Incest Lover
Well-known member
Offline
- Thread Author
- #1
زبیر نے آفس واپسی پر جیسے ہی اپنے گھر کی گھنٹی بجانے کے لئے گھنٹی کی طرف ہاتھ بڑھایا تو اندر سے اپنی بیٹی کی آواز سن کر اس کا ہاتھ اٹھے کا اٹھا رہ گیا -
"امی میں شادی کروں گی تو صرف فرحان سے ، ورنہ میں زہر کھا کر اپنی جان دے دوں گی "
یہ الفاظ نہ تھے بلکہ زبیر کی سماعت پر ایک تازیانہ تھے جس سے اس کے حواس اس کا ساتھ چھوڑ گئے اور وہ لڑکھڑا کر گرنے ہی والا تھا کہ گھنٹی کی طرف اٹھا ہوا اس کا ہاتھ دیوار سے ٹکرا گیا اور دیوار اس کے لئے سہارا بن گئی اور اسی اثنا میں اس کے حواس واپس آ گئے اور وہ گرنے سے بچ گیا -
" بیٹی تمہارے ابو نہیں مانے گے ، ہم رشتہ داروں کو کیا منہ دکھائیں گے کہ ہماری بیٹی نے اپنی پسند کی شادی محلے کے ایک لڑکے سے کر لی ، اور وہ لڑکا بھی غیر برادری کا ، بیٹی تم ہماری عزت سے نہ کھیلو ، شادی کا فیصلہ اپنے ابو پر چھوڑ دو "
"امی میں شادی کروں گی تو بس فرحان سے - آپ ابو کو سمجھائیں ، میں فرحان سے شادی کر رہی ہوں اس کے ساتھ بھاگ نہیں رہی کہ جس سے ہماری بدنامی ہو گئی ،
شمائلہ اپنی امی سے یہ کہتے ہوئے اندر کمرے میں چلی گئی اور اندر گھر میں خاموشی چھا گئی -
کچھ دیر بعد زبیر گھر میں داخل ہوا تو اس کے ذہن میں شمائلہ کے بچپن سے لے کر جوانی تک کے واقعات چل رہے تھے ، بچپن سے لے کر جوانی تک شمائلہ بہت ہی فرمانبردار اور تابعدار قسم کی بچی تھی اور وہ اپنی بیٹی کی اچھی تربیت پر ایک طرح کا فخر کیا کرتا تھا لیکن آج اک ہی جھٹکے میں اس کا سارا فخروغرور خاک میں مل گیا تھا اسے کچھ سمجھ نہ آ رہی تھی کہ اس سانحہ پر کیا ردعمل دے -
رات کا کھانا بھی زبیر نے بےدلی سے کھایا ،اسکی بیوی نے کئی بار زبیر سے اس کے اترے ہوئے چہرے کا پوچھا لیکن وہ ہر دفعہ ٹال گیا - ساری رات سوچنے کے بعد زبیر نے نا چاہتے ہوئے بھی اسکی شادی فرحان سے کرنے کا فیصلہ کر لیا ، ساری زندگی اس نے بیٹی کی کسی فرمائش کو رد نہیں کیا تھا تو اس نے یہ فرمائش بھی پوری کرنے کا فیصلہ کر لیا چاہے خاندان کے لوگ اس پر ہنستے یا باتیں بناتے-
فرحان ایک خوبصورت اور اونچا لمبا جوان تھا ، بنیادی طور پر وہ اک شرمیلا نوجوان تھا جس وجہ سے اس کی کوئی بھی گرل فرینڈ نہ تھی ، اس کمی کو وہ کال گرلز سے پوری کر لیا کرتا تھا ،
اس کی سپرے اور کھاد کی دکان تھی ، وہ صبح سے شام تک دکان پر ہوتا تھا - جب کبھی جنسی خواہشات زور پکڑتیں تو وہ کسی نہ کسی اڈے والی سے رابطہ کرتا اور وہیں دکان پر اپنی جنسی ناآسودگی کی تکمیل کر لیتا ، اس نے دکان پر ایک آرام کے لئے چھوٹا سا کمرا بنایا ہوا تھا وہی اس کا عشرت کدہ تھا -
دوپہر کا وقت تھا فرحان نے ایک آنٹی سے رابطہ کیا اور کسی نئی کم عمر لڑکی کی ڈیمانڈ کی تو آنٹی / نائکہ نے اس کے پاس لڑکی بھیجنے کا کہا اور اب فرحان لڑکی کے انتظار میں تھا -
تقریبا آدھے گھنٹے بعد کالج یونیفارم میں ایک اٹھارہ انیس سالہ لڑکی اس کی دکان میں داخل ہوئی جیسے دیکھ کر فرحان کی آنکھوں میں چمک اتر آئی - لڑکی نہ صرف خوبصورت تھی بلکہ بھرے ہوئے جسم کی مالک تھی ، چہرے سے یا انداز سے کہیں سے بھی وہ کال گرل نہیں لگ رہی تھی ، فرحان کو ایسی ہی لڑکیاں پسند تھیں ، وہ ابھی اس کا جائزہ ہی لے رہا تھا کہ وہ اس سے مخاطب ہوئی کہ
"مجھے فرحان صاحب سے ملنا ہے ، مجھے فائزہ آنٹی نے بھیجا ہے ، "
جی میں ہی فرحان ہوں آپ سامنے کمرے میں چلیں ، فرحان یہ کہتا ہوا اس کے پیچھے کمرے میں داخل ھو گیا -
لڑکی نے کمرے میں جاتے ہی اپنا پرس اور دوپٹا گلے سے نکال کر بیڈ پر رکھا اور پیچھے مڑی تو فٹنگ والی قمیض میں اسکی تنی ہوئی بھاری چھاتیاں دیکھ کر فرحان کے من میں ھلچل ہونے لگی ، یہ لڑکی اسکی زندگی میں آنے والی سب سے حسین ، کم عمر اور خوش شکل لڑکی تھی - اس نے دل ہی دل میں فائزہ آنٹی کو شاباش دی اور لڑکی سے اس کا نام پوچھا ،
"میرا نام نینا ہے "، لڑکی نے جواب دیا -
"بہت خوبصورت ہیں آپ " فرحان نے نینا سے کہا تو وہ شوخی سے بولی " وہ تو میں ہوں "
فرحان مسکراتے ہوئے اسکی طرف بڑھا اور اپنی بانہیں اس کے گرد حمائل کرتے ہوئے اسے سینے سے لگا لیا - اسکی نرم و گداز چھاتیاں فرحان کے سینے سے ٹکرائیں تو وہ سرور کی گہری وادی میں اتر گیا ، اس نے پرجوش ہو کر نینا کو زور سے بھینچ لیا اور نیچے سے اسکے لن نے سر اٹھانا شروع کر دیا ، اک زوردار جپھی ڈالنے کے بعد اس نے نینا کو خود سے علیحدہ کیا اور اپنے ہونٹ اس کے رسیلے ہونٹوں سے ملا دئیے - نینا کے ہونٹ بہت ہی نرم و نازک تھے جنھیں فرحان نے دیوانگی سے چومنا اور چوسنا شروع کر دیا ، نینا بھی اس کا ساتھ دینے لگی - فرحان نے ہونٹ چوسنے کے ساتھ ساتھ اپنا ایک ہاتھ اسکی بڑی بڑی چھاتیوں پر رکھ دیا اور انھیں دبانے لگا ، نینا کی چھاتیاں بالکل ربڑ کی مانند نرم تھیں ، فرحان نے جیسے ہی تھوڑے زور سے نینا کے ممے دبائے تو اس نے فرحان کا ہاتھ پکڑ لیا اور اسے خود سے دور کرنے لگی تو فرحان نے سوالیہ نگاہوں سے اسکی طرف دیکھا تو نینا نے کہا "کپڑوں پر شکنیں نہ پڑ جائیں اسلئے پہلے میں اپنے کپڑے اتار لوں" ،
نینا نے بڑے ہی سیکسی انداز میں فرحان کی طرف دیکھا اور اپنی قمیض اتار دی - فرحان کے سامنے اس کا بے داغ گورا جسم عریاں ہو گیا ، اسکی چھاتیاں کالے رنگ کے برا میں قید تھیں ، گورے جسم پر کالا برا تو ویسے ہی ہر لڑکی پر جچتا ہے لیکن نینا کے جسم پر قیامت ڈھا رہا تھا اوپر سے نینا کا نشیلی نظروں سے دیکھنا فرحان کے تن من میں آگ لگا رہا تھا - فرحان نے بے اختیار ہو کر نینا کو بیڈ پر گرایا اور اسے بے تحاشا چومنا شروع کر دیا - اسی بے اختیاری میں اسے پتا ہی نہیں چلا کب اس نے اپنے کپڑے اتارے ،کب اس کی شلوار اور برا اتارے ، کب اپنے لن کو اسکی پھدی کا راستہ دیکھایا اور کتنی دیر اسے چودا ، بس اسے یاد تھا کہ وہ لطف و سرور کی اتھاہ گہرائیوں میں تیر رہا تھا اس میں کبھی ڈوب رہا تھا تو کبھی ابھر رہا تھا جب اسکی یہ کفیت ختم ہوئی تو نینا اپنی شلوار پہن رہی تھی اور بہت ہی پرسکون لگ رہی تھی ، وہ خود بیڈ پر ننگا لیٹا ہوا تھا ، اس نے اٹھ کر اپنے کپڑے بھی پہننا شروع کر دئیے ، دونوں جب اپنے کپڑے پہن چکے تو فرحان نے نینا سے پوچھا
" کتنے پیسے دوں" ؟
"فرحان تمہارا والہانہ پن دیکھ کر تم سے پیسے لینے کو دل نہیں کر رہا ، مجھے تمہاری دیوانگی بہت پسند آئی ہے ، ایسا والہانہ پن میں نے پچھلے دو سالوں میں کسی میں نہیں دیکھا اور نہ ہی میں نے کوئی دوست بنایا ہے ، تم مجھ سے دوستی کر لو اور جب تمہارا دل چاہے مجھے کال کر لیا کرو ، کیا مجھ سے دوستی کرنا پسند کرو گئے" ؟
نینا نے فرحان سے کہا تو اس نے جلدی سے ہاں میں سر ہلا دیا کیونکہ اسکی بھی کوئی دوست نہیں تھی اور نینا تو بہت خوبصورت لڑکی تھی - نینا اور فرحان کی پہلی ملاقات سیکس کے ساتھ ساتھ دوستی میں بدل گئی ،
شام میں گھر جا کر فرحان جب نہا رہا تھا تو بار بار اس کے ذہن میں ایک ہی بات آ رہی تھی کہ ایک کال گرل میں اتنا مزا ہے تو بیوی میں کتنا مزا ہو گا -
لہذا اس کا دل شادی کے لئے للچانے لگا -
اپنی اس خواہش کا اظہار اس نے اپنی ماں سے کیا اور لڑکی تلاش کرنے کا کہا ، ساتھ ہی اسکی بہن روبی بیٹھی ہوئی تھی اس نے کہا "لڑکی تلاش کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ آپکے لئے میں نے لڑکی پہلے سے ہی ڈھونڈ رکھی ہے"-
