pajal20
Well-known member
Offline
- Thread Author
- #1
ایکسپریس نیوز ہر خبر پر نظر (ایک انسسٹ کہانی)
دوستوں یہ کہانی ایک بلکل سچے واقعہ پر بیس ہے جو کے کچھ سال پہلے جی ٹی روڈ پر اباد پنجاب کے ایک چھوٹے سے شہر دینہ میں پیش ایا اس واقعہ کی خبر ایک پاکستانی اخبار ایکسپریس نیوز نے پوسٹ کی اور اس خبر کو تھوڑا سا مرچ مصالہ لگا کر میں نے پھر یہ کہانی لکھی اپ اپنے کمنٹس کے ذریعے بتایں کے اپ کو کو میری یہ کوشش کیسی لگی
شکریہ
-------------------------------------------------------------------------------------------------
حمیدہ بی بی کی عمر 50 سال کی ہو گی۔ اس کا شوہر یو اے ای میں مزدوری کرتا تھا اور سال کے بعد ایک مہینے کے لیے پاکستان آتا تھا۔ حمیدہ بی بی اپنے تین بیٹوں اور دو بیٹیوں کے ساتھ ڈینہ سٹی میں ایک تین کمروں والے مکان میں رہتی تھی۔
مکان دو منزلہ تھا جس میں دو کمروں اور دو باتھروم اوپر کی منزل پر اور ایک بیڈروم اور کچن وغیرہ نیچے کی منزل میں تھے۔ حمیدہ بی بی کی سب سے بڑی ایک بیٹی تھی جس کی عمر 28 سال تھی۔ وہ شادی شدہ تھی اور اپنے دو بچوں اور شوہر کے ساتھ منڈی بہاؤ الدین میں رہتی تھی۔
دوسرے بیٹے کا نام قادر تھا۔ اس کی عمر 26 سال تھی۔ قادر کی شادی 24 سال کی عمر میں ہوئی تھی۔ وہ ایک ناکام اور آوارہ انسان تھا۔ جو کبھی کبھی نشہ بھی کرتا اور شراب بھی پیتا تھا۔ وہ غصے کا بہت تیز تھا اور بات بات پر اپنی بیوی کو مارتا۔ جس کی وجہ سے شادی کے دو سال بعد ہی اس کی بیوی نے اس سے طلاق لے لی۔
قادر کے بعد حمیدہ کے دو اور بیٹے تھے۔ جواداور عبدل جو کہ جوان تھے اور قادر سے ایک اور دو سال چھوٹے تھے۔ ان کی شادی ایک سال پہلے ہو گئی تھی اور وہ اپنی بیویوں کے ساتھ بھی اسی گھر میں اوپر والی منزل میں رہتے تھے۔ قادر اب کبھی باہر سو رہا ہوتا، کبھی ڈرائنگ روم میں اور کبھی کبھی اپنی ماں کے کمرے میں الگ چارپائی ڈال کر سوتا تھا۔ قادر کام تو کرتا نہیں تھا۔ وہ روز اپنے آوارہ دوستوں کے ساتھ باہر گھومتا رہتا تھا اور رات کو اکثر لیٹ گھر آتا تھا۔ اپنی بیوی کو طلاق دی ہوئی اسے کچھ مہینے ہو گئے تھے اور اس کا گزارہ اب صرف مشت زنی پر ہی ہوتا تھا۔
ایک دن رات کو وہ لیٹ گھر آیا۔ گرمیاں تھیں اور اس نے رات چھت پر سونے کا ارادہ کیا۔ جب قادر اوپر والی منزل پر گیا تو جواد کے کمرے کے پاس سے گزرتے ہوئے قادر کو کمرے میں سے سسکاریاں اور پلنگ کے چرچرانے کی ہلکی ہلکی آوازیں آئیں۔
قادر سمجھ گیا کہ اس کا چھوٹا بھائی اپنی بیوی کو چھوڑ رہا ہے۔ اس کا لن کھڑا ہونے لگا۔ وہ کچھ دیر کمرے کے باہر کھڑا ہو کر چودائی کی آوازیں سنتا رہا اور ساتھ ہی اپنے لوڑے کو شلوار کے اوپر سے مسلتا رہا۔ جب تھوڑی دیر بعد اندر خاموشی ہو گئی تو قادر بھی آہستہ سے چلتا ہوا چھت پر چلا گیا۔
