Ad Blocker Detection
Please turn off your ad blocker otherwise you won't be able to access Urdu Story World. Thanks!

Welcome!

اردو ورلڈ کے نمبر ون فورم پر خوش آمدید۔ ہر قسم کی بہترین اردو کہانیوں کا واحد فورم جہاں ہر قسم کی کہانیاں پڑھنے کو ملیں گی۔

Register Now
  • پریمیم ممبرشپ

    سالانہ ممبرشپ ۔۔۔۔ 95 ڈالرز

    وی آئی پی پلس ممبرشپ

    سالانہ ممبرشپ ۔۔۔۔ 7000

    وی آئی پی ممبر شپ

    تین ماہ ۔۔۔۔ 2350

    نوٹ: صرف وی آئی پی ممبرشپ 1000 ماہانہ میں دستیاب ہے

    WhatsApp رابطہ

    +1 540 569 0386

Sex Story بازیگر /باز گشت از قلم قلمی مزدور پارٹ 2

Status
Not open for further replies.

Man mojiMan moji is verified member.

Staff member
Super Mod
Joined
Dec 24, 2022
Messages
7,318
Reaction score
206,412
Points
113
Location
pakistan
Gender
Male
Offline













بازگشت & بازیگر
قسط نمبر چھیالیس
رائٹر قلمی مزدور
کبھی ہم بھی خوبصورت تھے کبھی ہم بھی جوان لونڈے تھے۔ ارسلان کا مزاج جیسے عجیب سا ہو رہا تھا وہ بے ربط گنگنا رہا تھا۔۔۔ جیسے ہانڈی کو ابال آ رہا ہو۔۔۔ مجھے لگا کہ جلد یا بدیر ارسلان کھلے گا اور اپنا آپ بتائے گا۔۔۔۔ میرا وجدان کہہ
رہا تھا اس گہرے بندے کے دکھ بھی گہرے ہونگے
الحلوة
رات کافی بھیگ چکی تھی جب میں وہاں سے نکلا اور نیچے
میں
آکر دوسرے کمرے میں سو گیا۔۔۔ اگلے دن میری آنکھ کھلی تو کومل ہنوز سو رہی تھی۔۔۔ قتل والی رات کا رتجگا مما کے قتل کا دکھ تھکاوٹ اور نیند کی گولی میں اوپر جا کر نہا دھویا اور کافی کا کپ لیکر قریب دھری کرسی پہ جا بیٹھا۔۔۔ ارسلان رے آنے سے پہلے جاگ کر کہیں جا چکا تھا۔۔۔ میں کافی پیتا اسکا انتظار کرتا رہا۔ اچانک دروازے پر دستک ہوئی اور آفس
بوائے نے کہا کہ سر آپکے لیے فون ہے۔۔۔میرے لیے میں نے حیرت سے پوچھا ۔۔ جی سر آپکے لیے غیر ملکی کال ہے۔۔ مجھے باہر سے کون کال کر سکتا ہے اوکے کرو ٹرانسفر۔۔۔ کچھ دیر 
بعد گھنٹی بجی ۔۔۔ میں نے فون ریسیو کیا ہیلو کون۔۔۔ ہوئے جنکے دیوانے ہم وہ پوچھتے ہیں کون ہیں ہم ۔۔یہ سمیعہ میڈم تھیں۔۔۔میڈم آپ میں جیسے خوشی سے اچھل ہی پڑا۔۔ جسے
برسات سے پتے دھل جائیں ویسے میرے مزاج کی کلفت اداسی بیزاری ختم ہوئی
