Cute
Well-known member
Offline
- Thread Author
- #1
ہائے کیسے ہو سب بہت دوستوں کے کہنے پر ایک اور واقع لکھنے جا رہا ہوں یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ میں کسی اور کی یا جھوٹی باتیں نہیں لکھتا اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے
جب ہم نانی کے گھر جایا کرتے تھے وہاں بھی بہت کچھ ہوتا پر کسی کو گھر کے ٹوٹنے کے ڈر سے نہیں بتایا پر فیسبوک ایسی جگہ ہیں جہاں میں دل کھول کر بیان کر سکتا ہوں کسی کا ڈر نہیں
ہم بہت شوق سے نانی کے گھر جاتے تھے پر ہم سے بھی زیادہ شوق امی کو ہوتا جس کی وجہ باد میں پتا چلی ہمارے سکول بند تھے ابو نے امی سے کہا بچوں کو ان کی پھوپھو کے پاس لے جاؤ سیر کر آؤ پر ہم نانی کے گھر جانا چاہتے تھے ابو مان نہیں رہے تھے تو امی نے ہمیں کہا تم چپ رہو میں خود بات کر لو گی اور رات سب سونے لگ گئے جب صبح اٹھے تو امی نہاں کر فریش تھی ابو بھی نہاں چکے تھے امی نے سب کو خوشخبری سنائی کہ ہم نانی کے گھر جا رہے ہیں باجی نے امی سے کہا امی ابو تو کہ رہے تھے نہیں جانا امی تھوڑا مسکرا کر کہا اب پوچھ لو اپنے ابو سے ابو نے بھی کہ دیا ٹھیک ہے چلے جاؤ مجھے کچھ دن کے لیے شہر سے باہر جانا ہے تمہیں آج چھوڑ آتا ہوں ہم سب خوش تھے تیار ہوئے 12 بجے تک نکل گئے 3 گھنٹے بعد نانی کے گھر پہنچ کر بڑے خوش ہوئے میری نانی کے گھر میں دو ماموں ہیں ان کی بیویاں اور بچے ہیں بڑے ماموں کے بچے ہم سے بڑے ہیں چھوٹے ماموں کے بچے ابھی ہم سے کوئی 5 سال چھوٹے ہی ہونگے میری باجی اس وقت جوان ہی تھی اور بڑے ماموں کا بڑا بیٹا بھی جوان تھا دونوں میں کوئی سال کا فرق ہے ہم سب بڑے خوش مزے میں تھے ابو اگلی صبح واپس آگئے ہم نے ایک ہفتہ رکنا تھا امی اگلے دن اس پاس کے ہمسایہ سے ملنے گئی ہم بھی ساتھ گئے سب بہت پیار کرتے تھے ایک گھر تھا جو نانی کے گھر کے بلکل پیچھے تھا دونوں کی چھت آپس میں ملتی ہے ہم سب ان کے گھر بھی گئے کافی بڑا گھر تھا ایک بھوڑی عورت بیٹھی تھی کچھ بچے اور دو تین عورتیں کام کر رہی تھی سب خوشی سے ملے دو مرد آئے امی اٹھ کر ان سے ملی انہوں نے امی کے سر پر ہاتھ رکھا حال پوچھا اور گھر سے نکل گئے پھر ایک مرد آیا جو کافی جوان تھا لمبا چوڑا امی نے اسے دیکھا اس نے امی کی طرف دیکھا دونوں کے چہرے کھل اٹھے اور سلام لیا اور باتیں کرنے لگے وہ پاس ہی بیٹھ گیا باتیں کرنے لگے
(ان کا نام چودھری ساجد تھا )اور پوچھا کچھ کھایا پیا
امی۔ہاں جی سب ہو گیا
ساجد ۔دیکھنا آپ مہمان ہیں کوئی کمی نا ہو
امی۔اپ نے بھلا کوئی کمی آنے دی ہیں
ساجد ۔نہیں ایسی بات نہیں آپ سال بعد تو آتی ہوں اور ہمارے یہ بچے بھی کھبی کھبی آتے خیال تو کرنا نا پھر
امی۔اس بار تو تیسرا چکر لگا سال میں
ساجد ۔وہ تو آپ کی مہربانی اچھا میں نے نا زرا شہر جانا مجھے پتا نہیں تھا آپ کا ورنہ کسی اور دن چلا جاتا ہر اب بھائی ساتھ ہیں 2٫3 گھنٹے تک آجاؤ گا آپ اتنی دیر کھانا وغیرہ کھا کر جانا پھر میں نے ڈیرے پر جانا ہے کیونکہ بھائی آج نہیں ٹیوب ویل چلانا لے آنا بچو کو وہاں تھوڑی مستی ہو جائے گی اور پھر ہماری طرف دیکھ کر کہا کیوں نہانا نا ٹیوب ویل پر ہم نے خوشی سے ہاں کی امی نے بھی ہامی بھر لی اچھا پھر ہم گھر ہی ہوں گے اطلاع کر دینا جب آپ آؤ تو تھوڑی دیر بیٹھ کر ہم گھر آ گئے میں میرا کزن اور اس۔ کا ایک ہماری بہنیں سب نہانے کے لئے تیار تھی دوپہر دو بج گئے ایک چھوٹا سا لڑکا آیا اس نے مامی سے کہا چاچی مہمانوں کو بھیج دو ٹیوب ویل چل گیا چاچو نے کہا مامی اندر آئی سب کو کہا چلو اگر جانا تو چلے جاؤ اور امی سے کہا شازی تم بھی گھوم آؤ امی نے کہا ہاں بھابھی دل تو کر رہا ہے
مامی تو چلی جاؤ تمارے آنے تک کھانا بنا لو گی اگر نہانا ہے تو میرے کپڑے پہن لو سادہ کوئی ہاں بھابھی دے دو ہم نے بھی کپڑے چینج کیے امی نے بھی باجی نہیں گئی باقی سب گئے امی بھی ساتھ تھی ہم وہاں ڈیرے پر پہنچے جہاں ساجد انکل موجود تھے انہوں نے سب سے پوچھا کیا کھاؤ گے پھر ہم سے کہا جاؤ ساتھ باغ میں چلے جاؤ کھاؤ پیوں اور پھر نہانے لگ جانا ہم سب جیسے آزار تھے آج سب بھاگے پہلے ٹیوب ویل دیکھا جو ڈیرے سے تھوڑا دور تھا امی وہی رہی ڈیرے پر ہم سب امرود توڑے پھر نہانے گل گئے آدھا گھنٹہ نہانے کے بعد مجھے پیشاب آگیا میں نے اسد میرے کزن سے پوچھا اس نے کہا ڈیرے میں واشروم ہے چلے جاؤ میں اوپس آنے لگا اندر آیا تو کوئی نہیں تھا نا امی نا ساجد انکل نا ہی کوئی اور خیر میں پیشاب کیا اور ادھر اُدھر امی کو دیکھنے لگا وہاں بہت بڑا برآمدہ تھا جس کے پیچھے تین کمرے تھے سب کی کھڑکیاں باہر تھی بہت بڑا ڈیرا تھا میں کافی ڈھونڈنے کے بعد جب سب سے سائیڈ والے کمرے کی طرف گیا تو دروازہ بند تھا پر اندر سے ہنسنے کی آوازیں آرہی تھی پہلے میں سوچا دروازہ کھٹکھٹا ہوں پھر سوچا غصہ ہی نا کر لے کوئی اور مڑنے لگا تو امی کی آواز میرے کانوں میں پڑی جو کہ رہی تھی ساجد تم ابھی بچپن کی بات ہی نہیں بھولے میں رک گیا پر ہمت بھی نہیں ہو رہی تھی دروازہ کھولنے کی تھوڑا پاس ہوا تو ساجد کی آواز آئی تم میری پہلی دوستی ہو کیسے بھول سکتا ہوں
