Munna
Well-known member
Offline
- Thread Author
- #1
رفعت آہستہ آہستہ سیڑھیاں چڑھتی چھت پہ آئی اس کی صبح آج بھی معمول کے مطابق ہوئی تھی۔۔۔ جاگتے ہی وہ کاموں میں جت گئی نند کے ساتھ مل کے ناشتہ بنایا پھر صفائی شروع کردی شادی کے بعد تقریباً یہی روٹین بن گئی تھی۔
اس نے کل شام کو کچھ کپڑے دھو کے تار پہ ڈالے تھے جنہیں اتارنا بھول گئی تھی۔۔۔چھت پہ آ کے اس نے تار پہ لٹکتے کپڑوں کو چھوا اور دل مسوس کر رہ گئی رات بھر اوس برستی رہی تھی کپڑے پھر سے نم ہو گئے تھے آج دن کو ان کا یوں ہی تار پہ رہنا ضروری تھا تاکہ خشک ہو جاتے۔
وہ کپڑوں کو الٹنے پلٹنے میں مصروف تھی کہ ساتھ والی چھت سے سیٹی کی ہلکی آواز آئی رفعت چونکی پھر اس طرف دیکھا تو ریحان کھڑا تھا۔۔۔ شرٹ کے کئی بٹن کھلے ہوئے تھے اور بال الجھے ہوئے تھے شاید ابھی ابھی جاگا تھا۔
یہ درمیانے درجے کی کالونی تھی زیادہ تر گھر دو منزلہ اور ایک ہی انداز میں بنے ہوئے تھے چھتوں کے درمیان زیادہ فاصلے نہیں تھے۔
کیا چھچوری حرکتیں کرتے ہو تم ریحان۔۔۔ منہ بنا کے بولی وہ دیوار پہ کہنیاں ٹکا کے اسے دیکھنے لگا۔
کیا کیا ہے میں نے؟ وہ پوچھنے لگا۔۔۔۔ رفعت نے ایک نظر اس کے حلیے پہ ڈالی وہ اونچی قد اور مضبوط جسامت کا خوش شکل نوجوان تھا۔
یہ سیٹی جو بجائی تم نے۔۔۔ وہ اسے گھور کر رہ گئی۔۔۔۔ تمھاری امی کہاں ہیں؟ پھر اس سے پوچھا تھا۔
ماموں کے گھر گئی ہیں۔۔۔کیوں؟۔۔۔ وہ بولا۔
مجھے کچھ کام تھا ان سے۔۔۔
بھابی نیچے آجائیں۔۔۔۔ اس کی نند ندا کی آواز آئی تو وہ چونکی پھر ایک نظر اس پہ ڈالی اور نیچے کی طرف بڑھ گئی۔
ریحان اسے نیچے جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔۔۔۔ پھر لمبی سانس لی۔۔۔ صبح صبح اتنی خوبصورت لڑکی کو دیکھنے کے بعد دن بہت اچھا گزرنے والا تھا۔
جب سے وہ بیاہ کے آئی تھی محلے میں اس کے چرچے ہوئے تھے بلاشبہ وہ بہت خوبصورت تھی سرخ و سفید شہابی رنگت میانہ قد اور تیکھا ناک نقشہ۔۔۔متناسب بدن سانچے میں ڈھلا ہوا تھا اور سینے کی اٹھان ہر ایک کا دل دہلاتی تھی بھورے بالوں کی آبشار شور مچاتی کمر پہ گرتی تھی۔
وہ چند ان لڑکیوں میں آتی تھی جنھیں دیکھ کے دیکھتے رہنے کو دل کرتا ہے نگاہ ان کے جوبن پہ ٹھہر جاتی تھی شادی کے بعد بھی اس کی حسن کی شادابی پہ فرق نہیں پڑا تھا بلکہ چہرا بھرا بھرا سا مزید ترو تازہ ہو گیا تھا پہلے بہت دبلی پتلی تھی اب ذرا سی صحتمند ہوگئی تھی جسم پہ بوٹی چڑھ گئی تھی مگر بدن کا توازن برقرار تھا۔۔۔ ریحان کو وہ ہمیشہ بہت پر کشش لگتی تھی۔
رفعت نیچے آئی تو ندا مزید پھیلاوا پھیلانے کے موڈ میں تھی شیلف سے کئی برتن نکال کے کاؤنٹر پر ڈھیر کر رہی تھی جنھیں دھو کے واپس شیلف میں رکھنا تھا۔
کہاں گئی تھیں بھابی۔۔۔ ندا پوچھنے لگی رفعت نے منہ بنایا۔
اوپر گئی تھی تار سے کپڑے اتارنے۔۔ مگر ابھی تک گیلے ہیں۔۔۔ اماں کہاں ہیں؟ اس نے پوچھا۔۔
کمرے میں ہیں لیٹی ہوئی ہیں۔۔۔ ندا بولی رفعت نے سر ہلایا تھا۔
آج اتوار تھا ندا گھر میں ہی تھی۔۔۔ اور اماں کمرے میں۔
اس گھر میں کل یہی تین ہی تو نفوس تھے۔۔
اس کے شوہر سلیمان کو مسقط گئے سال ہونے کو تھا وہ شادی کے ایک مہینہ بعد ہی مسقط چلا گیا تھا جہاں اس کی بہت اچھی جاب تھی۔
وہ سر جھٹک کر کام کرنے لگی۔
سارے کام نمٹا کر وہ کمرے میں آ لیٹی اور فون نکالا واٹس ایپ دیکھا تو سلیمان آن لائن تھا مسقط میں شاید ابھی صبح ہوئی ہوگی وہ مسکرائی پھر اسے کال ملا کے کروٹ بدل گئی۔
فون کی گھنٹی بجی تھی۔۔۔ پر سلیمان نے کال اٹینڈ نہیں کی۔۔۔۔ گھنٹی بجتی رہی پھر جب رفعت مایوس ہونے لگی تب اس نے کال اٹینڈ کی تھی۔