باا اے شہزادے ہم ہی ہیں تمہاری جانم بیگم ۔۔۔ سمیعہ کا لہجہ خوشگوار تھا۔۔۔ کہاں ہیں آپ جانتی ہیں کتنے مہینوں بعد رابطہ کیا آپ نے۔۔ جانتی ہیں کن مشکلوں میں گم رہا میں۔۔۔ میں بچوں کی طرح شکوہ کرنے لگا۔۔ اوئے ہوئے بالی میرے چندا ناراض تو نا ہو نا۔۔ سمیعہ نے مجھے پچکارا۔۔ بہت برا پھنسی ہوئی تھی ورنہ میں خود تڑپ رہی ہوں تمہارے لیے اور وہ مدہم سرگوشی میں بولیں۔۔ اوور میں نے مزید پوچھا۔۔۔
میں تڑپ رہی ہوں اور وہ پھڑک رہی ہے ۔۔ اففف سمیعہ کا وہ بولڈ جملہ میرے کان سرخ کر گیا۔۔ انکے ساتھ گزرے لمحے انکا بدن انکی نی سسکیاں انکا شانہ اور انکی دلفریب کن.... کنٹ۔۔۔میں جیسے بن پئے ہی مدہوش سا ہونے کو تھا۔۔تو کب آ رہی یا بلا رہی ہیں میں نے شدت سے کہا۔۔ اس سمے میں سب کچھ بھولا ہوا تھا سب دکھ غم فکریں۔۔۔ کجلا اور سمیعہ وہ دو خواتین 
تھیں جن سے میرا جسم کا نہیں دل کا تعلق تھا۔۔ لگن تھی چاہت تھی جذبہ تھا۔۔۔ میری طاقت تھیں میری معمار تھیں سب کچھ انہی کا عطا کردہ تھا۔۔ اور میں احسان فراموش نہیں تھا۔۔ تو کیا پلان ہے میں نے ان سے پوچھا۔۔ پلان تو بہت
کمال کا ہے چندا بس دو تین مہینے اور ہیں پھر ہم ہونگے پاکستان کی سردیاں ہونگی اور ہماری گرم جوانیاں ۔وہ مجھے
تڑپا رہی تھیں یا خود کو خواب دکھا کر بہلا رہیں تھیں۔ اچھا سنو بالی یکدم سمیعہ سنجیدہ ہوئی۔۔ تمہیں وہ خزانہ یاد ہے
جو تم لوگ لائے تھے ۔۔ وہ بلآخر میں نے کمال ریٹ پر بیچ
دیا ۔۔۔ وہ مجھے بتا رہیں تھیں جسکا پہلے ارسلان نے بھی ذکر کیا تھا۔۔ تو اس میں سے تھوڑا سا حصہ تمہارا بھی ہے۔۔۔۔ میرا حصہ کیسے میں تو اپنا حصہ لے چکا۔۔۔ جانتی ہوں سمیعہ
پوری کاروباری ہے بھولتی نہیں ۔۔۔ اصل میں یہ حصہ سمیعہ ہے ۔۔ بطور ٹیم ممبر ۔۔ میں آخر تک تمہارے ساتھ رہی خطرات ان -
کا سامنا کیا مرتے مرتے بچی ۔۔ خزانہ پاکستان سے نکالا
مارکیٹ میں رابطہ کیا سمجھو انڈر گراونڈ نمائش ہی لگا دی
ہم نے وہ اپنے کارنامے سنا رہیں تھیں۔۔۔ ایک دو بار تو برا پھنسی بھی لیکن بچت ہو گئی تو میرا حصہ بھی تو بنتا ہے کا 
کا
نا۔۔۔ وہ حصہ سمیعہ کا ہے تو بالی کا بھی ہوا ہم دونوں حصہ۔۔ وہ بڑے خوبصورت طریقے سے مجھے پھر سے نواز رہی تھیں۔۔۔ انکا انداز ہی ایسا تھا اور اس تعلق سے انہوں نے مجھے