چارپائی پر لیٹے ہوئے قادر ان آوازوں کو اپنے کانوں میں گونجتا ہوا محسوس کرتا رہا اور مشت زنی کرتا رہا۔ مشت زنی کرتے ہوئے اس کی آنکھوں کے سامنے جوادکی بیوی اور اس کی چھوٹی بھابی نزہت کا جسم ظاہر ہوگیا اور اس نے پہلی دفعہ اپنی بیوی کے علاوہ کسی دوسری عورت کے نام کی مشت زنی کی۔ قادر کو نزہت کے نام کی مشت زنی کرنے میں بہت مزہ آیا اور وہ جلد ہی فارغ ہو گیا۔
اس کے بعد قادر نے اپنی دونوں بھابھیوں نزہت اور لبنی کو تاڑنا شروع کر دیا۔ وہ روز اب ان دونوں کے نام کی مشت زنی کرتا تھا۔ کچھ مہینے کے بعد ایک دن دوپہر کو قادر امی کے کمرے میں سویا ہوا تھا۔ گرمی سخت تھی اور بجلی چلی گئی جس کی وجہ سے چھت پر لگا پنکھا بند ہو گیا۔ کچھ دیر بعد قادر کی آنکھیں کھل گئیں۔
اس کو سخت پسینہ آ رہا تھا۔ قادر کمرے سے باہر آیا تو گھر میں بالکل خاموشی تھی۔ لگتا تھا کہ سب باہر گئے ہوئے تھے۔ اسی دوران قادر ہاتھ کی پنکھی تلاش کرتا ہوا گھر کے اوپر والی منزل میں آیا تو اس کو جواد کے باتھ روم سے پانی کے گرنے کی آواز سنائی دی۔ وہ سمجھا کہ شاید نزہت نہا رہی ہے۔ یہ سوچ کر وہ مست ہونے لگا۔
آج وہ اپنی بھابی کے ننگے جسم کا منظر دیکھنا چاہتا تھا۔ قادر کو پتا تھا کہ اگر اوپر والی چھت پر آدمی کھڑا ہو تو روشن دان سے اس باتھ روم میں دیکھا جا سکتا ہے۔ قادر فوراً اوپر کھڑا ہوگیا۔ روشن دان تھوڑا کھلا ہوا تھا اور اس میں سے اندر کا منظر صاف دکھائی دے رہا تھا۔ قادر کا لن اپنی بھابی کے ننگے جسم کے بارے میں سوچ کر ہی کھڑا ہو گیا تھا۔ وہ جوش و خروش میں بے تابی کے ساتھ روشن دان سے باتھ روم میں جھانکا تو اندر کا منظر دیکھ کر حیران ہو گیا۔
اندر اس کی بھابی نزہت نہیں بلکہ اس کی اپنی سگی ماں ننگی کھڑی نہا ری تھی۔
حمیدہ بی بی نہ تو کسی فلمی ہیروئن کی طرح خوبصورت تھی نہ ہی کسی ماڈل کی طرح کا پٹاخہ جسم تھا۔ وہ ایک عام شکل صورت کی ٹیپیکل پاکستانی عورت تھی۔ اس کا رنگ گندمی تھا۔
حمیدہ بی بی نے شادی اور پھر چار بچوں کی ماں ہونے کی وجہ سے اپنے جسم کا خیال رکھنا چھوڑ دیا تھا جس وجہ سے اس کے جسم پر آہستہ آہستہ گوشت چڑھتا گیا۔ اس کے وزن بڑھنے کا اثر اس کے جسم کے ہر حصے پر ہوا تھا۔ اس کے نہ صرف ممے اور گانڈ کافی موٹی ہو گئی بلکہ اس کا پیٹ بھی اب کافی نکلا ہوا تھا۔
قادر کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ کبھی اپنی سگی ماں کو اس حالت میں دیکھے گا۔ اس کے تو پسینے چھوٹ گئے۔ اس نے ادھر سے ہٹنے کی کوشش کی مگر اس کے پاؤں تو جیسے زمین نے جکڑ لیے اور وہ دم بخود ہو کر اندر کا منظر دیکھتا رہا۔
ادھر باتھ روم میں حمیدہ بی بی نہا کر فارغ ہو چکی تھی