امی۔دوستی کیسی یار میرے ابو تو آپ کے ابو کے ملازم تھے
ساجد ۔ان کی چھوڑ ان کا کام تھا ہمارا تو نہیں اور ویسے بھی تمارے بھائی تو ہماری ملازمت نہیں کرتے وہ پرانا دور تھا
امی۔ہاں یہ بھی شکر ہے میرے بھائیوں کی محنت نے بڑی عزت بنائی ان کی باتیں سن کر میں اندر دیکھنے کا راستہ ڈھونڈ رہا تھا کہ کھڑکی پر پہنچا جو کھلی تو تھی پر آگے پردہ تھا میں نے وہاں سے جھاڑوں کا ایک تنکہ اٹھا کر جالی میں ڈالا اور پردہ تھوڑا سا ہٹایا اندر بہت صاف ستھرا اور سکون کا ماحول تھا کچھ کرسیاں تھی ایک بڑی چارپائی جس پر امی پاؤ لٹکا کر بیٹھی تھی ساجد ساتھ لیٹا تھا امی کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ اور شرم تھی اور ساجد بڑا مدحوش سا تھا اور کروٹ لے کر امی والی سائیڈ پر منہ کر کے لیٹا تھا اور امی کے بلکل ساتھ جڑا تھا امی نے بھی اپنا وزن اس کی طرف کیا تھا اور ایک ہاتھ اس کے اوپر رکھا تھا دونوں باتوں میں مصروف تھے اس نے امی کے ایک ممے کو اوپر سے دبایا زور سے
امی۔اہ نا کرو کوئی آ نا جائے
ساجد۔شازو پریشان نا ہو کوئی نہیں آتا بچے سارے نہانے میں اور کھانے پینے میں مزے کر رہے ہیں بھائی صاحب کو پتا میں یہاں ہو وہ نہیں آئیں گے
امی۔اگر کوئی ملازم آگیا تو پھر اب مجھے تم بدنام کرو گے
ساجد۔اوئے میں نے صبح ہی چک 65 والے کھیتوں میں بھیج دیا سب کو چک 65 کافی دور ہے وہاں سے
امی۔پھر بھی یار دیکھ لینا برے وقت کا کوئی پتا تھوڑی ہوتا
ساجد۔ مجھ پر یقین نہیں کھبی ایسا ہوا
امی۔واہ جی واہ بھول گئے وہ جب ماسی بشیراں نے دیکھ لیا تھا
ساجد ۔اوئے تجھے ابھی یاد ہے اتنے سال پرانی بات اور اس نے کسی کو بتایا تو نہیں تھا نا
امی۔بندہ اپنی زندگی بھی بھولتا کوئی اس وقت تو ہماری دونوں کی شادی بھی نہیں ہوئی تھی
ساجد ۔یار ماسی کی جو لڑکی تھی کرن یاد ہے نا
امی۔ہاں وہ بڑے ڈورے ڈالتی تھی تم پر بغیرت
ساجد ۔نا ایسے نا کہ بچاری نے تیرے جانے کے بعد بڑی خدمت کی میری
امی۔اچھا تو نہیں باز آئی نا گشتی
ساجد ۔تو میں اور کیا کرتا تو چلی گئی تھی تو کچھ تو کرنا تھا پھر اس نے ہی سکون دیا اب تو وہ بھی جلدی کھبی یہاں نہیں آئی ایک تو ہی ہے جو مجھے یاد رکھتی ہے
امی۔میں کیسے نا یاد رکھتی میری پہلی دوستی تھے تم
ساجد۔جھوٹ نا بول پہلی نہیں دوسری
امی ۔وہ کیسے جی
ساجد ۔وہ یاد نہیں اظہر جس کے ساتھ پکڑا تھا تجھے میں نے
امی ۔اس نے کیا تو کچھ نہیں نا بس گپ شپ تھی ہاں اگر تم نا آتے تو شاید کچھ ہوجاتا پر اچھا ہی ہوا ورنہ پتا نہیں کتنے گندے گندے کام کرنے پڑتے اور ساتھ ہی امی نے اس کے سینے پر ہاتھ رکھ دیا اس نے بھی اپنا ایک ہاتھ امی کی کمر پر چلایا اور امی کو اپنی طرف کھینچ کر منہ چوم لیا امی اب اس کے سینے پر تھی اور اسے کو چوم رہی تھی اس نے امی سے کہا اوپر ہو جا امی نے چادر اتار کر سائیڈ پر رکھ دی اور اپنی ٹانگیں بھی اوپر کر کے اس کے ساتھ لیٹ گئی اس نے امی کو دونوں بانہوں میں بھر کر زور سے جھپی ڈالی اور منہ میں منہ ڈال دیا امی اس کے ہونٹ چوس رہی تھی وہ امی کے
پھر اس نے امی کو اوپر کی طرف اٹھایا امی اس کے اوپر اگئی اب وہ ساتھ ساتھ چوم رہا تھا ساتھ امی کی گانڈ اور جسم پر ہاتھ پھیر رہا تھا امی بھی اس کا پورا ساتھ دے رہی تھی کافی دیر تک یہ سلسلہ چلتا رہا پھر امی سیدھی ہوئی پر اس کے اوپر ہی بیٹھی ہوئی تھی اس نے امی سے کہا شازو میری یاد نہیں آتی تجھے
امی۔ اگر نا آتی تو اس طرح تمارے اوپر بیٹھی ہوتی تم ہی بتاؤ جب بھی آئی ہو تمہیں خوش نہیں کیا
ساجد ۔ میں کب کہ رہا ہوں تم نے تو ساری زندگی مجھے خوشی دی ہے یہ کہ کر امی کی قمیض میں ہاتھ ڈال لیے اور پیٹ اور کمر پر پھیر کر سینے کی طرف لے گیا پھر قمیص پکڑ کر اوپر کرنے لگا امی بھی سمجھ گئی اور بازوں اٹھا دیے اس نے امی کی قمیض اتار دی امی نے نیچے بہت پیاری برا پہنی تھی اس نے بھی تعریف کر دی اور کہا
شازو شہر جا کے زیادہ فیشن ہی نہیں کرنے لگی
امی۔کیوں کیا ہوا
ساجد ۔کتنی پیاری بریزر پہنی
امی۔تم رکھ لو تمہارے لیے ہی پہنی اپنی بیوی کو دے دینا
ساجد ۔ہاہا نہیں تجھ پر اچھی لگتی ویسے بھی اس کے چھوٹے چھوٹے تو ہیں
امی۔تو چوسا کرو نا میرے تو چوس چوس کے جوانی میں ہی بڑے کردیے تھے
ساجد کہا بڑے ہیں اتنے پیارے تو لگ رہے
امی۔اچھا جی نہیں بڑے تو یہ کیا ساتھ ہی اپنی برا اٹھا دی امی کے دودھ خوبصورت اور بڑے جھٹ سے باہر آگئے اس نے دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر کہا وہاں یہی تو مزا تجھے پتا جوانی سے تیری دو چیزوں پر مرتا ہو