نوازا کہ یہ نواز نا میرا مان بڑھا گیا ۔۔۔ تو ڈئیر اپنا اپنا اکاونٹ چیک کر لینا اور چاہو تو اپنی مرضی سے اسے گھما سکتے ہو۔۔ اپنے طور گاڑی لو بیچو ۔۔ فلیٹ لو بیچو۔۔۔ دو سے چار چار سے تین جو بھی ہو۔۔ رسک ہے تو لائف ہے۔۔۔۔ اور ہاں تیار رہنا بہت جلد میں واپس آونگی تو کراچی کے حوالے سے بیسٹ آئیڈیا ہے میرے پاس۔۔۔ میں ان سے مختلف باتیں ڈسکس کرتا رہا ۔۔
کچھ دیر بعد وہ بہت سی فلائنگ کسسز دیکر کال کاٹ
چکیں تھیںجیسے ارسلان کے ہلہ بول والے جملوں نے مجھے گرما دیا تھا ویسے ہی سمیعہ کی کال نے انکی باتوں نے مجھے
جی جان سے زندہ کر دیا تھا۔۔۔ مزید مجھے فنانشل مسائل کا سامنا ہو رہا تھا وہ بھی دور ہو گیا ۔۔۔ میں نے عبید صاحب کو کال کی اور ہیلو ہائے کے بعد اپنا اکاونٹ بیلنس شیٹ پتہ کرنے کا کہا۔۔۔ انہوں نے دوسری لائن سے پتہ کرتا ہوں کہہ کر مجھے ہولڈ کرا دیا۔۔۔ دو چار منٹ بعد انہوں نے مجھے جو رقم بتائی
وہ حیران کن تھی۔ میرے اپنے حصے سے تقریبا سوا گنا 
زیادہ۔۔۔ میں یکایک پہلے سے بھی زیادہ امیر ہوگیا تھا۔۔۔ گویا انہوں نے مالدیپ والی ساری کسر نکال کر الٹا ڈبل اضافہ کیا تھا۔۔۔ پیسہ تقریبا تمام مسائل کا حل ہے۔۔۔ ساتھ ہی سمیعہ نے مجھے ہنٹ میں پیسہ پھیرنے کی بھی ہدایت کی تھی ۔۔ ابھی عبید صاحب سے فارغ ہوا ہی تھا کہ ارسلان آ گیا۔ جناب خیر
میں
تو ہے نا بڑے کھلے کھلے لگ رہے ہیں کہیں پرسہ دیتے دیتے کومل کلی کو چٹکا تو نہیں آئے ۔۔۔ بکو مت ہنسا ۔۔ بسسس خوش ہوں تم کیوں جل رہے ہو۔۔ ہاااا ے میں کیوں جلنا ویرے ارسلان مجھے آنکھ مار کر اپنی سیٹ پر بیٹھتا گیا۔۔۔۔۔ میں
سے
نے کچھ دیر اسے ستا کر سمیعہ کی کال اور اکاونٹ کے متعلق بتایا۔۔ یار کمال قسمت پائی ہے سالے تو نے ۔۔ سوپر ہوگیا اسی
لیے تو کہتا ہوں ان فضول دھندوں سے نکلو اور کچھ اچھا کرو۔۔۔ اچھا یار ابھی نو لیکچر میرا موڈ خراب نا کرو۔۔۔ویسے
سمیعہ کو کیسے پتہ میں یہاں۔۔ میں نے اچانک ارسلان سے پوچھا۔ یہ ھا۔ یہ کونسا مشکل ہے۔۔زیبا وغیرہ سے سن لیا ہوگا باقی بزنس سرکل میں ہیں نمبر لے لیا ہو ں ہیں نمبر لے لیا ہوگا۔۔ اس نے کندھے اچکائے۔۔ ہمیں اب انتظار تھا آپاں کے پیغام کا۔۔۔ اور یہ پیغام آیا تقریبا آدھ گھنٹہ کے بعد رابطہ کئی وسیلوں سے ہوا تھا۔۔ آپاں سے 
زیبا اور زیبا سے حویلی۔۔۔ حویلی سے سائٹ آفس اور سائٹ آفس مینجر سے تلاش کے بعد سیکیور کمپنی کے وکیل سے ہوتا ہوا مجھ تک۔۔۔ پیغام ایک نمبر کی صورت تھا کہ اس نمبر