ہیلو کیا بات ہے؟ کوئی سلام دعا کئے بغیر سلیمان بولا تھا یوں جیسے اس کا فون کرنا ناگوار گزرا ہو رفعت چپ سی ہوئی۔
کیسے ہیں سلیمان موسم کیسا ہے۔۔۔؟
تم نے یہ بات پوچھنے کے لئے فون کیا ہے؟۔۔۔۔وہ اس پہ بگڑا رفعت خفیف سی ہوئی۔
ہاں میں نے سوچا بات کر لوں آپ سے۔۔۔۔ کمزور سے لہجے میں بولی وہ مزید بپھر گیا تھا۔
تمھیں اور کوئی کام نہیں ہے۔۔۔ فارغ پڑی رہتی ہو اور منہ اٹھا کے کال کر لیتی ہو۔۔۔ پتہ بھی میں یہاں کام کر رہا ہوتا ہوں فارغ نہیں بیٹھا رہتا جس تمھاری فضول باتیں سنو۔۔۔ وہ دھاڑا تھا رفعت پانی پانی ہوئی۔
میرا دل کر رہا تھا بات کرنے کو اس لئے کال کر لی۔۔۔ آنکھوں میں بے مائیگی کے احساس سے آنسو تیرنے لگے تھے وہ پہلے تو ایسا نہیں تھا۔
تم گھر کے کوئی کام کر لو یہاں کے موسموں کے بارے میں جاننا چھوڑ دو۔۔۔ وہ غرایا تھا پھر فون بند کر دیا رفعت دل مسوس کر رہ گئی۔
وہ پہلے ایسا نہیں تھا۔۔۔
شادی کے مہینہ بعد اسے باہر جانا پڑ گیا تھا تو روز کال کرتا تھا وہ گھنٹوں باتیں کرتے تھے یہاں وہاں کی الٹی سیدھی باتیں۔۔۔
لیکن پھر چیزیں بدلنے لگیں اس کی کالز کم سے کم تر ہونے لگیں وہ دوسرے تیسرے دن یا پھر ہفتے میں کال کرنے لگا وہ بات کرنے کو ترس جاتی مگر اس نے کال کرنی ہی چھوڑ دی تھی۔
پھر نوبت یہاں تک آگئی کہ وہ ہفتہ بھر کال نہیں کرتا تھی رفعت مس کرتی تھی تو کال کرلیتی جو پانچ منٹ سے زیادہ کی نہیں ہوتی تھی جس میں اسے وہ باتیں سنا کے ذلیل کر دیتا تھا اس کی عزت دو کوڑی کی کرکے جیسے اسے سکون ملتا تھا۔
جیسے اب ہوا تھا وہ بے چین سی لیٹی رہی آنکھوں مین امڈ آنے والے آنسوؤں کو روکنے کی کوشش کرتی رہی دل بہت بیزار تھا۔
ریحان اپنے کمرے میں بیٹھا لیپ ٹاپ میں کام کر رہا تھا یونیورسٹی کی طرف سے پراجیکٹ ملا تھا جس پہ وہ پچھلے کچھ دیر سے لگا ہوا تھا گھر میں کوئی نہیں تھا امی نانی کی طرف گئی ہوئی تھیں ابو تو دو ہفتوں سے کراچی میں تھے بہنوں کی شادی کے بعد اتنے ہی لوگ رہ گئے تھے گھر میں۔
گیٹ پہ گھنٹی کی آواز سے اس کا انہماک ٹوٹا لیپ ٹاپ یوں ہی چھوڑ کر وہ دروازہ کھول کر باہر آیا اور دروازے کی طرف بڑھا۔
دروازہ کھولنے پہ اسے حیرت آمیز خوشی کا جھٹکا لگا تھا۔۔۔ سامنے رفعت کھڑی تھی سیاہ رنگ کی گوٹے والی شال اوڑھے جس میں اس کا سرخ و سفید چہرہ دمک رہا تھا ستواں ناک چہرے کی دلکشی بڑھا رہی تھی ترشے ہوئے ہونٹ بے حد خوبصورت لگ رہے تھے گورے ہاتھوں میں ایک پیکٹ دبا ہوا تھا۔
تمھاری امی آئیں کہ نہیں؟ رفعت اس کے نظریں خود پہ پاکے ذرا سی پزل ہوئی جلدی سے پوچھا۔
نہیں وہ تو نہیں آئیں۔۔۔ریحان بولا پھر اسے بغور دیکھا وہ شال سختی سے لپیٹے ہوئے تھی مگر شال کے نیچے سے اس کی جوانی اپنی موجودگی کا پتہ دے رہی تھی بھرپور جوان سینہ ابھرا ہوا تھا مگر شال کی وجہ سے واضح نہ تھا ریحان کی دھڑکن ایک لمحے کے لئے تیز ہوئی۔
یہ میں کچھ کپڑے لائی ہوں ان پہ بارڈر لگانی ہے۔۔۔ رفعت بولی اس کی نظروں کو وہ محسوس کر گئی تھی۔
یہ اپنی امی کو دے دینا۔۔۔ وہ جلدی سے بولی پھر اسے دیکھا جو اونچے لمبے قد سے سامنے کھڑا تھا پھر پیکٹ اس کی طرف بڑھا دیا جسے ریحان نے تھاما تھا۔
پیکٹ لیتے وقت اس کی انگلیاں رفعت کے ہاتھ سے مس ہوئیں رفعت نے جلدی سے ہاتھ پیچھے کیا تھا۔
اندر آؤ نا۔۔۔ وہ بولا۔۔۔ شاید امی ابھی آجائیں۔۔ وہ رفعت کے تروتازہ چہرے کو نظروں میں سمونے لگا وہ گھبرا گئی ۔
نہیں۔۔۔ جب وہ آجائینگی تو آؤنگی کپڑے لینے ابھی چلتی ہوں۔۔۔ وہ کپڑے اسے پکڑا کےبولی پھر جلدی سے واپس مڑ گئی۔
اور اپنے گھر کی طرف آئی شام کو آنا تھا کپڑے لینے تب تک اس کی امی بھی آجاتی۔
