jatt-lahoria
Gold
Offline
1 قسط نمبر
پچیس سالا زین دو سال کے وقفے کے بعد پاکستان آیا تھا. وہ اٹلی میں اپنے والدین کے ساتھ رہتا تھا. پاکستان میں اس کے خاندان کے کئی افراد رہتے تھے. زین اپنے چچا کی بیٹی کی شادی کے لیے پاکستان آیا تھا اور اب اس کو اپنے گاؤں جانا تھا جو لاہور اور قصور کے بیچ تھا. وہ کسی کو بغیر بتائے آیا تھا تاکہ سرپرائز دے سکے. اس نے ایک ٹیکسی بک کی اور گاؤں کی طرف سفر شروع کردیا. اس کی عادت تھی کہ وہ اکثر گھر والوں کو سرپرائز دیا کرتا تھا. اس وقت رات کے تین بج رہے تھے جب وہ شہر کے مظافات سے گزر رہے تھے. ایک کچی سڑک پر ان کو ایک موٹر سائیکل سوار زخمی حالت میں ملا. وہ بھی کوئی نوجوان تھا اور ایسا لگتا تھا کہ حادثہ ہوا ہے. زین نے اسے دیکھا اور کہا "اوہ گاڈ! یہ تو کافی زخمی ہے چلو اس کو قریبی ہسپتال لے چلتے ہیں" وہ بولا " صاب جی کیوں فالتو لے پنگے میں پڑ رہے ہیں. معاملہ کافی سنجیدہ ہو سکتا ہے" وہ غصے سے ٹیکسی والے کو دیکھ کر بولا " آر یو آؤٹ آف یور سیسنز. ایک آدمی مر رہا ہے اور تم مجھے اس کو بچانے سے منع کررہے ہو" وہ بولا "صاب جی آپ باہر سے آئے ہیں آپ کو یہاں کے حالات کا نہیں پتا. یہاں مدد کرنے والے کو زیادہ رگڑا لگتا ہے" وہ غصے سے بولا "تو جو ہو گا مجھے ہو گا نا. تم آؤ اور میری مدد کرو" انہوں نے زخمی کو گاڑی میں ڈالا اور قریبی ایمرجینسی کلینک لے گئے. ڈاکٹر نے ان پر نگاہ ڈالی اور پولیس کو اطلاع کر کے اپنا کام شروع کردیا. وہ جانے ہی والے تھے کہ پولیس آگئی اور سب انسپیکٹر نے ان کو بیان دینے کے لیے روک لیا. وہ ابھی بیان دے ہی رہے تھے کہ ایک لڑکی بھاگتی ہوئی آئی اور زین کا گریبان پکڑ کر چلانے لگی "کیوں کیا تم نے ایسا. کیوں مارا اس کو.........." یہ افتادہ اتنی اچانک تھی کہ زین حیران پریشان ہی رہ گیا. اس نے کہا "محترمہ........." پیچھے سے ایس آئی کرامت نے کہا "کیوں بے ہیرو پہلے اس کی یہ حالت کی اور اب ہسپتال بھی لے کے آگیا خود ہی" وہ حیرت سے بولا "سر بٹ......." وہ بولا " اوہ یہ بٹ شٹ اب تھانے میں ہی سنائیں سب کو. اوۓ کرمو! پا اوئے اینا نوں ڈالے وچ" زین اور ٹیکسی والے کے واویلا کو نظر انداز کر کے پولیس والوں نے ان کو ڈالے میں بٹھا لیا. ٹیکسی والے نے کہا "جناب میں نے آپ سے کہا تھا نا کہ یہاں مدد کرنے والے کے ساتھ ہی برا............" ایک سپاہی نے زوردار تھپڑ مارتے ہوۓ کہا "او چپ اؤۓ کسے کھوتی دیا بچیا" ڈرائیور خاموش ہو گیا. پیچھے اس کی ٹیکسی میں ایس آئی اور کریم بخش کانسٹیبل آرہے تھے. ایس آئی سبحان نے فون پے بات کرتے ہوۓ کہا "اوہ جناب تسی فکر ای نہ کرو. سارا مدعا پا ای اوس ٹیکسی آلے تے اوس منڈے تے دیاں گے....... جی جی سر تسی فکر ای نہ کرو............... تابعدار سر جی " اس نے مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوۓ کہا اور فون کاٹ دیا.
انہیں تھانے آئے ایک گھنٹہ ہو چکا تھا اور دونوں کو پولیس والے پیٹ چکے تھے. ان کا جرم قبول کرنے پر اصرار تھا جبکہ وہ لوگ انکار کر رہے تھے. زین کی رائے اپنے ملک کے بارے میں کافی مختلف تھی لیکن اب وہ حیران پریشان تھا کہ اس کے ساتھ یہ ہو کیا رہا ہے. ایس آئی سبحان نے کہا "ہاں وئی بلو! کیوں مارنے کی کوشش کی اس لڑکے کو" وہ بولا "میں نے صرف اس کی جان ہی بچائی تھی وہ بھی انسانیت کے ناطے" وہ کچھ کہنے ہی والا تھا کہ ایک سپاہی ایک ڈری سہمی عورت کو اندر لے کر آیا. سبحان نے کہا "او کون اے ایہہ تے کی مسلا ای ایدا" وہ بولا "او جی شکورے نشئی دی بڈھی اے" وہ بولا " تے ایتھے ماں مرون نوں لے کے آیاں" وہ بولا "او جی کل رات دی کھپ پائی ہوئی اے اینے" وہ عورت سے بولا " ہاں مائی کی مسلا ای تیرا" وہ بولی "صاب جی میرا بندا مر جاؤ گا جے اونوں تھوڑی جئی پڑی نہ لبھی تے" وہ بولا " تے پڑی کھا کے بچ جاؤ گا؟" وہ بولی "صاب جی تڑفدا پیا اے. تھوڑی جئی دے دیو تے مہربانی" وہ بولا "مہربانی آلی گل تے کوئی نئیں. پیسے شیسے ہے نے تے گل کر" وہ بولی "جناب میرے کول تے آنا وی کوئی نئیں" وہ بولا "تے تڑفن دے ماں دے یار نوں فیر" وہ منتیں کرنے لگی. اسی وقت کریم بخش نے کہا " او سر جی دے دیو پڑی اونوں" وہ بولا "او پاگل ہوگیا ایں. پڑی دواں اووی مفت اچ" وہ بولا "سر جی کون آکھدا مفت ایچ..." اس نے اس عورت کے ایک ممے کو پکڑ کر دبایا اور بولا "ہاں مائی چل پیسے نئیں تے فیر..........." عورت نے نظریں جھکاتے ہوۓ کہا " ٹھیک اے صاب پر پہلاں مینوں پڑی دے لین دیو" وہ مسکرا کر بولا " جا دے آ. اوۓ رحیم اینوں تھوڑی جئی دے دے جیدے نال بس اوس کنجر دا نشہ پورا ہو جاوے" سپاہی