Offline
- Thread Author
- #1
میں فرسٹ ایئر کی طالبہ تھی، جب خالہ نے ہمارے گھر زیادہ آنا جانا شروع کیا۔ اس آنا جانا کا مقصد یہ تھا کہ وہ اپنی صاحبزادی کا رشتہ میرے بھائی سے کرنا چاہتی تھیں۔ میرے دو ہی بھائی تھے: بڑے، شاہد بھائی، جو بزنس کے سلسلے میں انگلینڈ میں رہائش پذیر تھے، جبکہ چھوٹا بھائی زاہد ان دنوں بی اے کا طالب علم تھا۔خالہ نے امی سے بات کی کہ وہ اپنی بیٹی رقیہ کو غیروں میں نہیں بیاہنا چاہتیں۔ امی نے کہا کہ شاہد تو انگلینڈ میں ہے، میں اس کا کچھ نہیں کہہ سکتی۔ پتہ نہیں وہ پاکستان میں شادی کرتا بھی ہے کہ نہیں۔ البتہ زاہد سے بات کروں گی۔ اگر اس نے رقیہ سے شادی پر رضامندی ظاہر کر دی تو وہ رقیہ کو بہو بنا لیں گی۔یوں امی نے زاہد سے بات کی تو اُس نے کہا کہ مجھ سے کیا پوچھتی ہیں، جیسے آپ کی مرضی۔ مجھے آپ کی مرضی سے شادی کرنی ہے۔
بیٹے کا جواب سن کر ماں خوش ہو گئیں اور انہوں نے خالہ کو تسلی دی کہ تم فکر نہ کرو، میں بہت جلد رقیہ کو اپنی بہو بنانے کا اعلان کر دوں گی۔ پھر منگنی کی باقاعدہ رسم بھی ادا کر لی جائے گی۔ان دنوں زاہد نے بی اے کے پرچے دیئے تھے اور اب ایم اے کرنے کا سوچ رہا تھا۔ میں اکثر اسے چھیڑتی کہ دولہا بن کر تم بہت دبلے لگو گے، خدارا کچھ کھاؤ پیو، کچھ پرسنالٹی بناؤ۔ ان دنوں میرا بھائی واقعی کافی دبلا پتلا تھا۔خیر، جب اُس کے کانوں میں رقیہ کا نام پڑا، تو وہ دل ہی دل میں اُسے چاہنے لگا، مگر ہمارے گھر کا ماحول ایسا نہ تھا کہ ان دونوں کی کھلم کھلا بات چیت ہو سکتی۔ بس دور دور سے دعا سلام رہتی تھی۔ میں اکثر زاہد کو رقیہ کے نام سے چھیڑتی، وہ شرما جاتا اور مجھے مصنوعی ڈانٹ دیتا، لیکن مجھے معلوم تھا کہ میرا بھائی دل ہی دل میں اس رشتے سے کافی خوش تھا۔منگنی کے لیے شاہد بھائی کا انتظار تھا کیونکہ انہوں نے اطلاع دی تھی کہ وہ جلد آ رہے ہیں۔ امی نے سوچا کہ بڑا بیٹا آ جائے تو زاہد کی منگنی کروں گی، کیونکہ اس کی شمولیت سے خوشی دوچند ہو جائے گی۔جس روز شاہد بھائی انگلینڈ سے آئے، ہم سب انہیں لینے ایئرپورٹ گئے۔ خالہ اور رقیہ بھی ہمارے ساتھ تھیں۔ جونہی وہ ایئرپورٹ سے باہر آئے، خالہ کی نظریں اُن پر جم گئیں۔ وہ جس طرح بھائی کو دیکھ رہی تھیں، اس سے اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ اب وہ بیٹی کے لیے زاہد کی بجائے شاہد کا انتخاب کرنا چاہتی ہیں۔تب میں نے رقیہ کی طرف دیکھا، وہ بھی شاہد بھائی سے بہت متاثر نظر آ رہی تھی۔ خیر، ہم خوش خوش گھر آ گئے۔ سب ہنس بول رہے تھے۔ ہم سب نے شاہد بھائی کی آؤ بھگت میں کمی نہ کی، آخر اتنے برس بعد وہ اپنے گھر آیا تھا۔زاہد اور میں مذاق کر رہے تھے کہ ہم نے تو سمجھا تھا بھائی اپنے ساتھ ایک عدد میم بھی لائیں گے، لیکن ہمارا خیال خواب ہو گیا۔ امی نے کہا کہ شکر کرو کہ میرا بیٹا کسی انگریزنی کے چکر میں نہیں پڑا۔ میں اب اس کے لیے اپنے وطن سے ہی دلہن تلاش کروں گی۔اسی طرح باتیں ہوتی رہیں، جو خالہ بھی سن رہی تھیں اور سوچوں میں کھو چکی تھیں۔ اب وہ پریشان تھیں اور سوچ رہی تھیں کہ انہوں نے جلد بازی میں غلط فیصلہ کر لیا ہے۔ بیٹی کے لیے زاہد کا انتخاب کر لیا، جو دبلا پتلا، واجبی سا لڑکا ہے اور ابھی کمانے کے لائق بھی نہیں ہے۔دوسری طرف، شاہد کی شخصیت جہاں غضب کی تھی، وہیں اُس کا پھیلا ہوا کاروبار، انداز اور بول چال میں وقار بھی تھا۔ اب وہ ہاتھ مَلنے لگیں کہ ذرا سا انتظار کیوں نہ کر لیا۔ کیوں رقیہ کے لیے زاہد کا رشتہ لیا اور اُدھر بہن نے بھی ہاں کر دی۔رقیہ کا حال بھی خالہ سے کچھ مختلف نہ تھا۔ وہ بھی دل ہی دل میں حسرت کر رہی تھی اور ہاتھ مَل رہی تھی کہ زاہد سے بہتر تو شاہد ہے، مگر لب پر وہ یہ بات نہیں لا سکتی تھیں کیونکہ امی ناراض ہو جاتیں۔ ان کے لیے تو دونوں بیٹے برابر تھے۔ وہ چھوٹے کا دل کیسے توڑ سکتی تھیں، جب کہ اس سے رقیہ کے لیے وعدہ کر چکی تھیں۔رقیہ اب زاہد سے بات کرنے سے کترانے لگی۔ وہ بات کرتا تو چِڑ کر جواب دیتی۔ زاہد حیران تھا کہ اسے کیا ہوا ہے؟ پہلے تو اچھی طرح بات کرتی تھی، اب یکدم سے بیزاری کیوں؟ میری سہیلی زادی بہن بہت خود غرض تھی۔ وہ زاہد سے پیچھا چھڑانے کی ترکیبیں سوچ رہی تھی۔انہی دنوں میری سالگرہ آ گئی۔ امی نے سوچا اس بار عاصمہ کی سالگرہ نہایت دھوم دھام سے منائی جائے تاکہ اس تقریب میں شاہد کی شرکت سونے پر سہاگہ ہو۔
امی نے قریبی رشتہ داروں کو مدعو کر لیا۔ خالہ، خالو اور رقیہ بھی آ گئے۔سب میز کے گرد کھڑے تھے، بڑے زور و شور سے کیک کاٹا گیا اور تحفے ملنے لگے۔ تحفوں کا ڈھیر لگ گیا۔ مہمانوں کی خاطر تواضع ہوئی اور پھر سب چلے گئے۔ امی نے خالہ کو اصرار کر کے روک لیا۔ رقیہ بھی ساتھ ٹھہر گئی، البتہ خالو جان گھر چلے گئے۔رات گیارہ بجے تھے۔ رقیہ ٹی وی لاؤنج سے اٹھ کر کچن میں گئی، جہاں کام والی ماسی کی بیٹی سمیعہ برتن دھو رہی تھی۔ اس نے سمیعہ سے چائے بنانے کو کہا اور خود لان میں آ گئی، جہاں زاہد بھائی اور خالہ بیٹھے تھے۔زاہد نے رقیہ سے کہا کہ آج میرے دوستوں نے تاش کی محفل جمائی ہے، میں وہاں جانا چاہتا ہوں۔ تمہیں برا تو نہیں لگے گا؟خالہ کہنے لگیں کہ بیٹا ضرور جاؤ، اُسے کیوں برا لگے گا؟ کبھی کبھی انسان کو اپنے دوستوں کے ساتھ بھی وقت گزارنا چاہیے۔ٹھیک ہے، بھائی نے جھجکتے ہوئے کہا، آپ میرے کمرے کی چابی لے لیں اور لاک کر کے سو جانا۔ جب میں آ کر دروازہ بجاؤں تو کھول دینا۔ٹھیک ہے، تم بے فکر ہو کر جاؤ، خالہ نے زاہد سے چابی لے کر رقیہ کو دے دی اور بولیں کہ جلدی آنے کی کوشش کرنا۔زاہد چلا گیا۔ اتنے میں سمیعہ چائے لے آئی۔ اس نے میٹرک کے پرچے دیے ہوئے تھے اور اب فارغ تھی، تو کام زیادہ ہونے کی وجہ سے ماسی اُسے ہمارے گھر چھوڑ گئی تھی۔رقیہ نے کہا کہ سمعیہ چلو، میں تمہیں سونے کی جگہ بتا دوں کیونکہ ابھی سب جاگ رہے ہیں۔ تمہیں دیکھ کر سب کو کام یاد آتے رہیں گے، تمہیں چائے، کافی کے جھنجھٹ سے نجات نہ ملے گی۔ سارا دن کام کر کے تم بہت تھک گئی ہو اور ڈھیر برتن بھی دھوئے ہیں۔اس ہمدردی پر لڑکی مشکور نظروں سے رقیہ کو دیکھنے لگی۔ وہ سمعیہ کو لے کر زاہد بھائی کے کمرے میں گئی اور کہا کہ اب تم سو جاؤ، جب تم کسی کو نظر نہ آؤ گی تو تمہارا کام بھی ہلکا ہو جائے گا۔ میں اور امی یہاں پلنگ پر سوئیں گے، تم نیچے فرش پر چادر بچھا لو۔سمعیہ چادر بچھا کر لیٹ گئی۔ ذرا دیر بعد رقیہ نے کمرے کی لائٹ بند کر دی اور کہا کہ تھوڑی دیر بعد امی کے ساتھ آ کر یہاں سو جاؤں گی۔ لڑکی تھکی ہوئی تھی، منٹوں سیکنڈوں میں نیند کی آغوش میں چلی گئی۔ اس ساری کارروائی کا گھر میں کسی کو علم نہ ہوا، سوائے خالہ اور رقیہ کے۔ تھوڑی دیر بعد وہ دونوں میرے کمرے میں آ کر لیٹ گئیں۔ ذرا دیر بعد خالہ تو سو گئیں، لیکن رقیہ جاگتی رہی کیونکہ اسے زاہد کے آنے کا انتظار تھا۔ میں بھی نیند کی آغوش میں چلی گئی۔جونہی صبح چار بجے دروازے پر کھٹکا ہوا، رقیہ دبے قدموں اٹھی، دروازہ کھولا اور ٹی وی لاؤنج میں آ گئی۔ زاہد کو چابی دے کر کہا کہ اپنا کمرہ خود کھول لو، میں سونے جا رہی ہوں۔ یہ کہہ کر وہ میرے کمرے میں واپس آ گئی۔ اتنے میں اذان ہونے لگی۔ زاہد نے اس ڈر سے کہ کہیں امی ابو کو پتہ نہ چلے، آہستگی سے دروازہ کھولا اور لائٹ جلائے بغیر بستر پر جا کر لیٹ گیا۔ وہ تھکا ہوا تھا، لیٹتے ہی نیند آ گئی اور اسے پتا ہی نہ چلا کہ پرلی طرف قالین پر کوئی سو رہا ہے۔اذان ہوتے ہی امی ابو نماز کے لیے اٹھ گئے۔ رقیہ تو پہلے ہی جاگ رہی تھی، وہ نماز پڑھنے کے بہانے خالہ کو جگا کر لاؤنج میں آ گئی، جہاں امی ابو نماز پڑھ رہے تھے۔ ماں بیٹی نے وضو کیا۔ امی ابو نیت باندھ چکے تھے۔ رقیہ دبے قدموں زاہد کے کمرے میں گئی۔ وہ گہری نیند میں تھا۔ رقیہ نے سمعیہ کے پاؤں کو چھوا، وہ اٹھ بیٹھی اور آنکھیں ملتی ہوئی کمرے سے نکل گئی۔امی ابو جو سلام پھیر چکے تھے، اسے زاہد کے کمرے سے نکلتے دیکھ کر حیران رہ گئے۔ تب ہی رقیہ نے کہا کہ تم اس کمرے میں کیا کر رہی تھی؟میں سو رہی تھی، اس نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے جواب دیا۔اتنا سننا تھا کہ رقیہ رونے لگی۔ سب گھبرا گئے کہ کیا ہوا۔ وہ روتے ہوئے بولی کہ زاہد اور سمعیہ رات ایک ہی کمرے میں تھے۔ میں اب زاہد سے منگنی نہیں کروں گی بلکہ کبھی شادی بھی نہیں کروں گی۔ابا جان غصے میں زاہد کے کمرے میں گئے۔ قالین پر چادر بچھی تھی، تکیہ رکھا ہوا تھا، اور پھر انہوں نے سمعیہ کو کمرے سے نکلتے بھی دیکھا تھا۔ غصے میں بیٹے کو جھنجھوڑ کر اٹھایا اور بولے کہ یہ کیا معاملہ ہے؟ اس گھر میں ایسی حرکتیں؟ میں خودکشی کر لوں گا۔ یہ شریفوں کا گھر ہے، اگر یہاں کام والیوں کی عزت محفوظ نہیں تو لعنت ہے ایسی شرافت پر۔