پر دوپہر ایک بجے رابطہ کرلیں۔۔۔۔ ایک بجنے میں ابھی کچھ وقت تھا۔۔ رابطے سے پہلے کچھ کام ضروری تھے۔۔۔ طئے ہوا تھا کہ کوشش کرنی ہے آپاں کا ٹھکانہ ٹریس ہو سکے۔۔ اس کام کے لیے دوسری ٹیم الگ سے بنائی گئی۔۔۔ ٹیم کو ایک بجے تک ریڈی کا کہہ کر ارسلان شوکت کو تیار ہونے کا بتانے چلا گیا اور میں نیچے۔۔۔ کومل جاگ چکی تھی کمرے کا دروازہ کھلا اور لائٹ
آن تھی۔۔میں نے دروازے کے پاس جا کر آواز دی کومل ۔۔آ جائیں کومل کی بھیگی آواز سنائی دی۔۔ میں کمرے میں داخل ہوا کومل بیڈ پر ہی لیٹی چادر تانے چھت کو گھور رہی تھی۔۔ اسکے رخسار بتا رہے تھے کہ وہ وقفے وقفے سے روتی رہی ہے۔ میں تڑپ کر آگے بڑھا اسکے پاس اور بے تکلفانہ اسکے سرہانے بیٹھ . کر اسکے بالوں کو سہلایا ماتھے کو چھوا۔ نا کو کومل رونا نہیں ۔۔۔میں نے اسے پچکارا۔۔میری پچکار سن کر الٹا اسکی ہچکی بندھ گئی۔۔۔ اس نے بازو آنکھوں پر رکھے اور سسکنے لگی۔ دو چار منٹ بعد وہ خود ہی چپ ہوئی اور بازو آنکھوں 
سے ہٹا کر آنکھیں صاف کیں۔۔۔ چلو اٹھو باہر آو میں اسکے اٹھا اور اسے باہر آنے کا اشارہ کیا۔۔۔ پانچ دس منٹ
پاس سے بعد وہ میرے سامنے تھی۔۔۔ منہ دھو کر چپ چپ۔۔۔ وہ کھلکھلاتی شوخ کومل کہیں گم ہو گئی تھی۔۔ جیسے کوئی کلی مرجھا سی جھائے۔۔۔ حالات کی تیز تپش نے اسے کملا دیا
تھا۔۔ اسکی روتی آنکھیں سہما زرد ہوتا چہرہ اور کانپتا جسم۔۔۔یہ کیا حال بنا رکھا ہے تم نے میں نے کومل کے ہاتھوں کو پکڑا اور دوستانہ انداز میں تھپکتا تسلیاں دیتا گیا۔۔۔ میری باتیں میرا جذبہ اور اخلاص رنگ لایا ۔۔۔ اور اس نے ہلکا مسکرا کر جلد واپس شوخ کومل بننے زندگی کو پھر سے جینے اور
اپنے دکھ پریشانیاں اپنے دوست کو بتانے کا وعدہ کر لیا۔۔۔ شاباش اب تم اچھے بچوں کی طرح ناشتہ کرو گی۔۔ اچھا اچھا سوچو گی میں پتہ کرتا ہوں اگر بیبو فارغ ہو تو اسے بلا لوں وہ تمہیں وقت دے گی اکیلے تم نے بس روتے ہی رہنا جانتا میں وہ میرے درست اندازے پر بےساختہ مسکرائی۔ آپ کہیں جا رہے ہیں کومل نے پوچھا۔۔۔ ہاں مجھے ایک ضروری کام ہے سمجھو تمہاری مما کا ہی ادھورا کام ہے وہ نمٹا لوں شام تک آ جاوں گا۔ اور کوشش کرونگا بیبو آجاے ادھر اگر نا ہوں 
آسکی تو پھر مجبوری ہے۔۔ میں اسے تسلی دیکر واپس اوپر آ
گیا
پونے ایک بجے ہم قریبی پی سی او گئے۔۔۔ پی سی او مصروف بازار میں تھا۔۔ آتے جاتے مسافر کالز کر رہے تھے ۔۔ یہاں سے ہمارا پتہ کرنا مشکل تھا۔ پی سی او کیا پورا کال سنٹر تھا۔۔ چار پانچ