امی۔ہاں جی مسکے نا لگاؤ
ساجد ۔نہیں قسم سے سچ کہ رہا ہوں امی اب تھوڑی سیرس ہو کے اچھا تو بتاؤ کیا سچ ہے
ساجد۔تمارے یہ خوبصورت دودھ اور یہ بڑی گانڈ تمہیں کیا پتا جب تم چلتی ہو کیا گزرتی ہے لوگوں پر
امی۔جی جانتی ہوں اتنی دیر سے شہر میں رہتی ہوں اب سب پتا ہے اور اگر آپ کو اتنے ہی اچھے لگتے ہے تو ابھی تک دور کیوں ہو ان سے امی نے یہ بات ممے ہاتھ میں پکڑ کر کی وہ سمجھ گیا امی کیا چاہتی ہے اور جھٹ سے امی کو اپنی طرف کھینچ کر ممے دبانے لگا پھر منہ میں ڈال لیا امی ابھی اس کے سر پر ہاتھ پھیر رہی تھی وہ ظالموں کی طرح ممے چوس رہا تھا کھبی کھبی کاٹتا بھی جس سے امی کی پیار بھی آواز نکلتی اہ آرام سے یار کہی بھاگی تو نہیں جا رہی آہ سونو آرام سے درد ہوتا اور اس کے منہ سے ممے چھڑوا کر اپنا منہ اس کے منہ سے جوڑ دیا پھر لمبی کس کرنے لگی اور ہاتھ اس کی قمیض میں ڈالا اور اوپر کی طرف اشارہ کیا وہ بھی سمجھ گیا اس نے امی کا ساتھ دیا اور اپنی قمیض اتارنے لگا کچھ ہی دیر میں امی نے اس کی قمیض اور بنیان دونوں اتار دی اور اس کے ننگے سینے سے اپنے ننگے سینے کو جوڑ کر مزے لینے لگی اب دونوں اوپر سے ننگے تھے اور بے تحاشہ ایک دوسرے کو چومتے رہے پھر اس امی کو کندھوں سے پکڑ کر نیچے کی طرف دھکیلنا شروع کیا مجھے تو سمجھ نا آیا پر امی سمجھ گئی پرانی کھلاڑی تھی آخر امی نیچے ہوتی ہوئی اس کے لن کے سامنے منہ لا کر رک گئی اور اس کے پیٹ پر منہ رکھ کر اس کی طرف دیکھ کر کہا کیا مسئلہ ہے
ساجد ۔تجھے نہیں پتا
امی۔نہیں خود بتا دو
ساجد ۔چل نا اب ایسے نا کر
امی۔نہیں میں نے کیا کییا میں تو پوچھ رہی ہوں
ساجد ۔بڑی حرامی ہے تو یہاں آکر تنگ کرنے لگ جاتی
امی۔ہاں حرامی کہو یا جو مرضی مجھے کیا میں نے کچھ نہیں کرنا میں تو حرامی ہو نا
ساجد۔شازو تیری مہربانی نا کیا کر ایسے اچھا نہیں تو نہیں میں ہی حرامی ہو بس کر نا
امی۔تھوڑا شوخ لہجے میں بولی او ہو بڈھا ہوگیا پر چھچھورا پن نہیں جاتا اور اس کی شلوار کا ناڑا کھولنے لگی جیسے ہی امی نے اس کا ناڑا کھول کر شلوار نیچے کی اس کی سامنے خالص دیسی جاندار لن کھڑا ملا اس لن کو دیکھ کر کوئی بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ عورتیں کیوں اس کی دیوانی ہے اچھا خاصا لمبا اور موٹا تازہ لن دیکھ کر۔ میری بھی آنکھیں باہر آنے کو تھی امی نے پیار سے ہاتھ میں پکڑا اور ہاتھ اوپر نیچے ہلانے لگی اور اس کی طرف دیکھ کر پوچھا ہاں کیا ہے دونوں کی آنکھوں میں چمک سی تھی اس نے امی کا منہ پکڑ کر لن کی طرف کیا امی نے کہا نا جی میں تو نہیں لے رہی منہ میں
ساجد ۔شازو دیکھ لے
امی۔دیکھ تو رہی ہو تمہیں میں ہی ملتی ہوں اپنی بیوی سے کروا لیا کرو
ساجد ۔شازو توں تو ہی ہے وہ تیرا مقابلہ نہیں کر سکتی وہ پتا نہیں پھدی میں کیسے لیتی
امی۔اچھس تو میں کون سا گشتی ہوں جو ہر کام کرو
ساجد ۔بڑی بہن چود ہو کیوں تنگ کرتی ہو مجھے پتا تو بھی مجھے سچا پیار کرتی ہے
امی۔ہاں وہ تو بچپن سے کرتی ہوں
ساجد ۔تو پھر کر امی نے لن کے ٹوپے پر ایک کس کی اور بولی کیا یاد کرو گے کیسی پیار کرنے والی ملی اور ساتھ ہی منہ کھول کر آدھے سے زیادہ لن اندر کر کے اپنے سر کو ادھر اُدھر جھٹکا اور اوپر نیچے کرنے لگی منہ اس کی اہہہہہہ نکلی آہ شازو او میری جان آہ امی نیچے سے جتنا منہ میں لے جا سکتی اتنا اندر لیتی اور چوپا لگا دیتی اس کی تو جیسے جان ہی نکل جاتی جب امی اندر تک لے کر جاتی وہ اپنی گانڈ اٹھا اٹھا کر امی کو چوپے لگوا رہا تھا نیچے سے گانڈ اٹھاتا اوپر سے امی کا سر دباتا بلکل Deep throat
دے رہی تھی امی اور میں نے پہلی بار امی کو کرتے دیکھا اس کی سسکاریاں تیز ہو رہی تھی تو دوسری طرف امی کا بھی چہرہ لال ہو رہا تھا آنکھوں میں نمی پر امی کی ہمت تھی جو کرتی رہی کافی دیر چوپے لگانے کے بعد امی نے منہ سے نکالا جو امی کی تھوک سے چمک گیا تھا اور امی کی سانسیں تیز تھی امی نے اس کے پیٹ پر ہی منہ رکھا اور۔ کہا بس خوش اس نے امی کے سر پر ہاتھ پھیر کر کہا ہاں میری جان تیرا یہ مزا زندگی بھر نہیں بھولتا پتا نہیں کہا سے سیکھا تونے امی اس کا لن ہاتھ میں ہلاتے ہوئے بولی آپ کو پہلے بھی کہا شہر میں بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے وہ کوئی گاؤں تھوڑی جہاں آدھی شلوار اتار کر اندر ڈال دو چار گھسے مارے اور میاں بیوی سو گئے
جناب شہر ہے وہاں بہت کچھ ہوتا اور پھر اس کے لن کے ٹوپے کو بس منہ میں لے کر چوستی کھبی زبان پھیرنے لگ جاتی کھبی نیچے ٹٹے چوس دیتی اس کا تو برا حال تھا حال تو ویسے میرا بھی برا تھا دل کر رہا تھا مٹھ مار لو پر فارغ ہونے کے بعد دیکھ نہیں سکتا تھا اس لیے وہاں نہیں ماری خیر امی نے اس کا لن چھوڑا اور اس کی بغل میں لیٹ گئی دونوں ایک دوسرے کو چومتے ہاتھ پھیرتے امی نے اس کے سینے پر سر رکھ کر کہا دیکھ لو کتنی بری بات ہے