ریحان اس کی چال کو عقب سے دیکھتا رہا وہ بہت متوازن چال چل رہی تھی شال کمر تک آرہی تھی اس سے نیچے کا بدن اپنی تمام تر شادابی لباس سے چھلکا رہا تھا وہ بہت پتلی نہیں تھی بے حد متوازن تھی شاید فرصت میں بنایا گیا تھا لمبا قد اور مڑی ہوئی کمر تلے صحت مند کولہے ہر اٹھتے قدم کے ساتھ تھرک رہے تھے ریحان نظریں نہیں ہٹا سکا جب وہ اندر چلی گئی تو اس نے بھی گہری سانس لے کر دروازہ بند کر دیا اس حسن میں حصہ دار بننے کی تمنا دل میں پنپنے لگی تھی۔
رفعت گھر واپس آکے کاموں میں مشغول ہو گئی لنچ بھی بنانا تھااور صبح کے کچھ برتن بھی تھے۔۔۔ پھر اسے تار پہ ٹنگے کپڑے یاد آئے تو وہ چونکی اور سیڑھیاں چڑھتی اوپر آگئی۔
دھوپ لگنے سے کپڑے خشک ہو گئے تھے انھیں ایک ایک کر اتار کے بازو پہ ڈالنے لگی نظریں ایک لمحے کے لئے ریحان کے گھر کی طرف گئی تھیں وہ نظر نہیں آیا مگر اس کی نگاہوں کی تپش یاد آئی۔
وہ رک سی گئی سلیمان کو بہت مس کرتی تھی مگر اس کا رویہ تحقیر آمیز تھا۔۔
اس کا دل کیا سلیمان کو پھر کال کرے مگر وہ پھر سے بے عزت کر کے رکھ دیتا اس کا دل کھٹا ہونے لگا۔
نیچے آکر وہ بے دلی سے کھانا بنانے لگی شادی کے بعد مرد کا ساتھ ہر عورت کا حق ہے جو اسے بھرپور طریقے سے ملنا چاہئیے مگر وہ ڈھنگ سے بات کرنے کا روادار بھی نا تھا رفعت کے ہاتھ سے ایک کپ گر کے ٹوٹ گیا وہ جھنجلا سی گئی۔
ریحان ایک بار پھر سوچوں میں در آیا وہ چھبیس کی تھی ریحان شاید چوبیس کا ہوگا وہ اس کے بارے میں سوچنے لگی پھر خود ہی شرمندہ ہوگئی ایسا سوچنا ہی کیوں اس نے خود کو کوسا۔۔
مگر وہ خود کو سوچنے سے روک نہیں پا رہی تھی شوہر کی بے پرواہی نے اسے نفسیاتی الجھن کا شکار کر دیا تھا بدن میں اینٹھن سی ہو رہی تھی ریحان کئی بار ان کے بھی کئی کام کر دیا کرتا تھا بازار سے کچھ منگوانا ہوتا تو وہ اسے بول دیتی تھیں۔
ندا بھی آکر اس کا ہاتھ بٹانے لگی وہ کالج میں پڑھتی تھی رفعت اس پہ کام کا زیادہ بوجھ نہیں ڈالتی تھی۔۔۔ ویسے بھی اگلے ہفتے اس کی منگنی تھی اس لئے وہ اسے کام سے معاف ہی کرتی تھی۔۔وہ کام چور نہیں تھی اسے گھر کے کاموں سے جی چرانا پسند نہیں تھا مگر سلیمان کا خیال تھا کہ وہ سوئی رہتی ہے اور وقت بے وقت اسے کالیں کرتی ہے۔
ریحان سہہ پہر کو سو گیا تھا۔۔۔ آنکھ کھلی تو باہر سے باتوں کی آواز آرہی تھی۔۔۔ وہ کسلمندی سے اٹھا اور دروازہ کھول کر ہلکی سی جھری بنائی اور باہر جھانکا۔۔۔ رفعت اماں کی ساتھ بیٹھی ہوئی تھی دونوں نا جانے کیا باتیں کر رہی تھیں وہ واپس بیڈ پہ لیٹ گیا اور موبائل میں میسجز دیکھنے لگا۔
ریحان سو رہا ہے اٹھ جائے تو میں اسے کہتی ہوں ایسی لیس لے آئیگا یا پھر تم خود اس کے ساتھ چلی جانا۔۔۔ وہ بولیں رفعت تذبذب میں پڑ گئی۔
وہ تھوڑی دیر پہلے ان کے گھر آئی تھی ریحان کی امی آ چکی تھیں رفعت کو اپنا ڈریس تیار چاہئیے تھا اگلے ہفتے ندا کی منگنی تھی باقی سارے ڈریس تیار ہو گئے تھے مگر ایک رہتا تھا جس پہ بارڈر لگوانی تھی جس کے لئے وہ یہاں آئی تھی آنٹی یہ کام اچھے سے کرتی تھیں مگر ان کے پاس بارڈر ختم ہو گئی تھی۔
ریحان کب اٹھیگا آنٹی؟ وہ پوچھنے لگی شام ہونے لگی تھی پھر دیر ہو جاتی جانے میں ابھی جانے کا وقت تھا۔
اٹھ جائیںگا بیٹا۔۔۔ آنٹی جو باہر جانے لگی تھیں رکیں۔۔ یا تم خود ہی اسے جگا دو تمھارا اپنا گھر ہے۔۔ وہ بولیں پھر باہر نکل گئیں رفعت متذبذب سی بیٹھی رہی پھر ہمت کر کے اٹھی اور اس کے کمرے کی طرف آئی۔
دروازے پہ ہلکا سا دباؤ ڈالا تو وہ کھل گیا اسے لگا دروازہ بند ہوگا وہ اپنے بیڈ پہ سیدھا لیٹا ہوا جاگ رہا تھا اسے دیکھ کے بیٹھ گیا رفعت جھجکی۔