"کون ہے وہ لڑکی" ؟ فرحان نے پوچھا
تو اسکی بہن نے کہا "میری سہیلی شمائلہ "
روبی اور شمائلہ دونوں ایک ہی محلے میں رہتی تھیں اور دونوں بہت اچھی دوست تھیں ، ایک دوسرے کے گھر آتی جاتی رہتی تھیں ، شمائلہ کی عادات و اطوار بہت اچھی تھیں اور اس کے امی ابو بھی خوش اخلاق اور پڑھے لکھے تھے شمائلہ کی فیملی کا شمار محلے کے اچھے لوگوں میں ہوتا تھا - روبی خود بھی شمائلہ سے اچھی طرح واقف تھی اور ان کے خاندان میں فرحان کی کوئی ہم عمر لڑکی بھی نہ تھی جس سے فرحان کی شادی کروائی جا سکے ، اسلئے روبی شمائلہ کو اپنی بھابی بنانا چاہتی تھی -
فرحان نے شمائلہ کو اپنے گھر میں کافی دفعہ دیکھا تھا لیکن اپنی شرمیلی طبعیت کی وجہ سے کبھی غور سے دیکھا یا بلایا نہیں تھا اور نہ ہی شمائلہ کبھی فرحان سے مخاطب ہوئی تھی ، اب جبکہ اسکی بہن نے شمائلہ کا ذکر کیا تو فرحان اس کا اپنے گھر میں منتظر تھا کہ وہ ان کے گھر آئے اور وہ اچھی طرح اس کا جائزہ لے سکے -
یہ موقع اسے چند دنوں بعد ہی مل گیا ، جب وہ دکان سے گھر واپس آیا تو روبی اور شمائلہ صحن میں چارپائی پر بیٹھی آپس میں باتیں کر رہی تھیں ، فرحان بھی ان کے پاس چلا گیا ، اس دن فرحان نے پہلی دفعہ شمائلہ کو نظر بھر کر دیکھا ، شمائلہ ایک دبلی پتلی صاف رنگ کی لڑکی تھی اس کے نین نقش تیکھے اور دلکش تھے ، پہلی نظر بتاتی تھی کہ شمائلہ ایک خوبصورت لڑکی ہے ،شمائلہ فرحان کو اچھی لگی اور فرحان نے شمائلہ کو اپنی دلہن بنانے کا فیصلہ کر لیا -
روبی ایک تیز طرار لڑکی تھی ، اس نے شمائلہ کو سیدھی بات بتانے کی بجائے اسے فرحان کی جانب مائل کرنے کی پلاننگ شروع کر دی اور باتوں ہی باتوں میں اسے یہ باور کروانا شروع کر دیا کہ فرحان شمائلہ میں دلچسپی لیتا ہے ،
روبی کی باتوں سے شمائلہ بھی فرحان کی طرف توجہ دینے لگی ، اب فرحان اور شمائلہ کا جب آمنا سامنا ہوتا تو وہ ایکدوسرے کی طرف دیکھنے لگے اور تھوڑا بہت مسکرانے بھی لگے ، دوسرے مرحلے میں روبی شمائلہ سے فرحان کی شمائلہ سے محبت کا ذکر کرنے لگی اور اسے اپنی بھابی کہہ کر چھیڑنے لگی ، اب شمائلہ کے دل میں بھی فرحان کی محبت جاگنے لگی اور اب جب آمنا سامنا ہوتا تو ان میں بات چیت بھی ہونے لگی ، روبی جان بوجھ کر ان کو تنہائی فراہم کرنے لگی اور وہ بہانے بہانے سے ادھر ادھر ہو جاتی ، اب شمائلہ اور فرحان کے درمیان پیار و محبت کے عہد و پیمان ہونے لگے اور وہ دونوں ایکدوسرے کے پیار میں مکمل طور پر ڈوب گئے - یہ سب روبی کی محنت کا نتیجہ تھا ، روبی نے شمائلہ سے شادی کا ذکر کیا تو اس نے اپنی امی سے بات کی تو اسکی امی نے شادی سے منع کر دیا ، کچھ دن تو شمائلہ نے اپنی امی کو پیار سے سمجھانے کی کوشش کی لیکن جب کسی طور شمائلہ کی امی نہ مانی تو اس نے اپنی امی کو دھمکی دی کہ اگر اسکی شادی فرحان سے نہ ہوئی تو وہ زہر کھا کر خودکشی کر لے گئی ، آفس واپسی پر شمائلہ کے ابو زبیر نے یہ دھمکی سن لی تھی -
شمائلہ کی امی نے اسے سمجھانے کی بہت کوشش کی لیکن شمائلہ اپنی ضد پر قائم رہی ، جب شمائلہ کی امی ہر طریقے سے سمجھانے کے باوجود بھی ناکام رہی تو اس نے شمائلہ کے ابو سے بات کرنے کا فیصلہ کر لیا -
ایک رات باتوں باتوں میں شمائلہ کی امی نے اسکے ابو سے شمائلہ کی شادی کی بات کی تو شمائلہ کے ابو نے تو پہلے سے ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ بیٹی کی اس ضد کو نا چاہتے ہوئے بھی پورا کرے گا چاہے خاندان میں لوگ باتیں بناتے - شمائلہ کے امی ابو تھوڑی بہت بحث و مباحثہ کے بعد شمائلہ کی شادی فرحان سے کرنے پر تیار ہو گئے تھے -
چند مہینوں بعد ہی شمائلہ اور فرحان رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے اور آج فرحان اور شمائلہ کی سہاگ رات تھی -
فرحان جب کمرے کی کنڈی لگا کر سہاگ کی سیج پر آیا تو شمائلہ گھونگھٹ نکالے سکڑی سمٹی سی بیٹھی تھی ، کمرے کی کنڈی لگنے کی آواز سن کر شمائلہ کے جسم میں ایک سرسراہٹ دوڑ گئی اور آنے والے لمحات کا سوچ کر اس کا جسم ہولے ہولے کانپنے لگا -
فرحان آ کر شمائلہ کے سامنے بیٹھ گیا ، اندر سے وہ بھی گھبرایا ہوا تھا ، لیکن وہ جانتا تھا کہ اس رات مرد کا پراعتماد ہونا ضروری ہے اسلئے اس نے ہمت کرتے ہوئے شمائلہ کا گھونگھٹ اٹھایا ، شمائلہ ایک پرکشش چہرے کی مالک تھی اوپر سے اس پر روپ بھی بہت آیا تھا فرحان کی اس کے چہرے پر نظر پڑی تو بے ساختہ اس کے منہ سے ***** نکلا تو شمائلہ مزید شرما گئی اور اس کے گال مزید سرخ ہو گئے ، فرحان نے اسکے حسن کی تعریف کی اور منہ دکھائی میں انگوٹھی پہنائی ، پہلے پہل تو شمائلہ بول ہی نہیں رہی تھی لیکن فرحان نے آہستہ آہستہ اسکی جھجک کم کر دی تو شمائلہ اسکی باتوں کا تھوڑا بہت جواب دینے لگی ،سیکس کی طرف پہلا قدم بڑھاتے ہوئے فرحان نے باتوں باتوں میں اپنا ایک ہاتھ اسکی ران(thigh) پر رکھا اور آہستہ آہستہ اسکی ران پر ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا جس پر شمائلہ کی سانسیں تیز ہو گئیں اور شمائلہ نے فرحان کا ہاتھ ہٹانے کی کوشش کی ، فرحان نے مزید پیش قدمی کرتے ہوئے اپنے ہاتھ اسکی گالوں پر رکھے اور اسے اپنی طرف کھینچتے ہوئے اپنے ہونٹ شمائلہ کے ہونٹوں پر رکھ دئیے اور اس کے ہونٹ چومنے لگا ، چند ہی سیکنڈز بعد شمائلہ کی سانس ایسے پھول گیا جیسے وہ میلوں بھاگتی آئی ہو اور اس نے اپنے ہونٹ فرحان کے ہونٹوں سے علیحدہ کئے اور تیز تیز سانسیں لینے لگی
فرحان کا لن مکمل طور پر تن چکا تھا اور اس نے بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہوئے شمائلہ کے کپڑے اتارنے چاہے تو شمائلہ نے پہلے لائٹ بند کرنے کا کہا تو فرحان نے اٹھ کر لائٹ بند کر دی ، اب کمرے میں مکمل اندھیرا تھا ،شمائلہ نے لہنگا وغیرہ روبی کے کہنے پر فرحان کے آنے سے پہلے ہی بدل لیا تھا اور وہ سرخ رنگ کی شلوار قمیض میں ملبوس تھی ، فرحان نے بیڈ پر جاتے ہی سب سے پہلے شمائلہ کے کپڑے اتارنے شروع کئے ، سب سے پہلے فرحان نے شمائلہ کی قمیض اتاری اور اس کے مموں پر ہاتھ رکھ دیا ، شمائلہ تھی تو دبلی پتلی لیکن اسکی چھاتیاں بہت جاندار تھیں ، فرحان نے شمائلہ کا برئیزیر اوپر کیا اور اسکے مموں کو دبانے لگا ، شمائلہ کے چھوٹے چھوٹے نپلز بھی اکڑے ہوئے تھے ، فرحان نے ایک دو منٹ شمائلہ کے نپلز پر ہاتھ ہوت پھیرا اور انہیں دبایا اور پھر شمائلہ کا ایک مما منہ میں بھر کر چوسنے لگا ، فرحان کی کوشش تھی کہ شمائلہ کا سارے کا سارا مما منہ میں بھر لے لیکن چھاتی بھاری ہونے کی وجہ سے ایسا نہ کر سکا ، شمائلہ پہلی بار لذت کی گہرائیوں میں ڈوب رہی تھی اور اس سے یہ مزا برداشت نہیں ہو رہا تھا اور وہ مزے کی شدت سے اپنا سر ادھر ادھر پٹک رہی تھی ، فرحان نے جب اس کے نپل کو چوسنا شروع کیا تو مزے کی شدت سے اسکا جسم اکڑنا شروع ہو گیا اور اونچی اونچی سسکیوں سے اسکی پھدی نے پانی چھوڑ دیا ، شمائلہ سہاگ رات میں بن چدے فارغ ہو چکی تھی
شمائلہ کی سہاگ رات بھی عام دلہنوں کی طرح گزری ، مزا بھی تب آتا ہے جب لڑکی بھی بھرپور ساتھ دے لیکن پہلی دفعہ کے ڈر کی وجہ سے عام طور پر لڑکی ساتھ نہیں دے پاتی ، ایک رات میں فرحان نے دو دفعہ شمائلہ کے ساتھ سیکس کیا ، شمائلہ روایتی دلہنوں کی طرح ڈری ہونے کی وجہ سے زیادہ لطف اندوز نہ ہو سکی ، درد زیادہ اور مزا کم تھا لیکن اگلے کچھ ہی دنوں میں درد کم ہوتا گیا اور مزا بڑھتا گیا اور اب اسکی ہر رات لطف و سرور میں گزرتی اور وہ فرحان کے ساتھ بھرپور سیکس انجوائے کرتی تھی،