ساجد ۔کیا ہوا
امی۔میری ابھی تک شلوار نہیں اتری کیا میں نے خود اتارنی ہے
ساجد ۔کیوں میں کس لیے ہو یا اور جلدی سے اٹھا امی کے پاؤں میں بیٹھ گیا اور امی کے پاؤں اٹھا کر اپنے سینے سے لگا کر شلوار نیچے کرنے لگا اور ساتھ ہی امی کے پاؤں کو چوم لیا امی بھی دیکھ کر تھوڑا ہنسی مجھے وہاں ایک بات یاد آئی مرد جتنا مرضی بڑا نواب زمیندار کیوں نا ہو ننگی لیٹی عورت کے تلوے چاٹنے تک جاتا ہے آج دیکھ بھی رہا تھا اس نے امی کی ساری شلوار اتار کر سائیڈ پر رکھ دی اور پاؤں چومتا رہا امی بھی مزے لے رہی تھی اور اپنے پاؤں کے تلوے اس کے ہونٹوں پر لگاتی کھبی پاؤں کے انگوٹھے کے اس کے منہ میں دیتی اور وہ چوستا ایسا کرتے کرتے اوپر آتا رہا ٹانگیں چومتا ہوا پیٹ پر آگیا امی نے اس کا منہ پکڑ کر روک دیا اور پھدی کے پاس کر کے کہا اس کا کوئی حق نہیں اس نے بنا بولے اوپر سے چوما امی نے تھوڑا زور لگا کر اس کا منہ پھدی کے اندر گھسایا جس کو مشکل سے اس نے ایک دو منٹ ہی چوما چاٹا ہوگا اور پھر نیچے تھوکنے لگا اور منہ صاف کرنے لگا امی نے اس کی طرف دیکھ کر کہا کتنا آسان ہے دوسروں سے گندے کام کام کروانا خود کرو تو پتا چلتا اور اس کو کھینچ کر اپنے اوپر لٹایا اب دونوں فل ننگے تھے امی نے اپنی پھدی سے گیلا اس کا منہ اپنے پاس کیا اور اپنے منہ میں ڈال کر کس کرنے لگی دونوں چوستے رہے نیچے سے امی نے ایک ہاتھ نیچے لے جا کر اس کے لن کو پھدی پر سیٹ کیا اور ہلکا ہلکا رگڑنے لگی اب وہ بھی ساتھ دے رہا تھا ہلکے ہلکے گھسے لگا رہا تھا پھر امی نے اپنے سوراخ پر رکھا اور اس کی گانڈ کو تھپکی دے کر اشارہ کیا ڈال دو اس نے جونہی جھٹکا مارا امی کی بڑی سی ہائےےےےےےے نکلی اور ساتھ ہی پورے جسم کو جھٹکا لگا اس نے بھی خوش ہوتے کہا ہاں اب سنا آیا مزا
امی۔او ہو ساجد کتنی بار کہا تیرا موٹا جب اندر ڈالنا ہو آرام سے ڈالا کر بندہ خود دیکھ لیتا تھوڑی دیر بعد تو جیسے۔ مرضی زور لگا تم پتا نہیں پاگل ہی ہو جاتے ہو
ساجد ۔اب تو چلا گیا نا کچھ نہیں ہوتا تجھے تو کون سا پہلی بار لے رہی ہے
امی۔بات یہ۔ نہیں بندہ ڈالے تو آرام سے پھر بعد میں جوش نکال لینا ایسے لگا جیسے میرے دل پر کوئی چیز لگی
ساجد ۔باہر نکال اب
امی۔نہیں اب تھوڑا آرام سے کر
اب وہ امی کو آرام آرام سے گھسے لگانے لگا ان کا منہ آگے تھا دونوں کے لن پھدی میری طرف تھے لن اندر جاتا اور باہر آتا مجھے صاف دکھائی دے رہا تھا تھوڑی دیر بعد امی نے اس کی کمر پر ہاتھ اور ٹانگیں باندھ لی اور کہا کرو اب اس کی بھی سپیڈ بڑھ گئی اور دونوں لن اور پھدی کی جنگ میں مصروف ہو گئے امی کا جسم بھرا ہوا ہے جس کی وجہ سے اس کا ہر جھٹکا آسانی سے سہ جاتی اور مزے لیتی امی نے پھر اسے کہا سب دیکھا دو کتنا زور ہے تمہارے اندر اس نے بھی جان لیوا جھٹکے مارے پر امی ہر جھٹکا خوشی سے سہتی دونوں کے جسموں سے نکلے والی آوازوں تھپ تھپ اور آہ آہ اپنے زور شور پر تھی امی اس کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر ایسے پیار سے باتیں کرنے لگی جیسی ایک ماں بچے سے کرتی ہے
ساجد مزا آرہا ہے نا
ساجد۔ہاں میری جان
امی۔میری جان آج ساری کمی پوری کر لو کتنا ترس جاتے ہو میرے بنا تم آج کھل کے مزے کرو میرے
آج ساری طاقت دیکھا دو یارا
ساجد ۔تمہیں یاد ہے نا وہ سردیوں کی رات جب اسی جگہ تم نے میری چیخیں نکلوا دیں تھی یاد ہے نا جان آج ایسے ہی کرو
ساجد ۔ہاں میری رانی سب یاد ہے ان کی باتیں تو ہورہی تھی پر اس دوران چدائی ایک سیکنڈ بھی نہیں رکی پھر امی بولی
ساجد اب دل نہیں کرتا مجھے کسی اور کے ساتھ دیکھنے کو تمہارا کیا اب نہیں سوچتے میں کسی اور کے نیچے ننگی پڑی ہوئی ہو اور تم پاس ہو مجھے چدواتے دیکھو ہمم بولو نا جان تمہیں کتنا مزا آتا مجھے کسی اور کے نیچے دیکھ کر
ساجد۔ ہاں جان بہت مزا آتا اب بھی دل کرتا تم میرے سامنے دو دو لوگوں سے کرو
امی۔تو کس نے روکا میری جان کو جو دل ہے کرو مجھ سے کرواؤ کہا ہے اب وہ تمہارا دوست جو تمہارے کالج سے آتا تھا اسے بلا لو
ایسی باتیں میں نے زندگی میں پہلی بار سنی تھی کے میری امی اتنے مزے کر چکی ہیں اتنی رنگین زندگی تو آج کی عورتوں کی بھی نہیں لیکن ایک بات ہے یہ سب اس لیے ممکن تھا کہ ساجد زمیندار گھر سے تھا اور اکثر باہر کے ملکوں میں گھومتا تھا ہو سکتا وہی سے سیکھا ہو اور میری امی کو بھی لگا دیا ہو اس کام پر خیر کرتے تو تھے آج پتا چل گیا
ان کی چدائی چلتی جا رہی تھی جس کو 15, منٹ سے زیادہ ہوچکے تھے امی نے پھر پوچھا کتنی گولیاں کھائی ہے
ساجد ایک ہی
امی ۔میں نے کہا بھی تھا دو تین کھانا پھر کیوں ایک
ساجد ۔یہ بڑی اچھی ہے باہر کی ہے ایک ہی کافی ہے
