Urdu Story World No.1 Urdu Story Forum
Ad Blocker Detection
Please turn off your ad blocker otherwise you won't be able to access Urdu Story World. Thanks!

Welcome to Urdu Story World!

Forum Registration Fee is 1000 PKR / 3 USD

Register Now!
  • فورم رجسٹریشن فیس 1000لائف ٹائم

    پریمیم ممبرشپ 95 ڈالرز سالانہ

    وی آئی پی پلس ممبرشپ 7000 سالانہ

    وی آئی پی ممبر شپ 2350 تین ماہ

    نوٹ: صرف وی آئی پی ممبرشپ 1000 ماہانہ میں دستیاب ہے

    WhatsApp: +1 540 569 0386

    ای میل: [email protected]

Hardcore اعتبار

Writer SahilWriter Sahil is verified member.

Administrator
Prolific Author
Joined
Dec 24, 2022
Messages
1,295
Reaction score
17,678
Location
Duniya
Offline
تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا ؟ مدھم آواز میں بھی تڑپ واضح تھی۔ اس کے کمرے کی طرف آئی عابدہ بیگم چونک کر رک گئیں۔میری پریشانی کا تو خیال تھا مگر میری تکلیف کا نہیں ! جو اب یہ سب سن کر ہو رہی ہے۔ اس نے نم لہجے میں کہا اور غور سے دوسری طرف کی بات سننے لگی ۔ دیکھ علی ! ابا کے جانے کے بعد میں امی کی کی طرف سے بہت فکر مند رہتی ہوں۔ انھوں نے ابا کی جدائی کا روگ دل کو لگا لیا اور نتیجہ تمہارے سامنے ہے۔ کہتے ہوئے وہ رو پڑی۔ ایک تو اس کے میکے والے جان نہیں چھوڑتے بھی کوئی مسئلہ تو بھی کوئی۔۔ ! کب سے چائے کا انتظار کر رہی ہوں مگر یہاں محترمہ کو فون پر بات کرنے سے ہی فرصت نہیں ہے ۔ عابدہ بیگم نے جیسے ہی اس کے منہ سے علی کا نام سنا تو تلملا گئیں کیونکہ عالیہ کے غریب بھائی سے وہ اچھی طرح واقف تھیں۔