وہ نجانے کیا کچھ کہہ رہے تھے۔ زاہد کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیوں ناراض ہیں۔ اُس نے کہا کہ ابا جان، آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔ ابو بولے کہ اب مجھے ایسی باتیں زبان سے کہنی پڑیں گی؟ تم کیوں نہیں ڈوب مرتے؟ پھر سمعیہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولے کہ رات کو اسے سارے گھر میں اور کہیں سونے کی جگہ نہ ملی، جو تمہارے کمرے میں سوئی؟ اور تم نے یہ بات کیسے گوارا کر لی؟ابا جان، مجھے کچھ پتہ نہیں۔ میں تو ساری رات گھر پر ہی نہ تھا، زاہد نے وضاحت دی۔
مگر ابو نے ایک نہ سنی، نہ کچھ پوچھا، جوتا اتار کر بیٹے کی پٹائی کرنے لگے۔ امی بیچاری تھر تھر کانپ رہی تھیں، اور چالباز رقیہ ٹسوے بہاتی میرے کمرے میں آ بیٹھی۔ خالہ بھی سب کچھ دیکھنے کے باوجود خاموش رہیں، شاید اُن کے من کی مراد پوری ہو چکی تھی۔سمعیہ بیچاری روتی ہوئی اپنے گھر چلی گئی۔ کسی کو اس کی پروا نہ تھی۔ نہ کسی نے اس کی بات سنی، نہ کچھ پوچھا، نہ یقین کیا۔ غریب انسان کی کیا اوقات ہوتی ہے کہ کوئی اس کی بات سنے؟انہی دنوں ابو کے ایک دوست، بزنس کے سلسلے میں بیرونِ ملک گئے تو تعلیم کی وجہ سے اپنی بیٹی عائشہ کو ہمارے گھر چھوڑ گئے۔ عائشہ سے میری دوستی پہلے سے تھی۔ ساتھ رہنے سے اس کی اچھی عادتیں مزید کھل کر سامنے آئیں، تو میں نے محسوس کیا کہ وہ زاہد میں دلچسپی لے رہی ہے۔ کیونکہ زاہد کی بیزار طبیعت اور کم گوئی نے عائشہ کو چونکا دیا تھا کہ آخر یہ شخص ایسا کیوں ہے؟وہ اکثر مجھ سے پوچھتی تھی کہ زاہد پہلے تو ایسا نہیں تھا، پھر ایسا کیوں ہو گیا ہے؟ مجبور ہو کر ایک روز میں نے تمام حالات اسے بتا دیے۔ اس کے دل میں زاہد کے لیے ہمدردی کے جذبات جاگ اٹھے۔ پھر ایک دن اس نے زاہد سے خود بات کی۔ زاہد نے بھی اپنا دل عائشہ کے سامنے کھول دیا۔عائشہ کے کہنے پر میں نے امی ابو سے بات کی، پھر عائشہ کے والد سے بھی بات ہو گئی، اور یوں زاہد کا رشتہ عائشہ سے طے پا گیا۔ دونوں کی شادی ہو گئی اور وہ ہنسی خوشی زندگی گزارنے لگے۔ اب زاہد پہلے جیسا ہو گیا تھا—ماں کے قدموں میں بیٹھنے والا، باپ کا ادب کرنے والا، سب کے ساتھ بیٹھ کر کھانے پینے اور ہنسنے بولنے والا۔ یہ سب کچھ صرف عائشہ کی وجہ سے تھا۔ہمارے گھر پر رقیہ کی وجہ سے جو مصیبتیں آئی تھیں، وہ عائشہ کی وجہ سے چھٹ گئیں۔پانچ سال میں اللہ نے زاہد اور عائشہ کو دو بیٹے دیے، جبکہ رقیہ کے ہاں کوئی اولاد نہ ہو سکی۔ وہ دونوں پانچ سال بعد انگلینڈ سے واپس آئے، تو رقیہ خالی گود کی وجہ سے کچھ خوش نہ لگتی تھی۔ دونوں میاں بیوی کو ایک دوسرے سے کافی شکایتیں تھیں۔ وہ کہتی تھی کہ تم لوگ تو میری بربادی پر بہت خوش ہو گئے ہو کہ میں ویسی کی ویسی خالی گود رہ گئی۔ہم اس کی باتیں سن کر چپ رہے۔ اگر اس کی گود خالی تھی، تو اس میں ہمارا کیا قصور تھا؟ انسان کو کبھی مکمل خوشی نہیں ملتی، کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی کمی رہ ہی جاتی ہے۔