اس کو لے گیا اور تبھی ایس آئی سبحان نے کہا " چل یار کریم بخش تھوڑا ساہ لے لئیے" کچھ دیر بعد وہ عورت آئی اور چارپائی پے بیٹھ گئی. وہ واجبی سی شکل کی گھریلو عورت تھی. عمر بھی پینتیس چالیس کے آس پاس تھی. کریم بخش نے کہا " او رانیاں طرح بیٹھ نہ. ننگی ہو ہن" زین حیرت سے یہ سب دیکھ رہا تھا. اس عورت نے اٹھ کر کپڑے اتارے چارپائی پر لیٹ گئی. ایس آئی سبحان نے اس کے لٹکے ہوۓ ممے دبائے اور پینٹ اتاری جہان پانچ انچ کا ڈھیلا ڈھالا لوڑا نیم کھڑا تھا. وہ چارپائی پر آیا اور عورت کی ٹانگوں کے بیچ آکر لن کو پھدی پر رگڑا اور تھوڑی مزید جان آنے کے بعد لن گھسا دیا. عورت کی ہلکی سی آہ نکلی. شاید لن سے اسے خاص فرق نہیں پڑا تھا. سبحان موٹا توند والا آدمی تھا. جبکہ عورت کا بھی تھوڑا سا پیٹ نکلا ہوا تھا. سبحان دھکے مارنے لگا تو ہر دھکے پر لن پھدی سے زیادہ دونوں کے پیٹ ٹکرانے سے آواز پیدا ہوتی. سبحان نے بمشکل ایک آدھ منٹ ہی دھکے مارے ہوں گے کہ اس کے منہ سے آہ نکلی اور وہ ہانپتا ہوا اس عورت پے گر پڑا. عورت نے نخوت سے اس کو دیکھا جیسا کہنا چاہ رہی ہو کہ جب ہوتا کچھ نہیں تو میدان میں کیوں آتے ہو. سبحان نے اٹھ کر ڈھیلے لن کو اسی عورت کے دوپٹے سے صاف کیا. عورت نے بھی پھدی صاف کر لی. ابھی اسے پھدی صاف کیے زیادہ وقت نہیں ہوا تھا کہ باہر ایڑیاں بجیں. کریم بخش نے کہا "سر جی بڑے صاب آگئے" سبحان تب تک پینٹ پہن چکا تھا. ایک انسپیکٹر اندر آیا. عورت نے خود کو دوپٹے سے ڈھانپنے کی ناکام کوشش کی. وہ سبحان سے بولا "یہ سب کیا ہے" سبحان نے سر جھکا لیا. زین کو کچھ امید بندھی تو اس نے کہا "سر! انہوں نے مجھ اور اس ڈرائیور کو ناجائز پکڑا ہے. ہم نے کوئی جرم نہیں کیا. دے آر ناٹ الاؤنگ می ٹو ٹاک ٹو مائی لائیر" ٹیکسی والے نے بھی ہمت کی اور اٹھ کر قریب جا کر بولا "دیکھو صاب جی ناحق ہی پیٹ دیا مجھے اور" انسپبیکٹر نے زوردار تھپڑ مار کر کہا "بہن چود" ڈرائیور گرا تو انسپیکٹر نے اس کو ٹھوکروں پر رکھ لیا. زین سمجھ گیا کہ یہاں بھی دال نہیں گلنی. ٹیکسی والے سے فارغ ہو کر وہ سبحان کی طرف مڑا اور پھر اس عورت کے پاس جا کر اس کی چادر ہٹا دی. عورت بھی سمجھ گئی کہ یہاں شنوائی نہیں چدائی ہو گی. اس نے کہا " چل کوڈی ہو" وہ عورت اٹھی اور کوڈی ہوگئی. انسپیکٹر نے پینٹ اتاری تو اس کا پانچ انچ کا لن باہر آگیا. اس کا لن سبحان کی طرح ڈھیلا نہیں تھا. اس نے پیچھے سے اس کی پھدی میں لن ڈالا تو تھوڑی سی تیز آہ نکلی لیکن خاص فرق نہ پڑا. انسپیکٹر نے عورت کی پھدی میں گھسے مارتے ہوۓ کہا " مادر چودو کتنی بار کہا ہے یہ ماں باہر جا کر یوایا کرو. تھانے میں کسی بڑے افسر نے ننگی عورت دیکھ لی تو تمہاری ٹانگیں اٹھا دیں گے" اس نے دھکے مارنا جاری رکھے اور دو منٹ بعد ہی اس عورت کی پھدی میں فارغ ہو گیا. اس نے عورت کی گانڈ پے تھپڑ مارتے ہوۓ کہا "چل کپڑے پا لے" کریم بخش کا منہ لٹک گیا. انسپیکٹر نے یہ دیکھا تو ہنس کر بولا " لگتا ہے ابھی تیری باری نہیں آئی تھی. چل چود لے تو بھی" عورت جو کہ کپڑے پہننے لگی تھی رک گئی. انسپیکٹر نے کہا "یہ خود قبول کریں تو ٹھیک نہیں تو کٹو رج کے ان کو" یہ اشارہ زین کی طرف تھا. کریم بخش نے پینٹ اتاری تو اس کا سات انچ کا لمبا اور موٹا سودا باہر آگیا. وہ عورت کی ٹانگوں کے بیچ آیا اور ایک تیز جھٹکے سے عورت کی چیخ نکل گئی. وہ کراہ کر بولی "ہااااااااااااااااااائےےےےےےےےےےےےےےےےے میں مرررررررررررررررررررررررر گئی" کریم بخش نے منہ پر ہاتھ رکھتے ہوۓ کہا "ماں دی لوڑی پورا تھانہ کٹھا کرنا ای" اس نے منہ پے ہاتھ رکھ کہ چودنا شروع کردیا. کمرا تھپ تھپ اور اس عورت کی گھٹی گھٹی چیخوں سے گونجنے لگا. کریم بخش تگڑے لن اور صحت والا بندہ تھا اس لیے جب وہ پانچ منٹ بعد فارغ ہوا تو عورت کی بس ہوچکی تھی. وہ گرتے پڑتے کپڑے پہن کر باہر چلی گئی. کریم بخش نے کہا "اوۓ تم دونوں بھی سوچ لو اب" وہ باہر گیا تو ٹیکسی والے نے کہا "دیکھ لیا اس ہمدردی کا نتیجہ آپ نے. اس لیے منع کیا تھا" ایک بزرگ سپاہی اندر آیا تو زین نے کہا "دیکھیں اس بے چارے کا کوئی قصور نہیں. آپ کو سزا دینی ہے تو مجھے دے لیں نا. اس کو جانے دیں" وہ بزرگ ادھر ادھر دیکھ کر فون نکال کر بولا "یہ لوگ آپ کو بلاوجہ پھنسا رہے ہیں. کسی تگڑے گھر کے لگتے ہو بیٹا. یہ لو گھر اطلاع کرو اور میرا مت بتانا" اس نے فون لیا اور اپنے چچا کو فون کردیا. حفیظ احمد ابھی اٹھا ہی تھا. زین کی آواز سن کر وہ چونک گئے اور ساری صورتحال سن کر وہ بولا "اچھا تم فکر نہ کرو. میں کچھ کرتا ہوں" زین نے بزرگ کا شکریہ ادا کیا.