عالیہ! کہاں ہو؟ کب سے آوازیں دے رہی ہوں۔ انھوں نے اونچی آواز میں پکارا تو اس نے گھبرا کر خدا حافظ کہتے ہوئے فون بند کیا اور اپنی آنکھیں صاف کرتی تیزی سے کمرے سے باہر نکل گئی۔ علی کا فون تھا۔ بتا رہا تھا کہ امی کی ای سی جی ٹھیک نہیں آئی۔ ڈاکٹر نے مزید ٹیسٹ بتائے ہیں کہ کہیں انہیں دل کا مسئلہ تو ! وہ پریشانی سے بتانے لگی۔ اس عمر میں ایسی تکلیفیں ہو ہی جاتی ہیں۔ سر میں درد ہو رہا ہے۔ جلدی سے چائے بنا دو۔ بے زاری سے کہتے ہوئے وہ لاؤنچ کی طرف بڑھ گئیں۔ عالیہ نے لب کاٹتے ہوئے انہیں وہاں سے جاتے دیکھا ۔ کیا میرا قصور یہ ہے کہ میں غریب گھرانے سے تعلق رکھتی ہوں۔ اس لیے بھی مجھے اور میرے گھر والوں کو عزت نہیں ملی۔ آج پھر وہ مایوس ہو کر منفی ہورہی تھی۔ چائے چولہے پر رکھ کر وہ ماں کے بارے میں سوچنے لگی ۔ دو سال پہلے باپ کی موت نے اسے بہت خوف زدہ کر دیا تھا۔ وہ ہر لمحہ ماں کی صحت و سلامتی کے لیے فکر مند رہتی ، دعا کرتی مگر آزمائش بڑھتی ہی جا رہی تھی۔ اچانک علی کی نوکری ختم ہوگئی جس کی وجہ سے ان کے حالات بہت خراب ہو گئے۔ پہلے ہی وہ سفید پوشی کا بھرم رکھ کر جی رہے تھے مگر بڑھتی مہنگائی، بیوی اور دو بچوں کے ساتھ ، ماں کی بیماری کا خرچا اٹھانا آسان نہیں تھا۔ علی نے اس سے بھی مدد نہیں مانگی حالانکہ وہ بڑی بہن تھی اور کھاتے پیتے گھرانے میں بیاہی گئی جہاں وہ اکلوتی بہو تھی مگر سسرال میں سارا کنٹرول اس کی ساس اور شوہر حمزہ کے ہاتھ میں تھا ۔ وہ اپنے خیالوں میں کھوئی ہوئی تھی جب نو سالہ موسی بھاگتا ہوا کچن میں داخل ہوا۔ اس نے چونک کر بیٹے کی طرف دیکھا۔ امی ! بہت گرمی لگ رہی ہے ۔ جلدی سے مینگو شیک بنادیں ۔ اس نے سرخ چہرے کے ساتھ کہا تو وہ سر ہلانے لگی۔ تم دادو کے پاس جا کر بیٹھو! میں چائے بنا کر لا رہی ہوں۔ اس نے مصروف انداز میں کہا تو وہ کچن سے باہر چلا گیا ۔ کچھ دیر کے بعد وہ عابدہ بیگم کی چائے اور موسیٰ کا مینگو شیک لے کر لاؤنج میں داخل ہوئی۔ عابدہ بیگم خوش گوار موڈ میں لاڈلے پوتے سے باتیں کر رہی تھیں۔ رات کے کھانے میں چاول ضرور بنا لینا۔ آج روٹی کھانے کا دل نہیں کر رہا۔ عالیہ نے گہری سانس لے کر ان کے نئے حکم کو سنا۔ اس کا ارادہ تھا کہ حمزہ کے آتے ہی کچھ دیر کے لیے ماں سے ملنے چلی جائے مگر عابدہ بیگم کی فرمائش پوری کیے بغیر وہ گھر سے باہر نہیں جا سکتی تھی۔ بے دلی سے کچن میں آکر چاول بنانے کی تیاری کرنے لگی ذہن میکے میں ہی اٹکا ہوا تھا۔ مغرب کے وقت تھکا ہارا حمزہ گھر میں داخل ہوا تو وہ سب بھول کر اس کی خدمت کرنے لگی۔
☆☆☆