بوتھ تھے۔۔۔ ہم ایک بوتھ پر گئے اور ٹھیک ایک بجے نمبر ملایا۔۔۔ دوسری گھنٹی پر فون ریسیو ہوا۔۔ بالی بول رہا ہوں میں نے آغاز کیا۔ سن رہی ہوں آپاں کی ٹھہری آواز آئی۔۔۔ علامہ اقبال کے مزار پر شام سات بجے ۔۔ صرف تم اور شوکت۔۔ میں اور زیبا ۔۔ بس تم ۔۔ اور کوئی ہشیاری نہیں سمجھے ورنہ ایسا تماشا ہوگا کہ یاد رکھو گے۔۔ اسکے ساتھ ہی اس نے فون رکھ دیا۔۔۔ ہم نے بل دیا اور باہر نکل آئے میں نے ارسلان کو آپاں کا پیغام سنایا۔۔۔۔ سات بجے اس نے دہرایا۔۔۔ بہت شاطر دماغ پایا
ہے آپاں نے ارسلان نے بے ساختہ کہا۔۔۔ وہ کیسے ۔۔۔ سات بجے
گارڈ
شفٹ
ہوئی یا ختم چینج ہوتی ہے علامہ اقبال کے مزار پر دن کی شفـ
ہوتی ہے رات کی شروع۔۔کافی لوگ ہوتے ہیں وہاں گارڈز
تبدیلی دیکھنے ۔۔۔ ساتھ ہی شاہی مسجد اور قلعہ ہے۔۔۔ فل رش ... محفوظ طریقہ ہے تبادلے کا۔۔ ایکشن کا ڈر بھی نہیں ہوگا کہ 
اتنی عوام میں فائرنگ ۔۔ دوسرا رش میں نکلنا بھی آسان ہوتا
ہے۔۔ وہ سیکیورٹی ماہر تھا ان باریکیوں کو مجھ سے بہتر جانتا تھا۔۔ چلو دیکھتے ہیں کرتے ہیں کچھ۔۔ واپس آفس پہنچ کر میں نے رخشندہ کو کال کی۔۔ رخشندہ کے گلے شکوے لاڈ ۔۔ بمشکل بیبو کو ایک دن کی چھٹی ملی۔۔ انکے سو سوال اور ہر
سوال میں کئی شکوک تھے ۔۔۔۔ میں انکا یار تھا انکا ایسے جوان پٹاخہ لڑکی کو میرے پاس بھیجنا جلن دے رہا تھا۔۔۔۔کئی ڈائیلاگز اور جلد ملنے کے وعدے کے ساتھ بیبو کی چھٹی پاس ہو
ہی گئی۔۔۔ میں نے اسے سیکیور آفس کے قریبی پوائنٹ تک
ٹیکسی سے آنے کا کہا ۔۔۔۔ اڑھائی کے آس پاس بیبو میرے سامنے
تھی۔۔۔ شمع کے بعد عابدہ کے قتل نے اسے لرزا کے رکھ دیا۔ ہاے اللہ سب کی لائن لگ گئی اگلا نمبر میرا ہی نا ہووے۔۔۔ استغفار کرو بیبو اچھا اچھا بولتے ہیں۔۔۔ وہ تو ٹھیک پر بلال بابو آپ تو
قسمے زنانی خور ہو جو بھی آپکے سے ملتی ہے مرتی جاتی ہے۔۔۔ میں .میں اسکی مثال سنکر ہنسے بنا نا رہ سکا۔ میں نے اسے سختی سے منع کیا کہ وہ کومل سے عابی کے بارے میں کوئی بات نہیں کرےگی خصوصا اسکی بازار کی زندگی کو۔۔میں نے اسے بتایا کہ کیسے عابدہ مکافات عمل کا شکار ہوئی۔۔ بیبو کو 
جب عابدہ پر ہوئے ظلم کا پتہ چلا تو وہ کانپ ہی گئی۔۔ سسک کر بولی اللہ پاک معاف کریں اسے ۔۔ میں اپنا کیس معاف کیا پورے دل سے۔۔ وہ بیچاری میرے ظلم کا حساب سو گنا زیادہ