پہلا ماہ بنا حمل ٹھہرے ویسے ہی گزر گیا لیکن فرحان اور شمائلہ کی نئی نئی شادی ہوئی تھی اسلئے انھوں نے حمل نہ ٹھہرنے کی کوئی ٹینشن نہ لی ، تیسرے ماہ شمائلہ کا پاؤں بھاری ہو گیا ، فرحان کو جب پتا چلا کہ شمائلہ امید سے ھے تو اس نے شمائلہ کا پہلے سے بھی زیادہ خیال رکھنا شروع کر دیا ،
شمائلہ بہت خوش تھی کہ اسے پیار کرنے والا شوہر ملا اور اوپر والے نے اسے جلد ہی امید سے بھی کر دیا تھا - وہ خود کو ہر لحاظ سے خوش قسمت لڑکی تصور کرتی تھی لیکن وہ نہیں جانتی تھی کہ "ماں باپ کا دل دکھا کر اگر خوشیاں حاصل ہوں تو وہ ناپائیدار ہوتی ہیں -"
نینا اور شمائلہ میں ایک فرق یہ بھی تھا کہ نینا ایک کال گرل تھی جبکہ شمائلہ ایک عام گھریلو لڑکی ، نینا کے لئے چوپے لگانا اور گانڈ مروانا ایک عام بات تھی لیکن شمائلہ ان چیزوں کو بہت برا سمجھتی تھی ، اسلئے فرحان کو شمائلہ سے سیکس کرتے ہوئے ایک خلش محسوس ہوتی تھی دوسرے لفظوں میں ایک کمی کا احساس ہوتا تھا جبکہ نینا کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوتا تھا اسلئے شادی کے بعد بھی فرحان کا نینا سے رابطہ تھا اور کبھی کبھار وہ نینا سے ملتا بھی تھا ،
"آج مجھے اپنی امی کے گھر جانا ہے اور شام تک میں واپس آ جاؤں گی " شمائلہ نے صبح صبح فرحان سے اجازت چاہی تو فرحان نے بخوشی اسے میکے جانے کی اجازت دے دی ، فرحان جب دکان پر گیا تو اس نے سوچا دوپہر کو گھر تو جانا نہیں کیوں نہ نینا کے ساتھ دوپہر کو رنگین بنایا جائے چنانچہ اس نے نینا کو کال کی اور دوپہر میں آنے کا بولا تو نینا نے دوپہر میں آنے کی حامی بھر لی -
دوپہر جب نینا آئی تو خاص طور پر فرحان کے لئے بن سنور کر آئی تھی اور وہ بہت پیاری لگ رہی تھی ، فرحان اسے آرام والے کمرے میں لے گیا اور جاتے ہی اسکی شلوار قمیض اتارنے کے بعد اپنی شلوار قمیض بھی اتار دی ، وہ خود الف ننگا تھا جبکہ نینا برئیزیر اور پینٹی میں تھی ، فرحان نے نینا کی پینٹی اور برئیزیر بھی اتار دیا ، نینا کو اس نے بیڈ پر لٹایا اور خود اس کے اوپر آ گیا ، فرحان کا لن پورے جوش کے ساتھ کھڑا تھا اور نینا کی پھدی کی گہرائی میں اترنے کے لئے مکمل طور پر تیار تھا ، فرحان نے اپنا لن نینا کی پھدی کے سوراخ پر سیٹ کیا تو نینا فرحان سے
"آج تو بہت جوش میں نظر آ رہے ہو" ؟
"تم سے ملاقات بہت دنوں بعد ہو رہی ہے اور اوپر سے تم بہت پیاری لگ ہو ، اسلئے مجھ سے صبر نہیں ہو رہا "
یہ کہتے ہوئے فرحان نے آہستگی سے اپنا لن کا ٹوپا نینا کی پھدی میں ڈال دیا ، نینا کی پھدی بالکل خشک تھی ، فرحان نے اپنا ٹوپا دو تین دفعہ اندر باہر کیا اور آگے سے نینا کی چھاتی منہ میں لے کر اسکی نپل چومنے اور چوسنے لگا ، جس سے نینا کی پھدی میں تھوڑا سا گیلا پن آنا شروع ہو گیا ، گیلا پن محسوس کرتے ہی فرحان نے ایک زوردار جھٹکا مارا اور اسکا پورا لن نینا کی پھدی کی گہرائیوں میں اتر گیا اور نینا کے منہ سے ایک ہلکی سی آہ نکلی
فرحان نے اپنے لن سے نینا کی پھدی میں دو تین پورے جھٹکے دئیے اور پھر تیزی سے لن کو اندر باہر کرنا شروع کر دیا جس سے نینا کو بھی لطف آنے لگا جس کا ثبوت اس کے منہ سے نکلنے والی سسکاریاں تھی ، نینا کے منہ سے لذت آمیز سسکاریاں سن کر فرحان کی سپیڈ اور تیز ہو گئی ، نینا ایک کال گرل تھی وہ مردوں کی نفسیات سے اچھی طرح واقف تھی وہ جانتی تھی کہ مرد کو ذہنی تسکین تب ہی حاصل ہوتی ہے جب اسکی مردانگی کا اعتراف عورت کرے ، عورت کی چیخیں مرد کو ذہنی سکون پہنچاتی ہیں ، نینا فرحان کے پاس پیسے کے لئے نہیں دوستی اور مزے کے لئے آتی تھی ،اسلئے فرحان کی سپیڈ اور جوش کو بڑھانے کے لئے نینا نے ہولے ہولے چیخنا شروع کر دیا اور ساتھ میں اسے آہستہ کرنے کی التجا کرنے لگی تاکہ فرحان کا جوش اور بڑھے، ہوا بھی ایسے ، فرحان نینا کی چیخیں سن کر مزید تیز ہو گیا اور مزید زور سے گھسے مارنے لگا جس سے نینا کو اور زیادہ مزا ملنے لگا ، دو سے تین منٹ بعد ہی فرحان فارغ ہونے کے قریب پہنچ گیا اور تیز تیز جھٹکوں کے ساتھ ہی نینا کی پھدی میں پانی چھوڑنے لگا ،فرحان کے لن نے جیسے ہی نینا کی پھدی میں پانی چھوڑا تو گرم گرم منی نے اس کے جسم میں بھی اکڑاھٹ پیدا کرنا شروع کر دی اور فرحان کے آخری جھٹکوں نے نینا کی پھدی کو بھی پانی چھوڑنے پر مجبور کر دیا ، فرحان اور نینا دونوں منزل کو پہنچ چکے تھے -
دونوں بیڈ پر فارغ ہونے کے بعد ننگے لیٹے تھے ، فرحان نے اب اگلی منزل کا قصد کیا اور نینا کی گانڈ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اس سے پوچھا
"جان ہم کافی دفعہ مل چکے ہیں لیکن تم نے کبھی یہ (اسکی گانڈ کے سوراخ پر انگلی رکھتے ہوئے ) نہیں دی "-
" جان یہ تو میں (گانڈ) ڈیمانڈ پر دیتی ہوں ، تم نے ڈیمانڈ کی ہے تو میں اپنی جان کو تو انکار نہیں کر سکتی ، ابھی لے لو " نینا نے فرحان کو اپنی رضامندی دی تو فرحان نے اسکے ہونٹوں کو چوم لیا اور اس کے چوتڑوں کو دبانے لگا - کچھ دیر نینا کے جنسی اعضاء سے چھیڑ چھاڑ سے فرحان کے لن نے اک نئے جہاں کی دریافت کے لئے پھر سے انگڑائی لی اور پھر سے تن گیا ، فرحان نے جب دیکھا کہ اس کے لن میں پھر سے جان پڑ گئی ہے تو اس نے نینا کو الٹا لیٹنے کا کہا ، نینا الٹی لیٹ گئی، نینا کے چوتڑ ابھرے ابھرے بہت سیکسی لگ رہے تھے ، فرحان نے اپنے منہ سے تھوک نکال کر اپنے لن پر ملا اور نینا کی گانڈ کے سوراخ پر لگایا اور اس کے اوپر لیٹ گیا ، اپنا لن اسکی گانڈ کے سوراخ پر ٹکایا اور لن کے ٹوپے سے اسکی گانڈ کے سوراخ پر دباؤ بڑھانے لگا ، لن کی ٹوپی نینا کی گانڈ میں داخل ہوئی تو اسکے منہ سے درد بھری کراہ نکلی تو فرحان نے ہلکا سا جھٹکا مارا اور اس کا آدھا لن نینا کی گانڈ میں چلا گیا ، فرحان نے ایک اور جھٹکا دیا اور سارا لن نینا کی گانڈ میں اتر گیا ، فرحان کو نینا کی گانڈ پھدی کی نسبت تنگ لگی کیونکہ لن پر گانڈ کے سوراخ کی پکڑ پھدی سے زیادہ تھی ، فرحان نے نینا کی گانڈ میں اپنے لن کو اندر باہر کرنا شروع کر دیا اور آہستہ آہستہ اپنی سپیڈ تیز کر دی ، فرحان جب اپنا لن نینا کی گانڈ میں اندر کرتا تو نینا اپنی گانڈ فرحان کے لن کی طرف دباتی تاکہ لن زیادہ سے زیادہ گانڈ کی گہرائی کو ماپ سکے ، جس وقت فرحان نینا کی گانڈ مار رہا تھا اس وقت کوئی اس کی بیوی کی عزت سے کھیلنے کی کوشش کر رہا تھا -
جس وقت فرحان نینا کی گانڈ مار رہا تھا ٹھیک اسوقت فرحان کے سسرال میں شمائلہ کا کزن اسکی عزت سے کھیلنے کی کوشش کر رہا تھا -شمائلہ جب فرحان سے اجازت لے کر اپنے میکے گئی تو اس کے ابو آفس جا چکے تھے اور گھر میں اسکی امی اکیلی تھی ، شمائلہ کی امی اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئی اور ماں بیٹی آپس میں باتیں کرنے لگیں ، باتوں باتوں میں دوپہر ہو گئی تو شمائلہ کی امی کے دل میں خیال آیا کہ شام میں جب فرحان شمائلہ کو لینے آئے گا تو اسکی خاطر تواضع کا بندوبست تو ہونا چاہئیے ، یہ سوچ کر شمائلہ کی امی نے اس سے کہا ، "بیٹی تم تھوڑا آرام کر لو میں ایک گھنٹے تک بازار سے چکر لگا کر آتی ہوں " یہ کہہ کر شمائلہ کی امی بازار کے لئے روانہ ہو گئی ، ابھی اسے گھر سے نکلے پانچ منٹ ہی ہوئے تھے کہ شمائلہ کا کزن ان کے گھر پہنچ گیا ، شمائلہ چارپائی پر لیٹی ہوئی تھی اور اس کا دوپٹہ سائڈ پر رکھا ہوا تھا ، شمائلہ اپنے کزن کو دیکھ کر جلدی سے اٹھی اور دوپٹہ اٹھا کر اپنے سینے پر پھیلا لیا اور اسکی چھاتیاں دوپٹے کے نیچے چھپ گئیں لیکن چھپنے سے پہلے شمائلہ کے کزن نے ان کا بھرپور جائزہ لے لیا تھا -" آنٹی کہاں ہیں ؟" شمائلہ کے کزن نے اس سے پوچھا تو شمائلہ نے کہا " امی بازار گئیں ہیں " -