یہ گھر کا خرچا اور آپ کا جیب خرچ ۔ رات کو کھانے کے بعد حمزہ ، ماں کے ساتھ بیٹھ کر حساب کتاب کرتے ہوئے پیسے دے رہا تھا جب چا ئے بنا کر لائی عا لیہ ٹٹھک کر رک گئی۔ عابدہ بیگم نے اس کا ٹھٹکنا محسوس کر لیا ۔ اسی لیے جلدی سے پیسے بٹوے میں رکھتے ہوئے اسے گھورا۔ وہ سر جھٹک کر آگے بڑھی۔ حمزہ نے کچھ نوٹ موسیٰ کو بھی تھما دئے جو اس نے فورا اپنے منی باکس میں رکھ دیے ۔ اس کے منی باکس میں ہر مہینے ایسے کئی سرخ نوٹ جمع ہوتے تھے جنہیں وہ خرچ نہیں کرتا کیونکہ اس کی نوبت ہی نہیں آتی تھی ۔ حمزہ بغیر کہے اس کی ہر ضرورت اور منہ سے نکلی ہر خواہش پوری کر دیتا تھا۔ بابا ! آپ نے امی کو پاکٹ منی نہیں دی؟ موسیٰ نے غور سے دادو کے بٹوے کو دیکھا۔ حمزہ ہنس پڑا۔ تمہاری امی نے پیسوں کا کیا کرنا ہے۔ سارے پیسے گھر میں ہی تو رکھے ہوتے ہیں۔حمزہ نے لا پروائی سے کہا۔ عالیہ کچھ کہتے ہوئے رک گئی۔ تو اور کیا۔ کپڑوں سے لے کر ضرورت کی ہر چیز تو مل جاتی ہے۔ اچھا کھانا پینا ، پہننا اوڑھنا۔۔۔ الگ سے پیسے کیا دینے ؟ عابدہ بیگم نے منہ بنا کر کہا۔ دادو! آپ پیسوں کا کیا کرتی ہیں؟ آپ کو بھی تو سب کچھ مل جاتا ہے نا ! موسیٰ کی ذہانت سے چمکتی نگاہوں میں سوچ کا عکس تھا جیسے اسے اس دوہرے معیار کی سمجھ میں نہیں آئی کہ جو چیز دادو کا حق ہے، وہ اس کی ماں کے لیے کیسے بے کارتھی ؟ فضول کے سوال مت کیا کرو۔ مجھ پر کئی طرح کی ذمہ داریاں ہیں۔ تمہاری دونوں پھوپھیوں اور ان کے بچوں کو کچھ دینا دلانا بھی پڑتا ہے۔ کبھی کسی چیز کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔ پیسے پاس ہونے چاہئیں ۔ عابدہ بیگم نے ڈپٹ کر کہا تو، وہ منہ بناتا وہاں سے اٹھ کر چلا گیا۔ دو سالہ ہا نیہ کے رونے کی آواز سن کر عالیہ بھی کمرے میں چلی گئی۔ سب جانتی ہوں ۔ اس کی ماں پٹی پڑھاتی ہے ورنہ بچے کو کیا سمجھ ؟ وہ بڑبڑا ئیں۔ حمزہ نے چونک کر دیکھا۔ اس کی تیوری چڑھ گئی۔ اس لیے جب کمرے میں آیا تو موڈ آف تھا۔ عالیہ سے بات کیے بغیر وہ ہانیہ سے کھیلنے لگا۔ وہ جو اسے اپنی ماں کی بیماری کے بارے میں بتانا چاہ رہی تھی ، اس کا سنجیدہ موڈ دیکھ کر بے بسی سے ہاتھ ملنے لگی۔ کیا بیٹے کو اپنی پٹی پڑھا کر بھی سکون نہیں ملا جو اتنی بے چین پھر رہی ہو؟ اسے کمرے میں یہاں سے وہاں چکر لگاتے دیکھ کر وہ طنزیہ لہجے میں مخاطب ہوا ۔ وہ چونک کر اسے دیکھنے لگی۔ میں نے موسیٰ کو کچھ نہیں سکھایا۔ وہ آج کا بچہ ہے جو بہت کچھ دیکھتا اور محسوس کرتا ہے۔ بہر حال میں پہلے ہی امی کی وجہ سے پریشان ہوں ۔ بے بسی سے کہتے ہوئے وہ سر تھام کر بیٹھ گئی ۔ وہ چونک کر وہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ کیا ہوا؟ اس کے پوچھنے کی دیر تھی۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی اور ماں کی بیماری کے بارے میں بتانے لگی۔ تم نے مجھے شام میں کیوں نہیں بتایا ۔ ہم شام میں دیکھ آتے ۔ وہ فکر مندی سے گویا ہوا اور اسے تسلی دینے لگا۔ اگلے دن موسیٰ کو اسکول چھوڑ کر وہ اسے لے کرسسرال چلا گیا۔ عابدہ بیگم کو پتا چلا تو وہ جل بھن کر رہ گئیں ۔ میرے بیٹے کو پاگل بنایا ہوا ہے۔ جب تک وہ واپس نہیں آئی وہ لاؤنج کے چکر کاٹتی رہیں۔پھر دو گھنٹے بعد وہ دوپہر کو بنانے کے لیے سبزی لے کر گھر واپس آگئی تھی۔ اتنی دیر لگا دی؟ دو پہر کا کھانا کب بنے گا ؟پتا نہیں کہ میں شوگر کی مریضہ ہوں۔ وقت پر کھانا کھاتی ہو ں وہ بلا وجہ ہی غصے میں بول رہی تھیں۔ عالیہ نے جواب نہیں دیا اور تیزی سےکچن کی طرف بڑھ گئی جبکہ حمزہ ہانیہ کو گود میں اٹھائے اندر داخل ہوا تو وہ فورا چپ ہوئیں ۔ آنٹی تو بہت کمزور ہوگئی ہیں۔ آپ بھی کسی دن ان کا حال پوچھ لیجے گا. اس نے ہانیہ کو ان کے پاس بٹھایا اور فکر مندی سے کہتا ہوا کام پر چلا گیا۔ اس کا اپنا ذاتی کاروبار تھا جو بہت اچھا چل رہا تھا۔ اس لیے گھر میں کسی چیز کی کمی نہیں تھی۔ بہت فکر ہو رہی ہے ساس کی ۔ اس کے جانے کے بعد وہ بڑ بڑاتی رہیں۔ عالیہ نے سب سن کر بھی ان سنا کر دیا ۔ وہ اسی بات پہ خوش تھی کہ ماں کو دیکھ آئی ہے۔ بیاہی بیٹیوں کے لیے والدین کو ایک نظر دیکھ لینا ، ان کے ساتھ تھوڑا وقت گزار لینا کتنی بڑی خوشی اور راحت ہے جس کا نعم البدل سسرال کی کوئی آسائش، کوئی سکھ نہیں ہوتا ہے۔ مصالہ بھونتے ہوئے اس نے نم آنکھوں سے سوچا۔ ماں کی بیماری اور میکے کے برے حالات نے اسے بہت زود رنج بنا دیا تھا ۔ وہ بے بس تھی ۔ ان کے لیے کچھ نہیں کر سکتی تھی سوائے دعا کے۔ اس لیے صدق دل سے دعا کرنےلگی۔
☆☆☆