زین ایس ایچ او قیصر چوہدری کے سامنے تھا. اس کا کزن عبداللہ جو وکیل تھا. اس کا چچا اور ایک اور آدمی بیٹھے تھے. اس آدمی نے کہا "جناب میں اب چشمدید گواہ اور لواحقین کا بیان بھی لے آیا ہوں. اب تو بچے کو جانے دیں" قیصر نے کہا " یہ تو شکر کریں کہ غلط فہمی دور ہوگئی ورنہ آپ کو تو پتا ہے کہ ایسی غلط فہمیاں کیا کیا گل کھلاتی ہیں" اس کا لہجہ خاصہ معنی خیز تھا. زین نے کہا " اور جو اس غلط فہمی کے چکر میں آپ نے ہم پر تشدد کیا وہ" وہ اٹھ کر غصے سے بولا "بہن چود بتاؤں تجھے" حفیظ نے اٹھ کر منت بھرے لہجے میں کہا "نہیں نہیں صاب جی بچہ ہے باہر سے آیا پے یہاں کے حالات سے واقف نہیں ہے" اس ساتھ آئے آدمی نے بھی بیچ بچاؤ کرایا اور حفیظ نے زین کو خاموش رہنے کو کہا اور پھر وہ باہر آئے جہاں ٹیکسی والا اپنی ٹیکسی کی حالت کا ماتم کررہا تھا. زین نے دیکھا کہ وہ جو گھر والوں کے لیے تحفے لایا تھا وہ بھی سامان سے غائب تھے. انہوں نے پہلے ٹیکسی والے کو کسی حد تک نقصان کی بھرپائی کی اور پھر وہ گھر آگئے جہاں زین کی چچی اور چچاذاد بہن لیلہ اور اس کا چچازاد بھائی وحید ان کے منتظر تھے. سب اس بات پر خوش تھے کہ زین صحیح سلامت گھر آگیا ہے. زین کو اس بات کا غصہ تھا کہ اس کے چچا اور عبداللہ نے پولیس والوں کے اس غیر انسانی سلوک کو یوں نظرانداز کیسے کردیا. اس نے محسوس کیا کہ اس کا چچا کافی دبا دبا اور ڈرا ڈرا سا تھا. یونہی شام ہوگئی اور پچھلی رات کے واقعات شادی کی رونق اور گھروالوں کی محبت کی وجہ سے اسے بھولنے لگے. رات کے وقت زین کو نیند نہیں آرہی تھی. وہ باہر آیا تو دیکھا کہ گھر کی عمارت سے بنے کمرے سے کچھ دور اس کا چچا حفیظ کھڑا ہے. اس نے دیکھا کہ چچا کا انداز خاصہ مشکوک سا تھا. اس کو وہ لوگ مدھم روشنی میں ہیولے جیسے لگ رہے تھے. اچانک دو ہیولے اس الگ کمرے کی طرف گئے. زین نے چھپ کر ان کا پیچھا کیا اور کمرے کے پچھلی طرف کے روشن دان سے سارے حالات دیکھنے لگا. اندر روشنی تھی اس لیے وہ دیکھ سکتا تھا کہ وہ ایک جوان لڑکا اور لڑکی تھے اور دونوں عروسی لباس میں تھے. لڑکے نے لڑکی طرف دیکھا اور پھر وہ شرما گئی. روشن دان شیشے کا تھا اس لیے سب دکھائی دے رہا تھا تاہم سنائی کچھ نہیں دے رہا تھا. اچانک لڑکا لڑکی کو چومنے لگا. چومتے چومتے لڑکے نے اپنے کپڑے اتارنا شروع کردیے. پھر کچھ دیر کی چوما چاٹی کے بعد دونوں ننگے ہوگۓ. پاکستان آنے کے بعد یہ دوسرا ننگا زنانہ وجود تھا جو زین دیکھ رہا تھا. تھانے میں نشئی کی بیوی کوئی خاص نہ تھی اور بس پانی نکالنے کے قابل مال تھی اور زین خود اس وقت مصینت میں تھا تاہم اب معاملہ مختلف تھا اور لڑکی جوان اور خوبصورت تھی جس کے درمیانے سائز کے ممے انتہائی کسے ہوۓ تھے. ان کے نپل اور ان کے گرد دائرہ براؤن رنگ کا انتہائی سیکسی لگ رہا تھا. لڑکے نے ایک تھیلے سے تیل کی بوتل نکالی اور اپنے لن پر لگائی. اس کا لن پانچ انچ کا نارمل سا لن تھا. لڑکے نے لن اور پھدی پر تیل ملا اور لڑکی کی ٹانگوں میں آکر پوزیشن سنبھال لی. اس نے دھکا مارا اور رک گیا. ظاہر سی بات تھی لڑکی کو درد ہوا تھا. لڑکی کے بازو جیسے ہی لڑکے کی کمر سے لپٹے. لڑکے نے ایک اور دھکا مارا اور پورا لن اندر کر دیا. اس کے بعد وہ کچھ دیر رکا اور پھر چدائی شروع کر دی. لڑکے کی کمر ہل رہی تھی اور لڑکی کے چہرے پر درد اور مزے کے ملے جلے تاثرات تھے. اچانک لڑکے کی رفتار بڑھی اور پھر وہ آہستہ آہستہ رک گیا. لڑکے نے کچھ دیر بعد لن نکالا تو وہ خون سے لال تھا. اس نے ایک کپڑا اٹھایا اور اپنا لن اور لڑکی کی پھدی صاف کی جو خون سے بھری ہوئی تھی. اس نے بیگ سے دوسرے کپڑے نکالے اور پہنے جبکہ لڑکی نے بھی دوسرے کپڑے پہنے اور پھر عروسی لباس اور صفائی والا کپڑا بستر کی چادر میں لپیٹ کر وہ باہر لے گئے. اس نے محسوس کیا کہ اب اسے ان کی باتیں سننی چاہئیں کیونکہ وہ متجسس ہو چکا تھا. وہ ان کے قریب کھڑا ہوا جہاں حفیظ نے ایک پیکٹ لڑکے کو دیتے ہوۓ کہا "بیٹا تمہارا بہت شکریہ. میں ایسا کبھی نہ کرتا اگر حالات ایسے نہ ہوتے تو" وہ لڑکا بولا "نہیں چاچا جی آپ کے لیے تو جان بھی حاضر ہے" وہ لوگ چلے گئے تاہم زین کے ککھ بھی پلے نہ پڑا اور وہ بھی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا.
