alone_leo82
Well-known member
Offline
- Thread Author
- #1
بڑی گانڈ مکمل کہانی
میرا نام کومل ہے. میری عمر 27 سال ہے اور میں شادی شدہ ہوں. میرے شوہر آرمی میں ہیں. میں اپنے ساس - سسر کے ساتھ اپنے سسرال میں رہتی ہوں. شوہر آرمی میں ہیں تو اس وجہ سے میں کئی کئی ماہ لنڈ کو ترستي رہتی ہوں. ویسے تو میرے ارد گرد گلی محلے میں بہت سارے لنڈ رہتے ہیں پر ساس - سسر کے ہوتے یہ میرے کسی کام کے نہیں.
میری گلی کے سارے لڑکے مجھے پٹانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں. میرے ممے لڑکوں کی نیند اڑانے کے لئے کافی ہیں. میری بڑی سی گانڈ دیکھ کر لڑکوں کی حالت خراب ہو جاتی ہے اور وہ کھڑے کھڑے لنڈ کو ہاتھ میں پکڑ
لیتے ہیں. میرے ریشمی لمبے بالوں میں پتہ نہیں کتنے لڈو کے دل اٹكے پڑے ہیں. میری پتلی کمر، میرے گلابی گلابی ہونٹ، لڑکوں کو میرے گھر کے سامنے کھڑے رہنے کے لئے مجبور کر دیتے ہیں. سب مجھے پٹانے کے ہتھکنڈے اجماتے رہتے تھے پر میں کسی سے نہیں پٹ رہی تھی. کمپیوٹر پر ضرور چیٹنگ کرکے اپنی پیاس ہاتھ سے بجھا لیتی. چیٹنگ پر مجھے لڑکے اکثر اپنا موبائل نمبر دینے اور ملنے کو کہتے مگر میں سب کو منع کر دیتی. پھر بھی ایک - دو نے اپنا نمبر دے دیا تھا.
ان سب دوستوں میں ایک اےنار آئی بڈھا بھی تھا. وہ کچھ دن بعد پاکستان آنے والا تھا. اس نے مجھے کہا کہ وہ مجھ سے ملنا چاہتا ہے، مگر میں نے انکار کر دیا.
کچھ دن کے بعد اس نے پاکستان آنے کے بعد مجھے اپنا فون نمبر دیا اور اپنی تصویر بھی بھیجی اور کہا - میں اکیلا ہی آیا ہوں، باقی ساری فیملی امریکہ میں ہیں.
اس نے یہ بھی کہا کہ وہ صرف مجھے دیکھنا چاہتا ہے بے شک دور سے ہی سہی.
اب تو مجھے بھی اس پر ترس سا آنے لگا تھا. وہ جہلم کا رہنے والا تھا اور میرا گاؤں بھی جہلم کے پاس ہی ہے.
اگلے مہینے میری ساس کی بہن کے لڑکے کی شادی آ رہی تھی جس کے لئے مجھے اور میری ساس نے شاپنگ کے لئے جہلم جانا تھا. مگر کچھ دنوں سے میری ساس کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی تو اس نے مجھے اکیلے ہی جہلم چلی جانے کو کہا.
جب میں نے اکیلے جہلم جانے کی بات سنی تو ایک دم سے مجھے اس بوڑھے کا خیال آ گیا. میں نے سوچا کہ اسی بہانے اپنے بوڑھے عاشق کو بھی مل آتی ہوں.
میں نے نہاتے وقت اپنی جھاٹے صاف کر لی اور پوری سج - سںور کر بس میں بیٹھ گئی اور راستے میں ہی اس بوڑھے کو فون کر دیا. اسے میں نے ایک جوس - بار میں بیٹھنے کے لئے کہا اور کہا - میں ہی وہاں آ کر فون کروں گی.
میں آپ کو بوڑھے کے بارے میں بتا دوں. وہ 55-60 سال کا لگتا تھا. اس کے سر کے بال سفید ہو چکے تھے پر اس کی جو تصویر اس نے مجھے بھیجی تھی اسمے اس کی باڈی اور اس کا چہرہ مجھے اس سے ملنے کو مجبور کر رہا تھا.
بس سے اترتے ہی میں رکشہ لے کر وہاں پہنچ گئی جہاں پر وہ میرا انتظار کر رہا تھا. اس نے میری تصویر نہیں دیکھی تھی اس لئے میں تو اسے پہچان گئی پر وہ مجھے نہیں پہچان پایا. میں اس سے تھوڑی دور بیٹھ گئی.وہ ہر عورت کو آتے ہوئے غور سے دیکھ رہا تھا مگر اس کا دھیان بار بار میرے بڑے بڑے مممو اور اٹھی ہوئی گانڈ کی طرف آ رہا تھا. وہی کیا وہاں پر بیٹھے تمام مرد میری گانڈ اور مممو کو ہی دیکھ رہے تھے. میں آئی بھی تو سج - دھج کر تھی اپنے بوڑھے یار سے ملنے.