کیا بات ہے؟ رفعت کو سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا جو دروازہ کھول کے وہیں کھڑی رہ گئی تھی جیسے قدم اٹھانا بھول گئی ہو۔۔
بولو نا کیا بات ہے؟ ریحان نے اسے گہری نظروں سے دیکھا وہ اس وقت شلوار قمیض میں تھی لائٹ بلیو کلر کی عمدہ پرنٹ والی قمیض اور کھلی سی سیاہ شلوار پہنے ہوئے تھی جس کے پائینچے قدرے تنگ تھے سادہ سی لباس میں بھی بھلی لگ رہی تھی موزوں سی دلفریب چھاتیاں سینے پہ آرام کر رہی تھیں اور پیٹ ہمیشہ کی طرح ہموار تھا ریحان نے نظریں چرا کے اس کی آنکھوں میں جھانکا اس سے زیادہ بھرپور جوانی کم ہی لڑکیوں کے نصیب میں ہوتی ہے جو چھپائے نا چھپے۔
ایسی لڑکیاں چاہے جیسا بھی لباس پہن لیں ان کا بدن لباس کے نیچے سے خاموشی سے بتا دیتا ہے کہ وہ بھر پور جوان ہیں اور بے حد خوبصورت۔۔۔۔
مارکیٹ چلیں؟ رفعت بولی معلوم نہیں کیوں دل دھڑک اٹھا تھا
مارکیٹ کیوں جانا ہے؟ ریحان اس سے نظریں نہیں ہٹا پا رہا تھا وہ نسوانی حسن کا شاہکار تھی۔
وہ آنٹی کے پاس لیس ختم ہوگئی ہے تو وہ لینے جانا ہے اور میں اپنے لئے میک اپ کی کچھ آئیٹمز بھی لے لونگی۔۔۔ وہ لجاجت سے بولی اس کی طرف نہیں دیکھ رہی تھی ریحان نے لمبی سانس لی۔
مگر جائینگے کیسے؟ بائیک پہ چل پاؤگی تم؟ وہ استفسار کرنے لگا گاڑی ابو لے گئے تھے لے دے کے بائیک ہی بچی تھی۔
رفعت نے سر ہلایا چلی جاؤنگی۔۔ نو پرابلم۔۔ یا پھر رکشہ منگوا لینا۔
اوکے لے چلونگا۔۔۔ میں منہ دھو کے کپڑے بدل لوں تم باہر بیٹھو۔۔۔ اس نے ہامی بھری پھر اٹھ کر واش روم میں چلا گیا تو رفعت باہر آگئی وہ یہاں اکثر آتی تھی گھر اس کا دیکھا بھالا تھا ان دنوں ریحان ہاسٹل میں ہوتا تھا۔
ایک بار اس کا دل کیا گھر جا کے ندا اور امی کو بتا دے کہ وہ مارکیٹ جا رہی ہے پھر ارادہ ملتوی کر دیا اس سے فرق نہیں پڑتا تھا اسے کے آنے جانے پہ روک ٹوک نہیں تھی۔
سہہ پہر ڈھل رہی تھی دھوپ میں تپش باقی نہیں رہی تھی وہ لان میں آئی تو آنٹی وہاں پودوں کو پانی دے رہی تھیں۔
جگا دیا ریحان کو؟ انھوں نے اسے باہر آتے دیکھ کے پوچھا تھا ہاتھ میں پائپ پکڑا ہوا تھا۔
جی آنٹی وہ لے کے جا رہا ہے۔۔۔ وہ بولی پھر لان میں پڑی کرسی پہ آبیٹھی۔
ریحان اندر سے بٹن بند کرتا آیا بال سلیقے سے سلجھے ہوئے تھے وہ اونچے قد کا بے حد مضبوط جسامت کا نوجوان تھا بازو لوہے کے راڈز کی طرح تھے اور کندھے چوڑے تھے رنگت قدرے صاف تھی اور نقوش تیکھے تھے مجموعی طور پر بے حد وجیہہ انسان تھا۔
چلو۔۔۔ اسے اشارہ کرتا وہ گیٹ کھولنے لگا اور بائیک سٹارٹ کر دی۔
اپنا چھوٹا سا پرس اس کے پاس تھا وہ جھجکتی ہوئی سی آکے اس کے پیچھے بیٹھ گئی وہ لڑکیوں کے انداز میں بیٹھی تھی سمٹ کے اپنی ٹانگیں ایک ہی طرف کر کے۔
کیا تم کبھی بائیک پہ نہیں بیٹھی؟ کچھ دور آنے کے بعد ریحان بولا تھا وہ چونکی۔
کیوں؟
کیونکہ تم کنارے پہ بیٹھی ہو۔۔ کسی بھی وقت گر جاؤگی۔۔۔ اپنی تشریف تھوڑی اس طرف کرلو۔۔۔ ٹھیک سے بیٹھو اور مجھے بھی پکڑ لو۔۔۔ وہ بولا رفعت شرمندہ سی ہو گئی وہ واقعی بہت سا فاصلہ رکھ کے سیٹ کے کنارے پہ بیٹھی تھی تھوڑا کھسک کر اس کی طرف ہوئی پھر ہاتھ اس کے کندھے پہ رکھ دیا۔
اسے یوں چھونا جسم میں عجیب سی لہر دوڑا گیا جیسا بھی تھا وہ مرد تھا اس کے یوں ساتھ لگ کے بیٹھنا اسے بے چین کرنے لگا رفعت کو لگا اس کے کانوں کی لوئیں تپنے لگی ہیں۔
ایک جگہ ریحان نے ٹریفک میں بریک لگائی تو رفعت اس کے ساتھ آلگی اس کی نرم چھاتیوں کا احساس ریحان کو اپنی پشت پہ ہوا تھا وہ ہونٹ بھینچ کر ڈرائیونگ پہ توجہ مرکوز کرنے کی کوشش کرنے لگا دل بے لگام ہو رہا تھا۔