اس وقت جب زین اپنے کمرے میں لیٹا ان تمام واقعات کے بارے میں سوچ رہا تھا تب لاہور کے ایک ریزیڈینشل کمپلیکس کے ایک فلیٹ میں ایک عورت اور مرد برہنہ حالت میں بستر پر تھے. عورت سیدھی لیٹی تھی جبکہ مرد اس کے اوپر تھا اور مرد کا لن تواتر سے عورت کی پھدی کے اندر باہر ہو رہا تھا. عورت کراہتے ہوۓ کہہ رہی تھی. "آآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآ ہہہ ااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااوووو وووووووووووووووووووووووووووووررررررررررررررررررررر رررررررررررررررر زززززززززززززززززززززووووووووووووووووووووووووووووو ووووورررررررررررررررررررررررررررررررررررررر سےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےے. اااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااووو وووووووووووووووووووووووووووووووہہہہ. چووووووووووووووووووووووووووووووووووددددددددددددددد دددددددددددددددددددددددددددددووووووووووووووووووووو ووووووووووووو ایسےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےے ہی آآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآ ہہہ" کمرے میں عورت کی آہوں کے ساتھ تھپ تھپ اور مرد کی آواز بھی آرہی تھی جو کہہ رہا تھا. "یہ لے بہن چود. اوہ. اور لے. تیری ماں کی چوت. یہ لے" دونوں کی چدائی زور و شور سے جاری تھی کہ اچانک مرد کا فون بجا اور اس نے چودتے چودتے ہی فون اٹھاتے ہوۓ کہا "اس ٹائم کس کی ماں کو لن لینا ہے " فون کی سکرین پر نمبر دیکھتے ہی وہ شخص چونک اٹھا اور عورت کی پھدی سے لن نکالتے ہوۓ اشارے سے بتایا کہ کال خاصی اہم ہے. لن نکلتے ہی عورت صفائی والے کپڑے سے پھدی صاف کرنے لگی کیونکہ وہ پانی چھوڑ چکی تھی. اس آدمی نے فون اٹھا کر کہا "ہیلو... جی سر جی" دوسری طرف سے گرجتی ہوئی آواز آئی "جی سر جی کے بچے اس لڑکے کو کیوں چھوڑا جسے اس چوتیے مراد کے کیس میں پکڑا تھا؟" وہ چونکا اور بولا "سر جی میں کہاں چھوڑنا چاہتا تھا. میں تو سارا کیس اسی پے ڈال کے اقبالی بیان تک کروا لیتا پر معاملہ الٹا پڑ گیا. وہ لڑکی صبا نورین اور اس گانڈو مراد کے گھر والے بیان دے گۓ کہ یہ لڑکا نہیں تھا. اوپر سے وکیل بھی آگیا اور گاؤں کا نمبردار بھی چشمدید گواہ لے آیا. آپ کا کیس نہ بھی ہوتا تو بھی اس ماں کے لوڑے کو میں نہ چھوڑتا کہ اس خاندان سے ذاتی لڑائی ہے میری پر سر جی وہ بہن چود باہر سے آیا ہے. سفارت خانہ ملوث ہو جاتا یا میڈیا آجاتا تو معاملہ بگڑ سکتا تھا اس لیے مجھے اسے چھوڑنا پڑا" وہ آدمی بولا " میں کچھ نہیں جانتا قیصر. اس معاملے کو کسی پر بھی ڈال کے حل کرو بس. نئی کمپنی کا افتتاح ہونے والا ہے اور میں نہیں چاہتا کہ ڈیڈ کو اس ساری سچوئیشن کا پتا چلے" جی ہاں وہ شخص کوئی اور نہیں ایس ایچ او انسپیکٹر قیصر چوہدری تھا. وہ بولا "سر جی میں کچھ کرتا ہوں" اس آدمی نے کہا "یو بیٹر ڈو سم تھنگ. یہ ہم دونوں کے لیے اچھا ہوگا" اس نے فون کاٹ دیا. قیصر نے فون رکھا اور ساتھ لیٹی عورت کی یکدم ٹانگیں کھولیں اور ٹانگوں کے بیچ آکر اپنا خشک لن اس کی پھدی میں گھسا دیا. لن گھستے ہی عورت کے منہ سے چیخ نکلی "آآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآ آہہہ. جنگلی. ااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااایسے ےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےے نہیں. اااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااووو وووووووووووووووووووووووووووووووہہہہ. آآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآ رررررررررررررررررررررررررررررررررررررراااااااااااا ااااااااااااااااااااااااااااااااااام سےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےے. آآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآ ہہہہ. دددددددددددددددددددددددددددددددددددددددددددددررررر رررررررررررررررررررررررررررررررررددددددددددددددددد دددددددددددددددددددددددددددد ہوووووووووووووووووووووووووووووووووو ررررررررررررررررررررررررررررررررررررررہااااااااااا ااااااااااااااااااااااااااااااااااااا ہےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےے. ہاۓےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےے. آآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآ رررررررررررررررررررررررررررررررررررررراااااااااااا ااااااااااااااااااااااااااااااااااام سےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےے کررررررررررررررررررررررررررررررررررررررووووووووووو ووووووووووووووووووووووو. اااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااووو ووووووووووووووووووووووووووووووووہہہہ" مگر قیصر پر تو جیسے جنون ہی سوار تھا. وہ زور زور سے دھکے مارتے ہوۓ بول رہا تھا. "گانڈو. چوتیا. سالے بھڑوے سے لڑکی خود نہیں سنبھلتی اور میری گانڈ میں ڈنڈا دیا ہوا ہے. یہ لے تو بھی. اور چیخ. سنا ساری بلڈنگ کو کہ تو میری رنڈی ہے. لے بہن چود" قیصر کو سانس چڑھ رہا تھا تب بھی وہ اس عورت کو مسلسل چودے جا رہا تھا اور وہ عورت کراہتے ہوۓ کہہ رہی تھی " آآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآ آہہہہہہہ. جاااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااان آآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآ آررررررررررررررررررررررررررررررررررررررااااااااااا اااااااااااااااااااااااااااااااااااام سےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےے کررررررررررررررررررررررررررررررررررررررووووووووووو ووووووووووووووووووووووو. اااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااووو وووووووووووووووووووووووووووووووہہہہ. میررررررررررررررررررررررررررررررررررررررری پھاااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااڑ ڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑنی ہےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےے کیااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااا. ................. اااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااووو وووووووووووووووووووووووووووووووہہہہ............... . آآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآ رررررررررررررررررررررررررررررررررررررراااااااااااا ااااااااااااااااااااااااااااااااااام سےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےے.. ....آآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآ آآآآہہہہہ" مگر قیصر یہ سننے کے موڈ میں نہیں تھا کیونکہ اس کی رفتار مسلسل بڑھتی جارہی تھی. عورت کے ممے ہر دھکے کے ساتھ اچھل رہے تھے اور قیصر اسے بے رحمی سے چودتا ہی جارہا تھا. اچانک قیصر کے منہ سے غراہٹ نکلی تو وہ عورت چلائی "اااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااوو وووووووووووووووووووووووووووووووووہہہ......... نہیں...... اااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااندد دددددددددددددددددددددددددددددددددددددددددددررررررر ررررررررررررررررررررررررررررررر...... نہیں.... نہ...آآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآ آآآآآہہہہ" مگر قیصر نے اپنا پورا لن اندر گھسا کر عورت کی پھدی کو اپنے پانی سے بھرنا شروع کردیا. ہو ہانپتا ہوا عورت پر گر کر گہری سانسیں لینے لگا اور پھر لن نکال کر دوسری طرف لڑھک گیا. عورت نے اٹھ کر اپنی پھدی دیکھی اور کہا "کتنی بار کہا ہے پانی باہر نکالا کرو پھر بھی اندر ہی فارغ ہونے کی گندی عادت نہیں جاتی تمہاری. تمہاری بیوی نہیں جو پیٹ سے ہوگئی تو کوئی مسئلہ نہیں ہو گا" قیصر اس عورت کی باتوں کو نظر انداز کر کے سیگریٹ جلا کر پینے لگا اور مراد والے کیس کے بارے میں سوچنے لگا. اسے اس عورت کی باتوں سے خاص دلچسپی نہ تھی. وہ عورت اس کی چند پوش علاقے کی معشوقاؤں میں سے ایک تھی جس کا شوہر باہر رہتا تھا اور وہ عورت اس کے ساتھ سیٹ ہوگئی اور جب بھی لن چاہیے ہوتا اسے بلا لیتی. قیصر اس کی باتوں کو نظر انداز کرتا ہوا سیگریٹ پی رہا تھا اور اپنے مستقبل کے منصوبے پر عمل کا سوچ رہا تھا.