تھوڑی دیر کے بعد میں باہر آ گئی اور اسے فون کیا کہ باہر آ جائے. میں تھوڑی چھپ کر کھڑی ہو گئی اور وہ باہر آ کر ادھر ادھر دیکھنے لگا.
میں نے اسے کہا - تم اپنی گاڑی میں بیٹھ جاؤ، میں آتی ہوں.
وہ اپنی گاڑی میں جاکر بیٹھ گیا، میں نے بھی ادھر ادھر دیکھا اور اس کی طرف چل پڑی اور جھٹ سے جا کر اس کے پاس والی سیٹ پر بیٹھ گئی.
مجھے دیکھ کر وہ حیران رہ گیا اور کہا - تم ہی تو اندر گئی تھی، پھر مجھے بلایا کیوں نہیں؟
میں نے کہا - اندر بہت سارے لوگ تھے، اس لیے!
اس نے دھیرے دھیرے گاڑی چلانی شروع کر دی، اس نے مجھے پوچھا - اب تم کہاں جانا چاهوگي؟
میں نے کہا - کہیں نہیں، بس تم نے مجھے دیکھ لیا، اتنا ہی کافی ہے، اب مجھے شاپنگ کرکے واپس جانا ہے.
اس نے کہا - اگر تم برا نا مانو تو میں تمہیں کچھ تحفہ دینا چاہتا ہوں. کیا تم میرے ساتھ میرے گھر چل سکتا ہو؟
اس کا جہلم میں ہی ایک شاندار بنگلہ تھا.
پہلے تو میں نے انکار کر دیا پر اس کے مزید زور ڈالنے پر میں مان گئی. پھر ہم اس کے گھر پہنچے. مجھے احساس ہو چکا تھا کہ اگر میں اس کے گھر پہنچ گئی ہوں تو آج میں ضرور چدنے والی ہوں.
میں گاڑی سے اتر کر اس کے پیچھے پیچھے چل پڑی.
اندر جا کر اس نے مجھے پوچھا - کیا پیوگی تم کومل؟
"کچھ نہیں! بس مجھے تھوڑا جلدی جانا ہے!"
وہ بولا - نہیں ایسے نہیں! اتنی جلدی نہیں .. ابھی تو ہم نے اچھے سے باتیں بھی نہیں کی!
"اب تو میں نے تمہیں اپنا فون نمبر دے دیا ہے، رات کو جب جی چاہے فون کر لینا .. میں اکیلی ہی سوتی ہوں."
"پلیز! تھوڑی دیر بیٹھو تو سہی!"
میں نے کچھ نہیں کہا اؤر صوفے پر بیٹھ گئی.
وہ جلدی سے کولڈنگ لے آیا اور مجھے دیتے ہوئے بولا - یہ کولڈرنگ ہی پی لو پھر چلی جانا.
میں نے وہ مشروب لے لیا. وہ میرے پاس بیٹھ گیا اور ہم ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگے.
باتوں ہی باتوں میں وہ میری تعریف کرنے لگا.
وہ بولا - کومل .. جب جوس بار میں تمہیں دیکھ رہا تھا تو سوچ رہا تھا کہ کاش کومل ایسی ہو، مگر مجھے کیا پتہ تھا کہ نرم یہی ہے.
رہنے دو! جھوٹی تعریف کرنے کی ضرورت نہیں ہے جی! میں نے کہا.
اس نے بھی موقع کے حساب سے میرے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا - سچ میں نرم، تم بہت خوبصورت ہو.
میرا ہاتھ میری ران پر تھا اور اس پر اس کا ہاتھ!
وہ دھیرے دھیرے میرا ہاتھ رگڑ رہا تھا. کبھی کبھی اس کی انگلیاں میری ران کو بھی چھو جاتی جس سے میری پیاسی جوانی میں ایک بجلی سی دوڑ جاتی.
اب میں مدہوش ہو رہی تھی. مگر پھر بھی اپنے اوپر قابو رکھنے کا ڈرامہ کر رہی تھی جسے وہ سمجھ چکا تھا.