پیچھے بیٹھی رفعت کا دل بے طرح دھڑک رہا تھا کچھ منہ زور جذبے انگڑائی لے کر بیدار ہوئے تھے۔
مارکیٹ پہنچ کر ریحان نے بائیک روکی تو وہ کسمسا کے جلدی سے اتری تھی۔
جاری ہے۔۔۔
اس نے کل شام کو کچھ کپڑے دھو کے تار پہ ڈالے تھے جنہیں اتارنا بھول گئی تھی۔۔۔چھت پہ آ کے اس نے تار پہ لٹکتے کپڑوں کو چھوا اور دل مسوس کر رہ گئی رات بھر اوس برستی رہی تھی کپڑے پھر سے نم ہو گئے تھے آج دن کو ان کا یوں ہی تار پہ رہنا ضروری تھا تاکہ خشک ہو جاتے۔
وہ کپڑوں کو الٹنے پلٹنے میں مصروف تھی کہ ساتھ والی چھت سے سیٹی کی ہلکی آواز آئی رفعت چونکی پھر اس طرف دیکھا تو ریحان کھڑا تھا۔۔۔ شرٹ کے کئی بٹن کھلے ہوئے تھے اور بال الجھے ہوئے تھے شاید ابھی ابھی جاگا تھا۔
یہ درمیانے درجے کی کالونی تھی زیادہ تر گھر دو منزلہ اور ایک ہی انداز میں بنے ہوئے تھے چھتوں کے درمیان زیادہ فاصلے نہیں تھے۔
کیا چھچوری حرکتیں کرتے ہو تم ریحان۔۔۔ منہ بنا کے بولی وہ دیوار پہ کہنیاں ٹکا کے اسے دیکھنے لگا۔
کیا کیا ہے میں نے؟ وہ پوچھنے لگا۔۔۔۔ رفعت نے ایک نظر اس کے حلیے پہ ڈالی وہ اونچی قد اور مضبوط جسامت کا خوش شکل نوجوان تھا۔
یہ سیٹی جو بجائی تم نے۔۔۔ وہ اسے گھور کر رہ گئی۔۔۔۔ تمھاری امی کہاں ہیں؟ پھر اس سے پوچھا تھا۔
ماموں کے گھر گئی ہیں۔۔۔کیوں؟۔۔۔ وہ بولا۔
مجھے کچھ کام تھا ان سے۔۔۔
بھابی نیچے آجائیں۔۔۔۔ اس کی نند ندا کی آواز آئی تو وہ چونکی پھر ایک نظر اس پہ ڈالی اور نیچے کی طرف بڑھ گئی۔
ریحان اسے نیچے جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔۔۔۔ پھر لمبی سانس لی۔۔۔ صبح صبح اتنی خوبصورت لڑکی کو دیکھنے کے بعد دن بہت اچھا گزرنے والا تھا۔
جب سے وہ بیاہ کے آئی تھی محلے میں اس کے چرچے ہوئے تھے بلاشبہ وہ بہت خوبصورت تھی سرخ و سفید شہابی رنگت میانہ قد اور تیکھا ناک نقشہ۔۔۔متناسب بدن سانچے میں ڈھلا ہوا تھا اور سینے کی اٹھان ہر ایک کا دل دہلاتی تھی بھورے بالوں کی آبشار شور مچاتی کمر پہ گرتی تھی۔
وہ چند ان لڑکیوں میں آتی تھی جنھیں دیکھ کے دیکھتے رہنے کو دل کرتا ہے نگاہ ان کے جوبن پہ ٹھہر جاتی تھی شادی کے بعد بھی اس کی حسن کی شادابی پہ فرق نہیں پڑا تھا بلکہ چہرا بھرا بھرا سا مزید ترو تازہ ہو گیا تھا پہلے بہت دبلی پتلی تھی اب ذرا سی صحتمند ہوگئی تھی جسم پہ بوٹی چڑھ گئی تھی مگر بدن کا توازن برقرار تھا۔۔۔ ریحان کو وہ ہمیشہ بہت پر کشش لگتی تھی۔
رفعت نیچے آئی تو ندا مزید پھیلاوا پھیلانے کے موڈ میں تھی شیلف سے کئی برتن نکال کے کاؤنٹر پر ڈھیر کر رہی تھی جنھیں دھو کے واپس شیلف میں رکھنا تھا۔
کہاں گئی تھیں بھابی۔۔۔ ندا پوچھنے لگی رفعت نے منہ بنایا۔
اوپر گئی تھی تار سے کپڑے اتارنے۔۔ مگر ابھی تک گیلے ہیں۔۔۔ اماں کہاں ہیں؟ اس نے پوچھا۔۔
کمرے میں ہیں لیٹی ہوئی ہیں۔۔۔ ندا بولی رفعت نے سر ہلایا تھا۔
آج اتوار تھا ندا گھر میں ہی تھی۔۔۔ اور اماں کمرے میں۔
اس گھر میں کل یہی تین ہی تو نفوس تھے۔۔
اس کے شوہر سلیمان کو مسقط گئے سال ہونے کو تھا وہ شادی کے ایک مہینہ بعد ہی مسقط چلا گیا تھا جہاں اس کی بہت اچھی جاب تھی۔
وہ سر جھٹک کر کام کرنے لگی۔
سارے کام نمٹا کر وہ کمرے میں آ لیٹی اور فون نکالا واٹس ایپ دیکھا تو سلیمان آن لائن تھا مسقط میں شاید ابھی صبح ہوئی ہوگی وہ مسکرائی پھر اسے کال ملا کے کروٹ بدل گئی۔
فون کی گھنٹی بجی تھی۔۔۔ پر سلیمان نے کال اٹینڈ نہیں کی۔۔۔۔ گھنٹی بجتی رہی پھر جب رفعت مایوس ہونے لگی تب اس نے کال اٹینڈ کی تھی۔
ہیلو کیا بات ہے؟ کوئی سلام دعا کئے بغیر سلیمان بولا تھا یوں جیسے اس کا فون کرنا ناگوار گزرا ہو رفعت چپ سی ہوئی۔
کیسے ہیں سلیمان موسم کیسا ہے۔۔۔؟