شمائلہ کے کزن کا نام سلیم تھا ، وہ ایک نمبر کا ٹھرکی لڑکا تھا ، اکیلی لڑکی دیکھ کر تو اس کی رالیں بہنا شروع ہو جاتی تھیں ، اسکی شمائلہ پر اسکی شادی سے پہلے کی ہی نظر تھی لیکن شمائلہ کے ساتھ اسے کبھی تنہائی میسر نہیں آئی تھی اسلئے وہ ابھی تک سلیم کے شر سے بچی ہوئی تھی لیکن آج سلیم کو تنہائی ملی تو اس نے موقع کا فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کر لیا -
وہ جا کر شمائلہ کے ساتھ بیٹھ گیا اور ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگا ، باتوں کے ساتھ ساتھ وہ شمائلہ کے ہاتھ پہ ہاتھ اس انداز میں مارتا جیسے لاشعوری طور پر ایسا ہو رہا ہے ، شمائلہ نے یہ محسوس کرتے ہوئے وہاں سے اٹھنا چاہا تو سلیم نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا ، شمائلہ نے اسکی طرف غصہ سے دیکھا اور اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی تو سلیم نے اسے اپنی طرف کھینچا اور اپنی گود میں گرا لیا ، شمائلہ نے سلیم کی گود سے اٹھنا چاہا تو اس نے شمائلہ کے گرد اپنی بانہوں کا شکنجہ کس لیا ، شمائلہ نے خود کو اس سے بچانے کی جدوجہد میں سلیم کے بازو پر کاٹ لیا، سلیم کے منہ سے اک زوردار چیخ نکلی اور شمائلہ کے گرد اس کی بانہوں کا گھیرا ڈھیلا پڑ گیا اور شمائلہ چکنی مچھلی کی طرح اسکی بانہوں سے پھسل کر باہر دروازے کی طرف بھاگی تو سلیم نے تیزی سے اسے باہر نکلنے سے پہلے ہی پکڑ لیا اور اسے بالوں سے کھینچ کر چارپائی پر دھکیل دیا ، سلیم اب زبردستی پر اتر آیا تھا ، شمائلہ اب چارپائی پر گر چکی تھی اور سلیم اس کے اوپر آن گرا اور اس کے سینے پر ہاتھ رکھا اور اسکی چھاتی پکڑ لی اور دبانے اور مسلنے لگا ، شمائلہ نے اب اسکی منت سماجت کرنا شروع کر دی تھی لیکن سلیم ہاتھ آیا چانس ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا ، ویسے بھی جب شیطان سر پر سوار ہو تو منت سماجت پر کون کان دھرتا ہے - سلیم نے اسکی شلوار پر ہاتھ رکھا اور ایک دم نیچے کھینچ دی ، شمائلہ کی پھدی دیکھ کر سلیم کی آنکھیں چمک اٹھیں اور اس نے جلدی سے اپنی بھی شلوار اتاری ، سلیم کا لن شمائلہ کی پھدی کو دیکھ کر پورے جوش سے کھڑا تھا اور اس نے اپنے ہاتھ پر تھوک پھینکا اور لن کو تھوک سے گیلا کر لیا ، لن کے ٹوپے کو شمائلہ کی پھدی کے ہونٹوں کے درمیان ایڈجسٹ کیا
اور ایک زوردار جھٹکہ دیا اور سلیم کا لن شمائلہ کی چوت میں اتر گیا ، شمائلہ کے منہ سے ایک چیخ نکلی اور اس نے خود کو سلیم کے نیچے سے نکالنے کی کوششیں کرنے لگی ، سلیم نے شمائلہ کو مضبوطی سے جکڑا ہوا تھا اور شمائلہ اپنی پوری قوت لگانے کے باوجود بھی خود کو سلیم کے چنگل سے نہ بچا پائی ، سلیم نے پوری طاقت سے اپنے لن کو شمائلہ کی پھدی میں آگے پیچھے کرنا شروع کر دیا ، ادھر فرحان نینا کی گانڈ مار رہا تھا ادھر سلیم شمائلہ کی پھدی سے مستفید ہو رہا تھا ، اسی کا نام مکافات عمل ہے ، بیشک ہم انجان رہتے ہیں لیکن ہمارے عمل کا ردعمل کہیں نہ کہیں ، کسی نہ کسی رشتہ پر اثر پذیر ہو رہا ہوتا ہے لیکن ہم اس سے واقف نہیں ہوتے ، ایک حساب سے دیکھا جائے تو لاعلمی بھی اک نعمت ہے لیکن لاعلم رہنے سے حقیقت نہیں بدلتی - شام جب فرحان شمائلہ کو گھر واپس لے کر گیا تو دونوں ایکدوسرے سے آنکھیں چرا رہے تھے -دونوں کے دل میں ایک چور تھا ، جھجک تھی اور دونوں ہی ضمیر کے مجرم تھے ، رات جب دونوں لیٹے ہوئے تھے تو شمائلہ کے دل میں بار بار یہ خیال آ رہا تھا کہ وہ اپنے ساتھ ہونے والی زبردستی کا اپنے شوہر کو بتا دے
لیکن ایک ڈر تھا ، خوف تھا کہ پتا نہیں کہ اس کا ردعمل کیسا ہو گا ، اسی خوف کے زیر اثر شمائلہ کچھ نہ بتا سکی اور لاشعوری طور پر وہ فرحان کے ساتھ جڑ گئی اور اس کے سینے میں سمانے کی کوشش کرنے لگی ، فرحان نے جب شمائلہ کو خود سے چمٹتے دیکھا تو اس نے بھی شمائلہ کو اپنی بانہوں میں سمیٹ لیا اور اس کی کمر پر ہاتھ پھیرنے لگا ، فرحان کے دل میں بھی چور تھا وہ سمجھا شاید شمائلہ جذبات کی شدت سے ایسا کر رہی ہے دونوں ہی ایکدوسرے کو دھوکہ دے رہے تھے ، پہلے ہاتھ کمر پر تھا ، کمر سے پستانوں پر گیا ، پستانوں سے پیٹ پر اور پھر کچھ منٹوں بعد دونوں کے کپڑے اتر گئے اور لن پھدی کا ملاپ ہو گیا ، دونوں ہی محسوس کر رہے تھے کہ آج اس کا پارٹنر پہلے سے زیادہ پرجوش ہے ، ایک زوردار اور پرلطف چدائی کے بعد دونوں سو گئے -
اس رات فرحان کا شمائلہ سے ہمبستر ہونا اسکی زندگی کی بھیانک غلطی تھی ، اس غلطی کا خمیازہ اسے تا عمر بھگتنا پڑا -
اگلے دن دکان پر فرحان کو دوپہر کے وقت پیشاب کی حاجت ہوئی تو اسے پیشاب کی نالی میں جلن سی محسوس ہوئی لیکن قابل برداشت تھی ، اس نے زیادہ توجہ نہ دی ،
اگلے دن فرحان کی جلن میں اضافہ ہو چکا تھا اور اسکی پیشاب کی نالی سے ریشہ نما مواد بھی آنا شروع ہو گیا ، فرحان نے اپنے ایک دوست سے اس بات کا ذکر کیا تو اس نے بتایا کہ یہ ایک جنسی بیماری ہے اور عام طور پر کال گرلز سے لگتی ہے ، اس سے پہلے کہ یہ بیماری تمہیں ناکارہ بنا دے تم کسی مستند ڈاکٹر سے رابطہ کرو ،
فرحان اسی شام ایک حکیم کے پاس چلا گیا اور حکیم کو سارا مسئلہ بتایا ، حکیم نے اسے دوائی دی اور فرحان کو اپنی بیوی سے ہمبستری سے ٹھیک ہونے تک روک دیا -
فرحان تو اپنی بیوی سے پہلے ہی ہمبستری کر چکا تھا اور نینا سے لئے ہوئے جراثیم شمائلہ میں منتقل کر چکا تھا ، تین دن بعد فرحان بیماری سے نجات پا چکا تھا-
تقریبا ایک ہفتہ بعد جب صبح شمائلہ اٹھی تو اس نے شلوار پر خون کا دھبا دیکھا تو وہ پریشان ہو گئی اور اس بات کا ذکر فرحان سے کیا تو فرحان اسے لیڈی ڈاکٹر کے پاس لے گیا ، لیڈی ڈاکٹر نے الٹراساؤنڈ کرنے کے بعد شمائلہ کو بتایا کہ وہ شدید قسم کے اندرونی انفکشن سے متاثرہ ہے اس کا واحد حل یہ ہے کہ ابارشن کروایا جائے ورنہ زچہ(ماں) کی زندگی بھی جا سکتی ہے ، بادل ناخواستہ فرحان کو شمائلہ کا ابارشن کروانا پڑا -
شمائلہ کے لئے یہ صدمہ نا قابل برداشت اور اذیت ناک تھا ، اس کی ذہنی اور جسمانی حالت کافی ابتر ہو گئی ، وہ سمجھ رہی تھی کہ بچے سے محرومی کی سزا سلیم سے سیکس تھا حالانکہ اسمیں اسکی مرضی شامل نہیں تھی لیکن وہ خود کو قصوروار سمجھ رہی تھی -
دوسری طرف ان حالات کا ذمۂدار فرحان خود کو سمجھ رہا تھا ، اگر ایک طرح سے دیکھا جائے تو وجہ وہ خود ہی تھا نہ وہ نینا سے سیکس کرتا اور نہ اس کی بیوی انفکشن کا شکار ہوتی اور نہ ہی ابارشن کروانا پڑتا -
قصہ مختصر ، فرحان نے جنسی بیماری سے نجات تو حاصل کر لی تھی لیکن اس کے لن میں پہلے جیسی طاقت نہ رہی ، نینا سے اسکی دوستی ختم ہو گئی اور اسکی بیوی دوبارہ حاملہ بھی نہ ہو سکی -
شمائلہ جنسی لطف سے بھی محروم ہے اور اولاد کی نعمت سے بھی -