پھر اس نے ہاتھ اوپر اٹھانا شروع کیا اور اس کا ہاتھ میرے بازو سے ہوتا ہوا میرے بالوں میں گھس گیا، میں چپ چاپ بیٹھی مدہوش ہو رہی تھی اور میری سانسیں گرم ہو رہی تھی.
اس کا ایک ہاتھ میری پیٹھ پر میرے بالوں میں چل رہا تھا اور وہ میری تعریف کئے جا رہا تھا. پھر دوسرے ہاتھ سے اس نے میری گال کو پکڑا اور چہرہ اپنی طرف کر لیا.
میں نے بھی اپنا ہاتھ اپنی گال پر اس کے ہاتھ پر رکھ دیا.
اس نے اپنے ہونٹوں کو میرے ہونٹوں پر رکھ دیا اور میرے ہونٹوں کا رس چوسنا شروع کر دیا.
مجھے پتہ ہی نہیں چلا کہ کب میں اس کا ساتھ دینے لگی. پھر اس نے مجھے اپنی طرف کھینچ لیا اور مجھے اپنی گود میں بٹھا لیا. اب میرے دونوں چوچے اس کی چھاتی سے دب رہے تھے. اس کا ہاتھ اب کبھی میری گانڈ پر، کبھی بالوں میں، کبھی گالوں میں، اور کبھی میرے مممو پر چل رہا تھا.
میں بھی اس کے ساتھ کس کر چپک چکی تھی اور اپنے ہاتھ اس کی پیٹھ اور بالوں میں گھما رہی تھی.
15-20 منٹ تک ہم دونوں ایسے ہی ایک دوسرے کو چومتے - چاٹتے رہے.
پھر اس نے مجھے اپنی باہوں میں اٹھا لیا اور بیڈروم کی طرف چل پڑا. اس نے مجھے زور سے بیڈ پر پھینک دیا اور پھر میری ٹانگیں پکڑ کر اپنی طرف کھینچ لیا. وہ میری دونوں ٹانگوں کے درمیان کھڑا تھا. پھر وہ میرے اوپر لیٹ گیا اور پھر سے مجھے چومنے لگا. اسی دوران اس نے میرے بالوں میں سے ہیئر رنگ نکال دیا جس سے بال میرے چہرے پر بکھر گئے.
مجھے یہ سب بہت اچھا لگ رہا تھا، اب تو میں بھی شہوت کی آگ میں ڈوبے جا رہی تھی.
پھر اس نے مجھے پکڑ کر کھڑا کر دیا اور میری قمیض کو اوپر اٹھایا اور اتار دیا. میری برا میں سے میرے ستن جیسے پہلے ہی آزاد ہونے کو پھر رہے تھے. وہ برا کے اوپر سے ہی میرے ستن مسل رہا تھا اور چوم رہا تھا.
پھر اس کا ہاتھ میری پجامي تک پہنچ گیا. جس کا ناڑا کھینچ کر اس نے کھول دیا. میری پجامي بہت ٹائیٹ تھی جسے اتارنے میں اسے بہت مشکل ہوئی. مگر پجامي اتارتے ہی وہ میرے گول گول چوتٹ دیکھ کر خوش ہو گیا.
اب میں اس کے سامنے برا اور پینٹی میں تھی. اس نے میری ٹانگوں کو چوما اور پھر میری گانڈ تک پہنچ گیا.میں الٹی ہو کر لیٹی تھی اور وہ میرے چوتڑوں کو زور زور سے چاٹ اور مسل رہا تھا.
اب تک میری شرم اور خوف دونوں غائب ہو چکے تھے اور پھر جب غیر مرد کے سامنے ننگی ہو ہی گئی تھی تو پھر چدائی کے پورے مزے کیوں نہیں لیتی بھلا.
میں پیچھے مڑی اور گھوڑی بن کر اس کی پینٹ، جہاں پر لنڈ تھا، پر اپنا چہرہ اور گالے رگڑنے لگی. میں نے اس کی شرٹ کھولنی شروع کر دی تھی. جیسے جیسے میں اس کی شرٹ کھول رہی تھی اس کی چوڑی اور بالوں سے بھری چھاتی سامنے آئی.
میں اس پر دھیرے دھیرے ہاتھ پھیرنے لگی اور چومنے لگی. دھیرے دھیرے میں نے اس کی شرٹ کھول کر اتار دی. وہ میرے ایسا کرنے سے بہت خوش ہو رہا تھا. مجھے تو اچھا لگ ہی رہا تھا. میں مست ہوتی جا رہی تھی.
میرے ہاتھ اب اس کی پینٹ تک پہنچ گئے تھے. میں نے اس کی پینٹ کھولی اور نیچے سرکا دی. اس کا لنڈ انڈروئیر میں کسا ہوا تھا. ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے انڈرویئر پھاڑ کر باہر آ جائے گا.