اس نے تولیے سے اپنے جسم کو خشک کیا اور دروازے کے ساتھ لٹکا ہوا سفید رنگ کا دیسی اسٹائل والا بڑا سا برا اتارا اور اس کو اپنے جسم کے گرد لپیٹ کر اس کی ہکس کو باندھ دیا۔ پھر ہکس کو پیچھے کی طرف کیا جس سے اس برا کے کپ اب اس کے پیٹ پر آ گئے۔
قادر کی امی نے برا کے اسٹریپ میں ایک ایک کر کے اپنے دونوں بازو ڈال کر اسٹریپ کو اپنے کندھوں پر ڈال دیا۔ اس کے بعد حمیدہ بی بی نے ایک ایک کر
کے اپنے موٹے اور سانوالے ممے (جو کہ کافی بڑے ہونے کی وجہ سے اب تھوڑے لٹکے ہوئے تھے) اپنے ہاتھوں سے اٹھا کر اپنی برا کے کپ میں
ڈھالے اور برا کے اسٹریپ کو ٹائیٹ کر دیا۔
اپنی امی کو زندگی میں پہلی بار اس طرح ننگا دیکھ کر قادر کے منہ سے فوراً نکلا " میری توبہ" اور وہ روشن دان سے پیچھے ہٹ گیا۔ اس کا تانک ہوا لن "موتر کی جھاگ" کی طرح بیٹھ گیا تھا۔ وہ کافی دن اس بات سے پریشان رہا کہ اس نے اپنی سگی ماں کو اس طرح ننگی حالت میں دیکھا ہے۔
وہ اس واقعے کے بعد جب بھی اپنی ماں کو دیکھتا فوراً اپنی نظریں نیچے جھکا لیتا۔ حالانکہ اس کو معلوم تھا کہ اس کی ماں کو اس کے باتھ روم میں جھانکنے کا علم نہیں تھا مگر پھر بھی وہ اپنی ماں سے نظریں نہیں ملا پاتا تھا۔
قادر نے اب کافی دنوں سے مٹھ بھی نہیں لگی تھی۔ کیونکہ جب بھی وہ مٹھ لگانے کی کوشش کرتا، اس کی آنکھوں میں اس کی امی کے باتھ روم میں نہانے والا منظر دوڑجاتا اور اس کے ساتھ ہی اس کا کھڑا لن فوراً بیٹھ جاتا۔
دوستوں یہ کہانی ایک بلکل سچے واقعہ پر بیس ہے جو کے کچھ سال پہلے جی ٹی روڈ پر اباد پنجاب کے ایک چھوٹے سے شہر دینہ میں پیش ایا اس واقعہ کی خبر ایک پاکستانی اخبار ایکسپریس نیوز نے پوسٹ کی اور اس خبر کو تھوڑا سا مرچ مصالہ لگا کر میں نے پھر یہ کہانی لکھی اپ اپنے کمنٹس کے ذریعے بتایں کے اپ کو کو میری یہ کوشش کیسی لگی
شکریہ
-------------------------------------------------------------------------------------------------
حمیدہ بی بی کی عمر 50 سال کی ہو گی۔ اس کا شوہر یو اے ای میں مزدوری کرتا تھا اور سال کے بعد ایک مہینے کے لیے پاکستان آتا تھا۔ حمیدہ بی بی اپنے تین بیٹوں اور دو بیٹیوں کے ساتھ ڈینہ سٹی میں ایک تین کمروں والے مکان میں رہتی تھی۔
مکان دو منزلہ تھا جس میں دو کمروں اور دو باتھروم اوپر کی منزل پر اور ایک بیڈروم اور کچن وغیرہ نیچے کی منزل میں تھے۔ حمیدہ بی بی کی سب سے بڑی ایک بیٹی تھی جس کی عمر 28 سال تھی۔ وہ شادی شدہ تھی اور اپنے دو بچوں اور شوہر کے ساتھ منڈی بہاؤ الدین میں رہتی تھی۔
دوسرے بیٹے کا نام قادر تھا۔ اس کی عمر 26 سال تھی۔ قادر کی شادی 24 سال کی عمر میں ہوئی تھی۔ وہ ایک ناکام اور آوارہ انسان تھا۔ جو کبھی کبھی نشہ بھی کرتا اور شراب بھی پیتا تھا۔ وہ غصے کا بہت تیز تھا اور بات بات پر اپنی بیوی کو مارتا۔ جس کی وجہ سے شادی کے دو سال بعد ہی اس کی بیوی نے اس سے طلاق لے لی۔