امی ۔اچھا جان آج 4 مہینوں کی تھکان اتار دو میری زور سے کرو آہ ہم ہم ہا ایسے ساجد کی آواز آئی شازو میں تھک گیا ہو۔
جب ہم نانی کے گھر جایا کرتے تھے وہاں بھی بہت کچھ ہوتا پر کسی کو گھر کے ٹوٹنے کے ڈر سے نہیں بتایا پر فیسبوک ایسی جگہ ہیں جہاں میں دل کھول کر بیان کر سکتا ہوں کسی کا ڈر نہیں
ہم بہت شوق سے نانی کے گھر جاتے تھے پر ہم سے بھی زیادہ شوق امی کو ہوتا جس کی وجہ باد میں پتا چلی ہمارے سکول بند تھے ابو نے امی سے کہا بچوں کو ان کی پھوپھو کے پاس لے جاؤ سیر کر آؤ پر ہم نانی کے گھر جانا چاہتے تھے ابو مان نہیں رہے تھے تو امی نے ہمیں کہا تم چپ رہو میں خود بات کر لو گی اور رات سب سونے لگ گئے جب صبح اٹھے تو امی نہاں کر فریش تھی ابو بھی نہاں چکے تھے امی نے سب کو خوشخبری سنائی کہ ہم نانی کے گھر جا رہے ہیں باجی نے امی سے کہا امی ابو تو کہ رہے تھے نہیں جانا امی تھوڑا مسکرا کر کہا اب پوچھ لو اپنے ابو سے ابو نے بھی کہ دیا ٹھیک ہے چلے جاؤ مجھے کچھ دن کے لیے شہر سے باہر جانا ہے تمہیں آج چھوڑ آتا ہوں ہم سب خوش تھے تیار ہوئے 12 بجے تک نکل گئے 3 گھنٹے بعد نانی کے گھر پہنچ کر بڑے خوش ہوئے میری نانی کے گھر میں دو ماموں ہیں ان کی بیویاں اور بچے ہیں بڑے ماموں کے بچے ہم سے بڑے ہیں چھوٹے ماموں کے بچے ابھی ہم سے کوئی 5 سال چھوٹے ہی ہونگے میری باجی اس وقت جوان ہی تھی اور بڑے ماموں کا بڑا بیٹا بھی جوان تھا دونوں میں کوئی سال کا فرق ہے ہم سب بڑے خوش مزے میں تھے ابو اگلی صبح واپس آگئے ہم نے ایک ہفتہ رکنا تھا امی اگلے دن اس پاس کے ہمسایہ سے ملنے گئی ہم بھی ساتھ گئے سب بہت پیار کرتے تھے ایک گھر تھا جو نانی کے گھر کے بلکل پیچھے تھا دونوں کی چھت آپس میں ملتی ہے ہم سب ان کے گھر بھی گئے کافی بڑا گھر تھا ایک بھوڑی عورت بیٹھی تھی کچھ بچے اور دو تین عورتیں کام کر رہی تھی سب خوشی سے ملے دو مرد آئے امی اٹھ کر ان سے ملی انہوں نے امی کے سر پر ہاتھ رکھا حال پوچھا اور گھر سے نکل گئے پھر ایک مرد آیا جو کافی جوان تھا لمبا چوڑا امی نے اسے دیکھا اس نے امی کی طرف دیکھا دونوں کے چہرے کھل اٹھے اور سلام لیا اور باتیں کرنے لگے وہ پاس ہی بیٹھ گیا باتیں کرنے لگے
(ان کا نام چودھری ساجد تھا )اور پوچھا کچھ کھایا پیا
امی۔ہاں جی سب ہو گیا
ساجد ۔دیکھنا آپ مہمان ہیں کوئی کمی نا ہو
امی۔اپ نے بھلا کوئی کمی آنے دی ہیں
ساجد ۔نہیں ایسی بات نہیں آپ سال بعد تو آتی ہوں اور ہمارے یہ بچے بھی کھبی کھبی آتے خیال تو کرنا نا پھر
امی۔اس بار تو تیسرا چکر لگا سال میں
ساجد ۔وہ تو آپ کی مہربانی اچھا میں نے نا زرا شہر جانا مجھے پتا نہیں تھا آپ کا ورنہ کسی اور دن چلا جاتا ہر اب بھائی ساتھ ہیں 2٫3 گھنٹے تک آجاؤ گا آپ اتنی دیر کھانا وغیرہ کھا کر جانا پھر میں نے ڈیرے پر جانا ہے کیونکہ بھائی آج نہیں ٹیوب ویل چلانا لے آنا بچو کو وہاں تھوڑی مستی ہو جائے گی اور پھر ہماری طرف دیکھ کر کہا کیوں نہانا نا ٹیوب ویل پر ہم نے خوشی سے ہاں کی امی نے بھی ہامی بھر لی اچھا پھر ہم گھر ہی ہوں گے اطلاع کر دینا جب آپ آؤ تو تھوڑی دیر بیٹھ کر ہم گھر آ گئے میں میرا کزن اور اس۔ کا ایک ہماری بہنیں سب نہانے کے لئے تیار تھی دوپہر دو بج گئے ایک چھوٹا سا لڑکا آیا اس نے مامی سے کہا چاچی مہمانوں کو بھیج دو ٹیوب ویل چل گیا چاچو نے کہا مامی اندر آئی سب کو کہا چلو اگر جانا تو چلے جاؤ اور امی سے کہا شازی تم بھی گھوم آؤ امی نے کہا ہاں بھابھی دل تو کر رہا ہے
مامی تو چلی جاؤ تمارے آنے تک کھانا بنا لو گی اگر نہانا ہے تو میرے کپڑے پہن لو سادہ کوئی ہاں بھابھی دے دو ہم نے بھی کپڑے چینج کیے امی نے بھی باجی نہیں گئی باقی سب گئے امی بھی ساتھ تھی ہم وہاں ڈیرے پر پہنچے جہاں ساجد انکل موجود تھے انہوں نے سب سے پوچھا کیا کھاؤ گے پھر ہم سے کہا جاؤ ساتھ باغ میں چلے جاؤ کھاؤ پیوں اور پھر نہانے لگ جانا ہم سب جیسے آزار تھے آج سب بھاگے پہلے ٹیوب ویل دیکھا جو ڈیرے سے تھوڑا دور تھا امی وہی رہی ڈیرے پر ہم سب امرود توڑے پھر نہانے گل گئے آدھا گھنٹہ نہانے کے بعد مجھے پیشاب آگیا میں نے اسد میرے کزن سے پوچھا اس نے کہا ڈیرے میں واشروم ہے چلے جاؤ میں اوپس آنے لگا اندر آیا تو کوئی نہیں تھا نا امی نا ساجد انکل نا ہی کوئی اور خیر میں پیشاب کیا اور ادھر اُدھر امی کو دیکھنے لگا وہاں بہت بڑا برآمدہ تھا جس کے پیچھے تین کمرے تھے سب کی کھڑکیاں باہر تھی بہت بڑا ڈیرا تھا میں کافی ڈھونڈنے کے بعد جب سب سے سائیڈ والے کمرے کی طرف گیا تو دروازہ بند تھا پر اندر سے ہنسنے کی آوازیں آرہی تھی پہلے میں سوچا دروازہ کھٹکھٹا ہوں پھر سوچا غصہ ہی نا کر لے کوئی اور مڑنے لگا تو امی کی آواز میرے کانوں میں پڑی جو کہ رہی تھی ساجد تم ابھی بچپن کی بات ہی نہیں بھولے میں رک گیا پر ہمت بھی نہیں ہو رہی تھی دروازہ کھولنے کی تھوڑا پاس ہوا تو ساجد کی آواز آئی تم میری پہلی دوستی ہو کیسے بھول سکتا ہوں
