Master Mind
Premium
Offline
- Thread Author
- #1
یہ جھنگ کے قریب چھوٹے سے قصبے شورکوٹ کے گاؤں میں مہندی کی تقریب کا منظر تھا۔ شادی کی تیاریاں اچانک روک دی گئیں تھیں۔ وجہ وہی دیہاتوں میں ہونے والے جھگڑے تھے جن کی وجہ صرف انا پرستی، ضد اور جہالت تھی۔ لڑکے کے باپ چوہدری سرور نے اپنے غصے سے آسمان سر پر اٹھایا ہؤا تھا کیونکہ اسکی ہونے والی بہو نے اپنے باپ اور باقی سب لوگوں کے سامنے چوہدری کے اپنے بیٹے کے مستقبل کے بارے میں کئے فیصلے پر اعتراض اٹھایا تھا۔
لیکن اس ساری چدکی کے بعد بات بحث و تکرار سے شروع ہو کر گالی گلوچ تک آ گئی تھی۔ چوہدری نے اپنے حاکموں والے سٹائل میں حکم سنا دیا تھا کہ وہ اپنے وارث کے لئے صرف 9 مہینے انتظار کرے گا۔ یہ حکم نامہ چوہدری نے دولہا اور دولہن دونوں کے خاندان اور سب مہمانوں کے سامنے صادر کیا تھا۔ دولہن رضیہ بھی سامنے ہی موجود تھی جس کو گاؤں کے رواج کے مطابق بولنے کی اجازت نہیں تھی۔ لیکن رضیہ کے باپ نے اسے بہت نازوں سے پالا تھا اور اپنی زندگی کے فیصلے لینے کی پوری آزادی دی تھی ۔ جب اس دور میں گاؤں کے لڑکے تعلیم کو وقت کا زیاں سمجھتے تھے رضیہ کے باپ نے اسے اچھی تعلیم دلوائی یہاں تک کے وہ گرایجویشن کے لئے سرگودھا ہاسٹل میں بھی رہتی رہی تھی۔ اس وقت وہ اپنے گاؤں کی سب سے تعلیم یافتہ لڑکی تھی۔
رضیہ نے جب دیکھا کے کیسے اسکا ہونے والا سسر اسکے بارے میں کسی استعمال ہونے والی چیز کی طرح حکم جاری کر رہا ہے تو بے عزتی اور غصے کے احساس سے اسکا گندمی رنگ لال سرخ ہو گیا۔ وہ ایک دم اپنی جگہہ سے اٹھی اور اپنے سسر کی آنکھوں میں جھانکتے ہؤۓ بولی:" شادی کے بعد 5 سال تک میرا ماں بننے کا کوئی ارادہ نہیں۔ میں نوکری کروں گی اور میرا شوہر سجاد بھی۔ ہم اولاد سے پہلے اپنے پیروں پر کھڑے ہوں گے۔ اولاد کے بارے میں ہر فیصلہ میں اور میرا شوہر لیں گے" ۔ یہ سب کہتے وقت رضیہ کا چہرہ غصے سے لال بھبھوکہ ہو رہا تھا اور اسکی سانسیں تیز تیز چل رہی تھی جس سے اس کے بڑے بڑے ممے اوپر نیچے ہو رہے تھے۔ اپنے دل کی بات سب کے سامنے دھڑلے سے بول کر رضیہ نے جب دیکھا تو سارے مجمعے کو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا۔
پورے مجمعے کی نظریں اب چوہدری سرور پر تھی کہ اسکا ردعمل کیا ہوتا ہے۔ "او چھوکری!" تیری ہمت کیسے ہؤئی میرے بیٹے کا نام اپنی زبان سے لینے کی؟ تو ہوتی کون ہے یہ فیصلہ کرنے والی کہ میرے گھر میں کیا ہو گا؟
رضیہ نے بھی اونچی آواز میں جواب دیا، "پوچھو اپنے بیٹے سے، جب میرے پیچھے پیچھے پورے گاؤں میں دم ہلاتا پھرتا تھا، اسی نے کہا تھا کہ مجھے میرے نام سے بلایا کرو اور شادی کے بعد جو میں چاہوں گی وہی ہو گا"