دے گئی ہے۔۔ بیبو عام سادہ لڑکیوں کی طرح فورا ہی معاف کرنے پر آ گئی ۔۔۔ شاباش بیبو ۔۔ اب پلیز کومل کا خیال رکھنا۔۔۔۔ وہ تو میں رکھوں گی لیکن یہ کومل اب ادھر ہی رہے گی کیا۔۔۔
بیبو نے کمرپر ہاتھ رکھ کر مجھ سے ایسے پوچھا جیسے وہ میری بیوی یا محبوبہ ہو۔ کمر پر ہاتھ رکھنے سے اسکا سینہ تنہ۔۔۔ تنگ شرٹ میں جوان جوبن جیسے پکے ہوئے آم۔۔۔ اسکا شباب چنگھاڑتا تھا۔۔۔ کسی چوٹی کی طرح کہ او مجھے سر کرو مجھے ناپو ۔۔ میں نے بے ساختہ نگاہیں چرائیں اور کہا چلی بے ساختہ نک جائےگی دو چار دن میں تم فکرنا کرو۔۔۔۔۔ اور میرا ڈنر اس نے جھٹ اگلا سوال کیا وہ اٹھلا کر میرے قریب آئی۔ یار دے
دونگا ڈنر بھی کہا ہے نا میں بوکھلا کر پیچھے ہٹا۔۔ کب دیں
وہ ایک ک قدم پھر پڑھی۔۔ اوہو پیچھے بٹو آفس سے کوئی دیکھ
گے
لے گا۔۔ میں بوکھلا کر بولتا گیا۔۔۔ با اے اللہ بلال بابو آپ تو بہت ہا شرمیلے ہیں وہ بے ساختہ ہنسی چلیں- نبٹا لیں کام ۔۔ ڈنر تو ہم لیں گے ہی بیبو نے شوخ جتلاتی نظروں سے مجھے دیکھا۔۔۔
ٹھیک ہے وعدہ کیا ہوا کراوں گا ڈنر پورے لوازمات کے ساتھ۔۔
میں نے جان بوجھ کر تھوڑا ہلہ بولا۔ اچھااااا جی اس نے شوخی سے اچھااا کو لمبا کیا۔۔۔ دیکھ لینا بلال بابو سارے لوازمات ہونے چاہیں ڈنر کے۔۔ اسکی بات بہت گہری تھی۔۔ وہ
مجھے جتلا رہی تھی کہ ڈنر کے بعدہی تو ڈنر کے اصل لوازمات ہوتے ہیں۔۔۔۔۔ویسے ڈنر آفس میں تو نہیں ہوگا نا ۔۔ نہیں تو ککیوں میں نے چونک کر پوچھا۔ آفس میں آپ گھبرا جاتے ہیں نا کوئی دیکھ لے گا کہہ کر وہ مجھے ستاتی قریب
آئی اور میری شرٹ کے کالر کو چھو کر بولی۔ بلال بابو ڈنر بہت کیے ہونگے آپ نے لیکن بیبو کا ڈنر یاد رہے گا آپکو۔۔۔ اسکی باتوں اور آنکھوں میں واضح دعوت تھی۔۔۔ وہ نشیلی سسکیاں
سن چکی تھی اور اب خود ان سسکیوں کا مزہ لینا چاہتی
تھی۔۔۔ اندھیرے کے باہر سنی جانے والی نشیلی آہیں اور جوشیلی سسکیاں اسے اندھیرے کے اندر جانے پر مجبور کر رہیں ہونا چاہتی تھی۔یہ نویلی جوانی والا
تھیں۔۔۔ وہ تپ روه تب کرکندن بود
کریز تھا۔۔۔ پردے کے پیچھے کیا ہے والا تجسسس ہم بھی چکھیں گے دیکھیں گے۔۔۔ وہی تجسس وہی کریز جو روز اول سے نسل آدم کی سرشت میں ہے۔۔ وہ پہلی جوان ہم عمر لڑکی 
تھی جو مجھ میں دلچسپی لے رہی تھی۔ جوانی کی دلچسپی کا اپنا مزہ اپنا نشہ ہوتا ہے کورے بدن کی مہک الگ ہی ہوتی