امی۔دوستی کیسی یار میرے ابو تو آپ کے ابو کے ملازم تھے
ساجد ۔ان کی چھوڑ ان کا کام تھا ہمارا تو نہیں اور ویسے بھی تمارے بھائی تو ہماری ملازمت نہیں کرتے وہ پرانا دور تھا
امی۔ہاں یہ بھی شکر ہے میرے بھائیوں کی محنت نے بڑی عزت بنائی ان کی باتیں سن کر میں اندر دیکھنے کا راستہ ڈھونڈ رہا تھا کہ کھڑکی پر پہنچا جو کھلی تو تھی پر آگے پردہ تھا میں نے وہاں سے جھاڑوں کا ایک تنکہ اٹھا کر جالی میں ڈالا اور پردہ تھوڑا سا ہٹایا اندر بہت صاف ستھرا اور سکون کا ماحول تھا کچھ کرسیاں تھی ایک بڑی چارپائی جس پر امی پاؤ لٹکا کر بیٹھی تھی ساجد ساتھ لیٹا تھا امی کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ اور شرم تھی اور ساجد بڑا مدحوش سا تھا اور کروٹ لے کر امی والی سائیڈ پر منہ کر کے لیٹا تھا اور امی کے بلکل ساتھ جڑا تھا امی نے بھی اپنا وزن اس کی طرف کیا تھا اور ایک ہاتھ اس کے اوپر رکھا تھا دونوں باتوں میں مصروف تھے اس نے امی کے ایک ممے کو اوپر سے دبایا زور سے
امی۔اہ نا کرو کوئی آ نا جائے
ساجد۔شازو پریشان نا ہو کوئی نہیں آتا بچے سارے نہانے میں اور کھانے پینے میں مزے کر رہے ہیں بھائی صاحب کو پتا میں یہاں ہو وہ نہیں آئیں گے
امی۔اگر کوئی ملازم آگیا تو پھر اب مجھے تم بدنام کرو گے
ساجد۔اوئے میں نے صبح ہی چک 65 والے کھیتوں میں بھیج دیا سب کو چک 65 کافی دور ہے وہاں سے
امی۔پھر بھی یار دیکھ لینا برے وقت کا کوئی پتا تھوڑی ہوتا
ساجد۔ مجھ پر یقین نہیں کھبی ایسا ہوا
امی۔واہ جی واہ بھول گئے وہ جب ماسی بشیراں نے دیکھ لیا تھا
ساجد ۔اوئے تجھے ابھی یاد ہے اتنے سال پرانی بات اور اس نے کسی کو بتایا تو نہیں تھا نا
امی۔بندہ اپنی زندگی بھی بھولتا کوئی اس وقت تو ہماری دونوں کی شادی بھی نہیں ہوئی تھی
ساجد ۔یار ماسی کی جو لڑکی تھی کرن یاد ہے نا
امی۔ہاں وہ بڑے ڈورے ڈالتی تھی تم پر بغیرت
ساجد ۔نا ایسے نا کہ بچاری نے تیرے جانے کے بعد بڑی خدمت کی میری
امی۔اچھا تو نہیں باز آئی نا گشتی
ساجد ۔تو میں اور کیا کرتا تو چلی گئی تھی تو کچھ تو کرنا تھا پھر اس نے ہی سکون دیا اب تو وہ بھی جلدی کھبی یہاں نہیں آئی ایک تو ہی ہے جو مجھے یاد رکھتی ہے
امی۔میں کیسے نا یاد رکھتی میری پہلی دوستی تھے تم
ساجد۔جھوٹ نا بول پہلی نہیں دوسری
امی ۔وہ کیسے جی
ساجد ۔وہ یاد نہیں اظہر جس کے ساتھ پکڑا تھا تجھے میں نے
امی ۔اس نے کیا تو کچھ نہیں نا بس گپ شپ تھی ہاں اگر تم نا آتے تو شاید کچھ ہوجاتا پر اچھا ہی ہوا ورنہ پتا نہیں کتنے گندے گندے کام کرنے پڑتے اور ساتھ ہی امی نے اس کے سینے پر ہاتھ رکھ دیا اس نے بھی اپنا ایک ہاتھ امی کی کمر پر چلایا اور امی کو اپنی طرف کھینچ کر منہ چوم لیا امی اب اس کے سینے پر تھی اور اسے کو چوم رہی تھی اس نے امی سے کہا اوپر ہو جا امی نے چادر اتار کر سائیڈ پر رکھ دی اور اپنی ٹانگیں بھی اوپر کر کے اس کے ساتھ لیٹ گئی اس نے امی کو دونوں بانہوں میں بھر کر زور سے جھپی ڈالی اور منہ میں منہ ڈال دیا امی اس کے ہونٹ چوس رہی تھی وہ امی کے
پھر اس نے امی کو اوپر کی طرف اٹھایا امی اس کے اوپر اگئی اب وہ ساتھ ساتھ چوم رہا تھا ساتھ امی کی گانڈ اور جسم پر ہاتھ پھیر رہا تھا امی بھی اس کا پورا ساتھ دے رہی تھی کافی دیر تک یہ سلسلہ چلتا رہا پھر امی سیدھی ہوئی پر اس کے اوپر ہی بیٹھی ہوئی تھی اس نے امی سے کہا شازو میری یاد نہیں آتی تجھے
امی۔ اگر نا آتی تو اس طرح تمارے اوپر بیٹھی ہوتی تم ہی بتاؤ جب بھی آئی ہو تمہیں خوش نہیں کیا
ساجد ۔ میں کب کہ رہا ہوں تم نے تو ساری زندگی مجھے خوشی دی ہے یہ کہ کر امی کی قمیض میں ہاتھ ڈال لیے اور پیٹ اور کمر پر پھیر کر سینے کی طرف لے گیا پھر قمیص پکڑ کر اوپر کرنے لگا امی بھی سمجھ گئی اور بازوں اٹھا دیے اس نے امی کی قمیض اتار دی امی نے نیچے بہت پیاری برا پہنی تھی اس نے بھی تعریف کر دی اور کہا
شازو شہر جا کے زیادہ فیشن ہی نہیں کرنے لگی
امی۔کیوں کیا ہوا
ساجد ۔کتنی پیاری بریزر پہنی
امی۔تم رکھ لو تمہارے لیے ہی پہنی اپنی بیوی کو دے دینا
ساجد ۔ہاہا نہیں تجھ پر اچھی لگتی ویسے بھی اس کے چھوٹے چھوٹے تو ہیں
امی۔تو چوسا کرو نا میرے تو چوس چوس کے جوانی میں ہی بڑے کردیے تھے
ساجد کہا بڑے ہیں اتنے پیارے تو لگ رہے
امی۔اچھا جی نہیں بڑے تو یہ کیا ساتھ ہی اپنی برا اٹھا دی امی کے دودھ خوبصورت اور بڑے جھٹ سے باہر آگئے اس نے دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر کہا وہاں یہی تو مزا تجھے پتا جوانی سے تیری دو چیزوں پر مرتا ہو
امی۔ہاں جی مسکے نا لگاؤ
ساجد ۔نہیں قسم سے سچ کہ رہا ہوں امی اب تھوڑی سیرس ہو کے اچھا تو بتاؤ کیا سچ ہے