آپ سے ایک بات کہنی تھی ۔ وہ کئی دنو ں سے ایک بات سوچ رہی تھی کہ حمزہ سے اس کے بارے میں بات کرے مگر ہمت نہیں پڑ رہی تھی ۔ حمزہ نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا تو وہ تھوک نگل کر مناسب الفاظ سوچنے لگی۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ میری ماں بہت بیمار رہتی ہیں ۔ اکثر ان کی حالت بہت خراب ہو جاتی ہے اور وہ روہانسے لہجے میں کہتے ہوئے چپ ہوگئی۔ اللہ بہتر کرے گا۔ اس نے نرمی سے تسلی دی۔ میں صرف یہ کہنا چاہ رہی تھی کہ آپ کچھ پیسے مجھے ضرور دے دیا کریں تاکہ اگر ایمر جنسی میں بھی ان سے ملنے جانا پڑ جائے تو میرے پاس کرایے کے پیسے تو ہوں ۔ اس نے جلدی سے کہا۔ وہ چونک گیا۔ اللہ خیر کرے ۔ اتنی بھی کیا ایمر جنسی ہو سکتی ہے اگر ایسا کچھ ہو بھی تو تم اماں سے پیسے مانگ سکتی ہو یا مجھے فون کر دینا۔ میں فورا گھر آجاؤں گا۔ اس نے سنجیدگی سے کہا۔ وہ پریشانی سے اسے دیکھنے لگی جو ایسے منصوبہ بندی کر رہا تھا جیسے ایمر جنسی میں سب سوچ سمجھ کر کیا جاتا ہے۔ مگر ۔۔اس نے کچھ کہنا چاہا۔ میرے خیال سے تم اس لیے پیسو ں کے لیے ضد کر رہی ہوتا کہ ان کی مدد کر سکو۔ بے فکر رہو میں علی کو ہر مہینے راشن اور کچھ رقم بھیج دیا کروں گا جب تک اس کی نوکری نہیں لگ جاتی ۔ اس کے کہنے پر عالیہ کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ اسے اس بات کی خوشی نہیں ہوئی کہ وہ اس کے گھر والوں کا خیال رکھ رہا ہے بلکہ اپنی کم مائیگی کا احساس شدت سے جاگا تو وہ مزید بحث کرنے کے بجائے کمرے سے باہر چلی گئی۔ حمزہ نے ناگواری سے سر جھٹکا۔اماں ٹھیک کہتی ہیں۔ پیسے دینے کی کیا ضرورت ہے جب گھر میں کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔ وہ بڑبڑانے لگا ۔ دراصل وہ ان مردوں میں سے تھا جو اپنی مرضی سے جتنے چاہے پیسے خرچ کر دیتے، مگر بیوی کو ایک دھیلا دیتے ہوئے بھی سوچ میں پڑ جاتے تھے۔ ان کا اتنا حوصلہ ہی نہیں ہوتا ہے کہ اپنی کمائی کا کچھ حصہ بیوی کے ان ہاتھوں پر رکھ کر سکیں جو اس کی محنت ، ترقی ، خیر و عافیت کے لیے ہمیشہ رب کی بارگاہ میں اٹھے رہتے ہیں بغیر کسی غرض اور صلے کے ۔ عالیہ نے پہلے تو کسی طرح صبر و شکر سے وقت گزار لیا تھا مگر اب اکثر اسے پیسوں کی ضرورت پڑتی تو اس کے پاس کچھ نہیں ہوتا۔ سارا خرچا عابدہ بیگم یا حمزہ کے ہاتھ میں ہوتا ۔ اسے ہر چیز کے لیے ان کی طرف دیکھنا پڑتا۔ اس نے کئی بار حمزہ کو سمجھانا چاہا مگر وہ اس بارے میں بات کرنے سے پہلے ہتھے سے اکھڑ جاتا تھا۔
☆☆☆