شادی کے بعد شمائلہ سے خوشیاں سنبھالے نہیں سنبھلتی تھیں اور خود کو وہ بہت خوش نصیب اور خوش قسمت سمجھتی تھی اب وہی خود کو بدنصیب اور بدقسمت سمجھتی ہے ، وہ اکثر تنہائی میں سوچتی ہے کہ میری قسمت مجھ سے کیوں روٹھ گئی ؟
"امی میں شادی کروں گی تو صرف فرحان سے ، ورنہ میں زہر کھا کر اپنی جان دے دوں گی "
یہ الفاظ نہ تھے بلکہ زبیر کی سماعت پر ایک تازیانہ تھے جس سے اس کے حواس اس کا ساتھ چھوڑ گئے اور وہ لڑکھڑا کر گرنے ہی والا تھا کہ گھنٹی کی طرف اٹھا ہوا اس کا ہاتھ دیوار سے ٹکرا گیا اور دیوار اس کے لئے سہارا بن گئی اور اسی اثنا میں اس کے حواس واپس آ گئے اور وہ گرنے سے بچ گیا -
" بیٹی تمہارے ابو نہیں مانے گے ، ہم رشتہ داروں کو کیا منہ دکھائیں گے کہ ہماری بیٹی نے اپنی پسند کی شادی محلے کے ایک لڑکے سے کر لی ، اور وہ لڑکا بھی غیر برادری کا ، بیٹی تم ہماری عزت سے نہ کھیلو ، شادی کا فیصلہ اپنے ابو پر چھوڑ دو "
"امی میں شادی کروں گی تو بس فرحان سے - آپ ابو کو سمجھائیں ، میں فرحان سے شادی کر رہی ہوں اس کے ساتھ بھاگ نہیں رہی کہ جس سے ہماری بدنامی ہو گئی ،
شمائلہ اپنی امی سے یہ کہتے ہوئے اندر کمرے میں چلی گئی اور اندر گھر میں خاموشی چھا گئی -
کچھ دیر بعد زبیر گھر میں داخل ہوا تو اس کے ذہن میں شمائلہ کے بچپن سے لے کر جوانی تک کے واقعات چل رہے تھے ، بچپن سے لے کر جوانی تک شمائلہ بہت ہی فرمانبردار اور تابعدار قسم کی بچی تھی اور وہ اپنی بیٹی کی اچھی تربیت پر ایک طرح کا فخر کیا کرتا تھا لیکن آج اک ہی جھٹکے میں اس کا سارا فخروغرور خاک میں مل گیا تھا اسے کچھ سمجھ نہ آ رہی تھی کہ اس سانحہ پر کیا ردعمل دے -
رات کا کھانا بھی زبیر نے بےدلی سے کھایا ،اسکی بیوی نے کئی بار زبیر سے اس کے اترے ہوئے چہرے کا پوچھا لیکن وہ ہر دفعہ ٹال گیا - ساری رات سوچنے کے بعد زبیر نے نا چاہتے ہوئے بھی اسکی شادی فرحان سے کرنے کا فیصلہ کر لیا ، ساری زندگی اس نے بیٹی کی کسی فرمائش کو رد نہیں کیا تھا تو اس نے یہ فرمائش بھی پوری کرنے کا فیصلہ کر لیا چاہے خاندان کے لوگ اس پر ہنستے یا باتیں بناتے-
فرحان ایک خوبصورت اور اونچا لمبا جوان تھا ، بنیادی طور پر وہ اک شرمیلا نوجوان تھا جس وجہ سے اس کی کوئی بھی گرل فرینڈ نہ تھی ، اس کمی کو وہ کال گرلز سے پوری کر لیا کرتا تھا ،
اس کی سپرے اور کھاد کی دکان تھی ، وہ صبح سے شام تک دکان پر ہوتا تھا - جب کبھی جنسی خواہشات زور پکڑتیں تو وہ کسی نہ کسی اڈے والی سے رابطہ کرتا اور وہیں دکان پر اپنی جنسی ناآسودگی کی تکمیل کر لیتا ، اس نے دکان پر ایک آرام کے لئے چھوٹا سا کمرا بنایا ہوا تھا وہی اس کا عشرت کدہ تھا -
دوپہر کا وقت تھا فرحان نے ایک آنٹی سے رابطہ کیا اور کسی نئی کم عمر لڑکی کی ڈیمانڈ کی تو آنٹی / نائکہ نے اس کے پاس لڑکی بھیجنے کا کہا اور اب فرحان لڑکی کے انتظار میں تھا -
تقریبا آدھے گھنٹے بعد کالج یونیفارم میں ایک اٹھارہ انیس سالہ لڑکی اس کی دکان میں داخل ہوئی جیسے دیکھ کر فرحان کی آنکھوں میں چمک اتر آئی - لڑکی نہ صرف خوبصورت تھی بلکہ بھرے ہوئے جسم کی مالک تھی ، چہرے سے یا انداز سے کہیں سے بھی وہ کال گرل نہیں لگ رہی تھی ، فرحان کو ایسی ہی لڑکیاں پسند تھیں ، وہ ابھی اس کا جائزہ ہی لے رہا تھا کہ وہ اس سے مخاطب ہوئی کہ
"مجھے فرحان صاحب سے ملنا ہے ، مجھے فائزہ آنٹی نے بھیجا ہے ، "
جی میں ہی فرحان ہوں آپ سامنے کمرے میں چلیں ، فرحان یہ کہتا ہوا اس کے پیچھے کمرے میں داخل ھو گیا -
لڑکی نے کمرے میں جاتے ہی اپنا پرس اور دوپٹا گلے سے نکال کر بیڈ پر رکھا اور پیچھے مڑی تو فٹنگ والی قمیض میں اسکی تنی ہوئی بھاری چھاتیاں دیکھ کر فرحان کے من میں ھلچل ہونے لگی ، یہ لڑکی اسکی زندگی میں آنے والی سب سے حسین ، کم عمر اور خوش شکل لڑکی تھی - اس نے دل ہی دل میں فائزہ آنٹی کو شاباش دی اور لڑکی سے اس کا نام پوچھا ،
"میرا نام نینا ہے "، لڑکی نے جواب دیا -
"بہت خوبصورت ہیں آپ " فرحان نے نینا سے کہا تو وہ شوخی سے بولی " وہ تو میں ہوں "
فرحان مسکراتے ہوئے اسکی طرف بڑھا اور اپنی بانہیں اس کے گرد حمائل کرتے ہوئے اسے سینے سے لگا لیا - اسکی نرم و گداز چھاتیاں فرحان کے سینے سے ٹکرائیں تو وہ سرور کی گہری وادی میں اتر گیا ، اس نے پرجوش ہو کر نینا کو زور سے بھینچ لیا اور نیچے سے اسکے لن نے سر اٹھانا شروع کر دیا ، اک زوردار جپھی ڈالنے کے بعد اس نے نینا کو خود سے علیحدہ کیا اور اپنے ہونٹ اس کے رسیلے ہونٹوں سے ملا دئیے - نینا کے ہونٹ بہت ہی نرم و نازک تھے جنھیں فرحان نے دیوانگی سے چومنا اور چوسنا شروع کر دیا ، نینا بھی اس کا ساتھ دینے لگی - فرحان نے ہونٹ چوسنے کے ساتھ ساتھ اپنا ایک ہاتھ اسکی بڑی بڑی چھاتیوں پر رکھ دیا اور انھیں دبانے لگا ، نینا کی چھاتیاں بالکل ربڑ کی مانند نرم تھیں ، فرحان نے جیسے ہی تھوڑے زور سے نینا کے ممے دبائے تو اس نے فرحان کا ہاتھ پکڑ لیا اور اسے خود سے دور کرنے لگی تو فرحان نے سوالیہ نگاہوں سے اسکی طرف دیکھا تو نینا نے کہا "کپڑوں پر شکنیں نہ پڑ جائیں اسلئے پہلے میں اپنے کپڑے اتار لوں" ،
نینا نے بڑے ہی سیکسی انداز میں فرحان کی طرف دیکھا اور اپنی قمیض اتار دی - فرحان کے سامنے اس کا بے داغ گورا جسم عریاں ہو گیا ، اسکی چھاتیاں کالے رنگ کے برا میں قید تھیں ، گورے جسم پر کالا برا تو ویسے ہی ہر لڑکی پر جچتا ہے لیکن نینا کے جسم پر قیامت ڈھا رہا تھا اوپر سے نینا کا نشیلی نظروں سے دیکھنا فرحان کے تن من میں آگ لگا رہا تھا - فرحان نے بے اختیار ہو کر نینا کو بیڈ پر گرایا اور اسے بے تحاشا چومنا شروع کر دیا - اسی بے اختیاری میں اسے پتا ہی نہیں چلا کب اس نے اپنے کپڑے اتارے ،کب اس کی شلوار اور برا اتارے ، کب اپنے لن کو اسکی پھدی کا راستہ دیکھایا اور کتنی دیر اسے چودا ، بس اسے یاد تھا کہ وہ لطف و سرور کی اتھاہ گہرائیوں میں تیر رہا تھا اس میں کبھی ڈوب رہا تھا تو کبھی ابھر رہا تھا جب اسکی یہ کفیت ختم ہوئی تو نینا اپنی شلوار پہن رہی تھی اور بہت ہی پرسکون لگ رہی تھی ، وہ خود بیڈ پر ننگا لیٹا ہوا تھا ، اس نے اٹھ کر اپنے کپڑے بھی پہننا شروع کر دئیے ، دونوں جب اپنے کپڑے پہن چکے تو فرحان نے نینا سے پوچھا
" کتنے پیسے دوں" ؟
"فرحان تمہارا والہانہ پن دیکھ کر تم سے پیسے لینے کو دل نہیں کر رہا ، مجھے تمہاری دیوانگی بہت پسند آئی ہے ، ایسا والہانہ پن میں نے پچھلے دو سالوں میں کسی میں نہیں دیکھا اور نہ ہی میں نے کوئی دوست بنایا ہے ، تم مجھ سے دوستی کر لو اور جب تمہارا دل چاہے مجھے کال کر لیا کرو ، کیا مجھ سے دوستی کرنا پسند کرو گئے" ؟
نینا نے فرحان سے کہا تو اس نے جلدی سے ہاں میں سر ہلا دیا کیونکہ اسکی بھی کوئی دوست نہیں تھی اور نینا تو بہت خوبصورت لڑکی تھی - نینا اور فرحان کی پہلی ملاقات سیکس کے ساتھ ساتھ دوستی میں بدل گئی ،
شام میں گھر جا کر فرحان جب نہا رہا تھا تو بار بار اس کے ذہن میں ایک ہی بات آ رہی تھی کہ ایک کال گرل میں اتنا مزا ہے تو بیوی میں کتنا مزا ہو گا -
لہذا اس کا دل شادی کے لئے للچانے لگا -
اپنی اس خواہش کا اظہار اس نے اپنی ماں سے کیا اور لڑکی تلاش کرنے کا کہا ، ساتھ ہی اسکی بہن روبی بیٹھی ہوئی تھی اس نے کہا "لڑکی تلاش کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ آپکے لئے میں نے لڑکی پہلے سے ہی ڈھونڈ رکھی ہے"-
"کون ہے وہ لڑکی" ؟ فرحان نے پوچھا
تو اسکی بہن نے کہا "میری سہیلی شمائلہ "