زاہد آج تک رقیہ بھابی سے بات نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں کہ اپنوں پر بھی سوچ سمجھ کر اعتبار کرنا چاہیے، کیونکہ کوئی اپنے مطلب کے لیے کیا کچھ کر سکتا ہے۔ چاہے کسی کی زندگی پر داغ لگ جائے… اور ہمارے جیسے بیچارے تو صرف ہاتھ ہی ملتے رہ جاتے ہیں۔
بیٹے کا جواب سن کر ماں خوش ہو گئیں اور انہوں نے خالہ کو تسلی دی کہ تم فکر نہ کرو، میں بہت جلد رقیہ کو اپنی بہو بنانے کا اعلان کر دوں گی۔ پھر منگنی کی باقاعدہ رسم بھی ادا کر لی جائے گی۔ان دنوں زاہد نے بی اے کے پرچے دیئے تھے اور اب ایم اے کرنے کا سوچ رہا تھا۔ میں اکثر اسے چھیڑتی کہ دولہا بن کر تم بہت دبلے لگو گے، خدارا کچھ کھاؤ پیو، کچھ پرسنالٹی بناؤ۔ ان دنوں میرا بھائی واقعی کافی دبلا پتلا تھا۔خیر، جب اُس کے کانوں میں رقیہ کا نام پڑا، تو وہ دل ہی دل میں اُسے چاہنے لگا، مگر ہمارے گھر کا ماحول ایسا نہ تھا کہ ان دونوں کی کھلم کھلا بات چیت ہو سکتی۔ بس دور دور سے دعا سلام رہتی تھی۔ میں اکثر زاہد کو رقیہ کے نام سے چھیڑتی، وہ شرما جاتا اور مجھے مصنوعی ڈانٹ دیتا، لیکن مجھے معلوم تھا کہ میرا بھائی دل ہی دل میں اس رشتے سے کافی خوش تھا۔منگنی کے لیے شاہد بھائی کا انتظار تھا کیونکہ انہوں نے اطلاع دی تھی کہ وہ جلد آ رہے ہیں۔ امی نے سوچا کہ بڑا بیٹا آ جائے تو زاہد کی منگنی کروں گی، کیونکہ اس کی شمولیت سے خوشی دوچند ہو جائے گی۔جس روز شاہد بھائی انگلینڈ سے آئے، ہم سب انہیں لینے ایئرپورٹ گئے۔ خالہ اور رقیہ بھی ہمارے ساتھ تھیں۔ جونہی وہ ایئرپورٹ سے باہر آئے، خالہ کی نظریں اُن پر جم گئیں۔ وہ جس طرح بھائی کو دیکھ رہی تھیں، اس سے اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ اب وہ بیٹی کے لیے زاہد کی بجائے شاہد کا انتخاب کرنا چاہتی ہیں۔تب میں نے رقیہ کی طرف دیکھا، وہ بھی شاہد بھائی سے بہت متاثر نظر آ رہی تھی۔ خیر، ہم خوش خوش گھر آ گئے۔ سب ہنس بول رہے تھے۔ ہم سب نے شاہد بھائی کی آؤ بھگت میں کمی نہ کی، آخر اتنے برس بعد وہ اپنے گھر آیا تھا۔زاہد اور میں مذاق کر رہے تھے کہ ہم نے تو سمجھا تھا بھائی اپنے ساتھ ایک عدد میم بھی لائیں گے، لیکن ہمارا خیال خواب ہو گیا۔ امی نے کہا کہ شکر کرو کہ میرا بیٹا کسی انگریزنی کے چکر میں نہیں پڑا۔ میں اب اس کے لیے اپنے وطن سے ہی دلہن تلاش کروں گی۔اسی طرح باتیں ہوتی رہیں، جو خالہ بھی سن رہی تھیں اور سوچوں میں کھو چکی تھیں۔ اب وہ پریشان تھیں اور سوچ رہی تھیں کہ انہوں نے جلد بازی میں غلط فیصلہ کر لیا ہے۔ بیٹی کے لیے زاہد کا انتخاب کر لیا، جو دبلا پتلا، واجبی سا لڑکا ہے اور ابھی کمانے کے لائق بھی نہیں ہے۔دوسری طرف، شاہد کی شخصیت جہاں غضب کی تھی، وہیں اُس کا پھیلا ہوا کاروبار، انداز اور بول چال میں وقار بھی تھا۔ اب وہ ہاتھ مَلنے لگیں کہ ذرا سا انتظار کیوں نہ کر لیا۔ کیوں رقیہ کے لیے زاہد کا رشتہ لیا اور اُدھر بہن نے بھی ہاں کر دی۔رقیہ کا حال بھی خالہ سے کچھ مختلف نہ تھا۔ وہ بھی دل ہی دل میں حسرت کر رہی تھی اور ہاتھ مَل رہی تھی کہ زاہد سے بہتر تو شاہد ہے، مگر لب پر وہ یہ بات نہیں لا سکتی تھیں کیونکہ امی ناراض ہو جاتیں۔ ان کے لیے تو دونوں بیٹے برابر تھے۔ وہ چھوٹے کا دل کیسے توڑ سکتی تھیں، جب کہ اس سے رقیہ کے لیے وعدہ کر چکی تھیں۔رقیہ اب زاہد سے بات کرنے سے کترانے لگی۔ وہ بات کرتا تو چِڑ کر جواب دیتی۔ زاہد حیران تھا کہ اسے کیا ہوا ہے؟ پہلے تو اچھی طرح بات کرتی تھی، اب یکدم سے بیزاری کیوں؟ میری سہیلی زادی بہن بہت خود غرض تھی۔ وہ زاہد سے پیچھا چھڑانے کی ترکیبیں سوچ رہی تھی۔انہی دنوں میری سالگرہ آ گئی۔ امی نے سوچا اس بار عاصمہ کی سالگرہ نہایت دھوم دھام سے منائی جائے تاکہ اس تقریب میں شاہد کی شرکت سونے پر سہاگہ ہو۔
امی نے قریبی رشتہ داروں کو مدعو کر لیا۔ خالہ، خالو اور رقیہ بھی آ گئے۔سب میز کے گرد کھڑے تھے، بڑے زور و شور سے کیک کاٹا گیا اور تحفے ملنے لگے۔ تحفوں کا ڈھیر لگ گیا۔ مہمانوں کی خاطر تواضع ہوئی اور پھر سب چلے گئے۔ امی نے خالہ کو اصرار کر کے روک لیا۔ رقیہ بھی ساتھ ٹھہر گئی، البتہ خالو جان گھر چلے گئے۔رات گیارہ بجے تھے۔ رقیہ ٹی وی لاؤنج سے اٹھ کر کچن میں گئی، جہاں کام والی ماسی کی بیٹی سمیعہ برتن دھو رہی تھی۔ اس نے سمیعہ سے چائے بنانے کو کہا اور خود لان میں آ گئی، جہاں زاہد بھائی اور خالہ بیٹھے تھے۔زاہد نے رقیہ سے کہا کہ آج میرے دوستوں نے تاش کی محفل جمائی ہے، میں وہاں جانا چاہتا ہوں۔ تمہیں برا تو نہیں لگے گا؟خالہ کہنے لگیں کہ بیٹا ضرور جاؤ، اُسے کیوں برا لگے گا؟ کبھی کبھی انسان کو اپنے دوستوں کے ساتھ بھی وقت گزارنا چاہیے۔ٹھیک ہے، بھائی نے جھجکتے ہوئے کہا، آپ میرے کمرے کی چابی لے لیں اور لاک کر کے سو جانا۔ جب میں آ کر دروازہ بجاؤں تو کھول دینا۔ٹھیک ہے، تم بے فکر ہو کر جاؤ، خالہ نے زاہد سے چابی لے کر رقیہ کو دے دی اور بولیں کہ جلدی آنے کی کوشش کرنا۔زاہد چلا گیا۔ اتنے میں سمیعہ چائے لے آئی۔ اس نے میٹرک کے پرچے دیے ہوئے تھے اور اب فارغ تھی، تو کام زیادہ ہونے کی وجہ سے ماسی اُسے ہمارے گھر چھوڑ گئی تھی۔رقیہ نے کہا کہ سمعیہ چلو، میں تمہیں سونے کی جگہ بتا دوں کیونکہ ابھی سب جاگ رہے ہیں۔ تمہیں دیکھ کر سب کو کام یاد آتے رہیں گے، تمہیں چائے، کافی کے جھنجھٹ سے نجات نہ ملے گی۔ سارا دن کام کر کے تم بہت تھک گئی ہو اور ڈھیر برتن بھی دھوئے ہیں۔اس ہمدردی پر لڑکی مشکور نظروں سے رقیہ کو دیکھنے لگی۔ وہ سمعیہ کو لے کر زاہد بھائی کے کمرے میں گئی اور کہا کہ اب تم سو جاؤ، جب تم کسی کو نظر نہ آؤ گی تو تمہارا کام بھی ہلکا ہو جائے گا۔ میں اور امی یہاں پلنگ پر سوئیں گے، تم نیچے فرش پر چادر بچھا لو۔سمعیہ چادر بچھا کر لیٹ گئی۔ ذرا دیر بعد رقیہ نے کمرے کی لائٹ بند کر دی اور کہا کہ تھوڑی دیر بعد امی کے ساتھ آ کر یہاں سو جاؤں گی۔ لڑکی تھکی ہوئی تھی، منٹوں سیکنڈوں میں نیند کی آغوش میں چلی گئی۔ اس ساری کارروائی کا گھر میں کسی کو علم نہ ہوا، سوائے خالہ اور رقیہ کے۔ تھوڑی دیر بعد وہ دونوں میرے کمرے میں آ کر لیٹ گئیں۔ ذرا دیر بعد خالہ تو سو گئیں، لیکن رقیہ جاگتی رہی کیونکہ اسے زاہد کے آنے کا انتظار تھا۔ میں بھی نیند کی آغوش میں چلی گئی۔جونہی صبح چار بجے دروازے پر کھٹکا ہوا، رقیہ دبے قدموں اٹھی، دروازہ کھولا اور ٹی وی لاؤنج میں آ گئی۔ زاہد کو چابی دے کر کہا کہ اپنا کمرہ خود کھول لو، میں سونے جا رہی ہوں۔ یہ کہہ کر وہ میرے کمرے میں واپس آ گئی۔ اتنے میں اذان ہونے لگی۔ زاہد نے اس ڈر سے کہ کہیں امی ابو کو پتہ نہ چلے، آہستگی سے دروازہ کھولا اور لائٹ جلائے بغیر بستر پر جا کر لیٹ گیا۔ وہ تھکا ہوا تھا، لیٹتے ہی نیند آ گئی اور اسے پتا ہی نہ چلا کہ پرلی طرف قالین پر کوئی سو رہا ہے۔اذان ہوتے ہی امی ابو نماز کے لیے اٹھ گئے۔ رقیہ تو پہلے ہی جاگ رہی تھی، وہ نماز پڑھنے کے بہانے خالہ کو جگا کر لاؤنج میں آ گئی، جہاں امی ابو نماز پڑھ رہے تھے۔ ماں بیٹی نے وضو کیا۔ امی ابو نیت باندھ چکے تھے۔ رقیہ دبے قدموں زاہد کے کمرے میں گئی۔ وہ گہری نیند میں تھا۔ رقیہ نے سمعیہ کے پاؤں کو چھوا، وہ اٹھ بیٹھی اور آنکھیں ملتی ہوئی کمرے سے نکل گئی۔امی ابو جو سلام پھیر چکے تھے، اسے زاہد کے کمرے سے نکلتے دیکھ کر حیران رہ گئے۔ تب ہی رقیہ نے کہا کہ تم اس کمرے میں کیا کر رہی تھی؟میں سو رہی تھی، اس نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے جواب دیا۔اتنا سننا تھا کہ رقیہ رونے لگی۔ سب گھبرا گئے کہ کیا ہوا۔ وہ روتے ہوئے بولی کہ زاہد اور سمعیہ رات ایک ہی کمرے میں تھے۔ میں اب زاہد سے منگنی نہیں کروں گی بلکہ کبھی شادی بھی نہیں کروں گی۔ابا جان غصے میں زاہد کے کمرے میں گئے۔ قالین پر چادر بچھی تھی، تکیہ رکھا ہوا تھا، اور پھر انہوں نے سمعیہ کو کمرے سے نکلتے بھی دیکھا تھا۔ غصے میں بیٹے کو جھنجھوڑ کر اٹھایا اور بولے کہ یہ کیا معاملہ ہے؟ اس گھر میں ایسی حرکتیں؟ میں خودکشی کر لوں گا۔ یہ شریفوں کا گھر ہے، اگر یہاں کام والیوں کی عزت محفوظ نہیں تو لعنت ہے ایسی شرافت پر۔وہ نجانے کیا کچھ کہہ رہے تھے۔ زاہد کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیوں ناراض ہیں۔ اُس نے کہا کہ ابا جان، آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔ ابو بولے کہ اب مجھے ایسی باتیں زبان سے کہنی پڑیں گی؟ تم کیوں نہیں ڈوب مرتے؟ پھر سمعیہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولے کہ رات کو اسے سارے گھر میں اور کہیں سونے کی جگہ نہ ملی، جو تمہارے کمرے میں سوئی؟ اور تم نے یہ بات کیسے گوارا کر لی؟ابا جان، مجھے کچھ پتہ نہیں۔ میں تو ساری رات گھر پر ہی نہ تھا، زاہد نے وضاحت دی۔