تم نے یہ بات پوچھنے کے لئے فون کیا ہے؟۔۔۔۔وہ اس پہ بگڑا رفعت خفیف سی ہوئی۔
ہاں میں نے سوچا بات کر لوں آپ سے۔۔۔۔ کمزور سے لہجے میں بولی وہ مزید بپھر گیا تھا۔
تمھیں اور کوئی کام نہیں ہے۔۔۔ فارغ پڑی رہتی ہو اور منہ اٹھا کے کال کر لیتی ہو۔۔۔ پتہ بھی میں یہاں کام کر رہا ہوتا ہوں فارغ نہیں بیٹھا رہتا جس تمھاری فضول باتیں سنو۔۔۔ وہ دھاڑا تھا رفعت پانی پانی ہوئی۔
میرا دل کر رہا تھا بات کرنے کو اس لئے کال کر لی۔۔۔ آنکھوں میں بے مائیگی کے احساس سے آنسو تیرنے لگے تھے وہ پہلے تو ایسا نہیں تھا۔
تم گھر کے کوئی کام کر لو یہاں کے موسموں کے بارے میں جاننا چھوڑ دو۔۔۔ وہ غرایا تھا پھر فون بند کر دیا رفعت دل مسوس کر رہ گئی۔
وہ پہلے ایسا نہیں تھا۔۔۔
شادی کے مہینہ بعد اسے باہر جانا پڑ گیا تھا تو روز کال کرتا تھا وہ گھنٹوں باتیں کرتے تھے یہاں وہاں کی الٹی سیدھی باتیں۔۔۔
لیکن پھر چیزیں بدلنے لگیں اس کی کالز کم سے کم تر ہونے لگیں وہ دوسرے تیسرے دن یا پھر ہفتے میں کال کرنے لگا وہ بات کرنے کو ترس جاتی مگر اس نے کال کرنی ہی چھوڑ دی تھی۔
پھر نوبت یہاں تک آگئی کہ وہ ہفتہ بھر کال نہیں کرتا تھی رفعت مس کرتی تھی تو کال کرلیتی جو پانچ منٹ سے زیادہ کی نہیں ہوتی تھی جس میں اسے وہ باتیں سنا کے ذلیل کر دیتا تھا اس کی عزت دو کوڑی کی کرکے جیسے اسے سکون ملتا تھا۔
جیسے اب ہوا تھا وہ بے چین سی لیٹی رہی آنکھوں مین امڈ آنے والے آنسوؤں کو روکنے کی کوشش کرتی رہی دل بہت بیزار تھا۔
ریحان اپنے کمرے میں بیٹھا لیپ ٹاپ میں کام کر رہا تھا یونیورسٹی کی طرف سے پراجیکٹ ملا تھا جس پہ وہ پچھلے کچھ دیر سے لگا ہوا تھا گھر میں کوئی نہیں تھا امی نانی کی طرف گئی ہوئی تھیں ابو تو دو ہفتوں سے کراچی میں تھے بہنوں کی شادی کے بعد اتنے ہی لوگ رہ گئے تھے گھر میں۔
گیٹ پہ گھنٹی کی آواز سے اس کا انہماک ٹوٹا لیپ ٹاپ یوں ہی چھوڑ کر وہ دروازہ کھول کر باہر آیا اور دروازے کی طرف بڑھا۔
دروازہ کھولنے پہ اسے حیرت آمیز خوشی کا جھٹکا لگا تھا۔۔۔ سامنے رفعت کھڑی تھی سیاہ رنگ کی گوٹے والی شال اوڑھے جس میں اس کا سرخ و سفید چہرہ دمک رہا تھا ستواں ناک چہرے کی دلکشی بڑھا رہی تھی ترشے ہوئے ہونٹ بے حد خوبصورت لگ رہے تھے گورے ہاتھوں میں ایک پیکٹ دبا ہوا تھا۔
تمھاری امی آئیں کہ نہیں؟ رفعت اس کے نظریں خود پہ پاکے ذرا سی پزل ہوئی جلدی سے پوچھا۔
نہیں وہ تو نہیں آئیں۔۔۔ریحان بولا پھر اسے بغور دیکھا وہ شال سختی سے لپیٹے ہوئے تھی مگر شال کے نیچے سے اس کی جوانی اپنی موجودگی کا پتہ دے رہی تھی بھرپور جوان سینہ ابھرا ہوا تھا مگر شال کی وجہ سے واضح نہ تھا ریحان کی دھڑکن ایک لمحے کے لئے تیز ہوئی۔
یہ میں کچھ کپڑے لائی ہوں ان پہ بارڈر لگانی ہے۔۔۔ رفعت بولی اس کی نظروں کو وہ محسوس کر گئی تھی۔
یہ اپنی امی کو دے دینا۔۔۔ وہ جلدی سے بولی پھر اسے دیکھا جو اونچے لمبے قد سے سامنے کھڑا تھا پھر پیکٹ اس کی طرف بڑھا دیا جسے ریحان نے تھاما تھا۔
پیکٹ لیتے وقت اس کی انگلیاں رفعت کے ہاتھ سے مس ہوئیں رفعت نے جلدی سے ہاتھ پیچھے کیا تھا۔
اندر آؤ نا۔۔۔ وہ بولا۔۔۔ شاید امی ابھی آجائیں۔۔ وہ رفعت کے تروتازہ چہرے کو نظروں میں سمونے لگا وہ گھبرا گئی ۔
نہیں۔۔۔ جب وہ آجائینگی تو آؤنگی کپڑے لینے ابھی چلتی ہوں۔۔۔ وہ کپڑے اسے پکڑا کےبولی پھر جلدی سے واپس مڑ گئی۔
اور اپنے گھر کی طرف آئی شام کو آنا تھا کپڑے لینے تب تک اس کی امی بھی آجاتی۔