قادر کے بعد حمیدہ کے دو اور بیٹے تھے۔ جواداور عبدل جو کہ جوان تھے اور قادر سے ایک اور دو سال چھوٹے تھے۔ ان کی شادی ایک سال پہلے ہو گئی تھی اور وہ اپنی بیویوں کے ساتھ بھی اسی گھر میں اوپر والی منزل میں رہتے تھے۔ قادر اب کبھی باہر سو رہا ہوتا، کبھی ڈرائنگ روم میں اور کبھی کبھی اپنی ماں کے کمرے میں الگ چارپائی ڈال کر سوتا تھا۔ قادر کام تو کرتا نہیں تھا۔ وہ روز اپنے آوارہ دوستوں کے ساتھ باہر گھومتا رہتا تھا اور رات کو اکثر لیٹ گھر آتا تھا۔ اپنی بیوی کو طلاق دی ہوئی اسے کچھ مہینے ہو گئے تھے اور اس کا گزارہ اب صرف مشت زنی پر ہی ہوتا تھا۔
ایک دن رات کو وہ لیٹ گھر آیا۔ گرمیاں تھیں اور اس نے رات چھت پر سونے کا ارادہ کیا۔ جب قادر اوپر والی منزل پر گیا تو جواد کے کمرے کے پاس سے گزرتے ہوئے قادر کو کمرے میں سے سسکاریاں اور پلنگ کے چرچرانے کی ہلکی ہلکی آوازیں آئیں۔
قادر سمجھ گیا کہ اس کا چھوٹا بھائی اپنی بیوی کو چھوڑ رہا ہے۔ اس کا لن کھڑا ہونے لگا۔ وہ کچھ دیر کمرے کے باہر کھڑا ہو کر چودائی کی آوازیں سنتا رہا اور ساتھ ہی اپنے لوڑے کو شلوار کے اوپر سے مسلتا رہا۔ جب تھوڑی دیر بعد اندر خاموشی ہو گئی تو قادر بھی آہستہ سے چلتا ہوا چھت پر چلا گیا۔
چارپائی پر لیٹے ہوئے قادر ان آوازوں کو اپنے کانوں میں گونجتا ہوا محسوس کرتا رہا اور مشت زنی کرتا رہا۔ مشت زنی کرتے ہوئے اس کی آنکھوں کے سامنے جوادکی بیوی اور اس کی چھوٹی بھابی نزہت کا جسم ظاہر ہوگیا اور اس نے پہلی دفعہ اپنی بیوی کے علاوہ کسی دوسری عورت کے نام کی مشت زنی کی۔ قادر کو نزہت کے نام کی مشت زنی کرنے میں بہت مزہ آیا اور وہ جلد ہی فارغ ہو گیا۔
اس کے بعد قادر نے اپنی دونوں بھابھیوں نزہت اور لبنی کو تاڑنا شروع کر دیا۔ وہ روز اب ان دونوں کے نام کی مشت زنی کرتا تھا۔ کچھ مہینے کے بعد ایک دن دوپہر کو قادر امی کے کمرے میں سویا ہوا تھا۔ گرمی سخت تھی اور بجلی چلی گئی جس کی وجہ سے چھت پر لگا پنکھا بند ہو گیا۔ کچھ دیر بعد قادر کی آنکھیں کھل گئیں۔
اس کو سخت پسینہ آ رہا تھا۔ قادر کمرے سے باہر آیا تو گھر میں بالکل خاموشی تھی۔ لگتا تھا کہ سب باہر گئے ہوئے تھے۔ اسی دوران قادر ہاتھ کی پنکھی تلاش کرتا ہوا گھر کے اوپر والی منزل میں آیا تو اس کو جواد کے باتھ روم سے پانی کے گرنے کی آواز سنائی دی۔ وہ سمجھا کہ شاید نزہت نہا رہی ہے۔ یہ سوچ کر وہ مست ہونے لگا۔