ساجد۔تمارے یہ خوبصورت دودھ اور یہ بڑی گانڈ تمہیں کیا پتا جب تم چلتی ہو کیا گزرتی ہے لوگوں پر
امی۔جی جانتی ہوں اتنی دیر سے شہر میں رہتی ہوں اب سب پتا ہے اور اگر آپ کو اتنے ہی اچھے لگتے ہے تو ابھی تک دور کیوں ہو ان سے امی نے یہ بات ممے ہاتھ میں پکڑ کر کی وہ سمجھ گیا امی کیا چاہتی ہے اور جھٹ سے امی کو اپنی طرف کھینچ کر ممے دبانے لگا پھر منہ میں ڈال لیا امی ابھی اس کے سر پر ہاتھ پھیر رہی تھی وہ ظالموں کی طرح ممے چوس رہا تھا کھبی کھبی کاٹتا بھی جس سے امی کی پیار بھی آواز نکلتی اہ آرام سے یار کہی بھاگی تو نہیں جا رہی آہ سونو آرام سے درد ہوتا اور اس کے منہ سے ممے چھڑوا کر اپنا منہ اس کے منہ سے جوڑ دیا پھر لمبی کس کرنے لگی اور ہاتھ اس کی قمیض میں ڈالا اور اوپر کی طرف اشارہ کیا وہ بھی سمجھ گیا اس نے امی کا ساتھ دیا اور اپنی قمیض اتارنے لگا کچھ ہی دیر میں امی نے اس کی قمیض اور بنیان دونوں اتار دی اور اس کے ننگے سینے سے اپنے ننگے سینے کو جوڑ کر مزے لینے لگی اب دونوں اوپر سے ننگے تھے اور بے تحاشہ ایک دوسرے کو چومتے رہے پھر اس امی کو کندھوں سے پکڑ کر نیچے کی طرف دھکیلنا شروع کیا مجھے تو سمجھ نا آیا پر امی سمجھ گئی پرانی کھلاڑی تھی آخر امی نیچے ہوتی ہوئی اس کے لن کے سامنے منہ لا کر رک گئی اور اس کے پیٹ پر منہ رکھ کر اس کی طرف دیکھ کر کہا کیا مسئلہ ہے
ساجد ۔تجھے نہیں پتا
امی۔نہیں خود بتا دو
ساجد ۔چل نا اب ایسے نا کر
امی۔نہیں میں نے کیا کییا میں تو پوچھ رہی ہوں
ساجد ۔بڑی حرامی ہے تو یہاں آکر تنگ کرنے لگ جاتی
امی۔ہاں حرامی کہو یا جو مرضی مجھے کیا میں نے کچھ نہیں کرنا میں تو حرامی ہو نا
ساجد۔شازو تیری مہربانی نا کیا کر ایسے اچھا نہیں تو نہیں میں ہی حرامی ہو بس کر نا
امی۔تھوڑا شوخ لہجے میں بولی او ہو بڈھا ہوگیا پر چھچھورا پن نہیں جاتا اور اس کی شلوار کا ناڑا کھولنے لگی جیسے ہی امی نے اس کا ناڑا کھول کر شلوار نیچے کی اس کی سامنے خالص دیسی جاندار لن کھڑا ملا اس لن کو دیکھ کر کوئی بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ عورتیں کیوں اس کی دیوانی ہے اچھا خاصا لمبا اور موٹا تازہ لن دیکھ کر۔ میری بھی آنکھیں باہر آنے کو تھی امی نے پیار سے ہاتھ میں پکڑا اور ہاتھ اوپر نیچے ہلانے لگی اور اس کی طرف دیکھ کر پوچھا ہاں کیا ہے دونوں کی آنکھوں میں چمک سی تھی اس نے امی کا منہ پکڑ کر لن کی طرف کیا امی نے کہا نا جی میں تو نہیں لے رہی منہ میں
ساجد ۔شازو دیکھ لے
امی۔دیکھ تو رہی ہو تمہیں میں ہی ملتی ہوں اپنی بیوی سے کروا لیا کرو
ساجد ۔شازو توں تو ہی ہے وہ تیرا مقابلہ نہیں کر سکتی وہ پتا نہیں پھدی میں کیسے لیتی
امی۔اچھس تو میں کون سا گشتی ہوں جو ہر کام کرو
ساجد ۔بڑی بہن چود ہو کیوں تنگ کرتی ہو مجھے پتا تو بھی مجھے سچا پیار کرتی ہے
امی۔ہاں وہ تو بچپن سے کرتی ہوں
ساجد ۔تو پھر کر امی نے لن کے ٹوپے پر ایک کس کی اور بولی کیا یاد کرو گے کیسی پیار کرنے والی ملی اور ساتھ ہی منہ کھول کر آدھے سے زیادہ لن اندر کر کے اپنے سر کو ادھر اُدھر جھٹکا اور اوپر نیچے کرنے لگی منہ اس کی اہہہہہہ نکلی آہ شازو او میری جان آہ امی نیچے سے جتنا منہ میں لے جا سکتی اتنا اندر لیتی اور چوپا لگا دیتی اس کی تو جیسے جان ہی نکل جاتی جب امی اندر تک لے کر جاتی وہ اپنی گانڈ اٹھا اٹھا کر امی کو چوپے لگوا رہا تھا نیچے سے گانڈ اٹھاتا اوپر سے امی کا سر دباتا بلکل Deep throat
دے رہی تھی امی اور میں نے پہلی بار امی کو کرتے دیکھا اس کی سسکاریاں تیز ہو رہی تھی تو دوسری طرف امی کا بھی چہرہ لال ہو رہا تھا آنکھوں میں نمی پر امی کی ہمت تھی جو کرتی رہی کافی دیر چوپے لگانے کے بعد امی نے منہ سے نکالا جو امی کی تھوک سے چمک گیا تھا اور امی کی سانسیں تیز تھی امی نے اس کے پیٹ پر ہی منہ رکھا اور۔ کہا بس خوش اس نے امی کے سر پر ہاتھ پھیر کر کہا ہاں میری جان تیرا یہ مزا زندگی بھر نہیں بھولتا پتا نہیں کہا سے سیکھا تونے امی اس کا لن ہاتھ میں ہلاتے ہوئے بولی آپ کو پہلے بھی کہا شہر میں بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے وہ کوئی گاؤں تھوڑی جہاں آدھی شلوار اتار کر اندر ڈال دو چار گھسے مارے اور میاں بیوی سو گئے
جناب شہر ہے وہاں بہت کچھ ہوتا اور پھر اس کے لن کے ٹوپے کو بس منہ میں لے کر چوستی کھبی زبان پھیرنے لگ جاتی کھبی نیچے ٹٹے چوس دیتی اس کا تو برا حال تھا حال تو ویسے میرا بھی برا تھا دل کر رہا تھا مٹھ مار لو پر فارغ ہونے کے بعد دیکھ نہیں سکتا تھا اس لیے وہاں نہیں ماری خیر امی نے اس کا لن چھوڑا اور اس کی بغل میں لیٹ گئی دونوں ایک دوسرے کو چومتے ہاتھ پھیرتے امی نے اس کے سینے پر سر رکھ کر کہا دیکھ لو کتنی بری بات ہے