ہے۔۔ اس نے اشاروں میں کھل کر بتا دیا تھاکہ جوسبق مانیٹر
اپنی ٹیچر سے الگ کلاس میں لیتا ہے اسے اس سبق کو دیکھنا ہے۔۔۔۔۔ نصاب جسم پڑھنا ہے۔۔۔۔ میں جو ان معاملات کافی تجربہ کار ہو چکا تھا۔ سب آنٹیوں سے سیکھا سبق اسے سنانے
میں
سمجھانے کے لیے کچھ کچھ تیار ہو رہا تھا۔۔۔ لاگی تو بھولی گائے تھی۔ جس کے ساتھ جو ہوا وہ ضرورت تھی جان بچانی جو ہوا وہ ضـ تھی۔۔ اسبار بیبو تھی۔۔۔۔ میری زندگی کی پہلی طرحدار جوان
حسینہ۔۔۔ وہ وحشت جھیل چکی تھی۔ سولنگی نے مرد کا تعارف ایسا کرایا تھا کہ وہ جی جان سے سہم گئی تھی اسے پھر سے بنایا سنوارا اسکی رخشنده باجی نے۔ اور اسی باجی کی مزے کی سسکیاں اسے جتلا رہیں تھیں کہ جو سولنگی کیا وہ وحشت تھی۔۔۔ اصل نشہ کچھ اور۔۔۔ بیبو اس نشے کو چکھنے کے لیے جاننے کے لیے تیار تھی۔۔شام ہو چکی تھی۔۔۔جب میں شوکت کو لیکر میں علامہ اقبال کے مزار پہنچ چکا تھا۔۔۔ حسب پلان ارسلان نے وہیں آس پاس ہونا تھا تاکہ کسی گڑ بڑ کی صورت میں مجھے کور دے سکے۔۔۔ میں نے مینار پاکستان 
کے سامنے والی سڑک سے قلعہ کو داخل ہوا۔۔ سکھوں کی سمادھی سے گزرتا اندر داخل ہوا۔ سامنے بائیں طرف شاہی
مسجد اور دائیں طرف شاہی قلعہ اپنی شان و شوکت کے ساتھ موجود تھا
علامہ اقبال کے مزار کے سامنے کافی گہما گہما تھی۔۔ گارڈز کی شفٹ بدلنے والی تھی۔۔ اور میں ادھر ادھر آپاں کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ اچانک میری ادھر ادھر پھرتی نظر ایک جگہ رکی۔۔ دو نقاب پوش خواتین شاہی مسجد سے نکل کر مزار کی طرف آ رہی تھیں۔۔۔ میں لاکھوں میں زیبا کو پہچان سکتا تھا۔۔۔ چادر
میں چھپا اسکا وجود ہماری آنکھیں ملیں۔۔۔ اسکی سوگوار آنکھوں میں چمک لہرائی۔۔ آپاں اسکے بلکل ساتھ لگی کھڑی تھی دونوں چلتی چلتی میرے قریب آئیں۔۔۔ اس نے بھرپور
نظروں سے شوکت کو دیکھا اور پوچھا تم ٹھیک ہو نا ۔۔ شوکت نے سرہلا کر مثبت جواب دیا۔۔ پھر وہ میری طرف مڑی
نقاب کے پیچھے سے نفرت بھری شوک کونجی جیسی
ں جیسے ناگن
پھنکارے۔۔۔ بچ گئے تم کب تک بچو گے۔۔۔ بہت جلد تمہارا کریا کرم ہوگا میرے ہاتھوں۔۔ اس پاس لوگ اپنی مستیوں میں مصرف تھے۔۔ گارڈز بلند نعروں کے ساتھ ڈیوٹی بدل رہے تھے۔۔