آج وہ اپنی بھابی کے ننگے جسم کا منظر دیکھنا چاہتا تھا۔ قادر کو پتا تھا کہ اگر اوپر والی چھت پر آدمی کھڑا ہو تو روشن دان سے اس باتھ روم میں دیکھا جا سکتا ہے۔ قادر فوراً اوپر کھڑا ہوگیا۔ روشن دان تھوڑا کھلا ہوا تھا اور اس میں سے اندر کا منظر صاف دکھائی دے رہا تھا۔ قادر کا لن اپنی بھابی کے ننگے جسم کے بارے میں سوچ کر ہی کھڑا ہو گیا تھا۔ وہ جوش و خروش میں بے تابی کے ساتھ روشن دان سے باتھ روم میں جھانکا تو اندر کا منظر دیکھ کر حیران ہو گیا۔
اندر اس کی بھابی نزہت نہیں بلکہ اس کی اپنی سگی ماں ننگی کھڑی نہا ری تھی۔
حمیدہ بی بی نہ تو کسی فلمی ہیروئن کی طرح خوبصورت تھی نہ ہی کسی ماڈل کی طرح کا پٹاخہ جسم تھا۔ وہ ایک عام شکل صورت کی ٹیپیکل پاکستانی عورت تھی۔ اس کا رنگ گندمی تھا۔
حمیدہ بی بی نے شادی اور پھر چار بچوں کی ماں ہونے کی وجہ سے اپنے جسم کا خیال رکھنا چھوڑ دیا تھا جس وجہ سے اس کے جسم پر آہستہ آہستہ گوشت چڑھتا گیا۔ اس کے وزن بڑھنے کا اثر اس کے جسم کے ہر حصے پر ہوا تھا۔ اس کے نہ صرف ممے اور گانڈ کافی موٹی ہو گئی بلکہ اس کا پیٹ بھی اب کافی نکلا ہوا تھا۔
قادر کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ کبھی اپنی سگی ماں کو اس حالت میں دیکھے گا۔ اس کے تو پسینے چھوٹ گئے۔ اس نے ادھر سے ہٹنے کی کوشش کی مگر اس کے پاؤں تو جیسے زمین نے جکڑ لیے اور وہ دم بخود ہو کر اندر کا منظر دیکھتا رہا۔
ادھر باتھ روم میں حمیدہ بی بی نہا کر فارغ ہو چکی تھی
اس نے تولیے سے اپنے جسم کو خشک کیا اور دروازے کے ساتھ لٹکا ہوا سفید رنگ کا دیسی اسٹائل والا بڑا سا برا اتارا اور اس کو اپنے جسم کے گرد لپیٹ کر اس کی ہکس کو باندھ دیا۔ پھر ہکس کو پیچھے کی طرف کیا جس سے اس برا کے کپ اب اس کے پیٹ پر آ گئے۔
قادر کی امی نے برا کے اسٹریپ میں ایک ایک کر کے اپنے دونوں بازو ڈال کر اسٹریپ کو اپنے کندھوں پر ڈال دیا۔ اس کے بعد حمیدہ بی بی نے ایک ایک کر
کے اپنے موٹے اور سانوالے ممے (جو کہ کافی بڑے ہونے کی وجہ سے اب تھوڑے لٹکے ہوئے تھے) اپنے ہاتھوں سے اٹھا کر اپنی برا کے کپ میں
ڈھالے اور برا کے اسٹریپ کو ٹائیٹ کر دیا۔
اپنی امی کو زندگی میں پہلی بار اس طرح ننگا دیکھ کر قادر کے منہ سے فوراً نکلا " میری توبہ" اور وہ روشن دان سے پیچھے ہٹ گیا۔ اس کا تانک ہوا لن "موتر کی جھاگ" کی طرح بیٹھ گیا تھا۔ وہ کافی دن اس بات سے پریشان رہا کہ اس نے اپنی سگی ماں کو اس طرح ننگی حالت میں دیکھا ہے۔
وہ اس واقعے کے بعد جب بھی اپنی ماں کو دیکھتا فوراً اپنی نظریں نیچے جھکا لیتا۔ حالانکہ اس کو معلوم تھا کہ اس کی ماں کو اس کے باتھ روم میں جھانکنے کا علم نہیں تھا مگر پھر بھی وہ اپنی ماں سے نظریں نہیں ملا پاتا تھا۔
قادر نے اب کافی دنوں سے مٹھ بھی نہیں لگی تھی۔ کیونکہ جب بھی وہ مٹھ لگانے کی کوشش کرتا، اس کی آنکھوں میں اس کی امی کے باتھ روم میں نہانے والا منظر دوڑجاتا اور اس کے ساتھ ہی اس کا کھڑا لن فوراً بیٹھ جاتا۔