پچیس سالا زین دو سال کے وقفے کے بعد پاکستان آیا تھا. وہ اٹلی میں اپنے والدین کے ساتھ رہتا تھا. پاکستان میں اس کے خاندان کے کئی افراد رہتے تھے. زین اپنے چچا کی بیٹی کی شادی کے لیے پاکستان آیا تھا اور اب اس کو اپنے گاؤں جانا تھا جو لاہور اور قصور کے بیچ تھا. وہ کسی کو بغیر بتائے آیا تھا تاکہ سرپرائز دے سکے. اس نے ایک ٹیکسی بک کی اور گاؤں کی طرف سفر شروع کردیا. اس کی عادت تھی کہ وہ اکثر گھر والوں کو سرپرائز دیا کرتا تھا. اس وقت رات کے تین بج رہے تھے جب وہ شہر کے مظافات سے گزر رہے تھے. ایک کچی سڑک پر ان کو ایک موٹر سائیکل سوار زخمی حالت میں ملا. وہ بھی کوئی نوجوان تھا اور ایسا لگتا تھا کہ حادثہ ہوا ہے. زین نے اسے دیکھا اور کہا "اوہ گاڈ! یہ تو کافی زخمی ہے چلو اس کو قریبی ہسپتال لے چلتے ہیں" وہ بولا " صاب جی کیوں فالتو لے پنگے میں پڑ رہے ہیں. معاملہ کافی سنجیدہ ہو سکتا ہے" وہ غصے سے ٹیکسی والے کو دیکھ کر بولا " آر یو آؤٹ آف یور سیسنز. ایک آدمی مر رہا ہے اور تم مجھے اس کو بچانے سے منع کررہے ہو" وہ بولا "صاب جی آپ باہر سے آئے ہیں آپ کو یہاں کے حالات کا نہیں پتا. یہاں مدد کرنے والے کو زیادہ رگڑا لگتا ہے" وہ غصے سے بولا "تو جو ہو گا مجھے ہو گا نا. تم آؤ اور میری مدد کرو" انہوں نے زخمی کو گاڑی میں ڈالا اور قریبی ایمرجینسی کلینک لے گئے. ڈاکٹر نے ان پر نگاہ ڈالی اور پولیس کو اطلاع کر کے اپنا کام شروع کردیا. وہ جانے ہی والے تھے کہ پولیس آگئی اور سب انسپیکٹر نے ان کو بیان دینے کے لیے روک لیا. وہ ابھی بیان دے ہی رہے تھے کہ ایک لڑکی بھاگتی ہوئی آئی اور زین کا گریبان پکڑ کر چلانے لگی "کیوں کیا تم نے ایسا. کیوں مارا اس کو.........." یہ افتادہ اتنی اچانک تھی کہ زین حیران پریشان ہی رہ گیا. اس نے کہا "محترمہ........." پیچھے سے ایس آئی کرامت نے کہا "کیوں بے ہیرو پہلے اس کی یہ حالت کی اور اب ہسپتال بھی لے کے آگیا خود ہی" وہ حیرت سے بولا "سر بٹ......." وہ بولا " اوہ یہ بٹ شٹ اب تھانے میں ہی سنائیں سب کو. اوۓ کرمو! پا اوئے اینا نوں ڈالے وچ" زین اور ٹیکسی والے کے واویلا کو نظر انداز کر کے پولیس والوں نے ان کو ڈالے میں بٹھا لیا. ٹیکسی والے نے کہا "جناب میں نے آپ سے کہا تھا نا کہ یہاں مدد کرنے والے کے ساتھ ہی برا............" ایک سپاہی نے زوردار تھپڑ مارتے ہوۓ کہا "او چپ اؤۓ کسے کھوتی دیا بچیا" ڈرائیور خاموش ہو گیا. پیچھے اس کی ٹیکسی میں ایس آئی اور کریم بخش کانسٹیبل آرہے تھے. ایس آئی سبحان نے فون پے بات کرتے ہوۓ کہا "اوہ جناب تسی فکر ای نہ کرو. سارا مدعا پا ای اوس ٹیکسی آلے تے اوس منڈے تے دیاں گے....... جی جی سر تسی فکر ای نہ کرو............... تابعدار سر جی " اس نے مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوۓ کہا اور فون کاٹ دیا.
انہیں تھانے آئے ایک گھنٹہ ہو چکا تھا اور دونوں کو پولیس والے پیٹ چکے تھے. ان کا جرم قبول کرنے پر اصرار تھا جبکہ وہ لوگ انکار کر رہے تھے. زین کی رائے اپنے ملک کے بارے میں کافی مختلف تھی لیکن اب وہ حیران پریشان تھا کہ اس کے ساتھ یہ ہو کیا رہا ہے. ایس آئی سبحان نے کہا "ہاں وئی بلو! کیوں مارنے کی کوشش کی اس لڑکے کو" وہ بولا "میں نے صرف اس کی جان ہی بچائی تھی وہ بھی انسانیت کے ناطے" وہ کچھ کہنے ہی والا تھا کہ ایک سپاہی ایک ڈری سہمی عورت کو اندر لے کر آیا. سبحان نے کہا "او کون اے ایہہ تے کی مسلا ای ایدا" وہ بولا "او جی شکورے نشئی دی بڈھی اے" وہ بولا " تے ایتھے ماں مرون نوں لے کے آیاں" وہ بولا "او جی کل رات دی کھپ پائی ہوئی اے اینے" وہ عورت سے بولا " ہاں مائی کی مسلا ای تیرا" وہ بولی "صاب جی میرا بندا مر جاؤ گا جے اونوں تھوڑی جئی پڑی نہ لبھی تے" وہ بولا " تے پڑی کھا کے بچ جاؤ گا؟" وہ بولی "صاب جی تڑفدا پیا اے. تھوڑی جئی دے دیو تے مہربانی" وہ بولا "مہربانی آلی گل تے کوئی نئیں. پیسے شیسے ہے نے تے گل کر" وہ بولی "جناب میرے کول تے آنا وی کوئی نئیں" وہ بولا "تے تڑفن دے ماں دے یار نوں فیر" وہ منتیں کرنے لگی. اسی وقت کریم بخش نے کہا " او سر جی دے دیو پڑی اونوں" وہ بولا "او پاگل ہوگیا ایں. پڑی دواں اووی مفت اچ" وہ بولا "سر جی کون آکھدا مفت ایچ..." اس نے اس عورت کے ایک ممے کو پکڑ کر دبایا اور بولا "ہاں مائی چل پیسے نئیں تے فیر..........." عورت نے نظریں جھکاتے ہوۓ کہا " ٹھیک اے صاب پر پہلاں مینوں پڑی دے لین دیو" وہ مسکرا کر بولا " جا دے آ. اوۓ رحیم اینوں تھوڑی جئی دے دے جیدے نال بس اوس کنجر دا نشہ پورا ہو جاوے" سپاہی اس کو لے گیا