رضیہ کے باپ کو انداذہ ہو گیا تھا کہ بات بگڑتی جا رہی ہے اور اگر رضیہ اور چوہدری کو نہ سمجھایا تو معاملہ ہاتھ سے نکل جائے گا اور پورے پنڈ میں وہ کسی کو منہ دکھانے لائق نہیں بچے گا۔ رضیہ کے باپ نے چوہدری کے آگے ہاتھ جوڑے اور بولا،"چوہدری صاحب میری بیٹی ملازمت کرنا چاہتی ہے اور اگر ماں بن گئی تو یہ کیسے ملازمت کر سکے گی۔ لیکن اہک بار جب یہ آپکی بہو بن گئی تو آپکا حکم ماننا اس پر فرض ہو گا پھر آپ اپنی چلا لینا". چوہدری کو اسکی بات میں چھپے پیغام کی سمجھ آ گئی تھی۔
لیکن حاکموں کی ہٹ دھرمی تو مشہور ہے اور چوہدری کے سامنے آج تک کسی نے اونچی آواز میں بات تک نہیں کی تھی۔ چوہدری بولا، "بحث کی کوئی ضرورت نہیں۔ کہیں تمہاری بیٹی میں کوئی نقص تو نہیں جسے تم چھپانے کی کوشش کر رہے ہو۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ ماں بننے کے قابل ہی نہ ہو؟ یا یہ عورت کی جگہ کھسرا ہو؟
چوہدری کے منہ سے یہ نکلنا تھا ک رضیہ کے برادری والے ایک ساتھ کھڑے ہو گئے اور ان کی آنکھوں سے غصہ صاف جھلکنے لگا۔ اور اس کے بعد وہ گالی گلوچ شروع ہوئی کہ الامان۔۔ یہ سب کنجرخانہ 2 گھنٹے جاری رہا جس کے بعد چوہدری غصے میں بھرا اپنے لوگوں کو لے کر اپنی حویلی چلا گیا اور رضیہ کے گھر والے اپنے گھر چلے گئے۔
رات کے 10 بجے تھے گاؤں کی زیادہ تر آبادی سو چکی تھی اور حویلی میں چوہدری اپنے بیٹے سجاد کے اوپر غصہ اتار رہا تھا جس کی عاشقی کہ قصے آج پورے پنڈ کی زبان پر تھے۔ اس زیادہ غصہ اس بات کا تھا کہ رضیہ کو اتنی ہمت اسی وجہ سے ہوئی تھی کیونکہ اسے پتہ تھا کہ سجاد اس کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ادھر رضیہ اپنے گھر کی چھت پر بیٹھی چوہدری کے اس سوال پر آگ بگولہ ہو رہی تھی جو چوہدری نے اسکے عورت ہونے پر اٹھائے تھے۔میں اس آدمی کو سبق سکھا کر رہوں گی رضیہ نے اپنے آپ سے کہا۔ لیکن بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے گا کون، پورے پنڈ میں کسی میں اتنی ہمت نہیں کہ چوہدری کے سامنے کوئی سر بھی اٹھا سکے۔جو بھی کرنس ہے خود ہی کرنا پڑے گا۔ اور بدلہ تو ایسا ہو کہ چوہدری کو اسی عورت کے آگے سر جھکانا پڑے جس کے عورت ہونے پر اس شک ہؤا تھا۔
رات کے 12 بجے رضیہ نے چپکے سے گھر کا دروازہ کھولا اور اندھیرے میں چوہدری کی حویلی کی طرف چل پڑی۔ حویلی کے گیٹ پر چوکیداروں نے اسے روکا لیکن شناخت کے بعد پتہ چلنے پر کہ وہ حویلی کی ہونے والی بہو ہے اسے اندر جانے کی اجازت مل گئی۔ حویلی سے اندر آتے ہی بھت بڑا صحن تھا جس کی ایک طرف شیڈ میں 50 کے قریب بھینسیں بندھی تھیں اس سے تھوڑا آگے ایک بہت بڑا باغ تھا جس میں آم کے ایک درخت کے نیچے چوہدری ایک کرسی پر بیٹھا حقہ پی رہا تھا اور اسکے کمی اور چیلے اینٹوں کے فرش پر نیچے بیٹھے تھے اور ان میں سے ایک چوہدری کی ٹانگیں دبا رہا تھا۔ انہوں نے رضیہ کو آتے دیکھا تو ایک دم سب کو چپ لگ گئی۔ رضیہ خاموشی سے چوہدری کی کرسی کے پاس آ کر کھڑی ہو گئی اور کھنکھاری۔ کافی دور سے چل کر آنے اور اس ساری صورت حال کی ٹینشن کی وجہ سے رضیہ کا سانس چڑھا ہؤا تھا۔ کھنکھار کی آواز سن کر چوہدری نے اپنی سرخ سرخ آنکھیں کھولیں اور رضیہ کو اس وقت اور اس جگہ دیکھ کر حیران ہو گیا اور آنکھیں پھاڑ کر اسکی طرف دیکھنے لگا۔ مہندی کا پیلا جوڑا اس کے پسینے میں بھیگ کر اس کے جسم سے چپکا ہؤا تھا اور کرسی پر بیٹھے چوہدری کو نیچے سے اس کے تنے ہوئے پستان مغرور پہاڑوں کی طرح لگ رہے تھے۔ اوپر سے بلب کی پیلے رنگ کی روشنی رضیہ کو مزید قیامت بنا رہی تھی۔ اتنے میں چوہدری کو احساس ہوا کہ یہ کوئی عام لڑکی نہیں بلکہ اسکے بیٹے کی پسند اور شاید اسکی ہونے والی بہو ہے۔ چوہدری نے دیکھا کہ اس کے چیلے بھی آنکھیں پھاڑے رضیہ کو ہی دیکھ رہے تھے۔ وہ غرایا،"او مادرچودو دفع ہو جاؤ میری نظروں کے سامنے سے " اسکی غراہٹ سنتے ہی سب اپنے اپنے ٹھکانے کی طرف چل پڑے۔
"اب تم یہں کیا لینے آئی ہو" چوہدری نے پوچھا، اسے اندازہ تھا کہ شاید یہ لڑکی اپنی زبان درازی پر معافی مانگنے آئی ہے۔"
میں یہ کہنے آئی ہوں کہ آپ جیسی بڑی بڑی مونچھیں رکھنے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپکے خاندان والے بڑے مرد ہیں، آپکو چاہیئے تھا کہ آپ میرے عورت ہونے پر سوال اٹھانے سے پہلے 10 دفعہ سوچتے" رضیہ طنزیہ انداز میں مسکراتے ہوۓ بولی۔
رضیہ کا طنزیہ انداز اور اسکے الفاظ ایسے تھے کہ چوہدری کو لگا کہ اسکے کانوں میں سے دھواں نکلنے لگا ہے۔ بلب کی پیلی روشنی آم کے درخت کے پتوں سے چھن چھن کر رضیہ پر پڑ رہی تھی جس سے وہ کوئی غیرانسانی مخلوق لگ رہی تھی۔ اس پر اسکی آواز اور اسکے الفاظ سے چوہدری کی مردانگی کو شدید ٹھیس لگی تھی۔ چوہدری کے دماغ میں ایک ہی بات چل رہی تھی کہ اس لڑکی کو سبق سکھانا پڑے گا کہ مرد ہوتا کیا ہے۔
وہ غصے میں بھرا کرسی سے اٹھا اور شیر کی طرح رضیہ کی طرف بڑھا۔اسکے ہاتھ ایسے پھیلے ہوئے تھے جیسے اس کے منہ پر تھپڑ مار کر اس کا منہ توڑ دے گا۔۔۔(جاری ہے )
لیکن اس ساری چدکی کے بعد بات بحث و تکرار سے شروع ہو کر گالی گلوچ تک آ گئی تھی۔ چوہدری نے اپنے حاکموں والے سٹائل میں حکم سنا دیا تھا کہ وہ اپنے وارث کے لئے صرف 9 مہینے انتظار کرے گا۔ یہ حکم نامہ چوہدری نے دولہا اور دولہن دونوں کے خاندان اور سب مہمانوں کے سامنے صادر کیا تھا۔ دولہن رضیہ بھی سامنے ہی موجود تھی جس کو گاؤں کے رواج کے مطابق بولنے کی اجازت نہیں تھی۔ لیکن رضیہ کے باپ نے اسے بہت نازوں سے پالا تھا اور اپنی زندگی کے فیصلے لینے کی پوری آزادی دی تھی ۔ جب اس دور میں گاؤں کے لڑکے تعلیم کو وقت کا زیاں سمجھتے تھے رضیہ کے باپ نے اسے اچھی تعلیم دلوائی یہاں تک کے وہ گرایجویشن کے لئے سرگودھا ہاسٹل میں بھی رہتی رہی تھی۔ اس وقت وہ اپنے گاؤں کی سب سے تعلیم یافتہ لڑکی تھی۔