روبی اور شمائلہ دونوں ایک ہی محلے میں رہتی تھیں اور دونوں بہت اچھی دوست تھیں ، ایک دوسرے کے گھر آتی جاتی رہتی تھیں ، شمائلہ کی عادات و اطوار بہت اچھی تھیں اور اس کے امی ابو بھی خوش اخلاق اور پڑھے لکھے تھے شمائلہ کی فیملی کا شمار محلے کے اچھے لوگوں میں ہوتا تھا - روبی خود بھی شمائلہ سے اچھی طرح واقف تھی اور ان کے خاندان میں فرحان کی کوئی ہم عمر لڑکی بھی نہ تھی جس سے فرحان کی شادی کروائی جا سکے ، اسلئے روبی شمائلہ کو اپنی بھابی بنانا چاہتی تھی -
فرحان نے شمائلہ کو اپنے گھر میں کافی دفعہ دیکھا تھا لیکن اپنی شرمیلی طبعیت کی وجہ سے کبھی غور سے دیکھا یا بلایا نہیں تھا اور نہ ہی شمائلہ کبھی فرحان سے مخاطب ہوئی تھی ، اب جبکہ اسکی بہن نے شمائلہ کا ذکر کیا تو فرحان اس کا اپنے گھر میں منتظر تھا کہ وہ ان کے گھر آئے اور وہ اچھی طرح اس کا جائزہ لے سکے -
یہ موقع اسے چند دنوں بعد ہی مل گیا ، جب وہ دکان سے گھر واپس آیا تو روبی اور شمائلہ صحن میں چارپائی پر بیٹھی آپس میں باتیں کر رہی تھیں ، فرحان بھی ان کے پاس چلا گیا ، اس دن فرحان نے پہلی دفعہ شمائلہ کو نظر بھر کر دیکھا ، شمائلہ ایک دبلی پتلی صاف رنگ کی لڑکی تھی اس کے نین نقش تیکھے اور دلکش تھے ، پہلی نظر بتاتی تھی کہ شمائلہ ایک خوبصورت لڑکی ہے ،شمائلہ فرحان کو اچھی لگی اور فرحان نے شمائلہ کو اپنی دلہن بنانے کا فیصلہ کر لیا -
روبی ایک تیز طرار لڑکی تھی ، اس نے شمائلہ کو سیدھی بات بتانے کی بجائے اسے فرحان کی جانب مائل کرنے کی پلاننگ شروع کر دی اور باتوں ہی باتوں میں اسے یہ باور کروانا شروع کر دیا کہ فرحان شمائلہ میں دلچسپی لیتا ہے ،
روبی کی باتوں سے شمائلہ بھی فرحان کی طرف توجہ دینے لگی ، اب فرحان اور شمائلہ کا جب آمنا سامنا ہوتا تو وہ ایکدوسرے کی طرف دیکھنے لگے اور تھوڑا بہت مسکرانے بھی لگے ، دوسرے مرحلے میں روبی شمائلہ سے فرحان کی شمائلہ سے محبت کا ذکر کرنے لگی اور اسے اپنی بھابی کہہ کر چھیڑنے لگی ، اب شمائلہ کے دل میں بھی فرحان کی محبت جاگنے لگی اور اب جب آمنا سامنا ہوتا تو ان میں بات چیت بھی ہونے لگی ، روبی جان بوجھ کر ان کو تنہائی فراہم کرنے لگی اور وہ بہانے بہانے سے ادھر ادھر ہو جاتی ، اب شمائلہ اور فرحان کے درمیان پیار و محبت کے عہد و پیمان ہونے لگے اور وہ دونوں ایکدوسرے کے پیار میں مکمل طور پر ڈوب گئے - یہ سب روبی کی محنت کا نتیجہ تھا ، روبی نے شمائلہ سے شادی کا ذکر کیا تو اس نے اپنی امی سے بات کی تو اسکی امی نے شادی سے منع کر دیا ، کچھ دن تو شمائلہ نے اپنی امی کو پیار سے سمجھانے کی کوشش کی لیکن جب کسی طور شمائلہ کی امی نہ مانی تو اس نے اپنی امی کو دھمکی دی کہ اگر اسکی شادی فرحان سے نہ ہوئی تو وہ زہر کھا کر خودکشی کر لے گئی ، آفس واپسی پر شمائلہ کے ابو زبیر نے یہ دھمکی سن لی تھی -
شمائلہ کی امی نے اسے سمجھانے کی بہت کوشش کی لیکن شمائلہ اپنی ضد پر قائم رہی ، جب شمائلہ کی امی ہر طریقے سے سمجھانے کے باوجود بھی ناکام رہی تو اس نے شمائلہ کے ابو سے بات کرنے کا فیصلہ کر لیا -
ایک رات باتوں باتوں میں شمائلہ کی امی نے اسکے ابو سے شمائلہ کی شادی کی بات کی تو شمائلہ کے ابو نے تو پہلے سے ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ بیٹی کی اس ضد کو نا چاہتے ہوئے بھی پورا کرے گا چاہے خاندان میں لوگ باتیں بناتے - شمائلہ کے امی ابو تھوڑی بہت بحث و مباحثہ کے بعد شمائلہ کی شادی فرحان سے کرنے پر تیار ہو گئے تھے -
چند مہینوں بعد ہی شمائلہ اور فرحان رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے اور آج فرحان اور شمائلہ کی سہاگ رات تھی -
فرحان جب کمرے کی کنڈی لگا کر سہاگ کی سیج پر آیا تو شمائلہ گھونگھٹ نکالے سکڑی سمٹی سی بیٹھی تھی ، کمرے کی کنڈی لگنے کی آواز سن کر شمائلہ کے جسم میں ایک سرسراہٹ دوڑ گئی اور آنے والے لمحات کا سوچ کر اس کا جسم ہولے ہولے کانپنے لگا -
فرحان آ کر شمائلہ کے سامنے بیٹھ گیا ، اندر سے وہ بھی گھبرایا ہوا تھا ، لیکن وہ جانتا تھا کہ اس رات مرد کا پراعتماد ہونا ضروری ہے اسلئے اس نے ہمت کرتے ہوئے شمائلہ کا گھونگھٹ اٹھایا ، شمائلہ ایک پرکشش چہرے کی مالک تھی اوپر سے اس پر روپ بھی بہت آیا تھا فرحان کی اس کے چہرے پر نظر پڑی تو بے ساختہ اس کے منہ سے ***** نکلا تو شمائلہ مزید شرما گئی اور اس کے گال مزید سرخ ہو گئے ، فرحان نے اسکے حسن کی تعریف کی اور منہ دکھائی میں انگوٹھی پہنائی ، پہلے پہل تو شمائلہ بول ہی نہیں رہی تھی لیکن فرحان نے آہستہ آہستہ اسکی جھجک کم کر دی تو شمائلہ اسکی باتوں کا تھوڑا بہت جواب دینے لگی ،سیکس کی طرف پہلا قدم بڑھاتے ہوئے فرحان نے باتوں باتوں میں اپنا ایک ہاتھ اسکی ران(thigh) پر رکھا اور آہستہ آہستہ اسکی ران پر ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا جس پر شمائلہ کی سانسیں تیز ہو گئیں اور شمائلہ نے فرحان کا ہاتھ ہٹانے کی کوشش کی ، فرحان نے مزید پیش قدمی کرتے ہوئے اپنے ہاتھ اسکی گالوں پر رکھے اور اسے اپنی طرف کھینچتے ہوئے اپنے ہونٹ شمائلہ کے ہونٹوں پر رکھ دئیے اور اس کے ہونٹ چومنے لگا ، چند ہی سیکنڈز بعد شمائلہ کی سانس ایسے پھول گیا جیسے وہ میلوں بھاگتی آئی ہو اور اس نے اپنے ہونٹ فرحان کے ہونٹوں سے علیحدہ کئے اور تیز تیز سانسیں لینے لگی
فرحان کا لن مکمل طور پر تن چکا تھا اور اس نے بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہوئے شمائلہ کے کپڑے اتارنے چاہے تو شمائلہ نے پہلے لائٹ بند کرنے کا کہا تو فرحان نے اٹھ کر لائٹ بند کر دی ، اب کمرے میں مکمل اندھیرا تھا ،شمائلہ نے لہنگا وغیرہ روبی کے کہنے پر فرحان کے آنے سے پہلے ہی بدل لیا تھا اور وہ سرخ رنگ کی شلوار قمیض میں ملبوس تھی ، فرحان نے بیڈ پر جاتے ہی سب سے پہلے شمائلہ کے کپڑے اتارنے شروع کئے ، سب سے پہلے فرحان نے شمائلہ کی قمیض اتاری اور اس کے مموں پر ہاتھ رکھ دیا ، شمائلہ تھی تو دبلی پتلی لیکن اسکی چھاتیاں بہت جاندار تھیں ، فرحان نے شمائلہ کا برئیزیر اوپر کیا اور اسکے مموں کو دبانے لگا ، شمائلہ کے چھوٹے چھوٹے نپلز بھی اکڑے ہوئے تھے ، فرحان نے ایک دو منٹ شمائلہ کے نپلز پر ہاتھ ہوت پھیرا اور انہیں دبایا اور پھر شمائلہ کا ایک مما منہ میں بھر کر چوسنے لگا ، فرحان کی کوشش تھی کہ شمائلہ کا سارے کا سارا مما منہ میں بھر لے لیکن چھاتی بھاری ہونے کی وجہ سے ایسا نہ کر سکا ، شمائلہ پہلی بار لذت کی گہرائیوں میں ڈوب رہی تھی اور اس سے یہ مزا برداشت نہیں ہو رہا تھا اور وہ مزے کی شدت سے اپنا سر ادھر ادھر پٹک رہی تھی ، فرحان نے جب اس کے نپل کو چوسنا شروع کیا تو مزے کی شدت سے اسکا جسم اکڑنا شروع ہو گیا اور اونچی اونچی سسکیوں سے اسکی پھدی نے پانی چھوڑ دیا ، شمائلہ سہاگ رات میں بن چدے فارغ ہو چکی تھی
شمائلہ کی سہاگ رات بھی عام دلہنوں کی طرح گزری ، مزا بھی تب آتا ہے جب لڑکی بھی بھرپور ساتھ دے لیکن پہلی دفعہ کے ڈر کی وجہ سے عام طور پر لڑکی ساتھ نہیں دے پاتی ، ایک رات میں فرحان نے دو دفعہ شمائلہ کے ساتھ سیکس کیا ، شمائلہ روایتی دلہنوں کی طرح ڈری ہونے کی وجہ سے زیادہ لطف اندوز نہ ہو سکی ، درد زیادہ اور مزا کم تھا لیکن اگلے کچھ ہی دنوں میں درد کم ہوتا گیا اور مزا بڑھتا گیا اور اب اسکی ہر رات لطف و سرور میں گزرتی اور وہ فرحان کے ساتھ بھرپور سیکس انجوائے کرتی تھی،