ادھر دن کی شفٹ نے رات والوں سے شفٹ بدلی ادھر میں نے زیبا کا ہاتھ تھاما اور اس نے شوکت کا۔۔۔ چلو میں پلان کے مطابق زیبا کا ہاتھ پکڑا اور بجائے باہر جانے کے اسے لیتا شاہی گھسا۔۔۔ مجھے خدشہ تھا کہ کہیں واپسی پر گھات نا
قلعہ میں
لگی ہو۔۔ قلعے کے اندر جا کر ہم تیز قدموں چلتے قلعے کے اندر دیوان خاص کے قریب شیش محل پہنچے ۔۔۔ شیش محل کی
اونچائی سے میں نے آس پاس جائزہ لیا اور کچھ دیر کے اطمینان کے بعد چلتے چلتے عقبی سمت کو بڑھے۔۔۔ پچھلی طرف ایک جگہ سے دیوار قدرے شکستہ تھی۔۔۔ مغلوں کا بنایا شاہکار ہماری بے حسی کا ثبوت دے رہا تھا۔۔ دیوار میں تقریبا فٹ ڈیڑھ شگاف تھا۔۔ ہم پھنس پھنسا کر اس شگاف نکلے۔۔۔ اور قلعے کی دیوار کے پاس سے گزرتے ٹوٹی ریلنگ کو کراس کرتے بازار میں آگئے۔۔ اسطرف بازار حسن تھا۔۔۔ فضا میں گھنگھرووں کی چھنک ۔۔ گلاب اور موتیے کی مہک نمایاں سے
بابر
گھسا۔۔
تھی۔۔۔ میں زیبا کا ہاتھ پکڑے سڑک سے پتلی گلی میں یہ ایک تاریک گلی تھی جیسے ہی اس گلی سے نکل کر ہم بڑی سڑک پر جانے لگے اچانک سامنے سے آتا ایک بندہ بری طرح ہم
سے ٹکرایا۔۔۔ وہ اپنی جھونک میں تھا اور ہم خطروں والے 
جیسے ہی وہ مجھ سے ٹکرایا میں تھوڑا لڑکھڑایا اور دوسرے لمحے اسے گھما کر اپنے سامنے لے آیا۔۔ اب اسکی کمر میرے
ساتھ لگی تھی اور اسکی گردن کے گرد میرا بازو
اوئی اللہ مر گئی میں ۔ ۔ ہااے ہاااے کون نگوڑا ہے چھوڑ ہمیں ۔۔ اس کا جسم مچلا اور مٹکتی آواز گونجی۔۔میں نے اسے بلکل ساتھ دبایا اور تنگ گلی میں گھسیٹا ۔۔ کون ہو تم بولو۔۔۔ امممم ڈولی ہے چچھوڑو ہمیں وہ کسمسائی جیسے ہی وہ کسمسائی مجھے عجیب سا کرنٹ لگا ڈولی کی گانڈ بہہت گرم اور نرم تھی میرے جسم کی سخت گرفت میں وہ کسمسائی۔۔ اسکی گانڈ بلکل میرے لن سے رگڑ کھائی ہلو مت میں نے اسے سختی سے جکڑا۔۔ ڈولی نامی وہ مخلوق یکدم ساکت ہوگئی۔۔ چھوڑو اسے بالی یہ بیچارہ ہیجڑا ہے زیبانے ہولے سے کہا۔۔ ہیجڑا مجھے جھٹکا لگا میں نے گرفت نرم کی۔۔۔ تب میں نے محسوس کیا
سے اس نے ہلکے سے گانڈ کو لن کے اوپر دبا کر پھیرا ہو۔۔ جیسے چیک کرتے ہیں ویسے عجیب سا لمس تھا اس کا میں نے اسے جھٹک سے پرے کیا۔ڈولی نامی وہ ہیجڑا اچانک پلٹا اور میری طرف غور سے دیکھا۔۔۔ اسکی نظروں نے جیسے میرا ایکسرے ہی کر لیا ہو ۔۔۔ ہمممم ہیجڑا نہیں ہے ہم گرو ہے۔۔۔ ڈولی
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
New posts
Status
Not open for further replies.
Back
Top