Shehla69
Elite writer
Offline
- Thread Author
- #1
شادی اور اس کے بعد ہونے والی دعوتوں کے ہنگامے ٹھنڈے پڑے ہی تھے کہ رمضان کریم کی رونقیں جاگ اٹھیں۔ خالہ کا دل تھا کہ رمضان کی شروعات میں ہی عروسہ کا ہاتھ میٹھے میں لگوا کر باورچی خانہ اس کے حوالے کردیں۔ یہی سوچ کر انہوں نے پہلے جمعے کا دن طے کیا تھا۔ وہ لڈن ماموں سے مشورہ کرنے لگی تھیں۔ کیا کہتے ہو بھیا لڈن ! اب عروسہ کا ہاتھ میٹھے میں لگوا دینا چاہیے۔ بات مکمل کر کے خالہ نے ماموں کی طرف جواب طلب نظروں سے دیکھا۔ ہاں ! ہاں ! بالکل ٹھیک ہے۔ لگوا دو اب میٹھے کا ہاتھ عروسہ بیٹی کو – بالکل کو ٹھیک ادا کرنے کے چکر میں ماموں سے سارا جملہ ہی الٹ گیا۔ برآمدے میں کھڑے نومی کو ہنستا دیکھ خالہ نے اپنے پلنگ کے نیچے سے جوتی کھینچ ماری، جو نومی نے مہارت سے کیچ کرکے کالر اکڑائے۔ میں کہتی ہوں کل پہلا جمعہ ہے۔ عروسہ سے کھیر بنوا کر ارد گرد محلے میں بانٹ دوں گی آپا اور نفیسہ کو بچے اپنے پھٹ پھٹیا پر دے آئیں گے ۔ کیا دے آئیں گے امی؟ عاقب نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے پوچھا۔ عروسہ نے بھی سوالیہ نظروں سے خالہ کی طرف دیکھا۔ بلکہ عروسہ تو خوف زدہ بھی لگ رہی تھی کہ پتا نہیں یہ کھیر بنے والی ہے یا پھر اس کا قیمہ- نئی دلہنیں بے چاریاں شروع شروع میں ایسے ہی ڈرتی ہیں ۔ وہ الگ بات ہے کہ پھر یہ ڈر ساس صاحبہ میں منتقل ہو جاتا ہے۔ ارے بیٹا میں کہتی ہوں کل پہلا جمعہ ہے۔ عروسہ سے کھیر پکوا کر محلے میں بنوا دوں اور باورچی خانہ عروسہ کو سونپ دوں۔ آپا دینے اپنے خاندان میں تو ہمیشہ میٹھا پکوائی کی دعوت ہوتی ہے۔ سب مل بیٹھتے ہیں۔ لڈن ماموں نے متوقع دعوت کا مزہ لیا ۔ ایسے موقعوں پر بھولی بسری سب رسمیں یاد آجاتی میں انہیں۔ مل بیٹھنے کی اچھی کہی تم نے لڈن- کتنی دعوتیں ہوئیں شادی کے بعد سے اب تک لیکن تمہارا مل میٹھنے کا شوق نہ گیا۔ مل میٹھنے نہیں امی مل بیٹھنے عروسہ کی زبان سے یکدم پھسلا تھا، عاقب نے اسے گھور کر دیکھا تھا کہ کیوں امی کو ساس بننے کی دعوت دیتی ہو۔ امی ! ٹھیک کہ رہے ہیں لڈن ماموں ۔ سب ہی لوگ دعوت کرتے ہیں۔ آپ کل افطار کی دعوت رکھ لیں۔ میں اور عروسہ سب انتظام کر لیں گے آپ بس رقم دے دیجیے۔ عاقب نے معاملہ سمیٹا۔ تم لوگ تو سب کے سب ایک سے بڑھ کر ایک فضول خرچ ہو۔ نظر نہیں آتا کہ شادی پر کتنا غضب کا خرچ ہوا ہے۔” غضب کا خرچ ” عروسہ کو بے ساختہ شادی کے ملبوسات یاد آگئے تھے۔ وہ آہ بھر کر رہ گئی تھی اور ساس صاحبہ کو محبت بھری نظروں سے دیکھنے کی جان توڑ کوشش کر رہی تھی۔ تمھیں اور عروسہ کو آنے جانے کے لیے نئی پھٹ پھٹیا بھی خرید دی ہے۔ خالہ کے نتھنے پھول گئے ۔ امی ! وہ موٹر سائیکل کے پیسے تو آپا اور چھوٹی ممانی نے دیے تھے ۔ ” منے نے بروقت گفتگو میں حصہ لیا۔ لیکن خرچ تو ہوا ناں ! وہی رقم بچتی تو بیسیوں کام نپٹتے ۔ سب باتیں چھوڑیے، کل کی دعوت کا پروگرام طے کیجیے۔ ابھی سب کو اطلاع بھی کرنی ہے اور سودا سلف بھی لانا ہوگا ۔ عاقب نے گفتگو کا رخ دوبارہ دعوت کی طرف موڑا ۔ ارے کون سی دعوت کہاں کی دعوت ؟ باؤلے کھیر پکاے گی عروسہ اور ہم بانٹ دیں گے ہیں۔ پہلے منگنی کی ، پھر شادی اور اب یہ دعوتیں ، وہ کیا کسی نواب کی اولاد ھیں جو دونوں ہاتھوں سے پیسہ لٹاتی رہتیں۔ ان کی بڑبڑاہٹوں سے سب محظوظ ہورہے تھے۔ آپا ! عاقب ٹھیک کہہ رہا ہے، آپ کل کی دعوت رکھ لیں۔ ہمارے خاندان کا پرانا رواج ہے۔ پھر آپ کے گھر کی پہلی شادی ہے۔ یوں بھی دعوت تو سب ہی کرتے ہیں۔ لڈن ماموں نے لمبا جملہ بڑی احتیاط ے بول تو دیا لیکن اس مشق نے ان کا سانس پھلا دیا ۔ میں کہتی ہوں ، بات ختم کرتے ہو یا نہیں تم لوگ کوئی نہیں ہوگی دعوت واوت ۔ خالہ نے پلو درست کیا۔ امی بس آپ نو دس ہزار روپے دے دیجیے، باقی کچھ میرے پاس پڑے ہیں۔ آرام سے ہو جائے گی دعوت۔ نو دس ہزار خالہ کی آنکھیں نو دس میٹر پھیل گئیں ۔ یہ بچے سمجھتے ہیں کہ پیسے درختوں پر لگتے ہیں، اور ان کی اماں کے پاس ایسے درختوں کے باغات کے باغات ہیں کم عقل اولاد- دے دیجیے ناں امی پیسے، عاقب کتنی منت کر رہے ہیں۔ عروسہ نے دونوں ماں بیٹے کے درمیان لاڈ سے مداخلت کی۔ پیسے تو میں دوں یا نہ دوں، ارے بی بی! یہ عاقب کس کو کہا تم نے ؟ عاقب کو , عروسہ جھٹ بولی۔ وہ شوخی سے مسکرا رہی تھی۔ عاقب نے اسے شرارت سے دیکھا۔ ارے پھر عاقب خاوند ہے تمہارا یوں نام لینا کہاں کا طریقہ ہے۔ بس اشارے سے بات کیا کرو۔ اللہ بخشے عاقب کے ابا منتیں کر کر کے مر گئے ہم نے نہ لیا کبھی ان کا نام ہمیشہ سرتاج کہا۔ میرے سر پر کون سا تاج ہے امی ! جو یہ مجھے سر تاج کہے گی عاقب عروسہ کو تنگ کرنا چاہتا تھا۔ تاج تو تم ہو اس کے سر کا ہیرے جیسا , بیٹا ہے میرا , ہیرے موتیوں جیسی تو بھابھی بھی ہیں. کیوں لڈن ماموں ؟ نومی نے اندر کمرے سے سر نکال کر باہر کہا۔ لڈن ماموں سر ہلا کر انہیں دیے۔ نومی ! تم نے جھاڑ پونچھ مکمل کی یا نہیں۔ خالہ نے ادھر اُدھر چپل کی تلاش میں نظر دوڑائی۔ عروسہ کے لیے اپنی ہنسی پر قابو پانا مشکل ہو گیا تھا ، وہ منہ نیچے کر کے ہنس رہی تھی۔ وہ دعوت والی بات تو پھر درمیان میں ہی رہ گئی۔ دیکھیں ناں امی ! رمضان کا مہینہ ہے۔ افطار کی دعوت کی برکت ہی اور ہوتی ہے۔ عروسہ کی ہنسی سے ان کا پارہ پھر سے اوپر نہ چڑھ جائے۔ عاقب نے کمال مہارت سے انہیں اپنی سمت متوجہ کیا۔ خرچے کی نحوست بھی کچھ کم نہیں ہوئی- انہوں نے جل کر کہا اور ایک ترمیمی نظر عروسہ کی طرف ڈالی ۔ وہ عروسہ کی ہنسی پر غصہ کرتی تھیں۔ دیکھیے آپا ! سارے خاندان میں واہ واہ ہی ہوگی ثواب ملے گا سو الگ – ماموں نے خالہ کی دکھتی رگ پکڑی تھی ۔ اچھا تو بس بریانی اور کھیر میں میٹھا رکھیں گے ہم۔ خالہ نے رضا مندی دکھائی۔ چکن کڑاہی میں بنالوں گا اور نان منگوا لیں گے۔ عاقب نے مینو مکمل کیا۔ اس سے پہلے کہ خالہ کچھ بولتیں، لڈن ماموں نے جیب سے پانچ ہزار روپے نکال کر عاقب کے ہاتھ پر رکھے۔ اور بولے، باقی کے اپنی اماں سے لے لینا۔ خالہ کی تو نوٹ دیکھ کر باچھیں کھل گئیں۔ فورا بولیں۔ عروسہ بیٹا کاغذ قلم تو لانا سب رشتہ داروں کے نام لکھ لیے جائیں اسی وقت دیر کا کام جانو ہمیں بہت کھلتا ہے۔عروسہ سے اب اپنی ہنسی پر قابو رکھنا مشکل ہو گیا تھا۔ منہ نیچے کیے، ضبط سے سرخ ہوتے ہوئے کاغذ قلم لینے کے لیے جلدی سے اندر کی طرف لپکی۔ عاقب کو اس کا ضبط کرتا سرخ چہرہ اتنا بھلا لگا کہ وہ اس کے پیچھے لپکا ہی تھا کہ خالہ نے اسے آواز دے کر روک لیا۔ بہت بھاگ لیا تم نے اپنی ہیوی کے پیچھے بیٹھو یہاں اپنی ماں کے پاس۔ حساب کرو اندر سے نومی کا قہقہہ بہت بے ساختہ تھا۔ لڈن ماموں بھی مسکرا دیے تھے۔ دن بھر کھانا پکانے کی مصروفیت رہی۔ کام مکمل ہوا تو عروسہ نے نہا دھو کر سبز بنارسی غرارہ پہن کر سنگھار کر لیا۔ عاقب نے تو جھٹ سے نومی کو بھیج کر پھول منگوا دیے۔ پھول پہن کر تو وہ مزید پیاری لگنے لگی تھی۔ خالہ نے بھی خوش ہو کر تعریف کی۔ ماشا اللہ پیاری لگ رہی ہو پھر پسند کسی کی ہو -خالہ اپنی تعریف کرنا نہیں بھولتی تھیں۔ عصر کے بعد ہی مہمان آنا شروع ہو گئے تھے۔ سب سے پہلے دانی، آیا اور رابعہ کو لے کر پہنچا۔ ساتھ ہی نصیب اپنے میاں کے ساتھ مٹھائی کے ڈبوں کے ساتھ پہنچ گئیں۔ بڑے کمرے کا سب سامان ہٹا کر لڑکوں نے فرشی دسترخوان لگا دیا تھا۔ گول تکیے اور کشن رکھ دیے تھے۔ بہت اچھا کیا خالہ! جو آپ نے افطار کی دعوت رکھ لی ۔ ساتھ ہی میٹھے میں ہاتھ لگوانے کی رسم بھی ہو جائے گی۔ رابعہ بولی۔ نفیسہ وہاں کہاں کونے میں بیٹھی ہو ہمارے پاس آؤ لڈن ماموں نے نفیسہ کو پاس بلایا۔ نفیسہ فورا اٹھ کر آئی اور شوق سے ماموں کے قریب بیٹھ گئی۔ خوش تو ہو بچی کی شادی کر کے ماموں نے دلار دکھایا- جی ماموں! اللہ کا شکر ہے بہت خوش ہوں۔ بس اللہ میری بچی کو ہمیشہ خوش رکھے۔ ایسے گھر میں آ کر کون خوش نہیں ہو گا جہاں مجھ جیسی ساس ہو ، جو ماں سے بڑھ کر ہو۔ خالہ نے اپنی تعریف کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا تھا۔ جی، جی ٹھیک کہا خالہ ! آپ نے سب ہی حاضرین نے کہا۔ خوب رونق لگی تھی۔ چھوٹی چچی کی دونوں نوبیاہتا بہویں بھی شامل تھیں ۔ شربت کھجور سے روزہ کھول کر مرد سب نماز کو چلے گئے تو خواتین بھلا کیوں پیچھے رہتیں مل کر سب نے نماز پڑھا لی۔ مردوں کے آتے ہی رابعہ عروسہ اور دوسری رشتے دار بچیاں دسترخوان بچھانے میں لگ گئیں- بریانی کی اشتہا انگیز خوشبو نے سب کی بھوک چمکا دی تھی۔
عروسہ بھئی لانا تو اپنے لڈن ماموں کے واسطے بریانی کی قاب- عروسہ نے فورا قاب بڑھائی۔ خالہ چاروں طرف دیکھ رہی تھیں کہ کس کس تک سب اشیاء پہنچ رہی ہیں یا نہیں ۔ آپ نان لیجئے بھابھی بیگم خالہ نے بڑی ممانی کی طرف نان کا ہاٹ پاٹ بڑھایا۔ آپ بے فکر ہو کر کھائیے خالہ میں اور عروسہ سب کو اچھی طرح سرو کر دیں گے۔ رابعہ نے خالہ کو تسلی دی۔ باتوں باتوں میں کھانا تمام ہوا۔ کھیر کھا کر سب نے انگلیاں چاٹ لی تھیں۔ سب ہی نے عروسہ کو نقد انعام سے نوازا۔ عروسہ بیٹا اپنے لڈن ماموں کو ذرا دم دو خالہ نے فورا عروسہ کو آواز دے کر کہا۔ بات خالہ کے منہ سے نکلنے کی دیر تھی کہ سب ہنس ہنس کر بے حال ہو گئے۔ آپ کا مطلب لڈن ماموں کا دم گھوٹ دو نومی کی رگ پھڑکنے لگی تھی ۔ دیکھ لیں ماموں ! آپ کی بہن اپنی بہو سے کیا کہہ رہی ہیں۔ تو یہ توبہ قیامت کی نشانیاں ہیں سب- خالہ نے پھر سے اپنی چپل ڈھونڈنی چاہی۔ نومی کانوں کو پکڑ کر توبہ توبہ کر رہا تھا۔ مسخرا کہیں کا- امی چینی کی چینک کہاں ہیں ؟ ” عروسہ نے کچن سے جھانک کر پوچھا۔ برتنوں کی الماری کے پہلے خانے میں ہے۔” چیچک کی چینی میں ، لڈن ماموں کا دم گھوٹ دیں بھابھی ! امی یہ کہنا چاہتی ہیں ، نومی کو آج ماں کے ہاتھوں مار کھانی ہی تھی۔ خالہ نے کھینچ کر چپل اسے دے ماری پر وہ جھک کر نشانہ خطا کر گیا۔ امی میں عروسہ کو عید کا جوڑا دلوانے لے جاؤں۔ عید میں صرف چار روز باقی ہیں ۔ ” عاقب نے آئینے میں دیکھ کر برش کرتے ہوئے کہا۔ ابھی شادی کو دو مہینے بھی نہیں ہوئے، دسیوں جوڑے ان چھوٹے رکھے ہیں۔ ان ہی میں سے پہن لے گی کوئی سا بھی- خالہ نے ناک پر سے مکھی اڑائی۔ یہ عید ہماری شادی کی پہلی عید ہے۔ ایسا موقع دوبارہ کہاں آئے گا ؟ عاقب کا انداز اپنی بات منوانے والا تھا۔ پہلی عید پر کیا پہلی شادی کے جوڑے نہیں پہنے جاسکتے ؟” خالہ نے طنز کیا۔ عاقب جزبز ہوا۔ ” پہلی شادی سے آپ کا کیا مطلب وہی جو تمہارا پہلی عید سے ہے۔ میں کہتی ہوں، عاقب تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے۔ خالہ کا پارہ سوا نیزے پر جا پہنچا۔ امی بالکل ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ میرے پاس کتنے ہی جوڑے نئے پڑے ہیں، مجھے مزید جوڑے کی ضرورت نہیں ۔ عروسہ نے خالہ کا ساتھ دیا۔ ہوں گے ہوں گے دسیوں جوڑے، لیکن پہلی عید پر میں جوڑا نہ دلواؤں۔ ایسا ممکن نہیں ۔ “عاقب بھی ضد میں آ گیا تھا۔ چلو عروسہ چلیں ” اس نے ہاتھ پکڑ کر عروسہ کو اٹھانا چاہا۔ بلکہ امی ! آپ بھی چلیں، اپنی پسند کی ساڑھی لے لیئجے گا۔ عاقب نے خالہ کو بھی اٹھنے کے لیے کہا۔ جس کوس جانا نہیں اس کے گاؤں کیا گننا تم یہ قصہ ختم کرو -غصے میں خالہ کا محاوره نہ الٹائیں یہ ناممکن تھا۔ کسی کی ہنسی رک نہ سکی۔ آپا! بچہ ٹھیک کہ رہا ہے پہلی پہلی عید ہے۔ بچوں کے خوش ہونے کے دن ہیں۔ لڈن ماموں نے کرسی سنبھالتے ہوئے کہا۔ اب یہ بات کوئی نہیں دہرائے گا۔ میں نے جو کہنا تھا سو کہہ دیا۔ خالہ نے صاف انکار کر دیا۔ عاقب نے ہاتھ میں پکڑا برش زور سے زمین پر دے مارا اور باہر نکل گیا۔۔ آپا ! کیا کرتی ہیں آپ۔ جوان خون ہے۔ اپنی مرضی کرنا چاہتے ہیں ۔ آپ کیوں روکتی ہیں۔” لڈن ماموں نے سمجھایا۔ تم چھوڑو لڈن !! ان کو قابو میں رکھنا میں ہی جانتی ہوں- سختی نہ کروں تو دن رات پیسے لٹاتے پھریں۔ سترہ سال گزر گئے ان کے باوا کو گزرے میں سختی نہ کرتی تو گزارا ہوتا ؟ ” خالہ اٹھ کر وضو کرنے کے لیے چل پڑیں۔ اگلے تین دن پھیکے پھیکے سے رہے۔ موقع مناسب دیکھ کر ماموں ، منا اور نومی خالہ کو سمجھاتے رہے مگر خالہ ٹس سے مس نہ ہوئیں۔ جبکہ عروسہ نے اپنے جہیز کے جوڑوں میں سے بڑا خوب صورت کاری رنگ کا کام دار جوڑا نکال کر استری کر کے تیار کر لیا اور عاقب کو دکھانے لگی۔ امی ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہیں عاقب ! یہ دیکھیں کتنا اچھا جوڑا ہے میرا ” پر یہ عید کا تو نہیں ناں ! روٹھے انداز سے کہا ” کیا بچوں کی طرح ضد کر رہے ہیں عید کا کوئی خاص جوڑا نہیں ہوتا ، جو دل کو لگے بس وہی عید ” کا جوڑا ہوتا ہے۔” اپ کیوں نہیں کہتیں کہ ساس کی سائیڈ لینا چاہتی ہو۔” ساس نہیں ہیں وہ میری امی ہیں۔ میری اپنی امی بھی مجھے ایسے منع کر دیا کرتی تھیں کہ اتنے کیڑے تو رکھے ہیں ، انہی میں سے کوئی پہن لو ۔ اگر آپ کی امی نے منع کر دیا تو کیا برا کیا۔ پر تب تم شادی شدہ نہیں تھیں ۔ اب تمہارا شوہر چاہتا ہے کہ تم عید پر بہت پیارا ڈریس پہنو۔” عاقب کی بھی ایک ہی ضد تھی۔ انیسواں روزہ تھا۔ ماں بیٹا روٹھے روٹھے ہے سب کی ہی نظریں آسمان کی طرف اٹھی ہوئی تھیں اور واقعی چاند نکل آیا تھا۔ سب ہی چاند کو دیکھ کر دعائیں ماننے میں مشغول تھے ۔ عروسہ کی دعاؤں میں خالہ اور عاقب کے میل کی بھی دعا تھی۔ خالہ کی ہدایت کے مطابق عروسہ نے میوے نکال لیے جو دونوں نے مل کر کاٹ لیے عروسہ نے سب گھر والوں کے کپڑے استری کر کے ٹانگ دیے۔ اب سب کو عاقب کا انتظار تھا۔ محلے کی ایک لڑکی آکر عروسہ کو مہندی بھی لگا گئی تھی۔ سب نے کھانا کھا لیا۔ مگر عروسہ عاقب کے انتظار میں تھی۔ رات کے بارہ بج گئے۔ عاقب کا کوئی اتا پتا نہ تھا۔ فون اس کا بند جا رہا تھا۔ نومی نے اس کے دوستوں کو بھی فون کر کے اس کے بارے میں پوچھ لیا تھا۔ ایک بچ گیا۔ اب تو خالہ نے تسبیح سنبھال کی۔ عروسہ تبھی چپکے چپکے رونے لگی تھی۔ منے ! فون کرو ناں عاقب کو۔ خالہ گھبراۓ ہوئی آواز میں بولیں۔ کر رہا ہوں امی لیکن ان کا فون بند جا رہا ہے۔ ” منے فکر مندی سے کہا۔ اب تو رات کے دو بج رہے تھے۔ ایک بار میرا بچہ آجائے ، میں اس کی ہر بات مانوں گی۔ خالہ آنچل میں منہ چھپا کر رونے لگی تھیں ۔ کہ اتنے میں دروازہ بجنے کی آواز آئی۔ منے نے لپک کر کھولا۔ عاقب موٹر سائیکل اندر لے آیا۔ خالہ اور عروسہ ایک ساتھ دونوں طرف سے لپٹ کر رونے لگیں۔ ناراض ہو گیا تھا میرا بچہ خالہ نے منہ تھام کر کہا۔ ارے کیسی ناراضی، آپ کی پسند کی ساری کا رنگ ڈھونڈ نے میں دیر ہوگئی ۔ باقی سب کی چیزیں میں خرید چکا تھا۔۔ اس نے ہر ایک کو اس کا ڈبہ پکڑایا۔ لگتا ہے ہمارا ناپ لے کر سیا گیا ہے۔” سب سے زیادہ خوشی لڈن ماموں کو اپنا کرتا پاجامہ دیکھ کر ہوئی۔ منا اور نومی تو اپنے جوڑے پاکر اچھل اٹھے۔ خالہ کی ساڑھی سب کو ہی پسند آئی ۔ لیکن عروسہ کا جوڑا کہاں ہے۔ خالہ نے پوچھا۔ وہ عروسہ اور اپنے جوڑے کے پیسوں سے میں نے شرفو ماموں کے بچوں کے لیے کپڑے لے لیے ۔ ابھی ان ہی کو دے کر آ رہا ہوں۔ عاقب نے دو سال قبل وفات پا جانے والے غریب ماموں کا آنکھیں پونچھتے نام لیا۔ “میرا بچہ میرا اصل خالہ نے پھر سے عاقب کا منہ چوم لیا۔ پھر اپنیے کمرے کے اندر گئیں اور ایک پیکٹ اٹھا لائیں۔ چپکے چپکے میں نے عروسہ کے لیے یہ ستاروں بھری ساڑھی بنوا لی تھی۔ میری بہو کی پہلی عید اسے بڑا سج دھج کر تیار ہونا چاہیے۔ سوچا تھا کہ تمہیں عید کا چاند نظر آنے پر دکھاؤں گی۔” خالہ نے ساڑھی کھول کر عروسہ کے شانوں پر پھیلا دی۔ عروسہ نے محبت سے خالہ کے گال چوم لیے۔ عاقب نے اپنی ماں کو اپنی بانہوں کے گھیرے میں قید کر لیا۔ عید مبارک امی ..(ختم شد)