بس سوچ رہا تھا کہ یہ علاقہ ابھی وقت لے گا آباد ہونے میں۔۔۔ تمہارے لیے یہاں رہنا ٹھیک نہیں ہے۔۔۔۔ میں نے آگے بڑھ کر گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا ہاں اسی لیے ہم دونوں ہی یہاں نہیں رہتے۔۔۔۔۔ اور ویسے بھی ابھی تو تھوڑا قرضہ باقی ہے وہ ادا ہو جائے تو پھر اس گھر کو ڈیکوریٹ کروں گی۔۔۔۔ ابھی تو بس ایسے ہی پڑا ہے۔۔۔۔ مگر اطمینان ہے کہ گھر کی چھت تو میسر ہے۔۔۔۔ پھر مجھے اشارہ کرکے کہتی ہوئے آگے چلی گئی۔۔۔۔ تم گاڑی نکالو میں گیٹ بھی لاک کروں گی میں نے گاڑی باہر نکالی اور گیٹ لاک کرکےرباب بھی گاڑی میں آکر بیٹھ گئی۔۔۔۔ میں نے گاڑی آگے بڑھا دی۔ رباب: ایک بات کہوں۔۔۔ میری طرف دیکھتے ہوئے رک رک کر بولی میں نے اس کی گود میں رکھے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا اور کہا ایک نہیں دس باتیں بولو۔۔۔۔۔ سب سنوں گا رباب: جب میں نے تم سے ملنے کا فیصلہ کیا تھا اور سالگرہ کے تحفہ کے طور پر اپنا آپ پیش کرنے کا فیصلہ کیا تھا تو۔۔۔۔ وہ ایک لمحہ رکی پھر بولی ریما مجھ سے ناراض ہو گئی تھی اچھا وہ کیوں۔۔۔۔ میں نے حیرت سے پوچھا وہ کہہ رہی تھی کہ مجھے اپنی عزت بچا کر رکھنی چاہیے اور اس طرح بنا شادی کے نہیں لٹانی چاہیے۔۔۔۔اس نے بتایا ہاں وہ ٹھیک کہہ رہی تھی۔۔۔۔ تم نے اس کی بات نہیں مانی۔۔۔۔ اس کی طرف دیکھتے ہوئے میں نے پوچھا نہیں۔۔۔ وہ مضبوط لہجے میں بولی۔۔۔۔ عاشر میں تم کو اپنا سب کچھ مان چکی تھی۔۔۔۔ تم مجھے اپناتے یا نہیں میں صرف تمہاری رہنے کا فیصلہ کر چکی تھی۔۔۔۔ مگر تم نے مجھے اور میری محبت کو قبول کر کے میرا مان بڑھا دیا ہے اور ساری زندگی کے لیے اپنا غلام بنا لیا ہے۔۔۔۔ اس نے میرے ہاتھوں کو چوم لیا جو اس کے ہاتھ کو پکڑے ہوئے تھے رباب تم سے فون پر باتوں کے دوران ہی میں تم کو چاہنے لگا تھا بلکل ویسے جیسے تم مجھے چاہنے لگی تھیں۔۔۔۔ دونوں طرف تھی یہ آگ برابر لگی ہوئی تو کیسے ممکن تھا کہ میں یہ فیصلہ نا کرتا۔۔۔۔ آج یا کل یہ تو ہونا تھا مگر سچ پوچھو تو تمہاری کل کی سپردگی نے میرے دل کو ہلا دیا۔۔۔۔۔ اور میرے دل سے یہ صدا آئی تھی کہ تم جیسا کہیں مجھے دلبر نا ملے گا۔( اسکے ہاتھ اپنے ہونٹ تک لے جا کر چومتے ہوئے میں نے اپنی بات جاری رکھی)۔۔۔۔ میرا کون سا کوئی رشتہ دار بیٹھا ہے بس فیصلہ ہو گیا تو ہو گیا۔۔۔۔ مکر ہاں۔۔۔۔۔ ایک بات میں اور صاف کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔ ابھی یہ بات ہم چاروں میں ہی رہے گی۔۔۔۔ میری اس بات پر وہ حیران ہو گئی کیوں؟ اس نے پوچھا دیکھو۔۔۔۔ غور سے سنو اور سمجھو۔۔۔۔ ابھی تمہارے گھر پر قرضہ باقی ہے اور میں بھی سب جمع پونجی اپنے گھر پر لگا چکا ہوں ۔۔۔۔۔ بے شک اب کم از کم میرا گھر آزاد ہے مگر میرے پاس اب پیسے نہیں ہیں اس گھر کو ڈیکوریٹ کرنے کے لیے۔۔۔۔۔ تم نے تو پھر بھی ایک اپنا بیڈ روم تو اچھا سیٹ کیا ہے۔۔۔۔۔ باتھ روم اچھا بنوایا ہے مگر میں نے ابھی تک کچھ نہیں کیا ہے۔۔۔۔۔ اب آہستہ آہستہ میں یہ سب کروں گا۔۔۔۔۔۔ پھر میں اپنی ترقی بھی چاہتا ہوں۔۔۔۔ اور اس کے لیے مجھے دل لگا کر اور محنت سے کام کرنا ہوگا۔۔۔۔ اگر میں اپنی شادی شدہ زندگی کی ذمہ داریوں میں پھنس گیا تو کام سے توجہ ہٹ جائے گی۔۔۔۔۔ ترقی ہو گی تو میری تنخواہ بھی بڑھے گی۔۔۔۔ پھر میں روپے پیسوں کی طرف سے اطمینان چاہتا ہوں۔۔۔۔۔ تاکہ میرے بیوی بچوں کو پریشانی نہ اٹھانا پڑے۔۔۔۔۔ مگر میں بھی تو جاب کر رہی ہوں ۔۔۔۔۔رباب میری بات کاٹ کر بولی ہاں مگر صرف اس وقت تک جب تک میں یہ شادی ڈیکلئیر نہیں کروں گا۔۔۔۔ تم سے شادی کا اعلان کرتے ہی تم استعفی دے دو گی۔۔۔۔۔ مجھے تم میرے گھر میں ہر وقت چاہیے ہو گی اور میں تمہیں جاب نہیں کرنے دوں گا۔۔۔۔ میں نے نرمی سے اپنی بات کی وضاحت کی پھر میں گھر میں رہ کر کیا کروں گی۔۔۔۔ اس نے معصومیت سے پوچھا میرا انتظار اور میرے بچوں کی پرورش۔۔۔۔میں نے شرارت سے کہا اور وہ شرما گئی۔۔۔۔ کیوں میرے بچوں کی ماں نہیں بننا چاہتی ۔۔۔۔ میں نے مزید چھیڑا اور وہ اپنا ہاتھ چھڑا کر منہ چھپا کر بیٹھ گئی اور میں اس کی اس ادا پر ہنس دیا ایک جگہ گاڑی سائیڈ پر پارک کرکے میں نے اس کو وہیں بیٹھے رہنے کا کہا اور اتر کر اندر چلا گیا۔۔۔۔۔ مولوی صاحب اندر ہی مل گئے اور نکاح پڑھانے پر تیار ہو گئے۔۔۔۔ وہی پر ایک بندے کو پیسے دے کر مٹھائی منگوائی اور اتنی دیر میں مولوی صاحب نے رباب کو بھی اندر بلا لیا۔۔۔۔۔ نکاح نامہ کا فارم رباب سے پوچھ کر بھرا۔۔۔۔۔ حق مہر اور ساری تفصیلات ہم دونوں نے مولوی صاحب کے سامنے طے کیں اور پھر وہیں چند لوگوں کے سامنے ہمارا ایجاب و قبول ہو گیا اور ہم قانونی اور شرعی طور پر میاں بیوی بن گئے۔۔۔۔۔ جبکہ جسمانی اور دلی طور پر تو ہم کل ہی اس عہدے پر فائز ہو گئے تھے۔۔۔۔ اب ہر طرح سے ایک دوسرے کے ہو گئے تھے۔۔۔۔ ایک دوسرے کو مٹھائی کھلائی اور وہاں موجود لوگوں کو بھی کھلائی۔۔۔۔۔ نکاح نامہ کی ایک کاپی مولوی صاحب نے دی اور کہا کہ اصل نکاح نامہ کل لے جانا۔۔۔۔ وہ اسے رجسٹر کروا دیں گے۔۔۔۔ ان کا شکریہ ادا کرکے اور فیس دے کر ہم باہر آگئے۔۔۔۔۔۔ گاڑی میں نے ایک سنسان گلی میں روکی اور رباب کی طرف مڑ کر اپنے ہاتھ پھیلا دیے وہ مچل کر میری بانہوں میں سما گئی مسز عاشر آپ کیسا محسوس کر رہی ہیں؟ میں نےاس کے کان میں سرگوشی کی ایسا لگ رہا ہے کہ کوئی خواب دیکھ رہی ہوں۔۔۔۔۔ میرے سینے سے لگے لگے وہ بولی۔۔۔۔۔۔ موبائل کی گھنٹی پر ہم الگ ہو گئے۔۔۔۔۔ رباب نے اپنا کلچ کھول کر فون نکالا اور چند لمحے بات کرکے رکھ دیا۔۔۔۔۔ رباب: ریما کا فون تھا۔۔۔۔ پوچھ رہی تھی ہم کہاں ہیں۔۔۔۔ وہ اور شان ریسٹورنٹ آنے کے لیے نکل گئے ہیں۔۔۔۔ہم شاید پہلے پہنچ جائیں گے۔۔۔۔ ہم زیادہ دور نہیں ہیں۔۔۔۔ اس نے مجھے انفارم کیا اور میں نے سر ہلاتے ہوئے گاڑی اسٹارٹ کر دی ریسٹورنٹ کی پارکنگ میں گاڑی لاک کرکے ہم اُتر آئے۔۔۔۔۔ باوردی دربان نے دروازہ کھولا اور ہم اندر داخل ہو گئے۔۔۔ اندر خواب ناک سا ماحول تھا۔۔۔۔ دھیمی دھیمی لائٹ۔۔۔۔ کینڈلز اور پھولوں کی ڈیکوریشن۔۔۔۔ چھری کانٹوں کی ہلکی ہلکی آوازیں۔۔۔ ماحول کو خوب صورت بنا رہی تھیں مگر رباب ہال میں رکنے کے بجائے اوپر جانے والی سیڑھیوں کے پاس آگئی۔۔۔۔ دو سیکیورٹی گارڈ اور ایک اونچی سی ڈیسک کے پیچھے موجود لڑکی نے ہمیں دیکھا۔۔۔۔ رباب نے کہا چار افراد کے لیےکیبن بک ہے لڑکی نے نام پوچھا رباب: مسٹر عاشر احمد لڑکی نے چیک کیا اور گارڈ کو اشارہ کیا جانے دو۔۔۔۔ ساتھ ہی اس نے بیل دبا کر ویٹر کو بلایا اور کہا کیبن نمبر 5 میں لے جاؤ اور ہم اس کے ساتھ اوپر آگئے یہ بھی وسیع و عریض ہال تھا۔۔۔۔ جس میں فاصلوں سے بڑے بڑے خوب صورت کیبن بنے تھے۔۔۔۔ یہاں پرائیوسی کا خاص خیال رکھا جاتا تھا اور لگ رہا تھا کہ سب کیبن ساونڈ پروف تھے۔۔۔۔۔ دروازے گلاس کے تھے اور جو خالی کیبن تھے ان کے پردے ہٹے ہوئے تھے۔۔۔۔ ہم بھی اپنے کیبن میں داخل ہوگئے۔۔۔۔ کیبن میں ایک سیمی سرکل صوفہ رکھا تھا اور بیچ میں گول ٹیبل بھی تھی جو چار لوگوں کے حساب سے سیٹ تھی۔۔۔۔۔۔ ہم سائیڈ سے کمرے میں داخل ہوئے تھے۔۔۔۔۔ ہمارے سیدھے ہاتھ پر یعنی ٹیبل کی سیدھ میں ایک 40 انچ کی بڑی اسکرین لگی تھی جس کو ہمارے ساتھ آنے والے ؤیٹر نے کھول دیا تھا اور اس پر ایک رومانٹک گانا بجنے لگا تھا۔۔۔۔۔ ۔
۔ تھا اور اس پر ایک رومانٹک گانا بجنے لگا تھا۔۔۔۔۔ اس نے آواز ہلکی کی اور پھر رباب کو اس نے کچھ بتایا اور واپس چلا گیا۔۔۔۔ میں صوفے کے پیچھے کی طرف جا کر کھڑا ہو گیا۔۔۔۔ یہ گلاس ونڈو تھی جو چھت سے فرش تک تھی اور باہر سمندر کا اندھیرا اور شہر کی چمکتی لائٹ کا نظارہ اچھا لگ رہا تھا۔۔۔۔ میں محو ہوگیا تھا کہ اچانک دو ملائم دودھیا بازو میری کمر کے گرد حمائل ہو گئےاور مجھے کیبن کے ماحول میں واپس کھینچ لائے۔۔۔۔ میں نے ان دودھیا ہاتھوں کو تھام کر جھک کر چوم لیا۔۔۔۔ اس نے ہاتھ چھڑوا لیا اور میرے شانے پر سر رکھ کر بولی کیسا لگ رہا ہے۔۔۔۔ اچھا ہے نا ہنہہہہ۔۔۔۔۔ بہت اچھا ہے۔۔۔۔ انتظام تو اچھا ہے کھانے کا نہیں پتہ۔۔۔۔ میں نے اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اپنے ساتھ چپکا لیا کھانا بھی ٹھیک ہے۔۔۔۔ مجھے یقین ہے تم کو اچھا لگے گا۔۔۔۔ رباب نے جواب دیا ہم دونوں اسی طرح ایک دوسرے سے چپکے ہوئے کھڑے رہے ۔۔۔۔۔ پھر سکرین پر چلتے ہوئے کسی رومانٹک گانے نے اپنی طرف توجہ کھنچ لی اور ہم صوفے پر آکر بیٹھ گئے۔۔۔۔۔ میں نے رباب سے مستیاں کرنی شروع کر دی اور وہ مجھے باز رکھنے کی کو شش کرنے لگی۔۔۔۔۔تب ہی دروازے پر دستک ہوئی اور ہم سنبھل کر بیٹھ کئے۔۔۔ رباب نے یس کم ان کہا اور پھر اندر داخل ہونے والوں کو دیکھ کر ہم دونوں اٹھ گئے۔۔۔۔ جی ہاں وہ شان اور ریما تھے۔۔۔۔۔ ریما میرون کلر کی ساڑی پہنے ہوئے تھی جس کے بارڈر اور پلو پر کالی موتیوں اور دھاگے کا کام تھا۔۔۔۔ ڈارک میرون لپ اسٹک اور ڈارک میک اپ میں اچھی لگ رہی تھی ریما میرون کلر کی ساڑی پہنے ہوئے تھی جس کے بارڈر اور پلو پر کالی موتیوں اور دھاگے کا کام تھا۔۔۔۔ ڈارک میرون لپ اسٹک اور ڈارک میک اپ میں اچھی لگ رہی تھی۔۔۔۔۔ کالے پتھروں کی جیولری اس کے اچھے ذوق کا پتہ دے رہی تھی۔۔۔۔۔ فگر اچھا تھا۔۔۔۔ اس کے بریسٹ رباب کے مقابلے میں کافی بھاری بھاری لگ رہے تھے۔۔۔۔ ظاہر سی بات ہے رباب ایک ان چھوئی لڑکی تھی جس کو میرا ہاتھ ہی لگا تھا مگر بے چاری ریما پتہ نہیں کتنوں نے اس کے سینے کے ان ابھاروں کو چوسا ہوگا۔۔۔۔ دبایا ہوگا یا جنون میں کاٹا ہوگا۔۔۔۔۔ اس لیے وہ اتنے بڑے تھے کہ بلاؤز پھاڑ کر باہر نکلنا چاہ رہے تھے۔۔۔۔ کافی کھلے گلے کا بلاؤز تھا جو کمر سے بلکل غائب تھا بس ایک پتلی سی ڈوری تھی۔۔۔۔۔۔ اس نے بڑی بے تکلفی سے میرے قریب آکر میرے گال سے گال ملا کر مجھے جنم دن کی مبارکباد دی اور ہاتھ میں پکڑا ہوا گفٹ پکڑایا۔۔۔۔۔ میں بھی سنبھل گیا اور اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے شان کو دیکھنے لگا۔۔۔۔ جو کالے کلر کے ٹو پیس سوٹ میں میرون شرٹ اور کالی اور میرون پرنٹ کی ٹائی لگائے ہوئے اچھا لگ رہا تھا۔۔۔۔۔ مجھے زور سے جپھی ڈال کر بھینچ کر کان میں بولا سالگرہ اور پہلا سیکس مبارک ہو۔۔۔۔ چل آج سے تو بھی بالغوں میں شامل ہو گیا۔۔۔۔ پھر مزید ہلکی آواز میں بولا زیادہ محنت تو نہیں کرنی پڑی۔۔۔۔ ویسے میرا خیال ہے کرنی پڑی ہو گی۔۔۔۔ ایک تو۔۔۔ تو کنوارا اور ایک وہ کنواری۔۔۔۔۔ کچھ گڑبڑ تو نہیں ہوئی۔۔۔۔۔ ٹارگٹ پر پہنچ گیا تھا آسانی سے یا نہیں۔۔۔۔۔ شان مسلسل میرے کان میں سرگوشیاں کرتا جا رہا تھا اور میری سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اس کو کیسے چپ کرواوں اتنے میں رباب بولی۔۔۔۔ ارے شان بیٹھو نا ۔۔۔۔۔ کھڑے کیوں ہو اور کیا کھسر پھسر کر رہے ہو۔۔۔ آو بیٹھو نا( اس نے صوفے کی طرف اشارہ کیا) شان : بیٹھ رہا ہوں ذرا اپنے یار سے مل تو لوں۔۔۔۔ پھر مجھے چھوڑ کر ریما کے پاس جا کر بیٹھ گیا اور میں نے سکون کی سانس لی۔۔۔۔۔ اور سناؤ میرے یار کیسی رہی تمہاری سالگرہ( وہ آنکھ مارتے ہوئے بولا) میں بھی رباب کے برابر بیٹھتے ہوئے بولا زندگی کی سب سے حسین اور یادگار ۔۔۔۔۔ یہ کہتے ہوئے میں نے پیار سے رباب کو دیکھا اس سے پہلے کوئی اور مجھ سے کچھ کہتا دروازہ ناک ہوا اور رباب کے اجازت دینے پر ویٹر اندر داخل ہوا اور ہم کو ویل کم سوفٹ ڈرنک اور اسٹارٹر سرو کر نے لگا۔۔۔۔ ہم وہ انجوائے کرنے لگے اور ادھر اُدھر کی باتیں بھی کرنے لگے۔۔۔۔ میں نے اندازہ کیا کہ شان اور ریما کے درمیان بھی کوئی کیمسٹری چل رہی تھی۔۔۔۔۔ وہ دونوں چوری چوری ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرا رہے تھے ۔۔۔۔۔خوشی ان کے سراپے سے جھلک رہی تھی۔۔۔۔ اور پھر میرا اندازہ درست ثابت ہوا جب ریما نے یہ انکشاف کیا کہ وہ اور شان آج شام شادی کر چکے ہیں۔۔۔۔اس نے اپنے پرس سے نکاح نامہ کی کاپی نکال کر رباب کو دی۔۔۔۔ اس نے دیکھ کر مجھے دی اور میں نے بھی پڑھنے کے بعد اسکو واپس دے دی۔۔۔۔۔ رباب اور میں ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرانے لگے۔ میں اور رباب بھی مسکرا کر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔۔۔۔ اور پھر رباب نے آپنے پرس سے نکاح نامہ کی کاپی نکال کر ریما کو پکڑا دی۔۔۔۔ جسے دیکھ کر وہ حیران رہ گئی اور پھر شان کی طرف بڑھا دیا اور وہ بھی دنگ رہ گیا شان: تم دونوں نے بھی شادی کر لی اور وہ بھی آج۔۔۔۔۔ شام میں۔۔۔۔ وہ نکاح نامہ پڑھتے ہوئے بولا میں نے ایک محبت بھری نظر رباب پر ڈالی اور کہا ہاں تم جانتے تو ہو۔۔۔۔میں پسند تو پہلے ہی کرتا تھا۔۔۔۔۔ رباب کو اور ملنے کے بعد صبر نا ہوا اور فورا اس کواپنے نام کر لیا۔۔۔۔۔ ریما بھی خوشی کا اظہار کرنے لگی۔۔۔۔۔ اور رباب سے تفصیل پوچھنے لگی وہ دونوں آپس میں باتوں میں مصروف ہو گئیں کہ اتنے میں دروازہ ناک کر کے ویٹر اندر آگیا اور کھانے کی ٹرالی ہمارے پاس رکھ گیا ہم نے کھانا شروع کیا اور خوش گپیوں میں کھانا ختم کیا۔۔۔۔۔ بل ادا کرنے کے بعد ہم پیدل باہر نزدیکی ساحل پر آگئے اور ٹہلنے لگے جب میں نے شان سے اس کے فیصلے کے بارے میں پوچھا شان: یار عاشر۔۔۔۔ میں نے یہ فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کیا ہے۔۔۔۔۔ شاید تم ریما کے بارے میں جانتے ہو( اس نے میری طرح دیکھا اور میں نے سر اثبات میں ہلا دیا) میں اس سے بہت متاثر ہوا ہوں۔۔۔۔ یار کم عمری میں جو کچھ اس کے ساتھ ہوا اس کے بعد اس نے اپنے آپ کو بڑا سنبھال کر رکھا ہے۔۔۔۔ کسی کو دوبارہ اپنے جسم سے کھیلنے نہیں دیا۔۔۔۔ ہاں اپنے خوب صورت بدن کا استعمال ضرور کیا۔۔۔۔۔ اور تمہیں کوئی اعتراض نہیں اس بات پر کہ وہ اتنے آدمیوں کے ٹچ میں رہی ہے۔۔۔۔۔ میں نے بات کاٹ کر پوچھا شان نے نہیں میں سر ہلا کر کہا سچ پوچھو تو نہیں۔۔۔۔ اس نے جو بھی کیا وہ اس کی مجبوری تھی۔۔۔۔ اگر وہ ایسا نہ کرتی تو آج کسی پھٹے ہوئے کاغذ کی طرح پڑی ہوتی کہیں (پھر میری طرف دیکھتے ہوئے ہلکی آواز میں بولا) میری طرف دیکھ یار۔۔۔،میں بھی تو کون سا پاک صاف ہوں کتنی ہی لڑکیوں کے جسموں سے کھیل چکا ہوں۔۔۔۔ مگر اب تھک گیا ہوں یار(وہ گہری سانس لے کر چپ ہو گیا اور ایک لمحہ کے بعد پھر بولا) ۔۔۔۔ اب دل چاہتا ہے کہ کوئی تو ایسا ہو جو سچے دل سے مجھے پیار کرے۔۔۔۔میرابھی ایک گھر ہو۔۔۔۔۔ بچے ہوں۔۔۔۔۔ وہ جیسے کسی ٹرانس میں ہلکے ہلکے بول رہا تھا اور اس کی نظریں سامنے ذرا دور نظر آتی ریما اور رباب پر تھی۔۔۔۔اب ہم دونوں چھوٹی دیوار پر بیٹھ گئے میں: تم کب سے ریما کو جانتے ہو؟ شان: بہت پہلے سے جانتا ہوں۔۔۔۔ بلکہ جب یہ ناصر کے ساتھ ہوا کرتی تھی۔۔۔۔اس وقت سے جانتا ہوں(میری طرف دیکھ کے اس نے انکشاف کیا)۔۔۔۔اور یہ بھی کہ اس نے ناصر کو حد سے آگے بڑھنے نہیں دیا۔۔۔۔ مگر اس بات کا ناصر کو احساس بھی نہیں ہوا کہ ریما نے اس کا کتنا اچھا استعمال کیا۔۔۔۔شائد وہ اس وقت اس کی ضرورت تھی۔۔۔۔ وہ گہری سانس لیے کر چپ ہوا تو میں نے کہا ہاں۔۔۔۔ رباب نے مجھے بتایا تھا اور پھر میں نے شان کو وہ سارے حالات بتائے جس کی وجہ سے ریما ناصر کے ساتھ تھی شان خاموشی سے سنتا رہا اور پھر بولا۔۔۔۔ مجھے اندازہ تھا کہ ایسا ہی کچھ معاملہ ہوگا۔ میں نے پوچھا پھر تم کیسے اس کی طرف آئے اور وہ کہنے لگا۔۔۔۔کچھ عرصے کے بعد ناصر امریکہ چلا گیا اور میں نے ریما کو اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کی۔۔۔۔ تب مجھے اس کے کردار کی مضبوطی کا احساس ہوا۔۔۔ناصر کے ساتھ مجبوری نے اس کوباندھا ہوا تھا مگر میری طرف آنے کے لیے کوئی مجبوری نہیں تھی۔۔۔۔۔اس نے مجھ کو بلکہ کسی اور کو بھی کوئی گھاس نہیں ڈالی۔۔۔۔ مجھے احساس ہوا کہ وہ ایسی لڑکی نہیں ہے جیسی میں سوچ رہا تھا۔۔۔۔۔۔ پھر اس کے ساتھ ایک دو کیسز میں کام کیا۔۔۔۔ تمہیں یاد ہوگا وہ سلمان والا کیس( اور میں نے اثبات میں سر ہلایا) اس میں اپنی جان پر کھیل کر ساری انفارمیشن ریما ہی لائی تھی۔۔۔۔ میں اس کی جی داری کا قائل ہو گیا۔۔۔۔۔ اور اس کے بارے میں معلومات حاصل کرنی شروع کی اور اس طرح سب پتہ چلتا گیا اور یہاں تک کہ میں رباب کے بارے میں جان کر تو اور بھی ریما کا فین ہو گیا۔۔۔۔ رباب کے ماں باپ کا احسان یاد رکھتے ہوئے اس نے جس طرح رباب کو مشکلات سے بچایا وہ قابل تعریف ہے۔۔۔آج کل کون کسی کے احسان کو یاد کرتا ہے۔۔۔ سب موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ میں : تو۔۔۔ تم رباب کو جانتے تھے۔ شان مجھے دیکھ کر مسکرایا اور کہا ہاں جانتا تھا اور تمہاری طرف میں نے ہی اس کا دھیان ڈالا تھا۔۔۔۔ وہ بھی تمہاری طرح آدم بیزار تھی اور کچھ ریما کے تجربے کی وجہ سے محتاط تھی اچھا تو میں آدم بیزار ہوں ۔۔۔۔ میں نے خفگی دکھائی ارے یار نہیں۔۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ لڑکیوں کے معاملے میں ہاتھ تنگ تھا تمہارا۔۔۔۔ اس نے وضاحت کی جی نہیں ایسی کوئی بات نہیں تھی۔۔۔۔ ہاں تم یہ کہہ سکتے ہو کہ میں نے کبھی کوشش نہیں کی اس دشت کی سیاحی کی۔۔۔۔ میں نے اس کی تصیح کی چلو تم اس بات کو ایسے ہی لے لو۔۔۔ وہ میرے کندھے پر ہاتھ پھیلاتا ہوا منانے والے انداز میں بولا۔۔۔۔۔بہرحال ان دنوں تم نے نادر والا کیس ختم کیا تھا اور پورے ادارے میں لوگ تمہاری تعریف کر رہے تھے۔۔۔۔ وہی وقت تھا جب رباب نے تمہارے بارے میں سوچنا شروع کردیا۔ میں: تو فون پر بات کرنے کی ترکیب بھی تمہاری تھی۔۔۔۔ میری جاسوسانہ رگ اب بیدار ہو گئی تھی اور میں نے کندھے سے اس کا بازو جھٹک دیا۔ وہ شرارتی انداز میں مسکرایا اور سینے پر ہاتھ کر جھک گیا۔۔۔۔ یس مائی پرنس میں بھی ہنس دیا۔۔۔۔ اور ہلکے سے اس کے شانے پر مکا مارا۔۔۔۔۔ بہت کمینے ہو تم شان: میں کمینہ پن نا دکھاتا تو حضور کنوارے رہتے۔۔۔۔ ویسے ایک بات تو بتا۔۔۔۔ (وہ میرے اور قریب ہو گیا)۔۔۔۔ تم ایک ملاقات میں شادی تک کیسے پہنچ گئے۔۔۔۔ میں نے ایک گہری سانس لے کر کل سے لے کر نکاح تک اور پھر آگے کا پلان بھی اسے بتا دیا۔۔۔ سب سن کر اس نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا تم نے بالکل ٹھیک فیصلہ کیا ہے عاشر۔۔۔۔اور آگے جو سوچا ہے وہ بھی ٹھیک ہے۔۔۔۔ میں بھی یہی کروں گا۔۔۔۔ اتنے میں رباب اور ریما قریب آگئی ریما: چلنا نہیں کیا۔۔۔ قریب آکر کھڑے کھڑے ہی اس نے پوچھا شان : ادھر بیٹھو ایک بات ڈسکس کرنی ہے وہ دونوں بھی بیٹھ گئ اور شان نے میرا اور رباب کا پلان ریما کو بتایا اور کہا کہ وہ بھی ایسا ہی کرنا چاہتا ہے ہم چاروں نے آرام سے کھل کے بہت بے تکلفی سے سب باتوں کو ڈسکس کیا اور پھر اس پر عمل کرنے کو تیار ہو گئے۔۔۔۔ رات گہری ہونے لگی تھی چنانچہ ایک دوسرے کو بائے کرتے ہوئے ہم اپنی اپنی گاڑیوں میں بیٹھ گئے میں نے گاڑی کو رباب کے گھر پر لا کر روکا تو وہ بولی میں تو سمجھی تھی کہ تم اپنے گھر لے کر جاؤ گے میں: نہیں۔۔۔۔ ابھی نہیں ۔۔۔۔میں اپنے آج تک کی زندگی کے سب سے اچھے دن کا اختتام ویسے ہی کرنا چاہتا ہوں ۔۔۔۔ جیسے شروع کیا تھا۔۔۔ پھر اس کے قریب ہو کر ہلکے سے کہا اور جہاں سے شروع کیا تھا وہ شرما گئی اور اتر کر گیٹ کھولا۔۔۔ میں گاڑی اندر لے آیا تو اس نے گیٹ لاک کیا اور مین دروازہ کھولا۔۔۔۔ میں بھی گاڑی لاک کرکے اندر آگیا۔۔۔۔ الارم کو آف کرکے وہ مجھے اندر بیڈ روم میں لے آئی۔۔۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے جاکر اپنی جیولری اتارنے لگی۔۔۔۔ میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا تھا۔۔۔۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی میں نے پھرتی سے اپنے جوتے موزے اتارے۔۔۔۔ کوٹ اتارا۔۔۔۔ ٹائی بھی کھینچ کے اتار دی ۔۔۔۔ اپنی پینٹ کی بیلٹ کھولتے ہوئے اور اس کو بھی صوفے پر پھینکتے ہوئے میں اس کے بالکل پیچھے جا کر کھڑا ہو گیا۔۔۔۔ وہ اسٹول پر بیٹھی بہت مگن سی اپنی جیولری اتارنے اور اس کو باکس میں رکھنے میں مصروف تھی۔۔۔۔۔۔ بالوں کو لپیٹ کر کیچر لگا لیا تھا۔۔۔۔ اس کی گوری کمر اور اس پر فراک کو ٹائٹ کرنے والی ڈوری لٹک رہی تھی۔۔۔۔ میں نے ڈوری کو کھینچ دیا۔۔۔۔ وہ ایک دم سے کھل گئی۔۔۔۔ رباب نے ایک دم نظر اٹھا کر شیشے میں مجھے دیکھا رباب: کیا ہوا؟ میں نے اس کو شانوں سے پکڑ کر اٹھایا اور اس کا رخ اپنی طرف کیا۔۔۔۔۔ گلے میں پڑے دوپٹہ کو کھنچ کر صوفے پر پھینک دیا۔۔۔۔۔ کیچر نکال کر جھک کر اپنے چہرہ کو اس کی معطر زلفوں میں چھپایا اور گہری گہری سانس لینے لگا۔۔۔۔ اپنے دونوں دودھیا بازو میری کمر کے گرد حمائل کرتے ہوئے وہ بولی۔۔۔ عاشر کیا ہوا۔۔۔۔ ایسے کیوں ہو رہے ہیں۔۔۔۔ کیا ہوا صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے۔۔۔۔ بس اب برداشت نہیں ہو رہا ہے۔۔۔۔ میں اسی طرح منہ چھپائے چھپائے بولا تو اس نے مجھے الگ کیا۔۔۔ اور میری شرٹ کے بٹن کھولتے ہوئے بولی۔۔۔۔ تو کس نے انتظار کرنے کو کہا ہے۔۔۔ جو چاہے کرو۔۔۔۔ میں سر سے پاؤں تک تمہاری ہوں۔۔۔۔ یہ کہتے کہتے میری شرٹ اور بنیان بھی اتار دی۔۔۔ میں نے بھی اس کی فراک کی سائیڈ زپ اتار کر اسے فراک سے نجات دلا دی۔۔۔۔۔ بریسٹ پیڈ اتارتے ہوئے میں نے اس کو اپنی گود میں اٹھا لیا اور بستر پر ڈال کر اس کا تنگ پاجامہ بمعہ پینٹی کے اتار دیا۔۔۔۔ اب وہ میرے سامنے بالکل ننگی پڑی تھی اور اس کا بے داغ جسم مجھے اپنی طرف بلا رہا تھا اور میں اس کی پکار کو رد نہیں کر سکتا تھا۔۔۔ مزید دیر نہ کرتے ہوئے میں اس پر جھک گیا۔۔۔۔۔ اپنے جسم سے اس کو لپٹاتے ہوئے میں نے اس کے ہونٹوں کو چومنا شروع کر دیا۔۔۔۔ وہ بھی میرا بھرپور ساتھ دے رہی تھی۔۔۔۔۔ میری زبان اس کے منہ میں گھوم رہی تھی۔۔۔۔ اور وہ اس کو پکڑ نہیں پا رہی تھی۔۔۔۔ میں نے اس کی بے چینی دیکھتے ہوئے اپنی زبان اس کے منہ میں ڈال دی۔۔۔۔ اور وہ بے قراری سے چوسنے لگی۔۔۔۔ مجھے اپنے نیچے ہلچل محسوس ہو رہی تھی مگر میرا عضو ابھی قید میں تھا ۔۔۔۔ زبان چوسوانےکے ساتھ میں نے اپنے ہاتھ سے اس کے بوبز کو دبانا شروع کر دیاتھا۔۔۔۔اپنے ہونٹ اس کے ہونٹ سے جدا کر کے اب میں اس کے بوبز منہ میں لے کر چوس رہا تھا اور وہ سسکاریاں بھر رہی تھی۔۔۔۔ اچانک اس نے مجھے پلٹا دیا اور خود میرے اوپر آکر بیٹھ گئی۔۔۔۔۔ میں نے مزے میں آنکھیں بند کر لیں اور اس کے نرم ہونٹوں اور گرم سانسوں کو اپنے پورے جسم پر محسوس کرنے لگا۔۔۔۔۔انڈر وئیر کی قید سے میرے ہتھیار کو آزاد کرتے ہوئے وہ اس کی خدمت میں لگ چکی تھی۔۔۔۔۔اور پوری کوشش کر رہی تھی کہ وہ منہ میں چلا جائے۔۔۔۔ اس کام سے فارغ ہو کے وہ اوپر سے نیچے تک اس کو چاٹنے لگی ۔۔۔۔۔ میں اس کے بالوں کو سہلا رہا تھا اور وہ کسی چوپائے کی طرح گھٹنوں کے بل کھڑی میرے ہتھیار کو پکڑے اوپر نیچے کرتے ہوئے چوس اور چاٹ رہی تھی۔۔۔۔۔ میں اس کی کمر پر ہاتھ پھیرنے لگا اور میری انگلیاں اس کے ہپس کی دراڑ میں گھس گئی اور پھر نیچے اس کی چوت تک پہنچ گئی۔۔۔۔ وہ ایک سسکی سی لے کر پلٹی اور اس طرح گھٹنوں کے بل چلتی میرے چہرے کی طرف آگئی۔۔۔۔ وہ مجھے ماتھے پر کِس کرنے لگی اور اس کے سینے کے اُبھار میرے منہ کو چھونے لگے۔۔۔۔ میں نے منہ کھول کر ایک اُبھار کو منہ میں بھر لیا اور چوسنے لگا۔۔۔۔ وہ بھی مزے سے سسکاریاں بھرنے لگی تھوڑی دیر اس چوما چاٹی سے فارغ ہو کر میں نے اس کو بستر پر سیدھا لٹا دیا اور ٹانگیں کھول ان کے بیچ آگیا۔۔۔۔ رباب بھی سمجھ گئی اور اپنی ٹانگیں مزید کھول دیں۔۔۔۔ میں نے اپنے ہتھیار کو چوت پر رکھ کر رگڑنا شروع کیا اور وہ جیسے سحر اٹھی۔۔۔۔۔ گیلی تو وہ پہلے ہی ہو رہی تھی اب مزید چکنی ہو گئی۔۔۔ اب انتظار نہیں ہو رہا تھا وہ اپنی ٹانگیں اور اوپری جسم کو بری طرح بستر پر مچل رہی تھی اور اس سے اس کی بے تابی کا اظہار ہو رہا تھا۔۔۔۔ چنانچہ اپنی محبوبہ اور بیوی کو اتنا انتظار کروانا اچھا نہ سمجھتے ہوئے میں نے اپنے ہتھیار کر ایک جھٹکے میں اندر ڈال دیا۔۔۔۔ اس کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکلی اور وہ تڑپ گئی سوری میری جان۔۔۔۔ میں نے شرمندہ ہوتے ہوئے کہا مجھے خیال کرنا چاہیے تھا کہ ابھی تمہاری چوت اتنی نہیں کھلی ہو گی۔۔۔۔۔ سوری جانو۔۔۔۔ میں اس کے کان میں سرگوشیاں کرتے ہوئے اپنے ہتھیار کو آگے پیچھے کرنے لگا ۔۔۔۔ وہ بھی برداشت کرتے ہوئے ہلکے ہلکے سسکاری بھرنے لگی۔۔۔۔ پھر میری سپیڈ تیز ہوتی گئی اور وہ بھی میرا نام پکار کر مجھے مزید تیز ہونے کا کہنے لگی اور تھوڑی ہی دیر میں ہم دونوں ہی زوردار جھٹکے سے فارغ ہو گئے۔۔۔۔۔ میں نے زور سے اس کو اپنے سینے سے لگا لیا اور پرسکون ہو کر آنکھیں بند کر لیں۔۔۔۔۔ تھوڑی دیر خاموشی سے پڑے ہوئے ہم اپنےکئے ہوئے سیکس کے مزے لیتے رہے اور پھر باری باری واش روم سے فارغ ہو کر اسُی طرح ننگے بستر پر ایک دوسرے سے لپٹ کر سو گئے۔۔۔۔ ہاں کمبل ضرور اپنے اوپر ڈالا تھا اور رباب نے صبح کے لیے الارم بھی لگایا تھا۔۔۔۔۔ ہم دونوں ایک دوسرے کی بانہوں میں بے سدھ پڑے سو رہے تھے جب الارم سے ہماری آنکھ کھلی۔۔۔۔ رباب نے مڑ کر سائیڈ ٹیبل پر الارم بند کیا اور میری طرف مڑ کر پیار سے میرے ہونٹوں کو کِس کرکے بولی۔۔۔۔ گڈ مارننگ مائی ڈئیر ہسبینڈ میں نے بھی جواباً اپنی بانہیں کسَ لیں اور کہا گڈ مارننگ ۔۔۔۔ مائی لولی وائف۔۔۔۔ اور پھر ہم نے خوب ایک دوسرے کو چوما اور پھر بستر چھوڑ دیا۔۔۔۔ ہم دونوں ساتھ ہی نہائے مگر کسی بھی مستی سے پرہیز کیا۔۔۔۔ وقت کم تھا اور آج تو جاب پر جانا تھا اور پیار کے لیے یہ وقت اچھا نہیں تھا ۔۔۔۔ لہذا جلدی جلدی تیار ہو کر اور ناشتہ کرکے ہم گھر سے نکل گئے میں جیسے ہی آفس پہنچا۔۔۔۔ خبر ملی کہ کمشنر صاحب کے ساتھ میری میٹنگ فکس ہے ۔۔۔۔۔ لنچ تک میں بہت بزی رہا۔۔۔۔ اس کے بعد میٹنگ میں چلا گیا ۔۔۔۔۔ میٹنگ میں مجھے بتایا گیا کہ میرے انڈر میں کچھ لوگوں کو دے کر ایک ٹیم بنائی جا رہی ہے جو صرف ہائی پروفائل کیس حل کرے گی اور براہ راست کمشنر صاحب کے انڈر کام کرے گی۔۔۔۔ اس ٹیم میں کچھ شامل لوگوں کا نام مجھے خوش کر گیا۔۔۔۔ ان کا انتخاب کمشنر صاحب نے خود کیا تھا۔۔۔۔ میں نے شان اور کامل کے نام بھی اس میں شامل کر دیے جو منظور کر لیے گئے۔۔۔۔ اب میری ٹیم میں تین لڑکیاں جن میں سےایک ریما، رباب اور سیما شامل تھیں۔۔۔۔۔ جبکہ لڑکوں میں شان، کامل، شبیر، خاور شامل تھے۔۔۔ ٹوٹل آٹھ افراد پر مشتمل ٹیم ہر لحاظ سے مکمل تھی۔۔۔۔ ریما اور کامل بہترین انفارمر تھے۔۔۔۔۔ جبکہ شبیر اور رباب کمپیوٹر ماسٹر۔۔۔اور سیما فارنسیک میں ایکسپرٹ ۔۔۔۔۔ میں شان اور خاور ہر فن مولا تھے۔۔۔۔ ہمارے لیے بلڈنگ میں ایک پورشن خالی کر دیا گیا اور ہم نے اس کو سیٹ کرنا شروع کردیا
۔ تھا اور اس پر ایک رومانٹک گانا بجنے لگا تھا۔۔۔۔۔ اس نے آواز ہلکی کی اور پھر رباب کو اس نے کچھ بتایا اور واپس چلا گیا۔۔۔۔ میں صوفے کے پیچھے کی طرف جا کر کھڑا ہو گیا۔۔۔۔ یہ گلاس ونڈو تھی جو چھت سے فرش تک تھی اور باہر سمندر کا اندھیرا اور شہر کی چمکتی لائٹ کا نظارہ اچھا لگ رہا تھا۔۔۔۔ میں محو ہوگیا تھا کہ اچانک دو ملائم دودھیا بازو میری کمر کے گرد حمائل ہو گئےاور مجھے کیبن کے ماحول میں واپس کھینچ لائے۔۔۔۔ میں نے ان دودھیا ہاتھوں کو تھام کر جھک کر چوم لیا۔۔۔۔ اس نے ہاتھ چھڑوا لیا اور میرے شانے پر سر رکھ کر بولی کیسا لگ رہا ہے۔۔۔۔ اچھا ہے نا ہنہہہہ۔۔۔۔۔ بہت اچھا ہے۔۔۔۔ انتظام تو اچھا ہے کھانے کا نہیں پتہ۔۔۔۔ میں نے اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اپنے ساتھ چپکا لیا کھانا بھی ٹھیک ہے۔۔۔۔ مجھے یقین ہے تم کو اچھا لگے گا۔۔۔۔ رباب نے جواب دیا ہم دونوں اسی طرح ایک دوسرے سے چپکے ہوئے کھڑے رہے ۔۔۔۔۔ پھر سکرین پر چلتے ہوئے کسی رومانٹک گانے نے اپنی طرف توجہ کھنچ لی اور ہم صوفے پر آکر بیٹھ گئے۔۔۔۔۔ میں نے رباب سے مستیاں کرنی شروع کر دی اور وہ مجھے باز رکھنے کی کو شش کرنے لگی۔۔۔۔۔تب ہی دروازے پر دستک ہوئی اور ہم سنبھل کر بیٹھ کئے۔۔۔ رباب نے یس کم ان کہا اور پھر اندر داخل ہونے والوں کو دیکھ کر ہم دونوں اٹھ گئے۔۔۔۔ جی ہاں وہ شان اور ریما تھے۔۔۔۔۔ ریما میرون کلر کی ساڑی پہنے ہوئے تھی جس کے بارڈر اور پلو پر کالی موتیوں اور دھاگے کا کام تھا۔۔۔۔ ڈارک میرون لپ اسٹک اور ڈارک میک اپ میں اچھی لگ رہی تھی ریما میرون کلر کی ساڑی پہنے ہوئے تھی جس کے بارڈر اور پلو پر کالی موتیوں اور دھاگے کا کام تھا۔۔۔۔ ڈارک میرون لپ اسٹک اور ڈارک میک اپ میں اچھی لگ رہی تھی۔۔۔۔۔ کالے پتھروں کی جیولری اس کے اچھے ذوق کا پتہ دے رہی تھی۔۔۔۔۔ فگر اچھا تھا۔۔۔۔ اس کے بریسٹ رباب کے مقابلے میں کافی بھاری بھاری لگ رہے تھے۔۔۔۔ ظاہر سی بات ہے رباب ایک ان چھوئی لڑکی تھی جس کو میرا ہاتھ ہی لگا تھا مگر بے چاری ریما پتہ نہیں کتنوں نے اس کے سینے کے ان ابھاروں کو چوسا ہوگا۔۔۔۔ دبایا ہوگا یا جنون میں کاٹا ہوگا۔۔۔۔۔ اس لیے وہ اتنے بڑے تھے کہ بلاؤز پھاڑ کر باہر نکلنا چاہ رہے تھے۔۔۔۔ کافی کھلے گلے کا بلاؤز تھا جو کمر سے بلکل غائب تھا بس ایک پتلی سی ڈوری تھی۔۔۔۔۔۔ اس نے بڑی بے تکلفی سے میرے قریب آکر میرے گال سے گال ملا کر مجھے جنم دن کی مبارکباد دی اور ہاتھ میں پکڑا ہوا گفٹ پکڑایا۔۔۔۔۔ میں بھی سنبھل گیا اور اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے شان کو دیکھنے لگا۔۔۔۔ جو کالے کلر کے ٹو پیس سوٹ میں میرون شرٹ اور کالی اور میرون پرنٹ کی ٹائی لگائے ہوئے اچھا لگ رہا تھا۔۔۔۔۔ مجھے زور سے جپھی ڈال کر بھینچ کر کان میں بولا سالگرہ اور پہلا سیکس مبارک ہو۔۔۔۔ چل آج سے تو بھی بالغوں میں شامل ہو گیا۔۔۔۔ پھر مزید ہلکی آواز میں بولا زیادہ محنت تو نہیں کرنی پڑی۔۔۔۔ ویسے میرا خیال ہے کرنی پڑی ہو گی۔۔۔۔ ایک تو۔۔۔ تو کنوارا اور ایک وہ کنواری۔۔۔۔۔ کچھ گڑبڑ تو نہیں ہوئی۔۔۔۔۔ ٹارگٹ پر پہنچ گیا تھا آسانی سے یا نہیں۔۔۔۔۔ شان مسلسل میرے کان میں سرگوشیاں کرتا جا رہا تھا اور میری سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اس کو کیسے چپ کرواوں اتنے میں رباب بولی۔۔۔۔ ارے شان بیٹھو نا ۔۔۔۔۔ کھڑے کیوں ہو اور کیا کھسر پھسر کر رہے ہو۔۔۔ آو بیٹھو نا( اس نے صوفے کی طرف اشارہ کیا) شان : بیٹھ رہا ہوں ذرا اپنے یار سے مل تو لوں۔۔۔۔ پھر مجھے چھوڑ کر ریما کے پاس جا کر بیٹھ گیا اور میں نے سکون کی سانس لی۔۔۔۔۔ اور سناؤ میرے یار کیسی رہی تمہاری سالگرہ( وہ آنکھ مارتے ہوئے بولا) میں بھی رباب کے برابر بیٹھتے ہوئے بولا زندگی کی سب سے حسین اور یادگار ۔۔۔۔۔ یہ کہتے ہوئے میں نے پیار سے رباب کو دیکھا اس سے پہلے کوئی اور مجھ سے کچھ کہتا دروازہ ناک ہوا اور رباب کے اجازت دینے پر ویٹر اندر داخل ہوا اور ہم کو ویل کم سوفٹ ڈرنک اور اسٹارٹر سرو کر نے لگا۔۔۔۔ ہم وہ انجوائے کرنے لگے اور ادھر اُدھر کی باتیں بھی کرنے لگے۔۔۔۔ میں نے اندازہ کیا کہ شان اور ریما کے درمیان بھی کوئی کیمسٹری چل رہی تھی۔۔۔۔۔ وہ دونوں چوری چوری ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرا رہے تھے ۔۔۔۔۔خوشی ان کے سراپے سے جھلک رہی تھی۔۔۔۔ اور پھر میرا اندازہ درست ثابت ہوا جب ریما نے یہ انکشاف کیا کہ وہ اور شان آج شام شادی کر چکے ہیں۔۔۔۔اس نے اپنے پرس سے نکاح نامہ کی کاپی نکال کر رباب کو دی۔۔۔۔ اس نے دیکھ کر مجھے دی اور میں نے بھی پڑھنے کے بعد اسکو واپس دے دی۔۔۔۔۔ رباب اور میں ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرانے لگے۔ میں اور رباب بھی مسکرا کر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔۔۔۔ اور پھر رباب نے آپنے پرس سے نکاح نامہ کی کاپی نکال کر ریما کو پکڑا دی۔۔۔۔ جسے دیکھ کر وہ حیران رہ گئی اور پھر شان کی طرف بڑھا دیا اور وہ بھی دنگ رہ گیا شان: تم دونوں نے بھی شادی کر لی اور وہ بھی آج۔۔۔۔۔ شام میں۔۔۔۔ وہ نکاح نامہ پڑھتے ہوئے بولا میں نے ایک محبت بھری نظر رباب پر ڈالی اور کہا ہاں تم جانتے تو ہو۔۔۔۔میں پسند تو پہلے ہی کرتا تھا۔۔۔۔۔ رباب کو اور ملنے کے بعد صبر نا ہوا اور فورا اس کواپنے نام کر لیا۔۔۔۔۔ ریما بھی خوشی کا اظہار کرنے لگی۔۔۔۔۔ اور رباب سے تفصیل پوچھنے لگی وہ دونوں آپس میں باتوں میں مصروف ہو گئیں کہ اتنے میں دروازہ ناک کر کے ویٹر اندر آگیا اور کھانے کی ٹرالی ہمارے پاس رکھ گیا ہم نے کھانا شروع کیا اور خوش گپیوں میں کھانا ختم کیا۔۔۔۔۔ بل ادا کرنے کے بعد ہم پیدل باہر نزدیکی ساحل پر آگئے اور ٹہلنے لگے جب میں نے شان سے اس کے فیصلے کے بارے میں پوچھا شان: یار عاشر۔۔۔۔ میں نے یہ فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کیا ہے۔۔۔۔۔ شاید تم ریما کے بارے میں جانتے ہو( اس نے میری طرح دیکھا اور میں نے سر اثبات میں ہلا دیا) میں اس سے بہت متاثر ہوا ہوں۔۔۔۔ یار کم عمری میں جو کچھ اس کے ساتھ ہوا اس کے بعد اس نے اپنے آپ کو بڑا سنبھال کر رکھا ہے۔۔۔۔ کسی کو دوبارہ اپنے جسم سے کھیلنے نہیں دیا۔۔۔۔ ہاں اپنے خوب صورت بدن کا استعمال ضرور کیا۔۔۔۔۔ اور تمہیں کوئی اعتراض نہیں اس بات پر کہ وہ اتنے آدمیوں کے ٹچ میں رہی ہے۔۔۔۔۔ میں نے بات کاٹ کر پوچھا شان نے نہیں میں سر ہلا کر کہا سچ پوچھو تو نہیں۔۔۔۔ اس نے جو بھی کیا وہ اس کی مجبوری تھی۔۔۔۔ اگر وہ ایسا نہ کرتی تو آج کسی پھٹے ہوئے کاغذ کی طرح پڑی ہوتی کہیں (پھر میری طرف دیکھتے ہوئے ہلکی آواز میں بولا) میری طرف دیکھ یار۔۔۔،میں بھی تو کون سا پاک صاف ہوں کتنی ہی لڑکیوں کے جسموں سے کھیل چکا ہوں۔۔۔۔ مگر اب تھک گیا ہوں یار(وہ گہری سانس لے کر چپ ہو گیا اور ایک لمحہ کے بعد پھر بولا) ۔۔۔۔ اب دل چاہتا ہے کہ کوئی تو ایسا ہو جو سچے دل سے مجھے پیار کرے۔۔۔۔میرابھی ایک گھر ہو۔۔۔۔۔ بچے ہوں۔۔۔۔۔ وہ جیسے کسی ٹرانس میں ہلکے ہلکے بول رہا تھا اور اس کی نظریں سامنے ذرا دور نظر آتی ریما اور رباب پر تھی۔۔۔۔اب ہم دونوں چھوٹی دیوار پر بیٹھ گئے میں: تم کب سے ریما کو جانتے ہو؟ شان: بہت پہلے سے جانتا ہوں۔۔۔۔ بلکہ جب یہ ناصر کے ساتھ ہوا کرتی تھی۔۔۔۔اس وقت سے جانتا ہوں(میری طرف دیکھ کے اس نے انکشاف کیا)۔۔۔۔اور یہ بھی کہ اس نے ناصر کو حد سے آگے بڑھنے نہیں دیا۔۔۔۔ مگر اس بات کا ناصر کو احساس بھی نہیں ہوا کہ ریما نے اس کا کتنا اچھا استعمال کیا۔۔۔۔شائد وہ اس وقت اس کی ضرورت تھی۔۔۔۔ وہ گہری سانس لیے کر چپ ہوا تو میں نے کہا ہاں۔۔۔۔ رباب نے مجھے بتایا تھا اور پھر میں نے شان کو وہ سارے حالات بتائے جس کی وجہ سے ریما ناصر کے ساتھ تھی شان خاموشی سے سنتا رہا اور پھر بولا۔۔۔۔ مجھے اندازہ تھا کہ ایسا ہی کچھ معاملہ ہوگا۔ میں نے پوچھا پھر تم کیسے اس کی طرف آئے اور وہ کہنے لگا۔۔۔۔کچھ عرصے کے بعد ناصر امریکہ چلا گیا اور میں نے ریما کو اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کی۔۔۔۔ تب مجھے اس کے کردار کی مضبوطی کا احساس ہوا۔۔۔ناصر کے ساتھ مجبوری نے اس کوباندھا ہوا تھا مگر میری طرف آنے کے لیے کوئی مجبوری نہیں تھی۔۔۔۔۔اس نے مجھ کو بلکہ کسی اور کو بھی کوئی گھاس نہیں ڈالی۔۔۔۔ مجھے احساس ہوا کہ وہ ایسی لڑکی نہیں ہے جیسی میں سوچ رہا تھا۔۔۔۔۔۔ پھر اس کے ساتھ ایک دو کیسز میں کام کیا۔۔۔۔ تمہیں یاد ہوگا وہ سلمان والا کیس( اور میں نے اثبات میں سر ہلایا) اس میں اپنی جان پر کھیل کر ساری انفارمیشن ریما ہی لائی تھی۔۔۔۔ میں اس کی جی داری کا قائل ہو گیا۔۔۔۔۔ اور اس کے بارے میں معلومات حاصل کرنی شروع کی اور اس طرح سب پتہ چلتا گیا اور یہاں تک کہ میں رباب کے بارے میں جان کر تو اور بھی ریما کا فین ہو گیا۔۔۔۔ رباب کے ماں باپ کا احسان یاد رکھتے ہوئے اس نے جس طرح رباب کو مشکلات سے بچایا وہ قابل تعریف ہے۔۔۔آج کل کون کسی کے احسان کو یاد کرتا ہے۔۔۔ سب موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ میں : تو۔۔۔ تم رباب کو جانتے تھے۔ شان مجھے دیکھ کر مسکرایا اور کہا ہاں جانتا تھا اور تمہاری طرف میں نے ہی اس کا دھیان ڈالا تھا۔۔۔۔ وہ بھی تمہاری طرح آدم بیزار تھی اور کچھ ریما کے تجربے کی وجہ سے محتاط تھی اچھا تو میں آدم بیزار ہوں ۔۔۔۔ میں نے خفگی دکھائی ارے یار نہیں۔۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ لڑکیوں کے معاملے میں ہاتھ تنگ تھا تمہارا۔۔۔۔ اس نے وضاحت کی جی نہیں ایسی کوئی بات نہیں تھی۔۔۔۔ ہاں تم یہ کہہ سکتے ہو کہ میں نے کبھی کوشش نہیں کی اس دشت کی سیاحی کی۔۔۔۔ میں نے اس کی تصیح کی چلو تم اس بات کو ایسے ہی لے لو۔۔۔ وہ میرے کندھے پر ہاتھ پھیلاتا ہوا منانے والے انداز میں بولا۔۔۔۔۔بہرحال ان دنوں تم نے نادر والا کیس ختم کیا تھا اور پورے ادارے میں لوگ تمہاری تعریف کر رہے تھے۔۔۔۔ وہی وقت تھا جب رباب نے تمہارے بارے میں سوچنا شروع کردیا۔ میں: تو فون پر بات کرنے کی ترکیب بھی تمہاری تھی۔۔۔۔ میری جاسوسانہ رگ اب بیدار ہو گئی تھی اور میں نے کندھے سے اس کا بازو جھٹک دیا۔ وہ شرارتی انداز میں مسکرایا اور سینے پر ہاتھ کر جھک گیا۔۔۔۔ یس مائی پرنس میں بھی ہنس دیا۔۔۔۔ اور ہلکے سے اس کے شانے پر مکا مارا۔۔۔۔۔ بہت کمینے ہو تم شان: میں کمینہ پن نا دکھاتا تو حضور کنوارے رہتے۔۔۔۔ ویسے ایک بات تو بتا۔۔۔۔ (وہ میرے اور قریب ہو گیا)۔۔۔۔ تم ایک ملاقات میں شادی تک کیسے پہنچ گئے۔۔۔۔ میں نے ایک گہری سانس لے کر کل سے لے کر نکاح تک اور پھر آگے کا پلان بھی اسے بتا دیا۔۔۔ سب سن کر اس نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا تم نے بالکل ٹھیک فیصلہ کیا ہے عاشر۔۔۔۔اور آگے جو سوچا ہے وہ بھی ٹھیک ہے۔۔۔۔ میں بھی یہی کروں گا۔۔۔۔ اتنے میں رباب اور ریما قریب آگئی ریما: چلنا نہیں کیا۔۔۔ قریب آکر کھڑے کھڑے ہی اس نے پوچھا شان : ادھر بیٹھو ایک بات ڈسکس کرنی ہے وہ دونوں بھی بیٹھ گئ اور شان نے میرا اور رباب کا پلان ریما کو بتایا اور کہا کہ وہ بھی ایسا ہی کرنا چاہتا ہے ہم چاروں نے آرام سے کھل کے بہت بے تکلفی سے سب باتوں کو ڈسکس کیا اور پھر اس پر عمل کرنے کو تیار ہو گئے۔۔۔۔ رات گہری ہونے لگی تھی چنانچہ ایک دوسرے کو بائے کرتے ہوئے ہم اپنی اپنی گاڑیوں میں بیٹھ گئے میں نے گاڑی کو رباب کے گھر پر لا کر روکا تو وہ بولی میں تو سمجھی تھی کہ تم اپنے گھر لے کر جاؤ گے میں: نہیں۔۔۔۔ ابھی نہیں ۔۔۔۔میں اپنے آج تک کی زندگی کے سب سے اچھے دن کا اختتام ویسے ہی کرنا چاہتا ہوں ۔۔۔۔ جیسے شروع کیا تھا۔۔۔ پھر اس کے قریب ہو کر ہلکے سے کہا اور جہاں سے شروع کیا تھا وہ شرما گئی اور اتر کر گیٹ کھولا۔۔۔ میں گاڑی اندر لے آیا تو اس نے گیٹ لاک کیا اور مین دروازہ کھولا۔۔۔۔ میں بھی گاڑی لاک کرکے اندر آگیا۔۔۔۔ الارم کو آف کرکے وہ مجھے اندر بیڈ روم میں لے آئی۔۔۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے جاکر اپنی جیولری اتارنے لگی۔۔۔۔ میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا تھا۔۔۔۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی میں نے پھرتی سے اپنے جوتے موزے اتارے۔۔۔۔ کوٹ اتارا۔۔۔۔ ٹائی بھی کھینچ کے اتار دی ۔۔۔۔ اپنی پینٹ کی بیلٹ کھولتے ہوئے اور اس کو بھی صوفے پر پھینکتے ہوئے میں اس کے بالکل پیچھے جا کر کھڑا ہو گیا۔۔۔۔ وہ اسٹول پر بیٹھی بہت مگن سی اپنی جیولری اتارنے اور اس کو باکس میں رکھنے میں مصروف تھی۔۔۔۔۔۔ بالوں کو لپیٹ کر کیچر لگا لیا تھا۔۔۔۔ اس کی گوری کمر اور اس پر فراک کو ٹائٹ کرنے والی ڈوری لٹک رہی تھی۔۔۔۔ میں نے ڈوری کو کھینچ دیا۔۔۔۔ وہ ایک دم سے کھل گئی۔۔۔۔ رباب نے ایک دم نظر اٹھا کر شیشے میں مجھے دیکھا رباب: کیا ہوا؟ میں نے اس کو شانوں سے پکڑ کر اٹھایا اور اس کا رخ اپنی طرف کیا۔۔۔۔۔ گلے میں پڑے دوپٹہ کو کھنچ کر صوفے پر پھینک دیا۔۔۔۔۔ کیچر نکال کر جھک کر اپنے چہرہ کو اس کی معطر زلفوں میں چھپایا اور گہری گہری سانس لینے لگا۔۔۔۔ اپنے دونوں دودھیا بازو میری کمر کے گرد حمائل کرتے ہوئے وہ بولی۔۔۔ عاشر کیا ہوا۔۔۔۔ ایسے کیوں ہو رہے ہیں۔۔۔۔ کیا ہوا صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے۔۔۔۔ بس اب برداشت نہیں ہو رہا ہے۔۔۔۔ میں اسی طرح منہ چھپائے چھپائے بولا تو اس نے مجھے الگ کیا۔۔۔ اور میری شرٹ کے بٹن کھولتے ہوئے بولی۔۔۔۔ تو کس نے انتظار کرنے کو کہا ہے۔۔۔ جو چاہے کرو۔۔۔۔ میں سر سے پاؤں تک تمہاری ہوں۔۔۔۔ یہ کہتے کہتے میری شرٹ اور بنیان بھی اتار دی۔۔۔ میں نے بھی اس کی فراک کی سائیڈ زپ اتار کر اسے فراک سے نجات دلا دی۔۔۔۔۔ بریسٹ پیڈ اتارتے ہوئے میں نے اس کو اپنی گود میں اٹھا لیا اور بستر پر ڈال کر اس کا تنگ پاجامہ بمعہ پینٹی کے اتار دیا۔۔۔۔ اب وہ میرے سامنے بالکل ننگی پڑی تھی اور اس کا بے داغ جسم مجھے اپنی طرف بلا رہا تھا اور میں اس کی پکار کو رد نہیں کر سکتا تھا۔۔۔ مزید دیر نہ کرتے ہوئے میں اس پر جھک گیا۔۔۔۔۔ اپنے جسم سے اس کو لپٹاتے ہوئے میں نے اس کے ہونٹوں کو چومنا شروع کر دیا۔۔۔۔ وہ بھی میرا بھرپور ساتھ دے رہی تھی۔۔۔۔۔ میری زبان اس کے منہ میں گھوم رہی تھی۔۔۔۔ اور وہ اس کو پکڑ نہیں پا رہی تھی۔۔۔۔ میں نے اس کی بے چینی دیکھتے ہوئے اپنی زبان اس کے منہ میں ڈال دی۔۔۔۔ اور وہ بے قراری سے چوسنے لگی۔۔۔۔ مجھے اپنے نیچے ہلچل محسوس ہو رہی تھی مگر میرا عضو ابھی قید میں تھا ۔۔۔۔ زبان چوسوانےکے ساتھ میں نے اپنے ہاتھ سے اس کے بوبز کو دبانا شروع کر دیاتھا۔۔۔۔اپنے ہونٹ اس کے ہونٹ سے جدا کر کے اب میں اس کے بوبز منہ میں لے کر چوس رہا تھا اور وہ سسکاریاں بھر رہی تھی۔۔۔۔ اچانک اس نے مجھے پلٹا دیا اور خود میرے اوپر آکر بیٹھ گئی۔۔۔۔۔ میں نے مزے میں آنکھیں بند کر لیں اور اس کے نرم ہونٹوں اور گرم سانسوں کو اپنے پورے جسم پر محسوس کرنے لگا۔۔۔۔۔انڈر وئیر کی قید سے میرے ہتھیار کو آزاد کرتے ہوئے وہ اس کی خدمت میں لگ چکی تھی۔۔۔۔۔اور پوری کوشش کر رہی تھی کہ وہ منہ میں چلا جائے۔۔۔۔ اس کام سے فارغ ہو کے وہ اوپر سے نیچے تک اس کو چاٹنے لگی ۔۔۔۔۔ میں اس کے بالوں کو سہلا رہا تھا اور وہ کسی چوپائے کی طرح گھٹنوں کے بل کھڑی میرے ہتھیار کو پکڑے اوپر نیچے کرتے ہوئے چوس اور چاٹ رہی تھی۔۔۔۔۔ میں اس کی کمر پر ہاتھ پھیرنے لگا اور میری انگلیاں اس کے ہپس کی دراڑ میں گھس گئی اور پھر نیچے اس کی چوت تک پہنچ گئی۔۔۔۔ وہ ایک سسکی سی لے کر پلٹی اور اس طرح گھٹنوں کے بل چلتی میرے چہرے کی طرف آگئی۔۔۔۔ وہ مجھے ماتھے پر کِس کرنے لگی اور اس کے سینے کے اُبھار میرے منہ کو چھونے لگے۔۔۔۔ میں نے منہ کھول کر ایک اُبھار کو منہ میں بھر لیا اور چوسنے لگا۔۔۔۔ وہ بھی مزے سے سسکاریاں بھرنے لگی تھوڑی دیر اس چوما چاٹی سے فارغ ہو کر میں نے اس کو بستر پر سیدھا لٹا دیا اور ٹانگیں کھول ان کے بیچ آگیا۔۔۔۔ رباب بھی سمجھ گئی اور اپنی ٹانگیں مزید کھول دیں۔۔۔۔ میں نے اپنے ہتھیار کو چوت پر رکھ کر رگڑنا شروع کیا اور وہ جیسے سحر اٹھی۔۔۔۔۔ گیلی تو وہ پہلے ہی ہو رہی تھی اب مزید چکنی ہو گئی۔۔۔ اب انتظار نہیں ہو رہا تھا وہ اپنی ٹانگیں اور اوپری جسم کو بری طرح بستر پر مچل رہی تھی اور اس سے اس کی بے تابی کا اظہار ہو رہا تھا۔۔۔۔ چنانچہ اپنی محبوبہ اور بیوی کو اتنا انتظار کروانا اچھا نہ سمجھتے ہوئے میں نے اپنے ہتھیار کر ایک جھٹکے میں اندر ڈال دیا۔۔۔۔ اس کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکلی اور وہ تڑپ گئی سوری میری جان۔۔۔۔ میں نے شرمندہ ہوتے ہوئے کہا مجھے خیال کرنا چاہیے تھا کہ ابھی تمہاری چوت اتنی نہیں کھلی ہو گی۔۔۔۔۔ سوری جانو۔۔۔۔ میں اس کے کان میں سرگوشیاں کرتے ہوئے اپنے ہتھیار کو آگے پیچھے کرنے لگا ۔۔۔۔ وہ بھی برداشت کرتے ہوئے ہلکے ہلکے سسکاری بھرنے لگی۔۔۔۔ پھر میری سپیڈ تیز ہوتی گئی اور وہ بھی میرا نام پکار کر مجھے مزید تیز ہونے کا کہنے لگی اور تھوڑی ہی دیر میں ہم دونوں ہی زوردار جھٹکے سے فارغ ہو گئے۔۔۔۔۔ میں نے زور سے اس کو اپنے سینے سے لگا لیا اور پرسکون ہو کر آنکھیں بند کر لیں۔۔۔۔۔ تھوڑی دیر خاموشی سے پڑے ہوئے ہم اپنےکئے ہوئے سیکس کے مزے لیتے رہے اور پھر باری باری واش روم سے فارغ ہو کر اسُی طرح ننگے بستر پر ایک دوسرے سے لپٹ کر سو گئے۔۔۔۔ ہاں کمبل ضرور اپنے اوپر ڈالا تھا اور رباب نے صبح کے لیے الارم بھی لگایا تھا۔۔۔۔۔ ہم دونوں ایک دوسرے کی بانہوں میں بے سدھ پڑے سو رہے تھے جب الارم سے ہماری آنکھ کھلی۔۔۔۔ رباب نے مڑ کر سائیڈ ٹیبل پر الارم بند کیا اور میری طرف مڑ کر پیار سے میرے ہونٹوں کو کِس کرکے بولی۔۔۔۔ گڈ مارننگ مائی ڈئیر ہسبینڈ میں نے بھی جواباً اپنی بانہیں کسَ لیں اور کہا گڈ مارننگ ۔۔۔۔ مائی لولی وائف۔۔۔۔ اور پھر ہم نے خوب ایک دوسرے کو چوما اور پھر بستر چھوڑ دیا۔۔۔۔ ہم دونوں ساتھ ہی نہائے مگر کسی بھی مستی سے پرہیز کیا۔۔۔۔ وقت کم تھا اور آج تو جاب پر جانا تھا اور پیار کے لیے یہ وقت اچھا نہیں تھا ۔۔۔۔ لہذا جلدی جلدی تیار ہو کر اور ناشتہ کرکے ہم گھر سے نکل گئے میں جیسے ہی آفس پہنچا۔۔۔۔ خبر ملی کہ کمشنر صاحب کے ساتھ میری میٹنگ فکس ہے ۔۔۔۔۔ لنچ تک میں بہت بزی رہا۔۔۔۔ اس کے بعد میٹنگ میں چلا گیا ۔۔۔۔۔ میٹنگ میں مجھے بتایا گیا کہ میرے انڈر میں کچھ لوگوں کو دے کر ایک ٹیم بنائی جا رہی ہے جو صرف ہائی پروفائل کیس حل کرے گی اور براہ راست کمشنر صاحب کے انڈر کام کرے گی۔۔۔۔ اس ٹیم میں کچھ شامل لوگوں کا نام مجھے خوش کر گیا۔۔۔۔ ان کا انتخاب کمشنر صاحب نے خود کیا تھا۔۔۔۔ میں نے شان اور کامل کے نام بھی اس میں شامل کر دیے جو منظور کر لیے گئے۔۔۔۔ اب میری ٹیم میں تین لڑکیاں جن میں سےایک ریما، رباب اور سیما شامل تھیں۔۔۔۔۔ جبکہ لڑکوں میں شان، کامل، شبیر، خاور شامل تھے۔۔۔ ٹوٹل آٹھ افراد پر مشتمل ٹیم ہر لحاظ سے مکمل تھی۔۔۔۔ ریما اور کامل بہترین انفارمر تھے۔۔۔۔۔ جبکہ شبیر اور رباب کمپیوٹر ماسٹر۔۔۔اور سیما فارنسیک میں ایکسپرٹ ۔۔۔۔۔ میں شان اور خاور ہر فن مولا تھے۔۔۔۔ ہمارے لیے بلڈنگ میں ایک پورشن خالی کر دیا گیا اور ہم نے اس کو سیٹ کرنا شروع کردیا
اس نئ ذمہ داری نے ہم سب کو مصروف کر دیا،۔۔ حتی کہ ہم نے چھٹی والے دن بھی اپنا کام جاری رکھا اور اس کے نتیجے میں ہمارا پورشن بہت جلد سیٹ ہو گیا جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے ہم نے اپنے مطلب کی بہت سی چیزیں جمع کر لیں۔۔۔۔ ان سے ہمیں بہت فائدہ ہوا۔۔۔۔۔اب ہم نے باضابطہ طور پر اپنے کام کا آغاز کیا۔ ۔۔۔۔۔۔ہمارا پہلا کیس ایک مشکل کیس تھا جو کافی عرصے سے ڈپارٹمنٹ کے لیے مصیبت بنا ہوا تھا۔۔۔۔۔ ہم نے محنت اور تدبیر سے مہینے میں وہ حل کر لیا۔۔۔۔۔ پھر ایک کے بعد ایک کیس میں ہم بزی ہوتے گئے۔۔۔۔۔۔تین مہینے گزر گئے اور ہمیں کام کے علاوہ کسی چیز کا کوئی ہوش نہ رہا۔۔۔۔جب اچانک ایک دن رباب میرے آفس میں آئی۔۔۔۔۔ اندر داخل ہو کر دروازہ لاک کردیا۔ رباب نے کمرے میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے ٹیبل پر پڑا ہوا ریموٹ اٹھا کر میرے کمرے کا کیمرہ بند کردیا اور ساتھ ہی اس کا ساونڈ سیسٹم بھی آف کردیا۔۔۔۔ میں حیرت سے اس کی اس کاروائی کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ وہ سیدھی میرے پاس آئی اور میری ریوا لونگ چئیر کو تھوڑا سا پیچھے کر کے اپنی ایک ٹانگ ایک طرف اور دوسری ٹانگ دوسری طرف کر کے میری گود میں بیٹھ گئی۔۔۔۔۔ مجھے اس کی چوت کی گرمی اپنی جینز اور انڈر وئیر پہنے ہوئے ہونے کے باوجود محسوس ہو رہی تھی۔۔۔۔ مجھے لگا کہ وہ پینٹی نہیں پہنے ہے۔۔۔بنا کچھ بولے اس نے دونوں ہاتھ میری گردن میں ڈال کر اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں سے جوڑ دیے۔۔۔۔ ایک کرنٹ سا پاس ہوا اور میں سب بھول گیا۔۔۔۔۔ بس یاد رہا کہ رباب میری گود میں میری بانہوں میں ہے اور اس کے نرم گرم ہونٹ میرے ہونٹوں کی گرفت میں ہیں۔۔۔۔ میں بہت پیار سے اس کے ہونٹ چوس رہا تھا۔۔۔۔ جیسے کوئی رس پی رہا ہوں اور وہ بھی آنکھیں بند کیے مزے لے رہی تھی۔۔۔۔ کبھی نیچے کا ہونٹ تو کبھی اوپر کا اور اس کے بعد ہم دونوں کی زبانوں کے ٹکراو نے تو اور مزا بڑھا دیا۔۔۔۔ ہم دونوں کافی دیر اس کِس کے مزے لیتے رہے یہاں تک کہ سانسیں رکنے سی لگیں تو ہم الگ ہو گئے اور اس نے بھی تھک کر میرے کندھے سے سر ٹکا دیا اور گہری گہری سانسیں لینے لگی۔۔۔۔ میں نے اپنے دونوں بازو اس کے گرد باندھ دیے اور اپنا سر اس کے سر پر ٹکا دیا۔۔۔۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ بولی۔۔۔۔ عاشر۔۔۔۔ کتنے دنوں کے بعد کیا ہے ناں میں نے اسے اپنی گود سے اٹھا کر اپنے سامنے پڑی فائل ہٹا کر ایک سائیڈ پر کی اور اسے وہاں ٹیبل پر لٹا دیا۔۔۔۔اس طرح کہ اس کی ٹانگیں نیچے لٹک رہی تھیں میں نے اس کے لانگ اسکرٹ کو اوپر کیا اور میرا اندازہ صحیح تھا اس نے نیچے سے اپنی پینٹی اتاری ہوئی تھی۔۔۔۔۔ میں نے ہلکے سے کہا ابھی تو کچھ کیا ہی نہیں ہے۔۔۔۔ اب کریں گے۔۔۔۔۔ اور یہ کہتے ہی میں نےاپنی چئیر کو جس پر میں بیٹھا ہوا تھا آگے کیا اور اس کی گیلی ہوتی چوت پر اپنا منہ رکھ دیا۔۔۔ اس کی تیز سسکاری نے مجھے اور جنون میں مبتلا کر دیا اور بس پھر تو میری زبان اور بیچ والی انگلی نے وہ کمال دکھائے کہ رباب بری طرح تڑپ گئی۔۔۔۔۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے میز کے کونوں کو جکڑا ہوا تھا اور منہ سے سسکاریاں اور میرا نام تواتر سے میرے کانوں میں پڑ رہا تھا اور میں اپنے ایکشن کو تیز کرتا جا رہا تھا۔۔۔۔ میری زبان اس کے چوت کے دانے کو رگڑ رہی تھی اور میری بیچ والی انگلی اس کی چوت کے اندر باہر ہو رہی تھی اور شاید اس کے جی پوائنٹ کو ٹچ کر رہی تھی۔۔۔۔ رباب کی تڑپ سے مجھے اندازہ ہو رہا تھا خود میرے اپنے نیچے بھی ہلچل ہو رہی تھی مگر میرا ہتھیار ابھی قید میں تھا۔۔۔۔ آخرکار رباب کا جسم اکڑ گیا اور ایک زبردست جھٹکا لے کر وہ جھڑ گئی اور میں پیچھے ہٹ کر کھڑا ہوا اور اپنی جینز کے بٹن و زپ کھول کر اور اپنی انڈر وئیر کو نیچے کر دیا۔۔۔۔ میرا ہتھیار ایک دم اکڑ کر تیار ہو گیا۔۔۔۔ اپنی مکمل لمبائی اور سختی کے ساتھ وہ رباب کے اندر جانے کو پورا پورا تیار تھا۔۔۔۔ اور میں نے بھی دیر نہ کرتے ہوئے اسے رباب کی چوت کا تنگ رستہ دکھا دیاہتھیار کو تیز جھٹکے اور ایک دم ڈالنے پر رباب ہلکے سے چیخ اٹھی۔۔۔۔ مجھے احساس ہوا کہ میں تھوڑا رَف ہو گیا تھا۔۔۔۔۔ سوری میری جان۔۔۔۔ سوری۔۔۔۔ دھیان نہیں رہا۔۔۔۔ میں نے ہلکے سے رباب کے کان میں سرگوشی کی اور پھر ایک سیکنڈ کے لیے رک کر اس کے بلاؤز کے بٹن کھول کر اس کی بریزر کو ایک طرف سے اٹھا کر اس کے بوب کو منہ میں لے کر چوسنا شروع کر دیا۔۔۔۔ اس کو آرام محسوس ہوا اور اس کی انگلیاں میرے سر کے بالوں میں گھومنے لگیں۔۔۔۔ بوب چوستے ہوئے میں نے ہلکے ہلکے نیچے سے بھی ہلنا شروع کیا اور ایک بعد دوسرے بوب کو چوستے چوستے میں نے اپنی نیچے دھکوں کی رفتار بڑھا دی۔۔۔۔ پھر بوبز چھوڑ کر سیدھا ہوگیا اور سارا زور نیچے لگا دیا۔۔۔۔۔ زور بڑھتا گیا اور رباب کی آوازیں اور سسکاریاں بھی بڑھتی گئی یہاں تک کہ میں ایک زور دار جھٹکا لے کر اپنی منی سے اس کی نازک سی چوت کو بھرنے لگا۔۔۔ کافی دنوں کے بعد کیا تھا تو کافی وقت لگا جھڑنے میں اور جھڑا بھی میں خوب۔۔۔۔۔رباب کی چوت سے بھی اس کا پانی اور میری منی بہہ کر باہر آ گئی۔۔۔میں نے ٹشو پیپر باکس سے ٹشو لے کر اس کی چوت کو صاف کیا۔۔۔۔۔۔۔ وہ بالکل مست اور سدھ میری آفس ٹیبل پر پڑی تھی۔۔۔۔ میں نے پیار سے اس کو دیکھا اور پھر واش روم چلا گیا۔۔۔ ٹشو کو فلش کر کے اور فریش ہو کر منہ ہاتھ دھو کر باہر آیا تو ابھی تک ویسے ہی پڑی تھی۔۔۔۔ میں نے اس کے سر کے قریب آکر جھک کر اس کی چہرے کو پیار سے چوما اور اس کے بالوں کو سہلاتے ہوئے پیار سے کہا۔۔۔ ڈارلنگ۔۔۔ اٹھو۔۔۔۔۔ جاؤ فریش ہو جاؤ ۔۔۔۔۔اس نے آنکھیں کھول کر مجھے دیکھا اور ایک ہیجان خیز انگڑائی لے کر کہا ہہہممممم۔۔۔۔۔ فریش تو میں ہو گئی۔۔۔۔ جان آگئی ہے،۔۔۔۔ جسم ٹوٹا پھوٹا لگ رہا تھا۔۔۔۔۔ سب ٹھیک ہو گیا ہے۔۔۔۔۔ افففففف کتنا مزا آرہا ہے کہ میں بتا بھی نہیں سکتی۔۔۔۔تم بتاؤ تمہیں نہیں آرہا۔ میں مسکرا اٹھا اور کہا بہت اچھا لگ رہا ہے میری جان۔۔۔۔ واقعی اتنے دنوں کے بعد کیا ہے تو اور مزا آیا ہے۔۔۔۔ تھینکس تمہاری وجہ سے میرے جسم کو یہ سکون حاصل ہوا ہے۔۔۔۔ مگر اب اٹھ جاؤ ۔۔۔۔ وقت دیکھو کیا ہو گیا ہے۔۔۔ گھر نہیں چلنا۔۔۔۔ ( میں نے اس کی توجہ وقت کی طرف دلائی) رباب اٹھ کر بیٹھ گئی اور ٹیبل سے اترتے ہوئے بولی۔۔۔۔ ہاں گھر جانا ہے بھئ کیوں نہیں جانا۔۔۔۔ اور بھوک بھی تو لگ رہی ہے۔۔۔۔ کیوں میاں جی۔۔۔ ڈنر تو کراو گے ناں( وہ شرارت سے مجھے دیکھتے ہوئے بولی) میں نے اس کے قریب آکر کہا۔۔۔ کیوں نہیں کراؤں گا۔۔۔۔ آخر کار نان نفقہ کی ذمہ داری جو لی ہے۔۔۔( پھر اس کے بالوں کو سہلاتے ہوئے بولا) جو میری جان کہے گی آج ڈنر وہی ہو گا۔۔۔یہ کہتے ہوئے اس کو محبت سے اپنی بانہوں میں بھر کر میں نے اسے اپنے سینے سے لگا لیا۔۔۔۔ ہم دونوں تھوڑی دیر اسی طرح کھڑے رہے اور پھر میں نے اس کو گال پر کِس کر کے اپنی بانہوں سے آزاد کر دیا۔۔۔ وہ واش روم چلی گئی اور میں اپنی آفس ٹیبل کو سیٹ کر نے میں لگ گیا۔۔۔۔ ٹیبل کو صاف کرکے سب فائلز ٹھیک کر کے رکھیں۔۔۔۔ کمرے میں سیکس کے بعد کی مخصوص خوشبو بھری تھی۔۔۔۔ آگے بڑھ کر کمرے کا دروازہ کھولا اور روم اسپرے کیا۔۔۔۔ اتنی دیر میں رباب بھی آگئی میں: چلیں۔۔۔ سب تو جا چکیں ہیں۔۔۔ سناٹا لگ رہا ہے آفس میں( میں نےاندازا لگاتے ہوئے کہا) رباب: کب کے جا چکیں ہیں سب۔۔۔ ان سب کے جانے کے بعد ہی تو میں اندر آئی تھی۔۔۔ اور ویسے بھی اب وقت بھی تو دیکھو کیا ہوا ہے۔۔۔( ہم دونوں نے وال کلاک کی طرف دیکھا) آٹھ بج رہے ہیں میں : ہاں آج کوئی کام نہیں تھا ناں اس لیے سب جلدی نکل گئے ورنہ تو رات کے بارہ بھی بج جاتے ہیں( میں نے ساری چیزیں ترتیب سے رکھ کر کمپیوٹر اور دوسری مشینوں کو بھی آف کرنا شروع کیا جس میں رباب نے بھی میرا ہاتھ بٹایا) رباب: ہاں ۔۔۔۔ ویسے تو ہم نے پوری پوری رات بھی گزاری ہے۔۔۔ مگر جب کام ہو تب( اس بات کے ساتھ ساتھ وہ اپنی چیزیں سمیٹنے میں لگی رہی) میں نے کہا ہاں میری ٹیم بہت اچھی ہے رباب نے جواب میں میرے گال پر کِس کیا اور کہا لیڈر بھی تو اچھا ہے۔۔۔۔ پھر ہم دونوں ہی ہنس پڑے ۔۔۔۔۔ اچھے سے ریسٹورنٹ سے ڈنر کرنے کے بعد میں نے رباب کو ہوسٹل ڈراپ کیا اور اپنے گھر آگیا دن گزرتے گئے اور ہمارا کام چلتا رہا۔۔۔ کئی حکومتیں آئیں اور گئیں مگر ہم اپنی جگہ مضبوطی سے قدم جمائے کھڑے رہے۔۔۔۔ ہماری ٹیم میں دو تین لوگوں کا اضافہ بھی ہوا اور اب یہ دس افراد کی بہترین ٹیم بن گئی۔۔۔۔ میرا عہدہ بڑھ گیا اور سیلری ۔۔۔۔ الاؤنسز اور بونس بھی ملنے لگے۔۔۔۔یہاں تک کہ ہمارے ٹیم کا بجٹ بھی الگ سے منظور ہونے لگا جو میں ایمانداری سے اپنی ٹیم کی بہتری کے لیے ہی استعمال کرتا تھا اس دن کے بعد رباب اور میں اکثر و بیشتر آفس میں کھل کر سیکس کیا کرتے تھے۔۔۔۔بلکہ اکثر جب ہم ڈیوٹی پر ہوتے تھے اور کسی کی نگرانی وغیرہ جیسا بور کام کر رہے ہوتے تھے تو میں بوریت سے بچنے کے لیے رباب کی چوت میں انگلیاں ڈال کر گھمایا کرتا تھا۔۔۔۔ کبھی جھک کر اس کی چوت کوچوما کرتا تھا۔۔۔۔ کبھی اس کے بوبز سے رس پیتا تھا اور کبھی اپنا عضو نکال کر رباب کو دے دیتا تھا جس سے وہ خوب کھیلتی تھی اور میں مزے سے پاگل ہو جاتا تھا۔۔۔۔۔ بعض اوقات تو ہم اتنے گرم ہو جاتے تھے کہ ہم کو فوراً اپنی گاڑی میں یا آس پاس کوئی مناسب جگہ دیکھ کر سیکس کر نا پڑتا تھا ۔۔۔۔ گو کہ بہت دفعہ ہم نے رباب کے گھر پر جا کر بھی سیکس کیا مگر جو مزا آفس میں سیکس کرنے یا فیلڈ میں کرنے کا آیا وہ گھر پر نہیں۔۔۔۔ صرف میں اور رباب ہی نہیں بلکہ شان اور ریما بھی اکثر آفس میں اور فیلڈ پر سیکس کرتے تھے۔۔۔۔ میں ابھی تک رباب کو اپنے گھر نہیں لے کر گیا تھا ۔۔۔ ایک دفعہ اس کے پوچھنے پر میں نے کہا تھا کہ جس دن وہ میرے گھر آئے گی اس دن سے وہ وہیں رہے گی۔۔۔ اور پھر وہ آفس بھی نہیں آئے گی وہ میری بات سمجھ گئی تھی۔۔ اس دوران میں نے پیسے جمع کرکے اپنے گھر کے ایک ایک حصے کو ڈیکوریٹ کرنا شروع کر دیا تھا۔۔۔۔ پہلے اسٹارٹ باہر کی طرف سے کیا۔۔۔۔۔ باونڈری وال کو اونچا کروایا اس پر کانچ لگوایا۔۔۔۔ الارم لگوایا۔۔۔۔ فرنٹ۔۔۔۔ بیک گارڈن بنوایا اور پودوں درختوں اور گھاس سے اس کو سجایا۔۔۔ پھر اندر ڈرائنگ ڈائننگ۔۔۔ کو دو بہترین صوفہ سیٹ۔۔۔ گلاس کافی ٹیبل۔۔۔ شو پیسز اور کچھ پینٹنگ سے کمرے کو اچھا ٹچ دیا۔۔۔۔۔بڑی سی فرنچ گلاس کی ڈائننگ ٹیبل نے بمعہ آٹھ کرسیوں کے کمرے کو بھر دیا۔ لاونج میں ایک فل پچاس انچ کی اسکرین بمعہ فل سینما ساونڈ سسٹم ۔۔اس کے نیچے لمبی سی کیبنٹ جس میں ڈِش ریسیور۔۔۔DVDs ۔۔۔DVD player رکھے تھے۔۔۔۔اس کے اوپر سی ڈی پلئیر تھا جس کے اسپیکر اچھے سے کمرے میں سیٹ تھے اور آواز دیواروں سے پھوٹتی محسوس ہوتی تھی۔۔۔۔سیمی سرکل آٹھ سیٹوں والا صوفہ سیٹ اور درمیان میں رکھی ہوئی چھوٹی سی ٹیبل۔۔۔۔ کچن میں سب الیکڑک اپلائنسز موجود تھیں۔۔۔ بس پیک تھیں ابھی استعمال نہیں ہوئ تھیں ۔۔۔۔ میں نے اپنے بیڈ روم کو چھوڑ کر سارا گھر اندر باہر سے سیٹ کر لیا تھا۔۔۔۔ میں اپنے بیڈ روم کو رباب کی مرضی سے سیٹ کرنا چاہ رہا تھا حالانکہ پورا گھر ہی میں نے بہانے بہانے سے اس سے پوچھ کر سیٹ کیا تھا مگر بیڈ روم تو خاص طور پر اس کی مرضی اور پسند سے سیٹ کرنا چاہ رہا تھا۔۔۔۔ ایک دفعہ انتہائی قربت کے موقعہ پر جب ہم دونوں لذت کی بلندیوں پر تھے۔۔۔۔۔ رباب نے اپنے آئیڈیل بیڈ روم کے بارے میں بتایا تھا جو تھوڑا مہنگا تھا چنانچہ میں نے قسطوں پر اس کو بک کروا لیا تھا۔۔۔۔ میرا پورا گھر اس کے لیے ایک سر پرائز تھا۔۔۔۔۔سب کچھ صحیح چل رہا تھا بس اب دیر پتہ نہیں کیوں ہو رہی تھی۔۔۔ اس سب سیٹ اپ میں تین سال گزر گئے رباب اور ریما کے گھر بھی قرضہ سے آزاد ہو گئے اور انھوں نے اپنے گھروں کو ہلکا پھلکا سیٹ کیا کیوںکہ انھیں ہمارے ساتھ رہنا تھا اس لیے انھوں نے گھر کی سجاوٹ پر پیسہ خرچ نہیں کیا بلکہ بچا کر رکھا۔۔۔۔ ایک سال پہلے ہی اس علاقے میں کافی علاقائی کام ہوئے سڑکیں بن گئی اور شاپنگ سینٹر اور پارک بھی بن گیا ۔۔۔۔ علاقہ آباد ہونے لگا۔۔۔۔ رباب اور ریما نے ہم سے مشورہ کرنے کے بعد اپنے گھر کرایے پر اُٹھا دیے۔۔۔۔ کرایہ گو کہ اتنا زیادہ نہیں تھا مگر خالی گھر پڑے رہنے سے اچھا تھا۔۔۔۔ ان کے پاس پیسے جمع ہونے لگے۔۔۔۔ اب ہم دونوں جوڑوں کو اپنی اپنی شادی ڈیکلئیر کر دینی چاہیے تھی مگر ہم اب بھی پتہ نہیں کیوں دیر کر رہے تھے کہ اچانک ایک ایسی بات ہوئی کہ سب کچھ آناً فاناً طے ہو گیا وہ ایک بہت مشکل کیس تھا جس کو ٹریک کرتے کرتے ہم تھک گئے تھے۔۔۔۔ ہمارے دو آدمی مرتے مرتے بچے تھے اور ہم سب اب بہت محتاط ہو گئے تھے۔۔۔۔ اس رات میں بہت مصروف تھا اور میرا گھر جانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔۔۔۔ مجھے ایک بہت ضروری اطلاع کا انتظار تھا۔
رباب بھی میرا انتظار کر رہی تھی جب میں نے اس کہا کہ وہ خود ہی گھر چلی جائے۔۔۔ آج مجھے شاید پوری رات لگ جائے۔۔۔۔میں آفس میں ہی رہوں گا (میں اکثر ہی رباب کو ڈراپ کیا کرتا تھا۔۔۔ خاص طور پر اس وقت جب رات بہت ہو جاتی تھی۔۔۔۔ ورنہ وہ سیما یا ریما کے ساتھ چلی جاتی تھی۔۔۔ میں اپنی ٹیم کی تینوں لڑکیوں کا خاص خیال رکھتا تھا۔۔۔ اور ہمیشہ ان کو اکیلے جانے سے روکتا تھا) اس دن میں بہت جھلایا ہوا تھا۔۔۔۔ یہ کیس اب میں ہر صورت ختم کرنا چاہتا تھا۔۔۔ میرے تمام آدمیوں نے اپنی جان لڑا رکھی تھی اور سب مختلف محاذوں پر تھے اور مجھ سےمکمل رابطے میں تھے۔۔۔۔ جب رباب کمرے میں داخل ہوئی تو میں بہت گہری سوچ میں گم تھا اور اس کے گھر جانے کے سوال پر بے خیالی میں کہہ دیا کہ تم جاؤ میں ابھی رکوں گا۔۔۔۔ مجھے سنجیدہ اور خراب موڈ میں دیکھ کر وہ معصوم کچھ بھی نہ بولی۔۔۔ یہ بھی نہیں کہ وہ اکیلی کیسے جائے گی۔۔۔۔ خاموشی سے نکل گئی۔۔۔۔ میں پھر سے اپنے کام میں مصروف ہو گیا تھا۔۔۔۔ صبح ہو گئی تھی جب شان نے مجھے جگایا شان: اٹھو عاشر صبح ہو گئی ہے( وہ کھڑکیوں سے بلائنڈ ہٹانے لگا) میں سستی سے اپنی چئیر پر پڑا رہا۔۔۔۔ رات پتہ نہیں کب میری آنکھ لگ گئی تھی۔۔۔۔۔ شان میری طرف پلٹا اور پوچھا۔۔۔۔ کیا ہوا۔۔۔ اطلاع نہیں آئی۔۔۔ میں نے نہیں میں سر ہلایا اور پھر سر ٹیبل پر رکھ لیا شان: پریشان مت ہو۔۔۔۔ میرا دل کہتا ہے۔۔۔۔ آج رات یہ کیس حل ہو جائے گا( اس نے میرے کاندھوں کو تھپتھپاتے ہوئے حوصلہ دیا اور میں سر ہلا کر رہ گیا) اٹھو میں ناشتہ لاتا ہوں میں اٹھ کر واش روم کی طرف بڑھ گیا اور فریش ہو کے منہ ہاتھ دھو کے باہر آگیا۔۔۔۔ انٹر کام بجا اور میرے ہیلو کہنے پر شان نے کہا کہ میں میٹنگ روم میں آ جاؤں سب وہاں جمع ہیں۔۔۔۔ میں نے آو کے کہہ کر فون رکھ دیا۔۔۔۔ زہن ابھی بھی الجھا ہوا تھا سب میٹنگ روم میں بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے۔۔۔۔ سینڈ وچ اور کافی کی مہک پھیلی ہوئی تھی۔۔۔۔۔ کیس کو ڈسکس کرتے ہوئے اور ناشتہ کرتے ہوئے مجھے کچھ عجیب سا لگ رہا تھا۔۔۔۔ جیسے کچھ کمی ہو۔۔۔۔ کچھ بے چینی ۔۔۔۔مجھے اس طرح دیکھ کر شان نے پوچھا کہ کیا ہوا؟ میں: کچھ نہیں۔۔۔۔ بس کچھ بے چینی سی ہو رہی ہے( میں نے اپنی پیشانی کو رگڑتے ہوئے کہا) ریما مسکرائی اور بولی۔۔۔ ہہمم۔۔۔ ابھی رباب نہیں ہے ورنہ سب ٹھیک کر دیتی۔۔۔۔ ریما کی بات ایک بلاسٹ کی طرح مجھے لگی اور میں اچھل کر کھڑا ہوگیا۔۔۔۔ سب نے حیرت سے مجھے دیکھا جب میں نے تیزی سے کہا۔۔۔۔ رباب کہاں ہے؟ کیا؟؟؟؟؟ سب ایک دم ساکت ہو گئے۔۔۔۔۔ میں پوچھ رہا ہوں رباب کہاں ہے؟؟؟؟ میں نے دھاڑتے ہوئے پوچھا وہ وہ۔۔۔۔۔ وہ ہمارا ۔۔۔۔ ہمارا خیال تھا کہ آپ نے اسے کسی کام پر بزی رکھا ہے۔۔۔اس لیے وہ یہاں نہیں ہے۔۔۔۔ سیما نے سہمتے ہوئے کہا میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔۔۔۔ شان اور ریما تیزی سے میرے قریب آگئے۔۔۔ ریما: سر کیا ہوا ہے؟ رباب کہاں ہے؟ اس کے لہجے سے گھبراہٹ عیاں تھی میں نے سر اٹھایا۔۔۔۔ کل وہ رات گئے یہیں تھی اور پھر مجھ سے پو چھنے آئی تھی گھر جانے کا( میں ایک دم چپ ہو گیا) ریما؛ سر پھر کیا ہوا بولیں ناں۔۔۔ پھر کیا ہوا؟ ( وہ گھبرائے ہوے لہجے میں بولی) میں نے اسے کہا کہ وہ گھر چلی جائے میں ابھی نہیں جاؤں گا۔۔۔۔ میں نے دھیمے لہجے میں کہا آپ نے اتنی رات گئے اسے اکیلے جانے کا کہا۔۔۔۔ بے یقینی کی کیفیت میں سیما کے منہ سے نکلا اور میں سر پکڑ کر رہ گیا۔۔۔۔۔ ہاں مجھے خیال ہی نہیں رہا کہ وہ اکیلے کیسے جائے گی۔۔۔میں الجھا ہوا اور پریشان تھا۔۔۔۔۔ مجھے خیال ہی نہیں رہا۔۔۔۔۔ میں نے بے بسی سے اسے دیکھتے ہوئے کہا ریما نے کچھ نہ بولتے ہوئے فوراً فون ملایا اور کسی سے بات کر کے رکھ دیا۔۔۔۔ پھر میری طرف دیکھ کر بولی۔۔۔۔ رباب رات ہوسٹل نہیں پہنچی( میں پریشان ہو گیا۔۔۔ مجھے پتہ تھا کہ ریما تو شان کے ساتھ تھی اور اس کے بعد ان دونوں نے رات ساتھ گزاری تھی) مجھے کچھ یاد آیا اور میں ایک دم کھڑا ہو گیا۔۔۔۔ اوہ نو۔۔۔۔ پھر جھپٹ کر انٹر کام آٹھایا اور مین ڈور پر موجود چوکیدار سے تھوڑی دیر بات کی اور پھر انٹر کام رکھتے ہوئے بتایا۔۔۔۔ چوکیدار نے اسے ٹیکسی میں بیٹھتے ہوئے دیکھا تھا۔۔۔۔ ایک منٹ سر۔۔۔۔ شبیر بولا۔۔۔ اگر رباب نے ٹیکسی دروازے کے سامنے سے لی ہے تو سی سی ٹی وی میں وہ ٹیکسی کی فوٹیج ضرور آئی ہو گی۔۔۔۔ شبیر کی اس بات پر سب اچھل پڑے ہاں ہاں۔۔۔۔ تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔۔۔۔ ویڈیو آن کرو۔۔۔۔ میں نے تیزی سے کہا اور ہم سب اٹھ کر اس کے کمپیوٹر سیکشن میں آگئے ویڈیو آن ہوتے ہی ٹیکسی میں بیٹھتی رباب نظر آگئی اور اس کے ساتھ ہی ایک اہم کلیو بھی مل گیا۔۔۔۔ اس ٹیکسی کے پیچھے والے شیشے پر ایک لڑکی کا اسٹیکر لگا ہوا تھا۔۔۔۔ جس کے بدن پر ایک اژدھا لپٹا ہوا تھا۔۔۔۔کالی پیلی ٹیکسی تھی۔۔۔۔جس کا نمبر دھندلا سا نظر آرہا تھا۔ یہ دیکھو اس اسٹیکر کو غور سے دیکھو ۔۔۔۔ اب دیر مت کرو اور پھیل جاؤ۔۔۔۔۔ اپنے سب مخبروں کو الرٹ کرو۔۔۔۔ رباب کو کچھ نہیں ہونا چاہیے( میں نے تیزی سے مزید ہدایات دیں اور سب ہی الرٹ ہو کر ہال سے نکلتے چلے گئے) ہماری پوری ٹیم اب باہر تھی۔۔۔۔ سوائے شبیر کے جو کمپیوٹر سنبھال کر بیٹھا تھا اور جلد ہی اس نے مجھے اس ٹیکسی ڈرائیور کا نام و پتہ ٹیکس کر دیا۔۔۔۔ شان میرے ساتھ تھا ہم دونوں وہاں جا پہنچے۔۔۔۔ وہ ٹیکسی ڈرائیور زخمی پڑا تھا اور اس سے معلوم ہوا کہ رباب کو دو لوگ ٹیکسی رکوا کہ اتار کر لے گئے تھے۔۔۔۔ اور مزاحمت کرنے پر ٹیکسی ڈرائیور کو مارا پیٹا بھی تھا۔۔۔۔ اس نے بتایا کہ انھوں نے رباب کے منہ پر رومال رکھ کر بے ہوش کر دیا تھا اور گاڑی میں ڈال کر لے گئے۔۔۔۔ میرے مزید پوچھنے پر اس نے رکتے رکتے اور جھجھکتے ہوئے کہا کہ ان میں سے ایک کی کلائی پر کسی لڑکی کی ننگے بوبز کا ٹیٹو بنا تھا۔۔۔ ننگی چھاتیاں۔۔۔۔ میں نے دہرایا اور پھر ہم اس غریب کی بیوی کو تھوڑے پیسے دے کر کہ وہ اپنے شوہر کا علاج کروا سکے ہم دونوں باہر آگئے۔۔۔۔ شان نے کہا۔۔۔۔ میں اپنے مخبروں کو بتاتا ہوں اس ٹیٹو کے بارے میں۔۔۔۔ میں نے بھی سر ہلا کر اپنی ٹیم کے دوسرے لوگوں کو رابطہ کیا اور بتایا۔۔۔۔ وہ سب تلاش میں لگ گئے اور ہم آفس آگئے۔۔۔۔ شان مسلسل میرے ساتھ تھا وہ میری حالت جانتا تھا اس لیے اکیلے نہیں چھوڑ رہا تھا ابھی ہمیں آفس آئے ہوئے زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ وہ اطلاع مل گئی جس کا میں کل سے بے چینی سے انتظار کر رہا تھا۔۔۔۔ اب ایک طرف میری محبت۔۔۔ میری زندگی تھی اور دوسری طرف میرا فرض۔۔۔۔ میں نے فرض کو ترجیح دی اور اس آخری معرکہ کے لیے تیار ہو گیا پوری ٹیم کو واپس بلا کر مشن کی ساری تفصیلات طے کی اور رات کو اس مشن کو انجام دینے کے لیے تیار ہو گئے۔۔۔۔ ریما رباب کے لیے بہت پریشان تھی۔۔۔۔ دل تو میرا بھی رو رہا تھا کہ وہ نجانے کس حال میں ہوگی مگر یہ وقت بہت اہم تھا۔۔۔۔ اس مشن میں میرے آدمی زخمی ہوئے تھے اور میں ہر صورت اس کو اختتام پذیر کرنا چاہ رہا تھا اور یہ موقعہ مجھے بہت دنوں کے بعد ملا تھا جو اگر ہاتھ سے چلا جاتا تو یہ کیس کبھی بھی حل نہ ہوتا۔۔۔۔ دل ہی دل میں رباب سے معافی مانگتے ہوئے میں مشن کے لیے تیار ہونے لگا۔۔۔۔کہ دھڑ سے دروازہ کھول کر شبیر اندر آیا شبیر: سر۔۔۔۔ سر وہ۔۔۔۔ سر آپ کو کچھ دکھانا ہے( اس کی ہوا ئیاں اڑی ہوئی تھیں) کیا ہوا۔۔۔۔ خیریت تو ہے۔۔۔۔ آئیے ناں سر۔۔۔۔ پلیز ٹائم نہیں ہے۔۔۔۔ وہ میرا ہاتھ پکڑ کر کھینچتا ہوا کمپیوٹر کے پاس لے آیا۔۔۔۔ باقی لوگ بھی وہاں کھڑے تھے۔۔۔۔ ریما رو رہی تھی اور شان اس کو چپ کروا رہا تھا۔۔۔۔ شبیر نے ویڈیو پلے کر دی اور کہا یہ سی ڈی ابھی ٹیم کے نام کوئی دے کر گیا ہے میں نے ویڈیو پر نظر دوڑائی اور مجھے اپنا خون کھولتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔۔ وہ رباب تھی۔۔۔۔ اس کو کرسی پر باندھا ہوا تھا۔۔۔۔ اس کی گردن ڈھلکی ہوئی تھی۔۔۔۔ وہ بے ہوش تھی۔۔۔۔ اچانک اسکرین پر ایک نقاب پوش آیا اور کہنے لگا واہ واہ بھئی مان گئے۔۔۔۔۔ بہت خوب صورت ہے۔۔۔۔ بالکل اپسرا۔۔۔ آسمان سے اتری ہوئ۔۔۔ کیوں عاشر صاحب کیا خیال ہے؟ اس کے خوب صورت جسم کو صحیح سلامت چاہتے ہیں یا پھر ہم کو اجازت ہے آپ کی طرف سے۔۔۔۔ کہ ہم بھی مزے لے لیں آپ کی اتنی خوب صورت بیوی کے۔۔۔ اس کے اس جملوں پر میری ٹیم چونک گئی اور مجھے دیکھنے لگی مگر میں ان کی نظروں سے بے نیاز ویڈیو کی طرف متوجہ تھا۔۔۔۔۔ جہاں وہ کہہ رہا تھا۔۔۔۔ ارے آپ چونک گئے کہ یہ راز ہم کو کیسے پتہ چلا۔۔۔۔ جب کہ آپ کے ڈپارٹمنٹ کو بھی نہیں پتہ۔۔۔۔ آپ کہیں تو نکاح نامہ کی کاپی بھی دکھا دیں۔۔۔۔ میرے ذہن میں جھماکا ہوا اور اس نقاب پوش کی آواز جو جانی پہچانی لگ رہی تھی۔۔۔ اب اس کی صورت بھی ذہن میں آگئی۔۔۔۔ وہ اب دھمکیاں دے رہا تھا۔۔۔۔ کہ مجھے اس کیس سے اپنا ہاتھ ہٹانا ہوگا وغیرہ وغیرہ اور ویڈیو ختم ہو گئی اور سب مجھے دیکھنے لگے ہاں۔۔۔۔ یہ سچ کہہ رہا تھا۔۔۔۔ رباب میری بیوی ہے ( میں ابھی یہیں تک پہنچا تھا کہ) ۔۔۔۔۔۔ اور ریما میری بیوی ہے ۔۔۔۔ شان نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا سر آپ لوگوں نے کبھی بتایا نہیں۔۔۔۔ سیما، کامل،اور دوسرے لوگوں نے ایک زبان ہو کر کہا چھپانے کی بات نہیں تھی مگر اچھا نہیں لگتا کہ ہم میاں بیوی ہو کر ایک ساتھ کام کریں اور لوگ کہیں کہ اپنی بیوی کو فیور دے رہا ہے یا بیوی اپنے شوہر کا ساتھ دے رہی ہے۔۔۔۔ میں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا اور ویسے بھی اب ہم بہت جلد ہی یہ ڈیکلئیر کرنے والے تھے کب ہوئی آپ دونوں کی شادی؟ سیما نے پوچھا اس ٹیم کے بننے سے پہلے ہی ہم شادی کر چکے تھے( میں نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا) اور پھر اتفاق سے رباب اور ریما بھی ہماری ٹیم میں آگئیں۔۔۔ بس یا اور کچھ بھی پوچھنا ہے۔۔۔۔ میں نے سب کو باری باری دیکھا نہیں سر۔۔۔۔ کچھ نہیں ۔۔۔۔ ہاں یہ ضرور کہیں گے کہ آپ لوگوں نے کبھی آحساس نہیں ہونے دیا کہ آپ لوگ اتنے مضبوط رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔۔۔۔ شبیر نے کہا شان نے کہا ہاں۔۔۔۔ اس لیے تو اس رشتہ کو سیکرٹ رکھا تھا۔۔۔۔ تاکہ ہمارا گروپ مضبوط رہے مگر سر اب تو رباب کو بازیاب کروانا اور بھی ضروری ہو گیا ہے۔۔۔۔ وہ ہماری ٹیم ممبر ہی نہیں آپ کی شریک حیات بھی ہے۔۔۔۔ سیما نے کہا اس بات کی آپ فکر مت کریں۔۔۔۔ میں اس نقاب پوش کو پہچان گیا ہوں اور یہ بھی سمجھ گیا ہوں کہ اس کو نکاح نامہ کہاں سے ملا ہو گا۔۔۔۔۔ میں نے شان کو دیکھا اور کہا ۔۔۔۔۔ یہ قادر بخش ہے کیا؟؟؟؟ شان اور ریما ایک ساتھ بولے ہاں۔۔۔۔ میری اس سے ملاقات ہو چکی ہے اور اچھی خاصی مار لگائی تھی میں نے اس کو۔۔۔ اس لیے میں پہچان گیا۔۔۔۔ حالانکہ یہ آواز بدل کر بولنے کی کوشش کر رہا تھا( میں نے ان پر انکشاف کیا) کافی عرصے سے رباب کے پیچھے پڑا تھا۔۔۔۔ سر آپ نے پھینٹی لگائی تو مجھے لگا اب عقل آگئی ہو گی۔۔۔۔ مگر نہیں( ریما سر ہلاتے ہوئے بولی) قادر بخش علاقے کا چھوٹا موٹا بدمعاش تھا اور رباب کے پیچھے پڑ گیا تھا۔۔۔۔ جب مجھے پتہ چلا تو میں نے سمجھانے کی کوشش کی۔۔۔ اور پھر اس کے نہ ماننے پر اس کی پٹائی بھی لگائی تھی۔۔۔۔ اس کے بعد سے یہ غائب تھا اور اب یقیناً اس کی پشت پر کسی بڑی طاقت کا ہاتھ تھا کہ اس نے رباب پر ہاتھ ڈالا تھا اور اس ویڈیو سے بھی پتہ چل گیا کہ اس کے پیچھے کون ہے۔۔۔ یقیناً اس نے ہمارے نکاح نامہ کی کاپی بھی مولوی صاحب سے لے لی ہوگی۔۔۔۔۔ مار کھانے کے بعد اس نے ہمارے بارے میں پوری انکوائری کی ہوگی۔۔۔
خیر چھوڑو۔۔۔۔( میں نے ذہن سے اس کو جھٹکتے ہوئے کہا) ابھی اپنے مشن پر فوکس کرو اور ریما تم اس قادر بخش کو فالو کرو۔۔۔۔ یہ ہم کو رباب تک لے جائے گا۔۔۔۔ گیٹ اپ بدل کر کام کرنا( میں نے ہدایت دی اور وہ سر ہلا کر رہ گئی۔۔۔ اتنے میں اس کا موبائل بجا۔۔۔ تھوڑی دیر بات کرنے کے بعد وہ بولی) سر یہ کنفرم ہو گیا ہے کہ رباب کو قادر بخش نے ہی اغوا کروایا ہے۔۔۔۔وہ ٹیٹو اس کے نائب ارشد کے ہاتھ پر بنا ہوا ہے۔۔۔وہ ہم کو بتانے لگی ٹھیک ہے مگر تم اس کو نہیں بلکہ قادر بخش کو فالو کرو۔۔۔۔ ارشد نے صرف رباب کو اغوا کیا ہے۔۔۔۔ اصل آدمی ارشد نہیں قادر بخش ہے( میں نے ہدایت دی) ہم سب الگ الگ کاموں میں لگ گئے اور یہاں تک کہ رات ہو گئی۔۔۔۔ زبردست احتیاط کے ساتھ ہم وہاں موجود تھے۔۔۔۔ جہاں ہمارے ٹارگٹ تھے۔۔۔۔ ہم سب ٹرانسمیٹر کے ذریعے لنک میں تھے۔۔۔۔ جب مجھے ریما کی آواز آئی۔۔۔۔ عاشر ۔۔۔۔۔ ریما تم یہاں کیسے؟ میں نے حیران ہو کے پوچھا ٹارگٹ کا پیچھا کرتی آئی ہوں(اس کے جواب نے مجھے حیران کر دیا) یہاں ۔۔۔۔ کیا وہ رباب کو یہاں لایا ہے؟ میں نے پوچھا پتہ نہیں وہ تو خالی ہاتھ تھا۔۔۔۔ ہو سکتا ہے کہ کسی اور طریقے سے رباب کو یہاں پہنچایا گیا ہو۔۔۔۔ یا پھر رباب یہاں نہ ہو۔۔۔۔۔ ریما نے خیال ظاہر کیا۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا۔۔۔ شان بولا۔۔۔۔ نہیں رباب یہیں ہے۔۔۔۔۔ میں ایسی جگہ ہوں کہ اس کو دیکھ سکتا ہوں۔۔۔۔ وہ دولہنوں والے کپڑے پہنے ہوئے ہے۔۔۔۔ اور قادر بخش اس کا بازو پکڑ کر کچھ کہہ رہا ہے۔۔۔ شان کی بات سن کر ہم سب الرٹ ہو گئے۔۔۔ہم سب کی فریکوینسی ایک تھی اس لیے ہم سب ایک دوسرے کو سن سکتے تھے۔۔۔۔ شان رننگ کمینٹری کے انداز میں اندر کا حال بتانے لگا۔۔۔۔ وہاں جشن سا منایا جا رہا تھا اور پھر جب اس نے کہا کہ ہمارا مین ٹارگٹ وہیں موجود ہے جبکہ قادر بخش رباب کو لے کر کہیں اور اندر چلا گیا ہے اور باقی سب لوگ نشے میں دھت ہو کر عیش کر رہے ہیں ۔۔۔۔ دوسری عورتوں کے ساتھ۔۔۔۔ یہ موقعہ اچھا تھا۔۔۔۔۔ ہم نے چاروں طرف سے ان پر دھاوا بول دیا۔۔۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ہم ان کے سب سے خفیہ اڈے تک پہنچ جائیں گے۔۔۔۔ ان کے سب حفاظتی نظام کو تہس نہس کرتے ہوئے ہم ان کے سروں پر پہنچ گئے۔۔۔۔۔ میں نے اپنے ٹارگٹ کو خوب مارا اور پوچھا کہ قادر بخش رباب کو لے کر کہاں گیا ہے۔۔۔۔ اتنا پٹنے پر بھی وہ منہ کھولنے کو راضی نہ ہوا اور کہنے لگا۔۔۔۔ وہ لڑکی قادر بخش کو دے دی ہے اور اب تم کو صحیح حالت میں نہیں ملے گی۔۔۔ میں نے غصے میں اس کو ایک اور تھپڑ مارا اور اپنے کولیگ کے سپرد کر دیا۔۔ پھر ہم سب اس جگہ میں پھیل کر رباب کو آوازیں دینے لگے۔۔۔۔ جب اچانک شبیر کی آواز آئی۔۔۔۔ سر اپنے سیدھے ہاتھ والے روم میں جائیں۔۔۔۔ وہ آفس میں تھا اور ہمارے پاس موجود کیمروں کی مدد سے ہم کو کمپیوٹر پر دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ وہ کہنے لگا۔۔۔۔۔ سر اس کمرے کے نیچے مجھے کچھ شک ہو رہا ہے۔۔۔ میں اس جگہ کا بلیو پرنٹ دیکھ رہا ہوں ۔۔۔۔۔ سر اس کمرے کے نیچے مجھے شک ہو رہا ہے ۔۔۔۔۔چنانچہ اس کو فالو کرتے ہوئے میں وہاں پہنچا۔۔۔ہم سب پھیل کر ابھی دیکھ رہے تھے کہ ریما ایک عورت کو دھکے دے کر لائی اور بولی۔۔۔۔ سر اس کو پتہ ہے تہہ خانے کے راستے کا۔۔۔۔۔ پھر وہ اس عورت سے بولی۔۔۔۔ چلو کھولو دروازہ تہہ خانے کا۔۔۔۔ اس عورت نے آگے بڑھ کر دیوار پر لگی ہوئی پینٹنگ کو ہلایا اور اس کے ساتھ ہی دیوار ایک جگہ سے ہٹ گئی۔۔۔۔۔ میں دوڑتا ہوا تیزی سی آگےبڑھا اور دو دو سیڑھیاں پھلانگ کر نیچے آگیا۔۔۔۔۔ مجھے کسی کی کوئی فکر نہیں تھی۔۔۔۔ مجھے اب صرف رباب کو دیکھنا تھا۔۔۔۔ دو کمروں کے دروازے کھولے۔۔۔۔۔ وہ خالی تھے۔۔۔۔ اب میں آخری دروازے کی طرف بڑھا اور بہت احتیاط سے۔۔۔۔۔اور تیزی سے دروازہ کھول دیا۔۔۔۔۔ سامنے کا منظر میرا دماغ گھما نے کے لیے کافی تھا۔۔۔۔ شان کے کہنے کے مطابق رباب واقعی سرخ رنگ کا لہنگا اور چولی پہنے ہوئے تھی۔۔۔۔۔اور بالکل دلہن کی طرح تیار تھی۔۔۔۔ مگر اس وقت وہ بیڈ پر پڑی تھی اور دونوں ہاتھوں سے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔۔۔ کہاں وہ کمزور سی نازک سی لڑکی اور کہاں وہ پورا مرد۔۔۔۔۔ اس دھینگا مشتی میں رباب کے کپڑے پھٹ چکے تھے اور شاید اب وہ تھک بھی گئی تھی۔۔۔۔۔ پتہ نہیں وہ معصوم کتنی دیر سے اپنے آپ کو بچا رہی تھی۔۔۔۔ مگر اب اس کی مزاحمت ہلکی ہو تی جا رہی تھی۔۔۔۔جب میں نے اس خبیث کو رباب کے اوپر سے کھینچا اور پھر کسی طوفان کی طرح اس پر پل پڑا۔۔۔۔ مجھے کوئی اردگرد کا ہوش نہیں تھا۔۔۔۔۔ بس آنکھوں میں خون اُترا ہوا تھا اور میں اس کو مارے جا رہا تھا۔۔۔۔ اچانک شان نے مجھے روکا اور چلا کر کہا۔۔۔۔ عاشر چھوڑو اسے اور رباب کو دیکھو۔۔۔ ایسا لگا میری چابی ختم ہو گئی اور میں ایک دم رک گیا۔۔۔۔میں نے اسے چھوڑ دیا اور وہ زمین پر گرگیا۔۔۔۔ میں تیزی سے رباب کی طرف بڑھا جو اکھڑے اکھڑے سانس لے رہی تھی۔۔۔۔ میں نے فوراًاسے اٹھایا اور باہر بھاگا۔۔۔۔ شان کو سب کچھ ہینڈل کرنے کا کہہ کر میں آندھی طوفان کی طرح اسپتال بھاگا۔۔۔۔۔ تین چار گھنٹے کی ٹریٹمنٹ کے بعد ڈاکٹر نے مجھے اس کی زندگی کی خوش خبری سنائی اور میں نے سکون کا سانس لیا اس کیس نے مجھے اور میرے ساتھیوں کو پروموشن دلا دی۔۔۔۔ اس کے ایک دن بعد رباب کو اسپتال سے ریلیز کر دیا اور اسی دن ہم نے اپنی شادی کے ریسیپشن کے انویٹیشن بھی بانٹ دئیے۔۔۔ اور یوں اس کیس کے حل ہونے کے ٹھیک ایک ہفتے کے بعد ہمارا wedding reception ارینج ہو گیا تھا۔۔۔۔ ہم دونوں دولہا کے روپ میں تیار تھے اور رباب اور ریما دولہن کے روپ میں چمک رہی تھیں۔۔۔۔اس دعوت میں ہمارے آفیسرز۔۔۔ کولیگز اور کئی بڑے لوگوں نے بھی شرکت کی تھی۔۔۔ اس کے بعد میں رباب کو اور شان ریما کو اپنے اپنے گھر رخصت کروا کے لے گئے۔ میں نے کمرے کا دروازہ کھول کر رباب کو اندر داخل ہونے کا اشارہ کیا۔۔۔وہ اندر آکر حیران رہ گئی۔۔۔۔ اس کے خوابوں کا بیڈ روم اس کے سامنے تھا۔۔۔ وہ کنگ کھڑی دیکھتی رہ گئی اور پھر مڑ کر مجھ سے زور سے لپٹ گئی۔۔۔۔ میں نے بھی اسے کَس کر اپنے سے چپکا لیا۔۔۔۔۔ آج وہ کاہی ہرے رنگ کاشرارہ پہنے ہوئے تھی جو پورا گولڈن زری اور تلے کے کام سے بھرا ہوا تھا۔۔۔۔گولڈ کے زیور اور ڈارک میک اپ میں وہ دل لوٹنے کی حد تک خوب صورت لگ رہی تھی۔۔۔۔میں نے اس کا چہرہ اپنے سینے سے اٹھایا تو وہ آنسووں سے بھیگا ہوا تھا۔۔۔۔ میں : نہیں جان آج نہیں۔۔۔ آج ہم اپنی نئ زندگی کا آغاز کر رہے ہیں ۔۔۔۔ اور یہ آغاز ہنسی سے ہونا چاہئیے آنسووں سے نہیں۔۔۔۔ میں نے یہ کہتے ہوئے اس کے سارے آنسو اپنے ہونٹوں سے چن لیے اور اسے اپنے بازوؤں میں کَس کر سینے سے لگا لیا۔۔۔۔ تھوڑی دیر میں وہ ریلیکس ہو گئی تو میں نے اس کو پورے گھر کی سیر کروائی۔۔۔۔ وہ ایک ایک چیز کو محبت اور فخر سے دیکھ رہی تھی اور آخر میں اپنے بیڈ روم میں آکر تو وہ ہنس پڑی۔۔۔ واہ واہ۔۔۔۔ عاشر آپ نے تو پورا گھر ہی سجا لیا ہے۔۔۔۔ اور وہ بھی اتنا زبردست بالکل میرے خوابوں کی طرح۔۔۔۔ وہ دونوں بازو پھیلا کر لہرا کر گھوم کر بولی میں دونوں بازو سینے پر لپیٹے اس کی خوشی کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔آگے بڑھ کر اسے اپنی بانہوں میں بھر کر بولا۔۔۔۔ میری جان تمہاری پسند پوچھ پوچھ کر تو سب سجاوٹ کی ہے۔۔۔ اور وہ حیران رہ گئی اور کہنے لگی۔۔۔۔ اچھا اس لیے آپ کرید کرید کر پوچھتے تھے۔۔۔۔ بیڈ روم کی کلر اسکیم کیسی پسند ہے۔۔۔۔ فرنیچر کون سا اچھا لگتا ہے۔۔۔ وغیرہ وغیرہ ہاں اور دیکھو آج تم کو خوش آمدید کہنے کے لیے بھی تمہاری پسند سےہی سب کچھ سجایا ہے۔۔۔۔ میں نے کمرے کی سجاوٹ کی طرف اشارہ کیا۔۔۔۔ کمرے کی آف وائٹ دیواریں اور اس پر میرون رنگ کا مہاگنی فرنیچر ۔۔۔۔ پردے بھی میرون اور آف وائٹ تھے جبکہ کارپٹ میرون تھا۔۔۔۔ جہازی سائز بیڈ جو چاروں طرف سے گلاب اور مو تیے کے پھولوں سے سجا تھا اور بستر پر بھی چادر کے بجائے پھول کی پتیاں بچھی تھیں۔۔۔۔۔ میں نے نرمی اور محبت سے پھولوں کی لڑیوں کو ہٹا کر اس معصوم اور بھولی سی لڑکی کو بستر پر بیٹھایا۔۔۔۔۔ دوپٹہ آہستگی سے اس کے وجود سے الگ کیا اور ایک ایک کرکے اس کے زیور اتارنے شروع کیے۔۔۔۔ ایک ایک زیور اتارتا گیا اور اس کی جگہ ایک ایک کِس کرتا گیا۔۔۔۔ اب اس کے بالوں کی باری آئی۔۔۔۔ موتیے کی لڑی اس کے بالوں سے الگ کر کے اس کے بال کھول دیے اور اپنا چہرہ اس کے معطر بالوں میں چھپا لیا۔۔۔۔ اس کے شرارے کی شرٹ کا گلا بہت گہرا تھا اور سینے کی گولائیوں کی شروعات تک نظر آرہی تھی۔ اب میں اس کو چھوڑ کر کھڑا ہو گیا اور اپنا کوٹ اور ٹائی اتاری۔۔۔۔ جوتے موزے اتارے۔۔۔۔ پینٹ کی بیلٹ کھول کر نکال دی اور سب سے آخر میں اپنی شرٹ اور بنیان سے بھی چھٹکارا حاصل کر لیا اب میں صرف پینٹ اور انڈر وئیر میں تھا رباب نے پینٹ کی طرف اشارہ کر کے کہا اس کو کیوں چھوڑ دیا میں نے اس کے پاس آکر کہا کچھ تم بھی تو کرو۔۔۔۔ اور وہ شرما گئی کمرہ بہت تیز روشنی سے جگمگا رہا تھا۔۔۔۔ جب میں نے رباب کو ایک منٹ انتظار کرنے کا کہا اور باہر آگیا۔۔۔۔ گھر کے سیکیورٹی سسٹم کو آن کرنے اور لاک چیک کر کے میں نے واپس آکر بیڈ روم کا بھی دروازہ لاک کر دیا۔۔۔۔۔ کمرے کی لائٹ ہلکی کر کے رباب کے پاس آگیا پھولوں کی لڑیاں ہٹائی تو ایسا لگا آنکھیں جگمگا اٹھیں۔۔۔۔۔ رباب اپنے شرارے اور شرٹ کو بھی اتار چکی تھی اور گلاب کی پتیوں کے بستر پر اس کا گورا بدن چاند کی طرح چمک رہا تھا۔۔۔۔۔اور میں ساکت کھڑا سوچتا رہ گیا کہ کیا کروں اور کہاں سے شروع کروں رباب مجھے دیکھ کر اٹھ بیٹھی اور ہاتھ بڑھا کر مجھے میری پینٹ اور انڈر وئیر سے بھی نجات دلا دیا۔۔۔۔ پھر میرا ہاتھ پکڑ کر بستر پر کھینچ لیا۔۔۔۔ نرم گدے نے ہم دونوں کو اپنی پناہ میں لے لیا۔ ہم دونوں کے ننگے بدن بستر پر ایک دوسرے کو رگڑ رہے تھے۔۔۔۔ مچل رہے تھے۔۔۔۔ ہم ایک دوسرے کو چوم رہے تھے۔۔۔۔ جسم کا کوئی حصہ ایسا نہ تھا جو رہ گیا ہو۔۔۔۔ رباب کے بوبز دبا دبا کر اور چوس چوس کر میں نے لال کر دیے۔۔۔۔۔ اس کی چوت کو اتنا تنگ کیا کہ وہ گھبرا کر بہہ اٹھی۔۔۔۔۔ ہمارے جسم ایک دوسرے کے اوپر نیچے ہو رہے تھے اور پتیاں ہمارے ننگے جسم پر چپک کر کپڑوں کا کام دینے کی کوشش کر رہی تھیں۔۔۔۔۔ اس رات ہم نے خوب جم کر مزے سے بھرپور تین دفعہ سیکس کیا۔۔۔۔ مگر یہ تو صرف شروعات تھیں ۔۔۔۔۔۔۔ اس رات تو ہم تقریباً صبح کے وقت جا کر سوئے۔ ایک بھولی سی۔۔۔ معصوم سی محبت کرنے والی بیوی کے ساتھ زندگی ایک دم خوب صورت لگنے لگی تھی۔۔۔۔ اگلے دن ہم دونوں جوڑے ہنی مون کے لیے نکل گئے۔۔۔۔ بیس دن کی چھٹی ہم پہلے ہی لے چکے تھے جبکہ ریما اور رباب اپنے ریزائن بھی دے چکیں تھیں۔۔۔۔ یہ دن ہماری زندگی کے نا قابل فراموش دن تھے۔۔۔۔ ہم نے لمحہ لمحہ ان سےخوشی کشید کی تھی۔۔۔۔جی بھر کر اپنے جسم کی آگ کو ٹھنڈا گیا تھا اور محبت کے جام بھر بھر کر پئیے تھے۔۔۔۔ بے فکری اور سکون سے ان دنوں کو انجوائے کیا تھا واپس آنے کے بعد وہی روٹین شروع ہو گئی مگر اب اس میں فرق یہ تھا کہ گھر پر رباب خوب اچھے سے تیار ہو کر میرا انتظار کرتی تھی۔۔۔۔ ساتھ کھانا کھانا۔۔۔۔ واک کرنا اپنے چھوٹے سے گارڈن میں مجھے بہت پسند تھا۔۔۔۔۔ کبھی کبھار ہم باہر بھی چلے جاتے تھے۔۔۔۔۔ شان اور ریما سے تو روز کا ملنا جلنا رہتا تھا۔۔۔۔ پروموشن کے بعد میں اب فیلڈ میں کم کام کرتا تھا ۔۔۔۔ اس لیے عموماً گھر بھی ٹائم پر آجاتا تھا۔۔۔اس لیے ہم دونوں وہ ٹائم خوب مزے کرتے تھے۔۔۔ ہم نے اپنے گھر کے ہر حصے کچن ۔۔۔ گارڈن۔۔۔ لاونج ۔۔۔ ڈرائنگ ڈائننگ غرض ہر جگہ میں سیکس کے مزے لیے تھے اور واقعی ہر جگہ کا مختلف مزا تھا اور اس کو ہم نے بہت انجوائے بھی کیا تھا شادی کے ڈیڑھ ماہ ایک خوش خبری نے مجھے نہال کر دیا جب رباب نے مجھے بتایا کہ وہ ماں بننے والی ہے۔۔۔۔ میں بہت خوش ہوا۔۔۔۔ اب میں اس کا بہت خیال رکھتا تھا۔۔۔۔ آخر وہ میرے بچے کو جنم دے رہی تھی۔۔۔۔ اور پھر وہ دن بھی آگیا جب میں ایک بیٹے کا باپ بن گیا۔۔۔۔ ایک ہفتے کے بعد شان کے ہاں بھی بیٹا ہوا۔۔۔۔۔ ہم دونوں دوست بہت خوش تھے۔ وقت کا کام ہے گزرنا سو وہ گزرتا ہی چلا گیا۔۔۔۔اب میرے چار بچے ہیں۔۔۔۔ پہلے تین بیٹے پھر ایک بیٹی۔۔۔۔ مجھے اور بچوں کی چاہ ہے۔۔۔۔۔ شاید رشتہ داروں کی کمی کی وجہ سے میں چاہتا تھا کہ میرے اپنے بہت سارے بچے ہوں ۔۔۔۔ ایک چہل پہل ہو اور پھر میرے حالات اچھے تھے میں زیادہ بچے افورڈ بھی کر سکتا تھا مگر رباب کی خاطر رک کر چار پر گزارا کر رہا ہوں۔۔۔۔ اوپر تلے بچوں کی پیدائش نے اسے کمزور کر دیا ہے اس لیے میں بھی رک گیا۔۔۔۔اس کی صحت میرے لیے سب سے ضروری ہے۔۔۔۔ میں بچوں کی پرورش میں اس کا پورا ہاتھ بٹاتا ہوں مگر پھر بھی سارا کنٹرول اس کا ہے۔۔۔۔ میرے بچے ذہین اور خوب صورت ہیں ۔۔۔۔ ہم ان کی پرورش بہت احتیاط سے کر رہے ہیں۔۔۔۔ ہم دونوں جانتے ہیں کہ والدین کی کمی بچے پر کیا اثر ڈالتی ہے ہم بے جا لا ڈ پیار سے اپنے بچوں کو بگاڑ نہیں رہے۔۔۔۔ بلکہ انھیں ہر چیز کی اہمیت سے آگاہ کر رہے ہیں ۔۔۔۔ آج میری اپنی فیملی ہے۔۔۔۔ معاشرے میں مقام ہے ۔۔۔۔ پیسہ ہے ۔۔۔۔ عزت ہے اور یہ سب میں نے ان تھک محنت اور بے تحاشا کام کرکے کمایا ہے۔۔۔۔ بے شک محنت کا صلہ ضرور ملتا ہے۔۔۔۔۔شان کے بھی چار بچے ہیں دو لڑکیاں اور دو لڑکے۔۔۔۔ وہ بھی میری طرح خوش حال ہے ۔۔۔۔ ہم دونوں نے یتیم خانے سے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا اور آج ہم کہاں تھے۔۔۔۔ بے شک محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی شرط صرف حوصلہ بلند رکھنے اور ہمت نہ ہارنے کی ہے۔۔۔۔۔ مگر ایک بات کا اعتراف ضروری ہے اس سفر میں ہم دونوں کی شریک حیات نے بھی بہت ساتھ دیا تھا۔۔۔۔ اپنی محبت۔۔۔ اپنی محنت کی کمائی۔۔۔۔ اپنی بچت اور سب سے بڑھ کر اپنے ساتھ سے ہم کو ہر قدم پر کامیاب بنایا تھا۔۔۔ ہم بلاشبہ کہہ سکتے ہیں کہ ہماری کامیابی میں ان دونوں کا برابر کا حصہ ہے۔۔۔۔۔ جو آج بھی ہمارے ساتھ زندگی کے مسائل حل کرنے اور ہمیں گھر کا سکون دینے میں تن من دھن سے مصروف ہیں۔
دی اینڈ۔