رضیہ نے جب دیکھا کے کیسے اسکا ہونے والا سسر اسکے بارے میں کسی استعمال ہونے والی چیز کی طرح حکم جاری کر رہا ہے تو بے عزتی اور غصے کے احساس سے اسکا گندمی رنگ لال سرخ ہو گیا۔ وہ ایک دم اپنی جگہہ سے اٹھی اور اپنے سسر کی آنکھوں میں جھانکتے ہؤۓ بولی:" شادی کے بعد 5 سال تک میرا ماں بننے کا کوئی ارادہ نہیں۔ میں نوکری کروں گی اور میرا شوہر سجاد بھی۔ ہم اولاد سے پہلے اپنے پیروں پر کھڑے ہوں گے۔ اولاد کے بارے میں ہر فیصلہ میں اور میرا شوہر لیں گے" ۔ یہ سب کہتے وقت رضیہ کا چہرہ غصے سے لال بھبھوکہ ہو رہا تھا اور اسکی سانسیں تیز تیز چل رہی تھی جس سے اس کے بڑے بڑے ممے اوپر نیچے ہو رہے تھے۔ اپنے دل کی بات سب کے سامنے دھڑلے سے بول کر رضیہ نے جب دیکھا تو سارے مجمعے کو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا۔
پورے مجمعے کی نظریں اب چوہدری سرور پر تھی کہ اسکا ردعمل کیا ہوتا ہے۔ "او چھوکری!" تیری ہمت کیسے ہؤئی میرے بیٹے کا نام اپنی زبان سے لینے کی؟ تو ہوتی کون ہے یہ فیصلہ کرنے والی کہ میرے گھر میں کیا ہو گا؟
رضیہ نے بھی اونچی آواز میں جواب دیا، "پوچھو اپنے بیٹے سے، جب میرے پیچھے پیچھے پورے گاؤں میں دم ہلاتا پھرتا تھا، اسی نے کہا تھا کہ مجھے میرے نام سے بلایا کرو اور شادی کے بعد جو میں چاہوں گی وہی ہو گا"
رضیہ کے باپ کو انداذہ ہو گیا تھا کہ بات بگڑتی جا رہی ہے اور اگر رضیہ اور چوہدری کو نہ سمجھایا تو معاملہ ہاتھ سے نکل جائے گا اور پورے پنڈ میں وہ کسی کو منہ دکھانے لائق نہیں بچے گا۔ رضیہ کے باپ نے چوہدری کے آگے ہاتھ جوڑے اور بولا،"چوہدری صاحب میری بیٹی ملازمت کرنا چاہتی ہے اور اگر ماں بن گئی تو یہ کیسے ملازمت کر سکے گی۔ لیکن اہک بار جب یہ آپکی بہو بن گئی تو آپکا حکم ماننا اس پر فرض ہو گا پھر آپ اپنی چلا لینا". چوہدری کو اسکی بات میں چھپے پیغام کی سمجھ آ گئی تھی۔
لیکن حاکموں کی ہٹ دھرمی تو مشہور ہے اور چوہدری کے سامنے آج تک کسی نے اونچی آواز میں بات تک نہیں کی تھی۔ چوہدری بولا، "بحث کی کوئی ضرورت نہیں۔ کہیں تمہاری بیٹی میں کوئی نقص تو نہیں جسے تم چھپانے کی کوشش کر رہے ہو۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ ماں بننے کے قابل ہی نہ ہو؟ یا یہ عورت کی جگہ کھسرا ہو؟
چوہدری کے منہ سے یہ نکلنا تھا ک رضیہ کے برادری والے ایک ساتھ کھڑے ہو گئے اور ان کی آنکھوں سے غصہ صاف جھلکنے لگا۔ اور اس کے بعد وہ گالی گلوچ شروع ہوئی کہ الامان۔۔ یہ سب کنجرخانہ 2 گھنٹے جاری رہا جس کے بعد چوہدری غصے میں بھرا اپنے لوگوں کو لے کر اپنی حویلی چلا گیا اور رضیہ کے گھر والے اپنے گھر چلے گئے۔
رات کے 10 بجے تھے گاؤں کی زیادہ تر آبادی سو چکی تھی اور حویلی میں چوہدری اپنے بیٹے سجاد کے اوپر غصہ اتار رہا تھا جس کی عاشقی کہ قصے آج پورے پنڈ کی زبان پر تھے۔ اس زیادہ غصہ اس بات کا تھا کہ رضیہ کو اتنی ہمت اسی وجہ سے ہوئی تھی کیونکہ اسے پتہ تھا کہ سجاد اس کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ادھر رضیہ اپنے گھر کی چھت پر بیٹھی چوہدری کے اس سوال پر آگ بگولہ ہو رہی تھی جو چوہدری نے اسکے عورت ہونے پر اٹھائے تھے۔میں اس آدمی کو سبق سکھا کر رہوں گی رضیہ نے اپنے آپ سے کہا۔ لیکن بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے گا کون، پورے پنڈ میں کسی میں اتنی ہمت نہیں کہ چوہدری کے سامنے کوئی سر بھی اٹھا سکے۔جو بھی کرنس ہے خود ہی کرنا پڑے گا۔ اور بدلہ تو ایسا ہو کہ چوہدری کو اسی عورت کے آگے سر جھکانا پڑے جس کے عورت ہونے پر اس شک ہؤا تھا۔