ریحان اس کی چال کو عقب سے دیکھتا رہا وہ بہت متوازن چال چل رہی تھی شال کمر تک آرہی تھی اس سے نیچے کا بدن اپنی تمام تر شادابی لباس سے چھلکا رہا تھا وہ بہت پتلی نہیں تھی بے حد متوازن تھی شاید فرصت میں بنایا گیا تھا لمبا قد اور مڑی ہوئی کمر تلے صحت مند کولہے ہر اٹھتے قدم کے ساتھ تھرک رہے تھے ریحان نظریں نہیں ہٹا سکا جب وہ اندر چلی گئی تو اس نے بھی گہری سانس لے کر دروازہ بند کر دیا اس حسن میں حصہ دار بننے کی تمنا دل میں پنپنے لگی تھی۔
رفعت گھر واپس آکے کاموں میں مشغول ہو گئی لنچ بھی بنانا تھااور صبح کے کچھ برتن بھی تھے۔۔۔ پھر اسے تار پہ ٹنگے کپڑے یاد آئے تو وہ چونکی اور سیڑھیاں چڑھتی اوپر آگئی۔
دھوپ لگنے سے کپڑے خشک ہو گئے تھے انھیں ایک ایک کر اتار کے بازو پہ ڈالنے لگی نظریں ایک لمحے کے لئے ریحان کے گھر کی طرف گئی تھیں وہ نظر نہیں آیا مگر اس کی نگاہوں کی تپش یاد آئی۔
وہ رک سی گئی سلیمان کو بہت مس کرتی تھی مگر اس کا رویہ تحقیر آمیز تھا۔۔
اس کا دل کیا سلیمان کو پھر کال کرے مگر وہ پھر سے بے عزت کر کے رکھ دیتا اس کا دل کھٹا ہونے لگا۔
نیچے آکر وہ بے دلی سے کھانا بنانے لگی شادی کے بعد مرد کا ساتھ ہر عورت کا حق ہے جو اسے بھرپور طریقے سے ملنا چاہئیے مگر وہ ڈھنگ سے بات کرنے کا روادار بھی نا تھا رفعت کے ہاتھ سے ایک کپ گر کے ٹوٹ گیا وہ جھنجلا سی گئی۔
ریحان ایک بار پھر سوچوں میں در آیا وہ چھبیس کی تھی ریحان شاید چوبیس کا ہوگا وہ اس کے بارے میں سوچنے لگی پھر خود ہی شرمندہ ہوگئی ایسا سوچنا ہی کیوں اس نے خود کو کوسا۔۔
مگر وہ خود کو سوچنے سے روک نہیں پا رہی تھی شوہر کی بے پرواہی نے اسے نفسیاتی الجھن کا شکار کر دیا تھا بدن میں اینٹھن سی ہو رہی تھی ریحان کئی بار ان کے بھی کئی کام کر دیا کرتا تھا بازار سے کچھ منگوانا ہوتا تو وہ اسے بول دیتی تھیں۔
ندا بھی آکر اس کا ہاتھ بٹانے لگی وہ کالج میں پڑھتی تھی رفعت اس پہ کام کا زیادہ بوجھ نہیں ڈالتی تھی۔۔۔ ویسے بھی اگلے ہفتے اس کی منگنی تھی اس لئے وہ اسے کام سے معاف ہی کرتی تھی۔۔وہ کام چور نہیں تھی اسے گھر کے کاموں سے جی چرانا پسند نہیں تھا مگر سلیمان کا خیال تھا کہ وہ سوئی رہتی ہے اور وقت بے وقت اسے کالیں کرتی ہے۔
ریحان سہہ پہر کو سو گیا تھا۔۔۔ آنکھ کھلی تو باہر سے باتوں کی آواز آرہی تھی۔۔۔ وہ کسلمندی سے اٹھا اور دروازہ کھول کر ہلکی سی جھری بنائی اور باہر جھانکا۔۔۔ رفعت اماں کی ساتھ بیٹھی ہوئی تھی دونوں نا جانے کیا باتیں کر رہی تھیں وہ واپس بیڈ پہ لیٹ گیا اور موبائل میں میسجز دیکھنے لگا۔
ریحان سو رہا ہے اٹھ جائے تو میں اسے کہتی ہوں ایسی لیس لے آئیگا یا پھر تم خود اس کے ساتھ چلی جانا۔۔۔ وہ بولیں رفعت تذبذب میں پڑ گئی۔
وہ تھوڑی دیر پہلے ان کے گھر آئی تھی ریحان کی امی آ چکی تھیں رفعت کو اپنا ڈریس تیار چاہئیے تھا اگلے ہفتے ندا کی منگنی تھی باقی سارے ڈریس تیار ہو گئے تھے مگر ایک رہتا تھا جس پہ بارڈر لگوانی تھی جس کے لئے وہ یہاں آئی تھی آنٹی یہ کام اچھے سے کرتی تھیں مگر ان کے پاس بارڈر ختم ہو گئی تھی۔
ریحان کب اٹھیگا آنٹی؟ وہ پوچھنے لگی شام ہونے لگی تھی پھر دیر ہو جاتی جانے میں ابھی جانے کا وقت تھا۔
اٹھ جائیںگا بیٹا۔۔۔ آنٹی جو باہر جانے لگی تھیں رکیں۔۔ یا تم خود ہی اسے جگا دو تمھارا اپنا گھر ہے۔۔ وہ بولیں پھر باہر نکل گئیں رفعت متذبذب سی بیٹھی رہی پھر ہمت کر کے اٹھی اور اس کے کمرے کی طرف آئی۔
دروازے پہ ہلکا سا دباؤ ڈالا تو وہ کھل گیا اسے لگا دروازہ بند ہوگا وہ اپنے بیڈ پہ سیدھا لیٹا ہوا جاگ رہا تھا اسے دیکھ کے بیٹھ گیا رفعت جھجکی۔
کیا بات ہے؟ رفعت کو سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا جو دروازہ کھول کے وہیں کھڑی رہ گئی تھی جیسے قدم اٹھانا بھول گئی ہو۔۔
