Shehla69
Elite writer
Offline
- Thread Author
- #1
یہ بھی نہیں تھا کہ والدین سوتیلے تھے، بلکہ ہمارے والد آتش فشاں مزاج کے مالک تھے۔ غصے میں آگ کا بگولہ بنے رہتے تھے۔ یہ بات خاندان بھر میں مشہور تھی کہ میاں انور نے گھر کا ماحول عجب بنا رکھا تھا، ہم کو اونچی آواز میں بات کرنے کی آزادی نہیں تھی۔ فلم گانے، باہر کی سیر و تفریح، تو دور کی بات، ہم بہن بھائیوں کو ٹی وی پر ڈرامے بھی دیکھنے کی بھی اجازت نہ تھی۔ قریبی رشتے داروں کے گھر جانے سے پہلے اجازت لینی ہوتی تھی۔ اس قدر گھٹن زدہ ماحول تھا ہمارے گھر کا کہ ہم باپ کے سائے سےچھپنے لگیں۔ ہمارے والد چھوٹی چھوٹی بات پر بھڑک جاتے تھے۔ دکھ تو یہ تھا کہ بات بھی معمولی اور بے ضرر ہوتی۔ نوکری سے واپسی پر والد ہم بہن بھائیوں کو پیار نہیں بلکہ مار سے نوازتے تھے اور یہ کبھی کبھار کا نہیں بلکہ روز کا معمول تھا۔ ہفتے میں چار دن تو ان کا موڈ خراب رہتا اور خراب موڈ میں وہ بیٹی بیٹے کی تفریق کیئے بغیر گالم گلوچ کرتے کہ شاید ایسی گالیاں کو ٹھے والی عورت کو بھی نہ پڑتی ہوں۔ ایسے الزامات لگاتے کہ انسان خود کشی کر لے۔ ہم سب اتنے سہمے ہوئے رہتے کہ صفائی کا ایک لفظ بھی نہ کہہ پاتے۔ عیدین ، شب بارات ، 14 اگست پر ہمارے رشتے داروں کے گھروں میں خوشیاں ، رونق ، گہما گھی ہوتی تھی ، جبکہ ہمارے گھر موت کا سناٹا ہوتا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے میں چھ برس کی تھی ، عید کے دن بھی والد کا موڈ بے حد سنجیدہ ہوتا ، ہم بات بھی نہ کر پاتے ، جبکہ ہماری ہم عمر لڑکیاں کزن اپنے والدین سے لاڈ پیار کرتیں اور عیدیاں لیتیں۔ نو عمری میں ہماری ہم عمر کزن لڑکیاں فیشن کرتیں، پارلر جاتیں، سینما دیکھنے جاتی تھیں۔ سب کے گھروں میں اس دور میں ڈش ٹی وی لگے ہوئے تھے ۔ جبکہ ہمارے گھر میں ایسا کچھ نہیں تھا۔ ہم بہنوں کو تو پارلر جانے کی اجازت تھی ، نہ فیشن کرنے کی حتی کہ بال سنوار کر بھی نہیں جاسکتے تھے۔ گھر ایک زنداں کی مانند تھا اور ہم بن سنور کر جاتے بھی کہاں کہ ہم کو شادی بیاہ کے موقع پر بھی کسی رشتے دار کے گھر نہ جانے دیتے۔ عیدین پر کسی کے گھر نہ جاتے۔ اس وجہ سے ہم بچیاں اپنے گھروں میں میلی کچیلی سی رہا کرتی تھیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ خاندان کے بزرگ والد کو سمجھاتے اور ہماری مدد کرتے ، الٹا خاندان والے ہم سے نفرت کرنے لگے۔ ہمارے گھر آنا کوئی پسند نہ کرتا۔ اگر ہم ملنے چلے جاتے ، ہم پر جملے کستے ، طنز کرتے ، تذلیل کرتے۔ ان کے ابو تو ان پر شک کرتے ہیں۔ ان پر پابندیاں ہیں یہ لوگ گھر میں نہیں بلکہ قید خانے جیل میں رہتے ہیں۔ یہ الفاظ ہماری کزن جب کلاس فیلوز کے سامنے استعمال کرتی۔ ہم بہنیں شرم سے پانی پانی ہو جاتی تھیں۔ اتنا بھی نہ کہہ پاتیں یہ نہ کہو، ہمارے منہ میں تو جیسے زبان ہی نہ تھی۔ گھر آکر لبتہ خوب روتی تھیں کہ یا اللہ ہمارا کیا قصورہے۔ اللہ پا ابا کو ہدایت دے۔ سب سے زیادہ کمزور کر دار ہاری ماں کا تھا سب کچھ چپ چاپ سہتی رہتی ۔ دیکھتی رہتی اور کچھ بھی نہ کر پاتی۔ صرف ایک بت کی طرح تھی وہ تو ، سانس جسم میں آتی جاتی مگر زباں اور دماغ بند اور خاموش۔ اگر کوئی مہمان ہمارے گھر رہنے آجاتا ، ہماری والدہ کی شامت آجاتی، چاہے جتنا عمدہ کھانا پکا تیں، روٹی تازہ گر والد کوئی نہ کوئی نقص نکال کر مہمان کے سامنے شرمندہ کر دیتے اور بعد میں کئی دن تک بیوی کو طعنے دیتے۔ جان بوجھ کر خراب کھانا پکاتی ہو تا کہ میری بدنامی ہو۔ والدہ لاکھ صفائی دیتیں، مگر نہ مانتے بلکہ کہتے۔ اسی وجہ سے خاندان کے لوگ میرے گھر نہیں آتے ۔ یعنی سارا قصور والدہ کا ہوتا۔ ہم کمرے میں ڈرے سہمے سب سن رہے ہوتے۔ اپنی والدہ کی مدد کے لئے ایک لفظ بھی باپ کے سامنے کہنے کی ہمت نہ کر پاتے۔ ستم تو یہ تھا کہ جو مہمان ہمارے گھر رہنے آتے تھے جن کی خاطر ابا والدہ سے لڑائی کرتے تھے۔ ان کے گھر والدہ یا ہم میں سے کوئی بھی رہنے نہیں جاتا تھا۔ خدا جانے کیا مسئلہ تھا نفسیاتی مسئلہ تھا کوئی ان کا کہ اپنے بیوی بچوں کو اذیت دے کر خوش ہوتے اور ذرا بھی احساس نہ کرتے ، ہمارے دل پر کیا گزرتی ہے۔ ایک، دو خاندان کی عورتیں آکر والدہ کے ساتھ ہمدردی کرتیں۔ کہتیں خدا معلوم اس قدر پتھر دل کیوں ہے تمہارا شوہر ۔ اپنے ہی بیوی بچوں کا دشمن بنا رہتا ہے۔ بیوی بچوں کا خون خشک کر رکھا ہے۔ بچے جوان ہورہے ہیں۔ اس قدرسختی اور تھکن اچھی نہیں ہوتی۔ بچے باغی ہو جائیں گے، ایسے ماحول کے بچے ہی تو گھر سے بھاگ جاتے ہیں۔ اس قدر خوف زدہ گھر کا ماحول بنا رکھا ہے اس آدمی نے ، خدا جانے اس کا کیا معاملہ ہے۔ شاید سر میں کوئی آسیب ہو گا۔ گھر کا ماحول جو بھی تھا، دال روٹی تو چل رہی تھی۔ شاید کہ ابا کا مزاج باہر بھی ایسا ہوگا کہ ہماری بد بختی سے ان کی نوکری ختم ہوگئی اور وہ گھر بیٹھ گئے۔ ہمارے چند گھنٹے جو سکون سے گزرتے تھے وہ بھی ختم ہو گئے ، اب وہ ہر وقت اپنے سابقہ مالک کو برا بھلا کہتے۔ بجائے اس کے کہ اور نوکری ڈھونڈتے یا چھوٹا سا کاروبار ہی کر لیتے۔ والدہ ہر وقت سمجھاتی تھیں بچے چھوٹے ہیں۔ پیسے کی ضرورت ہے، کوئی نوکری ڈھونڈ لو مگر ایسی لڑائی شروع کرتے کہ خدا کی پناہ۔ اونچی آواز میں لڑتے گالیاں دیتے۔ برتن توڑتے اتنا خوف و ہراس پیدا کر دیتے کہ ہم رونا شروع کر دیتے۔ حالات مزید خراب ہونے شروع ہو گئے۔ والدہ کو بیٹھے بیٹھے بے ہوش ہونے کی بیماری ہو گئی۔ انہوں نے تب بھی توجہ نہ دی، ہوش کے ناخن نہ لئے یہاں تک کہ گھر تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بھائیوں کو پڑھائی چھوڑ کر چھوٹی موٹی نوکری تلاش کرنی پڑی۔ چند ہزار کی خاطر ان کا مستقبل خراب ہو گیا۔ کہتے ہیں وقت رکتا نہیں گزرتا چلا جاتا ہے۔ سو ہمارا بھی وہ وقت جیسے تیسے گزر گیا۔ رشتے داروں نے نہ پہلے مدد کی نہ اس وقت میں مدد کی – والدہ وفات پاگئیں، والد نہ بدلے۔ دکھ اس بات کا ہے وہ اپنے ہی گھر کی خوشی سکون کے قاتل نکلے کبھی بیوی بچوں کے ساتھ اچھا دن نہ گزرا ہوگا۔ میری ماں ایک مسکراہٹ کے لئے ترستی مر گئی۔ ہمارے کزنز پڑھ لکھ کر اچھے عہدوں پر نوکری کر رہے ہیں، جبکہ لڑکیاں کوئی لیکچرار تو کوئی ڈاکٹر ہے، مگر ہم زندگی میں کوئی اعلیٰ مقام نہ پاسکے۔ کیونکہ ہمارے گھر کا ماحول پر سکون نہ تھا۔ والد پڑھائی پر توجہ دیتے ۔ مدد کرتے تو آج ہم بہن بھائی بھی اچھی نوکری حاصل کر لیتے ۔ پڑھائی ادھوری نہ چھوڑتے ، یہی سوچتی ہوں تو آج بھی دکھ کی آگ میں جلنے لگتی ہوں۔ پر اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ ہم غلط راستوں پر نہیں گئے۔ غلط حرکتوں میں نہیں پڑے۔ ہمسائے ہماری مثال دیتے ہیں کہ ان کا باپ تو اتنا سنگ دل ، ظالم تھا۔ بچے نہیں بگڑے ماں جو نیک تھی۔ آج بھائی کاروبار کرتے ہیں۔ اچھا گزارا ہورہا ہے۔ ہم بہنیں بھی شادی شدہ ہو گئی ہیں۔ اپنے گھروں میں خوش ہیں، لیکن یہ خلش دل سے نہیں جاتی کہ کاش ہم بھی کچھ بن جاتے۔ جب بھی بچپن یاد آتا ہے۔ دل خون کے آنسو روتا ہے۔ کاش والد ایسے نہ ہوتے ، کاش رشتے دار ایسے بے حس، خود غرض نہ ہوتے ۔ بچپن کا زمانہ جو سنہری ہوتا ہے، اگر ماں یا باپ نفسیاتی مریض ہوں تو ان بچوں سے ان کا بچپن بھی روٹھ جاتا ہے۔ جانے ایسے لوگوں کو کیوں اولاد کی نعمت عطا ہو جاتی ہے جو اولاد کے حقوق کو نہیں سمجھتے۔ خدا کرے ایسا باپ کسی کا نہ ہو، جیسا کہ ہمارا تھا۔(ختم شد)