پہلا ماہ بنا حمل ٹھہرے ویسے ہی گزر گیا لیکن فرحان اور شمائلہ کی نئی نئی شادی ہوئی تھی اسلئے انھوں نے حمل نہ ٹھہرنے کی کوئی ٹینشن نہ لی ، تیسرے ماہ شمائلہ کا پاؤں بھاری ہو گیا ، فرحان کو جب پتا چلا کہ شمائلہ امید سے ھے تو اس نے شمائلہ کا پہلے سے بھی زیادہ خیال رکھنا شروع کر دیا ،
شمائلہ بہت خوش تھی کہ اسے پیار کرنے والا شوہر ملا اور اوپر والے نے اسے جلد ہی امید سے بھی کر دیا تھا - وہ خود کو ہر لحاظ سے خوش قسمت لڑکی تصور کرتی تھی لیکن وہ نہیں جانتی تھی کہ "ماں باپ کا دل دکھا کر اگر خوشیاں حاصل ہوں تو وہ ناپائیدار ہوتی ہیں -"
نینا اور شمائلہ میں ایک فرق یہ بھی تھا کہ نینا ایک کال گرل تھی جبکہ شمائلہ ایک عام گھریلو لڑکی ، نینا کے لئے چوپے لگانا اور گانڈ مروانا ایک عام بات تھی لیکن شمائلہ ان چیزوں کو بہت برا سمجھتی تھی ، اسلئے فرحان کو شمائلہ سے سیکس کرتے ہوئے ایک خلش محسوس ہوتی تھی دوسرے لفظوں میں ایک کمی کا احساس ہوتا تھا جبکہ نینا کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوتا تھا اسلئے شادی کے بعد بھی فرحان کا نینا سے رابطہ تھا اور کبھی کبھار وہ نینا سے ملتا بھی تھا ،
"آج مجھے اپنی امی کے گھر جانا ہے اور شام تک میں واپس آ جاؤں گی " شمائلہ نے صبح صبح فرحان سے اجازت چاہی تو فرحان نے بخوشی اسے میکے جانے کی اجازت دے دی ، فرحان جب دکان پر گیا تو اس نے سوچا دوپہر کو گھر تو جانا نہیں کیوں نہ نینا کے ساتھ دوپہر کو رنگین بنایا جائے چنانچہ اس نے نینا کو کال کی اور دوپہر میں آنے کا بولا تو نینا نے دوپہر میں آنے کی حامی بھر لی -
دوپہر جب نینا آئی تو خاص طور پر فرحان کے لئے بن سنور کر آئی تھی اور وہ بہت پیاری لگ رہی تھی ، فرحان اسے آرام والے کمرے میں لے گیا اور جاتے ہی اسکی شلوار قمیض اتارنے کے بعد اپنی شلوار قمیض بھی اتار دی ، وہ خود الف ننگا تھا جبکہ نینا برئیزیر اور پینٹی میں تھی ، فرحان نے نینا کی پینٹی اور برئیزیر بھی اتار دیا ، نینا کو اس نے بیڈ پر لٹایا اور خود اس کے اوپر آ گیا ، فرحان کا لن پورے جوش کے ساتھ کھڑا تھا اور نینا کی پھدی کی گہرائی میں اترنے کے لئے مکمل طور پر تیار تھا ، فرحان نے اپنا لن نینا کی پھدی کے سوراخ پر سیٹ کیا تو نینا فرحان سے
"آج تو بہت جوش میں نظر آ رہے ہو" ؟
"تم سے ملاقات بہت دنوں بعد ہو رہی ہے اور اوپر سے تم بہت پیاری لگ ہو ، اسلئے مجھ سے صبر نہیں ہو رہا "
یہ کہتے ہوئے فرحان نے آہستگی سے اپنا لن کا ٹوپا نینا کی پھدی میں ڈال دیا ، نینا کی پھدی بالکل خشک تھی ، فرحان نے اپنا ٹوپا دو تین دفعہ اندر باہر کیا اور آگے سے نینا کی چھاتی منہ میں لے کر اسکی نپل چومنے اور چوسنے لگا ، جس سے نینا کی پھدی میں تھوڑا سا گیلا پن آنا شروع ہو گیا ، گیلا پن محسوس کرتے ہی فرحان نے ایک زوردار جھٹکا مارا اور اسکا پورا لن نینا کی پھدی کی گہرائیوں میں اتر گیا اور نینا کے منہ سے ایک ہلکی سی آہ نکلی
فرحان نے اپنے لن سے نینا کی پھدی میں دو تین پورے جھٹکے دئیے اور پھر تیزی سے لن کو اندر باہر کرنا شروع کر دیا جس سے نینا کو بھی لطف آنے لگا جس کا ثبوت اس کے منہ سے نکلنے والی سسکاریاں تھی ، نینا کے منہ سے لذت آمیز سسکاریاں سن کر فرحان کی سپیڈ اور تیز ہو گئی ، نینا ایک کال گرل تھی وہ مردوں کی نفسیات سے اچھی طرح واقف تھی وہ جانتی تھی کہ مرد کو ذہنی تسکین تب ہی حاصل ہوتی ہے جب اسکی مردانگی کا اعتراف عورت کرے ، عورت کی چیخیں مرد کو ذہنی سکون پہنچاتی ہیں ، نینا فرحان کے پاس پیسے کے لئے نہیں دوستی اور مزے کے لئے آتی تھی ،اسلئے فرحان کی سپیڈ اور جوش کو بڑھانے کے لئے نینا نے ہولے ہولے چیخنا شروع کر دیا اور ساتھ میں اسے آہستہ کرنے کی التجا کرنے لگی تاکہ فرحان کا جوش اور بڑھے، ہوا بھی ایسے ، فرحان نینا کی چیخیں سن کر مزید تیز ہو گیا اور مزید زور سے گھسے مارنے لگا جس سے نینا کو اور زیادہ مزا ملنے لگا ، دو سے تین منٹ بعد ہی فرحان فارغ ہونے کے قریب پہنچ گیا اور تیز تیز جھٹکوں کے ساتھ ہی نینا کی پھدی میں پانی چھوڑنے لگا ،فرحان کے لن نے جیسے ہی نینا کی پھدی میں پانی چھوڑا تو گرم گرم منی نے اس کے جسم میں بھی اکڑاھٹ پیدا کرنا شروع کر دی اور فرحان کے آخری جھٹکوں نے نینا کی پھدی کو بھی پانی چھوڑنے پر مجبور کر دیا ، فرحان اور نینا دونوں منزل کو پہنچ چکے تھے -
دونوں بیڈ پر فارغ ہونے کے بعد ننگے لیٹے تھے ، فرحان نے اب اگلی منزل کا قصد کیا اور نینا کی گانڈ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اس سے پوچھا
"جان ہم کافی دفعہ مل چکے ہیں لیکن تم نے کبھی یہ (اسکی گانڈ کے سوراخ پر انگلی رکھتے ہوئے ) نہیں دی "-
" جان یہ تو میں (گانڈ) ڈیمانڈ پر دیتی ہوں ، تم نے ڈیمانڈ کی ہے تو میں اپنی جان کو تو انکار نہیں کر سکتی ، ابھی لے لو " نینا نے فرحان کو اپنی رضامندی دی تو فرحان نے اسکے ہونٹوں کو چوم لیا اور اس کے چوتڑوں کو دبانے لگا - کچھ دیر نینا کے جنسی اعضاء سے چھیڑ چھاڑ سے فرحان کے لن نے اک نئے جہاں کی دریافت کے لئے پھر سے انگڑائی لی اور پھر سے تن گیا ، فرحان نے جب دیکھا کہ اس کے لن میں پھر سے جان پڑ گئی ہے تو اس نے نینا کو الٹا لیٹنے کا کہا ، نینا الٹی لیٹ گئی، نینا کے چوتڑ ابھرے ابھرے بہت سیکسی لگ رہے تھے ، فرحان نے اپنے منہ سے تھوک نکال کر اپنے لن پر ملا اور نینا کی گانڈ کے سوراخ پر لگایا اور اس کے اوپر لیٹ گیا ، اپنا لن اسکی گانڈ کے سوراخ پر ٹکایا اور لن کے ٹوپے سے اسکی گانڈ کے سوراخ پر دباؤ بڑھانے لگا ، لن کی ٹوپی نینا کی گانڈ میں داخل ہوئی تو اسکے منہ سے درد بھری کراہ نکلی تو فرحان نے ہلکا سا جھٹکا مارا اور اس کا آدھا لن نینا کی گانڈ میں چلا گیا ، فرحان نے ایک اور جھٹکا دیا اور سارا لن نینا کی گانڈ میں اتر گیا ، فرحان کو نینا کی گانڈ پھدی کی نسبت تنگ لگی کیونکہ لن پر گانڈ کے سوراخ کی پکڑ پھدی سے زیادہ تھی ، فرحان نے نینا کی گانڈ میں اپنے لن کو اندر باہر کرنا شروع کر دیا اور آہستہ آہستہ اپنی سپیڈ تیز کر دی ، فرحان جب اپنا لن نینا کی گانڈ میں اندر کرتا تو نینا اپنی گانڈ فرحان کے لن کی طرف دباتی تاکہ لن زیادہ سے زیادہ گانڈ کی گہرائی کو ماپ سکے ، جس وقت فرحان نینا کی گانڈ مار رہا تھا اس وقت کوئی اس کی بیوی کی عزت سے کھیلنے کی کوشش کر رہا تھا -
جس وقت فرحان نینا کی گانڈ مار رہا تھا ٹھیک اسوقت فرحان کے سسرال میں شمائلہ کا کزن اسکی عزت سے کھیلنے کی کوشش کر رہا تھا -شمائلہ جب فرحان سے اجازت لے کر اپنے میکے گئی تو اس کے ابو آفس جا چکے تھے اور گھر میں اسکی امی اکیلی تھی ، شمائلہ کی امی اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئی اور ماں بیٹی آپس میں باتیں کرنے لگیں ، باتوں باتوں میں دوپہر ہو گئی تو شمائلہ کی امی کے دل میں خیال آیا کہ شام میں جب فرحان شمائلہ کو لینے آئے گا تو اسکی خاطر تواضع کا بندوبست تو ہونا چاہئیے ، یہ سوچ کر شمائلہ کی امی نے اس سے کہا ، "بیٹی تم تھوڑا آرام کر لو میں ایک گھنٹے تک بازار سے چکر لگا کر آتی ہوں " یہ کہہ کر شمائلہ کی امی بازار کے لئے روانہ ہو گئی ، ابھی اسے گھر سے نکلے پانچ منٹ ہی ہوئے تھے کہ شمائلہ کا کزن ان کے گھر پہنچ گیا ، شمائلہ چارپائی پر لیٹی ہوئی تھی اور اس کا دوپٹہ سائڈ پر رکھا ہوا تھا ، شمائلہ اپنے کزن کو دیکھ کر جلدی سے اٹھی اور دوپٹہ اٹھا کر اپنے سینے پر پھیلا لیا اور اسکی چھاتیاں دوپٹے کے نیچے چھپ گئیں لیکن چھپنے سے پہلے شمائلہ کے کزن نے ان کا بھرپور جائزہ لے لیا تھا -" آنٹی کہاں ہیں ؟" شمائلہ کے کزن نے اس سے پوچھا تو شمائلہ نے کہا " امی بازار گئیں ہیں " -