امی ! آئس کریم والا آیا ہے۔ جلدی سے پیسے دیں۔ موسی پر جوش ہو کر تیزی سے بھاگتا ہوا کمرے میں داخل ہوا تو ہانیہ کو تیار کرتی عالیہ چونک گئی۔میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔ دادو سے پوچھ لو ۔ اس نے سنجیدگی سے کہا۔اف! آئس کریم کون سی مہنگی ہوتی ہے۔ آپ کے پاس تھوڑے سے بھی پیسے نہیں؟ اس نے حیرانی سے سوال کیا تو وہ نفی میں سر ہلا کر رخ پھیر گئی۔ داد و تو واش روم میں ہیں۔ آئس کریم والا چلا جائے گا۔ اس نے مایوسی سے سر جھکایا۔ اپنے منی باکس سے پیسے نکال لو ۔ وہ کس لیے جمع کر رہے ہو۔ اس نے نرمی سے کہا تو وہ چونکا۔ ہاں یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں ۔ وہ خوشی سے واپس چلا گیا۔ عالیہ سر جھٹک کر ہانیہ کی طرف متوجہ ہوگئی ۔ شام کو موسیٰ ہر بات باپ کو بتانے لگا جسے سن کر عابدہ بیگم غصے میں آگئیں ۔ سب سمجھتی ہوں ۔ بچے کو الٹی سیدھی باتیں سکھا کر کیا ثابت کرنا چاہ رہی ہو؟ کہ تمہارے ساتھ سسرال میں بہت ظلم ہو رہا ہے؟ تمہیں پیسے نہیں دیتے۔ تم ہر چیز کے لیے ترستی ہو ۔ حد ہوتی ہے میں کب سے یہ سب دیکھ رہی ہوں ۔ انھیں غصے میں دیکھ کر عالیہ ہکا بکا رہ گئی۔ آپ غلط سمجھ رہی ہیں۔ موسی بچہ ہے۔ اسے ابھی کچھ نہیں پتا ۔ اسے کچھ نہیں پتا۔ گھبرا کر وہ اپنے شوہر کے سنجیدہ چہرے کی طرف دیکھنے لگی۔ نجانے اس کے سر پر کون سا بھوت سوار ہو گیا ہے۔ ہر وقت پیسے پیسے کرتی رہتی ہے۔ کچھ دن پہلے بھی اس بات پر ضد کر رہی تھی۔ تنگ آگیا ہوں روز روز کی بحث ہے۔ حمزہ غصے میں گھر سے باہر چلا گیا ۔عابدہ بیگم منہ بناکے اپنے کمرے میں چلی گئیں۔ وہ بے جان وجود کے ساتھ زمین پر بیٹھ کر رونے لگی ۔موسیٰ روتی ہوئی ماں کو دیکھ کر بہت دکھی تھا۔ وہ ماںکے پاس آیا اور اپنا ہاتھ اس کے کانپتے ہاتھوں پر رکھ دیا دیا ۔ عالیہ نے چونک کر جھکا ہوا سر اٹھایا۔امی ! آپ مت روئیں۔ میں بڑا ہو کر بہت سارے پیسے کما کر آپ کو دوں گا۔ اپنی بیوی کو نہیں ۔اس نے اتنی معصومیت سے کہا تو وہ ہنس پڑ ی یعنی اپنے باپ جیسے بنو گے؟ ماں کا خیال تو ہو گا بیوی کا نہیں! اس کے سوال پر وہ سوچ میں پڑ گیا۔ عالیہ نے خود کو سنبھالا تا کہ بچے کو سمجھا سکے ۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کی زندگی کی کوئی بھی تلخی بچوں کے ذہن پر اثر انداز ہو۔ وہ نرم لہجے میں اسے سمجھانے لگی ۔ کچھ دیر میں وہ نارمل ہو گیا اور کھیلنے لگا۔ وہ گہری سانس لے کر اپنے ٹو ٹے وجود کے ساتھ زندگی کی دوڑ میں پھر سے بھاگنے کے لیے تیار ہوگئی کیوں کہ وہ صرف ایک بیٹی نہیں، اپنے دو معصوم بچوں کی ماں بھی تھی جن کی وجہ سے وہ میدان چھوڑ کے نہیں جا سکتی تھی۔
☆☆☆