بولو نا کیا بات ہے؟ ریحان نے اسے گہری نظروں سے دیکھا وہ اس وقت شلوار قمیض میں تھی لائٹ بلیو کلر کی عمدہ پرنٹ والی قمیض اور کھلی سی سیاہ شلوار پہنے ہوئے تھی جس کے پائینچے قدرے تنگ تھے سادہ سی لباس میں بھی بھلی لگ رہی تھی موزوں سی دلفریب چھاتیاں سینے پہ آرام کر رہی تھیں اور پیٹ ہمیشہ کی طرح ہموار تھا ریحان نے نظریں چرا کے اس کی آنکھوں میں جھانکا اس سے زیادہ بھرپور جوانی کم ہی لڑکیوں کے نصیب میں ہوتی ہے جو چھپائے نا چھپے۔
ایسی لڑکیاں چاہے جیسا بھی لباس پہن لیں ان کا بدن لباس کے نیچے سے خاموشی سے بتا دیتا ہے کہ وہ بھر پور جوان ہیں اور بے حد خوبصورت۔۔۔۔
مارکیٹ چلیں؟ رفعت بولی معلوم نہیں کیوں دل دھڑک اٹھا تھا
مارکیٹ کیوں جانا ہے؟ ریحان اس سے نظریں نہیں ہٹا پا رہا تھا وہ نسوانی حسن کا شاہکار تھی۔
وہ آنٹی کے پاس لیس ختم ہوگئی ہے تو وہ لینے جانا ہے اور میں اپنے لئے میک اپ کی کچھ آئیٹمز بھی لے لونگی۔۔۔ وہ لجاجت سے بولی اس کی طرف نہیں دیکھ رہی تھی ریحان نے لمبی سانس لی۔
مگر جائینگے کیسے؟ بائیک پہ چل پاؤگی تم؟ وہ استفسار کرنے لگا گاڑی ابو لے گئے تھے لے دے کے بائیک ہی بچی تھی۔
رفعت نے سر ہلایا چلی جاؤنگی۔۔ نو پرابلم۔۔ یا پھر رکشہ منگوا لینا۔
اوکے لے چلونگا۔۔۔ میں منہ دھو کے کپڑے بدل لوں تم باہر بیٹھو۔۔۔ اس نے ہامی بھری پھر اٹھ کر واش روم میں چلا گیا تو رفعت باہر آگئی وہ یہاں اکثر آتی تھی گھر اس کا دیکھا بھالا تھا ان دنوں ریحان ہاسٹل میں ہوتا تھا۔
ایک بار اس کا دل کیا گھر جا کے ندا اور امی کو بتا دے کہ وہ مارکیٹ جا رہی ہے پھر ارادہ ملتوی کر دیا اس سے فرق نہیں پڑتا تھا اسے کے آنے جانے پہ روک ٹوک نہیں تھی۔
سہہ پہر ڈھل رہی تھی دھوپ میں تپش باقی نہیں رہی تھی وہ لان میں آئی تو آنٹی وہاں پودوں کو پانی دے رہی تھیں۔
جگا دیا ریحان کو؟ انھوں نے اسے باہر آتے دیکھ کے پوچھا تھا ہاتھ میں پائپ پکڑا ہوا تھا۔
جی آنٹی وہ لے کے جا رہا ہے۔۔۔ وہ بولی پھر لان میں پڑی کرسی پہ آبیٹھی۔
ریحان اندر سے بٹن بند کرتا آیا بال سلیقے سے سلجھے ہوئے تھے وہ اونچے قد کا بے حد مضبوط جسامت کا نوجوان تھا بازو لوہے کے راڈز کی طرح تھے اور کندھے چوڑے تھے رنگت قدرے صاف تھی اور نقوش تیکھے تھے مجموعی طور پر بے حد وجیہہ انسان تھا۔
چلو۔۔۔ اسے اشارہ کرتا وہ گیٹ کھولنے لگا اور بائیک سٹارٹ کر دی۔
اپنا چھوٹا سا پرس اس کے پاس تھا وہ جھجکتی ہوئی سی آکے اس کے پیچھے بیٹھ گئی وہ لڑکیوں کے انداز میں بیٹھی تھی سمٹ کے اپنی ٹانگیں ایک ہی طرف کر کے۔
کیا تم کبھی بائیک پہ نہیں بیٹھی؟ کچھ دور آنے کے بعد ریحان بولا تھا وہ چونکی۔
کیوں؟
کیونکہ تم کنارے پہ بیٹھی ہو۔۔ کسی بھی وقت گر جاؤگی۔۔۔ اپنی تشریف تھوڑی اس طرف کرلو۔۔۔ ٹھیک سے بیٹھو اور مجھے بھی پکڑ لو۔۔۔ وہ بولا رفعت شرمندہ سی ہو گئی وہ واقعی بہت سا فاصلہ رکھ کے سیٹ کے کنارے پہ بیٹھی تھی تھوڑا کھسک کر اس کی طرف ہوئی پھر ہاتھ اس کے کندھے پہ رکھ دیا۔
اسے یوں چھونا جسم میں عجیب سی لہر دوڑا گیا جیسا بھی تھا وہ مرد تھا اس کے یوں ساتھ لگ کے بیٹھنا اسے بے چین کرنے لگا رفعت کو لگا اس کے کانوں کی لوئیں تپنے لگی ہیں۔
ایک جگہ ریحان نے ٹریفک میں بریک لگائی تو رفعت اس کے ساتھ آلگی اس کی نرم چھاتیوں کا احساس ریحان کو اپنی پشت پہ ہوا تھا وہ ہونٹ بھینچ کر ڈرائیونگ پہ توجہ مرکوز کرنے کی کوشش کرنے لگا دل بے لگام ہو رہا تھا۔
پیچھے بیٹھی رفعت کا دل بے طرح دھڑک رہا تھا کچھ منہ زور جذبے انگڑائی لے کر بیدار ہوئے تھے۔
مارکیٹ پہنچ کر ریحان نے بائیک روکی تو وہ کسمسا کے جلدی سے اتری تھی۔
جاری ہے۔۔۔