میں نے اس کی پینٹ اتار دی.
میں نے اپنی ایک اوںگلی اوپر سے اس کے انڈرویئر میں گھسا دی اور نیچے کو کھیںچا. اس سے اس کی جھانٹوں والی جگہ، جو اس نے بالکل صاف کی ہوئی تھی دکھائی دینے لگی. میں نے اپنا پورا ہاتھ اندر ڈال کر انڈرویئر کو نیچے کھیںچا. اس کا 7 انچ کا لنڈ میری انگلیوں کو چھوتے ہوئے اچھل کر باہر آ گیا اور سیدھا میرے منہ کے سامنے ہلنے لگا.
اتنا بڑا لنڈ اچانک میرے منہ کے سامنے ایسے آیا کہ میں ایک بار تو ڈر گئی. اس کا بڑا سا اور لمبا سا لنڈ مجھے بہت پیارا لگ رہا تھا اور وہ میری پیاس بھی تو بجھانے والا تھا.
میرے ہونٹ اس کی طرف بڑھنے لگے اور میں نے اس کے ٹوپے کو چوم لیا. میرے ہوںٹھو پر گرم - گرم احساس ہوا جسے میں مزید محسوس کرنا چاہتی تھی.
تبھی اس بوڑھے نے بھی میرے بالوں کو پکڑ لیا اور میرا سر اپنے لنڈ کی طرف دبانے لگا.
میں نے منہ کھولا اور اس کا لنڈ میرے منہ میں سمانے لگا. اس کا لنڈ میں مکمل اپنے منہ میں نہیں گھسا سکی مگر جو باہر تھا اس کو میں نے ایک ہاتھ سے پکڑ لیا اور مسلنے لگی.
بڈھا بھی میرے سر کو اپنے لنڈ پر دبا رہا تھا اور اپنی گانڈ ہلا ہلا کر میرے منہ میں اپنا لنڈ گھسےڑنے کی کوشش کر رہا تھا.
تھوڑی ہی دیر کے بعد اس کے دھکوں نے زور پکڑ لیا اور اس کا لنڈ میرے گلے تک اترنے لگا. میری تو حالت بہت بری ہو رہی تھی کہ اچانک میرے منہ میں جیسے سیلاب آ گیا ہو. میرے منہ میں ایک مزیدار چیز گھل گیا، تب مجھے سمجھ میں آیا کہ بڈھا جھڑ گیا ہے.
تبھی اس کے دھکے بھی رک گئے اور لنڈ بھی ڈھیلا ہونے لگا اور منہ سے باہر آ گیا.
اس کا مال اتنا زیادہ تھا کہ میرے منہ سے نکل کر گردن تک بہہ رہا تھا. کچھ تو میرے گلے سے اندر چلا گیا تھا اور بہت سارا میرے چھاتی تک بہہ کر آ گیا. میں بےسدھ ہوکر پیچھے کی طرف لیٹ گئی. اور وہ بھی ایک طرف لیٹ گیا. اس درمیان ہم تھوڑی رومانی باتیں کرتے رہے.
تھوڑی دیر کے باڑ وہ پھر اٹھا اور میرے دونوں طرف ہاتھ رکھ کر میرے اوپر جھک گیا. پھر اسن مجھے اپنے اوپر کر لیا اور میری برا کی ہک کھول دی. میرے دونوں کبوتر آزاد ہوتے ہی اس کی چھاتی پر جا گرے. اس نے بھی بغیر دیر کئے دونوں کبوتر اپنے ہاتھوں میں تھام لئے اور باری باری دونوں کو منہ میں ڈال کر چوسنے لگا.
وہ میرے مممو کو بڑی بری طرح سے چوس رہا تھا. میری تو جان نکلی جا رہی تھی. میرے مممو کا رسپان کرنے کے بعد وہ اٹھا اور میری ٹانگوں کی طرف بیٹھ گیا. اس نے میری پیںٹی کو پکڑ کر نیچے کھینچ دیا اور دونوں ہاتھوں سے میری ٹاںگے فیلا کر کھول دی.
وہ میری رانوں کو چومنے لگا اور پھر اپنی زبان میری چوت پر رکھ دی. میرے بدن میں جیسے بجلی دوڑنے لگی. میں نے اس کا سر اپنی دونوں رانوں کے بیچ میں دبا لیا اور اس کے سر کو اپنے ہاتھوں سے پکڑ لیا. اس کا لنڈ میرے پیروں کے ساتھ چھو رہا تھا. مجھے پتہ چل گیا کہ اسکا لنڈ پھر سے تیار ہیں اور سخت ہو چکا ہے.