ساجد ۔کیا ہوا
امی۔میری ابھی تک شلوار نہیں اتری کیا میں نے خود اتارنی ہے
ساجد ۔کیوں میں کس لیے ہو یا اور جلدی سے اٹھا امی کے پاؤں میں بیٹھ گیا اور امی کے پاؤں اٹھا کر اپنے سینے سے لگا کر شلوار نیچے کرنے لگا اور ساتھ ہی امی کے پاؤں کو چوم لیا امی بھی دیکھ کر تھوڑا ہنسی مجھے وہاں ایک بات یاد آئی مرد جتنا مرضی بڑا نواب زمیندار کیوں نا ہو ننگی لیٹی عورت کے تلوے چاٹنے تک جاتا ہے آج دیکھ بھی رہا تھا اس نے امی کی ساری شلوار اتار کر سائیڈ پر رکھ دی اور پاؤں چومتا رہا امی بھی مزے لے رہی تھی اور اپنے پاؤں کے تلوے اس کے ہونٹوں پر لگاتی کھبی پاؤں کے انگوٹھے کے اس کے منہ میں دیتی اور وہ چوستا ایسا کرتے کرتے اوپر آتا رہا ٹانگیں چومتا ہوا پیٹ پر آگیا امی نے اس کا منہ پکڑ کر روک دیا اور پھدی کے پاس کر کے کہا اس کا کوئی حق نہیں اس نے بنا بولے اوپر سے چوما امی نے تھوڑا زور لگا کر اس کا منہ پھدی کے اندر گھسایا جس کو مشکل سے اس نے ایک دو منٹ ہی چوما چاٹا ہوگا اور پھر نیچے تھوکنے لگا اور منہ صاف کرنے لگا امی نے اس کی طرف دیکھ کر کہا کتنا آسان ہے دوسروں سے گندے کام کام کروانا خود کرو تو پتا چلتا اور اس کو کھینچ کر اپنے اوپر لٹایا اب دونوں فل ننگے تھے امی نے اپنی پھدی سے گیلا اس کا منہ اپنے پاس کیا اور اپنے منہ میں ڈال کر کس کرنے لگی دونوں چوستے رہے نیچے سے امی نے ایک ہاتھ نیچے لے جا کر اس کے لن کو پھدی پر سیٹ کیا اور ہلکا ہلکا رگڑنے لگی اب وہ بھی ساتھ دے رہا تھا ہلکے ہلکے گھسے لگا رہا تھا پھر امی نے اپنے سوراخ پر رکھا اور اس کی گانڈ کو تھپکی دے کر اشارہ کیا ڈال دو اس نے جونہی جھٹکا مارا امی کی بڑی سی ہائےےےےےےے نکلی اور ساتھ ہی پورے جسم کو جھٹکا لگا اس نے بھی خوش ہوتے کہا ہاں اب سنا آیا مزا
امی۔او ہو ساجد کتنی بار کہا تیرا موٹا جب اندر ڈالنا ہو آرام سے ڈالا کر بندہ خود دیکھ لیتا تھوڑی دیر بعد تو جیسے۔ مرضی زور لگا تم پتا نہیں پاگل ہی ہو جاتے ہو
ساجد ۔اب تو چلا گیا نا کچھ نہیں ہوتا تجھے تو کون سا پہلی بار لے رہی ہے
امی۔بات یہ۔ نہیں بندہ ڈالے تو آرام سے پھر بعد میں جوش نکال لینا ایسے لگا جیسے میرے دل پر کوئی چیز لگی
ساجد ۔باہر نکال اب
امی۔نہیں اب تھوڑا آرام سے کر
اب وہ امی کو آرام آرام سے گھسے لگانے لگا ان کا منہ آگے تھا دونوں کے لن پھدی میری طرف تھے لن اندر جاتا اور باہر آتا مجھے صاف دکھائی دے رہا تھا تھوڑی دیر بعد امی نے اس کی کمر پر ہاتھ اور ٹانگیں باندھ لی اور کہا کرو اب اس کی بھی سپیڈ بڑھ گئی اور دونوں لن اور پھدی کی جنگ میں مصروف ہو گئے امی کا جسم بھرا ہوا ہے جس کی وجہ سے اس کا ہر جھٹکا آسانی سے سہ جاتی اور مزے لیتی امی نے پھر اسے کہا سب دیکھا دو کتنا زور ہے تمہارے اندر اس نے بھی جان لیوا جھٹکے مارے پر امی ہر جھٹکا خوشی سے سہتی دونوں کے جسموں سے نکلے والی آوازوں تھپ تھپ اور آہ آہ اپنے زور شور پر تھی امی اس کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر ایسے پیار سے باتیں کرنے لگی جیسی ایک ماں بچے سے کرتی ہے
ساجد مزا آرہا ہے نا
ساجد۔ہاں میری جان
امی۔میری جان آج ساری کمی پوری کر لو کتنا ترس جاتے ہو میرے بنا تم آج کھل کے مزے کرو میرے
آج ساری طاقت دیکھا دو یارا
ساجد ۔تمہیں یاد ہے نا وہ سردیوں کی رات جب اسی جگہ تم نے میری چیخیں نکلوا دیں تھی یاد ہے نا جان آج ایسے ہی کرو
ساجد ۔ہاں میری رانی سب یاد ہے ان کی باتیں تو ہورہی تھی پر اس دوران چدائی ایک سیکنڈ بھی نہیں رکی پھر امی بولی
ساجد اب دل نہیں کرتا مجھے کسی اور کے ساتھ دیکھنے کو تمہارا کیا اب نہیں سوچتے میں کسی اور کے نیچے ننگی پڑی ہوئی ہو اور تم پاس ہو مجھے چدواتے دیکھو ہمم بولو نا جان تمہیں کتنا مزا آتا مجھے کسی اور کے نیچے دیکھ کر
ساجد۔ ہاں جان بہت مزا آتا اب بھی دل کرتا تم میرے سامنے دو دو لوگوں سے کرو
امی۔تو کس نے روکا میری جان کو جو دل ہے کرو مجھ سے کرواؤ کہا ہے اب وہ تمہارا دوست جو تمہارے کالج سے آتا تھا اسے بلا لو
ایسی باتیں میں نے زندگی میں پہلی بار سنی تھی کے میری امی اتنے مزے کر چکی ہیں اتنی رنگین زندگی تو آج کی عورتوں کی بھی نہیں لیکن ایک بات ہے یہ سب اس لیے ممکن تھا کہ ساجد زمیندار گھر سے تھا اور اکثر باہر کے ملکوں میں گھومتا تھا ہو سکتا وہی سے سیکھا ہو اور میری امی کو بھی لگا دیا ہو اس کام پر خیر کرتے تو تھے آج پتا چل گیا
ان کی چدائی چلتی جا رہی تھی جس کو 15, منٹ سے زیادہ ہوچکے تھے امی نے پھر پوچھا کتنی گولیاں کھائی ہے
ساجد ایک ہی
امی ۔میں نے کہا بھی تھا دو تین کھانا پھر کیوں ایک
ساجد ۔یہ بڑی اچھی ہے باہر کی ہے ایک ہی کافی ہے
امی ۔اچھا جان آج 4 مہینوں کی تھکان اتار دو میری زور سے کرو آہ ہم ہم ہا ایسے ساجد کی آواز آئی شازو میں تھک گیا ہو۔