رات کے 12 بجے رضیہ نے چپکے سے گھر کا دروازہ کھولا اور اندھیرے میں چوہدری کی حویلی کی طرف چل پڑی۔ حویلی کے گیٹ پر چوکیداروں نے اسے روکا لیکن شناخت کے بعد پتہ چلنے پر کہ وہ حویلی کی ہونے والی بہو ہے اسے اندر جانے کی اجازت مل گئی۔ حویلی سے اندر آتے ہی بھت بڑا صحن تھا جس کی ایک طرف شیڈ میں 50 کے قریب بھینسیں بندھی تھیں اس سے تھوڑا آگے ایک بہت بڑا باغ تھا جس میں آم کے ایک درخت کے نیچے چوہدری ایک کرسی پر بیٹھا حقہ پی رہا تھا اور اسکے کمی اور چیلے اینٹوں کے فرش پر نیچے بیٹھے تھے اور ان میں سے ایک چوہدری کی ٹانگیں دبا رہا تھا۔ انہوں نے رضیہ کو آتے دیکھا تو ایک دم سب کو چپ لگ گئی۔ رضیہ خاموشی سے چوہدری کی کرسی کے پاس آ کر کھڑی ہو گئی اور کھنکھاری۔ کافی دور سے چل کر آنے اور اس ساری صورت حال کی ٹینشن کی وجہ سے رضیہ کا سانس چڑھا ہؤا تھا۔ کھنکھار کی آواز سن کر چوہدری نے اپنی سرخ سرخ آنکھیں کھولیں اور رضیہ کو اس وقت اور اس جگہ دیکھ کر حیران ہو گیا اور آنکھیں پھاڑ کر اسکی طرف دیکھنے لگا۔ مہندی کا پیلا جوڑا اس کے پسینے میں بھیگ کر اس کے جسم سے چپکا ہؤا تھا اور کرسی پر بیٹھے چوہدری کو نیچے سے اس کے تنے ہوئے پستان مغرور پہاڑوں کی طرح لگ رہے تھے۔ اوپر سے بلب کی پیلے رنگ کی روشنی رضیہ کو مزید قیامت بنا رہی تھی۔ اتنے میں چوہدری کو احساس ہوا کہ یہ کوئی عام لڑکی نہیں بلکہ اسکے بیٹے کی پسند اور شاید اسکی ہونے والی بہو ہے۔ چوہدری نے دیکھا کہ اس کے چیلے بھی آنکھیں پھاڑے رضیہ کو ہی دیکھ رہے تھے۔ وہ غرایا،"او مادرچودو دفع ہو جاؤ میری نظروں کے سامنے سے " اسکی غراہٹ سنتے ہی سب اپنے اپنے ٹھکانے کی طرف چل پڑے۔
"اب تم یہں کیا لینے آئی ہو" چوہدری نے پوچھا، اسے اندازہ تھا کہ شاید یہ لڑکی اپنی زبان درازی پر معافی مانگنے آئی ہے۔"
میں یہ کہنے آئی ہوں کہ آپ جیسی بڑی بڑی مونچھیں رکھنے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپکے خاندان والے بڑے مرد ہیں، آپکو چاہیئے تھا کہ آپ میرے عورت ہونے پر سوال اٹھانے سے پہلے 10 دفعہ سوچتے" رضیہ طنزیہ انداز میں مسکراتے ہوۓ بولی۔
رضیہ کا طنزیہ انداز اور اسکے الفاظ ایسے تھے کہ چوہدری کو لگا کہ اسکے کانوں میں سے دھواں نکلنے لگا ہے۔ بلب کی پیلی روشنی آم کے درخت کے پتوں سے چھن چھن کر رضیہ پر پڑ رہی تھی جس سے وہ کوئی غیرانسانی مخلوق لگ رہی تھی۔ اس پر اسکی آواز اور اسکے الفاظ سے چوہدری کی مردانگی کو شدید ٹھیس لگی تھی۔ چوہدری کے دماغ میں ایک ہی بات چل رہی تھی کہ اس لڑکی کو سبق سکھانا پڑے گا کہ مرد ہوتا کیا ہے۔
وہ غصے میں بھرا کرسی سے اٹھا اور شیر کی طرح رضیہ کی طرف بڑھا۔اسکے ہاتھ ایسے پھیلے ہوئے تھے جیسے اس کے منہ پر تھپڑ مار کر اس کا منہ توڑ دے گا۔۔۔(جاری ہے )