اور تبھی ایس آئی سبحان نے کہا " چل یار کریم بخش تھوڑا ساہ لے لئیے" کچھ دیر بعد وہ عورت آئی اور چارپائی پے بیٹھ گئی. وہ واجبی سی شکل کی گھریلو عورت تھی. عمر بھی پینتیس چالیس کے آس پاس تھی. کریم بخش نے کہا " او رانیاں طرح بیٹھ نہ. ننگی ہو ہن" زین حیرت سے یہ سب دیکھ رہا تھا. اس عورت نے اٹھ کر کپڑے اتارے چارپائی پر لیٹ گئی. ایس آئی سبحان نے اس کے لٹکے ہوۓ ممے دبائے اور پینٹ اتاری جہان پانچ انچ کا ڈھیلا ڈھالا لوڑا نیم کھڑا تھا. وہ چارپائی پر آیا اور عورت کی ٹانگوں کے بیچ آکر لن کو پھدی پر رگڑا اور تھوڑی مزید جان آنے کے بعد لن گھسا دیا. عورت کی ہلکی سی آہ نکلی. شاید لن سے اسے خاص فرق نہیں پڑا تھا. سبحان موٹا توند والا آدمی تھا. جبکہ عورت کا بھی تھوڑا سا پیٹ نکلا ہوا تھا. سبحان دھکے مارنے لگا تو ہر دھکے پر لن پھدی سے زیادہ دونوں کے پیٹ ٹکرانے سے آواز پیدا ہوتی. سبحان نے بمشکل ایک آدھ منٹ ہی دھکے مارے ہوں گے کہ اس کے منہ سے آہ نکلی اور وہ ہانپتا ہوا اس عورت پے گر پڑا. عورت نے نخوت سے اس کو دیکھا جیسا کہنا چاہ رہی ہو کہ جب ہوتا کچھ نہیں تو میدان میں کیوں آتے ہو. سبحان نے اٹھ کر ڈھیلے لن کو اسی عورت کے دوپٹے سے صاف کیا. عورت نے بھی پھدی صاف کر لی. ابھی اسے پھدی صاف کیے زیادہ وقت نہیں ہوا تھا کہ باہر ایڑیاں بجیں. کریم بخش نے کہا "سر جی بڑے صاب آگئے" سبحان تب تک پینٹ پہن چکا تھا. ایک انسپیکٹر اندر آیا. عورت نے خود کو دوپٹے سے ڈھانپنے کی ناکام کوشش کی. وہ سبحان سے بولا "یہ سب کیا ہے" سبحان نے سر جھکا لیا. زین کو کچھ امید بندھی تو اس نے کہا "سر! انہوں نے مجھ اور اس ڈرائیور کو ناجائز پکڑا ہے. ہم نے کوئی جرم نہیں کیا. دے آر ناٹ الاؤنگ می ٹو ٹاک ٹو مائی لائیر" ٹیکسی والے نے بھی ہمت کی اور اٹھ کر قریب جا کر بولا "دیکھو صاب جی ناحق ہی پیٹ دیا مجھے اور" انسپبیکٹر نے زوردار تھپڑ مار کر کہا "بہن چود" ڈرائیور گرا تو انسپیکٹر نے اس کو ٹھوکروں پر رکھ لیا. زین سمجھ گیا کہ یہاں بھی دال نہیں گلنی. ٹیکسی والے سے فارغ ہو کر وہ سبحان کی طرف مڑا اور پھر اس عورت کے پاس جا کر اس کی چادر ہٹا دی. عورت بھی سمجھ گئی کہ یہاں شنوائی نہیں چدائی ہو گی. اس نے کہا " چل کوڈی ہو" وہ عورت اٹھی اور کوڈی ہوگئی. انسپیکٹر نے پینٹ اتاری تو اس کا پانچ انچ کا لن باہر آگیا. اس کا لن سبحان کی طرح ڈھیلا نہیں تھا. اس نے پیچھے سے اس کی پھدی میں لن ڈالا تو تھوڑی سی تیز آہ نکلی لیکن خاص فرق نہ پڑا. انسپیکٹر نے عورت کی پھدی میں گھسے مارتے ہوۓ کہا " مادر چودو کتنی بار کہا ہے یہ ماں باہر جا کر یوایا کرو. تھانے میں کسی بڑے افسر نے ننگی عورت دیکھ لی تو تمہاری ٹانگیں اٹھا دیں گے" اس نے دھکے مارنا جاری رکھے اور دو منٹ بعد ہی اس عورت کی پھدی میں فارغ ہو گیا. اس نے عورت کی گانڈ پے تھپڑ مارتے ہوۓ کہا "چل کپڑے پا لے" کریم بخش کا منہ لٹک گیا. انسپیکٹر نے یہ دیکھا تو ہنس کر بولا " لگتا ہے ابھی تیری باری نہیں آئی تھی. چل چود لے تو بھی" عورت جو کہ کپڑے پہننے لگی تھی رک گئی. انسپیکٹر نے کہا "یہ خود قبول کریں تو ٹھیک نہیں تو کٹو رج کے ان کو" یہ اشارہ زین کی طرف تھا. کریم بخش نے پینٹ اتاری تو اس کا سات انچ کا لمبا اور موٹا سودا باہر آگیا. وہ عورت کی ٹانگوں کے بیچ آیا اور ایک تیز جھٹکے سے عورت کی چیخ نکل گئی. وہ کراہ کر بولی "ہااااااااااااااااااائےےےےےےےےےےےےےےےےے میں مرررررررررررررررررررررررر گئی" کریم بخش نے منہ پر ہاتھ رکھتے ہوۓ کہا "ماں دی لوڑی پورا تھانہ کٹھا کرنا ای" اس نے منہ پے ہاتھ رکھ کہ چودنا شروع کردیا. کمرا تھپ تھپ اور اس عورت کی گھٹی گھٹی چیخوں سے گونجنے لگا. کریم بخش تگڑے لن اور صحت والا بندہ تھا اس لیے جب وہ پانچ منٹ بعد فارغ ہوا تو عورت کی بس ہوچکی تھی. وہ گرتے پڑتے کپڑے پہن کر باہر چلی گئی. کریم بخش نے کہا "اوۓ تم دونوں بھی سوچ لو اب" وہ باہر گیا تو ٹیکسی والے نے کہا "دیکھ لیا اس ہمدردی کا نتیجہ آپ نے. اس لیے منع کیا تھا" ایک بزرگ سپاہی اندر آیا تو زین نے کہا "دیکھیں اس بے چارے کا کوئی قصور نہیں. آپ کو سزا دینی ہے تو مجھے دے لیں نا. اس کو جانے دیں" وہ بزرگ ادھر ادھر دیکھ کر فون نکال کر بولا "یہ لوگ آپ کو بلاوجہ پھنسا رہے ہیں. کسی تگڑے گھر کے لگتے ہو بیٹا. یہ لو گھر اطلاع کرو اور میرا مت بتانا" اس نے فون لیا اور اپنے چچا کو فون کردیا. حفیظ احمد ابھی اٹھا ہی تھا. زین کی آواز سن کر وہ چونک گئے اور ساری صورتحال سن کر وہ بولا "اچھا تم فکر نہ کرو. میں کچھ کرتا ہوں" زین نے بزرگ کا شکریہ ادا کیا.