شمائلہ کے کزن کا نام سلیم تھا ، وہ ایک نمبر کا ٹھرکی لڑکا تھا ، اکیلی لڑکی دیکھ کر تو اس کی رالیں بہنا شروع ہو جاتی تھیں ، اسکی شمائلہ پر اسکی شادی سے پہلے کی ہی نظر تھی لیکن شمائلہ کے ساتھ اسے کبھی تنہائی میسر نہیں آئی تھی اسلئے وہ ابھی تک سلیم کے شر سے بچی ہوئی تھی لیکن آج سلیم کو تنہائی ملی تو اس نے موقع کا فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کر لیا -
وہ جا کر شمائلہ کے ساتھ بیٹھ گیا اور ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگا ، باتوں کے ساتھ ساتھ وہ شمائلہ کے ہاتھ پہ ہاتھ اس انداز میں مارتا جیسے لاشعوری طور پر ایسا ہو رہا ہے ، شمائلہ نے یہ محسوس کرتے ہوئے وہاں سے اٹھنا چاہا تو سلیم نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا ، شمائلہ نے اسکی طرف غصہ سے دیکھا اور اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی تو سلیم نے اسے اپنی طرف کھینچا اور اپنی گود میں گرا لیا ، شمائلہ نے سلیم کی گود سے اٹھنا چاہا تو اس نے شمائلہ کے گرد اپنی بانہوں کا شکنجہ کس لیا ، شمائلہ نے خود کو اس سے بچانے کی جدوجہد میں سلیم کے بازو پر کاٹ لیا، سلیم کے منہ سے اک زوردار چیخ نکلی اور شمائلہ کے گرد اس کی بانہوں کا گھیرا ڈھیلا پڑ گیا اور شمائلہ چکنی مچھلی کی طرح اسکی بانہوں سے پھسل کر باہر دروازے کی طرف بھاگی تو سلیم نے تیزی سے اسے باہر نکلنے سے پہلے ہی پکڑ لیا اور اسے بالوں سے کھینچ کر چارپائی پر دھکیل دیا ، سلیم اب زبردستی پر اتر آیا تھا ، شمائلہ اب چارپائی پر گر چکی تھی اور سلیم اس کے اوپر آن گرا اور اس کے سینے پر ہاتھ رکھا اور اسکی چھاتی پکڑ لی اور دبانے اور مسلنے لگا ، شمائلہ نے اب اسکی منت سماجت کرنا شروع کر دی تھی لیکن سلیم ہاتھ آیا چانس ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا ، ویسے بھی جب شیطان سر پر سوار ہو تو منت سماجت پر کون کان دھرتا ہے - سلیم نے اسکی شلوار پر ہاتھ رکھا اور ایک دم نیچے کھینچ دی ، شمائلہ کی پھدی دیکھ کر سلیم کی آنکھیں چمک اٹھیں اور اس نے جلدی سے اپنی بھی شلوار اتاری ، سلیم کا لن شمائلہ کی پھدی کو دیکھ کر پورے جوش سے کھڑا تھا اور اس نے اپنے ہاتھ پر تھوک پھینکا اور لن کو تھوک سے گیلا کر لیا ، لن کے ٹوپے کو شمائلہ کی پھدی کے ہونٹوں کے درمیان ایڈجسٹ کیا
اور ایک زوردار جھٹکہ دیا اور سلیم کا لن شمائلہ کی چوت میں اتر گیا ، شمائلہ کے منہ سے ایک چیخ نکلی اور اس نے خود کو سلیم کے نیچے سے نکالنے کی کوششیں کرنے لگی ، سلیم نے شمائلہ کو مضبوطی سے جکڑا ہوا تھا اور شمائلہ اپنی پوری قوت لگانے کے باوجود بھی خود کو سلیم کے چنگل سے نہ بچا پائی ، سلیم نے پوری طاقت سے اپنے لن کو شمائلہ کی پھدی میں آگے پیچھے کرنا شروع کر دیا ، ادھر فرحان نینا کی گانڈ مار رہا تھا ادھر سلیم شمائلہ کی پھدی سے مستفید ہو رہا تھا ، اسی کا نام مکافات عمل ہے ، بیشک ہم انجان رہتے ہیں لیکن ہمارے عمل کا ردعمل کہیں نہ کہیں ، کسی نہ کسی رشتہ پر اثر پذیر ہو رہا ہوتا ہے لیکن ہم اس سے واقف نہیں ہوتے ، ایک حساب سے دیکھا جائے تو لاعلمی بھی اک نعمت ہے لیکن لاعلم رہنے سے حقیقت نہیں بدلتی - شام جب فرحان شمائلہ کو گھر واپس لے کر گیا تو دونوں ایکدوسرے سے آنکھیں چرا رہے تھے -دونوں کے دل میں ایک چور تھا ، جھجک تھی اور دونوں ہی ضمیر کے مجرم تھے ، رات جب دونوں لیٹے ہوئے تھے تو شمائلہ کے دل میں بار بار یہ خیال آ رہا تھا کہ وہ اپنے ساتھ ہونے والی زبردستی کا اپنے شوہر کو بتا دے
لیکن ایک ڈر تھا ، خوف تھا کہ پتا نہیں کہ اس کا ردعمل کیسا ہو گا ، اسی خوف کے زیر اثر شمائلہ کچھ نہ بتا سکی اور لاشعوری طور پر وہ فرحان کے ساتھ جڑ گئی اور اس کے سینے میں سمانے کی کوشش کرنے لگی ، فرحان نے جب شمائلہ کو خود سے چمٹتے دیکھا تو اس نے بھی شمائلہ کو اپنی بانہوں میں سمیٹ لیا اور اس کی کمر پر ہاتھ پھیرنے لگا ، فرحان کے دل میں بھی چور تھا وہ سمجھا شاید شمائلہ جذبات کی شدت سے ایسا کر رہی ہے دونوں ہی ایکدوسرے کو دھوکہ دے رہے تھے ، پہلے ہاتھ کمر پر تھا ، کمر سے پستانوں پر گیا ، پستانوں سے پیٹ پر اور پھر کچھ منٹوں بعد دونوں کے کپڑے اتر گئے اور لن پھدی کا ملاپ ہو گیا ، دونوں ہی محسوس کر رہے تھے کہ آج اس کا پارٹنر پہلے سے زیادہ پرجوش ہے ، ایک زوردار اور پرلطف چدائی کے بعد دونوں سو گئے -
اس رات فرحان کا شمائلہ سے ہمبستر ہونا اسکی زندگی کی بھیانک غلطی تھی ، اس غلطی کا خمیازہ اسے تا عمر بھگتنا پڑا -
اگلے دن دکان پر فرحان کو دوپہر کے وقت پیشاب کی حاجت ہوئی تو اسے پیشاب کی نالی میں جلن سی محسوس ہوئی لیکن قابل برداشت تھی ، اس نے زیادہ توجہ نہ دی ،
اگلے دن فرحان کی جلن میں اضافہ ہو چکا تھا اور اسکی پیشاب کی نالی سے ریشہ نما مواد بھی آنا شروع ہو گیا ، فرحان نے اپنے ایک دوست سے اس بات کا ذکر کیا تو اس نے بتایا کہ یہ ایک جنسی بیماری ہے اور عام طور پر کال گرلز سے لگتی ہے ، اس سے پہلے کہ یہ بیماری تمہیں ناکارہ بنا دے تم کسی مستند ڈاکٹر سے رابطہ کرو ،
فرحان اسی شام ایک حکیم کے پاس چلا گیا اور حکیم کو سارا مسئلہ بتایا ، حکیم نے اسے دوائی دی اور فرحان کو اپنی بیوی سے ہمبستری سے ٹھیک ہونے تک روک دیا -
فرحان تو اپنی بیوی سے پہلے ہی ہمبستری کر چکا تھا اور نینا سے لئے ہوئے جراثیم شمائلہ میں منتقل کر چکا تھا ، تین دن بعد فرحان بیماری سے نجات پا چکا تھا-
تقریبا ایک ہفتہ بعد جب صبح شمائلہ اٹھی تو اس نے شلوار پر خون کا دھبا دیکھا تو وہ پریشان ہو گئی اور اس بات کا ذکر فرحان سے کیا تو فرحان اسے لیڈی ڈاکٹر کے پاس لے گیا ، لیڈی ڈاکٹر نے الٹراساؤنڈ کرنے کے بعد شمائلہ کو بتایا کہ وہ شدید قسم کے اندرونی انفکشن سے متاثرہ ہے اس کا واحد حل یہ ہے کہ ابارشن کروایا جائے ورنہ زچہ(ماں) کی زندگی بھی جا سکتی ہے ، بادل ناخواستہ فرحان کو شمائلہ کا ابارشن کروانا پڑا -
شمائلہ کے لئے یہ صدمہ نا قابل برداشت اور اذیت ناک تھا ، اس کی ذہنی اور جسمانی حالت کافی ابتر ہو گئی ، وہ سمجھ رہی تھی کہ بچے سے محرومی کی سزا سلیم سے سیکس تھا حالانکہ اسمیں اسکی مرضی شامل نہیں تھی لیکن وہ خود کو قصوروار سمجھ رہی تھی -
دوسری طرف ان حالات کا ذمۂدار فرحان خود کو سمجھ رہا تھا ، اگر ایک طرح سے دیکھا جائے تو وجہ وہ خود ہی تھا نہ وہ نینا سے سیکس کرتا اور نہ اس کی بیوی انفکشن کا شکار ہوتی اور نہ ہی ابارشن کروانا پڑتا -
قصہ مختصر ، فرحان نے جنسی بیماری سے نجات تو حاصل کر لی تھی لیکن اس کے لن میں پہلے جیسی طاقت نہ رہی ، نینا سے اسکی دوستی ختم ہو گئی اور اسکی بیوی دوبارہ حاملہ بھی نہ ہو سکی -
شمائلہ جنسی لطف سے بھی محروم ہے اور اولاد کی نعمت سے بھی -
شادی کے بعد شمائلہ سے خوشیاں سنبھالے نہیں سنبھلتی تھیں اور خود کو وہ بہت خوش نصیب اور خوش قسمت سمجھتی تھی اب وہی خود کو بدنصیب اور بدقسمت سمجھتی ہے ، وہ اکثر تنہائی میں سوچتی ہے کہ میری قسمت مجھ سے کیوں روٹھ گئی ؟