عابدہ بیگم کئی دنوں سے دیکھ رہی تھیں کہ وہ بہت پریشان اور گم صم ہے۔ انھوں نے اکثر اسے فون پر علی سے بات کرتے اور روتے ہوئے دیکھا تھا۔ تب ایک دن پتا چلا کہ اس کی ماں کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے ۔ حمزہ اسے فورا ہسپتال لے گیا۔ عالیہ کے لیے وہ دن بہت مشکل تھے۔ اس کی ماں ڈسچارج ہو کر گھر واپس آئیں تو اس نے سکھ کا سانس لیا مگر اب وہ ان کی اچھی صحت کے لیے فکر مند رہتی۔ علی کو جاب مل گئی تھی ۔ اس نے شکر ادا کیا کہ اب کچھ حالات بہتر ہو جا ئیں گے۔ عابدہ بیگم کو شک تھا کہ وہ گھر میں رکھے پیسے یاراشن چوری کر کے میکے بھجواتی ہے۔ وہ چپ چپ کر اس پر نظر رکھتی تھیں تاکہ اس کی چوری کو پکڑ کے حمزہ کو بتائیں۔ کئی دن گزر گئے بالآخر ان کی امید بر آئی اور انھوں نے عالیہ کو پیسے نکالتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑ ہی لیا۔ حمزہ موسی کو اسکول چھوڑ نے چلا گیا ۔ عابدہ بیگم بہت دیر سے نوٹ کر رہی تھیں کہ وہ بہت گھبرائی ہوئی ہے اور بار بار فون کی طرف دیکھ رہی ہے۔ اسی کیفیت میں اس نے جلدی جلدی دو پہر کے کھانے کی تیاری کی ۔ ماسی سے کام کروایا ۔ ماسی کے جاتے ہی اچانک فون بجنے لگا۔ اس نے بھاگ کر موبائل اٹھا کر کان سے لگایا۔ یہ چھوٹا سا موبائل فون حمزہ نے گھر کے مختلف کاموں کے لیے اسے دیا ہوا تھا۔ سب کی کالز اسی نمبر پر آتی تھیں۔ ہیلو علی ! اس نے گھبرائے لہجے میں کہا تو عابدہ بیگم کے کان کھڑے ہو گئے ۔ عالیہ کے چہرے کا رنگ اڑ گیا ۔ اس کے ہاتھ سے فون گرا اور وہ روتے ہوئے تیزی سے اپنے کمرے کی طرف بھاگی۔ لگتا ہے بے چاری کی ماں گزر گئی ۔ عابدہ بیگم کو پہلا خیال یہ ہی آیا۔ اس وقت وہ ہانیہ کو گود میں اٹھائے کمرے سے باہر نکلی۔ اچانک کچھ یاد آنے پر رکی اور تیزی سے موسیٰ کے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔ عابدہ بیگم بھی اس کے پیچھے ہیں۔ انھوں نے کمرے میں جھانکا تو اچھل پڑیں- وہ موسیٰ کے منی باکس کو کھول کر جلدی میں پیسے نکال کر اپنے بیگ میں رکھ رہی تھی۔ شرم نہیں آئی ۔ بچے کے پیسے چوری کرتے ہوئے ۔ وہ غصے میں بولتی کمرے میں داخل ہوئیں۔ وہ چونک گئی۔آپ غلط سمجھ رہی ہیں۔ مجھے کچھ پیسوں کی ضرورت تھی اس لیے ! اس نے جلدی میں کچھ کہنا چاہا مگر وہ غصے میں چلانے لگیں ۔ وہ انہیں بولتا دیکھ کر خاموشی سے کمرے سے باہر چلی گئی۔ ابھی بتاتی ہوں حمزہ کو ۔ اتنی ہمت اس کی۔ عالیہ کو بیرونی دروازے کی طرف بڑھتا دیکھ کر وہ غصے میں بھری فون کی طرف بڑھیں اور حمزہ کو کال ملا کر فورا گھر بلایا۔ کچھ دیر بعد پریشان اور گھبرایا حمزہ گھر آیا تو ماں کی زبانی ساری بات سن کر ساکت رہ گیا۔ وہ مجھے تو کال کر کے بتا سکتی تھی – یہ فون اسی لیے گھر چھوڑا تھا ۔ اس نے حیرانی سے سوچا اور کچھ دور پڑے فون کو دیکھا۔ آنے دوا سے بس بہت ہو گئی۔ اسے اچھی طرح سمجھا دینا کہ یہاں رہنا ہے تو ….. وہ غصے میں کہنے لگیں۔ تو بے زبان جانور بن کر رہو ۔ اچانک سرد لہجے میں بولتی وہ گھر میں داخل ہوئی تو وہ دونوں چونک گئے۔ کہاں گئی تھیں تم مجھے بغیر بتائے؟ وہ آستین چڑھاتا غصے میں آگے بڑھا ۔ اسی لمحے اس کی نگاہ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے موسیٰ پر پڑی جس کے سر پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔ اپنے زخمی بیٹے کو لینے ! اس نے سخت لہجے میں کہا تو وہ دونوں ساکت رہ گئے ۔ ایک عورت اپنی ذات کے ہر دکھ کو ہنس کر ہر برداشت کر لیتی ہے مگر ایک ماں اپنی اولاد کی تکلیف کے سامنے کبھی کمزور نہیں پڑ سکتی کہ یہ اس کی ممتا کی ہار ہے۔ اس نے طنزیہ نگاہ ان دونوں پر ڈالی ۔ حمزہ نے آگے بڑھ کر موسیٰ کو سنبھالا اور کرسی پر بٹھایا۔ عابدہ بیگم بھی اس کے پاس آکر سوال کرنے لگیں ۔ بابا میں اسکول میں سیڑھیوں سے گر کر بے ہوش ہو گیا۔ مس نے میرے گھر فون کیا تو امی فورا مجھے لینے آئیں ۔ اس نے کمزور لہجے میں بتایا۔ تم مجھے تو بتا سکتی تھیں ۔ حمزہ نے شکایتی نگاہ اس پر ڈالی۔کیا بتاتی؟ آپ کی ماں نے کچھ سنے بغیر مجھے چورنی کہہ کر شور مچا دیا۔ میرے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ میں انہیں وضاحت پیش کرتی ۔اس نے کھلے لہجے میں کہا۔ میں سمجھی تم اپنے بھائی سے بات کر رہی ہو۔ عابدہ بیگم نے مدھم لہجے میں کہا۔ وہ طنزیہ مسکرائی۔ ہاں اسی کے فون کا انتظار تھا۔ آج میری ماں کی رپورٹس آنی تھیں۔ اس لیے صبح سے بے چین تھی۔ جب اسکول سے فون آیا تو میں سمجھی علی کا ہے۔ اس لیے نمبر دیکھے بغیر فون اٹھا کر اس کا نام لیا مگر اس نے تفصیل بتائی تو وہ شرمندہ ہو گئیں ۔ آج اگر میرے بیٹے کا منی باکس نہ ہوتا تو میں اسے لینے بھی نہیں جاسکتی تھی۔ اس لیے کئی بار کہا ۔ تھا کہ گھر میں کوئی بھی ایمر جنسی ہو سکتی ہے۔ مگر آپ کو تو اعتبار ہی نہیں ہے ۔ اس نے افسوس سے کہا اور دونوں بچوں کو لے کر کمرے کی طرف بڑھ گئی۔ اتنے سالوں میں حمزہ پہلی بار اس کے سامنے شرمندہ ہوا تھا۔ کئی دن دونوں کے درمیان کام کے علاوہ کوئی بات نہیں ہوئی۔ وہ ناراض تھی اس لیے کسی سے بات نہیں کر رہی تھی۔ عابدہ بیگم بھی کھسیانی ہو کر ادھر اُدھر مصروف رہیں۔ کچھ دنوں کی بات ہے ۔ سب بھول بھال جائیں گے ۔ وہ مطمئن تھیں۔
☆☆☆