زین ایس ایچ او قیصر چوہدری کے سامنے تھا. اس کا کزن عبداللہ جو وکیل تھا. اس کا چچا اور ایک اور آدمی بیٹھے تھے. اس آدمی نے کہا "جناب میں اب چشمدید گواہ اور لواحقین کا بیان بھی لے آیا ہوں. اب تو بچے کو جانے دیں" قیصر نے کہا " یہ تو شکر کریں کہ غلط فہمی دور ہوگئی ورنہ آپ کو تو پتا ہے کہ ایسی غلط فہمیاں کیا کیا گل کھلاتی ہیں" اس کا لہجہ خاصہ معنی خیز تھا. زین نے کہا " اور جو اس غلط فہمی کے چکر میں آپ نے ہم پر تشدد کیا وہ" وہ اٹھ کر غصے سے بولا "بہن چود بتاؤں تجھے" حفیظ نے اٹھ کر منت بھرے لہجے میں کہا "نہیں نہیں صاب جی بچہ ہے باہر سے آیا پے یہاں کے حالات سے واقف نہیں ہے" اس ساتھ آئے آدمی نے بھی بیچ بچاؤ کرایا اور حفیظ نے زین کو خاموش رہنے کو کہا اور پھر وہ باہر آئے جہاں ٹیکسی والا اپنی ٹیکسی کی حالت کا ماتم کررہا تھا. زین نے دیکھا کہ وہ جو گھر والوں کے لیے تحفے لایا تھا وہ بھی سامان سے غائب تھے. انہوں نے پہلے ٹیکسی والے کو کسی حد تک نقصان کی بھرپائی کی اور پھر وہ گھر آگئے جہاں زین کی چچی اور چچاذاد بہن لیلہ اور اس کا چچازاد بھائی وحید ان کے منتظر تھے. سب اس بات پر خوش تھے کہ زین صحیح سلامت گھر آگیا ہے. زین کو اس بات کا غصہ تھا کہ اس کے چچا اور عبداللہ نے پولیس والوں کے اس غیر انسانی سلوک کو یوں نظرانداز کیسے کردیا. اس نے محسوس کیا کہ اس کا چچا کافی دبا دبا اور ڈرا ڈرا سا تھا. یونہی شام ہوگئی اور پچھلی رات کے واقعات شادی کی رونق اور گھروالوں کی محبت کی وجہ سے اسے بھولنے لگے. رات کے وقت زین کو نیند نہیں آرہی تھی. وہ باہر آیا تو دیکھا کہ گھر کی عمارت سے بنے کمرے سے کچھ دور اس کا چچا حفیظ کھڑا ہے. اس نے دیکھا کہ چچا کا انداز خاصہ مشکوک سا تھا. اس کو وہ لوگ مدھم روشنی میں ہیولے جیسے لگ رہے تھے. اچانک دو ہیولے اس الگ کمرے کی طرف گئے. زین نے چھپ کر ان کا پیچھا کیا اور کمرے کے پچھلی طرف کے روشن دان سے سارے حالات دیکھنے لگا. اندر روشنی تھی اس لیے وہ دیکھ سکتا تھا کہ وہ ایک جوان لڑکا اور لڑکی تھے اور دونوں عروسی لباس میں تھے. لڑکے نے لڑکی طرف دیکھا اور پھر وہ شرما گئی. روشن دان شیشے کا تھا اس لیے سب دکھائی دے رہا تھا تاہم سنائی کچھ نہیں دے رہا تھا. اچانک لڑکا لڑکی کو چومنے لگا. چومتے چومتے لڑکے نے اپنے کپڑے اتارنا شروع کردیے. پھر کچھ دیر کی چوما چاٹی کے بعد دونوں ننگے ہوگۓ. پاکستان آنے کے بعد یہ دوسرا ننگا زنانہ وجود تھا جو زین دیکھ رہا تھا. تھانے میں نشئی کی بیوی کوئی خاص نہ تھی اور بس پانی نکالنے کے قابل مال تھی اور زین خود اس وقت مصینت میں تھا تاہم اب معاملہ مختلف تھا اور لڑکی جوان اور خوبصورت تھی جس کے درمیانے سائز کے ممے انتہائی کسے ہوۓ تھے. ان کے نپل اور ان کے گرد دائرہ براؤن رنگ کا انتہائی سیکسی لگ رہا تھا. لڑکے نے ایک تھیلے سے تیل کی بوتل نکالی اور اپنے لن پر لگائی. اس کا لن پانچ انچ کا نارمل سا لن تھا. لڑکے نے لن اور پھدی پر تیل ملا اور لڑکی کی ٹانگوں میں آکر پوزیشن سنبھال لی. اس نے دھکا مارا اور رک گیا. ظاہر سی بات تھی لڑکی کو درد ہوا تھا. لڑکی کے بازو جیسے ہی لڑکے کی کمر سے لپٹے. لڑکے نے ایک اور دھکا مارا اور پورا لن اندر کر دیا. اس کے بعد وہ کچھ دیر رکا اور پھر چدائی شروع کر دی. لڑکے کی کمر ہل رہی تھی اور لڑکی کے چہرے پر درد اور مزے کے ملے جلے تاثرات تھے. اچانک لڑکے کی رفتار بڑھی اور پھر وہ آہستہ آہستہ رک گیا. لڑکے نے کچھ دیر بعد لن نکالا تو وہ خون سے لال تھا. اس نے ایک کپڑا اٹھایا اور اپنا لن اور لڑکی کی پھدی صاف کی جو خون سے بھری ہوئی تھی. اس نے بیگ سے دوسرے کپڑے نکالے اور پہنے جبکہ لڑکی نے بھی دوسرے کپڑے پہنے اور پھر عروسی لباس اور صفائی والا کپڑا بستر کی چادر میں لپیٹ کر وہ باہر لے گئے. اس نے محسوس کیا کہ اب اسے ان کی باتیں سننی چاہئیں کیونکہ وہ متجسس ہو چکا تھا. وہ ان کے قریب کھڑا ہوا جہاں حفیظ نے ایک پیکٹ لڑکے کو دیتے ہوۓ کہا "بیٹا تمہارا بہت شکریہ. میں ایسا کبھی نہ کرتا اگر حالات ایسے نہ ہوتے تو" وہ لڑکا بولا "نہیں چاچا جی آپ کے لیے تو جان بھی حاضر ہے" وہ لوگ چلے گئے تاہم زین کے ککھ بھی پلے نہ پڑا اور وہ بھی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا.