مگر ابو نے ایک نہ سنی، نہ کچھ پوچھا، جوتا اتار کر بیٹے کی پٹائی کرنے لگے۔ امی بیچاری تھر تھر کانپ رہی تھیں، اور چالباز رقیہ ٹسوے بہاتی میرے کمرے میں آ بیٹھی۔ خالہ بھی سب کچھ دیکھنے کے باوجود خاموش رہیں، شاید اُن کے من کی مراد پوری ہو چکی تھی۔سمعیہ بیچاری روتی ہوئی اپنے گھر چلی گئی۔ کسی کو اس کی پروا نہ تھی۔ نہ کسی نے اس کی بات سنی، نہ کچھ پوچھا، نہ یقین کیا۔ غریب انسان کی کیا اوقات ہوتی ہے کہ کوئی اس کی بات سنے؟انہی دنوں ابو کے ایک دوست، بزنس کے سلسلے میں بیرونِ ملک گئے تو تعلیم کی وجہ سے اپنی بیٹی عائشہ کو ہمارے گھر چھوڑ گئے۔ عائشہ سے میری دوستی پہلے سے تھی۔ ساتھ رہنے سے اس کی اچھی عادتیں مزید کھل کر سامنے آئیں، تو میں نے محسوس کیا کہ وہ زاہد میں دلچسپی لے رہی ہے۔ کیونکہ زاہد کی بیزار طبیعت اور کم گوئی نے عائشہ کو چونکا دیا تھا کہ آخر یہ شخص ایسا کیوں ہے؟وہ اکثر مجھ سے پوچھتی تھی کہ زاہد پہلے تو ایسا نہیں تھا، پھر ایسا کیوں ہو گیا ہے؟ مجبور ہو کر ایک روز میں نے تمام حالات اسے بتا دیے۔ اس کے دل میں زاہد کے لیے ہمدردی کے جذبات جاگ اٹھے۔ پھر ایک دن اس نے زاہد سے خود بات کی۔ زاہد نے بھی اپنا دل عائشہ کے سامنے کھول دیا۔عائشہ کے کہنے پر میں نے امی ابو سے بات کی، پھر عائشہ کے والد سے بھی بات ہو گئی، اور یوں زاہد کا رشتہ عائشہ سے طے پا گیا۔ دونوں کی شادی ہو گئی اور وہ ہنسی خوشی زندگی گزارنے لگے۔ اب زاہد پہلے جیسا ہو گیا تھا—ماں کے قدموں میں بیٹھنے والا، باپ کا ادب کرنے والا، سب کے ساتھ بیٹھ کر کھانے پینے اور ہنسنے بولنے والا۔ یہ سب کچھ صرف عائشہ کی وجہ سے تھا۔ہمارے گھر پر رقیہ کی وجہ سے جو مصیبتیں آئی تھیں، وہ عائشہ کی وجہ سے چھٹ گئیں۔پانچ سال میں اللہ نے زاہد اور عائشہ کو دو بیٹے دیے، جبکہ رقیہ کے ہاں کوئی اولاد نہ ہو سکی۔ وہ دونوں پانچ سال بعد انگلینڈ سے واپس آئے، تو رقیہ خالی گود کی وجہ سے کچھ خوش نہ لگتی تھی۔ دونوں میاں بیوی کو ایک دوسرے سے کافی شکایتیں تھیں۔ وہ کہتی تھی کہ تم لوگ تو میری بربادی پر بہت خوش ہو گئے ہو کہ میں ویسی کی ویسی خالی گود رہ گئی۔ہم اس کی باتیں سن کر چپ رہے۔ اگر اس کی گود خالی تھی، تو اس میں ہمارا کیا قصور تھا؟ انسان کو کبھی مکمل خوشی نہیں ملتی، کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی کمی رہ ہی جاتی ہے۔
زاہد آج تک رقیہ بھابی سے بات نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں کہ اپنوں پر بھی سوچ سمجھ کر اعتبار کرنا چاہیے، کیونکہ کوئی اپنے مطلب کے لیے کیا کچھ کر سکتا ہے۔ چاہے کسی کی زندگی پر داغ لگ جائے… اور ہمارے جیسے بیچارے تو صرف ہاتھ ہی ملتے رہ جاتے ہیں۔