کچھ دن بعد سچ میں ایسا ہی ہوا۔ جب مہینے کے شروع ہوتے ہی حمزہ حسب معمول تنخواہ کے پیسے گھر لایا تو سب سے پہلے ماں کو ان کا جیب خرچ دیا۔ یہ پیسے صرف ان کی ذاتی خواہشوں کے لیے تھے۔ باقی ہر خر چا حمزہ پورا کرتا۔ وہ ماں کو پیسوں کے لیے پریشان یا تنگ نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔ اس لیے ہر مہینے ایک بڑی رقم انہیں پاکٹ منی کے نام پر دیتا تا کہ وہ اپنی مرضی سے جو دل چاہے کریں ۔ عابدہ بیگم نے خوش ہو کر جلدی سے پیسے بٹوے میں رکھ لیے۔ اب وہ منتظر تھیں کہ حمزہ گھر کے خرچے کے پیسے بھی تھمائے تاکہ وہ انہیں سنبھال لیں۔ حمزہ نے موسی کو اس کی پاکٹ منی دی جو فورا منی باکس میں چلی گئی ۔ عالیہ وہاں سے جانے لگی تو اس نے پکارا۔ آج سے گھر کا خرچا تم چلاؤ گی۔ یہ تمہاری پاکٹ منی اور یہ گھر کا خرچہ ہے۔ اس نے سنجیدگی سے کہا اور ساکت کھڑی عالیہ کو پیسے پکڑا ئے اس نے حیران نگاہوں سے پہلے اسے اور پھر بت بنی عابدہ بیگم کو دیکھا۔ وہ بے یقین نگاہوں سے بیٹے کو دیکھ رہی تھیں۔ موسیٰ حیرت اور خوشی سے ماں کے ہاتھ میں رکھے ڈھیر سارے پیسے دیکھ رہا تھا۔ حمزہ نے ایک نظر میں سب کے چہروں کو پڑھا ۔ جس میں اس کا ماضی، حال اور مستقبل صاف نظر آ رہا تھا ۔ اس نے نرمی سے اپنی ماں کے ہاتھ تھامے اور بوسہ دے کر آنکھوں سے لگایا۔ اماں ! بہت سال ہم نے اس کے ساتھ نا انصافی کی ہے۔ اس دن آپ نے بغیر سوچے سمجھے الزام لگا کر اس کی عزت نفس کو کچل دیا۔ اس الزام کی تلافی میں ، آپ کا بیٹا ہو کر یہ کر رہا ہوں تا کہ دونوں جہاں میں ہم ماں بیٹا سرخرو ہوئیں ۔ ویسے بھی میں اس گھر کا سر براہ ہوں۔ میں رب کے آگے سب کے لیے جواب دہ ہوں گا۔ گھر کا سر براہ اگر توازن قائم نہ کرے تو اس کا حساب بہت سخت ہوگا ۔ اس کی بات سن کر وہ رونے لگیں ۔ بیٹا ہو کر ماں کے برے رویے کو مٹانے کی کوشش کر رہا تھا تا کہ وہ رب کے غضب سے بچ سکیں ۔ عالیہ کی آنکھیں بھی نم ہو گئیں۔ اس نے پیسے واپس کرنے کے لیے آگے بڑھائے تو عابدہ بیگم نے نرمی سے روک دیا۔ حمزہ ٹھیک کہہ رہا ہے۔ اب تمہارا وقت ہے۔ مجھے امید ہے کہ تم میری طرح بے انصافی سے کام نہیں لو گی۔ وہ دھیرے سے مخاطب ہوئیں اور وہاں سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئیں۔ حمزہ بھی نماز پڑھنے چلا گیا ۔ عالیہ نے ایک نظر اپنے ہاتھ میں پکڑے پیسوں پر ڈالی اور دوسری نگاہ گھر پر ۔اچانک اس کی نظر موسی کے منی باکس پر پڑی۔ وہ کچھ دیر اسے دیکھتی رہی پھر مسکرا کر اٹھا لیا۔ اچھے برے ہر لمحے نے وقت کا حصہ بننا ہی ہوتا ہے بس صبر سے ان سخت لمحوں کو گزرنے دو کہ اپنا اپنا وقت ایک بار سب کے حصے میں ضرور آتا ہے۔ اس لیے اپنی زندگی کے ہر رشتے کو اعتبار دو کیونکہ برے وقت میں اعتبار کا منی باکس ہی کام آئے گا۔
 
Back
Top