اس وقت جب زین اپنے کمرے میں لیٹا ان تمام واقعات کے بارے میں سوچ رہا تھا تب لاہور کے ایک ریزیڈینشل کمپلیکس کے ایک فلیٹ میں ایک عورت اور مرد برہنہ حالت میں بستر پر تھے. عورت سیدھی لیٹی تھی جبکہ مرد اس کے اوپر تھا اور مرد کا لن تواتر سے عورت کی پھدی کے اندر باہر ہو رہا تھا. عورت کراہتے ہوۓ کہہ رہی تھی. "آآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآ ہہہ ااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااوووو وووووووووووووووووووووووووووووررررررررررررررررررررر رررررررررررررررر زززززززززززززززززززززووووووووووووووووووووووووووووو ووووورررررررررررررررررررررررررررررررررررررر سےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےے. اااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااووو وووووووووووووووووووووووووووووووہہہہ. چووووووووووووووووووووووووووووووووووددددددددددددددد دددددددددددددددددددددددددددددووووووووووووووووووووو ووووووووووووو ایسےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےے ہی آآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآ ہہہ" کمرے میں عورت کی آہوں کے ساتھ تھپ تھپ اور مرد کی آواز بھی آرہی تھی جو کہہ رہا تھا. "یہ لے بہن چود. اوہ. اور لے. تیری ماں کی چوت. یہ لے" دونوں کی چدائی زور و شور سے جاری تھی کہ اچانک مرد کا فون بجا اور اس نے چودتے چودتے ہی فون اٹھاتے ہوۓ کہا "اس ٹائم کس کی ماں کو لن لینا ہے " فون کی سکرین پر نمبر دیکھتے ہی وہ شخص چونک اٹھا اور عورت کی پھدی سے لن نکالتے ہوۓ اشارے سے بتایا کہ کال خاصی اہم ہے. لن نکلتے ہی عورت صفائی والے کپڑے سے پھدی صاف کرنے لگی کیونکہ وہ پانی چھوڑ چکی تھی. اس آدمی نے فون اٹھا کر کہا "ہیلو... جی سر جی" دوسری طرف سے گرجتی ہوئی آواز آئی "جی سر جی کے بچے اس لڑکے کو کیوں چھوڑا جسے اس چوتیے مراد کے کیس میں پکڑا تھا؟" وہ چونکا اور بولا "سر جی میں کہاں چھوڑنا چاہتا تھا. میں تو سارا کیس اسی پے ڈال کے اقبالی بیان تک کروا لیتا پر معاملہ الٹا پڑ گیا. وہ لڑکی صبا نورین اور اس گانڈو مراد کے گھر والے بیان دے گۓ کہ یہ لڑکا نہیں تھا. اوپر سے وکیل بھی آگیا اور گاؤں کا نمبردار بھی چشمدید گواہ لے آیا. آپ کا کیس نہ بھی ہوتا تو بھی اس ماں کے لوڑے کو میں نہ چھوڑتا کہ اس خاندان سے ذاتی لڑائی ہے میری پر سر جی وہ بہن چود باہر سے آیا ہے. سفارت خانہ ملوث ہو جاتا یا میڈیا آجاتا تو معاملہ بگڑ سکتا تھا اس لیے مجھے اسے چھوڑنا پڑا" وہ آدمی بولا " میں کچھ نہیں جانتا قیصر. اس معاملے کو کسی پر بھی ڈال کے حل کرو بس. نئی کمپنی کا افتتاح ہونے والا ہے اور میں نہیں چاہتا کہ ڈیڈ کو اس ساری سچوئیشن کا پتا چلے" جی ہاں وہ شخص کوئی اور نہیں ایس ایچ او انسپیکٹر قیصر چوہدری تھا. وہ بولا "سر جی میں کچھ کرتا ہوں" اس آدمی نے کہا "یو بیٹر ڈو سم تھنگ. یہ ہم دونوں کے لیے اچھا ہوگا" اس نے فون کاٹ دیا. قیصر نے فون رکھا اور ساتھ لیٹی عورت کی یکدم ٹانگیں کھولیں اور ٹانگوں کے بیچ آکر اپنا خشک لن اس کی پھدی میں گھسا دیا. لن گھستے ہی عورت کے منہ سے چیخ نکلی "آآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآ آہہہ. جنگلی. ااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااایسے ےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےے نہیں. اااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااووو وووووووووووووووووووووووووووووووہہہہ. آآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآ رررررررررررررررررررررررررررررررررررررراااااااااااا ااااااااااااااااااااااااااااااااااام سےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےے. آآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآ ہہہہ. دددددددددددددددددددددددددددددددددددددددددددددررررر رررررررررررررررررررررررررررررررررددددددددددددددددد دددددددددددددددددددددددددددد ہوووووووووووووووووووووووووووووووووو ررررررررررررررررررررررررررررررررررررررہااااااااااا ااااااااااااااااااااااااااااااااااااا ہےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےے. ہاۓےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےے. آآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآ رررررررررررررررررررررررررررررررررررررراااااااااااا ااااااااااااااااااااااااااااااااااام سےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےے کررررررررررررررررررررررررررررررررررررررووووووووووو ووووووووووووووووووووووو. اااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااووو ووووووووووووووووووووووووووووووووہہہہ" مگر قیصر پر تو جیسے جنون ہی سوار تھا. وہ زور زور سے دھکے مارتے ہوۓ بول رہا تھا. "گانڈو. چوتیا. سالے بھڑوے سے لڑکی خود نہیں سنبھلتی اور میری گانڈ میں ڈنڈا دیا ہوا ہے. یہ لے تو بھی. اور چیخ. سنا ساری بلڈنگ کو کہ تو میری رنڈی ہے. لے بہن چود" قیصر کو سانس چڑھ رہا تھا تب بھی وہ اس عورت کو مسلسل چودے جا رہا تھا اور وہ عورت کراہتے ہوۓ کہہ رہی تھی " آآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآ آہہہہہہہ. جاااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااان آآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآ آررررررررررررررررررررررررررررررررررررررااااااااااا اااااااااااااااااااااااااااااااااااام سےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےے کررررررررررررررررررررررررررررررررررررررووووووووووو ووووووووووووووووووووووو. اااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااووو وووووووووووووووووووووووووووووووہہہہ. میررررررررررررررررررررررررررررررررررررررری پھاااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااڑ ڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑنی ہےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےے کیااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااا. ................. اااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااووو وووووووووووووووووووووووووووووووہہہہ............... . آآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآ رررررررررررررررررررررررررررررررررررررراااااااااااا ااااااااااااااااااااااااااااااااااام سےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےے.. ....آآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآ آآآآہہہہہ" مگر قیصر یہ سننے کے موڈ میں نہیں تھا کیونکہ اس کی رفتار مسلسل بڑھتی جارہی تھی. عورت کے ممے ہر دھکے کے ساتھ اچھل رہے تھے اور قیصر اسے بے رحمی سے چودتا ہی جارہا تھا. اچانک قیصر کے منہ سے غراہٹ نکلی تو وہ عورت چلائی "اااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااوو وووووووووووووووووووووووووووووووووہہہ......... نہیں...... اااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااندد دددددددددددددددددددددددددددددددددددددددددددررررررر ررررررررررررررررررررررررررررررر...... نہیں.... نہ...آآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآ آآآآآہہہہ" مگر قیصر نے اپنا پورا لن اندر گھسا کر عورت کی پھدی کو اپنے پانی سے بھرنا شروع کردیا. ہو ہانپتا ہوا عورت پر گر کر گہری سانسیں لینے لگا اور پھر لن نکال کر دوسری طرف لڑھک گیا. عورت نے اٹھ کر اپنی پھدی دیکھی اور کہا "کتنی بار کہا ہے پانی باہر نکالا کرو پھر بھی اندر ہی فارغ ہونے کی گندی عادت نہیں جاتی تمہاری. تمہاری بیوی نہیں جو پیٹ سے ہوگئی تو کوئی مسئلہ نہیں ہو گا" قیصر اس عورت کی باتوں کو نظر انداز کر کے سیگریٹ جلا کر پینے لگا اور مراد والے کیس کے بارے میں سوچنے لگا. اسے اس عورت کی باتوں سے خاص دلچسپی نہ تھی. وہ عورت اس کی چند پوش علاقے کی معشوقاؤں میں سے ایک تھی جس کا شوہر باہر رہتا تھا اور وہ عورت اس کے ساتھ سیٹ ہوگئی اور جب بھی لن چاہیے ہوتا اسے بلا لیتی. قیصر اس کی باتوں کو نظر انداز کرتا ہوا سیگریٹ پی رہا تھا اور اپنے مستقبل کے منصوبے پر عمل کا سوچ رہا تھا.