میں نے بوڑھے کی بانہہ پکڑی اور اوپر کی اور کھینچتے ہوئے کہا - میرے اوپر آ جاؤ راجہ ..
وہ بھی سمجھ گیا کہ اب میری پھددي لنڈ لینا چاہتی ہے.
وہ میرے اوپر آ گیا اور اپنا لنڈ میری چوت پر رکھ دیا. میں نے ہاتھ میں پکڑ کر اس کا لنڈ اپنی چوت کے منہ پر ٹكايا اور اندر کو کھیںچا. اس نے بھی ایک دھکا مارا اور اس کا لنڈ میری چوت میں گھس گیا.
میرے منہ سے آہ نکل گئی. میری چوت میں میٹھا سا درد ہونے لگا. اپنے شوہر کے انتظار میں اس درد کے لئے میں بہت تڑپي تھی.
اس نے میرے ہوںٹھ اپنے ہوںٹھو میں لئے اور ایک اور دھکا مارا. اس کا سارا لنڈ میری چوت میں اتر چکا تھا.میرا درد بڑھ گیا تھا. میں نے اس کی گانڈ کو زور سے دبا لیا تھا کہ وہ ابھی اور دھکے نہ مارے.
جب میرا درد کم ہو گیا تو میں اپنی گانڈ ہلانے لگی.
وہ بھی لنڈ کو دھیرے دھیرے سے اندر - باہر کرنے لگا.
کمرے میں میری اور اس کی سيتكارے اور اهو کی آواز گونج رہی تھی. وہ مجھے بےدردي سے پیل رہا تھا اور میں بھی اس کے دھکوں کا جواب اپنی گانڈ اٹھا - اٹھا کر دے رہی تھی.
پھر اس نے مجھے گھوڑی بننے کے لئے کہا.
میں نے گھوڑی بن کر اپنا سر نیچے جھکا لیا. اس نے میری چوت میں اپنا لنڈ ڈالا. مجھے درد ہو رہا تھا مگر میں سہ گئی. درد کم ہوتے ہی پھر سے دھکے زور زور سے چالو ہو گئے. میں تو پہلے ہی جھڑ چکی تھی، اب وہ بھی جھڑنے والا تھا. اس نے دھکے تیز کر دئے.
اب تو مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے یہ بڈھا آج میری چوت پھاڑ دے گا. پھر ایک سیلاب آیا اور اسکا سارا مال میری چوت میں بہہ گیا.
وہ ویسے ہی میرے اوپر گر گیا. میں بھی نیچے الٹی ہی لیٹ گئی اور وہ میرے اوپر لیٹ گیا.
میری چوت میں سے اس کا مال نکل رہا تھا. پھر اس نے مجھے سیدھا کیا اور میری چوت چاٹ چاٹ کر صاف کر دی.
ہم دونوں تھک چکے تھے اور بھوک بھی لگ چکی تھی. اس نے کسی ہوٹل میں فون کیا اور کھانا گھر پر ہی مگوا لیا.
میں نے اپنے چھاتی اور چوت کو کپڑے سے صاف کئے اور اپنی برا اور پینٹی پہننے لگی. اس نے مجھے رکنے کا اشارہ کیا اور ایک گفٹ میرے ہاتھ میں تھما دیا.
میں نے کھول کر دیکھا تو اس میں بہت ہی پیارا، دلکش برا اور پینٹی تھی جو وہ میرے لئے امریکہ سے لایا تھا.پھر میں نے وہی برا اور پیںٹی پہنی اور اپنے کپڑے پہن لیے.
تبھی بیل بجی، وہ باہر گیا اور کھانا لے کر اندر آ گیا.
ہم نے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا.
اس نے مجھے کہا - چلو اب تمہیں شاپنگ کرواتا ہوں.
وہ مجھے مارکیٹ لے گیا. پہلے تو میں نے شادی کے لئے شاپنگ کی، جس کا بل بھی اسی بوڑھے نے دیا. اس نے مجھے بھی ایک بے حد خوبصورت اور قیمتی ساڑھی لے کر دی اور بولا - جب اگلی بار ملنے آؤگی تو یہی ساڑھی پہن کر آنا کیونکہ اس کو تیری تنگ پجامي اتارنے میں بہت مشکل ہوئی آج.
پھر وہ مجھے بس اسٹینڈ تک چھوڑ گیا اور میں بس میں بیٹھ کر واپس اپنے گاؤں اپنے گھر آ گئ